Tag: ماں

  • تبصرہ کتاب: عورت اور نسل. میر افسر امان

    تبصرہ کتاب: عورت اور نسل. میر افسر امان

    اقدارِملت، اسلام آباد کی کتاب’’عورت اور نسل‘‘ کو زاہر ہ خان رانجھا نے ترتیب دیاہے۔ بے شک خوشگوار ازدواجی زندگی اور بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کے لیے فکر انگیز مضامین اور کہانیوں پر بہترین کتاب ہے۔ زاہرہ خان رانجھا علمی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔

    کتاب کا انتساب فلسطین کے عظیم شہداء ا ور غازیوں کے نام کرکے کتاب کی قدر و قیمت بڑھا دی۔ کتاب کے پیش لفظ میں اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سائرہ بتول نے بہشتی زیور کتاب کے ذکر کے ساتھ یہ بھی لکھا کہ ایسی تمام کتب مذہبی پس منظر، حکایات اور مرنے کے بعد کی زندگی پر اپنی تو جہات مرکوز رکھتی ہیں۔ کتاب ’’عورت اور نسل‘‘ میں مولفہ نے اپنے تئیں اس سوال کا جواب اس کتاب کی صورت میں فراہم کیا ہے اور میری دانست میں انہوںنے یہ فریضہ انجام دے کر گویا قوم پر احسان کیاہے۔

    کتاب ’’عورت اور نسل‘‘ بنیادی طورپر کوئی طبع زاد فلسیانہ مباحث نہیں ہیں۔ یہ سادہ زبان میں بیان کی کئی چھوٹی چھوٹی سادہ سی باتیں ہیں۔ عموعی نفسیات کے حوالے سے بغور جائزہ لیے گئے ہیں۔ ان مسائل کی نشاندہی ہے، جن کی طرف افراد معاشرہ کا متوجہ ہوناہر حال میں ضروری ہے۔

    اس کتاب میں بہنوں بیٹیوں کے مسائل اور ان کاحل پیش کر کے ملک کی خواتین کی بڑی خدمت کی ہے۔لکھتی ہیں نیٹ سے مختلف ویب سائٹس سے میاں بیوی کے تعلقات، بچوں کی پرورش اور بہترپرداخت اور نفسیات سے متعلق تحریریں یکجا کی ہیں۔ ہر تحریر کے آخر میں سوالات درج ہیں تاکہ قاری کوان پر غور و فکر کرنے اور ان کی روشنی میں اپنا جائزہ لینے کا موقع ملے ۔ اس سے کتاب کی افادیت میں اضافہ ہو ا۔کتاب کاگیٹ اپ بہترین ہے۔کتاب کے تین ابواب میں 102 مختلف مضامین جمع کئے گئے ہیں۔

    پہلے باب میں 31 مضامین ہیں۔ ووسرے باب میں 37 مضامین اور تیسرے باب میں33 مضامین ہیں۔ تمام مضامین میں مشکلات کیسے پیدا ہوتیں ہیں ۔ اس کے حل کے طریقے کیا ہیں، پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔

    پہلے باب میں سب سے پہلے اللہ سے دعا مانگی گئی ہے۔ آرٹیکل میں ایک عورت کو ماں باپ کے گھر سے شادی کے بعد دوسرے گھر میںجانے پر بات کی ہے۔ ایک عورت کو نئے گھر میںاپنے آپ کو کس طرح ایڈجسٹ کرنا چاہیے۔آخر میں ان مسائل کو حل کرنے کے دوسوالات درج کیے ہیں۔

    باب اوّل کی آخری میںدیار غیر’’میامی‘‘کی ایک 60سالہ خاتون کی کہانی لکھی ہے، جس نے 60 سال کی عمر میں کالج جاکر تعلیم حاصل کی۔ اس میں مولفہ اپنے معاشرے کی بڑی عمر کی خواتین کو تعلیم پر اُبھارتی ہیں۔ آخر میں دوسوال جن میں بھی تعلیم کی طرف رغبت کی کوشش ہے۔

    اس طرح باب دوم کی پہل بھی اللہ سے دعا سے کی ہے۔اللہ سے زندگی میں علم میں ترقی کرنے کی دعا کی ہے۔اس کے’’ طلاق کے بعد‘‘ مضمون ہے۔ اس میںلکھا گیا کہ طلاق کیوں ہوتی ہے۔ اس سے بچے کی کیاتدبیریں ہیں۔ طلاق میاں بیوی کی زندگی اجیرن کر دیتی ہے۔ اس لیے زوجین کو ایک دوسرے کے جذبات کاخیال رکھ، اس سے بچا جا سکتا ہے۔اسلام میں تین دفعہ طلاق دینے کا کہا گیا ہے کہ شاید اس مدت میں کوئی ملاپ کی سبیل نکل آئے۔آخر دو سوال لکھ کر طلاق سے بچنے کی طرف راغب کیا گیا۔

    اس باب کی آخری کہانی’’خوبصورتی کی دریافت‘‘ ہے۔اس کہانی میں چین کے بادشاہ اور اس کی بیوی کی ریشم کے کیڑوں سے نقصان کی باتیں تحریر کی ہیں۔ نچوڑ یہ نکالا کہ کس طرح ایک نقصان دینے والی شے سے بھی مفید چیز برآمد ہو سکتی ہے۔اس کے آخر میں میں دو سوال کیے تاکہ پریشانی سے بھی آسانی کی تلاش کی جائے۔

    باب سوم کے شروع میں بھی’’رب کے حضور‘‘ مضمون میں دعائیں مانگی گئی ہیں۔یاغفور ارحیم! ہمارے حال پر رحم فرما اور ہمیں ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر ملک وقوم کی خدمت کی توفیق عطا فرما۔ آمین یا رب العالمین۔ اس کے بعد ایک آرٹیکل جس کا نام ’’باپ کے مشورے‘‘ ہے،میں ایک باپ کا ذکر جس کے پانچ بچے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کی کامیاب زندگی کے لیے کئے مشورے دیتا نظر آتاہے۔ اس میں ہر وہ مفید مشورہ شامل ہے جو ایک بندے کو انسان بنانے کے لیے زندگی میں کام آتے ہیں۔

    خاص یہ مشورہ بھی کے اپنی زندگی سے آگے انسانیت کی ترقی کے لیے بھی مشورے شامل ہیں۔ اس آرٹیکل کے آخر میں بھی حسب معمول دو سوال لکھے گئے ہیں۔اس سے قاری کو اس بات کی طرف متوجہ کیا ہے کہ کیا یہ کسی غیر ملکی باپ کے اپنے بچوں کو مشورے ہیں ۔ پاکستانی ماں باپ اپنے بچوں کوایسے مشورے دیتے ہیں۔اس باب کے آخر میں ایک کہانی ہے۔ جس کا نام’’ محبت کاانجام ‘‘ہے۔

    ایک جوڑے کی ہے۔ میاں بیوی کی طرف سے ہٹ کر کسی دوسری جین نامی خاتون سے پینگیں بڑھاتا رہتا ہے۔ ایک دن بیوی سے کہا میں تمھیں طلاق دینا چاہتا ہوں۔ بیوی ناراض ہوئی۔ لیکن اس نے میاں سے کہا کہ ایک آدھ ماہ انتظار کر سکتے ہو۔ میاں راضی ہو گہا۔ وجہ ان کا بچہ تھا۔ اس دوران بچے کی محصومانہ باتوں نے میاںکا دل واپس اپنی بیوی کی طر ف مائل ہو گیا۔ جس خاتون سے پینگیںبڑھائی تھی، جب اُسے کہا کہ طلاق کا ارادہ ترک کر دیا ہے۔ وہ ناراض ہوئی اور اس کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا۔

    بیوی کو راضی کرنے، بازار سے پھول لے کر شام گھر پہنچا، مگر بیوی فوت ہو چکی تھی۔ کہانی کے آخر میںحسب معمول دوسوالوں میں اس تنازہ کی وجہ معلوم کی گئی۔ اس کا مقصد بھی معاشرے کی اصلاح کی طرف ذہن موڑنے ہیں۔

    ساری کتاب میں اصلاحی کہانیاں ہیں۔ ہم نے چند کا انتخاب کیا ۔ ہم نے کافی کتابوں کامطالعہ کیاہے۔ ان پر تبصرے بھی لکھے، مگر کتاب’’ عورت اور نسل‘‘ کوایک منفرد کتاب پایا۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے یہ بہتریں کتاب ہے۔ کاش کہ اہل اقتدار اس کتاب کو تعلیمی نظام میں ،ایک نصابی کتاب کے طور پر شامل کرلیں۔ خرابی کی طرف تیزی سے گامزم، ہمارے معاشرے کی بڑی خدمت ہو گی۔

  • مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے – سخاوت حسین

    مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے – سخاوت حسین

    پہلا میسج
    پیاری بیوی ! تمھارا پیغام ملا ۔ تم پریگنٹ ہو یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی۔ میں جلد آرہا ہوں۔ مجھے اگرچہ بچوں کی جنس سے فرق نہیں پڑتا لیکن امید ہے پہلا بچہ بیٹا ہی ہوگا۔
    …………
    دوسرا میسج:
    “پیاری بھابھی!
    ہم جلد آپ کی طرف آرہے ہیں۔ جب سے یہ یہ خوش خبری سنی ہے ہم بے چین سے ہوگئے ہیں۔ بس دعا کیجئے کہ جلد آپ کے آنگن میں ایک کھلکھلاتا بچہ صحت و سلامتی سے آجائے اور بھابھی آپ کی نند کو لڑکا ہی چاہئیے۔ ”
    …………
    تیسرا میسج:
    “پیاری بہو! تم ہم سے دور بہت دور امریکہ میں ہو۔ میں نے جب سے خوش خبری سنی ہے ،دیوانی ہوئی پھرتی ہوں۔ بے چین سی روح آنے والی ننھی سی جان سے ملنے کے لیے بے کل ہوئی پھرتی ہے۔ سنو بہو بیٹا ہی ہے نا!”
    …………
    چوتھا میسج :
    “دیکھو! مجھے وارث چاہئیے اور وارث بیٹے ہوتے ہیں بیٹیاں نہیں۔”
    …………

    وہ دونوں ٹیرس پر بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ دفعتا وہ بولا :
    ” پیاری مینا! میں جلد تمھارے گھر اپنے والدین کو بھیج دوں گا۔ میری امی مجھے کب سے شادی کرنے کو کہہ رہی ہیں وہ کہہ رہی ہیں بس بہت ہوگیا ۔انہیں ایک پوتا چاہئیے جس سے وہ کھیل سکیں۔ ”
    …………
    “دیکھو ساحرہ ! تم واقعی صورت میں ساحرہ ہو ۔ میں کتنا خوش ںصیب ہوں جسے تم جیسی خوب صورت بیوی ملی۔ ہم نے کتنی دیر باتیں کر لیں۔ بس جلد سے مجھے چھوٹا سے ایان دے دو جو روز گھر کے دروازے پر مجھے روکے اور دیر سے آنے پر ڈانٹے۔ ”
    “مگر ساحر بیٹیاں باپ کی لاڈلی ہوتی ہیں نا۔”
    اس نے ہلکا سا احتجاج کیا۔
    ” پیاری ساحرہ ! تم صحیح کہہ رہی ہو لیکن پہلا بیٹا ہوگا تو مجھے تسلی ہوگی نا۔ دوسری بے شک بیٹی ہو۔”
    …………
    ہاسپٹل کا منظر ہے۔ دفعتا نرس دوڑتی آتی ہے۔ سامنے ساس ، بیٹا اور نند بیٹھی ہوئی ہیں۔
    “مبارک ہو” بیٹی ہوئی ہے۔
    تبھی ساس کا منہ بن جاتا ہے۔ بیٹے کو جیسے گہرا صدمہ لگ جاتاہے اور نند کے منہ سے ایک دم نکلتا ہے
    “پھر سے بیٹی!”
    جبکہ شوہر کے ناگورا چہرے سے چھپا ہوا پیغام پڑھا جاسکتا ہے۔
    “پھر سے عذاب”
    …………

    وہ ہانپتی اور کانپتی ماں کے آنگن میں دکھ سے چڑیا کو دیکھ رہی ہے۔
    “ماں ! کیا یہ بھی شرائط کے ساتھ بچے پیدا کرتے ہیں۔””
    وہ درد سے گویا ہوتی ہے۔
    “نہیں میرے بچے ! ان کےہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ تو ہم انسانوں کے معیارات ہیں جو انسانیت کے درجے سے بھی نیچے کی شے ہے۔ ”
    ماں اسے تسلی دیتے ہوئے کہتی ہے۔
    “تو پھر ہم ایسا کیوں سوچتے ہیں۔ ہمیں کیوں ہرصورت میں لڑکا چاہیے۔”
    ماں اس کے بالوں میں تیل لگاتے ہوئے سوچتی ہےکہ اسے بھی تو بہو سے بیٹا ہی چاہیے تھا۔
    …………

    وہ دھیرے دھیرے ہاسپیٹل کی چھت کی جانب جارہی ہے۔ اس کا دل زخم سے پھٹ رہا ہے۔ آنکھیں کب سے جھیل بن چکی ہیں۔ تبھی بچیوں کی صورتیں سامنے آتی ہیں اور وہ مزید مستحکم قدموں سے آگے بڑھتی ہے۔
    “رکو! یہ قدم صحییح نہیں ہے۔ تم ایک ماں ہو۔ ”
    اندر سے جیسے آواز آتی ہے۔
    “ماں!”
    وہ چلاتے ہوئے خود سے کہتی ہے۔
    ” ماں ! نہیں بیٹیوں کی ماں ہوں۔ وہی بیٹیاں ! جو بوجھ ہوتی ہیں۔ جنہیں میں دنیا میں لانے کی ذمہ دار ہوں۔ وہ کہتا ہے اس سے بہترتھا کہ میں بانجھ ہوتی۔ اس نے کہا ہے میں اس کائنات کی سب سے منحوس انسان ہوں اور مجھے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے کیوں کہ میرے ہاں صرف بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ”
    …………

    وہ آج کل بہت خوش رہتی تھی۔ اس کی پسند کی شادی ہوئی تھی۔ اس کا محبوب شوہر اسے دل کی گہرائیوں سے پیار کرتا تھا۔ وہ اکثر کہتا تھا کہ:
    ” میں چاہتا ہوں کہ میری بیٹی بھی تم جیسی پیاری ہو۔ روز گھر کے آنگن میں بابا کے ساتھ کھیلے۔ لاڈ کرے۔”
    اس کی بات سن کر وہ بے قرار ہوجاتی ۔ خوشی سے اس کا دامن مہک جاتا۔
    تیسری بیٹی کی پیدائش کے بعد جیسے سب کچھ بدل گیا تھا۔ باپ کے آنگن میں کھیلنے والی بچیوں کو جیسے چپ لگ گئی تھی۔
    “وہ دوسری شادی کررہا ہے۔ اسے بیٹا چاہئیے۔”
    ایک دن اس نے خبر سنی تو جیسے اندر سے سب کچھ ٹوٹ گیا۔
    مزید دو سالوں بعد ہی گھر کے آنگن میں ایک ماں ، اس کی تین بیٹیاں اور صرف تنہائی تھی ۔ شوہر انہیں چھوڑ کر کب سے دوسری بیوی کے ساتھ دوسرے ملک شفٹ ہوچکا تھا۔
    …………

    “بیٹی ! اس دور کا فخر ہے۔ ہماری نگاہوں کا نور ہے۔ بیٹی کیا کچھ نہیں کرسکتی۔ وہ باپ کے آنگن کی کل کائنات ہے۔ وہ معمار ہے۔ وہ اپنی محبت سے منفی قوتوں کو مسمار کرتی ہے۔ عورت ہر روپ میں خوب صورت ہے۔ ماں کا روپ اسے عظمت عطاکرتا ہے۔ وہ بہن بن کر بھائی کے گھر کی چاند بنتی ہے۔ بہو بن کر ساس کے آنگن کی جان بنتی ہے اور بیوی بن کر شوہر کی پہچان بنتی ہے۔ ”
    تالیوں سے پورا ہال گونج اٹھا۔ عورت کے بارے میں کہے گئے یہ الفاظ بلاشبہ لاجواب تھے۔
    محفل برخاست ہونے کے بعد اس خاتون نے کہیں فون گھمایا۔
    ” دیکھو کاشف ! میں اسے دوبارہ گھر نہیں بلاؤں گی۔ اس نے میرے بیٹے کی جان عذاب کردی ہے۔ اس بانجھ نے الزام لگایا ہے کہ میرے بیٹے میں کوئی مسئلہ ہے۔ میں جلد بیٹے کی دوسری شادی کروں گی اور اسے طلاق بھجوادوں گی۔ ”
    …………

    پھر ایک دن یہ بچی بہن ، بیٹی ، بہو اور ساس بن جاتی ہے اور پھر مردوں سے زیادہ اسے اپنی نسل کے ہونے کا دکھ ہوتا ہے۔ یہ بہو کی خوشیاں چراتی ہے۔ اسے بس بیٹا چاہئیے ہوتا ہے۔ اسے خود علم نہیں ہوتا کہ اسے کیوں ہرصورت میں بیٹا ہی چاہئیے۔ جب بیٹا ہوجاتا ہے اور ایک دن وہ اسے چھوڑ کر بہو کے ساتھ کہیں اور جاتا ہے تو وہی بیٹی جسے یہ بوجھ کہتی تھی اس کے بڑھاپے کا سہارا بنتی ہے تب یہ اس کے ماتھے کو چومتی ہوئی کہتی ہے۔
    “مبارک ہو بیٹی ! تم میری طاقت بنی ہو۔ ” اور اس عورت کے اندر ہی کوئی عورت خوشی سے چلاتے ہوئے کہتی ہے
    “مبارک ہو بی بی ! تمھارے ہاں بیٹی ہوئی ہے۔”

  • “درد وچھوڑے دا”- ڈاکٹر بشری تسنیم

    “درد وچھوڑے دا”- ڈاکٹر بشری تسنیم

    میرے اور میری ماں کے درمیان انتظار کا رشتہ تھا۔ وہ انتظار جو محبت کی آگ کو مزید بھڑکادیتا ہے۔ دروازے کے پٹ سے لگی میرا انتظار کرتی میری پیاری ماں!۔

    میری یادداشت میں ماں کی منتظر نگاہوں کا پہلاتاثر بہت پرانا ہے۔ہماری ایک رشتہ دار خاتون’’روشنی مرحومہ‘‘ کی بہت سی اولادیں فوت ہوئیں۔ ان میں فوت شدہ ایک بیٹی میری ہم عمر تھی۔وہ مجھے اپنے گھر لے جاتیں۔اس دن بھی وہ میری انگلی پکڑے گلی میں نکلیں تو میری ماں دروازے کی اوٹ سے مجھے جاتا دیکھ رہی تھیں۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ منتظر نگاہیں…’’بیٹی کب آئو گی؟‘‘…’’جلدی آجانا۔‘‘

    پھر یہ سوال کرتی نگاہیں میری ساری زندگی پر محیط ہو گئیں میرا سکول کا پہلا دن، میری ماں دروازے کا پٹ پکڑے مجھے رخصت کررہی تھی… محبت بھرا وہ شفیق چہرہ ،ویسے ہی گلی میں نگاہیں جمائے ملا جب میں واپس آئی۔مجھے لگا… صبح سے میری ماں اسی طرح پٹ پکڑے میرے انتظار میں کھڑی تھی۔جُوں جُوں اس دنیا سے ان کے رخصت ہونے کا عرصہ طویل ہورہا ہے، ان کی محبت بھرے انتظار کا احساس بھی گہرا ہوتا جارہا ہے۔ ہر اولاد سے والہانہ پیار ماں کا خاصہ ہے۔ مگر جو بچہ جدائی اور دور ہونے کے احساس سے منسلک ہو، اس کے ساتھ انداز محبت بھی جدا ہو جاتا ہے۔

    مڈل سکول کے بعد تعلیم کے سلسلہ میں پہلے بہاول پور، پھر لاہور اور فیصل آباد رخصت کرنا…اور ان سب سے رخصت ہونا میرے لئے ایک آزمائش کا وقت ہوتا تھا۔اور یہ آزمائش ہر چار چھ مہینے بعد ضرور آجاتی تھی۔ اور آج تک قائم ہے اور پھر میرے خط کے انتظار میں…ڈاکیے کے آنے کا وقت… خط مجھے روانہ کرتیں، اندازہ لگاتیں کہ کتنے دنوں میں پہنچے گا؟ اور اندازاً کتنے دنوں میں جواب آجانا چاہیے۔ اور پھر وہی ان کامنتظر نگاہوں سے بیٹھک کے جالی والے دروازے سے لگ جانا۔…ڈاکئے کے انتظار میں…۔

    میکہ سے رخصتی…اورپاکستان سے رخصتی میرے کراچی جانے کے لئے ریلوے اسٹیشن پر جو حالت میری ماں کی تھی، وہ مجھے یاد آتی ہے تو کلیجہ پھٹنے لگتا ہے۔ میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے سے لگا کر میرے وجود کو محسوس کررہی تھیں، میں سخت ہراساں ہوئی جارہی تھی۔ مجھے بالکل سمجھ نہیں آرہی تھی میں کیا کروں۔ ضبط گریہ ہے کہ میرا دل پھٹنے کو تھا۔ میرا رونا دیکھ کر ان کی حالت مزید خراب ہو جاتی۔اس وقت مجھے ان کے جذبات کا ادراک اس طرح نہ ہوا … مگر جب میں نے اپنی بیٹی کو پردیس روانہ کیا تو مجھے لگا کہ میری ماں میرے اندر سماگئی ہے اور میں ان کی تڑپ کو محسوس کررہی ہوں۔ انسان کی سرشت ہے کہ جب تک وہ اسی مقام پہ نہ آجائے، اس کی فہم اس کا ساتھ نہیں دیتی۔ایک بار چھٹیوں کے بعد لاہور جاتے ہوئے وادعی کے وقت میں رونے لگی…توخط لکھاجب تک تم واپس نہیں آتی ،مجھے تمہارا روتا چہرہ ہی نظر آتا رہے گا…اور میں نے اس کے بعد رخصتی کے وقت ضبط گریہ کی مشق کرلی۔ مگر یہ بہت ہی سخت آزمائش ہے۔ جو اپنوں سے الوداعی ملاقات کرتے ہوئے آج بھی میرے مقدر میں ہے۔

    ریلوے اسٹیشن پہ جب تک گاڑی کے انتظار میں بیٹھے رہے۔وہ میرے وجود کے لمس کو محسوس کرتی رہیں۔ کبھی ہاتھ دباتیں۔ چہرے پر ہاتھ پھیرتیں، میرا ہاتھ اپنی قمیض کے اندر سینے پر رکھ کر محسوس کرتیں، ماتھا چومتیں، جانے ان کے دل میں کیا خدشات ابھر رہے ہوں گے۔ جانے کب ملنا ہو؟… آنکھوں میں مکہ، مدینہ جانے تقاخر اور جدائی کا نوحہ مل جل کر کیا کچھ نہیں پیش کررہے تھے، کوئی الفاظ نہیں ہیں … کوئی جملہ نہیں ہے جو اس جذبے کو نام دے سکے۔ وہ لمحے مجھے اب وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ شدت سے محسوس ہونے لگے ہیں۔ باہم رابطے کی آج کے دنوں کی مانند آسانیاںایجاد نہ ہوئی تھیں۔ایک خط پندرہ دن میں پہنچتا پھر پندرہ دن جو اب آنے میں لگتے اس طرح چالیس دنوں کا اندازہ لگا کر بے قرار نگاہیں دروازے پر ٹک جاتیں اور کان ڈاکئے کی آوازکے لئے جم جاتے۔اس دن جب ریل گاڑی میں بیٹھ گئی تو ساتھ بیٹھی رہیں۔ کندھوں پر دست شفقت پھیرتی دعائیں دیتی میری اس وقت تک بھی مجھے ان کے ہاتھوں کا لمس محسوس ہورہا ہے۔گاڑی کی وسل ہوئی تو نیچے اتر آئیں مگر کھڑکی کے پاس آکر میرے ہاتھ کو پکڑا اور ہونٹوں پر لگایا اور آنکھوں میں وہی انداز… جس کا کوئی نام نہیں۔ میر یخواہش ہوئی کہ میں کھڑکی سے باہر کود جائوں… گاڑی چل پڑی اور میری ماں ریلوے اسٹیشن کے فٹ پاتھ پر کھڑی رہی گئی … ان کی منتظر نگاہیں میرے دل میںپیوست ہو گئیں۔ ’’بیٹی کب ملو گی؟‘‘ ’’جلدی آنا‘‘۔میں کہیں بھی جاتی ’’جلدی آنا‘‘ کہنا نہ بھولتیں۔وہ سب یاد کرکے اور اب لکھتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونا آسان ہے گزرتے وقت کے ان لمحوں کو گرفت میں لانا مشکل ہے… بلکہ ناممکن ہے۔جب تک میرا نیا خط نہ آجاتا، پرانے خط کو ہی بار بار پڑھتی رہتیں۔سب کو پڑھواتیں۔ان کا دل چاہتا تھاکہ سب وہی کچھ محسوس کریں جو وہ اپنی بیٹی کے لئے محسوس کرتی ہیں۔

    جب نواسی کو رخصت کرنے ایئر پورٹ گئیں تو اس کی جدائی کو محسوس کرنے کا انداز بھی میری محبت اور میرا اپنی یٹی سے احساس جدائی سے جڑا ہوا تھا…کہنے لگیں ’’مجھے معلوم ہے آج تم کیا محسوس کررہی ہو‘‘… اور میرے احساس کا احساس ان کو رُلانے لگا۔

    میری بیٹی کو رخصت کرتے وقت نصیحت کی’’اگر تمہیں کوئی پریشانی ہوتو اپنی ماں کو نہ بتانا اس کو تکلیف ہوگی… نانی کو بتانا یہ بات بیٹی نے بعد میں بتائی میری تکلیف کا اس قدر احساس تھا ان کو… بھلا اس محبت شفقت کا کوئی جواب یا صلہ ہوسکتا ہے؟وہ میری پیاری ماں کے انمول جذبے…آہ!! اتنی بڑی کائنات میں کوئی ان جیسا نہیں ہے۔ یہ دنیا کتنی خالی ہو گئی ہے۔میرے دل کی طرح اور کبھی لگتا ہے کہ کائنات میں یادیں ہی یادیں سمائی ہوئی ہیں… میری ماں کی یادیں جیسے میرے دل میں… ہم کوشش بھی کریں تو اپنی اولادوں کے لئے ایسی ماں نہیں بن سکتے۔

    میرے سارے خط سنبھال کر رکھے ہوئے تھے۔ترتیب وار میری استعمال شدہ ہر چیز سنبھال کر رکھتیں۔میں اپنا کوئی جوڑا رکھ جاتی تو اس کو دیکھ دیکھ کر خوشی ہوتی رہتیں۔نیا سوٹ لے کر خوش نہ ہوتیں۔ استعمال شدہ لے کر کہیں’’اس میں سے تمہاری خوشبو آتی ہے لگتا ہے تم سینے سے لگی ہوئی ہو‘‘۔

    میری تحریروں کے شائع ہونے پر بے انتہا خوش ہوتیں اور جب کوئی پڑھ کر تعریف کرتا تو مزید خوش ہوتیں۔ بچپن میں بھی انعام دیتیں۔ ابھی گزشتہ دنوں چھوٹی بہن عیشہ راضیہ نے مجھے فون کیا ’’باجی امی آپ کو انعام دیا کرتی تھیں۔اب میں آپ کو انعام دوں گی۔‘‘تو مجھے اتنا لطف آیا اس کی با ت سن کر امی جان کے لئے اور عیشہ کو ان کے لئے صدقہ جاریہ بننے پر بہت دعائیں کیں۔امی کی شباہت عیشہ میں نمایاں ہوتی جارہی ہے میری اس سے محبت بھی بڑھتی جارہی ہے ہم خیال کرتے ہیں کہ والدین خصوصاً ماں کے لئے بھی ہم محبت کا جذبہ رکھتے ہیں اور بھلا براجو کچھ بھی کرتے ہیں۔بس کافی ہے۔ مگران کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ادراک ہوتا ہے کہ ہم نے سوائے حسرتوں کے کچھ نہیں پایا…خالی ہاتھ اور خالی دامن… ماں کی محبت کا نہ کوئی بدل ہے نہ بدلہ … اپنی ڈائری میںجہاں کہیں میرا یا کسی بھی اولاد کا نام لکھا یاکوئی ذ کر کیا ہے تو ساتھ بریکٹ میں (اللہ حافظ وناصر) ضرور لکھا ہے اور یہ کہ بڑی بیٹی تو سہیلی کی طرح ہوتی ہے۔ سال بھر انتظار کے بعد سعودیہ سے آتا ہوتا تو جہانیاں میں گزارنے کے لئے چند دن ہی نصیب ہوتے۔جب بھی ماں کے گھر سے رخصت ہوتی تو میری کوشش ہوتی کہ دروازے سے نکلوں توجلدی سے نظرو ں سے اوجھل ہو جائوں تاکہ وقت رخصتی کا ضبط گریہ زیادہ آزمائش سے نہ گزرے۔میری ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ دائیں طرف سے جایا کروں۔ادھر سے گلی کا راستہ لمبا ہے’’ میں زیادہ دیر تک تمہیں دیکھ سکتی ہوں‘‘۔…دونوں طرف ایک ہی جذبہ ہے لیکن اظہار کا طریقہ مختلف ہے۔ دنیا کی ہر ماں اپنی ذات پہ تکالیف جسمانی ہوں یا قلبی برداشت کرلیتی ہے۔ یہ وہ حصار ہے جس سے ہر اولاد فائدہ اٹھاتی ہے۔ اپنوں،غیروں کی طرف سے چلائے ہوئے حسد،رقابت کے تیر، مٹی ، دھول، کیچڑے کے چھینٹے مائیں کتنی سہولت سے اپنے اوپربرداشت کرتی ہیں۔ اولاد اوراولادوں کو ان کی خبر بھی نہیں ہونے دییں۔زمانہ گزرنے کے ساتھ جب حالات خود ہی اس کو آشکار کردیں تو اولاد دم بخود رہ جاتی ہے۔

    ہر ماں عظیم، اور ہر بیٹی کی ماں عظیم تر ہے۔ماں کو بیٹی میں اپنا وجود پھلتا پھولتا نظر آتا ہے اور اپنی بیٹی کو ماں کی صورت میں ایک آسرا نظر آتا ہے۔ زندگی کی مشکلات میں ہاتھ پکڑنے والی اس ہی جیسی ایک اور ہستی۔ جس کے وجود کا خود حصہ ہے۔ اپنے وجود کا حصہ پاس نہ ہوتو ماں کی کیفیت ناقبال بیان ہے۔ جب تک میں ’’بیٹی‘‘ رہی۔ میں اپنی جدائی کے احساس کو’’بیٹی‘‘ بن کر ہی سوچتی رہی۔ ماں سے جدا ہونا۔ یہ غم مجھے لگتا بس میں ہی محسوس کرسکتی ہوں۔جب بیٹی کو رخصت کرکے’’ماں‘‘ بنی تو میرے اندر دو جدائیوں کے غم پرورش پانے لگے۔ …’’ہائے!میری ماں نے میری جدائی کیسے برداشت کی ہوگی۔ وہ تو مجھ سے بہت محبت نہیں عشق کرتی تھیں’’وہ تو میری جدائی کا غم اور انتظار کے کرب میں اس وقت سے مبتلا تھیں جب میں چودہ سال کی تھی۔

    مجھے سعودیہ آئے ایک سال ہوا تو حج کی سعادت حاصل کرنے آئیں۔ ان دنوں ابھی ہمارے کمپنی کے حالات سیٹ نہ ہوئے تھے۔بہت آزردہ ہوئیں۔پھر میں بیمار پڑ گئی۔میں نے کیا ان کی خدمت کرنا تھی۔ وہی میری تیمارداری اور گھر اور بچی کو سنبھالنے میں لگی رہتیں۔

    حرم شریف میں ہر جگہ، ہر لمحہ دعا کرتیں۔ کسی کو بہت خشوع وخضوع سے دعا کرتے یا گریہ کرکے دعامیں مصروف دیکھتیں تو اسے کہتیں’’میری بیٹی کی صحت کے لئے دعا کردیں‘‘ مجھے ساتھ لے جائیں اور بتائیں اس کے لئے دعا کریں‘‘ ان کی دعاؤں کے طفیل چند ہی دنوں بعد اللہ تعالیٰ نے سب حالات بہتر کردیئے۔کمپنی کی طرف سے ہر آسائش اور صحت بھی اللہ تعالیٰ نے عطا کردی۔ حج کے ان دنوں کی ڈائری کے ہر ورق پہ’’میرے لئے دعا درج ہے۔‘‘ بچپن میں ایک بار ہم تینوں بڑے بہن بھائی بیمارہو گئے۔پرانی ڈائری میں ان دنوں کے بارے اباجان نے لکھا ہوا ہے’’ یہ عام الحزن ہے میرے بچے بیمار ہیں‘‘۔

    جیسا میں محسوس کرتی ہوں۔میرے سب بہن بھائی یقینا ایسی ہی محبت کا احساس دلوں میں رکھتے ہیں۔ میرے توسط سے ان سب کے دلوں کا حال بھی اجاگر ہورہا ہے۔ ہر بچہ والدین کے لئے خاص ہوتا ہے اور اپنی کسی نہ کسی خوبی کی بنا پر وہ ’’اکلوتا‘‘ ہی ہوتا ہے۔ حج کرنے آئیں تو ہر بچے کا تذکرہ بھی پوری تفصیل سے کرتی رہیں۔چھوٹی بچی جوکہ گود میں تھی۔ بڑی بیٹیاں، بیٹا، دعا کا خاص انداز۔ ہر مقام پہ کسی نہ کسی کے ساتھ کوئی نہ کوئی مناسبت نکل آتی۔ سب کو اپنی محبتوں کے حصار میں رکھتی تھیں۔ اپنی ماں کے ساتھ آخری دنوں کی ملاقات،بس تین دن کا ساتھ…سال بعد نصیب ہوا…وفات سے ایک دن پہلے ناشتہ کرنے کے بعد کہنے لگیں۔

    ’’تم پردیسن کے ہاتھ کی روٹی میں پوری کھالی ہے‘‘… محبت کاایک اچھوتا سا احساس ان کے لہجے میں نمایاں تھا میں سوچتی ہی بھائی کی شادی کاہنگامہ ختم ہوگا تو بہت ساری باتیں کرنا ہیں۔

    بیٹے واصف کے نکاح کے بعد بھی ہماری پہلی ملاقات تھی۔ کہنے لگیں
    ’’میں نے کسی کا واقعہ پڑھا تھا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کا نکاح مسجد نبوی میں کیا تھا۔میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میرے بھی کسی بچے کا نکاح اس مقدس بابرکت مقام پہ ہو‘‘واصف کا نکاح وہاں ہوا تو میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اس نے میری خواہش پوری کردی‘‘۔

    اگلے دن میری ماں کو دنیا سے منہ موڑنے کا حکم دیا گیا اور انہوں نے سراطاعت سرجھکادیا۔ میری گود میں ان کاوجود تھا۔میرے سینے سے ٹیکے لگائے میری ماں چپکے سے چلی گئی…اتنی خاموشی سے کہ میرے اور ان کے درمیان کوئی فاصلہ نام کو بھی نہ تھا پھر بھی میں نے ان کے جانے کی آہٹ تک نہ سنی۔ چند سیکنڈ پہلے منہ میں دوا ڈالی تو خود منہ کھولا…چمچے سے لگئی باقی دواکو دیکھا تو دوبارہ منہ کھولا۔ایک چمچہ منہ میں پانی ڈالا…اور پھر میرے بازو پہ سررکھ دیا۔اور یہی واپسی کالمحہ تھا۔میں نے محسوس کیا دل کی دھڑکن جو مجھے محسوس ہورہی تھی اب ایک دم ختم ہوگئی ہے جیسے کوئی سوئچ آف کر دے … میں نے پائنتی پہ بیٹھی حمیرایاسمین کو احساس دلایا کہ ’’دل کی دھڑکن نہیں ہے۔‘‘ اور اس دھڑکن کا رکنا ہی ان کی زندگی کے دوسرے مقام پہ منتقل ہونا تھا۔(انا للّٰہ واناالیہ راجعون) انسان کو کیا معلوم کہ ان کے درمیان فرشتہ اجل موجود ہے۔زندگی کی گہما گہمی سے کس طرح ایک جیتا جاگتا انسان بے نیاز کردیا جاتا ہے۔زندگی کی گاڑی کو ایک دھچکا لگا۔پھر وہ رواں دواں ہو جاتی ہے۔ لیکن جو مسافر اترجاتا ہے اس کی سنگت اور اس سے وابستہ رشتہ مسافروں کے دلوں سے محو نہیں ہوتا…زندگی کی ریل گاڑی میں ہر مسافر اپنی منزل آنے پر اتر جاتا ہے۔ ہاتھ پکڑ کر فرشتہ اجل اسے اتار دیتا ہے۔ہر مسافر اس مگن اور دھن میں لگا ہوا ہوتا ہے کہ ابھی میری باری نہیں آئے گی لیکن کس کی باری کب آنی ہے ہر مسافر اس سے بے خبر ہے۔

    ماں اپنی بیٹیوں کو رخصت کرکے ان کی گڑیاں،کھلونے،کتابیں دیکھ کر دل بہلاتی ہے اور ان کی آسودگی کے لئے دعا گو رہتی ہیں۔ہم بیٹیوں نے ماں کو رخصت کیا تو ہم سب کے پاس یادیں ہی یادیں تھیں۔ہر بیٹی کا انداز غم جدا تھا۔ جیسا کہ ماں کی محبت کا ہر بیٹی کے ساتھ انداز محبت جدا تھا۔ ہر کوئی ایک دوسرے میں ماں کی کوئی نہ کوئی نسبت تلاش کرکے ماں کی کمی پوری کرنے میں کوشاں ہے۔ اللہ رب العزت نے ماں کا نعم البدل کسی کو نہیں بتایا لیکن بہنیں ماں کا عکس ہوتی ہیں۔اسی وجود کا حصہ… کیسی زنجیریں ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ رشتوں میں جکڑی ہوئی ہیں اور انہی زنجیروں نے احساسات وجذبات کو منتقل کرنے کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے۔

    ماں کی رخصتی کے بعد ان کی سنبھالی ہوئی یادگار خاص اشیاء، خط، ڈائریاں وغیرہ دیکھ رہے تھے تو حمیرا یاسمین نے مجھے ایک چھوٹی سی چیز پکڑائی جوکاغذ میں لپٹی ہوئی تھی… جس کو دیکھ کر دل رنجور نے ایک آہ بھری… اور اپنی ماں کی محبت کے انمول ہونے کی مزید تصدیق کی… وہ بھلا کیاتھا؟…چند بال جیسے برش یا کنگھی سے نکالے ہوئے ہوں اور اوپر چپ لپٹی ہوئی تھی۔چٹ پر ’’بشریٰ کے بال‘‘ لکھا تھا۔ گھر سے جس کو رخصت کرتیں اس کی آخری استعمال شدہ چیز سنبھال رکھتیں۔ گزشتہ برس میرے پاکستان سے رخصت ہوتے ہوئے آخری وقت کی تازہ ترین نشانی سنبھال رکھی تھی۔’’میرے مولا! میری ماں کو اسی رحمت واسعہ سے نوازیئے جس کا حوالہ آپ نے ماں کی مثال دے دے کرسمجھایا ہے ہمیں‘‘۔

    کہنے کو ان گنت واقعات ہیں۔احساس دلانے کو بے شمارجذبے ہیں۔ مگر ایک بات سب باتوں کو جلا بخشتی ہے…وہ ’’میری ماں‘‘ تھی… راتوں کی تنہائیوں میں میرے لئے آنسو بہانے والی۔ دن کے اُجالوں میں میرا انتظار کرنے والی۔شام کے نیم اندھیرے میں میری عافیت کی دعاکرنے والی، اور لمبی دوپہروںمیں میرے خط پڑھ کر وقت بتانے والی،میری ہر بات پر توجہ دینے والی، میرے ہر لفظ کو غورسے پڑھنے والی…دل میں بسنے والی اور اپنے دل میں مجھے بسانے والی… وہ پیاری ہستی جس کے ساتھ میرا انتظار کا رشتہ ہے، وہ انتظار کرب جومحبت کی جوت جگائے رکھتا ہے۔

    ہر گزرنے والا دن مجھے تسلی دیتا ہے کہ انتظارکی گھڑیاں کم ہو گئی ہیں ملن کا سمے قریب آتا جارہا ہے۔مجھے خوابوں میں کوئی دنیا سے جانے والا نظر نہیں آتا… بڑی منت سماجت کے بعد ایک دن میری ماں ملنے آئی۔ خوبصورت ،جوان، نوعمرلڑکیوں کی سرمتی اور بانکپن لئے اپنے ہاتھوں کو مہندی سے سجا رہی ہیں۔ خوش اور مطمئن۔

    اپنی خوش اور مطمئن ماں کا چہرہ مجھے اندر تک سکون دیتا ہے…اور ہر لمحہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ شفیق چہرہ جنت کے کسی دروازے کے پٹ سے لگا منتظر نگاہوں سے پوچھ رہا ہے۔
    ’’بیٹی! کب ملوگی؟کب آئوگی‘‘؟’’جلدی آجانا

  • بڑے ہوتے بچوں کے مسائل، مائیں کیا کریں؟ نیر تاباں

    بڑے ہوتے بچوں کے مسائل، مائیں کیا کریں؟ نیر تاباں

    مجھے نہیں پتہ تھا کہ بچے ضد کر کے کیسے بات منواتے ہیں، کیونکہ احمد نے ایسا کبھی کیا ہی نہ تھا۔

    وہ اتنا بے حد پیارا تھا جتنے سب بچے اپنی امیوں کو لگتے ہیں۔ اور اس کی اضافی صفت یہ تھی کہ وہ بہت خوش رہنا، بِیبا بچہ تھا۔ اسے لئے لمبی فلائٹس بھی کیں، ایک براعظم سے دوسرے کا سفر کیا، دن رات، کھانے پینے، لوگ احباب سب بدلا لیکن میرے بچے کا مزاج نہ بدلا۔ وہ سب میں خوش رہتا۔ ننھا سا تھا تب بھی جاگتا تو زندگی سے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ۔

    میں نے اس کی پیدائش سے بھی پہلے سے پیرنٹنگ کورسز کر رکھے تھے۔ مجھے کافی اندازہ تھا کہ کیسے کیسے چھوٹے بچوں کو ڈیل کیا جائے۔ یوں مل جل کر ہماری زندگی بڑی پیاری گزر رہی تھی۔ ہم دونوں میں کمال کی بانڈنگ تھی۔ میں اسے رنگ برنگ ایکٹیویٹیز میں مصروف رکھتی، وہ بہترین ساتھ نبھاتا۔ ہم خوب کھیلتے تھے۔ ڈھیر کتابیں پڑھتے تھے، بہت باتیں کرتے تھے۔

    پھر پارک سے ماما کے لئے پرندوں کے ٹوٹے ہوئے پر، خشک پتے، اور چکنے پتھر تحفہ لاتے لاتے پتہ نہیں چلا کس دن احمد بڑا ہو گیا۔
    بات مان لینے والے میرے بیٹے کی اب اپنی پرسنیلٹی بننے لگی تھی۔ وہ کچھ باتیں مانتا، اور کچھ پر رِزِسٹ کرتا تھا۔ہماری نسل کچھ یوں پروان چڑھی ہے کہ ہم کنٹرولنگ ماحول میں بڑے ہوئے ہیں۔ لامحالہ ہمارے لئے یہ انا کا مسئلہ بن جاتا کہ بچہ میری بات کو رد کر دے۔ اچھے بچے تو وہ ہوتے ہیں نا جو ہر بات مانتے ہیں؟ جن کی شاید اپنی کوئی رائے نہیں ہوتی۔ جو انسان کے جسم میں روبوٹ ہوتے ہیں۔ آپ ان کا جو بٹن آن کریں، وہ اس کی طے شدہ ہدایات کے مطابق کام شروع کر دیں۔ آپ بٹن آف کریں اور بچہ بلا کسی پس و پیش کے رک جائے۔ ہے نا؟

    بس، یہیں سے ابتدا ہوئی میرے اور احمد کے بیچ تلخی کی۔
    وہ کبھی بات مان لیتا، کبھی اپنی مرضی کرتا۔ میں بول پڑتی، وہ جواب دیتا، میری آواز مزید اونچی ہوتی۔ ہمارے بیچ واضح طور پر ایک پاور سٹرگل چل رہی تھی اور مجھے یہ جنگ ہر حال میں جیتنا تھی۔ میں ماں تھی آخر! نتیجتاً وہ جتنا لاؤڈ ہو گا، میری آواز اس سے زیادہ بلند ہو گی۔
    “شرم نہیں آتی ماں کو جواب دیتے ہوئے؟”
    “میرا دل کرتا ہے اب ایک لگا دوں گی آپ کو۔۔” (ایسا زندگی میں کبھی نہیں ہوا لیکن یہ جملہ احمد کے دس گیارہ سال کے ہونے پر میری زبان سے ادا کئی بار ہوا)
    “آپ جائیں یہاں سے اور مجھے اب نظر نہ آنا کافی دیر۔۔”

    مجھے یہ تو سمجھ آ رہا تھا کہ مجھ سے زیادتی ہو جاتی ہے۔ مجھے ٹھیک سے اس کا حل نہیں پتہ چل رہا تھا۔ مجھے عادت ہی نہ تھی کہ وہ من مانیاں کرتا پھرے۔ بات ماننے والے میرے “اچھے” بچے کا یہ روپ ناقابل قبول تھا۔ میں چڑچڑی ہو رہی تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ میں نے دس سال اسے بہترین طریقے سے پالا ہے تو کیا میں کنٹرولنگ تھی؟ یا پھر یہ بد تمیز ہونے لگا ہے؟ ہفتے دس دن بعد ایک بار ماں غصہ کر دے تو یہ نارمل ہے۔ لیکن اگر ہر روز یا دو دن بعد آپس میں چپقلش ہو رہی ہے تو کہیں تو کچھ بہت ہی غلط ہو رہا ہے۔ مجھے اضافی تکلیف یہ ہوتی کہ میں اتنا فریکوینٹ لی اگر اسے ڈانٹوں گی تو کیا اسے وہ ڈھیر لاڈ یاد رہیں گے یا بچپن کی بات بچپن کے ساتھ رہ جائے گی اور اسے کوئی کنٹرولنگ، نارسسسٹ ماں یاد رہے گی؟

    انہی دنوں جب میں نے اپنا بلڈ ورک کروایا تو میرا آئرن شدید لو آیا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ کمی میرے مزاج پر اس بدترین طرح سے اثر انداز ہو رہی ہے۔ سپلیمنٹ لینے شروع کیے تو ہفتہ بھر میں ہی حالات کی کشیدگی کم ہونے لگی۔ میرا موڈ بہت بہتر ہونے لگا۔ ساتھ ہی ڈاکٹر شیفالی کا پیرنٹنگ کورس کیا۔ خریدتے وقت تو بہت مہنگا محسوس ہوا کہ پانچ لیکچر پانچ سو ڈالر کے۔ لیکن اس نے مجھے بہت سہارا دے دیا۔ ٹین ایج بچوں کے مزاج کے بارے میں بہتر آگاہی ملی۔ سب کچھ جو احمد کر رہا تھا، وہ اس کی عمر کے سبھی بچے کرتے ہیں۔ اور پھر جیسا کہ پیرنٹنگ کا مطلب بچے کی تربیت کی خاطر اپنی تربیت کرنا ہوتا ہے، اس چیز نے بہت مدد دی۔ مزید سیکھنے کے دروازے بھی کھولے۔ اسی میں ایک اینیمیٹڈ مووی “Inside Out” کا ذکر بھی ضروری ہے۔ وہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ بچے کے اندر ہارمونز کس طرح ہلچل مچائے ہوئے ہیں۔

    ایک کام اور بہت اہم یہ کیا کہ میں اپنے ٹرِگرز پر نگاہ رکھنے لگی۔ ایک تو وہی ہماری اپنی پرورش جس انداز میں ہوئی ہے، وہ ہمارے اندر سے نکل کر باہر آنے لگتا ہے۔ پھر انر چائلڈ جسے ویلیڈیشن چاہیے اور اپنی بات منوانی ہے۔ پھر یہ کہ انا کو کیسے ہینڈل کریں۔ اور جب میں نے اپنے موڈ سونگز کو ٹریک کیا تو اس کا سرا خواتین کے منتھلی سائیکل کے ساتھ بھی جڑتا محسوس ہوا۔ اسی لئے ٹرگرز پہچاننا ضروری ہے۔ پتہ ہو گا کہ آخر غصہ کیوں آ رہا ہے تو بچے کو الزام دینے، یا اس پر انڈیلنے کے بجائے جڑ پکڑنا آسان ہو گا۔

    ایک اہم بات یہاں والد حضرات سے بھی۔ عموماً جس وقت بچے اپنی پری ٹین اور ٹین کو ہٹ کرتے ہیں، اسی وقت مائیں اپنے پیری مینوپاز اور مینوپاز سے گزر رہی ہوتی ہیں۔ یعنی ماں اور ٹین ایجر میں ہارمونز کا تپتا گولہ ایک طرف ہے، تو کھولتا ہوا مادہ دوسری جانب۔ جس دن دونوں طرف کے ہارمونز کا ٹکراؤ ہوتا ہے، لاوا پھٹ پڑتا ہے۔ ایسے میں والد کو چاہئے کہ اپنی بیوی کا خیال کریں، اور اپنی اولاد کا بھی۔ میرے جیسی ماں گھر والوں سے کہہ دیا کرتی ہے کہ کچھ دن مجھ سے مت الجھیں۔ میں خود مشکل میں ہوں۔ آپ لوگ احساس کر لیں۔ نرمی سے یہ بات کہہ دینے سے بھی بہتری آتی ہے۔

    بات مختصر کرنے کی کوشش میں بھی طویل ہو گئی۔
    حرفِ آخر یہ ہے کہ اپنی صحت کا خیال رکھیے۔ بچوں کے ساتھ تعلق، تعلق، تعلق کی خاطر خود پر کام کرتے رہیے۔ آج کے دور میں بچوں سے تعلق بنانے کے لئے مل کر کوئی گیم کھیل لیں، یا مووی یا سیزن ساتھ دیکھ لیں۔ انہیں میمز بھیج دیں۔ مل کر کوکنگ کر لیں۔اور خدارا، کسی بھی حال میں لڑائی لٹکائیں نہیں۔ انا کو ہار جانے دیں، بچہ جیت لیں۔ خود ان کے پاس چلے جائیں۔ پیچھے سے ہگ کر لیں۔ چہرہ ہاتھ میں لئے ماتھا چوم لیں۔ ہتھیلی پر پیار کر دیں۔ ماں کے محبت بھرے لمس میں جادو ہے۔ بچوں کو (اور خود کو بھی!) اس سے محروم نہ کریں۔

    اور دعا۔ بہت دعا کرتے رہیں۔ ماتھا چومتے بآواز بلند دعا بھی کریں تا کہ بچے کے دل و دماغ میں بھی کہیں نہ کہیں وہ دعا راسخ ہوتی رہے کہ والدین ہم سے کیا چاہتے ہیں، اور کیوں چاہتے ہیں۔

    اس پوری چیز کو unlearn، اور relearn کرنے، پریکٹس میں لانے میں مجھے کم و بیش سال ڈیڑھ لگ گیا۔ لیکن اب الحمد للہ بہت دن بعد ہمارے بیچ کوئی گڑ بڑ ہوتی ہے۔ اتنا تو پھر چلتا ہے نا۔ وہ بھی روبوٹ نہیں، اور ہم بھی عام انسان ہیں۔

  • بہت غصہ آ تا ہے ؟ پہلے یہ پڑھ لیجیے – روبینہ یاسمین

    بہت غصہ آ تا ہے ؟ پہلے یہ پڑھ لیجیے – روبینہ یاسمین

    دو واقعات اس وقت سوشل میڈیا پر زیر بحث ہیں۔
    ایک ، پاک پتن میں ایک بچے نے طیش میں آ کر قینچی اپنی ماں کو دے ماری۔

    دو، حرم میں ایک عورت کو قانون نافذ کرنے والے ادارے کے کارکن نے تھپڑ مارا جبکہ خاتون نے پہلے اس پر ہاتھ اٹھایا۔
    دونوں واقعات اشتعال میں آ نے کے ہیں۔

    بلکہ ایک تیسرا واقعہ بھی دیکھا کہ ایک خاتون ایک گاڑی کو دو لتیاں رسید کر رہی ہیں اور ڈرائیور کو پتہ نہیں کیا کیا واہی تباہی بک رہی ہیں۔

    اب اگر ڈرائیور نکل کر ایک دو ہاتھ لگا دیتا تو انھوں نے مظلوم بن جانا تھا کہ عورت پر ہاتھ اٹھایا۔

    بچے کورا کاغذ ہوتے ہیں ۔ یہ جو کچھ بھی سیکھتے ہیں اپنے ماحول سے سیکھتے ہیں۔

    ٹک ٹاک پر اکثر وڈیوز میں ماؤ ں کی بدکلامی اور ہاتھ چالاکی کی وڈیوز موجود ہیں۔ بچے نے بات نہیں سنی، ماں نے چپل اتار کر دے ماری۔ یہ سب دیکھ کر لوگ ہنستے ہیں، لیکن جب ماں چپل اتار کر دے مارتی ہے تو بچے کو یہ سکھا رہی ہوتی ہے کہ جو چیز پاس ہے اس سے ضرر پہنچا دو۔

    میں یہاں وکٹم بلیمنگ نہیں کر رہی۔ میں مسئلہ کی جڑ بتا رہی ہوں۔

    یہ جو عورتیں اپنے اشتعال پر اتنا قابو نہیں پا سکتیں کہ کوئی حرم میں تھپڑ مار رہی ہے، کوئی گاڑی کو لاتیں مار رہی ہے، یہ گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہوں گی۔

    زور تو کمزور پر ہی چلتا ہے۔ پھر جب یہی کمزور بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو ایسی وڈیوز بھی نیٹ پر موجود ہیں کہ وہ اپنی ماؤ ں کو مارتے ہیں۔

    کچھ عرصہ پہلے ایک ویڈیو آ ئی تھی کہ ایک پاکستانی شادی شدہ مرد نے اپنی ماں کو مارا۔ بہن نے چھپ کر وڈیو بنا کر نیٹ پر ڈال دی۔ سب اس مرد کو نا فرمان بد بخت کہنے لگے۔

    وہ اس مقام تک کیسے پہنچا؟

    کچھ خواتین سمجھتی ہیں انھوں نے پیدا کیا اب ان کا حق ہے کہ ماریں پیٹیں، بد زبانی کریں، اونچی آ واز میں چلا چلا کر جینا حرام کر دیں۔

    کنٹرول کریں خود کو۔

    بچے ذمہ داری ہیں۔ اتنی ذمہ داری لیں جتنی بخوبی اٹھا سکتی ہیں۔

    بچہ اور ماں کا رشتہ بانڈنگ کا پیار کا ہونا چاہیے، بیزاری کا نہیں ۔ بچہ کی دنیا تو ماں ہی ہوتی ہے۔ ماں ہی اس کی سیف پلیس نہیں ہو گی تو بچہ کی ذہنی صحت تو خراب ہو گی ہی۔

    جس دن سے بچہ پیدا ہوتا ہے اس دن سے اسے ایک مکمل فرد سمجھیں۔ جس طرح کسی بھی انسان سے تمیز سے بات کرنی ہے بالکل اسی طرح اپنے بچے سے پہلے دن سے پوری عزت کا برتاؤ کرنا ہے۔ اس سے بات کرتے ہوئے الفاظ کا چناؤ بہترین کرنا ہے۔ یہ نہیں سوچنا کہ میں نے پیدا کیا ہے اب میں جو مرضی کروں۔

    بچے کو پیار کی زبان سمجھ آ تی ہے۔ نرمی کی زبان سمجھ آ تی ہے۔ اب کچھ لوگ کہیں گے بے جا لاڈ پیار سے بچے بگڑ جاتے ہیں ۔
    بالکل ، بچہ نادان ہوتا ہے اسے ہماری رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں وہ غلطی کرتا ہے اسے مناسب وقت پر جب وہ سننے کے موڈ میں ہو اپنے پاس بٹھا کر نرمی سے سمجھائیں ۔ جہاں روکنا ہے وہ باؤ نڈریز بتائیں۔ یہ کام نہیں کرنا تو کیوں نہیں کرنا۔

    غصے میں انسان چیخ کر بات کرتا ہے حالانکہ جس سے بات کر رہا ہوتا ہے وہ سامنے ہی بیٹھا ہوتا ہے۔ چیخنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ دوسرے انسان سے دور ہو گئے ہیں، اس لیے چیخ کر اپنی بات پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    نرمی اور آ ہستگی سے کی گئی بات پیغام دیتی ہے کہ آ پ دوسرے بندے کے قریب ہیں، اس لیے آ پ کی بات آ سانی سے اس کے دل تک پہنچ جائے گی۔

    آ پ انسان ہیں ۔ انسان کو غصہ آ بھی سکتا ہے۔ اگر غصہ آ ئے تو ضبط کریں۔ وہ جگہ چھوڑ دیں۔ کھلی فضا میں جائیں ۔ گہرے سانس لیں۔ منہ بند رکھیں ۔ جب غصے کی لہر گزر جائے، تب پر سکون ہونے کے بعد ہی منہ کھولیں۔

    الفاظ کے زخم بھی بہت کاری ہوتے ہیں۔ انھیں سوچ سمجھ کر استعمال کریں۔

    پر سکون رہیں۔ ہمارے کہے ہوئے الفاظ کائنات میں باقی رہتے ہیں ، گونجتے رہتے ہیں۔ کوشش کریں کہ ہماری صرف اچھی باتیں ہی کائنات کا حصہ بنیں۔ تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے

  • صرف پچھتاوا  – ادینہ سہیل

    صرف پچھتاوا – ادینہ سہیل

    وہ جائے نماز پر بیٹھا گڑگڑا رہا تھا. اس کی نم آنکھوں کے گرد حلقوں نے جگہ بنا رکھی تھی. رات کے اس پہر وہ ادھر کیا کر رہا تھا؟؟ جب ساری دنیا خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی. کیا تھی وہ چیز جس کی طلب اسے اس وقت جگا رہی تھی؟ وہ کیوں تڑپ رہا تھا؟ وہ کتنی دیر صحن میں جائے نماز پر بیٹھے سرخ آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھتا رہا. وہ عجیب سی کیفیات کا شکار تھا.

    سیف پچھلی کئی راتوں سے ٹھیک سے سو نہیں پایا تھا. وہ اب ہر بار صرف اس ایک عورت کے لیے دعا کر رہاتھا جو اس کے خیال میں اس کی کل کائنات تھی. سیف اپنی زندگی کے بدلے صرف اس ایک عورت کی زندگی مانگ رہا تھا. وہ شدت سے اس عورت کی صحت یابی کی دعائیں کر رہا تھا، مگر حالات میں کچھ بہتری نہ دیکھتے ہوئے بھی وہ خلاف توقع اور مایوس ہونے کے بجائے مزید وقت جائے نماز پر بیٹھے دعاؤں میں صرف کرنے لگا. وہ عورت اس کی ماں تھی. سیف ان کو تکلیف میں دیکھ کر ٹوٹ کر چکنا چور ہو چکا تھا.

    ماں نعمت ہی ایسی ہے، مگر اس بات کا اندازہ اولاد کو دیر سے ہی کیوں ہوتا ہے؟ ہم کیوں ماں کی قدر نہیں کرتے؟ اس کو وقت نہیں دیتے؟ خیال کیوں نہیں رکھتے؟ وہ ہم سے کیا مانگتی ہے، صرف توجہ اور تھوڑا سا وقت، مگر انسان اپنی دولت کو بڑھانے کی ہوس میں اس قدر آگے نکل گیا ہوتا ہے کہ مڑ کر پیچھے کھڑے لوگوں کو دیکھنا اسے گوارا نہیں ہوتا.

    بچپن میں انسان کے دل میں ماں کی محبت کا پودا اگتا ہے جو بہت جلد تناور درخت کی شکل اختیار کر لیتا ہے، لیکن پھر انسان کی بڑھتی عمر کے ساتھ اس درخت کے پتے کیوں سوکھنے لگتے ہیں؟ شاید اس وجہ سے کہ بچپن میں ہم محتاج ہوتے ہیں، ہمارا ہر کام ہماری ماں کرتی ہے، اور بڑے ہو کر ہم خود کو اتنا قابل اور سمجھدار سمجھنے لگتے ہیں کہ ہمیں ماں کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی. وہ ماں جس کی ہر دعا ہماری کامیابی سے شروع ہو کر ہماری حفاظت پر ختم ہوتی ہے، ہم اب اکثر اسے اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا بھول جاتے ہیں. کیا ایسے ماں کا حق ادا ہوگا؟ ہمارے لیے سہی جانے والی اذیت کا یہ صلہ ہے؟ کیا وہ اس سب کی حقدار ہے؟

    سیف کا دماغ سوالوں سے بھر گیا. وہ صرف ایک بار اپنی ماں کو صحت یاب دیکھنا چاہتا تھا. پھر وہ ان سب لغزشوں کی معافی مانگ لیتا. وہ اپنی ساری زندگی ان کی خدمت میں گزار دیتا. مگر ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے.

    “آئی ایم سوری، ہم آپ کی والدہ کو نہیں بچا سکے” پھر ایک دن اس کے کانوں سے یہ الفاظ ٹکرائے.
    کیا؟؟ کیا؟ وہ بے یقینی کے عالم میں اپنی جگہ پر ہی جم گیا. اسے لگا جیسے وہ زمین کے اندر دھنس جائے گا. ماں کے جانے کی بعد اس کے پاس کیا تھا؟؟ صرف پچھتاوا. اس کی وہ دولت جو اس نے پردیس جا کر کمائی تھی، کیا وہ دولت اس کی ماں کو بچا سکی؟ کیا وہ اتنے پڑھے لکھے قابل ڈاکٹرز اس کی ماں کو بچا سکے ؟نہیں.. کیونکہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے. وہ صرف پچھتاوے کے قدموں تلے دب کر رہ گیا تھا کیونکہ شاید اس نے کبھی اپنی ماں کے پاؤں تلے جنت کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہی نہیں تھی .

  • میری ”بےبے“ اور مسلمان – وحید صابر

    میری ”بےبے“ اور مسلمان – وحید صابر

    حضرت عمر کے زمانے میں عمواس شام میں طاعون پھیل گیا، جس میں بڑے جلیل القدر صحابہ شہید ہوئے. ابوعبیدہ بن جراح حضرت بلال بھی ان میں شامل تھے. انھی میں ایک حضرت معاذ بن جبل بھی تھے. ان کے رتبے کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تھا. ان کو جب طاعون ہوا تو بہت شدید تکلیف میں مبتلا ہوئے.

    صحابہ کہتے ہیں کہ قریبا 30 ہزار صحابہ اس مرض میں اللہ کو پیارے ہو گئے، لیکن جو تکلیف ہم نے معاذ بن جبل کی دیکھی ہے، ویسی تکلیف دہ موت ہم نے آج تک کسی کی نہیں دیکھی. درد کی وجہ سے ان کو بیہوشی کے دورے پڑتے اور سانس بند ہو جاتا تھا، لیکن جب ہوش آتا تو بس ایک جملہ کہتے تھے : ”یااللہ! تو نے جتنا میرا گلا دبانا ہے دبا لے لیکن تو جانتا ہے کہ میرا دل تجھ سے محبت کرتا ہے.“ بس یہی فرماتے ہوئے جان اللہ کے سپرد کر دی. صحابہ کہتے ہیں کہ ہم پہلے سمجھتے تھے کہ نیک لوگوں کو اللہ بڑی آسانی سے اپنے پاس بلاتا ہے، لیکن ہم لوگوں کی یہ رائے معاذ بن جبل کو دیکھ کر بدل گئی .

    چوں میگوئم مسلمانم بلرزم
    کہ دانم مشکلات لا الٰہ را​

    میری نانی اماں جن کو ہم سب “بےبے” کہتے ہیں، آج ان کی کچھ باتیں آپ لوگوں سے کرنی ہیں تاکہ میرے جیسے گنہگاروں کو معلوم ہو سکے کہ مسلمانی کسے کہتے ہیں.میری بےبے کہتی ہیں کہ میری امی پاکستان بننے کے چند ماہ بعد پیدا ہوئی تھیں، اس لیے سب کہتے ہیں کہ بےبے کی عمر سو سال ہو چکی. ہم سب نے بےبے کو بہت ہی شفیق، مہربان اور نماز روزے کی پابند پایا. جو سال بچپن میں ہم نے گاؤں میں بےبے کے ساتھ گزارے، سب جانتے ہیں کہ بےبے فجر کی اذان سے بہت پہلے اٹھتی تھیں. تہجد اور فجر کے بعد قران کی تلاوت کرتیں، اور پھر کاموں میں مشغول ہو جاتیں. ہم نے کبھی اپنی زندگی میں بےبے کے اس معمول میں ناغہ نہیں دیکھا، لیکن اب وہ صاحب فراش ہیں، اوربڑھاپے کی وجہ سے دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے.

    خود کروٹ بھی نہیں بدل سکتیں، کسی کا نام یاد نہیں کسی کو پہچانتی نہیں اور اب آنکھوں کی بینائی بھی چلی گئی ہے آج جب میں ان کی عیادت کرنے گیا تو دیکھا داہنی کروٹ لیٹی ہیں منہ قبلے کی طرف ہے اور کچھ بولتی رہتی ہیں ماموں ان کو بائیں کروٹ لٹانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بے سود وہ لیٹتی ہی دائیں کروٹ ہیں اور مسلسل دائیں کروٹ لیٹنے سے زخم ہو گئے ہیں لیکن مجال ہے جو اس پوزیشن سے ہلیں ۔دائیں کروٹ لیٹنا کیا ہوتا ہے یہ آج جدید نسل کو معلوم نہیں لیکن میں جو الفاظ آج بےبے کی زبان مبارک سے سن کر آیا ہوں اس نے میرے وجدان میں بھونچال سا اٹھا رکھا ہے.

    میں چاہتاہوں وہ الفاظ آپ بھی سنیں لیکن ایک جھوٹے اور بے دین کی زبان سے شاید ان کا وہ اثر نہ ہو جو میں آج اللہ کی ایک سچی اور پکی بندی کے منہ سے سن کر آیا ہوں میں سب کو کہتا ہوں کہ جس نے سچے مسلمان کی زندگی اور موت دونوں ایک ساتھ دیکھنی ہو وہ ہماری بےبے کو دیکھ آئے نفسا نفسی کے اس دور میں ایسی مثالیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی . اگر ان الفاظ میں میں کوئی ہیر پھیر کروں یا مبالغے سے کام لوں تو آپ باجی سے پوچھ سکتے ہیں. انہون نے بھی کم از کم چار سے پانچ دفعہ یہ الفاظ سنے ہیں. ایک سچے دل کی بپتا ہے جو ایسے مدہر گیت میں ڈھل گئی ہے، جس نے میرے وجود کے ذرے ذرے میں دھمال مچا رکھی ہے. گل وبلبل کے افسانے اور چندا و چکور کے قصے ان محبت بھرے الفاظ کے آگے ہیچ ہیں.

    اللہ میرا واحد اے
    محمد میرا شاہد اے
    کلمہ میرا دین اے
    کلمے تے یقین اے
    بندہ مسلمین اے

    استغفراللہ

  • جان مادرم – سعد احمد

    جان مادرم – سعد احمد

    دسمبر آنے کو تھا اور میں اس خوف سے مرا جارہا تھا کہ پھرمیری دنیا لٹے گی اور میں کسی کام کا نہیں رہ جاوں گا۔ حساسیت کی اوڑھنی اوڑھے دنیا و مافیھا کا خیالی ازدہام میری رگوں میں خون سے بھی زیادہ ضروری ادراکِ ہست و بود پہ حملہ آور ہو گا۔ دسمبر، ہاں دسمبر میری گردن پہ خنجر لگائے گا، میری آنکھوں پہ نیلگوں روشنائی ڈال مجھے یاد داشتوں کے عہد یخ میں ڈھکیل زور زور سے پیچھے کھڑے ہو کر تالیاں بجائے گا۔ دسمبر سے میرا رشتہ انتہائی غمناک ہے اور مزید غم اس بات کا ہے کہ مجھے نہیں معلوم دسمبر میں میرے اوسان خطا کیوں ہو جاتے ہیں، مرا ذہن افیونی مغلظات کا جما ہوا ملغوبہ کیوں بن جاتا ہے۔ میری سوچنے کی تمام تر قوتیں دھراشائی کیوں ہو پڑتی ہیں۔ دسمبر کے دنوں میں میرے سامنے ناسٹیلجیائیت کی بانسری نہ جانے کون بجاتا ہے۔

    نہیں یہ نفسیاتی مسئلہ قطعی نہیں، میں نے بارہا یہ بھی سوچا شاید یہ جینیاتی مسئلہ ہو ، مگر یہ معلوم ہوا ، نہیں ایسا بھی نہیں۔ طبیبوں کی بد کہی پر اگر دھیان دیں تو شاید سوداوی مزاجی ایسے ہی ہوتے ہیں۔صوفیوں کی ہدایات پر کان دھروں تو شاید میرے مراتب بلندی کی طرف جاتے جاتے معلق ہو جاتے ہیں۔ حروفیوں اور متن کے کوہان پہ سوار شپرکوں کی کہنا نہیں چاہتا۔ استعاراتی تعبیرات اور فلسفیانہ جال جھنکاڑ میں پھنس کر بھی کسی کو کیا ملنا ہے۔ حسین مناظر یا حسین صورت صرف چہرے کے تاثرات بدل سکتے ہیں، دل میں منقش خوبصورت اور لطیف احساسات کی کشیدہ کاری پر اپنے اثرسے کبھی دوہرانکھار نہیں لا پاتے۔ پچھلے کئی سالوں سے دسمبر یوں ہی گذرتے رہے ۔ میں دسمبر میں کہیں بھی رہوں، سردی والی جگہوں میں یا گرمی والی سر زمین پر اگرسڑکیں نہ ناپوں، گلیوں اور کوچوں میں نہ پھروں تو شاید مر جاوں۔ دشت ادراک میں بارہا روشنی کی ایک پَو پھوٹتی کہ شاید اس مرتبہ کوئی معجزہ ہوجائے اور میں دسمبر کو ڈاج دے سکوں۔ معجزہ کا انتظار کرنے والوں کی آنکھ پھوٹتی نہیں کہ واقعات اور حادثات کی کلیاں چٹک پڑتی ہیں۔

    پچھلے چند سالوں میں میری زندگی میں پے در پے سینکڑوں واقعات ہوئے۔ واقعات کی ژالہ باری میں روپوش حادثات کا تانتا بندھنے لگا۔ مجھے معلوم تھا؛دونوں کے پس پردہ مادیت کی دسیسہ کاری گھنگرو پہن کر مجھے جُل دینا چاہتی ہے۔ ہاں، مری جان،مادی حقیقت اگر خیالات اور نظریات سے نہ ٹکرائیں تو دنیا ایک جبری کا ویرانہ نظر آئے وگرنہ اگر آپ کو آپ کا شاہنامہ کھنڈر نظر آتا ہے تو یقینا آپ اپنی نعل کی قدر کے تحت قدریت کی پھسلن پر پیر ضرور رکھ چکے ہیں۔ ہوا یوں، پچھلے سال دسمبر سے ذرا پہلے ایک کمسن بچے سے یونیورسٹی جاتے ہوئے روز سابقہ پڑتا۔ وہ نہ جانے کون سے ترانے گنگناتا رہتا۔ میں نے کئی مرتبہ سننے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ ایک دن مجھے اس بچے کے پاس دیکھ اس کے ماں باپ قریب آئے، میری ان سے ملاقات ہوئی اور استفسار پہ علم ہوا کہ بچے کی والدہ نہیں ہیں، ماں نظر آنے والی اس کی خالہ ہیں۔ میں نے بھی موقعہ مناسب سمجھا اور بچے کے ساتھ کھیلنے لگا، دریں اثناء، اس سے پوچھتا رہا کہ تم کیا پڑھتے رہتے ہو۔ اسنے پڑھ کر سنایا۔ اس کا سنايا ہوا فارسی میں تھا۔ اس نے مزید کہا کہ مری ماں اسے پڑھا کرتی تھی، اور جب بھی میں نغمے دھراتا ہوں ایسا لگتا کہ امی پیچھے کھڑی ہیں۔ مگر اب میری ماں مرچکی ہیں اور میں ان کے پاس جانا چاتا ہوں ۔ میں نے پوچھا کیوں؟

    اس نے کہا تاکہ ان سے شکایت کرسکوں تیرے امانت دار گھور خائن نکلے، جنہیں تو نے محبتوں کا قدردان سمجھا تھا وہ محبتوں کے ریاضی داں نکلے۔ میں نے اس سے کہا، ارے ارے، میرے بچے، اچھا جو تم پڑھ رہے تھے مجھے بھی گنگنا کر سناو۔ اس نے پڑھنا شروع کیا۔
    اخترم، گوہرم ، یاورم، جان مادرم
    غم برم، شھپرم، مادرم جاں مادرم
    بہترین دنیا ی من تویی ،
    برتر از رویای من تویی،
    ای طلوع من زندگانی ام کوثر و طوبی من تویی
    دردم و درمان ندارم
    روی گلبرگ امیدم
    شبنم و باران ندارم
    من صدای خاک پایت
    صفحه پند و دعایت
    در فراز و شیب عمرم
    تو همان باشی کفایت
    بهترین دنیای من تویی
    برتر از رویای من تویی
    ای طلوع زندگانی‌ام
    کوثر و طوبی من تویی
    بال پروازم تویی
    قبله رازم تویی
    آه، می بالم همه روز
    که شب و روزم تویی
    بهترین دنیای من تویی
    برتر از رویای من تویی
    ای طلوع زندگانی‌ام
    کوثر و طوبی من تویی
    مادرم جاں ،مادرم۔

    مجھے تو جیسے اکسیر مل گیا۔ میں نے قدریت کے شیش محل میں پوری قوت سے شور مچانا شروع کردیا۔ آپ نے پتھر پر ایڑیاں رگڑی ہوں گی، میں نے شیشے پہ ایڑیاں رگڑنی شروع کردی۔ اور تقدیر کی مضراب پہ ہولے ہولے لگتی ہوئی چوٹ اپنا اثر آپ دکھانے لگیں۔ماں کی یادداشتوں کو میں نے عید گمان کیا اور خصوصی اوقات اور خصوصی انداز میں ان یادوں کو بھی منانے لگا۔ واہ پھر کیا تھا، ماں کی یادوں کی اوٹ میں دسمبر اپنی تمام تر رگوں کو شل کرنے والی قوتوں کے ساتھ مجھ سے نالاں رہنے لگا۔ مجھے بھی کیا پڑی تھی، میں کوئی عاشق تھوڑی تھا کہ اس کی جدائی میں کھڑے نرخ کا بکرا بنا پھرتا۔ میں نے بھی کہا، سرگے جا۔

    کہا جاتا ہے کہ فانی ایک ایسا درجہ ہے جس میں عاشق الہی مبتلا رہتا ہے۔ اس کی چاہ ہوتی ہے کہ مجھ پر دنیا کے عذاب مسلط کردو مگر اس عذاب سے اسے نجات نہ دو جسمیں وہ مبتلا ہے۔ خیر خیر، ماں تو مان ہوتی ہے، ہر کسی کی ماں اس مزعومہ حقیقت کے باوجود کہ عورت عقل و شماریات کے سانچے میں فٹ نہیں ہوتی، وہ بہترین حساب داں ہوتی ہے، ہاں جذبات کے حساب وہ اس انداز سے لگاتی ہے کہ فصلیں جوان ہو جائیں اور جنگلی درندوں کو خبر تک نہ ہو۔ کمالات، فضائل اور کرشموں کے شدھ بدھ کے بغیر ، ہا ہا۔۔۔۔ہاہا۔۔۔ وہ اگورا کی ریاضی داں، قرطبہ کی لبنی، مغرب کی الفہری اور مکے کی فاطمہ الفضیلیہ بن جاتی ہے۔ ۔۔۔نہیں نہیں ، میری ماں کسی بھی طور سے علوم و فنون کی اِن مہان وِبھوتیوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں۔

    ماں، بشرٹ میں بٹن لگواتے ہوئے میں کوئی حرکت کروں تو میری شرارتوں پر خواہ مخواہ دل گیر ہو جاتیں۔ بسا اوقات یوں بھی ہوتا اگر میں ان کو کبھی بھی پریشان کروں تو تجاہل عارفانہ کا اظہار ایسے کرتیں گویا انہیں کوئی فکر ہی نہیں۔ میرے کھانا نہ کھانے پہ مچھلی کی طرح تڑپتی رہتیں۔ جب کبھی وہ رنجیدہ ہوتیں تو انہیں میں کرِومِک؛دو چیونٹیوں کی داستان سناتا اور وہ ہنس پڑتیں۔ یہ عمل تواب بھی جاري ہے مگر کردار بدلا ہوا سا ہے۔ بشرٹ میں بٹن لگواتے ہوائے میں اب بھی شرارتیں کرتا ہوں مگر کوئی پریشان نہیں ہوتا بسا اوقات وجودی رومانس پریشانیون کی جگہ لے لیتا ہے۔ میرے پریشان کرنے پر مجھے روتے بلبلاتے ہوئے اونٹنی کے بچے کو چپ کرانا پڑتا ہے۔ ہاں ایک واقعہ ہو بہو ایسا ہی ہوتا ہے جیسے ماں کے زمانے میں میرے ساتھ ہوتا تھا۔ میرے کھانا نہ کھانے پہ سرمئی پاگل ہوئی پھرتی ہے۔ ماں کی طرح مجھے متنجن تو نہیں دیا جاتا مگر کچھ اچھا بننے پر مجھےبالا خانےپہ چھپنا پڑتا ہے تاکہ مجھ اکیلے کو تین افراد کے برابر شڑاپ نہ کرنا پڑے۔ ماں کی نعمت خانے میں میرے لئے نت نئی چیزیں ہوا کرتیں، اب ان سے متعلق یادداشتیں ہی میرے لئے نعمت خانہ ہے۔ اب رنجیدگی واقع ہو تو کِرومِک کی داستان سے کام نہیں چلتا، مجھے بہروپیا بن کر چاند کی بوڑھیا کی کہانی گڑھنی پڑتی ہے وہ بھی ہر بار نئے خاکوں اور نئے کینوس کے ساتھ۔اب میرے ایام حد سے زیادہ لدے پھندے ہیں۔ دسمبر میرے کمرے کے ایک کونے میں خشمگیں آنکھوں سے مجھے تکتا رہتا ہے۔ یاد ماضی کے عذاب پر جان مادرم کی یاد مکمل حاوی ہو چکی ہے۔ حادثات، واقعات، ابتلاء، رویے، سرخ و سپید ہوتا ہوا خون، باتیں، صلواتیں، ہدایات اور معاشرے کی کرو نہ کرو کی شعبدہ بازی یہ سب گلی کوچوں میں کھلیتے ہوئے بچوں کی طرح میرے گھر کو اپنا ٹھکانہ بنا چکے ہیں۔ مجھے ان کی عادت لگ چکی ہے۔ ہاں، جبر و قدر کاشیش محل بھی میرے احاطے میں چکنا چور ہو کر بکھرے پڑے ہیں۔ میری میز پر چائے صبح آٹھ بجے ہی رکھ دی گئی ہےجو ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہے۔ میں سوچ رہا ہوں ، باقی بچے ہوئے تلچھٹ میں آج کس قماش کی بلا گھول کر پیوں۔۔۔۔۔میرے ہاتھوں ایسا نسخہ لگ چکا ہے جو گہرے سے گہرے زخم کو چٹکیوں میں مندمل کردیتا ہے۔

  • وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ-  آصف انظار عبد الرزاق صدیقی

    وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ- آصف انظار عبد الرزاق صدیقی

    تہذیب وتمدن کے ارتقاء اور ثقافتی انقلابات کے پیچھے عورتوں کی بے پناہ قوت خرید اور صارفیت ہے۔

    مردوں نے تزئین و آرائش جہاں کا ہر کام عورت کو رومانی ماحول فراہم کرنے کے لیے کیا۔رومانیت کو وسیع پیمانے پر سمجھنا چاہیے۔ رومانیت کو اگر آپ جنسیت کے اردگرد گھما پھرا کر رکھ دیں گے تو وہ صرف ہوس ناکی اور شہوت پرستی بن کر رہ جائے گا. پھر وہاں ہماری ماں،بہن، بیٹی،خالہ، پھوپھی، نانی اور دادی کے لیے کوئی مقام نہ ہوگا. مگر جب آپ رومانیت کو اخلاق انسانی کے حقیقی وسائل سے الجھا ہوا دیکھیں تو آپ پائیں گے کہ مرد اپنی زندگی کے سنہرے اوقات اسی رومانیت کی نذر کردیتا ہے۔ بیچ بیچ میں وہ اپنی حیوانی ضرورت کے لیے جنسیت زدہ رومان کا بھی شکار ہوتا ہے مگر یہ وقفہ بہت قلیل مقداری ہوتا ہے۔

    وہ آرایش جہاں کے کاموں کی ایک لامتناہی فہرست لیے روانہ سربازار بکتا ہے۔ اپنی روح بیچ کر جب وہ شام کو گھر جاتا ہے تو حسب موقع کبھی وہ روح کے بدلے وصولی گئی قیمت سےایک لقمہ ماں کے منہ میں ڈالتا ہے، دوسرا بیٹی کے، اور اگر قسمت بہت مہربان ہے تو تیسرا لقمہ بہن کے حصے کا بھی آتا ہے۔ یہ تینوں لقمے رومانیت کی انتہا پر ہوتے ہیں۔ مگر نسوانیت زدہ اور فیمنزم کے ماروں کو اس رومان کی ہوا تک نہیں لگی ، وہ تو عورت کو جنس بازار بنا کر ہوس کے بستر پر چاروں خانے چت دیکھنے سے کم پر راضی نہیں۔

    اور عورت کی ایک عارضی حیثیت جس میں وہ اپنی پسند اور مرضی سے کسی شخص کی شریک حیات بنتی ہے۔وہاں ان نسوانیت زدہ بزرگوں کو عورت پر ظلم وجبر کا ایک سلسلہ دکھتا ہے۔ہم یہ نہیں کہتے کہ عورتوں پر ظلم نہیں ہوتے۔ ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ ظلم سے بچانے کی آپ کی ترکیب ہورہے ظلم سے زیادہ ظالمانہ ہے۔ عورت کے لیے مرد دنیا ادھر سے ادھر کردیتا ہے۔

    اسی بیچ کچھ شیطان ایسے بھی ہیں جو عورت کو جنس بازار سمجھتے ہیں،اور وہی بڑے ظالم ہیں۔نہ کہ وہ مرد جو اگر تنہا ہوتا ہے تو کسی جگہ بلا تکلف سوجاتا ہے۔مگر اگر بہن ،بیٹی ،ماں اور بیوی بھی موجود ہو تو جی جان لگا کر اس کے لیے گھر کا انتظام کرتا ہے۔ خشت زیرِ سر رکھ کر سونے والا باپ اپنی بچی کے لیے پالنے کا نظم کرتا ہے۔ کھلے میدان میں سونے والا جوان اپنی بہن کے لیے چاردیواری ڈھونڈتا ہے۔

    یہی رومانیت ہے جس کی وجہ سے کائنات رنگین ہے۔ اگر عورت اس رومانیت سے نکل جانا چاہتی ہے تو نکل جائے مگر تصویر کائنات کا رنگ خراب ہوگا۔ وہ صرف ایک سجے سجائے بازار میں بدل جائے گا جہاں جذبات نہیں جسم دھرے ہوں گے، اور جسم کی اہمیت صرف گداز ہونے تک ہے۔ جذبات تو معصوم بچپن اور عمر دراز بڑھاپے کے بھی کوثر و سلسبیل ہوتے ہیں، جو انمول ہوتے ہیں.

  • میرا حوصلہ تو دیکھ – حریم شفیق

    میرا حوصلہ تو دیکھ – حریم شفیق

    برف کا طوفان تھا۔۔۔اندھیری رات تھی ۔۔۔۔تین معصوم بچوں کا ساتھ۔۔۔اور پلاسٹک کی کوئ شیٹ سی تھی جسے چھپر کے طور پر استعمال کر رکھا تھا کہ شاید برفباری سے بچاؤ ہو سکے ۔۔۔کبھی ایک بچے کو اپنے بے بس وجود سے بھینچتی کبھی دوسرے کو کہ ننھی معصوم و نازک سی گڑیا سردی میں ٹھٹھر رہی تھی اور ایک سال کا چھوٹا سا بیٹا جس کے ہونٹ سردی کے مارے نیلے پڑے جاتے تھے۔۔۔ایک چھ یا سات سالہ بیٹا بھی قریب ہی حسرت بھری نظروں سے ماں کے وجود کو دیکھتا کہ کاش میں بھی ماں سے لپٹ سکتا۔۔۔لیکن اس کا ایثار ہی تو تھا کہ چھوٹے بہن بھائیوں کو زیادہ ضرورت ہے اس لیے خاموش سمٹابیٹھا تھا۔اچانک زور کی ہوا چلی اور چھپر نما شیٹ اڑ گئی ۔ اب کھلے آسمان تلے چار نفوس؟؟ماں فوراً اٹھتی ہے سرد ہوائیں اس کے وجود سے ٹکراتی ہیں مگر وہ چٹان بنی اپنے معصوم بچوں کے لیے دوبارہ شیٹ کی چھت بنانے کی کوشش کرتی ہے ۔۔۔سرد ہواؤں کے تھپیڑے ہیں اور اس کا نازک سا وجود کہ ہوا اسے مخالف سمت اڑاتی ہے اور وہ ڈٹ کے کھڑی اس کا مقابلہ کرتی اپنے معصوم بچوں کے لیے چھت فراہم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔۔۔اس کا بڑا بیٹا جو محض چھ سات سال کا ہے ماں کو طوفان سے لڑتا دیکھتا ہے تو سردی بھلا کر ماں کا ساتھ دینے کھڑا ہو جاتا ہے۔۔۔کیا وہ بھی معصوم بچہ نہیں ؟کیا اسے بھی سردی نہ لگتی تھی ؟مگر اسے اپنی ماں کے ساتھ بہادری سے کھڑا ہونا تھا۔۔۔اس کا ساتھ دینا تھا۔۔۔یہ مائیں ہی تو ہوتی ہیں جو قوموں کی پرورش کرتی ہیں۔۔۔انھیں مضبوط بناتی ہیں۔۔۔۔ماں مضبوط ہو تو قومیں بہادری کے جھنڈے گاڑتی ہیں۔

    یہ احوال ہے ایک فلسطینی ماں کا یہ منظر دیکھ کر روح کانپ جاتی ہے کہ کیسے برف کے طوفان سے تن تنہا اپنے بچوں کو بچاتی ایک عورت ؟؟جس کے پاس سردی سے بچنے کے لیے مناسب سامان بھی نہیں ۔۔۔۔جو برف کے طوفان سے ٹکرا رہی ہے۔۔۔جسے دشمن نے ہر طرح سے شکست دینا چاھی پھر چاھے وہ اس کا پیارا سا گھر آنگن ہو جسے دشمن نے کھنڈر میں بدل دیا۔۔۔یا نور چشم ہوں جو کفن میں لپٹے امت مسلمہ کے لیے سوالیہ نشان ہوں۔۔۔۔یا پھر بھوک افلاس اور پیاس ؟وہ استقامت کی تصویر بنی اپنے محاز پہ ڈٹی رہی۔۔۔وہ مزاحمت کی راہ اپنا چکی تھی ۔۔۔کیونکہ وہ جان گئی تھی کہ مزاحمت ہی میں بقا ہے۔۔۔اقصی نہ کبھی دشمن کی تھی نہ ہے اور نہ ہوگی ۔۔۔اس کے لیے گھر،اولاد،جان سب لٹانے کو تیار ہو گئی ۔۔۔۔وہ تو جنت کی طلبگار تھی اور جنت ٹھنڈے ٹھنڈے نہیں مل جاتی ۔۔۔کون کہتا ہے کہ عورت کمزور ہے۔۔۔۔غزہ کی عورت نے ثابت کر دیا کہ عورت چٹان کا ساحوصلہ رکھتی ہے ۔۔۔وہ طوفانوں سے بھی لڑنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔اس نے ثابت کر دیا کہ امت مسلمہ کی پرورش گاہ آج بھی مسلم ماں کی آغوش ہے ۔۔۔جس سے طاغوت ڈرتا ہے وہ لال بتی آج بھی اس کے لیے چیلنج ہے۔۔۔غزہ کی عورت نے مسلم امہ کی ماؤں کے لیے راہ ہموار کر دی ہے اب اگلا قدم ہمارا ہے۔