Tag: عبداللہ طارق سہیل

  • اپنے پڑوس میں  – عبداللہ طارق سہیل

    اپنے پڑوس میں – عبداللہ طارق سہیل

    چند دن پہلے عالمی نشریاتی اداروں نے یہ رپورٹ شائع کی کہ برطانیہ میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے اور اب اس ملک میں مسلمانوں کی تعداد بڑھ کر 29 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ مسلمان آبادی کا تناسب جو 2011ءمیں 4.5 فیصد تھا۔ اب بڑھ کر 6.5 فصد ہو گیا ہے۔

    برطانیہ میں اسلام پھیل رہا ہے یا مسلمان بڑھ رہے ہیں؟ جواب ہے کہ مسلمان بڑھ رہے ہیں۔ قبول اسلام بھی بڑھ رہا ہے لیکن اتنی زیادہ رفتار سے نہیں۔ زیادہ تر مسلمان تارک وطن میں جو افریقہ اور برصغیر سے آئے ہیں ہر سال قبول اسلام کرنے والوں کی تعداد 5 ہزار کے لگ بھگ ہے جو ظاہر ہے کہ بہت تھوڑی ہے۔ برطانیہ کی آبادی پونے سات کروڑ ہے اور ٹھیک اتنی ہی آبادی فرانس کی ہے لیکن وہاں 65 لاکھ مسلمان ہیں اور مسلمانوں کا تناسب تقریباً نو فیصد ہے.

    لیکن یہ سبھی کے سبھی تقریباً غیر ملکی بالخصوص شمالی افریقہ سے آنے والے مسلمان ہیں نو مسلموںکی کل آبادی محض 2 لاکھ ہے جو ظاہر ہے کہ بہت کم ہے یعنی دونوں ممالک میں اسلام نہیں، مسلمان پھیل رہے ہیں فرانس میں قبول اسلام کی شرح زیادہ ہے جہاں مشہور عالمی مبلغ اسلام، عالم دین اور بہت بڑے سکالر ڈاکٹر حمید اللہ عشروں تک مقیم رہے اور اسلام کی تبلیغ کی ان کی کتاب خطبات بہاولپور، دنیا بھر میں ترجمہ ہو چکی ہے اور دین و فلسفہ سے دلچسپی رکھنے والوں میں بہت مقبول ہے۔

    برطانیہ میں اتنے لوگ اسلام قبول نہیں کرتے جتنے دور بھاگتے ہیں اور وجہ اس کی یہ ہے کہ یہاں سب سے زیادہ مسلمان پاکستانی اوریجن کے ہیں ان کی سیاست، ان کے فرقہ پرستی، مساجد پر قبضے، فرقہ وارانہ مناظرے، جھاڑ پھونک کے کاروبار اسلام کی کوئی خدمت نہیں کرتے۔ فرانس میں یہ معاملہ نہیں ہے کیونکہ وہاں زیادہ تر مسلمان الجزائر اور دوسرے عرب ممالک کے ہیں۔ یہی ماجرہ جرمنی کا ہے اس ملک کی آبادی ساڑھے آٹھ کروڑ ہے اور یہاں بھی 65 لاکھ مسلمان آباد ہیں جس کی بھاری اکثریت ترک ہے۔ ترک مسلمان بھی فرقہ وارانہ جھگڑوں اور جھاڑ پھونک اور کرشمات کے تماشے نہیں لگاتے۔

    پاکستان سے ایک وفد مبلغین اخلاق کا برطانیہ بھجوانے کی ضرورت ہے سیاسی میدان میں کچھ عرصہ سے پاکستانی نژا دشہری لندن میں خاص طور سے جس طرح کے ”اخلاق عالیہ“ کا مظاہرہ کرتے ہیں ان کی ویڈیوز لوگ ہر روز دیکھتے ہیں۔ اسلام ہی نہیں، ہماری کمیونٹی کے یہ لوگ پاکستان کے بارے میں بھی بدنامی کا تاثر بنا رہے ہیں۔ بھارت سے دو وڈیوز دو روز میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ ایک وڈیو مہاراشٹر صوبے کے شہر پیلہار میں ایک 24 سالہ مسلمان کو لنچ LYNCH کرنے کی ہے۔ یہ ایک مسلمان راہگیر شیر محمد خان تھا۔ وہ کہیں جا رہا تھا کہ اچانک ہندو انتہا پسندوں کا ہجوم لپکا اور چور چور کے نعرے لگاتے ہوئے اسے لاٹھیوں اور پتھروں سے مارنا شروع کر دیا۔

    ویڈیو بہت تکلیف دہ تھی‘ لیکن اس مسلمان کی قسمت کہ ہجوم اسے مردہ سمجھ کر فرار ہو گیا جبکہ وہ زندہ تھا۔ ہسپتال میں علاج کے بعد اس کی جان بچ گئی ہے۔ کچھ ملزم اس واقعہ کے پکڑے گئے ہیں۔ دوسری ویڈیو والا مظلوم اتنا خوش قسمت نہیں تھا بلکہ بہت ہی بدقسمت تھا۔ یہ واقعہ یوپی کے شہر کانپور کا ہے جہاں ریلوے لائن کے پاس ایک مسلمان سبزی فروش اپنی ریڑھی لیکر جا رہا تھا کہ ایک انتہاپسند ہندو پولیس والے نے اس کا سامان ریل کی پٹڑی پر پھینک دیا۔ بھارت کے غریب مسلمانوںکی غربت کا پیمانہ بہت لرزہ خیز ہے۔ سبزی والے نے اپنی متاع بچانے کیلئے پٹڑی پر چھلانگ لگا دی۔ اسی وقت ٹرین آگئی اور اس کی دونوں ٹانگیں کٹ گئیں۔ نہایت ناقابل بیان قسم کا دردناک منظر تھا۔

    سابق بھارتی صدر من موہن سنگھ نے اس بری طرح تڑپتے مسلمان کی ویڈیو ٹوئٹر پر ڈالی اور اپنا تبصرہ اس سوال کی شکل میں کیا کہ کیا مسلمانوں کو کاٹ ڈالنا ہندو اکثریت اور پولیس کا ”دھرم“ بن گیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب بھارت کے ہندو انتہاپسندوں کو پاکستان سے کچھ نہ کچھ خوف رہتا تھا‘ لیکن اب نہیں ہے۔ پاکستان کا نام سن کر مسکرانے لگتے ہیں اور اب تو ملک پر راج ہی انہی کا ہے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی مسلمان لنچ ہوتا ہے اور بھارتی عدالتیں ملزم‘ اگر پکڑے جائیں اس کو بری کر دیتی ہیں۔ بھارتی مسلمان پاکستان کے پڑوس میں لاوارث اور فلسطین کے مسلمان عرب ممالک کے پڑوس میں بے یارومددگار ہیں۔

    بی جے پی کے دور میں اور بھی کئی انوکھے کام ہوئے ہیں۔ اتر پردیش کے ضلع کھٹولی میں چند روز پہلے ضمنی انتخابات ہوئے تو مسلمان ووٹروں کو ووٹ ڈالنے سے روک دیا گیا۔ سماج وادی پارٹی نے فوری طورپرالیکشن کمشن سے رابطہ کیا کہ مسلمان ووٹروں سے ان کے شناختی کارڈ لیکر واپس بھیجا جا رہا ہے اور انہیں ووٹ ڈالنے نہیں دیا جا رہا۔ پارٹی نے اس کی ویڈیوز بھی الیکشن کمشن کو بھیجیں‘ لیکن الیکشن کمشنر نے کوئی ایکشن لیا نہ اس شکایت پر کوئی جواب دیا۔ یوپی بہار وغیرہ کے علاقوں میں چھوٹی ذات والی جماعتیں جیسے کہ یہ سماج وادی پارٹی ہے‘ اکثر الیکشن جیت لیتی ہیں اور بی جے پی سمجھتی ہے کہ یہ جیت مسلمان ووٹروں کی وجہ سے ہوئی ہے۔

    یوپی سے ہی خبر آئی ہے کہ سنگ پریوار کی بدنام زمانہ مسلم دشمن جماعت وشوا ہندو پریشد نے بنارس میں اپنے کارکنوں کو بڑی تعداد میں نو انچ کے چاقو‘ چھریاں اور تلواریں تقسیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بنارسی ہندوﺅں کا بہت مقدس مذہبی شہر ہے‘ لیکن اس میں مسلمانوں کی خاصی بڑی اقلیت بھی آباد ہے۔

    20‘ 22 لاکھ آبادی والے اس شہر میں لگ بھگ 30 ہزار آبادی مسلمانوں کی ہے اور مسلمانوں کے کئی علمی اور دینی مراکز یہاں ہیں۔ کئی رسالے بھی نکلتے ہیں۔ یہ چھریاں‘ چاقو علی الاعلان تقسیم کئے جا رہے ہیں اور مقصد بھی واضح ہے بنارس کا نیا نام اب وارتاسی ہے۔ اسے بھارت کا روحانی دارالحکومت بھی کہا جاتا ہے۔

  • شہبازشریف کی واردات – عبداللہ طارق سہیل

    شہبازشریف کی واردات – عبداللہ طارق سہیل

    کسی پر قاتلانہ حملہ ہو تو اس کیلئے ہمدردی بڑھ جاتی ہے۔ زیاہ تر یہی ہوتا ہے‘ لیکن کبھی کبھی اس کے الٹ بھی ہو جاتا ہے۔ اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ایسا ماجرا ماضی میں بھی ہو چکا ہے۔ کینیڈا والے مشہور مولوی صاحب پر ان کے باتھ روم میں قاتلانہ حملہ ہوا۔

    خون دیواروں پر جا لگا‘ لیکن اس واقعے کے بعد جیسا کہ ان کی توقع تھی‘ مقبولیت بڑھ جانی چاہئے تھی‘ لیکن نہیں بڑھی۔ بلکہ کم ہوئی۔ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لیبارٹری میں خون کا تجزیہ کیا گیا تو وہ بکرے کا نکلا۔ ان دنوں اخبار میں خبر لگوانے کیلئے ان کے کارکن صحافیوں سے ذاتی ربط رکھتے تھے۔ ایک ایسے ہی رابطہ کار میرے پاس بھی آئے تو میں نے پوچھا‘ یہ بکرے کے خون والا کیا معاملہ ہے۔ فرمایا‘ حضرت صاحب کے حاسد بہت ہیں‘ کالا علم کروا دیا ہوگا۔ موکل راستے ہی میں جھپٹ پڑے اور حضرت جی کے خون کو لے اڑے‘ اس کی جگہ بکرے کا خون تھما گئے۔

    یہ موکل یا بیر بھوت بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔ جس کی طرف بھیجے جائیں‘ اسے تباہ کر دیتے ہیں۔ بھیجنے والے یا کام لینے والے بڑے فائدے اٹھاتے ہیں‘ لیکن کچھ عرصہ سے موکلات کا نام کچھ بدنام سا ہو گیا ہے۔ خاص طور سے ایک سال تو کچھ ایسا گزرا کہ کچھ بھی نہیں کر پائے۔ نہ یہ سیڑھی چوکی بچا پائے نہ کوئی اور بگڑی بنا پائے۔ مناسب ہے کہ اشتہار دیا جائے کہ ایک سیاسی کارپوریشن کو نئے موکلات کی ضرورت ہے۔ پرانے ازکار رفتہ ہو گئے۔ جلد از جلد رجوع فرمائیں۔ کارپوریشن کے چیئرمین سخت پریشان ہی ہیں۔ چھیتی بوھڑیں وے موکلا۔ کل کارپوریشن کا جو اجلاس ہوا‘ صاحب بڑے ناراض تھے کہ لوگ پھر نہیں نکلے۔ ظاہر ہے موکلات عضو معطل بن گئے۔

    قاتلانہ حملے کا کام کچھ اپنوں نے بھی نکالا۔ ایک نے بیان جاری فرمایا دو گولیاں لگیں‘ دوسرے نے چار کی اطلاع دی۔ من پسند قابل اعتماد ڈاکٹر نے بتایا کہ گولی تو لگی ہی نہیں‘ ذرے یا ٹکڑے لگے اور ہڈی صاف ہو گئی۔ شکر الحمدللہ۔ پھر انہی قابل اعتما ڈاکٹر نے دونوں ٹانگوں پر گھٹنے تک پلستر چڑھا ڈالا اور صاحب نے پلستر والی ٹانگوں سمیت وہیل چیئر پر بیٹھ کر پریس کانفرنس کی اور ( میر جعفر) سے درد بھری اپیل کی کہ جناب جاگو‘ ملک ڈوب رہا ہے۔ پریس کانفرنس سے کچھ دیر پہلے تک کارپوریشن کے ورکر جا بجا مظاہرے کر رہے تھے اور ’’میر جعفر‘‘ کو گالیاں دے رہے تھے۔ طرح طرح کی بددعائیں دے رہے تھے۔
    بہرحال صاحب کو پھر بھی توقع ہے کہ میر جعفر جاگ جائیں گے۔ نہ جاگے تو اگلی کال تو ہے ہی۔

    گورنر ہائوس کا محاصرہ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ کم سے کم چار پانچ ہزار آدمی ہوں تو صورت پیدا ہو سکتی ہے‘ لیکن کارپوریشن نے کرامت کر دکھائی۔ صرف ساٹھ ستر لوگ آئے‘ بیریئر توڑے‘ کچھ اضافی توڑ پھوڑ بھی کی۔ گیٹ پر چڑھے‘ پھر اترے‘ پھر آگ لگا دی اور چلتے بنے۔ یہ حکومت ساری کی ساری کارپوریشن کی نہیں تھی۔ پنجاب حکومت کی بھی تھی۔ جو خیر سے اپنی ہے۔کراچی میں دو تین سو لوگ نکلے۔ یعنی لاہور سے تین گنا زیادہ‘ لیکن کرامت نہ دکھا سکے۔ سامنے پولیس کھڑی تھی۔ لاہور میں سو کے قریب موٹرسائیکل سواروںکا قافلہ آزادی کی تلاش میں عازم کینٹ ہوا۔ پرجوش نعرے کچھ یوں تھے ‘ ہم لے کے رہیں گے آزادی‘ تیرا باپ بھی دے گا آزادی۔ میر جعفر مردہ باد۔

    ابھی منزل سے کچھ پیچھے ہی تھے کہ راستے میں دیکھا سامنے جوان کھڑے تھے۔ قافلے والوں نے یو ٹرن لیا اور جہاں سے چلے تھے وہیں لوٹ آئے۔ لے کے رہیں گے آزادی والے نعرے البتہ بدستور گونجتے رہے۔احتجاج کی خبر کی مرکزی سرخی کے نیچے ذیلی سرخی کے الفاظ یوں ہیں۔ ’’اسلام آباد میں پولیس پر پتھرائو‘ ڈنڈوں‘ غلیلوںکا استعمال‘ درختوں‘ موٹرسائیکلوں کو آگ لگا دی‘ راہگیروں کو لوٹا۔‘‘درختوں کو آگ لگانا کارپوریشن کی ’’روحونیات‘‘ عملیات کا حصہ ہے۔ شاید‘ موٹرسائیکلوں کو آگ لگانا ’’آزادی اظہار‘‘ کی سرگرمی ہے اور راہ گیروں کو لوٹنا ڈوبتی ’ماشیت‘‘ (معیشت) کوسہارا دینے کیلئے اٹھایا جانے والا قدم ہے‘ غالباًوہ لانگ مارچ جس نے اسلام آباد داخل ہوکر سب کو بہا لے جانا تھا‘ قیلولہ کرنے لاہور واپس آگیا ہے۔ قیلولہ کی معیاد کتنی ہے یہ معلوم نہیں‘ لیکن پتہ ضرور چلاہے کہ قیلولہ اپنی میعاد ہر حال میں پوری کرے گا۔

    پچھلی بار یعنی 25 مئی کو قیلولے کی میعاد چھ یوم کی تھی۔ 26 مئی کو یہ میعاد شروع ہوئی اور 25 اکتوبر کو پوری ہوئی تھی۔ اس بار اضافی صدمہ یہ بھی ہے کہ پنجاب میں ہماری حکومت ہے‘ پھر بھی تھانیدار ہماری ایف آئی آر نہیں کاٹ رہا۔ چاہتے نہ چاہتے یہ لانگ مارچ بھی چین والے معاملے سے جڑ گیا ہے۔ 2014ء کا چودہ ہزاری لانگ مارچ ہوا تو چینی صدر کا دورہ رک گیا اور سی پیک کا پیک اپ ہو گیا۔ معاملہ اب بھی چین سے جا جڑا‘ لیکن شکل اس بار معکوس ہے۔
    اس بار یہ ہو رہا ہے کہ سی پیک کی بحالی کے فیصلے ہوئے ہیں‘ اس میں کچھ اضافے بھی ہوئے ہیں جن پر وزیراعظم شہبازشریف کے دورہ چین کے دوران فیصلے کئے گئے۔ نئی بات یہ بھی مستزاد ہوئی کہ چین نے نہ صرف پاکستان کے ذمے 7 ارب ڈالر کا قرضہ مؤخر کرنے کی درخواست منظور کر لی ہے بلکہ پاکستان کو مزید ڈیڑھ ارب ڈالر کا قرضہ دینے پر بھی تیار ہو گیا ہے۔

    اور ساتھ ہی یہ خبر بھی آئی کہ سعودی عرب بھی کوئی پیکیج دینے والا ہے۔ لانگ مارچ جو قیلولہ میں چلا گیا ہے تو شاید اس کی وجہ یہ خبریں بھی ہوں۔ یعنی اس بار یہ یہاں لانگ مارچ کر تے رہے‘ ادھر شہبازشریف چین جا کر کام دکھا گئے۔

  • پرانی منڈیوں کے نئے سودے – عبداللہ طارق سہیل

    پرانی منڈیوں کے نئے سودے – عبداللہ طارق سہیل

    بڑی خبر لانگ مارچ نہیں‘ یہ ہے کہ کراچی میں ہجوم نے ایک انجینئر اور اس کے ڈرائیور کو مکے‘ٹھڈے‘ گھونسے اور لاتیں مار مار کر مار ڈالا۔ یہ شوقیہ قتل کی واردات تھی۔ بظاہر رپورٹ یہ ہوئی ہے کہ ہجوم کو مقتولین پر بچے اغوا کرنے کا شک تھا‘ لیکن شک نہیں‘ یہ شوق کی واردات تھی اور یہ شوق رکھنے والے پاکستان کے ہر شہر میں ہیں۔

    جہاں کسی کو موقع ملتا ہے‘ وہ شوق پورا کر لیتا ہے اور چونکہ ہمارا ریکارڈ ہے کہ اس شوقیہ قتل پر سزا نہیں ملتی۔ لوگ کچھ دنوں کیلئے گرفتار ضرور ہوتے ہیں‘ پھر چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔ بہتوں سال پہلے سیالکوٹ کے دو نوجوان بھائیوں کو شوقین افراد نے لاٹھیاں مار مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ آدھے گھنٹے میں ان کی جان نکلی۔ اس واقعہ کی ویڈیو نے دنیا بھر کو ہلا دیا۔ ملزم پکڑے گئے‘ پھر کچھ ہی عرصے بعد باعزت رہا کر دیئے گئے۔ سیالکوٹ ہی میں ایک سری لنکن کو اسی طرح مارا گیا۔ کتنے ہی واقعات ہوئے ہیں اور شوقین حضرات نے ہر الزام پر طبع آزمائی کرتے ہوئے یہ شوق پورے کئے ہیں۔مقتول ایک ٹیلی کام کمپنی کے ملازم تھے اور کیماڑی کی مچھر کالونی میں موبائل سگنل چیک کرنے آئے تھے۔ کل رات ٹی وی سکرینوں پر چند لمحوں کیلئے اس کے ٹکر چلے اور آج کے اخبارات میں بہت تلاش کرنے کے بعد یہ خبر نظر آئی۔

    صفحہ آخر کے نچلے اخیری حصے میں۔ ماضی قریب میں اخبار کے اندر ایک شعبہ ہوتا تھا جو اس بات پر نظر رکھتا تھا کہ کوئی اہم خبر مس تو نہیں ہوئی۔یعنی شائع ہونے سے رہ تو نہیں گئی اور ایسی خبروں کی مسنگ ناقابل قبول سمجھی جاتی تھی اور متعلقہ ایڈیٹر کو جواب طلبی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اب یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ شعبہ اب بھی موجود ہے‘ تب بھی ایسی خبر کے مس ہونے کواس نے قابل اعتنا نہیں سمجھا تھا۔ بہرحال کسی اخبار نے بھی یہ خبر مس نہیں کی‘ لگائی ضرور چاہے اڑھائی سطروں میں نمٹا دی۔برطانیہ یا کسی اور یورپی ملک کے اخبار میں یہ خبر لیڈ ہوتی‘ ہمارے ہاں دو کالم تک لگی تو بھی غنیمت ہے۔ یہاں جو سودا بکتا ہے‘ وہی بیجا جاتا ہے۔ یہاں لانگ مارچ بکتا ہے‘ عمران خان اور شیخ رشید کے بیان بکتے ہیں‘ کوئی ماڈل نیم عریاں لباس پہن کر پارلیمنٹ کی بلڈنگ میں گھس جائے اور دروازے کو ٹھوکر مارکرکھولے تو یہ خبر بکتی ہے.

    اس کی تصویر بکتی ہے‘ ویڈیو بکتی ہے اور وائرل بھی ہوتی ہے۔بے گناہوں کا قتل یہاں نہیں بکتا۔ چند روز قبل اوکاڑہ کی دو سالہ بچی علیزہ جھلس گئی۔ اوکاڑہ اور لاہور کے چار ہسپتالوں میں لائی گئی‘ کسی نے علاج نہیں کیا۔ وزیراعلیٰ سے اپیل کی گئی جوکہ نہیں کرنی چاہئے تھی۔ بالآخر یہ دو سالہ بچی مر گئی۔ صرف ایک انگریزی اخبار نے اس کی خبر چھاپی اور علاج کے تباہ ہو چکے نظام پر روشنی ڈالی۔ علاج سے لیکر عدل تک‘ ہر نظام دم توڑ چکا ہے‘ لیکن اوبیچریز (وفات) کے کسی گوشے میںبھی یہ خبر ابھی تک نہیں چھپی ہے۔ (یہ واقعہ 19 اکتوبر کو رپورٹ ہوا تھا) بہرحال‘ لانگ مارچ بھی اس بار خلاف روایت زیادہ فروخت ہونے والا سودا نہیں رہا۔ خیال تھا کہ 2014ءوالی بہار رفتہ واپس آئے گی اور جھلک دکھائے گی‘ لیکن ایسا نہیں ہوا اور اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات ہے کہ یہ سودا اس بار سوشل میڈیا کی منڈی میں بھی بہت زیادہ نہیں بکا۔

    کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ عسکری قیادت کی پریس کانفرنس سے بہت سے لوگوں نے اثر قبول کیا۔ لاہور میں خان صاحب کے ہر جلسے میں پندرہ سے بیس ہزار آدمی آجاتے تھے‘ چنانچہ توقع تھی کہ لانگ مارچ میں 20 ہزار لوگ ضرور آئیں گے‘ لیکن اس میں تو گنتی آ دھی بھی نہیں تھی۔ ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں اسد عمر پارٹی کے ایک مقامی رہنما پر برس رہے ہیں کہ لوگ اتنے کم کیوں آئے۔حد تو یہ ہے کہ اعظم سواتی کا وہ سودا بھی نہیں بکا جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ میرے جسم پر زخم لگائے گئے‘ پھر رہائی سے قبل ڈاکٹروں نے وہ زخم مٹا ڈالے‘ ان کے نشانات بھی صاف کر دیئے۔حالانکہ یہ سودا اور نہیں تو سائنس فکشن ہی کے طورپر بک سکتا تھا‘ لیکن لگتاہے‘ خریداروں کا ذوق خریداری بدلتا جا رہا ہے۔
    عمران خان کی تقریروں کا سودا البتہ بھارتی میڈیا پر بہت بک رہا ہے اور خریدار بغلیں بجا بجا کر یہ سودا خرید رہے ہیں۔ ایک ٹی وی اینکر نے تو یہ کہہ دیا کہ جو مقصد ہم اربوں ڈالر خرچ کرکے حاصل نہیں کر سکے‘ عمران خان نے مفت میں ہمیں حاصل کرکے دیدیا۔

    مفت آپ کیلئے ہوگا صاحب‘ ہمارے خان کو تو کروڑوں نہیں‘ اربوں خرچ کرنا پڑے۔ فی جلسہ ڈیڑھ کروڑ‘ کل 60 جلسے‘ لانگ مارچ کا ایک دن پانچ پانچ کروڑ اور ابھی یہ پانچ دن چلنا ہے۔ خان صاحب نے بہت بڑی قربانی دی ہے۔ جانی نہ سہی‘ مالی ہی سہی۔بہرحال بھارتی میڈیا ایک مہینہ اور بغلیں بجا لے۔ پھر جو کچھ ہوگا‘ وہ بغلیں جھانکتا ہی رہ جائے گا۔ مقصد حاصل کرنا بھارتی میڈیا کی خوش فہمی ہے۔ اتنا آسان نہیں ہے مہاشے جی!وزیرداخلہ نے انتباہ کیا ہے کہ علی امین گنڈاپور‘ قاسم سوری اور آفریدی کی قیادت میں مسلح جتھے لانگ مارچ میں داخل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ یہ جتھے پُرتشدد وارداتیں کر سکتے ہیں۔

    باقی دوکے بارے میں تو ہم کچھ کہہ نہیں سکتے۔ البتہ علی امین گنڈاپور کی صفائی دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ اگر کوئی جتھہ لا رہے ہیں تو کسی اور مقصد کیلئے نہیں‘ بلیک لیبل اسلامی شہد کی مارکیٹنگ کیلئے لائے ہیں۔ ان کا یہ ”دورہ“ کاروباروی نوعیت ہی کا سمجھا جائے تو بہتر ہوگا۔پی ٹی آئی کے رہنما شاہ فرمان نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت عمران خان کو فوج سے لڑانا چاہتی ہے۔ اچھا.‘ گویا‘ مسٹر ایکس‘ ڈرٹی ہیری اور اوے فلاں کان کھول کر سن لو والی پٹیاں عمران خان کو حکومت نے ہی پڑھائی ہیں۔ بہت خوب۔

  • پہاڑوں سے جنات کی آمد –  عبداللہ طارق سہیل

    پہاڑوں سے جنات کی آمد – عبداللہ طارق سہیل

    ایک معاصر کی خبر ہے کہ خان صاحب اب لانگ مارچ کے اعلان سے بچنا چاہتے ہیں۔ بچنا چاہتے کا ترجمہ راہ فرار اختیار کرنا بھی کیا جاتا ہے لیکن خان صاحب تو ٹھہرے بہادر آدمی، اکیلے ہی جنگ حقیقی آزادی کی قیادت کر رہے ہیں.

    اس لئے راہ فرار کی پھبتی ان پر کسی ہی نہیں جا سکتی، بچنا چاہتے ہیں ہی ٹھیک ہے۔ رپورٹ میں ہے کہ حکومت سے درپردہ رابطوں میں وہ ”فیس سیونگ“ چاہتے ہیں۔ فیس سیونگ بیل کی دم کو کہا جاتا ہے جسے پکڑ کر گھر سے روٹھی لڑکی شام کو گھر آ گئی تھی، یہ کہتے کہتے کہ ارے بیل، مجھے زبردستی گھر نہ لے کر جاﺅ، میں نے گھر نہیں جانا.تو خبر کے مطابق خان صاحب حکومت سے بیل کی دم مانگ رہے ہیں لیکن حکومت کی کنجوسی دیکھئے، بیل کی دم پکڑا کر ہی نہیں دے رہی۔

    بیل کی دم کیا ہے؟۔ یہ کہ حکومت اعلان کر دے کہ اپریل مئی یا چلیئے جون میں ہی الیکشن کرا دے ، میں کال نہیں دوں گا۔ حکومت کہتی ہے نہیں میاں، اب کال دے ہی ڈالو، ہم بھی دیکھیں کس میں کتنا ہے دم! ادھر شیخ رشید نے اطلاع دی ہے کہ خان کے لانگ مارچ میں لوگ پہاڑوں سے آئیں گے۔ کون سے جن اُتریں گے بھئی؟۔ جن پہاڑوں لتھے، نہ منہ نہ متھے والے؟۔ چلئے، اس سوال کو چھوڑئیے، یہ بتائیے پہاڑ کون سے ہیں۔ مارگلہ والے پہاڑ تو نہیں ہو سکتے کہ وہاں کے حساب سے تو حکومت کا پورا بندوبست ہے۔ کیا کوہ قاف کی طرف اشارہ ہے؟۔ ایسا تو ہونا مشکل ہے۔ کوہ قاف بہت دور ہے۔ ایران کے پار، ترکی کی سرحد پر، جہاں آذربائیجان ، آرمینیا، جارجیا اور داغستان ہیں۔ یہی ممالک کوہ قاف کہلاتے ہیں۔

    ارے اب سمجھے۔ مراد وہ پہاڑ ہے جس پر بنی گالہ کا قلعہ ہے۔ شیخ صاحب یہاں تک تو ہم پہنچ گئے اب بھی فرما دیجئے کہ اس قلعے سے انسان اتریں گے یا جنات اور موکلات؟ شیخ صاحب نے سب کچھ صاف ہو جانے والے اعلان کی ڈیڈ لائن ایک بار پھر بڑھا دی ہے۔پہلے یہ ڈیڈ لائن 15 جون تھی، پھر جولائی کے پہلے دس دن، اس کے بعد اگست کی باری آئی، پھر کہا ستمبر ستمگر ہونے والا ہے، پھر دس اکتوبر کو قیامت برپا ہونے کی خبر آئی، اب اچانک بڑی زقند بھر کر فرمایا ہے کہ جنوری میں کچھ ہو گا۔ جنوری میں کچھ تو ہو گا۔ اور نہیں تو مری اور گلیات میں برف ضرور پڑے گی۔ کچھ تو ضرور ہو گا۔

    یعنی کہ شیخ صاحب کی بعض پیش گوئیاں وقت سے پہلے بھی پوری ہو جاتی ہیں۔ ریکارڈ دیکھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مارچ کے وسط میں ایک پریس کانفرنس کی تھی۔ فرمایا تھا، لکھ کر دیتا ہوں، اپوزیشن کی گیم صرف پچاس دن کی رہ گئی ہے۔ اور پیش گوئی محض 40 دن میں ہی پوری ہو گئی۔ یعنی اس کی تحریک عدم اعتماد اپریل ختم ہونے سے پہلے ہی کامیاب ہو گئی جبکہ شیخ صاحب کی دی گئی ڈیڈ لائن میں ابھی دس دن باقی تھے۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ صدر علوی نے عمران خان کے سازش والے بیانیے کو زمین بوس کر دیا۔

    زمین بوس تو خود عمران خان کی لیک ہونے والی آڈیو نے کر دیا تھا، درست بیان یوں ہونا چاہیے کہ صدر علوی کے بیان نے عمران خان کے سازشی بیانیے کو زمین دوز کر دیا۔ بہرحال بڑا دلدوز سانحہ ہے، کھیر پکائی جتن سے چرخہ دیا جلا والا ماجرا ہوا۔ خیر، صدر علوی نے وضاحت کی ہے کہ ان کا بیان سیاق و سباق کے بغیر اخبارات نے چھاپا۔ انہوں نے اپنی وضاحت میں اصل بیان بھی مذکور کیا جو ہوبہو وہی ہے جو اخبارات میں چھپا۔ لگتا ہے صدر علوی اپنی وضاحت میں سیاق و سباق ڈالنا بھول گئے یا شاید اِدھر اُدھر ہو گیا ہو، ڈھونڈنے میں مشکل ہو رہی ہو چنانچہ سیاق وسباق ڈالے بغیر ہی وضاحت جاری کر دی۔ غنیمت ہے، انہوں نے ٹی وی پر چلنے والی گفتگو کی تردید نہیں کی، ورنہ کہہ سکتے تھے کہ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے میرا جعلی انٹرویو چلا دیا گیا ہے۔

    کچھ لوگ معترض ہیں کہ صدر نے آرمی چیف کی تقرری پر مشاورت کا بیان دے کر آئین کی خلاف ورزی کی۔ تو کرتے رہیں، انہیں اسی آئین کا تحفظ حاصل ہے جس کی وہ مسلسل خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ بہرحال، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس لئے کہ جو تقرری ہونی ہے، فیصلہ اس کا ہو چکا ہے اعلان ہونے تک صدر صاحب دو چار خلاف ورزیاں کر ڈالیں، فرق ان سے بھی کوئی نہیں پڑے گا۔ میری چھٹی حس بہت تیز ہے۔ کل اس نے انگڑائی لی، نہیں کل نہیں ، پچھلے ہفتے کی بات ہے یا شاید دو دن پہلے کی؟۔ بہرحال، میری چھٹی حس نے انگڑائی لی، میں نے فوراً اپنے موکلات کو بلایا اور کہا، جلدی سے جا کر دیکھو چور اور ڈاکو کیا کر رہے ہیں۔ موکلات کچھ دیر بعد واپس آ گئے اور بتایا کہ وہ آپ کی وڈیوز بنا رہے ہیں۔ میں نے کہا کیسی وڈیوز، بولے بہت گندی گندی۔

    میں چونک اٹھا اور پوچھا اصلی کہ ڈیپ فیک۔ موکلات خاموش رہے اور ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ آپ جانتے ہیں، خاموشی کا مطلب نیم رضا مندی ہوتا ہے۔ بلکہ یہ ”نیم“ تو فالتو ہے، اصل میں پوری رضامندی ہوتا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ میرے ڈیپ فیک ہونے کی تائید کر رہے ہیں۔ چنانچہ اے پاکستانیو، خبردار ہو جاﺅ، یہ چور اور ڈاکو میری گندی گندی ڈیپ فیک وڈیوز بنا رہے ہیں، ان کے جھانسے میں مت آ جانا۔ ورنہ مشرک ہو جاﺅ گے، باقی باتیں پھر، ابھی مجھے ضمانت کرانے جانا ہے جس کے بعد جیل بھرو تحریک چلانی ہے۔ سوات میں طالبان کی واپسی کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ طالبان سے مراد ٹی ٹی پی ہے، وہی، اے پی ایس پشاور کے سانحے والی۔ چند روز پہلے سکول کے بچوں پر ٹی ٹی پی کی فائرنگ کے بعد ان مظاہروں میں شدّت آ گئی ہے، سوات میں تو تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ ہوا جس سے اے این پی، پشتون موومنٹ اور جماعت اسلامی کے رہنماﺅں نے خطاب کیا۔

    پی ٹی آئی کے لیڈر نے بھی خطاب کی خواہش کی لیکن مظاہرین نے موصوف کو بھگا دیا۔ ٹی ٹی پی اور پی ٹی آئی میں اعلانیہ تو نہیں، لیکن ”اعترافیہ“ اتحاد خاصے عرصے سے چل رہا ہے ،2013ءکے الیکشن کے زمانے سے۔ اب یہ اتحاد پی ٹی آئی کے لئے بلائے جان بن چکا ہے لیکن کمبل اب چھوڑنے والا نہیں۔ عوام ٹی ٹی پی کی صفائی میں کچھ سننے کے لئے تیار نہیں۔ پی ٹی آئی کے لئے ایک اور لمحہ¿ پریشانیہ۔

  • علوی نامہ – عبداللہ طارق سہیل

    علوی نامہ – عبداللہ طارق سہیل

    کل صبح سے سہ پہر تک گھٹا چھائی رہی، کچھ بارش بھی ہوئی۔ یہ جاڑوں کا سندیسہ تھا کہ تیاری پکڑ لو، ہم آ رہے ہیں۔ گزری صدی میں اکتوبر سردیوں کا مہینہ ہوا کرتا تھا۔ اسمعٰیل میرٹھی فرما گئے

    گیا ستمبر آیا جاڑا

    سردی نے اب جھنڈا گاڑا

    چار طرف بستی کے دیکھا

    پھیلا سب میں ایک دھواں سا

    لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ جاڑا جھنڈے گاڑے گا لیکن کہیں دسمبر میں جا کر اور وہ کہرا نام کا سرمئی مائل سفید دھواں شہروں میں تو کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے، ہاںچھوٹے شہروں، قصبوں، دیہات میںنظر آتا ہے اور کتنے ہی بیتے ہوئے سرد موسموں کی یاد دلاتا ہے لیکن یہ کہرا بھی دسمبر جنوری میں ہی آئے گا۔ موسم کی سختی کا غربت سے خاص ناتا ہے لیکن چلئے، یہ تو الگ موضوع ہے۔ فی الحال سیاست کی گرمی کا موسم ہے لیکن آثار ہیں کہ کچھ نئی تگ و تاز کہرے کی نذر ہوتی جا رہی ہے۔

    صدر عارف علوی کے ارشادات نے ہلچل سی مچا دی ہے لیکن براہ کرم یہ مت کہیئے کہ انہوں نے عمران خان ، اپنے قائد کی امریکی سازش والے بیانئے کی مٹکی پھوڑ ڈالی ہے۔ اس لئے کہ یہ مٹکی تو خود خان صاحب کی اپنی آڈیو لیک نے پھوڑ کر رکھ دی تھی۔ اس لیک میں جو گفتگو ہوئی، لب لباب اس کا یہ تھا کہ سفارت کار کے بھیجے ہوئے سائفر کو سازش کا رنگ کیسے دینا ہے، منٹس کیسے اپنی مرضی کے بنانے ہیں اور پھر کیسے اس کے ساتھ کھیلنا ہے۔

    پھر تو خوب کھیلے لیکن اس بات سے بے خبر رہے کہ خود ہی کھلواڑ بن کے رہ جائیں گے اور آڈیو لیکس کے بعد یہ ہوا۔ اب صدر عارف علوی نے اپنے انٹرویو میں ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے اس بات سے اتفاق نہیں کہ امریکہ نے سازش کی تھی۔ شکوک و شبہات تھے اس لئے سپریم کورٹ کو خط لکھا تاکہ بات صاف ہو جائے۔

    علوی صاحب نے پھوٹی مٹکی کے ٹھیکرے بنا دئیے ہیں۔ ٹھیکروں میں بھیک دی یا لی جاتی ہے اور انہیں ٹھیپا بنا کر کھیلا بھی جاتا ہے، اب دیکھئے، خان صاحب ان ٹھیپوں سے کیسے کھیلتے ہیں، کہیں ٹھیپو ٹھیپی ہی نہ ہو جائیں۔ عارف علوی پی ٹی آئی کے معمولی نہیں، غیر معمولی رہنما ہیں۔ بہت سی اہم مہمات کے سرخیل وہی تھے۔ 2014ءمیں خان صاحب نے پی ٹی وی کی فتح کے لیے جو جہادی دستہ بھیجا تھا، اس کے امیر الجیش علوی صاحب ہی تھے۔ تب بھی ایک آڈیو لیک ہوئی تھی جس میں علوی صاحب نے عمران خان کو فتح کی خبر دی تھی۔

    حال ہی میں معافی تلافی کے لیے بھی اہم کردار علوی صاحب نے ادا کیا لیکن یہ مشن ناکام رہا اور خان صاحب کی اس مایوسی میں اضافہ ہوا جس نے ، بقول علوی صاحب، خان صاحب کو اپریل کے بعد سے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ علوی صاحب نے دراصل فرسٹریشن کا لفظ استعمال کیا جس کا ترجمہ مایوسی کافی نہیں، اصل ترجمہ مایوسی سے کچھ بڑھ کر طاری ہونے والی کیفیت ہے۔ مایوسی محض ایک کیفیت ہے، فرسٹریشن کو مغرب میں ایک ”مرض“ مانا جاتا ہے۔ پچھلے ہفتے فرسٹریشن کے ایک مریض نے تھائی لینڈ کے سکول میں گھس کر 23 بچوں سمیت /31 افراد کو قتل کر دیا خیر، علوی صاحب جیسے قیمتی ”اثاثے“ کی طرف سے خان صاحب کی اس پھوٹی مٹکی کا مزید تیا پانچا پی ٹی آئی والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ دیکھئے، ان کی طرف سے کیا ردّعمل آتا ہے۔ شاید کچھ اس قسم کی ہدایت بھی متوقع ہو سکتی ہے کہ ارسلان بیٹا، علوی کو بھی غداری سے ٹیگ کر دو۔

  • فرق حقیقی اور اصلی کا – عبداللہ طارق سہیل

    فرق حقیقی اور اصلی کا – عبداللہ طارق سہیل

    ٹی وی پر ہونے والے مذاکرے مناظرے المعروف یہ ”ٹاک شوز“ سننا ضرورت نہیں۔ عادت ہے اور بالتحقیق یہ ثابت ہوا ہے کہ عادت کو ضرورت پر فوقیت حاصل ہے چنانچہ جسے دیکھو‘ ضروریات کو بھول کر عادت پوری کرنے پر تلا اور جٹا نظر آتا ہے۔

    یعنی ضرورت سے مفر ممکن ہے‘ عادت سے نہیں۔خیر‘ رات ایک ٹاک شو میں عمران خان کے نعرہ حقیقی آزادی پر مباحثہ چل رہا تھا۔ ایک مہمان نے غلطی سے اصلی آزادی کی اصطلاح استعمال کر ڈالی‘ کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا اور مذاکرہ جوں کا توں چلتا رہا حالانکہ ازخود نوٹس لئے جانے کی شدید ضرورت تھی۔مہمان نے خیال کیا ہو گا کہ اصلی اور حقیقی مترادفات ہیں اس لئے کوئی فرق نہیں پرانا شاید پرانی لغت میں یہ مترادفات یعنی مہم رفتے ہوں لیکن جدید ریسرچ کے مطابق یہ مترادفات نہیں‘ قضات اور متضاد بات ہیں یعنی دونوں کے معنوں میں بعدالمشرقین ہے۔ ملاحظہ فرمایئے۔

    ایک ”متحدہ“ اصلی ہے‘ لندن والی اور دوسری متحدہ حقیقی ہے‘ لانڈھی کورنگی والی۔ ان دونوں میں کتنے برس سے ٹنٹا چلا آ رہا ہے۔ کتنی جانیں ان کی لڑائی میں گئیں‘ کسی کو اندازہ ہی نہیں۔ وہ اصلی اور حقیقی کے درمیان فرق کی خاص واضح وضاحت ہے ایک اور متحدہ درمیانی بھی ہے لیکن وہ فی الحال بحث سے خارج ہے اسی طرح سے ایک جمہوریت اصلی ہوتی ہے جس میں پارلیمنٹ آئین وغیرہ کے اور ان کی بالادستی کے لوازمات ہوتے ہیں۔ دوسری جمہوریت حقیقی ہوتی ہے جس کی سربراہی اور جس میں بالادستی پرویز مشرف یا الٰہی کے جیسے حضرات کے پاس ہوتی ہے۔ اصلی جمہوریت میں سیاستدان پارلیمنٹ کے اندر ہوتے ہیں یا پھر سڑکوں پر۔ حقیقی جمہوریت میں یہ لوگ جیلوں کے اندر ہوا کرتے ہیں۔

    تیسری مثال اصلی اور حقیقی آزادی کی ہے۔ اصلی آزادی وہ ہے جو ہمارے ہاں روزمرہ ہے اور ادر ادھر ہر جگہ نظر آتی ہے۔ حقیقی آزادی صرف عمران خان کے جلسوں میں نظر آتی ہے خاص طور سے جب وہ سورج ڈھلنے اور چراغ جلنے کے بعد ہوں۔ ایسے وقت میں حقیقی آزادی جو بن پر ہوتی ہے۔ پنجابی کا سہارا لیں تو اسے ”اتھری آزادی“ کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ امید ہے‘ دونوں لفظوں کا ”بعد المشرقین“ واضح ہو گیا ہو گا۔حالات رہ رہ کر بدلتے ہیں چنانچہ ”حقیقی آزادی“ کی جنگ بھی بدل گئی ہے۔ اب جنگ حقیقی آزادی کے مرحلے میں نکل کر حقیقی تعیناتی تک پہنچ گئی ہے۔ خان صاحب نے حال میں جتنے بھی جلسے کئے ہیں سب سے زیادہ اور حقیقی تعیناتی کے مطالبے پر ہیں۔ اصلی تحقیقاتی کو انہوں نے صاف الفاظ میں مسترد کر دیا ہے۔

    اصلی تعیناتی وزیراعظم کا اختیار ہوا کرتا ہے۔ خاں صاحب کی حقیقی تعیناتی کا بین السطور مطلب یہ ہے کہ یہ تعیناتی صرف وہ یعنی خاں صاحب کر سکتے ہیں۔
    حقیقی تعیناتی وہ صرف ”چیف“ صاحب کی نہیں‘ الیکشن کمشن کے سربراہ کی بھی چاہتے ہیں۔ بظاہر ان کے یہ دونوں مطالبات ”بے ضرر“ ہیں۔ حکومت اگر استعفیٰ نہیں دینا چاہتی تو نہ دے‘ قانون میں ترمیم ہی کر دے جس کی رو سے ان دونوں عہدوں پر حقیقی تعیناتی کا اختیار خاں صاحب کو دے دے۔ یقین جانئے‘ ملک پر مسلط آدھے سے زیادہ بحران تو محض اس ترمیم سے ہی ٹل جائے گا۔

    عمران خاں نے اپنے اب تک کے تازہ ترین خطاب میں سیاسی جماعتوں کی حقیقی سربراہی کا مسئلہ بھی اٹھا دیا ہے۔ انہوں نے فرمایا میرٹ پر عمل ہوتا تو پیپلز پارٹی کی سربراہی اعتزاز احسن اور مسلم لیگ ن کی قیادت چودھری نثار کے پاس ہونی چاہئے۔مسلم لیگ ن کی حد تک ان کی تجویز میں وہ نکتہ بھی ہے کہ نثار اگر سربراہ ہوں گے تب بھی وہ مسلم لیگ ن ہی رہے گی۔ یعنی نہ مسلم لیگ بدلے گی نہ ”ن“ بدلے گا‘ بس چہرہ بدل جائے گا۔ ویسے وہ مسلم لیگ کی سربراہی کیلئے اس سے بہتر نام بھی پیش کر سکتے تھے۔ مثلاً اعجاز الحق کا یا طارق عزیز کا۔

    ارے‘ یہ موخر الذکر تو اب مرحوم ہو گئے‘ ان کا نام بس ”میرٹ“ کے حساب سے آ گیا۔ ویسے خاں صاحب کا بس چلتا تو کیا پتہ‘ وہ مونس الٰہی کو ہی مسلم لیگ ن کا صدر بنا دیتے۔ ”حقیقی سربراہی“ کی یہ بحث البتہ مزید آگے نہیں بڑھنی چاہئے ورنہ کیا پتہ کل کو شاہ محمود قریشی خود پی ٹی آئی کی حقیقی سربراہی کا سوال اٹھا دیں۔ سنا ہے کہ ان دنوں خاں صاحب اپنی پارٹی کے چار مرکزی عہدیداروں پر بڑے برہم ہیں۔ فرماتے ہیں‘ مجھے پتہ ہے کون کون ”بڑے“ گھر جاتا ہے اور پارٹی قیادت میں ”حقیقی“ جانشینی کا سماوی دے کر آتا ہے۔اعتزاز احسن سے یاد آیا‘ مریم نواز صاحبہ کی اپیل ان دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرسماعت ہے اور فاضل ججوں نے نیب سے پوچھا ہے کہ پہلے نواز شریف پر ثابت کریں کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے مالک وہی ہیں۔ نیز مریم پر بھی الزام ثابت کریں۔

    یعنی الزام کا بار ثبوت الزام لگانے والے پر ہے۔ معاملہ زیرسماعت ہے ورنہ اعتزاز احسن سے یہ پوچھنے کا ارادہ تھا کہ حضور‘ آپ کی اس ڈاکٹرائن کا کیا بنا جس کے مطابق الزام اگر نواز شریف پر ہو تو بار ثبوت نواز شریف پر ہے‘ الزام لگانے والے پر نہیں؟۔ نیب عدالت نے نواز اور مریم کو اسی ”ڈاکٹرائن“ کے تحت سزا دی تھی۔ کہا تھا ہم تم پر مجرم ہونے کا الزام لگاتے ہیں‘ ثابت کرو تم مجرم نہیں ہو اور چونکہ تم ثابت نہیں کر سکتے اس لئے ہم تمہیں سات سات اور دس دس سال جیل کی سزا سناتے ہیں۔

    اعتزاز کا یہ ڈاکٹرائن ”حقیقی قانون“ تھا۔ لگتا ہے کہ اب اصلی قانون سے رجوع کیا جا رہا ہے۔ بہرحال‘ اس بارے میں اعتزاز احسن کی ”حقیقی ماہرانہ“ رائے کا انتظار رہے گا۔

  • پرش، مہاپرش  –  عبداللہ طارق سہیل

    پرش، مہاپرش – عبداللہ طارق سہیل

    ازبکستان کے دوسرے بڑے شہر سمرقند میں شنگھائی کانفرنس ہوئی تو ہمارے ہاں بعض ٹی وی چینلز اور سول میڈیا پر اسے ثمرقند لکھا جانے لگا۔ یہ ’’اصلاح‘‘ شاید اپنی فارسی دانی ظاہر کرنے کے لیے کی گئی ہو گی۔ لیکن یہ سمرقند ہی ہے، ثمرقند نہیں۔

    ازبکستان کی سرکاری ویب سائٹ، فارسی اور ازبک ویب سائٹس اور انسائیکلو پیڈیا ز پر دیکھا جا سکتا ہے۔ انہیں دیکھنے سے یہ بھی معلوم ہو گا کہ جسے ہم بڑے عرصے سے تاشقند لکھتے پڑھتے آئے ہیں وہ دراصل تاشکند ہے۔ تاشکند ملک کا دارالحکومت ہے اور یہیں 1965ء کی جنگ کے بعد پاک بھارت امن کانفرنس ہوئی تھی۔ اور بھی مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے پڑوسی ملک کا نام ہم کرغیرستان لیتے ہیں، وہ دراصل قرقیزستان ہے یعنی بڑا قاف دو بار آتا ہے اور غین تو آتا ہی نہیں۔ یہ غین دراصل انگریزی نام کرگیزستان کے گاف سے لیا گیا ہے جسے ہم نے غین کر دیا ہے۔ انگریز اور امریکی افغانستان کو افگانستان بولتے ہیں۔

    شنگھائی کانفرنس کی جو تصویریں آئی ہیں، انہوں نے بہتوں کے دل دکھائے ہیں۔ خاص طور سے وہ تصویر جس میں سارے سربراہان مملکت نے پاکستانی وزیر اعظم کو گھیر رکھا ہے (ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ شہباز شریف نے باقی سب کو گھیر رکھا ہے۔ پھر وہ تصویر جس میں روس کے صدر پیوٹن نے گرم جوشی سے شہباز شریف کا ہاتھ دبا رکھا ہے۔ اس کے بعد ملاقات کی تصویر، پھر روس پاکستان لمبا چوڑا اعلامیہ۔ ہمارے ہاں کے دردمندوں نے چند روز پہلے یہ خبر بڑے باوثوق طریقے سے دی تھی کہ پیوٹن نے صاف کہہ دیا ہے، میں شہباز شریف سے ہاتھ تک ملانے کا روادار نہیں ہوں، ہاتھ ملانا کیا، ان کا منہ تک نہیں دیکھنا چاہتا۔ دردمندوں کو یہ تصویریں اور خبریں دیکھ کر جو ذہنی دھچکا لگا اور جس طرح ان کے جذبات شدید مجروح ہو کر قریب المرگ ہو گئے، اس پر قانونی کارروائی کرنے کا پورا جواز موجود ہے۔

    کانفرنس میں روس نے پاکستان کو گیس کی فراہمی کی پیشکش کی اور بتایا کہ ازبکستان اور افغانستان کے راستے پائپ لائن کا نیٹ ورک پہلے سے موجود ہے ، اسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو ٹھیک، لیکن روسی صدر نے ریلوے کے شعبے میں بھی پاکستان کو تعاون کرنے کی پیشکش کی۔ پتہ نہیں اس سے کیا مراد ہے۔ پاکستان کے اندر ریلوے نیٹ ورک کی بحالی اور ترقی یا روس تک ریل رابطہ جس کے لیے محض افغانستان کے اندر ریل بچھانی پڑے گی ، آگے تو سارا لمبا چوڑا جال پہلے ہی بچھا ہوا ہے جو یورپ اور چین تک پہنچا ہوا ہے۔

    دونوں صورتوں میں ہمیں یہ پیشکش مسترد کر دینی چاہیے ۔ اس لیے کہ ہم تو پچھلے چار عشروں سے اپنے ریلوے نیٹ ورک سے نجات حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ جو بھی حکومت آتی ہے، دوچار برانچ لائنیں بند کر دیتی ہے۔ سنی سنائی ہے کہ شہباز شریف نے عہدہ سنبھالا اور ریلوے کا اجلاس طلب کیا اور پوچھا کہ بتائو، کون کون سی برانچ لائنیں بند کرنی ہیں تو انہیں بتایا گیا کہ حضور، اب کوئی بچی ہوئی ہے ہی نہیں، ایک دو رہ گئی تھیں، وہ شیخ رشید دور عمرانی میں بند کر گئے۔ یوں اس سعادت میں حصہ ڈالنے سے شہباز شریف محروم رہ گئے۔

    تو روسی صدر کو بتا دینا چاہیے کہ ہمارے پاس پہلے ہی یہ ریلوے ٹریک، بچا کھچا ہی سہی ، مصیبت بنا ہوا ہے، ہم اور کیا کریں گے۔ رہی بات افغانستان کے ذریعے وسط ایشیا کے ساتھ ریلوے رابطہ جوڑنے کی تو اس سے بھی معذرت کر لینی چاہیے کہ نواز شریف کو برطرف کئے جانے کی غیر مرئی فرد جرم میں ایک جرم اس بات کا بھی تھا۔ بہرحال، شہباز شریف کو اس کانفرنس میں خوب عزت ملی اور اس کا ’’انٹرنیشنل امیج‘‘ بھی بڑھ کر شمشاد قد ہو گیا۔ اس بات پر حقیقی آزادی والے رنجیدہ اور باقی قوم ’’سہمیدہ‘‘ ہے۔ اس ’’سہاوٹ‘‘ کی وجہ ایک وہم ہے۔ یہ وہم کہ اس خوشی میں شہباز شریف آتے ہی بجلی کے ریٹ اور بڑھا دیں گے۔ میاں صاحب جب خوش ہوتے ہیں تو یہی کرتے ہیں اور جب اداس ہوتے ہیں تب بھی یہی کرتے ہیں۔

    امیّد ہے یہ وہم غلط ثابت ہو گا۔ ورنہ دوسری صورت میں امیّد کو امیّد موہوم کا نام دینے کی گنجائش تو موجود ہے ہی۔ خان صاحب ان دنوں پے درپے اپنے ماسٹر کارڈ اور ٹرمپ کارڈ استعمال کر کے حکومت کو پریشان کر رہے ہیں۔ تین دن میں تین کارڈ ایسے کھیلے کہ حکومت کا دماغ گھوم کر رہ گیا۔ پہلا کارڈ، چیف صاحب کو توسیع دی جائے، دوسرا کارڈ ، میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی، تیسرا کارڈ کال دینے والا ہوں۔ اب چوتھے روز چوتھا ٹرمپ کارڈ استعمال کیا ہے۔ فرمایا ہے کہ حالات ایسے ہی رہے (کیسے؟) تو زیادہ دیر تک صبر نہیں کریں گے، پھر ہمارا پیمانہ صبر لبریز بھی ہو سکتا ہے۔

    یعنی ابھی پیمانہ لبریز نہیں ہوا، تھوڑا وقت لگے گا۔ کتنا وقت، اس کا اندازہ انہوں نے نہیں بتایا۔ شاید اس لیے نہیں بتایا کہ ابھی لگایا ہی نہیں۔ ممکن ہے کل ہی لبریز ہو جائے، ممکن ہے چھلکتے چھلکتے اگلا اگست ستمبر آ جائے۔ ہر پیمانہ صبر آخرکار لبریز ہو ہی جاتا ہے۔ ایک پرش کہ مہاپرش نہیں تھے لیکن خود کو مہا پرش سمجھ بیٹھے تھے، اپنے بیٹے کے لیے رشتہ لینے ایک ایسے پرش کے گھر جا پہنچے جو واقعی میں مہا پرش تھا۔

    مہا پرش نے ان کا خیرمقدم کیا اور مدعا پوچھا۔ انہوں نے فرمائش کی تو مہا پرش نے ان پرش کی جو مہا پرش نہیں تھے، دھلائی اور ٹھکائی شروع کر دی اور کرتے ہی چلے گئے جب ٹھڈے تھپڑ لاتیں مار مار کر تھک گئے تو اٹھا کر انہیں باہر گلی میں لے جا کر پھینک دیا۔ اب تو ان پرش کا جو مہا پرش نہیں تھے، پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور بے ساختہ ’’کال‘‘ دیدی کہ اچھا تو جناب، ہم پھر آپ کی طرف سے ’’ناں‘‘ ہی سمجھیں؟۔ پیمانہ صبر لبریز ہونے کی نوبت نہیں آنی چاہیے، اس واقعے سے یہ سبق ملا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی خبر ہے کہ کئی محاذوں سے پسپا ہوئی بھاگتی روسی فوج پر یوکرائنی دستوں نے دبائو بڑھا دیا ہے اور ان پر مسلسل حملے کر رہی ہے۔ یعنی یوکرائنی فوج شاہ مدار کا کردار ادا کر رہی ہے۔

    پچھلے ہفتے روسی فوج تین چار محاذوں سے بری طرح پسپا ہوئی تھی۔ روس نے کہا تھا کہ ہم پسپا نہیں ہوئے، صرف علاقے خالی کئے ہیں۔ یعنی ہم فیل نہیں ہوئے، بس یہ کہ پاس نہیں ہو سکے۔ جن علاقوں سے روس پسپا ہوا ان میں ڈوبناس کا محاذ زیادہ قابل ذکر ہے۔ ایک ہفتے کی جنگ میں یوکرائن نے اپنا چھینا ہوا 8 ہزار مربع کلومیٹر کا رقبہ واپس حاصل کیا ہے اور روسی فوج مسلسل بھاگ رہی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار دی سٹڈی آف وار نے لکھا ہے کہ روسی فوج کو بھاری شکست ہوئی ہے۔ پچھلے دنوں یوکرائنی چھاپہ ماروں نے کریمیا میں گھس کر روس کا ایک اہم دفاعی اڈہ اڑا دیا۔ روس کو اس پر بہت تشویش ہوئی کہ چھاپہ ماروں نے اس کا مضبوط دفاعی حصار کیسے توڑ ڈالا۔ یوکرائن کی جنگ ابھی چلتی رہے گی۔ روس محض پرش ہے لیکن خود کو مہا پرش منوانے پرتلا ہے۔ کہیں رہی سہی ’’پرشیت ‘‘ بھی ہاتھ سے جاتی نہ رہے

  • صدر صاحب کا معافی نامہ –  عبداللہ طارق سہیل

    صدر صاحب کا معافی نامہ – عبداللہ طارق سہیل

    صدر عارف علوی نے پتہ نہیں اطلاع دی ہے یا خبر کے انداز میں پیش گوئی کی ہے کہ جلدہی حالات اچھے ہو جائیں گے۔ جلد بریک تھرو ہوگا۔ سیاسی جماعتیں ٹیبل پر تو آ ئیں نیزکہ کہا سنا معاف کرکے آگے بڑھنا چاہئے۔

    ان کے طویل بیان کا خلاصہ یہی تین سطریں ہیں‘ لیکن میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی والا معاملہ ہے۔ یعنی اچھی خبرآنے کی توقع کوانہوں نے سیاسی جماعتوں کے ایک میز پر آنے سے مشروط کر دیا ہے۔ جماعتیں ایک میز پر کیسے آئیں گی؟ عمران خان کہتے ہیں کچھ بھی ہو‘ چوروں‘ڈاکوﺅں کے ساتھ ایک میز پر کبھی نہیں بیٹھوں گا۔ رائج الوقت ڈکشنری ”انصاف اللخات“ کے مطابق عمران خان کا جو بھی مخالف ہے‘ وہ چور اور ڈاکو ہے۔ دوسری طرف چوروں اور ڈاکوﺅں کے ذرائع کہتے ہیں کہ انہیں بھی عمران خان کے ساتھ بیٹھنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ کوئی کہے گا تب بھی نہیں بیٹھیں گے۔ یعنی نو من تیل لانے پر نہ یہ راضی نہ وہ راضی۔ پھر رادھا کو کون نچوائے گا؟

    اس سے بھی اہم بات ”معافی نامہ ہے“ جو علوی صاحب نے داخل کرایا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہا سنا معاف کرنا ہوگا۔ یہ معافی نامہ انہوں نے کس دفتر میں داخل کرایا ہے؟ یعنی معافی کی عرضی کہاں گزاری ہے۔ معافی دینے کی مجاز اتھارٹی کون ہے۔ کچھ بھی واضح نہیں جو بات واضح ہے‘ وہ محض اتنی ہے کہ کہا سنا سے مراد وہ ہے جو عمران نے کہا اور غالباً میر جعفر و میر صادق حضرات نے سنا۔

    عمران خان نے وہ کچھ کہا جوپہلے کبھی کسی نے نہیں کہا۔ شہباز گل کے اس آڈیو ہیپر کو بھی اگر ”آواز دوست“ مان لیا جائے تو ”کہا“ کا حجم اور کثافت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ یعنی سننے والوں نے بھی وہ کچھ سنا جو پہلے کبھی نہیں سنا تھا اور جو ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھا کہ ایسا کچھ سننا بھی پڑ سکتا ہے۔ بہرحال انہوں نے سنا اور چپ سادھ لی۔ اب علوی صاحب بانداز حکم یہ عرضی گزار رہے ہیں کہ جو کچھ بھی کہا سنا‘ سب معاف کرنا ہوگا۔ پلیز معاف کر دیں نہیں کہا بلکہ یہ فرمایا کہ معاف کرنا ہوگا اور معاف کرکے آگے بڑھنا ہوگا۔

    کہا سنا معاف کرنے کا اطلاق‘ ظاہر ہے کہ صرف عمران خان رہے۔ نیز ان پر جن کی نے نوازی سے ”آواز دوست بلند ہوگی ۔ نوازشریف اس دائرے سے باہر ہیں اور انہیں باہر ہوئے پورے پانچ برس مکمل ہونے والے ہیں۔ نوازشریف نے بھی کچھ کہا تھا‘ یہ کہ مجھے کیوں نکالا۔ اس سوال پر انہیں پھر معاف نہیں کیا گیا۔ بالترتیب 7 اور دس برس کی سزائے قید۔ بستر مرگ پر پڑی اپنی شریک حیات سے فون پر بات کرنے کی اجازت تک نہیں ملی۔ مریم نواز کو صرف اس لئے سزا سنائی گئی کہ ”مجھے کیوں نکالا“ کہنے والے سنگین مجرم کی صاحبزادی ہیں۔ وہ کبھی وزیر رہیں نہ سفیر نہ مشیر‘ سات سال کی قید اور عمر بھر کی نااہلی ان کے حصے میں یوں مفت میں ہی آگئی۔

    نوازشریف کی سزا آج بھی جاری ہے۔ حکمرانی برادر یوسف کی ہے اور ان کی تقریر ٹی وی پر نشر نہیں ہوسکتی۔ ڈیڑھ ہفتہ پہلے ان کا ایک غیر سیاسی پیغام جو سیلاب زدگان کی مدد کیلئے اپیل پر مشتمل تھا‘ غلطی سے ٹی وی پر چل گیا۔ اب اس کی جواب طلبی ہو گئی ہے اور حکومت کو نوٹس جاری ہو گیا ہے۔ پتہ نہیں‘ حکومت کی ”یہ غلطی“ کہا سنا معاف والے دائرے میں آتی ہے کہ نہیں؟ ادھرجن کی معافی کیلئے عرضی ڈالی گئی ہے‘ کسی اور ہی کیفیت میں ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ کال دی تو حکومت کیلئے برداشت کرنا مشکل ہو جائے گا۔

    محبان وطن کی‘ اس صورت میں شدید خواہش ہوگی کہ وہ کال دے ہی ڈالیں تاکہ موجودہ حکومت جس نے عوام کی زندگی برداشت بلکہ محال بنا دی۔ برداشت نہ کر سکنے کی شکل میں گرفتار تو ہو۔

    خان صاحب بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن کیا کیا جائے۔ رانا ثناءاللہ کا منہ مار جاتا ہے۔

    کہا ہم کال دے ڈالیں

    کہا تم کال دے ڈالو

    کہا رانا کھڑا ہوگا

    کہاوہ تو کھڑا ہوگا

    حسن اتفاق کہئے‘ جس روز صدر کی عرضی برائے معافی سامنے آ ئی‘ خان صاحب کے چیف آف سٹاف شہباز گل کی معافی ہو بھی گئی۔ نکے نواز نے عساکر کے زیریں حکام سے یہ اپیل کی تھی کہ وہ اپنے بالا حکام کا حکم ماننے سے انکار کر دیں۔ عدالت نے درست فرمایا کہ شہباز گل کا یہ بیان لاپروائی پر مشتمل تھا۔ اس لاپروائی پر گل صاحب کوتوجہ دلا دی گئی ہے۔ امید ہے خان صاحب کا غصہ کچھ کم ہو گیا ہوگا۔

    اس دوران ایک اور خبر نے بھی اس ”تھیوری“ کوہوا دی ہے کہ کہا سنا معاف ہونے والا ہے۔ خبر ابتدا میں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نے چلائی لیکن جب یہی خبر ایک اہم سیاستدان اسحاق خاکوانی نے بھی ایک ٹی وی چینل پر پروگرام کے بیچ سنا ڈالی تو گویا اسے سند ملی گئی۔ خبر یہ تھی کہ آرمی چیف اور عمران خان کے درمیان ایوان صدر میں ایک اہم ملاقات ہوئی ہے جس میں ”کہا سنا“ پر درگزر کرنے کی پیش رفت ہوئی ہے اور معاملات اب خوش اسلوبی کی طرف بڑھیں گے۔ خوش اسلوبی سے مراد عمران خان کی خوش اسلوبی سے مراد دوتہائی اکثریت دلانے والے انتخابات کاجلدانعقاد۔

    ۔”بہرحال“ بعد میں پتہ چلا کہ خبر بے بنیاد تھی۔ یعنی

    یہ ہوائی کسی ”عاشق“ نے اڑائی ہوگی۔

    اسے آپ ”لب پہ آتی ہے خبر بن کے تمنا میری“ بھی قرار دے سکتے ہیں۔

    خان صاحب نے اپنے تازہ جہادی بلیٹن میں مزید فرمایا کہ عوام کا سمندر نکلنے والا ہے۔

    ایک سمندر 25 مئی کو بھی نکلا تھا۔ ریڈ زون جا کر سمٹ گیا اور پھر درختوں کو اپنی ہی لگائی گئی آگ کی شدت سے خشک ہو کر تحلیل ہو گیا۔ اس بار ”شجر سوزی“ کیلئے کون سا میدان یا زون یاچوک منتخب کیا جائے گا۔ حکومت کو چاہئے کہ ادھرادھرکے علاقوں سے بہت سارے درخت کاٹ کر اٹک پل کے پاس کسی کھلے میدان میں گاڑ دے تاکہ ”ذوق شجر سوزی کے تقاضے وہیں پورے کر لئے جائیں۔ بے کارا میں اسلام آباد آنے کی زحمت سے اس ”سمندر“ کو بچا لیا جائے۔ پٹرول کی بھی بچت ہوگی۔ویسے سنا ہے کہ سمندر کا 95 فیصد حصہ پختونخوا صوبے سے آتا ہے.

    لیکن بارشوں سے ہوئی تباہی اور عمران سرکار کی مصیبت زدگان سے کمال اورغایت درجے کی بے اعتنائی کے سبب اس بار صوبے سے آنے والے سمندر کا حجم کافی کم ہونے کا یقینی گماں ہے۔ بہرحال 23 تا 26 کی تاریخیں اس سمندری سیلاب کے حوالے سے اہم بتائی جا رہی ہیں۔ یہ تاریخ آنے تک سب متعلقہ حضرات سیلاب کی تباہی اور متاثرین کی بے بسی اور فاقہ کشی کی تصاویر اور ویڈیوز سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

  • اصحاب کمال میں 8 کا اضافہ – عبداللہ طارق سہیل

    اصحاب کمال میں 8 کا اضافہ – عبداللہ طارق سہیل

    دو روز پہلے عمران خان صاحب نے اپنے انٹرویو میں فرمایا کہ مجھے جلد الیکشن کرانے کی کوئی جلدی نہیں۔ دراصل یہ حکومت کے لیے پیغام تھا اور یہ پیغام حکومت تک پہنچ بھی گیا ہے۔ جوں ہی حکومت تک پیغام پہنچا، اس نے فوراً ہی وفاقی کابینہ میں 8 وزیر (بعنوان معاون) اور رکھ لئے۔

    یوں کابینہ کی گنتی 75 تک پہنچ گئی۔ یہ بھی گویا حکومت کا جوابی پیغام تھا کہ آپ کو الیکشن کی جلدی نہیں تو ہمیں بھی جانے کی جلدی نہیں۔ ڈٹ کر اگلے اگست تک حکومت کریں گے اور اگست میں سوچیں گے کہ اب کیا کرنا ہے۔ جس کی طرف مولانا فضل الرحمن نے یہ دلچسپ مطالبہ کر کے اشارہ کیا ہے کہ ”ایکسٹینشن“ کی بات چل رہی ہے تو کیوں نہ موجودہ قومی اسمبلی کو بھی سال بھر کی ایکسٹینشن دے دی جائے۔

    کابینہ کے ارکان کی تعداد 8 کے اضافے کے ساتھ 75 ہو گئی۔ سوال اٹھتا ہے کہ یہ نئے آٹھ وزیر کیا کریں گے۔ جواب یہ ہے کہ یہ بھی کمال کریں گے۔ جیسا کہ پہلے والے کر رہے ہیں۔ اب سوال ہے کہ کیا کمال کریں گے تو جواب ہے کہ مجرّد کمال کریں گے۔ مزید سوال یہ ہے کہ کمال سے کیا مراد ہے تو اس کا جواب مبینہ طور پر مرزا غالب بہت پہلے دے چکے۔ مبینہ طور پر اس لیے کہ دیوان غالب میں ان کا یہ شعر موجود نہیں ہے لیکن یار لوگوں نے اسے مرزا غالب ہی سے منسوب کر رکھا ہے اور ہم یار لوگوں کی بات کی تردید کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ بہرحال مرزا کا جواب جس شعر میں ہے، اس کا دوسرا مصرعہ یہ ہے کہ جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں۔

    جواب اس مصرے میں آ گیا ہے۔ شعر کا مصرعہ اوّل نظریہ اضافت سے متعلق ہے اس لیے اس کا یہاں لکھنا قطعی غیر ضروری ہے۔ تو کہنے کی بات یہ ہے کہ پہلے 68 وزیر کمال کرتے تھے، اب 75 کیا کریں گے۔ ہر طرف کمالو کمال ہو جائے گی۔ ہاں، ایک تھوڑی سی تصحیح ضروری ہے جو اب یاد آئی۔ 75 کے 75 صاحب کمال نہیں ہیں، ایک وزیر ان میں ایسا ہے جو بہت کچھ کام کر رہا ہے، دن رات محنت کر رہا ہے، ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنے میں جٹا رہتا ہے۔ اس وزیر کا نام مفتاح اسمعٰیل ہے۔

    اب یہ بات ہم سے نہ پوچھئے کہ وہ کون سا کام ہے جن میں مفتاح اسمعٰیل رات دن جٹے رہتے ہیں حتی کہ چھٹی کے دن بھی آرام نہیں کرتے۔ یہ بات پوچھنا ہے تو غلام سے پوچھئے جس پر ان وزیر موصوف کی کارکردگی صبح و شام ہتھوڑے کی طرح برستی ہے۔ چند روز پہلے موصوف ایک پریس کانفرنس میں اپنی اور اپنے والد محترم کی بے پایاں دولت مندی کا ذکر کرتے ہوئے رو پڑے۔ چند سیکنڈ تک ان پر گریہ طاری رہا، پھر حالات معمول پر آ گئے۔ کوئی قیافہ شناس اور رمّال ابھی تک سامنے نہیں آیا جو یہ بتا سکے کہ موصوف پر یہ گریہ شادمان طاری ہونے کا سیاق و سباق کیا تھا

    ہم کو تو گردش حالات پہ رونا آیا

    رونے والے تجھے کس بات یہ رونا آیا

    گریہ والی پریس کانفرنس کے نتائج البتہ دو روز بعد سامنے آئے جب جولائی کے مہینے کے بجلی کے بلوں پر مزید پونے پانچ روپے کا ایڈجسٹمنٹ بل شامل کر دیا گیا۔ یہ اضافی ایڈجسٹمنٹ ستمبر کے بلوں میں وصول کی جائے گی۔

    یہ راز اپنی جگہ ہے کہ جولائی پر ماہانہ ایڈجسٹمنٹ پہلے ہی لیا جا چکا ہے۔ اب اس ماہانہ کو پھر سے کیوں دہرایا گیا؟ ستمبر میں سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کا بل بھی آئے گا۔ یوں ستمبر انوکھا مہینہ ہو گا جس میں ایک اضافی ماہانہ ایڈجسٹمنٹ جولائی کی ، ایک ایڈجسٹمنٹ اگست کی اور ایک ایڈجسٹمنٹ سہ ماہی والی وصول کی جائے گی۔ ہر ایڈجسٹمنٹ 5 روپے فی یونٹ ہوتی ہے، سہ ماہی 15 روپے کی ہوئی گویا 25 روپے فی یونٹ اضافی بل۔ مگر یہ والی سرکار نے بجلی کا یونٹ پہلے ہی 55 روپے کر دیا ہے، یہ 25 ملا کر گویا ستمبر کا بل 80 روپے فی یونٹ کے حساب سے آئے گا۔ ستمبر کی اپنی ایڈجسٹمنٹ اکتوبر کے بلوں میں لی جائے گی۔ اگر یہ والی سرکار مناسب سمجھے تو ایڈجسٹمنٹ بلوں کا نفاذ 2001ءسے کر دے یعنی پچھلے 22 سال کی وصولی بھی کر ڈالے۔

    اس کے بعد انہیں پریس کانفرنس میں رونا نہیں پڑے گا، جبین بھی خنداں ہوئی، لب و دنداں بھی خنداں۔

    خان صاحب نے ، پی ٹی آئی کے حامی ٹی وی میزبانوں کے مطابق آرمی چیف کو توسیع دینے کا مطالبہ کر کے ایسا ماسٹر کارڈ کھیلا تھا کہ حکومت کے متعدد طبق روشن ہو گئے تھے اور یہ ماسٹر کارڈ کھیل کر انہوں نے گویا امریکی سازش سے بننے والی حکومت کو دن میں تارے دکھا دئیے تھے۔ لیکن داد و تحسین کی ڈونگرہ باری ابھی جاری تھی کہ خان صاحب نے یہ ماسٹر کارڈ یہ کہتے ہوئے واپس لے لیا کہ میں نے ایسا کب کہا تھا۔

    اب ڈونگرہ بار حضرات کیا کریں گے؟ کیا کریں گے یہی کہ خان صاحب نے جھوٹے انٹرویو کی تردید کر کے ایک اور ماسٹر کارڈ کھیل دیا، حکومت کو دن میں تارے دکھا دئیے اور اس کے جملہ ناپاک عزائم کو دھول چٹا دی۔ یقین نہیں آتا تو فواد حسین چودھری سے پوچھ لو۔فواد چودھری سے پوچھنا اس لیے بھی دلچسپ ہو گا کہ ماسٹر کارڈ کھیلنے کے نتائج کا تجربہ انہیں گزشتہ روز، یعنی محض 24 گھنٹوں میں دو بار ہوا۔

    پہلی بار اس طرح کہ جب بنی گالہ میں امریکی لابی اسٹ رابن رافیل کی خان صاحب سے ”برقع پوش“ ملاقات کی خبر لیک ہوئی تو خان صاحب نے اس کی فوراً تردید کر دی اور حکومت کی شدید مذمت کی کہ وہ جھوٹ گھڑ کر پھیلا رہی ہے، لیکن ٹھیک 12 گھنٹے کے بعد خان صاحب نے ایک دوسرے خان صاحب کو انٹرویو دیتے ہوئے اس ملاقات کی تصدیق کر دی، پھر اسی انٹرویو میں جب خان صاحب نے آرمی چیف کو توسیع دینے کی بات کی تو فواد چودھری نے اس ”ماسٹر کارڈ“ کا دفاع اور ماسٹر کارڈ کھیلے جانے کی تصدیق یوں کہہ کر کی کہ خان صاحب نے یہ تجویز دینے کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر، بہت حکمت کاری اور ملکی مفاد کے تقاضے پورے کرتے ہوئے کیا ہے۔

    ابھی ان کی تحسین کی نم ناکی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ خان صاحب کا اگلا ماسٹر کارڈ سامنے آ گیا، یہ کہ میں نے ایسا کب کہا تھا!

    بلیک لیبل اسلامی شہد والے مشہور سماجی کارکن علی امین گنڈاپور نے کم مشہور سماج دشمن وائس چانسلر گومل یونیورسٹی پروفیسر افتخار احمد کو اپنی ”نشست“ پر رکھ لیا ہے اور انہیں دو بار یہ حکم دیا کہ وہ مستعفی ہو جائیں۔ ان کے انکار پر اب سماج سیوک گنڈاپور نے ان کے خلاف راست اقدام کا فیصلہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کی سخت سزا ملے گی۔

    سماج سیوک کو گومل یونیورسٹی کی بعض عمارتیں پسند آ گئی ہیں۔ وہ ان عمارتوں کو اپنی ”حراست“ میں لے کر سماج سیوا بعنوان زرعی یونیورسٹی انجام دینا چاہتے ہیں لیکن وائس چانسلر کو یہ منظور نہیں۔

    ملاحظہ فرمائیے، کیسی ”لاقانونیت“ ہے کہ ایک معمولی وی سی کو بھی یہ جرا¿ت ہو گئی کہ وہ اتنے بڑے سماج سیوک، اسلامی بلیک لیبل شہد والے بطل عظیم“ کو انکار کر دے؟۔ خدایا ، اس ملک کا کیا بنے گا۔

  • جملہ بیانئے واپس- عبداللہ طارق سہیل

    جملہ بیانئے واپس- عبداللہ طارق سہیل

    لگتا ہے ، عمران خان صاحب کے پانچ بڑے بیانئے ان کیلئے بڑے بوجھ بن گئے تھے اور چند مہینوں کے دوران کئے جانے والے پچاس جلسے ان بیانیوں کا بوجھ ہلکا کرنے کے بجائے مزید بھاری کر گئے چنانچہ انہوں نے یہ ”درست“ فیصلہ کیا کہ اب یہ بوجھ اُتار پھینکیں اور کل رات انہوں نے یہ بوجھ اُتار پھینکا۔

    امریکی غلامی سے آزادی امریکہ سے دوستی اور امریکی سفارت کاروں سے رابطے اور نامہ و پیغام میں بدل گئی۔ یہ بیانیہ یوں ترک ہوا۔ میر جعفر میر قاسم غدار وغیرہ کا بیانیہ ایک سال کی مزید ایکسٹینشن کے مطالبے میں بدل کر دریا برد ہوا اور عنوان اس کا ”مجھے پھر سے اپنا بنا لو سائیاں“ میں بدل گیا۔ چوروں ، ڈاکوﺅں کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنے سے بہتر ہے میں مر جاﺅں کا آہنی عزم میں تو مذاکرات کے لیے تیار ہوں، کوئی مجھ سے بات تو کرو کے ریشمی لچھے میں تبدیل ہو گیا۔ لانگ مارچ کی کال نہ دینے کا ماجرا بیانیوں کی شکست کی تمہید تھا۔ یہ بیانیہ کہ نواز زرداری چور ہیں، آرمی چیف کی تقرری کا حق نہیں رکھتے ترمیم و اضافے کے بعد یہ ہو گیا کہ اگر وہ الیکشن جیت جائیں تو تقرری کر ڈالیں۔ یعنی الیکشن جیتنے کے بعد وہ چور اور ڈاکو نہیں رہیں گے۔ جلد الیکشن پر اصرار نے کوئی جلدی نہیں کی شکل لیے چھ مہینے کا بھولا ساتویں سے پہلے پہلے گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔ خان صاحب کی امریکی سفارت کار رابن رافیل سے ملاقات کے میڈیا پر چرچے رہے، ایک صحافی نے پوچھا کہ اس ملاقات میں کیا چیز زیر بحث آئی ہو گی۔

    حس مشترک یا فہم عامہ (نوٹ، یہ دونوں اصطلاحیں فارسی زبان کی ہیں۔ اردو میں اسے ”کامن سینس“ کہا جاتا ہے) سے کام لیا جاتا تو اخبار نویس مذکور کو یہ سوال اٹھانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ دیکھئے، خان صاحب اس وقت حقیقی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ساری توجہ ان کی اسی مقدس جنگ پر مرکوز ہے۔ واضح رہے، مقدس جنگ کا ترجمہ صلیبی جنگ نہیں ہے جو سابق امریکی صدر بش نے افغانستان کے خلاف لڑی تھی۔ تو اس ملاقات میں بھی یہی ”کاز“ زیر بحث آیا ہو گا اور اس بات پر تبادلہ خیال ہوا ہو گا کہ حقیقی آزادی کی جنگ کو کیسے کامیابی سے ہم کنار کیا جا سکتا ہے۔ حقیقی آزادی ہی کے لیے دو تین روز پہلے خان صاحب کے معتمد مشیر فواد چودھری نے امریکی سفیر سے ملاقات کی تھی۔ باہمی تعاون پر مبنی ان ملاقاتوں کے بعد امید کی جانی چاہیے کہ آنے والے دنوں میں یہ جنگ اور تیز ہو گی۔ اسی جنگ کے لیے خان صاحب نے امریکہ کی ایک لابی انگ فرم کی خدمات بھی حاصل کیں تاکہ حقیقی آزادی کا ایک بیس کیمپ امریکہ میں بھی قائم کیا جا سکے۔

    ملاقات خان صاحب کی تین سو کنال کی سادہ سی کٹیا میں جسے عرف عام میں بنی گالہ کہا جاتا ہے ، ہوئی۔ ملاقات کی درخواست خود خان صاحب نے کی تھی۔ درخواست کا درست ترجمہ دعوت ہے۔ اس پر بھی لے دے ہو رہی ہے حالانکہ یہ کچھ باعث تعجب بات نہیں۔ خان صاحب نے جن افراد سے اظہار تعزیت کرنا ہوتا ہے، انہیں بھی ”درخواست“ کر کے بنی گالہ بلایا جاتا ہے اور پھر ان سے دلی تعزیت کی جاتی ہے۔ رابن رافیل کے شوہر آرنلڈ رافیل بھی پاکستان میں امریکہ کے سفیر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے افغانستان کی حقیقی آزادی کی جنگ مرحوم ضیاءالحق سے مل کر لڑی۔ اور اسی میں اپنی جاں ، ضیاءالحق مرحوم کی جان کے ساتھ قربان کر دی۔

    آزادی کی جنگ کا تسلسل میاں کے بعد اہلیہ محترمہ نے جاری رکھا ہے۔ ہم خان صاحب اور رافیل صاحبہ دونوں کے لیے نیک خواہشات مطلوب چاہتے ہیں۔ اس جنگ کی اہمیت کا مظاہرہ اس سے زیادہ کیا ہو گا کہ ملک سیلاب میں ڈوب گیا، سب لوگ بوکھلا گئے، اپنے کام ادھورے چھوڑ کر سیلاب سے متعلق امور کی طرف لپک پڑے لیکن خان صاحب کے پائے آہنی میں ذرا بھی لرزش نہیں آئی۔ وہ اپنے مورچے پر بدستور ثابت قدم ہیں۔ معترض حضرات کو اعتراض رسانی کا ایک اور موقع ایک مقدمے میں خان صاحب پر تفتیش کے لیے پیش نہ ہونے پر مل گیا ہے۔ خاتون مجسٹریٹ کو دھمکی والے کیس میں پولیس کی طرف سے طلبی کے یکے بعد دیگرے تین نوٹس جاری کئے گئے کہ پیش ہوں اور تفتیش میں تعاون کریں۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسی حوالے سے چلنے والے کیس میں خان صاحب کو اس بات کی ہدایت کی تھی، یہ کہ پیش ہوں اور تفتیش کے عمل میں تعاون کریں۔ لیکن خان صاحب نے پیش ہونا تھا نہ ہوئے۔ ظاہر ہے، وہ اپنے اس نعرہ مستانہ پر عمل کر رہے ہیں کہ ہم کوئی غلام ہیں کہ آپ بلائیں اور ہم چلے آئیں۔ یعنی یہ حرف انکار بھی ”مثنوی آزادی¿ حقیقی“ کا ایک مصرعہ ہے۔ اس مصرعہ پر اعتراض کی گرہ لگانے کی سعی نامشکور قطعی نا مطلوب ہے۔ دہشت گردی کی عدالت میں ضمانت کی توسیع پر سماعت کے دوران خان صاحب کے وکیل بابر اعوان نے درست اعتراض اٹھایا کہ قانون کے تحت خان صاحب کو تفتیش کے لیے بلایا ہی نہیں جا سکتا۔ استغاثہ کے وکیل نے قانون پڑھ کر سنایا کہ کیس میں شامل کسی بھی شخص (ANY BODY) کو تفتیش کے لیے بلایا جا سکتا ہے۔ بابر اعوان نے کہا، خان صاحب عالم اسلام کے لیڈر ہیں۔

    مطلب ”اینی باڈی“ نہیں ہیں۔ دلیل زبردست اور لاجواب ہے۔ تفتیشی افسر نے بتایا کہ ملزم بار بار بلانے پر بھی پیش نہیں ہو رہا۔ عدالت نے ہدایت کی کہ تفتیشی افسر ملزم کے وکیل بابر اعوان سے مل کر طے کر لیں کہ تفتیش کہاں کرنی ہے۔ بعدازاں ضمانت میں توسیع ہو گئی۔ اب تفتیش وہیں ہو گی جہاں بابر اعوان چاہیں گے اور تبھی ہو گی اگر بابر اعوان چاہیں گے۔ خان صاحب نے ”متاثرین“ کے نام پر ایک اور ٹیلی تھون کیا اور اس موقع پر محترمہ ثاینہ نشتر صاحبہ نے فرمایا کہ پہلی ٹیلی تھون سے اکٹھے ہونے والے /3 ارب روپے متاثرین پر خرچ ہو گئے۔ کن متاثرین پر؟….ایک رپورٹ کے مطابق سیلاب زدگان کی 80 فیصد مدد ”الخدمت“ نے کی ہے۔ باقی 20 فیصد کوئی درجن بھر غیر سرکاری اداروں نے اور ان درجن بھر ناموں میں پی ٹی آئی کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ برسر فہرست بھی نہیں اور برسر زمین بھی کوئی ایک شہادت نہیں ملی ہے کہ امدادی کاموں میں کہیں کوئی پی ٹی آئی کا ایک بھی کارکن دیکھا گیا ہو۔

    محترمہ یہ وضاحت فرما دیں کہ انہوں نے کس ملک کے متاثرین کا ذکر کیا ہے۔ مترمہ پی ٹی آئی کی حکومت میں بے نظیر انکم سپورٹ سکیم کا نام بدلنے اور کام بگاڑنے کا کارونامہ سرانجام دے چکی ہیں….تب بھی یہ شکایت عام تھی کہ فنڈ کی رقم جاری تو ہو رہی ہے لیکن ”مستحقین“ تک نہیں پہنچ رہی۔ شاید وہی معاملہ اب پھر دہرایا جا رہا ہو۔