Tag: فیس بک

  • سوشل میڈیا کا مثبت استعمال اور آداب  – بنت اشرف

    سوشل میڈیا کا مثبت استعمال اور آداب – بنت اشرف

    سوشل میڈیا موجودہ صدی کا سب سے بڑا انقلاب ہے جس نے پوری دنیا کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے ۔ انسان نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ پوری کی پوری دنیا سمٹ کر اس کے ہاتھوں میں ایک موبائل ڈیوائس کے ذریعے سما جائے گی۔ گویا سوشل میڈیا نے پوری دنیا کوصحیح معنوں میں ایک گلوبل ویلج کی شکل دے دی ہے ۔

    سوشل میڈیا اس وقت دنیا کا سب سے برق رفتار ہتھیار ہے ، مختلف سوشل میڈیا ایپلیکیشنز نے پوری دنیا میں رہنے والے سات ارب سے زائد افراد کو اپنے سحر میں مبتلا کر رکھا ہے۔

    پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد
    پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک میں تمام پلیٹ فارمز پر سوشل میڈیا صارفین کی تعداد سولہ کروڑ سے زائد ہے ۔ ملک میں سب سے زیادہ یوٹیوب صارفین ہیں جن کی تعداد سات کروڑ ستر لاکھ ہے ، اسی طرح فیس بک کے صارفین کی تعداد پانچ کروڑ اکہتر لاکھ ہے۔ یو ٹیوب کے مرد صارفین کا تناسب 72 فیصد جبکہ خواتین کا 28 فیصد ہے ۔اسی طرح فیس بک کے 71 فیصد مرد صارفین ہیں اور 22 فیصد خواتین ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق ٹک ٹاک صارف ایک کروڑ تراسی لاکھ ہیں ، ان میں بیاسی فیصد مرد ٹک ٹاکرز ہیں اور خواتین اٹھارہ فیصد ہیں ۔ پاکستان میں انسٹا گرام صارفین کی تعداد ایک کروڑ اڑتیس لاکھ ہے اور ان میں پینسٹھ فیصد مرد اور چونتیس فیصد خواتین ہیں ۔

    سوشل میڈیا کا مثبت استعمال
    سوشل میڈیا آج کے دور کا بہت بڑا نیٹ ورک ہے جس کا مثبت استعمال ہمارے لیے بہت ہی فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔

    1۔کمائی کا بہترین ذریعہ
    اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ سوشل میڈیا کمائی کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ یوٹیوب پر کافی عرصہ سے لوگ اپنے چینلز کے ذریعہ آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔ خرید و فروخت کے بہت سارے مسائل بھی اس کے ذریعہ آسان ہوچکے ہیں۔

    2۔معلومات کا اشتراک
    سوشل میڈیا کسی بھی موضوع پر بر وقت معلومات جیسے، صحت، اسپورٹس اور دیگر موضوعات کی اپڈیٹس فراہم کرتا ہے۔

    3۔ذریعہ حصول تعلیم و تعلم
    نوجوان سوشل میڈیا کو تعلیم حاصل کرنے کا ذریعہ بنا کر اس سے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ سیکھنے اور معلومات حاصل کرنے والوں کیلئے بہترین پلیٹ فارم ہے۔سوشل میڈیا پر موجود مختلف تعلیمی ویڈیوز ،لیکچرز اور ٹیوٹوریلز کے ذریعے طلبہ اپنی تعلیم کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔

    4۔سماجی خدمت اور خیر خواہی
    سماجی مسائل کو اجاگر کرنے اور مستحق لوگوں کی مدد کرنے کے لیے سوشل میڈیا ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔ ہم کئی فلاحی کام اور ضرورت مندوں کی مدد کے لیے اس کا استعمال کر سکتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
    [arabic]”خَيْرُ النَّاسِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ”[/arabic]
    (لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے۔) (مسند احمد: 23408)

    5۔سما جی رابطوں کا ذریعہ
    سوشل میڈیا کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ یہ لوگوں کے درمیان رابطے کے ذرائع کو سہل بناتا ہے اس کے ذریعے ہم اپنے دوستوں عزیزوں اور رشتہ داروں سے دوری کے باوجود جڑے رہتے ہيں۔

    6۔مثبت نظریات اور اخلاقی اقدار کی ترویج
    ہم سوشل میڈیا کو اچھے خیالات، دینی اور اخلاقی اقدار، اور مثبت پیغامات پھیلانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ نبی ﷺکا فرمان ہے: “جو شخص کسی شخص کو بھلائی کی طرف رہنمائی کرتا ہے وہ اس کے برابر اجر پاتا ہے۔” (صحیح مسلم ) نیز اس کے ذریعے ہم دوسروں کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں اور ایک خوشگوار معاشرتی فضا قائم کر سکتے ہیں۔

    سوشل میڈیا کے آداب:
    کسی بھی خبر یا معلومات کو شیئر کرنے سے پہلے اس کی تصدیق کرنا ضروری ہے۔ جھوٹی خبریں اور افواہیں پھیلانے سے نہ صرف معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ضرورت سے زیادہ وقت گزارنا وقت کا ضیاع ہے۔ اس کا استعمال معتدل انداز میں کرنا چاہیے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
    [arabic]”نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ”[/arabic]
    (دو نعمتیں ایسی ہیں جن کی قدر اکثر لوگ نہیں کرتے: صحت اور فارغ وقت۔) (بخاری: 6412)

    اختلافِ رائے کو مہذب انداز میں بیان کرنا اور دوسروں کے نقطہ نظر کو برداشت کرنا سوشل میڈیا کے آداب میں شامل ہے۔ غیر ضروری بحث مباحثے،ایک دوسرے کا مذاق اڑانے اور گالم گلوچ سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    [arabic] “يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ”[/arabic]
    (اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اُڑائے۔) (سورۃ الحجرات: 11)

  • ٹارگٹڈ ایڈز – دور جدید کا ایک شاہکار جادو – محمد کامران خان

    ٹارگٹڈ ایڈز – دور جدید کا ایک شاہکار جادو – محمد کامران خان

    کیا کبھی ایسا ہوا کہ آپ نے چائے کے دوران گپ شپ میں کسی دوست کے ساتھ کسی چیز کے بارے میں گفتگو کی اور چند لمحوں بعد اسی سے متعلق اشتہارات آپ کی فیسبک یا انسٹاگرام فیڈ میں آنے لگیں؟ یقیناً ہوا ہوگا۔ بلکہ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے صرف سوچا ہو کسی چیز کا یا تھوڑی سی اس سے ملتی جلتی چیزوں میں دل چسپی ظاہر کی اور وہ چیز پٹ سے حاضر۔ ہے نا جادو؟ یہ ہے ٹیکنالوجی کا جادو ، اس جادو کو “ٹارگٹڈ ایڈز” کہتے ہیں۔ ٹارگٹڈ ایڈز جدید ڈیجیٹل دنیا کا وہ پہلو ہیں جو ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ ذہین، زیادہ مربوط اور زیادہ ناقابلِ گریز بنتے جا رہے ہیں۔ یہ اشتہارات محض اتفاقیہ نہیں ہوتے، بلکہ جدید ترین مصنوعی ذہانت، مشین لرننگ، اور انسانی رویوں کے باریک بینی سے کیے گئے تجزیے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ ٹارگٹڈ ایڈز صرف انٹرنیٹ پر کی جانے والی سرگرمیوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ کون سی ویڈیو کتنی دیر دیکھی گئی، کون سا اشتہار اسکرول کرتے وقت نظرانداز کیا گیا اور کون سا اشتہار ایسا تھا جس پر کلک کیا گیا۔ مگر کچھ مشاہدے اور کچھ تجربات کے بعد اب یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ اشتہارات کے یہ نظام محض آن لائن سرگرمیوں تک محدود نہیں رہے، بلکہ انسانی جذبات، فزیالوجیکل ردعمل اور نفسیاتی رجحانات تک کی تفصیل میں اتر چکے ہیں۔کیسے؟ آئیے چند کڑیاں جوڑتے ہیں۔

    انسانی آنکھیں بہت کچھ کہتی ہیں۔ جب کوئی چیز دلچسپ لگتی ہے تو پتلیاں پھیل جاتی ہیں، جب کوئی چیز ناپسندیدہ ہوتی ہے تو چہرے کے تاثرات بدل جاتے ہیں، آنکھوں کی حرکت کسی بھی چیز کی طرف کشش یا بیزاری کا اظہار کرتی ہے۔ ماضی میں یہ ممکن نہیں تھا کہ کوئی مشین ان اشاروں کو پڑھے، سمجھے اور ان کی بنیاد پر تجزیہ کرے، مگر اب ایسا ہو رہا ہے۔ جدید ترین ڈیپ لرننگ ماڈلز اور کمپیوٹر ویژن کے ذریعے کیمرے نہ صرف چہرے کے تاثرات کو پڑھ رہے ہیں، بلکہ ان میں چھپی دلچسپی، خوشی، حیرت اور بیزاری کو بھی شناخت کر رہے ہیں۔ یہ صلاحیت کسی ایک مخصوص شعبے تک محدود نہیں رہی، بلکہ روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی عام ٹیکنالوجیز میں ضم ہو چکی ہے۔اس کی مثالیں ہمیں عام زندگی میں ملتی ہیں جن میں ایک فیچر فیس آئی ڈی ہے۔ یہ ایک ایسا فیچر تھا جسے سہولت کے طور پر متعارف کروایا گیا۔ اس کا بنیادی مقصد چہرے کی شناخت کے ذریعے ڈیوائس کو کھولنا تھا، مگر یہ ٹیکنالوجی وقت کے ساتھ ایک وسیع تر نیٹ ورک کا حصہ بن چکی ہے۔ ہر بار جب کسی ڈیوائس کا فیس آئی ڈی استعمال کیا جاتا ہے، وہ چہرے کے مختلف زاویوں، تاثرات اور روشنی میں آنے والی تبدیلیوں کو ریکارڈ کرتا ہے۔ مصنوعی ذہانت ان تمام ڈیٹا پوائنٹس کو استعمال کر کے چہرے کی شناخت کو بہتر بناتی ہے، مگر اسی کے ساتھ چہرے کے تاثرات اور جذباتی ردعمل کو بھی سمجھنے کے قابل ہو جاتی ہے۔ یہی ٹیکنالوجی جب اشتہارات کے نظام میں شامل ہوتی ہے تو یہ محض آنکھوں کے جھپکنے، چہرے کے تاثرات اور آنکھوں کی پتلیوں کی حرکت سے اندازہ لگا لیتی ہے کہ کوئی چیز واقعی دلچسپ ہے یا نہیں۔

    اب اس پہلوکو مزید وسعت دیتے ہیں۔ اس میں اگر آپ کے روزانہ کے رویے، گفتگو، ذاتی معلومات و ذاتی دلچسپیاں ، دن بھر کے معاملات کی ایک ڈائری بنائی جائے تو کیا ایک ہفتہ وہ ڈائری پڑھنے کے بعد آپ کے معمولات اور اگلے روز کے بیشتر حصے کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں؟ خصوصاً جب پیش گوئی کرنے والا آپ کے ہر عمل سے بخوبی واقف اور بہترین یاد داشت کا حامل ہو۔ ٹارگٹڈ ایڈز میں آپ کی موبائل ڈیوائس بالکل یہی کام کرتی ہے۔ اسمارٹ واچز اور دیگر وئیرایبل ڈیوائسز بھی اسی بڑے ڈیٹا نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ جب کوئی اسمارٹ واچ دل کی دھڑکن نوٹ کرتی ہے، بلڈ پریشر مانیٹر کرتی ہے، نیند کے پیٹرنز کا تجزیہ کرتی ہے، تو یہ سب صرف صحت کی نگرانی کے لیے نہیں ہو رہا ہوتا۔ ان ڈیٹا پوائنٹس سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کسی خاص لمحے میں جسمانی ردعمل کیا تھا، کون سا اشتہار دیکھتے وقت دل کی دھڑکن تیز ہوئی، کب بلڈ پریشر میں معمولی سا اضافہ ہوا، اور کب کوئی ردعمل بالکل ہی غیر محسوس رہا۔ ان تمام معلومات کو جمع کر کے مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایک انتہائی پیچیدہ مگر مؤثر ماڈل بنایا جاتا ہے، جو ہر فرد کی دلچسپیوں، رجحانات اور ممکنہ خریداری کے فیصلوں کو پہلے سے سمجھ لیتا ہے۔

    یہ سارا عمل روایتی مشین لرننگ کے طریقوں سے بھی کافی حد تک ممکن تھا مگر اب جدید اور تیز ترین کام کرنے والے کمپیوٹرز ، نیرومورفک چپس اور جدید ترین مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کی وجہ سے یہ سب چند لمحوں میں ہو رہا ہے۔ پہلے جہاں ایک اشتہار کے مؤثر ہونے کا اندازہ صارف کی کلک، اسکرولنگ اور ویڈیو دیکھنے کے وقت کی بنیاد پر لگایا جاتا تھا، اب یہ اس اشتہار کو دیکھنے والے شخص کی آنکھوں، چہرے، دل کی دھڑکن اور دیگر جسمانی ردعمل سے لگایا جا رہا ہے اس کے علاوہ ہنارے ارد گرد موجود آلات جیسا کہ موبائل میں موجود کیمرہ، سپیکر اس سب عمل کو مکمل کرنے میں مدد دیتے ہیں اور خودکار نہیں بلکہ ہماری اجازت سے۔

    یہ سب کچھ صرف خرید و فروخت تک محدود ہوتا تو کافی تھا، مگر اب چلتے ہیں اس کے خطرناک پہلو کی طرف۔
    یہ سلسلہ اب فیصلہ سازی پر براہِ راست اثرانداز ہونے لگا ہے۔ جب کسی فرد کی ہر حرکت، ہر ردعمل، ہر سوچ کی پیمائش ہونے لگے، تو اسے اپنی مرضی سے کسی فیصلے تک پہنچنے کے مواقع کم سے کم دیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ، اگر مجھے علم ہو کہ آپ ایک نیا جوتا یا کپڑوں کا جوڑا خریدنا چاہ رہے ہیں تو میں بار بار آپ کو ایسے دکانداروں کے بارے میں بتاؤں گا جو کہ میرے ذریعے اپنے کاروبار کی تشہیر چاہتے ہیں۔ اب آپ صرف جوڑا یا جوتے خریدنا چاہ رہے تھے۔ بالکل وہی نہیں خریدنا چاہ رہے تھے جو میں آپ کو دکھا رہا ہوں ۔ مگر میرے اس عمل کو بار بار دہرانے سے آپ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہی تو ہے جو میں چاہتا ہوں۔ درحقیقت ہوگا ایسا نہیں۔ آپ ابھی اور آپشنز دیکھنا چاہتے تھے۔ یا شاید کچھ عرصہ اس ارادے کو عملی جامہ نہیں پہنانا چاہتے تھے مگر بار بار سامنے آنے پر آپ کے ارادے میں واضح تبدیلی ہوئی۔ یعنی میں نے محدود انتخاب دیے تاکہ کسی خاص سمت میں سوچنے پر مجبور کر سکوں،اور پھر آپ سے متعلق معلومات جو میرے پاس جمع تھیں، آپ کی پسند نا پسند، روز مرہ کا استعمال اوراگر مجھے آپ کی مالی حالت کا بھی اندازہ ہو تو پھر تو کیا ہی کہنے (جو کہ آپ کے آن لائن شاپنگ سے بخوبی لگا لیا جاتا ہے) ان پہلوؤں کو مدنظر رکھ کرآپ کے انتخاب کو جذباتی اور نفسیاتی طور پر زیادہ موثر بنا کر آپ کو پیش کیا گیا اور آپ پھر انکار ہی نہیں کر پائے اس اشتہار کو۔ کوئی اشتہار کیوں زیادہ پرکشش محسوس ہوتا ہے، کیوں بعض مخصوص موضوعات کے اشتہارات بار بار نظر آتے ہیں، یہ سب اتفاق نہیں ہوتا بلکہ شعوری طور پر طے شدہ حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے۔اب جیسا کہ ان بنیادوں پر میں نے آپ کی خریداری کا فیصلہ تبدیل ، جلد یا آپ کی مرضی کے کافی حد تک منافی کر دیا، سوچیں اگر اسی الگورتھم کو ووٹ دینے کی صلاحیت، اپنے لئے کچھ چننے کی صلاحیت پر نافذ کیا جائے تو آپ کی زندگی میں کتنے ہی فیصلے ہوں گے جو کہ آپ نے مکمل طور پر خود کیے؟ ایک چھوٹی سی مثال آپ کےسوچنے کے لئے اور چھوڑ دوں، ایلون مسک نے ٹوئٹر کو چوالیس ارب ڈالر میں صرف عوام کی بھلائی اور آزادی رائے کے لیے خریدا یا اس الگورتھم کو۔

    یہ تصور کہ انسان اپنے فیصلے خود کر رہا ہے، مصنوعی ذہانت کے اس نئے مرحلے میں کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ جب کوئی نظام کسی شخص کے جذبات، اس کے رویے اور اس کے ممکنہ ردعمل کو پہلے سے جان لے، تو اسے اس سمت میں دھکیلنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے جہاں وہ خود جانا نہیں چاہتا تھا۔ اب صرف معلومات فراہم نہیں کی جا رہی، بلکہ معلومات اس انداز میں دی جا رہی ہیں کہ سوچنے، تجزیہ کرنے اور سوال اٹھانے کی گنجائش کم سے کم ہو جائے۔یہ اثرات ہر جگہ محسوس کیے جا رہے ہیں، مگر سب سے زیادہ ان علاقوں میں جہاں ٹیکنالوجی کو صرف ایک سروس سمجھا جاتا ہے، مگر اس کے پیچھے کام کرنے والے پیچیدہ نظاموں پر غور نہیں کیا جاتا۔ جو علاقے پہلے “تجربہ گاہ” کے طور پر استعمال ہوتے تھے، اب وہ نئی ٹیکنالوجیز کے لیے آزمائشی میدان بن چکے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے انسانی نفسیات کو کس حد تک سمجھا جا سکتا ہے، اسے کتنا قابو کیا جا سکتا ہے، اور کسی بھی رجحان کو کیسے طاقت دی جا سکتی ہے، یہ سب کچھ ان ہی جگہوں پر آزمایا جا رہا ہے جہاں شعور کی سطح کمزور ہے اور سوال اٹھانے کا رجحان ناپید ہوتا جا رہا ہے۔

    یہ محض ایک مفروضہ نہیں، بلکہ حقیقت ہے جس کی بنیاد جدید ترین تحقیق پر ہے۔ فیصلہ سازی کی آزادی، معلومات تک رسائی کا حق، اور کسی بھی موضوع پر آزادانہ رائے قائم کرنے کی صلاحیت آہستہ آہستہ کمزور پڑ رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت نہ صرف یہ سمجھ رہی ہے کہ انسان کیا چاہتا ہے، بلکہ یہ بھی طے کر رہی ہے کہ اسے کیا چاہنا چاہیے۔

    یہ سوچنا کہ یہ سب کچھ ابھی دور ہے، ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ یہ سب کچھ پہلے سے موجود ہے، کام کر رہا ہے اور ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی سے انکار ممکن نہیں، مگر یہ سوچنا کہ اس ترقی کا کوئی منفی پہلو نہیں ہوگا، سراسر غفلت ہے۔ وقت ہے کہ اس نظام کو سمجھا جائے، اس کے اثرات کا تجزیہ کیا جائے، اور آزادانہ سوچ اور فیصلہ سازی کے حق کو محفوظ رکھنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ بصورتِ دیگر، وقت کے ساتھ سوچنے کا عمل خودکار ہو جائے گا اور فیصلے وہی ہوں گے جو پہلے سے کسی اور نے طے کر دیے ہوں گے۔

  • فیس بک؛ آزاد پلیٹ فارم یا نظریاتی  قید  – ثمر عباس لنگاہ

    فیس بک؛ آزاد پلیٹ فارم یا نظریاتی قید – ثمر عباس لنگاہ

    یہ زمانہ وہ ہے جہاں تغیرات کی یلغار ہر سمت بے قابو گھوڑوں کی مانند دوڑ رہی ہے۔ وقت کی یہ تازیانے صدیوں کے تغیرات کو لمحوں میں سمیٹ رہے ہیں۔ پرانی قدروں کی شکست و ریخت، نئی جہتوں کی آمد، اور بے ثباتی کی وہ مہک جو ہر چیز کو مٹانے اور پھر نیا جنم دینے میں مصروف ہے ۔۔۔ یہ سب کچھ آنکھ جھپکنے میں ہوتا ہے اور ہم محض تماشائی بنے دیکھتے رہتے ہیں۔ مگر جب اس بے رحم تغیر کے ہاتھوں کوئی ایسی شے متاثر ہوتی ہے جو نہ صرف ہمارا وقت کھا چکی ہو بلکہ ہماری نفسیات پر بھی اپنے پنجے گاڑ چکی ہو، تب اس کا اثر کچھ زیادہ ہی محسوس ہوتا ہے۔ اور جب بات فیس بک کی ہو، تو معاملہ محض ایک ویب سائٹ کا نہیں، بلکہ ایک عہد کے اختتام اور نئے دور کی شروعات کا بن جاتا ہے۔

    یہی وہ فیس بک ہے جو کسی دور میں ایک معصومانہ تفریح تھی، دوستوں کے ساتھ ہنسی مذاق کا ایک مرکز، تصاویر اور خیالات کا تبادلہ، وہ نیم سنجیدہ تحریریں جن میں محبت کی میٹھی چاشنی، ادھورے خوابوں کی کسک، اور بچکانہ شاعری کا وہ ذائقہ ہوتا تھا جو جذباتی نوعمر دلوں کو بھاتا تھا۔ مگر وہی فیس بک اب بدل چکی ہے۔ وہ دوستوں کے درمیان ایک چنچل سی خوشبو نہیں، بلکہ سنجیدہ صحافت، کاروباری حکمتِ عملی، سیاسی پروپیگنڈہ، اور مصنوعی ذہانت کے شکنجے میں جکڑی ایک دیو قامت حقیقت بن چکی ہے۔

    اب وہ زمانے لد چکے جب لوگ اپنی چھٹیوں کی تصویریں شیئر کر کے داد سمیٹا کرتے تھے، جب کسی نامور شاعر کے ایک مصرعے کے نیچے سادہ دل لوگ “واہ” کی گردان کرتے تھے، جب کسی خوش شکل نوجوان کا سیلفی پوسٹ کرنا کسی ادبی جریدے میں غزل چھپنے کے مترادف محسوس ہوتا تھا۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ فیس بک ایک میدانِ جنگ بن چکا ہے جہاں الفاظ تیر بن کر چلتے ہیں، نظریات کے بھالے سنبھالے جاتے ہیں، اور افواہوں کے بادل چھا کر ذہنوں کو دھندلا دیتے ہیں۔

    پہلے پہل جو تبدیلیاں آئیں وہ محض ظاہری سی تھیں—تھوڑا انٹرفیس بدلا، کہیں کچھ بٹن اِدھر اُدھر ہوئے، اشتہارات کچھ زیادہ نظر آنے لگے، مگر پھر یکایک ایک ایسی لہر آئی جس نے فیس بک کے تصور کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ مصنوعی ذہانت کے دلدادہ معماروں نے سوچا کہ کیوں نہ یہ طے کر دیا جائے کہ کون کیا دیکھے گا؟ یوں ایک ایسا الگورتھم تخلیق ہوا جو انسانوں کی سوچ سے زیادہ طاقتور ثابت ہوا۔ اب صارف وہی کچھ دیکھتا ہے جو فیس بک اسے دکھانا چاہتا ہے۔ گویا آزادیٔ رائے کی جگہ غلامیٔ مشاہدہ نے لے لی۔

    ایسا لگتا ہے کہ فیس بک اب محض ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم نہیں، بلکہ ایک خودمختار قوت بن چکا ہے۔ وہ طے کرتا ہے کہ کس کی پوسٹ زیادہ وائرل ہو، کس کی آواز دب جائے، کس نظریے کو پذیرائی ملے اور کس حقیقت کو نظر انداز کر دیا جائے۔ دوستوں کے بجائے اب اسکرین پر غیر مرئی قوتوں کے فیصلے ہیں، جنہیں ہم دیکھ نہیں سکتے، مگر ان کے اثرات ہماری سوچ پر واضح ہیں۔

    پھر وہ وقت بھی آیا جب فیس بک کے زوال کے نغمے گائے جانے لگے، مگر یہ وہ پرندہ ہے جو گر کر اڑنے میں مہارت رکھتا ہے۔ انسٹاگرام اور واٹس ایپ کو خریدنے کے بعد اس نے اپنے جال مزید پھیلا لیے، حتیٰ کہ نئے آنے والے ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز سے مقابلے کے لیے اس نے اپنی چالیں بھی بدل ڈالیں۔ اب یہ محض ایک سادہ سا پلیٹ فارم نہیں رہا، بلکہ معاشرتی، ثقافتی، اور نفسیاتی میدان میں ایک ناقابلِ تردید قوت بن چکا ہے۔

    لیکن سوال یہ ہے کہ آیا یہ تبدیلیاں مثبت ہیں یا منفی؟ کیا ہمیں ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت تھی جو ہمیں آزادی کے دھوکے میں جکڑ لے؟ کیا ہم واقعی اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں یا بس وہی بول رہے ہیں جو ہمیں سکھایا جا رہا ہے؟ کیا ہم اس “نظریاتی قید” سے نکل سکتے ہیں یا پھر یہ قید ہماری نئی حقیقت بن چکی ہے؟

    ان سوالوں کا جواب شاید وقت کے دامن میں ہو، مگر ایک بات طے ہے—فیس بک اب وہ معصوم نیلا آئکن نہیں رہا جو کبھی تھا۔ اب یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے سمجھے بغیر اس کا استعمال کرنا گویا بنا پتوار کے دریا میں اترنے کے مترادف ہے۔

  • روایتی سے جدت کا سفر: چھوٹے کاروبار کے لیے ڈیجیٹل حل – مزمل خان

    روایتی سے جدت کا سفر: چھوٹے کاروبار کے لیے ڈیجیٹل حل – مزمل خان

    چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتےہیں۔ یہ لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کرتے ہیں، جدت طرازی کو فروغ دیتے ہیں اور ترقی کا پہیہ آگے بڑھاتے ہیں۔ مگر بہت سے کاروبار ابھی تک ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اپنانے میں بے حد پیچھے ہیں۔ ڈیجیٹل تبدیلی نہ صرف ترقی کی نئی راہیں کھولتی ہے بلکہ کام کی رفتار بڑھاتی ہے، اس سے ناصرف نئے بازاروں تک رسائی ملتی ہے۔ بلکہ دوردراز صارفین سے رابطے کا ایک موثر ذریعہ بھی ہے۔ مگر یہ سفر آسان نہیں ہے۔ کاروباری حضرات کو کئی مشکلات کا سامنا ہے—سرمایہ کی کمی، مہارتوں کی قلت، اور بنیادی ڈھانچے کے مسائل سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ یہاں ہم انہی چیلنجز کا تفصیل سے جائزہ لیں گے اور پاکستانی کاروباروں کے لیے مؤثر اور عملی حل پیش کریں گے۔

    پاکستان کی معیشت میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کا حصہ تقریبا 40 فیصد ہے۔ یہ 70 فیصد سے زائد افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل تبدیلی اب کوئی آپشن نہیں، بلکہ بقا کی ایک لازم شرط ہے۔ صارفین آن لائن سروسز کی توقع رکھتے ہیں۔ جبکہ حریف تیزی سے جدید ٹیکنالوجی اپنا رہے ہیں۔ جو کاروبار وقت کے ساتھ نہ بدلے، وہ پیچھے رہ جائیں گے۔ مگر جو وقت کے ساتھ جدت پسندی اپنائیں گے، ان کے لیے انعام بڑا ہے—بہتر پیداوار، وسیع تر رسائی، اور زیادہ منافع۔

    پاکستان میں کبھی ہر بازار میں ہاتھ والی گھڑیوں کی دکانیں عام تھیں۔ لوگ وقت دیکھنے کے لیے گھڑیاں خریدتے تھے، لیکن پھر موبائل فون آگئے۔ گھڑی کی دکانیں آہستہ آہستہ ناپید ہوتی گئیں کیونکہ وہ بدلتے وقت کے ساتھ نہ چل سکیں۔ یہی حال آج چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کا ہو سکتا ہے جو ڈیجیٹل تبدیلی کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ جو کاروبار آن لائن سروسز، ڈیجیٹل ادائیگیوں اور ای کامرس کی طرف نہیں جائیں گے، وہ ماضی کا حصہ بن سکتے ہیں—بالکل ان گھڑیوں کی دکانوں کی طرح۔

    ڈیجیٹل ٹولز پیسے مانگتے ہیں۔ سافٹ ویئر لائسنس سستے نہیں۔ ہارڈ ویئر اپ گریڈز بھی لاگت بڑھاتے ہیں۔ کلاؤڈ سروسزبھی سبسکرپشن مانگتی ہیں۔ پاکستان میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار پہلے ہی کم منافع پر چل رہے ہیں۔ بڑھتی مہنگائی اور بجلی کے نرخ مزید مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔

    ایسے میں اس کا حل یہ ہے کہ چھوٹے پیمانے پر آغاز کریں۔ مفت ٹولز سے فائدہ اٹھائیں۔ گوگل ورک اسپیس مفت ای میل اور ڈاکس فراہم کرتا ہے۔ واٹس ایپ بزنس بغیر کسی قیمت کے گاہکوں سے رابطے کی سہولت دیتا ہے۔ اوپن سورس ای آر پی سافٹ ویئرز اخراجات کم کر سکتے ہیں۔ مقامی سافٹ فیرکمپنیاں سستی ٹیکنالوجی سروسز دےسکتے ہیں۔ دوسرا اپنی سرمایہ کاری کو مختلف مراحل میں تقسیم کریں۔ جیسے کہ پانج ہزار ماہانہ کلاؤڈ پلان ایک ساتھ ادا کرنے سے بہتر ہے۔

    اسی طرح سے ویب سائٹ بنانے کے لیے بھی اپنا بجٹ مختص کریں ۔ اگر آپ کا بجٹ محدود ہے، تو بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ کئی پلیٹ فارمز مفت ویب سائٹ بنانے کی سہولت دیتے ہیں جیسے گوگل ساٗٹ سادہ اور مفت ویب سائٹ بنانے کے لیے بہترین ہے۔ ورڈپریس ایک بنیادی بلاگ اور ویب پیج بنانے کی سہولت دیتا ہے۔ وکس ڈاٹ کام ڈریگ اینڈ ڈراپ بلڈر کے ساتھ آسان ویب سائٹ تخلیق کریں۔ زوہو ساٗٹس چھوٹے کاروباروں کے لیے مفت ویب سائٹ بنانے کی سروس مہیا کرتی ہے۔ جبکہ ای کامرس کے لیے شاپیفائی ایک محدود مگر مفت حل پیش کرتا ہے۔ یہ تمام پلیٹ فارمز آپ کو بغیر خرچ کے آن لائن موجودگی فراہم کرتے ہیں۔ بعد ازاں جب کاروبار بڑھے، تو پروفیشنل ویب سائٹ میں اپ گریڈ کیا جا سکتا ہے۔

    ویب سائٹ کے ساتھ فیس بک پیج اور واٹس ایپ بزنس، مفت ڈیجیٹل موجودگی کا ایک بہترین اور مفت حل ہے۔ آج کے صارفین خریداری سے پہلے کاروبار کی تفصیلات، ریویوز اور مصنوعات کی معلومات آن لائن تلاش کرتے ہیں۔ اگر کوئی کاروبار ڈیجیٹل دنیا میں موجود نہیں، تو وہ ممکنہ گاہکوں سے محروم ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں فیس بک پیج اور واٹس ایپ بزنس دو طاقتور اور مفت ٹولز ہیں جو کاروباروں کو اپنی ساکھ بنانے اور گاہکوں سے براہ راست رابطے میں مدد دیتے ہیں۔

    فیس بک پیج کسی بھی کاروبار کے لیے ایک ڈیجیٹل شوکیس کا کام کرتا ہے۔ یہ نہ صرف گاہکوں کو معلومات فراہم کرتا ہے بلکہ اعتماد اور برانڈ کی شناخت بھی مضبوط کرتا ہے۔ ایک فعال فیس بک پیج کاروبار کو وسیع تر سامعین تک پہنچنے کا موقع دیتا ہے، جہاں لوگ مصنوعات کی تصاویر، قیمتیں اور دوسرے صارفین کی رائے دیکھ سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ، یہ ایک مؤثر مارکیٹنگ پلیٹ فارم ہے جو بغیر کسی بڑے بجٹ کے کاروبار کو فروغ دینے میں مدد دیتا ہے۔

    واٹس ایپ بزنس گاہکوں سے براہ راست اور فوری رابطے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ اس ایپ کے ذریعے کاروبار فوری جوابات دے سکتے ہیں، آرڈرز وصول کر سکتے ہیں اور اپنی خدمات سے متعلق سوالات کا جواب دے سکتے ہیں۔ اس سے گاہکوں کا اعتماد بڑھتا ہے اور خریداری کا عمل آسان ہو جاتا ہے۔ مزید برآں، ڈیجیٹل ادائیگیوں اور کیش آن ڈلیوری کے آپشنز کے ساتھ، چھوٹے کاروبار کم لاگت میں اپنی سروسز کو مزید مؤثر بنا سکتے ہیں۔

    ڈیجیٹل تبدیلی کو اپنانا اب کاروباری ترقی کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔ جو کاروبار آن لائن پلیٹ فارمز کو اپنائیں گے، وہ نہ صرف مقابلے میں آگے ہوں گے بلکہ اپنی بقا کو بھی یقینی بنا سکیں گے۔

    ٹیکنالوجی کے فروغ اور روز مرہ سرگرمیوں کے لیے ہنر مند افراد درکار ہوتے ہیں، لیکن بیشتر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار میں یہ صلاحیت موجود نہیں ہوتی۔ زیادہ تر ملازمین روزمرہ کے کام بخوبی انجام دے سکتے ہیں، مگر ڈیجیٹل مارکیٹنگ یا ڈیٹا اینالیٹکس جیسے جدید شعبوں کی سمجھ کم رکھتے ہیں۔ تربیت میں وقت لگتا ہے، جبکہ ماہرین کی خدمات حاصل کرنا مہنگا پڑتا ہے۔ یونیورسٹیاں ہر سال ہزاروں گریجویٹس پیدا کرتی ہیں، لیکن عملی مہارت رکھنے والے افراد کم ہی ملتے ہیں۔

    حل سادہ ہے۔ محدود بجٹ میں مہارتیں بڑھائیں۔ مفت آن لائن کورسز سے فائدہ اٹھائیں۔ کورسیرا ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی بنیادی تعلیم فراہم کرتا ہے، جبکہ یوٹیوب پربے شمار مفت ٹیوٹوریلز دستیاب ہیں۔ پیچیدہ کاموں کو آؤٹ سورس کریں۔ فری لانسرز ویب سائٹ ڈیزائن جیسے امور کم لاگت میں سنبھال سکتے ہیں۔ ملازمین کو ایک وقت میں ایک ہنر سکھائیں—پہلے ایکسل پر عبور حاصل کریں، پھر پاور بی آئی جیسے جدید ٹولز کی طرف بڑھیں۔

    پاکستان میں انٹرنیٹ کا نظام غیر مستحکم ہے، اور بجلی کی بندش کام میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔ سب سے زیادہ نقصان دیہی علاقوں میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو ہوتا ہے، جہاں فور جی کوریج مکمل نہیں۔ شہری علاقوں میں بھی انٹرنیٹ بینڈوڈتھ کے مسائل عام ہیں۔ ڈیجیٹل تبدیلی کے لیے مستحکم ٹیکنالوجی ناگزیر ہے، لیکن بنیادی سہولتوں کے بغیر یہ سفر دشوار ہو جاتا ہے۔

    حل یہی ہے کہ پہلے آف لائن کام کو ترجیح دی جائے۔ موبائل ڈیٹا کو بیک اپ کے طور پر استعمال کریں—جاز اور زونگ سستے انٹرنیٹ پیکجز فراہم کرتے ہیں۔ طویل المدتی بچت کے لیے سولر یو پی ایس میں سرمایہ کاری کریں، تاکہ بجلی کے بغیر بھی کام جاری رہے۔ کم بینڈوڈتھ پر چلنے والی ایپس کو آزمائیں۔

    یقینا پرانے طریقے آسانی سے نہیں بدلتے۔ کاروباری مالکان ٹیکنالوجی پر بھروسا نہیں کرتے، جبکہ ملازمین اپنی ملازمتیں کھونے سے ڈرتے ہیں۔ روایتی نظام محفوظ محسوس ہوتے ہیں، جبکہ ڈیجیٹل ٹولز پیچیدہ اور خطرناک لگتے ہیں۔ ڈیٹا چوری اور سیکیورٹی خدشات بھی ہچکچاہٹ کو بڑھاتے ہیں۔ اس لیے ایک ساتھ سب کچھ تبدیل کرنے کے بجائے، ایک عمل کو ڈیجیٹل کریں۔ جیسے کسی بھی مفت ایپ جیسے کہ گوگل ورکشیت پر سیلز ریکارڈ کرنا شروع کریں اور دیکھیں، عملے کو عملی تربیت دیں اور اسے ایک دلچسپ تجربہ بنائیں۔ جو لوگ جلدی اپنائیں، انہیں بونس یا دیگر مراعات دیں۔ سیکیورٹی خدشات کو دور کرنے کے لیے دوہری تصدیق کا استعمال کریں اور ڈیٹا کو گوگل ڈرائیو پر محفوظ بیک اپ میں رکھیں۔ تبدیلی کو مرحلہ وار اپنائیں، تاکہ یہ کاروبار کے لیے آسان اور فائدہ مند ثابت ہو۔

    پاکستان صفر سے آغاز نہیں کر رہا۔ ای کامرس تیزی سے فروغ پا رہا ہے—صرف 2024 میں دراز کے صارفین 1.5 کروڑ تک پہنچ گئے۔ موبائل فون کی رسائی 90 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے، جبکہ ایزی پیسہ اورجاز کیش جیسے پلیٹ فارمز ڈیجیٹل ادائیگیوں میں سبقت لے جا رہے ہیں۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار اس ڈیجیٹل لہر سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

    انتظار نہ کریں۔ ایک شعبے کا انتخاب کریں اور ڈیجیٹل تبدیلی کی شروعات کریں۔ اگر سیلز بڑھانی ہیں، تو کسی مقامی پواینٹ آف سیل سسٹم کا استعمال کریں۔ مارکیٹنگ بہتر کرنی ہے؟ تو مفت میں فیس بک پیج لانچ کریں۔ کسٹمر سروس میں بہتری چاہیے؟ تو واٹس ایپ بزنس کو آزمائیں—بغیر کسی لاگت کے۔ تجربہ کریں، سیکھیں، اور اپنی حکمت عملی کو وسعت دیں۔ مقامی کاروباری کمیونٹیز سے جُڑیں۔ سمیڈا اتھارٹی سے رابطہ کریں اور مختلف فورمز میں ٹیکنالوجی سے وابستہ کاروباری افراد کو جوڑتے ہیں، جہاں کامیاب حکمت عملیاں شیئر کی جا سکتی ہیں۔

    ڈیجیٹل تبدیلی محض ایک نعرہ نہیں، بلکہ ایک ضرورت ہے۔ پاکستانی چھوٹے کاروبارحقیقی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں—ریوینیو کی کمی ، مہارت کی کمی، اور بجلی کے مسائل۔ لیکن حل موجود ہیں۔ چھوٹے پیمانے پر آغاز کریں، مفت ٹولز کا فائدہ اٹھائیں، سمارٹ تربیت حاصل کریں، اور مقامی وسائل کو بروئے کار لائیں۔ نتیجہ؟ ترقی، مضبوطی، اور عالمی منڈیوں میں قدم رکھنے کا موقع۔ ایک ڈیجیٹل دنیا میں، پاکستان کے کاروباروں کے پاس پیچھے رہنے کا وقت نہیں۔

  • سوشل میڈیا پر تعلقات گم ہو رہے ہیں- حافظ یوسف سراج

    سوشل میڈیا پر تعلقات گم ہو رہے ہیں- حافظ یوسف سراج

    فیس کا آغاز ہوا تو تعلقات،رابطوں اور آگہی میں انقلاب آگیا، پہلی دفعہ ہوا کہ مشہور اور بہت دور شخصیات سے براہ راست رابطہ ممکن ہوگیا، تب فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنے اور قبولنے میں ایک خاص طرح کی تھرل تھی۔

    اس وقت فیس بک پر اصلی جوش و خروش تھا، تعارف تعلقات میں بدلے ، فیس بک کے ورچوئل رابطوں کو فزیکل بنانے کیلئے فیس بک سمٹ ہوئے،مختلف نظریات رکھنے والے آمنے سامنے ہوئے تو بڑے پرجوش مناظرے اور مباحثے بھی ہوئے، خیر یہ وقت بھی بیت گیا۔ پھر نئی نئی فیس بک کچھ کچھ پرانی ہوئی تو ہر چیز میں اعتدال آنے لگا، اس بچے کی طرح، جسے ہمیشہ سے شہر میں جانے کا شوق تھا ،مگرجس نے شہر جا کے دیکھا تو وہاں کا کھمبا بھی ویسا ہی لمبا اور وہاں کی روٹی بھی ویسی ہی گول تھی تو وہ شام کو گھر لوٹ آیا،فیس بک پر بھی انسانوں کی بنیادی صفات سامنے آنے لگیں اور بہت اچھے لگنے والے لوگ نارمل انسان لگنے لگے۔

    شروع شروع کی گرمی جوش ایسی تھی کہ لمبے لمبے کمنٹ کئے جاتے، اپنا آپ اور اپنا علم و ادب دکھانے کے لئے خوب زور مارا جاتا، کئی لوگ تو اپنے کمنٹس سے ہی مقبول ہوگئے اور پھر آج والا وقت آگیا کہ لوگ روز کے راستے کی طرح یہاں کی بھی ہر چیز کے عادی ہوگئے اور حالت یہ ہوگئی کہ
    اب ملاقات میں وہ گرمیِ جذبات کہاں
    اب تو رکھنے وہ محبت کا بھرم آتے ہیں

    اب تو بس پوسٹ پڑھتے ہیں اوربمشکل ان ری ایکشنری بٹنز میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے ہیں، جو شروع شروع میں صرف ایک ہی تھا، صرف لائک کا بٹن، تب تو اگر کوئی کامیاب ہوتا تھا یا مر جاتا تھا، مجبوری یہ تھی کہ اسے بس لائیک ہی کیا جا سکتا تھا، پھر ان بٹنز میں اصافہ ہوا ، لاسٹ ترین شائد کئیر والا بٹن آیا ، خیر اب لوگ عادی ہوگئے ، وہ چیزدیکھ کر گزر جاتے ہیں، بٹنز والا بنا بنایا ری ایکشن دینا بھی انھیں بوجھ اور بار محسوس ہوتا ہے دراصل یہی وہ خرابی ہے، جس کے بارے میں مجھے بات کرنا ہے، فیس بک بلکہ سوشل میڈیا کا الگورتھم یا کہہ لیجیے میکنزم اس طرح بنایا گیا ہے کہ جس چیز میں آپ دلچسپی لیں گے وہ آپ کو زیادہ دکھائی جائے گی، جس چیز میں آپ دلچسپی نہیں لیں گے ،وہ کم کرتے کرتے بالآخر آپ سے اوجھل ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر متنازع چیز زیادہ وائرل ہوتی ہے، اس میں وجہ اس کا متنازع ہونا نہیں ہوتا، بلکہ اس کا زیادہ ڈسکس ہونا ہوتا ہے، ظاہر جب اس پر فریقین کے کمنٹس آئیں گے ، وہ نیگیٹو ہوں یا پازیٹو، الگورتھم بس یہ دیکھتا ہے کہ یہ چیز لوگوں کی دلچسپی کا باعث بن رہی ہے چنانچہ وہ ہر ایک کو آگے سے آگے دکھاتا چلا جاتا ہے،جس چیز میں کوئی قابل کمنٹ بات یا تھم نیل میں لوگوں کی توجہ مبذول کروانے والی بات نہیں ہوگی، وہ وہیں کی وہیں پڑی رہ جائے گی۔

    خیر بات یہ ہورہی تھی کہ اگر آپ ایسے لوگوں کو بھی صرف دیکھنے اور پڑھنے پر اکتفا کرتے ہیں ، جن سے آپ جڑے رہنا چاہتے ہیں تو ری ایکشن نہ دینے کے باعث کسی دن فیس بک وہ آپ کے سامنے نہیں لائے گی، چونکہ ہمارا معمول یہ ہے کہ سامنے آنے والی چیزوں کو ہی دیکھتے ہیں، تو ہم سمجھیں گے کہ اس نے شائد آج نہیں لکھا ہوگا، آہستہ آہستہ وہ ہمارے معمول سے ہی نکل جائے گا، آپ کبھی کال کرکے تو پوچھیں گے نہیں کہ وہ واقعی غائب ہے یا صرف آپ سے غائب کر دیا گیا ہے، یہ آپ کا بھی تجربہ ہوگا کہ کئی لوگ آہستہ آہستہ ہمارے سامنے سے چلے گئے اور ہم بھی ان کے بغیر ہی سوشل میڈیا کے عادی ہوتے چلے گئے، حالانکہ وہ کبھی ہمارے سوشل میڈیا کا بھرپور حصہ ہوتے تھے، نتیجہ یہ نکلا کہ آپ جنھیں اہم سمجھتے ہیں، جن کے ساتھ جڑے رہنا چاہتے ہیں، جن سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں، ان کی پوسٹوں کو ضرور ری ایکشن دیجیے ، ورنہ جس طرح اصلی رشتوں کو پانی نہ دینے سے ان میں جان نہیں رہتی ، ویسے ہی ورچوئل دنیا کے رشتے بھی باقی نہیں رہتے۔ سو جنھیں بچانا یا بحال رکھنا ہو، انھیں کے متعلق اپنے ہونے کا فیس بک کو بتاتے رہئے، ورنہ فرینڈز لسٹ میں ہونے کے باوجود وہ آپ کی نظروں سے غائب کر دئیے جائیں گے۔سو اپنوں کو اپنے عمل سے گم ہونے سے بچانا آپ کی اپنی ذمے داری ہے۔

  • فیس بک پر انویسٹمنٹ مانگنے والے99 فیصد فراڈ ہیں  – توصیف ملک

    فیس بک پر انویسٹمنٹ مانگنے والے99 فیصد فراڈ ہیں – توصیف ملک

    فیس بک پر انویسٹمنٹ مانگنے والے نناوے فیصد فراڈ ہیں. صرف فیس بک پر ہی نہیں بلکہ کسی بہت قریبی جاننے والے کے پاس بھی خاموش سرمایہ کاری کا نتیجہ عمومی طور پر بہت خراب ہوتا ہے .

    پہلے ہم بات کرتے ہیں سرمایہ کاری کی ، پوری دنیا میں کارپوریٹ سیکٹر بہت اہمیت کا حامل ہے ، جتنی بھی بڑی بڑی کمپنیز کو دیکھیں گے تو اس کی بنیاد کارپوریشن ہی ہے ، انویسٹرز ایسی کمپنیز کو ڈھونڈتے ہیں جو ترقی کر رہی ہو ں اور وہ اس میں شامل ہو کر منافع کمائیں. لیکن پاکستان کے حالات یکسر مختلف ہیں. سب سے پہلا مسئلہ آمدنی یعنی نفع کا ہے. امریکہ یا یورپ وغیرہ میں نفع ڈالرز ، پاؤنڈز میں آتا ہے ، وہ ایسی مارکیٹس ہیں جہاں پیسے کا فلو بہت زیادہ ہے ، لوگ آسائشات پر بہت پیسہ لگاتے ہیں ، ایک عام مزدور کے گھر میں بھی تقریباً وہ تمام سہولیات ہوتی ہیں جس کے لیے ایک لوئر مڈل کلاس ترس رہا ہوتا ہے ، لوئر مڈل کلاس کے لیے فاسٹ فوڈ کھانا ، برانڈڈ برگر ، پیزہ کھانا پارٹی کے برابر ہوتا ہے ، ایسی چیزیں اس کے لیے لگژری شمار ہوتی ہیں اسی لیے وہ ہفتے یا مہینے بعد ایسی پارٹیز کرتا ہے اور پھر فخریہ اس کی تصاویر سوشل میڈیا پر بھی لگاتا ہے . جبکہ ایک عام امریکی جتنا ایک گھنٹے میں کماتا ہے اس سے کسی برانڈ کا پیزہ یا برگر آسانی سے لے سکتا ہے ، ایک عام امریکی پرانی کار آسانی سے افورڈ کر سکتا ہے.

    اب اس حساب سے دیکھ لیں کہ ادھر کا مڈل کلاس کس قسم کی آسائشات استعمال کرتا ہو گا ، اور جتنی آسائشات زیادہ ہوں گی اتنا زیادہ پیسے کا فلو ہو گا اور جتنا فلو ہو گا اتنی کمائی بڑھتی جائے گی. آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ پاکستان میں تین سے پانچ ہزار میں بکنے والی جینز امریکہ میں بیس سے تیس ہزار کی بکتی ہے یعنی ان کے لیے وہ سو ڈالر کے قریب رقم بنتی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ پاکستان سے وہ جینز ہی بیس ہزار کی جاتی ہے ، پاکستانی ایکسپورٹر زیادہ سے زیادہ دس ہزار کی بیچتا ہو گا ، اس کے بعد پانچ ہزار اس کے اوپر اگر خرچہ وغیرہ ڈال دیا جائے تو بھی اس کا نفع پانچ سے دس ہزار روپے تک وہاں کا بزنس مین لیتا ہے اور یہ عام نفع ہے ، اسی طرح دوسری اشیاء کا موازنہ بھی کیا جا سکتا ہے.

    پاکستان میں اگر کوئی کاروبار میں انویسٹ کرواتا ہے تو منافع میں کمی کی وجہ سے اسے منافع دینے کی ہمت ہی نہیں پڑتی ، پہلے پہل تو جانفشانی سے نفع دے گا لیکن کچھ عرصے بعد دو صورتیں ہوں گی یا تو کاروبار چل نکلے گا تو ایسی صورت میں کاروباری شخص کے پاس بھی رقم آتی جائے گی اور اس کو یہ نفع دکھ دینے لگے گا ، اب چونکہ کاروبار چل نکلا ہے تو وہ کسی نہ کسی بہانے سے انویسٹر کو فارغ کر دے گا کہ اس کی ضرورت پوری ہو چکی ہوتی ہے .

    دوسری صورت یہ ہو گی کہ کاروبار واقعی نقصان میں جا رہا ہو گا یا کم از کم صرف اتنا نفع ہو رہا ہو گا کہ کاروبار کرنے والے کا خرچہ چل سکے ، ایسی صورت میں جب انویسٹر پیسے مانگے گا ( جیسے کہ اسے شروع شروع میں ملے تھے ) اور نفع نہ ملنے پر وہ رقم واپس مانگے گا تو جو کاروبار پہلے ہی نقصان میں تھا تو اب انوسیٹرز کو رقم واپس کرنا بھی مشکل ہو جائے گی. لڑائیاں ہوں گی ، کورٹ کچہری تھانے کے چکر لگیں گے ، علاقے کے بدمعاشوں کو انوالو کیا جائے گا اور پھر دونوں طرف زور وشور سے دھمکیاں شروع ہو جائیں گی. کیا آپ کو علم ہے کہ امریکہ ، یورپ میں جو کاروبار کے لیے اشتراک ہوتا ہے اس کے لیے کیسی کیسی انویسٹی گیشن ہوتی ہے ، کیسے کیسے سوالات کیے جاتے ہیں ، کمپنی کی مارکیٹ ویلیو ، بزنس کا فلو ، بزنس ڈائریکٹرز کا تجربہ اور نہ جانے کیا کچھ دیکھا جاتا ہے ، بڑی بڑی فرمز کے زریعے انویسٹیگیشن کروائی جاتی ہے تاکہ کمپنی کا مستقبل دیکھا جا سکے . جبکہ ہمارے ہاں پیسے پکڑانے کا کوئی معیار نہیں ہے ، کسی مولوی صاحب کو کاروبار کرتا دیکھ لیا ، ان کی شاہانہ زندگی جس میں آئی فون اور اچھی کار بھی شامل ہوتی ہے کو دیکھ کر فیصلہ کر لیا جاتا ہے کہ اسے پیسہ پکڑا دینا چاہیے ، یہ داڑھی پگڑی والا بندہ ہے ، بہت اچھی اچھی پوسٹس کرتا ہے لہذا اس کے ساتھ خاموش پارٹنر بن جانا چاہیے . نہ پیسے دینے والے کو کاروبار کی کچھ سمجھ ہوتی ہے اور نہ ہی لینے والے کو ( اکثریت) ، اس نے بھی نئے کاروبار کے لیے تجربہ ہی کرنا ہوتا ہے اور زیادہ تر وہ بھی کسی نہ کسی سے متاثر ہوا ہوتا ہے ، اسے بھی زیادہ پیسے کمانے کا لالچ ہوتا ہے ورنہ گزارا تو چھوٹے موٹے کام سے بھی ہو ہی جاتا ہے .

    دوسری بڑی وجہ ہمارے ہاں قانون کا نظام بہت کمزور ہے ( آج کل تو ویسے بھی قانون کی حیثیت ۔۔۔۔۔۔۔جیسی بنا دی گئی ہے) میرے بھائی کے ایک دوسرے دکاندار کے پاس بارہ لاکھ روپے پھنسے ہوئے تھے جس میں سے آدھے بہت مشکل سے ایک سال میں نکلوائے جبکہ چھے لاکھ کا چیک موجود ہے لیکن وہ بندہ چیک سے بھی نہیں ڈرتا ، کہتا ہے جو کرنا ہے کرلو. اگر آپ نے اپنی جمع پونجی انویسٹ کر بھی دی اور بڑے بڑے اشٹام پیپر بھی لکھوا لیے لیکن پھر بھی آپکی رقم کی کوئی گارنٹی نہیں ہے ، جتنا آپ زور لگا سکیں گے اتنا ہی مال واپس ملے گا . میں ایک کاروباری بندہ ہوں اور آج تک ایک روپیہ حرام کا نہیں کمایا ( الحمدللہ ) میں نے بھی جب نیا نیا کاروبار شروع کیا تو بڑے بڑے خواب تھے ، ان خوابوں کے لیے عملی کام برائے نام تھا ، میرے راتوں رات کروڑ پتی بننے میں رکاوٹ صرف سرمایہ تھا ، میں نے ایک بہت قریبی سے انویسٹمنٹ لے لی اور صرف پہلے چھے مہینے نفع دیتا رہا ، اس کے بعد نہ نفع دے سکا اور نہ ہی رقم واپس نکال سکا . چونکہ تجربہ نہیں تھا تو جو چیز نظر آتی اس میں رقم لگا دیتا اور پھر آخر میں رقم مال کی صورت میں پھنس گئی ، مال بیچوں تو بہت گھاٹا پڑ رہا تھا جبکہ انویسٹر کے گھر کا نظام انہی پیسوں کی بچت سے چل رہا تھا .

    سچ تو یہ ہے کہ مجھے وہ پہلی نفع والی رقم دیتے ہوئے بھی دل نہیں کرتا تھا پتا نہیں کس دل سے پیسے دیتا تھا ، حالانکہ میرا کوئی حرام کھانے یا فراڈ کرنے کا بالکل ارادہ نہیں تھا نہ ہی ایسا کوئی ارادہ تھا کہ رقم کھا جاؤں گا لیکن یہ انسانی فطرت ہے کہ اپنی کمائی میں سے کسی دوسرے کو حصہ دیتے ہوئے جان جاتی ہے . بہت مشکل سے انویسٹر کو وہ رقم پوری کرکے دی ، بہن بھائی ، دوست کام آئے اور الحمدللہ کچھ عرصے میں تمام کا قرض اتار دیا ، اس کے بعد پکی نیت کر لی کہ آئندہ کے بعد کسی کی رقم سے کاروبار نہیں کرنا اور شاید یہی اچھی نیت تھی کہ خدا نے بہت برکت عطا فرمائی . اگر کبھی کاروبار میں رقم کی ضرورت پڑی بھی تو بہت سادہ طریقہ رکھا کہ فلاں مال اٹھانا ہے ، وہ مال جتنے کا بنے گا وہ آپ کی ملکیت ہو گا اور آپ سے کچھ عرصے بعد یا دو تین اقساط میں وہ مال میں خرید لوں گا ، اس خریداری میں انویسٹر کو نفع بھی مل جاتا تھا اور میں ایسا مال خرید لیتا تھا جو سستا مل رہا ہوتا تھا . خود پر ایک وقت میں چاہے دس ہزار روپے بھی خرچ کر لیں اس کا دکھ نہیں ہوتا لیکن اگر جیب سے سو روپے بھی گم ہو جائیں تو اس کا دکھ بہت زیادہ ہوتا ہے ، اپنی کمائی کو ایسے ہی کسی کے ہاتھ نہ پکڑا دیں .

    میں آپ کو اس بارے مشورہ نہیں دے سکتا کہ فلاں طریقے سے انویسٹ کریں یا فلاں طریقہ کار اختیار کریں، صرف اتنا کہوں گا کہ پاکستان میں ایسی انویسٹمنٹ سازگار نہیں ہے. یہ انویسٹمنٹ لینے والے فراڈ نہیں ہوتے لیکن پاکستان میں یہ خوامخواہ فراڈ ہو جاتا ہے ، جس کی آپ نے رقم لی ہے اور اسے نفع نہ ملے یا رقم واپس نہ ملے تو اس کے لیے آپ فراڈ ہی ہیں ، چاہے آپ کی نیت بہت اچھی ہو ، آپ پکے نمازی ہوں ، جس نے اپنی جمع پونجی، گھر کا زیور ، پیٹ کاٹ کاٹ کر آپ کو رقم دی ہے اس نے بہت سہانے سپنے سجا لیے ہوتے ہیں جن کے ٹوٹنے پر ایسا دکھ ہوتا ہے جیسے اس کی جان نکال لی گئی ہو . پاکستان میں سٹارٹ اپس کی جگہ بہت کم ہے ( فی الحال) ، اگر آپ کے پاس کوئی مضبوط آئیڈیا ہے تو لوگوں سے رقم مانگنے کے بجائے پاکستان شارک ٹینک میں جائیں ، وہ پورے قانونی طریقے سے آپ کو ڈیل کریں گے ، وہ اپنی رقم کی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں اور وہ پانچ منٹ میں ہی آپ کے کاروباری آئیڈیا کی جنم کنڈلی اور مستقبل کھنگال لیں گے

  • مفید کانٹینٹ کیا ہے، کیسے بنائیں -حفصہ قدوس

    مفید کانٹینٹ کیا ہے، کیسے بنائیں -حفصہ قدوس

    آپ گوگل پر کسی مسئلے کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں، آپ فیس بک پر اسکرولنگ کر رہے ہیں یا یوٹیوب پر مطلوبہ موضوع کے بارے میں تلاش کر رہے ہیں یا انسٹاگرام، ٹوئٹر پر سرگرداں ہیں۔ آپ کا واسطہ کانٹینٹ سے پڑ رہا ہوتا ہے۔

    کانٹینٹ کیا ہے؟
    آپ جو بھی دیکھتے یا سنتے ہیں وہ کانٹینٹ یا “مواد” ہے۔ اب کانٹینٹ کسی خبر کی شکل میں ہو سکتا ہے، کوئی ویڈیو ، تصویر، تحریر، یا صرف آواز ہو سکتی ہے۔

    اگلا سوال یہ ہے کہ “ویلیوایبل کانٹینٹ” کیا ہے؟
    وہ کانٹینٹ یا مواد جو آپ کے وقت کو قیمتی بنائے، آپ کی زندگی پر مثبت اثر ڈالے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہماری آنکھیں جو دیکھتی ہیں یا ہمارے کان جو سنتے ہیں، اُن کا براہِ راست اثر ہماری شخصیت پر پڑتا ہے۔ آپ ایک پودے کو بھی مسلسل منفی باتیں سنائیں، طعن وتشنیع کا نشانہ بنائیں تو وہ جلد ہی مرجھا جائے گا۔ اب ذرا سوچیں کہ ہماری قوم کا سرمایہ ہمارے نوجوان روزانہ کس قسم کا “زہر” اپنے اندر جذب کر رہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ہر ہاتھ میں موبائل ہے اور موبائل پر “سوشل میڈیا” نامی جِن سب کی خدمت کے لیے حاضر۔

    اب صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر بندہ ہی کانٹینٹ بنانے میں لگا ہوا ہے۔ وہ لوگ جو کسی مثبت مقصد کے تحت کانٹینٹ بنا رہے ہیں، ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اکثر کا مطمح نظر صرف شہرت اور پیسے کا حصول ہے۔ ایسے میں جو کانٹینٹ سامنے آرہا ہے وہ عام طور پر اخلاقیات سے عاری ہے۔
    ایک نوجوان کا واسطہ ایسے کانٹینٹ سے پڑ رہا ہے جو بے حیائی پر مشتمل ہے، یا وہ دوسروں کو ایک ایسی زندگی گزارتے ہوئے دیکھ رہا ہے جس میں مسائل کا شائبہ تک نہیں، دولت کی ریل پیل ہے۔ ایسے میں وہ اشتعال انگیزی اور مایوسی کا شکار ہو گا یا “کردار کا غازی” بنے گا۔ بات صرف یہیں تک ختم نہیں ہو جاتی۔ معاشرہ افراد سے بنتا ہے۔ جب تقریباً ہر شخص ہی مایوسی کا شکار ہو گا اور بے مقصد زندگی گزارنے پر مجبور ہو گا تو آپ خود سوچیں کہ ایسا معاشرہ اقوامِ عالم میں کہاں کھڑا ہو گا؟

    سستی شہرت اور اندھا دھند دولت حاصل کرنے کی خواہش میں ہمارے ہاں ایسا کانٹینٹ بنایا جا رہا ہے جو معاشرے کے لیے زہر کا کام کررہا ہے۔ ایسے کانٹینٹ کے نتیجے میں:
    1۔ ہم ترقی کی راہ سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
    2۔ اخلاقی برائیاں پیدا ہو رہی ہیں۔
    3۔ خاندانی اقدار کا لحاظ ختم ہو رہا ہے۔
    4۔ حلال وحرام کا امتیاز بھی ختم ہو رہا ہے۔
    اس کانٹینٹ کو “نشے” کا نام دیا جائے تو غلط نہیں ہو گا کیونکہ بنانے والے اور دیکھنے والے دونوں ہی معاشرے کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔

    ویلیوایبل کانٹینٹ کی اہمیت:
    ویلیوایبل کانٹینٹ کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتا ہے۔ درج ذیل نکات مفید مواد کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں:
    1۔ قومی تشخص:
    کسی قوم کے اکثریتی افراد کا کانٹینٹ اقوامِ عالم میں اس قوم کا نمایاں تشخص قائم کرتا ہے۔ مقامِ فکر ہے کہ ہماری اکثریتی عوام کا کانٹینٹ بے حیائی کو فروغ دے رہا ہے۔ ہماری قوم کا تشخص فیملی ویلاگنگ اور فحش مواد کی بنا پر ایک ایسی قوم کا بن رہا ہے جو کاہل ہے، دولت کے حصول کے لیے اپنی اقدار کی پرواہ نہیں کرتی۔ زندگی گزارنے کے اصولوں سے ناواقف ہے۔

    2۔ مستقبل کے لیے سنگ میل:
    کانٹینٹ کسی بھی قوم کے نوجوانوں کو اپنے مستقبل کی راہ متعین کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ اس وقت جو کانٹینٹ ہمارے ملک میں بن رہا ہے وہ ہمارے نوجوانوں کی کیا رہنمائی کرے گا۔ اس کانٹینٹ سے کاہلی، بے حیائی اور اخلاقی بحران جیسے ماشرتی ناسور پیدا ہورہے ہیں۔

    3۔ سیکھنے کے عمل میں معاون:
    انسان ہر وقت کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے۔ کانٹینٹ اس سیکھنے کے سفر میں معاون ہوتا ہے۔ماضی میں کتاب بہترین استاد ہوا کرتی تھی۔ زندگی کے نشیب و فراز کے متعلق رہنمائی دیا کرتی تھی۔ ڈیجیٹل دور میں کتاب کی جگہ ڈیجیٹل کانٹینٹ نے لے لی۔ ہمارے ہاں بنننے والا اکثر کانٹینٹ معاشرتی و معاشی ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف رہنمائی کر رہا ہے۔ آج کا نوجوان پیسےکی دوڑ میں “برکت” کے مفہوم سے ناآشنا ہے۔ اسی وجہ سے دولت کے ڈھیر کمانے کے چکر میں قوم کے تشخص اور ترقی کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔

    مفید مواد ویلیوایبل کانٹینٹ کیسے بنایا جائے؟
    کسی بھی قسم کا کانٹینٹ بنانے سے پہلے چند اہم نکات کو ذہن میں رکھیں:
    1۔ کانٹینٹ بنانے سے آپ کا مقصد کیا ہے؟
    آپ معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ کو ضرور کانٹینٹ بنانا چاہیے۔ اگر آپ صرف شہرت یا دولت کمانے کے لیے کانٹینٹ بنانا چاہتے ہیں تو پھر کانٹینٹ کو ذریعہ بنا کر قوم کے مستقبل سے نہ کھیلیں۔
    2۔ آپ کا کانٹینٹ کسی مسئلے کا حل پیش کر رہا ہے؟
    کانٹینٹ بناتے ہوئے ذہن میں رکھیں کہ آپ کا کانٹینٹ کسی مسئلے کا حل پیش کر رہا ہو یا پھراس کا مقصد کسی چیز کو بہتر بنانے کے متعلق آگاہی دینا ہو۔
    3۔ قومی و ملکی تشخص کا خیال:
    دھیان رکھیں کہ آپ کے کانٹینٹ میں کچھ ایسا تو نہیں جو قومی یا ملکی شناخت کو نقصان پہنچائے؟
    4۔دل آزاری سے گریز:
    دیکھیں کہ آپ کے کانٹینٹ میں کچھ ایسا تو نہیں جو کسی بھی طبقے کے جذبات کو مجروح کرے؟
    5۔ اشتعال انگیزی سے اجتناب:
    آپ کے کانٹینٹ میںکچھ ایسا تو نہیں جو نفسیاتی یا سیاسی طور پر بُرا اثر ڈالے۔۔
    7۔ تحقیق:
    تحقیق شدہ معلومات ہی آگے پہنچائی جائیں۔

    قرآن پاک کی سورہ “النور” میں “استیذان” کے آداب بتائے گئے ہیں۔ استیذان یعنی “گھر میں یا خلوت کے جگہ میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینے” کا حکم بتاتا ہے کہ اسلام گھریلو معاملات کو سربازار عام کرنے کے خلاف ہے۔ احادیث میں کسی کے گھر جھانکنے سے منع کیا گیا ہے۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ فیملی ویلاگرز کس قسم کی حدود کو پامال کر رہے ہیں اور اس کے نتائج کیا کیا ہوسکتے ہیں۔ اور صرف یہی نہیں، ہر فحش و بےحیائی و بےدینی پھیلانے والاکانٹینٹ قوم کو ترقی کی راہ سے ہٹا دیتا ہے۔ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جو شخص کوئی اچھا طریقہ ایجاد کرتا ہے اس طریقے پر چلنے والوں کا ثواب بھی اس کے نامہ اعمال میں درج ہوگا( ان کے ثواب میں کمی کے بغیر)۔

  • فری مارکیٹنگ یا پیڈ مارکیٹنگ ، فائدہ کس کا؟ حامد حسن

    فری مارکیٹنگ یا پیڈ مارکیٹنگ ، فائدہ کس کا؟ حامد حسن

    کیا آپ جانتے ہیں
    فری مارکیٹنگ پیڈ مارکیٹنگ سے کئی گنا زیادہ بہتر اور فائدہ مند ہے۔۔۔

    ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی دو اقسام ہیں ”پیڈ مارکیٹنگ اور آرگینک فری مارکیٹنگ “

    یوٹیوب، آن لائن مینٹورزاور دوسرے لوگ 99 فیصد پیڈ مارکیٹنگ کے متعلق ہی بتاتے ہیں،مارکیٹنگ کے زیادہ تر کورسز اور ریکمنڈیشن بھی پیڈ مارکیٹنگ کی ہی ہوتی ہے۔۔۔ اور دوسری بات کہ زیادہ تر لوگ ڈیجیٹل مارکیٹنگ سے مراد فیس بک پر ایڈ چلانے کو ہی سمجھتے ہیں کہ جسے ایڈ چلانا آ گیا وہ ڈیجیٹل مارکیٹر ہے جبکہ یہ فیلڈ تو ایک سمندر ہے عمر بھر اس میں غوطے مارتے رہیں کچھ نہ کچھ نیا حاصل ہوتا ہی رہے گا۔۔۔ ایک بات یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ اکثر کورسز چونکہ ایک دوسرے سے سیکھ کر آگے وہی سیم ٹو سیم کورس لانچ کر لیتے ہیں اب ظاہر ہے کہ جو چیز جس فارمیٹنگ میں جتنی مقدار میں سیکھی جاتی ہے وہ آگے وہی سب کچھ ہی سکھا پائے گا بہت کم ہوتا ہے کہ اپنی ریسرچ اینالائز اور یونیک سٹریجڈی بہت کم لوگ بنا پاتے ہیں۔۔۔ اکثر لوگ ڈیجیٹل مارکیٹنگ کو پیڈ مارکیٹنگ ہی سب کچھ سمجھتے ہیں جبکہ جو لوگ اس فیلڈ میں پرانے ہیں اور اس فیلڈ کو گہرائی سے سمجھتے ہیں انہیں بخوبی معلوم ہے کہ اصل گیم ہوتی کیا ہے۔۔۔ موازنہ کیا جائے تو فری مارکیٹنگ پیڈ مارکیٹنگ سے کئی حوالوں سے زیادہ بہتر اور مفید ہے، اور فری مارکیٹنگ سے کی گئی پرموشن، محنت،کمپین اور انگیجمنٹ 100 فیصد رئیل اور جنیون ہوتی ہے۔۔۔

    اس کو اب مثال سے سمجھتے ہیں
    آپ فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب پر پیڈ مارکیٹنگ کرتے ہیں، آپ کو ئی بھی کمپین چلاتے ہیں اس کی ایک مخصوص رقم فیس بک کو ادا کر کے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ہمارے لئے فیس بک کسٹمر لائے گا، مختلف لوگوں تک ہماری کمپین پہنچائے گا۔۔۔یہ تمام کمپنیز بھی زیادہ سے زیادہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ پیڈ مارکیٹنگ ہی کی جائے کیوں کہ ان کو اس کے بدلے ان کو رقم ملتی رہتی ہے ان کا تو بھلا ہی ہوگا۔۔۔ فری مارکیٹنگ لوگ جان گئے تو ان کا نقصان ہوگا۔۔۔آپ اپنی کمپین ایک ہفتہ یا ایک ماہ کے لئے کرتے ہیں اور آپ دیکھتے ہیں کمپین والی پوسٹ پر دھڑا دھڑ لائیک، شئیر اور کمنٹ ملتے ہیں لیکن سیل کم ہوتی ہے۔۔۔لیکن جس پوسٹ پر کمپین نہیں لگتی وہ مردہ پڑی رہتی ہے پیڈ مارکیٹنگ سے جو لائیک، فالور ملے ہیں ان میں سے ایک پرسنٹ لوگ دوبارہ بغیر کمپین والی پوسٹ پر نہیں آتے۔۔۔اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ رقم دے کر آپ نے جو انگیجمنٹ حاصل کی ہے اس کی لائف صرف اسی کمپین تک ہی محدود تھی باقی ان سب فالورز اور لائیکس کا کچھ حاصل نہیں۔۔۔

    بہتر کیا ہے؟
    جس بندے نے اپنی پروڈکٹس سیل کرنی ہے، سروسز دینی ہے میرے تجربے کے مطابق اسے 70 فیصد آرگینک مارکیٹنگ کرنی چاہئے اور 30 فیصد پیڈ کمپین کرنی چاہئے۔۔۔ اگر کسی کا مقصد پروڈکٹس سیل کرنا ہے تو پیڈ کمپین میں اگر دس ہزار بندوں کی انگیجمنٹ ملی ہے تو اس میں سے دو چار چھ پرچیزنگ ہی مل پاتی ہیں۔۔۔ پیڈمارکیٹنگ میں کیا ہوتا ہے کہ آپ ایک کرائیٹیریا سیٹ کر کے، فیس بک کی طرف سے دئے گئے طے شدہ آڈئینس ، علاقہ اور لوگ سیٹ کرکے کمپین چلاتے ہیں۔۔۔ البتہ اگر کسی نے صرف اپنے نام کی پرموشن کرنی ہے، زیادہ سے زیادہ لائیک اور فالور لینے ہیں تو اس کے لئے پیڈ کمپین ٹھیک ہے کہ پیسے دو اور اپنے پیج پر لائیک اور فالور کی تعداد میں اضافہ کرو۔۔۔

    یہاں گیم کیا ہوتی ہے
    فیس بک پر بہت سی آئیڈیز فیک ہوتی ہیں، ان آئی ڈیز کی بائیوز، ڈیٹیل، لوکیشن وغیرہ بھی فیک ہوتی ہے تو فیس بک الگورتھم کے مطابق جینون اور فیک سب آئیڈیز تک وہ کمپین لسٹ میں جاتی ہیں۔۔۔ ابھی آپ خود بتائیں کہ کتنی ہی آئیڈیز آپ کے سامنے آتی ہوں گی جو 100 فیصد فیک ہوتی ہیں اور کمپین اڈئینس میں وہ سب آئی ڈیز مینشن ہوتی ہیں۔۔۔ تو پھر سوال یہ بنتا ہے کہ پیڈکمپین کر کے پیسہ خرچ کر کے حاصل کیا ہوا۔۔۔؟ مثلاً میری ایک فیک آئی ڈی ہے جس پر میں نے لائیو لوکیشن لندن انگلینڈ کی دی ہوئی ہے۔۔۔ اپنی بائیو، اباؤٹ اور ڈیٹیل میں ای کامرس مینشن کی ہے۔۔۔ لیکن میں بیٹھا پاکستان میں ہوں اور وہ آئی ڈی کبھی کبھار استعمال کرتا ہوں۔۔۔ اب اگر ایک بندہ کمپین سیٹ کرکے لندن کو ٹارگٹ کرتا ہے۔۔۔ آئیڈینس انگیجمنٹ میں ای کامرس والے لوگوں کو مینشن کرتا ہے۔۔۔ اس نےفیس بک سے ایک روپے میں دو لائیک خریدے جن میں سے ایک میں ہوں اور ایک جینون ہے تو سمجھو کہ اس کی آدھی رقم بالکل فضول ضائع ہوئی۔۔۔

    میرا مشورہ اور تجربہ
    میرا ہر کسی کو یہی مشورہ ہوتا ہے کہ پیڈ مارکیٹنگ کے بجائے آرگینک طریقے سے مارکیٹنگ کریں۔۔۔ پیڈ مارکیٹنگ میں جتنی رقم لگاتے ہیں اگر اتنی رقم لگا کر ایک دو قابل بندے ہائیر کئے جائیں۔۔۔ ڈیٹا مائیننگ کی جائے اور پھر آرگینک طریقے سے روزانہ مارکیٹنگ کی جائے تو یہاں سے آپ کو جینون اور ایکٹیو لوگ ملیں گے۔۔۔ مثال کے طور پرایک ماہ کے لئے ایک لاکھ روپے کی پیڈ مارکیٹنگ کرتے ہیں تو اس سے آپ کو 10 پرچیز ملتی ہیں۔۔۔ دس ہزار لائیک اور فالور ملتے ہیں۔۔۔ لیکن ان دس ہزار میں 5،6 ہزار ڈیڈ آئیڈیز ہوں گی جو کہ آئندہ کسی کام نہیں آنے والی۔۔۔ اس کے برعکس اگر آرگینک مارکیٹنگ کی جائے تو ایک لاکھ میں 30،30 ہزار پر دو بندے رکھے جائیںباقی 60 ہزار خرچہ رکھیں۔۔۔ اب آرگینک مارکیٹنگ سے باقاعدہ ڈیٹا مائیننگ کر کے، رئیل انگیجمنٹ سے ایک ہزار لوگ ملیں گے اور کم سے کم 15،20 سیلز ہوں گی۔۔۔ یہ دس ہزار لوگ جینون آڈینس ہے اور آپ کے آج یا کل کے کسٹمر ہیں۔۔۔ تو خود بتائیں کہ پیڈ مارکیٹنگ سے آنے والے دس ہزار ناقابل اعتبار آئیڈیز زیادہ بہتر ہیں یا پھر رئیل ایک ہزار جینون لوگ زیادہ بہتر ہیں۔۔۔؟؟؟
    ــــــــــــــــــــ
    یہ ایک طویل اور ٹیکنیکل موضوع ہے. اس پر سامنے بیٹھ کر یا پھر تفصیل سے بات کی جائے تو تب ہی سمجھ آئے گی۔۔۔ میں نے بذاتِ خود کافی عرصہ پیڈ مارکیٹنگ کو سٹڈی کیا، اس کو سمجھا، الگوریتھم کی تکنیک کی جانچ پڑتال کی۔۔۔ میں اپنے کام کے لئے اور کلائنٹس کو بھی پیڈ مارکیٹنگ کے بجائے آرگینک اور رئیل مارکیٹنگ کا مشورہ دیتا ہوں۔۔۔ رئیل آرگینک مارکیٹنگ میں وقت لگتا ہے، جان لگتی ہے، محنت درکار ہوتی ہے لیکن اس کے فوائد لانگ ٹرم فائدہ دیتے ہیں۔۔۔ ان شاء اللہ العزیز اس موضوع پر تفصیل سے لکھنے کا ارادہ ہے۔۔۔

  • اب پاکستانی صارفین بھی فیس بک سے کما سکیں گے، بلال بھٹو کا بڑا اعلان

    اب پاکستانی صارفین بھی فیس بک سے کما سکیں گے، بلال بھٹو کا بڑا اعلان

    سنگاپور سٹی: وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان کے فیس بک صارفین نئے فیچر اسٹار کی بدولت مونی ٹائزیشن کے بعد اپنی تخلیقات کا معاوضہ حاصل کرسکیں گے۔

    وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے سنگاپور میں میٹا(فیس بک) ایشیا پیسیفک ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا اور میٹا کے نمائندگان سے ملاقات کی جس میں پاکستان کے صارفین کے حوالے سے ایک خوش خبری بھی سننے کو ملی۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے ٹوئٹر پر اپنے ویڈیو پیغام میں بتایا کہ پاکستان کو ایک اور اعزاز حاصل ہوگیا۔ اب میٹا کمپنی کی ایپ فیس بک سے پاکستانی شناختی کارڈ کے حامل صارفین بھی اپنی تخلیقات (Content) کو ذريعہ آمدن بنا سکیں گے۔

    بلاول بھٹو زرداری نے مزید بتایا کہ انسٹاگرام اور فیس بک کی مالک کمپنی میٹا جلد پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گی جب کہ پاکستان میں مونی ٹائزیشن کے لیے “اسٹارز پروگرام” کا آغاز بھی کر دیا گیا۔ وزیر خارجہ نے بتایا کہ “اسٹارز پروگرام” کے تحت جو بھی پاکستانی صارفین فیس بک پر اپنی تخلیقات ویڈیو کی صورت میں شیئر کریں گے اور دیکھنے والے انھیں جتنے اسٹارز دیں گے اس حساب سے ویڈیو اپ لوڈ کرنے والے کو پیسے ملیں گے۔

    بلاول بھٹو نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ پاکستانی نوجوان اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو مثبت کاموں کے لیے استعمال کریں گے اور اپنی آمدنی میں اضافہ کرسکیں گے۔ وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ اس سہولت سے سب سے زیادہ فائدہ خواتین اُٹھاسکتی ہیں جو گھر بیٹھے اپنی آمدنی میں اضافہ کرسکتی ہیں۔

  • گزرے زمانے سے الیکٹرانک ریلیشن شپ تک – عرباض احمد شاہ

    گزرے زمانے سے الیکٹرانک ریلیشن شپ تک – عرباض احمد شاہ

    عرباض احمد نہ جانے کس شاعر کا قول ہے؛
    یہ وفا تو اُن دنوں کی بات ہے فراز
    جب مکان کچے اور لوگ سچے ہوا کرتے تھے
    میں اتنا پرانا تو نہیں پر مزے کی بات یہ ہے کہ میرا جنم بھی ایک کچے سے مکان میں ہوا تھا. اس دور میں جب ہمارے گاؤں میں لائٹ کا چمتکار ابھی نہیں ہوا تھا، البتہ آس پاس کے گاؤں میں لائٹ پہنچ چکی تھی. اس دور میں ہسپتالوں کا بھی اتنا کوئی خاص رواج نہیں تھا، اس لیے میں شرافت سےگھر پر ہی پیدا ہوگیا، بنا کسی ہسپتال خرچ کے. آج کل تو بچے ہسپتالوں کے بنا پیدا ہی نہیں ہوتے، جب تک ڈاکٹروں کو لاکھ ڈیڑھ لاکھ نہ پکڑاؤ تو بچے نے پیدا ہونے سے ہی انکار کر دینا ہے. آج ہم اسی لیےتو بڑے بڑے کرپٹ حکمرانوں کو برداشت کر لیتے ہیں کیونکہ ہمیں پیدا ہوتے ہی کرپشن کا پہلا ٹیکہ ڈاکٹر لگا دیتا ہے.
    تو بات ہو رہی تھی پرانے لوگوں کی اور کچے مکانوں کی، پرانے دور کی. شاعر نے بالکل درست فرمایا، ایسا ہی ہوا کرتا تھا پہلے مکان کچے اور لوگ من کے سچے ہوا کرتے تھے، لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت ہوتا تھا، ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھتے تھے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل ہوتے تھے، ایک دوسرے کا احساس کا ہوتا تھا، لوگ وفادار، ایماندار اور امانت دار ہوا کرتے تھے. لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے، کھیتی باڑی اور مزدوری کے علاوہ کوئی خاص ذریعہ معاش نہیں تھا، مگر جو چیز پائی جاتی تھی وہ خلوص تھا. لوگ مہمان نواز ہوا کرتے تھے، وہ مہمان کو دیسی گھی, مکئی کی روٹی اور ساگ بھی پیش کر تے تو اس میں خلوص اور محبت کا بھرپور تڑکا شامل ہوتا، جو کھانے کو اور ذائقے کو چار چاند لگا دیتا.
    اُس دور میں محبتیں بھی سچی ہوا کرتی تھی، عاشق لوگ تو کئی کئی دن گلی کی نکڑ پر اسی آس میں گزار لیتے کہ آج وہ یہاں سے گزرے گی اور دیدار یار ہوگا. آج کل کی طرح نہیں، کمنٹ کے اندر لڑکی سے بات کی، ایک دو ٹویٹ کا ریپلائی ہوا، انباکس میں گئے، لڑکی نے مسکرا کر دو باتیں کیں، اور محبت ہوگئی. اس دور میں آج کی کی طرح بے حیائی اور بے شرمی نہیں پائی جاتی تھی کہ ہر آتی جاتی کے اوپر نمبر پھینک دیا، ہر آتی جاتی کو چھیڑ دیا. اس دور میں محبت کے رشتے پاک اور محبوب بھی ایک ہی ہوتا تھا. آج کل تو ہر لڑکے اور لڑکی کے ایک دو درجن افیئر ہوں گے، اس کے بعد جا کر کہیں شادی ہو بھی گئی تو اتنی کامیاب نہیں ہوتی. آج کے لڑکے تو پیدا ہوتے ہی پہلی آنکھ نرس کی انگلی پکڑ کر مار لیتے ہیں. پھر شادی تک افئیر کی سینچری مار کر حاجی ثناءاللہ بن جاتے ہیں.
    پہلے کے دور میں سیدھا منہ پر جا کر اظہار محبت نہیں کیا جاتا تھا، محبت کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہوا کرتے تھے، لوگ شرمیلے ہوا کرتے تھے. اتنی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی کہ ایک لڑکی کا سامنا کیا جائے. اپنے محبوب سے اظہار محبت کے لیے خطوط کا استعمال کیا جاتا تھا. اگر محبوب ان پڑھ ہے تو وہ کسی پڑھے لکھے دوست سے خط لکھواتا. خط بھی یوں ہی ایک دم سے نہیں لکھ دیا جاتا، بار بار لکھا اور مٹایا جاتا، بہترین اور تہذیب یافتہ الفاظ کا چناؤ کیا جاتا، ایک دو دن کی کڑی محنت کے بعد اس خط کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا جو کہ بظاہر آسان مگر کھٹن کام ہوتا. اسی طرح اگر محبوبہ پڑھی لکھی نہ ہوتی تو وہ اپنی کسی سہیلی کا استعمال کرتی. خطوط کی نقل و حرکت اور محبوب تک رسائی کے لیے چھوٹے بچوں کو بطور ڈاکیہ کے استعمال کیا جاتا اور بطور نذرانہ چند فانٹا ٹافیاں عنایت کی جاتی. چھوٹو ڈاکیہ بھی اپنا کام انتہائی چالاکی اور ایمانداری سے سرانجام دیتا اور اس تمام کارروائی کو وہ ہمیشہ صیغہ راز میں رکھتا. پھر اس تمام کاروائی کے بعد محبوب اپنی محبوبہ کے جوابی خط کا انتظار کرتا. اس خط کا جواب کسی ایس ایم ایس کی طرح فوراً سے نہیں آجاتا تھا، اس کے جواب میں بھی ہفتہ دو ہفتہ لگتے تھے. یوں خط و کتابت کے ذریعہ دل کا حال بیان کیا جاتا اس میں شعر و شاعری کا عنصر بھی ہوتا اور ایک دوسرے سے ملنے کی جگہ اور وقت کا تعین بھی اسی خط کے ذریعہ ہوتا. الغرض اتنی محنت کے بعد حاصل ہونے والی محبت خالص اور سچی ہوا کرتی تھی. اگر محبوب دور دراز کہیں ذریعہ معاش کی خاطر چلا جاتا تو محبوبہ سے وہاں سے خط و کتابت ہوتی، ایک دوسرے کا بے تابی سے انتظار کیا جاتا، سالوں سال محبوبہ اپنے محبوب کے انتظار میں گزار لیتی. آج کل تو یہ مشہور ہے کہ گھوڑا اور لڑکی کو باندھ کر رکھو، نہیں تو کوئی اور لے جائے گا. میرا ایک دوست جوش میں آ کر تبلیغ پر چلا گیا، 10 دن بعد واپس آیا تو لڑکی کہیں اور ٹانکا فٹ کر چکی تھی. 10 دن بھی انتظار نہ ہوا اور پھر دوست نے بھی اگلے دن نئی جگہ دل لگا لیا. یوں پہلے کے زمانے میں لوگ سادہ لوح اور من کے سچے ہوا کرتے تھے اور ان کا عشق بھی سچا ہوا کرتا تھا. اسی لیے آج کل ہیر رانجھا، لیلی مجنوں، شیریں فرہاد جیسے لوگوں نے پیدا ہونا ہی بند کر دیا ہے..
    یوں وقت تیزی سے بدلتا گیا اور لوگ وقت سے بھی تیز نکلے. پی ٹی سی ایل کا دور آیا، انٹرنیٹ آیا، فاصلے کم ہوتے گئے اور ساتھ ساتھ انسانوں کی آپس کی محبت بھی کم ہوتی گئی. مزید وقت گزرا، سمارٹ فون اور سوشل میڈیا نے لوگوں کو مزید قریب کر لیا، اس طرح انسان ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے، پر افسوس کہ بظاہر ہی قریب ہیں صرف، دور سے قریب نظر آتے ہیں.
    پہلے کے دور میں جھوٹ بولنے کے ذرائع بھی نہیں تھے اس لیے لوگ سچے ہوا کرتے تھے. آپ کسی سے ملنے جاتے، وہ گھر پر ہی ملتا اور آج کل کسی سے ملنے جاؤ اور کال کرو آپ کی طرف آ رہا ہوں، آگے سے جواب ملے گا بھائی میں تو گھر پر نہیں جبکہ ہوگا گھر پر ہی. یوں موبائل فون نے جھوٹ بولنا مزید آسان کر دیا. میرے ایک دوست نے فیس بک پر چیک ان کیا اور لکھا eating pizza at pizza hut ، اگلے ہی لمحے دیکھا وہ ڈھابہ ہوٹل پر میرے سامنے بیٹھا چنے کی دال سوت رہا تھا.
    پہلے لڑکیوں میں کسی سے بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی، گھر سے اکیلے باہر نکلنے کو عیب سمجھا جاتا تھا ، سکول کالج بھی جاتی تو آتے جاتے کسی سے بات کرنے کی مجال نہیں ہوتی تھی، غرض شرم و حیا کا پیکر ہوا کرتی تھی لڑکیاں، آج کل کی لڑکیاں تو میرے جیسے کو بیچ کر کھا جائیں اور کانوں کان خبر تک نہ ہو. حالات اتنے گھمبیر ہیں کہ آج ہر لڑکی کی دوسری لڑکی سے ریس لگی ہوتی ہے کہ کس کے دوست زیادہ ہیں. پہلے کسی سے بات کرنے کے لیے ہفتوں انتظار کرنا پڑتا تھا اور آج کل ایک میسج کرو، ان باکس میں چلے جاؤ، اگلے ہی لمحے ویڈیو کال، اور پھر محبت کا اظہار کر لو . مسئلہ ہی کوئی نہیں…
    پہلے ایک ہی محبوب ہوتا تھا. آج کل فیس بک فرینڈ الگ، یونی فرینڈ الگ، فیملی فرینڈ الگ اور پانچھ چھ عدد بوائے/گرل فرینڈز الگ..
    پہلے بریک اپ ہوتے تو لوگ سالوں تک غم مناتے تھے. آج کل پہلے دن دوستی ہوئی، دوسرے دن محبت، تیسرے دن لڑائی، چھوتے دن بلاک اور پانچویں دن تھوڑے سے آنسو چھٹے دن کوئی دوسرا سہارا دیتا ہے، ساتویں دن چھٹی ہوتی ہے اور سوموار کے دن نئے جذبے کے ساتھ نئی محبت شروع ہو جاتی ہے…
    پہلے کی محبت بھی دیسی گھی کی طرح خالص اور اس میں خالص شہید کی جیسے مٹھاس ہوتی تھے. آج کل کی محبت میں آج کل کے گھی اور شہد کی طرح ملاوٹ پائی جاتی یے.
    میرے چچا جی کہا کرتے تھے کہ چھوڑو یار تم ڈالڈے کے فارمی جوان تو کسی کام کے نہیں، مجھے تو ڈالڈا بھی برابر کا قصور وار لگتا ہے.
    پہلے لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت ہوا کرتا تھا، اور آج کل لوگ گھر والوں سے بات نہیں کریں گے، پاس بیٹھے دوستوں سے بات نہیں کریں گے مگر میلوں دور بیٹھے کچے دھاگے اور ایک بلاک کی دوری پر بنے ہوئے ریلیشن نبھائیں گے.. ایک بار کزن نے ہم پانچ دوستوں کی تصویر لی اور فیس بک پر ڈال دی. ہم پانچ کے پانچ کافی دیر سے حضرت مولانا موبائل صاحب کے احترام میں گردن جھکائے مگن تھے. مجال ہے کہ ایک دوسرے سے بات کرنے کی زحمت کی ہو.
    تو بات ہو رہی تھی وفا کی… وفا نام کو تو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے اتنا بدنام کر دیا کہ پوچھو مت. جہاں سوشل میڈیا نے لوگوں کو قریب کیا وہیں دور بھی کیا. آج کل معاشرے میں لڑکیوں کا گھر سے بھاگ جانا اور طلاق کی شرح میں اضافہ ہو جانا اسی سوشل میڈیا کا دیا ہوا تحفہ ہے، وفا نام کی چیز کو تو لوگوں نے ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا.