Tag: معاشی بدحالی

  • رمضان المبارک اور مہنگائی کا طوفان – عدنان الیاس

    رمضان المبارک اور مہنگائی کا طوفان – عدنان الیاس

    رمضان المبارک رحمت ، مغفرت اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ عبادات، صبر، ایثار اور تقویٰ کا درس دیتا ہے۔ دنیا بھر میں اس مہینے کے دوران مسلمان ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، زکوٰۃ و خیرات کا سلسلہ بڑھ جاتا ہے، اور ہر طرف نیکیوں کی بہار آ جاتی ہے۔ لیکن پاکستان میں رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ ہر سال رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے غریب اور متوسط طبقہ شدید مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ جب دیگر مسلم ممالک میں رمضان کے موقع پر اشیائے خورونوش کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں، وہیں پاکستان میں ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ چینی، آٹا، گھی، دالیں، گوشت، سبزیاں، اور دیگر روزمرہ کی اشیاء مہنگی ہو جاتی ہیں، اور یوں یہ مقدس مہینہ عام آدمی کے لیے مزید پریشانیوں کا باعث بن جاتا ہے۔

    پاکستان میں رمضان کے دوران مہنگائی کی کئی وجوہات ہیں، جن میں مصنوعی قلت، ناجائز منافع خوری، حکومتی عدم توجہی، اور عوام کی بے بسی شامل ہیں۔ رمضان سے قبل ہی منافع خور اور تاجر اشیائے ضروریہ کو ذخیرہ کر لیتے ہیں، جس کے باعث بازار میں قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ جب طلب بڑھتی ہے تو قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ چینی، آٹا، گھی اور دیگر بنیادی اشیاء کی قلت پیدا کر کے ان کی قیمتوں کو غیر معمولی طور پر بڑھایا جاتا ہے۔ پاکستان میں رمضان المبارک کو ایک طرح سے “کمائی کا سیزن” سمجھا جاتا ہے۔ بڑے تاجر اور دکاندار اس مقدس مہینے میں نیکی اور ہمدردی کے بجائے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ وہ عام اشیاء کی قیمتیں دگنی یا تین گنا تک بڑھا دیتے ہیں، جب کہ ان کی پیداواری لاگت میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوتا۔ ہر سال رمضان سے قبل حکومت سستے بازار، رمضان پیکجز، اور سبسڈی جیسے اعلانات کرتی ہے، لیکن ان اقدامات کا عملی اثر زیادہ نظر نہیں آتا۔ سرکاری نرخوں پر اشیاء دستیاب نہیں ہوتیں، اور جو ہوتی ہیں، ان کی کوالٹی انتہائی ناقص ہوتی ہے۔ انتظامیہ کی عدم دلچسپی اور کرپشن کے باعث مہنگائی پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔

    عوام خود بھی مہنگائی کے مسئلے کو بڑھانے میں کسی حد تک شریک ہیں۔ جب رمضان آتا ہے تو لوگ ضرورت سے زیادہ اشیاء خریدنا شروع کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے طلب میں اضافہ ہوتا ہے اور قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اگر لوگ اعتدال سے خریداری کریں، تو مہنگائی کے مسئلے کو کسی حد تک قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ مہنگائی کا سب سے زیادہ اثر غریب اور متوسط طبقے پر پڑتا ہے۔ رمضان کے دوران کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے باعث عام آدمی کے لیے روزہ رکھنا اور افطاری کا بندوبست کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ دیہاڑی دار مزدور اور غریب طبقہ، جو پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار ہوتا ہے، رمضان کے دوران دو وقت کی روٹی کے لیے مزید پریشان ہو جاتا ہے۔ مہنگی اشیاء کی وجہ سے بہت سے لوگ معیاری کھانے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ سفید پوش طبقہ، جو اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے محدود آمدنی پر گزارا کرتا ہے، رمضان میں مزید مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یا تو قرض لینے پر مجبور ہو جاتا ہے یا پھر اپنی بنیادی ضروریات میں مزید کمی کردیتا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے مستحق افراد کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے زکوٰۃ، فطرانہ اور خیرات دینے والے افراد پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ رفاہی ادارے اور مخیر حضرات زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن جب اشیاء کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں، تو ان کی مدد بھی ناکافی ثابت ہوتی ہے ۔

    مسئلے کا اب حل یہ ہے کہ مہنگائی اور ناجائز منافع خوری کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت، تاجروں اور عوام کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، اور ان پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں۔ ہر شہر میں ایک فعال پرائس کنٹرول کمیٹی ہونی چاہیے جو قیمتوں کی نگرانی کرے اور عوامی شکایات کا فوری ازالہ کرے۔ رمضان کے دوران ہر علاقے میں معیاری سستے بازار قائم کیے جائیں، جہاں عوام کو مناسب داموں اشیاء مل سکیں۔ تاجروں کو چاہیے کہ وہ رمضان کے مقدس مہینے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ریلیف فراہم کریں اور نفع کمائیں لیکن ناجائز منافع خوری سے بچیں۔ اشیائے خوردونوش کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ سپلائی کو یقینی بنایا جائے۔ اگر لوگ اپنی ضروریات کے مطابق خریداری کریں اور ذخیرہ اندوزی نہ کریں، تو طلب اور رسد میں توازن برقرار رہے گا اور قیمتیں کم ہوں گی۔ اگر دکاندار غیر ضروری طور پر قیمتیں بڑھا رہے ہیں تو عوام کو چاہیے کہ وہ ان کا بائیکاٹ کریں اور سرکاری نرخوں پر خریداری کریں۔ رمضان کے مہینے میں زکوٰۃ، خیرات اور صدقات کا رجحان بڑھایا جائے تاکہ غریب افراد کی مشکلات کم ہو سکیں۔

    رمضان المبارک کا مہینہ ہمیں صبر، ایثار اور دوسروں کی مدد کا درس دیتا ہے، لیکن پاکستان میں مہنگائی اور ناجائز منافع خوری کے باعث یہ مہینہ کئی لوگوں کے لیے مشکلات لے کر آتا ہے۔ اگر حکومت، تاجر، اور عوام مل کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں تو رمضان کی حقیقی برکات سب تک پہنچ سکتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے اور مہنگائی پر قابو پانے کے لیے موثر اقدامات کرے، تاجر ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری سے باز آئیں، اور عوام شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی خریداری میں اعتدال پیدا کریں۔ اسی صورت میں رمضان المبارک حقیقت میں رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ بن سکے گا، اور عام آدمی بھی اس کی برکات سے فیض یاب ہو سکے گا۔

  • معاشی بدحالی اور عوام میں بڑھتی ہوئی مایوسی -سلمان عابد

    معاشی بدحالی اور عوام میں بڑھتی ہوئی مایوسی -سلمان عابد

    عمران خان حکومت کی تبدیلی کے پیچھے اس وقت کی حزب اختلاف او رآج کی حکومت کا بنیادی بیانیہ معاشی محاذ پر حکومت کی ناکامی تھا ۔ ان کے بقول ایک طرف حکومت کی حکمرانی کے نظام میں ناکامی تو دوسری طرف معاشی بدحالی او رآئی ایم ایف کے ساتھ عوام دشمنی پر مبنی حکومتی ماہدہ تھا ۔اسی کو بنیاد بنا کر پی ڈی ایم نے مزاحمت کی او راسی بنیاد پر بلاول بھٹو زرداری نے کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا جسے مہنگائی مارچ کا نام دیا گیاتھا ۔آج کے حکمران طبقہ کا دعوی تھا کہ اس ملک کے معاشی مسائل کی کنجی یا روڈ میپ ان ہی کے پاس ہے ۔ عمران خان حکومت معاشی مسائل کا حل تو ایک طرف وہ اور زیادہ معاشی بدحالی سے دوچار کرے گی ۔لیکن حالت یہ ہے کہ عمران خان حکومت کی تبدیلی عملا عوام کے لیے ایک بڑے خود کش حملے سے کم نہیں ۔ جو معاشی بدحالی ، بڑھتی ہوئی مہنگائی او ربے روزگاری اس تیرہ جماعتی حکمران اتحاد کے دور میں بڑھ رہی ہے وہ ریاست، حکومت اور عوام سب کے لیے مایوس کن ہے ۔
    لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ تجربہ کار، بلاصلاحیت اور بہتر روڈ میپ رکھنے والی جماعتیں او ران کے معاشی ماہرین کی کارکردگی کہاں ہے اور کیوں لوگوں کو معاشی ریلیف دینے سے قاصر ہے ۔ ایک طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی تو دوسری طرف وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کی جانب سے عوام کو واضح پیغام کے اگلے چند ماہ تک بھی نہ تو معاشی صورتحال بدلے گی بلکہ اور زیادہ سنگین معاشی بحران سخت معاشی فیصلوں کی بنیاد پر پیدا ہوگا ۔حالیہ دو ماہ میں جس تیز رفتاری سے شہباز حکومت کی سپیڈ نے عو امی مفادات کے برعکس فیصلے کیے جن میں پٹرو ل، ڈیزل، بجلی ، گیس اور کنگ آئل کی قیمتوں میں اضافہ نے ایک بڑا معاشی بحران پیدا کردیا ہے ۔لوگوں کی آمدن او ر اخراجات میں جو عدم توازن پیدا ہورہا ہے اس نے اور زیادہ ملک میں غیر یقینی او رمایوسی کی کیفیت کو نمایاں کیا ہے ۔سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ابھی تک حکمران طبقہ عوام کے سامنے کوئی ایسا روڈ میپ نہیں پیش کرسکا جو ظاہر کرسکے یہ معاشی مشکلات کب تک رہیں گی او راس بحران سے نکلنے کا راستہ کیا ہے اور کیسے عام فرد کو معاشی ریلیف مل سکے گا۔
    آج کی حکومت کا ایک بنیادی الزام عمران خان حکومت پر آئی ایم ایف سے کیا گیا ماہدہ تھا ۔ ان کے بقول یہ ماہدہ عوام دشمنی اور ریاستی مفاد کے برعکس تھا ۔منطق یہ دی جاتی تھی کہ عمران خان حکومت مکمل طور پر آئی ایم ایف کے سامنے سمجھوتہ کرچکی ہے او راس کی بھاری قیمت عوام کو ادا کرنا پڑ رہی ہے ۔ لیکن اب جو موجودہ شہباز حکومت آئی ایم ایف سے ماہدہ کرنے جارہی ہے وہ کیسے عوامی مفادات کی ترجمانی کرسکے گا او راس میں کیا ریاستی مفاد موجود ہے ۔اگر عمران خان کا آئی ایم ایف سے ماہدہ غلظ تھا تو آج کی حکومت کا کیسے درست ہوگیا او راگر واقعی عمران خان حکومت کا ماہدہ غلط تھا تو ایسے ماہدہ کو کیونکر آگے بڑھایا جارہا ہے ۔اب یہ کہنا کہ آئی ایم ایف کے بغیر کچھ ممکن نہیں اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر جذباتیت کی بنیاد پر معاشی آزادی او رخودمختاری سمیت آئی ایم ایف سے آزادی کے نعرے کیونکر لگائے گئے۔اب جو ماہدہ یہ نئی حکومت کرنے جارہی ہے اسے کب پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا او رکہاں اس پر اتفاق رائے کیا گیا ہے ۔ وزیر اعظم نے جو نئی سترہ رکنی ایک ایڈوائزری کونسل تشکیل دی ہے کیا وہ آزادانہ بنیادوں پر معاشی فیصلے کرنے کی سکت رکھتی ہے او رکیا وزیر خزانہ سمیت معاشی ٹیم خود بھی آئی ایم ایف کے مقابلے میں آزاد فیصلے کرسکتی ہے تو جواب نفی میں ہوگا ۔ ہمارے معاشی حکومتی ماہرین کا ایک ہی مقصد ہے وہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد او راسی فریم ورک میں رہتے ہوئے مینجمنٹ کرنا ہے ۔
    آئی ایم ایف نے پاکستان کے موجودہ کمزور سیاسی اور معاشی نظام کی کمزوریوں کا پورا فائدہ اٹھایا ہے ۔ اب اس کی جانب سے نئے ماہدہ کی صورت میں سخت شرائط پر مبنی ماہدہ اور ” Pakistan needs to do more “یا پٹرو ل ، بجلی مزید مہنگے اور آئی ایم ایف کی نئی سخت شرائط شامل ہے ۔ 7/ 8مشترکہ جائزہ کے لیے میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز کا مسودہ بھی حکومت کو مل گیا ہے او راس پر عملدرآمد کرکے ہی ہم کچھ پیسے حاصل کرسکیں گے ۔حکمران طبقہ کے بقول آئی ایم ایف سے ماہدہ ہماری مرضی نہیں بلکہ مجبوری ہے او رہم اس کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے ۔ بنیادی سی بات یہ ہے کہ ہم جب ہم نے اپنی معیشت کے بحران کا حل آئی ایم ایف کے فریم ورک میں ہی بیٹھ کر تلاش کرنا ہے تو کوئی ملک میں معاشی محاذپر غیر معمولی مثبت تبدیلیوں کا امکان نہیں ہوگا ۔کیونکہ جو معاشی بحران ہے اس کا حل کوئی بھی روائتی طور طریقوں یا فرسودہ یا پہلے سے موجود ملکی یا عالمی مالیاتی فریم ورک میں تلاش کرنا خود کو خوش فہمی کی سیاست سے جوڑنا ہوگا ۔ جو اس وقت غیر معمولی صورتحال ہے اس کے لیے اقدامات بھی غیر معمولی یعنی Out of Box جاکر کرنے ہونگے ۔
    آئی ایم ایف کی شرائط پر پچاس روپے تک لیوی ٹیکس ، پٹرو ل کی قیمتوں کو ریگولیٹ کرنا ، قیمتوں پر حکومتی کنٹرول کو ختم کرنا ، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں برابر اضافہ کرنا یا حکومت کا ٹیکس نیٹ بڑھانا یا سپر ٹیکس کا نفاذ ان سب کا اطلاق عام آدمی پر ہی ہوگا ۔ جس پر ٹیکس لگے گا تو وہ خود تو نہیں دے گا بلکہ اس کو عام آدمی پر بوجھ ڈالے گا۔لوگوں کی روزمرہ کی زندگیوں میں جو مہنگائی کا ریلا ہے اس نے خاص طو رپر تنخواہ دار طبقہ یا روزانہ کی بنیاد پر مزدوری کرنے والے پر براہ راست اثر ڈالا ہے ۔ پٹرول ، ڈیزل ، گیس او ربجلی کی قیمتوں میں براہ راست اضافہ کا تعلق عملا تمام اشیا پر ہوگا اور لوگوں سے جو جبری ٹیکس Indirect taxes کے نام پر لیا جارہا ہے وہ خود بھی سوالیہ نشان ہے او رلوگ سوچتے ہیں کہ کیا وجہ ہے جن پر ٹیکس لگانا چاہیے ان سے حکمران سیاسی سمجھوتے یا کمزوری جبکہ عام آدمی پر بوجھ ڈال کر ان ہی سے کہا جاتا ہے کہ وہ ملک کی خاطر ایثار ، قربانی او رکفایت شعاری سمیت حکومت کی مد دمیں آگے بڑھیں ۔ لیکن خود ریاستی و حکومتی نظام اپنی عیاشیوں اور خوشنما حکومتی نظام کے بارے میں کچھ قربان کرنے کے لیے تیار نہیں جو ریاستی ، وحکومتی نظام میں ایک بڑی خلیج یا تعلق کو کمزو رکرنا یا بداعتمادی کا ماحول پیدا کررہا ہے ۔
    مسئلہ محض کمزور یا غریب آدمی کا نہیں اس ملک میں اب سفید پوش یا نوکری پیشہ طبقہ یا چھوٹے کاروباری طبقہ کی مایوسی کا بڑھنا خود ریاستی سطح کے نظام کے لیے چیلنج ہے ۔ حکومت کی معاشی ترقی کا روڈ میپ دیکھیں تو انہوں نے اتوار والے دن پورے ملک کی مارکیٹ کو ہی بند کردیا جن میں چھوٹے کاروبار یا گلی محلے کی کریانہ کی دوکانیں بھی شامل تھیں ۔ یعنی حکمران طبقہ کے پاس معاشی مسائل سے نمٹنے کا علاج بھی عملا ہم کو مصنوعی نظر آتا ہے او رلگتا ہے کہ بس وقت گزاری کا ایجنڈا ہے او رکوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں ۔اصل میں مہنگائی کا بڑھنا ایک فطری امر ہوتا ہے ۔ اس کا علاج جہاں مہنگائی کا بڑھنا ہے وہیں لوگوں کی آمدن میں اضافہ کرنا ہوتا ہے ۔ لیکن جس معاشی نظام میں آمدن و اخراجات میں عوم تواز ن ہوگا تو اس سے معاشی بحران کی سنگینی اور زیادہ بڑھ جائے گی ۔ریاستی نظام کا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم پوری ریاستی نظام کی ہی نج کاری کردی ہے او رلوگوں کو پبلک سیکٹر کے مقابلے میں نجی شعبہ کی تحویل میں دے دیا ہے جو عملا عدم ریگولیٹ پالیسی کی وجہ سے اور زیادہ لوگوں کی مشکلات کو بڑھاتا ہے ۔مسئلہ حکومت یا حزب اختلاف کا نہیں او رنہ ہی ہمارے معاشی ماہرین کا بڑا مسئلہ مستقل بنیادوں پر معاشی پالیسیوں کے بارے کم سوچ وفکر یا عملی غیر معمولی اقدامات سے گریز اور معاشی جیسے اہم شعبہ پر بھی حکومت او رحزب اختلاف کے درمیان سیاسی محاز آرائی او رمعاشی امور پر سیاست نے ماحول کو اور الودہ کردیا ہے ۔ایسے میں لوگ اور بالخصوص کمزو ر یا سفید پوش طبقات کیا کریں اور کدھر جائیں او رکون ان کے دکھوں کا مداوا کرے گا ۔ عام سے گھروں میں بغیر اے سی او رکولر کے پندرہ پندرہ ہزار کے بل ظاہر کرتے ہیں کہ لوگوں کو معاشی خوشحالی کی منزل کمزور نظر آتی ہے ۔ایسے میں حکمران طبقہ کی جانب سے کم چائے پینے یا گھر سے باہر نہ نکلنے ، پیدل چلنے اور کفایت شعاری پر مبنی اہم مشورے لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا سبب بنتے ہیں ۔