Tag: نیشنلزم

  • قوم کیا ہے؟ اسلام کا نظریہ قومیت کیا؟ معظم معین

    قوم کیا ہے؟ اسلام کا نظریہ قومیت کیا؟ معظم معین

    معظم معین ا اکثر یہ موضوع زیر بحث رہتا ہے کہ قوم کی بنیاد کس چیز پر ہوتی ہے؟ قوم کسی خطے میں رہنے والے افراد سے مل کر بنتی ہے یا ایک زبان بولنے والے مل کر ایک قوم بناتے ہیں؟ ایک رنگ کے لوگ ایک قوم ہوتے ہیں یا مشترک مفاد کے حامل لوگ ایک قوم کی لڑی میں پروئے جاتے ہیں؟ بھانت بھانت کا فلسفہ سننے کو ملتا ہے۔ لبرل اور سیکولر خواتین و حضرات مصر ہیں کہ ایک خطے میں رہنے والے اور مشترک تاریخ و تمدن رکھنے والے لوگ ایک قوم ہوتے ہیں۔ پھر قوم، ملت اور امت کے الفاظ کی بھی تشریح کی جاتی ہے اور ان میں فرق بیان کیے جاتے ہیں۔
    سیکولر طعنہ دیتے ہیں کہ ایشیا میں پیدا ہو کر عربوں کی تاریخ کو کس منہ سے اپنا قرار دیتے ہو؟ جو عروج و زوال عربوں کی تاریخ میں وقوع پذیر ہوئے اس کا کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ عربوں کو جاتا ہے، تم کیوں لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہوتے ہو؟ عرب تو تمہیں لفٹ تک نہیں کراتے تم کس امت اور کس قوم کے بات کرتے ہو؟ جس تاریخ کو تم مسلمانوں کی تاریخ گردانتے ہو وہ دراصل عربوں کی تاریخ ہے ایشیا اور خصوصا جنوبی ایشیا میں پیدا ہونے والے مسلمانوں کا اس سے کیا لینا دینا؟
    اسلام کا نظریہ قومیت بڑا واضح ہے. وہ مذہب یا عقیدے کو اس کی بنیاد بتاتا ہے جسے ایمان بھی کہا جاتا ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، اور نہ صرف اس دنیا میں بلکہ اگلے جہاں میں بھی قوم کی بنیاد انبیا و رسل ہی بتائے گئے ہیں یعنی ایک نبی کے ماننے والے اور ایک عقیدہ رکھنے والے لوگ ایک قوم ہیں۔ جو کسی نبی کا انکار کر دے وہ اس قوم سے نکل گیا۔ قیامت کے دن بھی تمام انسان اپنے اپنے انبیاء کی قیادت میں اکٹھے ہوں گے۔ کوئی نبی صرف ایک امتی کے ساتھ آئے گا کسی کے ساتھ ذیادہ امتی ہوں گے۔ آپ صلی
    اللہ علیہ وسلم کے امتیوں کی تعداد سب سے ذیادہ ہو گی جس پر آپ ﷺ فخر کریں گے۔
    ہمارے چند دانشور ایک خطے سے متعلق نسلوں کو ایک قوم گردانتے ہیں جس کی تاریخ بڑی قدیم ہے۔ مذہب سے الرجک ہونے کے باعث جس تہذیب اور تاریخ کو اسلام پسند مسلمانوں کی تاریخ کہہ کر بیان کرتے ہیں وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں کہ یہ تو عربوں کی یا ترکوں کی تاریخ ہے تم اپنے آپ کو اس سے نتھی نہ کرو۔ مگر ہمارے ذہن میں اس سے یہ سوال کلبلا رہا ہے کہ پھر تاریخ کہاں جا کر رکے گی بابا گرو نانک پر یا چانکیہ پر؟ راجہ داہر کو اپنا جد امجد قرار دیں گے یا چندرگپت موریا کو؟ پھر یہاں ہی کیوں رکیں؟ اس طرح تو سب انسان آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں، سب کی تاریخ مشترک ہونی چاہیے۔
    اسلامی تاریخ پر غور کریں تو قوم کی تشکیل سے متعلق بڑے غیر معمولی واقعات ملتے ہیں. حضرت عمر رض نے اپنے سگے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو غزوہ بدر میں اپنے ہاتھ سے قتل کیا تھا کیونکہ وہ انہیں اپنی قوم کا فرد خیال نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح حضرت مصعب بن عمیر نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق نے عزوہ بدر میں اپنے بیٹے کو مبارزت کے لیے طلب کیا لیکن آپ ﷺ نے اپنی طبعی رحم دلی کے باعث اجازت نہ دی۔ اس سے بڑھ کر معاملہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کا ہے جنہوں نے غزوہ
    احد میں اپنے سگے باپ جراح کو قتل کیا تھا۔ یہ معمولی بات نہیں ہے جس سے صرف نظر کیا جا سکے۔ تلوار چلی تھی اور باپ کے جسم پر وار ہوا تھا، اس باپ پر جو جنم دینے کا باعث تھا اور جس نے پال پوس کر بڑا کیا تھا۔ ابو عبیدہ ابن الجراح عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ اسے سے بڑھ کر کیا مثال مل سکتی ہے کہ ابتدائے اسلام کے دور میں نبی پاک ﷺ نے مسلمانوں کو قومیت سے متعلق کیا تصور دیا تھا۔
    یہ سب واقعات نسل یا وطن کی بنیاد پر قومیت کا انکار کرتے ہیں اور دین و مذہب پر قوم کی بنیاد رکھنے کا اعلان کرتے ہیں۔ اب اگر عربوں، ترکوں یا کسی دوسری قوم کا طرز عمل مختلف ہو تو وہ ہمارے لیے دلیل نہیں بن سکتا وہ غلط بھی ہو سکتے ہیں۔ ہمارے لیے دلیل تو رسول ﷺ کی مثال ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک باپ کے دو بیٹے اسلام اور کفر کی تفریق میں جدا جدا ہو جائیں اور دو بالکل اجنبی آدمی اسلام میں متحد ہونے کی وجہ سے ایک قومیت میں مشترک ہوں۔
    قائد اعظم کا اس بارے میں کیا موقف تھا وہ ان کے ایسوسی ایٹڈ پریس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو سے ظاہر ہوتا ہے
    The difference between the Hindus and Muslims is deep-rooted and ineradicable, we are a nation with our own distinctive culture and civilization, language and literature, art and architecture, names and nomenclature, sense of value and proportion, legal laws and moral codes, customs and calendar, history and traditions, aptitude and ambitions, in short we have our own distinctive outlook on life and of life. By any canons of international law we are a nation.
    [Interview to Preston Crom of Associated Press of America, Bombay, July 1, 1942, K.A.K Yusufi, edit, “Speeches, Statements and Messages of the Quaid-e-Azam”, Lahore, Bazm-e-Iqbal, 1996, Vol III, P. 1578]
    ”مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین اختلافات بہت وسیع اور گہرے ہیں۔ ہم ایک الگ قوم ہیں۔ ہماری اپنی تہذیب و تمدن ہے۔ زبان، ادب، رسوم و رواج، رکھ رکھاؤ، اخلاقیات، قوانین، تاریخ، تہوار، نام، مقاصد اور نظریات سب میں ہم ایک الگ اور نمایاں قوم ہیں۔ مختصرا یہ کہ ہم ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ کسی بھی بین الاقوامی قانون کے مطابق ہم ایک الگ قوم ہیں۔“
    اقبال کا نظریہ بھی اس بارے میں نہایت واضح اور دو ٹوک ہے۔ فرماتے ہیں
    قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
    جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں
    بازو ترا توحید کی قوت کے قوی ہے
    اسلام ترا دیس ہے تو مصطفی ہے
    اقبال نے تو رنگ نسل زمین کا انکار کر کے خاص طور پر مذہب پر قومیت کی بنیاد رکھی ہے
    بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
    نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
    اور دوسری جگہ کہا کہ
    اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
    خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
    ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
    قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
    اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم زبوں حالی کا شکار ہوتی ہے تو اس میں ایسے کم حوصلہ افراد کا پیدا ہو جانا بالکل فطری امر ہے جو اس قوم سے اپنی وابستگی پر شرمندگی کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن ماں اگر غریب یا بد صورت ہو تو اس سے قطع تعلق نہیں کیا جا سکتا۔ مسلمان اگر پسماندگی اور انتشار کا شکار ہیں تو یہ ہمارا مسئلہ ہے اسے ہم نے ہی حل کرنا ہے۔ اس سے پریشان ہو کر قومیت سے ہی انکاری ہو جانا کوئی بہادری کی علامت نہیں۔ ہم سب ایک نبی کے ماننے والے ہیں اور اس نبی کی نام پر ہی اکٹھے ہو سکتے ہیں اس کے علاوہ اور کوئی چیز ہمیں اکٹھے کرنے والی نہیں ہے۔
    اسلام قبائل کو محض تعارف کا سبب قرار دیتا ہے نہ کہ اس کی بنیاد پر قومیت الگ کرنے کا۔ جہاں تک موجودہ جدید ریاستوں کا تعلق ہے تو ان میں رہ کر بھی متحد رہا جا سکتا ہے۔ اس کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ یہ آج کے مسلمان کے لیے ایک چیلنج ہے۔ اگرچہ یہ منزل ایک طویل سفر کی متقاضی ہے مگر مقصود و مطلوب یہی ہے.
    یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
    اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی

  • مسجدوں اور اذانوں کا پاکستان – حامد کمال الدین

    مسجدوں اور اذانوں کا پاکستان – حامد کمال الدین

    حامد کمال پیش ازیں ہمارے شائع ہو چکے ایک مضمون ’’نیشنلزم اور انسان کے اندر کچھ طبعی جذبے‘‘ کے تسلسل میں۔
    ہمارے فقہاء بہت پہلے کہہ چکے، اصطلاحات میں کوئی تنگی نہیں۔ ایک ہی لفظ مختلف ادوار یا مختلف طبقوں میں مختلف معنیٰ دے، عین ممکن ہے اور اس میں چنداں مضائقہ نہیں۔ یہ بات بحث و جدل کا سبب نہیں بننی چاہیے۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ کہاں ایک لفظ کا کیا مطلب لیا جاتا ہے۔ اصرار کریں تو حقائق پر نہ کہ لفظوں اور پیرائیوں پر۔ [pullquote]العِبْرَہُ بالمَعَانِي، لَا بِالالفَاظِ وَالمَبَانِي.[/pullquote]
    ایک علمی گفتگو کی حد تک تو بالکل ایسا ہے۔ رہ گیا الفاظ کا عوامی استعمال تو اصطلاحات ایک پھسلن بھی ہو سکتی ہے، یعنی یہ اندیشہ کہ ایک دَور یا ایک طبقے میں مستعمل ایک لفظ کا مفہوم آپ کسی دوسرے دَور یا دوسرے طبقے میں مستعمل اُسی لفظ کے مفہوم کے ساتھ خلط کر جائیں۔ یہاں سے؛ کچھ فکری وارداتیں ہو جانے کا امکان رہتا ہے۔ لہٰذا اصطلاحات کے مسئلہ کو اتنا سادہ لینا بھی درست نہیں۔
    اب مثلاً ’’قوم‘‘ کا لفظ حدیث میں کیا اُسی معنیٰ کے اندر استعمال ہوا ہے جو ’’نیشن‘‘ کے تحت ہمارے سیاسی استعمال میں آج ہے؟
    [pullquote]قُلْتُ يَا رَسُولَ اللّہ امِنَ الْعَصَبِيَّۃ انْ يُحِبَّ الرَّجُلُ قَوْمَہ قَالَ لَا وَلَكِنْ مِنْ الْعَصَبِيَّۃ انْ يَنْصُرَ الرَّجُلُ قَوْمَہ عَلَى الظُّلْم [/pullquote]

    میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا یہ عصبیت شمار ہوگا کہ آدمی کو اپنی قوم سے محبت ہو؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ عصبیت شمار ہوگی یہ بات کہ آدمی اپنی قوم کا ظلم میں ساتھ دے‘‘۔’’

    یہاں ظاہر ہے قوم سے مراد پورے چار عناصر (آبادی، رقبہ، حکومت اور حاکمیتِ اعلیٰ) کے اجتماع سے سامنے آنے والی وہ ایک مخصوص انسانی وحدت نہیں جو ’’نیشن‘‘ کے زیرعنوان دورِحاضر میں معروف ہے، بلکہ ’’قوم‘‘ سے مراد یہاں وہی ہے جو آج سے ڈیڑھ دو صدی پہلے تک خاصے طبعی سے انداز میں آدمی کے ذہن میں آ جایا کرتی تھی۔ حدیث میں اس سے مراد اسی طرح کی اشیاء ہیں جیسے اُس زمانہ میں بنو تغلب، بنو بکر یا قحطان، ربیعہ اور مُضر وغیرہ۔ پس ضروری ہے کہ ’’قوم سے محبت‘‘ کا وہ حوالہ جو حدیث سے سمجھ آتا ہے، اپنے اُس طبعی معنیٰ پر رہے۔ اس کو فی زمانہ ’’نیشن‘‘ کا وہ مخصوص معنیٰ پہنانا جولفظ ’’قوم‘‘ کے اُس طبعی معنیٰ سے ہٹ کر ایک چیز ہے، درست نہ ہو گا۔ (اس نقطہ کو ذرا آگے چل کر ہم مزید کھولیں گے)۔ حدیث میں مذکورہ ’’قوم‘‘ سے مراد آدمی کی برادری یا ہم زبان یا ہم علاقہ لوگ رہیں گے۔ اب جہاں تک برادری، زبان یا علاقہ ایسی اشیاء کا تعلق ہے تو ان کو دیکھنے کا حوالہ بڑے قریب کا بھی ہو سکتا ہے اور خاصے دُور کا بھی۔ اپنی اپنی نسبت سے ایسا ہر دائرہ آدمی کی ’قوم‘ ہو گا۔ مثلاً ایک ہاشمی کےلیے قریش کے بقیہ خانوادوں کے مقابلے پر تو بنوہاشم ہی اس کی قوم ہوں گے لیکن کنانہ کے بقیہ گوتوں کے مقابلے پر پورا قریش اس کی قوم کہلائے گا۔ جبکہ عدنانی شاخوں کے مقابلے پر صرف قریش نہیں تمام کنانہ اور اس سے اوپر کی سطح پر تمام عدنان اس ’’ہاشمی‘‘ کی قوم ہو گا۔ علیٰ ھٰذالقیاس۔ (بڑے دائرے کے مقابلے پر چھوٹا دائرہ آدمی کی ’قوم‘ کہلائے گا)۔ یہ ہے حدیث میں آنے والے اِس لفظ کا مفہوم۔
    یہاں سے ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے، اور میں معذرت خواہ ہوں اگر کچھ لوگوں کے ’نیشنلسٹ‘ جذبات اس سے مجروح ہوں۔ وہ سوال یہ ہے کہ حدیث کا ذکر کردہ یہ طبعی ’محبت اور لگاؤ‘ جو آدمی کو اپنی ’قوم‘ سے ہو جاتا ہے، اس کا رخ اور ترتیب کیا ہے: آیا یہ لگاؤ ’وسیع‘ دائرہ سے جنم پا کر ’تنگ‘ کی طرف آئے گا یا ’تنگ‘ سے جنم پا کر ’وسیع‘ کی طرف جائے گا؟ دوسرے لفظوں میں، آدمی کی یہ ’طبعی محبت‘ اپنے قریب کے خونی رشتوں یا خاص اپنے محلے اور گاؤں کے لوگوں سے شروع ہو کر اپنے شہر اور اپنے صوبے وغیرہ سے ہوتی ہوئی اپنے ملک تک جائے گی؟ یا اپنے ملک سے شروع ہو کر اپنے صوبے اور اپنے شہر سے ہوتی ہوئی اپنے محلے اور گاؤں تک پہنچے گی؟ ظاہر ہے، محبت کا حوالہ اگر طبعی ہے (نظریاتی نہیں ہے) تو اس کا آغاز چھوٹے دائرہ سے ہو گا۔ یعنی سب سے پہلے آپ کو اپنا محلہ یا گاؤں پیارا ہوگا، پھر اپنا شہر، پھر اپنا صوبہ اور پھر اپنا ملک، پھر اس سے کوئی بڑا دائرہ (اگر ہو، جیسے مثلاً ’یورپی یونین‘ یا ’عرب لیگ‘ وغیرہ)۔ ’’طبعی محبت‘‘ کا رخ اس سے الٹ کبھی نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس طبعی محبت کے برعکس، ہم سب کے نزدیک یہ واجب اور ضروری ہے کہ لوگوں کو اپنے وسیع تر دائرہ ہی سے زیادہ محبت کی تاکید کرائی جائے۔
    دنیا میں پائے جانے والے تمام قومی و مِلّی فلسفے اس پر متفق ہیں کہ معاشرے میں ایک وسیع تر دائرہ کی محبت پر ایک تنگ تر دائرہ کی محبت کو قربان کر دینے ہی کی مسلسل تلقین کی جائے، اِسی سے انسان ’’بڑا‘‘ ہوتا ہے، باوجود اس حقیقت کے کہ ’’طبعی محبت‘‘ کا رخ اس سے برعکس ہے. بالفاظِ دیگر، کوئی محبت یہاں ضرور ایسی ہونی چاہیے جو آپ کی ’طبعی محبت‘ پر غالب ہو۔ اس کے بغیر انسانی اجتماعیتوں کا گزارا نہیں۔ نیز اس کے بغیر انسان کا خودغرضی سے چھٹکارا پانا متصور نہیں۔ خودغرضی یعنی خاص اپنی ذات یا اپنی جنس ہی کو بقیہ انسانوں پر ترجیح دینا۔ پس کوئی نہ کوئی دائرہ انسان کو ایسا رکھنا ہو گا جس پر اپنی ذات یا اپنی جنس کو ترجیح دینا اس کے حق میں عیب کہلائے اور وہ بار بار اس سے بلند ہو کر اپنے آپ کو ایک اعلیٰ مخلوق ثابت کرنے کی ’آزمائش‘ سے گزارا جائے۔ یہ ایک فارِق divider ہے جو اس کی ’’انسانیت‘‘ کو اس کی ’’حیوانیت‘‘ سے ممیّز کرتا ہے۔ وابستگی کے اِس بالا و برگزیدہ دائرہ کی گو اپنی ایک حد ہونی چاہیے، یہ بھی سبھی کا ماننا ہے۔ اس چیز کا نام ہماری تاریخی اصطلاح میں ’’ملت‘‘ ہے۔ انسان کی انسانیت کا ظہور کروانے کےلیے یہ ناگزیر ہے۔ سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ اِس خانہ کو اپنی حیاتِ اجتماعی میں آپ کس اعلیٰ چیز سے پُر کرتے ہیں؟ واضح رہے، اِس خانہ کو ختم کرنا آپ کے بس میں نہیں۔ اِس کو آپ نے پُر ہی کرنا ہے۔
    اب ایک بات تو یہ طے ہوئی کہ طبعی (جبلِّی) محبت بالکل اور چیز ہے جبکہ ہمارا اور ’جدید انسان‘ کا ما بہ النزاع ایک بالکل اور چیز۔ دوسرا، یہ طے ہوا کہ طبعی (جبلِّی) محبت کو قربان ہونا ہی ہونا ہے، اس سے مفر نہ ہم ’قدامت پسندوں‘ کو ہے اور نہ داعیانِ جدت کو۔ سوال بس یہ ہے کہ وہ محبت کیا ہو جس کا آدمی کی جبلِّی محبت پر غالب ہونا فرض رکھا جائے؟ وہ کیا حوالہ ہو جس پر آدمی کو اپنے خون، نسل، اقلیم اور زبان ایسے عزیز رشتے خوشی خوشی قربان کر دینے چاہییں، اور ا س کی دلیل کیا ہو؟ بھرنے کو تو میڈیا اور تعلیم آج جس چیز میں بھی رنگ بھر دے اور اسے ’یہی دستورِ دنیا ہے‘ (وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَلِكَ يَفْعَلُونَ) کا ایک ’ناقابلِ رد‘ سٹیٹس دلوا دے، یہاں تک کہ ایک ذہن سازی کے نتیجے میں پہلی و دوسری عالمی جنگ میں ہندوستانی ماؤں کے بچے تاجِ برطانیہ کی عظمت پر قربان ہونے کےلیے جاپان اور سنگاپور کی خاک چھاننے پہنچ جاتے ہیں، لیکن اس بات کی دلیل کیا ہو کہ کسی چیز کی عظمت پر لوگ اپنے طبعی رشتے اور وابستگیاں فخر سے وار دیا کریں؟
    ہم دیکھ آئے، لفظ ’’قوم‘‘ کا وہ جبلِّی مفہوم بالکل اور ہے جس میں اپنائیت اور لگاؤ کا حوالہ نیچے سے شروع ہو کر اوپر جاتا ہے، جبکہ اِسی لفظ کا یہ ’’نیشن‘‘ والا نظریاتی مفہوم جس میں اپنائیت اور لگاؤ کا حوالہ اوپر سے شروع ہو کر نیچے آتا ہے، بالکل اور ہے۔ بقیہ گفتگو میں اب ہم ان دونوں کو الگ الگ رکھیں گے۔ آسانیِ مبحث کی خاطر، پہلے کےلیے ہم بولتے ہیں: جبلِّی محبت، یا جبلِّی قوم جبکہ دوسرے کےلیے: نظریاتی محبت، یا نظریاتی قوم۔
    انسان کی زندگی میں ان دونوں چیزوں کی فی الحقیقت اپنی اپنی جگہ اور گنجائش ہے۔ حیاتِ اجتماعی کے اِن دو الگ الگ خانوں کو آپ نے الگ الگ ہی پُر کرنا ہوتا ہے۔ لفظ ’’قوم‘‘ کا ماڈرن استعمال ذرا دیر نظرانداز کر دیں تو انہی دو مفہومات کو الگ الگ ادا کرنے کےلیے ہمارے تاریخی استعمال میں دو لفظ رہے ہیں: ایک قوم، دوسرا ملت۔ قوم کا حوالہ جبلِّی اور ملت کا حوالہ نظریاتی۔ (’نظریاتی‘ یا ’نظریہ‘ کےلیے ہمارے ہاں ’عقیدہ‘ کا لفظ مستعمل رہا ہے)۔ حق یہ ہے کہ اِن دو لفظوں ’’قوم‘‘ اور ’’ملت‘‘ کو آج بھی آپ ان کے الگ الگ معانی میں استعمال کریں تو یہ اشکال ختم ہو جاتا ہے۔
    1) اول الذکر یعنی ’’قوم‘‘ آپ کو بہت عزیز ہوتی ہے، خود شریعت آپ کے اِس (طبعی و جبلِّی) جذبے کا بھرپور لحاظ کرتی ہے۔ بس اس کےلیے قید اتنی سی رکھتی ہے کہ اس کی محبت میں بہہ کر آپ دوسرے پر ظلم کرنے تک نہ چلے جائیں۔ خود اپنی قوم کو آپ حق اور انصاف کے اصولوں کا پابند رکھنے کا مکلَّف رہتے ہیں۔ مگر یہ (جبلِّی معنیٰ کی) ’’قوم‘‘ ایک لحاظ سے انسان کے حیوانی خصائص میں آتی ہے۔ یعنی اپنی جنس سے آدمی کا ایک تعلق اور اس کے مقابلے پر دوسری اجناس سے اس کا ایک بُعد، خودبخود، طبعی طور پر۔ یہ بھی ایک درجہ میں انسان کی ضرورت یقیناً ہے۔ جس طرح اپنے نفس کی محبت انسان میں سب سے زیادہ رکھی گئی ہے کیونکہ اسی سے زندگی کو تمام تر مہمیز ملتی ہے، اسی طرح اپنی اپنی جنس کے ساتھ لگاؤ انسانی زندگی کو ایک رنگا رنگ سرگرمی عطا کرتا ہے۔
    2) البتہ ’’ملت‘‘ اس کے مقابلے پر انسان کے خالص انسانی خصائص میں سے ہے۔ عقل و شعور ملا ہونے کے باعث انسان کو دراصل ’’اجتماع‘‘ اور ’’تعاونِ باہمی‘‘ کا ایک اعلیٰ تر تصور بھی عطا ہوا ہے۔ ایسے ایک ’’اجتماع‘‘ اور ’’تعاون‘‘ کا حوالہ انسان کے ’’نظریات‘‘ اور ’’مقاصد‘‘ ہوتے ہیں۔ اس کی بنیاد پر ’’ملتیں‘‘ وجود میں آتی ہیں۔ جس قسم کے ’’نظریات‘‘ اور ’’مقاصد‘‘ انسان کی اختیارکردہ ’’اجتماعیت‘‘ میں کارفرما ہوں گے اسی درجہ کی ’’ملت‘‘ پر وہ پایا جائے گا۔ چونکہ لازم ہے کہ انسان کے انسانی خصائص اس کے بہیمی خصائص پر حاوی ہو کر رہیں، اس لیے واجب ہوا کہ انسان کی ’’ملت‘‘ اس کی ’’قوم‘‘ پر مقدم ہو۔ اصولاً اس پر نہ اہل مشرق کو اعتراض ہے نہ اہل مغرب کو۔ قدیم انسان کو اور نہ جدید انسان کو۔ فرق صرف یہاں سے آتا ہے کہ ’’ملت‘‘ کا خانہ آپ کس چیز سے پُر کرتے ہیں۔
    ایک خلط ہمارے ہاں پیدا ہوتا ہے جب ہم ’’نیشن‘‘ کا مطلب ایک روایتی (و جبلِّی) معنیٰ کی ’’قوم‘‘ کر دیتے ہیں۔ حالانکہ ہماری روایتی لغت میں ’’نیشن‘‘ کا معنیٰ ادا کرنے کےلیے ایک اور لفظ قدرے مناسب تر پایا گیا ہے اور وہ ہے ’’ملت‘‘۔ اس ’’ملت‘‘ کی بنیاد آج ’’ریاست‘‘ ہے تو وہ اس لیے کہ ’’ریاست‘‘ اِس جدید انسان کا دین ہے نہ کہ محض ایک انتظامی اکائی۔ یہ ’’ریاست‘‘ چرچ کو انسان کی زندگی میں مرکزی ترین حیثیت رکھنے کے اُس پرانے منصب سے معزول کر کے اور ’’چرچ‘‘ کی جگہ یہاں پر خود کو رونق افروز کروا کر سامنے آئی ہے۔ اب ’’ریاست‘‘ محض کسی حکومتی انتظامِ کار کا نام نہیں؛ اب یہ انسان کی نظریاتی وفاداری اور جہان میں اس کا باقاعدہ تشخص ہے۔ یوں ’’ملت‘‘ اب بھی انسان کے قوم، قبیلہ، رنگ اور نسل وغیرہ ایسی جبلِّی اشیاء پر غالب رہی۔ فرق یہ آیا کہ ’’ملت‘‘ اپنے وجود کےلیے اب ’’چرچ‘‘ نہیں بلکہ ’’ریاست‘‘ سے رجوع کرنے لگی ہے۔ غرض جدید انسان کا دین بدلا، خدا بدلا، تو کیسے ہو سکتا تھا کہ اس کی ملت نہ بدلتی؟ اِس کا خدا چونکہ دھرتی پر ہی آ بیٹھا ہے اور اِس کا دین اِس دھرتی والے خدا ہی کو زیادہ سے زیادہ آسودہ کرنا، لہٰذا اِس کی ’’ملت‘‘ بھی اِسی دھرتی سے وابستہ ٹھہری۔ پس ملت بدل گئی، یہ درست ہے۔ ملت کا حوالہ اب آسمان نہیں رہا بلکہ دھرتی ہو گئی، یہ سچ ہے۔ لیکن ملت انسان کی جبلِّی وابستگیوں پر غالب رہے گی، یہ چیز ویسے کی ویسے برقرار ہے۔ اور یہ چیز کبھی نہیں بدلے گی۔ انسان کی نظریاتی وابستگی اس کے ہر رشتے اور تعلق پر بالاتر رہے گی، یہ بات کل بھی سچ تھی اور آج بھی سچ ہے۔ ’’معاشرے‘‘ نام کی چیز اس کے بغیر پائی ہی نہیں جا سکتی؛ کیونکہ ’’معاشرہ‘‘ خالصتاً ایک انسانی عمل ہے اور ’ریوڑ‘ سے خاصی منفرد ایک چیز۔
    عالم اسلام میں آئیں تو سب کشمکش آج اس پر ہے، اور ہوگی، کہ ہم اپنی اُسی ملت پر اصرار کریں جو چودہ سو سال سے ہماری نظریاتی تشکیل کرتی آئی؛ اور اُن کے دیے ہوئے اِس نئے تصورِ ملت کو اپنے لیے قبول نہ کریں۔ ’اپنی ملت کو قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کرنے‘ کا اپنا وہ کھلم کھلا اعلان نہ صرف برقرار رکھیں بلکہ اس کے عملی اطلاقات کی طرف پورے اعتماد، جرأت، اور بےپروائی سے بڑھیں اور اسی کی بنیاد پر یہاں اپنی اجتماعی زندگی کی بلند و بالا تعمیرات اٹھائیں، خواہ اسلام کی اِس (مِلّی) حیثیت کو ناپید کروانے کے خواہشمند جہان میں ہماری اس سرگرمی کو کتنا ہی ناپسند کریں. ہاں یہ ایک بڑا میدانِ جنگ ہے جو دو نظریوں کے مابین ابھی مزید سجے گا، عالمی طور پر بھی اور کسی حد تک مقامی طور پر بھی۔ بقیہ مضمون میں اب ہم اس پر کچھ بات کریں گے۔
    لوگوں کا خیال ہے کہ ’’نیشن‘‘ (ملت) کےلیے صحیح حوالہ تجویز کرنے پر دنیائے اسلام نے اتباعِ مغرب کا طوق برضا و رغبت پہن لیا ہے، اور یہ کہ عالمِ اسلام میں یہ معاملہ حتمی طور پر سرے لگ چکا مگر یہ ان کی خام خیالی ہے۔ ایک بڑی خلقت یہاں اپنے ملک سے محبت کرتی ہے۔ بہ برحق ہے۔ اپنی سب جبلِّی وابستگیوں (مانند قوم، نسل، زبان اور اقلیم وغیرہ) کو اس ملک پر ہم ہزار بار قربان کرتے ہیں، بلکہ جتنا ہم اپنے ملک کو چاہتے ہیں اتنا کوئی قوم اپنے ملک کو چاہ ہی نہیں سکتی، کیونکہ اُن کی چاہت کا کُل حوالہ یہی دنیا کی فانی محبتیں ہیں جبکہ ہماری محبت کا حوالہ اِس دنیاو ما فیہا سے بڑا۔ (ایک ایسی چیز جو خدا و آخرت پر ایمان نہ رکھنے والی قوم کو کبھی عطا نہیں ہو سکتی)۔ مگر یہ خلقتِ حق اپنےاِس لازوال رشتے کو جو نام اور حوالہ دیتی ہے وہ بھی قابل غور ہے۔ یہ ان تمام حوالوں سے منفرد ہے جو مغرب کی چربہ قوموں کے ہاں چلتا ہے، اور یہ ہے لاالٰہ الا اللہ۔
    بےشک آپ چند (لبرل) لوگ اس لڑی کو جو پٹھان، پنجابی، سندھی اور بلوچی کو ایک وحدت میں پروتی ہے، کوئی بھی حوالہ دیں، حتیٰ کہ اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ اِس ملک کو بناتے وقت چند لوگوں کا حوالہ لا الٰہ الا اللہ کے ماسوا کوئی چیز رہا تھا، اور بےشک وہ چند لوگ یہاں ڈھیروں اختیارات کے مالک بھی چلے آئے ہوں یہاں تک کہ تعلیم و ابلاغ کی بہت سی تاریں آج بھی انہی کی ہلائی ہلتی ہوں. اس کے باوجود ایک خلقتِ عظیم اِس ملک کو بنانے سے لے کر آج تک اس کی روح لاالٰہ الا اللہ میں دیکھتی ہے۔ یہاں کے ایک فرد کو دوسرے سے اور یہاں کی ایک نسلی یا لسانی یا اقلیمی اکائی کو دوسری سے جوڑنے کا حوالہ وہ لا الٰہ الا اللہ کے سوا کسی چیز میں نہیں پاتی۔ اور اسی لاالٰہ الا اللہ پر ان کے اعتقاد کو پختہ کرانے میں اس لڑی کے پختہ سے پختہ تر ہونے کا راز چھپا ہے۔ یہاں کی مختلف اجناس کو ایک ’’نیشن‘‘ ٹھہرا دینے والی چیز اس خلقت کی نظر میں سوائے اِن کے دین کے کچھ نہیں ہے۔ خود یہ دین اِن کو ایک ہونے اور ایک رہنے کا حکم دیتا ہے اور اِن کا ٹکڑیوں میں بٹا ہونے کو اِن پر شیطان کا وار چل جانے سے تعبیر کرتا ہے۔ پس یہاں کی رنگارنگ اجناس کی اِس باہمی محبت، مودت اور وابستگی کا حوالہ یہاں بدستور ’’خدا اور رسولؐ‘‘ رہتا ہے اور یہی اِس قوم کو متحد اور اٹوٹ اکائی بنا رکھنے والے عناصر میں مضبوط ترین۔ اِس کے سوا بہت کچھ ہو گا مگر سب اِس ایک حوالہ کے بعد اور اِس کے تابع۔
    ’جدید انسان‘ کے نقطۂ نگاہ سے ظاہر ہے یہ ایک بڑا خلطِ مبحث ہے، بلکہ تڑپ اٹھنے کی بات! اس کے نزدیک ’’نیشن‘‘ نام ہے ایک ایسی انسانی اجتماعی اکائی کا جو اپنا کوئی حوالہ ’مذہب‘ سے تو بالکل نہ لے (جبکہ ’نسل‘، ’لسان‘ اور ’اقلیم‘ سے وہ پہلے ہی نہیں لے سکتی، کیونکہ ’’نیشن‘‘ اس کی نظر میں ان وابستگیوں سے بلند تر ایک چیز ہے، جیساکہ پیچھے گزر چکا۔ پھر وہ اپنا حوالہ کس چیز سے لے؟ ’مادی مفادات کا حصول ممکن بنا رکھنے والی ایک جداگانہ اکائی‘ کے سوا اس کا کیا جواب ہو سکتا ہے؟ کہ جس کی محبت اور اپنائیت ownership میں ہندو، مسلمان، پارسی، عیسائی، سکھ، یہودی اور ملحد یکساں رہیں اور یہاں اپنی تعداد و نفوذ سے قطعی بےلحاظ، خالص قومی جذبے و اجتماعی اسپرٹ سے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے قدم سے قدم ملا دل سے دل جوڑ چلتے جائیں اور ایک دوسرے پر فدا ہونے کی اعلیٰ سے اعلیٰ داستانیں رقم کریں)۔ یعنی ایک چیز کےلیے ان کو جینا اور مرنا تو ہے، اور جہان میں اسی کو اپنا اجتماعی وجود اور تشخص بھی ٹھہرانا ہے، لیکن اس کا کوئی تعلق ہرگز ہرگز آسمان سے نہیں جوڑنا (نیز کسی جبلِّی رشتے سے بھی نہیں جوڑنا، جوکہ اِس ماڈرن نیشنلزم کی تشخیص میں نہایت نوٹ کرنے کی چیز ہے، اور جس پر کچھ گفتگو پیچھے ہو چکی)۔
    یہ جتھہ بندی جدید انسان (اور خود ہمارے اسلامی جدت پسند) کے نزدیک فرض تو ہے اور اس پر اپنی ذات، برادری، نسل، لسان اور علاقے سمیت اپنے عزیز سے عزیز رشتے کو قربان کر دینا یہاں بسنے والے انسانوں پر واجب (بلکہ اَوجبُ الواجبات)۔ لیکن ایسی کسی الفت اور یگانگت کا قوی ترین حوالہ خدا اور رسولؐ کو مانا گیا ہو اور اس ’’پاکستان‘‘ کا مطلب کیا لاالٰہ الااللہ کا وِرد ان کے یہاں تھمنے کا نام نہ لیتا ہو؟ یہ اگر کسی بات کی دلیل ہے تو وہ یہ کہ ’عجم ہنوز نہ داند رموزِ نیشنلزم‘! اتنا پڑھا سکھا لینا گویا اِس قوم پر بےاثر ہی رہا، یہ برابر اپنے اجتماعی رشتوں میں ’دھرتی‘ اور ’مادہ‘ کے ماسوا حوالے گھسیٹ لاتی ہے (جنہیں یہ ’دھرتی‘ اور ’مادہ‘ پر مقدم جاننے کا پاپ بھی کثرت سے کرتی ہے۔ یوں عالمی معیاروں کے ساتھ ساتھ یہاں کے اسلامی جدت پسندوں کےلیے باعثِ آزار چلی آتی ہے)! اِس کو اتنا پڑھا سکھا لیا کہ ’’خدا اور رسولؐ‘‘ کو یہ اپنے اِس ’مقدس‘ رشتے سے یکسر باہر کر دے اور محض ایک مادی دائرے کو ہی اپنی اجتماعی زندگی کی کُل کائنات جانے اور اسی پر فدا ہو ہو کر بےحال ہو… مگر یہ ’’خدا اور رسولؐ‘‘ کو چھوڑ کر ’ملت‘ میں گم ہونے پر آتی ہی نہیں! ’’خدا اور رسولؐ‘‘ کو اپنی اجتماعی زندگی میں ایک نہایت ’پرائیویٹ مسئلہ‘ ٹھہرا دینے پر یہ ابھی تک آمادہ نہیں! اندازہ کر لیجئے، دو سو سال کی شبانہ روز تعلیم، اور تاحال یہ پسماندگی اور ہٹ دھرمی! کتنا اور پڑھایا جائے اِس کو اور کس دن کی آس رکھی جائے!
    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جدید انسان ’’نیشن‘‘ والے اِس مسئلہ پر کوئی حوالہ ’مذہب‘ سے نہ لینے میں کم از کم کسی تضاد کا شکار نہیں ہے۔ البتہ ہمارا اسلامی جدت پسند ’’نیشن‘‘ کے اِس تصور پر جسے مذہب سے کوئی حوالہ نہیں لینا، احادیث میں وارد ’’الجماعۃ‘‘ کا اطلاق کرنا نہیں بھولتا!
    غرض پاکستان سے محبت میں ایک کثیر خلقت یہاں جو بنیاد رکھتی ہے وہ اپنی نہاد میں ملت کے اُس تصور پر کھڑی ہے جو اِس کے دین اور اِس کی تاریخ سے چلا آتا ہے اور جوکہ مغرب کے دیے ہوئے اصولِ اجتماع کے ساتھ ایک جوہری تصادم رکھتا ہے۔ ہاں اس بات سے ہمیں انکار نہیں کہ مناسب اسلامی تعلیم نہ ہونے کے باعث، نیز خارجی تعلیمی اثرات کے تحت، اِس معاملہ کی تفصیلات میں یہ اپنی اشیاء کو مغرب کی اشیاء کے ساتھ کہیں کہیں گڈمڈ بھی کر بیٹھی ہے۔ نتیجتاً اسلام اور نیشنلزم کا کچھ خلط بعض نیک طبقوں کے یہاں نظر آ جانا مستبعَد نہیں۔ مگر یہ کچھ جزئیات یا تعبیرات کی حد تک ہو سکتا ہے۔ بنیاد خاصی سلامت ہے۔ یہاں کا کوئی بھی نمازی اللہ کا شکر ہے ایسا نہیں جو نری دھرتی پر مرتا ہو۔ وہ اِن وادیوں اور کہساروں کو اور اِن دریاؤں سے سیراب ہونے والے کھیتوں اور کھلیانوں کو پہلے اپنی نماز اور سجدہ گاہ سے جوڑتا ہےاور یہاں گونجتی اذانوں اور بلند ہوتی تکبیرات پر فدا ہوتا ہے اور پھر اِس ’’اسلام کے دیس‘‘ کو ہر میلی آنکھ سے تحفظ دلانے کے لیے بےچین ہوتا اور اس مقصد کی خاطر اپنا جان مال اور جگرگوشے پیش کر دینے نیز اِس کی تعمیر و ترقی کےلیے سرگرم ہونے کو اپنے حق میں باعثِ سعادت جانتا ہے۔ بتائیے اس میں نیشنلزم کہاں ہے؟ کچھ مسائل آئے ہوں گے تفصیلات یا تطبیقات میں۔ ان اشیاء کی تنقیح اب جتنی بھی ضروری ہو، مگر میرے نزدیک یہ وقت ہے کہ اُس اصولی بنیاد ہی کو پختہ کرایا جائےجو دو سو سال کا ’تعلیمی تیزاب‘ سہہ لینے کے بعد بھی اذہان سے محو نہ ہو سکی (گو ایک حد تک متاثر ہوئی ہے) مگر اب تو اِس پر کلہاڑے برسائے جانے لگے ہیں۔ خصوصاً جبکہ تفصیلات میں ایک بڑا دائرہ فقہی آراء کا بھی رہے گا جن میں عام خلقت کو الجھانا درست ہی نہیں ہے۔ بلکہ اس دائرہ میں تو فی الحال جس بھی علمی گروہ کی راہنمائی اِس قوم کو میسر ہو، عوامی سطح پر اسی پر اکتفاء کروانا چاہئے خواہ آپ کی اپنی رائے اس سے کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہو۔ ہاں وقت گزرنے کے ساتھ اس میں بھی پختگی اور بہتری لائی جا سکتی ہے؛ جس کےلیے علمی رویوں کو پروان چڑھانا اور صبر و حوصلہ سےکام لینا ہو گا۔ داعیوں کی اصل توجہ فی الوقت جس چیز پر مرکوز ہونی چاہیے، وہ ہے اصولِ اجتماع میں مغرب کی دی ہوئی بنیادوں کا اِبطال اور اسلام کی دی ہوئی بنیادوں کا اِحیاء۔ نیز ان رجحانات کی حوصلہ شکنی جو اِن دو متضاد عقیدوں کو گانٹھنے اور ایک بنا کر پیش کرنے میں مصروف ہیں ۔
    رہی اس کی تفصیلات تو ان کے بہت سے ایریاز areas ایسے رہیں گے جن میں جانا یا تو اِس وقت ہماری ضرورت نہیں، یا ہماری انتہائی محدود توانائی ان بحثوں کی متحمل نہیں، یا پھر وہ فقہی آراء کا محل ہے جس میں قبولِ اختلاف ہمارا پرانا دستور چلا آتا ہے۔ پس تفصیلات میں بھی انہی ایریاز areas تک رہنا ہو گا جو اِس حالتِ اژدہام کو ختم کرانے اور لوگوں کو ایک بڑی شاہراہ پر چڑھا لانے کےلیے فی الوقت ناگزیر ہیں اور جن میں ہماری ابلاغی محنت عوام کو دلجمعی اور یکسوئی دے نہ کہ پہلے سے بڑھ کر الجھنیں اور بحثیں۔ دینی طبقے کی چونچیں آپس میں الجھتی دیکھنے سے بڑھ کر کوئی چیز اس وقت لبرل کو خوش کرنے والی نہیں۔ کلیرٹی clarity اِس موقع پر ہمارا بہت بڑا ہتھیار ہو گا۔ عملاً یہ اسی صورت ممکن ہے کہ دعوت کو اندریں حالات اصولی اشیاء پر ہی زیادہ سے زیادہ فوکس رکھوایا جائے، خواہ نصابیات کے شائقین یا یہاں کے جذباتی طبقے ہماری اِس سٹرٹیجی سے کتنی ہی بےچینی و عدم تشفی محسوس کریں۔ ہمیں ایک جنگ درپیش ہے، جس میں سبھی طبقوں کو اینٹرٹین entertain کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایک مغربی مفکر کا کہنا ’ابھی میں صرف جنگ کروں گا، اس امکان کو پیدا کرانے کےلیے کہ کل میرا بیٹا یونیورسٹی میں پڑھے‘۔
    ہمارا کُل سامنا encounter یہاں کے لبرل بیانیہ سے ہے۔ تاہم دو ’مذہبی‘ رجحانات ایسے ہیں جو ہمارے اسلامی مواقف کو یا تو تفریط اور یا پھر اِفراط کی جانب دھکیل دیتے ہیں۔ یوں عملاً ہمارا راستہ بند کر دیتے اور نادانستہ ہمارے مدمقابل کا راستہ وسیع اور آسان کر دیتے ہیں:
    1) پہلا گروہ ہمیں آگے بڑھانا چاہتا ہے مگر مغرب کے راستے میں۔ یہ ہمارے ریاست کےلیے ’اسلامی‘ کا لفظ ہی بول دینے پر چیخ اٹھتا اور یہاں کی قراردادِ مقاصد تک کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہے۔ نیشن اور اجتماع کے تصور کو دین سے برآمد کرنے پر ہی بنیاد سے معترض ہے۔ (حق تو یہ ہے کہ اعتراضات کے معاملہ میں یہ طبقہ ہمارے دورِسلف و صحابہؓ تک پیچھے جاتا اور پورے دین کی ایک نئی تعبیر دینے کےلیے کوشاں ہے)۔ سقوطِ بنگال کو یہاں پائے جانے والے دو قومی نظریے کے بطلان پر ایک قوی دلیل یا اس کی ناکامی و بےبسی پر ایک حوصلہ شکن مثال کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اصولِ اجتماع کے موضوع پر اس کے کھڑے کیے ہوئے کچھ اشکالات ، جو تاحال ہمارے زیربحث نہیں آئے، ان پر ابھی ہمیں کچھ بات کرنی ہے۔
    2) دوسری جانب ایک گروہ ’خلافت‘ وغیرہ کے زیرعنوان ہمیں کچھ ایسے راستوں پر چلانے میں دلچسپی رکھتا ہے جو دنیا میں کہیں موجود ہی نہیں ہیں اور ایک غیر معینہ مدت تک ان کا نشان ملنا بھی مشکل ہے۔ خلافت سر آنکھوں پر۔ لیکن پچھلے کئی عشروں پر محیط بند کمروں کی محنت سے اس طبقہ نے یہ موضوع کچھ ایسا الجھا دیا ہے کہ ہمارے مخلص و باصلاحیت نوجوانوں کی بڑی تعداد ایک حسین یوٹوپیا میں بسنے لگی ہے۔ یہ طبقہ ’’امکان‘‘ اور ’’مثالیت‘‘ کو بری طرح خلط کرتا ہے۔ جب بھی ہم یہاں کے پنجابی، بلوچی، سندھی اور پختونی کے رشتے کو خالص اسلام اور لاالٰہ الا اللہ پر کھڑا کرنے کی بات کرتے ہیں، اور جوکہ اندریں حالات ہمارے لیے امکان کا ایک حقیقی دائرہ اور محنت کا ایک باقاعدہ میدان فراہم کرتا ہے، یہ نیک طبقہ فوراً معترض ہوتا ہے کہ مراکش کا صوبہ طنجہ اور فلپائن کا جزیرہ منڈاناؤ ساتھ کیوں نہیں! اس کے خیال میں ان ناممکنات اور ممکنات کا اکٹھا ذکر نہ کرنا ہی ’’نیشنلزم‘‘ ہے! یہی نہیں بلکہ اس کی اٹھائی ہوئی الجھنوں نے ہمارے مدمقابل فریق کو ہمارے کیس پر طعن کے کچھ تُند و تیز فقرے بھی عطا کر دیے ہیں۔ چنانچہ جب بھی ہم پنجابی اور بلوچی کے مابین رشتۂ لا الٰہ الا اللہ کی بات کرتے ہیں یہاں کا لبرل بھی ہمیں یہاں سے نکال کر ’مراکش‘ اور ’انڈونیشیا‘ کی طرف بھیج دینے کی کوشش کرتا ہے۔
    پہلا رجحان تفریط تو دوسرا اِفراط۔ اپنے اِن دونوں قابل احترام طبقوں کے ساتھ بھی اِس موقع پر ہمارا کوئی بحث کرنا نہیں بنتا۔ بس جس حد تک یہ دونوں ہمارے فریقِ مقابل کا راستہ آسان کرتے ہیں اس حد تک اِن کا رد کرنا ہماری مجبوری ہے۔ اِن دونوں رجحانات پر الگ الگ مضمون میں ہم کچھ بات کریں گے۔ ان شاء اللہ

  • نیشنلزم اور انسان کے اندر کچھ طبعی جذبے – حامد کمال الدین

    نیشنلزم اور انسان کے اندر کچھ طبعی جذبے – حامد کمال الدین

    حامد کمال تھوڑی حیرت آپ کو یہ دیکھ کر ہوتی ہے کہ متقدمین اہل علم کے ہاں یہ موضوعات آداب و اخلاق کی ذیل میں بیان ہوتے ہیں! اس بات کی اپنی ایک معنویت ہے، جس پر ہم تھوڑا آگے چل کر بات کریں گے۔ ابن تیمیہ ؒ کے ایک نامور شاگرد، اپنے وقت کے ایک عظیم حنبلی عالم، ابن مفلح مقدسی ؒ اخلاق اور تعمیرِسیرت پر اپنی مایہ ناز تالیف ’’الآداب الشرعیۃ والمنح المرعیۃ‘‘ میں لکھتے ہیں:
    [pullquote]وَقَالَ أَبُو دَاوُد (بَابٌ فِي الْعَصَبِيَّةِ) ثُمَّ رَوَى بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ إلَى سِمَاكٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ أَبِيهِ مَوْقُوفًا وَمَرْفُوعًا قَالَ: «مَنْ نَصَرَ قَوْمَهُ عَلَى غَيْرِ الْحَقِّ فَهُوَ كَالْبَعِيرِ الَّذِي رَدِيَ فَهُوَ ينْزعُ بِذَنَبِهِ» وَعَنْ بِنْتِ وَاثِلَةَ سَمِعَتْ أَبَاهَا يَقُولُ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْعَصَبِيَّةُ قَالَ «أَنْ تُعِينَ قَوْمَكَ عَلَى الظُّلْمِ» حَدِيثٌ حُسْنَ رَوَاهُ أَبُو دَاوُد.
    وَلِأَحْمَدَ وَابْنِ مَاجَهْ «قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمِنَ الْعَصَبِيَّةِ أَنْ يُحِبَّ الرَّجُلُ قَوْمَهُ قَالَ لَا وَلَكِنْ مِنْ الْعَصَبِيَّةِ أَنْ يَنْصُرَ الرَّجُلُ قَوْمَهُ عَلَى الظُّلْمِ». وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ مَرْفُوعًا «لَيْسَ مِنَّا مَنْ دَعَا إلَى عَصَبِيَّةٍ، وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ قَاتَلَ عَصَبِيَّةً، وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ مَاتَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ».
    … … …
    وَلِمُسْلِمٍ مِنْ حَدِيثِ جُنْدُبٍ «مَنْ قُتِلَ تَحْتَ رَايَةٍ عِمِّيَّةٍ يَدْعُو عَصَبِيَّةً أَوْ يَنْصُرُ عَصَبِيَّةً فَقِتْلَتُهُ جَاھلِيَّۃ» . قَالَ صَالِحُ بْنُ أَحْمَدَ فِي مَسَائِلِهِ عَنْ أَبِيهِ: وَسَأَلْتُهُ عَنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ «إيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فَإِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ الْغُلُوُّ» قَالَ أَبِي: لَا تَغْلُو فِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى الْحُبُّ وَالْبُغْضُ قَالَ أَبُو دَاوُد (بَابٌ فِي الْھوَى) حَدَّثَنَا حيوة بْنُ شُرَيْحٍ ثنا بَقِيَّةُ عَنْ ابْنِ أَبِي مَرْيَمَ عَنْ خَالِدِ بْنِ مُحَمَّدٍ الثَّقَفِيِّ عَنْ بِلَالِ بْنِ أَبِي الدَّرْدَاءِ عَنْ النَّبِيِّ قَالَ: «حُبُّكَ لِلشَّيْءِ يُعْمِي وَيُصِمُّ». (ابن مفلح: الآداب الشرعية والمنح المرعية. 1: 52)[/pullquote]
    ابو دائود ؒ باب باندھتے ہیں: ’’عصبیت کا بیان‘‘۔ پھر ایک اچھی سند سے روایت لاتے ہیں جو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے موقوف بھی مروی ہے اور مرفوع بھی، فرمایا: ’’جو شخص اپنی قوم کا ناحق ساتھ دے تو وہ ایسے اونٹ کی طرح ہے جو کسی گڑھے میں جا گرا اور اسے دُم سے کھینچ کر نکالا جا رہا ہو‘‘۔ فسیلہ ؒ اپنے والد حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے روایت کرتی ہیں، کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! عصبیت کیا ہے؟ فرمایا: ’’یہ کہ تم اپنی قوم کا ساتھ دو، ظلم و ناانصافی کے معاملہ میں‘‘۔ یہ حدیث حسن ہے بروایت ابو داود۔
    مسند احمد اور سنن ابن ماجہ کی روایت ہے (حضرت واثلہ بن الاسقع سے): میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! کیا یہ عصبیت شمار ہو گا کہ آدمی اپنی قوم سے محبت لگاؤ رکھے؟ فرمایا: نہیں، عصبیت میں تو (صرف) یہ چیز آتی ہے کہ آدمی اپنی قوم کا ظلم و ناانصافی کے اندر ساتھ دینے لگے۔ جبیر بن مطعم سے مرفوع روایت ہے: ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی جے بلائے۔ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کےلیے لڑے۔ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر مرے‘‘۔
    مسلم میں حضرت جندبؓ سے حدیث مروی ہے، فرمایا: ’’جو شخص کسی اندھیارے پرچم تلے لڑا، عصبیت کی جے بولا یا عصبیت کی نصرت کرتا رہا تو اس کا مارا جانا جاہلیت کا مارا جانا ہے۔ امام احمد کے بیٹے صالح امام صاحب سے اپنے دریافت کردہ مسائل میں ذکر کرتے ہیں کہ میں نے امام سے حضرت ابن عباسؓ کی اس حدیث کی بابت دریافت کیا کہ: ’’خبردار غلو نہ کرنا؛ کیونکہ تم سے پہلوں کو اسی غلو نے مروایا تھا‘‘۔ اس پر میرے والد (امام احمد) نے وضاحت فرمائی: کسی بھی چیز میں غلو مت کرو حتی کہ محبت اور بغض میں بھی۔ ابوداوٗد نے باب باندھا: ’’چاہت اور لو لگانے کا بیان‘‘۔ اس میں وہ بلال بن ابی الدرداءؓ سے نبیﷺ کی حدیث لائے، فرمایا: ’’تمہارا ایک چیز سے محبت کرنا تمہیں اندھا اور بہرا بنا سکتا ہے‘‘۔
    ابن مفلحؒ کی نقل کردہ ان روایات سے آپ کو اندازہ ہو سکتا ہے، یہ معاملات عقیدہ و نظریہ کے ساتھ ساتھ آداب و اخلاق سے کیونکر جُڑے ہیں۔ ایک اعلیٰ اور متوازن شخصیت پیدا کرنا جو حقیقت میں انسان کے شایاں ہو، شرائع کا مرکزی ترین مضمون ہے۔ جس طرح یہ روا نہیں کہ یہ اشرف المخلوقات ایک اللہ کے سوا کسی ہستی کے آگے اپنا ماتھا جھکائے یا کسی کے در پر ہاتھ پھیلائے، یعنی سجدہ اور دعاء وغیرہ۔ اسی طرح خدائی تخلیق کے اِس شاہکار کےلیے یہ بھی روا نہیں کہ ایک اللہ کے سوا یہ کسی کی عظمت پر مرے۔ کسی کی بڑائی کی جے بولے۔ اور کسی کےلیے غیرمشروط طور پر جذبات میں آئے۔ یا اپنی اجتماعیت کا مطلق اور بالاترین حوالہ خدا اور اس کے پیغمبروں اور اس کی شریعت اور زمین پر انسان کو خدا کی جانب سے سونپے ہوئے کچھ برگزیدہ مقاصد کے سوا کسی چیز کو مانے۔ ایسا کر کے یہ انسان اپنی اُس اعلیٰ حیثیت سے جس پر خدا اِسے دیکھنا چاہتا ہے، نیچے آ جاتا ہے۔ وہ شریعت جو اونچی ڈکار لینے یا ہاتھ منہ پر رکھے بغیر جمائی لینے کو اِس اعلیٰ مخلوق کے حق میں ناپسندیدہ جانتی ہے، یہاں تک کہ اِس کو متنبہ کرتی ہے کہ (جمائی کےلیے) اِس کا منہ کھلا دیکھ کر دشمنِ خدا کو اس پر ہنسائی کا موقع ملتا ہے، کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ شریعت نظریاتی یا سماجی حوالوں سے اشرف المخلوقات کو کسی ایسی حالت پر رہنے دے جو اِس کی عظمت کے منافی ہو؟ کنبے، قبیلے، برادریاں، قومیں، زبانیں، جغرافیے، معاشی مفادات انسان کی زندگی کا حصہ ضرور ہیں لیکن یہ اس کو اپنا بندہ نہیں بنا سکتے۔ بندہ یہ خدا کا ہے، اپنی انفرادی حیثیت میں بھی اور اپنی اجتماعی حیثیت میں بھی۔ دھرتی اِس کےلیے پیدا کی گئی، یہ البتہ فدا ہوگا تو آسمان والے کی محبت پر جو اِن سب نعمتوں کا مالک ہے، یا خود اُس کی جانب سے تفویض کیے ہوئے کسی اعلیٰ و اَرفع مقصد پر۔
    عربی میں ایک تعبیر چلتی ہے: عقلية القطیع۔ یعنی ریوڑ والی ذہنیت۔ بھیڑچال۔ باپ دادا کی پیروی۔ قبیلہ و برادری کے پیچھے جانا اور ہر حال میں اس کے ساتھ کھڑے ہونا، بےپروا اس سے کہ خدائی میزان میں کہاں تک کوئی حق پر ہے؟ ٹوٹنے اور جڑنے کےلیے مطلق حوالہ ’میں‘ اور ’میرے لوگ‘۔ اُدھر ’وہ‘ اور ’اُس کے لوگ‘۔ اِس کو اپنی قوم کےلیے جینا اور مرنا ہے اور اُس کو اپنی قوم کےلیے جینا اور مرنا ہے! یہ اگر اُدھر پیدا ہوا ہوتا تو اِسی جذبے اور ولولے کے ساتھ اُدھر سے اِس کے ساتھ لڑنے کےلیے آتا! اور وہ اگر اِدھر پیدا ہوا ہوتا تو اِسی جوش اور حمیت کے ساتھ اِدھر سے اُس کے ساتھ لڑنے کےلیے میدان میں اترتا! محض ایک ایسی بنیاد پر جو سراسر اتفاق an incidental happening ہے، یہ دونوں مرنے مرانے تک چلے گئے ہیں! یہ بات اِس عقل و شعور کی مالک مخلوق کےلیے، جو شرائع کے نزول کا محل رہی ہے، ہرگز شایاں نہیں۔ یہ حیوانیت کا بدترین درجہ ہے، اگرچہ اس کو ڈاروِن کا حیوان کیوں نہ مان لیا گیا ہو۔ عقل و شعور کی مالک اِس مخلوق کو، جو مکارِم کی بلندیاں سر کرنے کےلیے وجود میں آئی، اپنی اجتماعی وابستگی کے معاملہ میں بھی کچھ اخلاقی بنیادوں کا پابند رکھا گیا ہے۔ قوم برائے قوم، قبیلہ برائے قبیلہ، جغرافیہ برائے جغرافیہ. یہ سب حضرتِ انسان کے مقام سے کمتر ہے۔ قوم، قبیلہ، جغرافیہ ایسی اشیاء انسان کے وجود سے منسلک ضرور ہیں مگر یہ اس کی زندگی میں کوئی مرکزی حیثیت اختیار کرنے کی مجاز نہیں ہیں۔ نہ یہ عزت و ذلت کا معیار ہو سکتی ہیں۔ نہ یہ کوئی ایسی چیز جس کی جے بولی جائے۔ اِن اشیاء کی نفی بھی نہیں ہے؛ کیونکہ یہ انسان کی زندگی کا حصہ ہیں۔ مگر اِن کی تعظیم بھی نہیں ہے؛ کیونکہ یہ انسان کو انسان پر کسی وجہ کے بغیر برتری دینا ہے۔ انسان نے آخر کسی نہ کسی قبیلے، کسی نہ کسی قوم اور کسی نہ کسی خطے میں پیدا ہونا ہی ہوتا ہے! ان وابستگیوں کی حد بس اتنی ہے کہ انسانوں کے مابین یہ ایک جان پہچان کی بنیاد ہو۔ [pullquote]وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ (الحجرات: 13)[/pullquote]
    ’’اور ہم نے تم کو قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ تمہیں آپس میں پہچان ہو۔ بےشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔ اُدھر دوسری برادری میں بھی انسان ہیں۔ اُدھر دوسرے قبیلے، دوسری قوم، دوسرے ملک میں بھی خدا کی ایسی ہی مخلوق آباد ہے۔ اُن کے دلوں کے اندر بھی ویسے ہی دل دھڑکتے اور ویسے ہی جذبات مچلتے ہیں۔ اور خدا کو اپنی ساری ہی مخلوق پیاری ہے۔ فضیلت کی کوئی بنیاد ہے تو یہ کہ کوئی زندگی کا مقصد پورا کرنے میں کیسا ہے؟ یعنی وہ خدا کے کتنا قریب ہے؟ خدا کو ماننے اور خدا کے بھیجے ہوئے رسولوں کا جہانِ انسانی کے اندر استقبال کرنے میں اس کا رویہ کیسا رہا ہے؟ نیز اعلیٰ قدروں کو قائم کرنے میں اس کا کیا برتاؤ ہے؟ ہاں یہ وہ بنیاد ہے جس پر انسانوں کے ساتھ قربت بھی ہو گی اور دوری بھی۔ ٹوٹنا بھی اور جڑنا بھی۔
    یہ ذہن نشین رہنا ضروری ہے کہ اسلام جہاں ایک اصولی دستورِ حیات ہے وہاں فطرت کے مقاصد کا بہترین نگہبان بھی ہے۔ اپنے کنبے قبیلے سے عام انسانوں کی نسبت آدمی کو زیادہ محبت ہونا، خاص اپنی زبان اور پھر زبان میں بھی خاص اپنا لہجہ بولا جا رہا ہو تو آدمی کا اس پر پھڑک اٹھنا، اپنے خون کےلیے آدمی میں کچھ مخصوص جذبات موجزن ہونا، اپنے کھیتوں اور کھلیانوں سے آدمی کو ایک غیرمعمولی انس ہونا، اپنے خطے اور اقلیم سے اس کو ایک لگاؤ ہونا، اپنی قوم سے ایک خصوصی ہمدردی اور وابستگی رہنا، اپنے لوگوں پر ظلم ہوتا دیکھ کر یا ان کو ذلت یا غلامی یا کسمپرسی میں گرفتار پا کر آدمی کا مضطرب ہونا، یہ سب جائز اور فطری رویے ہیں۔ شریعت ہرگز ہرگز ان پر قدغن لگانے نہیں آئی۔ یہ وجہ ہے کہ اوپر ابن مفلحؒ کی بیان کردہ احادیث میں یہ غلط فہمی باقاعدہ دور کرائی جاتی ہے کہ آدمی کا اپنی قوم سے محبت کرنا بھی کہیں ’’عصبیت‘‘ شمار نہ کیا جانے لگے۔ اپنی برادری، زبان، علاقے (شہر، صوبہ، ملک، خطے وغیرہ) سے آدمی کی محبت دوسرے کا حق مارنے تک چلی جائے تو ہاں یہ وہ عصبیت ہے جس کی مذمت شرعی نصوص کے اندر جابجا ہوئی ہے، ورنہ یہ محبت یا لگاؤ فی نفسہ مذموم نہیں۔ شریعت انسان کے طبعی جذبوں کے ساتھ کہیں پر بھی الجھتی نہیں بلکہ ان کی رکھوالی اور باقاعدہ سرپرستی کرتی ہے۔ نیز ان کی صحیح حدود کا تعین کرتی ہے، تاکہ وہ خیر کی بجائے شر نہ بن جائیں۔ اور یہ تو واقعہ ہے کہ انسان کے جائز جذبے بھی، جب اپنی حدود سے تجاوز کر لیں، تو زمین کے اندر شر کا موجب بنتے ہیں۔ شرائع ان جذبوں کو ایک صالح رُخ اور ایک ضبط ہی دلوانے آئی ہیں۔
    یہاں ہمیں دو وضاحتیں کرنی ہیں۔ ایک نیشنلزم کی بابت۔ اور دوسری ’قوم‘ کے اُس فطری مفہوم کی بابت جو اوپر احادیث میں وارد ہوا۔
    جہاں تک ان فطری رویوں اور وابستگیوں کی بات ہے جو انسان میں اس کے خون، قبیلے، برادری، زبان اور علاقے کی نسبت سے پائی جاتی ہیں تو وہ انسان میں اُس وقت سے ہیں جب سے انسان دنیا میں ہے۔ البتہ ’’نیشنلزم‘‘ باقاعدہ ایک تصور کے طور پر خاصا جدید فنامنا ہے۔ ہمارا ایک طبقہ جو جدید تہذیب کی مصنوعات میں جا بجا ’اسلامی‘ چیزوں کی نشاندہی فرمانے کی کوشش کرتا ہے، انسان کی ’’فطری وابستگیوں‘‘ اور عہدِ جدید کے ’’نیشنلزم‘‘ کو بری طرح خلط کرتا ہے۔ ہم اپنے بعض دیگر مضامین میں قدرے تفصیل سے بیان کر چکے کہ ’’نیشن‘‘ کا معاصر contemporary تصور انسان کے کسی فطری جذبے مانند قبیلے، لسان یا خونی رشتے وغیرہ ایسی بنیاد پر سرے سے قائم ہی نہیں ہے، بلکہ بہت اوقات یہ ہوتا ہے کہ ماڈرن سٹیٹ ایک ہی خون یا ایک ہی کلچر یا ایک ہی اقلیم (خطے) کے لوگوں یا ایک ہی زبان بولنے والوں کو بہت سی ’نیشنز‘ میں کاٹ پھاڑ اور بڑی بےرحمی کے ساتھ ان کے مابین سرحدیں اٹھا رہی ہوتی ہے۔ اس کے مقابل، بسا اوقات کچھ دُوردَراز کے نسلی یا لسانی یا اقلیمی عناصر کو ملا کر ایک ’نیشن‘ ٹھہراتی ہے۔ یعنی ایسے دُوردَراز کے عناصر جو آپس میں ایک دوسرے کی بولی تک نہ سمجھ پائیں اور ان کے بچے ایک دوسرے کا لباس اور رہن سہن صرف دیکھ کر ہی ہنسنے لگیں۔ لیکن وہ ایک ’قوم‘ ہوتے ہیں! جیسے بھارت۔ اس سے بھی بڑھ کر، بسا اوقات یہ (ماڈرن سٹیٹ) ایسا کرتی ہے کہ ایک ہی رنگ، نسل اور لسان کے لوگوں کو تو مختلف ’نیشنز‘ میں کاٹ پھاڑ رہی ہوتی ہے جبکہ اس کے مقابلے پر بڑے ہی دُوردَراز کے رنگوں، نسلوں اور لسانوں کے لوگوں کو حکم دے رہی ہوتی ہے کہ تم آپس میں ایک ’نیشن‘ بنو۔ یعنی ایک لسانی یا نسلی یا اقلیمی وحدت کو تو تتربتر کردیا جبکہ کچھ متباعد لسانی یا نسلی یا اقلیمی گروہوں کو ایک ہار کے اندر پرو دیا۔ دونوں کام بیک وقت، ماڈرن سٹیٹ کے نام پر! ’فطری جذبوں‘ سے بھلا اس بات کو کیا تعلق؟ اِس بوالعجبی کے مظاہر اِس ماڈرن جہان میں آپ جابجا دیکھ سکتے ہیں۔ حق یہ کہ ماڈرن سٹیٹ ایک بےرحم چیز ہے جس میں طبعی جذبوں اور رشتوں کا ہزارہا انداز سے قتل ہوتا ہے۔
    آپ غور فرمائیں تو ماڈرن سٹیٹ کے زیرِاستعمال لفظ ’نیشن‘ وہ معنیٰ نہیں دیتا جو آج سے ڈیڑھ دو سو سال پہلے لفظِ ’’قوم‘‘ سے ایک طبعی سے انداز میں آپ کے ذہن میں آ جاتا تھا۔ حق یہ ہے کہ ’قوم‘ کا وہ معنیٰ جو آج سے سو سال پہلے آپ لیتے رہے تھے، ’نیشن‘ کے تحت لانا یہاں ایک اشکال کا موجب ہو رہا ہے۔ آپ غور فرمائیں تو ’قوم‘ کے مقابلے پر ایک اور لفظ تاریخی طور پر ہماری لغت میں مستعمل رہا ہے: ملت۔ یعنی ایک ایسی اَرفع اجتماعیت جس کے مقابلے پر آدمی اپنی قوم، اپنے خون اور اپنی زبان وغیرہ ایسی طبعی وابستگیوں کو ہیچ جانتا اور بوقتِ ضرورت اس پر قربان کر ڈالتا ہے۔ جس کی بابت اقبالؒ نے کہا تھا
    ’بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
    نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی‘۔
    حق یہ ہے کہ یہ ’’ملت‘‘ کا تصور بھی انسان کے اندر فطری ہے، کیونکہ یہ دین سے پھوٹتا ہے؛ اور دین انسان کے اندر فطری ہے۔’’ملت‘‘ یعنی کوئی ایسی مقدس وحدت جس پر آدمی اپنے خون، قبیلے، قوم، رنگ اور لسان ایسی وابستگیوں کو قربان کر دینے میں ایک فخر محسوس کرے۔ ’’ملت‘‘ کے اِس تصور سے انسان کبھی جان نہیں چھڑا سکا۔ آج بھی انسان اس سے باہر نہیں آیا۔ بس ہوا یہ کہ دورِحاضر کے انسان کا ’’دین‘‘ اور ’’خدا‘‘ یکسر بدل گیا تو طبعی بات تھی کہ ’’ملت‘‘ بھی اسی قدر ایک مختلف صورت دھار لیتی۔ کسی مافوق الفطری ہستی (یا ہستیوں) کو اس منصب سے معزول کر دینے کے بعد کہ وہ انسان کی اجتماعیت کےلیے ایک حوالہ بن کر رہے، ’’مادہ‘‘ اور ’’معاشی مفادات‘‘ آج حضرتِ انسان کی زندگی میں سب سے بڑا اور سب سے اَرفع حوالہ ہے۔ یہی اس کا دین، یہی اس کا خدا۔ پس لازم تھا کہ ’’مادی مفادات‘‘ کی بنیاد پر کھڑے ہوئے اجتماعی یونٹ انسان کی زندگی میں ’’ملت‘‘ ہی کا معنیٰ ادا کرنے لگیں۔ اِس چیز کو ماڈرن لغت ’’نیشن‘‘کہتی ہے۔ کوئی ’نیشن‘ (مادی مفادات کا ایک خودمختار اجتماعی یونٹ) جب کبھی وجود میں آیا تھا تب کون سے عوامل اس کے ایک’’یونٹ‘‘ بن جانے کے پیچھے کارفرما رہے ہوں گے، ماڈرن نیشن کے یہاں تقریباً ایک غیرمتعلقہ مسئلہ ہے۔ مادی مفادات کا ایسا کوئی یونٹ ’بننے‘ کی وجہ تو کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ البتہ ایسے کسی یونٹ (نیشن) کی تعریف میں انسان کے طبعی رشتوں یا رہن سہن یا اقلیمی حقیقتوں کو کوئی دخل نہیں ہے۔ یہ پکی بات ہے اور ہمارے اسلامی جدت پسندوں کو لازماً اپنی غلط فہمی دور کر لینی چاہیے۔ یہاں ایک جنس کے لوگ کئی ’نیشنز‘ میں کٹے پھٹے ہو سکتے ہیں، جیسا کہ پیچھے ہم کہہ چکے۔ اس کے مقابلے پر، ہو سکتا ہے بہت سی اجناس اور اقوام مل کر بھی ایک ’نیشن‘ بنانے کےلیے کم ہوں۔ اِس معاملہ میں کوئی قاعدہ قانون نہیں۔ یہاں چند ہزار لوگ ایک فل فلیج ’نیشن‘ ہو سکتے ہیں۔ اس کے مقابلے پر کئی کروڑ لوگ مل کر اپنے آپ کو رائج معنوں میں ’نیشن‘ کہیں تو گردن زدنی ہو سکتے ہیں، (مانند کشمیری یا فلسطینی)۔ یہاں چند درجن مربع کلومیٹر کی ایک ’نیشن‘ ہو سکتی ہے جبکہ اس سے سو گنا وسیع رقبے کے لوگ اپنے لیے ’نیشن‘ کا لفظ بول لیں یا ایسا کوئی مطالبہ ہی زبان پر لے آئیں تو ان پر بغاوت کی فردِ جرم لگ سکتی ہے۔ غرض انسان کی طبعی و اقلیمی تقسیمات کو ’’نیشن‘‘ کے ماڈرن تصور سے کوئی علاقہ نہیں۔ ماڈرن ’’نیشن‘‘ کے تحت آپ درحقیقت کسی طبعی معنیٰ کی ’قوم‘ کے بجائے ’’ملت‘‘ کا ایک معنیٰ زیادہ قوی پاتے ہیں۔’’ملت‘‘ جس پر آپ کو اپنا رنگ، نسل، زبان اور (طبعی معنیٰ کی) قوم وغیرہ سب کچھ قربان کرنا اور اپنے اِس عمل پر ایک راحت اور سکون محسوس کرنا ہوتا ہے۔
    یہاں البتہ ہم کہتے ہیں، یہ طبعی رشتے اور جذبے مانند خون، قوم، قبیلہ، لسان، اقلیم وغیرہ ’’انسان‘‘ کی ساخت کرنے والی کچھ معتبر چیزیں ہیں۔ ان کو بھی ایک درجہ کی حرمت حاصل ہے، کیونکہ یہ انسان کی سرشت سے برآمد ہیں۔ (رشتوں کی حرمت شرائع کا ایک بڑا موضوع ہے: [pullquote]وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ)۔[/pullquote]
    ان کو قربان کیا جا سکتا ہے تو کسی ایسی چیز پر جو ’’انسان‘‘ کی سرشت میں اس سے بھی برگزیدہ اور مقدس ہو اور جو کہ کوئی ’’مادی مفادات كا یونٹ‘‘ نہیں ہو سکتا، بلکہ انسان کا وہ کائناتی دین یعنی’’اسلام‘‘ ہی ہو سکتا ہے جس کےلیے یہ زمین و آسمان اور خود یہ انسان وجود میں آیا۔ ’’رنگ‘‘، ’’نسل‘‘، ’’زبان‘‘، ’’رشتے‘‘ باقاعدہ انسان کے عناصرِ وجود ہیں۔ ’’انسان‘‘ انہی چیزوں کے اجتماع سے تشکیل ہوتا ہے۔ اِس ’’انسان‘‘ کو گزند پہنچانے پر شرائعِ آسمانی قدم قدم پر آپ کے آڑے آئیں گی۔ ’’انسان‘‘ سے مقدس چیز روئے زمین پر فی الحقیقت نہیں۔ یہ ’’انسان‘‘ اگر قربان ہو سکتا ہے تو صرف ایک ہستی پر؛ اور وہ ہے اِس کا معبود۔ ورنہ کوئی اِس کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔
    یہ ہے وہ مقام جہاں سے ’’نیشنلزم‘‘ (عبادتِ مادہ) اور ’’توحید‘‘ (دینِ فطرت) کا تعارض آتا ہے۔ ’’ملت‘‘ کا تصور البتہ انسان کی زندگی میں ویسے کا ویسا رہا۔ یہ ناگزیر تھا اور رہے گا۔ مراد یہ کہ انسان کی ’’طبعی‘‘ وابستگیوں کو اس کی کسی ’’مطلق‘‘ وابستگی پر قربان ہونا ہی ہوتا ہے۔ اِس کا نام ہے ’’ملت‘‘۔ نیشنلزم اس ’’ملت‘‘ کے خانے کو پُر کرنے کےلیے کسی بھی ’’مادی مفادات‘‘ پر قائم یونٹ کو قبول کر لیتا ہے، خواہ اس ’’یونٹ‘‘ کے وجود میں آنے کے پیچھے کیسے ہی تاریخی عوامل رہے ہوں۔ (اس لحاظ سے ہم کہیں گے، ایک لایعنی یونٹ جو کسی بھی وجہ سے پایا جا سکتا ہے اور کسی بھی وجہ سے تحلیل ہو سکتا ہے) اور پھر اس لایعنی یونٹ کے گھاٹ پر ’’انسان‘‘ کو باقاعدہ قربان کرواتا ہے؛ کیونکہ اصل چیزاس کے نزدیک انسانی اجتماعیتوں کے مادی مفادات ہیں۔ البتہ ’’ملت‘‘ کا معنیٰ نیشنلزم میں بھی ختم نہیں ہوتا۔ کمیونزم بھی یہ ’’ملت‘‘ کا معنیٰ ختم نہیں ہوتا تھا، بلکہ کوئی بھی نظریہ ’’ملت‘‘ کا تصور ختم نہیں کر سکتا، صرف اس کو اپنے دیے ہوئے ’’خدا‘‘ کے ساتھ ایک نسبت دے سکتا ہے، اور دیتا ہے۔ اس نیشنلزم (قوم پرستی) کے مقابلے پر توحید (خداپرستی) البتہ یہ کہتی ہے کہ انسان اس سے کہیں زیادہ برگزیدہ اور اَرفع ہے کہ اس کے طبعی رشتے اور جذبے کسی’’مادی وحدت‘‘ پر قربان ہوں۔ یہ قربانی انسان سے اگر مانگی جائے تو ایک ایسی برگزیدہ وحدت کےلیے جس کا حوالہ خدائے برحق کی عبادت ہو۔
    یہاں سے ہم ایک اور مبحث میں داخل ہوتے ہیں اور وہ ہے’’مسجدوں اور اذانوں‘‘ کا پاکستان۔ دیس کا وہ تصور جو لاالٰہ الااللہ سے تشکیل پاتا ہو (’اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے‘)۔ یہ ایک جینوئن مسئلہ ہے اور دو فریقوں میں سے ایک کے دوسرے کو مکمل طور پر پچھاڑ دیے بغیر ختم ہونے کا نہیں۔ اس میں ہرگز کوئی تعجب ہے نہ اچھنبا۔ دو نظریوں میں بلاشبہ ایسی ہی ایک آویزش conflict ہے۔ ان دونوں کا کیس سمجھنا ضروری ہے: دونوں کا اس پر اتفاق ہے کہ پنجابی کو سندھی، پشتونی اور بلوچی وغیرہ کے ساتھ مل کر ایک ’’وحدت‘‘ بننا اور رہنا ہے۔ یہ بھی دونوں میں طے ہے کہ اس وحدت کا نام اِس وقت ’’پاکستان‘‘ ہے۔ اختلاف اس میں ہے کہ اِس وحدت کا حوالہ کیا ہو؟ یعنی جب ایک بلوچی یہاں کے پنجابی سے خدانخواستہ علیحدہ ہوجانے کی بات کرے تو اس بلوچی کو دُکھ سُکھ پنجابی ہی کے ساتھ سانجھا رکھنے کےلیے واسطہ کس بات کا دیا جائے؟ ایک سندھی کو پنجابی سے جڑے رہنے کی تاکید کرتے وقت آپ کی بنیاد اور دلیل کیا ہو، کہ کیوں وہ پنجابی اور پشتونی ہی کے ساتھ جڑا رہے؟ کوئی ایک جنس اگر بالفرض یہاں یہ سمجھ بھی رہی ہو کہ اس کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، حتیٰ کہ اگر کبھی اس بندھن میں (خدانخواستہ) کسی کو فی الواقع محرومیتوں کا سامنا ہو (گھروں میں آخر کیا کچھ نہیں ہو جاتا) تو بھی وہ اس بڑی وحدت کی محبت میں صبر و برداشت ہی سے کام لے اور ’ربطِ ملت‘ کو ہر حال میں اور ہر شرط پر قائم رکھے، ایسا تقاضا رکھتے وقت یہاں کی ایک جنس کو کون سے ربط کا حوالہ دیا جائے؟ لاالٰہ الااللہ کا رشتہ؟ جوکہ اٹوٹ اور دائمی ہے۔ اس رشتے کو اپنی اجتماعیت کی ترکیب میں اگر مرکزی عنصر کے طور پر تسلیم کر لیا جائے تو پھر یہ دونوں قیامت تک بھائی ہیں، اس کے ٹوٹنے کا ان شاءاللہ سوال ہی نہیں، بس اِسی کا حوالہ قیامت تک دیا جا سکتا ہے۔ یا پھر کوئی اور رشتہ؟ قوم پرست حضرات یہاں فرماتے ہیں: خالی ’’نیشن‘‘ ہونے کا واسطہ۔ ( یعنی ہم نے فرما دیا کہ تم نیشن ہو، تو بس نیشن ہو!) ان کے خیال میں بس یہی کافی اور ضروری ہے کہ اس کے دم سے ایک بلوچی پنجابی کے ساتھ اور ایک سندھی پشتون کے ساتھ سدا یکجان رہے۔ یہاں وہ علیحدگی پسند پوچھتا ہے کہ ’نیشن‘ تو سراسر ایک ضرورت کی چیز اور ایک ناپائیدار، اضافی اور غیرمعیَّن حوالہ ہے، ’نیشن‘ کو ایک سے دو ہوتے بھلا کوئی دیر لگتی ہے؟ اِس دنیا میں کیا لوگ ایک دوسرے سے ملک الگ نہیں کرتے؟ ’نئی قومیں‘ معرضِ وجود میں آتی کیا آپ نے نہیں سنیں؟ جتنا مرضی چھوٹا کردو ایک ملک کو اور جتنی مرضی قومیں ایک قوم کے اندر سے نکال لو، صرف اس کےلیے عالمی قوتیں آپ پر مہربان ہونی چاہییں (اور وہ آج عالم اسلام کے ہر علیحدگی پسند پر غیرمعمولی حد تک مہربان ہیں)، کوئی قاعدہ قانون تھوڑی ہے اس ماڈرن جہان کے اندر ’ایک ملک‘ کو ’’کئی ملک‘‘ یا ’کئی ملکوں‘ کو ’’ایک ملک‘‘ کر ڈالنے کے معاملہ میں؟ یہ تو زور چلنے کی بات ہے، آپ دلیل دینا چاہ رہے ہیں!
    پس یہ ہے وہ اصل سوال جس پر دو نظریے پچھلے کئی عشروں سے باہم گتھم گتھا ہیں: کس چیز پر اپنے خون، لسان اور اقلیم کے رشتے قربان کر دینے کا مطالبہ یہاں کی مختلف و متنوع اجناس کے آگے رکھا جائے؟ اور کس دلیل سے؟ یہ سوال معروضی حالات میں البتہ کچھ زیادہ ہی اہم ہو جاتا ہے جب افق پر منڈلاتے کچھ ناگہانی خطرات کی طرف آپ کی نگاہ اٹھتی ہے۔ عالم اسلام کی چند ابھرتی قوتوں مانند پاکستان اور ترکی وغیرہ کو ’عراق‘ بنا کر رکھ دینے کی کچھ زورآور کوششیں اس وقت پراسیس میں ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے معاملہ ’بھارتی کینہ و بغض‘ سے بڑی ایک جہت اختیار کر چکا، یعنی کچھ ’عالمی‘ تیور۔ اپنے استحکام کےلیے یہاں آپ کو کچھ ایسے مضبوط حوالوں کی ضرورت پڑنے والی ہے جو آنے والے ایام کے زوردار جھٹکے سہہ لیں۔ یہاں عصبیتوں کی ایک نئی آگ بھڑکانے کی کچھ غیرمعمولی کوششیں اندر اور باہر سے بیک وقت ہونے والی ہیں۔ مسلم سرزمینوں میں خدانخواستہ خدانخواستہ آپ کو کئی ایک ’مکتی باہنیوں‘ سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔ (چونکہ ان عصبیتوں کو بیک قت سیکولرزم کا تڑکا بھی لگا ہوگا، نیز ان کا مالیاتی سرچشمہ بھی وہی ہوگا جو یہاں کے بہت سے ابلاغی، تعلیمی اور ’این جی او‘ پروگراموں کا ہے، لہٰذا میڈیا اور دانش پر حاوی ایک طبقہ بڑی دیر تک ان ممکنہ ’مکتی باہنیوں‘ سے ہماری توجہ پھیرتا رہےگا۔ پڑوس سے ہونے والی ایک کھلم کھلا مداخلت کو جس کا دائرہ بلوچستان تک پھیل چکا، نرا ’کچھ لوگوں کا وہم‘ تو یہ بڑی دیر سے قرار دے رہا ہے۔ اور اب اس کینہ پرور ’پڑوس‘ کے ساتھ کچھ ’سات سمندر پار‘ عوامل بھی مل جائیں تو کیا ہے)۔ آئندہ ایام میں خاصا امکان ہے کہ ’سیکولرزم‘ اور ’عصبیتیں‘ یہاں ایک غیرعلانیہ حلیف کے طور پر آئیں۔ وجہ اس کی بڑی سادہ ہے اور واضح: دونوں اپنی غذا کےلیے کہیں ’بیرون‘ پر سہارا کر رہے ہیں اور دونوں کا مصدرِاِلہام source of inspiration اس وقت تقریباً ایک ہے۔
    اس موضوع کی کچھ مزید جہتیں ہم اپنی آئندہ تحریر میں زیربحث لائیں گے ان شاءاللہ، بعنوان’’مسجدوں اور اذانوں کا پاکستان‘‘۔

  • محب وطن ہوں، وطن پرست نہیں – نعمان اکرم

    محب وطن ہوں، وطن پرست نہیں – نعمان اکرم

    وطن سے محبت ایک ایسا فطری جذبہ ہے جو ہر انسان میں پایا جاتا ہے. جس زمین میں انسان پیدا ہوتا ہے، شب و روز گزارتا ہے، جہاں اس کے رشتہ دار، دوست، والدین، دادا دادی کا پیار پایا جاتا ہے۔ وہ زمین اس کا اپنا گھر کہلاتی ہے، وہاں کی گلیاں، در و دیوار، پہاڑ، گھاٹیاں، پانی اور ہوائیں، ندی نالے، کھیت کھلیان غرضیکہ وہاں کی ایک ایک چیز سے اس کی یادیں جڑی ہوتی ہیں اور وہ ان سے محبت کرتا ہے.
    تارک وطن ہونے والے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کمانے کے لیے باہر جاتے وقت دل بہت افسردہ ہوتا ہے، وجہ یہی کہ وطن سے محبت انسانی فطرت میں شامل ہے. اسی لیے جو لوگ ملک سے غداری کرتے ہیں انہیں کبھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیاجاتا، اِس کے برعکس جو لوگ ملک کے لیے قربانی دیتے ہیں ان کے جانے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں وہ زندہ ہوتے ہیں۔ وطن سے محبت کے اس فطری جذبہ کا اسلام نہ صرف احترام کرتا ہے بلکہ ایسا پرامن ماحول فراہم کرتا ہے جس میں رہ کر انسان اپنے وطن کی اچھی خدمت کر سکے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھیے جنہوں نے زندگی کے ہر مرحلے میں ہماری رہنمائی فرمادی، یہاں تک کہ وطن سے محبت کرکے بھی یہ پیغام دیا کہ مسلمان سب سے پہلے اپنے وطن سے محبت کرنے والا ہوتا ہے۔ یہ الفاظ دیکھیے.
    ”اے مکہ تو کتنی مقدس سرزمین ہے، کتنی پیاری دھرتی ہے میری نظر میں، اگر میری قوم نے مجھے یہاں سے نہ نکالا ہوتا تو میں یہاں سے نہ نکلتا.“ (ترمذی)
    یہ الفاظ اس عظیم شخصیت کی مقدس زبان سے نکلے ہیں، جنھیں ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں اور جن کی پیروی کرنا اپنے لیے باعث نجات اور باعث فخر سمجھتے ہیں. یہ الفاظ اس وقت نکلے تھے جب وہ اپنے وطن سے نکل رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طرح کی ایذیت جھيلی مگر اپنے وطن میں رہنے کو ترجیح دی، لیکن جب پانی سر سے اونچا ہوگیا اور خدا کا حکم آگیا تو نہ چاہتے ہوئے بھی مکہ سے نکلتے ہیں، اور نکلتے وقت دل پر اداسی چھائی ہوئی ہے. اور زبان مبارک پر مذكورہ جملہ جارى تھا، جس کا لفظ لفظ دل میں وطن سے بھرپور محبت اور لگاؤ کا احساس پیدا کرتا ہے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آتے ہیں اور مدینہ کی آب و ہوا موافق نہیں ہوتی ہے تو بلال رضی اللہ عنہ کی زبان سے مکہ والوں کے حق میں بد دعا کے کلمات نکل جاتے ہیں۔ اس وقت آپ سرزمين مدینہ کے ليے دعا فرماتے ہیں:
    ”اے اللہ ہمارے دل میں مدینہ سے ویسے ہی محبت ڈال دے جیسی مکہ سے ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ.“ (متفق علیہ)
    اسلام نے عالمی برادری کا تصور پیش کرتے ہوئے سارے انسانوں کو ایک ہی ماں باپ کی اولاد قرار دیا اور ان کے درمیان ہر قسم کے تقسیم کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا وہ ہے جو اللہ کا سب سے زیادہ خوف رکھنے والا ہو، اسی ليے محمد صلی اللہ علیہ وسلم. نے حکم دیا کہ ”جس کسی نے کسی امن سے رہنے والے غیر مسلم پر ظلم کیا، یا اس کے حق میں کسی قسم کی کمی کی، یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر کام کا بوجھ ڈالا، یا اس کی مرضی کے بغیر اس کی کوئی چیز لے لی تو میں کل قیامت کے دن اس کا حریف ہوں گا.“
    بلکہ اسلام نے جانوروں، پودوں اور پتھروں کے ساتھ بھى اچھے برتاؤ کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا کہ :
    ” اگر قیامت ہونے ہونے کو ہو اور تمہارے ہاتھ میں پودا ہو تو اسے لگا دو کہ اس میں بھی ثواب ہے“ (صحيح الجامع 1424)
    وطن کی سلامتی اِس امر میں ہے کہ لوگوں کے مال، جان، عزت اور خون کی حفاظت کی جائے، ملک کے مفادات کو ذاتی مفاد پر ترجیح دی جائے، ہر طرح کی کرپشن اور بدعنوانی سے پاک رکھا جائے۔ معاشرے میں امن وامان کو پھیلایا اور ظلم و زیادتی کے ہر عمل سے خود کو بچایا جائے. معاشرے کے امن کو غارت کرنے والوں کو معاشرے کے لیے ناسور سمجھا اور کیفرکردار تک پہنچانے کےلیے حکومت کا ساتھ دیا جائے۔ اب ہمیں اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم نے اب تک اپنے ملک کے لیے کیا کیا ہے. ملک کی ترقی میں کتنا حصہ لیا ہے. عوامی بہبود کے لیے کیا کیا ہے. عوامی بیداری مہم میں کس حد تک حصہ لیا ہے؟
    اب
    یہاں ایک اہم نکتے کی وضاحت بہت ضروری ہے جس کو اکثر لوگ سمجھ نہیں پاتے اور کنفیوز کر دیتے ہیں
    ”مسلمان محب وطن ہوتا ہے لیکن وطن پرست ہرگز نہیں ہوتا“،
    وطن پرستی اور حب الوطنی دو بلکل مختلف چیزیں ہیں۔ حب الوطنی (وطن سے محبت) ایک فطری جذبہ ہے لیکن وطن پرستی کے معنیٰ یہ ہیں کہ انسان حق و ناحق کا معیار خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر محض اپنے وطن کو بنا لے۔ یہ شرک کی ایک شکل ہے اور اسلام اس کی بھی اسی طرح بیخ کنی اور مخالفت کرتا ہے جس طرح شرک کی باقی تمام شکلوں کی. (بحوالہ پروفیسر خورشید احمد … حاشیہ ۔ اسلامی نظریہ حیات)
    یہ وہ نقطہ ہے جہاں پر وطن پرست یعنی نیشنلسٹ اور اسلام آپس میں ٹکرا جاتے ہیں۔ پس جب تک یہ محبت ایک انس تک ہے تو شاید کوئی بڑا مسئلہ نہ ہو، لیکن جب ہم اس بنیاد پر اپنے آپ کو دوسروں سے کاٹ دیں، اور وطن پرستی کو حق و باطل کا معیار بنا لیں اور اس کی وجہ سے ظلم پر آمادہ ہو جائیں تو یہ مطلوب نہیں ہے. یاد رہے کہ وطن سے محبت ہمیں عصبیت کی طرف نہ لے جائے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے عصبیت کی دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں۔ عصبیت سے مراد یہی ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے اپنی قوم، ذات قبیلے اور علاقے کی وجہ سے دشمنی روا رکھے جبکہ ہمارے لیے حکم یہ ہے کہ ہماری دوستی بھی انصاف اور اللہ کے قائم کردہ اصول کے لحاظ سے ہونی چاہیے اور دشمنی بھی اسی لحاظ سے، اگر اس کے علاوہ ہے، اور بلاوجہ آپ اپنے ملک، قوم یا علاقے کی حمایت میں کھڑے ہیں جبکہ آپ کو پتہ بھی ہے کہ آپ کی قوم یا علاقے والے غلط ہیں اور ناانصافی کر رہے ہیں تو یقنی طور پر آپ عصبیت ہی کا شکار ہو رہے ہیں۔
    ایک مسلمان اپنے وطن سے بےحد محبت کرتا ہے اور اس کی راہ میں جان دینے کے لیے بھی تیار ہوجاتا ہے، بشرطیکہ وہ راہ جس کے لیے وہ جان دے رہا ہے خدا اور اس کے رسول ﷺ سے نہ ٹکراتی ہو۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک مسلمان اپنے والد سے تو بہت محبت کرتا ہے، اپنی ماں کے سامنے اف تک نہیں کہتا، اپنی اولاد کے لیے تو جان بھی دے دیتا ہے لیکن جب ماں باپ یا اولاد ہی کفر کی تعلیم دیں یا کفر کی طرف سے تلوار اٹھا لیں تو ایک مسلمان اپنی اس محبت کی خاطر اللہ تبارک و تعالی کو ناراض نہیں کر سکتا پھر وہ وہی کرتا ہے جو ایک صحابی رضی اللہ تعالی نے اپنے غیرمسلم بھائی کے بارے کہا تھا کہ جب وہ قیدی بن کر مسلمانوں کے قبضے میں آیا تو فرمایا اس کے ہاتھ کس کے باندھو، اس کی ماں بہت امیر ہے، چھڑوانے کے لیے کافی جزیہ دے گی، تو بھائی نے کہا کہ یہ تم کیا کہہ رہے ہو، ہم دونوں بھائی ہیں، مجھے تم چھڑوانے کے بجائے مزید پھنسا رہے ہو تو اس صحابی نے کہا کہ تم نہیں، یہ میرے بھائی ہیں جو تمہیں باندھ رہے ہیں۔
    ہمارے لیے صیحیح صرف وہ ہونا چاہیے جو اللہ اور اس کے رسول کے مطابق صحیح ہے اور غلط وہ ہونا چاہیے جو اللہ اور اس کے رسول کے مطابق غلط ہے۔ ایک مسلمان کی محبت سب سے زیادہ اپنے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے ہوتی ہے جیسا کہ محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے تب تک کوئی مومن نہیں ہووسکتا جب تک میں اسے اس کے گھر والوں سے زیادہ عزیز نہ ہوجائوں۔ جب اللہ اور اس کا رسول ﷺ سامنے آجائے تو تمام محبتیں چھوٹی پڑ جاتی ہیں. بس یہی وہ حب الوطنی اور نیشنل ازم میں فرق ہے جسے اکثر لوگ کنفیوژ ہوتے ہیں یا جان بوجھ کر کر جاتے ہیں۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ میں وطن پرست نہیں محب وطن ہوں.
    اے اللہ پاکستان کو محبت، امن اور اسلام کا گہوارا بنا دے، اسلام کا قلعہ اور امت مسلمہ کی امیدوں کا مرکز بنا دے. آمین