Tag: سیاست

  • داستانِ اقتدار، سزا اور سیاست – سلمان احمد قریشی

    داستانِ اقتدار، سزا اور سیاست – سلمان احمد قریشی

    اپریل 2016 پاکستانی سیاست کے لیے ایک غیر معمولی موڑ لایا، جب عالمی سطح پر پانامہ پیپرز لیکس منظر عام پر آئیں۔ پانامہ پیپرز کے انکشافات نے پاکستانی سیاست میں ایک زلزلہ برپا کر دیا۔ یہ انکشاف محض ایک مالیاتی اسکینڈل نہ تھا، بلکہ اس نے عالمی قیادت کو شفافیت اور احتساب کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔

    پاکستان میں اس کا سب سے بڑا سیاسی اثر اُس وقت کے وزیر اعظم محمد نواز شریف اور ان کے خاندان پر پڑا، جن کے بچوں کے نام بیرونِ ملک آف شور کمپنیوں اور لندن کے مہنگے ترین علاقوں میں فلیٹس کی ملکیت کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف،جن کا نام براہِ راست ان لیکس میں شامل نہ تھا، ان کے بچوں حسن، حسین اور مریم نواز کی ملکیت میں غیر ملکی اثاثوں کا انکشاف اس وقت کی اپوزیشن، خصوصاً پاکستان تحریک انصاف کے لیے ایک مؤثر سیاسی ہتھیار بن گیا۔ عمران خان نے اسے ”کرپشن بم” قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور ملک بھر میں احتجاجی تحریک شروع کی۔

    حکومتی صفائی اور عدالت میں جمع کرائی گئی دستاویزات نے معاملات کو مزید مشکوک بنا دیا۔ عدالت عظمیٰ نے معاملے کی تہہ تک جانے کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (JIT) تشکیل دی۔ اس JIT رپورٹ کی بنیاد پر 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کو اثاثے چھپانے کے الزام میں نااہل قرار دیا۔ فیصلہ کی بنیاد یہ تھی کہ نواز شریف نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں دبئی کی کمپنی Capital FZE سے ”قابلِ وصول تنخواہ” کو ظاہر نہیں کیا، جو کہ ایک “چھپا ہوا اثاثہ” شمار کیا گیا۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے نواز شریف کو نہ صرف وزارتِ عظمیٰ سے محروم کیا بلکہ ان کے خلاف نیب نے تین الگ الگ ریفرنسز بھی دائر کیے:

    1. ایون فیلڈ ریفرنس (لندن فلیٹس سے متعلق)
    2. العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس
    3. فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس

    6 جولائی 2018 کو احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10 سال قید، مریم نواز کو 7 سال، اور کیپٹن صفدر کو 1 سال قید کی سزا سنائی۔ 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں مزید 7 سال قید کا فیصلہ آیا، جب کہ فلیگ شپ کیس میں انہیں بری کر دیا گیا۔ پانامہ انکشافات کے بعد عمران خان، شیخ رشید، سراج الحق اور دیگر سیاسی رہنما میدان میں سرگرم ہو گئے۔ پی ٹی آئی نے اسلام آباد کی سڑکوں کو احتجاج کا مرکز بنایا اور ’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ، ریلیاں، دھرنے اور میڈیا مہم سب مل کر ایسی فضا بنانے میں کامیاب ہو گئے جس میں عوامی رائے مسلم لیگ (ن) کے خلاف اور پی ٹی آئی کے حق میں ہوتی چلی گئی۔

    پانامہ کیس، پی ٹی آئی کے سیاسی بیانیے کا محور بن گیا۔ عمران خان نے کرپشن کے خلاف علم بلند کیا، اور اس جدوجہد کے نتیجے میں 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو اکثریت حاصل ہوئی، اور عمران خان وزیر اعظم بن گئے۔ کہا جا سکتا ہے کہ پانامہ اسکینڈل نے عمران خان کی 22 سالہ جدوجہد کو اقتدار کی دہلیز تک پہنچایا۔ یہ محض ایک عدالتی مقدمہ نہ تھا، بلکہ پاکستان کے سیاسی، عدالتی اور احتسابی نظام کے لیے ایک کڑا امتحان بھی تھا۔ کچھ حلقوں نے اسے “سلیکٹو احتساب” قرار دیا تو کچھ کے نزدیک یہ طاقتوروں کے خلاف کارروائی کا تاریخی آغاز تھا۔

    نواز شریف نے اس پورے عمل کو ’’سیاسی انتقام‘‘ سے تعبیر کیا۔ ان کے مطابق جے آئی ٹی اسٹیبلشمنٹ کے زیراثر بنی، اور عدلیہ، خفیہ اداروں اور مخصوص عناصر نے گٹھ جوڑ سے انہیں اقتدار سے ہٹایا۔ ان کا یہی بیانیہ آگے چل کر ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی صورت اختیار کر گیا۔ وہ گرفتار ہوئے، جیل گئے، پھر علاج کی غرض سے بیرون ملک گئے، اور لندن میں قیام پذیر رہے۔ 2022-23 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزائیں معطل کیں، اور بالآخر 2024 میں تمام ریفرنسز کالعدم قرار دے دیے گئے۔ یوں نواز شریف ایک بار پھر سیاسی میدان میں واپس آ گئے۔

    دوسری طرف عمران خان آج وہی حالات بھگت رہے ہیں جن سے کبھی نواز شریف گزرے۔ توشہ خانہ، سائفر، غیر قانونی نکاح، اور دیگر مقدمات میں وہ سزائیں بھگت رہے ہیں، اڈیالہ جیل میں قید ہیں، اور ان کی جماعت سخت ریاستی دباؤ، گرفتاریوں اور تقسیم کا شکار ہے۔ صورتحال نے ایک دائرہ مکمل کیا ہے۔کل کا مدعی آج کا مدعا علیہ ہے، اور کل کا مجرم آج کے سیاسی افق پر واپس آ چکا ہے۔یہی پاکستانی سیاست کی اصل پہچان ہے۔اقتدار کبھی مستقل نہیں ہوتا، صرف کردار بدلتے ہیں، اسٹیج وہی رہتا ہے۔ ایسے میں آصف علی زرداری کی مثال بھی قابلِ غور ہے، جن پر ماضی میں کرپشن کے سنگین مقدمات بنے، جیل گئے، عدالتوں کا سامنا کیا، مگر ایوانِ صدارت تک پہنچے۔

    بعد ازاں وہی کیسز دوبارہ کھلے، مگر قانونی عمل سے گزر کر ایک بار پھر وہ سیاسی افق پر نمایاں ہو گئے۔ حال ہی میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، جنہیں عدالتی فیصلے کے ذریعے برطرف کیا گیا تھا، کرپشن کے کیسز میں باعزت بری ہو چکے ہیں۔ یہ تمام مثالیں اس سوال کو پھر سے جنم دیتی ہیں۔ کیا پاکستان میں احتساب کا عمل ایک اصولی، غیرجانبدار اور شفاف نظام ہے یا پھر یہ محض سیاسی انتقام اور اقتدار کی بساط پر مہروں کی ترتیب ہے؟

    اس سوال کا جواب عدالتیں بھی دیں گی، عوام بھی، اور مورخ بھی اور شاید یہ جواب آنے والے انتخابات اور عدالتی فیصلوں کے ساتھ مزید واضح ہوتا چلا جائے۔ فی الحال اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے پاکستان میں سیاست ایک مسلسل چلنے والا کھیل ہے کردار بدلتے ہیں، بیانیے نئے بنتے ہیں، مگر کھیل کا اسٹیج وہی رہتا ہے۔

  • تمدنی شعور –  میرسراج

    تمدنی شعور – میرسراج

    بحیثیت قوم اگر ہمارا جائزہ لیا جاۓ تو ہمارے معاشرے میں تمدنی شعور کا فقدان پایا جاتاہے. ہمارا رویہ یہ ہے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ میرے علاوہ باقی سب ٹھیک ہوجائیں۔ جہالت سے تمام تعلیم یافتہ طبقے کو نفرت اور شکایت ہے. لیکن ہمیں خود سے سوال پوچھنا چاہیے کہ ملک سے جہالت ختم کرنے میں ہمارا انفرادی یا اجتماعی سطح پر کیا کردار ہے؟

    اگر جواب ہاں میں ہے تو یہ ایک مثبت قدم ہے اگر نفی میں ہے تو ہمیں اس پر سوچنا ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے. نظام کی کمزوریاں اپنی جگہ لیکن ہمیں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اپنے شہروں ،گلی محلوں ،پارکوں کو صاف ستھرا رکھنے میں ہمارا کتنا عمل دخل ہے . کسی بھی مہذب معاشرے میں قانون توڑنا معیوب سمجھا جاتاہے لیکن یہاں الٹ ہے قانون پر عمل درآمد نہ کرنا ہمارے لیے باعث فخر امر ہے۔ روزمرہ زندگی کے جس پہلو کو اٹھا کر دیکھتے ہیں انتہا درجے کی بد نظمی نظر آتی ہے .

    کیا اے ٹی ایم استعمال کرتے وقت ہم خواتین کو اولیت دیتے ہیں؟
    پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین اور بزرگوں کا کتنا خیال رکھا جا تا ہے؟
    کیا ہم ایک دوسرے کے حقوق کا تحفظ کرتےہیں؟
    کیا ہماری سوچ اپنی ذات تک محدود ہے یا اجتماعی مفادات پر بھی نظر رکھتے ہیں؟
    کیا احتجاج،جلسے جلوس اور ریلیوں کے دوران ہم سرکاری املاک کا خیال رکھتے؟

    ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ سرکاری املاک کو نقصان پہچانا دراصل ہمارا اپنا ہی نقصان ہے کیوں کہ اس پر ہمارا ہی پیسہ خرچ ہوتاہے جو ہم ٹیکس کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔میرا تو مشاہدہ رہاہے کہ جہاں جہاں ہمیں نظم و ضبط کا مظاہرہ کرنے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے بدقسمتی سے وہاں ہم بدنظمی کرنے میں پیش پیش پاۓ جاتے ہیں ۔ مرحوم طارق عزیز کے نام اور ان کی حب الوطنی سے کون واقف نہیں.ایک مرتبہ میں پی ٹی وی پر ان کا پروگرام دیکھ رہا تھا . ان کا مزاج تھا کہ پروگرام کے آخر میں کوئی ایک نصیحت یا مفاد عامہ کا اہم نکتہ بیان کرتے تھے انہوں نے پروگرام کے آخر میں جو بات کہی وہ آج تک میرے ذہن پر نقش ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اگر ہم سب پاکستانی صرف اپنے گھر کا ایک ایک بلب بند رکھیں تو ہمارے اس عمل سے بجلی کی بچت ہوگی اور کئی کارخانے چل پڑیں گے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا دیکھیں کتنی خوبصورت بات کہہ گئے ہیں۔ دیکھا جاۓ تو آج وطن عزیز میں توانائی کا بحران ہے ان کی اس بات پر عمل کرنا آج وقت کی شدید ضرورت ہے . اس بات کو مد نظر رکھتے ہوۓ اگر آج اپنے ارد گرد کا جائزہ لیا جاۓ تو بجلی کا بے جا استعمال کرنے میں ہم گھریلو صارفین،سرکاری ونجی دفاتر میں کام کرنے والے سب برابر ہیں . ایسی کئی مثالیں ہیں جہاں ہم انفرادی اور اجتماعی مفادات کا خیال نہیں رکھتے جس کے نتیجے میں مسائل جڑ پکڑ گئے ہیں۔

    افسوس کا امر یہ بھی ہے کہ اس طرح غیر منظم زندگی گذارنے کے عادی ہوچکے ہیں اس لیے ہمارا اس طرف دھیان ہی نہیں جاتا کہ معاشرے کو ٹھیک کرنے میں فرد کی حیثیت سے کس کی کتنی ذمہ داری بنتی ہے . تعلیمی اداروں میں تمدنی شعور کے متعلق تعلیم نہیں یہ ایک الگ المیہ ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ تمدنی شعور کے متعلق طلبہ کو باقاعدہ تعلیم وتربیت فراہم کی جاۓ جس سے ہم مستقبل میں قابل ذکر نتائج حاصل کرسکیں۔تمدنی شعور کو فروغ دینے کے لیے حکومتی اداروں، ،مختلف این جی اوز تعلیمی اداروں کو مل کر اقدامات اٹھانا ہوں گے یہ وقت کی اشد ضرورت ہے ۔اداروں کے ساتھ عوام کو اس میں بھرپور تعاون کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

    بظاہر یہ آپ کو جزوی مسائل نظر آئیں گے لیکن ان سے صرف نظر کرنا کسی صورت ممکن نہیں ان جزوی مسائل سے ہی کلی سطح پر اصلاحات کا سفر طے ہوگا اور ہم ایک مثالی اور صحت مند معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائیں گے تاکہ ہم نہیں تو کم سے کم ہماری اگلی نسلیں ہی ایک نارمل زندگی گزار سکیں۔

  • شخصیت پرستی، اندھی تقلید اور فکری فتنہ! ارشدزمان

    شخصیت پرستی، اندھی تقلید اور فکری فتنہ! ارشدزمان

    ڈاکٹر عارف علوی کا حالیہ بیان کہ “عمران خان پیغمبروں سے بھی زیادہ مقبول ہو گئے ہیں” چاہے محض ایک لغزش ہو، مگر یہ بیان ایک ایسی فکری گمراہی کو عیاں کرتا ہے جو موجودہ پاکستانی سیاست میں شدت کے ساتھ پنپ رہی ہے یعنی شخصیت پرستی اور اندھی عقیدت کا فتور۔

    سیاست، اگر دینی ہو، تب بھی اندھی تقلید جائز نہیں۔ دین میں اطاعت شعور سے مشروط ہے، نہ کہ جذبات سے۔ اگر سیاست دین کے دائرے میں ہو تو ایمان و احتساب کا امتزاج ضروری ہے یعنی اطاعت کے ساتھ پرکھنا، ساتھ کے ساتھ سوال اٹھانا، اور اصلاح کا در کھلا رکھنا۔ اور اگر سیاست سیکولر یا لبرل بنیادوں پر استوار ہو، تو اس کا تجزیہ محض دنیاوی پیمانوں پر کیا جانا چاہئے کارکردگی، نظریاتی مطابقت، اور اخلاقی معیار کی بنیاد پر۔

    مگر مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی سیاست، بالخصوص عمران خان کے گرد، اب ایک نئی “مذہبیت” اختیار کر چکی ہے۔ ان کے پیروکاروں کے ہاں وہ محض سیاسی رہنما نہیں، بلکہ ایک نجات دہندہ، مہاتما، اور بعض اوقات (نعوذباللہ) روحانی مقام کے حامل شخص کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ اختلاف کرنے والا فوراً “ایمان” کے دائرے سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ ان کے صبح کے فیصلے شام تک یوٹرن ہو جائیں، تو بھی ان کی ہر بات “حکمت” اور “بصیرت” بن جاتی ہے۔

    خود عمران خان کے بیانات بھی اس ذہنی کیفیت کو ہوا دیتے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ کہ “جس طرح رسول اللہ ﷺ کو تیار کیا گیا، مجھے بھی ویسے ہی تیار کیا گیا”، نرگسیت کا مظہر ہے۔ ایسا رویہ کسی بھی سیاسی رہنما کو عقل و احتساب سے بالاتر بنا دیتا ہے جو جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔

    یہ رجحان صرف سیاسی نہیں، بلکہ سماجی پولرائزیشن اور فکری جمود کو بھی جنم دیتا ہے۔ سوشل میڈیا پر موجود شدت پسندانہ بیانات، جن میں خان صاحب کو انبیاء سے بلند مقام دیا جا رہا ہے، ایک خطرناک فکری زوال کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس طرزِ سیاست میں اختلاف کو بغاوت، سوال کو گستاخی اور احتساب کو دشمنی سمجھا جاتا ہے۔
    سیاست کا مقصد اگر قوم کی رہنمائی ہے تو یہ شعور، برداشت، اور مکالمے کے اصولوں پر مبنی ہونی چاہیے۔ اگر کسی جماعت یا لیڈر کو تنقید سے بالاتر سمجھا جائے، تو وہ قیادت نہیں بلکہ عبادت بن جاتی ہے۔ اور جب عبادت کا مرکز خدا کے بجائے انسان بن جائے، تو وہ شرکِ فکری کی طرف لے جاتی ہے۔

    حرفِ آخر!
    عمران خان کے حامیوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ جتنا بھی بڑا لیڈر ہو، بالآخر ایک انسان ہے جو خطاؤں کا پتلا ہے، جس سے غلطیاں اور گناہ ممکن ہیں۔ ان کی شخصیت، کردار اور سیاسی پالیسیوں میں تضادات موجود ہیں، اور وہ عالمی سطح پر بھی ایک متنازعہ شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ اس لیے انہیں اسی انسانی دائرے میں رکھنا ضروری ہے۔ ان کے فیصلوں کو پرکھنا، سوال اٹھانا، اور تنقید کے کلچر کو فروغ دینا نہ صرف دینی شعور کا تقاضا ہے، بلکہ خود جماعت کی بہتری اور ان کی کارکردگی کو نکھارنے کے لیے بھی ناگزیر ہے۔

    جو قومیں اپنے رہنماؤں کو فرشتے بناتی ہیں، وہ کبھی ان سے حساب نہیں لے سکتیں۔ اور جو قومیں سوال سے ڈرتی ہیں، وہ صرف پیروکار پیدا کرتی ہیں، شہری نہیں۔

  • اختیار اور اثر ، دلوں کی سیاست یا کرسی کا اقتدار – رانا عثمان

    اختیار اور اثر ، دلوں کی سیاست یا کرسی کا اقتدار – رانا عثمان

    کبھی آپ نے محسوس کیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں طاقت کا تصور کس قدر بدل چکا ہے؟ ایک زمانہ تھا جب طاقتدار وہ کہلاتا تھا جس کے پاس کرسی ہو، عہدہ ہو، اختیار ہو — جو حکومتی اداروں کو چلاتا ہو، قانون بناتا ہو، اور فیصلے صادر کرتا ہو۔

    لیکن آج؟
    آج کا نوجوان اس طاقت کو ویسا نہیں دیکھتا جیسا ہمارے آباؤ اجداد نے دیکھا تھا۔ اب طاقت کا معیار بدل گیا ہے۔ اب طاقت وہ نہیں جس کے پاس قلم ہے، بلکہ وہ ہے جس کے الفاظ لاکھوں دلوں میں گونجتے ہیں۔ آج ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں کسی سادہ لباس میں ملبوس، کیمرہ ہاتھ میں لیے، ایک عام سا شخص اپنی بات چند لمحوں میں دنیا بھر میں پہنچا دیتا ہے۔ وہ کوئی وزیر نہیں، نہ ہی کوئی رکن اسمبلی، نہ ہی کسی حکومتی پالیسی کا حصہ، مگر اس کی آواز، اس کا انداز، اور اس کی سچائی — دلوں کو چھو جاتی ہے۔ یہی ہے انٹرنیٹ انفلونسر کا اثر — ایک خاموش انقلاب، جو بظاہر سادہ نظر آتا ہے، مگر اندر سے پورے نظام کو جھنجھوڑنے کی طاقت رکھتا ہے۔

    سیاستدان: اقتدار کا محافظ، مگر جذبات سے کٹا ہوا
    ہماری ریاستی تاریخ میں سیاستدان ہمیشہ سے اختیار کی علامت رہا ہے۔ اس کے پاس وہ قلم ہوتا ہے جو قانون کی سطریں رقم کرتا ہے۔ اس کی زبان سے نکلے وعدے، منشور، پالیسیاں اور ترقیاتی منصوبے قوم کی سمت کا تعین کرتے ہیں۔ وہ اسمبلی میں تقریریں کرتا ہے، پریس کانفرنسز میں بیانات دیتا ہے، جلسوں میں نعرے لگواتا ہے۔ مگر آج کا سچ یہ ہے کہ اس کی یہ ساری گھن گرج اکثر خالی خول بن چکی ہے۔ لوگ اب صرف الفاظ سے مطمئن نہیں ہوتے، وہ احساس چاہتے ہیں۔ وہ ایسی زبان سننا چاہتے ہیں جو ان کے دل کی بولی ہو، جو ان کے روزمرہ کے مسائل سے جڑی ہو، جو مصنوعی نہ ہو بلکہ حقیقت سے لبریز ہو۔ بدقسمتی سے بیشتر سیاستدان آج بھی اسی پرانے بیانیے میں الجھے ہوئے ہیں۔ وہ اب بھی فائلوں کے درمیان، سرکاری اصطلاحات میں، اور روایتی انداز میں اپنی بات کہتے ہیں۔ جبکہ آج کا شہری چاہتا ہے کہ اس سے سیدھی، سادہ اور سچائی پر مبنی گفتگو کی جائے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے مسائل کو اس کی اپنی زبان میں سنا جائے، نہ کہ محض تقریروں اور وعدوں میں دبایا جائے۔

    انفلونسرز: آواز کا سفر، اثر کی طاقت
    انٹرنیٹ انفلونسرز اس خلا کو پُر کر رہے ہیں جو سیاستدان اور عوام کے درمیان پیدا ہو چکا ہے۔ وہ سادہ انداز میں بات کرتے ہیں، ان کی گفتگو میں زندگی ہوتی ہے، اور وہ وہی کچھ کہتے ہیں جو عوام سوچتی ہے لیکن بول نہیں پاتی۔ کسی یوٹیوبر کی ایک ویڈیو میں اگر پانی کی قلت کا مسئلہ اٹھتا ہے، تو وہ محض مسئلہ بیان نہیں کرتا بلکہ جذبات جگاتا ہے۔ کسی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کی ایک پوسٹ اگر مہنگائی پر ہو، تو وہ صرف اعداد و شمار نہیں دکھاتا بلکہ ایک ماں کی آنکھوں میں جھلکتی پریشانی کو تصویر بنا کر سامنے رکھ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام ان پر یقین کرتی ہے۔ ان کی بات سنتی ہے، ان سے جڑتی ہے، اور ان کے بیانیے کو اپنا بیانیہ بنا لیتی ہے۔

    اثر کی اصل بنیاد: جذبات سے جڑی زبان
    اگر آپ غور کریں، تو سیاستدان کی زبان اور انفلونسر کی زبان میں سب سے بڑا فرق جذبات کا ہے۔ سیاستدان اکثر ‘معاشی اصلاحات’ کی بات کرتا ہے، انفلونسر ‘روٹی کے سوال’ کی۔ سیاستدان ‘تعلیمی بجٹ’ کی بات کرتا ہے، انفلونسر ‘سرکاری اسکول کی ٹوٹی ہوئی چھت’ کی۔ سیاستدان ‘روزگار کے مواقع’ پر تقریر کرتا ہے، انفلونسر ‘بیروزگار نوجوان کی آنکھوں کی نمی’ پر بات کرتا ہے۔ یہی وہ فرق ہے جو آج اثر اور اختیار کو دو مختلف سمتوں میں لے جا رہا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں اختیار ہے، مگر دلوں کی دنیا میں اثر انفلونسرز کا ہے۔

    سیاست کا بدلتا چہرہ
    اب خود سیاستدان بھی اس بدلتے منظرنامے کو محسوس کر چکے ہیں۔ انہیں اندازہ ہو چکا ہے کہ اگر وہ صرف اسمبلی میں تقریریں کرتے رہے تو عوام ان سے کٹتی جائے گی۔ اسی لیے اب وہ بھی سوشل میڈیا کا سہارا لے رہے ہیں، اپنی بات کو عوامی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ سیاستدان خود بھی وی لاگنگ کرتے نظر آتے ہیں، کچھ انسٹاگرام لائیو سیشنز میں عوام سے جڑتے ہیں۔ یہ تبدیلی خود ایک نئی سیاست کی علامت ہے۔ اب کامیاب وہی ہوگا جو دل کی زبان بولے گا، چاہے وہ سیاستدان ہو یا انفلونسر۔

    کیا انفلونسرز سیاست کا مستقبل ہیں؟
    یہ سوال اکثر ذہن میں آتا ہے کہ کیا انفلونسرز واقعی سیاستدانوں کا متبادل بن سکتے ہیں؟ ظاہری طور پر تو شاید نہیں — کیونکہ ریاستی نظام کو چلانے کے لیے تجربہ، قانونی معلومات اور ادارہ جاتی شعور ضروری ہے۔ لیکن اگر قیادت صرف کرسی کا نام نہ ہو، بلکہ عوامی احساسات کی نمائندگی کا نام ہو، تو انفلونسرز آج کے حقیقی لیڈر ہیں۔
    وہ نوجوان جو صرف ایک کیمرے اور ایک سچائی کے جذبے سے اپنی بات کہتا ہے، وہ قوم کی نبض پر ہاتھ رکھتا ہے۔ وہ معاشرے کے زخم دیکھتا ہے، ان پر مرہم رکھتا ہے، اور عوام کو شعور بخشتا ہے۔ ایسے لوگ وقتی سیاستدان نہیں ہوتے، بلکہ مستقبل کے معمار ہوتے ہیں۔

    اختتامیہ: اختیار وقتی ہوتا ہے، اثر دائمی
    آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اختیار کی بنیاد کرسی ہو سکتی ہے، مگر اثر کی بنیاد ہمیشہ دل ہوتے ہیں۔ اگر ایک سیاستدان لاکھوں کے جلسے کر لے مگر لوگوں کے دلوں تک نہ پہنچ سکے، تو وہ کبھی حقیقی لیڈر نہیں بن سکتا۔ اور اگر ایک انفلونسر بغیر کسی عہدے کے دلوں میں جگہ بنا لے، تو وہ قوم کی آواز بن جاتا ہے۔ ہمیں اب اس فرق کو سمجھنا ہوگا۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم صرف وہ سن رہے ہیں جو ہمیں سنایا جا رہا ہے، یا وہ جو حقیقتاً ہمارے جذبات کی ترجمانی کر رہا ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ سیاست کی تعریف بدل دی جائے۔ کیونکہ قوموں کی قیادت صرف کرسی سے نہیں ہوتی — دل سے ہوتی ہے۔

  • وطن عزیز کی سیاست اور گورننس کی صورتحال  – محمد قاسم مغیرہ

    وطن عزیز کی سیاست اور گورننس کی صورتحال – محمد قاسم مغیرہ

    میرا نور چشم اسرار احمد پانچویں برس میں ہے، کارٹون دیکھنے کا شوقین ہے۔ کارٹون دیکھتے وقت وہ سوال پوچھتا رہتا ہے کہ کیا ان کرداروں کا کوئی حقیقی وجود بھی ہے یا یہ محض سکرین پر نظر آتے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں اس کی معلومات میں کافی بہتری آئی ہے اور اس نے کافی حد تک جان لیا ہے کہ کن چیزوں کا حقیقی وجود ہوتا ہے اور کون سی چیزیں محض سکرین پر نظر آتی ہیں۔ اب وہ میرے بتانے سے پہلے ہی بتا دیتا ہے کہ کارٹون کا فلاں فلاں کردار محض سکرین پر نظر آتا ہے جب کہ اس کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے۔

    وطن عزیز کی سیاست اور گورننس کی صورت حال بھی کارٹون سے کچھ مختلف نہیں ہے کہ اس کے بہت سے تصورات محض تصورات ہی ہیں اور ان کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے۔ ان میں سب سے اہم تصور جمہوریت کا ہے۔ جمہوریت کے ترانے ہر سر میں موجود ہیں۔۔جمہوریت کے ایک سے بڑھ کر ایک مدھر نغمے موجود ہیں۔ کوئی ٹالک شو ، کوئی انٹرویو، کوئی پریس کانفرنس اور کوئی جلسہ جمہوریت کے ذکر سے خالی نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعتوں کے منشور لکھنے والوں نے بھی تمام زور بیاں جمہوریت کی عظمت بیان کرنے میں صرف کردیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت کا کوئی حقیقی وجود بھی ہے یا یہ اس کے نعرے صرف کارٹون کی طرح خوش رکھنے کا کام کرتے ہیں؟ جس طرح کارٹون بچوں کو غیر حقیقی کرداروں سے خوش کردیتے ہیں اسی طرح جمہوریت بھی ایک ناپید شے ہوتے ہوئے خوشی فراہم کرنے کا کام کرتی ہے۔ جمہوریت کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے۔

    وطن عزیز کی سینیئر اور تجربہ کار سیاسی جماعتیں کو جمہوریت چھو کر بھی نہیں گزری۔ جمہوریت پسندی تو بہت دور کی بات ہے ، ہماری سیاسی جماعتیں جمہوریت سے خوف زدہ ہیں۔ حوادثِ زمانہ کی پیداوار سیاسی جماعتوں کا طرز عمل جمہوریت کی نفی کرتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ہاں ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم نہ کرنے کی روش بہت پرانی ہے۔ وفاقی حکومت کا صوبائی حکومتوں پر چڑھ دوڑنا اور صوبائی حکومتوں کا وفاقی حکومتوں پر چڑھ دوڑنا جمہوری طرز عمل کا منہ چڑاتے ہوئے رویے ہیں۔ وطن عزیز کی سیاسی جماعتوں پر چند خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ وراثتی سیاست نے متبادل قیادت سامنے نہیں آنی دی۔ وراثتی سیاست کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وراثتی سیاست نے جمہوریت کو بچا رکھا ہے۔ وراثتی سیاست نے جس شے کو بچا رکھا ہے وہ جمہوریت نہیں ہے بلکہ چند خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ سیاسی جماعتوں کے سینیئر اراکین قیادت کے بچوں کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں۔ قائدین کے بچوں کی عمر سے زیادہ سیاسی تجربہ رکھنے والے لوگ کب سے منتظر تھے کہ مہاراجہ جوان ہوں اور پارٹی کی قیادت کریں۔

    صرف جماعت اسلامی ہے جس نے وراثتی سیاست کی نفی کرتے ہوئے وطن عزیز کی بہترین جمہوری جماعت بن کے دکھایا ہے۔ انٹرا پارٹی الیکشنز ہوں یا کسی کارکن کا محنت کے بل بوتے پر جماعت کا سربراہ بن جانا ، یہ جماعت اسلامی کا ہی طرہ امتیاز ہے۔ جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمیعت طلبہ میں گزشتہ 78 برس سے ناظم اعلیٰ کے انتخابات ہورہے ہیں۔ وطن عزیز کی کوئی دوسری جماعت ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشنز اس اصول پر ہوتے ہیں کہ جماعت کے سربراہ حسب معمول کام کرتے رہیں گے، کوئی ان کے مقابل کھڑا نہیں ہوسکتا، ایک رسمی کارروائی ہوگی، تمام اراکین اس رسمی کارروائی میں حصہ لے کر تمغہ جمہوریت وصول کرسکتے ہیں۔

    سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات سے بھی خوف زدہ ہیں۔ ان کے لیے یہ تصور ناقابل قبول ہے کہ کوئی میئر یا ناظم پر پرزے نکال کر جماعت کی قیادت سے آگے نکل جائے۔ ان کی بقاء اسی میں ہے کہ بونوں کا ایک ہجوم ہمہ وقت ان کے ارد گرد موجود رہے جو انہیں ان کے سروقد ہونے کے مغالطے میں مبتلا رکھے۔

    اسی طرح اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا ترقی کا کوئی حقیقی وجود ہوتا ہے یا یہ بھی محض ٹیلی وژن سکرین یا اخبارات کے اشتہارات تک محدود ہوتی ہے؟ اس سوال کا جواب بھی یہی ہوگا کہ سر دست تو ترقی صرف ٹیلی وژن سکرین اور اخبارات کے اشتہارات تک ہی محدود ہے۔ اس کا حقیقی وجود دیکھنا ہر کسی کے نصیب کے بات نہیں ہے۔ تشہیری ترقی کے علاوہ ترقی کی صورت حال یہ ہے کہ تعلیم اور صحت نجی شعبے کے پاس چلے گئے ہیں۔ دیگر شعبوں میں اداروں کی اکثریت خسارے میں ہے۔ کچھ اداروں کی کارکردگی رشوت سے مشروط ہے۔

    اسی طرح اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا ملک میں سچ مچ آئین کی بالادستی ہے یا آئین کی بالادستی صرف چند خوب صورت سطروں کا نام ہے؟ اس کا جواب بھی یہی ہوگا کہ آئین خوب صورت اقوال کا مجموعہ ہے لیکن یہ اقوال کبھی جامہ عمل میں ڈھلتے دکھائی نہیں دیتے۔ آئین کی ایسی شقیں جن کا تعلق عام آدمی کے وقار سے ہے، عملاً معطل ہیں۔ مثلاً آئین کی وہ شقیں جن کا تعلق شہریوں کی مساوات ، علاج معالجے اور انصاف کی فراہمی اور استحصال کے خاتمے سے ہے، کسی سیاسی جماعت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ مذکورہ بالا شقوں کی عملی صورت حال محتاج بیان نہیں ہے۔ ہر ذی شعور شخص حقائق سے بہ خوبی واقف ہے۔

    کیا سول سروس سچ مچ عوام کی خادم ہے؟ نہیں ، ہرگز نہیں۔ یہ عوام پر ایک جابر آقا کی طرح مسلط ہے۔ اس کا رہن سہن عوام کے لیے وبال جان بن چکا ہے۔ یہ ایک سفید ہاتھی ہے۔ کیا عدالتیں سچ مچ آزاد ہیں؟ نہیں، عدالتیں آزاد نہیں ہیں۔ ان کے اپنے اپنے سیاسی رجحانات ہوتے ہیں۔ یہ آئین کی من چاہی تشریح کرکے کوئی بھی فیصلہ سناسکتی ہیں۔ ان میں تعینات ججز کے انتخاب کا طریق کار ہی غلط ہے۔ کیا فوج ایک پروفیشنل ادارہ ہے؟ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کی حد تک تو ایسا ہی ہے لیکن حقائق ان پریس کانفرنسز میں کیے گئے دعوؤں کی نفی کرتے ہیں۔ جس طرح اکثر کارٹون کیریکٹرز حقیقی وجود نہیں رکھتے، اسی طرح وطن عزیز کی سیاست اور گورننس کے بیش تر تصورات محض تصورات ہی ہیں، کوئی حقیقی وجود نہیں رکھتے۔ یہ خوش نما تصورات محض عوام کو خوش کرنے کے لیے تراشے گئے ہیں۔

  • امت مسلمہ یا مرغِ مسلم؟ – بلال شوکت آزاد

    امت مسلمہ یا مرغِ مسلم؟ – بلال شوکت آزاد

    علامہ ابن خلدون نے اپنے شہرۂ آفاق مقدمہ میں لکھا تھا کہ قوموں کی خوراک ان کی خصلت پر اثر ڈالتی ہے۔ ان کے مطابق عربوں میں غیرت اور سختی اس لیے پیدا ہوئی کہ وہ اونٹ کا گوشت کھاتے تھے۔ ترکوں میں درندگی اور طاقت اس لیے آئی کہ ان کی خوراک گھوڑے کا گوشت تھا۔ انگریزوں میں بے غیرتی اس لیے در آئی کہ وہ سور کا گوشت کھاتے تھے۔ جبکہ سیاہ فام قوموں میں موسیقی اور رقص کا شوق بندر کے گوشت سے آیا۔

    یہ محض ایک تاریخی فلسفہ نہیں، بلکہ یہ حقیقت ہے کہ خوراک صرف جسم ہی نہیں بناتی، یہ ذہن، مزاج اور کردار بھی تشکیل دیتی ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی یہی نکتہ بیان کیا کہ ہر شخص جس جانور سے مانوس ہوتا ہے، وہ اس کی طبیعت اور خصلت کو اپنا لیتا ہے، اور اگر وہ اس کا گوشت کھائے تو یہ مشابہت مزید بڑھ جاتی ہے۔ غور کیجیے، ہم آج کے دور میں زیادہ تر برائلر مرغی کھاتے ہیں۔ تو کیا ہماری خصلتوں پر بھی اس کا اثر نہیں ہوا؟

    بات صرف مرغی کھانے کی نہیں، مرغی بننے کی ہے! غور کریں، ہم کیسے بزدل، سہمی ہوئی، بے عملی کی شکار قوم بن چکے ہیں۔ ہم نے “ہچکچاہٹ، بے مقصد شور، گردن جھکانا، نہ اڑنا اور زیادہ بولنا” مرغی سے سیکھ لیا ہے۔ پنجرے میں بند زندگی کو اپنا مقدر مان لیا ہے۔ وہ امت جو کبھی آزاد فضاؤں میں پرواز کرتی تھی، آج پنجروں میں قید ہو چکی ہے۔

    یہ وہی امت ہے جو کبھی فاتحین کی صف میں کھڑی تھی۔ وہ امت جس کے نام سے سلطنتیں کانپتی تھیں۔ وہ جنہوں نے بغداد، اندلس، قسطنطنیہ اور ہندوستان فتح کیا تھا۔ مگر آج؟ آج ہم عالمی سیاست کے تخت پر مہرے بنے ہوئے ہیں۔ ہر طرف مظلومیت کے بین، ہر جگہ ظلم کی داستانیں، مگر مزاحمت؟ غیرت؟ خودداری؟ کہیں نظر نہیں آتی۔

    یہ زوال یوں ہی نہیں آیا۔ یہ ہمیں دانہ ڈال کر، گردن جھکا کر، قفس میں قید رکھ کر لایا گیا۔ ہمیں تعلیم، تحقیق اور خودداری سے دور رکھا گیا۔ ہمیں تقسیم کیا گیا۔ ہم نے اپنے اذہان کو غلام بنا لیا اور زبانوں کو لا یعنی ابحاث میں الجھا دیا۔ آج ہمارے پاس چہکنے والے گفتار کے غازی لیڈر تو بہت ہیں، مگر سوچنے اور عمل کرنے والے قائد کرداری کے غازی نہیں۔

    یہ زوال کسی ایک دن میں نہیں آیا۔ یہ ایک منظم منصوبے کا حصہ تھا جس کے ذریعے اس امت کو اس کے حقیقی راستے سے ہٹایا گیا۔ ہمیں علمی زوال کی طرف دھکیلا گیا، فکری پسماندگی میں دھکیلا گیا، اور سب سے بڑھ کر ہمارے اندر ایک ایسی ذہنیت پیدا کی گئی جو ہمیں بغاوت سے روکتی ہے۔ ہمیں تعامل اور تسلیم کرنے والا بنایا گیا، مقابلہ کرنے والا نہیں۔

    یہی حال ہماری سیاست، معیشت اور معاشرت کا ہے۔ ہر طرف غلامی کا رنگ، ہر طرف پنجرے کا جال۔ ہم ہر مسئلے کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں، مگر اپنے اندر جھانک کر نہیں دیکھتے۔ ہم نے اپنی آزادی کا مفہوم محض نعرے بازی اور وقتی جذبات میں قید کر دیا ہے۔

    ہماری بزدلی اور سستی کا یہ عالم ہے کہ جب بھی کوئی نیا چیلنج آتا ہے، ہم اس سے نمٹنے کے بجائے کسی معجزے کے منتظر ہو جاتے ہیں۔ کیا سلطنتِ عثمانیہ کے سقوط کے بعد کوئی معجزہ ہوا؟ کیا اندلس کی بربادی کے بعد کوئی معجزہ ہوا؟ کیا فلسطین، کشمیر، شام، عراق، افغانستان میں کوئی معجزہ ہوا؟ نہیں! ہر بار ہم مزید زوال میں گئے، اور ہر بار ہم نے اپنی شکست کو قسمت سمجھ کر قبول کر لیا۔

    کیا اس کا کوئی حل ہے؟ کیا امت مسلمہ واقعی دوبارہ وہی مقام حاصل کر سکتی ہے؟ کیا ہم واقعی اس پنجرے سے باہر نکل سکتے ہیں؟

    یقیناً! مگر اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنی خوراک نہیں، اپنی ذہنیت کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں وہی کھانا نہیں، وہی غیرت، وہی جرات، وہی مزاج اپنانا ہوگا جو ہمیں فاتحین میں شامل کرتا تھا۔ ہمیں سوچنے کا انداز، فیصلہ سازی کی جرات، قیادت کا شعور اور خود انحصاری کی طرف قدم بڑھانا ہوگا۔ ہمیں تاریخ کو پڑھنا ہوگا، اس سے سیکھنا ہوگا، اور پھر اپنے مستقبل کو خود تشکیل دینا ہوگا۔

    ورنہ ہم یونہی مرغِ مسلم بنے رہیں گے۔ گردن جھکائے، پنجروں میں بند، کسی اور کے رحم و کرم پر۔

  • پانی زندگی ہے – رومانہ گوندل

    پانی زندگی ہے – رومانہ گوندل

    کائنات میں زندگی کا وجود پانی سے ہے۔ لیکن موجودہ دور میں جہاں آبادی بڑھنے سے باقی مسائل آئے ہیں وہی پانی کی کمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے ۔ ہر ملک پانی ذخیرہ کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے بعد عالمی جنگ پانی پہ ہی ہو گی یہ اتنا اہم مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔

    اس لیے دنیا میں ڈیم بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ میٹھا پانی ذخیرہ کرنا ہر ملک کی پالیسی کی اولین ترجیح ہے کیونکہ کسی ملک میں کتنے ہی وسائل ہوں ، پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ لیکن یہی پانی جب امتحان بن جائے تو یہ زندگی کا ہر رنگ ، ہر نقش مٹا دیتا ہے۔ اس کی زندہ مثال اس وقت ہم اپنے ملک میں دیکھ رہے ہیں۔ جہاں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے۔ اسی فیصد ملک سیلاب سے متاثر ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں گھر گر چکے ہیں۔ کروڑوں لوگ متاثر ہیں۔ سڑکیں ، ہوٹل ، بجلی کا نظام سب درہم برہم ہو گیا ہے۔ کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہے اور بارشیں مسلسل جاری ہیں۔ لوگوں کے پاس بارشوں سے بچنے کے لیے بھی سر چھیانے کو خیمے تک نہیں ہے۔ کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ میڈیا رپوٹر بھی وہاں تک پہنچ نہیں پا رہے اس لیے میڈیا بھی یہ نہیں دیکھا رہا کہ کتنا نقصان ہو چکا ہے۔

    [poetry]دور تک چھا ئے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا
    اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا [/poetry]

    المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بارشوں کے موسم میں سیلاب کسی نہ کسی پیمانے پہ ہر سال آتا ہے۔ لوگ مرتے ہیں، بے گھر ہوتے ہیں، مالی اور جانی نقصان ہوتا ہے ۔ پھر بارشیں روکتی ہیں ، پانی خشک ہو جاتا ہے تو سب بھول جاتے ہیں اور پھر اگلے سال وہی کہانی دوہرائی جاتی ہے ۔ اس تباہی سے بچنے کے لیے واحد راستہ ڈیم بنانا ہے، ۔ کیا ایک ڈیم بنانا، اسی فیصد ملک کو دوبارہ اسی حالت میں آباد کرنے سے بھی بڑا مسئلہ ہے۔سارا مسئلہ یہ ہے کہ ملک اور عوام تو کبھی کسی سیاسی پارٹی کے ایجنذے میں رہے ہی نہیں۔ حتی کہ اس نازک وقت پہ پہ جب لوگ مر رہے ہیں تب بھی تمام سیاسی پارٹیاں اپنی سیاست کے لیے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔

    کسی کو مرتے ، ڈوبتے لوگوں کا درد محسوس نہیں ہو رہا۔ اس وقت کی تمام بڑی سیاسی پارٹیاں حکومت میں رہ چکی ہیں لیکن ملک سیلاب اور خشک سالی کے دومیان پھنسا ہو ا ہے۔ ایک طرف پانی سیلاب کی صورت سب بہا کے لے جا رہا ہے اور دوسری طرف پانی کی کمی کے سبب ہمارے زرعی اور بجلی کے بنیادی مسائل حل نہیں ہو پا رہے۔ مسئلہ تو صرف بد انتظامی ہے۔ اگر یہی پانی ڈیم بنا کے محفوظ کیا جا سکے تو نہ ہی کمی رہے گی اور نہ سیلاب آئیں گئے۔ لیکن پتہ نہیں اس ملک کی قیادت کیوں کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ کیونکہ ان کی اپنی زندگیاں محفوظ ہیں۔ پس تو عام آدمی رہا ہے۔

    لمبی منصوبہ بندی تو اپنی جگہ وقتی طور پہ ہی سہی سیاست کو پیچھے چھوڑ کے کوئی اس عوام کے لیے نہیں سوچ رہا۔ کوئی سیاستدان چند دن کے لیے جیل میں چلا جائے تو یہ عوام سڑکوں پہ نکل آتی ہے، سڑکیں بند کر کے ، گاڑیاں جلا کے اپنے ہی ہم وطنوں کا نقصان کرنے لگتے ہیں لیکن جب یہ عوام مرتی ہے تو کون سا درد دل رکھنے والا سیاست دان نکلا ہے عوام کے لیے۔ وہ تو اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر، ایک پر سکون زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے مسئلے ، ان کا درد سیلاب میں اپنی جان، اپنا گھر اور اپنے گھر والوں کو کھونے سے بڑا نہیں ہے۔ اس جنون کا فائدہ اٹھا کے پچھتر سالوں سے عوام کا استحصال ہو رہا ہے۔ یہ عوام کب تک سیلاب میں بہتی رہے گی، دہشت گردوں کے ہاتھوں مرے گی، مہنگائی میں پستی رہے گی۔

    اور اس کے با وجود سیاست دانوں کی عظمت کے گن بھی گاتی رہے گی۔ پانی زندگی ہے لیکن موت بن رہا ہے ،، خوشحالی ہے لیکن تباہی بن رہا ہے ۔ ہمیں اب یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم نے ڈیموں پہ سیاست کر کے اس نقصان سے بار بار گزرنا ہے یا اس سے بچنے کا انتظام کرنا ہے۔

  • خوابوں کے سوداگر – رانا عثمان راجپوت

    خوابوں کے سوداگر – رانا عثمان راجپوت

    خواب انسانی زندگی کا ایک لازمی جزو ہیں۔ یہ وہ روشنی ہیں جو اندھیرے میں راستہ دکھاتی ہیں، وہ امید ہیں جو زندگی کو معنی دیتی ہیں، اور وہ خواہش ہیں جو آگے بڑھنے کی طاقت فراہم کرتی ہیں۔ خواب کسی بھی فرد کی سب سے قیمتی متاع ہوتے ہیں، مگر جب یہی خواب تجارت بن جائیں، جب ان کا سودا ہونے لگے، تو حقیقت تلخ ہو جاتی ہے۔ خواب بیچنے والے ہمیشہ چالاک اور عیار ہوتے ہیں، جو نہ صرف دوسروں کے خوابوں سے کھیلتے ہیں بلکہ اپنی فریب کاری سے ان خوابوں کے اصل مالکوں کو بھی بے وقوف بناتے ہیں۔

    یہ خوابوں کے سوداگر ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ کبھی سیاست کے میدان میں، کبھی محبت کے نام پر، کبھی تعلیم اور کیریئر کے جھوٹے وعدوں میں، اور کبھی مذہب و روحانیت کے پردے میں۔ ان کے ہتھیار مختلف ہو سکتے ہیں، مگر ان کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے—دوسروں کے خواب بیچ کر اپنا مفاد حاصل کرنا۔

    سیاست میں خوابوں کی تجارت
    سب سے بڑے خوابوں کے سوداگر وہ ہوتے ہیں جو سیاست کے میدان میں کھڑے ہو کر خوشحالی، ترقی اور بہتر مستقبل کے سبز باغ دکھاتے ہیں۔ انتخابی مہموں میں عوام سے بڑے بڑے وعدے کیے جاتے ہیں، غربت ختم کرنے، روزگار دینے، اور بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی یقین دہانیاں کرائی جاتی ہیں۔ لوگ ان خوابوں کو حقیقت سمجھ کر ان سیاست دانوں پر بھروسا کرتے ہیں، مگر اقتدار میں آتے ہی یہ خواب ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ عوام ان کی حقیقت جاننے تک ایک اور الیکشن آ جاتا ہے، اور یہی خواب دوبارہ بیچے جاتے ہیں، ایک نئے پیکج کے ساتھ، ایک نئی شکل میں، مگر وہی پرانی چالاکی کے ساتھ۔

    محبت کے نام پر خوابوں کی نیلامی
    محبت بھی خوابوں کی ایک ایسی منڈی ہے، جہاں جذبات کی تجارت کی جاتی ہے۔ اکثر لوگ کسی کے دل میں جگہ بنانے کے لیے بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں—ہمیشہ ساتھ نبھانے کے، ہر حال میں وفادار رہنے کے، ہر مشکل میں ہاتھ تھامنے کے۔ مگر جب وقت آتا ہے، تو یہی وعدے دھوکہ ثابت ہوتے ہیں۔ محبت کے نام پر خوابوں کو بیچ کر، انہیں توڑ کر، کچھ لوگ اپنی راہ بدل لیتے ہیں، جبکہ خواب دیکھنے والے کے پاس صرف پچھتاوا اور دکھ باقی رہ جاتا ہے۔ محبت میں خواب بیچنے والے ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں، کیونکہ خواب خریدنے والے اپنی سچائی اور جذبات کی طاقت کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں۔

    تعلیم اور کیریئر کے خوابوں کی تجارت
    آج کے دور میں تعلیم بھی ایک کاروبار بن چکی ہے۔ یونیورسٹیاں، کوچنگ سینٹرز، اور ٹریننگ انسٹیٹیوٹس نوجوانوں کو یہ خواب دکھاتے ہیں کہ اگر وہ یہاں داخلہ لے لیں، تو ان کا مستقبل روشن ہو جائے گا، انہیں بہترین نوکریاں ملیں گی، اور کامیابی ان کے قدم چومے گی۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ہزاروں طلبہ لاکھوں روپے خرچ کر کے ڈگریاں تو حاصل کر لیتے ہیں، مگر عملی دنیا میں انہیں وہ مواقع نہیں ملتے جن کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یہ خواب صرف ان اداروں کے مفاد کے لیے بیچے جاتے ہیں، جبکہ خواب دیکھنے والوں کو بعد میں احساس ہوتا ہے کہ ان کی محنت اور دولت ایک دھوکے میں ضائع ہو گئی۔

    مذہب اور روحانیت کے نام پر خواب فروشی
    خوابوں کی سب سے خطرناک تجارت وہ ہے جو مذہب اور روحانیت کے نام پر کی جاتی ہے۔ کچھ نام نہاد رہنما لوگوں کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ اگر وہ ان کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلیں، ان کے دیے ہوئے اعمال کریں، تو ان کی دنیا اور آخرت سنور جائے گی۔ روحانی عملیات، جعلی دعائیں، اور معجزات کے وعدے کر کے معصوم اور مجبور لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ ان خوابوں کے عوض بڑی رقمیں وصول کی جاتی ہیں، مگر حقیقت میں کچھ نہیں بدلتا۔ یہ وہ کاروبار ہے جس میں خریدنے والا ہمیشہ نقصان میں رہتا ہے، جبکہ بیچنے والا ہمیشہ فائدے میں۔

    خوابوں کے سوداگروں سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟
    یہ حقیقت ہے کہ خوابوں کا بیچا جانا بند نہیں ہو سکتا، مگر شعور اور آگاہی سے ان سوداگروں کے جال میں پھنسنے سے بچا جا سکتا ہے۔ ہر خواب جو دکھایا جا رہا ہو، ضروری نہیں کہ وہ حقیقت بھی بن سکے۔ اس دنیا میں کچھ بھی مفت نہیں ملتا، اور اگر کوئی کسی کو بغیر محنت کے کچھ دینے کا وعدہ کر رہا ہے، تو وہ یقینی طور پر دھوکہ دے رہا ہے۔

    سب سے اہم بات یہ ہے کہ حقیقی خواب وہی ہوتے ہیں جو انسان خود دیکھے، جنہیں وہ اپنی محنت اور لگن سے پورا کرے۔ اگر کوئی دوسرا تمہیں کوئی خواب دے رہا ہے، تو یاد رکھو کہ وہ اسے بیچ رہا ہے، اور اس کے بدلے میں تم سے کچھ نہ کچھ ضرور لے گا—چاہے وہ تمہاری دولت ہو، تمہارا وقت ہو، یا تمہاری امید۔

    نتیجہ
    خواب خوبصورت ہوتے ہیں، مگر جب ان کی تجارت ہونے لگے تو وہ خواب نہیں رہتے، دھوکہ بن جاتے ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ خوابوں کے سوداگر موجود ہیں، جو کبھی سیاست میں، کبھی محبت میں، کبھی تعلیم اور کیریئر میں، اور کبھی مذہب اور روحانیت میں لوگوں کو سبز باغ دکھا کر ان کا استحصال کرتے ہیں۔ ان سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ انسان شعور رکھے، حقیقت اور فریب میں فرق کرنا سیکھے، اور صرف ان خوابوں پر یقین کرے جو وہ خود دیکھے، خود سمجھے، اور اپنی محنت سے پورے کرے۔ ورنہ یہ دنیا ہمیشہ خواب بیچتی رہے گی، اور خواب خریدنے والے ہمیشہ نقصان میں رہیں گے۔

  • اپنے زورِ بازو پر جنگ اور سیاست – سلمان احمد قریشی

    اپنے زورِ بازو پر جنگ اور سیاست – سلمان احمد قریشی

    تاریخ ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ کوئی ملک یا قیادت دوسروں کے سہارے پر اپنی جنگ لڑ کر کبھی دیرپا کامیابی حاصل نہیں کر سکتی۔جو قومیں یا قیادتیں دوسروں کے سہارے پر اپنی جنگیں لڑتی ہیں، وہ بالآخر بے بسی اور لاچاری کا شکار ہو جاتی ہیں۔ آج دنیا کے حالات پر نظر ڈالیں تو یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کی موجودہ حالت اس کا عملی ثبوت ہے۔ ایک وقت تھا جب مغربی ممالک اور امریکہ اس جنگ کو اپنی جنگ قرار دے کر یوکرین کے ساتھ کھڑے تھے، لیکن جیسے ہی عالمی ترجیحات بدلیں، ویسے ہی یوکرین مشکلات میں گھِرتا چلا گیا۔جنگ کے ابتدائی دنوں میں زیلنسکی کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا، عالمی میڈیا ان کے بیانات کو نمایاں کوریج دے رہا تھا، اور مغربی ممالک،امریکہ انہیں جدید اسلحہ، مالی امداد اور سفارتی حمایت فراہم کر رہے تھے۔لیکن وقت کے ساتھ یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ امریکی حمایت وقتی اور مفادات سے جڑی ہوئی تھی۔ آج یوکرین کو شدید جنگی دباؤ کا سامنا ہے، اس کی معیشت کمزور ہو چکی ہے، لاکھوں شہری بے گھر ہو چکے ہیں، اور عالمی سطح پر اس کے لیے وہ جوش و خروش نظر نہیں آ رہا جو پہلے تھا۔

    دوسری طرف، روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنی حکمت عملی اور خودمختاری کے اصولوں پر چلتے ہوئے جنگ میں اپنی پوزیشن مضبوط رکھی اور آج وہ ایک کامیاب جنگی حکمت کار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔یوکرین جنگ کے دوران ولادیمیر پیوٹن نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر کوئی ملک اپنی طاقت، دفاع، اور سفارتی حکمت عملی پر بھروسہ کرے تو وہ عالمی پابندیوں، سفارتی دباؤ، اور اقتصادی جنگوں کے باوجود بھی اپنی پوزیشن قائم رکھ سکتا ہے۔ مغربی ممالک نے روس پر بے شمار پابندیاں لگائیں، روسی معیشت کو مفلوج کرنے کی کوشش کی، اور یوکرین کو اسلحہ اور مالی امداد فراہم کی، لیکن پیوٹن نے اپنی جنگی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے نہ صرف جنگی محاذ پر کامیابی حاصل کی بلکہ روسی معیشت کو بھی سنبھالے رکھا۔ انہوں نے چین، بھارت، اور دیگر غیر مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے، توانائی کی برآمدات کو جاری رکھا اور مغربی مالیاتی نظام کے متبادل نظام پر کام کیا۔پیوٹن کی اس کامیابی میں سب سے اہم عنصر خود انحصاری اور مضبوط دفاع تھا۔ انہوں نے اس بات پر انحصار نہیں کیا کہ دنیا ان کی حمایت کرے گی یا نہیں، بلکہ اپنی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے فیصلہ کیا اور اس پر قائم رہے۔ ان کا یہ رویہ ان تمام ممالک کے لیے سبق ہے جو عالمی طاقتوں کی مدد پر انحصار کرتے ہیں اور ان کے فیصلوں پر چلتے ہیں۔

    اگر ہم امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست پر نظر ڈالیں تو وہ ایک بالکل مختلف حکمت عملی پر عمل پیرا رہے۔ ٹرمپ نے اپنی سیاست کسی بیرونی سہارے پر نہیں، بلکہ اپنی عوامی حمایت اور اندرونی طاقت پر استوار کی۔ انہوں نے امریکی اسٹیبلشمنٹ، عالمی اداروں، اور حتیٰ کہ اپنی ہی پارٹی کے کچھ حصوں کے خلاف مزاحمت کی، لیکن اپنی پوزیشن کو برقرار رکھا۔ ٹرمپ نے یہ ثابت کیا کہ اگر قیادت کے پاس داخلی استحکام اور خود اعتمادی ہو، تو وہ دباؤ کے باوجود اپنی جگہ بنا سکتی ہے۔

    زیلنسکی کی موجودہ حالت ایک سبق ہے کہ عالمی سیاست میں کامیابی صرف انہیں حاصل ہوتی ہے جو خودمختاری اور داخلی استحکام پر یقین رکھتے ہیں۔ کوئی بھی ملک یا قیادت ہمیشہ دوسروں کے سہارے پر اپنی جنگ نہیں لڑ سکتی۔ طاقت کا اصل سرچشمہ بیرونی امداد نہیں بلکہ اندرونی خود انحصاری اور عوامی حمایت ہوتی ہے۔

    یوکرین کی جنگ نے یہ بھی ثابت کیا کہ طاقتور ممالک چھوٹے اور کمزور ممالک کو محض اپنے مفادات کے تحت استعمال کرتے ہیں، اور جب وہ اپنے مقاصد پورے کر لیتے ہیں، تو حمایت کمزور پڑ جاتی ہے۔امریکہ کے بدلتے رویے نے دنیا کو ایک بار پھر یہ باور کرایا کہ حقیقی خودمختاری اور بقا کا دارومدار صرف اندرونی طاقت پر ہوتا ہے، نہ کہ کسی بیرونی امداد یا وعدے پر۔یہی وہ نکتہ ہے جو تاریخ میں بار بار دہرایا گیا ہے۔چاہے وہ قدیم سلطنتوں کی جنگیں ہوں، یا جدید ریاستوں کے معرکے، وہی قیادتیں کامیاب رہتی ہیں جو اپنے زورِ بازو پر انحصار کرتی ہیں، نہ کہ دوسروں کے سہارے پر۔

    یہی سبق پاکستان اور بھارت کے لیے بھی ہے کہ وہ اپنے معاملات خود طے کریں، کیونکہ دنیا تماشہ دیکھتی ہے اور جو کچھ بھی مدد کے نام پر دیا جاتا ہے، وہ حقیقت میں مفادات کا کھیل ہوتا ہے۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں امریکہ نے سویت یونین کے خلاف اپنے مقاصد کو ”جہاد” کا نام دے کر پاکستان اور افغانستان کو ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا جس کا خمیازہ آج تک بھگتنا پڑ رہا ہے۔ امریکہ کے لیے یہ جنگ بس ایک شطرنج کا کھیل تھی، جس کے ذریعے اس نے سویت یونین کو تحلیل کروا کر خود دنیا کا واحد سپر پاور بننے کی راہ ہموار کر لی۔ لیکن اس کھیل میں پاکستان اور افغانستان کے حصے میں تباہی اور عدم استحکام آیا۔ امریکہ نے اپنے مقاصد کے لیے جنگ لڑوائی، سوویت یونین کو کمزور کیا، اور پھر جب کام ختم ہو گیا تو پاکستان اور افغانستان کو مسائل میں گھرا چھوڑ دیا۔ یہ ایک ایسا سبق ہے جو عرب ممالک سمیت تمام چھوٹے ممالک کو سیکھنا چاہیے کہ عالمی طاقتیں صرف اپنے مفادات کے لیے دوست بنتی ہیں، نہ کہ کسی کی بہتری کے لیے۔

    آج اگر دنیا کے کسی بھی خطے میں حقیقی امن کا سوال کیا جائے تو اس کا جواب صرف ایک ہے۔ مضبوط دفاع اور خودکفالت کوئی بھی ملک قرضوں اور امداد کے سہارے نہ مستحکم ہو سکتا ہے، نہ ہی اپنا حق حاصل کر سکتا ہے۔ کمزور ہمیشہ دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، اور جب فیصلہ سازی کا وقت آتا ہے تو اسے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ یہی اصول عالمی سیاست پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ طاقتور ممالک ہمیشہ اپنے مفادات کی جنگ لڑتے ہیں، اور عالمی امن کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

    پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی کئی مسائل موجود ہیں، لیکن ان کا حل صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب دونوں ممالک اپنے فیصلے خود کریں۔ دنیا کے طاقتور ممالک ان کے تنازعات سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنے اسلحے کی فروخت، سفارتی دباؤ اور علاقائی چالوں کے ذریعے اپنی برتری قائم رکھتے ہیں۔ اگر جنوبی ایشیا میں واقعی دیرپا امن چاہیے تو اس کا راستہ خودمختاری، مضبوط دفاع، اور اقتصادی خودکفالت سے ہو کر گزرتا ہے، نہ کہ بیرونی امداد یا عالمی طاقتوں کی ثالثی سے۔پیوٹن کی حکمت عملی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ عالمی سیاست میں وہی کامیاب ہوتا ہے جو اپنے فیصلے خود کرے، اپنی طاقت پر بھروسہ کرے اور دوسروں کی جنگ میں مہرہ نہ بنے۔ آج یوکرین مشکلات میں ہے کیونکہ اس نے مغرب اورامریکہ پر انحصار کیا، جبکہ روس اپنی طاقت کے سہارے کھڑا ہے اور کامیابی کی طرف بڑھ رہا ہے۔یہ وقت ہے کہ پاکستان، بھارت، اور دیگر علاقائی ممالک تاریخ سے سبق سیکھیں اور اپنے فیصلے خود کریں، کیونکہ کمزور ہمیشہ دوسروں کی جنگ کا ایندھن بنتا ہے، جبکہ طاقتور اپنی تقدیر خود لکھتا ہے۔

  • کچھ اسباق جو زندگی نے مجھے سکھائے ہیں۔ سید مہدی بخاری

    کچھ اسباق جو زندگی نے مجھے سکھائے ہیں۔ سید مہدی بخاری

    ۔ کسی دوست کو اس کی مشکل میں اس کی درخواست پر ادھار دے کر واپس مانگنا بدترین جرم ہوتا ہے۔ اس کی پاداش میں پرانا تعلق بھی ختم ہو جاتا ہے۔

    – کاروباری شراکت میں پیسے ڈالنا چاہے سگے بھائی کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو ایک اور بدترین جرم ہے۔ آپ کو بوقت ضرورت اپنے پیسے واپس مانگنے کو ترلے منت کرنا پڑتے ہیں۔

    – زندگی مختصر ہے۔ اپنا وقت ان لوگوں کے ساتھ گذاریں جو آپ کو اچھے لگتے ہوں۔ اپنے اردگرد منفی رجحان رکھنے والوں یا قطعیت پسندوں سے فوری چھٹکارا حاصل کریں۔ خود کو بحث و مباحث میں نہ الجھائیں۔ اگر کوئی مصر ہو کہ ہاتھی اڑتا ہے تو اسے کہیں بالکل میں نے تار پر بیٹھا دیکھا تھا۔

    ۔ سوشل میڈیا آج کے دور میں زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ یہاں اپنے اردگرد کی صفائی بھی ویسی ہی ضروری ہے جیسی نجی زندگی میں۔ انتہاپسندوں ، وہ چاہے سیاسی ہوں یا مذہبی یا دائیں سوچ کے یا بائیں سوچ کے ، سب سے چھٹکارا حاصل کریں اور معتدل مزاج لوگوں کے ساتھ لنک رہیں۔ دنیا میں کوئی تاریخ، نظریہ، یا بات حرفِ آخر نہیں ہوتی۔

    ۔ دوسروں کو خوش کرنے کے بارے اتنا نہ سوچیں۔ آپ یقین کریں کہ لوگ اپنا کام نکلوا کر آپ کو بھول جائیں گے۔ یہ میرے ذاتی تجربات ہیں۔ صرف اپنی و اپنے اہل خانہ کی ذمہ داریوں کی پرواہ کریں۔

    ۔ سامنے آنے والے کسی واقعہ، سانحے یا بات کو جذبات کی عینک سے نہ دیکھیں۔ جذبات کا تعلق انسان کے خاص ہارمون سے وابستہ ہے۔ یہ ہارمون سوچنے کی صلاحیت کو دھندلا دیتا ہے۔ کوئی بھی چھوٹا یا بڑا فیصلہ فوری نہ لیں۔ اس پر کچھ دن ہر پہلو سے غور کریں۔ آپ یقین مانیں لوگ دوسرے لوگوں کا جذباتی استحصال کر گزرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آپ جذباتی انسان ہیں۔

    ۔ دوستوں کو اتنی اہمیت دیں جتنی وہ آپ کو دیتے ہیں۔ بلاوجہ کسی کے معاملات میں مشورہ نہ دیں جب تک خود آپ سے مشورہ نہ مانگ لیا جائے۔ کسی بھی تعلق کو برابری کی سطح پر رکھیں۔ آپ سے بڑا کوئی وی آئی پی نہیں۔ تعلقات باہمی عزت و احترام کا نام ہے۔ کسی کے لیے بچھے چلے جانا آپ کو اگلے کی نظر میں ٹشو پیپر بنا دیتا ہے۔ لوگ ایسے ہی سوچتے اور ایسا ہی رویہ اختیار کرتے ہیں۔

    ۔ اگر کوئی آپ کی پریشانی میں حوصلہ نہیں دے سکتا یا آپ کی خوشی میں خوش نہیں ہو سکتا تو آپ کا بھی حق ہے کہ اس سے اسی طرح کا سلوک روا رکھیں۔ اخلاص، مروت اور احساس سب آج کے زمانے میں کلیشے الفاظ ہیں جو اپنے معنی کھو چکے ہیں۔ ان سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

    ۔ جس شخص کے پاس مذہب و سیاست کے علاوہ کوئی تیسرا موضوع نہ ہو اس سے دوری اختیار کریں۔ مذہب و سیاست وہ موضوعات ہیں جو ہر انسان کے مطابق الگ طرح سے ہیں۔ ان پر ریڑھی بان سے لے کر بائیسویں گریڈ کے بابو تک ہر کسی کی اپنی رائے ہے اور ہر کوئی ان موضوعات کا تجزیہ نگار ہے۔ ان موضوعات پر مسلسل لکھنے والے آپ کو کچھ نہیں سکھا سکتے نہ ہی یہ موضوعات کسی کے باہنر ہونے کی سند بن سکتے ہیں۔

    ۔ کسی بھی امر میں انسانوں کی بیساکھیاں نہ تلاش کریں۔ لوگ اگر آپ کو سہارا دینے کو بیساکھی بنیں گے بھی تو وہ ساری دنیا کو بھی بتائیں گے کہ فلاں کی فلاں وقت فلاں طریقے سے مدد کی تھی۔ اپنی راہ خود تلاشیں۔ اپنے معاملات خود حل کریں۔ ضرورت سے بڑی کوئی طاقت نہیں اور بھوک سے بڑا کوئی موٹیویشنل سپیکر نہیں۔ یہ دونوں آپ کو راہ دکھاتے ہیں باقی آپ کی صلاحیت پر منحصر ہے۔

    ۔ عزت نفس پر سودے بازی کرنا آسان ترین حل ہوتا ہے۔ یہ آپ کو وقتی مسائل سے نکال سکتا ہے مگر پھر تمام عمر آپ کی عزت کمپرومائز رہتی ہے۔

    ۔ اگر کوئی کام آپ کے بس نہ ہو تو اگلے کو صاف انکار کر کے اس کا دل توڈ دینا اسے لارا لگائے رکھنے سے بہتر ہے۔ اگر اگلا سمجھدار ہو گا تو آپ کو مزید عزت دے گا اور ناسمجھ ہو گا یا آپ کا استعمال کرنا ہی اس کا مقصد ہو گا تو اس سے جان چھوٹ جائے گی۔

    ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کتنی تکلیف برداشت کر رہے ہیں۔ زندگی کسی کے لیے نہیں رکتی۔ لوگ رونے والے کے ساتھ نہیں روتے صرف ہنسنے والے کے ساتھ ہنستے ہیں۔

    ۔ اگر وسائل ہوں تو نادار و مستحق لوگوں کی مدد کریں مگر انہیں بھیک پر پلنا نہ سکھائیں۔ مدد اس طرح کریں کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہو۔ مدد کا ہر وہ طریقہ جو sustainable نہیں وہ ایسا کنواں ہے جو آپ کا سارا سرمایہ بھی کھا سکتا ہے اور آخر کار پھر مسئلہ وہیں کا وہیں کھڑا ہوتا ہے۔

    ۔ غربت ہو یا امارت، خوش رہنا سیکھیں۔ لوگوں کی بے جا پرواہ نہ کریں لوگ نہ آپ کی امارت پہ خوش ہوں گے نہ آپ کی غربت میں آپ کے مددگار بنیں گے۔ خوشی کا تعلق آپ کے اندرونی موسم سے ہوتا ہے اور یہ موسم انسان کو خود بنانا پڑتا ہے۔ سرما کی دھوپ فرصت میں سینکتے رہنا بھی خوشی کا سبب بن سکتا ہے اور مہنگے مالز میں شاپنگ کر کے بھی انسان کو بے چینی گھیرتی ہے۔

    ۔ غریب کے سامنے اپنی امارت کا ذکر اور امیر کے سامنے اپنے نامساعد حالات کا ذکر ہرگز نہ کریں۔ ایسا کر کے آپ اس کی نظر سے گر جائیں گے۔ہاں کوئی خود حالات معلوم کرنا چاہے تو اس کے کہنے پر ذکرکر دینا نامناسب نہیں۔

    ۔خونی یا خاندانی رشتوں کے بیچ مالی و گھریلو معاملات میں خود نہ پڑیں جب تلک آپ کو دعوت نہ دی جائے۔ خود سے ری ایکٹ کرنا یا از خود نوٹس لے کر کوئی بات یا عمل کرنا معاملات کو مزید الجھا دیتا ہے اور اگلا اس کو اپنے گھر میں بے جا مداخلت سمجھ سکتا ہے۔

    ۔آپ سے بڑا کوئی وی آئی پی نہیں۔ کسی کو ضرورت سے زیادہ اہمیت نہ دیں۔ اکثر لوگ اس کو for granted لے لیتے ہیں۔

    ۔اگر آپ کی عمر ، قابلیت اور حالات اجازت دیتے ہیں تو جلد از جلد جہاں سینگ سمائے اس ملک کو بھاگ لیں۔ انسان کا وہی معاشرہ ہے جہاں اسے معاشی، قانونی ، جانی اور ریاستی تحفظ میسر ہو۔ باقی جنم بھومی ہے یا آبائی وطن ہے، جہاں پیدا ہونے یا نہ ہونے کا اختیار کسی انسان کے پاس نہیں ہوتا۔

    ۔زندگی مختصر ہے اس کو انتہائی منظم طریقے سے گزاریں۔ اسے جھگڑوں ، ضد اور انا کی بھینٹ مت چڑھائیں۔

    ۔قسمت کا انتظار بے وقوفی ہے،اپنا اور زندگی کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کریں۔

    ۔کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ اپنی توانائی دوسروں کے پیچھے بھاگنے پر صرف نہ کریں۔ پیراشوٹ سے اترے لوگ کبھی عزت نہیں کما سکتے۔

    ۔غیر ضروری معاملات، غیر ضروری لوگوں اور غیر ضروری تنقید کو اگنور کرنے کی عادت ڈالیں۔ سنی سنائی باتوں پر طیش میں آنا جہالت ہے۔

    ۔زندگی کا کوئی بھی بڑا اور اہم فیصلہ لینے سے پہلے اگلے دس سالوں کو ذہن میں رکھیں کہ اس فیصلے کے اچھے یا برے اثرات آنے والے دس سالوں میں کیا ہو سکتے ہیں۔

    اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کہنے کو ہے مگر مضمون لمبا ہوتا جا رہا ہے۔ اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ

    کون سیکھا ہے صرف باتوں سے
    سب کو اک حادثہ ضروری ہے

    بی ہیپی آلویز۔