Tag: وفاق المدارس

  • مولانا الیاس گھمن، بلال غوری اور چند تلخ سوالات – ابو محمد

    (سینئر صحافی محمد بلال غوری صاحب نے اپنے جریدے آؤٹ لائن کےلیے مولانا الیاس گھمن کا انٹرویو کیا تھا جسے دلیل پر شکریے کے ساتھ شائع کیا گیا. ابومحمد صاحب نے اس کا تجزیہ کیا ہے اور دلیل کو اشاعت کےلیے بھجوایا ہے جسے ان صفحات پر جگہ دی جا رہی ہے. بلال غوری صاحب یا الیاس گھمن صاحب اس کا جواب دینا چاہیں تو دلیل کے صفحات حاضر ہیں)

    بلال غوری صاحب صحافی ہیں ، انہوں نے سوشل میڈیا پر آنے والے حالیہ سب سے بڑے سکینڈل کے حوالہ سے مولانا الیاس گھمن سے ملاقات کی اور ان کا ایک انٹرویو لے کر اپنی وال پر لگایا۔ یہ انٹرویو دلیل نے بھی شائع کیا. اس پر میرے تحفظات و احساسات یہ ہیں.
    ilyas-ghumn-interview-600x300
    تعارف کراتے وقت غوری صاحب فرماتے ہیں کہ صحافتی دیانتداری کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس موضوع پر کچھ کہنے سے پہلے فریقین سے رابطہ کیا جاتا اور سچ جاننے کی کوشش کی جاتی۔گو کہ میں غوری صاحب کی صحافت کا مداح ہوں لیکن جب غوری صاحب صحافتی دیانتداری کے تقاضوں کی بات کر ہی رہے ہیں تو میں یہ ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ
    کیا غوری صاحب کو لفظ ”فریقین“ کا مطلب بھی معلوم ہے یا نہیں؟
    اس مسئلے میں الیاس گھمن صاحب اکیلے فریق تھے؟
    اس سارے قضیے میں ملزم کون ہے اور مدعی کون؟
    گو کہ گھمن صاحب نے محترمہ سمیعہ کے اس خط کی تصدیق کر دی لیکن کیا غوری صاحب کو انٹرنیٹ پر پائے جانے والے ایک خط اور ایک اسٹوری کو لے کر گھمن صاحب کا یکطرفہ موقف چلانا چاہیے تھا؟
    غوری صاحب نے ان اعلی صحافتی اقدار کا پاس رکھنے اور محترمہ سمیعہ کا موقف لینے کے بجائے ان صحافتی اقدار کو بائی پاس کیوں کر دیا؟؟
    بہرحال ابتدا میں ہی گھمن صاحب نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ چونکہ یہی تحریر دیگر دارلافتاؤں میں بھی بھیجی گئی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ خط اصلی ہے۔ ان کے الفاظ تھے کہ ”میں اس کا انکار اس لیے نہیں کرتا کہ جو استفتا کے لیے تحریر دارالافتاؤں میں بھیجی گئی ہے، وہ یہی تحریر ہے۔ اس سے ظاہر ہے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی ہوگی۔“
    بلال غوری صاحب پوچھتے ہیں کہ ”یہ جو آپ کا نکاح ہوا مفتی زین العابدین صاحب کی صاحبزادی کےساتھ ،یہ کب ہوا، کن حالات میں ہوا، اور پھر آپ کی علیحدگی کب ہوئی؟“
    غوری صاحب کے اس ابتدائی سوال سے ہی میں چونک گیا۔ صحافت کے جراثیم رکھنے والے حضرات جانتے ہیں کہ صحافی آدھا جواب تو اپنے سوال میں ہی لے لیا کرتا ہے۔ اس کا سوال ایسا ہوتا ہے جو سامنے والے کی دکھتی رگ پکڑتا ہے، نہ کہ اسے راہ فرار دکھائے۔ دوسرے لفظوں میں صحافی خود آدھا وکیل ہوتا ہے، اس کا سوال ایسا نہیں ہوتا جو کہ سامنے والے کو اپنے کیس کی گراؤنڈ بنانے کا موقع دے۔ ان کے سوال کا یہ حصہ کہ ”آپ کا نکاح کن حالات میں ہوا“ فطری نہیں، نکاح نکاح ہی ہوتا ہے، یہ کوئی دوران جنگ ہوا ہوا نکاح نہیں ہے۔ انہوں نے یہ کس وجہ سے پوچھا کہ ”کن حالات میں نکاح ہوا؟“ کیا اس وجہ سے کہ گھمن صاحب بتائیں کہ یہ تو بیوہ تھی، اور میں تو کنوارہ تھا، اور میں نے تو رحم دلی سے، سنت رسول پر عمل کرتے ہوئے ترس کھا کر اس سے شادی کی؟
    معذرت کے ساتھ ایسا لگ رہا ہے کہ یا تو یہ گھمن صاحب کے الفاظ ہیں جو کہ آپ کی زبان سے ادا ہوئے ہیں، یا آپ ان کی عقیدت کے پریشر کی وجہ سے سوال کا حق نہ ادا کر پائے۔ آپ کا اگلا جملہ کہ علیحدگی ”کب“ ہوئی، یہ بھی اسی نوعیت کا سوال ہے کہ گھمن صاحب کو گراؤنڈ بنانے کا موقع مل جائے کہ ہم تو پہلے الگ ہو چُکے تھے اور بعد میں یہ مسائل پیدا ہوئے۔ یہاں سوال یوں بنتا تھا کہ ”آپ کا نکاح کب ہوا اور علیحدگی کب اور کیسے ہوئی۔“
    یہاں الیاس گھمن صاحب نے بتایا کہ ان کا نکاح 5 اپریل 2012ء کوہوا، اور ساتھ ساری کہانی کہ وہ بیوہ تھیں اور اتنی بڑی تھیں اور یہ وہ۔ اگلے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ہمارا اختلاف میری چوتھی شادی سے شروع ہوا جو کہ 6 جنوری 2015ء کو ہوئی، اور اس کے بعد میں ان سے کبھی نہیں ملا اور اپریل 2015ء میں طلاق ہوگئی۔
    اگلا سوال غوری صاحب نے پوچھا کہ ”کرادر کشی“ خاتون کی طرف سے ہو رہی ہے یا لوگ اپنی طرف سے کر رہے ہیں۔
    یاد رہے کہ غوری صاحب محترمہ سمیعہ کا موقف سُنے بنا ہی اسے ”کردار کُشی“ قرار دے رہے ہیں۔
    بہرحال اس کے جواب میں گھمن صاحب نے فرمایا کہ ”جہاں تک سوشل میڈیا کی بات ہے تو میرا پورا یقین ہے کہ سوشل میڈیا پر یہ چیزیں انہوں نے نہیں دی ہیں، ریحان کی فرضی داستان بنائی گئی ہے۔“ اور اس بات کی دلیل انہوں نے یہ بنائی کہ مفتی ریحان نے جو سوالات اٹھائے ہیں، ان کا تعلق ہماری گھریلو زندگی سے نہیں۔
    یہاں گھمن صاحب نے ایک تیر سے دو شکار کیے، ایک تو یہ کہ سوشل میڈیا پر یہ تفصیلات اس خاتون نے نہیں دیں، اور دوسرا یہ کہ مفتی ریحان کا ذکر کرنے کے باوجود اپنے آپ کو مفتی ریحان کے اٹھائے گئے تمام سوالوں سے یوں بچا لیا کہ اس کا تعلق ہماری گھریلو زندگی سے نہیں۔ قبلہ اگر گھریلو زندگی سے تعلق نہیں تو کیا شوہر کے گھر سے باہر کی کسی مصروفیت کا علم اس کی بیوی کو نہیں ہو سکتا؟ اور دوسرا یہ کہ، اگر سوالات کا تعلق گھریلو زندگی سے نہ ہو تو کیا آپ اس کا جواب دینے سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں؟ بلال غوری صاحب نے یہ ساری تفصیلات سوشل میڈیا پر ہی پڑھی تھیں، مفتی ریحان کی تحریر بھی پڑھی تھی، لیکن یہاں پر انہوں نے یا تو گھمن صاحب کی یہ چالاکی سمجھی نہیں، یا دانستہ خاموش رہے۔
    اس کے بعد گھمن صاحب نے بلال غوری کے سوال پر اپنے چاروں نکاحوں کی تفصیل بتائی۔ پھر بلال غوری صاحب نے پوچھا کہ ان الزامات کے متعلق آپ کا کیا مؤقف ہے۔
    الیاس گھمن صاحب اپنے جواب میں فرماتے ہیں کہ
    ”یہ جو خط میرے حوالہ سے شائع کیا گیا ہے، اس میں بنیادی بات جو قابل غور ہے، یہ الزام لگایا گیا ہے کہ 5 اپریل 2012ء کو ہمارا نکاح ہوتا ہے اور 5 مئی 2012ء کو وہ خاتون اپنی دو بچیوں کے ساتھ سرگودھا آئی ہیں، اور اس میں یہ لکھا گیا ہے کہ مولانا صاحب کی دوسری اہلیہ باہر کھڑی ہوکر نگرانی کر رہی ہیں اور مولانا صاحب بیوی کے بجائے اپنی بچیوں کے پاس گئے ہیں اور اس میں قابل غور بات یہ ہے کہ اگر اس خاتون کی بات تسلیم کر بھی لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس خاتون نے میری دوسری اہلیہ کو اس پر گواہ بنایا ہے ۔اب حق یہ تھا کہ اس اہلیہ سے رابطہ بذریعہ خاتون کیا جاتا کہ بھئی تم اس واقعہ کی گواہ ہو۔ اور یہ گواہ میں نے نہیں بنائی ، یہ گواہ خود اس خاتون نے بنائی ہے کہ وہ کھڑی ہے۔“
    اب کوئی عقل کا اندھا بھی جس نے وہ خط پڑھا ہو، یہاں گھمن صاحب کی قلابازی کو سمجھ سکتا ہے۔ محترمہ سمیعہ کا کہنا تھا کہ گھمن صاحب کی دوسری اہلیہ سعدیہ شریک مجرم ہیں اور دوران واردات ان کی پہرے داری کی خدمات سرانجام دیتی رہیں۔ اور گھمن صاحب جو کہ ایک مناظر بھی ہیں اور ان نکات کو بہت خوبی سمجھتے ہیں، یہاں اسی شریک مجرم کو گواہ قرار دے رہے ہیں تاکہ کوئی جا کر اس سے گواہی لے اور وہ گھمن صاحب کے حق میں گواہی دے کر انہیں کلیئر کر دے۔ صرف یہ اک اکیلا نقطہ بھی دال میں کچھ کالا بلکہ بہت کچھ کالا ہونے کی نشان دہی کر رہا ہے۔
    گھمن صاحب مزید فرماتے ہیں کہ
    ”خدا نخواستہ خدا نخواستہ اگر میں اس بچی سے منہ کالا کرتا اور اس کی رضامندی سے کرتا تو معاملہ اور تھا ،اس میں بات لکھی ہے کہ جب مولانا صاحب آئے ہیں، بچی پر دست اندازی کی ہے تو اس بچی نے تھپڑ مارا ہے، مطلب ہے ناراض ہے، اچھا اگر میں نے تھپڑ مارا ہے تو کمرے میں ایک بچی نہیں ہے، دو بہنیں اکٹھی ہیں۔ دوسری کہاں تھی؟ ظاہر ہے اٹھ گئی ہوں گی نا۔ اچھا جب اس میں یہ وقوعہ ہوگیا، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ نوجوان بچی سے ایک بندہ دست اندازی کرے، وہ آگے سے تھپڑ بھی مارے، ساتھ دوسری بہن بھی ہو۔ اور وہ صبح اٹھ کر اپنی امی کو یہ بات نہ بتائے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟“
    محترمہ سمیعہ اس بات کی وضاحت کر چُکی ہیں کہ یہ بات ان کی بچی نے انہیں بعد میں بتائی، اور وجہ بھی بتائی کہ گھمن صاحب کے پاس اس کی تصاویر تھیں اور گھمن صاحب انہیں ڈرا چکے تھے کہ اگر کسی کو بتایا تو یہ تصاویر عام کردی جائیں گی، جس کی وجہ سے وہ خاموش رہی۔ یہاں گمان اس طرف بھی جا سکتا ہے کہ مبادا انہیں کوئی نشہ آور شے، مثلا نیند کی گولی کسی طریقہ سے دی گئی ہو۔ اس وجہ سے نہ تو محترمہ سمیعہ گھمن صاحب کو پکڑ سکیں اور نہ ہی دوسری بیٹی۔ پہلی بیٹی بھی یقینا اس موقع پر بھرپور مزاحمت کے قابل نہ ہو گی اور اسی لیے آسانی سے زیر اثر آ گئی، اور مستقبل میں مسلسل بلیک میل ہوتی رہی۔ یہاں کتنا مناسب ہوتا کہ اگر گھمن صاحب اپنی ہی شریک جُرم بیوی کو گواہ بنانے کی کوشش کر کے مزید مشکوک بننے کے بجائے یہ فرماتے کہ بھئی سمیعہ تو چوتھی شادی پر خفا ہے لیکن اس کی بیٹی تو میری بھی بیٹی ہی تھی، کوئی بھی خاتون جا کر میری بیٹی سے ہی پوچھ لے۔ مسئلہ ختم۔ اک باپ کو بیٹی سے سوال پوچھنے کے بجائے ملزمہ، شریک مجرم کو ہی زبردستی گواہ قرار دینے کی بھلا کیا ضرورت پڑی ہے؟
    گھمن صاحب نے اپنے جُرم کو میاں بیوی کی رسمی لڑائی کا روپ دینے کے لیے محترمہ سمیعہ کا چوتھی شادی پرخفا ہونا اک نکتہ بنایا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ محترمہ سمیعہ خود تیسری بیوی ہیں، ان کے چوتھی پر خفا ہونے کی بھلا کیا تُک بنتی ہے۔ دوسری بات محترمہ سمیعہ اگر خفا تھیں تو گھمن صاحب سے تھیں، اپنی بیٹی سے تو نہ تھیں۔ کوئی بھی ماں اپنی بیٹی پر بھلا ایسا الزام کیونکر لگا سکتی ہے؟ مجھے تو کامل یقین ہے کہ محترمہ سمیعہ اک ماں ہونے کی مجبوری میں اب بھی اپنی بیٹی اور گھمن صاحب کے متعلق کچھ نہ کچھ پردہ ہی رکھ گئی ہوں گی۔ انہوں نے استفتاء کے لیے اتنا ہی بتایا جتنا بتانا حرمت مصاہرت کے سوال کے لیے ضروری تھا۔
    آگے بلال غوری صاحب فرماتے ہیں کہ ”میں پوچھنا چارہا تھا کہ طلاق کن وجوہات کی بنا پر ہوئی لیکن ابھی جو مجھے لگ رہا ہے کہ یہ جو چوتھا نکاح آپ نے کیا شاید اس کی وجہ سے کوئی اختلاف ہوا.“
    ہمارے خیال میں بلال غوری صاحب کو کہنا چاہیے تھا کہ
    ”میں پوچھنا چاہ رہا تھا کہ طلاق کن وجوہات کی بنا پر ہوئی لیکن آپ کی باتوں سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ یہ جو چوتھا نکاح آپ نے کیا، شاید اس کی وجہ سے کوئی اختلاف ہوا.“
    اب آپ دیکھیں ان دو جملوں میں کتنا فرق ہے، دوسرا جملہ قطعی غیرجانبدار ہے، اور پہلے جملے سے جانبداری کی بو آ رہی ہے۔ یعنی بلال غوری صاحب خود سننے والوں کو یہ لائن دے رہے ہیں کہ یہ سارا مسئلہ محترمہ سمیعہ نے چوتھے نکاح کی وجہ سے کھڑا کیا۔ کیا یہ صحافت ہے، اس کا فیصلہ آپ کریں؟
    گھمن صاحب نے بلال غوری صاحب کے جملے کو کیچ کر لیا، اور جوابا وہی فرمایا جس کا انہیں ایک جہاں دیدہ صحافی کی طرف سے اشارہ ملا تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ
    ”جی میں نے بتایا نا کہ چوتھے نکاح پر ان بن ہوئی، اس نے محسوس کیا، ناراضگی کا اظہار کیا، یہ ہماری دوریوں کی بنیادی وجہ بنی.“
    یہاں پر گھمن صاحب کا یہ جملہ خود دال میں کالے کی طرف اشارہ کر رہا ہے،
    ”یہ ہماری دوریوں کی بنیادی وجہ بنی.“
    یعنی اگر اس چوتھی شادی والی بات کو ”بنیادی“ وجہ مان بھی لیا جائے تو کچھ اور وجوہات بھی تھیں، جس کی وجہ سے دوریاں پیدا ہوئیں۔ اور ظاہر ہے اس کے بعد تو بقول گھمن صاحب کے، ان دونوں کی ملاقات ہی نہیں ہوئی تو یقینی بات ہے کہ وہ جو بقیہ کچھ اور وجوہات تھیں وہ اس نکاح سے پہلے ہی کی تھیں۔
    غوری صاحب جیسے جہاندیدہ صحافی نے یہاں اس ”بنیادی“ وجہ سے بھی صرف نظر کیا، یا اسے نوٹ ہی نہیں کر پائے۔
    اگلی مضبوط ترین دلیل کے طور پر الیاس گھمن صاحب اپنی ہی بیگم کو بھیجے گئے خرچے کی رسید یعنی بینک اسٹیٹمنٹ دکھاتے ہیں جس میں مبلغ ایک لاکھ روپیہ انہیں بھیجا گیا ہوتا ہے، جو کہ عین چوتھی شادی کے دن یعنی 6 جنوری کو ہی بھیجا گیا ہے۔
    اک سوال ہے کہ کیا مولانا صاحب اپنی چاروں بیویوں کو ہر ماہ ایک ایک لاکھ روپیہ خرچہ کے طور پر دیا کرتے ہیں؟
    الیاس گھمن صاحب مزید ایک طویل خطبہ ارشاد فرماتے ہیں، ان میں سے چند نکات اٹھا کر ان کے متعلق حقائق سامنے رکھ لیتے ہیں۔
    پہلا اعتراض گھمن صاحب کا کہنا ہے کہ محترمہ کا دعوی ہے کہ شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی گھمن صاحب نے ان کی بیٹی پر نگاہ رکھنی شروع کر دی تھی تو پھر 18 جنوری 2015ء کو محترمہ سمیعہ نے اپنے بڑے بیٹے زین العارفین کےنکاح میں جو شادی کارڈ چھاپا ہے، اس شادی کارڈ پر اہلیہ و الیاس گھمن کیوں لکھا ہوا ہے ،اس میں چشم براہ میں پہلی بیوی سے گھمن صاحب کے بیٹے عبدالرحمان گھمن کا نام کیوں ڈالا ہوا ہے؟
    دوسرا کہ محترمہ کا دعوی ہے کہ شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی گھمن صاحب نے ان کی بیٹی پر نگاہ رکھنی شروع کر دی تھی تو محترمہ سمیعہ صاحبہ 18 مارچ 2015ء کو ڈرائیونگ لائسنس بنواتی ہیں اور اس میں شوہر کا نام محمد الیاس کیوں ڈالتی ہیں؟
    عرض ہے کہ یہ دونوں دلیلیں تو خود گھمن صاحب کے خلاف جاتی ہیں اور ان کا جواب خود گھمن صاحب ہی کی ویڈیو میں سے بہت آسانی سے دیا جا سکتا ہے.
    پہلی کا جواب یہ ہے کہ اگر گھمن صاحب 6 جنوری کو چوتھی شادی کرتے ہیں اور بقول ان کے محترمہ سمیعہ اس پر ناراض ہو جاتی ہیں اور اتنی ناراض ہوتی ہیں کہ اس کے بعد کبھی ان کی ملاقات نہیں ہوتی تو پھر بھلا صرف بارہ دن بعد محترمہ 18 جنوری 2015 کو گھمن صاحب کا نام کارڈ پر کیوں ڈالتی ہیں؟
    اور
    دوسری کا جواب یہ ہے کہ جب گھمن صاحب خود فرما رہے ہیں کہ انہوں نے طلاق اپریل میں دی ہے، تو مارچ اپریل سے پہلے آتا ہے نہ کہ بعد میں۔ اگر مارچ میں وہ لائسنس کی حصولی کے لیے شوہر کے خانے میں ان کا نام لکھ دیتی ہیں تو اس میں غلط کیا ہے؟ دوسرا شاید گھمن صاحب نے اوپر سمیعہ صاحبہ کا پورا نام نہیں پڑھا جو کہ سمیعہ الیاس کے بجائے سمیعہ زین العابدین لکھا ہے. لیکن یہ دونوں باتیں حقیقت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں میں ایک عرصہ سے علیحدگی تھی، گھمن صاحب کبھی کبھی من مرضی سے خرچہ بھجوا دیا کرتے تھے۔ چونکہ قانونی طور پر اگلی شادی کے لیے پچھلی بیوی سے اجازت ضروری ہے۔ وگرنہ پہلے سے موجود بیوی عدالت جا کر یہ کہہ سکتی ہے کہ میں اس کی منکوحہ ہوں، مجھے تو یہ خرچہ دیتا نہیں لیکن اگلی شادی کے لیے اس کے پاس پیسے ہیں۔ تو گھمن صاحب نے شادی رچانے کے لیے اپنے آپ کو قانونی طور پر مضبوط کرنے کے لیے عین اسی دن سے بغیر پوچھے و بتائے ان کے اکاؤنٹ میں ایک لاکھ ٹرانسفر کرا دیے تاکہ پہلے سے ناراض بیوی کی عدالتی چارہ چوئی کی قانونی پیش بندی کی جا سکے۔
    یاد رہے کہ گھمن صاحب نے اسی ویڈیو میں طلاق دینے کا دعوی اپریل 2015ء کا کیا ہے اور انہوں نے اس سے پہلے ہر ماہ پیسے ٹرانسفر کرانے کا ثبوت دیا ہے نہ اس کے بعد اپریل تک۔ آخر عین چوتھی شادی ہی کے روز انہیں اپنی ناراض بیوی کے اکاؤنٹ میں پیسے ٹرانسفر کرانے کی ضرورت کیسے پیش آ گئی؟
    کہانی یہاں ہی ختم نہیں ہوتی، قصہ ابھی باقی ہے۔ میری تحقیق کے مطابق گھمن صاحب نے اپنی تیسری بیوی سمیعہ جو کہ اس خط میں مدعی ہیں، انہیں دو طلاقیں دی ہیں، تیسری طلاق نہیں دی۔ جس کی وجہ سے ان دونوں میں علیحدگی تو ہو چُکی ہے لیکن طلاق کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں ہو سکتا۔ جب تک یہ سرٹیفکیٹ جاری نہ ہو، نہ تو محترمہ اگلی شادی کر سکتی ہیں اور نہ ہی اپنے شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس و دیگر قانونی کاغذات سے گھمن صاحب کا نام خارج کرا سکتی ہیں۔ مزید یہ کہ میرے علم کے مطابق گھمن صاحب انہیں اسی تیسری طلاق کی بنیاد پر بلیک میل کر کے اپنی دی گئی گاڑی کی واپسی کا تقاضا کر رہے ہیں۔
    اب آئیے گھمن صاحب کی اگلی بات یعنی شادی کارڈ پر گھمن صاحب کے نام کی جانب۔ محترمہ سمیعہ نے جو شادی کارڈ چھپوائے تھے، اس میں گھمن صاحب کا نام نہیں تھا، لیکن گھمن صاحب نے اپنا پریشر اور رشتہ کا حق جتاتے ہوئے ان سے اپنے دوستوں اور ملنے والوں کے لیے الگ کارڈ چھپوانے کے لیے دباؤ ڈالا، گھمن صاحب کے لیے پینتالیس پچاس کارڈ الگ سے چھپوائے گئے۔ اگر گھمن صاحب اصرار کریں تو ہمارے پاس دونوں کارڈز کی کاپیاں ہیں، ہم پیش کر سکتے ہیں۔ گھمن صاحب نے غوری صاحب کو اور سُننے اور دیکھنے والوں کو یہ دھوکے کیوں دیے، ہم اس پر کمنٹ نہیں کرتے، پڑھنے والے ہم سے زیادہ عقلمند ہیں۔
    یہاں دو خطرناک نکات جو کہ مدارس اسلامیہ سے متعلق ہیں، گھمن صاحب کی ویڈیو میں سامنے آتے ہیں
    ایک نقطہ دارلعلوم حقانیہ سے متعلق ہے۔ بقول گھمن صاحب کے دارلعلوم حقانیہ کے مفتی مختار اللہ صاحب نے بجائے شرعی فتوی دینے کے گھمن صاحب کو فون کیا اور کہا کہ آ کر اس کو لے جائیں، یہ کیا تماشا ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ دارالافتاء کا یہ اصول نہیں ہوا کرتا، اگر ایسا ہوا بھی ہوگا تو مفتی مختار اللہ صاحب کی ذاتی حیثیت میں ہوا ہوگا، اس سے دارلعلوم کی افتاء کی پالیسی کا کوئی تعلق نہیں۔ امید ہے دارالعلوم حقانیہ اس نکتے پر وضاحت سامنے لائے گا۔
    دوسرا گھمن صاحب کا وہ جملہ جس میں انہوں نے جامعہ احسن العلوم اور مفتی زر ولی خان صاحب پر شرعی فتوی دینے کا غصہ، انہیں غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے ان الفاظ میں نکالا ہے کہ ”سنجیدہ دار الافتاء نے اسے افتاء کے قابل بھی نہیں سمجھا“۔
    مزید گھمن صاحب نے مفتی ریحان صاحب کے اٹھائے گئے بہت سے سوالات کا جواب دینے کے بجائے گول مول بات کی ہے، کہ ہمارے مدرسے کے زنانہ سیکشن میں کوئی مرد نہیں جا سکتا وغیرہ وغیرہ، لیکن، مفتی ریحان صاحب نے بڑی تفصیل سے بتایا تھا کہ
    مولانا صاحب مدرسے نہیں جاتے بلکہ ان کی بیوی سعدیہ مدرسہ للبنات سے لڑکیوں کو بہانے بہانے سے خدمت کے لیے گھر لے آتی اور پھر انہیں گھمن صاحب کی خدمت پر لگاتی۔ گھمن صاحب نے بڑی سادگی سے بات کو اس طرح گھمایا کہ کوئی مرد بنات کے مدرسے میں جا ہی نہیں سکتا، لیکن ریحان صاحب کی اس بات کا جواب نہ دیا کہ وہ تو مدرسے نہیں جاتے بلکہ مدرسے سے لڑکیاں ان کی خدمت کے لیے لائی جاتی ہیں۔
    گھمن صاحب نے جس انداز سے بلال غوری صاحب کو اپنے دام میں قید کیا، اس انداز سے وہ باقی لوگوں کو بےوقوف نہیں بنا سکتے۔ گھمن صاحب کا یہ انداز، نامکمل جوابات، بہت سے سوالات سے پہلو تہی معاملے کو مزید مشکوک سے مشکوک بناتی جائے گی۔
    یہاں اس بات کا تذکرہ مفید رہے گا کہ انٹرنیٹ پر ایک آڈیو کلپ موجود ہے جس میں سرگودھا کی عورت آسیہ بی بی زوجہ عابد اپنی بیٹی سے زیادتی کی شکایت مدرس مولانا مقصود حسانی کو کر رہی ہیں۔ اس آڈیو کے ریکارڈ کنندہ بھی مولانا مقصود حسانی ہیں، جن کے متعلق اطلاع ہے کہ آپ نے ان کی پھینٹی لگوا کر مدرسے سے بھگا دیا تھا۔ اس کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان سے صابر کمال صاحب، کوہاٹ سے شاہد صاحب و دیگر بھی محترمہ سمیعہ کو شکایت درج کرا چُکے ہیں۔ جن کے رابطہ نمبر اور شکایت کی تفصیلی ریکارڈنگز محترمہ سمیعہ کے پاس موجود ہیں، اور ان لوگوں نے کسی بھی قانونی چارہ جوئی کی صورت میں گواہی دینے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ محترمہ کے بیٹے جناب زین الصالحین نے بھی غالبا سبوخ سید صاحب کو انٹرویو دینا ہے، انہوں نے بھی اس سے پہلے بھی ایک خط کے ذریعے گھمن صاحب پر لگنے والے الزامات کی تصدیق کی ہے۔
    چونکہ مولانا نے اپنی ویڈیو کو پبلک کرا کے خود اس موضوع پر ہر خاص و عام کو بحث کرنے کی دعوت دے ڈالی ہے، اس لیے موجودہ ثبوتوں، گواہان، خطوط اور سوشل میڈیا پر موجود مواد اور مولانا صاحب کی وضاحتوں میں موجود کھلے تضادات پر بحث ہوتی رہے گی۔ فی الوقت مجھے الیاس گھمن صاحب ریت پر کھڑے نظر آ رہے ہیں، ان کی ویڈیو خود اس کا ثبوت ہے جس میں ان جیسا بڑا مناظر کئی جگہ تاریخوں اور دیگر باتوں کو الٹ پلٹ کرتا اور بہت سے بنیادی سوالات سے پہلوتہی کرتا نظر آتا ہے۔ بلال غوری صاحب کو چاہیے کہ اب وہ دوسرے فریق کا مؤقف بھی سنیں اور شائع کریں۔
    اس سارے قضیے میں میری دُعائیں مظلوم کے ساتھ ہیں۔ اللہ رب العزت ظالم کو رسوا اور برباد کرے۔ اگر مجھ سے کسی معاملے میں افراط و تفریط ہوئی ہو تو فریقین سے معافی کا خواستگار ہوں۔

  • مولانا الیاس گھمن کا پہلا تہلکہ خیز ویڈیو انٹرویو، ناقابل تردید شواہد اور ثبوت پیش کر دیے.

    مولانا الیاس گھمن کا پہلا تہلکہ خیز ویڈیو انٹرویو، ناقابل تردید شواہد اور ثبوت پیش کر دیے.

    (مولانا الیاس گھمن کا معاملہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر زیربحث ہے مگر اب تک ان کی طرف سے کوئی مؤقف سامنے نہیں آ سکا تھا. معروف کالم نویس اور آئوٹ لائن کے مدیر محمد بلال غوری نے مولانا کا ویڈیو انٹرویو کیا ہے، معاملے کی اہمیت و نزاکت کی وجہ سے اسے آئوٹ لائن کے شکریے کے ساتھ دلیل پر پیش کیا جا رہا ہے.)
    سرگودھا (انٹرویو: محمد بلال غوری)
    مولانا الیاس گھمن کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ حرکت المجاہدین کے سابقہ کمانڈر، عالمی اتحاد اہلسنت و الجماعت کے رہنماء، شعلہ بیاں خطیب اور مقرر ہیں۔ سرگودھا میں بچوں اور بچیوں کے دینی مدارس چلاتے ہیں۔ انہوں نے 5اپریل2012ء کو تبلیغی جماعت کے بزرگ رہنما مفتی زین العابدین کی صاحبزادی سمیعہ زین العابدین سے شادی کی۔ یہ خاتون پہلے سے شادی شدہ تھیں۔ پہلے شوپر کی وفات کے بعد انھوں نے مولانا الیاس گھمن سے شادی کی مگر چند برس بعد ہی علیحدگی ہوگئی اور سمیعہ زین العابدین نے اپنے سابقہ شوہر مولانا الیاس گھمن پر انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے۔ یہ بھی کہا کہ مولانا نے ان کی بیٹی جو پچھلے گھر سے تھی، اس سے دست درازی کی کوشش کی۔ سوشل میڈیا پر بے پرکی اڑائی جا رہی تھیں، ایسی صورتحال میں ہم نے مناسب سمجھا کہ مولانا الیاس گھمن سے براہ ارست رابطہ کر کے ان کا مؤقف جاننے کی کوشش کی جائے۔ اس انٹرویو میں مولانا الیاس گھمن نے نہ صرف اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کا جواب دیا ہے بلکہ چند ناقابل تردید شواہد اور ثبوت بھی پیش کیے ہیں۔ (آؤٹ لائن کا ادارتی نوٹ)
    ملاحظہ کیجیے:
    https://youtu.be/rpx-xaz6N8g

  • حضرتِ گھمن کی داستان، اخلاقی وجود کا ٹیسٹ کیس – محمد تہامی بشر علوی

    حضرتِ گھمن کی داستان، اخلاقی وجود کا ٹیسٹ کیس – محمد تہامی بشر علوی

    محمد تہامی علوی بشر حضرت گھمن کی داستاں کیا چھڑی کے بس چھڑتی ہی چلی گئی۔ نفوس کا تزکیہ کس قدر ضروری ہے، اس کا اندازہ چھڑجانے والی داستاں میں صرف کیے گئے الفاظ سے کیا جا سکتا ہے۔ جس کا منہ جس طرف تھا ”حق“ جانتے ہی، دنیا کو باخبر کرنےشرق و غرب جا نکلا۔ آقاﷺ کی امت مانا گنہگار ہوسکتی ہے، پر اس کی تاریخ شاید ہے کہ اس نے ایسی ”سچائیاں“ دنیا بھر میں پھیلانے میں کبھی کوتاہی نہیں برتی۔ حضرت گھمن کی داستاں میں، ملزم کو مجرم باور کر کے پھر اسےذلیل کر گزرنے میں دامے درمے سخنے ہر ممکن جتن کرگزرنےکی کئی داستانیں چھپی ہوئی ہیں۔ اب توجناب گھمن کی داستان ہمارے اخلاقی وجود کا ٹیسٹ کیس بن چکی ہے۔ وہ سچ، جو نفس کی نا آسودہ آرزؤں کو آسودہ کرنے کے کام لایا جانے لگے، سچ یہ ہے کہ اس کی سچائی کا رنگ کجلا جاتا ہے۔ پھر یہ حق، نفسانی آلائشوں میں لتھڑتے لتھڑتے، حق یہ ہے کہ بس حق نہیں رہتا۔ میں قائل کی نیت و احساسات میں جھانک نہیں سکتا، البتہ کہے گئے الفاظ کی وضع قطع سے بہت کچھ بھانپ سکتا ہوں۔ میں اپنے بھانپنے کو حسنِ ظن سے الجھنے کی اجازت نہیں دے سکتا، البتہ کھٹکتی بات پراحباب کو متنبہ کر سکتا ہوں۔ سچ محض بولی جانے والی شے نہیں کہ بس جیسے تیسے بول دیا جائے۔ سچ وہ اعلیٰ اخلاقی قدر ہے جسے پوری سچائی کے ساتھ بولنا پاکیزہ پر لازم ہے۔ جو سچ، سچی طبیعتوں سے نہ پھوٹے سچ جانیے کبھی ثمرآور نہیں ہوسکتا۔ سچ جیسی پاکیزہ خصلت کی باگ نفسانی جذبات کو تھما دی جائے تو سچائی کے بہکے پھرنے کے نمونے یوں رقم ہو کررہتے ہیں۔ اخلاقی پستی کو شعار بنا لینے والی قوم سچائی کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی توفیق سے محروم رہ جاتی ہے۔ حضرت گھمن کی داستاں سنانے سے پہلے، ہر زبانِ حق بیاں پر لازم تھا کہ کسی شتابی سے پہلے اپنی ذمہ داری کا گہرا ادراک کرتی۔ ایسےاہلِ زباں، مسلماں بھی ہیں تو لازم تھا دین و شریعت کی رہنمائی پانے کو سنجیدہ ہوجاتے۔ لگے ہاتھوں بہت کچھ کہہ گزرنے کے وسیع تر امکانات کے ہوتے ہوئے بھی ”قائم بالقسط“ رہنے کی خو اپناتے کہ معاملہ کسی گھمن کا نہیں دین و خدا کا ہے۔ مگر جب سماج کا شعار ہی افراط و تفریط کی مثالیں رقم کرنا ٹھہر چکے تو اس غدر کے موقع پر محمود و ایاز کو نفسا نفسی کے عالم میں ایک ہی رنگ میں کیوں نہ دیکھا جاتا؟ تو قوم اپنی، وحدت کے اظہار کا یہ موقع بھی گنوا کر کیا کافر ہو کر مرتی ؟
    قبل اس سے کہ تمہیں مجھے ”گھمنی“ و ”غیرگھمنی“ میں تقسیم کرنے کا تردد سہنا پڑے، وضاحت کیے دیتا ہوں کہ مجھے زین العابدین کی نواسی اور اپنی معصوم بہن کا دوپٹا حضرت گھمن کی دستار سے زیادہ محترم ہے۔ بات تقدس ہی کی کر لیجیے تو مجھے زین العابدین کی نواسی کے جذبات کے تقدس کا بھرم جناب گھمن کی عظمتوں سے زیادہ عزیز ہے۔ مجھے مبینہ جرم کی قباحت سمجھانے کےدرپے ہونے کی زحمت نہ کیجیے کہ جانتا ہوں ایسا جرم، ہر حیوانی پستی سے گزر کر ہی کہیں صادر ہو پاتا ہے۔ مجھے کسی صاحب ِدستار سے، دستار سمیت اس پستی میں اتر جانے پر بھی کوئی تردد نہیں۔ دستار بردار، ان پستیوں تک اتر جانے کا محض امکان ہی نہیں اک شاندار تاریخ بھی رکھتے ہیں۔ مجھے خبر ہے کہ ہم نے جو اخلاقی وجود کو ذلیل کر کے مار ڈالا تھا، اس پر مزار کی تعمیر کی سعادت خاصانِ خدا کا ہی نصیب بنی تھی۔ اس مزار کی گدی نشینی پر انہیں کا بلاشرکتِ غیرے حق ہے کہ یہ معرکہ انھی کے دم قدم سے سر ہوا تھا۔ یہ تم ہو کہ تمہیں دستار میں فرشتے دکھتے ہیں۔ پھر جب وہ ویسے نہیں نکلتے تو حیرت میں کھڑے رہتے ہو۔ میرا معاملہ مگر اس سے سوا ہے۔ دستار و جرم کی شناسائی مجھے حیرت میں نہیں ڈالا کرتی۔ وجہ یہی کہ مجھے ان دونوں کی تعلق داری کی برسوں سے خبر ہے۔ مدت ہوئی کہ سفید رنگ کی جبہ پوشی سے مجھے اب اخلاقی نورانیت کا دھوکا نہیں ہوتا۔ میں ہر صاحبِ دستار کو بھی تقدس مآب باور کرنے میں تامل کر گزرتا ہوں۔ میں تقدس اور اس کے اجزائے ترکیبی کا عینی شاہد ہوں۔
    حضرت گھمن پہ ہی آجائیے تو احباب باخبر ہیں کہ حضرت کی بےتکاں، زبان ِحق بیاں پر صاف صاف باتیں کئی بار کہہ گزرا ہوں۔ یہ اس دور کی بات ہے جب جناب گھمن کا طوطی چپ ہونے کو نہ آتا تھا اور میں ابھی مدرسے کا طالب علم تھا۔ مدرسے کا جواں اخلاص جناب گھمن کے روبرو سر بسجود ہونے کو مچل اٹھا کرتا تھا۔ عین انہی لمحات میں ان عظمتوں کا منکر یہی راقم نامراد ہوا کرتا تھا۔ معلوم ہے، آج یہ سماج جو آگ کی زد میں ہے، اس میں بڑا حصہ خاصانِ خدا کا ہی ہے۔ ہمارے اردگرد پھیلی یہ آگ جن پھونکوں کے دم قدم سے شعلہ بار ہوتی گئی، ان پھونکوں میں توانا پھونک جناب گھمن کی بھی ہے۔گو ان کی زود پشیمانی نے انہیں نرم گفتاری پر آمادہ تو کیا پر سماج کو ابھی ان جیسوں کی شعلہ بیانیوں کی قیمت چکانے میں عمر کھپے گی۔ مجھے فقیہانِ حرم کی بے توفیقی کی بھی لمحہ بہ لمحہ خبر ہے۔ میں ان مبارک گھڑیوں سے بھی آشنا ہوں ،جب دیکھتے ہی دیکھتے یہ بے توفیقی، بد توفیقی میں بدل جاتی ہے۔ مجھے وہ حیلے تراشنے میں گھسے دماغوں پہ بھی رحم آجایا کرتا ہے۔ دل اتنا پتلا ہو چکا کہ بس اب انبیاء کے ورثاء کے فرامین ستانے اور خامشی کھانے لگتی ہے۔ عین قیام کےلمحوں میں انہیں سجدہ ریز ہوتا دیکھتا ہوں تو جی چاہتا ہے چند جوانوں سے کہوں، ایندھن جمع کریں اور ان کے گھروں میں آگ لگا آئیں۔یہ المیہ اپنی جگہ مگر مان لیجیے کہ اخلاقی پستی ہمارا مذہبی نہیں قومی شعار ہے۔ المیوں کی جڑ یہی ہے کہ ہمارے رسولﷺ کی یہ امت اگر متفق ہے تو بس اخلاقی وجود کو کچل دینے پر ہی۔ اس معرکے میں داد شجاعت سمیٹنے کے جملہ حقوق محفوظ ہیں تو خاصان خدا کے نام۔ لا شک، ملت کے اخلاقی وجود پر حملہ آور مجاہدین کے سرخیل مولانا گھمن بھی ہیں۔ جناب گھمن کے ساتھ اس شاندار ماضی کی ہم رکابی مگر کافی نہیں کہ ان پر لگے الزام کو جرم یقین کرنے تک کا فاصلہ مختصر کر دیا جائے۔ معاملہ یہ نہیں کہ وہ مجرم ہیں یا نہیں؟ سوال یہ ہے کہ مجھے ابھی مجرم کہنا ہے یا نہیں؟ دستیاب شواہد کی گواہی ممکن ہے حضرت گھمن کی بابت میرے خیال کوایک طرف یکسو کر دے۔ مگر یہ دل کا معاملہ ابھی کسی پر کھول دینے کو، تقاضا اس کے سوا چاہیے۔ اس قضیہ پر کلام سے پہلے مجھے اپنی ذمہ داری سے باخبر رہنا ہوگا۔ میں مدعی نہیں کہ جرم کے اثبات کی خاطر براہین تلاشنے کی سعی کروں۔ کسی مدعی نے مجھے وکیل نہیں بنایا کہ اس کے تعاون کو مچل بیٹھوں۔ مدعی بے بس اتنا ہو کہ اسے مجھے وکالت سونپنے کا یارا نہ رہا ہو، تو بھی اگلے ہر اقدام سے قبل میں یہ جانچوں گا کہ میرے کسی عمل کا مدعی مظلوم کو کیا فیض پہنچ کر رہنا ہے؟ کیا کہیں جوش ِحق گوئی میں، میں نے وہاں بھی تو کمند نہیں ڈال دی، جہاں کے تصور سے بھی مدعی شرما جائے ہے؟ میری حیثیت حَکم یا قاضی کی بھی نہیں کہ جانبین کا موقف سنوں اور عدل کی داستاں رقم کر ڈالوں۔
    میں کس مقام پر ہوں؟ مقام اپنا یہی ہے کہ کسی ثابت شدہ جرم سے کسی عصبیت کے زیر اثر انکار نہ کر گزروں۔جناب گھمن کی داستاں مبرہن کر دی گئی مگر بہرحال ان کا مجرم ثابت ہونا ابھی باقی ہے۔ اس سے قبل میں کسی جرم کو، جرم سمجھ کر اس کی شناعت سے خدا کے بندوں کو خبردار کر سکتا ہوں، مگر اس جرم کی نسبت کسی فرد کی طرف کرگزرنے سے گریزاں رہوں گا۔ میں زین العابدین کی لخت جگر پر بھی ”بہتان باندھنے“ کا بہتان نہیں لگا سکتا۔ بات یہ ہے کہ مجھے میرا دین مجبور کرتا ہے کہ محض مدعی کا سچا ہونا مدعی علیہ کو مجرم یقین کرنے کو کافی نہیں۔ کسی کو مجرم کہہ گزرنے کے لیے محض دعوی کی سچائی یا مدعی کا سچا ہونا کافی نہیں۔ مجرم کہنے کو ناگزیر ہے کہ ”سچا فیصلہ“ بھی ہو لینے دیاجائے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک سچا مدعی کہہ رہا ہو کہ ”فلاں مجرم ہے“، اس پر جھوٹا فیصلہ ہو چلے کہ ”فلاں معصوم ہے“،تو مجھ پر دین کی رو سے لازم ہے کہ مجاز اتھارٹی کے جھوٹے فیصلہ پر قول کی بنیاد رکھوں۔ ذاتی معلومات دلِ ناداں سے جو کہلائیں کہلاتی پھریں، زباں مگر پابند ہے تو کسی مجاز اتھارٹی کے فیصلے کی۔ رسالت مآبﷺ اسی باریکی کو سمجھانے کے لیے، اصحاب سے مخاطب ہوئے کہ دیکھیے تم مجھ تک نزاعات لے آتے ہو، میں گواہی کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہوں۔ میں تمہارا نبی اس میں امکان بھر کوتاہی نہیں برتتا، مگر گواہی جھوٹی ہونے کے احتمال سے میرے فیصلے کے خلاف ِحقیقت ہوجانے کا امکان بھی ہے۔ اگر کسی نزاع میں جھوٹ موٹ کی گواہی کی روشنی میں کسی کے حق میں کسی ٹکڑے کا فیصلہ میں محمدﷺ کر بھی لوں تو اس کے باوجود ایسا شخص سمجھ لے کے اس کے حصہ میں یہ جہنم کی آگ کا ٹکڑا آیا ہے۔ وہ یہ نہ سمجھے کہ جھوٹی گواہی پر مبنی رسول کا عدالتی فیصلہ اس کے لیے حرام کو حلال کر دے گا۔ ایسے موقع پر سچے مدعی کو بھی فیصلے کے سامنے سرنگوں ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اسے جھوٹے فیصلہ پر ملال کے بجائے، اس نازک گھڑی میں دین کی اطاعت کی توفیقِ خاص پر شادماں ہونا چاہیے۔ حقیقی فیصلہ ہونےتک خدائی عدالت کا یقین بھرا انتظار ہی اس کا سرمایا رہے۔
    حضرت گھمن کی داستاں کا جز بننے والے عناصر حد درجہ حساس ہیں۔ دین اپنے ماننے والوں سے اس بابت سخت ہدایات کی پابندی کا مطالبہ کرتا ہے۔ ان امور میں کلام کرنے کو محض سچائی تک رسائی پا جانےکی بےتابی سے زیادہ معاملے کی حساسیت اور اپنی ذمہ داری کا ادراک لازم ہے۔ پھر جبکہ اس سارے جتن سے مبینہ مظلومہ کی کوئی مدد بھی متوقع نہیں تو کہیے اس کارثواب کو کس کے نامے میں درج کروانا مطلوب ہے؟ دیکھا یہ بھی گیا کہ جناب گھمن کو مجرم ماننے سے بھی کئی طبیعتیں سیراب نہ ہو پائیں۔ اس مرحلے میں بھی افراط و غلو کی فراوانی زوروں پہ دیکھی گئی۔ بچا وہی، جس پر بس خدا نے رحم فرما لیا۔ مجھےاب اس نئی داستاں کو طول نہیں دینا۔ کہنا یہ ہے کہ قوم کے جری ثبوتوں کو مبارک ہو کہ ”قیام بالقسط“ کا سینہ حسب روایت پھر چھلنی کر آئے۔ جرم و مجرم کی شناعت کا بیان، تزکیہ پا چکے نفوس کو کرنا ناگزیر ہو ہی جائے تو عجب ان کا حال ہوتا ہے۔ اخلاص و عبدیت کی ہر ادا اس لمحے ان پر نثار ہوئی جا رہی ہوتی ہے۔ عدل کے تقاضے نبھانے کو ضمنا مجرم کی نشاندہی کرنی ہی پڑ جائے تو انہیں یہ سب دل پر پتھر رکھ کر کرنا ہوتا ہے۔ چور کا ہاتھ کاٹا بھی جا رہا ہوتا ہے ساتھ میں آنسوؤں کی لڑی جاری رہتی ہے۔ ایسی پاکباز روحیں مجرم کی تذلیل سے نہیں خوش ہو پاتیں۔ کیا؟ کب تک؟ کیوں چھپانا ہے؟ اور کب، کیا، کس قدر اور کیسے ظاہر کرنا ہے؟ ستر و اظہار کے مواقع میں فرق کا ادراک سچ یہ ہے کہ گہری سنجیدگی اور اعلی تربیت مانگتا ہے۔ کوئی چاہے تو رسالت مآبﷺ کا مجرمین کے باب میں برتا گیا رویہ دقتِ نظر سے مطالعہ کر لے۔ بلاشبہ اس میں سیکھنے والوں کے لیے بے شمار نشانیاں ہیں۔

  • مدرسۃ البنات کی مخالفت کیوں؟ سید عدنان کریمی

    مدرسۃ البنات کی مخالفت کیوں؟ سید عدنان کریمی

    سید عدنان کریمی مفتی احمد ممتاز علمی حلقوں میں بڑا معروف نام ہے، بالخصوص اہل عزیمت انہیں اپنا امام اور صاحبان مناظرہ انہیں اپنا مرشد مانتے ہیں۔ علم و تحقیق، افتا و تصوف، مناظرہ و مکالمہ میں استاذ سمجھے جاتے ہیں۔ مختلف اہل علم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا تاہم مفتی رشید احمد رح (بانی جامعۃ الرشید) کی نظروں کے اسیر ہوگئے، کم وبیش دو دہائی ان کی شاگردی میں رہے، بعد ازاں مفتی رشید احمد رح نے کسی مسئلہ پر ان سے دوری اختیار کر لی اور یہ دوری بڑھتی گئی لیکن مفتی احمد ممتاز اپنے استاذ کو اس مسئلہ پر قائل و مطمئن نہ کرسکے، بالآخر حضرت والا داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے دارفانی سے کوچ کرگئے۔ مفتی احمد ممتاز ان اجل تلامذہ میں سے ہیں جنہوں نے حضرت والا کی کراچی آمد کے بعد کے ابتدائی ایام میں ان سے استفادہ کیا، یہی وجہ ہے کہ مفتی موصوف کی سرشت میں اپنے استاذ کی جرآت و بےباکی اور عزیمت سرایت کرگئی ہے، اسلامی بینکاری کا معاملہ ہو یا ڈیجیٹل تصویر کا قضیہ مفتی موصوف سب سے علیحدہ مؤقف اپناتے نظر آتے ہیں۔
    2008ء میں برادر کبیر کی دعوت پر مفتی احمد ممتاز نے ہمارے غریب خانے کو عزت بخشی، بلا کی سادگی، بے مثال عجز و انکسار، علمیت سے بھرپور گفتگو نے مجھے ان کا گرویدہ بنا دیا، ضیافت کے بعد جب انہیں رخصت کرنے لگے تو میں بھی ان لوگوں کے ساتھ ہو لیا جو انہیں مدرسہ پہنچانے پر مامور تھے۔ راستے میں کئی سوالات ذہن کے نہاں خانوں میں کلبلانے لگے، لیکن خاکسار نے ایک سوال پر اکتفا کیا۔ سوال یہ تھا کہ آپ حضرت والا کے تلمیذ رشید ہونے کے باوجود ان سے کیونکر الگ ہوئے؟ چند لمحے کے توقف کے بعد آہ بھری، الفاظ سمیٹتے ہوئے گویا ہوئے ”دراصل بات یہ تھی کہ حضرت والا رحمہ اللہ بنات کے مدرسہ کے سخت مخالف تھے اور امر واقعہ یہ تھا کہ بندہ حضرت والا ہی کے حکم سے یہاں ماڑی پور آیا تھا، امامت وخطابت شروع کی اور یہ نیک کام چلتا رہا، جونہی بنات کا مدرسہ بنا تو حضرت والا بنات کے مدرسہ کی بابت سخت گیر موقف کی وجہ سے مجھ سے تسلی بخش جواب کے خواہشمند تھے، تاہم بندہ انہیں قائل نہ کرسکا تو وہ البغض فی اللہ کے تحت مجھ سے دور ہوگئے۔“
    آج نماز جمعہ سے قبل اچانک یہ واقعہ یوں یاد آیا کہ حالیہ دنوں ایک معاملہ تنازعہ کی صورت اختیار کرگیا ہے جس میں ایک جانب مبینہ الزامات تو دوسری جانب الزامی جوابات کا نہ تھمنے والا سلسلہ ہے، الزامات کی ابتدا سابقہ بیوی سے ہوتے ہوئے مدرسۃ البنات کی طرف جاتے ہیں جہاں طالبات سے بھی دست درازی اور عصمت ریزی کے گھناؤنے الزامات ہیں۔ کیا ہی دور اندیش تھے حضرت والا جنہوں نے مدرسۃ البنات کی یکسر مخالفت کر کے تمام فتنوں کا سدباب کردیا تھا، ان کی نگاہ دور بین میں مخالفت کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں تاہم اہم نکتہ بےحیائی کا روک تھام تھا۔ کاش کہ اہل مدارس اس سنگینی کو سمجھتے ہوئے مدرسۃ البنات کو صرف غیر رہائشی تعلیم تک محدود کردیں تو بہت سے فتنے اپنے آپ ہی دم توڑ جائیں۔ بنات کے رہائشی مدارس الزامات کا پنڈورا بکس ہیں۔

  • مولانا الیاس گھمن نے خاموشی توڑ دی، ویڈیو جواب پہلی بار منظر عام پر

    مولانا الیاس گھمن نے خاموشی توڑ دی، ویڈیو جواب پہلی بار منظر عام پر

    مولانا الیاس گھمن پر ان کی سابقہ بیوی نے سنگین الزامات لگائے، یہ معاملہ سوشل میڈیا اور ویب سائٹس پر زیربحث آیا. مختلف لوگوں نے اس کے جواب لکھے لیکن مولانا الیاس گھمن خود خاموش تھے. بالآخر انھوں نے خاموشی توڑ دی اور اپنا ویڈیو بیان ریکارڈ کروایا جسے دلیل کی جانب سے پیش کیا جا رہا ہے.

  • مولانا الیاس گھمن تنازع پر متاثرہ خاندان کا مؤقف – زین الصالحین

    مولانا الیاس گھمن تنازع پر متاثرہ خاندان کا مؤقف – زین الصالحین

    مولانا الیاس گھمن تنازع کے حوالے سے متاثرہ خاتون کے بیٹے اور تبلیغی جماعت کے معروف بزرگ محترم مفتی زین العابدین ؒ کے نواسے زین الصالحین کا موقف من و عن شائع کیا جا رہا ہے۔
    السلام علیکم
    سوشل میڈیا پر کچھ دن سے الیاس گھمن کے بارے میں بات چل رہی ہے۔ یہ ساری بات دو سال پرانی ہے جو کہ حقیقت پر مبنی ہے۔ یہ جو فتویٰ کے لیے تحریر لکھی گئی تھی، مفتی صاحبان اور علماء کو مسئلے کی حد تک اور اپنی تسلی کے لیے لکھی گئی تھی نہ کہ عوام الناس میں بحث کے لیے۔ ہم ذاتی طور پر مفتی ریحان کو نہیں جانتے۔ ہم نے ابھی تک خاموشی اختیار کی تھی۔ اب مجبورا تحریر لکھ رہا ہوں۔ اتنی کالز اور پیغامات موصول ہونے کے بعد یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جو کچھ فتویٰ میں ہے، وہ درست اور سچ پر مبنی ہے۔ الیاس گھمن لاعلمی میں مجھے بھی کافی استعمال کرتا رہا۔
    میں تمام اکابرین سے درخواست کرتا ہوں کہ موجودہ حالات میں سب الیاس گھمن کی سرپرستی کی وضاحت فرمائیں۔ سارے حالات سے باخبر ہونے کے باوجود بھی کیا الیاس گھمن کی سرپرستی کریں گے؟ باقی سوالات کے جوابات وفاق المدارس اور نامور علماء ہم سے لے سکتے ہیں۔ ہم منتظر ہیں، آئیں ہم سے وضاحت مانگیں۔

    زین الصالحین کا خط
    زین الصالحین کا خط

    (زین الصالحین مولانا الیاس گھمن کے سوتیلے بیٹے تھے)

  • مولانا الیاس گھمن کا قضیہ، چند ضروری باتیں – فرہاد علی

    مولانا الیاس گھمن کا قضیہ، چند ضروری باتیں – فرہاد علی

    فرہاد علیمولانا الیاس گھمن صاحب کا قضیہ پورے زور و شور کے ساتھ زیر بحث ہے۔ سوشل میڈیا کی روایات کے عین مطابق تقریبا ہر فرد اس کو اپنے نظریات اور فکری وابستگی کی عینک سے دیکھ رہا ہے۔ اس قضیہ میں چند باتیں قابل غور ہیں۔
    پہلی بات: اس سارے قضیے کی ابتداء ایک خط سے ہوئی۔ یہ بات تو واضح ہوچکی ہے کہ خط لکھنے والا ریحان نام کا کوئی شخص موجود نہیں ہے بلکہ یہ ایک فرضی نام ہے. اصل شخص کو اگرچہ مولانا عزیز الرحمن صاحب کے صاحبزادے مفتی اویس صاحب نے بے نقاب نہیں کیا مگر اتنا ضرور بتا دیا کہ کوئی دوسرا جراتمند پردے کے پیچھے جرات کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ نیز مفتی اویس صاحب نے اس سارے قصہ کو من گھڑت کہا ہے۔ علاوہ ازیں سوشل میڈیا پر اس سارے قضیہ کی ابتدا کرنے والے معروف صحافی فیض اللہ خان صاحب نے بھی وضاحت کی ہے کہ میں نے محض الزامات کو شائع کرکے غلطی کی ہے اور اس غلطی کی گھمن صاحب سے باضابطہ معافی بھی مانگی ہے۔ حاصل کلام یہ کہ اس طرح کی باتیں اگرچہ زیر گردش ہیں مگر ان کی حیثیت محض الزامات کی ہے جن کو خدا جانے کن محرکات کی بنا پر مرچ مصالحہ لگا کر شائع کیا گیا۔
    دوسری بات: اس پورے قضیہ میں وفاق المدارس کا کردار بھی زیر بحث آیا اور آنا بھی چاہیے مگر میری دانست میں وفاق المدارس اور علمائے کرام نے اپنی ذمہ داری اس حد تک پوری کی ہے کہ انہوں نے گھمن صاحب سے باضابطہ لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ وفاق کا اظہار لاتعلقی کا اعلان ناکافی ہے۔ اگر وفاق کا اتنا اقدام ناکافی ہے تو وفاق کو کیا کرنا چاہیے؟ وفاق المدارس نہ تو گھمن صاحب کا فریق مخالف ہے کہ عدالت تک جائے اور نہ قانون نافذ کرنے والا ادارہ کہ گھمن صاحب کو ہتھکڑیاں پہنائے۔ وفاق المدارس اپنی ذمہ داری پوری کرچکا ہے۔ اس سے زیادہ اس کے لیے مناسب بھی نہیں کیونکہ کل کو کوئی بھی اپنے ذاتی مسائل کے لیے وفاق کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کی کوشش کرے گا اور یوں ایک مشترکہ پلیٹ فارم ذاتی مسائل کی بھینٹ چڑھ جائے گا ۔ البتہ چونکہ مسئلہ پورے دینی حلقہ کا ہے اس لیے علمائے کرام کو اس کا پائیدار حل نکالنا چاہیے مگر یہ بھی ان کی اخلاقی ذمہ داری ہوگی، قانونی یا شرعی ذمہ داری نہیں۔ اس صورت حال کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مجموعی طور پر دینی طبقہ نے مسلکی وابستگی کو بالائے طاق رکھ کر اس کہانی کو آشکارا بھی کیا ہے اور انصاف کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ فطری طور پر ایک سوال اٹھتا ہے کہ یہ باتیں کافی عرصہ سے دینی طبقہ میں گردش کر رہی تھیں تو اس کو اتنے عرصہ تک کیوں پوشیدہ رکھا گیا؟ اس سوال کا جواب پانچویں اور آخری بات کے ضمن میں آئے گا۔
    تیسری بات: اگر یہ علمائے کرام کی ذمہ داری نہیں ہے تو پھر کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے معاملات کی جانچ پڑتال کرے مگر یہ بھی اس صورت میں ممکن ہے جب متاثرہ فریق عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے اور پولیس میں شکایت کرے۔ اس کے بغیر ریاستی ادارے بھی معاملات کے سلجھاؤ میں ناکام رہیں گے کیونکہ ان کو متاثرہ فریق کا تعاون حاصل نہیں ہوگا جس کے بغیر کسی قسم کی پیش رفت ناممکن ہوگی۔ اگر متاثرہ فریق کے عدالت جانے کے بعد بھی دینی طبقہ اس کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا تو پھر اس پر مسلکی تعصب کا الزام درست ہوگا، اس سے پہلے ایسے الزامات قرین انصاف نہیں حالانکہ دینی طبقہ کا ردعمل نہایت مثبت دیکھا گیا ہے۔
    چوتھی بات: جن لوگوں کو مذہب اور مذہبی طبقہ سے خدا واسطہ کا بیر ہے انہوں نے اس پر طرح طرح کی گل کاری کی، دل کے پھپھولے پھوڑے ۔ ان لوگوں کی طرف سے عجیب و غریب مطالبے سامنے آ رہے ہیں جو ان کی فکری تضاد کے شاہکار ہیں۔ یہ لوگ مطالبہ کرتے ہیں کہ مذہبی طبقہ ایکشن کیوں نہیں لیتا بلکہ طنزیہ طور پر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حدود کے نفاذ کی باتیں کرنے والے حد کیوں نہیں لگاتے۔ عجیب بات ہے کل تک جو لوگ منبر و محراب تک کے اختیارات ریاست کے سپرد کرنے کی باتیں کر رہے تھے، آج وہ ریاست کے اختیارات اور قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ کل تک جن کو حدود و تعزیرات کے مسئلہ پر بدہضمی ہوتی تھی، آج ان کو حدود و تعزیرات یاد آگئے۔ ہم تو بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ حد چاہے گھمن صاحب پر لگے یا کسی دوسرے شخص پر، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کو عدالت میں ثابت کیا جائے۔ لبرلز سے گذارش ہے کہ وہ پہلے پاکستان میں شرعی سزاؤں کے نفاذ کا مطالبہ تو کریں تاکہ ان کے ارمان پورے ہوں مگر نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے۔ یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں۔
    پانچویں اور آخری بات: جن لوگوں نے اس معاملہ کو خاص لوگوں کی بیچ سے اٹھا کر عوامی سطح پر اچھالا ہے، انہوں نے نہایت خیانت کا مظاہرہ کیا ہے کیونکہ ان سےصرف مسئلہ پوچھا گیا تھا اور سائل کے معاملات کو پوشیدہ رکھنا ان کی شرعی ذمہ داری تھی مگر انہوں نے بد دیانتی کا مظاہرہ کیا۔ مذہبی طبقہ اگرچہ ان باتوں کے بارے میں جانتا تھا مگر انہوں نے پردہ پوشی کی۔ مسئلہ گھمن صاحب کا نہیں تھا بلکہ ایک خاتون اور اس کے نیک نام خاندان کا تھا خصوصا جب اس خاتون نے خود اس بات کی تشہیر پسند نہیں کی بلکہ علمائےکرام تک محدود رکھنا چاہا۔ محض الزامات کی اشاعت درست اقدام نہیں تھا۔ یہ محض الزامات تھے جن کو ابھی تک کسی فورم پر ثابت نہیں کیا گیا تھا۔

  • اسلام خطرے میں نہیں پڑے گا – اکرام الحق ربانی

    اسلام خطرے میں نہیں پڑے گا – اکرام الحق ربانی

    %d8%a7%da%a9%d8%b1%d8%a7%d9%85-%d8%a7%d9%84%d8%ad%d9%82-%d8%b1%d8%a8%d8%a7%d9%86%db%8c مولانا الیاس گھمن انسان ہیں، ان سے ممکن ہے غلطیاں ہوئی ہوں، ان کے حوالے سے علماء تقسیم کا شکار نظر آ رہے ہیں، ایک طرف وہ طبقہ جن کے نزدیک اللہ اور اس کے رسول کے بعد اگر روئے زمین پر کوئی بڑا عالم ہے تو وہ الیاس گھمن ہی ہیں، اطمینان رکھنا چاہیے کہ تازہ واقعہ ان کی علمیت سے انکار کے نتیجے میں رونما نہیں ہوا بلکہ ان کو عالم مانتے ہوئے نوحہ ہے، غیرعالم ہوتے تو ہیرا منڈی میں یہ سب کچھ جائز طریقے پر ہوتا ہے. جو لوگ ان کی قابلیت اور صلاحیت کی داستانوں کو طول دے رہے ہیں، ممکن ہے ان کے پاس علم ہو کیونکہ ذاتی طور سے میں مناظرین کے علم کا قائل نہیں. یہ کوئی خوامخواہ کا دعوی نہیں بلکہ ان کے قریب رہ کر یہ لکھ رہا ہوں. مولانا الیاس گھمن کو پہلی مرتبہ قریب سے دارالعلوم کراچی میں دیکھا تھا جب وہ کراچی آئے تھے اور جامعہ نے اپنے اسٹیج سے انہیں تقریر کی اجازت نہیں دی تھی. سو کچھ جیالوں کو لے کر ایک چمن میں ان کے سامنے کچھ وعظ فرمایا جو میں نہ سن سکا.
    مولانا الیاس گھمن کی شخصیت شروع سے ہی متنازع آرہی ہے، آج کا نہیں بلکہ دو تین سال پہلے بھی ان کا ایک غیر اخلاقی اسیکنڈل علماء کے حلقے میں گونجتا رہا، سو پیران حرم کی پاسبانی سے وہ منظر سے غائب ہوا تو یہ نیا واقعہ منہ کھولے کھڑا ہے. ایک آدمی پر بار بار اس نوعیت کے الزامات کا لگنا کیا عجیب نہیں؟ مگر کب تک اپنوں کے کرتوت پردے میں رکھے جاتے سو یہ معاملہ سوشل میڈیا کے ذریعے منظرعام پر آیا تو وضاحتیں شروع ہوگئیں.
    دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو شاید بغض یا اخلاص کی وجہ سے گھمن صاحب کی ذات پر مولویوں کی تمام تر سیاہ کاریاں ڈالنے میں لگے ہیں اور انہیں کوڑے لگانے پر بضد ہیں. انہیں سوچنا چاہیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر واقعہ افک کے حوالے سے بے بنیاد باتیں گھڑنے والوں کو اللہ نے کتنی سخت جھاڑ پلائی.
    [pullquote] اذ تلقونہ بالسنتکم و تقولون بافواھکم ما لیس لکم بہ علم [/pullquote]
    سو سوچنے کا مقام ہے کہ محض سنی سنائی باتوں کو یقین کے درجے میں رکھ کر انہیں پھیلانا کتنی بری بات ہے.
    جو نادان دوست صرف اس وجہ سے گھمن صاحب کی حمایت میں کمر کس کر میدان میں اتر چکے ہیں کہ اس سے اسلام خطرے میں پڑ سکتا ہے یا دیوبند کی مضبوط عمارت میں دراڑ پڑسکتی ہے، انہیں ٹھنڈا پی لینا چاہیے. ایک گھمن صاحب کے نہ ہونے سے اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا اور دیوبند کی وہ عمارت جس کی تعمیر میں مولانا انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ جیسے لوگ شامل رہے، وہ کبھی منہدم نہیں ہوسکتی.
    مولانا انور شاہ کشمیری کے سوانح میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ مدرسے سے ملحقہ اپنے مکان میں تشریف لے جارہے تھے، دروازہ کھٹکھٹایا اور جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے تو مولانا طیب صاحب مرحوم کی والدہ پر نظر پڑی، الٹے قدموں لوٹے، استغفار پڑھتے ہوئے درسگاہ تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ آج غلطی سے مولانا طیب صاحب کی والدہ پر نظر پڑ گئی، اللہ سے استغفار کر رہا ہوں اور سوہان روح کی بری اذیت سے گزر رہا ہوں اور جب جب بخاری شریف میں احصان کی حدیثیں آتی ہیں تو یہ واقعہ ذکر فرما کر استغفار فرما لیتے، جبکہ شادی کے وقت سن و سال 45 سے متجاوز ہوچکے تھے. اکابر کی چھتری استعمال کرنے والے اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے والوں کی ان ہستیوں سے کوئی نسبت نہیں ہو سکتی.
    علمائے کرام کو شاید و باید سے کام لیے بغیر ان واقعات کی فوری تحقیق کرا لینی چاہیے. یہ نہ صرف دین کی بدنامی کا ذریعہ ہے بلکہ مستقبل قریب میں اس کے لڑکیوں کی دینی تعلیم پر بھی برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں. تسلیم ہے کہ عصری تعلیم گاہوں میں اس سے بھی کالے کارنامے انجام پذیر ہوتے ہیں مگر ان کا دعوی پارسائی کا تو نہیں، وہ جبرا خدا کے سیکرٹری بننا قبول بھی تو نہیں کرتے، دوسروں کے لئے ” رجم” کی آواز لگانے ولے اپنے حلقے میں کسی کو رجم کریں تو بات بنے گی. وفاق المدارس جیسی ناکام تنظیم کو بھی حرکت میں آنا چاہیے. خیر اس کی ناکامی کی داستان پھر سہی.

  • الیاس گھمن، متاثرہ خاتون، قاری حنیف جالندھری اور میں – فیض اللہ خان

    الیاس گھمن، متاثرہ خاتون، قاری حنیف جالندھری اور میں – فیض اللہ خان

    مولانا الیاس گھمن کے حوالے سے معاملہ معروف صحافی فیض اللہ خان کی فیس بک پوسٹ سے شروع ہوا تھا. اس تحریر میں نے انھوں نے آغاز سے اب تک کی کہانی کو پیش کیا ہے. معاملے کی اہمیت کے پیش نظر اسے شامل اشاعت کیا جا رہا ہے. (ادارہ دلیل)

    الیاس گھمن اور متاثرہ خاتون کا دعوی، فریقین کیا کہتے ہیں؟
    الیاس گھمن صاحب سے متعلق بحث بہت عام ہوچکی۔ وہ سارے خطوط اب سوشل میڈیا کی زینت ہیں جس کے مطابق ان کے عقد میں رہنے والی خاتون نے دعوی کیا کہ الیاس گھمن نے ان کی صاحبزادی سے مبینہ زیادتی کی اور کئی بار کی۔ اس حوالے سے کچھ ٹیلی فون کالز کا بھی چرچا ہے۔ خاتون نے مختلف دیوبندی علمائے کرام سمیت وفاق المدارس کو بھیجے جانے والے ان خطوط میں فتوی و انصاف مانگا تھا۔ ہمارے یہاں یہ کلچر شدت سے رائج ہے کہ کسی بھی مالی ذاتی یا کاروباری تنازعے کے حل کے لیے ابتدائی طور پر خاندان کے بڑوں، مشترکہ احباب یا علمائے کرام سے رجوع کیا جاتا ہے اور وہاں سے تسلی بخش جواب نہ ملنے پہ تھانہ کچہری میں معاملات طے کیے جاتے ہیں۔
    خاتون کے تحریر کردہ خطوط میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی، جبھی انہوں نے عدالت یا پولیس سے رجوع کے بجائے اپنے داخلی روابط کو متحرک کیا۔ یاد رہے کہ ہمارے مذہبی مدارس سے لاکھوں افراد فتاوی کے حصول کے لیے اپنے اپنے مسالک کے علماء سے رجوع کرتے ہیں ۔

    ان الزامات میں کتنی صداقت ہے؟
    پہلی بات تو یہ ہے کہ جب تک کسی سنجیدہ فورم پر ان الزامات کو ثابت نہیں کیا جاسکتا، اسے الزام ہی کہا جائے گا۔ ایسے کسی بھی جرم کے لیے ملکی قانون یا شریعت جو قواعد طے کرتی ہے، اس معاملے کو اسی تناظر میں دیکھا جائے گا۔ تب تک اسے حقیقت تسلیم کرنا ممکن نہیں۔
    ایسے میں متاثرہ خاتون کیا کرے؟
    اوپر بھی عرض کیا تھا کہ خاتون نے وہی طریقہ کار اختیار کیا جس کے بارے میں انہیں علم تھا۔ لیکن ملکی قوانین کو نظرانداز کیے جانے اور طویل مدت گزرنے کی وجہ سے ان الزامات کو ثابت کرنا اب ممکن نہیں رہا۔

    علماء نے کیا کردار ادا کیا؟
    خاتون نے اس دوران جن علماء سے رابطہ کیا اور انہیں اپنا سرپرست جانا انہوں نے اس معاملے کی کیا تحقیقات کی؟
    کیا انہوں نے فریقین کو طلب کیا؟ یا محض فتوی دینے میں عافیت جانی؟
    معاملہ یہ ہے کہ خاصے عرصے سے یہ کہانی دیوبندی مکتب فکر کے اہم حلقوں میں زیر گردش تھی۔ لیکن اس کا کوئی حتمی نتیجہ نہ نکالے جانے کی صورت میں تماشا لگ گیا ہے۔ وہ زمانہ گزر چکا جب قالین کے نیچے گند چھپایا جاتا تھا۔ جدید دور ہے، لوگ بہرحال جواب مانگتے ہیں۔

    علمائے کرام کو کیا کرنا چاہیے تھا؟
    الیاس گھمن اگر ایک عام سے مولوی ہوتے تو مسئلہ نہیں تھا، لیکن ان کا وسیع حلقہ ہے۔ حنفیت کو درست ثابت کرنے کے لیے وہ خاص طور پ غیر مقلدین یا سلفی حضرات کے خلاف تابڑ توڑ حملے کرتے ہیں جس کی وجہ سے بہرحال ان کی شخصیت بن چکی ہے۔ ایسے میں ان خطوط کے بعد علماء کو واضح مؤقف اختیار کرنا چاہیے تھا کہ اس معاملے میں کون غلط ہے؟ کون صحیح ؟ اور اگر یہ الزام ہے تو اس کی کیا اہمیت ہے؟ اور حقیقت ہے تو کون سا راستہ اختیار کرنا پڑے گا؟
    اس معاملے میں غیر ضروری تاخیر کے بعد وفاق المدارس نے الیاس گھمن سے فاصلے اختیار کیے اور اپنے رسمی رسالے میں اس حوالے سے لکھا گو کہ اس میں خاتون کے الزامات کا کوئی ذکر نہیں تھا لیکن پھر بھی اس سے الیاس گھمن کی ساکھ متاثر ہوئی۔

    الیاس گھمن صیب سے میری ملاقات کی روداد
    سوشل میڈیا میں گھمن صاحب و خطوط سے متعلق پہلے بھی لکھا جاچکا تھا لیکن میری تین لائنیں بم ثابت ہوئیں اور بہت بڑا دھماکہ ہوا۔ تحریر کے کچھ ہی دیر بعد احساس ہوا کہ بغیر کسی ثبوت کے اتنی بڑی بات کرنے سے مجھے گریز کرنا چاہیے تھا۔ اس کے بعد میں نے ایک معذرتی پوسٹ لگائی، سنجیدہ احباب نے اس پہ مجھے سراہا لیکن گالیاں بھی بہت پڑیں، اس کے فوری بعد دیوبندی احباب ہی مجھے سارے ثبوت فراہم کرگئے۔

    گھمن صاحب سے رابطے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
    تحریری معذرت کے بعد میں نے الیاس گھمن سے فون پر بات کی، ان تک سارا معاملہ ویسے بھی پہنچ چکا تھا، اتفاق سے اس کے اگلے روز ہی وہ کراچی آرہے تھے سو ناشتے پر ملاقات طے ہوگئی۔

    الیاس گھمن سے کیا بات ہوئی؟
    میں نے ان سے معذرت کی کہ بغیر ثبوت کے ایسا الزام لگایا اور بالفرض یہ سب خدانخواستہ درست بھی تھا تو مجھے اس معاملے میں نہیں پڑنا چاہیے تھا۔ میری معافی انہوں نے خوشدلی سے قبول کرلی۔

    خاتون کے خطوط کے بعد علمائےکرام نے رابطہ کیا؟
    میرے اس سوال پہ گھمن صاحب کا کہنا تھا کہ مجھ سے اس حوالے سے کسی عالم دین نے رابطہ نہیں کیا، ان کے مطابق میں وہ پہلا صحافی ہوں جس نے اس سنگین معاملے پر ان سے باقاعدہ رابطہ کیا اور حقائق جاننے کی کوشش کی۔

    الیاس گھمن نے ملاقات میں کیا کہا؟
    انہوں نے ایسے کسی بھی معاملے میں ملوث ہونے کی تردید کی اور اسے الزام قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ انسان خطاؤں کا پُتلا ہوتا ہے

    میں نے کیا کہا؟
    الیاس گھمن سے گفتگو میں میرا کہنا تھا کہ یہ معاملہ آپ ہی کے مکتب فکر نے اٹھایا ہے، اگر کسی دوسرے مسلک صحافی لادین یا لبرل نے یہ بات کی ہوتی تو اور بات تھی لیکن یہاں تو سارا کٹا دیو بندیوں نے ہی کھولا ہوا ہے، البتہ گالیاں ہمارے نصیب میں رہ گئی ہیں مگر اپنے بڑے علماء کو کلین چٹ دی جا رہی ہے۔

    الیاس گھمن نے کیا کہا؟
    انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ یہ الزامات خود ہمارے مسلک کے دوستوں نے ہی زیادہ اچھالے اور بات اتنی خراب ہوگئی۔

    وفاق نے آپ کے خلاف اشتہار کیوں شائع کیا؟
    الیاس گھمن کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف لگنے والے اشتہار کی اطلاع پہلے سے مل چکی تھی، میں نے کچھ علماء کو بیچ میں ڈال کر قاری حنیف جالندھری سے بات کی کہ وفاق کے ترجمان رسالے کو ذاتیات پر حملے کے لیے استعمال نہ کیا جائے لیکن ان کا جواب ملا کہ یہ مولانا سلیم اللہ خان کا فیصلہ ہے، وہ اس بابت کچھ نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد یہ اشتہار شائع ہوا اور یوں الیاس گھمن وفاق المدارس کی سرپرستی سے محروم ہوگئے۔ اسی طرح علامہ احمد لدھیانوی نے بھی ان سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ ایک ہندی عالم دین نے چندے میں خرد برد کے الزامات عائد کیے اور اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا۔

    جدید تعلیمی اداروں میں کیا ہوتا ہے؟
    اساتذہ کی طالبات کے ساتھ جنسی تعلقات کی داستانیں عام ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جامعہ پنجاب کے استاد پروفیسر افتخار بلوچ سے متعلق یہ اسکینڈل عام ہوا تھا کہ وہ نمبر بڑھانے کے عوض طالبات کو جنسی تعلقات قائم کرنے کا کہتے تھے، یہ معاملہ جامعہ پنجاب کی انتظامیہ و عدالت کے بھی نوٹس میں آیا تھا۔

    کیا مذہبی اداروں میں بھی یہ ہوتا ہے؟
    مذہبی مدارس اسی معاشرے کا جز ہیں، تنزلی ہر شعبے میں ہے تو مدارس بھی اس سے محفوظ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ مدارس میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ خواتین کے مدارس میں بھی بعض ایسی شکایات ملی ہیں کہ مدرسے کے مہتمم نے لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کی۔ گو کہ ان واقعات کی تعداد خاصی کم ہے لیکن مذہبی تشخص رکھنے والے کسی بھی شخص یا ادارے سے جڑے فرد کے ساتھ یہ خبریں ہوں تو دین بیزار طبقہ اسے مرچ مصالحے کے ساتھ بیان کرتا ہے ۔

    خاتون نے کون سے بڑے عالم یا مدارس سے رابطہ کیا؟
    متاثرہ خاتون کے مطابق اس معاملے کو ملک بھر دس بڑے مدارس میں لے جایا گیا، ان سے فتاوی مانگے جس میں سے بعض کا جواب آیا۔ کراچی کا احسن العلوم بھی انہی میں شامل ہے۔ خاتون نے وفاق المدارس کے جنرل سیکریٹری قاری حنیف جالندھری سے رابطہ کیا، خاتون کے مطابق قاری حنیف جالندھری اور مولانا حکیم اختر صاحب کے صاحبزادے حکیم مظہر نے اس معاملے کو حل کرانے کی یقین دہانی کرائی لیکن رفتہ رفتہ وہ اس معاملے سے دور ہوگئے اور کچھ نہیں ہوا۔

    قاری حنیف جالندھری اور حکیم مظہر کیا کہتے ہیں؟
    حکیم مظہر اختر سے تو میرا رابطہ نہیں ہوسکا البتہ قاری حنیف جالندھری سے جب میں اس بابت پوچھا تو انہوں نے صرف اتنا کہا کہ میں نے خاتون کو کسی قسم کی یقین دہانی نہیں کرائی نہ انہوں نے مجھ سے ایسا کرنے کو کہا، البتہ قاری حنیف جالندھری نے اس بات کی تصدیق کی کہ خاتون سے ان کی فون پر بات ہوئی تھی اور وہ اپنے بھیجے جانے والے فتوے کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہ رہی تھیں کہ اس کا کیا بنا؟ قاری حنیف جالندھری کے مطابق جب انہوں نے معلوم کرایا تو یہ بات سامنے آئی کہ خیر المدارس کو خاتون کا بھیجا گیا فتوی موصول نہیں ہوا۔
    اس معاملے کی یہ اب تک کی تحقیق ہے جو کہ بلا کم و کاست پیش کردی گئی ہے۔ اس اتفاق یا اختلاف کی صورت میں آپ اپنا مؤقف دلیل کو بھیج سکتے ہیں.