Tag: چین

  • ٹرمپ اور (ٹیرف) جنگ کا آغاز – محمد دین جوہر

    ٹرمپ اور (ٹیرف) جنگ کا آغاز – محمد دین جوہر

    بگل بج چکا اور ٹرمپ کی نئی ٹیرف پالیسی نے دنیا الٹ دی ہے۔ ایک دو دن میں ہی اس قدر مالی نقصان ہو چکا ہے جو طویل جنگوں میں بھی نہیں ہوتا۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے ہے کہ مالیاتی نظام کے نقصانات حقیقی معیشت (reali economy) پر کس حد تک اثرانداز ہوں گے۔ دنیا بھر کے اہل دانش یہ سمجھنے میں لگے ہوئے ہیں کہ آخر اتنا نقصان کرنے سے امریکہ کو حاصل کیا ہو گا کیونکہ ماہرین کے بقول یہ ٹیرف پالیسی خود امریکہ اور اس کے عالمی غلبے کے لیے بھی بہت مہلک ہو گی۔ اس پالیسی کی تہہ میں جو فکر کام کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا امریکہ کی ہے اور اس کی اجازت اور مرضی کے بغیر کوئی ترقی کر سکتا ہے اور نہ کوئی عسکری قوت حاصل کر سکتا ہے، اور عالمی معاشی اور عسکری نظام اس وقت تک مفید اور بامعنی ہے جب تک یہ امریکی اور مغربی غلبے کا ذریعہ ہو۔ کسی دوسرے ملک کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اس عالمی نظام کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر سکے۔ ٹرمپ نے نہایت چالاکی سے یوکرائن جنگ کو اپنے یورپی حلیفوں کے سپرد کر دیا ہے، تاکہ وہ خود کمیونسٹ چین سے نمٹ سکے۔ یاد رہے کہ یورپی ممالک نے اپنے وسائل سے آٹھ سو ارب یورو کا ایک فنڈ قائم کیا ہے تاکہ یوکرائن کی جنگ جو جاری رکھا جا سکے۔ ٹیرف پر بھارتی رد عمل سے یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ مودی جی کے حالیہ امریکی دورے کا اصل مقصد امریکہ کو کمیونسٹ چین کے خلاف جنگ میں اپنی حمایت کی یقین دہانی کرانا تھا۔ نیتن یاہو کے دو امریکی دوروں کا مقصد بھی بالکل واضح ہو گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں کیا ہونے والا ہے۔ مسلم دنیا کے مکمل تہذیبی افلاس اور جانکنی کی عملی تصویر کے مشاہدے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔

    اس ٹیرف پالیسی کا اصل ہدف کمیونسٹ چین ہے۔ کمیونسٹ چین کے پیدا کردہ حقیقی خطرات میں اپنی عالمی بالا دستی کو برقرار رکھنے کے لیے اس وقت امریکہ کے سامنے صرف دو آپشن تھے: ایک یہ کہ چین پر براہ راست حملہ کیا جائے اور دوم یہ کہ ٹیرف جنگ کا آغاز کر دیا جائے۔ امریکہ نے فی الوقت کم تباہ کن آپشن کا انتخاب کیا ہے اور اس کے ناکام ہونے کی صورت میں دوسری آپشن استعمال ہو گی جو براہ راست جنگ کی ہے۔ دوسری آپشن میں اولاً مشرق وسطیٰ پر براہ راست اور مکمل امریکی قبضے اور تنگنائے ملاکا کی بندش کے ذریعے چین کو معاشی طور پر ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ چین کی ترقی اور طاقت ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور امریکہ اب مزید انتظار نہیں کر سکتا تھا۔ امریکی ٹیرف پالیسی سے ایک ایسی جنگ کا آغاز ہوا ہے جو ناگزیر طور پر اور بتدریج ایک بڑی عالمی جنگ میں بدل جائے گی۔ ٹیرف پالیسی کا ایک استعماری اور تاریخی پس منظر ہے جس کو جانے بغیر موجودہ حالات کی سنگینی کو بالکل بھی نہیں سمجھا جا سکتا۔

    جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے ساتھ ہی فاشزم اور لبرلزم کی یورپی خانہ جنگی سرمایہ داری اور کمیونزم کی جنگ بن کر عالمگیر ہو گئی۔ ایک طرف امریکی قیادت میں سرمایہ داری نظام کی دنیا تھی اور دوسری طرف کمیونزم کے تحت سوویت روس اور کمیونسٹ چین کا اتحاد تھا جس کے خلاف امریکہ برسرپیکار تھا۔ جنگ عظیم کے فوراً بعد امریکی خارجہ اور جنگی پالیسی کا عنوان containment تھا۔ اس جارحانہ پالیسی کا مقصد سوویت روس اور کمیونسٹ چین کی معاشی ترقی، عسکری قوت اور سیاسی اثر و رسوخ پر روک لگانا تھا۔ اس پالیسی کا اہم ترین ستون سوویت روس اور کمیونسٹ چین کو مغرب کے طویل عالمی استعمار کے تحت وجود میں آنے والے بین الاقوامی معاشی نظام سے باہر رکھنا تھا جس میں امریکہ اور مغربی یورپ کو زبردست کامیابی ہوئی۔ جنگ عظیم دوم کے بعد، مشرق بعید، مشرق وسطی، افریقہ اور باقی دنیا میں جو جنگیں ہوئیں، جو انقلابات آئے اور جتنی حکومتیں تبدیل ہوئیں ان کا واحد مقصد سوویت روس اور کمیونسٹ چین کے اتحاد کی معاشی ترقی اور سیاسی اثر و رسوخ کو روکنا تھا۔ اس طرح جنگ عظیم دوم کے بعد جو دنیا وجود میں آئی اس میں صرف دو عالمی تنبو تھے۔ بڑا تنبو امریکہ کی زیر قیادت سرمایہ داری معاشی نظام کا تھا جبکہ دوسرا تنبو کمیونزم کے تحت وجود میں آیا تھا۔ ماقبل جنگ عظیم اول کی استعماری دنیا کے خانہ زاد مغربی تنبو کے بالمقابل ایک دوسرے تنبو کا وجود میں آ جانا ہی سرمائے اور طاقت کے عالمگیر نظام میں ایک بہت ہی بڑی پیشرفت تھی۔ امریکہ اور مغربی یورپ دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ ان کا تنبو حریت انسانی کی بنیاد پر بننے والی جنت ہے اور دوسرا تنبو دوزخ ہے، حالانکہ یہ استعمار ہی کا تسلسل تھا۔ اس زمانے میں فری ورلڈ کے جملہ معاشی اور سیاسی حقوق امریکہ کے نام تھے۔ کمیونسٹ دنیا امریکی بالادستی میں کوئی بڑا شگاف ڈالنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کشمکش کا نقطۂ عروج کیوبائی میزائیل بحران تھا جس میں روس کو پیچھے ہٹنا پڑا تھا اور آگے چل کر اسی بحران کے عواقب اشتراکی دنیا کی تقسیم اور سوویت روس کے زوال کا باعث بنے۔

    کیوبا کے میزائیل بحران کا فوری نتیجہ سوویت روس اور کمیونسٹ چین کا مقاطعہ تھا۔ اس طرح کمیونسٹ دنیا دو حصوں میں بٹ گئی۔ چونکہ سوویت روس امریکہ کا دشمن نمبر ایک تھا اس لیے امریکہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی containment policy میں بڑی تبدیلی کی اور اسے صرف سوویت روس اور اس کے اتحادیوں تک محدود کر دیا جبکہ کمیونسٹ چین کے لیے ایک نئی پالیسی بنائی جسے engagement of China کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سنہ ۱۹۷۲ء میں امریکی صدر نکسن نے کمیونسٹ چین کا دورہ کیا اور اس پالیسی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اس پالیسی کے نتیجے میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے مثلاً ون چائنا پالیسی، اقوام متحدہ میں چین کی شمولیت وغیرہ۔ لیکن اس سے ایک ایسی بڑی تبدیلی آئی جو ٹرمپ کی موجودہ ٹیرف پالیسی کی بنیاد ہے اور یہی بات سمجھنے والی ہے۔

    کمیونسٹ چین کو engage کرنے کے امریکی فیصلے کا براہ راست نتیجہ یہ نکلا کہ کمیونسٹ چین کو امریکہ کی نگرانی میں کام کرنے والے بین الاقوامی معاشی اور سیاسی تنبو میں داخل ہونے اور اس کے اصول و ضوابط کے مطابق بتدریج کام کرنے کی اجازت حاصل ہو گئی۔ فوری طور پر کمیونسٹ چین کو اس تنبو میں آنے کا کوئی خاص فائدہ نہ ہوا کیونکہ کمیونسٹ چین کا معاشی پیداواری عمل فرسودہ مارکسسٹ خیالات کے تحت کام کرتا تھا۔ کمیونسٹ چین کی بین الاقوامی کشادگی کے فوائد اس وقت سامنے آنا شروع ہوئے جب دینگ زیاؤ پنگ نے سنہ ۱۹۷۹ء میں چین کے معاشی پیداواری عمل کو سرمایہ داری منہج پر منتقل کیا اور سیاسی منہج کو مارکسسٹ تصورات پر کمیونسٹ پارٹی کی صورت میں باقی رکھا۔ طویل مذاکرات کے بعد کمیونسٹ چین سنہ ۲۰۰۱ء میں ڈبلیو ٹی او کا ممبر بھی بن گیا اور اور اس طرح دینگ زیاؤ پنگ کی پالیسی کے تحت تیز رفتار صنعتی بڑھوتری اور بین الاقوامی تجارت نے موجودہ چین کی ترقی کے راستے کھول دیے۔ بہترین سیاسی انتظام اور سرمایہ دارانہ پیداواری عمل سے وہ کرشمہ رونما ہوا جو دنیا اس وقت ترقی یافتہ چین کی صورت میں دیکھ رہی ہے۔

    سوویت روس اس ترقی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکا تھا جسے کمیونسٹ چین نے ایک حقیقت بنا کر دکھا دیا، اور یہی امر امریکہ کے لیے ایک بہت ہی بڑا خطرہ بن گیا ہے۔ امریکہ نے containment پالیسی کے احیا اور تجارتی پابندیوں کے ذریعے کمیونسٹ چین کے راستے میں روڑے اٹکانے کی ضرور کوشش کی ہے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ یہاں بنیادی بات کو پھر سے دہرانے کی ضرورت ہے کہ کمیونسٹ چین کی ترقی میں سرمایہ دارانہ پیداواری عمل کی پیروی اور بین الاقوامی تجارتی اور معاشی نظام میں شمولیت نے ہی بنیادی کردار ادا کیا ہے، عین وہی عالمی معاشی نظام جس پر امریکہ ایک فیصلہ کن غلبہ رکھتا ہے۔ تجارتی پابندیوں کے علاوہ امریکہ کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا کہ وہ چین کا راستہ روک سکے لیکن وہ ناکافی ثابت ہو رہی تھیں۔ اس لیے موجودہ ٹیرف پالیسی اپنائی گئی ہے جو اصلاً کھلم کھلا ایک ایسی جنگ کا آغاز ہے جو اسلحے کی جنگ میں تبدیل ہونے کا حقیقی امکان رکھتی ہے۔

    کمیونسٹ چین نے سرمایہ دارانہ پیداواری عمل کے ذریعے صرف چار دہائیوں میں وہ کچھ حاصل کر لیا جو امریکہ اور مغربی یورپ نے تین سو سال میں حاصل کیا تھا۔ کمیونسٹ چین کی ترقی اس قدر حیرت انگیز ہے کہ وہ چند ہی سالوں میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے والا ہے۔ امریکی پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ عین وہی عالمی معاشی نظام جس میں شمولیت کمیونسٹ چین کی معاشی قوت کا اصل سرچشمہ ہے، اگر اسے منہدم کر دیا جائے تو کمیونسٹ چین بھی ازخود ختم ہو جائے گا۔ بالکل صاف نظر آ رہا ہے کہ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کا مقصد پورے عالمی معاشی نظام کو منہدم کرنا ہے تاکہ چین کا راستہ روکا جا سکے۔ یعنی وہ معاشی میدان جس میں کھیل کر کمیونسٹ چین ایک عالمی معاشی قوت بن گیا ہے اگر اسے ہی ختم کر دیا جائے تو چین کی ہار جیت کی کہانی بھی ختم ہو جائے گی۔ امریکی پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ اس طرح کمیونسٹ چین کی شکست کے بعد وہ ایک عالمی معاشی نظام پھر سے کھڑا کر سکتے ہیں جس سے کمیونسٹ چین آغاز ہی سے خارج ہو اور اسے مکمل طور نکال باہر کر دیا گیا ہو۔

    ٹرمپ نے جس جنگ کا آغاز کیا ہے اس کا پہلا مرحلہ پرانے عالمی معاشی نظام کا خاتمہ ہے، اور جو اس وقت ہماری آنکھوں کے سامنے ڈھیتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ دوسرا مرحلہ توانائی کے وسائل اور آبی گزرگاہوں پر مکمل امریکی قبضہ اور کمیونسٹ چین کی وہاں سے بے دخلی ہے۔ اس تناظر میں مشرق وسطیٰ کے توانائی کے ذخائر پر قبضے کے لیے اس کی مکمل ترتیب نو لازم ہے جسے مشرق وسطیٰ پر اسر.ا.ئیلی تسلط کی توسیع سے ممکن بنایا جائے گا، اور جس کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے۔ ٹیرف جنگ شروع ہوتے ہی حالات و واقعات بہت سرعت کے ساتھ پیشرفت کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

    یہ سوچنے کی بات ہے کہ اس جنگ کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اس جنگ میں پہلگامی (initiative) امریکہ کے پاس ہے اور کمیونسٹ چین کی قیادت صرف رد عمل دے سکتی ہے۔ کمیونسٹ چین اقدامی پالیسی اختیار نہیں کر سکتا یا نہیں کر رہا۔ امریکہ کے خلاف ایک بڑی جوابی کاروائی یہ ہو سکتی ہے کہ کمیونسٹ چین rights and patents ماننے سے انکار کر دے، اور اس سے امریکہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے اور اسلحاتی جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ دوسرے یہ کہ بین الاقوامی اداروں پر امریکہ کی گرفت بہت مضبوط ہے اور وہ انھیں بہت مؤثر انداز میں کمیونسٹ چین کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ تیسرے یہ کہ دنیا پر امریکی قبضہ اور گرفت ایک واقعاتی حقیقت ہے جس کے سامنے کمیونسٹ چین ایک کمزور ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔ چوتھے یہ کہ وہ تہذیبی، عسکری اور ٹیکنالوجیائی وسائل جو یہ جنگ جیتنے کے لیے ضروری ہیں امریکہ کے پاس کہیں زیادہ ہیں۔ پانچویں یہ کہ اقوام عالم کی اکثریت کچھ خاص تاریخی حالات کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ کھڑی ہو گی۔کمیونسٹ چین کو روس، برازیل، جنوبی افریقہ، پاکستان اور آسیان وغیرہ کی حمایت حاصل ہو گی۔ بساط شطرنج پر امریکی پوزیشن بہت زیادہ مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ کمیونسٹ چین کو وینزویلا بنانے میں کامیاب ہو گا یا نہیں؟ مجھے ذاتی طور پر اس امر کا امکان کم دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ کمیونسٹ چین کو مکمل زیر کرنے میں کامیاب ہو گا لیکن وہ کمیونسٹ چین کی حیثیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے میں ضرور کامیاب ہو جائے گا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کمیونسٹ چین اپنی موجودہ حیثیت کو برقرار نہیں رکھ پائے گا۔ ٹیرف اعلان کے بعد دنیا بھر کے اکثر اہم ممالک پس پردہ ناک رگڑ کر اور بوٹ چاٹ کر امریکہ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ ٹرمپ اپنے اتحادیوں کو ذلیل کر رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ وہ اتحادیوں کو ان کی اوقات یاد کرانے کے بعد پھر سے اپنے سائے میں لے لے گا۔ جس وقت تک کمیونسٹ چین کے ساتھ جنگ میں شدت آئے گی اس وقت چین کے ساتھ صرف ایک ملک ہی رہ جائیں اور باقی سب ٹرمپ کو پیارے ہو چکے ہوں گے۔ امریکہ چین کی جنگ کا انجام جو بھی ہو، اس کے لیے ٹرمپ دنیا کی لازمی تشکیل نو کرے گا۔ ٹرمپ کے جنگی مقاصد کے حصول کے لیے مسلم دنیا خاص طور پر مشرق وسطیٰ کی تدمیر ایک حقیقی امکان ہے بلکہ اس کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔

    دم چھلا: یہ مضمون پوسٹ کرنے سے کچھ دیر پہلے میں ایم ایس این بی ایس کی ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں امریکی صدر ٹرمپ اپنی ٹیرف پالیسی کے بارے میں بتا رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ دنیا بھر کے لیڈر جہازوں میں بھر کر، سر سر کرتے ہوئے پہنچ رہے ہیں اور ”میری گاف چاٹ رہے ہیں، kissing my ass“۔ یہ ہے نئی دنیا کا منظر نامہ۔

  • چین سے ابھرتا اگلا صنعتی انقلاب – عدنان فاروقی

    چین سے ابھرتا اگلا صنعتی انقلاب – عدنان فاروقی

    چین کے خودکار کارخانے: بغیر مزدوروں کے 24/7 سمارٹ مینوفیکچرنگ
    پہلا صنعتی انقلاب 18ویں صدی کے آخر میں آیا جب بھاپ کے انجن اور مشینی طاقت نے ہاتھ سے کام کرنے کی جگہ لے لی۔ اس انقلاب نے پیداوار کے طریقے بدل دیے اور انسان کی محنت کو مشینوں نے سہارا دیا۔ اب دنیا ایک نئے صنعتی انقلاب سے گزر رہی ہے , جہاں انسانوں کی جگہ مصنوعی ذہانت، آٹومیشن اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی لے رہی ہے۔ آج کا دور خودکار کارخانوں (ڈارک فیکٹریز) کا ہے ، ایسے جدید کارخانے جو بغیر مزدوروں، بغیر روشنی اور بغیر رکاوٹ کے چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں۔

    مصنوعی ذہانت، آئی او ٹی(انٹر نیٹ آف تھنگس- یعنی چیزوں کا انٹرنیٹ ,ایک ایسا نظام جس میں مشینیں، آلات اور سینسر آپس میں انٹرنیٹ کے ذریعے جُڑے ہوتے ہیں، ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں اور خودکار طریقے سے فیصلے لیتے ہیں۔ مثلاً: ایک کارخانے کی مشینیں خود معلوم کرتی ہیں کہ کون سی چیز کب بنانی ہے، کہاں پہنچانی ہے) اور اگر کوئی خرابی ہو تو فوراً اطلاع دیتی ہیں. اور آٹومیشن کی بدولت مکمل طور پر خودکار کارخانے وجود میں آ رہے ہیں۔ یہ سہولیات بغیر کسی انسانی مداخلت یا روشنی کے دن رات کام کرتی ہیں، جس سے کارکردگی اور پائیداری میں زبردست اضافہ ہوتا ہے۔

    مکمل خودکاری – مصنوعی ذہانت سے چلنے والے روبوٹس مواد کو سنبھالنے سے لے کر کوالٹی کنٹرول تک تمام مراحل خود انجام دیتے ہیں۔ اسمارٹ مشین نیٹ ورکس سے منسلک آئی او ٹی نظام حقیقی وقت میں ڈیٹا کا تبادلہ کرتے ہیں، جس سے مشینوں کے درمیان بہتر ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور وقت کا ضیاع کم ہوتا ہے۔ مصنوعی ذہانت سے چلنے والا کوالٹی کنٹرول مشین لرننگ کے ذریعے غلطیوں کا پتہ فوری لگایا جاتا ہے اور معیار میں بہت آتی ہے

    نہایت صاف ماحول – خاص طور پر الیکٹرانکس اور دواسازی کی صنعتوں کے لیے ضروری۔
    قابلِ پیمائش (قابلِ پیمائش سے مراد ایسا نظام یا کارخانہ ہے جسے آسانی سے چھوٹے سے بڑا کیا جا سکے — یعنی اگر پیداوار بڑھانی ہو تو اس نظام میں بغیر کسی بڑی رکاوٹ یا خرچے کے وسعت پیدا کی جا سکتی ہے) اور توانائی کی بچت – تیز رفتار پیداوار کے ساتھ توانائی کے موثر استعمال سے لاگت کم اور ماحول دوست پیداوار ممکن ہوتی ہے۔

    ڈارک فیکٹریز صنعتی خودکاری کی نئی تعریف پیش کر رہی ہیں اور درج ذیل فوائد فراہم کرتی ہیں:
    پیداوار – مشینیں دن رات بغیر رکے مسلسل چوبیس گھنٹے کام کر سکتی ہیں، جس سے پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔
    اعلیٰ معیار – مصنوعی ذہانت کے ذریعے ہر مرحلے کی نگرانی ہوتی ہے، جس سے نقائص کم ہوتے ہیں۔
    ماحول دوستی – توانائی کا مؤثر استعمال اور کم فضلہ ماحول کی حفاظت میں مدد دیتا ہے۔
    ورک فورس میں تبدیلی – اب ایسے افراد کی ضرورت ہے جو مصنوعی ذہانت، روبوٹکس اور ڈیٹا سائنس میں ماہر ہوں۔

    ڈارک فیکٹریز اب محض تصور نہیں رہیں — یہ آج کی حقیقت ہیں۔ دنیا بھر کی صنعتیں اس ذہین خودکاری کو اپنا کر نئی بلندیوں پر جا رہی ہیں. جیسے جیسے آٹومیشن کا عمل تیز ہو رہا ہے، صنعتوں کو اپنی جگہ برقرار رکھنے کے لیے خود کو تیزی سے تبدیل کرنا ہوگا. ترقی وہی حاصل کرتا ہے جو وقت کی رفتار کو پہچانتا ہے۔ جو قومیں خود کو بدلنے سے ڈرتی ہیں، وقت انہیں پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ دنیا اندھیرے میں روشنی ڈھونڈ رہی ہے، اور کچھ ایسے بھی ہیں جو روشنی میں بھی اندھیرے سے باہر نہیں نکل پاتے۔

    ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
    ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے

  • سفرنامہ: چین – جیسا میں نے دیکھا (3) – محمد حسیب اللہ راجہ

    سفرنامہ: چین – جیسا میں نے دیکھا (3) – محمد حسیب اللہ راجہ

    ارومچی – پہلا پڑاؤ
    رو لینے سے دل کا غبار کچھ کم ہوا تو میں نے جہاز کی کھڑکی سے باہر دیکھا۔ دور دور تک بھورے چٹیل پہاڑ، جن کی چوٹیوں پر برف ایسے دِکھ رہی تھی کہ گویا سفید اون کی ٹوپیاں ہوں۔ میں نے سر جہاز کی سیٹ پر ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔ جہاز کو اڑان بھرے تقریباً آدھا گھنٹہ ہوا تھا کہ ہوائی میزبانوں نے کھانے کے ڈبے بانٹنا شروع کیے۔ میں نے بھی ایک ڈبہ لے لیا، مگر بددلی سے سیٹ پر رکھ دیا کیونکہ دل ابھی تک گھر کی یاد میں ڈوبا ہوا تھا۔

    موسم صاف تھا اور کہیں کہیں اکا دکا بادل روئی کے گالوں کی مانند اڑتے پھر رہے تھے۔ کھانے کا ڈبہ ایسے ہی پڑا رہا، لیکن اب کچھ کچھ بھوک لگنے لگی تھی۔ میں نے بٹن دبا کر سیٹ سیدھی کی اور کھانے کا ڈبہ کھولنے لگا۔ ڈبے پر چینی زبان میں کچھ لکھا تھا، بس ایک جگہ انگریزی میں [english] China Southern Airlines لکھا تھا۔ اچانک ایک کونے پر نظر پڑی تو وہاں اردو میں ’’موسولمانچہ‘‘ لکھا تھا۔ ارے واہ! یہ دیکھ کر میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔

    جو خدشات تھے کہ پتا نہیں حلال کھانا ہوگا یا نہیں، فوراً اڑن چھو ہوگئے۔ میں نے حیرت و خوشی کے ملے جلے جذبات سے ڈبہ کھولا لیکن یہ کیا؟ ایک بن، ایک چھوٹا پیکٹ دہی، چھوٹی سی ڈبیہ میں چند قاشیں پھل، ایک آملیٹ، اور ایک پیکٹ میں گلابی گلابی گوشت کے قتلے جن کے بیرونی کنارے کالے سیاہ تھے۔ دل میں خیال آیا کہ شاید یہ پورک (Pork) ہے، مگر باہر تو ’’موسولمانچہ‘‘ لکھا تھا۔ کچھ شک سا ہوا۔

    پاس سے گزرتی میزبانِ ہوائی سفر سے پوچھا:
    [english]”Excuse me, what’s this?”
    جواب آیا:
    [english]”This is dry beef.”
    اللہ اللہ، چلو بچت ہوگئی۔ اس سے پہلے کہ وہ چلتی، میں نے جلدی سے پوچھا:
    [english]”Is this halal? I mean for Muslims?”
    ایک پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب آیا:
    [english]”Yes, it’s for Muslims.”

    میں نے شکریہ ادا کیا اور ڈبے میں موجود چیزوں کو الٹ پلٹ کرنے لگا۔ ابھی آملیٹ کے دو نوالے ہی منہ میں ڈالے تھے کہ جہاز میں اعلان ہونے لگا کہ تمام مسافر حفاظتی بیلٹ باندھ لیں کیونکہ جہاز جلد ہی اترنے والا ہے۔ اب میں ایک نظر جہاز کے عملے کو دیکھوں جو تمام مسافروں سے فرداً فرداً کھانے کی ٹرے بند کرنے اور حفاظتی بیلٹ باندھنے کی درخواست کر رہا تھا اور دوسری نظر کھانے کو دیکھوں جو کہ سامنے پڑا مجھے چڑا رہا تھا۔ میں نے بھی پیور پاکستانی بنتے ہوئے فٹافٹ کھانے پر ہاتھ صاف کیا اور عملے کے مجھ تک پہنچنے تک تقریباً سب کچھ چٹ کر ڈالا سوائے خشک گوشت کے۔ ایک تو اس کا ذائقہ الگ سا تھا، تھوڑا میٹھا میٹھا، دوسرا اس کی رنگت کچھ گلابی گلابی تھی۔ خیر، اسی دوران جہاز اترنے لگا۔

    جہاز کے اترتے ہی تقریباً سب پاکستانی کھڑے ہو کر سیٹوں کے اوپر موجود شیلف سے اپنا اپنا دستی اٹیچی اتارنے لگے۔ جہاز کا عملہ چیختا رہا کہ صبر کریں اور جہاز کے مکمل رک جانے تک اپنی نشست پر بیٹھے رہیں مگر مجال ہے کہ کسی نے اس پر کان بھی دھرا ہو۔ میں نہایت آرام سے بیٹھا رہا۔ جب تقریباً سب لوگ جہاز سے نکل گئے تو میں بھی آخری چند مسافروں کے ساتھ اپنا سامان اٹھا کر باہر آ گیا۔

    ایک لمبی راہداری سے گزرتے ہوئے امیگریشن کاؤنٹر تک پہنچا۔ وہاں میں نے اپنا پاسپورٹ امیگریشن آفیسر کو پکڑایا جس نے پہلا سوال کیا:
    [english]”Where are you going?”
    میں نے کہا:
    [english]”Hangzhou.”
    پھر اس نے پوچھا:
    [english]”Why are you going?”
    میں نے جواب دیا:
    [english]”For study.”
    اس نے مجھ سے داخلے کا ثبوت دکھانے کو کہا۔ میرے ایڈمیشن لیٹر کو دیکھ کر پاسپورٹ پر انٹری کی مہر لگا دی۔

    اب سامان لینے والی جگہ پہنچا تو دیکھا کہ ایک بڑے سے گھومتے ہوئے پٹے پر کافی بیگ گھوم رہے تھے۔ اپنے بیگ کو ساتھ بندھی کپڑے کی پٹیوں سے پہچانا۔ وہاں سے سامان لے کر جیسے ہی باہر نکلا تو باقی مسافروں کی پیروی کرتے ہوئے ائیرلائن کی بس تک جا پہنچا، جس نے کچھ ہی دیر میں ہمیں ہوٹل پہنچا دیا۔

    سنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ لگنے والا چین کا صوبہ سنکیانگ مسلمان اکثریتی صوبہ ہے۔ دل میں خیال تھا کہ یہاں آکر شاید اپنی ثقافت کے کچھ رنگ نظر آئیں گے، مگر نہ تو کسی چہرے پر داڑھی نظر آئی اور نہ ہی کسی سر پر اسکارف۔ یہی سوچتے ہوئے ہوٹل پہنچا، چیک ان کیا اور کمرے میں آ گیا۔ ایک کمرے میں دو دو لوگ تھے، زیادہ تر کاروباری طبقہ تھا جو کہ ہانگجو کے پاس موجود بین الاقوامی مارکیٹ ’’ایوو شہر‘‘ (Yiwu) جا رہے تھے۔ نرم نرم بستر پر دراز ہوتے ہی آنکھ لگ گئی۔

    آدھی رات کو بھوک سے آنکھ کھلی۔ اُٹھا، ہاتھ منہ دھویا اور نیچے آ گیا۔ بہت سے پاکستانی بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔ ان سے سلام دعا کی اور کھانے کے متعلق معلومات لیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہوٹل سے نکلتے ہی بائیں مڑ کر سیدھا چلتے جاؤ تو پانچ سات منٹ کے بعد کافی دکانیں ہیں۔ ان کا شکریہ ادا کیا اور جیبوں میں ریزگاری اور موبائل کی تسلی کرنے کے بعد مارکیٹ کا رخ کیا۔

    مارکیٹ میں بہت سی دکانیں تھیں، کافی گھومنے کے باوجود نہ تو کسی دکان پر کوئی مسلمان صورت نظر آئی نہ ہی کہیں ’’حلال‘‘ لکھا ہوا دکھائی دیا۔ اسی ادھیڑ بن میں چلتے چلتے ایک جگہ تندور لگا دیکھا جہاں دھڑادھڑ نان لگ رہے تھے۔ یہ نان پاکستان جیسے نہ تھے بلکہ دیکھنے میں تو یہ روغنی نان کے بڑے بھائی لگ رہے تھے۔ سائز کافی بڑا تھا مگر ہاتھ لگانے پر معلوم ہوا کہ یہ تو کافی سخت ہیں، اتنے سخت کہ شاید کسی کا سر پھاڑنے کے کام بھی آ سکتے ہیں۔ خیر، جو نان تندور سے تازہ تازہ نکل رہے تھے وہ خستہ اور نرم تھے۔ سوچا کہ اگر کچھ اور نہ ملا تو یہی نان خرید لوں گا۔

    چلتے چلتے ایک ریسٹورنٹ کے دروازے پر پہنچا۔ وہاں ایک بزرگ سفید داڑھی، درمیانہ قد، سر پر ٹوپی لیے کھڑے تھے۔ میں نے رسک لیتے ہوئے پوچھا:
    [english]”Muslim?”
    جواب میں انہوں نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بلند آواز میں پڑھا:
    “لا الٰہ الا اللہ محمد الرسول اللہ!”
    بس پھر ’اندھا کیا چاہے دو آنکھیں‘ کے مصداق اسی ہوٹل پر ڈیرا ڈال لیا۔

    کھانے کے مینیو میں سے ایک تصویر پر ہاتھ رکھ دیا جو دیکھنے میں آلو چکن اور چاول لگ رہی تھی۔ چند منٹ بعد چاولوں کی پلیٹ جس پر آلو اور چکن کی چند چھوٹی چھوٹی بوٹیاں تھیں، میرے سامنے تھی۔ اگلا مرحلہ تھا کہ اسے کھایا کیسے جائے کیونکہ چینی لوگ تو چوپ اسٹکس استعمال کرتے ہیں۔ میری مشکل کو دیکھتے ہوئے وہ بزرگ ایک بڑا چمچ لے آئے، جسے دیکھ کر میں سوچنے لگا کہ ہمارے ہاں تو ایسا چمچ یخنی پینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

    بسم اللہ پڑھ کر پہلا نوالہ لیا اور ساتھ ہی ساری ایکسائٹمنٹ غائب ہو گئی۔ ادھ پکے آلو اور تقریباً کچا چکن۔ بڑی مشکل سے چاول اور آلو کے قتلے زہر مار کیے اور ادائیگی کرکے ہوٹل کی راہ لی۔ چلتے چلتے خود سے کہا:
    “مسٹر محمد حسیب اللہ راجہ صاحب، آپ کو کس کتے نے کاٹا تھا جو آپ چین چلے آئے؟”

    انہی سوچوں میں گم، ہوٹل پہنچا، پیر پسارے اور اگلے دن کی فلائٹ کے بارے میں سوچتے ہوئے نیند کی آغوش میں جا سویا۔

  • عالمی سیاست میں طاقت کا توازن – سیدہ لاریب کاظمی

    عالمی سیاست میں طاقت کا توازن – سیدہ لاریب کاظمی

    عالمی سیاست میں طاقت کا توازن ایک اہم تصور ہے جو اس بات کو بیان کرتا ہے کہ عالمی سطح پر مختلف ریاستوں یا ممالک کے درمیان طاقت کی تقسیم اور اس کی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ طاقت کا توازن عام طور پر اس وقت اہمیت حاصل کرتا ہے جب ایک ملک یا گروہ کسی دوسرے ملک یا گروہ کی طاقت میں اضافہ یا کمی کی صورت میں عالمی سیاست میں تبدیلی کی کوشش کرتا ہے۔

    طاقت کا توازن کیا ہے؟
    طاقت کا توازن وہ صورتحال ہے جب عالمی سطح پر مختلف طاقتوں کے درمیان تعلقات میں ایک نوع کی مساوات یا توازن قائم ہو۔ اس توازن کا مقصد کسی ایک طاقت کو دوسرے پر حاوی ہونے سے روکنا ہے تاکہ عالمی سیکیورٹی برقرار رہے اور ممالک کے درمیان تنازعات کی شدت کم ہو۔ طاقت کا توازن عالمی سیاست میں اس وقت اہمیت اختیار کرتا ہے جب ریاستیں اپنی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے دوسری ریاستوں کے ساتھ فوجی، اقتصادی یا سیاسی تعلقات میں توازن قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

    طاقت کا توازن؛ تاریخ کی روشنی میں:
    عالمی سیاست میں طاقت کا توازن ہمیشہ سے ایک اہم موضوع رہا ہے۔ 17ویں اور 18ویں صدی میں یورپ کے مختلف ممالک نے طاقت کے توازن کے نظریہ کو اپنایا۔ خاص طور پر یورپ کی جنگوں میں یہ نظریہ اپنایا گیا تاکہ ایک ملک کسی دوسرے پر مکمل طور پر حاوی نہ ہو سکے۔ مثال کے طور پر، نپولین کی حکمرانی کے دوران یورپ میں طاقت کا توازن شدید متاثر ہوا تھا۔ جب نپولین کے خلاف اتحادی طاقتوں نے مل کر اس کے خلاف جنگ کی اور یورپ میں طاقت کا توازن دوبارہ قائم کیا، تو اس کا مقصد ایک طاقت کے غلبے کو روکنا تھا تاکہ عالمی سطح پر امن قائم رکھا جا سکے۔

    طاقت کا توازن اور عالمی جنگیں:
    عالمی جنگوں نے طاقت کے توازن کے نظریے کو نئی شکل دی۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران، عالمی طاقتوں کے درمیان طاقت کا توازن بری طرح متاثر ہوا۔ دونوں جنگوں کے دوران کئی ممالک کی طاقت میں اضافہ یا کمی واقع ہوئی، جس کے نتیجے میں عالمی سیاست میں نئے عالمی کھلاڑی سامنے آئے اور طاقت کا توازن تبدیل ہوا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور سوویت یونین دو بڑی عالمی طاقتیں بن گئیں، اور ان دونوں کے درمیان طاقت کا توازن سرد جنگ کے دور میں واضح طور پر نظر آیا۔ اس دوران عالمی سیاست میں دونوں طاقتوں کی مخالفت اور ان کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی تعلقات کی نوعیت تبدیل ہوئی۔

    طاقت کا توازن اور سرد جنگ:
    سرد جنگ (Cold War) کے دوران امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان طاقت کا توازن ایک نئی شکل اختیار کر گیا۔ دونوں طاقتیں اپنی سیاسی، اقتصادی اور فوجی اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کر رہی تھیں، اور اس کی وجہ سے دنیا کو دو بلاکوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ امریکہ کی قیادت میں مغربی بلاک اور سوویت یونین کی قیادت میں مشرقی بلاک کے درمیان سرد جنگ کا ماحول تھا۔ سرد جنگ میں طاقت کا توازن اس لئے اہم تھا کہ دونوں طاقتیں اس بات کو یقینی بنانا چاہتی تھیں کہ ان کی طاقت دوسری طاقت سے بڑھ کر نہ ہو جائے۔ اس کے نتیجے میں نیوکلیئر ہتھیاروں کی دوڑ، پراکسی جنگوں اور عالمی اداروں میں اثر و رسوخ کے لئے جنگیں جاری رہیں۔

    جدید دور میں طاقت کا توازن:
    آج کے عالمی سیاست میں طاقت کا توازن ایک نئی سمت میں گامزن ہے۔ چین اور بھارت جیسے ابھرتے ہوئے طاقتور ممالک عالمی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ چین کی اقتصادی طاقت اور اس کا عالمی اثر، اور بھارت کی بڑھتی ہوئی فوجی اور اقتصادی طاقت نے عالمی توازن کو ایک نئی شکل دی ہے۔ امریکہ کی عالمی سطح پر غلبے کے باوجود، چین اور روس جیسے ممالک عالمی سیاست میں اپنے اثرات کو بڑھا رہے ہیں۔ اس بات کی مثال چین کی “بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو” ہے، جس کے ذریعے چین عالمی سطح پر اقتصادی روابط کو مزید مضبوط بنا رہا ہے۔

    طاقت کا توازن اور عالمی سیکیورٹی:
    عالمی سیاست میں طاقت کا توازن عالمی سیکیورٹی کے لئے ایک اہم عنصر ہے۔ جب طاقت کا توازن قائم ہوتا ہے تو عالمی امن اور سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لئے عالمی ادارے فعال ہو سکتے ہیں۔ اس کے برعکس، طاقت کے توازن کا فقدان یا کسی ایک طاقت کا غلبہ عالمی سطح پر عدم استحکام اور جنگوں کا سبب بن سکتا ہے۔

  • سفرنامہ: چین: جیسا میں نے دیکھا(2) – محمد حسیب اللہ راجہ

    سفرنامہ: چین: جیسا میں نے دیکھا(2) – محمد حسیب اللہ راجہ

    گھر سے روانگی – ناقابلِ فراموش واقعہ

    بیرونِ ملک روانگی کے وقت جذبات کا ایک عجیب امتزاج دل و دماغ پر چھایا ہوتا ہے۔ ایک طرف بہتر مستقبل کی امید دل میں روشنی جگاتی ہے تو دوسری طرف اپنے پیاروں سے جدائی کا خیال دل کو بوجھل کر دیتا ہے۔ جب میں گھر سے روانہ ہوا، تو میرے ساتھ میرا چھوٹا بھائی اور ڈرائیور تھے۔

    سفر کا آغاز ہوا، اور ہم جی ٹی روڈ کے ذریعے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ ستمبر 2015 کی بات ہے جب چکلالہ ایئرپورٹ کو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ سنا تھا کہ حال ہی میں اس ایئرپورٹ کی تزئین و آرائش کی گئی ہے۔ تقریباً سوا گھنٹے بعد ہم ایئرپورٹ پہنچے جہاں زندگی کی رونقیں عروج پر تھیں۔ کچھ لوگ روانگی کی تیاری میں مصروف تھے اور کچھ اپنے عزیزوں کے استقبال میں۔ روانگی کے وقت چہروں پر اداسی کے رنگ تھے جبکہ واپسی پر خوشی کے آثار نمایاں تھے۔ ایئرپورٹ واقعی ایک منفرد مقام ہے جہاں بچھڑنے اور ملنے کے مناظر ایک ساتھ دیکھنے کو ملتے ہیں۔

    عمارت کے اندر جانے سے پہلے میں نے سوچا کہ واش روم استعمال کرلوں کیونکہ آگے امیگریشن اور سیکیورٹی کے مراحل میں وقت لگ سکتا تھا۔ مگر باہر کے واش روم کی صفائی دیکھ کر دل سخت مکدر ہوا۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ہم عوامی مقامات پر صفائی کا اتنا کم خیال کیوں رکھتے ہیں؟ کیا عوامی جگہوں کی صفائی صرف حکومت یا صفائی کے عملے کی ذمہ داری ہے؟ اگر ہم بیت الخلا کو اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھیں تو بہت سی مشکلات سے بچا جا سکتا ہے۔

    خیر، میں نے اپنی سامان والی ٹرالی سنبھالی اور عمارت میں داخلے کے لیے قطار میں لگ گیا۔ جانے سے پہلے اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ ایک یادگار سیلفی لی۔ داخلی دروازے پر سکیورٹی اہلکار پاسپورٹ اور ٹکٹ کی جانچ کر رہے تھے۔ عمارت کے اندر داخل ہوتے ہی سامان کی سکیننگ کی گئی۔ میرے بیگز میں کچھ مشکوک نہ تھا لیکن انسدادِ منشیات کے عملے نے مزید معائنہ کے لیے کہا۔ بیگز کھولے گئے اور ایک ایک چیز کو باریک بینی سے چیک کیا گیا۔ سوالات کیے گئے: ’’کہاں جا رہے ہو؟ کیوں جا رہے ہو؟‘‘ وغیرہ۔

    تحقیقات کے بعد میں آگے بڑھا اور ایئرلائن کے کاؤنٹر پر پہنچا، جہاں بغیر کسی اضافی سوال کے سامان بک کرلیا گیا اور بورڈنگ پاس تھما دیا گیا۔ یاد رہے، چائنا سدرن ایئرلائن طالب علموں کے لیے خصوصی رعایت دیتی ہے، جس کے تحت 64 کلو سامان لے جایا جا سکتا ہے۔

    امیگریشن کاؤنٹر سے پاسپورٹ پر اخراج کی مہر لگوائی، دوبارہ سکیورٹی چیکنگ ہوئی اور آخرکار انتظار گاہ تک پہنچ گیا۔ کچھ دیر بعد سوچا کہ جہاز میں سوار ہونے سے پہلے واش روم چلا جاؤں۔ اس بار واش روم کی صفائی تسلی بخش تھی۔ صاف ستھرا ماحول، مغربی طرز کی ٹوائلٹ سیٹ، مسلم شاور اور ایک چھوٹا سا شیلف بھی تھا جہاں موبائل یا بٹوہ رکھا جا سکتا تھا۔

    واپس آ کر اپنی نشست سنبھالی اور اردگرد کا مشاہدہ کرنے لگا۔ کچھ لوگ فون پر مصروف تھے، کچھ میگزین پڑھ رہے تھے اور چند لوگ اپنے پیاروں سے الوداعی باتیں کر رہے تھے۔ میں نے بھی گھر اطلاع دی کہ سب خیریت ہے۔

    اسی دوران، لاؤڈ اسپیکر پر ایک اعلان ہوا کہ کوئی شخص اپنا بٹوہ واش روم میں بھول آیا ہے، نشانی بتا کر کاؤنٹر سے بٹوہ وصول کر لیں۔ اعلان سنتے ہی میں نے اپنی جیبیں چیک کیں اور حیرت زدہ رہ گیا—واقعی، میرا بٹوہ غائب تھا!

    دل کی دھڑکن تیز ہوگئی کیونکہ بٹوے میں تقریباً 1600 امریکی ڈالر اور چینی کرنسی موجود تھی۔

    بغیر وقت ضائع کیے، میں کاؤنٹر کی طرف دوڑا۔ کاؤنٹر پر موجود عملے نے نشانی پوچھی، میں نے کہا: ’’بٹوے کے اندر میری تصویر ہے۔‘‘ انہوں نے تصدیق کے بعد بٹوہ واپس کیا۔ لرزتے ہاتھوں سے بٹوہ کھولا اور جب پوری رقم صحیح سلامت ملی تو دل سے بے اختیار شکر کے کلمات نکلے۔

    یوں، یہ سفر نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ جذباتی اور ذہنی طور پر بھی ایک ناقابلِ فراموش تجربہ ثابت ہوا۔

  • ڈیپ سیک آرٹی فیشل ٹیکنالوجی کی چوری ۔ اعظم علی

    ڈیپ سیک آرٹی فیشل ٹیکنالوجی کی چوری ۔ اعظم علی

    چینی کمپنی ڈیپ سیک نے اپنے آرٹی فیشل انٹیلی جنس پلیٹ فارم کولانچ کیا تو دنیا زلزلے کی کیفیت کا شکار ہو گئی۔ کہا جانے لگا کہ چینی کمپنی نے آرٹی فیشیل انٹیلی جنس پر امریکی اجارہ داری کو توڑ دیا۔ پہلا جھٹکا تو اسٹاک مارکیٹ میں آیا کہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی کمپنی OpenAI تو لسٹڈ نہیں ہے لیکن اس آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے لئے چپ بنانے والی کمپنی Nvidia اور اوپن اے آئی کے مل کر نئی چِپ بنانے والی کمپنی Broadcom کے حصص کو شدید گراوٹ کا سامنا ہوا ۔

    کسی بھی آرٹی فیشل انٹیلی جنس سسٹم کے دو حصے سافٹ وئیر اوراسے چلانے کے لیے طاقتور پروسیسر چپ جو دنیا بھر میں اس وقت واحد کمپنی Nvidia ہی بناتی ہے، درکار ہوتے ہیں۔ سافٹ وئیر کی بات تو بڑی حدتک واضح ہے کہ OpenAI نے اپنا اے آئی سافٹ وئیر ڈیولپرز کے لیے کھلا رکھا ہوا تھا تاکہ کوئی بھی (مفت یا تھوڑی سی فیس دے کر) ڈاؤن لوڈ کرکے استعمال کرلے۔

    ڈیپ سیک نے یہ نہیں بتایا کہ اُنہوں نے اپنے R1 ماڈل بنانے کے لیے ڈیٹا کہاں سے حاصل کیا لیکن ایسے اشارے موجود ہیں کہ انھوں نے اوپن سورس ہی کے سسٹم کو ڈاؤن لوڈ کرکے اپنے ماڈل کی تربیتی صلاحیت اگلے درجے پر پہنچائی ہے۔ ڈیپ سیک کا یہ ماڈل اتنا کارگر ہے کہ اسے اپنے مدمقابل میٹا کے Llama 3.1 کے مقابلے میں صرف دس فیصد کمپیوٹنگ پاور کی ضرورت پڑتی ہے۔

    ڈیپ سیک پر ٹیکنالوجی کی چوری کا الزام
    ”ہم اس بات سے واقف ہیں کہ ڈیپ سیک نے نامناسب طور پر ہمارے ماڈلز سے معلومات کشید (چوری) کئے ہیں ، ہم اس کا جائزہ لے رہے ہیں اور جوں جوں تفصیلات سامنے آئیں گی فوری طور پر (عوام و میڈیا کو) آگاہ کریں گے، ہم اپنی ٹیکنالوجی کے تحفظ کے لئے بھرپور اقدامات کریں گے۔“ (اوپن اے آئی کا اعلامیہ)

    دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ کیا ڈیپ سیک کے یہ سب کچھ ‏Nvidia کی چِپ حاصل کیے بغیر حاصل کیا ہے؟
    یہ بات پہلے ہی ریکارڈ پر ہے کہ کہ 2022 میں امریکی حکومت نے چینی AI کمپنیوں کو جدید ترین Nvidia کی چپ فروخت پر پابندی لگادی تھی ، لیکن ڈیپ سیک پابندیاں لگنے سے پہلے ہی Nvidia کی H100 چپ 10,000 عدد خرید چُکی تھی، جو ان کی ضرورت کے لئے ناکافی تھی۔ اس معاملے میں اس وقت پوری دنیا کے بڑے تجارتی ممالک بشمول سنگاپور میں اس بات کی تحقیقات ہورہی ہے کہ کیا چین نے Nvidia کی چپ وہاں سے حاصل کی ہے۔

    میری زندگی کا بڑا حصہ سنگاپور کے الیکٹرونکس پرزہ جات کی ہول سیل مارکیٹ میں گذرا ہے ۔ جہاں میرا تو اس قسم کی چپ سے واسطہ نہیں پڑا لیکن اس قسم کی وارداتیں عام ہیں ۔ عموما ڈسٹربیوٹر اپنے منافعے کے لیے اکثر جان بوجھ کر کسی پابندیوں سے مبرا ملک یا ادارے کے نام پر یہ سامان جاری کرایا جاتا ہے۔ اس کے لئے کاغذ کا پیٹ بھرنے کے لیے جعلی کاغذات و کوائف فراہم کئے جاتے ہیں۔ لیکن سامان کسی اور ملک یا ادارے کو فروخت کردیا جاتا ہے ۔جب تک کوئی بڑی شکایت سامنے نہ آئے یہ معاملہ خاموشی کے ساتھ چلتا رہتا ہے۔

    عموما پرزہ جات و کسی قسم کے آلات کا ڈسٹربیوٹر کے گودام سے نکلنے کے بعد اگر ممنوعہ جگہ و ممالک میں پہنچ جانے کے بعد کہیں پکڑے جانے کی صورت میں اس کی فراہمی کے ذریعے کا درست سراغ لگانا بڑی حدتک ناممکن ہوتا ہے، لیکن حسا س پرزہ جات اور تقریبا تمام الیکٹرونک آلات کا فیکڑی سے لیکر ڈسٹری بیوٹر تک فروخت کا ریکارڈ اس کے سیریل نمبر کے ذریعے ہوتا ہے۔ یہ سیریل نمبر پرزے یا مشیب پر چھپے ہوئے ہی نہیں بلکہ ڈیجیٹل پروسیس کے ذریعے مشین کے پروسیسر میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ اس لئے انہیں مٹا کر شناخت ختم کرنا ناممکن ہوتا ہے ۔

    کوئی حساس پرزہ یا مشین کسی بھی “غلط” جگہ پائے جانے کی صورت میں مینوفیکچرر فوری طور پر اپنے ڈسٹری بیوٹر، اور ڈسٹری بیوٹر اپنے گاہک کی شناخت کر سکتا ہے۔ اس طرح تفصیلی تحقیقات کی صورت میں ذمہ دار کی شناخت ناممکن نہیں ہوتی ۔ بات کھلنے پر جو بھی اس قسم کی حرکت میں ملوث ہوتا ہے اسے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔ 2012 میں سنگاپور کی ایک کمپنی نے وہاں کی سب سے بڑی ٹیلی کام کمپنی سنگاپور ٹیلی کام کے جعلی آرڈر کے ذریعے امریکہ سے کچھ پرزہ جات منگوا کر ایران بھیجے تھے۔ بات کھُلنے کے بعد اس کمپنی کا ایرانی مالک فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا پر وہاں کام کرنے والے تین افراد مقامی کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کردیا گیا جہاں انہیں قید کی سزا دی گئی۔

    امریکی آئی ٹی کمپنی Hp کا واقعہ یاد آتا ہے ۔ جب پاکستان و دیگر چند ممالک کے نام سے فروخت کردہ لیپ ٹاپ و پرنٹر ایران میں پائے گئے ۔ اس وقت کسی کےخلاف قانونی کاروائی تو نہیں ہوئی پر اس کمپنی کے کئی ملازمین برطرف کردئیے گئے اور متعلقہ ڈسٹری بیوٹر کو بھی اپنی ڈسٹریبیوٹر شپ سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس سے منسلک ایک اور دلچسپ قصہ بھی ہے مشھور امریکی آئی ٹی کمپنی Hp کے بعض پاکستانی ڈسٹری بیوٹر پاکستان کے نام پر سامان لیکر دوسرے ممالک میں فروخت کرنے کے لئے سنگاپور میں اپنا نمائندہ دفتر کھول پاکستان کے نام پر سامان وہاں وصول پر کرنے کے بعد دیگر ممالک بالخصوص دوبئی میں فروخت کرتے تھے (دوبئی سے ایران و دیگر ممالک پہنچنا آسان تھا)۔ ڈسڑی بیوٹرشپ کے معاہدے کے خلاف ورزی ہوتی ہے پھر بھی اکثر متعلقہ لوگ جان بوجھ کر آنکھیں بند رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی جو کچھ سامان پاکستان جاتا بھی تھا تو اس کی قیمتیں ٹیکس بچانے کے لئے انوائس میں کم قیمتیں یعنی انڈر انوایسنگ کرکے بھیجا جاتا تھا۔۔Hp جیسی بین الاقوامی کمپنیاں کبھی خود کو براہ راست انڈر انوائسنگ یا کسی غیر قانونی حرکت میں ملوث نہیں کرتیں اس لیے (یہ حرکت ان کے ڈسٹری بیوٹر یا ان کے نمائندہ دفتر ہی کرتا ہے)۔ اس زمانے میں Hp کا پاکستان میں دفتر بھی ہوتا تھا پاکستانی ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے Hp سے کئی سالوں کے پاکستان کے نام پر جاری ہونے والے سامان کی اصلی انوائس طلب کیں۔۔ چونکہ ساری ڈیلیوری و شپمنٹ Hp کے سنگاپور کے دفتر سے جاری ہوتے تھے اس لیے زیادہ امکان یہی تھا کہ یہاں پر اس کا مکمل ریکارڈ نہیں تھا اس لئے Hp پاکستان نے معذرت کرلی ۔ چونکہ اس وقت Hp پاکستان کے سربراہ پاکستانی اگر غیر ملکی ہوتا تو شاید ہچکچاتے، اس لئے انہوں نے اسے غالبا غیر رسمی طور پر گرفتار کرکے شرط عائد کردی کہ جب تک Hp سنگاپور انہیں پاکستان کے لئے جاری ہونے والے تمام سامان کی اصلی انوائس ان کے حوالے نہیں کریں گے اسوقت تک انہیں نہیں چھوڑا جائے گا۔ مجبوراً Hp سنگاپور نے ساری تفاصیل ان کے حوالے کے کر اپنا آدمی چھڑا لیا اور پاکستان میں اپنا دفتر بند کردیا ۔

    عموما امپورٹر کسٹم ڈیوٹی کی چوری کے دو طریقے سے کرتے ہیں پہلا اصل قیمت سے کم قیمت کی انوائس ظاہر کرکے دوسرا آنے والے سامان کی تعداد کو کم ظاہر دوسری طرف چونکہ اب کسٹم یا ایف بی آر کے پاس مکمل ریکارڈ موجود ہے انہوں نے متعلقہ ڈسٹری بیوٹرز کے ریکارڈ سے تقابل کیا تو قیمتوں کا فرق تو درست طریقے سے پکڑ میں آگیا ۔۔ لیکن تعداد کا معاملہ تھوڑا مشکل تھا کہ زیادہ تر سامان پاکستان کےنام پر وصول ضرور کیا گیا تھا لیکن درحقیقت وہ سامان کہیں اور بھیجا گیا تھا (اس لحاظ سے اس پر پاکستانی کسٹم ڈیوٹی لاگو نہیں ہوتی لیکن) کسٹم نے ان کی اس عرصے میں نہ صرف انڈر انویسنگ کے فرق کا ٹیکس طلب کیا، بلکہ جو اضافی سامان درحقیقت پاکستان نہیں آیا تھا لیکن چونکہ Hp کے کاغذات میں پاکستان کا لکھا ہوا تھا اس کی بنیاد پر اُن کے اوپر بھی کسٹم ڈیوٹی و یگر ٹیکس کی ادائیگی کا حُکم جاری کردیا۔چند سالوں قبل کی آخری اطلاعات کے مطابق معاملہ عدالت میں تھا۔ موجودہ صورتحال کا علم نہیں ۔

    اس بات کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا چین نے درحقیقت امریکی چپ استعمال کی ہیں ۔۔اگر ایسا ہوا ہے تب بھی چین کا یہ کارنامہ بالکل اسی طرح ہے جیسے پاکستان نے دنیا بھر کی پابندیوں کا سامنا و مقابلہ کرتے ہوئے ایٹم بم بنایا تھا۔ اس صورتحال میں اپنی ضرورت کے لیے ٹیکنالوجی ، آلات و پززہ جات حاصل کرنا چوری نہیں کارنامہ کہلاتا ہے۔۔دنیا بھر ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے سے سیکھنے کا عمل کبھی نہیں رُکتا ۔۔ اگر کوئی علم چھپائے تو ملکی قومی مفاد میں اس علم کو چُرانا بھی فرض ہوتا ہے۔ ( یہ الگ بات ہے کہ ان معاملات میں کسی کا مجرم کسی کا ہیرو ہوتا ہے)۔

    چین نے امریکی پابندیوں کا سامنا کرتے ہوئے یہ عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔۔ یقیناً چپ کی فراہمی میں پابندیوں کی وجہ سے اس کے مکمل فوائد حاصل کرنے میں ان کی محدودات آڑے آئیں گی۔ چین میں سیمی کنڈکٹر چپ مینو فیکچرنگ کی فیکٹریاں موجود ہیں چاہے وہ ٹیکنا لوجی میں کتنے بھی پیچھے ہوں لیکن آگے بڑھنے کی بنیاد ان کے پاس موجود ہے۔۔ اس میں کوئی شک نہیں جلد یا بدیر چین بھی یہ چپ بنانے کے قابل ہو جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ‏Nvidia کا چیف ایگزیکٹو آفسر بھی تائیوانی نژاد چینی النسل جینسن ہوانگ ہے۔۔ اس طرح کے نہ جانے کتنے جوہر قابل امریکہ میں حساس مقامات پر موجود ہیں ۔۔ کیا پتہ وہاں سے چین کو بھی کوئی ڈاکٹر عبدالقدیر خان مل جائے جو پہلے سے موجود بنیاد کو نئی بلندیوں تک پہنچا دے۔

    اس حمام میں سب ننگے ہیں
    بیسویں صدی کی ابتدا میں امریکہ صنعتی انقلاب کی ابتدا ہی برطانوی و یورپی ٹیکنالوجی کی چوری سے ہوئی تھی ۔ حالیہ دور میں تیز رفتاری سے ترقی پذیر معیشت چین بھی اسی مرحلے سے گُذر رہا ہے ۔ اس کے علاوہ بھارت، چین، روس، جنوبی کوریا اور جاپان یہ تمام ممالک ہی اپنی صنعتی ترقی کے ابتدائی دور میں ٹیکنالوجی کی چوری کے الزامات کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ اسرائیل کی ٹیکنالوجی بھی بہت کچھ امریکہ سے چُرایا ہوا مال و مصالحہ شامل ہے لیکن اسکا آفیشیل ریکارڈ اس لحاظ سے ممکن نہیں ہے اپنے اس لاڈلے بچے کی شرارتوں پر محلے میں شور نہیں مچایا جاتا۔ امریکی حکومت کے اکاؤنٹ ایبلٹی آفس کی 1983 کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی ٹیکنالوجییکل مصنوعات میں امریکی ٹیکنالوجی و پرزہ جات کا حصہ 35 فیصد ہے اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً اسرائیل پر ایٹم بم کے لئے یورینیم چُرانے سے لیکر ٹیکنالوجی و دیگر راز چرانے تک کے الزامات لگتے رہتے ہیں ۔ امریکیوں کا عشق اسرائیل اس درجے کا ہے کہ اسے سات نہیں 43 خون بھی معاف ہیں ، 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیلی ائیر فورس نے امریکئ بحریہ کے کمیونیشن مانیٹرنگ جہاز USS Liberty پر اسرائیلی فضائیہ نے حملہ کرکے 43 امریکی ہلاک اور 171 کو زخمی کردیا پھر بھی اسرائیلی کی معذرت اور غلط فہمی کے بہانے کو قبول کرلیا گیا۔ یہاں بھی امریکی انٹیلی جنس کے ادارے امریکہ میں اسرایئلی جاسوسوں کے ٹیکنالوجی و یگر راز چُرانے کی حرکتوں سے بخوبی واقف ہونے کے باجود سوائے اسرائیلی سفارتخانے میں متعین اپنے ہم منصب کو خاموشی سے تنبیہ کرنے سے زیادہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ کہ اس پیار بھری شکایت پر بھی FBI کو امریکی کانگریس و سینٹ کے اسرائیلی حامی ممبران کی جانب سے تنبیہی فون کالیں آجاتی ہیں اور سارا معاملہ غتربود ہو جاتا ہے۔

  • سفرنامہ: چین – جیسا میں نے دیکھا –  محمد حسیب اللہ راجہ

    سفرنامہ: چین – جیسا میں نے دیکھا – محمد حسیب اللہ راجہ

    چین، ایک نیا جہاں
    یہ 2013 کی بات ہے، جب نہ ہر جیب میں سمارٹ فون ہوتا تھا، نہ ہی سوشل میڈیا نے دنیا کو اتنا قریب کر دیا تھا جتنا آج ہے۔ ان دنوں بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کا خواب ہر پاکستانی نوجوان کی آنکھوں میں ہوتا تھا، مگر ان خوابوں کا رُخ زیادہ تر یورپ، امریکہ یا انگلینڈ کی طرف ہوتا تھا۔ چین کا نام سنتے ہی لوگوں کے ذہن میں زبان، انوکھے کھانے اور ایک مختلف ثقافت کا تصور اُبھر آتا تھا۔

    کیونکہ ہم انگریزوں کی کالونی رہے ہیں تو ہمیں انگریزی بولنے والے ملکوں میں جانا اور رہنا آسان لگتا ہے، یہ خیال کرنا کہ کوئی چین جا کر تعلیم حاصل کرے گا، ایسا ہی تھا جیسے کوئی دور دراز کے کسی گاؤں میں جا کر پڑھنے کا ارادہ کرے۔ اس وقت چین میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان خاص طور پر میڈیکل کے شعبے تک محدود تھا، لیکن میرے بارے میں یہ مشہور تھا کہ میں ہمیشہ ہجوم سے ہٹ کر راستہ چُنتا ہوں۔

    جہاں میرے دوست یورپ، امریکہ یا انگلینڈ کے خواب دیکھ رہے تھے، میں نے چین جانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ میری فطرت کے عین مطابق تھا۔ دوستوں کا ردعمل دلچسپ تھا۔ کچھ نے حیرانی سے پوچھا، ’’چین؟ بھائی، وہاں جا کے کیا کرو گے؟ وہاں تو زبان بھی نہیں آتی، کھانے بھی عجیب ہوں گے، اور کلچر تو بالکل مختلف ہے!‘‘ کچھ نے مذاق میں کہا، ’’چینی لوگ تو کیڑے مکوڑے کھاتے ہیں، تم کیسے گزارہ کرو گے؟‘‘ لیکن میں نے ان سب باتوں کو مسکرا کر نظرانداز کر دیا۔ میرے دل میں ایک عجیب سا جوش تھا، جیسے میں کسی نئی دنیا کی تلاش میں نکل رہا ہوں، جہاں نہ صرف تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کے مواقع ہوں گے بلکہ زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کا موقع بھی ملے گا۔

    اُس وقت میں جہلم کے ایک نجی کالج میں کیمسٹری پڑھاتا تھا۔ بی ایس کیمسٹری کے آخری سال میں تھا اور تدریس کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری تھا۔ میرے اور طلبہ کے درمیان رشتہ صرف استاد اور شاگرد کا نہیں تھا، بلکہ میں انہیں اپنے چھوٹے بھائیوں کی طرح سمجھتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ صرف نصابی کتابوں کے فارمولے اور اصول رٹوانا کافی نہیں، بلکہ زندگی کے تجربات اور سیکھے گئے سبق بھی بانٹنے ضروری ہیں۔ میں اپنی یونیورسٹی لائف کے تجربات اور اپنے اساتذہ سے سیکھے گئے قیمتی اسباق ان طلبہ کے ساتھ شیئر کرتا تھا۔

    یہی وجہ تھی کہ میرے طلبہ مجھ سے کھل کر بات کرتے، اپنے مسائل بیان کرتے اور مشورے لیتے۔ ایک دن ایک طالب علم نے مجھ سے کہا، ’’سر، میں ڈینٹسٹری کرنا چاہتا ہوں، مگر پاکستان میں میرٹ نہیں بن رہا۔ کیا آپ کے جاننے والوں میں کوئی ایسا ہے جو چین یا روس میں داخلے کا بندوبست کرا سکے؟‘‘ یہ سوال میرے لیے ایک نئے دروازے کے کھلنے کی مانند تھا۔ میں نے فوراً اپنے ایک دوست سے رابطہ کیا، جو چین میں ایم بی بی ایس کر رہا تھا۔ اس کے مشورے سے میرے طلبہ کے چین جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔

    جب میرا بی ایس کیمسٹری مکمل ہوا، تو میرے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ میں بھی چین سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کروں اور ساتھ ساتھ طالب علموں کی رہنمائی کو ایک پیشے کے طور پر اپناؤں۔ یہ فیصلہ زندگی کے ایک نئے باب کا آغاز تھا۔ یوں میری تعلیمی اور پیشہ ورانہ زندگی کا سفر چین کی طرف رواں دواں ہوا۔

    جب میں نے چین جانے کا ارادہ کیا تو دل میں کئی سوالات تھے۔ زبان کا مسئلہ سب سے بڑا چیلنج تھا۔ چینی زبان دنیا کی مشکل ترین زبانوں میں شمار ہوتی ہے، اور اس وقت میرے پاس اس کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ لیکن میں نے خود کو حوصلہ دیا کہ زبان ایک رکاوٹ نہیں، بلکہ ایک موقع ہے۔ ایک نئی زبان سیکھنے کا مطلب ایک نئی ثقافت، نئے لوگوں، اور نئی دنیا کو سمجھنے کا دروازہ کھولنا ہے۔

    تیاریوں کا مرحلہ دلچسپ تھا۔ ویزے کی درخواست، داخلہ کے کاغذات، اور دیگر رسمی کارروائیاں مکمل کرنے کے بعد جب میں نے چین کے لیے روانگی کی تاریخ طے کی، تو دل میں عجب سا جوش اور تھوڑا خوف بھی تھا۔ خاندان اور دوستوں نے الوداعی ملاقاتیں کیں، نصیحتیں دیں، اور مستقبل کے لیے دعا کی۔

    جب جہاز نے اسلام آباد کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے اُڑان بھری، تو میں کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ یہ سفر صرف جغرافیائی نہیں، بلکہ میری شخصیت اور زندگی میں بھی ایک انقلاب لانے جا رہا ہے۔ چین پہنچنے پر پہلی چیز جو محسوس ہوئی، وہ زبان کا مسئلہ تھا۔ ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہی چینی زبان کے بورڈز، اعلانات، اور لوگوں کی گفتگو میرے لیے بالکل اجنبی تھی۔ گوگل ٹرانسلیٹ یا دیگر سہولیات اُس وقت اتنی عام نہیں تھیں اور چین میں ان پر پابندی تھی اور اب بھی ہے، اس لیے ہر بات سمجھنا ایک چیلنج تھا۔ لیکن یہی چیلنج میرے سفر کا سب سے دلچسپ حصہ بننے والا تھا۔

    یونیورسٹی پہنچنے پر، جہاں میں نے ماسٹرز کے لیے داخلہ لیا تھا، پہلا دن یادگار تھا۔ مختلف ممالک سے آئے ہوئے طلبہ، جن کی زبانیں، ثقافتیں، اور خیالات مختلف تھے، ایک جگہ جمع تھے۔ یہاں میں نے پہلی بار محسوس کیا کہ تعلیم صرف کتابوں تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک عالمی تجربہ ہے۔ کلاس روم میں چینی اساتذہ کی تدریس کا انداز، ان کی محنت، اور طلبہ کی لگن دیکھ کر میں متاثر ہوا۔

    چین میں رہتے ہوئے سب سے بڑا چیلنج کھانے پینے کا تھا۔ چینی کھانے پاکستانی ذائقوں سے بالکل مختلف تھے۔ شروع میں تو مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا کھاؤں اور کیا چھوڑ دوں۔ لیکن وقت کے ساتھ میں نے نئی چیزوں کو آزمانا شروع کیا۔ کچھ کھانے پسند آئے، کچھ عجیب لگے، لیکن یہ سب تجربات میری زندگی کا حصہ بن گئے۔

    زبان سیکھنے کا سفر بھی دلچسپ تھا۔ شروع میں تو ہر چینی لفظ مجھے ایک پیچیدہ معمہ لگتا، لیکن وقت کے ساتھ جب میں نے زبان کی باریکیاں سمجھنا شروع کیں، تو مجھے محسوس ہوا کہ زبان کا حسن اس کی پیچیدگی میں ہی ہے۔ چینی زبان سیکھنے سے نہ صرف میری تعلیمی کارکردگی بہتر ہوئی بلکہ میں نے مقامی لوگوں کے ساتھ بہتر تعلقات بھی قائم کیے۔

    چین میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران میں نے دیکھا کہ وہاں کا تعلیمی نظام پاکستانی نظام سے خاصا مختلف ہے۔ چینی اساتذہ طلبہ کو تحقیق کی طرف زیادہ راغب کرتے ہیں اور عملی کام پر زور دیتے ہیں۔ یہ تجربہ میرے لیے نہایت فائدہ مند ثابت ہوا۔ میں نے سیکھا کہ تعلیم کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا نہیں، بلکہ علم کو عملی زندگی میں استعمال کرنا ہے۔

    چین میں گزارے گئے دنوں نے مجھے نہ صرف تعلیمی میدان میں ترقی دی بلکہ میری سوچ اور شخصیت کو بھی نکھارا۔ میں نے سیکھا کہ مشکلات سے گھبرانے کے بجائے انہیں قبول کر کے ان کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ چین کے تجربات نے مجھے خود اعتمادی دی، اور آج میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ سفر میری زندگی کا بہترین فیصلہ تھا۔

    اس سفرنامے کا نام “چین – جیسا میں نے دیکھا” اس لیے رکھا ہے کیونکہ چین بہت بڑا ملک ہے، جہاں مختلف قومیتیں، زبانیں، اور ثقافتیں پائی جاتی ہیں۔ ہر شخص کا تجربہ منفرد ہوتا ہے۔ میرے مشاہدات اور تجربات نہ صرف میرے ذاتی ہیں بلکہ میرے بہن بھائیوں اور قریبی دوستوں کی روداد پر بھی مشتمل ہیں۔ یہ سفرنامہ ان کہانیوں، مشاہدات، اور تجربات کا ایک مجموعہ ہے جو چین کے رنگوں اور زاویوں کو میری نظر سے پیش کرتا ہے۔

  • قومیں کیسے ترقی کرتی ہیں ؟ روبینہ یاسمین

    قومیں کیسے ترقی کرتی ہیں ؟ روبینہ یاسمین

    عامر ہاشم خاکوانی صاحب نے اپنے کالم میں ایک ایسی قوم کی لگاتار محنت کا اعتراف کیا ہے جسے بڑوں نے ہلکا لے لیا تھا۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اس قوم کے دوسروں سے مرعوب نہ ہونے کی وجہ اپنے وسائل ، اپنی زبان اور اپنے لوگوں سے تعاون کرنا ہے۔ دوسرے کیا کر رہے ہیں، ان کو اس سے مطلب نہیں، یہ اپنے کام میں مگن رہتے ہیں۔

    اکیس سال سے اپنی رہائش کی پارکنگ لاٹ عبور کرتے ہی ایک چائنیز گراسری سٹور میں تقریبآ روز کا آ نا جانا ہے۔ اتنے سالوں میں کوئی دیسی سٹور ہوتا تو ہم ایک دوسرے سے اتنے مانوس ہوتے کہ گھروں میں بھی انوائٹ کر چکے ہوتے۔ لیکن اس گراسری سٹور میں وہی کیشئر جسے میں سالوں سے جانتی ہوں، ہر بار ایسے ہی ڈیل کرتی ہے جیسے پہلی بار ہی ملی ہو۔ چیزیں نہ مل رہی ہوں تو خود ہی ڈھونڈ ڈھونڈ کے نکالنی پڑتی ہیں۔ سٹاف سے پوچھو تو وہ اشارہ کر کے چلا جاتا ہے کہ زبان نہیں آ تی۔ ان کا پورا سٹاف انگریزی اتنی ہی جانتا ہے جتنی کراچی کے پلے بڑھے بچے پنجابی بچے پنجابی جانتے ہیں، سمجھ لیتے ہیں لیکن اعتماد سے بول نہیں پاتے. یہ لوگ چاہتے تو انگریزی بولنے سمجھنے والا سٹاف رکھ سکتے تھے، ان کے سٹور کی سیل بہت زیادہ ہے۔ لیکن یہ ان کا آ پس میں تعاون ہے کہ یہ ایک دوسرے کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ انگریزی بولنے والوں کو تو کہیں بھی جاب مل جائے گی ۔ چینی بولنے والے کو اس کا ہم زبان ہی جاب دے سکتا ہے۔ جب ایک قوم آ پس میں ایک دوسرے کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کر لے تو ان کی ترقی کوئی نہیں روک سکتا۔

    مینڈکوں کی یہ حکایت تو ہم سوشل میڈیا پر بارہا پڑھ چکے ہیں۔ پہلی بار کس نے عربی سے ترجمہ کی معلوم نہیں ۔ بہرحال کریڈٹ اسی کا ہے۔ حکایت کچھ یوں ہے:

    مینڈکوں کا ایک گروہ کہیں جا رہا تھا کہ اچانک ان میں سے دو بے دھیانی میں ایک گڑھے میں جا گرے۔ باہر ٹھہرے مینڈکوں نے دیکھا کہ گڑھا ان دو مینڈکوں کی استطاعت سے زیادہ گہرا ہے تو انہوں نے اوپر سے کہنا شروع کر دیا۔ ھائے افسوس، تم اس سے باہر نہ نکل پاؤ گے، کوششیں کر کے ہلکان مت ہونا، ہار مان لو اور یہیں اپنی موت کا انتظار کرو۔ ایک مینڈک کا یہ سب کچھ سن کر دل ہی ڈوب گیا، اس نے ٹوٹے دل کے ساتھ چند کوششیں تو کیں مگر اس جان لیوا صدمے کا اثر برداشت نہ کر پایا اور واقعی مر گیا۔ دوسرے کی کوششوں میں شدت تھی اور وہ جگہ بدل بدل کر، جمپ لگاتے ہوئے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اوپر والے مینڈک پورے زور و شور سے سیٹیاں بجا کر، آوازے کستے ہوئے، اسے منع کرنے میں لگے ہوئے تھے کہ مت ہلکان ہو، موت تیرا مقدر بن چکی ہے۔ لیکن مینڈک نے اور زیادہ شدت سے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور واقعی میں باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔

    سارے مینڈک اس کے گرد جمع ہو گئے اور پوچھنا شروع کیا کہ وہ کیسے باہر نکلا تو سب کو یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ یہ والا مینڈک تو کانوں سے محروم اور بہرا تھا۔ مینڈک سارا وقت یہی سمجھ کر باہر نکلنے کیلیئے اپنا سارا زور لگاتا رہا تھا کہ باہر کھڑے ہوئے سارے مینڈک اس کے خیر خواہ اور دوست ہیں، جو اس کی ہمت بندھوا رہے ہیں اور جوش دلا رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ سارے اس کی ہمت توڑنے اور باہر نکلنے کے عزم کو ختم کرنے میں لگے ہوئے تھے۔

    تو بس چینی قوم بھی مرعوب اس لیے نہیں ہوتی ، شکوک کا شکار اس لیے نہیں ہوتی کہ وہ دوسروں کا اثر قبول ہی نہیں کرتی۔ اپنے کاموں میں مگن رہتی ہے۔

  • ڈیپ سیک سے نئے چینی سال کا استقبال، اثرات کیا ہوں گے- عارف انیس

    ڈیپ سیک سے نئے چینی سال کا استقبال، اثرات کیا ہوں گے- عارف انیس

    نیا چینی سال شروع ہو چکا ہے اور یہ “ائیر آف دا سنیک”، سانپ کا سال ہے. اب شاید آپ کو ڈیپ سیک (امید ہے آپ کے کان یہ نام سن کر پکنے والے ہوں گے) کی ریلیز کی ٹائمنگ بھی سمجھ آئی ہوگی. چینی، اپنے سال کا آغاز شرلی پٹاخوں والا چھابہ الٹ کر کرنا چاہ رہے ہیں.

    جانیو، کہانی اتنی سادہ نہیں ہے. نہ ہی یہ دو چار دن کا سٹاک مارکیٹ کا بھونچال ہے. مارکیٹ تو روز اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے، مگر جب مارکیٹ الٹ جائے تو کچھ خاص ہوتا ہے. آج نیو یارک ٹائمز کے صفہ اول پر کیون روز کا خصوصی تجزیہ ہے، جو وہی بات کرتا ہے جو دو دن پہلے میں نے کی. اگر چینی 6 ملین ڈالرز میں یہ ماڈل بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو اصل کہانی یہ ہے کہ اب ایسے ماڈل سینکڑوں کی تعداد میں بنیں گے. ایسے میں ان بڑے کھلاڑیوں کو کھجلی ہو رہی ہے جنہوں نے اے آئی کے نام پر سینکڑوں ارب ڈالرز جمع کرلیے ہیں.

    کیون نے مصنوعی ذہانت (AI) کی دنیا میں ایک ایسے دھماکے کا ذکر کیا ہے جس نے اسٹاک مارکیٹس کو ہلا کر رکھ دیا ہے، سلیکون ویلی کے بڑے ناموں کو پریشان کر دیا ہے، اور امریکہ کی تکنیکی برتری کے خاتمے کے بارے میں چہ مگوئیاں شروع کر دی ہیں۔ یہ تہلکہ خیز پیش رفت ایک عام سے، بظاہر سادہ عنوان کے ساتھ سامنے آئی: “Incentivizing Reasoning Capability in LLMs via Reinforcement Learning”۔

    یہ 22 صفحات پر مشتمل تحقیقی مقالہ پچھلے ہفتے “ڈیپ سیک” نامی ایک چینی AI اسٹارٹ اپ نے جاری کیا تھا۔ شروع میں کسی کو خطرے کا احساس نہیں ہوا۔ کچھ دن بعد، جب محققین نے اس مقالے کے دعوؤں اور اس کے مضمرات کو سمجھا تو حیران رہ گئے۔ کمپنی نے “ڈیپ سیک-آر1” نامی ایک نیا AI ماڈل بنایا تھا۔ محققین کی ایک ٹیم نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے کم تعداد میں دوسرے درجے کے AI چپس استعمال کر کے، معمولی خرچ پر، امریکی AI ماڈلز کی کارکردگی کا مقابلہ کر لیا ہے۔ ڈیپ سیک کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ کارنامہ خام کمپیوٹنگ پاور کی بجائے شاندار انجینئرنگ کے ذریعے حاصل کیا۔ اور یہ سب انہوں نے چین میں کیا، ایسا ملک جس کے بارے میں بہت سے ماہرین کا خیال تھا کہ وہ عالمی AI دوڑ میں بہت پیچھے ہے۔

    صنعت پر نظر رکھنے والوں میں سے کچھ لوگوں نے شروع میں ڈیپ سیک کی اس پیش رفت پر یقین نہیں کیا۔ ان کا خیال تھا کہ شاید ڈیپ سیک نے دھوکہ دہی سے آر1 کے نتائج حاصل کیے ہیں، یا اپنے ماڈل کو زیادہ متاثر کن بنانے کے لیے اعداد و شمار میں ہیر پھیر کی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ چینی حکومت امریکی AI کی برتری کے بیانیے کو کمزور کرنے کے لیے پروپیگنڈا کر رہی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ڈیپ سیک نے غیر قانونی طور پر حاصل کردہ Nvidia H100 چپس کا ذخیرہ چھپا رکھا ہو، جن پر امریکی برآمدی کنٹرول کے تحت پابندی عائد ہے، اور اس بارے میں جھوٹ بول رہا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ R1 درحقیقت امریکی AI ماڈلز کی ایک ہوشیار ری-اسکننگ ہو اور حقیقی معنوں میں کوئی بڑی پیش رفت نہ ہو۔

    لیکن پھر، جب مزید لوگوں نے ڈیپ سیک-آر1 کی تفصیلات کا جائزہ لینا شروع کیا – جو کہ زیادہ تر معروف AI ماڈلز کے برعکس، اوپن سورس سافٹ ویئر کے طور پر جاری کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے بیرونی لوگ اس کے اندرونی کام کاج کو زیادہ قریب سے دیکھ سکتے تھے – تو ان کا شک آہستہ آہستہ تشویش میں بدلنے لگا۔ اور پچھلے ہفتے کے آخر میں، جب بہت سارے امریکیوں نے خود ڈیپ سیک کے ماڈلز کا استعمال شروع کیا، اور ڈیپ سیک موبائل ایپ ایپل کے ایپ اسٹور پر پہلے نمبر پر پہنچ گئی، تو یہ تشویش ایک مکمل خوف و ہراس میں تبدیل ہو گئی۔

    میں نے پچھلے کچھ دنوں میں جو انتہائی ڈرامائی تبصرے دیکھے ہیں، ان پر مجھے شک ہے – جیسے کہ سلیکون ویلی کے ایک سرمایہ کار کا یہ دعویٰ کہ ڈیپ سیک امریکی ٹیک انڈسٹری کو تباہ کرنے کے لیے چینی حکومت کا ایک منصوبہ ہے۔ مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ کمپنی کے کم بجٹ کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہو، یا یہ کہ اس نے امریکی AI فرموں کی پیش رفت سے فائدہ اٹھایا ہو اور اسے ظاہر نہ کیا ہو۔ لیکن میں یہ ضرور سمجھتا ہوں کہ ڈیپ سیک کی R1 پیش رفت حقیقی تھی۔ صنعتی ماہرین کے ساتھ میری بات چیت، اور ماہرین کی جانب سے ایک ہفتے تک اس مقالے کے نتائج کی جانچ پڑتال کی بنیاد پر، ایسا لگتا ہے کہ یہ امریکی ٹیک انڈسٹری کے کئی بڑے مفروضوں کو غلط ثابت کر رہا ہے۔

    پہلا مفروضہ یہ ہے کہ جدید ترین AI ماڈلز بنانے کے لیے، آپ کو طاقتور چپس اور ڈیٹا سینٹرز پر بے تحاشہ رقم خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ نظریہ کتنا بنیادی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ مائیکروسافٹ، میٹا اور گوگل جیسی کمپنیوں نے پہلے ہی اربوں ڈالر اس انفراسٹرکچر کو بنانے میں خرچ کر دیے ہیں جو ان کے خیال میں اگلی نسل کے AI ماڈلز بنانے اور چلانے کے لیے ضروری تھا۔ وہ مزید اربوں ڈالر خرچ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں – یا، اوپن اے آئی کی صورت میں، اوریکل اور سافٹ بینک کے ساتھ ایک مشترکہ منصوبے کے ذریعے 500 بلین ڈالر تک، جس کا اعلان گزشتہ ہفتے کیا گیا تھا۔

    ایسا لگتا ہے کہ ڈیپ سیک نے R1 بنانے میں اس کا ایک چھوٹا سا حصہ خرچ کیا ہے۔ ہمیں صحیح لاگت کا علم نہیں ہے، اور ان اعداد و شمار کے بارے میں بہت سی باتیں دھیان میں رکھنی ہیں جو انہوں نے اب تک ظاہر کیے ہیں۔ یہ تقریباً یقینی طور پر 5.5 ملین ڈالر سے زیادہ ہے، وہ رقم جو کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس نے ایک پچھلے ماڈل کی تربیت پر خرچ کی تھی۔ لیکن اگر R1 کی تربیت پر ڈیپ سیک کے دعوے سے 10 گنا زیادہ لاگت آئی ہو، اور یہاں تک کہ اگر آپ ان دیگر اخراجات کو بھی شامل کر لیں جو انہوں نے چھوڑ دیے ہوں، جیسے انجینئرز کی تنخواہیں یا بنیادی تحقیق کرنے کے اخراجات، تب بھی یہ امریکی AI کمپنیوں کی جانب سے اپنے سب سے زیادہ قابل ماڈلز کو تیار کرنے پر خرچ کی جانے والی رقم کے پانچ فیصد بہت کم ہو گی۔

    اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ امریکی ٹیک کمپنیاں اپنا پیسہ ضائع کر رہی ہیں، درست نہیں ہے۔ طاقتور AI ماڈلز کو چلانا اب بھی مہنگا ہے، اور یہ سوچنے کی وجوہات ہیں کہ اوپن اے آئی اور گوگل جیسی کمپنیوں کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرنا اب بھی سمجھ میں آتا ہے، جو دنیا میں نمبر ون رہنے کے لیے مہنگے دام ادا کر سکتی ہیں۔ لیکن لاگت پر ڈیپ سیک کی پیش رفت “بڑا ہی بہتر ہے” کے بیانیے کو چیلنج کرتی ہے جس نے حالیہ برسوں میں AI میں مسابقت کی دوڑ کو آگے بڑھایا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ نسبتاً چھوٹے ماڈلز، جب مناسب طریقے سے تربیت یافتہ ہوں، بڑے ماڈلز کی کارکردگی کا مقابلہ کر سکتے ہیں یا اس سے بھی آگے نکل سکتے ہیں جو ڈیپ سیک نے ثابت کردکھایا ہے. اس کا مطلب یہ ہے کہ AI کمپنیاں پہلے کے اندازوں سے کہیں کم سرمایہ کاری کے ساتھ بہت طاقتور صلاحیتیں حاصل کر سکیں گی۔ اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہم جلد ہی چھوٹے AI اسٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری کا سیلاب دیکھ سکتے ہیں، اور سلیکون ویلی کے بڑے ناموں کے لیے بہت زیادہ مقابلہ بھی۔ (جو کہ، اپنے ماڈلز کی تربیت کے بھاری اخراجات کی وجہ سے، اب تک زیادہ تر آپس میں ہی مقابلہ کر رہے تھے۔)

    کچھ دوسری، زیادہ تکنیکی وجوہات بھی ہیں جن کی وجہ سے سلیکون ویلی میں ہر کوئی ڈیپ سیک پر توجہ دے رہا ہے۔ تحقیقی مقالے میں، کمپنی R1 کی تعمیر کے بارے میں کچھ تفصیلات بتاتی ہے، جس میں ماڈل ڈسٹلیشن میں کچھ جدید ترین تکنیکیں شامل ہیں۔ (اس کا مطلب بنیادی طور پر بڑے AI ماڈلز کو چھوٹے ماڈلز میں کمپریس کرنا ہے، جس سے کارکردگی میں زیادہ کمی کیے بغیر انہیں چلانے میں کم خرچ آتا ہے۔)

    ڈیپ سیک نے ایسی تفصیلات بھی شامل کیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ “ونیلا” AI لینگویج ماڈل کو ایک زیادہ نفیس ریزننگ ماڈل میں تبدیل کرنا اتنا مشکل نہیں تھا جتنا پہلے سوچا گیا تھا، اس کے لیے ری انفورسمنٹ لرننگ نامی ایک تکنیک کا استعمال کیا گیا۔ (اگر یہ اصطلاحات آپ کے سر کے اوپر سے گزر جائیں تو پریشان نہ ہوں – اہم بات یہ ہے کہ AI سسٹمز کو بہتر بنانے کے طریقے جو پہلے امریکی ٹیک کمپنیوں کی جانب سے خفیہ رکھے جاتے تھے، اب ویب پر موجود ہیں، اور کوئی بھی انہیں مفت میں لے کر استعمال کر سکتا ہے۔) یہاں تک کہ اگر آنے والے دنوں میں امریکی ٹیک کمپنیوں کے اسٹاک کی قیمتیں بحال ہو جائیں، ڈیپ سیک کی کامیابی ان کی طویل مدتی AI حکمت عملیوں کے بارے میں اہم سوالات اٹھاتی ہے۔ اگر ایک چینی کمپنی سستے، اوپن سورس ماڈلز بنا سکتی ہے جو مہنگے امریکی ماڈلز کی کارکردگی کا مقابلہ کرتے ہیں، تو کوئی امریکی ماڈلز کے لیے پیسے کیوں دے گا؟ اور اگر آپ میٹا ہیں – واحد امریکی ٹیک کمپنی جو اپنے ماڈلز کو مفت اوپن سورس سافٹ ویئر کے طور پر جاری کرتی ہے – تو کون سی چیز ڈیپ سیک یا کسی دوسرے اسٹارٹ اپ کو آپ کے ماڈلز لینے سے روکتی ہے، جن پر آپ نے اربوں ڈالر خرچ کیے، وہ انہیں چھوٹے، سستے ماڈلز میں تبدیل کر کے پیسوں کے عوض پیش کردیں گے.

    ڈیپ سیک کی پیش رفت ان جغرافیائی سیاسی مفروضوں کو بھی کمزور کرتی ہے جو بہت سے امریکی ماہرین چین کی AI دوڑ میں پوزیشن کے بارے میں قائم کر رہے تھے۔

    سب سے پہلے، یہ اس بیانیے کو چیلنج کرتا ہے کہ چین طاقتور AI ماڈلز بنانے کے معاملے میں بہت پیچھے ہے۔ برسوں سے، بہت سے AI ماہرین (اور پالیسی ساز جو ان کی سنتے ہیں) یہ فرض کر رہے تھے کہ امریکہ کو کم از کم کئی سالوں کی برتری حاصل ہے، اور یہ کہ امریکی ٹیک فرموں کی پیش رفت کی نقل کرنا چینی کمپنیوں کے لیے بہت مشکل ہے۔ لیکن ڈیپ سیک کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ چین کے پاس جدید AI صلاحیتیں ہیں جو اوپن اے آئی اور دیگر امریکی AI کمپنیوں کے ماڈلز کا مقابلہ کر سکتی ہیں یا ان سے بھی آگے نکل سکتی ہیں، اور یہ کہ امریکی فرموں کی جانب سے کی گئی پیش رفت کو چینی فرموں – یا کم از کم، ایک چینی فرم – کے لیے چند ہفتوں میں نقل کرنا معمولی حد تک آسان ہو سکتا ہے۔

    یہ نتائج اس بارے میں بھی سوالات اٹھاتے ہیں کہ کیا امریکی حکومت کی جانب سے طاقتور AI سسٹمز کو حریفوں تک پہنچنے سے روکنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات – یعنی، طاقتور AI چپس کو چین کے ہاتھ میں جانے سے روکنے کے لیے استعمال کیے جانے والے برآمدی کنٹرول – صحیح طریقے سے کام کر رہے ہیں، یا ان ضوابط کو ماڈلز کی تربیت کے نئے، زیادہ موثر طریقوں کو مدنظر رکھنے کے لیے ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور، یقیناً، اس بارے میں بھی خدشات ہیں کہ اگر چین لاکھوں امریکیوں کے استعمال کردہ طاقتور AI سسٹمز بنانے میں سبقت لے جاتا ہے تو رازداری اور سنسرشپ کے لیے اس کے کیا معنی ہوں گے۔ ڈیپ سیک کے ماڈلز کے صارفین نے دیکھا ہے کہ وہ چین کے اندر حساس موضوعات، جیسے تیانمن اسکوائر قتل عام اور ایغور حراستی کیمپوں کے بارے میں سوالات کا جواب دینے سے انکار کرتے ہیں۔ اگر دوسرے ڈویلپرز ڈیپ سیک کے ماڈلز پر کام کرتے ہیں، جیسا کہ اوپن سورس سافٹ ویئر کے ساتھ عام ہے، تو یہ سنسرشپ کے اقدامات پوری انڈسٹری میں پھیل سکتے ہیں۔ رازداری کے ماہرین نے اس حقیقت کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ڈیپ سیک ماڈلز کے ساتھ شیئر کیا جانے والا ڈیٹا چینی حکومت کی رسائی میں ہو سکتا ہے۔ اگر آپ ٹک ٹاک کو نگرانی اور پروپیگنڈے کے آلے کے طور پر استعمال کیے جانے کے بارے میں فکر مند تھے، تو ڈیپ سیک کا عروج بھی آپ کو پریشان کرنا چاہیے۔

    میں اب بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ڈیپ سیک کی پیش رفت کا مکمل اثر کیا ہو گا، یا یہ کہ ہم R1 کی ریلیز کو AI انڈسٹری کے لیے “سپتنک لمحہ” سمجھیں گے، جیسا کہ کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا ہے۔ لیکن یہ سنجیدگی سے لینا سمجھداری کی بات ہوگی کہ ہم اب AI کی بالادستی کے ایک نئے دور میں ہیں – کہ سب سے بڑی اور امیر ترین امریکی ٹیک کمپنیاں اب پہلے کی طرح جیت نہیں سکتیں، اور یہ کہ تیزی سے طاقتور AI سسٹمز کے پھیلاؤ کو روکنا ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ مشکل ہو سکتا ہے۔ کم از کم، ڈیپ سیک نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی دوڑ صحیح معنوں میں شروع ہو چکی ہے، اور یہ کہ کئی سالوں کی حیران کن ترقی کے بعد، ابھی بھی بہت سے سرپرائزز باقی ہیں۔

  • ڈیپ سیک؛ ایک چینی کمپنی نے ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی سیاست کا نقشہ بدل دیا – اعظم علی

    ڈیپ سیک؛ ایک چینی کمپنی نے ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی سیاست کا نقشہ بدل دیا – اعظم علی

    ایک چینی ویڈیو اسٹریمنگ ایپ ٹک ٹاک کے امریکہ میں تاریک ہونے کے اگلے دن ہی ایک اور چینی ڈیجیٹل پروڈکٹ جغرافیائی ٹیکنالوجی کی سیاسی حرکیات تبدیل کرنے کے لیے دھماکے دار انداز میں نمودار ہو گئی۔ اے آئی اسٹارٹ اپ ڈیپ سیک نے ایک لارج لینگویج ماڈل (LLM) جاری کیا ہے جو ممکنہ طور پر بعض چیزوں میں اوپن آے آئی کی (چیٹ جی پی ٹی) جیسی یا بہتر کار کرکردگی کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن یہ مکمل کہانی نہیں ہے۔

    سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ڈیپ سیک نے بظاہر یہ کارنامہ اوپن سورس سے پیدا ہونے والے AI کو اور اپنے LLM کو سکھانے کے لیے استعمال کیا۔ ڈیپ سیک نے ایک پروسیس جسے ” فائن ٹیوننگ“ کہتے ہیں کو استعمال کرکے چیٹ جی پی ٹی ہی کے موجودہ اوپن سورس ماڈل سے حاصل کیا۔ اوپن اے آئی نے اپنے اعلامیہ میں کہا ہے کہ ”ہم اس بات سے واقف ہیں اور اس کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ڈیپ سیک نے نامناسب طور پر ہمارے ماڈلز استعمال (چوری) کیے ہیں، ہم اپنی ٹیکنالوجی کے تحفظ کے لیے بھرپور اقدامات کریں گے۔“

    ڈیپ سیک نے ایک پری ٹرینیڈ ماڈل اپنی ضرورت کے مطابق تیار کرلیا ہے، اور وہ بھی انتہائی کم اخراجات کے ساتھ (تقریباً چھ ملین ڈالر)، اور اوپن اے آئی و دیگران نے اپنی مشین لرننگ ماڈلز سیکھنے میں جو وقت لگایا اس کے مقابلے انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ کیا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اُنہوں نے اپنا AI ماڈل Nvidia کی اعلیٰ ترین AI چپ کے بغیر بنایا ہے، جبکہ فی الوقت ٹیکنالوجی کی دنیا میں AI کی کسی بھی سسٹم کے لیے Nvidia کی چپ کا کوئی متبادل نہیں ہے، اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کے بغیر کوئی سیکھنے والا AI ماڈل بن ہی نہیں سکتا۔ یہی وجہ تھی کہ اس اعلان کے جھٹکے سے Nvidia کی آرٹی فیشل انٹیلی جنس پر اجارہ داری کے خاتمے کے خدشے کی وجہ سے نیویارک کی شیئر مارکیٹ میں کمپنی کے حصص بری طرح گرے، لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو جنوری گذشتہ جنوری میں اس کمپنی کے حصص پچاس ڈالر کے قریب تھے، اور ڈیپ سیک کے اس دھماکے سے ایک دن قبل 148 ڈالر کو چھو کر ڈیپ سیک کے اعلان کے بعد 118 پر بند ہوئے اور 120/125 کے درمیان مستحکم ہو گئے۔

    (اگر واقعی چین Nvidia کی چپ کے بغیر AI سسٹم چلانے کے قابل ہو گیا ، تب بھی نویڈیا کمپنی کی اجارہ داری ختم ہونے سے منافع میں کمی تو ضرور ہو گی اور شیئر کی قیمتوں میں کمی کے امکانات رہیں گے، لیکن کمپنی کی ساکھ اور بنیاد پھر بھی مضبوط ہے، یا کم از کم مستقبل قریب میں اسے کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے)

    بین الاقوامی سیاست پر ہونے والے دور رس اثرات
    ڈیپ سیک کی آمد سے بین الاقوامی سیاست کے دو محاذوں پر دور رس اثرات رونما ہو سکتے ہیں ۔۔

    پہلا :- ڈیپ سیک نے آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور سیمی کنڈکٹر (چپ) کے باہمی ربط کو دنیا کی توجہ کا مرکز بنادیا ہے، اصول یہی ہے کہ جس کے پاس دنیا کے جدید ترین سیمی کنڈکٹر (چپ) ہیں وہ AI کی دوڑ بھی کنٹرول کرے گا۔ سیمی کنڈکٹر چپس تمام جدید ایجادات کی بنیادی ٹیکنالوجی ہے۔ لیکن اگر اس آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور سیمی کنڈکٹر (چپ) ربط کو اوپن سورس کی کھلی اور ہر خاص و عام کے لیےموجود ٹیکنالوجی کے ذریعے مہنگی اور جدید ترین AI چپ کے بغیر کام چلایا جاسکتا ہے تو پھر یہ پوری دینا کے لیے مساوی کھیل کا میدان بن جائے گا۔

    دوسرا:- اگر یہ واقعی سچ ہے (اس پر شبہات ہیں)۔ تو اس کے نتیجے میں امریکہ کے ہاتھوں میں دیگر ممالک و حکومتوں کو دباؤ میں رکھنے کے لیے کم از کم آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی حدتک ، ایکسپورٹ کنٹرول، ٹیکنالوجی ٹرانسفر و دیگر پابندیوں کا ہتھیار چھِن جائے گا۔بالخصوص اس سے امریکہ – چین کی چِپ وار کی حرکیات تبدیل ہو جائیں گی۔

    ڈیپ سیک کے کارنامے کو ٹیکنو – قوم پرستی کے وسیع تناظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے، جس کے مطابق ملک کی سالمیت ، سماجی استحکام، اور معاشی طاقت کا منبع قومی اداروں (سرکاری یا نجی) کے ٹیکنالوجی میں مہارت پر منحصر ہے۔ اس تناظر میں امریکہ اور چین دونوں طاقت کو تیزی سے ضرب دینے والی تمام اہم صنعتوں (ایڈوانس مینوفیکچرنگ سے کوانٹم سائنس تک) میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے ہاتھا پائی میں مصروف ہیں ۔ اگر اسے ٹیکنو – قوم پرستی کے تناظر میں دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ ڈیپ سیک نے بیجنگ کو بین الاقوامی تعلقات میں حقیقی وزن کے ساتھ نئے چینی سال (جو 28 جنوری کو شروع ہوا ہے) کا شاندار تحفہ دیا ہے۔

    کیا امریکہ کے ہاتھ میں کچھ نہیں بچا؟
    واشنگٹن اور اس کے اتحادی چین کے ساتھ ہونے والی چِپ کی جنگ میں بھرپور سبقت رکھتے ہیں، کیونکہ وہ جدید ترین چِپ بنانے کے لیے لازمی ٹیکنالوجی جسے اس تناظر میں دَم گھونٹے والے پوائنٹس کہا جاسکتا ہے، کا ان کے پاس مکمل کنٹرول ہے۔ یہ دم گھونٹنے والے پوائنٹس بشمول ہالینڈ کی ASML کے تیار کردہ extreme ultraviolet (EUV) ایکسٹریم الٹرا وائلیٹ ایکویپمنٹ ، یا ایچنگ اور میٹلرجی مشینیں جو امریکی کمپنیاں ایپلائیڈ ریسرچ یا LAM ریسرچ بناتی ہیں۔ اس کے علاوہ الیکٹرونک ڈیزائن سافٹ وئیر ، خصوصی کیمیکل اور دیگر سامان امریکہ، جاپان، جنوبی کوریا، تائیوان و یورپی کمپنیاں ۔۔ یہ تمام ممالک مکمل طور پر امریکہ کے زیراثر ہیں ۔ اب تک چین اپنی ایڈوانسڈ چپ بنانے کے خواب کو پورا کرنے کے لیے ان اہم اور ضروری ٹیکنالوجیز کو نہیں حاصل کر پایا۔ AI اور سیمی کنڈکٹر دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، اس لیےجدید ترین سیمی کنڈکٹر (چپ) کی ٹیکنالوجی کے بغیر بہت دور تک نہیں جایا جاسکتا ۔

    جدید ترین چِپ ٹیکنالوجی جو اس ٹیکنو – قوم پرستی کی طاقت کو کئی گُنا بڑھا سکتی ہے، کے دسترس میں نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ ایرواسپیس، ٹیلی کمیونیکیشن، توانائی، بائیوٹیک، کوانٹم اور پھر AI جس میں سپر کمپیوٹنگ ، مشین لرننگ ، الگورتھم اور سافٹ وئیر ، ان تمام شعبوں میں مکمل مہارت حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اب ڈیپ سیک کی وجہ سے اس بات کا امکان ہے کہ کسی نہ کسی حدتک ان دم گھونٹے والے پوائنٹس سے بچ کر نکلنے کا راستہ مل سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے درجے کی سیمی کنڈکٹر بنانے والی اقوام بھی آرٹی فیشل انٹیلی جنس میں پہلے درجے کا مقام حاصل کرسکتے ہیں اور اس کے کئی فوائد بشمول فوجی صلاحیت اور معاشی مسابقت سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

    دنیا میں ٹیکنالوجی کے تین بلاک
    دسمبر 2024 میں اس وقت کے امریکی صدر بائیڈن نے جاتے جاتے سیمی کنڈکٹر سے متعلق ٹیکنالوجی کو چین کے ہاتھ جانے سے روکنے کے لیے کئی برآمدی پابندیاں عائد کیں، پابندیوں کے اس تازہ ترین اعلان میں 24 گروپ کے چپ بنانے کے اوزار اور تین اقسام کے چِپ ڈیزائن سافٹ وئیر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چین کی 140 نئی چِپ بنانے والی کمپنیوں پر بھی پابندی لگائی گئی۔ ان پابندیوں کی فہرست میں پرانے ازکار رفتہ چپ بنانے کی مشینیں بھی شامل ہیں۔

    واشنگٹن کے یہ اقدامات نام نہاد ”چھوٹا آنگن پر اونچی دیوار“ پالیسی کا حصہ ہیں، اس کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ کے ہاتھوں میں فیصلہ کن اختیار رہے کہ کسے اسٹریٹجک امریکی ٹیکنالوجی تک رسائی دی جائے اور کس کو آنگن میں گھُسنے نہ دیا جائے۔ اس اقدام کا اہم نتیجہ یہ ہے کہ ٹیکنو ۔ قوم پرستی نکتہ نظر سے واشنگٹن نے رسمی طور پر دنیا کی اقوام کو تین واضح گروپوں میں تقسیم کردیا ہے، بلکہ یہ اس تقسیم کی رفتار کو تیز اور مزید واضح کرنے کا اعلان تھا۔ پہلا گروپ امریکہ کے روایتی حلیف و دفاعی اتحادی ، ان تمام ممالک کو اس آنگن میں مکمل آزادانہ آمد و رفت کی اجازت ہے جن میں ، کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ، مغربی یورپ، جرمنی، فرانس، جاپان و جنوبی کوریا شامل ہیں۔ دوسرا گروپ درمیانے درجے پر جن میں مشرقی یورپ، انڈیا ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پورے جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک شامل ہیں ۔جنہیں کچھ بہتر مگر مکمل نہیں کے اصول کے تحت اس ٹیکنالوجیکل آنگن میں داخلے کی محدود و مشروط اجازت دی جاتی ہے۔ اس طرح امریکہ ان ممالک کو کاروباری اور اسٹریٹجک ٹیکنالوجی کے تعاون کے لیے بشمول آرٹی فیشل انٹیلی جنس سسٹم، ڈیٹا سینٹرز، توانائی کے انفراسٹرکچر اور فوجی و معاشی طاقت کو ضرب دینے والی (multiplier) ٹیکنالوجی پر اپنے کنٹرول کے ذریعے چین کے ساتھ ہونے والی رسّہ کشی میں اپنے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور کرے گا۔ تیسرا گروپ روس، چین، ایران و شمالی کوریا، ان ممالک کے لیے سخت ترین پابندیاں ہیں، انھیں دونوں اوّلین دونوں گروپوں سے بھی ٹیکنالوجی کے حصول پر پابندی ہے، اگر کوئی ملک انھیں ممالک کو ٹیکنالوجی ٹرانسفر کرتا ہے، تو اسے سزا دی جاتی ہے۔

    لیکن اگر ان تینوں گروپوں کے سرکاری یا نجی ادارے بھی (ڈیپ سیک کی طرح) اوپن سورس یعنی آزادانہ موجود آرٹی فیشل انٹیلی جنس کو استعمال کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں تو اس کی وجہ سے بھی دور حاضر کی ٹیکنو-قوم پرستی کی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی ہو گی، بالخصوص درمیانے (دوسرے) گروپ کے ممالک (امریکی دباؤ سے) آزادانہ فیصلے کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔

    ناقابل یقین ۔۔۔۔
    اس بات کا اتنا جلد یقین نہیں کیا جاسکتا کہ ڈیپ سیک نے واقعی یہ سب کچھ اوپن سورس کے AI سسٹم کے ذریعے ہی کیا ہے . ابتدائی طور پر امریکی پابندیوں کے نافذ ہونے سے قبل کمپنی نے 10 ہزار Nvidia کی 100A GPU AI چپ خریدی تھیں۔ ممکن ہے ان چپس نے ڈیپ سیک کے AI پروگرام میں (ڈیپ سیک کے اعتراف سے زیادہ بڑا) کردار انجام دیا ہے یا اب بھی دے رہی ہیں ۔ یا کسی اور غیر ملکی ٹیکنالوجی نے ان کے AI پروگرام میں اہم تعاون کیا جو اب تک نظروں سے اوجھل ہے۔ اس سے قبل بھی ایسا ہو چُکا ہے جب 2023 میں چینی کمپنی Huawei کی کمپنی HiSilicon اور چینی چپ بنانے والی کمپنی نے مشترکہ طور پر یہ اعلان کیا کہ انھوں نے امریکی پابندیوں کو ناکام بناتے ہوئے مکمل طور پر چینی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے Huawei کے Mate 60 اسمارٹ فون کے لیے 7 نینو میٹر کی چپ بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اس میں امریکی پابندیوں کے نفاذ سے قبل خریدی ہوئی ہالینڈ کی بنائی ہوئی ڈیپ الٹرا وائلیٹ مشین DUV استعمال کی گئی تھیں ۔

    چاہے ڈیپ سیک کا دعوی درست ہو یا نہیں ۔۔ اس کے ساتھ وہی مسائل پیش آنے ہیں جو ٹک ٹاک کے ساتھ امریکہ میں پیش آئے تھے. بطور چینی ملکیتی پلیٹ فارم ان کے بارے میں پرائیویسی نہ ہونے اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے عمل دخل اور اثرات کا خدشہ ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جس طرح ٹک ٹاک کے ساتھ کیا ، اسی طرح ڈیپ سیک کے لیے امریکی ملکیت کا مطالبہ کرسکتے ہیں، یا کسی دوسرے طریقے سے بھی رعایتیں حاصل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ ممکن ہے حالیہ اعلان شدہ 500 بلین ڈالر کے امریکی اسٹار گیٹ AI پروگرام کے تحت چینی ریسرچ میں بھی امریکی سرمایہ کاری کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ بظاہر ناممکن لگتا ہے کہ چین اس سلسلے میں امریکی یا کوئی اور دباؤ قبول کرے. ٹک ٹاک ایک کمرشل پلیٹ فارم ہے جو امریکہ میں بھی کاروبار کرتا ہے، اسے کاروباری مفاد کے طور پر دباؤ میں ڈالا جاسکتا ہے لیکن پھر بھی اس میں اب تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ جبکہ AI ایک قومی پروجیکٹ ہے، اسے کسی بھی مالی مفاد کے دباؤ میں قربان نہیں کیا جاسکتا۔

    گذشتہ روز صدر ٹرمپ نے Nvidia کے CEO جینسن ہوانگ (جو ایک تائیوانی نژاد امریکی ہیں) سے ملاقات کی جس میں ڈیپ سیک کے اعلان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ امکان ہے کہ Nvidia کی AI چِپ کی برآمدات پر مزید پاپندیاں لگائی جائیں گی تاکہ طاقتورترین کمپیوٹنگ ٹیکنالوجی میں بالادستی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں میں سے نہ نکلنے پائے۔ اس کے ساتھ ہی امریکی حکومت یقیناً اہم اسٹریٹجک ٹیکنالوجی کے اوپن سورس پلیٹ فارم سے پھیلاؤ کو بھی روکنے کی کوشش کرے گی تاکہ آئندہ کوئی ان سے فائدہ نہ اُٹھا سکے۔

    جیسا بھی ہے اب یہ بات واضح ہےکہ ڈیپ سیک نے AI کے کھیل کے قوانین تبدیل کردیے ہیں، اور اس کے ساتھ ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی سیاست کے قوانین بھی۔ دوسری طرف ڈیپ سیک نے امریکہ کو AI کے میدان میں ایک شاک یا جھٹکا تو دیا ہے لیکن جب تک چین سیمی کنڈکٹر چِپ ٹیکنالوجی میں اپنی کمزوری کا حل تلاش نہیں کرپاتا ، اس کے مکمل فوائد سے استفادہ ممکن نہیں ہو گا۔

    (اس مضمون کی تیار میں ایلیکس کیپری ۔۔ NUS بزنس اسکول اور لی کوان یو اسکول آف پبلک پالیسی ۔۔ نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے استاد اور Techno-Nationalism: How it’s Reshaping Trade, Geopolitics and Society (Wiley) کے مصنف، کئی چینل و نیوز ایشیا میں 29 جنوری 2025 کو شائع شدہ تحریر سے استفادہ کیا گیا ہے)