ہم روزمرہ زندگی میں مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملتے ہیں، اور جب یہ لوگ آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو ان کے مخصوص جملے سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہر پیشے کی اپنی ایک الگ “زبان” ہوتی ہے۔ یہ وہ زبان ہوتی ہے جسے صرف اسی فیلڈ کے لوگ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ جب مختلف شعبوں کے افراد آپس میں ملتے ہیں تو ان کی گفتگو کیسی ہوتی ہے۔
صحافی جب ملتے ہیں تو کہتے ہیں، “یار وہ منسٹر کے کرپشن کی سٹوری نکالنے میں بڑے پاپڑ بیلنے پڑے، سورس خبر دینے سے ڈر رہا تھا۔ اسے قسمیں کھائیں کہ تمھارا نام نہیں آئے گا، پیسوں اور کھانے کا لالچ دیا، مگر وہ کہتا تھا کہ میں پیسوں کے لیے خبر نہیں دے رہا، بس عوام کے پیسے کھائے جا رہے ہیں، اس لیے غصہ آ رہا ہے۔” دوسرا صحافی جواب دیتا ہے، “بالکل! میرے ساتھ بھی ایسا ہی ایک سال پہلے ہوا تھا، ایک بندہ بڑی خبر دینے پر راضی تھا، مگر عین وقت پر غائب ہو گیا۔”
ڈرائیور آپس میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، “یار، وہ پچاس ماڈل کی گاڑی بیچ کر دو ہزار ماڈل لے لی ہے، اب خرچہ کم ہو گیا ہے۔” دوسرا کہتا ہے، “ہاں یار، نئی گاڑیاں کم تیل لیتی ہیں، پرانی گاڑی تو بس پیٹرول پینے کے لیے بنی تھی!”
ڈاکٹر ملتے ہیں تو کہتے ہیں، “یار، میں تو ڈر گیا تھا جب اُس خاتون کا آپریشن کر رہا تھا۔ آپریٹ کرتے وقت لگا کہ شاید میں نے غلط رگ کاٹ دی ہے، مگر وہ ٹھیک رگ تھی۔ نجانے ہماری بھی کیا لائف ہے!” دوسرا جواب دیتا ہے، “ہاں یار، کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ ہم انجینئر سے زیادہ مستری بن گئے ہیں، بس جوڑ توڑ میں لگے رہتے ہیں!”
وکیل عدالت میں ہونے والے تجربات شیئر کرتے ہوئے کہتے ہیں، “یار، کل کی سماعت میں جج صاحب نے تو مجھے چپ ہی کرا دیا، جیسے ہی میں نے دلائل دینا شروع کیے، سامنے والا وکیل اعتراض پر اعتراض اٹھاتا گیا۔” دوسرا وکیل کہتا ہے، “ہاں یار، کچھ جج تو بس چاہتے ہیں کہ کیس جلدی نمٹ جائے، کل میں نے تو اپنے موکل کو کہا کہ اگلی تاریخ کا انتظار کریں، جج صاحب کا موڈ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔”
قصائی جب بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں، “یار، آج گوشت لینے آیا تو کہنے لگا، ’بھائی صاحب آج بکرے کم آئے ہیں، ریٹ تھوڑا زیادہ ہوگا!‘” دوسرا ہنستے ہوئے کہتا ہے، “اور جب شام کو گیا ہوگا تو بولا ہوگا، ’ابھی ابھی تازہ گوشت آیا ہے، ریٹ اور بھی زیادہ ہوگیا ہے!‘”
بینکر جب آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو ایک کہتا ہے، “آج تو ایک کلائنٹ آیا، کہنے لگا یار مجھے پانچ لاکھ کا لون چاہیے، لیکن کریڈٹ ہسٹری بالکل زیرو تھی!” دوسرا ہنستے ہوئے کہتا ہے، “میں نے کہا بھائی، یا کوئی گارنٹی لے آؤ یا کسی اور بینک چلے جاؤ۔”
انجینئر ایک دوسرے کو اپنے تجربات سناتے ہیں، “یار، وہ جو نیا پراجیکٹ تھا، اس میں فاؤنڈیشن کی کاسٹنگ ٹھیک سے نہیں ہوئی، مجھے لگا سارا اسٹرکچر بیٹھ جائے گا۔” دوسرا کہتا ہے، “یہ تو بڑا مسئلہ ہے! میں نے تو ایک سائٹ پر دیکھا کہ لوہے کی مقدار کم ڈال رہے تھے، فوراً کام رکوایا۔”
استاد جب ملتے ہیں تو کہتے ہیں، “یار، آج کلاس میں بچوں کو الجبرا سمجھا رہا تھا، ایک طالب علم کہنے لگا، ’سر، یہ زندگی میں کہاں کام آئے گا؟‘” دوسرا کہتا ہے، “یہ تو کچھ بھی نہیں، میرے ایک سٹوڈنٹ نے پرچے میں لکھا تھا، ’سر، اگر مجھے فیل کیا تو میرے ابو کو آپ کے گھر بھیج دوں گا!‘”
پولیس اہلکار جب آپس میں ملتے ہیں تو ایک کہتا ہے، “یار کل رات کی ڈیوٹی میں ایک مشکوک بندے کو پکڑا، پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو؟ کہتا ہے ’بس ویسے ہی‘، تلاشی لی تو جیب سے نقلی شناختی کارڈ نکلا!” دوسرا کہتا ہے، “یہ تو عام بات ہے، پچھلے ہفتے ایک بندہ پکڑا تھا، کہتا ہے میں تو غلطی سے یہاں آ گیا ہوں، حالانکہ سی سی ٹی وی میں صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ واردات کر کے بھاگا تھا!”
دکاندار جب آپس میں بات کرتے ہیں تو ایک کہتا ہے، “یار، آج دکان پر ایک گاہک آیا، دو گھنٹے چیزیں دیکھیں، دام پوچھے اور پھر کہنے لگا، ’بس ابھی واپسی پر لیتا ہوں!‘” دوسرا کہتا ہے، “یہ تو کچھ بھی نہیں، ایک گاہک آیا، آدھا کلو سبزی لی اور بولا، ’چلو بھائی، ایک پیاز فری دے دو!‘”
دو دوست ملتے ہیں تو ایک کہتا ہے، “یار، تو نے مجھ سے پچھلے ہفتے پانچ سو روپے ادھار لیے تھے، کب واپس کرے گا؟” دوسرا فوراً کہتا ہے، “اوہ بھائی! دیکھ، بینک والے بھی پہلے تین مہینے تو یاد دہانی بھیجتے ہیں، تُو نے تو ابھی ہفتہ بھی پورا نہیں ہونے دیا!”
پہلا دوست غصے سے دیکھتا ہے، “اچھا تو میں بینک ہوں؟” دوسرا ہنستے ہوئے کہتا ہے، “نہیں یار، تُو بینک نہیں، تُو تو وہ اے ٹی ایم ہے جو ہمیشہ ‘فنڈز ناٹ ایویلیبل’ دکھاتا ہے!”







درد کی شدت سے اس نے ایک دفعہ پھر آنکھیں بند کر لیں، اسے اپنا دماغ ماؤف ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا، پورے جسم سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں، لیکن اس کا جذبہ اب بھی قائم و دائم تھا، اس ملک کے لیے وہ ایسی ہزاروں جانیں قربان کر سکتا تھا. دکھ تھا تو ان مرنے والے معصوم بچوں اور مرد و خواتین کا تھا جو بےگناہ اس خودکش دھماکے میں اپنی جان کی بازی ہار گئے تھے. سارا منظر اس کی آنکھوں میں کسی فلم کی طرح چلنے لگا، اس کی عمر بمشکل چھبیس سال تھی، محکمہ پولیس جوائن کیے اسے کچھ ہی عرصہ گزرا تھا، سب ٹھیک چل رہا تھا اپنی نوکری سے بھی وہ مطمئن تھا، ملک میں انتخابات ہونے والے تھے، جلسوں جلوسوں کا زمانہ تھا، اوپر سے محرم الحرام بھی شروع ہو گیا تھا، بہت سے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ اس کی ڈیوٹی بھی ایک عبادت گاہ کے باہر لگ گئی تھی، یہ ایک معمول کا عمل تھا، لیکن اس کی ماں کو بہت فکر تھی جس کا وہ برملا اظہار بھی کرتی رہتی تھی، مائیں تو آخر مائیں ہوتی ہیں، وہ ہر دفعہ یہی کہتا ماں موت تو ہر حال میں آنی ہے اور شہادت مل جائے تو اور کیا چاہیے، ماں اس کو ہر روز سینکڑوں دعاؤں منتوں مرادوں کے ساتھ رخصت کیا کرتی تھی.


پاک ٹی ہائوس اب صرف ادیبوں اور شاعروں کا ٹھکانا نہیں رہا۔ سچ کہیں تو اب یہاں ادیب شاعر اقلیتی جبکہ یونی ورسٹی کے طلبا و طالبات اکثریتی گروپ بن چکا ہے۔ ماضی میں شاعر ایک کپ چائے کے ساتھ سارا سارا دن گزار دیتے تھے۔ اب حالات یہ ہیں کہ چائے پینے کے بعد عزت سادات بچاتے ہوئے گھر کی راہ لیتے ہیں۔ ان کی جگہ نوجوانوں کی اکثریت سارا دن یہیں ڈیرہ جمائے نظر آتی ہے۔ سگریٹ کا دھواں، لیپ ٹاپ، قہقہے اور دھواں دار گفتگو کے ساتھ ساتھ سرگوشیاں بھی ان کی پہچان ہے۔ شروع میں تو پاک ٹی ہائوس میں نوجوانوں کی آمد اور اس طوفان بدتمیزی پر کئی کالم بھی لکھے گئے اور ادبی حلقوں میں اس پر طنز بھی کیا گیا لیکن اب دونوں پارٹیاں ہی ایک دوسرے کو سوکنوں کی طرح برداشت کرنے کی عادی ہوچکی ہیں۔
پنجاب پولیس صوبے کا بدنام ترین محکمہ ہے۔سفارش،رشوت،ناانصافی سمیت ہر وہ خامی جو اس محکمے میں نہیں ہونی چاہیے وہ اس میں موجود ہے۔وزیراعلی پنجاب اپنے تمام تر دعووں کے برعکس پنجاب پولیس کو راہ راست پر نہیں لاسکے۔پولیس شاید اس وجہ سے بھی زیادہ بدنام ہے کہ ایک عام شہری کو ہر روز پویس سے واسطہ پڑتا ہے،کبھی چیکنگ کے نام پر ناکے پر رکنا پڑتا ہے،کبھی انصاف کے حصول کے لئے تھانے جانا پڑتا ہے توکبھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر چالان ۔کیونکہ پولیس سے ہمارا روز کا واسطہ ہے تو ان کی خامیاں اور کوتاہیاں سب کے سامنے ہیں۔مگر کسی دوسرے سرکاری محکمے میںجانے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ سب محکمے ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔پنجابی کی مثال ’’مجاں مجاں دیاں بھیناں‘‘ والا معاملہ ہے۔
اوون جونز اپنی کتاب ”دی اسٹیبلشمنٹ“ میں لکھتے ہیں: