Tag: معاشرہ

  • کنجوس، کفایت شعار اور سخی – امیرجان حقانی

    کنجوس، کفایت شعار اور سخی – امیرجان حقانی

    ہم عمومی طور پر روزمرہ زندگی میں لوگوں کو تین طبقات میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ کنجوس، کفایت شعار اور سخی۔ سچ کہا جائے تو یہ محض مالی رویے نہیں بلکہ دلوں کی کیفیت، ظرف کی وسعت اور شعور کی عکاسی ہیں۔ عمومی طور پر کنجوسی، کفایت شعاری اور سخاوت فطری صفات ہیں اور خاندانی بھی۔

    تاہم یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کنجوس ترین انسان کی نسلوں میں سخی لوگ پیدا ہوتے ہیں اور دریا دل رکھنے والے لوگوں کی اولاد میں بخیل ترین لوگ پیدا ہوتے ہیں مگر یہ کم ہی ہوتا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ کنجوسی ایک بیماری ہے، جو انسان کو دوسروں کے حق سے روک دیتی ہے، خواہ وہ حق مال کا ہو، وقت کا ہو، علم کا ہو یا محبت کا۔ ایسے لوگ سمندر کنارے بیٹھے بھی ہوں تو ہاتھ دھونے سے گریز کرتے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہاتھ دھونے سے پانی میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ان کے بارے میں فرمایا ہے۔

    [arabic]”الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ” (النساء: 37)[/arabic]
    “جو خود بھی بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کا حکم دیتے ہیں.”

    بہرحال کنجوسی ایک بہت بری صفت ہے۔ بندہ چاہیے تو باقاعدہ پریکٹس کے ذریعے اس پر قابو پایا سکتا ہے۔ کنجوسی اوربُخل کے مقابلے میں کفایت شعاری ایک توازن ہے۔ نہ اسراف، نہ بخل۔ نہ دکھاوا، نہ تنگ دلی۔ بلکہ اپنی استطاعت اور حالات کے مطابق سلیقے سے خرچ کرنے کا نام کفایت شعاری اور میانہ روی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ فرماتے ہیں۔

    [arabic]”وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا” (الفرقان: 67)[/arabic]
    “جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ درمیانی راہ اختیار کرتے ہیں۔”

    اور سخاوت؟ وہ دل کی کشادگی ہے، دریا دلی ہے، ایمان کی علامت ہے، روح کی حلاوت ہے۔ سخاوت صرف پیسے سے نہیں ہوتی، انسان اپنی محبت، دعا، وقت، علم، سوچ، نظریہ، دانائی، حکمت، بصیرت، اختیارات اور تعلقات میں بھی سخی ہو سکتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔

    [arabic]”السَّخِيُّ قَرِيبٌ مِنَ اللَّهِ، قَرِيبٌ مِنَ النَّاسِ” (ترمذی: 1961)[/arabic]
    “سخی، اللہ کے قریب، لوگوں کے قریب، جنت کے قریب اور جہنم سے دور ہوتا ہے.”

    اگر ہم غور کریں تو یہ تینوں صفات زندگی کے ہر شعبے میں ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک استاد ہے جو علم کا کنجوس ہے، نہ پوچھنے پر بتاتا ہے نہ خود کچھ سکھاتا ہے۔ ایک افسر ہے جو اختیارات رکھتا ہے، مگر انصاف نہیں دیتا۔ ایک بااثر شخص ہے، جو جائز سفارش کر سکتا ہے، لیکن خاموشی اختیار کرتا ہے۔ یہ سب بخل کی علامتیں ہیں۔ دوسری طرف، وہ لوگ بھی ہیں جو وسائل محدود ہونے کے باوجود علم بانٹتے ہیں، وقت دیتے ہیں، مشورے دیتے ہیں، کسی طالب علم کا ہاتھ پکڑتے ہیں، کسی بیمار کے لیے دعا کرتے ہیں، کسی غریب کی عزت بچاتے ہیں۔ یہی لوگ اصل میں سخی ہیں، یہی معاشرے کی روشنی ہیں اور انہیں سے کامیاب معاشروں کی پہچان ہے۔

    ہم جتنے وسیلے رکھتے ہیں، وہ آزمائش و امتحان ہیں۔مال و دولت ، علم و فن، عہدہ و اختیار ، وقت، تعلقات، اور ان سب چیزوں پر ہمارا رویہ ہی بتاتا ہے کہ ہم کنجوس ہیں، کفایت شعار یا سخی۔ ہمیں خود سے سوال کرنا چاہیے ہے کہ کیا ہم صرف اپنی جیب میں کنجوس ہیں یا دل، دماغ، وقت، اختیار، عہدہ، قلم اور تعلقات میں بھی؟ سخی بنئیے، چاہے آپ کے پاس کچھ نہ ہو۔ کیونکہ سخاوت مال کی نہیں، ظرف کی علامت ہے۔

    انسان ہر چیز سیکھ لیتا ہے، آج کے جدید دور میں ان صفات کے حصول کے لیے باقاعدہ ریاضیاتیں کی جاسکتی ہیں۔ خدانخواستہ اگر ہم میں کنجوسی اور بُخل کی کیفیت موجود ہے تو ہمیں اس سے دوری اختیار کرنے کے لیے باقاعدہ عملی مشق کرنی چاہیے، اس کی ایک ترتیب سخی لوگوں کی رفاقت اور مجالست بھی ہے۔ بہرحال اگر انسان سخی اور دریا دل نہیں بن سکتا تو کم از کم کفایت شعار تو بنے۔

  • عورت کہانی – ڈاکٹر صائمہ

    عورت کہانی – ڈاکٹر صائمہ

    عورت کی فطرت ایک ایسی ندی کی مانند ہے جو اپنی روانی میں نرمی اور شدت، دونوں کو سموئے رکھتی ہے۔ وہ جتنی بڑی ہو جائے، جتنے تجربات سے گزرے، اس کے اندر کا بچپن کبھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا۔ اسے محبت اور توجہ خوشی دیتی ہے، اور بے اعتنائی اس کے دل کو زخمی کر دیتی ہے۔

    ایک ہنستی کھیلتی عورت کے چہرے کے پیچھے اکثر وہ معصوم سی بچی چھپی ہوتی ہے جو چاہتی ہے کہ کوئی اسے سمجھے، اس کی قدر کرے، اس کی اہمیت کو تسلیم کرے۔ عورت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش مت کریں، کیونکہ جب عورت بغاوت پر آتی ہے تو وہ اپنے ہی نہیں، دوسروں کے وجود کو بھی ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ اس کی برداشت کی ایک حد ہوتی ہے، اور جب وہ حد پار ہو جائے، تو اس کی نرمی ایک طوفان میں بدل جاتی ہے۔ وہ صبر کرتی ہے، لیکن ظلم سہنے کے لیے پیدا نہیں ہوئی۔ وہ چاہتی ہے کہ اسے عزت دی جائے، اس کے جذبات کی قدر کی جائے، اور اسے ایک مکمل انسان سمجھا جائے، نہ کہ کوئی کمزور مخلوق جسے زیر کرنے کی ضرورت ہو۔

    اگر عورت کو محبت، عزت، اور حسنِ سلوک دیا جائے تو وہ نرم گھاس کی طرح جھک جاتی ہے، ہر رشتے میں اپنی وفا کا رنگ بھرتی ہے، ہر تعلق میں اپنی محبت کا لمس شامل کر دیتی ہے۔ جو اسے سمجھ لے، اس کے لیے وہ سب سے آسان اور خوبصورت حقیقت ہے، لیکن جو اسے قابو میں کرنے کی کوشش کرے، اس کے لیے وہ ایک ایسی پہیلی بن جاتی ہے جسے حل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی اس کا پیار چاہتا ہے، تو اس کے احساسات کی قدر کرے۔ اگر کوئی چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ ساتھ رہے، تو اس کی عزت کو اپنا فخر سمجھے۔

    شیکسپیئر کا ایک خوبصورت قول ہے کہ غصے سے بھری ہوئی عورت سے بحث کرنا ایسا ہی ہے جیسے طوفان میں اخبار کے صفحات پلٹنے کی کوشش کرنا۔ ایسی عورت کو دلیلوں سے نہیں، محبت سے جیتا جا سکتا ہے۔ جب وہ جذبات میں بہک جائے، جب اس کے الفاظ تلخ ہو جائیں، جب وہ خود کو ثابت کرنے پر آ جائے، تو اسے روکنے کے بجائے، اسے گلے لگا لیں، وہ خود ہی پرسکون ہو جائے گی۔ مرد اگر عورت کی چھوٹی غلطیوں کو معاف کرنا نہ سیکھے، تو وہ اس کی بڑی خوبیوں سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ عورت کامل نہیں، جیسے کہ کوئی بھی انسان نہیں ہوتا۔

    اگر کوئی اس سے محبت کرتا ہے تو اسے اس کی خامیوں سمیت قبول کرے، نہ کہ صرف اس کی خوبیوں کی وجہ سے۔ محبت کا اصل امتحان یہی ہے کہ ہم کسی کو اس کی خامیوں کے باوجود اپنائیں، اسے سنوارنے کی کوشش کریں، لیکن اسے توڑنے کی نہیں۔ عورت مرد کے سائے میں جینا چاہتی ہے، لیکن وہ اس کے ظلم کے نیچے دب کر مرنا نہیں چاہتی۔ وہ محبت کے نرم لمس کو چاہتی ہے، نہ کہ زبردستی اور سختی کو۔ اسے طاقت سے نہیں، احساس سے جیتا جا سکتا ہے۔ وہ ایک پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اور پسلی ہمیشہ دل کے قریب ہوتی ہے۔ وہ محبت، نرمی، اور ہمدردی سے بنی ہے، اور اسی کی مستحق بھی ہے۔

    اگر عورت کا دماغ اور دل مرجھا جائیں، اگر اس کی سوچیں بے رنگ ہو جائیں، تو صرف ایک فرد ہی نہیں، بلکہ پوری نسل متاثر ہوتی ہے۔ ایک باشعور عورت ایک پوری نسل کو باشعور بناتی ہے، اور ایک ٹوٹی ہوئی عورت کئی نسلوں کے بکھرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ عورت اس مرد سے محبت کرتی ہے جو اس کا صرف عاشق نہیں، بلکہ اس کا دوست، اس کا سہارا، اور اس کا ساتھی ہو۔ وہ مرد جو اس کی عقل کا احترام کرے، اس کی شخصیت کو سراہے، اس کے خوابوں کی قدر کرے۔ عورت کو بنایا ہی محبت کے لیے گیا ہے، اسے صرف سمجھنے کی کوشش میں الجھنے کے بجائے، بس اس پر محبت نچھاور کر دی جائے تو وہ خود سب کچھ آسان کر دیتی ہے۔

    وہ مرد جو عورت کے اندر کی اس معصوم بچی کو زندہ رکھ سکے، جو اس کی بے تکلفی اور ہنسی کو ہمیشہ برقرار رکھے، وہی عورت کے دل میں ہمیشہ رہ سکتا ہے۔ وہ ایک ساز کی مانند ہے، جو اپنی بہترین دھنیں صرف اسی کے لیے بجاتی ہے، جو اس کے نازک تاروں کو بجانے کا ہنر جانتا ہو۔ عورت ایک سمندر کی طرح ہے—اوپر سے خوبصورت اور پُرسکون، لیکن جب غصے میں آئے تو ایک طوفان، اور اندرونی طور پر اتنی گہری کہ اس کی تہہ تک پہنچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ جو اسے سطحی نظر سے دیکھے گا، وہ اسے سمجھ نہیں پائے گا، اور جو اس کے اندر جھانکے گا، وہ حیران رہ جائے گا کہ وہ کتنی گہری اور کتنی پراسرار ہے۔

    عورت کے لیے مرد وہ ہے جو اسے خوشی دے، اسے مضبوط کرے، اور نصیحت کرنے سے پہلے اسے سہارا فراہم کرے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ عورت آپ کا ساتھ دے، تو اس کے لیے ایک مضبوط دیوار بنیں، لیکن اس دیوار کا سایہ اس پر اتنا بھاری نہ ہو کہ وہ خود کو قید محسوس کرنے لگے۔ اپنی عورت کے لیے مرد بنیں، اس پر مردانگی مت جتائیں۔ اسے اپنائیں، اسے عزت دیں، اور اسے وہ مقام دیں جو اس کا حق ہے۔

  • یہ عشق ہے یا تماشہ؟ . ایڈوکیٹ عمر محمود وٹو

    یہ عشق ہے یا تماشہ؟ . ایڈوکیٹ عمر محمود وٹو

    شام کے سائے ڈھلتے ہیں، خاندان ٹی وی کے گرد جمع ہوتا ہے، کوئی چاہتا ہے دن بھر کی تھکن اچھے مناظر میں تحلیل ہو، کوئی چاہتا ہے ایک سادہ سا، خاندانی قصہ دیکھے، لیکن ٹی وی اسکرین پر جو چل رہا ہوتا ہے، وہ نہ محبت ہے، نہ رومانس، اور نہ ہی ادب۔

    پیمرا آخر کہاں ہے؟
    وہ ادارہ جو ہماری سکرینز کی حرمت کا نگہبان ہے، کیا وہ خوابِ غفلت میں ہے؟
    کیا اب ہمارے ہاں کوئی سکریننگ پالیسی باقی ہے؟
    کیونکہ جو کچھ ڈراموں میں دکھایا جا رہا ہے، وہ “فیملی انٹرٹینمنٹ” کے لبادے میں شرم و حیا کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔مثال کے طور پر ایک ڈرامے جس کا نام من مست ملنگ ہے اور یہ جیو ٹی وی پر چل رہا ہے۔ اس میں ہیرو کا کردار دانش تیمور اور ہیروئن کا کردار سہر ہاشمی کر رہی ہیں۔

    اس ڈرامے کا منظر ملاحظہ فرمائیں:
    مدھم روشنی میں لپٹے کمرے میں، ایک خوب رو دوشیزہ (ہیروئن) نازک اندام، بندھی ہوئی، بستر پر پڑی ہے۔ اس کی کلائیوں پر بندھے دوپٹے کی گرہیں جذبات اور جبر سے بندھی محسوس ہوتی ہیں۔ وہ تھکن، بےبسی اور سسکیوں کے درمیان اپنے ہاتھ آزاد کروانے کی لاحاصل کوشش میں ہے۔

    دروازہ کھلتا ہے، اور ایک دوسری لڑکی اندر آتی ہے۔ جیسے ہی اس کی نظر اس منظر پر پڑتی ہے، اس کے حواس ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ آنکھیں حیرت سے پھیل جاتی ہیں، جیسے زمین اس کے قدموں سے کھسک گئی ہو۔ وہ لڑکی چیخ اٹھتی ہے ، نہ صرف اس لیے کہ منظر تکلیف دہ ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ “محبت” کے نام پر ایسا کچھ دیکھنے کی ہرگز توقع نہ رکھتی تھی۔ اسے دیکھتے ہی بستر پر بندھی ہوئی ہیروئن بیساختہ بول پڑتی ہے کہ میری مدد کرو،۔ اس سے پہلے وہ کچھ کر پاتی اگلے ہی لمحے، ہیرو نمودار ہوتا ہے۔ وہ غصے میں چیختا ہے، ڈانٹتا ہے، اور سوال کرتا ہے:

    “تم یہاں کیا کر رہی ہو؟” لڑکی ڈرتے ہوئے کہتی ہے، “میں تو صرف کھانا دینے آئی تھی، مگر یہ سب؟”

    ہیرو اس سوال پر آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور لڑکی کی جانب بڑھتے ہوئے دھمکی دیتا ہے کہ اگلی باری تمہاری ہے، یہ دھمکی سن کر وہ لڑکی، جس نے صرف ایک سادہ نیت سے دروازہ کھولا تھا، اپنی عزت بچا کر وہاں سے بھاگتی ہے ، دل میں خوف لیے، زبان پر خاموشی لیے۔

    سوال یہ نہیں کہ وہ منظر کیا تھا ؟
    سوال یہ ہے کہ اس منظر کا مقصد کیا تھا؟
    کیا واقعی یہ رومانس تھا؟
    یا اخلاقیات کا جنازے کو، جبر کو، غصے کو، اور ضد کو “محبت” کے نام پر بیچنے کی ایک نئی کوشش؟
    بعد میں وہ لڑکی، سراسیمگی کے عالم میں کسی اور کو بتاتی ہے کہ “کبیر (ہیرو) نے ریا (ہیروئن) کو اپنے بستر پر باندھ رکھا ہے، اور اگلی لڑکی شیطانی مسکراہٹ سے سوال کرتی ہے، “باندھا ہوا ہے؟ مطلب؟” گویا اس نے منظر کو سنجیدگی سے نہیں، تفریح اور رومانوی انداز میں لیا، جیسے یہ سب کچھ نارمل ہے۔ پھولوں والی ہتھ کڑی نہ سہی بیلٹ اور ڈوبٹہ ہی سہی۔

    ایسے مناظر اب عام ہو چکے ہیں۔ وہ لمحے، جو کبھی آنکھیں جھکا دیتے تھے، اب ریٹنگز بڑھاتے ہیں۔ وہ باتیں، جو کبھی راز تھیں، اب اسکرین پر با آوازِ بلند سنائی دیتی ہیں۔ یہ المیہ ہے — اور بہت سنگین المیہ۔ پیمرا اور متعلقہ حکومتی اداروں کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اس جانب توجہ دیں۔ سنسر کرنے کے ساتھ ساتھ ادب اور اقدار کو محفوظ رکھنا ان کی ذمہ داری ہے۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ہمارے ڈرامے صرف “بیہودگیوں کے نظارے” ہوں گے ،احساس، خلوص، اور خاندانی محبت کی جھلک نہیں۔ یہ صرف ایک ڈرامے کی بات نہیں ،یہ نسلوں کی تربیت کا سوال ہے.

  • شہر  میں ایسے زندہ ہیں ہم  – سید مہدی بخاری

    شہر میں ایسے زندہ ہیں ہم – سید مہدی بخاری

    میں ایک ایسے شہر کے معاشرے کا فرد ہوں جہاں امیر کی بکواس بھی غور سے سنی جاتی ہے اور غریب کی چیخ و پُکار پر کان نہیں دھرے جاتے۔ جہاں سٹیٹس سمبل عزت کا استعارہ ہے۔ آئی فون، ویگو، فارچونر و پراڈو کھوکھلے لوگوں کو معتبری کی سند ہے۔

    اس قدر حبس بھرا ماحول ہے کہ سانس لینے کو اپنے اطراف کی آکسیجن خود پیدا کرنا پڑتی ہے۔ میں فارچونر یا پراڈو یا ریوو لے سکتا ہوں مگر نہیں لی اور نہیں لوں گا۔ مجھے اس کلچر کا حصہ نہیں بننا جس کا ہر وڈیرہ، بدمعاش ،سیاسی ایلیٹ، ٹچے کاروباری وغیرہ وغیرہ حصہ ہیں۔ دو سال قبل چاؤ سے رینج روور امپورٹ کروا لی تھی۔مجھے عالمی ادارے میں ہونے کے سبب ایک گاڑی صفر ٹیکس کے ساتھ یعنی ٹیکس فری درآمد کرنے کی سہولت تھی۔ میں دو ماہ گزار سکا اور میں بیزار ہو گیا۔ وہ ایک الگ قسم کا سٹیٹس سمبل بن چکی تھی۔ جہاں سے گزر ہوتا ہر بندہ سلام لینے لگتا۔ چوکی پر کھڑا سپاہی بھی ہاتھ کھڑے دیتا۔ میں نے وہ بوجھ گلے سے اتار دیا۔

    میں جہاں جاتا ہوں وہ ایک خاص طبقے کی محافل ہوتیں ہیں۔ دولتمند لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر ہو یا بابو کریسی سے ملنا ہو۔ ڈپلومیٹس ہوں یا حکومتوں کے کرتے دھرتے۔ میں نوکری بھگتا رہا ہوتا ہوں اور یہ دیکھ کر ہنستا رہتا ہوں کہ کیسی کیسی بکواس سننا پڑ رہی ہے۔ انٹلیکٹ دیکھ کر تو خدا بھی دولت نہیں دیتا۔ کیسے کیسے “نگینے” بھری جیب کے ساتھ کیسےکیسے “دانش” کے موتی بکھیرتے ہیں اور بھرا ہوا ہال ان کی کھانسی پر بھی تالیاں پیٹنے لگتا ہے۔ بطور سیاح جب ان بڑے شہروں اور بڑی دعوتوں سے دور پاکستان کو دیکھتا ہوں تو بھوک ہی مر جاتی ہے۔ دشت و کوہ میں بستا انسان سو روپے کی نائلون سے بنی جوتی خریدنے کی سکت بھی نہیں رکھتا۔

    وہاں لوگ گرم ریت پر ننگے پاؤں چلتے دیکھتا ہوں۔ پانی کی بات ہی کیا کرنی۔ وہ ہو تو کوئی بات بھی کروں۔ پانی کے حصول واسطے میلوں کا سفر زندہ رہنے کی کاوش میں کیا جاتا ہے۔ صحت و تعلیم کا حال کیا لکھنا میں ان واقعات پر لکھنے لگوں تو پوری ایک کتاب کا مضمون ہے۔ پھر نوکری کا کلچر ہے جس میں کام کرتا ہر پرزہ شاہ سے بڑھ کر شاہ کا وفادار بننے کی کوشش میں دل و جان سے لگا رہتا ہے۔ یعنی وہ وسائل جو اس واسطے مختص ہیں کہ عوام الناس کی فلاح واسطے خرچ ہوں ان کو بچا کر یعنی کاسٹ کٹنگ کر کے اور نتیجتہً عوام کو ایک گھٹیا معیار کی پراڈکٹ دے کر اپنے ادارے کے سامنے سینہ تان کر کہتا ہے “ دیکھا اتنے پیسے بچا لئے”۔

    یہ بھی دیکھتا رہتا ہوں کہ ایسوں کو ہی شاباش دی جاتی ہے اور ایسوں کو ہی تنخواہ میں سپیشل بونس سے نوازا جاتا ہے۔ عوام جائے بھاڑ میں۔ شہر کے لئے عالمی اداروں کے فنڈز میں سے ساٹھ فیصد حصہ مینجمنٹ کاسٹ یعنی عملے کی بھاری تنخواہوں، گاڑیوں کی آمد و رفت میں لگنے والے پٹرول و ڈیزل، اور رہائشی و تفریحی و طعامی سرگرمیوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ بیس فیصد حصہ مقامی ٹھیکیدار لے اُڑتے ہیں جن کو ٹینڈر دیا جاتا ہے۔ بقیہ بیس فیصد میں سے اگر اہل علاقہ کی قسمت اچھی ہو تو دس فیصد گراؤنڈ تک ڈلیور ہو جاتا ہے یعنی ان پر لگ جاتا ہے۔ سرکاری پراجیکٹس یا فنڈز کا حساب ہی نرالا ہے۔ وہ لوٹ کا مال ہوتا ہے اور بس۔

    تبھی جب آپ دیکھتے پڑھتے ہیں کہ دس کلومیٹر کی ایک ذیلی سڑک پر لگی تختی پر کُل لاگت پچپن کروڑ لکھی ہے تو نجانے کیوں آپ حیران ہوتے ہیں۔ میں تو نہیں ہوتا۔ شکر ادا کرتا ہوں کہ سڑک جیسی تیسی بن تو گئی اور تارکول کی پتلی تہہ برائے خانہ پُری بچھا تو دی۔ وگرنہ میں نے تو گھوسٹ سکولز، ہوائی قلعے اور غیبی پراجیکٹس بھی دیکھ رکھے ہیں جو کاغذوں میں مکمل اور دھرتی سے غائب ہیں۔

    میڈیا اور سوشل میڈیا پر جھوٹ اور نرا جھوٹ، پروپیگنڈا، ٹچا پن، بغیرتی،نیچ حرکات، باندر تماشے، اور رات کو دن کرنے کا دھندا چلتا رہتا ہے۔ منبر پر کفر کے فتویٰ ہیں۔ اہل محلہ اک دوجے کے گریبان تھامے کھڑے ہیں۔ گھروں میں گھریلو منافقت پل رہی ہے۔ خاندان میں حسد پھلتا ہے۔ دوستوں میں کوئی حقیقی دوست نہیں ہوتا۔ سب بظاہر ایک دوسرے کو فیس ویلیو پر لے رہے ہیں۔ الفاظ وہی ہیں مگر گودا غائب ہے۔ شہر کی میز پر گفتگو کے چھلکوں کا انبار ہے۔ روز ساتھ بیٹھنے والوں میں اب یہ لاشعوری احتیاط اور ٹٹول بھی در آئی ہے کہ اللہ جانے پردے کے پیچھے کیا ہے۔ کہیں یہ بھیڑیا تو نہیں، سور تو نہیں، تیندوا تو نہیں، بندر تو نہیں، طوطا، چڑیا تو نہیں۔ہو سکتا ہے جسے میں شہر کا خرگوش سمجھ رہا ہوں دراصل سانپ ہو اور جو کل تک مینا تھی آج وہی مینا دراصل بچھو ہو۔

    ادبی و ثقافتی پروگراموں کے نام پر گھٹیا حرکات بھی جاری ہیں۔ لوگ لطیفے سناتے بھی ہیں ان پر ہنستے بھی ہیں اور موبائل فون کے سیلفیانہ بخار میں بھی باقی دنیا کی طرح مبتلا ہیں۔ کرپشن کو ہنس کے ایسے ہی ٹالا جاتا ہے جیسے نائجیریا،کانگو اور سوڈان وغیرہ میں۔یہاں قوانین اور ان پر عمل درآمد اتنا ہی مضحکہ خیز ہے جتنا کسی بھی ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔ شہر میں بھکاری سے لے کر صنعت کار تک سب ہی کل کی طرح روتے بھی جاتے ہیں، کماتے بھی جاتے ہیں۔حسد، کینہ، بغض، شیطانیت، انسانیت، خواتین کا احترام و بے حرمتی، بچوں کی پرورش و عدم پرورش سب کچھ وہی ہے جو کسی بھی فوجی و سویلین، دائیں یا بائیں کے دور میں ہوتا ہے۔پھر بھی کچھ ہے جو پاکستانی سماج سے چھن گیا ہے۔

    مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ کیا چھن گیا ہے مگر ہاں شہر کے لوگ اب خالص سچ بولتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ دل کھول کے سامنے نہیں رکھتے بلکہ سامنے والے کا ذہنی ناپ لے کر ایسا باتونی لباس سیتے ہیں جو سننے والے کو تنگ محسوس نہ ہو۔ سب پرتپاک ہیں لیکن کسی کو کسی پر یقین نہیں کہ کس کے ڈانڈے کہاں پر مل رہے ہیں۔ میرے منہ سے نکلی بات کا دوسرا کیا مطلب لے گا اور اس پر کیا ردِعمل دے گا۔ یہ ردِعمل فوری ہوگا یا بعد میں کسی اور شکل میں سامنے آئے گا۔ ہاں یہی سماج تھا جہاں کبھی ننگی آمرانہ فضا میں بھی کوئی بات کہتے ہوئے دائیں بائیں نہیں دیکھنا پڑتا تھا۔ حساس ترین مذہبی و غیر مذہبی معاملات پر دوستوں سے الجھتے ہوئے بھی کوئی اندر سے لگامیں نہیں کھینچتا تھا۔

    رک جا، ابے رک جا، پاگل ہوگیا ہے کیا،لیکن اب یوں لگتا ہے کہ ہوا تیز چل رہی ہے مگر سانس رک رہی ہے۔ بظاہر کوئی کسی پر نگراں نہیں مگر ہر کوئی اپنا ہی ہمہ وقت نگراں ہے۔ سب آزاد گھوم رہے ہیں مگر اپنی سوچ اور روح اپنی ہی زنجیروں میں جکڑے ہوئے۔ صرف اس لالچ میں کہ اس جیسی کیسی زندگی کے چند دن اور میسر آ جائیں کہ جس شہر سے ہر کوئی تنگ ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر میں بہت کچھ دیکھ، سُن اور پرکھ رہا ہوتا ہوں۔ بہت کچھ اگنور کر کے لائٹ موڈ میں رہنے اور جینے کا فن بھی سیکھ چکا ہوں۔ پھر بھی یہ معاشرہ ایسا ظالم ہے کہ کبھی کبھی سانس بھی چھیننے لگتا ہے۔ تب میرا ضبط بھی جواب دے جاتا ہے اور میں چیخنے لگتا ہوں۔ صبر کا پیمانہ چھلکتا ہے تو مزاج اور تحریر میں بھی تلخی آ جاتی ہے۔ اس سب کے باوجود میں دعا گو رہتا ہوں کہ میں نہیں تو میری اگلی نسل اس عذاب سے نکل پائے۔

    ایسی فضا کے قہر میں ، ایسی ہوا کے زہر میں
    زندہ ہیں ایسے شہر میں اور کمال کیا کریں[/poetry]

  • تربیت یافتہ خاندان اور مثالی معاشرے کے قیام کے زریں اصول – عاطف ہاشمی

    تربیت یافتہ خاندان اور مثالی معاشرے کے قیام کے زریں اصول – عاطف ہاشمی

    خاندان انسانی معاشرے کی اہم اکائی ہے، کہ انسانی معاشرہ خاندان کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے، اور ایک تربیت یافتہ خاندان ہی ایک صالح اور مثالی معاشرے کی ضمانت دیتا ہے۔ اسی لیے اسلام میں والدین اور اولاد کے باہمی تعلقات، گھر اور معاشرے کی تربیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر ان موضوعات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، خاص طور پر سورہ مریم اور سورہ طہ میں ہمیں ایسے اصول ملتے ہیں جو نہ صرف ایک اچھے خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں بلکہ ایک منظم قوم اور معاشرے کی تشکیل میں بھی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ سورہ مریم میں والدین اور اولاد کے تعلقات اور ان کی ذمہ داریوں کا ذکر کیا گیا ہے، جبکہ سورہ طہ میں قوم اور معاشرے کی تربیت کے اصول واضح کیے گئے ہیں، یہ دونوں سورتیں مل کر ہمیں ایک جامع تربیتی خاکہ فراہم کرتی ہیں، جس پر عمل کر کے ہم ایک مضبوط خاندان اور ایک مثالی معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔

    سورہ مریم: والدین اور اولاد کے تعلقات:
    سورہ مریم میں اللہ تعالیٰ نے والدین اور اولاد کے درمیان محبت، ادب، اور ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کے پہلے دو رکوعوں میں حضرت زکریا، حضرت مریم، اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے واقعات کے ذریعے اولاد کے حصول، والدین کی دعائیں، اور اولاد کی نیک صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔

    والدین کی دعا اور اولاد کی پرورش:
    والدین کی ذمہ داری صرف اولاد کو دنیا میں لانے تک محدود نہیں بلکہ ان کی نیک تربیت کرنا بھی ان کی اہم ذمہ داری ہے۔ حضرت زکریا کی دعا اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک نیک اولاد کے لیے صرف مادی اسباب پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرنی چاہیے:
    [arabic]رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً ۖ إِنَّكَ سَمِيعُ ٱلدُّعَاءِ (سورہ آل عمران: 38)[/arabic] “اے میرے رب! مجھے اپنی طرف سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا سننے والا ہے۔” یہ دعا اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ اولاد محض دنیاوی نعمت نہیں بلکہ ایک عظیم ذمہ داری ہے جسے پورا کرنے کے لیے والدین کو اللہ تعالیٰ کی مدد درکار ہوتی ہے۔

    والدین کے ساتھ حسنِ سلوک:
    سورہ مریم میں والدین کے احترام اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی گئی ہے۔ خاص طور پر حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے بعد جب ان پر الزام لگایا گیا، تو انہوں نے اللہ کے حکم سے گہوارے میں کلام کرتے ہوئے فرمایا: [arabic]وَبَرًّاۢ بِوَٰلِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا” (سورہ مریم: 32)[/arabic] “اور اس نے مجھے اپنی والدہ کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا بنایا اور مجھے سرکش اور بدبخت نہیں بنایا۔” یہ آیت واضح کرتی ہے کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا ایک نیک اولاد کی پہچان ہے۔ اسی طرح، حضرت یحییٰ کے بارے میں بھی فرمایا گیا: [arabic]وَبَرًّاۢ بِوَٰلِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّارًا عَصِيًّا (سورہ مریم: 14)[/arabic] “اور وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے والے تھے اور وہ سرکش اور نافرمان نہ تھے۔”

    والدین کی غلطیوں کے باوجود ان سے حسن سلوک:
    سورہ مریم کے تیسرے رکوع میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے مشرک والد کے ساتھ مکالمہ ذکر کیا گیا ہے، جس میں انہوں نے اپنے والد کے کفر کے باوجود پیار سے خطاب کیا اور ان کے لئے ہدایت کی دعا کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک نیک تربیت یافتہ بیٹا اپنے والد کے غلط عقائد کے باوجود بھی ان سے محبت اور احترام کے ساتھ بات کرتا ہے۔

    چوتھے رکوع میں پہلے حضرت موسیٰ کے گھر والوں کو دین پر چلنے کی نصیحت کا تذکرہ ہے اور پھر ان انبیاء کا ذکر ہے جن کی اولاد دین کی حامل ہوئی۔ اس کے بعد ایسی ناخلف اولاد کی مذمت کی گئی جو نمازوں کو ضائع کرتی اور اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق زندگی گزارتی ہے۔ پانچویں رکوع میں روز قیامت جی اٹھنے اور دینی تربیت کے موافق زندگی گزارنے والوں کے لیے نجات کی خوشخبری ہے۔ جبکہ آخری رکوع میں ایک اہم حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور وہ یہ کہ اولاد کا ہونا انسانی ضرورت ہے، اللہ کی ذات پر قسم کی ضرورت سے پاک ہے۔ اور ایسے لوگوں کو انتہائی سخت الفاظ میں وعید سنائی گئی ہے جو اللہ کے لیے اولاد کا دعویٰ کرتے ہیں۔پوری سورت کا مرکزی مضمون یہی ہے کہ اولاد کی دینی و اخلاقی بنیادوں پر تربیت کی جائے، اور چونکہ سب سے پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہوتی ہے اس لیے سورہ مریم کا نام ایک ماں کے نام پر رکھا گیا ہے۔

    سورہ طہ: قوم اور معاشرے کی تربیت:
    جہاں سورہ مریم میں والدین اور اولاد کے درمیان تعلقات اور ذمہ داریوں کا ذکر کیا گیا ہے، وہیں سورہ طہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں بنی اسرائیل کی تربیت اور ان کے مزاج کی تفصیل سے وضاحت کی گئی ہے۔ بنی اسرائیل ایک ایسی قوم تھی جسے اللہ نے فرعون کے ظلم و ستم سے نجات دی، مگر وہ مسلسل آزمائشوں اور ہدایت کے باوجود بے صبری اور سرکشی کا مظاہرہ کرتی رہی۔ ان کی تربیت کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو وحی، معجزات اور واضح احکامات دیے، مگر وہ بار بار گمراہی کا شکار ہوتے رہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوہِ طور پر بلایا تاکہ انہیں تورات دی جائے، جو بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے ایک مکمل شریعت تھی: [arabic]وَوَاعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَاثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً (سورہ طہ: 12)[/arabic] “اور ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور پھر اسے دس (مزید) سے پورا کر دیا، پس اس کے رب کا وعدہ چالیس راتوں میں پورا ہو گیا۔” تو حضرت موسی اپنے بھائی حضرت ہارون کو اپنا نائب مقرر کر کے گئے، جس سے قیادت کے لیے نائب کی تعیین کا اصول بھی سامنے آتا ہے. ان کی غیرموجودگی میں بنی اسرائیل نے بچھڑے کی پرستش شروع کر دی، جو کہ سامری نامی شخص نے ان کے لیے بنایا تھا۔ سامری نے چالاکی سے ان کے اندر شرک کی رغبت پیدا کی، اور وہ حضرت ہارون کی نصیحت کے باوجود گمراہی کی طرف مائل ہو گئے: [arabic]فَرَجَعَ مُوسَىٰ إِلَىٰ قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا قَالَ يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ أَمْ أَرَدتُّمْ أَن يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَخْلَفْتُم مَّوْعِدِي (سورہ طہ: 86)[/arabic] “پس موسیٰ اپنی قوم کی طرف غصے اور افسوس کے ساتھ واپس آئے، فرمایا: اے میری قوم! کیا تم سے تمہارے رب نے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا؟ کیا تم پر (انتظار کا) وقت طویل ہو گیا تھا، یا تم نے ارادہ کیا تھا کہ تم پر تمہارے رب کا غضب نازل ہو، جو تم نے میرے وعدے کی خلاف ورزی کی؟”

    حضرت موسیٰ جب واپس آئے تو انہوں نے اپنی قوم کو بچھڑے کی عبادت کرتے دیکھا، جس پر انہیں سخت غصہ آیا۔ انہوں نے حضرت ہارون کو اس معاملے پر سخت الفاظ میں مخاطب کیا اور ان کی داڑھی اور سر کے بال پکڑ لیے: [arabic]قَالَ يَا هَارُونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا أَلَّا تَتَّبِعَنِ أَفَعَصَيْتَ مْرِي قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي إِنِّي خَشِيتُ أَن تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي (سورہ طہ: 92-94)[/arabic] “موسیٰ نے کہا: اے ہارون! جب تم نے انہیں گمراہ ہوتے دیکھا تھا تو تمہیں کس چیز نے روکا کہ تم میری پیروی نہ کرو؟ کیا تم نے میرے حکم کی نافرمانی کی؟ ہارون نے کہا: اے میری ماں کے بیٹے! میری داڑھی اور میرے سر کے بال نہ پکڑو، میں تو اس بات سے ڈرا کہ کہیں تم یہ نہ کہو کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میرے حکم کا پاس نہیں رکھا۔”

    اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رہنما کو اپنے نائب اور ماتحتوں کا محاسبہ بھی کرتے رہنا چاہیے اور ضرورت پڑنے پر اصلاح کی غرض سے کبھی سختی سے بھی کام لیا جا سکتا ہے۔ یہ آیات ہمیں قیادت، محاسبے، اور تنظیمی ڈھانچے کے اصول سکھاتی ہیں، جو کسی بھی معاشرے کی اصلاح اور ترقی کے لیے ناگزیر ہیں۔

    سورہ طہ کے آخر میں گھروالوں کو نماز کی تلقین پر رزق میں فراوانی اور ابدی سعادت کا وعدہ کیا گیا ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ خود بھی صبر کے ساتھ اللہ کی اطاعت میں زندگی بسر کریں اور اپنے اہل خانہ کو بھی اسی کا حکم کریں۔”وامر اھلک بالصلاۃ واصطبر علیھا، لانسئلک رزقا نحن نرزقک، والعاقبۃ للتقوی”کہ دینی واخلاقی تربیت کرتے رہیں، اس نہج پر چلنا ہی سعادت، رزق میں اضافے اور انجام خیر کا سبب بنے گا۔

    سورہ مریم اور سورہ طہ میں والدین اور اولاد کے تعلقات، خاندان کے استحکام، اور قوم کی تربیت کے اصول واضح کیے گئے ہیں۔ ایک کامیاب معاشرہ تبھی تشکیل پاتا ہے جب:
    والدین اپنی اولاد کی نیک تربیت کریں اور ان کے لیے دعاگو رہیں۔
    اولاد والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرے اور ان کا احترام کرے۔
    قیادت کو. کبھی سختی اور کبھی نرمی سے کام لینا چاہیے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سختی اختیار کی، جبکہ حضرت ہارون علیہ السلام نے نرمی کا راستہ اپنایا۔
    سربراہ اور قیادت کی غیر موجودگی میں نائب مقرر کیا جائے اور اس کا محاسبہ کیا جائے۔
    گھر کے سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اہل خانہ کو نماز اور اچھائی کی تلقین کرتا رہے۔
    یہ تمام اصول اسلامی معاشرت کے بنیادی ستون ہیں، جن پر عمل کر کے ایک تربیت یافتہ خاندان اور مثالی معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے۔

  • عامر خان ہندی سیکولرزم کا اسلامی نام – ڈاکٹر حسیب احمد خان

    عامر خان ہندی سیکولرزم کا اسلامی نام – ڈاکٹر حسیب احمد خان

    عامر خان صاحب کی بابت مجھے کبھی کوئی ابہام نہیں رہا گو کہ یہ میرے پسندیدہ اداکار رہے ہیں، لیکن ان کے دینی افکار و نظریات پر ہمیشہ سے ایک سوالیہ نشان رہا ہے. اک زمانے میں ہمارے ملک کے ایک بڑے شیریں بیان واعظ صاحب نے عامر خان کو گود لیکر اسلامیانے کی پوری کوشش کی تھی. لیکن حقیقت زیادہ دیر نگاہوں سے اوجھل نہیں رہتی ، یہ 2015 کی بات ہے کہ جب عامر خان صاحب کی فلم “پی کے” منظر عام پر آئی کہ جو وحدت ادیان کی فکر کا کھلا مظہر تھی، اور اس کے اکثر عنوانات خالص الحادی تھے. ہمارے یہاں اس فلم کو بھی بہت اچھالا گیا. خادم نے 2015 میں ہی اس پر ایک تنقیدی کالم لکھا تھا، وہ پھر سے پیش خدمت اور عامر خان سائیکولوجی کو سمجھنے میں مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

    “پی کے ہو کیا؟”… بچے کی آواز میرے کان میں پڑی تو میں چونکا.
    “ارحم عمران ادھر آؤ.”
    “جی سر…!”
    “یہ تم کیا بول رہے تھے”.
    “سر آپ نے وہ فلم نہیں دیکھی”.
    “کون سی فلم؟”
    “سر آپ بھی نہ بالکل پی کے ہیں”.
    “ارحم…!”، میں نے سختی سے تنبیہ کی .

    گھر آکر میں نے موویز سے متعلق سب سے بڑی ویب سائٹ (Imdb) کو چیک کیا تو (8.5) ریٹنگ کی اس فلم کی کوئی کونٹینٹ ا یڈ وائس یا [english](parental guidance for movies)[/english] موجود نہیں تھی. جب فلم دیکھی تو معلوم ہو کہ یہ ریٹڈ آر مووی ہے، جس میں انتہائی قابل اعتراض اور قبیح مواد موجود ہے ۔مغرب کے مادر پدر آزاد معاشرے میں بھی اتنی اخلاقیات موجود ہے کہ وہ اپنا سودا جھوٹ بول کر نہیں بیچتے فلموں کےلیے انہوں نے ریٹنگ کا ایک خاص نظام ترتیب دیا ہے. جو یہ بتلاتا ہے کہ کون سی فلم کون سے صارفین کےلیے مناسب ہے ،اور کس فلم کا مواد جنسی مضامین یہ تشدد کے درجات کے اعتبار کتنا درست ہے۔

    ڈانسنگ کار یا جنسی عمل کے معا ونات کے حوالے کوئی ایسی کمتر چیز ہیں کہ انھیں نظر انداز کر دیا جاوے. یا کھلے عام بوس و کنار اتنی چھوٹی شے ہے کہ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر والدین بخوشی دیکھ سکیں. اسے کم سے کم الفاظ میں بےغیرتی کہا جا سکتا ہے جبکہ اس پر پیمرا کا کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا. کیونکہ اس سے ملک کے وقار کو ٹھیس نہیں پہنچتی . (اس دور میں پاکستان میں ہندی فلموں کی نمائش کی اجازت تھی). دوسری طرف سوشل میڈیا کے دیندار خوش ہو ہو کر بغلیں بجا رہے تھے کہ شاید کوئی بہت بڑا میدان فتح ہوگیا ہے اور توحید و شرک کا کوئی بہت بڑا معرکہ سر کر لیا گیا ہے چونکہ فلم کے مشہور و معروف ہیرو نے کچھ عرصے پہلے پاکستان کے ایک معروف مبلغ اور داعی مولانا طارق جمیل صاحب سے ملاقات کی تھی. اسلئے اس فلم کو انکے کھاتے میں ڈالنے کی گمراہ کن کوشش بھی کی گئی ۔

    فلم کو اگر تحقیقی نگاہ سے دیکھاجائے تو معلوم ہوگا کہ یہ فلم ہندو مذہب کے خلاف نہیں یا کسی بھی مذہب کی مذہبی رسومات کے خلاف نہیں. بلکہ یہ فلم ایک مذہب مخالف فلم ہے چونکہ ہر مذہب کچھ عقائد عبادات رسومات اور معاملات کا مجموعہ ہوتا ہے. اور اس فلم میں ہر زاویے سے دینی اقدار کا مذاق اڑایا گیا ہے . ہم یہ دیکھتے ہیں کہ فلم کی ابتدا میں فلم کے ہیرو برہنہ دکھائی دیتے ہیں چونکہ وہ ایک ایسی دنیا سے برآمد ہوے ہیں جو اس دنیا سے کہیں زیادہ جدید ترین ہے اور وہاں لباس جیسی فضولیات کی ضرورت نہیں. انیسویں صدی کے اوائل میں جرمنی میں ایک تحریک شروع ہوئی جس کا نعرہ تھا:” لباس سے مکمل آزادی”
    [english]
    (In the early 1900’s in Germany, a movement called Freikorperkultur (Free Body Culture) arose. This movement was the first real organization of social nudism. It was a time of the shedding of not only clothes, but also the hidebound values and thinking’s left from Victorian England. In the early 1900’s, several noted authors published papers which advocated the removal of clothing as well as an enlightened thinking about the human body. It implored citizens to quit thinking of the human body as sinful and shameful. A book entitled The Cult of the Nude written by noted German sociologist Heinrich Pudor, promoted naturist theories.) [/english]

    ایک طرف فرائیڈ کے جنسی نظریات تو دوسری طرف ننگی تہذیب کی پڑتی ہوئی بنیادیں۔چونکہ لباس کسی بھی تہذیب کی علامت ہوتا ہے اور کسی بھی خطے کے لوگوں کا لباس صدیوں میں بنتا ہے لباس سے چھٹکارا صرف لباس سے چھٹکارا نہیں بلکہ اس کا مقصود آپ کی تہذیب اور تاریخ سے برأت ہے .دوسری طرف جدید دنیا سے آنے والے ایلین عامر خان صاحب زبان و بیان کی قیود سے بھی آزاد ہیں جیساکہ لباس تہذیب کی علامت ہے ایسے ہی زبانیں بھی صدیوں میں مختلف مدارج و مراحل طے کرکے معاشروں میں اپنا ایک خاص مقام حاصل کرتی ہیں زبانیں کسی بھی قوم کے اظہار کا واحد راستہ اور ذریعہ ہوتی ہیں.(اور اب بیٹی ہندو لڑکے کے حوالے فرما دی ہے)

    دوسری طرف موصوف ہندو مسلم شادیوں میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے جناب خود ایک ہندو بیوی بھگتا کر دوسری کی زلف کے اسیر ہیں اور یہی کلچر انڈو پاک میں متعارف کروانا چاہتے ہیں۔ ہندی فلموں کا یہ پرانا حربہ ہے کہ ہندو مسلم شادیوں کو پروموٹ کیا جاتا رہا ہے جبکہ یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے. ایک مسلمان مرد کو کتابیہ سے شادی کی اجازت تو ضرور ہے .لیکن کسی بت پرست سے شادی اسلام میں جائز نہیں اور یہ کوئی اختلافی فقہی مسلہ نہیں بلکہ قرآن و سنت سے ثابت شدہ ایک اجماعی معاملہ ہے جی جناب سرفراز تو دھوکہ نہیں دیگا لیکن آپ جو دھوکہ مسلم قوم کو دےرہے ہیں وہ بھی کچھ کم خطرناک نہیں ہے .

    اب آتے ہیں فلم کے مندرجات کی طرف ….
    ایک سین میں ایک مسیحی پادری ایک ہندو کو دین کی دعوت دے رہا ہے اور وہ ہندو کہ رہا ہے ” رانگ نمبر “. اگر خدا یہ چاہتا کہ میں عیسائی ہو جاؤں تو مجھے ہندو پیدا ہی کیوں کرتا . لیجئے دلیل کے ساتھ کسی بھی مذہب کی دعوت کا دروازہ ہی بند اب ہمارے وہ مسلمان ” کتاب رخی ” مفکرین جو اس فلم کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے نہیں تھک رہے تھے کیا فرماتے ہیں کیا دین کی دعوت کا دروازہ بند کر دیا جاوے .دوسری طرف ایک سین میں موصوف مختلف مذاہب کی مذہبی رسومات سرنجام دیتے دکھائی دیتے ہیں. چونکہ ایک سین میں وہ ایک مزار کی بےحرمتی کرنے چلے تھے اور دوسرے سین میں ماتم کرتے دکھائی دیتے ہیں. سو ہمارے وہابی طبقے نے یہ خیال کیا کہ جناب یہ تو حق سچ توحید کی دعوت ہو گئی .

    لیکن غور کیجئے اندر کی تلبیس پر موصوف تمام ہی مذہبی رسومات کے خلاف ہیں اور ان میں عبادات کی کوئی تخصیص نہیں .دوسری طرف پی کے کا بنیادی کردار جس دنیا سے نمودار ہوتا ہے، وہاں کوئی مذہب سرے سے موجود ہی نہیں ہے بلکہ اس جدید ترین دنیا میں کسی خدا کی کوئی گنجائش نہیں. اسی وجہ سے پوری فلم میں پی کے صاحب ادھر ادھر یہاں وہاں بھٹکتے دکھائی دیتے ہیں. یہاں واضح یہ تصور پیش کیا جا رہا ہے کہ اس بدلتی ہوئی جدید دنیا میں مذہبی کی کوئی گنجائش موجود نہیں تمام مذہبی عقائد و نظریات متروک ہو جانے والی چیز ہیں .خان صاحب کھل کر مذہب کی مخالفت نہیں کرتے لیکن فلم کے ہدایت کار راج کمار ہیرانی نے حقیقت کھول کر بیان فرما دی ہے .< ہیرانی صاحب فرماتے ہیں کہ فلم پی کے کی فکری بنیاد " سنت کبیر " کے افکار پر رکھی گئی ہے آج کتنے لوگ سنت کبیر سے واقف ہیں اگر نہیں واقف تو ہم بتلاتے ہیں۔ [english] "Our film is inspired by the ideas of Sant Kabir and Mahatma Gandhi. It is a film, which brings to fore the thought that all humans who inhabit this planet are the same. There are no differences," he said in a statement[/english] آگے فرماتے ہیں. [english] I have the highest respect for the concept of 'Advait'- the oneness of all humans - that is central to Indian culture, thought, and religion[/english] بھگت کبیر نے اسلام اور ہندوازم کا وہ ملغوبہ تیار کیا تھا جس میں مذہبی عبادات کی کوئی خاص شکل مطلوب و مقصود نہیں. آپ کو ہندو یا مسلم کہلوانے کی بھی ضرورت نہیں. خدا ان مذہبی حدود و قیود میں مقید نہیں بلکہ یہاں تو ہر شے خدا ہے. " ہمہ اوست " کا یہ گمراہ کن نظریہ آج بھی مسلمانوں کے ایک طبقے میں موجود ہے. کبیر کا دور ١٤٤١ سے ١٥١٨ تک کا ہے جبکہ ا شہنشاہ اکبر کی پیدائش ١٥٤٢ میں ہوتی ہے. یہ وہ دور تھا جب بر صغیر کو گمراہ کن صوفیت نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اور اکبر کے نو رتنوں میں بیربل اور ابو الفضل جیسے گمراہ لوگ شامل تھے جنہوں نے اکبر کو اسی فلسفے کی طرف راغب کیا جو وحدت ادیان کا فلسفہ تھا. دینَ الٰہی مغل بادشاہ، اکبر نے اپنے دور میں، ایک نئے مذہب کی شروعات کی، جس کا نام دین الٰہی رکھا۔ اس مذہب کا مقصد، تمام مذاہب والوں کو یکجا کرنا اور، ہم آہنگی پیدا کرنا تھا۔ اکبر کے مطابق، دین اسلام، ہندو مت، عیسائیت، سکھ مذہب، اور زرتشت مذاہب کے، عمدہ اور خالص اُصولوں کو اکھٹا کرکے ایک نیا دینی تصور قائم کرنا، جس سے رعایا میں نا اتفاقیاں دور ہوں اور، بھائی چارگی قائم ہو۔ اکبر دیگر مذاہب کے ساتھ خوش برتاؤ کرنے اور، دیگر مذاہب کی قدر کرنے کا مقصد رکھتا تھا۔ اس مذہب کے فروغ کیلیے اکبر نے فتح پور سکری شہر میں ایک عمارت کی تعمیر کی جس کا نام عبادت خانہ رکھا۔ اس عبادت خانے میں تمام مذہب کے لوگ جمع ہوتے اور، مذہبی فلسفہ پر بحث و مباحثہ کرتے۔ ان بحث و مباحثہ کے نتائج میں اکبر نے یہ فیصلہ کیا کہ حق، کسی ایک مذہب کا ورثہ نہیں ہے، بلکہ ہر مذہب میں حق اور سچائی پائی جاتی ہی۔ دین الٰہی، اپنی مخلوط تصورات کو، اور دین کے تحت اپنے فکر و فلسفہ کو عملی صورت میں، دین الٰہی پیش کیا۔ اس نئی فکر کے مطابق، اللہ کا وجود نہیں ہے اور نبیوں کا وجود بھی نہیں ہے۔ تصوف، فلسفہ اور فطرت کی عبادت ہی عین مقصد ہے۔ اس نئے مذہب کو اپنانے والوں میں سے دم آخر تک بیربل رہا۔ اکبر کے نو رتنوں میں سے ایک راجا مان سنگ جو سپاہ سالار بھی تھا، دین الٰہی کی دعوت ملنے پر کہا کہ؛ میں مذاہب کی حیثیت سے ہندو مت اور اسلام ہی کی نشاندہی کرتا ہوں، کسی اور مذہب کو نہیں۔ مباد شاہ کی تصنیف شدہ کتاب دبستان مذاہب کے مطابق، اس دین الٰہی مذہب کے پیرو کار صرف 19 رہے۔ اور رفتہ رفتہ ان کی تعداد بھی کم ہوگئی۔ دین الٰہی ایک فطری رواجوں پر مبنی مذہب تھا. اس میں شہوت، غرور و مکر ممنوع تھا، محبت شفقت اور رحیمیت کو زیادہ ترجیح دی گئی۔ یوں کہا جائے کہ یہ ایک روحانی فلسفہ تھا۔ اس میں روح کو زیادہ اہمیت دی گیی۔ جانوروں کو غذا کے طور پر کھانا منع تھا۔ نہ اس کی کوئی مقدس کتاب تھی، اور نہ ہی کوئی مذہبی رہنما اور نہ اس کے کوئی وارث۔یہی وحدت ادیان فلم پیکے کا مرکزی خیال بھی ہے. "جب منزل ایک ہو تو راستوں کے جدا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا". پی کے کہتا ہے ! "کون ہندو کون مسلمان ... ٹھپا کدھر ہے دکھاؤ... ای پھرک بھگوان نہیں تم لوگ بنایا ہے... اور اے ہی اس گولہ کا سب سے ڈینجر رانگ نمبر ہے." یہ وہ چند جملے ہیں جو پی کے کی زبان سے پوری فلم کا مقصود بیان کر دیتے ہیں. غور کیجئے ورنہ آپ کے ساتھ ہاتھ ہوجاوے گا اور آپ کو معلوم بھی نہ ہو سکے گا .

  • ہمارے بدلتے ہوئے معاشرتی رویے اور آنے والی نسل –  راؤ محمد اعظم

    ہمارے بدلتے ہوئے معاشرتی رویے اور آنے والی نسل – راؤ محمد اعظم

    دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، اور اس تبدیلی کے اثرات ہمارے معاشرتی نظام، رہن سہن، خاندانی تعلقات اور سماجی اقدار پر گہرے نقوش چھوڑ رہے ہیں۔ وہ وقت زیادہ پرانی بات نہیں جب لوگ محبت، ہمدردی، اور بھائی چارے کے جذبات سے سرشار تھے۔ دیہات کی زندگی سادگی اور اپنائیت کا نمونہ تھی، جہاں شام کے اوقات میں لوگ مل بیٹھ کر خوش گپیاں کرتے، دکھ سکھ بانٹتے، اور ایک دوسرے کے لیے خلوص کے جذبات رکھتے تھے۔

    خواتین گھروں میں ایک دوسرے کی مددگار ہوتیں، بچے سب کے سانجھے ہوتے، اور گاؤں کے ہر فرد کو اپنے اردگرد کے لوگوں کی فکر ہوتی۔ گھروں میں کھانے پینے کی اشیاء وافر مقدار میں موجود ہوتیں، اور بنیادی ضروریات کے لیے کسی پر انحصار کم ہی کیا جاتا تھا۔ دودھ جیسی نعمت کو بیچنے کا تصور بھی برا سمجھا جاتا تھا، بلکہ جو زیادہ رکھتا وہ کمزور اور ضرورت مندوں کو بانٹ دیا کرتا۔ یہی نہیں، بلکہ گاؤں میں آنے والا کوئی بھی مہمان صرف ایک گھر کا مہمان نہیں بلکہ پورے گاؤں کا مہمان ہوتا، اور سب اس کی عزت و تکریم کرتے۔

    مگر آج کا دور بدل چکا ہے۔ شہروں کی چکاچوند نے لوگوں کو گاؤں چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ جہاں پہلے بھائی بھائی کے دکھ درد کا ساتھی ہوتا تھا، آج وہی بھائی مختلف شہروں میں بس گئے ہیں، اور عید یا کسی خوشی کے موقع پر ہی ان کی ملاقات ممکن ہوتی ہے۔ وہ بہن بھائی جو ایک ہی صحن میں کھیل کر بڑے ہوئے تھے، آج ایک دوسرے کو دیکھنے کو ترستے ہیں۔ ان کے بچے ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں، اور وہ خلوص و محبت جو پہلے نسلوں میں منتقل ہوتا تھا، آج معدوم ہوتا جا رہا ہے۔

    دوسری طرف شہروں میں زندگی ایک دوڑ بن چکی ہے۔ ہر چیز میں ملاوٹ عام ہے، خالص چیزیں ناپید ہو چکی ہیں، اور دیہات کی قدرتی خوبصورتی اور سادگی کہیں کھو گئی ہے۔ جو لوگ شہروں میں آ بسے، وہ زیادہ تر محنت مزدوری پر مجبور ہو گئے، اور جو دیہات میں بادشاہوں جیسی زندگی گزار رہے تھے، وہ آج دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔

    یہ صورتحال ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسل کے لیے کیسا ماحول اور کیسی دنیا چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ کیا وہ محبتیں، وہ اپنائیت، وہ خلوص جو ہمارے بڑوں نے ہمیں دیا تھا، ہم اپنی اگلی نسلوں کو دے پا رہے ہیں؟ اگر ہم نے اپنی روایات اور اقدار کو سنبھالا نہ، تو شاید ہماری آنے والی نسلیں صرف کتابوں میں پڑھیں گی کہ کبھی ہمارے معاشرتی رویے کتنے خوبصورت اور مخلص ہوا کرتے تھے۔

    وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی روایات کو زندہ رکھیں، رشتوں کو مضبوط کریں، اور اپنی نسلوں کو ایک بہتر اور خوشحال مستقبل دیں۔ اگر ہم نے ابھی بھی اپنی اقدار کی حفاظت نہ کی، تو شاید آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہ کر سکیں۔

  • خواتین، انسانی حقوق اور معاشرہ – مدیحہ روبی

    خواتین، انسانی حقوق اور معاشرہ – مدیحہ روبی

    عورت کو معاشرے میں وہ مقام اور عزت دینا جس کی وہ حقدار ہے، کسی خاص دن یا مہم تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ عالمی یومِ خواتین منانے کا مقصد یہی ہے کہ معاشرے میں خواتین کے حقوق کو تسلیم کیا جائے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے، لیکن یہ شعور ایک دن کی تقریبات سے بڑھ کر مستقل سوچ اور طرزِ عمل کا متقاضی ہے۔

    عورت کا احساسِ تحفظ ایک ایسا بنیادی حق ہے جسے صرف قوانین اور ضوابط سے نہیں بلکہ سماجی رویوں میں تبدیلی لا کر ہی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں عورت کو قدم قدم پر خوف، ہراسگی یا امتیازی سلوک کا سامنا ہو، وہاں ترقی کا تصور محض ایک فریب رہ جاتا ہے۔ کسی بھی قوم کی ترقی کا دار و مدار اس کے تمام افراد کی مساوی شرکت پر ہوتا ہے، اور جب آدھی آبادی کو عدم تحفظ کا سامنا ہو، تو وہ ملک یا معاشرہ حقیقی معنوں میں ترقی نہیں کر سکتا۔

    مرد کو اکثر اپنے گھر کی عورتوں—ماں، بہن، بیوی اور بیٹی—کا محافظ اور ان کا خیال رکھنے والا سمجھا جاتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنے خاندان سے باہر کسی عورت کو بھی وہی عزت دینے کے لیے تیار ہے؟ اگر نہیں، تو اسے اپنی سوچ پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ کیونکہ عورت کی عزت صرف اس کے رشتے کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے، بلکہ بحیثیت انسان اسے احترام دیا جانا چاہیے۔

    ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے مرد اور عورت کے حقوق کے حوالے سے دوہرا معیار پایا جاتا ہے۔ ایک طرف، مرد اپنی ماں، بہن اور بیوی کے حقوق کے بارے میں حساس ہوتے ہیں، مگر دوسری طرف وہی مرد جب کسی دوسری عورت سے معاملہ کرتا ہے، تو اس کا رویہ بدل جاتا ہے۔ بازار، دفاتر، تعلیمی ادارے اور عوامی مقامات پر خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک اور ہراسانی عام ہے، اور اس کا سبب یہی ذہنیت ہے کہ مرد صرف اپنی قریبی خواتین کو عزت دینے کا پابند سمجھتا ہے، جبکہ باقی خواتین کو مختلف زاویے سے دیکھتا ہے۔

    یہ سوچ دراصل ہمارے اجتماعی رویوں کا عکاس ہے، جہاں عورت کو برابر کا انسان نہیں سمجھا جاتا۔ اسے صنفِ نازک کہہ کر اس کی آزادی پر قدغن لگا دی جاتی ہے، اسے لباس، چال ڈھال، تعلیم، نوکری، یہاں تک کہ گھر سے باہر نکلنے کے حوالے سے بھی لاتعداد بندشوں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ اگر وہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرے تو اسے بدتمیز، باغی، یا مغربی سوچ رکھنے والی قرار دیا جاتا ہے۔

    ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مرد اور عورت دونوں کو برابر کے حقوق دینے کی بات کریں اور ایک ایسے معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں جہاں عورت کو عزت، تحفظ اور مساوی مواقع حاصل ہوں۔ مرد کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کسی بھی عورت کی عزت کرنا صرف اس کے رشتے کی بنا پر نہیں بلکہ اس کی انسانیت کے ناطے ضروری ہے۔ اگر ایک مرد یہ سوچ رکھے کہ جو عزت وہ اپنی بہن، بیوی یا ماں کے لیے چاہتا ہے، وہی عزت وہ کسی بھی عورت کو دے گا، تو معاشرے میں مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔

    تعلیم اور تربیت وہ بنیادی عوامل ہیں جو سوچ کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگر بچوں کو شروع سے یہ سکھایا جائے کہ عورت کمزور نہیں بلکہ برابر کی شریک ہے، اور اسے بھی وہی عزت، آزادی اور حقوق حاصل ہیں جو مرد کو ملتے ہیں، تو آنے والی نسلوں میں یہ مسئلہ کم ہو سکتا ہے۔

    اسی طرح، قوانین کا سختی سے نفاذ بھی ضروری ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم کو سنجیدگی سے لیا جائے اور ایسے مجرموں کو سخت سزائیں دی جائیں تاکہ ایک مثال قائم ہو۔ خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے حقوق سے مکمل طور پر آگاہ ہوں، کسی بھی قسم کی ہراسگی یا زیادتی کا سامنا ہونے پر خاموش نہ رہیں، اور قانونی مدد حاصل کریں۔

    مردوں کو چاہیے کہ وہ خواتین کے حقوق کے حامی بنیں، نہ کہ ان کے راستے کی رکاوٹ۔ اگر ہر مرد اپنے رویے میں مثبت تبدیلی لے آئے، تو ہم ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں جہاں عورت کو اپنی حفاظت کے لیے کسی دوسرے پر انحصار نہ کرنا پڑے، بلکہ وہ خود محفوظ اور بااختیار ہو۔

    احساسِ تحفظ، عزت، اور برابری صرف باتوں یا تقریروں سے نہیں بلکہ عمل سے ممکن ہے۔ ہر شخص کو اپنے دائرہ کار میں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ خواتین کو عزت دے، ان کے لیے آسانیاں پیدا کرے، اور ان کے مسائل کو سمجھے۔ تبھی ہم حقیقی معنوں میں ایک ترقی یافتہ اور مہذب معاشرہ تشکیل دے سکیں گے۔

  • ادب اور ادیب؛ معاشرے پر ان کے اثرات – سید عبدالوحید فانی

    ادب اور ادیب؛ معاشرے پر ان کے اثرات – سید عبدالوحید فانی

    نوٹ: یہ مضمون میری تحریر نہیں، سوائے ابتدائی سطور کے؛ یہ عبدالکریم بریالی صاحب کے گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج پشین میں ایک نشست میں دیے گئے پشتو خطاب کا اردو ترجمہ ہے۔ جسے میں نے ترتیب دے کر ترجمہ کیا ہے۔

    اقبال لٹریری سوسائٹی کی جانب سے 29 اگست 2024 کو منعقد ہونے والے ماہانہ ادبی پروگرام کا موضوع “ادب اور ادیب، اور معاشرے پر ان کے اثرات” تھا۔ اس تقریب میں عبدالکریم بریالی صاحب (پشتو اور اردو زبان کے نامور ادیب، شاعر اور محقق، ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور ستارۂ امتیاز) مہمان سپیکر تھے۔ ان کی موجودگی نے اس محفل کو چار چاند لگا دیے۔ انھوں نے ادب اور ادیب کے معاشرتی اقدار پر اثرات کے حوالے سے عمیق بصیرت پیش کی، جس نے شرکاء پر گہرا تاثر چھوڑا۔ یہ گفتگو نہ صرف روشن افروز تھی بلکہ نوجوان اسکالرز اور طلباء کے لیے ایک تحریک کا ذریعہ بھی ثابت ہوئی، جو ادبی اثرات کے معاشرتی حرکیات میں مہمات کو سمجھنے کے لیے بے تاب تھے۔

    عبدالکریم بریالی صاحب کی گفتگو قابل ذکر تھی، جس میں انھوں نے ادب اور معاشرت کے متحرک تعلق پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے نہایت فصاحت کے ساتھ بیان کیا کہ ادب نہ صرف معاشرتی حقیقتوں کی عکاسی کرتا ہے بلکہ انھیں چیلنج کرنے اور تبدیل کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔ ان کے دیے گئے کلاسیکی اور معاصر ادب سے مثالوں نے سماجی مسائل کے حل میں ادبی کاموں کی مستقل اہمیت کو اجاگر کیا اور قارئین میں تنقیدی سوچ کو پروان چڑھانے میں ادب کے کردار کو واضح کیا۔

    یہ نشست تمام شرکاء، خاص طور پر طلباء کے لیے ایک حقیقی تعلیمی تجربہ ثابت ہوئی، جنھیں ایسے ممتاز دانشور سے مکالمہ کرنے کا موقع ملا۔ موضوع کی تعاملی نوعیت نے خیالات کے تبادلے کو مزید معنی خیز بنا دیا، جہاں طلباء نے سوالات پوچھے اور بریالی صاحب سے مدلل جوابات حاصل کیے۔ اس تعامل نے نوجوان اذہان کی علمی تربیت میں ایسی ادبی محفلوں کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اس نشست کی کامیابی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ایسے ادبی سرگرمیوں کا جاری رہنا ضروری ہے، جو ادب کے فروغ اور آئندہ نسلوں کے ادبی اسکالرز کی پرورش کے لیے ناگزیر ہیں۔

    کریم بریالی صاحب کا لیکچر:
    میں پرنسپل (گورنمنٹ ڈگری کالج پشین)، راہیاب صاحب، ڈاکٹر جاوید اقبال خٹک صاحب، حافظ رحمت نیازی صاحب، ڈاکٹر حافظ نقیب اللہ صاحب، اور دیگر اساتذہ اور اپنے پیارے شاگردوں سے مخاطب ہوں۔ آج میں اپنے لیے اسے اعزاز سمجھتا ہوں کہ تقریباً پچاس سال پہلے، میں یہاں استاد تھا۔ اور میں نے اس کالج (گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج، پشین) کا، جو بازار میں واقع تھا، افتتاح کیا۔ بہت اچھے شاعر، بہت اچھے پروفیسر ہمارے ساتھی رہے۔ جو میرے اپنے شہر (پشین) کے بہت عزت دار لوگ تھے۔ پروفیسر صاحبزادہ حمیداللہ صاحب، جو بہت بلند پایہ استاد تھے۔ پروفیسر راز محمد راز صاحب، جو بہت اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ یہ سب میرے بہت قریبی دوست تھے۔

    میں اقبال لٹریری سوسائٹی کے صدر (سید عبدالوحید فانی)، کالج کے پرنسپل محترم سعداللہ صاحب (جو میرے ساتھ بیٹھے ہیں اور بہت مہربان انسان ہیں، ان کے ساتھ میرا گھریلو تعلق بھی ہے) کا مشکور ہوں۔ اور آپ سب اس علاقے اور اس زمین کے معزز لوگ ہیں۔ آج میں فخر محسوس کر رہا ہوں کہ میں آپ کے سب سے ہم کلام ہوں۔

    میری زندگی کی کہانی اس طرح معنی نہیں رکھتی کہ میں آپ کو اس سے مکمل طور پر مطمئن کر سکوں۔ آپ ہر وقت کسی بھی چیز کے بارے میں سوالات پوچھ سکتے ہیں۔ اور محترم استاد صاحب نے جو موضوع اس لیکچر کے لیے منتخب کیا ہے، وہ ہے ‘ادب اور ادیب اور معاشرے پر اس کے اثرات’۔ اس پر ہم گفتگو کریں گے۔

    عزیز دوستو! ادب زندگی کی ایک ایسی سلیقہ مندی ہے جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور پھر جو احساسات اور جذبات کسی چیز کو دیکھنے پر جو ایک حالت یا کیفیت ہم پر طاری ہوتی ہے، اس کے ردعمل میں انسان کا دماغ جو مشاہدہ کرتا ہے، اس کے اندر جو جذبات ابھرتے ہیں، چاہے وہ اشارے میں ہوں، چاہے وہ کسی تحریر میں ہوں، چاہے وہ کسی شعر میں ہوں، یہ سب ادبیات میں شامل ہیں۔

    ادب بہت سادہ بھی ہے اور بہت گہرا بھی۔ یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جس پر دنیا کی تمام زبانوں میں کام کیا گیا ہے۔ انسان کے تمام خیالات، تمام جذبات، تمام احساسات، جو وہ اپنے اندر محسوس کرتا ہے، یہ احساسات اور جو چیزیں وہ باہر مشاہدہ کرتا ہے ان کے ردِ عمل میں جو کچھ بھی سامنے آتا ہے وہ سب ادب میں شامل ہوتا ہے۔ ادب شاعری میں بھی آتا ہے، نثر میں بھی آتا ہے، ادب مختلف علامتوں میں آتا ہے۔ ادب کا ایک بہت وسیع مفہوم ہے۔ پچاس سال پہلے ہمارے ایک بزرگ استاد تھے، ڈاکٹر خدایداد، میں اس وقت یہاں استاد تھا اور میں نے مضمون لکھا تھا کہ ‘ادب کیا ہے’۔ تب میں نے ایک مثال دی تھی کہ ادیب اور شاعر کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا ہو اور نیچے شہر کا مشاہدہ کر رہا ہو، ہر چیز کو دیکھ رہا ہو تو ہر چیز کسی نہ کسی طریقے سے اس پر اثر انداز ہو رہی ہوتی ہے۔ یا کوئی دل خراش منظر دیکھتا ہے اور اس میں جو ردِ عمل پیدا ہوتا ہے، چاہے وہ مزاحمتی ہو، ترحم کا ہو، غضب کا ہو یا محبت کا ہو، یہ سب ادب کی شکل اختیار کرتے ہیں۔

    دنیا میں چھ ہزار سے زیادہ زبانیں ہیں۔ ان میں سے شاید دس فیصد ایسی ہوں گی جن میں ادب ہے، تاریخ ہے، ان میں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ نظم میں لکھی گئی ہیں، نثر لکھی گئی ہیں۔ یہ سب انسانی معاشرے کا عکس ہیں۔ یہ سب انسانوں کے خیالات ہیں۔ وہ خیالات جو انھوں نے بیان کیے ہیں۔ ان خیالات کو الفاظ کا لباس پہنایا گیا ہے۔ ان الفاظ کے لباس میں انسان کے تمام جذبات محفوظ ہیں۔ یہ اس تشفی کے لیے ہیں کہ جس کیفیت کو وہ محسوس کرتا ہے، اسے وہ الفاظ میں آپ تک پہنچا سکے۔

    تصوف کی اصطلاح میں ادب کا ایک مفہوم ہے، اخلاقیات کی اصطلاح میں ادب کا دوسرا مفہوم ہے اور لٹریچر کی اصطلاح میں ادب نظم اور نثر ہے۔ اور نظم، نثر اور مختلف اصناف میں جو کچھ شامل ہے، اس کا لبِ لباب یہ ہے کہ انسان کے جذبات: خوشی کے، تکلیف کے، درد کے، اور محبت کے (ادب محبت کا گھر ہے) اور ان کا ردِ عمل، یہ سب اس میں آتا ہے۔

    دنیا کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو بابل تہذیب کو قدیم ترین تہذیب کہا جاتا ہے، جو عراق کی سرزمین اور دریائے فرات کے کنارے پر وقع تھی۔ تقریباً ساڑھے چار ہزار سال قبل ایک بادشاہ تھا جس کا نام گلگامش تھا۔ اُس نے ایک چھوٹی سی کتاب لکھی، جس میں ‘انکیدو’ نامی کردار تھا۔ جیسے کہ آپ پرانی کہانیوں میں دیکھتے ہیں، جن میں دیو ہوتے ہیں، طاقتور کردار ہوتے ہیں، یا آج کل کی فلموں میں ایک ہیرو ہوتا ہے، اور کہانی میں ایک سنسنی خیز عروج آتا ہے۔ یہی انداز اس قدیم ترین ادبی تخلیق گلگامش کی کہانی کا بھی تھا، جس سے ادب کا سلسلہ جاری ہے۔ اور اسی طرح ہمارے تمام مذہبی کتابیں جیسے قرآن، بائبل، رگ وید، بھگوت گیتا، رامائن، زرتشت کی کتاب (اوستا) اور جتنے بڑے بڑے مذاہب ہیں، اُن کی کتابیں موجود ہیں۔ ان میں بھی ادب، تربیت، اخلاقیات اور محبت کے اسباق موجود ہیں۔

    جب میں نے یہاں ابتدائی کلمات کہے تو میں نے ‘اما بعد’ کا ذکر کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ عربی زبان بہت گہری زبان ہے۔ میں نے ایک کتاب میں پڑھا کہ عربی میں ایک سیب کے بیس سے زائد نام ہیں۔ عربی ادب کے اثرات اس قدر زیادہ تھے کہ یہ عربوں کی ثقافت میں رچ بس گئے۔ ان کی کہاوتیں، مثالیں، اچھی باتیں اور کہانیاں سب ادب میں شامل ہو گئیں۔ آپ اگر قرآن کا غور سے مطالعہ کریں تو ہر تیسرے آیت میں ایک گہری حقیقت چھپی ہوتی ہے۔ اسی طرح بائبل میں بھی گہرے مفاہیم ملتے ہیں، جن سے انسان حیران رہ جاتا ہے۔ قرآن اور بائبل میں بہت سی مشترکہ باتیں ہیں، سوائے چند اختلافات کے، باقی دونوں کتابوں کا مضمون ایک جیسا ہے۔ میرے پاس دس قرآنی نسخے اور چھ بائبل ہیں۔ جب ایک سے تسلی نہیں ہوتی تو دوسرے میں دیکھتا ہوں۔ یہ سب ادبیات ہیں۔ قدیم عربی شاعری سے ‘اما بعد’ کی اصطلاح اسلامی ادب میں آئی ہے۔ ہر خطبہ دینے والا مولوی صاحب اس کا استعمال کرتا ہیں، اور یہ شاعر کا کمال ہے۔

    عزیز دوستو! ادب کو آپ یوں سمجھیں جیسے معاشرے میں ہم سانس لیتے ہیں۔ ادب کو یوں سمجھیں جیسے جو کچھ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، اُس کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ عکاسی الفاظ کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ جیسے آپ کسی پہاڑی پر کھڑے ہو کر ایک ندی کا منظر دیکھتے ہیں، اس میں بہتی ہوئی پانی کی آواز، ایک سُر اور تال محسوس کرتے ہیں۔ یہ بھی فنونِ لطیفہ کا حصہ ہے جو ادب میں شامل ہے۔ سنگ تراشی ہو، انسان کے خیالات کا اظہار ہو، مصوری ہو، شاعری ہو، کہانیاں ہوں، یہ سب ادب میں شامل ہیں۔

    دنیا کی تاریخ میں لکھا گیا ہے کہ یہ (ادب) تنقید ہے، زندگی کا آئینہ ہے اور زندگی کا سلیقہ ہے۔ چاہے وہ نظم میں ہو یا نثر میں، ادب انسان کی زندگی کے پاکیزہ سلیقے کو بیان کرتا ہے۔ اندرونی جذبات اور بیرونی اثرات کا امتزاج ہوتا ہے، اور وہ اثرات ہمیں دیے جاتے ہیں۔ یہ ایک قدرتی صلاحیت ہے اور اس صلاحیت کے لیے سب سے بڑا محرک انسان کی محبت اور حسن ہے۔
    لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ
    اللہ نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے۔ ‘حُسن’ ادبیات کا بنیادی عنصر ہے، اور جس چیز میں جمالیاتی جذبات نہ ہوں، وہ بیکار ہو گی۔ غالب کا شعر ہے:
    عشق پر زور نہیں، ہے یہ وہ آتش غالبؔ!
    کہ لگائے نہ لگے، اور بجھائے نہ بنے
    یہ عشق وہ آگ جو پہلے لگائی نہیں جا سکتی اور جو ایک بار لگ جائے تو بجھتی نہیں۔

    دنیا کے لوگوں نے پچھلے دو سو سالوں میں اس پر کتابیں لکھی ہیں کہ ادب کا زندگی سے کیا تعلق ہے؟ ادب کا فن اور ہنر سے کیا تعلق ہے؟ ایک اطالوی شاعر ‘دانتے’ 1265 میں پیدا ہوئے۔ اس نے حضرت محمدﷺ کی معراج کی کہانی سنی اور اس سے متاثر ہو کر تین کتابیں لکھیں: Paradise (بہشت)، Inferno (جہنم) اور Purgatory (برزخ)۔ یہ نو سو سال پرانی بات ہے، اور دانتے نے اسلامی ادب سے متاثر ہو کر ان کتابوں کو تخلیق کیا، جو دنیا کے بہترین ادب میں شمار ہوتی ہیں۔ اُس نے ‘ابلیس’ کا ذکر کیا، جو قرآن میں موجود ہے لیکن بائبل میں نہیں ہے، وہاں ‘شیطان’ کا ذکر ہے۔ یعنی Satan۔

    ادب کا شعر اور وزن کے ساتھ تعلق ہے۔ انسان کے تمام جذبات، مشاہدات، حرکات، خیالات اور خواہشات ادب میں آتے ہیں۔ یہ انسان کی زندگی کا جامع حصہ ہے۔ آپ اپنی خوشی، درد، اور جذبات کو نثر میں بیان کریں یا نظم میں، یا کسی اور فن میں، یہ سب ادب کے شعبے ہیں اور انسان کی زندگی سے جڑے ہیں۔ ہر قوم کی شاعری اُس قوم کی عکاسی کرتی ہے۔

    ادیب یا شاعر معاشرے کا فرد ہوتا ہے۔ وہ حساس ہوتا ہے، اُس کا مشاہدہ کرنے کی صلاحیت مضبوط ہوتی ہے، اور وہ ہمیشہ نئے خیالات سے متاثر ہوتا ہے۔

    فراق گورکھپوری ایک ہندو شاعر تھے۔ وہ انگریزی کے پروفیسر تھے اور اردو کے بہت بڑے شاعر تھے۔ 1896 میں پیدا ہوئے اور 1916 میں کانگریس پارٹی میں شامل ہوئے۔ 1928 تک دس سال کانگریس کے جنرل سیکریٹری رہے۔ وہ جواہر لال نہرو کے خاص آدمی تھے اور خالص اردو بولتے تھے۔ میرے استاد، جو ان کے شاگرد تھے، ہمیشہ ان کی کہانیاں سناتے تھے۔ ہندو، فراق کے اردو لکھنے اور مسلمانوں کی حمایت کرنے کی وجہ سے انہیں زیادہ پذیرائی نہیں دیتے تھے۔ 1948 میں جب بابری مسجد کا واقعہ ہوا اور ہندو وہاں اندر داخل ہوئے، چراغ جلائے اور کچھ بت رکھے اور پھر دروازہ بند کرکے نکل گئے۔ تو تب فراق پہلے شخص تھے جو مسلمانوں کے حق میں کھڑے ہوئے، اور انہوں نے جواہر لال نہرو کو فون کیا جو اس وقت ہندوستان کے وزیر اعظم تھے، اور کہا کہ ہندو کس طرح دوسرے کے گھر میں داخل ہو سکتے ہیں۔ یعنی انھوں نے ان کی مذمت کی۔

    فراق نے کہا تھا کہ ایک ادیب اور شاعر کو خدا نے ایک فطری صلاحیت دی ہے کہ وہ شاعری کرے، لیکن اس کے لیے شاعر کا کردار کمزور نہیں ہونا چاہیے۔ اس کا ادب عالمی معیار تک نہیں پہنچ سکتا اگر اس کا کردار مضبوط نہ ہو۔ شاعر لازماً باکردار ہو، اس کی تربیت کی گئی ہو، اور وہ اپنے فکر اور عمل میں پختہ ہو، تب ہی وہ کوئی عمدہ تخلیق کر سکتا ہے۔

    یورپ کا پہلے زمانے میں مقام وہ نہیں تھا جو آج ہے، کہ پوری کائنات اس کے زیرِ اثر ہے۔ اور ہم بھی پردیس صاحب کی اصطلاح کے مطابق “خیالی جنت” میں مگن ہیں۔ یورپ میں انقلاب آیا۔ اور وہاں کلاسیکی شاعری بھی کی جاتی تھی۔

    کلاسیکی ادب کا ایک بہت گہرا مفہوم ہے۔ کلاسیک کا ایک تعریف یہ ہے کہ وہ قدیم چیز جس میں وہ قدریں موجود ہوں جو آفاقی ہوں۔ یورپ میں کلاسیکیت کا ایک تحریک شروع ہوا جو بعد میں فرانس تک پہنچا اور وہاں یہ رومانی تحریک میں بدل گیا۔ رومانوی تحریک بھی ایک ادبی تحریک تھی۔

    ترقی پسند سوچ بھی اسی زمانے میں چل پڑی تھی۔ 1917 کے انقلاب کے بعد 1920 میں فرانس میں دوبارہ پروگرام کیا گیا۔ پھر 1935 میں ہندوستان میں ترقی پسندوں کا اجتماع ہوا جہاں یہ طے کیا گیا کہ ادب میں پھول، زلفوں اور عشق کے بجائے انسان کی زندگی کی محنت اور مزدوری کا عکس ہونا چاہیے، یعنی انسان کے فطری خیالات پر پابندی لگائی گئی۔

    ادیب معاشرے کا فرد ہوتا ہے۔ وہ معاشرے میں تبدیلی لا سکتا ہے، انقلاب برپا کر سکتا ہے، اچھائی کی تبلیغ کر سکتا ہے، برائی کی روک تھام کر سکتا ہے، لوگوں کی اصلاح کر سکتا ہے، اور زبان کو درست کر سکتا ہے۔ معاشرے کا ہر واقعہ اس کے لیے ایک پلاٹ ہے۔ تقریباً آدھے شعراء اپنی نفسیاتی مسائل کی وجہ سے پاگل بھی ہوئے ہیں۔

  • فیملی ویلاگنگ کے معاشرے پر اثرات- محمدعثمان

    فیملی ویلاگنگ کے معاشرے پر اثرات- محمدعثمان

    وہ اچھی بھلی کوکنگ کرتی اور مزیدار کھانے بناتی، ان کی ویڈیو ریکارڈ کرتی اور انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کردیتی تاکہ مزید لوگ بھی مستفید ہو سکیں۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے اس کے اکاونٹ کی ریچ اچھی ہوئی اور اسے مختلف پلیٹ فارمز سے تشہیر (Ads) کی دعوت ملی جس سے اس کی آمدنی بھی شروع ہو گئی۔ گھر کا نظام اچھا چلنے لگ پڑا جس سے سب گھر والے خوش تھے۔ مگر یہاں ایک بڑی تبدیلی محسوس ہونے لگی کہ ”مزید اور مزید” کی دوڑ شروع ہو گئی۔ اب محنت اور لگن کے ساتھ دولت کی دوڑ بھی لگ گئی۔ زندگی ضرورتوں سے بڑھ کر آسائشوں کی راہ پر گامزن ہو گئی، جنہیں پورا کرنے کے لیے نت نئے تجربات شروع ہوگئے۔ پہلے جو آواز پردے کے پیچھے سے آتی تھی، اب پردے کے سامنے سے آنے لگی۔ حجاب کی جگہ ڈوپٹہ اور پھر آہستہ آہستہ وہ بھی سرکنا شروع ہوگیا۔ ناظرین نے بھی اب کھانے کی بجائے ڈریسنگ کی تعریفیں کرنا شروع کردیں اور آمدنی میں بھی اچھا خاصہ اضافہ ہو چکا تھا کیونکہ اب گھریلو عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں نے بھی ویڈیوز دیکھنا شروع کر دی تھیں۔

    آخرکار ایک دن شدید گرمی میں پنکھے کی تیز ہوا سے ڈوپٹہ ایسا اڑا کہ پھر دوبارہ سر پر نہ آیا اور اب کھانے کی بجائے کپڑوں، میک اپ اور مختلف قسم کے فیشن پر توجہ شروع ہوگئی۔ یوں ایک مشرقی روایات کا حامل گھرانہ اپنی اقدار کھو بیٹھا۔ ہمارے جیسے ترقی پذیر معاشرے میں اسے ”فیملی وی لاگنگ” کہتے ہیں۔ لغت کے اعتبار سے ویلاگنگ کا مطلب اپنے خیالات و اظہار کو ویڈیو کی شکل میں لانا اور سوشل میڈیا کے ذریعے دوسروں تک پہنچانا ہے۔ ویلاگنگ کے منفی اور مثبت پہلو دونوں ہوتے ہیں، اور یہ استعمال کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اسے کس انداز میں استعمال کرتا ہے۔ فیملی ویلاگنگ کو اگر مثبت انداز میں چلایا جائے تو یہ ایک تربیتی ادارہ بن سکتا ہے، جس سے بچوں اور خواتین کی تربیت کی جا سکتی ہے۔ گھر بیٹھے نت نئے ہنر سیکھے اور سکھائے جا سکتے ہیں۔

    اگر وی لاگنگ کو جسمانی و دولت کی نمود و نمائش کے لیے استعمال کیا جانے لگے جیسا کہ ہمارے معاشرے میں ہوتا جا رہا ہے تو کچی ذہنیت کے لوگ سکرین پر جو کچھ دیکھتے ہیں، وہی چاہتے ہیں جب کہ سکرین اور حقیقی زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور وہ حقیقت سے بہت دور ہوتا ہے۔ اس سے معاشرے میں ڈپریشن، انگزائٹی، عدم مساوات اور احساس کمتری جیسے مسائل جنم لیتے ہیں اور گھروں کے گھر تباہ ہو جاتے ہیں. ہمارا خاندانی نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے. ایک عام گھر کی خواتین و مرد حضرات ایک دوسرے سے وہی کچھ چاہ رہے ہوتے ہیں جو وہ سکرین پر دیکھ رہے ہوتے ہیں. اب ایک لڑکی اپنے 25,27 سالہ خاوند سے وہی امید رکھ رہی ہوتی ہے جو سکرین پر 70 سالہ فرد کے پاس ہوتا ہے. ایسی ہی صورتحال مرد حضرات کی بھی ہے وہ بھی اپنی گھریلوں خاتون سے وہی کچھ چاہ رہے ہوتے ہیں، جو وہ سکرین پر کسی ایکٹر یا فیملی ویلاگزر کے پاس دیکھ رہے ہوتے ہیں. کہاں ایک طرف سارا دن گھر کے کام کاج اور دوسری طرف نوکر چاکر، خود صرف میک اپ کرنا اور سکرین پر دکھنا ہے بس. فیملی ویلا گنگ میں ہر وقت ہنسی مزاح، گھومنا پھرنا اور مہنگی شاپنگ دکھائی جاتی ہے جبکہ حقیقی رویوں میں اتار چڑھاؤ بھی آتا ہے. ہر وقت گھومنا پھرنا ممکن نہیں ہوتا، بڑا سرمایہ چاہیے ہوتا ہے. یہاں سے پھر دوریاں پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں. اپنے اردگرد سب کچھ بے ضرر اور فضول سا لگتا ہے ، اور یوں لگتا ہے کہ میں اس فرد کے ساتھ فٹ نہیں ہوں، اور یوں بربادی کا آغاز ہو جاتا ہے جبکہ حقیقی زندگی سکرین والی لگتی ہے جو الٹ سسٹم ہے۔

    چونکہ فیملی ویلاگزر کے پاس دکھانے کے لیے کوئی خاص مواد (Content) تو ہوتا نہیں، تو آج کل پاکستانی فیملی ویلاگزر نے ایک کام شروع کر رکھا ہے کہ پہلے دوست بنتے ہیں، دنیا کو نظرآتے ہیں، پھر لڑائی کرتے ہیں، ایک دوسرے کے راز برسربازار فاش کرتے ہیں ، ٹریفک حاصل کرتے ہیں اور پھر صلح کی جانب چلے جاتے ہیں. ایسا ہی کبھی پاکستان میں اسٹیٹ ایڈوائزر کیا کرتے تھے کہ پہلے دو بھائی یا دوست مل کالونی کٹنگ کرتے تھے، جب سارے پلاٹ بک جاتے تو تب بہنیں وراثت میں سے حصہ لینے کھڑی ہوجاتی تھیں جو کہ مکمل منصوبہ بندی سے ہوتا تھا . یوں نا جانے کتنے ہی خاندانوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی چند ہی دنوں میں فراڈ کا شکار ہوجاتی تھی. ایسے ہی فرضی لڑائی جھگڑے اور پھر صلح فیملی ویلاگزر کررہے ہیں. تمام تر حربوں اور نمود و نمائش کے بعد جب لائیکز اور ویوز ایک جگہ جامد ہوجاتے ہیں تو اگلا مرحلہ اپنی بہن و بیوی کو دیکھانے کا آ تا ہے. اس سے اگلا مرحلہ ”لیک ویڈیوز” کا آتا ہے، پھر ایک دوسرے پر الزامات لگائے جاتے ہیں. فلاں نے بنائی فلاں نے لیک کی اور معاشرے کی ہمدردیاں سمیٹی جاتی ہیں، اور یہ ٹرینڈ خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے، جو کہ معاشرے کے لیے زہر قاتل بن چکا ہے۔ اگر فوری طور پر اس پر آواز بلند نہ کی گئی تو یہ ایک ایسا زہر بن جائے گا جو معاشرتی بنیادوں کو کھوکھلا کر دے گا۔ انتظامی اداروں کو فوراً حرکت میں آنا ہوگا اور معاشرے کے پڑھے لکھے طبقے کو آگے بڑھ کر مثبت فیملی ویلاگنگ کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بہتر ماحول فراہم کر سکیں۔ بقول اقبال
    [poetry] حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
    خدا کرے کہ جوانی تیری رہے بے داغ
    [/poetry]