Tag: پولیس

  • جب پروفیشنلز آپس میں گفتگو کرتے ہیں – اے وسیم خٹک

    جب پروفیشنلز آپس میں گفتگو کرتے ہیں – اے وسیم خٹک

    ہم روزمرہ زندگی میں مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملتے ہیں، اور جب یہ لوگ آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو ان کے مخصوص جملے سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہر پیشے کی اپنی ایک الگ “زبان” ہوتی ہے۔ یہ وہ زبان ہوتی ہے جسے صرف اسی فیلڈ کے لوگ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ جب مختلف شعبوں کے افراد آپس میں ملتے ہیں تو ان کی گفتگو کیسی ہوتی ہے۔

    صحافی جب ملتے ہیں تو کہتے ہیں، “یار وہ منسٹر کے کرپشن کی سٹوری نکالنے میں بڑے پاپڑ بیلنے پڑے، سورس خبر دینے سے ڈر رہا تھا۔ اسے قسمیں کھائیں کہ تمھارا نام نہیں آئے گا، پیسوں اور کھانے کا لالچ دیا، مگر وہ کہتا تھا کہ میں پیسوں کے لیے خبر نہیں دے رہا، بس عوام کے پیسے کھائے جا رہے ہیں، اس لیے غصہ آ رہا ہے۔” دوسرا صحافی جواب دیتا ہے، “بالکل! میرے ساتھ بھی ایسا ہی ایک سال پہلے ہوا تھا، ایک بندہ بڑی خبر دینے پر راضی تھا، مگر عین وقت پر غائب ہو گیا۔”

    ڈرائیور آپس میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، “یار، وہ پچاس ماڈل کی گاڑی بیچ کر دو ہزار ماڈل لے لی ہے، اب خرچہ کم ہو گیا ہے۔” دوسرا کہتا ہے، “ہاں یار، نئی گاڑیاں کم تیل لیتی ہیں، پرانی گاڑی تو بس پیٹرول پینے کے لیے بنی تھی!”

    ڈاکٹر ملتے ہیں تو کہتے ہیں، “یار، میں تو ڈر گیا تھا جب اُس خاتون کا آپریشن کر رہا تھا۔ آپریٹ کرتے وقت لگا کہ شاید میں نے غلط رگ کاٹ دی ہے، مگر وہ ٹھیک رگ تھی۔ نجانے ہماری بھی کیا لائف ہے!” دوسرا جواب دیتا ہے، “ہاں یار، کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ ہم انجینئر سے زیادہ مستری بن گئے ہیں، بس جوڑ توڑ میں لگے رہتے ہیں!”

    وکیل عدالت میں ہونے والے تجربات شیئر کرتے ہوئے کہتے ہیں، “یار، کل کی سماعت میں جج صاحب نے تو مجھے چپ ہی کرا دیا، جیسے ہی میں نے دلائل دینا شروع کیے، سامنے والا وکیل اعتراض پر اعتراض اٹھاتا گیا۔” دوسرا وکیل کہتا ہے، “ہاں یار، کچھ جج تو بس چاہتے ہیں کہ کیس جلدی نمٹ جائے، کل میں نے تو اپنے موکل کو کہا کہ اگلی تاریخ کا انتظار کریں، جج صاحب کا موڈ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔”

    قصائی جب بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں، “یار، آج گوشت لینے آیا تو کہنے لگا، ’بھائی صاحب آج بکرے کم آئے ہیں، ریٹ تھوڑا زیادہ ہوگا!‘” دوسرا ہنستے ہوئے کہتا ہے، “اور جب شام کو گیا ہوگا تو بولا ہوگا، ’ابھی ابھی تازہ گوشت آیا ہے، ریٹ اور بھی زیادہ ہوگیا ہے!‘”

    بینکر جب آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو ایک کہتا ہے، “آج تو ایک کلائنٹ آیا، کہنے لگا یار مجھے پانچ لاکھ کا لون چاہیے، لیکن کریڈٹ ہسٹری بالکل زیرو تھی!” دوسرا ہنستے ہوئے کہتا ہے، “میں نے کہا بھائی، یا کوئی گارنٹی لے آؤ یا کسی اور بینک چلے جاؤ۔”

    انجینئر ایک دوسرے کو اپنے تجربات سناتے ہیں، “یار، وہ جو نیا پراجیکٹ تھا، اس میں فاؤنڈیشن کی کاسٹنگ ٹھیک سے نہیں ہوئی، مجھے لگا سارا اسٹرکچر بیٹھ جائے گا۔” دوسرا کہتا ہے، “یہ تو بڑا مسئلہ ہے! میں نے تو ایک سائٹ پر دیکھا کہ لوہے کی مقدار کم ڈال رہے تھے، فوراً کام رکوایا۔”

    استاد جب ملتے ہیں تو کہتے ہیں، “یار، آج کلاس میں بچوں کو الجبرا سمجھا رہا تھا، ایک طالب علم کہنے لگا، ’سر، یہ زندگی میں کہاں کام آئے گا؟‘” دوسرا کہتا ہے، “یہ تو کچھ بھی نہیں، میرے ایک سٹوڈنٹ نے پرچے میں لکھا تھا، ’سر، اگر مجھے فیل کیا تو میرے ابو کو آپ کے گھر بھیج دوں گا!‘”

    پولیس اہلکار جب آپس میں ملتے ہیں تو ایک کہتا ہے، “یار کل رات کی ڈیوٹی میں ایک مشکوک بندے کو پکڑا، پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو؟ کہتا ہے ’بس ویسے ہی‘، تلاشی لی تو جیب سے نقلی شناختی کارڈ نکلا!” دوسرا کہتا ہے، “یہ تو عام بات ہے، پچھلے ہفتے ایک بندہ پکڑا تھا، کہتا ہے میں تو غلطی سے یہاں آ گیا ہوں، حالانکہ سی سی ٹی وی میں صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ واردات کر کے بھاگا تھا!”

    دکاندار جب آپس میں بات کرتے ہیں تو ایک کہتا ہے، “یار، آج دکان پر ایک گاہک آیا، دو گھنٹے چیزیں دیکھیں، دام پوچھے اور پھر کہنے لگا، ’بس ابھی واپسی پر لیتا ہوں!‘” دوسرا کہتا ہے، “یہ تو کچھ بھی نہیں، ایک گاہک آیا، آدھا کلو سبزی لی اور بولا، ’چلو بھائی، ایک پیاز فری دے دو!‘”

    دو دوست ملتے ہیں تو ایک کہتا ہے، “یار، تو نے مجھ سے پچھلے ہفتے پانچ سو روپے ادھار لیے تھے، کب واپس کرے گا؟” دوسرا فوراً کہتا ہے، “اوہ بھائی! دیکھ، بینک والے بھی پہلے تین مہینے تو یاد دہانی بھیجتے ہیں، تُو نے تو ابھی ہفتہ بھی پورا نہیں ہونے دیا!”

    پہلا دوست غصے سے دیکھتا ہے، “اچھا تو میں بینک ہوں؟” دوسرا ہنستے ہوئے کہتا ہے، “نہیں یار، تُو بینک نہیں، تُو تو وہ اے ٹی ایم ہے جو ہمیشہ ‘فنڈز ناٹ ایویلیبل’ دکھاتا ہے!”

  • وکلا اور پولیس کی محاذ آرائی: عدالتی نظام پر سوالیہ نشان – راؤ اعظم

    وکلا اور پولیس کی محاذ آرائی: عدالتی نظام پر سوالیہ نشان – راؤ اعظم

    حیدرآباد میں پولیس کی جانب سے ایک وکیل کی گاڑی پر کالے شیشے، فینسی نمبر پلیٹ اور پولیس سائرن کے غیر قانونی استعمال پر درج مقدمہ ختم کیے جانے کے باوجود نہ صرف حیدرآباد بلکہ کراچی میں بھی وکلا نے احتجاج شروع کر دیا ہے۔

    یہ واقعہ 3 فروری کو پیش آیا جب بھٹائی نگر پولیس کی ایک ٹیم مین جامشورو روڈ پر گلستانِ سجاد کے قریب غیر قانونی طور پر سرکاری گرین نمبر پلیٹ، کالے شیشے، پولیس لائٹس اور سائرن استعمال کرنے والی گاڑیوں کی چیکنگ کر رہی تھی۔ اس دوران ایک مہران گاڑی پولیس سائرن بجاتے ہوئے نظر آئی، جس پر “ایڈوکیٹ” لکھا تھا اور اس کے تمام شیشے کالے تھے۔ پولیس کے مطابق گاڑی کا ڈرائیور فرار ہوگیا، جس پر پولیس نے گاڑی تحویل میں لے کر مقدمہ درج کر دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ گاڑی ایک وکیل کی ملکیت ہے۔

    مقدمہ درج ہونے کے بعد 1500 سے زائد وکلا نے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) حیدرآباد کے دفتر پر دھاوا بول دیا۔ کینٹ تھانے کے ایس ایچ او عبدالرزاق کمانڈو کے مطابق وکلا نے پولیس اہلکاروں کی وردیاں پھاڑ دیں اور انہیں برا بھلا کہا۔ وکلا کے احتجاج کے نتیجے میں ایس ایس پی دفتر 15 گھنٹے تک محاصرے میں رہا، جس سے پولیس کا مورال شدید متاثر ہوا۔ اس واقعے کے خلاف پولیس افسران نے احتجاجاً چھٹی کی درخواستیں دے دیں۔

    وکلا کے دباؤ پر مقدمہ واپس لے لیا گیا اور گاڑی بھی واپس کر دی گئی، لیکن اس کے باوجود وکلا نے ایس ایس پی حیدرآباد کی معطلی کا مطالبہ کرتے ہوئے جمعرات کو عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا۔ بعد ازاں، کراچی بار کونسل کی اپیل پر کراچی کے وکلا نے بھی احتجاج میں شمولیت اختیار کر لی، جو جمعہ تک جاری رہا۔ حیدرآباد میں وکلا نے قومی شاہراہ پر دھرنا بھی دے دیا، جس سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی۔

    یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ملک میں قانون کے رکھوالے—وکلا اور پولیس—اپنے باہمی تنازعے کو عدالتوں میں حل کرنے کے بجائے سڑکوں پر آ کر دھرنوں اور احتجاج کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک طرف پولیس اہلکار وکلا کے دباؤ کے خلاف چھٹیوں پر جا رہے ہیں، تو دوسری طرف وکلا عدالتوں میں قانونی چارہ جوئی کرنے کے بجائے سڑکوں پر نکل کر حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    یہ صورتحال ہمارے عدالتی اور قانونی نظام کے لیے ایک بڑا المیہ ہے۔ اگر انصاف فراہم کرنے والے ادارے خود انصاف کے لیے احتجاج پر مجبور ہوں، تو عام شہریوں کو انصاف کیسے ملے گا؟ قانون کی پاسداری اور انصاف کا حصول صرف عدالتوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ وکلا اور پولیس کو چاہیے کہ وہ عدالتوں پر اعتماد کرتے ہوئے قانونی طریقے سے مسائل حل کریں، بجائے اس کے کہ عوام کو مشکلات میں مبتلا کریں اور نظامِ انصاف کو کمزور کریں۔

  • سندھ میں اغوا انڈسٹری کا راج  – محمد علی آزاد

    سندھ میں اغوا انڈسٹری کا راج – محمد علی آزاد

    گزشتہ کئی سالوں سے سندھ کے اندر امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے. جنوبی پنجاب سے ملحقہ علاقے راجن پور سے انڈس ہائی وے پر کشمور شکارپور تک دن میں بھی سفر کرنا محال ہو چکا ہے. شکار پور کے علاقے خان پور میں سابق ممبر سندھ اسمبلی غالب ڈومکی پر ڈاکوؤں کا حملہ ہوا جس میں اس کے گارڈ شہید ہوئے جبکہ چار ڈاکو ہلاک ہوئے. ان کا تعلق جتوئی قبیبلے کے کمالانی گینگ سے تھا ، اس واقعہ کی ایف آئی آر درج ہو چکی ہے.

    ٹھل کی فضیلا سرکی کا اغوا ہو یا سنگرار کی پریا کماری کا مغوی بننا، کشمور سے ساگر کمار ہو یا خیر پور کی فاطمہ پھرور کے قتل کا معمہ، ان سب واقعات میں سندھ پولیس کا کردار بہت مشکوک نظر آتا ہے. لاڑکانہ ڈویژن میں کشمور، شکار پور، جیک آباد میں سیکڑوں مغوی انتہائی مشکوک اندازمیں بازیاب ہوتے ہیں. شہروں سے اسلحہ کے زور پر اغوا کیے جانے والے مغوی تاوان کی بھاری رقم دینے کے بعد ایس ایس پی آفس تک پہنچ کر روٹا کے حوالے کیے جاتے ہیں.

    جب صحافی ایسے واقعات رپورٹ کرتے ہیں تو صحافیوں کو دن دہاڑے قتل کر دیا جاتا ہے. حالیہ دنوں میں ضلع گھوٹکی کے صحافی نصر اللہ گڈانی کی مثال ہم سب کے سامنے ہے جنہیں انتہائی بے دردی سے قتل کیا گیا . اسی طرح صحافی جان محمد مہر اور عزیز میمن جی مثالیں بھی موجود ہیں. یہ سب واقعات کوئی زیادہ پرانے نہیں ہیں .

    سونے پر سہاگہ ڈاکوؤں کا سوشل میڈیا کا آزادانہ استعمال ٹھہرا جس کے ذریعے ملٹری گریڈ اسلحہ کی نمائش کے ساتھ ساتھ مغویوں کی پر تشدد ویڈیوز بنا کر انہیں وائرل کر کے اپنے مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں. سندھ پولیس ان جرائم کا سد باب کرنے مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے. عام تاثر یہی ہے کہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے ادارے کی کارکردگی کے ساتھ اس کی ساکھ بھی ختم ہو چکی ہے .

    سیاسی اقتدار کا حامل وڈیرہ اور جاگیردار اپنے علاقے میں اپنے من پسند ایس ایس پی کی پوسٹنگ چاہتا ہے. اگر ایسا نہ ہو تو ایک دم ضلع بھر میں اغوا برائے تاوان کے سنگین جرائم میں ایک دم اضافہ ہو جاتا ہے. بعض اوقات تو معصوم بچوں تک کو اغوا کیا جاتا ہے. کشمور کے علاقے بڈانی سے جئدیپ کمار ، گڈو شہر سے سرفراز پٹھان، تنگوانی سے جنید بھکرانی، راجیش کمار کیسوانی، علی حسن کھوسہ اس کی مثالیں ہیں. یہ ایک لمبی فہرست ہے جس کا ڈیٹا مرتب کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے لازمی ہے تاکہ بدامنی کو بطور صنعت پھیلنے سے روکا جا سکے.

    صوبائی حکومت کی طرف سے امن و امان کی بحالی کے لیے اربوں کا بجٹ آخر کہاں خرچ کیا جاتا ہے ؟ پولیس کے لیے خریدی گئیں بکتر بند گاڑیوں سے ڈاکوؤں کی گولیاں کیسے آر پار ہو جاتی ہیں؟ ایسے کئی سوالات ہیں جو عوامی حلقوں میں زیر گردش ہیں. ان سب سوالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان بنیادی مسائل کا حل ہونا لازمی ہے ورنہ آنے والے دنوں میں بدامنی، لاقانونیت اور اغوا انڈسٹری سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا.

  • پی ٹی آئی کے خلاف پولیس کا ملک گیر کریک ڈاؤن، 247 سے زائد کارکنان گرفتار

    پی ٹی آئی کے خلاف پولیس کا ملک گیر کریک ڈاؤن، 247 سے زائد کارکنان گرفتار

    اسلام آباد / کراچی / لاہور: حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کا لانگ مارچ روکنے کے لیے پارٹی عہدے داروں اور کارکنوں کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن جاری ہے جس میں 247 سے زائد کارکنان کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔

    حکومت نے گرفتار کارکنوں اور رہنماؤں کو 16 ایم پی او کے تحت جیل بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کی اکثریت روپوش ہوگئی ہے۔ سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کی لال حویلی پر پولیس نے چھاپا مارا لیکن شیخ رشید اور ممبر قومی اسمبلی راشد شفیق نہ ملے۔ پولیس نے سابق صوبائی وزیر راجہ بشارت، ممبر صوبائی اسمبلی اعجاز خان جازی، واثق قیوم، چوہدری امجد، چوہدری عدنان، راجہ راشد حفیظ کی گرفتاری کے لیے بھی چھاپے مارے، لیکن ابھی تک کوئی سرکردہ رہنما گرفتار نہیں ہوسکا۔

    پی ٹی آئی کے رہنما بابر اعوان، حماد اظہر، فردوس عاشق اعوان، علی نوید بھٹی، جمشید اقبال چیمہ، ایم پی اے ملک ندیم عباس بارا، یاسر گیلانی ، میاں اسلم اقبال ، ایم پی اے سعدیہ سہیل، اعجاز چوہدری ، میاں اکرم عثمان ، عقیل صدیقی، سابق ڈپٹی سیکرٹری لاہور عامر ریاض قریشی، یوسی چیئرمین امیدوار شیخ محمد حیدر صاحب اور دیگر کی رہائش گاہوں پر بھی چھاپے مارے گئے۔ادھر کراچی پولیس نے گلشن اقبال میں رکن نیشنل اسمبلی اور پی ٹی آئی کراچی کے جنرل سیکریٹری سیف الرحمان محسود کے گھر پر چھاپہ مار کر انہیں حراست میں لیا، وزارت داخلہ سندھ نے پی ٹی آئی رہنماؤں کو نقصِ امن کے تحت ایک ماہ کے لیے سینٹرل جیل بھیجنے کی سفارش کی ہے۔

    پولیس نے رکن سندھ اسمبلی و پی ٹی آئی کے سینئر نائب صدر کراچی سعید آفریدی، پی ٹی آئی کراچی کے صدر بلال غفار، رکن قومی اسمبلی و انفارمیشن سیکریٹری سندھ ارسلان تاج گھمن ، رکن سندھ اسمبلی شہزاد قریشی کے گھروں پر بھی چھاپے مارے تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ اس کے علاوہ قصور پولیس نے ایم این اے کے ٹکٹ ہولڈر (این اے 138) سردار راشد طفیل کے گھر پر چھاپہ مارا۔ سردار راشد گھر پر موجود نا تھے۔ دوسری جانب یاسر گیلانی کی رہائش گاہ پر چھاپے کے دوران سادہ اور پولیس وردی میں ملبوس اہلکاروں نے گھر کا گیٹ توڑنے کی کوشش کی۔

    پولیس نے شیراکوٹ میں پی ٹی آئی رہنما سعید احمد خان کے گھر چھاپہ مارا۔ سعید خان کا کہنا تھا کہ پولیس سیڑھی لگا کر چھت سے گھر میں داخل ہوئی اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا۔ راستوں کی ممکنہ بندش کے لیے کنٹینرز کی پکڑ دھکڑ بھی جاری ہے۔ آزادی مارچ روکنے کے لیے پولیس کی اضافی نفری کو راولپنڈی پہنچا دیا گیا ہے، آنسو گیس، قیدی گاڑیاں اور دیگر سامان بھی پولیس دستوں کو فراہم کردیا گیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے 350 افراد کی فہرست تیار کی گئی اور سی سی پی او دفتر کی جانب سے کارکنوں کی فہرستیں متعلقہ تھانوں کو فراہم کردی گئیں ہیں جبکہ تمام ڈویژنل ایس پیز کریک ڈاون کی خود نگرانی کریں گے۔

    ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کا مقصد 25 مئی کے لانگ مارچ کو روکنا ہے اور کارکنوں کو پکڑ کر متعلقہ پولیس اسٹیشن میں نہیں رکھا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ لاہور کے خارجی اور داخلی راستوں پر بھی پولیس کی نفری بڑھا دی گئی ہے۔ حکومت کی لانگ مارچ سے نمٹنے کی تیاری، ڈی چوک سیل کردیا گیا . دوسری جانب وفاقی حکومت نے تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے نمٹنے کے لیے دیگر صوبوں سے پولیس ایف سی اور رینجرز طلب کرلی ہے کنٹینر لگا کر ڈی چوک کو سیل کردیا۔

    مارچ کو روکنے کے لیے راولپنڈی اسلام آباد کی اہم شاہراہوں کو کنٹینرز لگا کر سیل کردیا گیا۔ ریڈ زون کو بھی کنٹینرز لگا کر سیل کردیا گیا ہے۔ لاہور اور راولپنڈی کے درمیان چلنے والی ٹریفک معطل ہے۔ اہم شاہراہیں سیل ہونے سے مسافروں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ موٹر وے کو بھی مکمل طور پر بند کردیا گیا۔ وزارت داخلہ نے وفاقی پولیس اور انتظامیہ کو اقدامات مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ انتشار پھیلانے والے لانگ مارچ کے شرکاء سے سختی سے پیش آیا جائے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ لانگ مارچ سے نمٹنے کے لیے حکومت نے دیگر صوبوں سے پولیس کی بھاری نفری طلب کرلی ہے، پولیس کے ساتھ ساتھ ایف سی اور رینجرز بھی طلب کی جا رہی ہے۔

    آج رات سے دیگر صوبوں سے بلائی گئی نفری پہنچنا شروع ہو جائے گی، جب کہ آپریشنل پولیس کوآج قیدی وینز، واٹر کینن اور دیگر سامان فراہم کر دیا جائے گا۔ پولیس نے لانگ مارچ کی راہ روکنے کے لیے ڈی چوک کو سیل کردیا ہے اور وہاں کنٹینر لگاکر آنے جانے کا راستہ بھی بند کردیا ہے۔ اتحادیوں کا ملک میں انتشار کی صورت میں سخت قانونی کارروائی پر اتفاق . اتحادیوں ںے ملک میں انتشار و افراتفری کی صورت میں سخت قانونی کارروائی عمل میں لانے ہر بھی اتفاق کیا۔ آج ہونے والی حکومت اور اتحادی جماعتوں کی اہم بیٹھک میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے حوالے سے مزید مشاورت ہوگی۔

    رانا ثنا اللہ کو خصوصی ٹاسک سونپا جائے گا . ذرائع کے مطابق اتحادیوں سے حتمی مشاورت کے بعد وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ خاں کو خصوصی ٹاسک سونپا جائے گا، مشاورتی اجلاس میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوں گے۔ سابق صدر آصف علی، مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کے قائدین بھی شرکت کریں گے۔ اجلاس میں وزیراعلی پنجاب اور مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز بھی ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوں گی۔ پولیس کی بھاری نفری بھی اسلام آباد پہنچنا شروع . 25 مئی کے لانگ مارچ سے قبل پولیس کی بھاری نفری بھی اسلام آباد پہنچنا شروع ہوگئی ہے۔

    ایکسپریس نیوز کے مطابق دیگر صوبوں سے ایف سی کی بھاری نفری اسلام آباد پہنچنا شروع ہوگئی ہے۔ ایف سی کے 15 سو اہلکار اسلام آباد ہہنچ چکے ہیں جبکہ پنجاب پولیس سے 300 نفری اسلام آباد پہنچی۔ نفری کو پولیس لائن مین ٹھرایا گیا ہے۔

  • سڑکوں کو سپریم کورٹ بنا دیں-جاوید چوہدری

    سڑکوں کو سپریم کورٹ بنا دیں-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480
    آپ پرسوں کی مثال لے لیجیے‘ پولیس نے کراچی میں دو لوگ گرفتار کر لیے‘ ایک پر اختلافی تقاریر کا الزام تھا اور دوسرے پر فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا‘ گرفتاری سے اگلے دن پچاس ساٹھ لوگ ملیر میں اکٹھے ہوئے اور نیشنل ہائی وے بند کر دی‘ آدھ گھنٹے میں ہزاروں گاڑیاں کھڑی ہو گئیں‘ ریلوے کی مین لائین بھی قریب تھی‘ پاکستان ایکسپریس گزری‘ ہجوم نے ٹرین پر پتھراؤ شروع کر دیا‘ انجن کے شیشے ٹوٹ گئے‘ ٹرینوں کی آمدورفت بھی رک گئی‘ ہجوم کی وجہ سے دکانیں‘ پٹرول پمپس اور گھروں کی کھڑکیاں دروازے بھی بند ہو گئے۔
    پولیس نے مظاہرین سے مذاکرات کیے لیکن وہ ملزمان کی باعزت رہائی کے بغیر سڑک کھولنے کے لیے تیار نہیں تھے‘ عوام اس دوران دفتروں اور گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے‘ نیشنل ہائی وے پر سو کلو میٹر تک ٹریفک بلاک تھی‘ اسکول وینیں بھی پھنس گئیں اور ایمبولینسز بھی سٹک ہو کر رہ گئیں‘ مسافروں کی فلائیٹس بھی مس ہو گئیں اور نوکری کے لیے انٹرویو دینے والے انٹرویو بھی نہ دے سکے‘ ڈیلیوری ٹرک بھی پھنس گئے اور ٹرالر اور کنٹینر بھی الجھ گئے‘ ہزاروں گاڑیوں نے لاکھوں ٹن دھواں پیدا کیا اور یہ مہلک دھواں بھی آبادیوں کے پھیپھڑوں میں جذب ہو گیا‘ میڈیا پہنچا اور اس نے عوام کو لائیو تھیٹر دکھانا شروع کر دیا۔
    یہ سلسلہ ساڑھے آٹھ گھنٹے چلتا رہا‘ پولیس نے اس دوران تین بار مذاکرات کیے لیکن یہ تینوں مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے‘ پولیس نے 13 گرفتار مظاہرین بھی سڑک کی ایک لین کھولنے کی شرط پر رہا کر دیے مگر احتجاجیوں نے رہائیوں کے باوجود سڑک نہ کھولی یہاں تک کہ ساڑھے آٹھ گھنٹے بعد پولیس مظاہرین پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج پر مجبور ہو گئی‘ شیلنگ کی دیر تھی‘ مظاہرین بھاگ کر گلیوں میں غائب ہو گئے‘ پولیس نے پیچھا کیا‘ چند نوجوانوں نے اہلکاروں پر پتھراؤ کیا مگر یہ سلسلہ بھی ایک آدھ گھنٹے میں ختم ہو گیا‘ تاہم پولیس کو ٹریفک بحال کرنے میں چار گھنٹے لگ گئے‘ ساڑھے آٹھ گھنٹے کی تاخیر کے بعد ٹرینیں بھی بحال ہو گئیں لیکن اس دوران لوگوں کو جو کوفت‘ پریشانی اور تکلیف ہوئی‘ آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔
    یہ کیا ہے؟ یہ اس ملک کے ایک شہر کا ایک دن کا ایک واقعہ ہے‘ آپ اگر تفصیل میں جائیں تو آپ کو معلوم ہو گا ملک کی تمام بڑی سڑکیں چیف جسٹس‘ آئی جی‘ وزیراعلیٰ‘ وزیراعظم اور پارلیمنٹ بن چکی ہیں‘ ملک میں جب بھی جس کا بھی دل چاہتا ہے یہ سڑک پر لاش رکھ کر ٹریفک بلاک کر دیتا ہے‘ یہ دو ٹائر لاتا ہے‘ سڑک کے درمیان رکھتا ہے‘ آگ لگاتا ہے اور نامنظور‘ نامنظور‘ گو‘ گو کے نعرے لگانے لگتا ہے اور یوں چند سیکنڈ میں بیچارے شہری اپنے تمام حقوق سے محروم ہو جاتے ہیں‘ مریض ایمبولینس میں مر جاتے ہیں‘ مسافر فلائیٹس سے رہ جاتے ہیں‘ بچے اسکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نہیں پہنچ پاتے‘ دفتر جانے والے دفتر‘ گھر جانے والے گھر اور مارکیٹ جانے والے مارکیٹ نہیں پہنچتے اور لوگ نوکریوں‘ امتحانوں اور ڈاکٹروں سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔
    آپ کسی دن شہر کی کسی مرکزی سڑک پر نکل جائیں آپ کو وہاں کوئی نہ کوئی تماشا ضرور ملے گا‘ لوگوں کو پولیس تنگ کرتی ہے تویہ مرکزی سڑک پر سینہ کوبی شروع کر دیتے ہیں‘ لوگ جج تک اپنی فریاد پہنچانا چاہتے ہیں تویہ سڑک پر لیٹ جاتے ہیں اور یہ تنخواہوں میں اضافہ چاہتے ہیں‘ یہ اپنی کچی نوکری کو پکا کرنا چاہتے ہیں‘ یہ اپنے پے اسکیل کو وسیع کرنا چاہتے ہیں اور یہ اگر اپنے مریض کا بروقت آپریشن کرانا چاہتے ہیں تو یہ شہر کی مرکزی شاہراہ پر دھرنا دے کر بیٹھ جائیں گے‘ میڈیا آئے گا‘ کیمرے اور مائیک لگیں گے اور ان کا کام ہو جائے گا لیکن ان کے کام کی وجہ سے جن ہزاروں لوگوں کو تکلیف پہنچی وہ کہاں جائیں‘ وہ کہاں فریاد کریں‘ یہ شاید ان لوگوں کا مسئلہ نہیں‘ عام لوگ خواہ جہنم میں چلے جائیں ان لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
    آپ لاہور کی مال روڈ کو دیکھ لیجیے‘ یہ روڈ دس برسوں سے احتجاج کا شکار ہے‘ یہ ڈاکٹروں‘ نرسوں اور اساتذہ کی احتجاج گاہ بن چکی ہے‘ راولپنڈی میں مری روڈ‘ فیض آباد‘ ایکسپریس وے اور فیصل ایونیو بھی اکثر کسی نہ کسی دھرنے کا ہدف رہتی ہے‘ کراچی کی نیشنل ہائی وے اور شاہراہ فیصل پر بھی ٹائر جلتے بجھتے رہتے ہیں‘ کوئٹہ میں لاشیں سڑکوں پر رکھنے کا رواج عام ہے اور آپ اگر ذرا سی ریسرچ کریں گے تو آپ کو پشاور کی سڑکیں بھی احتجاج کا شکار نظر آئیں گی‘ آپ کسی دن جی ٹی روڈ کا جائزہ بھی لے لیں آپ کو یہ بھی جگہ جگہ سے بند ملے گی‘ آپ کو اس کے کسی نہ کسی پورشن پر کوئی نہ کوئی دھڑا قابض نظر آئے گا‘ یہ کیا ہے‘ یہ کیوں ہے اور اس کا ذمے دار کون ہے؟ میں ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو اس صورتحال کا ذمے دار سمجھتا ہوں‘ کیسے؟
    کیا یہ سچ نہیں ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر آصف علی زرداری تک پاکستان پیپلزپارٹی نے تمام بڑی سیاسی کامیابیاں سڑکوں پر حاصل کیں‘ بھٹو کا سیاسی کیریئر ٹرین سے شروع ہوا تھا‘ یہ ایوب خان کی کابینہ سے نکلنے کے بعد ٹرین میں سوار ہوئے‘ ہر ریلوے اسٹیشن پر تقریر کی اور لاہور پہنچتے پہنچتے لیڈر بن گئے‘ اس دن ریلوے کا سارا شیڈول خراب ہو گیا تھا‘ ٹرینیں پانچ پانچ گھنٹے لیٹ تھیں‘ ایوب خان کے خلاف پوری تحریک سڑکوں پر پروان چڑھی‘ مشرقی پاکستان بھی سڑکوں پر بنگلہ دیش بنا‘ بھٹو کے خلاف تحریک نے بھی سڑکوں پر جنم لیا۔
    جنرل ضیاء الحق کو بھی سڑکوں نے الیکشن کرانے پر مجبور کیا‘ میاں نواز شریف کو بھی سڑکوں نے صنعت کار سے سیاستدان بنایا‘ بے نظیر بھٹو بھی سڑکوں کے ذریعے مشرق کی بیٹی بنی‘ عدلیہ بحالی کی تحریک بھی سڑکوں پر پروان چڑھی‘ جنرل مشرف کا یونیفارم بھی سڑکوں نے اتارا‘ آصف علی زرداری بھی سڑکوں کے ذریعے دبئی منتقل ہوئے‘ عمران خان کو بھی سڑکوں نے قائد تبدیلی بنایا اور میاں نوازشریف بھی اب سڑکوں کی وجہ سے پانامہ کے شکنجے میں آئے ہیں لہٰذا عوام جب یہ دیکھتے ہیں ہمارے سیاستدان سڑکیں‘ ریلوے ٹریک اور شہر بند کر کے عظیم قائدین بن جاتے ہیں۔
    یہ سڑک سے وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر پہنچ جاتے ہیں تویہ بھی سڑکوں کو امرت دھارا مان لیتے ہیں‘ یہ بھی فیل ہونے کے بعد سڑک بلاک کرتے ہیں اور پورا امتحانی نظام تبدیل کرا دیتے ہیں‘ یہ سڑک بلاک کر کے کچی نوکریوں کو پکا کرا لیتے ہیں‘ یہ اپنی تنخواہیں بڑھا لیتے ہیں‘ یہ اپنی معطلی ری ورس کرا لیتے ہیں‘ یہ ایس ایچ او‘ ڈی ایس پی اور ایس پی کو فارغ کرا دیتے ہیں‘ یہ قاتل کو گرفتار کرا دیتے ہیں اور یہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو سوموٹو نوٹس پر مجبور کر دیتے ہیں‘ عوام سمجھتے ہیں سڑکیں ہماری عدالت‘ پولیس اسٹیشن‘ وزیراعلیٰ‘ وزیراعظم‘ صدر اور پارلیمنٹ ہیں‘ عوام کے یہ خیالات غلط بھی نہیں ہیں۔
    ملک میں جب آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ سڑکیں کریں گی اور جب الیکشن میں دھاندلی کے خلاف جوڈیشل کمیشن اور پانامہ لیکس پر لارجر بینچ سڑکیں بنوائیںگی تو پھر عوام انصاف کے لیے لاشیں سڑکوں پر کیوں نہیں رکھیں گے‘ یہ تنخواہوں میں اضافے کے لیے سڑکیں بلاک کیوں نہیں کریں گے اور یہ پے اسکیل‘ نوکری کی بحالی اور مستقل ملازمت کے لیے سڑکوں پر پٹیشن دائر کیوں نہیں کریں گے ‘یہ ہو رہا ہے اور یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک ہم اپنی سوچ نہیں بدلتے۔
    ہمارے پاس اب دو آپشن بچتے ہیں‘ ہم سڑکوں کو اپنا آئین‘ قانون‘ ضابطہ‘ عدالت‘ سسٹم اور اقتدار اعلیٰ ڈکلیئر کر دیں‘ لوگ آئیں‘ یہ جتنی دیر سڑک بلاک رکھ سکیں ‘ یہ جتنے لوگوں کو بنیادی حقوق‘ سکون اور آرام سے محروم کر سکیں ان کے اتنے مطالبات مان لیے جائیں‘ انھیں اتنا انصاف دے دیا جائے یا پھر ہم یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیں۔
    سپریم کورٹ حکم جاری کرے ملک کا جو بھی شہری‘ لیڈر یا ادارہ کوئی مرکزی شاہراہ بند کرے گا ریاست اسے مجرم سمجھے گی‘ یہ اس کے خلاف پوری فورس استعمال کرے گی‘ یہ اس سے املاک اور شہریوں کی تکلیف کا ہرجانہ بھی وصول کر ے گی اور جو شخص ہجوم کو لیڈ کرے گا وہ سرکاری عہدے کے لیے ’’ڈس کوالی فائی‘‘ ہو جائے گا‘ سپریم کورٹ حکم جاری کرے حکومت ملک میں درجن بھر تحریر اور تقسیم اسکوائر بنا دے‘ عوام نے جتنا احتجاج کرنا ہے یہ وہاں جا کر کریں لیکن انھیں سڑک بلاک کرنے کا کوئی حق نہیں ہو گا‘ یہ راستہ نہیں روک سکیں گے۔
    چیف جسٹس آف پاکستان یہ کام بہت آسانی سے کر سکتے ہیں‘ یہ ایک حکم جاری کریں گے اور عوام کو سکھ کا سانس مل جائے گا اور اگر چیف جسٹس کے پاس وقت نہیں ہے تو پھر یہ مہربانی فرما کر سڑکوں کو سپریم کورٹ کا درجہ دے دیں‘ یہ شاہراہوں کو فل بینچ ڈکلیئر کر دیں‘ لوگ سڑکوں پر آئیں اور اپنے فیصلے کرا لیں‘ نہ وکیل کا خرچہ اور نہ تاریخ پر تاریخ‘ بس دو ٹائر جلیں‘ دس گھنٹے ٹریفک بلاک ہو اورلوگوں کے مطالبات منظور ہو جائیں‘ بات ختم‘ انصاف ہو گیا۔

  • مورال – سعید ارشاد

    مورال – سعید ارشاد

    سعید ارشاد درد کی شدت سے اس نے ایک دفعہ پھر آنکھیں بند کر لیں، اسے اپنا دماغ ماؤف ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا، پورے جسم سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں، لیکن اس کا جذبہ اب بھی قائم و دائم تھا، اس ملک کے لیے وہ ایسی ہزاروں جانیں قربان کر سکتا تھا. دکھ تھا تو ان مرنے والے معصوم بچوں اور مرد و خواتین کا تھا جو بےگناہ اس خودکش دھماکے میں اپنی جان کی بازی ہار گئے تھے. سارا منظر اس کی آنکھوں میں کسی فلم کی طرح چلنے لگا، اس کی عمر بمشکل چھبیس سال تھی، محکمہ پولیس جوائن کیے اسے کچھ ہی عرصہ گزرا تھا، سب ٹھیک چل رہا تھا اپنی نوکری سے بھی وہ مطمئن تھا، ملک میں انتخابات ہونے والے تھے، جلسوں جلوسوں کا زمانہ تھا، اوپر سے محرم الحرام بھی شروع ہو گیا تھا، بہت سے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ اس کی ڈیوٹی بھی ایک عبادت گاہ کے باہر لگ گئی تھی، یہ ایک معمول کا عمل تھا، لیکن اس کی ماں کو بہت فکر تھی جس کا وہ برملا اظہار بھی کرتی رہتی تھی، مائیں تو آخر مائیں ہوتی ہیں، وہ ہر دفعہ یہی کہتا ماں موت تو ہر حال میں آنی ہے اور شہادت مل جائے تو اور کیا چاہیے، ماں اس کو ہر روز سینکڑوں دعاؤں منتوں مرادوں کے ساتھ رخصت کیا کرتی تھی.
    اس صبح بھی جب وہ ماں کی دعائیں لے کر رخصت ہوا تو اس کا دل قدرے پریشان تھا، لیکن اس نے کچھ خاص توجہ نہ دی اور اپنی ڈیوٹی پر پہنچ گیا، سب کچھ بالکل نارمل تھا، اکا دکا لوگ سڑک پر نظر آ رہے تھے، نماز ظہر کے بعد عبادت گاہ میں آہستہ آہستہ لوگ آ رہے تھے، نماز عصر تک پوری عبادت گاہ بھر چکی تھی، پولیس کے علاوہ چند فوج کے جوان بھی عبادت گاہ کی سکیورٹی پر معمور تھے کہ اچانک دور کچھ ہلچل سی ہوئی، اس سے پہلے کہ کوئی کچھ سمجھتا ایک شخص مجمعےکو چیرتا ہوا عبادت گاہ کی طرف بڑھا اور ایک کان پھاڑ دھماکہ ہوا اور قیامت صغری برپا ہو گئی. جب اسے ہوش آیا تو ہر طرف انسانی اعضا پھیلے ہوئے تھے، چیخ و پکار اور ایمبولینسز کے سائرن کی آواز سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، کسی نے انتہائی بے دردی سے اسے ایمبولینس میں ڈالا اور ہسپتال پہنچا دیا. اس کی ایک ٹانگ کٹ چکی تھی، بازو شدید زخمی تھا، اس کے ساتھ ڈیوٹی کرنے والے پولیس اور فوج کے جوان بہادری کی داستانیں رقم کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر چکے تھے، جس کا اسے ابھی ہسپتال کے ویٹنگ روم میں ٹی وی دیکھتے ہوئے پتہ چلا. ایک نیوز چینل پر فوجی جوانوں کے لیے اعزازات اور ان کی ملک کے لیے خدمات کی خبر چل رہی تھی جسے شاندار الفاظ میں سراہا جا رہا تھا، اسے ایک انجانا سا حوصلہ اور خوشی ملی کہ ہماری قربانیاں رائیگاں نہیں ہیں، بس اسے انتظار تھا، اپنے ساتھیوں کے متعلق خبر کا کہ ان کی خدمات اور قربانی کو بھی سراہا جائے تو اسے کچھ قرار نصیب ہو، ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ کسی نے چینل بدل دیا. دوسرے چینل پر ایک مشہور سیاستدان اعلان کر رہا تھا کہ میں پولیس کو اپنے ہاتھوں سے پھانسی دوں گا.

  • اس سوال کا جواب ضروری ہے-اوریا مقبول جان

    اس سوال کا جواب ضروری ہے-اوریا مقبول جان

    orya
    پورا کوئٹہ شہر سوگوار ہے۔ یوں تو اس سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں کا تعلق بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے تھا، لیکن اس شہر کی خصلت اور عادت میں شامل ہے کہ ہر کسی کے غم میں ضرور شریک ہوتا ہے۔ یوں بھی بلوچستان کے بلوچ اور پشتون قبائل میں فاتحہ کی رسم کئی مہینے تک چلتی رہتی ہے۔
    لوگ میلوں کا سفر کر کے مرنے والے کا پرسہ دینے آتے ہیں۔ فاتحہ کی رسم بھی ان کے ہاں کمال کی ہے۔ سب سے پہلے کسی کے گھر جا کر بچھی ہوئی دری یا قالین پر بیٹھ جاتے ہیں۔ کسی سے سلام دعا یا ہاتھ نہیں ملاتے، بلکہ فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ علاقے کا مولوی مستقل وہاں بیٹھا رہتا ہے۔ جو باآواز بلند دعا کرتا ہے۔ فاتحہ کرنے کے بعد ایک دوسرے کا حال پوچھا جاتا ہے۔
    اس معاشرے کا کمال یہ ہے کہ دو قبیلوں یا گھرانوں کے درمیان شدید دشمنی بھی چل رہی ہو، ایک دوسرے کے افراد قتل بھی ہو رہے  ہوں لیکن جب تک کوئی شخص اپنے عزیز کی فاتحہ پر بیٹھا ہوتا ہے اتنے عرصے کے لیے دشمنی ترک کر دیتے ہیں جسے یہاں کی زبان میں ’’خیر‘‘ کہتے ہیں۔ اس طرح کی روایتوں کے امین معاشرے میں ’’کوئٹہ‘‘ شہر کا سوگوار ہونا لازم تھا۔
    ویسے بھی کوئٹہ بلوچستان کے وسیع و عریض صوبے میں واحد مقام ہے جسے محدود معنوں میں شہر کہا جا سکتا ہے۔ یعنی جہاں مریضوں کے علاج کے لیے اسپتال ہیں۔ پڑھنے کے لیے کالج اور یونیورسٹی ہے۔ اشیائے صرف اور ضرورت کی خریدو فروخت کے لیے بڑی بڑی مارکٹیں ہیں۔ سیوریج اور واٹر سپلائی کا نظام ہے۔ اسٹریٹ لائٹس ہیں۔ ٹریفک ہے اور ٹریفک کے سپاہی بھی ہیں۔ یہ سب کچھ آپ کو صرف اور صرف کوئٹہ میں نظر آئے گا۔
    اگرچہ کہ اس سب کی حالت زار دیکھ کر رونا آتا ہے۔ آپ حیرت میں ڈوب جائیں گے کہ جس سنڈیمن پروونشل اسپتال کی حالت پنجاب کے کسی بھی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر سے بھی ابتر ہے۔ وہاں ہزار کلو میٹر دور گوادر، سات سو کلو میٹر دور تفتان، پانچ سو کلو میٹر دور کراخراسان اور اتنے ہی دور علاقوں سے مریض لائے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ پورے بلوچستان میں دل، گلے، گردے، ہڈی جلد یا کسی اور جسم کے حصے کے علاج کا اسپیشلسٹ صرف اور صرف کوئٹہ میں ملے گا۔
    باقی پورا بلوچستان اس اسپیشلسٹ نام کی مخلوق سے ناآشنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے ہر خطے کے افراد  کوئٹہ میں آ کر آباد ہو چکے ہیں۔ اس لیے جب بھی کوئی سانحہ یا حادثہ ہوتا ہے جس میں مرنے والے کتنے دور دراز علاقے سے کیوں نہ ہوں اس کا اثر کوئٹہ پر ضرور پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر ڈیرہ بگٹی، تربت یا ژہوب میں کوئی سانحہ ہو جائے، کوئٹہ سوگوار ضرور ہوتا ہے۔
    کوئٹہ کے تمام بازار بند تھے۔ لیکن کوئٹہ کی جناح روڈ وہ مقام ہے جہاں بند دکانوں کے باہر بھی لوگ کھڑے ہوکر حالات و واقعات پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں کا سیاسی شعور پاکستان کے کسی بھی خطے سے زیادہ بلند اور بہتر ہے۔ مثلاً لاہور گوجرانوالہ میں آپ کو عموماً گفتگو ’’کھابے، لسّی، کھانوں کے بارے میں نظر آئے گی۔
    فوڈ اسٹریٹ کہاں ہے، نئی ’’کھابوں‘‘ کی دکان کونسی ہے۔ لیکن کوئٹہ کا بلوچ، پشتون، بروہی یا ہزارہ کی محفل میں آپ کو بیٹھنے کا اتفاق ہو تو آپ کو قبائلی تنازعات سے لے کر برصغیر پاک و ہند کی سیاست اور عالمی و علاقائی صورتحال سے متعلق گفتگو ملے گی۔ بلوچی میں ’’حال احوال‘‘ اور پشتو میں ’’روغبڑ‘‘ دو ایسی رسوم ہیں جن میں ایک سفر سے واپس آنے والا ہر ملنے والے کو ان علاقوں کا احوال بیان کرتا ہے جہاں سے وہ ہو کر آیا ہے۔
    یہ احوال اس قدر طویل ہوتا ہے اور اس قدر مفصل ہوتا ہے کہ اس میں رسم و رواج سے لے کر سیاست اور بازار سے لے کر حکومتی مراکز تک سب کا ذکر ہوتا ہے۔ ویسے بھی بلوچستان کے افراد کی ایک کثیر تعداد نے افغانستان اور ایران کا سفر بار بار ضرور کیا ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے تجربے کی وسعت کی سطح عالمی نوعیت کی ہوتی ہے اور ایسا تجربہ آپ کو پاکستان کے اور کسی خطے میں نہیں ملے گا۔ مثلاً یہاں کے چھوٹے کاروباری اور خانہ بدوش نے بھی افغانستان یا ایران کا سفر کر کے ایک ایسا تجربہ ضرور حاصل کیا ہوتا ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔
    پاکستان کے کسی خطے کے افراد کو بالکل علم نہیں  اور ہے بھی تو اخباری نوعیت کا ہے کہ روس افغانستان میں کیسے آیا، مجاہدین کون تھے، طالبان کیسے بنے، امریکا کیسے حملہ آور ہوا، وہاں کیا چل رہا ہے، ایران شاہ کے دور میں کیا ہوتا تھا، خمینی نے کونسی تبدیلی لائی، ایران میں بلوچوں کی حالت زار کیسی ہے، ان سب کے بارے میں بلوچستان کے لوگوں کی معلومات بہت خالص ہیں۔ بالکل ایسے جیسے قصور یا فیصل آباد کا آدمی لاہور آئے اور میٹروبس کو آنکھوں سے چلتا ہوا دیکھے۔
    بلوچستان کے لوگوں نے اس خطے میں گزشتہ چالیس سال سے آنے والی بے شمار تبدیلیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ جہاں آپ کو آج بھی کوئٹہ میں ایسے کئی سو افراد مل جائیں گے جو یہ بتاتے ہوں کہ وہ شام کو سیرینا یا جناح روڈ کے کسی ہوٹل میں حامد کرزئی کے ساتھ گپ لگاتے تھے یا پھر خمینی انقلاب کے بعد وہاں سے بھاگے ہوئے ایرانی وزیروں کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔ وہاں سیاسی اور علاقائی معاملات پر آپ کی ذہنی وسعت باقی پورے خطے سے زیادہ ہوگی۔
    یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں 1973ء میں سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت گرا کر ذوالفقار علی بھٹو فوجی ایکشن شروع کرے، نواب اکبر بگٹی کے جاں بحق ہونے کا سانحہ ہو، پشاور کا اے پی ایس ہو، کوئٹہ کے وکلاء کی موت کا المناک واقعہ یا گزشتہ روز ہونے والا پولیس کالج کا دردناک واقعہ یہاں کے لوگوں کا ان سب کے پس منظر کے بارے میں ایک طویل اور مفصل تجزیہ ہوتا ہے۔ وہ ان سب واقعات کو ایک عام سا واقعہ نہیں سمجھتے۔ وہ اس کے تانے بانے ملکی سیاست سے بھی جوڑتے ہیں اور عالمی و علاقائی حالات سے بھی۔ دنیا کے جتنے بڑے بڑے صحافی بلوچستان نے دیکھے ہیں کسی اور صوبے نے نہیں دیکھے۔
    یہ سب 1980ء سے یہاں آنے شروع ہوئے تھے۔ عام بلوچ اور پشتون ان کے ساتھ مترجم کی ڈیوٹی دیتا تھا۔ گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد تو یوں لگتا تھا کہ جیسے بی بی سی، سی این این، فوکس، ڈی بلیو اور دیگر عالمی نیٹ ورک کے بڑے، بڑے ناموں کا ٹھکانہ ہی کوئٹہ ہے۔ یہاں کا عام پڑھا لکھا شخص جس نے ان کے ساتھ مترجم کا کام کیا ہے وہ ان عالمی میڈیا والوں کے تعصبات سے بھی واقف ہے اور ان کی نفرتوں سے بھی آشنا۔ اسے ان کے سوالوں کے پس منظر کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور دنیا بھر میں چلنے والی سازشی کہانیوں سے بھی آشنا۔
    یہی وجہ ہے کہ سریاب روڈ پر واقع پولیس کالج میں ہونے والے واقعے کو یہاں کے لوگ ایک عام واقعہ نہیں سمجھتے۔ ان کا تبصرہ پورے پاکستان سے مختلف ہے۔ آپ لاہور میں کھڑے ہوکر بازار میں لوگوں سے سوال کریں ’’سی پیک‘‘ کیا ہے شاید کوئی ایک جواب دے سکے۔ لیکن یہاں کوئٹہ میں آپ کو ایسے کئی مل جائیں گے جو اس کے روٹ کے اختلاف اور بلوچستان سے زیادتی کے بارے میں بھی گفتگو کریں گے۔
    ایسے سیاسی طور پر زندہ لوگوں کے نزدیک یہ خون بہایا گیا ہے اور اس میں بہت سے عوامل شامل ہیں۔ وہ اسے ہلمند میں تازہ ترین طالبان فتوحات کا ردعمل بھی سمجھتے ہیں لیکن وہ گزشتہ تین دنوں سے ایک سوال کا جواب ہر کسی سے پوچھ رہے ہیں کہ جب 6 ستمبر 2016ء کو پاسنگ آؤٹ پریڈ ہو چکی، ان کو محرم کی ڈیوٹی کے لیے روکا گیا۔ پھر 13 اکتوبر 2016ء کو اپنے اپنے اضلاع میں ڈیوٹی کے لیے بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد انھیں اس مقتل گاہ میں واپس کیوں بلایا گیا۔
    بلوچستان کے اعلیٰ ترین عہدیدار سے لے کر پولیس کے اہم اہلکار تک کسی کے پاس اس کا تسلی بخش جواب نہیں ہے۔ تمام جواب آئیں بائیں شائیں ہیں۔ کوئی مزید ٹریننگ شیڈول نہیں، کوئی ڈیوٹی کا اعلان نہیں، وہ واپس پولیس ٹریننگ کالج میں کوئی سیر کرنے کے لیے تو بلائے نہیں گئے تھے۔ جب تک یہ سوال بلوچستان کے عوام کے ذہنوں میں ہتھوڑے برساتا رہے گا وہ ایک درخواست ضرور کرتے رہیں گے جو وہ کوئٹہ کی شاہراہوں پر آج کر رہے ہیں۔ یہ تمہاری اقتدار کی جنگ ہے، اس میں ہمارا خون کیوں بہاتے ہو۔ انھیں تسلی بخش جواب دو گے، سچ بولو گے تو مسئلہ حل ہو گا ورنہ پہلے سے موجود نفرتوں کو اور آگ ملے گی۔

  • ایک سیلوٹ اور دو باتیں – سید بدر سعید

    ایک سیلوٹ اور دو باتیں – سید بدر سعید

    بدر سعید پاک ٹی ہائوس اب صرف ادیبوں اور شاعروں کا ٹھکانا نہیں رہا۔ سچ کہیں تو اب یہاں ادیب شاعر اقلیتی جبکہ یونی ورسٹی کے طلبا و طالبات اکثریتی گروپ بن چکا ہے۔ ماضی میں شاعر ایک کپ چائے کے ساتھ سارا سارا دن گزار دیتے تھے۔ اب حالات یہ ہیں کہ چائے پینے کے بعد عزت سادات بچاتے ہوئے گھر کی راہ لیتے ہیں۔ ان کی جگہ نوجوانوں کی اکثریت سارا دن یہیں ڈیرہ جمائے نظر آتی ہے۔ سگریٹ کا دھواں، لیپ ٹاپ، قہقہے اور دھواں دار گفتگو کے ساتھ ساتھ سرگوشیاں بھی ان کی پہچان ہے۔ شروع میں تو پاک ٹی ہائوس میں نوجوانوں کی آمد اور اس طوفان بدتمیزی پر کئی کالم بھی لکھے گئے اور ادبی حلقوں میں اس پر طنز بھی کیا گیا لیکن اب دونوں پارٹیاں ہی ایک دوسرے کو سوکنوں کی طرح برداشت کرنے کی عادی ہوچکی ہیں۔
    پاک ٹی ہائوس میں آنے والے طلبا و طالبات میں کئی ایسے گروہ بھی ہیں جو بظاہر تو ’’برگر کلب‘‘ کے نمایندے لگتے ہیں، لیکن ان کا مطالعہ اور ادب سے لگائو قابل تعریف ہے۔ یہ بھی ایسا ہی ایک گروہ تھا۔ ہم چند دوست پاک ٹی ہائوس میں بیٹھے صحافتی جھگڑوں اور ملکی مسائل پر گفتگو کررہے تھے جبکہ ساتھ کی میز پر غصہ سے بھرے بیٹھے یہ نوجوان پاکستان کے نظام پر تنقید کے نشتر چلارہے تھے۔ انہیں لگتا تھا کہ ملک کے تمام سرکاری محکمے بند کردیئے جائیں تو لاتعداد مسائل خودبخود حل ہوجائیں۔ ایک نوجوان تو اس قدر جذباتی تھا کہ چاہتا تھا کہ تمام سرکاری ملازموں کو تختہ دار پر لٹکادیا جائے۔ ایسے جذباتی ماحول میں خاموشی ہی ہمیشہ بہتر پالیسی رہتی ہے۔ جذباتی نوجوان آپ کو یا تو بات کرنے کا موقع ہی نہیں دیتے یا پھر درمیان سے جملے اچک لیتے ہیں۔ یہاں البتہ صورت حال مختلف تھی۔ یہ لوگ دھواں دار گفتگو کرنے کے بعد ہماری رائے سننے کے متمنی تھے۔ فتح مندی کے تاثرات ان کے چہروں پر عیاں تھے۔ انہیں یقین تھا کہ اختلاف کے لیے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہوگی۔
    ان سے مخاطب ہوتے ہوئے میں نے کہا: آپ میں سے کس کس کو گذشتہ ایک سال کے دوران کسی تھانے جانے کا اتفاق ہوا ہے؟ سب خاموش رہے۔ اس خاموشی سے مجھے گفتگو آگے بڑھانے کا موقع مل گیا۔ میں نے بولنا شروع کیا۔ مجھے پولیس کا حوالہ اس لیے دینا پڑا کہ آپ سب سے زیادہ پولیس کے خلاف بول رہے تھے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ میں سے کوئی بھی کسی تھانے میں نہیں گیا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم سنی سنائی باتوں پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔ اگر ماضی میں ہمیں پولیس اسٹیشن میں کسی ناخوشگوار واقعہ کا سامنا کرنا پڑا تو آج بھی اسی کو بنیاد بناکر پولیس کے خلاف بول رہے ہیں، لیکن یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کریں گے کہ اس عرصہ میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں؟
    ایک سروے کے مطابق صرف 30 فیصد لوگوں کو پولیس سے براہ راست واسطہ پڑتا ہے لیکن پولیس کے خلاف بولنے والوں میں باقی ستر فیصد لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔ کیوں؟ اس کیوں کا جواب ہمیں سوشل میڈیا سے ملتا ہے۔ سوشل میڈیا بتاتا ہے کہ ہم شہرت اور ریٹنگ کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں۔ ہم بنا تصدیق خبریں اپ لوڈ کرکے اپنے پیجز پر زیادہ سے زیادہ ریٹنگ لینا چاہتے ہیں۔ ہم جھوٹی اور من گھڑت باتیں پھیلاتے ہیں۔ اپنی پوسٹ شیئر کرنے پر جنت کا لالچ دیتے ہیں اور اس ریٹنگ کے چکر میں تبرکات اور مقدس ہستیوں کا نام استعمال کرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔
    نوجوانوں کے چہرے کے تاثرات بتارہے تھے کہ وہ مجھ سے متفق ہیں۔ میں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ ریٹنگ کی یہ دوڑ ہمیں پولیس اور دیگر محکموں پر بے سروپا تنقید پر اکساتی ہے۔ پولیس افسران بار بار صحافیوں کو بتارہے ہیں کہ انہوں نے محکمہ پولیس میں جدید سائنسی بنیادوں پر تبدیلیاں کی ہیں۔ ٹریننگ سے لے کرتھانوں تک سارا نظام بدل رہا ہے لیکن ہم میں سے شاید ہی کسی نے اس نئے نظام کو سمجھنے میں دلچسپی لی ہو۔ ہم ان 70 فیصد کے ساتھ کھڑا ہونا پسند کرتے ہیں جن کے بارے میں آقا دو جہان ﷺ نے کہا کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ کوئی بات بنا تصدیق آگے پھیلا دے۔ جھوٹ کا یہ کلچر ہمارے سارے معاشرے کو تباہی کے راستے پر لے آیا ہے۔ ہم اب ایسے آتش فشاں کے دھانے پر بیٹھے ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔
    ایک نوجوان کچھ پریشان نظر آیا۔ کہنے لگا پھر ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ہمارے پاس کوئی راستہ بھی تو نہیں۔ میں نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا اور چند لمحوں کے بعدکہا: ہم ہی سب سے بڑی طاقت ہیں۔ خدا یہ معاشرہ ٹھیک کرنے کے لیے اب کوئی نبی نہیں بھیجے گا۔ اب ذمہ داری ہمارے کاندھے پر ہے۔ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ جس ملک کے اداروں کا مورال گرجائے وہ ملک تباہ ہونے لگتا ہے۔ ہمیں سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کی عادت ختم کرنا ہوگی۔ ہمیں یونی ورسٹی کے اساتذہ کے ساتھ پولیس افسران سے ملنا ہوگا اور اس نئے سسٹم کو سمجھنا ہوگا۔ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ ہم کس طرح جرائم کے خلاف پولیس کی مدد کرسکتے ہیں۔ اور سب سے بڑی بات ہمیں پولیس کو اپنا سمجھنا ہوگا، بالکل ویسے ہی جیسے ہم فوج کو اپنا سمجھتے ہیں۔ ہمیں اسی طرح پولیس اہلکاروں کو سیلوٹ کرنا ہوگا۔ ہمارا یہ ایک سیلوٹ ان کی دن بھر کی تھکاوٹ اور چڑ چڑا پن ختم کرکے انہیں تازہ دم کرسکتا ہے۔ یہ ایک سیلوٹ اور دو حوصلہ افزا باتیں ہم پر قرض ہیں۔ جس دن ہم یہ قرض اتارنے لگے اسی دن ہماری پولیس سے شکایات بھی ختم ہوجائیں گی۔

  • کیکر کے بیج سے انگوروں کی امید – محمد عمیر

    کیکر کے بیج سے انگوروں کی امید – محمد عمیر

    محمد عمیر پنجاب پولیس صوبے کا بدنام ترین محکمہ ہے۔سفارش،رشوت،ناانصافی سمیت ہر وہ خامی جو اس محکمے میں نہیں ہونی چاہیے وہ اس میں موجود ہے۔وزیراعلی پنجاب اپنے تمام تر دعووں کے برعکس پنجاب پولیس کو راہ راست پر نہیں لاسکے۔پولیس شاید اس وجہ سے بھی زیادہ بدنام ہے کہ ایک عام شہری کو ہر روز پویس سے واسطہ پڑتا ہے،کبھی چیکنگ کے نام پر ناکے پر رکنا پڑتا ہے،کبھی انصاف کے حصول کے لئے تھانے جانا پڑتا ہے توکبھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر چالان ۔کیونکہ پولیس سے ہمارا روز کا واسطہ ہے تو ان کی خامیاں اور کوتاہیاں سب کے سامنے ہیں۔مگر کسی دوسرے سرکاری محکمے میںجانے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ سب محکمے ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔پنجابی کی مثال ’’مجاں مجاں دیاں بھیناں‘‘ والا معاملہ ہے۔
    شہری ہر جگہ ہی خوار ہورہے ہیں، رشوت ہرجگہ ہر مسئلے کا حل ہے۔ سفارش کے بغیر کسی بھی محکمے میں کام نہیں ہوتا۔ عام شہری کی ہر جگہ تذلیل اور تحقیر کی جا رہی ہے۔ ایم پی اے اور ایم این اے کے لئے ہر دفتر میں کرسی موجود ہے مگر عام شہری کے لئے لمبی لائنیں۔ عام شہری کو انتظار اور صبر کا مشور ہ ہے تو رشوت اور سفارش سے وہی کام پلک جھپکنے سے پہلے ہوجاتا ہے۔ جو فارم، چالان فارم عام شہری کے لئے ختم ہوا ہوتا ہے، رشوت پر وہی فارم باآسانی دستیاب ہوتا ہے۔ فائل پر صاحب کے دستخط ہو، صاحب موجود نہ ہو، ٹائم ختم ہوگیا ہو، سمیت تمام مسائل کا حل سفارش اور رشوت میں پوشیدہ ہیں۔
    چند ماہ قبل میرا موبائل فون چوری ہوا۔ پولیس کی مہربانی کے چور پکڑا گیا تو معلوم ہوا کہ واپسی کے لئے سامان کی سپرد داری کروانی پڑے گی۔ سپرد داری کے لئے تھانے دار نے کہا کہ سادہ کاغذ پر درخواست لکھیں، مجسڑیٹ کے سامنے پیش ہوں، وہ دستخط کردے گا اور سامان واپس مل جائے گا۔ ماڈل ٹاؤن کچہری گیا، سادہ کاغذ پر درخواست لکھ کردی تو مجسڑیٹ کے ریڈر نے واپس کردی، مجسٹریٹ کے کمرے میں ہی ایک شخص نے بلایا کہ بھائی ایسے کام نہیں ہوگا۔ پوچھا تو کیسے ہوگا؟ وہ صاحب ساتھ لے گئے، اس کاغذ پر ایک فائل لگائی، 500روپے لیے، دوبارہ مجسڑیٹ صاحب کے کمرہ میں گئے، مجسڑیٹ کی موجودگی میں 300 روپے فائل میں رکھ کر ریڈر کو دیے اور 200 اپنی جیب میں رکھ کر درخواست پر دستخط کروادیے، یوں چوری شدہ سامان واپس ملا۔
    چند روز قبل ایک دوست کے ہمراہ لاہور بورڈ سے منسلک ادارے IBBC جانا ہوا۔ دو چکر لگانے سے ہونے والا کام 5چکر لگانے اور لڑائی جھگڑے کے بعد مکمل ہوا۔ پنجاب کے 36اضلاع میں اس ادارے کے صرف 2دفتر ہیں ایک اسلام آباد اور دوسرا لاہور۔بیرون ملک جانے والے افراد کومیٹرک اور انٹر میڈیٹ کی اسناد یہاں سے تصدیق کروانی لازمی ہیں۔قانونی طور پر امیدوار یا خونی رشتے دار آئے تو ہی اسناد کی تصدیق ہوتی ہے،اس کے علاوہ آپ کی جتنی بھی مجبوری ہو آپ کی سندکی تصدیق نہیں ہوتی،مگر بورڈ دفتر کے باہر فوٹو اسٹیٹ والا 4ہزار وپے لیکر یہ کام بخوبی کردیتا ہے۔دور دراز کے علاقوں سے آنے والے افراد کو اس دفتر کی کاغذی ضروریات پوری کرنے کے لئے کئی چکر لگانا پڑتے مگر رشوت یہی کام دو دن میں امیدوار اور خونی رشتے کی عدم موجودگی میں کروادیتی ہے۔
    پنجاب انسٹیوٹ آف کارڈیالوجی یہاں دل کا بائی پاس آپریشن کروانے کے لئے عام شہری کو ایک سال کی تاریخ دی جاتی ہے۔مگر ڈاکٹر اور ایم ایس اگر آپ کے جاننے والے ہیں تو وہی ڈیٹ ایک مہینے یا ایک ہفتے تک آجاتی ہے۔جتنی سفارش بڑی ہو اتنی جلدی ڈیٹ مل جاتی ہے۔لاہور کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں MRIکروانے کے لئے تین ماہ کی تاریخ دی جاتی ہے۔مگر ہسپتالوں کے باہر موجود میڈیل سٹورز کے لوگ3000سے 3500روپے لیکر یہ ٹیسٹ اسی دن میں کروادیتے ہیں۔لاہور کے سب سے بڑے میو ہسپتال میں اس ٹیسٹ کی سہولت ہی موجود نہ ہے۔ جنوبی پنجاب سمیت متعدد اضلاع سے شہریوں کو ایم آر آئی ٹیسٹ کے لئے لاہور کارخ کرنا پڑتا ہے۔چند بڑے ہسپتالوں کے علاوہ دیگر ہسپتالوں میں اس ٹیسٹ کی سہولت ہی موجود نہیں ہے۔
    الغرض جس سرکاری محکمے میں بھی جائیں ایک جیسا حال ہے۔ایک محکمے میں جانے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ اس کے حالات سب سے خراب ہیں اور یہاں صرف رشوت اور سفارش کا نظام ہے مگر آپ کی یہ غلط فہمی اس وقت دور ہوجاتی ہے جب آپ کسی دوسرے محکمے میں جاتے ہیں۔سرکاری محکموں کا یہ حال دیکھ کر مجھے حکمرانوں نہیں بلکہ اپنے آپ پر عوام پر غصہ آتا ہے کہ ہم سب اسی کے مستحق ہیں۔ہم ایم پی اے اور ایم این کو ووٹ ہی اس وجہ سے دیتے ہیں کہ وہ ہمارے کام کروائیں اس لئے ان کے کہنے سے ہی ہمارا کام ہوتاہے۔ہم نے آج تک نظام کی تبدیلی،سسٹم کو ٹھیک کرنے کے لئے تو ووٹ ہی نہیں دیا۔ہم جس کام کے لئے ووٹ دے رہے ہیں وہی ہمارے ساتھ ہورہا ہے اور پھر گالی ہم نظام کو دیتے ہیں تو میرا سوال ہے نظام کو آپ نے ووٹ کب دیا تھا؟جب کیکر کا بیج بویا ہے تو اس سے انگوروں کی امید رکھنا بیوقوفی ہی ہے۔آپ جو کاٹنا چاہ رہے اس کے لئے اسی چیز کو بیج بونا پڑے گا۔

  • اسٹیبلشمنٹ کیا ہے؟ رضوان اسد خان

    اسٹیبلشمنٹ کیا ہے؟ رضوان اسد خان

    رضوان اسد خان اوون جونز اپنی کتاب ”دی اسٹیبلشمنٹ“ میں لکھتے ہیں:
    The Establishment includes politicians who make laws; media barons who set the terms of debate; businesses and financiers who run the economy; police forces that enforce a law which is rigged in favour of the powerful. The Establishment is where these interests and worlds intersect with each other, either consciously or unconsciously. It is unified by a common mentality, which holds that those at the top deserve their power and their ever-growing fortunes, and which might be summed up by the advertising slogan of cosmetics giant L’Oréal: ‘Because I’m worth it’. This is the mentality that has driven politicians to pilfer expenses, businesses to avoid tax, and City bankers to demand ever greater bonuses while plunging the world into economic disaster. All of these things are facilitated – even encouraged – by laws that are geared to cracking down on the smallest of misdemeanours committed by those at the bottom of the pecking order.
    “The Establishment”
    By:
    Owen Jones
    ”اسٹیبلشمنٹ“ میں شامل ہیں:
    .. وہ سیاستدان جن کا کام (اپنے مطلب کی) قانون سازی ہے.
    .. میڈیا کے وہ کرتا دھرتا جو مباحث کے (موضوع اور) اصول وضع کرتے ہیں.
    .. وہ تاجر اور سرمایہ دار جن کی مٹھی میں معیشت ہے.
    .. وہ پولیس جو اس قانون کو بزور نافذ کرتی ہے جو طاقتور کی طرفداری کرتا ہے.
    اسٹیبلشمنٹ وہ مقام ہے جہاں یہ مختلف جہان اور ان کے مفادات آپس میں ارادی یا غیر ارادی طور پر آ ملتے ہیں.
    انہیں ایک ایسی متفقہ ذہنیت نے آپس میں باندھ رکھا ہے جس کے مطابق چوٹی پر موجود لوگ اپنی طاقت اور دن دگنی رات چگنی ترقی کرتے اثاثوں کے ”مستحق“ ہیں. اور اس بات کو مختصراً مشہور کاسمیٹکس برانڈ ”لوری ایل“ کے اشتہاری پیغام میں بخوبی سمویا جا سکتا ہے:
    ”کیونکہ یہ میری حیثیت کا تقاضا ہے.“
    ”I am worth it“
    کا حقیقی ترجمہ تقریباً ناممکن ہے
    یہی وہ ذہنیت ہے جو سیاستدانوں سے غبن اور کاروباری حضرات سے ٹیکس چوری کرواتی ہے اور بینکنگ کے سورماؤں کو بونس پر بونس دلواتی ہے، باوجود اس کے کہ دنیا کو وہ معاشی تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں.
    اور ان سب باتوں کی سہولت دیتے ہیں بلکہ بسا اوقات حوصلہ افزائی کرتے ہیں. وہ قوانین جو اپنی ساخت کی بدولت نچلی ترین سطح کے کارکنوں کی معمولی ترین لغزشوں کو بھی نظر انداز کرنے پر تیار نہیں.
    یعنی اسٹیبلشمنٹ کی یک سطری تعریف یوں بن سکتی ہے:
    ”ما انزل اللہ“ کے سوا کسی بھی بنیاد پر قائم نظام کے وہ تمام ”اہل حل و عقد“ جن کا مفاد اور بقا ”ہر قیمت پر“ اس کی مروجہ شکل (سٹیٹس کو) کو برقرار رکھنے سے ہی وابستہ ہو.
    …………….
    احقر کی رائے:
    .. اوون جونز چونکہ برطانیہ اور مغربی اقوام کے تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی وضاحت کر رہے ہیں، جہاں فوج کا کردار اور دائرہ کار محدود ہے، لہٰذا اس فہرست میں اس کا ذکر نہیں. جبکہ ہمارے ماحول میں وہ فوج جو متعدد بار اقتدار پر براہ راست قابض رہ چکی ہے، اس کے ذکر کے بغیر یہ لسٹ قطعاً نامکمل ہے.
    .. بہت سے لوگ میڈیا کو اسٹیبلشمنٹ کا حصہ نہیں سمجھتے، جو کہ اس کی طاقت کے انکار کے مترادف ہے. میڈیا کے جغادریوں اور چودھریوں کا معاشی اور نظریاتی مفاد بھی اسی نظام کی بقا سے جڑا ہے جس میں ان پر پابندی صرف اور صرف اپنے ”قبیلے“ کے لوگوں کے خلاف بولنے اور لکھنے پر ہو جبکہ دنیا کے دیگر موضوعات پر انہیں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہو، خواہ معاملہ کتنا ہی سنجیدہ، حساس یا تکنیکی نوعیت کا ہی کیوں نہ ہو.
    .. ہمارے یہاں سیاست دانوں کو ”پرو اسٹیبلشمنٹ“ اور ”اینٹی اسٹیبلشمنٹ“ میں تقسیم کیا جاتا ہے، جو اس لحاظ سے بجا ہے کہ اسلام پسند جماعتوں کے منشور کے مطابق وہ اقتدار کے حصول کے بعد نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی علمبردار ہیں جو کہ ”سٹیٹس کو“ کے تسلسل کی خواہاں قوتوں کے مفاد کے خلاف ہے. شاید اسی وجہ سے ان جماعتوں کو کبھی بھی ”گیم چینجنگ“ حیثیت حاصل نہیں کرنے دی گئی.
    البتہ جن سیکولر پارٹیوں یا سیاستدانوں کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے، وہاں اسٹیبلشمنٹ کا نہایت محدود تصور کارفرما ہے.
    .. اور آخر میں ہو سکتا ہے کہ آپ میری بات سے اتفاق نہ کریں، لیکن ایک ایسا طبقہ بھی اسٹیبلشمنٹ کا ایک طاقتور حصہ بننے میں کامیاب ہو چکا ہے جس نے (دہشتگردی کی طرح)، نہایت غیر محسوس طریقے سے ”فرقہ واریت“ کی بھی ایک نئی تعریف وضع کر دی ہے.