Tag: ٹیکنالوجی

  • اگر واقعی آپ کو فلسطین سے محبت ہے  – حافظ یوسف سراج

    اگر واقعی آپ کو فلسطین سے محبت ہے – حافظ یوسف سراج

    اگر واقعی آپ کو فلسطین سے محبت ہے تو اس تحریر کو پڑھ لینا بھی آپ کے لیے ضروری ہے۔

    اللہ مجھے فرصت اور توفیق دے کہ میں فلسطین کے حوالے سے کچھ ضروری باتیں آپ سے کر سکوں، ہماری قوم کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہ ابھی تک قیام پاکستان سے پہلے کی ذہنیت میں جی رہی ہے،دعوی اس کا دنیا کے مقابل اسلامی نظام کی پیشکش کا ہے، نظریہ اس کا دنیا سے جیت جانے کا ہے لیکن خیال اس کا آج بھی یہ ہے کہ جنگ روایتی طریقوں سے میدان میں اتر کر لڑی جاتی ہے۔ جب تک ہم اپنے زمانے میں آ نہیں جاتے، جب تک ہم اپنے عصر سے ہم آہنگ نہیں ہو جاتے، اللہ نہ کرے ،ہمیں آنسو ہی بہانے پڑیں گے۔

    اچھا تھوڑی سی بات کھولتے ہیں، کیا آپ کو پتہ ہےکہ ہماری اسی عیدالفطر کے روز امریکہ نے یمن میں جو مسلمان قتل کئے، جن کی ویڈیو ٹرمپ نے اپنے اکاؤنٹ پر شیئر کی، وہ کیسے قتل ہوئے؟ کیا آپ نے وہ خبر دیکھ لی ہے جس میں مائیکروسافٹ کی پچاسویں سالگرہ کی تقریب کے دوران اسی کمپنی میں کام کرنے والی ایک مسلمان خاتون چلانے لگی کہ تمھاری کمپنی ہمارے بچوں کے قتل میں شریک ہے؟

    کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہی تھی؟چلیے میں وضاحت کر دیتا ہوں، امریکہ نے یمنی مسلمان اسی تکنیک سے شہید کئے، جس تکنیک سے اسرائیل فلسطینیوں کو خون میں نہلا رہا ہے، اسی تکنیک میں مائیکروسافٹ کی اسرائیل کےلیے معاونت کے حوالے سے وہ مسلم خاتون احتجاج کر رہی تھی، جسے مائیکروسافٹ کمپنی میں کام کرنے کی وجہ سے لگتا تھا کہ وہ خود بھی فلسطینیوں کے قتل میں براہ راست معاونت کر رہی ہے اور اسے ٹھیک لگتا تھا۔

    یہ تکنیک ہے اسلحے میں اے آئی کا استعمال!
    جی ہاں اب مغربی دنیا نے اپنے گائیڈڈ اسلحہ میں اے آئی کا استعمال شروع کر دیا ہے، یا کہہ لیجیے زیادہ مؤثر اور وسیع استعمال شروع کر دیا ہے،چنانچہ اب اسے میدان میں اپنے فوجی اور جاسوس نہیں اتارنے پڑتے، اسے ریکی نہیں کرنی پڑتی،اسے جنگ لڑنے کےلیے میدان میں کسی کے سامنے نہیں آنا پڑتا، بلکہ اس سب کی جگہ وہ کمپیوٹر ،موبائل یا ڈیوائس کی محض ایک کلک سے اے آئی گائیڈڈ ڈرون یا میزائل بھیجتے ہیں جو پرندوں کی طرح اڑتے ہوئے جہاں بھی انسانوں کی حرکت دیکھتے ہیں،تباہ کر دیتے ہیں۔

    تو اس کا مطلب ہے کہ اگر ہمیں فلسطینی یا کل کلاں کو دوسرے ملکوں کے باشندے بچانے ہیں تو اس کےلیے دنیا کے مقابل قرآن کی آیت [arabic]واعدولہم من استطعتم من قوہ[/arabic] کی جدید شکل یہ ہے کہ جس کے پاس اے آئی کا کنٹرول ہے، میدان جنگ میں اسی کا پلڑا بھاری ہے، اب آپ جائزہ لے لیجیے کہ قرآن آپ کے پاس ہے، یہ حکم آپ کے پاس ہے مگر اس پر آپ کا عمل کتنا ہے؟

    اے آئی میں یا تو مغرب نے بلکہ امریکا نے میدان مارا یا پھر چائنہ نے کمال کر دکھایا ہے، اب آپ کو اگر فلسطینیوں سے محبت ہے تو غور کر لیجیے کہ دنیا کے اس جدید جنگی میدان میں مسلمان کہاں کھڑے ہیں؟ کھڑے ہیں یا بیٹھے ہیں؟ موجود بھی ہیں یا موجود ہی نہیں ہیں؟ اس میں ہمارے حکمرانوں کی توجہ کتنی ہے؟
    اس میں ہمارے تاجروں کی انویسٹمنٹ کتنی ہے؟
    اس میں ہمارے سٹوڈنٹس کی تعلیم کتنی ہے؟
    دنیا کے مقابل اے آئی میں ہمارا حصہ کتنا ہے؟

    افسوس تو یہ ہے کہ غلبہ اسلام اور اشاعت اسلام کےلیے ہمارا نیکی کا جذبہ آج بھی مسجد اور مدرسے کی بلڈنگ کی تعمیر سے آگے نہیں بڑھا،ہم آج بھی غزہ میں کھانا ،ادویات اور بلڈنگ میٹیریل بھیجنے سے زیادہ کی سوچ نہیں رکھتے، جبکہ دنیا وہاں پہنچ چکی ہے کہ اسے آپ کو ڈھونڈنے اور مارنے کےلیے سامنے آنا ہی نہیں پڑتا۔ آپ نے کبھی توجہ نہیں دی کہ آج کی جنگ معیشت اور مہارت کی جنگ ہے، یہ جنگ اے آئی پلس اسلحے کی جنگ ہے۔

    آپ اس میں اپنا کنٹری بیوشن دیکھ لیجیے اور اس آئینے میں خود اپنی آنکھوں سے اپنا مستقبل دیکھ لیجئے۔ میرا خیال ہے، کچھ بات میں کہہ سکا ہوں،باقی آپ بھی کم سمجھ دار نہیں۔ سوچیے اور فیصلے کیجیے۔کچھ بڑے فیصلے ،کچھ نئے میدانوں میں انویسٹ کرنے کے فیصلے۔

    یاد رکھیے، مغرب پاگل نہیں کہ جب آپ ایک اور نئی فلک شگاف بلڈنگ کیلئے اربوں لٹا رہے ہوتے ہیں تو وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے نئے نئے میدانوں میں اربوں ڈالر پھونک رہا ہوتا ہے، وہ مستقبل کی تیاری کر رہا ہے، آپ ابھی حال میں بھی نہیں پہنچ سکے۔ آگے آپ نے کیا کرنا ہے؟ کیسے جینا ہے؟ یہ فیصلہ بھی خود آپ ہی کو کرنا ہے۔

    اس تحریر کے آخر میں صرف دو احادیث کا اضافہ کر لیجیے۔
    ایک وہ حدیث جس میں عربوں کے بلڈنگز بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کو قیامت کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔
    اور دوسری وہ حدیث جس میں مسلمان کو سوائے عمارت بنانے کے ہر خرچ کرنے میں اجر کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔
    پھر دیکھیے کہ آپ کس کام میں لگے ہیں اور دنیا کس قیامت کی چال چل رہی ہے۔

  • روایتی سے جدت کا سفر: چھوٹے کاروبار کے لیے ڈیجیٹل حل – مزمل خان

    روایتی سے جدت کا سفر: چھوٹے کاروبار کے لیے ڈیجیٹل حل – مزمل خان

    چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتےہیں۔ یہ لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کرتے ہیں، جدت طرازی کو فروغ دیتے ہیں اور ترقی کا پہیہ آگے بڑھاتے ہیں۔ مگر بہت سے کاروبار ابھی تک ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اپنانے میں بے حد پیچھے ہیں۔ ڈیجیٹل تبدیلی نہ صرف ترقی کی نئی راہیں کھولتی ہے بلکہ کام کی رفتار بڑھاتی ہے، اس سے ناصرف نئے بازاروں تک رسائی ملتی ہے۔ بلکہ دوردراز صارفین سے رابطے کا ایک موثر ذریعہ بھی ہے۔ مگر یہ سفر آسان نہیں ہے۔ کاروباری حضرات کو کئی مشکلات کا سامنا ہے—سرمایہ کی کمی، مہارتوں کی قلت، اور بنیادی ڈھانچے کے مسائل سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ یہاں ہم انہی چیلنجز کا تفصیل سے جائزہ لیں گے اور پاکستانی کاروباروں کے لیے مؤثر اور عملی حل پیش کریں گے۔

    پاکستان کی معیشت میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کا حصہ تقریبا 40 فیصد ہے۔ یہ 70 فیصد سے زائد افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل تبدیلی اب کوئی آپشن نہیں، بلکہ بقا کی ایک لازم شرط ہے۔ صارفین آن لائن سروسز کی توقع رکھتے ہیں۔ جبکہ حریف تیزی سے جدید ٹیکنالوجی اپنا رہے ہیں۔ جو کاروبار وقت کے ساتھ نہ بدلے، وہ پیچھے رہ جائیں گے۔ مگر جو وقت کے ساتھ جدت پسندی اپنائیں گے، ان کے لیے انعام بڑا ہے—بہتر پیداوار، وسیع تر رسائی، اور زیادہ منافع۔

    پاکستان میں کبھی ہر بازار میں ہاتھ والی گھڑیوں کی دکانیں عام تھیں۔ لوگ وقت دیکھنے کے لیے گھڑیاں خریدتے تھے، لیکن پھر موبائل فون آگئے۔ گھڑی کی دکانیں آہستہ آہستہ ناپید ہوتی گئیں کیونکہ وہ بدلتے وقت کے ساتھ نہ چل سکیں۔ یہی حال آج چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کا ہو سکتا ہے جو ڈیجیٹل تبدیلی کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ جو کاروبار آن لائن سروسز، ڈیجیٹل ادائیگیوں اور ای کامرس کی طرف نہیں جائیں گے، وہ ماضی کا حصہ بن سکتے ہیں—بالکل ان گھڑیوں کی دکانوں کی طرح۔

    ڈیجیٹل ٹولز پیسے مانگتے ہیں۔ سافٹ ویئر لائسنس سستے نہیں۔ ہارڈ ویئر اپ گریڈز بھی لاگت بڑھاتے ہیں۔ کلاؤڈ سروسزبھی سبسکرپشن مانگتی ہیں۔ پاکستان میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار پہلے ہی کم منافع پر چل رہے ہیں۔ بڑھتی مہنگائی اور بجلی کے نرخ مزید مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔

    ایسے میں اس کا حل یہ ہے کہ چھوٹے پیمانے پر آغاز کریں۔ مفت ٹولز سے فائدہ اٹھائیں۔ گوگل ورک اسپیس مفت ای میل اور ڈاکس فراہم کرتا ہے۔ واٹس ایپ بزنس بغیر کسی قیمت کے گاہکوں سے رابطے کی سہولت دیتا ہے۔ اوپن سورس ای آر پی سافٹ ویئرز اخراجات کم کر سکتے ہیں۔ مقامی سافٹ فیرکمپنیاں سستی ٹیکنالوجی سروسز دےسکتے ہیں۔ دوسرا اپنی سرمایہ کاری کو مختلف مراحل میں تقسیم کریں۔ جیسے کہ پانج ہزار ماہانہ کلاؤڈ پلان ایک ساتھ ادا کرنے سے بہتر ہے۔

    اسی طرح سے ویب سائٹ بنانے کے لیے بھی اپنا بجٹ مختص کریں ۔ اگر آپ کا بجٹ محدود ہے، تو بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ کئی پلیٹ فارمز مفت ویب سائٹ بنانے کی سہولت دیتے ہیں جیسے گوگل ساٗٹ سادہ اور مفت ویب سائٹ بنانے کے لیے بہترین ہے۔ ورڈپریس ایک بنیادی بلاگ اور ویب پیج بنانے کی سہولت دیتا ہے۔ وکس ڈاٹ کام ڈریگ اینڈ ڈراپ بلڈر کے ساتھ آسان ویب سائٹ تخلیق کریں۔ زوہو ساٗٹس چھوٹے کاروباروں کے لیے مفت ویب سائٹ بنانے کی سروس مہیا کرتی ہے۔ جبکہ ای کامرس کے لیے شاپیفائی ایک محدود مگر مفت حل پیش کرتا ہے۔ یہ تمام پلیٹ فارمز آپ کو بغیر خرچ کے آن لائن موجودگی فراہم کرتے ہیں۔ بعد ازاں جب کاروبار بڑھے، تو پروفیشنل ویب سائٹ میں اپ گریڈ کیا جا سکتا ہے۔

    ویب سائٹ کے ساتھ فیس بک پیج اور واٹس ایپ بزنس، مفت ڈیجیٹل موجودگی کا ایک بہترین اور مفت حل ہے۔ آج کے صارفین خریداری سے پہلے کاروبار کی تفصیلات، ریویوز اور مصنوعات کی معلومات آن لائن تلاش کرتے ہیں۔ اگر کوئی کاروبار ڈیجیٹل دنیا میں موجود نہیں، تو وہ ممکنہ گاہکوں سے محروم ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں فیس بک پیج اور واٹس ایپ بزنس دو طاقتور اور مفت ٹولز ہیں جو کاروباروں کو اپنی ساکھ بنانے اور گاہکوں سے براہ راست رابطے میں مدد دیتے ہیں۔

    فیس بک پیج کسی بھی کاروبار کے لیے ایک ڈیجیٹل شوکیس کا کام کرتا ہے۔ یہ نہ صرف گاہکوں کو معلومات فراہم کرتا ہے بلکہ اعتماد اور برانڈ کی شناخت بھی مضبوط کرتا ہے۔ ایک فعال فیس بک پیج کاروبار کو وسیع تر سامعین تک پہنچنے کا موقع دیتا ہے، جہاں لوگ مصنوعات کی تصاویر، قیمتیں اور دوسرے صارفین کی رائے دیکھ سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ، یہ ایک مؤثر مارکیٹنگ پلیٹ فارم ہے جو بغیر کسی بڑے بجٹ کے کاروبار کو فروغ دینے میں مدد دیتا ہے۔

    واٹس ایپ بزنس گاہکوں سے براہ راست اور فوری رابطے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ اس ایپ کے ذریعے کاروبار فوری جوابات دے سکتے ہیں، آرڈرز وصول کر سکتے ہیں اور اپنی خدمات سے متعلق سوالات کا جواب دے سکتے ہیں۔ اس سے گاہکوں کا اعتماد بڑھتا ہے اور خریداری کا عمل آسان ہو جاتا ہے۔ مزید برآں، ڈیجیٹل ادائیگیوں اور کیش آن ڈلیوری کے آپشنز کے ساتھ، چھوٹے کاروبار کم لاگت میں اپنی سروسز کو مزید مؤثر بنا سکتے ہیں۔

    ڈیجیٹل تبدیلی کو اپنانا اب کاروباری ترقی کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔ جو کاروبار آن لائن پلیٹ فارمز کو اپنائیں گے، وہ نہ صرف مقابلے میں آگے ہوں گے بلکہ اپنی بقا کو بھی یقینی بنا سکیں گے۔

    ٹیکنالوجی کے فروغ اور روز مرہ سرگرمیوں کے لیے ہنر مند افراد درکار ہوتے ہیں، لیکن بیشتر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار میں یہ صلاحیت موجود نہیں ہوتی۔ زیادہ تر ملازمین روزمرہ کے کام بخوبی انجام دے سکتے ہیں، مگر ڈیجیٹل مارکیٹنگ یا ڈیٹا اینالیٹکس جیسے جدید شعبوں کی سمجھ کم رکھتے ہیں۔ تربیت میں وقت لگتا ہے، جبکہ ماہرین کی خدمات حاصل کرنا مہنگا پڑتا ہے۔ یونیورسٹیاں ہر سال ہزاروں گریجویٹس پیدا کرتی ہیں، لیکن عملی مہارت رکھنے والے افراد کم ہی ملتے ہیں۔

    حل سادہ ہے۔ محدود بجٹ میں مہارتیں بڑھائیں۔ مفت آن لائن کورسز سے فائدہ اٹھائیں۔ کورسیرا ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی بنیادی تعلیم فراہم کرتا ہے، جبکہ یوٹیوب پربے شمار مفت ٹیوٹوریلز دستیاب ہیں۔ پیچیدہ کاموں کو آؤٹ سورس کریں۔ فری لانسرز ویب سائٹ ڈیزائن جیسے امور کم لاگت میں سنبھال سکتے ہیں۔ ملازمین کو ایک وقت میں ایک ہنر سکھائیں—پہلے ایکسل پر عبور حاصل کریں، پھر پاور بی آئی جیسے جدید ٹولز کی طرف بڑھیں۔

    پاکستان میں انٹرنیٹ کا نظام غیر مستحکم ہے، اور بجلی کی بندش کام میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔ سب سے زیادہ نقصان دیہی علاقوں میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو ہوتا ہے، جہاں فور جی کوریج مکمل نہیں۔ شہری علاقوں میں بھی انٹرنیٹ بینڈوڈتھ کے مسائل عام ہیں۔ ڈیجیٹل تبدیلی کے لیے مستحکم ٹیکنالوجی ناگزیر ہے، لیکن بنیادی سہولتوں کے بغیر یہ سفر دشوار ہو جاتا ہے۔

    حل یہی ہے کہ پہلے آف لائن کام کو ترجیح دی جائے۔ موبائل ڈیٹا کو بیک اپ کے طور پر استعمال کریں—جاز اور زونگ سستے انٹرنیٹ پیکجز فراہم کرتے ہیں۔ طویل المدتی بچت کے لیے سولر یو پی ایس میں سرمایہ کاری کریں، تاکہ بجلی کے بغیر بھی کام جاری رہے۔ کم بینڈوڈتھ پر چلنے والی ایپس کو آزمائیں۔

    یقینا پرانے طریقے آسانی سے نہیں بدلتے۔ کاروباری مالکان ٹیکنالوجی پر بھروسا نہیں کرتے، جبکہ ملازمین اپنی ملازمتیں کھونے سے ڈرتے ہیں۔ روایتی نظام محفوظ محسوس ہوتے ہیں، جبکہ ڈیجیٹل ٹولز پیچیدہ اور خطرناک لگتے ہیں۔ ڈیٹا چوری اور سیکیورٹی خدشات بھی ہچکچاہٹ کو بڑھاتے ہیں۔ اس لیے ایک ساتھ سب کچھ تبدیل کرنے کے بجائے، ایک عمل کو ڈیجیٹل کریں۔ جیسے کسی بھی مفت ایپ جیسے کہ گوگل ورکشیت پر سیلز ریکارڈ کرنا شروع کریں اور دیکھیں، عملے کو عملی تربیت دیں اور اسے ایک دلچسپ تجربہ بنائیں۔ جو لوگ جلدی اپنائیں، انہیں بونس یا دیگر مراعات دیں۔ سیکیورٹی خدشات کو دور کرنے کے لیے دوہری تصدیق کا استعمال کریں اور ڈیٹا کو گوگل ڈرائیو پر محفوظ بیک اپ میں رکھیں۔ تبدیلی کو مرحلہ وار اپنائیں، تاکہ یہ کاروبار کے لیے آسان اور فائدہ مند ثابت ہو۔

    پاکستان صفر سے آغاز نہیں کر رہا۔ ای کامرس تیزی سے فروغ پا رہا ہے—صرف 2024 میں دراز کے صارفین 1.5 کروڑ تک پہنچ گئے۔ موبائل فون کی رسائی 90 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے، جبکہ ایزی پیسہ اورجاز کیش جیسے پلیٹ فارمز ڈیجیٹل ادائیگیوں میں سبقت لے جا رہے ہیں۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار اس ڈیجیٹل لہر سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

    انتظار نہ کریں۔ ایک شعبے کا انتخاب کریں اور ڈیجیٹل تبدیلی کی شروعات کریں۔ اگر سیلز بڑھانی ہیں، تو کسی مقامی پواینٹ آف سیل سسٹم کا استعمال کریں۔ مارکیٹنگ بہتر کرنی ہے؟ تو مفت میں فیس بک پیج لانچ کریں۔ کسٹمر سروس میں بہتری چاہیے؟ تو واٹس ایپ بزنس کو آزمائیں—بغیر کسی لاگت کے۔ تجربہ کریں، سیکھیں، اور اپنی حکمت عملی کو وسعت دیں۔ مقامی کاروباری کمیونٹیز سے جُڑیں۔ سمیڈا اتھارٹی سے رابطہ کریں اور مختلف فورمز میں ٹیکنالوجی سے وابستہ کاروباری افراد کو جوڑتے ہیں، جہاں کامیاب حکمت عملیاں شیئر کی جا سکتی ہیں۔

    ڈیجیٹل تبدیلی محض ایک نعرہ نہیں، بلکہ ایک ضرورت ہے۔ پاکستانی چھوٹے کاروبارحقیقی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں—ریوینیو کی کمی ، مہارت کی کمی، اور بجلی کے مسائل۔ لیکن حل موجود ہیں۔ چھوٹے پیمانے پر آغاز کریں، مفت ٹولز کا فائدہ اٹھائیں، سمارٹ تربیت حاصل کریں، اور مقامی وسائل کو بروئے کار لائیں۔ نتیجہ؟ ترقی، مضبوطی، اور عالمی منڈیوں میں قدم رکھنے کا موقع۔ ایک ڈیجیٹل دنیا میں، پاکستان کے کاروباروں کے پاس پیچھے رہنے کا وقت نہیں۔

  • بلند حوصلہ “سپیشل پرسن” سے ایک ملاقات – سید رحمن شاہ

    بلند حوصلہ “سپیشل پرسن” سے ایک ملاقات – سید رحمن شاہ

    اسلام آباد کی تپتی دوپہر میں مئی کی دھوپ میں ہوا گرم ہوکر ہلکی ہوئی اور آسمان کی طرف بلند ہوئی. اس کی جگہ زمین پر خالی ہوئی تو اس خلا کو بھرنے کے لیے ہوائیں آنا شروع ہوئیں. ہوا میں تندی تھی۔ طوفان کی سی صورتحال تھی. ایف نائن کے جناح پارک میں ایک میلہ سا لگا تھا. “فیوچر فیسٹ” کے نام سے یہ جو ایک میلہ سا لگا تھا اس میں وہ تمام لوگ تھے جنھوں نے آئی ٹی کے شعبے میں نیا کام کیا تھا، کوئی ایپ یا سافٹ ویئر بنایا تھا. انھوں نے اپنے اپنے سٹال لگائے تھے. یہ میلہ ایک بڑے خیمے کے اندر ہو رہا تھا. بڑی بڑی اے سی مشینیں چل کر اس خیمے کے اندرونی ماحول کو ٹھنڈا رکھے ہوئی تھیں. باہر سے آتی ٹھنڈی ہوا سے حبس ختم ہوتا تھا. یہاں خاصی بھیڑ تھی. مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ یہاں آئے تھے. اس میلے کو ترتیب دینے والوں نے ہماری یونیورسٹی کو شرکت کی دعوت دی تھی، اور ہم اسی صورت اس میلے میں دندناتے پھر رہے تھے.

    باہر سے دھول زدہ، گرمی میں تپتا، جنریٹر اور اے سی مشینوں کی بری آوازوں میں گھرے اس ماحول میں لگے خیموں کے اندر صورتحال بڑی پرسکون تھی۔ روشنیاں جھلملاتی اور موسیقی کانوں سے ٹکراتی تھی. ہماری یونیورسٹی کی تین بسیں آئی تھیں. تقریباً ڈیڑھ سو کے قریب طلبہ و طالبات اس میلے میں مانسہرہ سے اسلام آباد آئے تھے، اور اب اس گرمی میں پیاسے پرندوں کی طرح منہ کھولے گھوم رہے تھے کہ یہ مانسہرہ کے سبزے میں کوکتے پرندے تھے، جو اسلام آباد کی آب و ہوا میں چہک نہیں سکتے تھے.

    یہیں میری ملاقات نفیس سے ہوئی. یہ ہماری یونیورسٹی سے گیا تھا. چھوٹے قد والا یہ “سپیشل پرسن سٹوڈنٹ ” اس دن کے بعد میرے دل کے بہت قریب رہنے لگا. جن دوستوں کے ساتھ یہ تھا، انھوں نے اسے مجھے تھما دیا کہ بقول ان کے .. انھوں نے باہر “حوا خوری” کرنا تھی، اور کچھ ویڈیوز بنانی تھیں، جبکہ مجھے باہر کے ماحول سے کوفت ہورہی تھی. انھوں نے نفیس بھائی کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھمایا کہ ہمارے آنے تک یہ آپ کے ساتھ ہوگا. میں نے ان کی انگلی پکڑی تو مجھے محسوس ہوا کہ جیسے مجھ پر کسی چھوٹے بچے کی رکھوالی کی ذمہ داری آگئی ہو. نفیس بھائی کی چھوٹی چھوٹی موٹی انگلیاں تھیں. میں نے ان سے تعارف کرایا. ان کے ساتھ ایسے ٹریٹ کیا کہ انھیں ہرگز یہ محسوس نہ ہو کہ وہ ایک سپیشل پرسن ہیں۔ میں نے ان کی انگلی تھامی اور اس میلے میں گھومنے لگا. یہاں مختلف سٹال پہ متعلقہ سٹالز والوں نے تحائف بھی رکھے تھے۔ میں مختلف سٹال پہ گیا۔ نفیس بھائی میرے ساتھ ہوتے۔ میں سٹال پہ جاتا اور گویا ہوتا۔ “I am looking for a special person gift” وہ کوئی نہ کوئی تحفہ نفیس بھائی کی طرف بڑھا دیتے۔ کوئی قلم دیتا، کوئی اپنی کمپنی کی کیپ پہنا دیتا، کوئی گھڑی دیتا، کسی نے ڈائری دی، ہم وہاں بہت گھومے، گیم کھیلی، تصویریں بنائی، کئی لوگوں نے نفیس بھائی کے ساتھ تصویر بنائی۔

    اسلام آباد کے اس میلے کے بعد جب ہماری بسیں مانسہرہ کی طرف روانہ ہوئیں. اس میں بیٹھے پرندے تھکاوٹ سے اونگھ رہے تھے تو یونیورسٹی پہنچنے کے بعد باقی پرندوں کا تو پتہ نہیں کہ وہ کہاں گئے ، مگر میری اور نفیس بھائی کی اچھی دوستی ہوگئی، جو ان سے بڑی محبت میں بدل گئی۔ وہ کہیں نظر آتے تو میں انھیں پکار کر روکتا اور وہ “شاہ صاحب” کہہ کر رک جاتے۔ میں ان کے پاس جاکر بیٹھ کر ان سے گلے ملتا۔ یہ تعلق آج بھی استوار ہے۔ یہ پرندے آج بھی آپس میں دوست ہیں۔ اگرچہ الگ موسموں اور الگ مقامات کے پرندے ہیں مگر کبھی اڑان ساتھ بھر لیتے ہیں۔

    مجھے نفیس بھائی سے اتنی ہی عقیدت و محبت ہے۔ میں نے ایسا بلند حوصلہ “سپیشل پرسن” نوجوان نہیں دیکھا۔ نفیس بھائی کو اپنی زندگی سے کوئی شکایت نہیں۔ وہ اللہ کے فیصلوں پہ خوش ہیں اور وہ زندگی بہت پیاری گزار رہے ہیں۔ اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں اور زندگی کے باقی معاملات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے بڑے مداح ہیں۔ یہ حوصلے مزید بلند ہوں، آمین۔

  • موسمی تغیرات کے اثرات  – مفتی منیب الرحمن

    موسمی تغیرات کے اثرات – مفتی منیب الرحمن

    اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(۱) ’’اور ہم نے پانی سے ہرجان دار چیز بنائی تو کیا وہ ایمان نہیں لاتے، (الانبیاء:30)‘‘، (۲) ’’اوروہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا ،پھر اُس کے نسبی اور سسرالی رشتے بنائے اور آپ کا رب بڑی قدرت والا ہے، (الفرقان:54)‘‘۔اس سے معلوم ہوا کہ حیوانات، نباتات حتیٰ کہ زمین کی حیات کا مداربھی پانی پر ہے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (۱)’’اور اُس کی نشانیوں میں سے یہ ہے : تم دیکھتے ہو کہ زمین بے جان پڑی ہے، پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ تروتازہ ہوکر لہلہاتی ہے اور ابھرتی ہے، بے شک جس نے اس بے جان زمین کو زندہ کیا ہے، وہی (قیامت کے دن) مردہ انسانوں کو بھی زندہ کرنے والا ہے، بے شک وہ ہرچیز پر قادر ہے، (حم السجدہ:39)‘‘،(۲)’’وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھر ہم نے اس سے ہر قسم کی نباتات اگائی اور ہم نے اس سے سبزکونپل نکالی جس سے ہم ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے دانے نکالتے ہیں اور کھجور کے شگوفوں سے بھاری گچھے پیدا کیے جو جھکے جارہے ہیں ، انگور، زیتون اور انار کے باغات اگائے ، جن کے پھل ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں اور مختلف بھی ،یہ درخت جب پھل دیں تو اس کے پھلوں کو اور ان کا پکنا دیکھو، بے شک ضروراس میں ایمان والوں کے لیے نشانیاں ہیں، (الانعام:99)‘‘۔

    پس اسی سبب جب سائنسدان کسی نئے سیارے کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ان کی جستجو کا پہلا ہدف یہ ہوتا ہے کہ وہاں پانی ہے یا نہیں، کیونکہ اگر پانی ہے تو وہاں حیات متصور ہوسکتی ہے اور اگر پانی نہیں ہے تو اس سیّارے پر حیات متصور نہیں ہوسکتی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس نعمت کو فراوانی کے ساتھ عطا فرمایا ہے اور اپنی مخلوق کو پانی مہیا کرنے کے لیے بہترین انتظام فرمایا ہے ،سمندروں کی صورت میں پانی کے وافر ذخائر عطا کیے ،دریائوں اور نہروں کی صورت میں میٹھے پانی کا بندوبست فرمایا،زیر زمین پانی کی ایک بڑی مقدار رکھ دی اور اس کو نکالنے کے لیے اپنے بندوں کی رہنمائی کی ،کنوئوں کی صورت میں وہ اس نعمت سے فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔ ان سب ذرائع میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے بارش کا نظام بنایا ،گویا بارش اس نعمت کی فراہمی کا سب سے بہترین ذریعہ ہے ،جس کا مشاہدہ ہم اپنی زندگی میں کرتے ہیں ،بارش ایک مربوط نظام ہے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ہے ۔سورج کی گرمی سے پانی بخارات میں تبدیل ہوکر بادل بن جاتے ہیں،پھر یہ بادل ہوائوں کے دوش پر سفر کرکے حسب ضرورت برس جاتے ہیں،اس سے انسانوں اور دیگر مخلوقات کی پانی کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔

    اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(۱)’’(بھلا بتائو تو سہی)آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمان سے پانی کس نے اتارا!،پس ہم نے اس سے بارونق باغات اگائے ! تم میں یہ طاقت نہ تھی کہ تم ان (باغات) کے درخت اگاتے،کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود ہے ،(نہیں)بلکہ وہ لوگ راہ راست سے تجاوز کررہے ہیں،(النمل:60)‘‘،(۲)’’وہی ہے جو لوگوں کے مایوس ہونے کے بعد بارش نازل فرماتا ہے اور اپنی رحمت پھیلاتا ہے اور وہی کارساز ہر تعریف کے لائق ہے،(الشوریٰ:28)‘‘،(۳)’’بھلا بتائو کہ جس پانی کو تم پیتے ہو،کیا تم نے اس کو بادلوں سے اتاراہے یا ہم اتارنے والے ہیں،اگر ہم چاہیں،تو اس (پانی کو)سخت کڑوابنادیں،تو پھر تم کیوں شکر ادا نہیں کرتے ،(الواقعۃ:68-70)‘‘۔

    بارش کے نظام کی بابت بھی قرآنِ کریم نے تفصیلات بیان کی ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اوروہی ہے جو بارانِ رحمت سے پہلے خوش خبری دینے والی ہوائوں کو بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھالیتی ہیں تو ہم اُنھیں کسی مردہ زمین کی طرف چلادیتے ہیں اور وہاں اُن کے ذریعے بارش برسادیتے ہیں، پھر اس سے ہر طرح کے پھل پیدا کرتے ہیں، اسی طرح ہم (آخرت میں )مردوں کو (زندہ کر کے)اٹھائیں گے ، شاید کہ تم نصیحت حاصل کرو، جو زمین اچھی ہوتی ہے وہ اپنے پروردگار کے حکم سے خوب پیداوار نکالتی ہے اور جو زمین ناقص ہوتی ہے، اس کی پیداوار بھی ناقص ہوتی ہے، ہم اسی طرح شکرگزار بندوں کے لیے اپنی نشانیاں بار بار ظاہرکرتے ہیں، (الاعراف:57-58)‘‘۔

    غور کا مقام ہے کہ انسان سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی اپنی طاقت سے چند گیلن پانی فضا میں معلق نہیں رکھ سکتا، ہمیں چند سو گیلن پانی بھی بلندی پر درکار ہو تو اس کے لیے بالائی ٹینک بنانا پڑتے ہیں، جن کو ستونوں کے سہارے ہم بلندی پرٹھہراتے ہیں ۔یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بے پایاں قدرت کا مظہر ہے کہ وہ کسی سہارے کے بغیر بادلوں کے پہاڑوں کی صورت میں ہزاروں لاکھوں ٹن گیلن پانی فضا میں معلّق فرمادیتا ہے۔ پھرجدھر اُس کا حکم ہوتا ہے، ہوائیں اُن بادلوں کو دھکادے کر لے جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ جہاںچاہتا ہے،اُن بادلوں کو برسا دیتا ہے۔ پانی سے جل تھل لدے ہوئے بادلوں کو قرآنِ کریم نے ’سَحابِ ثِقال (بھاری بادلوں)‘سے تعبیرفرمایا ہے اور اللہ جہاں برسانا چاہتا ہے، وہ ہوائیں اُن بادلوں کوپوری قوت سے چلاکر وہاں لے جاتی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے بادلوں کا بوجھ اٹھانے والی ہوائیں بھیجیں ، پھر ہم نے آسمان سے بارش برسائی ،سو ہم نے تمہیں وہ پانی پلایا ، حالانکہ تم اس پانی کا ذخیرہ کرنے والے نہ تھے، (الحجر:22)‘‘۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ فضاؤں میں ان بادلوں کے اندر لاکھوں ٹن پانی ہماری قدرت سے جمع ہوتا ہے اور معلّق رہتا ہے، وہ تہہ درتہہ پہاڑوں کی صورت میں نظر آتے ہیں۔

    یہ سب کچھ کائنات میں کارفرما اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام کے تحت عمل میں آتا ہے ، ان کو کہاں سے اٹھانا ہے ،کہاں لے جانا ہے اور کہاں برسانا ہے، یہ سب فیصلے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہوتے ہیں اور وہ اپنی حکمتوں کو بہتر جاننے والا ہے، عربی شاعر نے کہا ہے:
    ترجمہ:’’اور جب تم پر بارش برسائی جاتی ہے تویہ( ہمیشہ )اس سبب سے نہیں ہوتا کہ تو خشک سالی کا شکار ہے، کبھی بارش سرسبز وشاداب زمین پر اور کبھی سمندروں پر بھی برس جاتی ہے‘‘۔ اس میں انسان کی منصوبہ بندی کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ محکمۂ موسمیات بعض اوقات پیش گوئی کرتا ہے کہ تندوتیز ہوائیں بحیرۂ عرب میں سمندر کی موجوں کو اتنی رفتار سے اٹھائے چل رہی ہیں اور وہ اتنے گھنٹوں کے بعد فلاں ملک کے ساحل سے جاٹکرائیں گی۔ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ راستے میں ہوائوں کا رُخ بدل جاتا ہے اور سمندری موجیں کسی اور جانب مڑ جاتی ہیں یا سمندر میں تحلیل ہوجاتی ہیں۔ موسمیات والے ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنے مشاہدات پر مبنی رپورٹیں دیتے ہیں ، لیکن نظامِ قدرت پر اُن کا کنٹرول نہیں ہوتا، جیسے گاڑی میں جو شخص ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہے ، یہ اُس کے اختیار میں ہوتا ہے کہ گاڑی کو آگے لے جائے ، پیچھے لے جائے ، دائیں موڑے ، بائیں موڑے یا روک دے، سو اس نظام کی ڈرائیونگ سیٹ اللہ تعالیٰ کے دستِ قدرت میں ہے ۔

    اقوام متحدہ کے موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او)کی ایک پورٹ کے مطابق تین بڑی گرین ہاؤس گیسیںزمین کی ماحولیاتی سطح کو گرم کر رہی ہے۔ ان میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور نائٹروس آکسائیڈ شامل ہیں ،ان کی فضا میں مقداربہت زیادہ ہوگئی ہے ۔ 40سال پہلے ماحول میں ایسی گیسوں کی مقدار جانچنے کے باقاعدہ عمل کی شروعات کے بعد میتھین کے ارتکاز میں سال بہ سال ہونے والا اضافہ اب بلند ترین سطح پرہے۔

    کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں اضافہ بھی گزشتہ دہائی میں ہونے والے اوسط سالانہ اضافے سے کہیں زیادہ ہے اور اس میں یہ اضافہ مسلسل جاری ہے۔1990اور 2021کے درمیان ہمارے موسم پر فضا میں طویل عرصہ سے موجود رہنے والی گرین ہاؤس گیسوں سے جنم لینے والی گرمی کا اثر 50فیصد بڑھ گیا ہے ،اس کا سب سے بڑا سبب کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ ہے ۔ جب تک گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج جاری ہے، اس وقت تک عالمی درجۂ حرارت میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا۔ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ طویل عرصہ تک موجود رہتی ہے اور اس حقیقت کو پیش نظر رکھا جائے تو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو تیزی سے ختم کرنے کے باوجود موجودہ عالمی حِدَّت کئی دہائیوں تک برقرار رہے گی۔

    (جاری ہے)

  • ٹیکنالوجی اور تعلیم: جدید دور میں ترقی کا سفر – علیشبہ فاروق

    ٹیکنالوجی اور تعلیم: جدید دور میں ترقی کا سفر – علیشبہ فاروق

    ٹیکنالوجی نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ،خواہ وہ تعلیم ہو یا کوئی اور۔تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی کی بنیاد ہوتی ہے، اور موجودہ دور میں ٹیکنالوجی نے تعلیمی نظام میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے تعلیمی رسائی میں بہت سی آسانیاں پیدا کی ہیں۔ جہاں علم مخصوص حلقوں تک محدود تھا ،وہیں اب انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل وسائل نے ہر شخص کو سیکھنے کے یکساں مواقع فراہم کر دیے ہیں ۔آن لائن کورسز ، یوٹیوب پر مختلف مضامین پر لیکچرز اور ان لائن ویبینارز کی بدولت طالب علم دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر بہترین تعلیمی مواد حاصل کر سکتا ہے۔ٹیکنالوجی کی بدولت طالب علم کو یوٹیوب پر اور انٹرنیٹ پر مختلف ارٹیکلز، ویڈیوز اور ای- بکس کی صورت میں مواد آسانی سے مل جاتا ہے
    [poetry]یہ دورِ نو ہے، روشنی ہر اک دریچے میں
    کہاں وہ وقت، جو مکتب کی چار دیواری تھا[/poetry]

    کرونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران ٹیکنالوجی نے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ آن لائن تعلیم نے ایک نئی راہ ہموار کی ،اور اب یہ نظام مستقبل کی تعلیم کا لازمی جزو بن چکا ہے۔
    [poetry]علم کا حسن دل کی روشنی ہے
    علم ہے جوہر آدمی کے لیے[/poetry]

    کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں لاک ڈاؤن نافذ ہوا ،اور اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز بند کر دی گئیں۔ ایسے میں ٹیکنالوجی نے ایک متبادل راستہ فراہم کیا، اور آن لائن تعلیم کا آغاز ہوا۔کرونا کے دوران آن لائن پلیٹ فارمز جیسے کہ زوم، گوگل کلاس روم ،مائکروسافٹ ٹیم نے تعلیم کو جاری رکھنے میں مدد دی۔ طلبہ کو آن لائن لیکچرز ،ویڈیوز ،ای -بکس اور دیگر ڈیجیٹل ذرائع سے سیکھنے کا موقع ملا ۔تعلیمی ادارے اپنی ویب سائٹس اور موبائل ایپلیکیشنز کے ذریعے تعلیمی مواد فراہم کرتے رہے۔ جس سے کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ تعلیم حاصل کرنا ممکن ہو گیا۔ آن لائن امتحانات لیے گئے اور مختلف سافٹ ویئرز کی مدد سے نقل کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ کورونا کے بعد بھی آن لائن تعلیم کا رجحان برقرار رہا.

    مثبت اثرات
    آن لائن تعلیم نے دور دراز کے علاقوں میں موجود طلبہ کے لیے سیکھنے کے مواقع فراہم کیے ہیں۔ ویڈیوز اور ڈیجیٹل مواد نے سیکھنے کے مزید دلچسپ مواقع فراہم کیے ۔طلبہ اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ سے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ آن لائن کورسز نے تعلیمی اخراجات میں کمی کی جس سے تعلیم حاصل کرنا آسان ہو گیا۔

    منفی اثرات
    انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی کی کمی کی وجہ سے کہ طلبہ آن لائن تعلیم سے محروم ہیں ۔آن لائن تعلیم میں اساتذہ اور طلبہ کے درمیان ذاتی تعلق کمزور ہوا، جس سے تدریسی معیار پر اثر پڑا ۔زیادہ دیر تک اسکرین کے سامنے بیٹھنے کی وجہ سے طلبہ میں ذہنی دباؤ اور جسمانی مسائل پیدا ہوئے۔ آن لائن امتحانات میں طلبہ کے لیے نقل کرنا آسان ہو گیا، جس سے تعلیمی ساکھ پر سوالات اٹھنے لگے۔
    [poetry]علم تاج ہے، سرا اس کا جھکایا جائے
    علم روشنی ہے، چراغوں کو جلایا جائے[/poetry]

    مثبت تبدیلیاں
    تعلیمی ادارے اب آن لائن اور آف لائن دونوں تدریسی ماڈلز کو اپنانے پر زور دے رہے ہیں ۔اساتذہ کو ڈیجیٹل تدریسی مہارتیں سکھائی جا رہی ہیں، تاکہ وہ نئی ٹیکنالوجیز کا موثر استعمال کر سکیں۔ تعلیمی ادارے اپنی مخصوص آن لائن لرننگ پلیٹ فارم سے متعارف کروا رہے ہیں۔ ارٹیفیشل انٹیلیجنس جیسی نہیں ٹیکنالوجیز طلبہ کو سیکھنے کے بہت سے مواقع فراہم کر رہی ہیں۔

    منفی تبدیلیاں
    آن لائن تعلیم کے زیادہ رجحان کی وجہ سے کلاس روم کلچر کی اہمیت کم ہو رہی ہے ۔آن لائن تعلیم کی وجہ سے طلبہ کی سوشل اسکلز متاثر ہورہی ہیں۔ ڈیجیٹل وسائل کی محدود دستیابی نے امیر اور غریب طلبہ کے درمیان تعلیمی فرق کو بڑھا دیا ہے۔غریب طبقے کو جدید تعلیمی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل نہیں۔سوشل میڈیا اور گیمنگ کے باعث تعلیمی توجہ متاثر ہو رہی ہے۔

    [poetry]نہیں ہے غیر ممکن کچھ بھی اگر ٹھان لو
    دل میں علم و ہنر کی دنیا میں خدا کی شان ہو تم[/poetry]

    اگر ہم اس کے نتائج کی بات کریں تو ٹیکنالوجی نے تعلیمی رسوخ میں طالب علم کو مدد فراہم کی ہے۔ ٹیکنالوجی نے تعلیم کے میدان میں زبردست انقلاب برپا کیا ۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال نہایت سوچ سمجھ کر کرنا بہت لازم ہو چکا ہے ۔ہمیں اس کے منفی اثرات سے بچنا چاہیے، اور اس کے فوائد کو بڑھانا چاہیے۔ تعلیم کا مقصد محض معلومات کا ذخیرہ نہیں بلکہ ایک باشعور، بامقصد اور بامہارت نسل کی تشکیل ہے۔ اگر علم کی اس ترقی کو درست سمت میں بروئے کار لایا جائے، تو نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی سطح پر ترقی کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔

    [poetry]جو علم نور ہو، وہی روشنی کرے
    جو علم بار ہو، وہی زندگی تھکے[/poetry]
    اس لیے عزیزو! یہ دورِ معلومات کے حصول کا نہیں، بلکہ دانش و حکمت کے ساتھ آگے بڑھنے کا ہے۔ علم کی روشنی کو ضائع نہ ہونے دینا کہ یہی ترقی کا زینہ ہے۔

  • امریکی سیاست  پے پال مافیا کے نرغے میں  –  اسماعیل صدیقی

    امریکی سیاست پے پال مافیا کے نرغے میں – اسماعیل صدیقی

    سن ۲۰۰۷ میں فورچون میگزین نے جب سلیکون ویلی پر راج کرنے والی شخصیات کا ایک گروپ فوٹو شائع کیا تو اس فوٹو کو اس نے “پے پال مافیا ” [english] paypal mafia [/english] کا عنوان دیا تھا ۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے مشہور فنانشل کمپنی پے پال بنائی تھی یا پھر اس میں اہم عہدوں پر فائز رہے تھے ۔۔میگزین کی اس تصویر میں پے پال مافیا کے انتہائی اہم رکن اور پے پال کے شریک بانی ایلون مسک بوجوہ موجود نہیں تھے ۔ پے پال کو تقریبا ڈیڑھ بلین ڈالر میں بیچنے کے بعد ان افراد نے اپنی اپنی راہ لی اور انفرادی طور پر کچھ مزید کمپنیاں بنائیں اور کچھ میں سرمایہ کاری کی ۔ حسن اتفاق یہ ہے کہ ان تمام لوگوں کی بنائی ہوئی کمپنیاں یا جن کمپنیوں میں انہوں نے سرمایہ کاری کی بے انتہا کامیاب رہی اور یہ تمام لوگ بلینرز اور سلیکو ن ویلی کے بے تاج بادشاہ بن گئے ۔

    جس وقت پے پال مافیا کے عنوان سے یہ تصویر شائع ہوئی تھی تو اس وقت شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ اب سے کچھ برسوں بعد پے پال مافیا کے کچھ ممبران نہ صرف ٹیکنالوجی کی دنیا پر اپنا سکہ جمائے ہوئے ہوں گے بلکہ امریکی سیاست پر بھی اپنا مکمل تسلط جمالیں گے ۔

    اس وقت پے پال مافیا کے سب سے نمایاں رکن تو ایلون مسک ہیں جنہوں نے ٹرمپ کے نئے بنائے ہوئے محکمے ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی کی باگ ڈور سنبھالتے ہی عملی طور پر امریکی مقننہ کو غیر موثر کرتے ہوئے ایک آئینی بحران پیدا کردیا ہے اور ایک شیڈو حکومت چلارہے ہیں ۔ انہوں نے آتے ہی یو ایس ایڈ جیسے ادارے کو بند کردیا ہے اور اب ان کی ٹیم کے نوجوان سافٹ وئیر انجینیر امریکی خزانے کے کمپیوٹرز تک رسائی لے کر ہر ٹرانزیکشن کو مانیٹر اور کنٹرول کررہے ہیں ۔

    پے پال مافیا کے ایک دوسرے رکن ڈیوڈ سیکس [english] David Sacks [/english] کو ڈونالڈ ٹرمپ نے اے آئی اور کرپٹو زار بنایا ہے ۔ ڈیوڈ سیکس بھی ایلون مسک کی طرح نسل پرست جنوبی افریقہ میں پروان چڑھے ہیں ۔ پے پال مافیا کے ایک اور اہم ممبر اور مشہور سوشل ویب سائٹ LinkedIn کے بانی ریڈ ہوفمین نے اس الیکشن میں کمالہ ہیرس کی حمایت کی تھی ۔

    پے پال مافیا کے ممبران میں عام لوگ زیادہ تر ایلون مسک کو ہی جانتے ہیں لیکن حقیقیت یہی ہے کہ اگر پے پال مافیا میں اگر کسی کو ڈان کی حیثیت حاصل ہے وہ پیلینٹر Palantir کے سی ای او جرمن نژاد پیٹر ٹیل [english] Peter Thiel [/english] ہیں ۔ پیٹر ٹیل کی کمپنی پیلینٹر دراصل سی آئی اے کی ایک فرنٹ کمپنی ہے اور سی آئی اے کے لئے سرویلینس اور ڈیٹا اینالسس کا کام انجام دیتی ہے ۔ پیلینٹر دراصل نائین الیون کے بعد جارج بش کے سرویلینس پروگرام [english] total information awareness [/english] کا ایک تسلسل ہے ۔

    ٹیکنالوجی کی دنیا سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں اگر کوئی ڈونالڈ ٹرمپ کے حق میں سب سے زیادہ موثر ثابت ہوا ہے وہ پیٹر ٹیل ہی ہیں۔ پیٹر ٹیل ہی ٹیکنالوجی کمپنیوں اور فار رائیٹ میں ملاپ کا باعث بنے ہیں ۔ہم جنس پرست پیٹر ٹیل نے اپنی زندگی میں کئی روپ دھارے جن میں مادر پدر آزادی پر یقین رکھنے والا liberatarian ہونا بھی شامل تھا مگر وہ دراصل ٹیکنالوجی کو ہر درد کا درماں سمجھنے والے فلسفے [english] californian ideology [/english] کے پیروکار ہیں جس نے آگے چل کر Tech-Oligarchs کی نئی کلاس کو جنم دیا جو اس وقت امریکی سیاست کو اپنی مکمل گرفت میں لے چکی ہے ۔ منتقم المزاج پیٹر ٹیل ایک ڈکٹیٹر کی سوچ رکھتے ہیں اور اپنے خلاف بولنے والوں کو مقدمات میں پھنسا کر دیوالیہ ہونے پر مجبور کرچکے ہیں ۔ ایلون مسک ہی کی طرح سفید فام نسل پرسٹوں سے دوستانے رکھتے ہیں اور اسلاموفوب بھی ہیں ۔

    ٹرمپ کی موجودہ انتظامیہ میں انہوں نے پہلے سے کیے ہوئے اعلان کے مطابق کوئی عہدہ نہیں لیا مگر وہ ایک بادشاہ گر کے طور پر سامنے آئے ہیں ۔ جب ٹرمپ نے چالیس سالہ جے ڈی وینس کو اپنا نائب صدارتی امیدوار منتخب کیا تھا تو بہت سے لوگوں کو حیرت ہوئی تھی مگر جو لوگ ٹرمپ پر Tech-Oligarchsکے اثر و رسوخ کو جانتے ہیں ان کے یہ لیے یہ خبر حسب توقع تھی ۔ جے ڈی وینس ، پیٹر ٹیل کے اپنے ہاتھوں سے تراشا ہوا بت ہے ۔ اسی نے جے ڈی وینس کو yale سے اٹھا کر پہلے سینیٹ پھر قصر صدارت تک پہنچوادیا ہے جو صدارت سے امریکی محاورے کے مطابق فقط ایک دل کی دھڑکن کے فاصلے پر ہیں اور ٹرمپ پر ویسے ہی دو قاتلانہ حملے پہلے ہی ہوچکے ہیں

  • الفا گو کی سینتیسویں چال اور مصنوعی ذہانت پر دسترس کی جنگ – اسماعیل صدیقی

    الفا گو کی سینتیسویں چال اور مصنوعی ذہانت پر دسترس کی جنگ – اسماعیل صدیقی

    وہ آیا، اس نے دیکھا اور فتح کرلیا۔ کچھ اسی قسم کے جذبات لوگوں میں چین کے تازہ ترین مصنوعی ذہانت کے پلیٹ فارم ڈیپ سیک DeepSeek کے بارے میں پائے جاتے ہیں۔ ڈیپ سیک چین کی ایک چھوٹی سی اسٹارٹ اپ کمپنی کی پروڈکٹ ہے، جس کو قائم ہوئے ابھی ایک سال ہی ہوا ہے۔ ڈیپ سیک نے آتے ہی امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر ایک لرزہ طاری کردیا ہے اور فقط ایک دن میں ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان اسٹاک مارکیٹ میں امریکی کمپنیوں کو اٹھانا پڑا، جس میں سر فہرست مصنوعی ذہانت کے لیے استعمال ہونے والی چپس بنانے والی کمپنی اینویڈیا nvidia ہے۔ چینی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس نے یہ کام فقط چھپن لاکھ ڈالر میں کردکھایا ہے، جبکہ امریکی کمپنیاں اس کام پر بلینز ڈالر خرچ کرتی ہیں۔

    آج سے کچھ مہینے قبل جب اوپن اے آئی نے چیٹ جی پی ٹی کے ماڈل ’’او۔ ون‘‘ o1 کا اجرا کیا تھا تو سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں اس کی ایک دھوم مچ گئی تھی کیوں کہ چیٹ جی پی ٹی کے سابقہ ماڈلز کے برعکس،جس میں اگلے ٹوکن کی پیش گوئی کی بیناد پر ماڈل جواب دیتا ہے ، یہ ماڈل کسی بھی سائنسی یا ریاضی کی گتھی کو سلجھانے کے لیے جس تکنیک کا استعمال کرتا ہے اس میں ماڈل سوال کو کو حل کرتا ہے اور ہر مرحلے میں منطق reasoning کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ اس تکنیک کو chain-of-thought یا مختصراً CoT کہا جاتا ہے۔ اوپن اے آئی اس ماڈل کے استعمال کے لیے اپنے ہر صارف سے دو سو ڈالر فی مہینہ فیس وصول کرتا ہے۔ جبکہ ڈیپ سیک نے CoT کی بنیاد پر کام کرنے والے اپنے ماڈل R1 کو مکمل طور پر عوام کو مفت فراہم کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اوپن اے آئی کے برعکس (جس کو کلوزڈ اے آئی کہنا زیادہ مناسب ہے) ڈیپ سیک اوپن سورس ہے، یعنی کوئی بھی ان کے الگارتھم کو دیکھ سکتا ہے اور اس کو اپنے استعمال کے مطابق تبدیل کرسکتا ہے۔

    اس پورے قضیے کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ اب سستے اور کم توانائی استعمال کرنے والی چپس پر چلنے کی وجہ سے مصنوعی ذہانت صرف بلین ڈالرز رکھنے والی کمپنیوں کی میراث نہیں رہے گی، بلکہ امید یہ کی جاتی ہے کہ کم وسائل رکھنے والے ممالک اور کمپنیوں کی دسترس میں بھی آسکے گی۔ دوسری طرف اس سارے معاملے کا ایک خطرناک پہلو یہ ہے کہ اے آئی سیفٹی جس کو پہلے ہی نظر انداز کردیا گیا تھا ، اب اس نئی دوڑ میں اس پر شاید بات کرنے والا اور اس کا دفاع کرنے والا بھی کوئی نہ ہو۔ بابائے مصنوعی ذہانت نوبل انعام یافتہ جیفری ہنٹن نے ڈیپ سیک کے لانچ کے بعد اپنے تازہ ترین انٹریو میں اپنے اس خوف کا ایک دفعہ پھر اعادہ کیا ہے کہ اے آئی بہت جلد انسانی کی مجموعی ذہانت سے ہزاروں گنا آگے بڑھ جائے گی، اور آرٹیفیشل سپر انٹیلی جنس ASI بہت جلد دنیا پر اپنا تسلط جمالے گی ۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی تاریخ میں کبھی یہ نہیں ہوا کہ کم ذہانت رکھنے والے کسی گروہ نے اپنے سے کئی گنا ذہانت رکھنے والے گروہ پر کنٹرول کیا ہو یا اپنی بات منوائی ہو۔ اگر ایسی مثال ملتی ہے تو وہ صرف ماں اور اولاد کے رشتے میں ملتی ہے مگر اے آئی ماں کے جذبات سے خالی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت پہلے ہی conscious ہوچکی ہے ۔

    کچھ مہینے پہلے جب اوپن اے آئی کے سی ای او سیم آلٹمین ہندوستان گئے تھے تو ایک صحافی نے سوال کیا تھا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہندوستان کی کوئی چھوٹی کمپنی تقریباً دس ملین ڈالر خرچ کرکے مصنوعی ذہانت کے ماڈل کو ٹریننگ دے کر اوپن اے آئی کے مقابلے میں آسکے، تو سیم آلٹمین نے بڑی رعونت سے کہا تھا کہ آپ کوشش کرکے دیکھ لیں مگر ایسا ہونا ناممکن ہے۔ ہندوستان کے ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں کو یہ جواب برا لگا تھا اور انہوں نے اس کا چیلنج قبول کرنے کا اعلان بھی کیا تھا، وہ تو کچھ نہ کرسکے مگر چین نے وہ کام عملاً کر دکھایا۔

    دلچسپ امر یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں چین کا راستہ روکنے کے لیے امریکا نے اینویڈیا کی مصنوعی ذہانت میں استعمال ہونے والی طاقتور اور مہنگی ترین چپس A-100 اور H-100 کی چین میں برآمد پر پابندی لگادی تھی۔ یہی پابندی چین کے حق میں ایک رحمت ثابت ہوئی اور اس نے اینویڈیا کی مہنگی ترین چپس پر انحصار کرنے کے بجائے ایسا طریقہ ایجاد کیا، جس میں کم توانائی والی اور سستی چپس سے ہی کام چل جائے۔ امریکا میں ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد چین کے اس دعوے کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ چین نے شاید اس کام میں ممنوع چپس کا بھی استعمال کیا ہے، مگر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نسبتاً بہت کم چپس سے انھوں نے یہ کام لیا ہے۔ بہرحال لاگت جتنی بھی ہو ، امریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں اس وقت panic mode میں جاچکی ہیں۔ ڈیپ سیک کا اثر زائل کرنے کے لیے اب اوپن اے آئی نے بھی اپنا نیا o3-mini ماڈل جو reasoing کی بنیاد پر کام کرتا ہے ، عوام کو مفت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔

    چین کی مصنوعی ذہانت کی اس دوڑ میں دیر سے داخل ہونے اور اتنی جلدی اتنا آگے بڑھنے کی داستان بھی بہت دلچسپ ہے۔ تاریخ میں کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر دیکھنے میں بہت معمولی مگر نتائج کے لحاظ سے بہت دور رس ہوتے ہیں اور ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سن دو ہزار سولہ میں آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی تاریخ میں ایسا ہی ایک لمحہ تب آیا، جب گوگل ڈیپ مائنڈ پروجیکٹ کے کمپیوٹر الفا گو Alpha Go نے ’’گو‘‘ بورڈ گیم کے اٹھارہ دفعہ کے عالمی چمپئن کوریا کے لی سیڈول کو گو کے کھیل میں شکست دے دی۔ اگرچہ باقی دنیا میں وہ مقابلہ درخور اعتنا نہ سمجھا گیا مگر چین کے اٹھائیس کروڑ باشندے انہماک اور اضطراب کے ساتھ یہ مقابلہ براہ راست دیکھ رہے تھے۔ ان کے لیے یہ مقابلہ صرف ایک مشین اور انسان کا مقابلہ نہیں تھا بلکہ ہزاروں سالہ مشرقی حکمت و دانائی کی مغربی مشینی ذہانت سے جنگ تھی۔” گو” بنی نوع انسان کا ایجاد کردہ سب سے پیچیدہ بورڈ گیم ہے۔ گو کا کھیل چین کے باشندوں کے لیے صرف ایک کھیل سے کہیں بڑھ کر ہے۔ وہاں باقاعدہ کئی اسکول صرف اس کھیل میں مہارت سکھاتے ہیں، جن میں بارہ بارہ گھنٹے تعلیم دی جاتی ہے۔ چینی باشندے یہ کھیل گزشتہ ڈھائی ہزار سال سے کھیل رہے ہیں اور اس کھیل کو جنگی حکمت عملی کی تعلیم کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔

    پانچ میچوں کی سیریز کے دوسرے میچ میں مقابلہ جاری تھا کہ الفا گو نے اپنی سینتیسویں چال چلی۔ اس چال میں مغربی مشین کی مصنوعی ذہانت نے مشرق کی ڈھائی ہزار سالہ حکمت عملی کو مات دے دی۔ چال ہر لحاظ سے غیر روایتی اور بظاہر غلط تھی، اور گو بورڈ کے یورپی چمپئن جو کمپیوٹر کی کھیلی گئی چالوں کو اپنے ہاتھ سے بورڈ پرچل رہے تھے، ایک لمحے کے لیے وہ چال چلنے کے لیے تیار نہ ہوئے، کیوں کہ ان کے خیال میں شاید آپریٹر سے بتانے میں کوئی غلطی ہوئی تھی۔ تقریباً پچاس مزید چالوں کے بعد یہ پتا چلا کہ الفا گو کی یہ سینتیسویں چال انتہائی اہمیت کی حامل تھی۔ اس میچ میں شکست پر چین میں بے بسی کی ایک کیفیت پھیل گئی اور بقول سلیم احمد کے وہ شاید یہ سوچنے لگے کہ: ’’قبلہ خان تم ہار گئے ہو، اور تمہارے ٹکڑوں پر پلنے والا لالچی مارکو پولو جیت گیا ہے‘‘۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کمپیوٹر اس سے پہلے بھی انسانوں سے جیتتا رہا ہے تو اس میں کون سی خاص بات ہے۔ اس میچ سے برسوں پہلے آئی بی ایم کے ڈیپ بلیو نے شطرنج کے عالمی چمپئن گیری کیسپروف کو شکست دے دی تھی۔ بات دراصل یہ ہے شطرنج، گو کے مقابلے میں بہت سادہ کھیل ہے۔ گو کی ممکنہ چالیں اس کائنات میں پائے جانے والے ایٹم کے ذرات سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ آئی بی ایم کے ڈیپ بلیو نے گیری کیسپروف کو جس تکنیک پر شکست دی تھی اس کو کمپیوٹر کی زبان میں بروٹ فورس brute force کہتے ہیں۔ یعنی کمپیوٹر تخمینے کی بنیاد پر تمام ممکنہ چالوں کا جائزہ لے کر کھیلتا گیا اور تخمینے کی بات آئے تو انسان کا کمپیوٹر سے جیتنا نا ممکن ہے۔ مگر گو کے کھیل ممکنہ چالوں کے حجم کے باعث میں بروٹ فورس کا استعمال ممکن نہ تھا۔ یہ کھیل کمپیوٹر نے مشین لرننگ کی بنیاد پر کھیلا تھا۔ یعنی کمپیوٹر ماضی میں کھیلے جانے والے کھیلوں کے ڈیٹا کی بنیاد پر اپنی غلطیوں سے سیکھتا رہا اور اس کام میں الفا گو کو فقط تین ہفتے لگے۔ الفا گو کی سینتیسوں چال تخمینے کی بنیاد پر ایک چال نہ تھی بلکہ یہ چال خالصتاً چھٹی حس یا intuition کی بنیاد پر کھیلی گئی ایک چال تھی۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر کام کرنے والی کمیونٹی کے لیے یہ خبر اس لیے بڑی تھی کہ ان کے اندازے کے مطابق اس لمحے کو دس سال بعد آنا تھا۔

    الفا گو کی اس فتح نے ممکنات کے کئی دروازے وا کردیے۔ اب یہ واضح تھا کہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس ہر شعبہ ہائے زندگی میں چاہے وہ طب ہو، معیشت ہو یا زراعت، انسانوں کے متبادل اور ان سے بے انتہا موثر طریقے پر کام انجام دے سکے گی۔ آنے والے برسوں میں آرٹیفشل انٹیلی جنس پر دسترس ہی طاقت کا توازن طے کرے گی۔ الفا گو نے دو ہزار سترہ میں چین کے نمبر ایک کھلاڑی اور اس سال کے عالمی چمپئن کے جی کو تین صفر سے شکست دے دی۔ اس شکست پر چین میں لوگ جذباتی ہوگئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ الفا گو سے اس شکست کے بعد بددلی پھیلنے کے بجائے چین میں آرٹیفشل انٹیلی جنس کے علم کے حصول کا جیسے بخار سا چڑھ گیا۔ یہ چین کے لیے ایک اسپتنک لمحہ تھا یعنی جس طرح روس نے تاریخ کی پہلی سٹیلائٹ خلا میں لانچ کرکے امریکا کو خلائی میدان میں ایسا دھکیلا کہ وہ خلا بازی میں روس سے کہیں آگے نکل گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ چھے سات برس کے قلیل سے عرصے میں چین آرٹیفشل انٹیلی جنس کی ایک سپر پاور کے طور پر ابھر کر سامنے آگیا ہے اور اب اس فیلڈ میں امریکا اور یورپ کو پیچھے چھوڑتا نظر آرہا ہے۔

  • ڈیپ سیک؛ ایک چینی کمپنی نے ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی سیاست کا نقشہ بدل دیا – اعظم علی

    ڈیپ سیک؛ ایک چینی کمپنی نے ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی سیاست کا نقشہ بدل دیا – اعظم علی

    ایک چینی ویڈیو اسٹریمنگ ایپ ٹک ٹاک کے امریکہ میں تاریک ہونے کے اگلے دن ہی ایک اور چینی ڈیجیٹل پروڈکٹ جغرافیائی ٹیکنالوجی کی سیاسی حرکیات تبدیل کرنے کے لیے دھماکے دار انداز میں نمودار ہو گئی۔ اے آئی اسٹارٹ اپ ڈیپ سیک نے ایک لارج لینگویج ماڈل (LLM) جاری کیا ہے جو ممکنہ طور پر بعض چیزوں میں اوپن آے آئی کی (چیٹ جی پی ٹی) جیسی یا بہتر کار کرکردگی کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن یہ مکمل کہانی نہیں ہے۔

    سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ڈیپ سیک نے بظاہر یہ کارنامہ اوپن سورس سے پیدا ہونے والے AI کو اور اپنے LLM کو سکھانے کے لیے استعمال کیا۔ ڈیپ سیک نے ایک پروسیس جسے ” فائن ٹیوننگ“ کہتے ہیں کو استعمال کرکے چیٹ جی پی ٹی ہی کے موجودہ اوپن سورس ماڈل سے حاصل کیا۔ اوپن اے آئی نے اپنے اعلامیہ میں کہا ہے کہ ”ہم اس بات سے واقف ہیں اور اس کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ڈیپ سیک نے نامناسب طور پر ہمارے ماڈلز استعمال (چوری) کیے ہیں، ہم اپنی ٹیکنالوجی کے تحفظ کے لیے بھرپور اقدامات کریں گے۔“

    ڈیپ سیک نے ایک پری ٹرینیڈ ماڈل اپنی ضرورت کے مطابق تیار کرلیا ہے، اور وہ بھی انتہائی کم اخراجات کے ساتھ (تقریباً چھ ملین ڈالر)، اور اوپن اے آئی و دیگران نے اپنی مشین لرننگ ماڈلز سیکھنے میں جو وقت لگایا اس کے مقابلے انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ کیا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اُنہوں نے اپنا AI ماڈل Nvidia کی اعلیٰ ترین AI چپ کے بغیر بنایا ہے، جبکہ فی الوقت ٹیکنالوجی کی دنیا میں AI کی کسی بھی سسٹم کے لیے Nvidia کی چپ کا کوئی متبادل نہیں ہے، اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کے بغیر کوئی سیکھنے والا AI ماڈل بن ہی نہیں سکتا۔ یہی وجہ تھی کہ اس اعلان کے جھٹکے سے Nvidia کی آرٹی فیشل انٹیلی جنس پر اجارہ داری کے خاتمے کے خدشے کی وجہ سے نیویارک کی شیئر مارکیٹ میں کمپنی کے حصص بری طرح گرے، لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو جنوری گذشتہ جنوری میں اس کمپنی کے حصص پچاس ڈالر کے قریب تھے، اور ڈیپ سیک کے اس دھماکے سے ایک دن قبل 148 ڈالر کو چھو کر ڈیپ سیک کے اعلان کے بعد 118 پر بند ہوئے اور 120/125 کے درمیان مستحکم ہو گئے۔

    (اگر واقعی چین Nvidia کی چپ کے بغیر AI سسٹم چلانے کے قابل ہو گیا ، تب بھی نویڈیا کمپنی کی اجارہ داری ختم ہونے سے منافع میں کمی تو ضرور ہو گی اور شیئر کی قیمتوں میں کمی کے امکانات رہیں گے، لیکن کمپنی کی ساکھ اور بنیاد پھر بھی مضبوط ہے، یا کم از کم مستقبل قریب میں اسے کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے)

    بین الاقوامی سیاست پر ہونے والے دور رس اثرات
    ڈیپ سیک کی آمد سے بین الاقوامی سیاست کے دو محاذوں پر دور رس اثرات رونما ہو سکتے ہیں ۔۔

    پہلا :- ڈیپ سیک نے آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور سیمی کنڈکٹر (چپ) کے باہمی ربط کو دنیا کی توجہ کا مرکز بنادیا ہے، اصول یہی ہے کہ جس کے پاس دنیا کے جدید ترین سیمی کنڈکٹر (چپ) ہیں وہ AI کی دوڑ بھی کنٹرول کرے گا۔ سیمی کنڈکٹر چپس تمام جدید ایجادات کی بنیادی ٹیکنالوجی ہے۔ لیکن اگر اس آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور سیمی کنڈکٹر (چپ) ربط کو اوپن سورس کی کھلی اور ہر خاص و عام کے لیےموجود ٹیکنالوجی کے ذریعے مہنگی اور جدید ترین AI چپ کے بغیر کام چلایا جاسکتا ہے تو پھر یہ پوری دینا کے لیے مساوی کھیل کا میدان بن جائے گا۔

    دوسرا:- اگر یہ واقعی سچ ہے (اس پر شبہات ہیں)۔ تو اس کے نتیجے میں امریکہ کے ہاتھوں میں دیگر ممالک و حکومتوں کو دباؤ میں رکھنے کے لیے کم از کم آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی حدتک ، ایکسپورٹ کنٹرول، ٹیکنالوجی ٹرانسفر و دیگر پابندیوں کا ہتھیار چھِن جائے گا۔بالخصوص اس سے امریکہ – چین کی چِپ وار کی حرکیات تبدیل ہو جائیں گی۔

    ڈیپ سیک کے کارنامے کو ٹیکنو – قوم پرستی کے وسیع تناظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے، جس کے مطابق ملک کی سالمیت ، سماجی استحکام، اور معاشی طاقت کا منبع قومی اداروں (سرکاری یا نجی) کے ٹیکنالوجی میں مہارت پر منحصر ہے۔ اس تناظر میں امریکہ اور چین دونوں طاقت کو تیزی سے ضرب دینے والی تمام اہم صنعتوں (ایڈوانس مینوفیکچرنگ سے کوانٹم سائنس تک) میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے ہاتھا پائی میں مصروف ہیں ۔ اگر اسے ٹیکنو – قوم پرستی کے تناظر میں دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ ڈیپ سیک نے بیجنگ کو بین الاقوامی تعلقات میں حقیقی وزن کے ساتھ نئے چینی سال (جو 28 جنوری کو شروع ہوا ہے) کا شاندار تحفہ دیا ہے۔

    کیا امریکہ کے ہاتھ میں کچھ نہیں بچا؟
    واشنگٹن اور اس کے اتحادی چین کے ساتھ ہونے والی چِپ کی جنگ میں بھرپور سبقت رکھتے ہیں، کیونکہ وہ جدید ترین چِپ بنانے کے لیے لازمی ٹیکنالوجی جسے اس تناظر میں دَم گھونٹے والے پوائنٹس کہا جاسکتا ہے، کا ان کے پاس مکمل کنٹرول ہے۔ یہ دم گھونٹنے والے پوائنٹس بشمول ہالینڈ کی ASML کے تیار کردہ extreme ultraviolet (EUV) ایکسٹریم الٹرا وائلیٹ ایکویپمنٹ ، یا ایچنگ اور میٹلرجی مشینیں جو امریکی کمپنیاں ایپلائیڈ ریسرچ یا LAM ریسرچ بناتی ہیں۔ اس کے علاوہ الیکٹرونک ڈیزائن سافٹ وئیر ، خصوصی کیمیکل اور دیگر سامان امریکہ، جاپان، جنوبی کوریا، تائیوان و یورپی کمپنیاں ۔۔ یہ تمام ممالک مکمل طور پر امریکہ کے زیراثر ہیں ۔ اب تک چین اپنی ایڈوانسڈ چپ بنانے کے خواب کو پورا کرنے کے لیے ان اہم اور ضروری ٹیکنالوجیز کو نہیں حاصل کر پایا۔ AI اور سیمی کنڈکٹر دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، اس لیےجدید ترین سیمی کنڈکٹر (چپ) کی ٹیکنالوجی کے بغیر بہت دور تک نہیں جایا جاسکتا ۔

    جدید ترین چِپ ٹیکنالوجی جو اس ٹیکنو – قوم پرستی کی طاقت کو کئی گُنا بڑھا سکتی ہے، کے دسترس میں نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ ایرواسپیس، ٹیلی کمیونیکیشن، توانائی، بائیوٹیک، کوانٹم اور پھر AI جس میں سپر کمپیوٹنگ ، مشین لرننگ ، الگورتھم اور سافٹ وئیر ، ان تمام شعبوں میں مکمل مہارت حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اب ڈیپ سیک کی وجہ سے اس بات کا امکان ہے کہ کسی نہ کسی حدتک ان دم گھونٹے والے پوائنٹس سے بچ کر نکلنے کا راستہ مل سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے درجے کی سیمی کنڈکٹر بنانے والی اقوام بھی آرٹی فیشل انٹیلی جنس میں پہلے درجے کا مقام حاصل کرسکتے ہیں اور اس کے کئی فوائد بشمول فوجی صلاحیت اور معاشی مسابقت سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

    دنیا میں ٹیکنالوجی کے تین بلاک
    دسمبر 2024 میں اس وقت کے امریکی صدر بائیڈن نے جاتے جاتے سیمی کنڈکٹر سے متعلق ٹیکنالوجی کو چین کے ہاتھ جانے سے روکنے کے لیے کئی برآمدی پابندیاں عائد کیں، پابندیوں کے اس تازہ ترین اعلان میں 24 گروپ کے چپ بنانے کے اوزار اور تین اقسام کے چِپ ڈیزائن سافٹ وئیر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چین کی 140 نئی چِپ بنانے والی کمپنیوں پر بھی پابندی لگائی گئی۔ ان پابندیوں کی فہرست میں پرانے ازکار رفتہ چپ بنانے کی مشینیں بھی شامل ہیں۔

    واشنگٹن کے یہ اقدامات نام نہاد ”چھوٹا آنگن پر اونچی دیوار“ پالیسی کا حصہ ہیں، اس کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ کے ہاتھوں میں فیصلہ کن اختیار رہے کہ کسے اسٹریٹجک امریکی ٹیکنالوجی تک رسائی دی جائے اور کس کو آنگن میں گھُسنے نہ دیا جائے۔ اس اقدام کا اہم نتیجہ یہ ہے کہ ٹیکنو ۔ قوم پرستی نکتہ نظر سے واشنگٹن نے رسمی طور پر دنیا کی اقوام کو تین واضح گروپوں میں تقسیم کردیا ہے، بلکہ یہ اس تقسیم کی رفتار کو تیز اور مزید واضح کرنے کا اعلان تھا۔ پہلا گروپ امریکہ کے روایتی حلیف و دفاعی اتحادی ، ان تمام ممالک کو اس آنگن میں مکمل آزادانہ آمد و رفت کی اجازت ہے جن میں ، کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ، مغربی یورپ، جرمنی، فرانس، جاپان و جنوبی کوریا شامل ہیں۔ دوسرا گروپ درمیانے درجے پر جن میں مشرقی یورپ، انڈیا ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پورے جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک شامل ہیں ۔جنہیں کچھ بہتر مگر مکمل نہیں کے اصول کے تحت اس ٹیکنالوجیکل آنگن میں داخلے کی محدود و مشروط اجازت دی جاتی ہے۔ اس طرح امریکہ ان ممالک کو کاروباری اور اسٹریٹجک ٹیکنالوجی کے تعاون کے لیے بشمول آرٹی فیشل انٹیلی جنس سسٹم، ڈیٹا سینٹرز، توانائی کے انفراسٹرکچر اور فوجی و معاشی طاقت کو ضرب دینے والی (multiplier) ٹیکنالوجی پر اپنے کنٹرول کے ذریعے چین کے ساتھ ہونے والی رسّہ کشی میں اپنے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور کرے گا۔ تیسرا گروپ روس، چین، ایران و شمالی کوریا، ان ممالک کے لیے سخت ترین پابندیاں ہیں، انھیں دونوں اوّلین دونوں گروپوں سے بھی ٹیکنالوجی کے حصول پر پابندی ہے، اگر کوئی ملک انھیں ممالک کو ٹیکنالوجی ٹرانسفر کرتا ہے، تو اسے سزا دی جاتی ہے۔

    لیکن اگر ان تینوں گروپوں کے سرکاری یا نجی ادارے بھی (ڈیپ سیک کی طرح) اوپن سورس یعنی آزادانہ موجود آرٹی فیشل انٹیلی جنس کو استعمال کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں تو اس کی وجہ سے بھی دور حاضر کی ٹیکنو-قوم پرستی کی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی ہو گی، بالخصوص درمیانے (دوسرے) گروپ کے ممالک (امریکی دباؤ سے) آزادانہ فیصلے کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔

    ناقابل یقین ۔۔۔۔
    اس بات کا اتنا جلد یقین نہیں کیا جاسکتا کہ ڈیپ سیک نے واقعی یہ سب کچھ اوپن سورس کے AI سسٹم کے ذریعے ہی کیا ہے . ابتدائی طور پر امریکی پابندیوں کے نافذ ہونے سے قبل کمپنی نے 10 ہزار Nvidia کی 100A GPU AI چپ خریدی تھیں۔ ممکن ہے ان چپس نے ڈیپ سیک کے AI پروگرام میں (ڈیپ سیک کے اعتراف سے زیادہ بڑا) کردار انجام دیا ہے یا اب بھی دے رہی ہیں ۔ یا کسی اور غیر ملکی ٹیکنالوجی نے ان کے AI پروگرام میں اہم تعاون کیا جو اب تک نظروں سے اوجھل ہے۔ اس سے قبل بھی ایسا ہو چُکا ہے جب 2023 میں چینی کمپنی Huawei کی کمپنی HiSilicon اور چینی چپ بنانے والی کمپنی نے مشترکہ طور پر یہ اعلان کیا کہ انھوں نے امریکی پابندیوں کو ناکام بناتے ہوئے مکمل طور پر چینی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے Huawei کے Mate 60 اسمارٹ فون کے لیے 7 نینو میٹر کی چپ بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اس میں امریکی پابندیوں کے نفاذ سے قبل خریدی ہوئی ہالینڈ کی بنائی ہوئی ڈیپ الٹرا وائلیٹ مشین DUV استعمال کی گئی تھیں ۔

    چاہے ڈیپ سیک کا دعوی درست ہو یا نہیں ۔۔ اس کے ساتھ وہی مسائل پیش آنے ہیں جو ٹک ٹاک کے ساتھ امریکہ میں پیش آئے تھے. بطور چینی ملکیتی پلیٹ فارم ان کے بارے میں پرائیویسی نہ ہونے اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے عمل دخل اور اثرات کا خدشہ ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جس طرح ٹک ٹاک کے ساتھ کیا ، اسی طرح ڈیپ سیک کے لیے امریکی ملکیت کا مطالبہ کرسکتے ہیں، یا کسی دوسرے طریقے سے بھی رعایتیں حاصل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ ممکن ہے حالیہ اعلان شدہ 500 بلین ڈالر کے امریکی اسٹار گیٹ AI پروگرام کے تحت چینی ریسرچ میں بھی امریکی سرمایہ کاری کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ بظاہر ناممکن لگتا ہے کہ چین اس سلسلے میں امریکی یا کوئی اور دباؤ قبول کرے. ٹک ٹاک ایک کمرشل پلیٹ فارم ہے جو امریکہ میں بھی کاروبار کرتا ہے، اسے کاروباری مفاد کے طور پر دباؤ میں ڈالا جاسکتا ہے لیکن پھر بھی اس میں اب تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ جبکہ AI ایک قومی پروجیکٹ ہے، اسے کسی بھی مالی مفاد کے دباؤ میں قربان نہیں کیا جاسکتا۔

    گذشتہ روز صدر ٹرمپ نے Nvidia کے CEO جینسن ہوانگ (جو ایک تائیوانی نژاد امریکی ہیں) سے ملاقات کی جس میں ڈیپ سیک کے اعلان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ امکان ہے کہ Nvidia کی AI چِپ کی برآمدات پر مزید پاپندیاں لگائی جائیں گی تاکہ طاقتورترین کمپیوٹنگ ٹیکنالوجی میں بالادستی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں میں سے نہ نکلنے پائے۔ اس کے ساتھ ہی امریکی حکومت یقیناً اہم اسٹریٹجک ٹیکنالوجی کے اوپن سورس پلیٹ فارم سے پھیلاؤ کو بھی روکنے کی کوشش کرے گی تاکہ آئندہ کوئی ان سے فائدہ نہ اُٹھا سکے۔

    جیسا بھی ہے اب یہ بات واضح ہےکہ ڈیپ سیک نے AI کے کھیل کے قوانین تبدیل کردیے ہیں، اور اس کے ساتھ ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی سیاست کے قوانین بھی۔ دوسری طرف ڈیپ سیک نے امریکہ کو AI کے میدان میں ایک شاک یا جھٹکا تو دیا ہے لیکن جب تک چین سیمی کنڈکٹر چِپ ٹیکنالوجی میں اپنی کمزوری کا حل تلاش نہیں کرپاتا ، اس کے مکمل فوائد سے استفادہ ممکن نہیں ہو گا۔

    (اس مضمون کی تیار میں ایلیکس کیپری ۔۔ NUS بزنس اسکول اور لی کوان یو اسکول آف پبلک پالیسی ۔۔ نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے استاد اور Techno-Nationalism: How it’s Reshaping Trade, Geopolitics and Society (Wiley) کے مصنف، کئی چینل و نیوز ایشیا میں 29 جنوری 2025 کو شائع شدہ تحریر سے استفادہ کیا گیا ہے)

  • پیشے کے انتخاب میں بچوں کی رہنمائی – فرحانہ مختار

    پیشے کے انتخاب میں بچوں کی رہنمائی – فرحانہ مختار

    آرٹیفیشل انٹیلی جنس، روبوٹس اور نت نئی ٹیکنالوجی کے اس دور میں والدین اور بچوں کے لیے جدید دور کے پیشوں کے متعلق جاننا بہت ضروری ہے۔ ہر شعبے میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر ماہرین یہ پیش گوئی کرتے نظر آتے ہیں کہ مستقبل قریب میں بہت سے پیشے ختم ہو جائیں گے یا ان شعبوں میں ملازمتیں کم ہو جائیں گی۔

    آج کے دور میں والدین کو اپنے بچوں کے پیشے کا انتخاب انتہائی سمجھ بوجھ سے کرنا ہوگا۔ بچوں کو ذریعہ معاش کے چناؤ سے متعلق آگاہی دینی ہو گی مگر اس سے پہلے تحقیق لازمی ہے۔ اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجنئیر، وکیل، معلم یا کوئی بھی پیشہ اختیار کرنے کی اندھی بھیڑ چال کا حصہ بننے سے پہلے جانچ لیجیے کہ پاکستان میں اس پیشے کا مستقبل کیا ہے۔ کیونکہ بہت سے ڈاکٹر، وکیل اور انجنئیر ابھی تک بے روزگار ہیں۔ لہذا پیشے کا چناؤ سمجھداری سے کرنا بھی لازمی ہے تا کہ وہ پیشہ اختیار کیا جائے جس کی دورِ حاضر میں مانگ زیادہ ہو۔

    بہت سے والدین بچوں پہ اپنے ادھورے خوابوں کا بوجھ لاد دیتے ہیں اور انھیں اپنی پسند کا پیشہ اختیار کرنے پہ بضد نظر آتے ہیں۔ نتیجتاً بچے کی اپنی پسند اور رجحان کی پروا کیے بغیر اسے والدین کی پسند کا پیشہ اختیار کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچہ والدین کے دباؤ میں آ کر بے دلی سے وہ پیشہ اختیار کر تو لیتا ہے لیکن اس میں جدت، تحقیق اور تخلیق کرنے سے قاصر رہتا ہے۔

    بحیثیت والدین ہماری اہم ذمہ داری ہے کہ اپنے بچے کی بہترین تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں۔ اپنی مرضی مسلط کئے بنا اپنے بچوں کو پیشے کے چناؤ کا ختیار دیں۔ بچپن سے ہی بچے کا رجحان دیکھیں کہ وہ کونسا کام پسند کرتا ہے اور مستقبل میں اپنے لئے کونسا پیشہ اختیار کرنا چاہتا ہے۔ پسند کا پیشہ اختیار کرنے سے بچہ اس شعبہ میں دلجمعی اور دلچسپی سے نہ صرف محنت کرے گا بلکہ تحقیق و تخلیق بھی کرے گا۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ آپ کا پیشن یعنی شوق آپ کا پروفیشن یعنی پیشہ ہونا چاہیے۔

    غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں “ڈگری لو اور نوکری کرو” کی روِش بہت ذیادہ دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس ضمن میں والدین کے لئے یہ ضروری ہے کہ بچے کو تجارت یا ہنر سے متعلق آگاہی دیں۔ بچے کے رجحان کو دیکھتے ہوئے اس کی رہنمائی کریں اور اس کی پسند کے شعبے میں تخلیقی و تحقیقی صلاحیتوں کو پنپنے کے بہترین مواقع فراہم کریں۔ بچوں کی تربیت میں بچپن سے ہی یہ بات شامل کریں کہ کوئی ذریعہ معاش بڑا چھوٹا یا اچھا برا نہیں ہوتا، لیکن اہم یہ ہے کہ اسے دین اسلام کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اور حلال طریقے سے ضرور کیا جائے۔

    کوشش کریں کہ مختلف پیشوں/شعبوں سے متعلق اپنے بچے کو آگاہی دیں۔ ممکن ہو تو مختلف پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے افراد سے بچے کو ملوائیں اور اس شعبے سے متعلق معلومات فراہم کریں۔ بچے کا کسی بھی پیشے کی طرف میلان جانچنے کے بعد اس کو متعلقہ شعبے میں ہر ممکن طریقے سے معلومات اور وسائل فراہم کریں۔ گاہے بگاہے اسے اس شعبے میں کام کرنے والوں سے ملوائیں یا یہ ممکن نہ ہو تو اس سے متعلق ویڈیوز دکھائیں اور کتابیں پڑھنے کو دیں۔

    ہمارے ملک میں نوجوان تئیس سے پچیس سال اور کبھی اس سے بھی دیر میں پڑھائی مکمل کر کہ نوکری تلاش کرنا شروع کرتا ہے۔ بچوں کو بچپن سے ہی محنت کا عادی بنائیں اور انٹر میڈیٹ سے ہی کوئی ہنر سیکھنے یا پیسہ کمانے کے مواقع فراہم کریں۔ آجکل بہت سے نوجوان انٹرنیٹ پر آنلائن کام کر کے پیسہ کما رہے ہیں، لیکن ہمارے ہاں ڈگری کے حصول تک نوجوانوں کوئی بھی تعمیری، تخلیقی یا ٹیکنالوجی سے متعلق کام نہیں سیکھتے۔ تعلیم مکمل ہونے اور کسی بہترین پیشے کے حصول سے پہلے نوجوانوں کو کوئی ہنر ضرور سیکھنا چائیے اور اس کو استعمال میں لا کر پیسہ ضرور کمانا چاہیے۔

    ترقی یافتہ قومیں اپنے بچوں کو نوکری سے ذیادہ نت نئی مصنوعات/ایجادات کی تیاری اور تجارت کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ غور کریں تو تمام ترقی یافتہ ممالک جہازوں سے لے کہ سوئی تک بناتے اور برآمد کرتے ہیں۔ چین کی ہی مثال لے لیں۔ وہاں روز مرہ استعمال کی نت نئی اور جدید اشیاء نہ صرف بنائی جاتی ہیں بلکہ دوسرے ممالک کو فروخت کر کہ کثیر زرِمبادلہ بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ آپ ﷺ تجارت کو پسند فرماتے تھے اور آپ ﷺ نے آغازِ جوانی سے ہی اصولی و دیانتداری سے تجارت کی اور صادق و امین کا لقب حاصل کیا۔ رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے: [arabic] مَا أَكَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ ، خَيْرًا مِنْ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ[/arabic] : کسی انسان نے اس شخص سے بہتر روزی نہیں کھائی، جو خود اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے۔(صحیح بخاری:2072)

    آپ کے بچے پیشہ کوئی بھی اختیار کریں، انہیں چند بنیادی مہارتیں ضرور سیکھنی چائیں جن کا استعمال کسی بھی شعبے میں کامیابی کے لئے انتہائی اہم ہے۔ ان مہارتوں میں قائدانہ صلاحیت، وقت کا درست استعمال، مشترکہ کام میں بہترین کارکردگی دکھانا، فیصلہ سازی، مسائل کا بہترین حل، گفتگو میں مہارت، پُر اعتماد شخصیت اور جذباتی ذہانت وغیرہ شامل ہیں۔ الغرض، بچے جو بھی ذریعہ معاش اختیار کریں، دیانت، محنت اور خدمتِ خلق کو اپنا شعار ضرور بنائیں تا کہ پیسوں کے ساتھ ساتھ ذہنی آسودگی اور اجرو ثواب بھی حاصل کر سکیں۔

  • اسلاموفوبیا اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی، ایک حل کی جانب سفر-  عارف علی شاہ

    اسلاموفوبیا اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی، ایک حل کی جانب سفر- عارف علی شاہ

    ایملی ایک یورپی شہر میں رہنے والی نوجوان طالبہ تھی۔ ایک دن میٹرو میں سفر کے دوران اس نے ایک مسلمان خاتون کو حجاب پہنے دیکھا۔ ایملی نے اپنے آس پاس کے ماحول کو یکدم غیرمحفوظ محسوس کیا، حالانکہ اس خاتون نے کسی قسم کی پریشانی کا سبب نہیں بنایا تھا۔

    یہ تعصب ایملی کے ذہن میں میڈیا اور سوشل میڈیا کے اسلاموفوبک بیانیے کا نتیجہ تھا۔ لیکن چند دن بعد، جب اس نے اس خاتون کو اپنے پڑوس میں بچوں کو اسکول لے جاتے دیکھا اور اتفاقاً ان سے بات چیت کی، تو اس کی سوچ بدل گئی۔ اس نے محسوس کیا کہ جو تعصب اس کے ذہن میں تھا، وہ جھوٹی معلومات اور غلط بیانیوں کی بنیاد پر قائم تھا۔
    اسلاموفوبیا ایک ایسا رویہ ہے جو غیرمسلم معاشروں میں مسلمانوں کے بارے میں خوف، نفرت، اور تعصب کو فروغ دیتا ہے۔ میڈیا، سوشل میڈیا، اور تعلیمی نظام میں موجود تعصبات اس مسئلے کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں۔ جھوٹی معلومات، منفی پروپیگنڈا، اور سیاسی مفادات کے ذریعے اسلاموفوبیا کو ایک منظم انداز میں پھیلایا جاتا ہے۔

    میڈیا کا منفی کردار اسلاموفوبیا کے پھیلاؤ میں سب سے اہم عنصر ہے۔ مسلمان کرداروں کو اکثر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ساتھ جوڑنے سے غیرمسلموں کے ذہنوں میں غلط تصورات پیدا ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد اور جھوٹی معلومات بھی لوگوں میں خوف اور تعصب کو جنم دیتے ہیں۔ دنیا بھر کے تعلیمی نظام میں اسلام کے بارے میں غیرجانبدار اور مستند معلومات کی کمی، غلط فہمیوں کا اہم سبب ہے۔ مزید برآں، اسلاموفوبیا بعض اوقات سیاسی ایجنڈے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے، جس سے معاشرتی تقسیم بڑھتی ہے۔

    جدید کمپیوٹر ٹیکنالوجی اسلاموفوبیا کے خاتمے کے لیے ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کو مثبت انداز میں استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کی کامیابیاں، ثقافت، اور اسلام کی تعلیمات کو اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مختصر ویڈیوز اور ڈاکیومینٹریز کے ذریعے اسلام کے امن کے پیغام کو عام کیا جا سکتا ہے۔

    مصنوعی ذہانت (AI) نفرت انگیز مواد اور جھوٹی خبروں کی نشاندہی اور روک تھام کے لیے بہترین ٹول فراہم کرتی ہے۔ مشین لرننگ کے ذریعے مثبت اور تعلیمی مواد کو فروغ دیا جا سکتا ہے، جبکہ خودکار سسٹمز اسلاموفوبک مواد کو مؤثر طریقے سے فلٹر کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

    ورچوئل ریئلیٹی (VR) غیرمسلموں کو اسلامی عبادات، ثقافت، اور تاریخ کا تجربہ فراہم کرنے کا ایک نیا طریقہ ہے۔ یہ ٹیکنالوجی لوگوں کو اسلام کو قریب سے سمجھنے میں مدد دیتی ہے اور ان کے تعصبات کو دور کرتی ہے۔ آن لائن تعلیمی پلیٹ فارمز کے ذریعے اسلام کی حقیقی تعلیمات پر مبنی کورسز غیرمسلموں کے لیے دستیاب کیے جا سکتے ہیں، جبکہ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں اسلامی تہذیب اور تاریخ کو نصاب کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔

    ڈیٹا اینالیسس کے ذریعے اسلاموفوبیا کے رجحانات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے اور ان کے خلاف حکمت عملی تیار کی جا سکتی ہے۔ تحقیق کے ذریعے میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز کو مستند معلومات فراہم کی جا سکتی ہیں، جو تعصبات کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوں گی۔

    اسلاموفوبیا کے خاتمے کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال میں کئی چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کی کثرت، جسے کنٹرول کرنا ایک مشکل کام ہے، بڑی رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ، مسلمانوں کی بڑی تعداد جدید ٹیکنالوجی کے شعبے میں مہارت نہیں رکھتی، جو مؤثر اقدامات میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی غیر متوازن پالیسیاں بھی نفرت انگیز مواد کو روکنے میں ناکامی کا باعث بنتی ہیں۔

    مسلمانوں کو ڈیجیٹل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال کی تربیت فراہم کی جائے۔ اسلامی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں، تاکہ اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کی جا سکے۔ مختلف مذاہب کے افراد کے درمیان مکالمے کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں، تاکہ غلط فہمیاں ختم ہو سکیں۔ اسلاموفوبیا کے خاتمے کے لیے شعور بیدار کرنے والی بین الاقوامی مہمات چلائی جائیں، جو اسلام کی حقیقی تعلیمات اور مسلمانوں کی مثبت تصویر کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔

    اسلاموفوبیا ایک سنگین مسئلہ ہے، لیکن اگر ہم علم اور شعور کو عام کریں اور جدید ٹیکنالوجی کو درست سمت میں استعمال کریں تو اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی نہ صرف جھوٹی معلومات اور نفرت انگیز مواد کو روکنے کا ذریعہ ہے، بلکہ یہ مسلمانوں کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے کا ایک مؤثر وسیلہ بھی ہے۔ ٹیکنالوجی کے درست استعمال سے ہم ایک ایسی دنیا تشکیل دے سکتے ہیں، جو تعصبات سے پاک ہو اور جس میں تمام مذاہب کے لوگ امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکیں۔