Tag: سوشل میڈیا

  • نوجوان اور سوشل میڈیا – صیام عثمانی

    نوجوان اور سوشل میڈیا – صیام عثمانی

    آج کا دور ٹیکنالوجی اور معلومات کا دور ہے۔ جہاں زندگی کے مختلف شعبے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں، وہیں سوشل میڈیا ایک طاقتور ذریعہ بن چکا ہے جس نے دنیا کو ایک “عالمی گاؤں” میں تبدیل کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا نے رابطے آسان بنائے ہیں، معلومات تک فوری رسائی دی ہے اور اظہارِ خیال کے مواقع فراہم کیے ہیں۔

    لیکن سوال یہ ہے: کیا نوجوان اس ٹیکنالوجی سے درست فائدہ اٹھا رہے ہیں یا اس کے منفی اثرات کا شکار ہو رہے ہیں؟ سوشل میڈیا کا پہلا بڑا فائدہ معلومات تک فوری رسائی ہے۔ نوجوان چند لمحوں میں دنیا بھر کی خبریں، سائنسی تحقیق، تعلیمی مواد اور نصیحت آموز ویڈیوز تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ اس سے ان کی فکری اور تعلیمی سطح بلند ہوتی ہے۔دوسرا پہلو، اظہارِ خیال کی آزادی ہے۔ نوجوان آج بلاگ، ویڈیوز، ٹوئٹس، اور پوسٹس کے ذریعے اپنے خیالات بیان کر سکتے ہیں۔ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ایک پلیٹ فارم میسر آ گیا ہے۔

    تیسرا فائدہ، ربط و تعلق ہے۔ سوشل میڈیا نے دنیا بھر میں رابطوں کو سہل بنا دیا ہے۔ نوجوان مختلف ممالک کے افراد سے تعلقات قائم کرتے ہیں، ثقافتوں سے واقف ہوتے ہیں اور ایک عالمگیر سوچ کو پروان چڑھاتے ہیں۔
    جہاں سوشل میڈیا فوائد کا حامل ہے، وہیں اس کے نقصانات بھی قابلِ توجہ ہیں۔ نوجوان اکثر سوشل میڈیا کے نشے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وقت کا ضیاع، نیند کی کمی، پڑھائی سے دوری اور ذہنی انتشار اس کے عام اثرات ہیں۔

    دوسرا نقصان، شخصیت کی ساخت پر ہوتا ہے۔ نوجوان اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں۔ وہ دوسروں کی “مصنوعی” زندگیوں کو دیکھ کر احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ وہ ظاہری نمائش اور لائکس کی دوڑ میں اپنی اصل صلاحیتوں کو نظر انداز کر بیٹھتے ہیں۔

    تیسرا خطرہ، اخلاقی زوال کا ہے۔ سوشل میڈیا پر فحاشی، بے حیائی، جھوٹ، دھوکہ دہی اور منفی مواد کی بھرمار ہے۔ کم عمر ذہن ان چیزوں سے جلد متاثر ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات یہ ان کی زندگی کو تباہ کن راہ پر ڈال دیتا ہے۔ سوشل میڈیا ایک طاقتور ہتھیار ہے، جسے نوجوان بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرنے کے لیے بھی۔ فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے۔

    اگر صحیح رہنمائی، اعتدال، اور نیت ہو تو سوشل میڈیا علم، ترقی اور اخلاقی شعور کے فروغ کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اس کے استعمال میں توازن پیدا کریں، تاکہ وہ خود بھی سنوریں اور معاشرہ بھی۔

  • سوشل میڈیا کا مثبت استعمال اور آداب  – بنت اشرف

    سوشل میڈیا کا مثبت استعمال اور آداب – بنت اشرف

    سوشل میڈیا موجودہ صدی کا سب سے بڑا انقلاب ہے جس نے پوری دنیا کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے ۔ انسان نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ پوری کی پوری دنیا سمٹ کر اس کے ہاتھوں میں ایک موبائل ڈیوائس کے ذریعے سما جائے گی۔ گویا سوشل میڈیا نے پوری دنیا کوصحیح معنوں میں ایک گلوبل ویلج کی شکل دے دی ہے ۔

    سوشل میڈیا اس وقت دنیا کا سب سے برق رفتار ہتھیار ہے ، مختلف سوشل میڈیا ایپلیکیشنز نے پوری دنیا میں رہنے والے سات ارب سے زائد افراد کو اپنے سحر میں مبتلا کر رکھا ہے۔

    پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد
    پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک میں تمام پلیٹ فارمز پر سوشل میڈیا صارفین کی تعداد سولہ کروڑ سے زائد ہے ۔ ملک میں سب سے زیادہ یوٹیوب صارفین ہیں جن کی تعداد سات کروڑ ستر لاکھ ہے ، اسی طرح فیس بک کے صارفین کی تعداد پانچ کروڑ اکہتر لاکھ ہے۔ یو ٹیوب کے مرد صارفین کا تناسب 72 فیصد جبکہ خواتین کا 28 فیصد ہے ۔اسی طرح فیس بک کے 71 فیصد مرد صارفین ہیں اور 22 فیصد خواتین ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق ٹک ٹاک صارف ایک کروڑ تراسی لاکھ ہیں ، ان میں بیاسی فیصد مرد ٹک ٹاکرز ہیں اور خواتین اٹھارہ فیصد ہیں ۔ پاکستان میں انسٹا گرام صارفین کی تعداد ایک کروڑ اڑتیس لاکھ ہے اور ان میں پینسٹھ فیصد مرد اور چونتیس فیصد خواتین ہیں ۔

    سوشل میڈیا کا مثبت استعمال
    سوشل میڈیا آج کے دور کا بہت بڑا نیٹ ورک ہے جس کا مثبت استعمال ہمارے لیے بہت ہی فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔

    1۔کمائی کا بہترین ذریعہ
    اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ سوشل میڈیا کمائی کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ یوٹیوب پر کافی عرصہ سے لوگ اپنے چینلز کے ذریعہ آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔ خرید و فروخت کے بہت سارے مسائل بھی اس کے ذریعہ آسان ہوچکے ہیں۔

    2۔معلومات کا اشتراک
    سوشل میڈیا کسی بھی موضوع پر بر وقت معلومات جیسے، صحت، اسپورٹس اور دیگر موضوعات کی اپڈیٹس فراہم کرتا ہے۔

    3۔ذریعہ حصول تعلیم و تعلم
    نوجوان سوشل میڈیا کو تعلیم حاصل کرنے کا ذریعہ بنا کر اس سے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ سیکھنے اور معلومات حاصل کرنے والوں کیلئے بہترین پلیٹ فارم ہے۔سوشل میڈیا پر موجود مختلف تعلیمی ویڈیوز ،لیکچرز اور ٹیوٹوریلز کے ذریعے طلبہ اپنی تعلیم کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔

    4۔سماجی خدمت اور خیر خواہی
    سماجی مسائل کو اجاگر کرنے اور مستحق لوگوں کی مدد کرنے کے لیے سوشل میڈیا ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔ ہم کئی فلاحی کام اور ضرورت مندوں کی مدد کے لیے اس کا استعمال کر سکتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
    [arabic]”خَيْرُ النَّاسِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ”[/arabic]
    (لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے۔) (مسند احمد: 23408)

    5۔سما جی رابطوں کا ذریعہ
    سوشل میڈیا کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ یہ لوگوں کے درمیان رابطے کے ذرائع کو سہل بناتا ہے اس کے ذریعے ہم اپنے دوستوں عزیزوں اور رشتہ داروں سے دوری کے باوجود جڑے رہتے ہيں۔

    6۔مثبت نظریات اور اخلاقی اقدار کی ترویج
    ہم سوشل میڈیا کو اچھے خیالات، دینی اور اخلاقی اقدار، اور مثبت پیغامات پھیلانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ نبی ﷺکا فرمان ہے: “جو شخص کسی شخص کو بھلائی کی طرف رہنمائی کرتا ہے وہ اس کے برابر اجر پاتا ہے۔” (صحیح مسلم ) نیز اس کے ذریعے ہم دوسروں کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں اور ایک خوشگوار معاشرتی فضا قائم کر سکتے ہیں۔

    سوشل میڈیا کے آداب:
    کسی بھی خبر یا معلومات کو شیئر کرنے سے پہلے اس کی تصدیق کرنا ضروری ہے۔ جھوٹی خبریں اور افواہیں پھیلانے سے نہ صرف معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ضرورت سے زیادہ وقت گزارنا وقت کا ضیاع ہے۔ اس کا استعمال معتدل انداز میں کرنا چاہیے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
    [arabic]”نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ”[/arabic]
    (دو نعمتیں ایسی ہیں جن کی قدر اکثر لوگ نہیں کرتے: صحت اور فارغ وقت۔) (بخاری: 6412)

    اختلافِ رائے کو مہذب انداز میں بیان کرنا اور دوسروں کے نقطہ نظر کو برداشت کرنا سوشل میڈیا کے آداب میں شامل ہے۔ غیر ضروری بحث مباحثے،ایک دوسرے کا مذاق اڑانے اور گالم گلوچ سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    [arabic] “يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ”[/arabic]
    (اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اُڑائے۔) (سورۃ الحجرات: 11)

  • کانٹینٹ میکرز اور سوشل میڈیا  – عالیہ منصور

    کانٹینٹ میکرز اور سوشل میڈیا – عالیہ منصور

    اخبار میں شائع ایک خبر پڑھی کہ ضلع سیالکوٹ میں اوورسیز پاکستانی کی شادی میں نوٹوں کی برسات کردی گئی۔رپورٹ کے مطابق بھائیوں اور دوستوں نے 50 لاکھ سے زاید ملکی و غیر ملکی کرنسی لٹا دی، کرنسی نوٹ نچاوڑ کرنے کے لیے شادی ہال میں خصوصی کنٹینر رکھوایا گیا تھاکنٹیرپر کھڑے افراد نے پیسے نچھاور کئے.

    نوٹ اڑانے والا رواج ملک کے کئی علاقوں اور برادریوں میں ہوتا رہا ہے اپنی بساط سے بڑھ کر نمائش ہماری زندگی کا حصہ بن گئی ہے ۔لیکن شادیوں میں پیسے اڑانے کی اس غیر مناسب روایت کو حال ہی میں چند یوٹیبرز نے مزید بڑھاوا دیا اور اپنی شادی میں خود یا انکے دوستوں نے لاکھوں روپے ہوا میں اڑا دیئے جسے لوٹنے والوں نے لوٹا اور گھر کی راہ لی ۔اس سے وہ لوگ بھی متاثر ہوئے جن کے ہاں دور دور تک ایسا کوئی رواج نہیں رہا اور انہوں نے بھی اپنی تقاریب میں پہلی بار اپنی شان کے اظہار کے لئے نوٹ اڑا کر شوق پورا کیا۔

    ان انفلوئنسرز کے سبسکرائیبرز جو کہ عموماً بچے اور ٹین ایجرز ہوتے ہیں نے ان سے جو موٹیویشن کہہ لیں یا انسپریشن کہہ لیں حاصل کی وہ آگے اس سے بڑھ کر کچھ کر دکھانے کا عزم ہی ہوگا بہرحال سوچنے کی بات ہے محنت سے کمائی ہوئی حق حلال کی دولت کوئی کیسے اس طرح ہوا میں اڑا سکتا ہے ،یہ نام نہاد یوٹیوبرز و ٹک ٹاکرز جن کے کئی ملین سبسکرائیبرز ہیں وہ کیسی زبان اور کیا کچھ دکھا کر معاشرے کی ایک نسل تیار کررہے ہیں اسکا اندازہ آگے چل کر ہوگا ،خاص طور پر کراچی کی ایک نسل 80 کی دہائی میں تیار کی گئی جسکی زبان کے ساتھ دہن بھی بگڑ گیا .

    یعنی منہ آسمان کی طرف کرکے بمبئی اسٹائل اردو بولنے والی گٹکا نسل جس میں سے بیشتر کے نیفے میں ٹی ٹی ہوا کرتی تھی اور اب ان یوٹیبرز اور ٹک ٹاکرز کے سائے میں پلنے والی سوشل میڈیائی نسل کیا گل کھلائے گی !!!! کہنے والے کہہ سکتے ہیں انکا پیسا انکی مرضی آپ کو کیا تکلیف ۔۔۔۔۔

    کہنے میں تو بات تو ٹھیک ہے. مگر تکلیف ہے اور کیوں نہ ہو قرضوں میں جکڑےوطن عزیز کے حالات کے ساتھ نسلیں بھی خراب ہورہی ہیں تعلیم و تربیت بستر مرگ پر ہیں اور سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر موجود یہ افراد کانٹینٹ کے لئے سب کچھ لٹانے پر تیار ہیں۔یعنی پیسے اور مشہوری کے لئے کچھ بھی !

    زیادہ پیسہ آتا ہے تو زیادہ کانٹینٹ درکار ہوتا ہے. لہذا انکی فیملیز کے سنجیدہ افراد بھی آہستہ آہستہ کانٹینٹ کی فراہمی میں انکے ساتھ تعاون کرنے لگتے اور عجیب عجیب باتیں اور حرکتیں ان سے بھی سرزد ہوتی ہیں ،یعنی چھوٹے میاں تو چھوٹے میاں بڑے میاں سبحان اللہ ۔ پورے پورے خاندان موبائل پکڑ کر یوٹیوب ولاگنگ کے منافع بخش بزنس میں لگ جاتے ہیں پڑھنا پڑھانا تو ایک طرف اب تو یہی بزنس ہے کہ دن بھر ولاگنگ کرو رات گئے ایڈیٹنگ دن چڑھے اٹھو اور ولاگ اپلوڈ کردو ۔اللہ اللہ خیر صلا

    ہمیں ولاگنگ یا یوٹیوب ویڈیوز بنانے پر اعتراض ہرگز نہیں، مسئلہ کانٹینٹ کا ہے ۔جتنا معیار سے گرا ہوا بے مقصد کانٹینٹ جس میں آپ اپنی ذاتی زندگی اور بیوی بچوں خاندان، دوستیاں اور اوٹ پٹانگ حرکتیں دکھائیں اتنی ریٹنگ زیادہ لہذا اس منافع کے حصول لئے پھر کیا کچھ ہورہا ہے وہ آپ خود سمجھدار ہیں ۔ اس میں اچھا مناسب اور فائدہ مند معیاری کانٹینٹ بھی ہے اور دوسری۔ طرف انتہائی فضول اور بے مقصد بھی ، ریٹنگ کس کانٹینٹ کو مل رہی ہے اس سے اس خام مال (نسل)کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو یہاں تیار ہورہا ہے .

    سوچنے کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والی خصوصاً کچی عمر کی ہماری نسل کس سے کیا سیکھ رہی ہے اسکی فکر کہیں کسی پلیٹ فارم پر نظر نہیں آرہی ؟

  • سوشل میڈیا،  نعمت یا زحمت – میاں عمیر

    سوشل میڈیا، نعمت یا زحمت – میاں عمیر

    سوشل میڈیا ایک نعمت بن سکتا تھا، لیکن بدقسمتی سے ہم نے اسے زہر بنا دیا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں لوگ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں، الزامات لگاتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں، اور دوسروں کی تذلیل کو تفریح سمجھتے ہیں۔

    لوگ اپنی طرف سے طاقتور نظر آنے کے لیے دوسروں کی عزت خراب کرتے ہیں، اور تماشائی ان جھگڑوں کا مزہ لیتے ہیں، جیسے کوئی تماشہ دیکھ رہے ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی کو پرواہ نہیں کہ آپ کیا کھو رہے ہیں یا آپ کی عزت مٹی میں مل رہی ہے۔قرآن مجید میں ارشاد ہے:

    “اور نہ تم ایک دوسرے کی غیبت کرو۔ کیا تم میں سے کوئی پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟”(الحجرات: 12)

    سوچیں، کیا ہم واقعی اس مقام پر آ گئے ہیں کہ کسی کی برائی یا تذلیل ہمارے لیے تفریح بن چکی ہے؟
    • کتنی ہی بار ہم نے دیکھا ہے کہ ایک معمولی تبصرہ کس طرح دشمنی میں بدل جاتا ہے۔
    • سیاست کے نام پر ایک دوسرے کے خلاف اتنی نفرت پیدا ہو چکی ہے کہ دوست دشمن بن گئے ہیں۔
    • کچھ لوگ جھوٹی خبریں یا تصاویر پھیلا کر نہ صرف اپنی دشمنیاں بڑھاتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی تباہ کرتے ہیں۔
    • ایسے کیسز موجود ہیں جہاں سوشل میڈیا پر شروع ہونے والے تنازعات حقیقی زندگی میں جان لیوا دشمنیوں میں بدل چکے ہیں۔

    رومیؒ نے کہا تھا:

    “جب تم کسی کی برائی کرتے ہو، درحقیقت تم اپنی زبان کی گندگی ظاہر کرتے ہو۔”

    ایک مشہور واقعہ یہ ہے کہ ایک نوجوان کی ویڈیو، جس میں اس کا مذاق اڑایا جا رہا تھا، وائرل ہوئی۔ اس مذاق کی وجہ سے وہ ذہنی دباؤ میں چلا گیا اور اپنی جان لے لی۔ ایسے ہی کئی واقعات ہیں جہاں جھوٹے الزامات یا غیر ذمہ دارانہ پوسٹس نے لوگوں کی زندگی برباد کر دی۔

    مارک ٹوین نے خوب کہا:

    “جھوٹ آدھی دنیا کا سفر کر لیتا ہے، جب کہ سچ ابھی جوتے پہن رہا ہوتا ہے۔”

    آپ کے ایک غلط تبصرے سے:
    • کسی کا رشتہ ٹوٹ سکتا ہے۔
    • کسی کی ذہنی صحت تباہ ہو سکتی ہے۔
    • کسی کی عزت خاک میں مل سکتی ہے۔
    اور آپ کو لگتا ہے کہ یہ سب صرف ایک “مذاق” ہے؟

    حدیثِ نبوی ﷺ:

    “مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔”

    یہ پیغام آپ سب کے لیے ہے:
    • کوئی بھی بات کہنے یا پوسٹ کرنے سے پہلے سوچیں، کیا یہ اللہ کو پسند آئے گی؟
    • کیا یہ کسی کو فائدہ دے گی، یا نقصان؟
    • کیا یہ کسی کی زندگی سنوار سکتی ہے، یا تباہ؟

    سوشل میڈیا کا صحیح استعمال کریں۔ اسے محبت، علم، اور بھلائی پھیلانے کا ذریعہ بنائیں، نہ کہ دشمنیاں اور نفرت پیدا کرنے کا۔ یاد رکھیں، دنیا دیکھ رہی ہے اور آپ کے الفاظ آپ کی پہچان ہیں۔

    “نفرت کو ختم کرنے کے لیے محبت کو عام کریں، تاکہ سچائی کا راستہ کھل سکے۔”
    (رومیؒ)

  • سائبر کرائم اور روحانی مانیٹرنگ -عارف علی شاہ

    سائبر کرائم اور روحانی مانیٹرنگ -عارف علی شاہ

    ذرا ایک لمحے کو تصور کیجیے،آپ رات کی تاریکی میں تنہا بیٹھے ہیں، موبائل کی روشنی چہرے پر پڑ رہی ہے، اردگرد کوئی نہیں،بس آپ اور اسکرین۔ آپ کے انگلیوں کا ہر لمس، ہر کلک، ہر میسج، ہر سرچ ،جیسے کسی ان دیکھے کمرے میں گونج رہا ہو۔ آپ سمجھتے ہیں یہ رازداری ہے، پر درحقیقت یہ عدالت ہے ۔ ایک الٰہی عدالت، جہاں ہر حرکت، ہر نیت، ہر Send اور ہر Delete محفوظ ہو رہا ہے۔

    قرآن کی آیت کانوں میں گونجتی ہے:[arabic]مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَیْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (ق:18) [/arabic] کوئی لفظ بھی زبان سے نہیں نکلتا مگر ایک نگران لکھنے پر مامور ہوتا ہے۔

    اور ہم؟ سمجھتے ہیں کہ خفیہ براؤزر، فیک آئی ڈی، یا انکرپٹڈ چیٹ ہمیں محفوظ بنا لیں گے؟ نہیں صاحب، ربّ العالمین کے نظام میں کوئی VPN نہیں لگتا، وہاں نیت بھی لاگ اِن ہوتی ہے، اور ندامت بھی لائف لانگ ریکارڈ میں چپک جاتی ہے۔

    سائبر کرائم آج کا لفظ ہے، مگر اس کا وجود اتنا ہی پرانا ہے جتنا نفس کا فریب۔ آج کل کے ہیکر وہی پرانے چور ہیں، صرف آلہ بدل گیا۔ آج کی بلیک میلنگ وہی پرانی فتنہ پروری ہے، بس طریقہ بدل گیا۔ وہی جھوٹ، بہتان، غیبت، تجسس… بس اب فیس بک کی پوسٹ، انسٹا کی اسٹوری، یا واٹس ایپ کے اسکرین شاٹ میں لپٹا ہوا۔

    قرآن چیخ چیخ کر کہتا ہے: [arabic]وَلَا تَجَسَّسُوا [/arabic] ،تجسس مت کرو۔
    نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں: جس نے کسی مسلمان کو اذیت دی، اس نے گویا اللہ کو اذیت دی (المعجم الاوسط)۔

    اب ذرا اسلامی تاریخ کی طرف پلٹتے ہیں ،ایک شام حضرت عمرؓ گشت پر نکلے، ایک آواز آتی ہے، ایک گھر میں کوئی شراب پی رہا ہے۔ جو اس کی مخفی کمزوری ہے،عمرؓ دروازہ پھلانگ کر اندر داخل ہو جاتے ہیں، اور جرم پر پکڑ لیتے ہیں۔ مگر کیا ہوتا ہے؟ مجرم کہتا ہے: اے امیرالمؤمنین! میں نے ایک گناہ کیا، آپ نے تین: تجسس، دیوار پھلانگنا، اور اجازت کے بغیر داخل ہونا! حضرت عمرؓ سر جھکا لیتے ہیں، اور واپس پلٹ جاتے ہیں۔

    کیا یہ وہی پیغام نہیں جو آج سوشل میڈیا پر نظرانداز ہو رہا ہے؟ جہاں ہم ہر دن کسی کی پرائیویسی میں نقب لگاتے ہیں، اور پھر فخر سے شیئر بھی کرتے ہیں۔

    اگر وہ وقت ہوتا تو آج کے ڈیجیٹل پردے کیسے محفوظ ہوتے؟ ہم تو اسکرین شاٹ کو فخر سے گروپس میں بانٹتے ہیں، اور وہ بزرگ ایک گناہ پر درگزر کر جاتے ہیں کہ کہیں کسی کی عزت پامال نہ ہو جائے۔

    کیا آپ جانتے ہیں؟ ایک نوجوان نے صرف مذاق میں کسی کی تصویر ایڈیٹ کر کے اپ لوڈ کی، اور اگلے دن وہ لڑکی اپنی زندگی ختم کر بیٹھی۔ عدالت میں کیس چلتا رہا، مگر آسمان میں فیصلہ ہو چکا تھا۔

    اور ہاں، جو سمجھتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر جو ہوتا ہے، وہ وہیں ختم ہو جاتا ہے ، ان کے لیے بری خبر ہے۔ قرآن کہتا ہے:[arabic] وَكُلَّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ مُّسْتَطَرٌ (القمر: 53)[/arabic] چھوٹی بڑی ہر چیز لکھی جا چکی ہے۔

    آج جب کوئی نوجوان لڑکی فیک اکاؤنٹ کے ہاتھوں رسوا ہوتی ہے، کوئی کمزور طالبعلم امتحانی ہیکنگ کا شکار ہوتا ہے، کوئی کاروباری شخص ڈیجیٹل دھوکے میں برباد ہوتا ہے۔تو یہ محض ایک جرم نہیں، یہ پورے معاشرے کے ایمان کی کڑی آزمائش ہے۔

    اور جب حضرت علیؓ فرماتے ہیں: انسان چھپ کر جو کرتا ہے، وہی اس کا اصل چہرہ ہے،تو گویا وہ ہمیں خبردار کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ خفیہ براؤزر میں کرتے ہیں، وہ بھی اللہ کی عدالت میں عیاں ہے۔اورسمجھ لیجیے کہ آپ کا اصل چہرہ وہ ہے جو آپ رات 2 بجے اسکرین پر دیکھتے ہیں، نہ کہ جو فجر کے وقت سیلفی میں نظر آتا ہے۔

    کیا آج کا ہیکر، وہی چور نہیں جو بیت المال سے سونا چرا کر چھپایا کرتا تھا؟ کیا جعلی اکاؤنٹ بنانے والا، وہی دھوکے باز نہیں جو نبی کریم کے دور میں جھوٹی گواہی دینے آتا تھا؟ کیا ڈیجیٹل بلیک میلر، وہی ظالم نہیں جو اہلِ مدینہ کی خواتین کو خوفزدہ کیا کرتا تھا؟

    اسلام کی عظمت یہ ہے کہ وہ جرم کےوسیلےکو نہیں، نیت کو بھی جرم قرار دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائبر کرائم، چاہے جتنا بھی نیا لگے، اس کی بنیاد وہی پرانا فتنہ ہے: نفس کا لالچ، شیطان کی ترغیب، اور معاشرتی بے حسی۔،لہٰذا خواہ جرم تلوار سے ہو یا ٹچ اسکرین سے،دونوں برابر۔ اگر غلول (خیانت) میدانِ جنگ میں حرام تھی، تو پھر فائل کا چوری شدہ پاسورڈ بھی ویسا ہی حرام ہے۔ اگر جھوٹے گواہ کو شریعت میں سزا ہے، تو جعلی پروفائل پر لکھی گئی جھوٹی پوسٹ بھی اسی زمرے میں ہے۔

    اور وہ گناہ کے سمارٹ مجرم، جو سمجھتے ہیں کہ وہ ڈیجیٹل ماسک کے پیچھے چھپے ہیں اوریہ خیال ہو کہ ڈیجیٹل دنیا بے قانون ہے، تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو بغیر وائی فائی کے بھی کنیکٹ رہتی ہے۔ حدیثیں وہ نوٹیفکیشنز ہیں جو انسان کو گناہ کے وقت دل میں لرزہ پیدا کر دیتی ہیں، اور اسلامی تاریخ وہ انسائیکلوپیڈیا ہے جو ہر مسئلے کا ورچوئل حل پیش کرتی ہے۔ ،ان کے لیے وہ حدیث کافی ہے: “قیامت کے دن ایسے لوگ بھی اٹھائے جائیں گے جن کے اعمال پہاڑوں جیسے ہوں گے، لیکن سب بکھر جائیں گے، کیونکہ وہ چھپ کر گناہ کرتے تھے۔” (ابن ماجہ)

    اور ہاں، اگر سائبر دنیا کے جرائم کا کوئی سچا علاج ہے، تو وہ ہے تقویٰ ،یہ وہ انٹی وائرس ہے جو آپ کے اعمال کو بھی محفوظ رکھتا ہے، اور آخرت کی فائر وال سے بھی بچاتا ہے۔

    ہمیں آج ایسے ڈیجیٹل متقی بننے کی ضرورت ہے، جو آن لائن بھی وہی ہوں جو آفلائن ہیں۔ ہمارے فون وہی کھولیں جو مسجد کے دروازے ادب، حیا، خوفِ خدا، اور نیت کی پاکیزگی کے ساتھ۔ کیوں کہ اللہ کا کیمرہ ہر وقت آن ہے ۔نہ low battery کا مسئلہ، نہ signal lost کا خدشہ، نہ کوئی logout۔ اور یاد رکھیے، دنیا کی عدالتوں میں وکیل بچا لیتے ہیں، لیکن اللہ کی عدالت میں صرف سچ اور توبہ۔

  • متوقع ہولناک زلزلہ! عابد ضمیر ہاشمی

    متوقع ہولناک زلزلہ! عابد ضمیر ہاشمی

    سوشل میڈیا ماہرین ارضیات، ماہرین موسمیات نے روزانہ کئی زلزلوں، خوفناک اندھی، بارش کا الرٹ جاری کر کے متعد افراد کو ذہنی مریض بنا دیا؛ حالانکہ ان کی ایک کہانی بھی مصدقہ نہیں ہوتی۔ پاکستان، جو جغرافیائی طور پر زلزلوں کے حساس خطے میں واقع ہے، میں وقتاً فوقتاً زلزلے سے متعلق افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے جس نے عوام کو شدید ذہنی کرب سے دوچار کیا ہوا ہے۔

    سوشل میڈیا ماہر ارضیات نومبر 2023میں بھی ایسے زلزلوں کی خبریں دیتے رہیں، ان کے بقول خوفناک تو کیا کوئی ہلکا زلزلہ بھی نہ آیا جو ان کے لئے ایک واضح پیغام تھا کہ زلزلے کسی کی مرضی سے نہیں آتے۔ژالہ باری، وبائی امراض، اندھیاں، موسم کی شدت، یہ قدرت کی طرف سے پیغام ہیں کہ وہ اعمال چھوڑ دیں جو ان مصائب کو لا رہے ہیں، ہم نے ان کا حل سوشل میڈیا پر ڈھونڈنا شروع کر لیا، جو یقینا ناکامی ہے۔ہمارے پاس زلزلوں کو ٹلنے کا حل بہت پہلے سے موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:”وہ استغفار کرنے والے کو عذاب نہیں دیتے، کیونکہ استغفار اس گناہ کو مٹا دیتا ہے جو عذاب کا سبب بنتا ہے، اور یوں عذاب ٹل جاتا ہے۔“ اللہ سے مغفرت طلب کرو، بیشک اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”وہ انسان خسارے کا شکارہے جو یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ اسے معاف نہیں کرے گا۔“

    ماہر ارضیات کے مطابق سائنسی طور پر، آج تک کوئی ایسی ٹیکنالوجی یا طریقہ کار ایجاد نہیں ہوا جو زلزلے کے آنے کی صحیح تاریخ، وقت یا شدت کی درست پیشگوئی کر سکے۔ زلزلے زمین کی اندرونی پرتوں میں توانائی کے اچانک اخراج کا نتیجہ ہوتے ہیں، اور یہ ایک قدرتی عمل ہے جسے روکا نہیں جا سکتا؛ البتہ، ماہرینِ ارضیات زلزلہ کے خطرے والے علاقوں (Seismic Zones) اور فالٹ لائنز کی نشاندہی کر سکتے ہیں، لیکن یہ صرف احتمالی خطرے کا اندازہ ہوتا ہے، نہ کہ کوئی یقینی پیشگوئی۔

    کائنات کا سارا نظام ہی لہروں سے چل رہا ہے۔ہر ستارے اور سیارے کی حرکت سے جوارتعاش پیدا ہورہا ہے اس کے اثرات ہماری زمین اور دوسرے سیاروں پر بھی پڑتے ہیں اب سائنس ان بنیادوں پر کام کر رہی ہے کہ جس کا قرآن پاک میں بھی ذکر ہے۔سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید ریسرچ میں عبور حاصل کر نا غیر مسلموں کا اثاثہ نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کی میراث بھی ہے اور فرض بھی‘ اسلام کے وہ بنیادی تصورات اور تعلیم جس سے تقریباً ہر مسلمان واقف ہے۔ جدید ریسرچ پر ہی زور دیتے ہیں۔ہماری کہکشاں گلیکسی وے میں سورج جیسے اربوں ستارے ہیں ان کے اپنے نظام شمسی ہیں۔ سورج سے ہزاروں گُنا بڑے ستارے بھی ہماری کہکشاں میں موجود ہیں۔ ہماری کہکشاں سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں گُنا بڑی کئی کہکشائیں دریافت ہوچکی ہیں۔ کائنات میں کھربوں میل کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔سب سے پہلے انسان نے اپنی بنیادی ضروریات پر توجہ دی۔ دھاتوں کو اپنے استعمال میں لایا پھر آہستہ آہستہ سائنسی ایجادات کی دُنیا میں داخل ہوا اب ہر لمحہ نِت نئی ایجادات ہو رہی ہیں، مگر یہ سارا علِم وہ ہے کہ جو آدم کو اللہ کا نائب ڈکلیئر کرنے سے پہلے ہی عطا کر دیا گیا تھا۔

    19 جون 2006 ء کو اس گلوبل سیڈ والٹ کا سنگِ بنیاد ناروے‘ سویڈن، فن لینڈ‘ ڈنمارک اور آئی لینڈ کے وزرائے اعظم نے رکھا تھا اور 26 فروری 2008 ء کو اسے مکمل کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت دُنیا میں 60 لاکھ مختلف اقسام کے بیج مختلف ملکوں کے جینز بینکوں میں محفوظ ہیں لیکن یہ تمام بینک قدرتی آفات اور نیوکلیئر جیسے خطرات محفوظ نہیں جس کے باعث ان کی بقا یقینی نہیں۔ان خطرات کے پیش نظر سائنس دانوں کی ایک کمیٹی اس بات پر متفق ہوئی ہے کہ ہمیں اس بنیادی ضرورت کی حفاظت اور بقا کے لئے ”کرہ ارض پر بدترین صورتِ حال“ کو ذہن میں رکھتے ہوئے جس میں کوئی بہت بڑی قدرتی آفت کی وجہ سے یا نیوکلیئر وار کی وجہ سے کسی ملک یا خطے کی زمینی پیداواری صلاحیت کا یکسر ختم ہوجانا کوئی خاص بیج کی نسل کا دُنیا سے یکسر ختم ہوجانا جیسے خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی انتہائی جدید اور محفوظ انتظام کرنا ہوگا۔

    امریکہ‘ یورپ‘ ایشیا ء ٗ پاکستان ٗ کشمیر سمیت پوری دُنیا میں ہولناک طوفان اور زلزلے آبھی چکے ہیں۔ ایک سائنسی نقطہ نظر تو دوسری حقیقت یہ ہے کہ:قرآن میں اللہ فرماتے ہیں: ”زمین اور آسمان میں جو فساد ظاہر ہوتا ہے اس کا سبب انسانوں کے اپنے اعمال ہی ہیں۔“ انسان جیسے اعمال کرتا ہے ویسے ہی اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ ایسے حوادث کے ذریعے اللہ تنبیہ کرتے ہیں کہ توبہ اور رجوع کریں۔ آپ ﷺکے زمانے میں زمین ہلنے لگی تو آپ نے زمین پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: ”ٹھہر جا! ابھی قیامت کا وقت نہیں آیا۔“ اور پھر آپ نے لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: ”اپنے گناہوں سے توبہ کرو اور معافی مانگو۔“

    زلزلے سوشل میڈیا ماہرین ارضیات کی وارننگ سے ٹلا نہیں کرتے۔افواہیں پھیلانے والے اکثر بے چینی اور خوف کو ہوا دیتے ہیں، جس کا مقصد صرف توجہ حاصل کرنا یا سوشل میڈیا پر ٹریفک بڑھانا ہوتا ہے۔ اس طرح کی بے بنیاد خبریں عوام میں غیر ضروری خوف و ہراس پھیلاتی ہیں۔ معاشرے میں الجھن اور بے اعتمادی کو جنم دیتی ہیں۔ ہنگامی خدمات (جیسے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے اداروں) کا وقت اور وسائل ضائع کرتی ہیں۔

    زلزلے ایک قدرتی مظہر ہیں، جن سے مکمل بچاؤ ممکن نہیں، لیکن احتیاطی تدابیراپنا کر نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ:
    افواہوں پر یقین کرنے کے بجائے مستند اداروں (جیسے پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ یا NDMA) کی معلومات پر اعتماد کریں۔
    زلزلہ سے بچاؤ کے لیے تعمیراتی معیارات (Building Codes) پر عمل کریں، خاص طور پر زلزلہ زون میں مضبوط عمارتیں تعمیر کریں۔
    عوامی آگاہی بڑھائیں اور سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ خبریں شیئر کرنے سے گریز کریں۔سوشل میڈیا پر نہیں بلکہ اپنے دستور قرآن میں ان کا حل تلاش کیا جائے، بھروسہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہونا چاہیے۔

    بے شک سائنس نے ترقی کر لی پھر بھی آفات کا حل نہیں ٗ اسلام نے حل بھی بتا دیا کہ یہ قدرتی آفات تمہیں تمہارے رب کی طرف سے آزمائش ٗ اظہار ِ ناراضگی ہے۔ مصائب‘ آزمائشیں انسانوں کے اعمال کا نتیجہ ہوا کرتی ہیں‘ یہ سوشل میڈیا نہیں بلکہ اپنے اعمال کے احتساب سے حل ہو سکیں گے۔اللہ کریں دُنیا کا ہر انسان زلزلوں سے محفوظ رہے!! آمین

  • افسر شاہی اور سوشل میڈیا  –  حافظ محمد قاسم مغیرہ

    افسر شاہی اور سوشل میڈیا – حافظ محمد قاسم مغیرہ

    سوشل میڈیا سے انسان کو خودنمائی کی ایسی لت لگی ہے کہ افسر شاہی بھی پیچھے نہیں رہی۔ میڈم گاڑی سے اتر رہی ہیں اور ایک کیمرہ مین سین ریکارڈ کرنے کے لیے موجود ہے۔ سین ریکارڈ ہوتا ہے اور چند گھنٹوں میں وائرل ہوجاتا یے۔ پھر کوئی یوٹیوبر مائیک لے کر میڈم کا انٹرویو کرنے پہنچ جاتا ہے۔ ویوز لاکھوں تک جا پہنچتے ہیں۔

    ایک اور سین میں میڈم اپنے ماتحتوں کے ساتھ فٹ پاتھ پہ بیٹھی کھانا کھارہی ہیں۔ ایک پولیس آفیسر اپنی بیٹی کو دفتر میں ساتھ لے آتی ہیں، تصویر وائرل ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا کے نمائندے انٹرویو کرنے کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ میڈم اپنی “جدوجہد” کی طویل اور صبر آزما داستان سناتی ہیں۔ سننے والے تعریفوں کے ڈونگرے برساتے ہیں۔

    مرعوبیت سے سرشار یہ لوگ شاید بھول جاتے ہیں اپنے بچوں کو تو سبھی عورتیں پالتی ہیں کیوں کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے۔ کسی عورت کا ایئر کنڈیشنڈ کمرے سے نکل کر، ایئر کنڈیشنڈ گاڑی میں بیٹھ کر ایئر کنڈیشنڈ دفتر میں چلے جانا اور جاتے ہوئے اپنی بیٹی کو ساتھ لے جانا کون سی جدوجہد ہے؟ جدوجہد تو پاکستان کی غریب عورتیں کرتی ہیں۔ سوشل میڈیا کی چکا چوند سے دور دیہاتی عورتیں نامساعد حالات اور وسائل کی کم یابی میں بھی اپنے گھر کا نظام چلاتی ہیں۔ لیکن کوئی یوٹیوبر ان کے ہاں پہنچتا ہے نہ ان کی ویڈیوز وائرل ہوتی ہیں۔ نہ ان عورتوں کا انٹرنیشنل ڈے کسی کو یاد رہتا ہے۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی خواتین افسر یہ تاثر دیتی ہیں کہ انہوں نے شادی کرکے، بچے جن کر، بچے پال کر اور ( کبھی کبھار ) اپنے گھر کے کام کرکے قوم پر احسان کیا ہے۔ ایک خاتون آفیسر کی ویڈیو وائرل ہوئی کہ صبح سویرے اپنے سرتاج کے لیے کھانا بنارہی ہے۔ اس کے کچن میں کسی کیمرہ مین کا چلے جانا کسی خاص اہتمام اور منصوبہ بندی کے بغیر تو ممکن نہیں ہے۔

    بلا تخصیص مرد و زن افسر شاہی کے دو گروپس پاکستان ایڈمنسٹریٹر سروسز اور پولیس سروس آف پاکستان کے اکثر افسروں کا یہی حال ہے۔ ان دو شعبوں کے لوگوں کا براہ راست عوام سے تعلق ہوتا ہے اس لیے انہیں وائرل ہونے میں آسانی رہتی ہے۔

    ایک پولیس آفیسر سوشل میڈیا پر مصنوعی عاجزی کے اظہار کے لیے بہت مشہور ہیں۔ ان کی عاجزی کے مناظر بہت دل چسپ ہوتے ہیں۔ ایک تصویر میں ایک صاحب ان سے ملنا چاہ رہے ہیں اور یہ انہیں غیر محسوس طریقے سے پیچھے دھکیل رہے ہیں اور اپنے دوستوں کو بتا رہے ہیں کہ ” یہ میرا ناظرہ کا استاد ہے۔” پھر اس باریش شخص کی طرف منہ کرکے کہتے ہیں ” کسی دن ملیں گے تم سے۔”

    ایک کانسٹیبل کے بیٹے نے میٹرک کیا تو وہ اسے اپنے ساتھ ڈی پی او کے آفس لے گئے۔ وہ منظر بہت تکلیف دہ ہے۔ ڈی پی او بہ ظاہر عاجزی کی کوشش کررہے ہیں لیکن کانسٹیبل کے بیٹے کو ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھنے دے رہے۔ اس بچے کے ساتھ ایک اچھوت کا سا معاملہ کیا جارہا ہے۔

    افسر شاہی نامی اس مخلوق کو پوڈ کاسٹ میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ گفت گو بے زاری کی حد تک سطحی، ذہنی بلوغت کے فقدان کی عکاس اور خود احتسابی کے بجائے الزام تراشی کی غماز۔ ایک پوڈ کاسٹ میں ایک صاحب سے افسر شاہی کو حاصل مراعات کی بابت سوال کیا گیا تو انہوں اسے مبالغہ آرائی کہہ کر بات ہی ختم کردی۔

    افسر شاہی سوشل میڈیا پر اپنے فلاحی کاموں کی تشہیر کرتی نظر آتی ہے۔ مثلاً ایک اسسٹنٹ کمشنر ہسپتال میں کھانا تقسیم کررہے ہیں، ایک پولیس آفیسر کسی بلڈ بنک کا دورہ کر رہے ہیں۔ ان کاموں میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ کام انہیں اپنی نجی اور ذاتی حیثیت میں کرنے چاہئیں نا کہ اپنے الاؤ لشکر کے ساتھ اور وہ بھی ایک ایسی صورت حال میں جب کہ یہ دفتری و انتظامی امور میں حد درجہ نالائقی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

    افسر شاہی کو شہرت پسندی ، شعبدہ بازی اور خود نمائی ترک کرکے اپنے اصل کام یعنی دفتری و انتظامی امور کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ صورت حال یہ ہے کہ سرکاری ادارے خسارے میں جارہے ہیں۔ داخل دفتر کیے گئے بیشتر معاملات سرخ فیتے کی نظر ہوجاتے ہیں۔ شاذ ہی کوئی ادارہ رشوت کے بغیر کام کرتا ہو۔ پاسپورٹ آفس میں ایجنٹ مافیا کا راج ہے۔ جائز طریق سے کام کرانے کے خواہش مند لمبی قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں۔ ایک درخواست گزار سے زیادہ ایجنٹس کے علم میں ہوتا ہے کہ پاسپورٹ بن کر آگیا ہے یا نہیں۔ پاسپورٹ کے علاوہ بھی کم و بیش ہر ادارے کی یہی صورت حال ہے۔

    مہنگائی ، ذخیرہ اندوزی اور چور بازاری کا چلن عام ہے۔ ضلعی انتظامیہ صرف پرائس لسٹ جاری کرکے مطمئن ہوجاتی ہے۔ پرائس لسٹ پر درج قیمت پر تو کوئی جنس ایک چھوٹے دکان دار کو بھی نہیں ملتی ، وہ اس قیمت پر کوئی شے کس طرح فروخت کرسکتا ہے؟ بڑے بڑے مگر مچھ احتساب کے جال میں نہیں آتے۔ بجلی گرتی ہے تو چھابڑی فروشوں اور چھوٹے دکان داروں پر۔

    ٹریفک پولیس کے اعلیٰ افسروں کو آئے روز ٹریفک کا نظام بہتر بنانے کا ہسٹیریا ہوتا ہے اور یہ جگہ جگہ تربیتی کیمپ لگاکر عوام کی تربیت کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے بل کہ آسانی سے اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ ٹریفک پولیس کے اہل کار ٹریفک قوانین کی پابندی نہیں کرتے، ہیلمٹ پہننا اپنی توہین سمجھتے ہیں، ٹریفک اشاروں اور سمت وغیرہ کا خیال نہیں رکھتے۔ ٹریفک قوانین سے متعلق سب سے زیادہ تربیت کی ضرورت خود ٹریفک پولیس کو ہے۔ ٹریفک پولیس کے ذمہ داران کو سمجھنا چاہیے کہ ٹریفک پولیس کا کام مال اکٹھا کرنا نہیں بل کہ ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانا ہے۔ اب تو صورت حال یہ ہے کہ ٹریفک پولیس کے اہل کار یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ انہیں اوپر سے اتنے چالان کرنے کا حکم آیا ہے۔

    اگلے روز سوشل میڈیا پر ایک خاتون ایس ایس پی کا ایک انٹرویو نظر سے گزرا۔ فرمارہی تھیں کہ گھر میں کھانے کے دوران بھی اپنے شوہر، جو پولیس آفیسر ہیں، سے پولیس سے متعلقہ معاملات پر گفت گو شروع ہوتی ہے اور کھانا اسی طرح پڑا رہ جاتا ہے۔ اگر ہماری افسر شاہی کو واقعتاً اپنے معاملات میں اتنی دل چسپی ہے تو عوام کو کوئی مسئلہ پیش نہیں آنا چاہیے لیکن یہ سب باتیں صرف سوشل میڈیا کی حد تک ہیں اور عملاً ایسا نہیں ہوتا کہ سوشل میڈیا پر چوکس نظر آنے والی افسر شاہی اپنے دفتری امور بھی اتنی مستعدی سے سرانجام دے۔ سوشل میڈیا پر عجز و انکسار کا پیکر بننے والی افسر شاہی دراصل تکبر، رعونت اور فرعونیت کا مرقع ہے۔ افسر شاہی کو سوشل میڈیا پر سستی شہرت حاصل کرنے کے بجائے اپنی اصل ذمہ داری کی طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ سماج سے جرم، ناانصافی ، استحصال،رشوت ستانی، ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کا خاتمہ ہو۔ ایک بار زیر تربیت سرکاری افسروں کو ایدھی ہوم لے جایا گیا تو انہوں نے ایدھی صاحب سے درخواست کی کہ وہ کچھ دن کے لیے ایدھی ہومز میں کام کرکے دکھی انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ ایدھی صاحب نے ان سے کہا کہ اپنے دفاتر میں آنے والے دکھی لوگوں کی خدمت کریں۔ افسر شاہی کے کرنے کا اصل کام یہی ہے۔

  • میرا احساس کمتری – ڈاکٹر حسیب احمد خان

    میرا احساس کمتری – ڈاکٹر حسیب احمد خان

    عالم دین نہ ہونا ہمیشہ میرے لیے احساس کمتری کا موجب رہا ہے. نوجوانی میں جب دینی کتب کا بے اختیار مطالعہ شروع کیا تو دل میں یہ شدید خواہش ابھری کہ عالم بنا جائے. اسی خواہش کی تکمیل کےلیے مختلف مدارس کے چکر لگائے علماء کی خدمت میں حاضری دی مگر
    [poetry]ایں سعادت بزورِ بازو نیست
    تا نہ بخشَد خدائے بخشندہ[/poetry]

    جب بھی علماء کو دیکھا رشک کے ساتھ اور سچ پوچھیے تو کسی نہ کسی درجے میں حسد بھی محسوس ہوا کہ کاش میں بھی عالم ہوتا، کاش مجھے بھی مدارس کا متبرک ماحول ملا ہوتا، کاش میں بھی ان منور محافل میں ہوتا، کاش مجھے بھی اللہ والوں سے اکتساب کا موقع ملتا ، اور یقین جانیے اس احساس کے اظہار میں کبھی بخیلی سے کام نہیں لیا. شاید وقت و حالات یا شاید میری کم ہمتی و بے توفیقی نے مجھے اس مبارک صف میں شامل ہونے سے دور رکھا ، جانے انجانے کہیں مجھے علماء کی نقالی کا شوق ہوا شاید کہ کسی لاشعوری احساس نے شعور کے پردے پر خاموشی سے دستک دے کر اپنی تصویر بنادی ، ویسا ہی لباس ویسا ہی لبادہ، وہی انداز وہی چال ڈھال، ویسی ہی بود و باش، بولنے کا ویسا ہی انداز یا اس انداز کی نقالی مگر اندر کی سچائی تو یہ کہ
    [poetry]ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
    دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا [/poetry]

    کتابوں کا بوجھ کاندھوں پہ لادے خود کو اس دھوکے میں رکھا کہ شاید میں بھی علماء کی کسی صف کا کوئی آخری بندا کہلا سکوں مگر سچائی تو کچھ یوں کہ
    [poetry]خرِ عیسٰی اگر بمکہ رود
    چوں بیاید ہنوز خر باشد[/poetry]

    پھر یہ خیال ہوا کہ چلو علماء کی صحبت اختیار کی جائے ان کی محافل میں بیٹھا جائے، اور اگر کبھی گستاخی کا موقع مل جائے تو دو ایک جملے بول کر خود کو اپنی ہی نگاہوں میں اپنے تئیں عالم محسوس کروایا جائے ، ہائے یہ خود فریبی ہائے یہ غم نارسائی۔

    پھر نجانے کہاں سے سوشل میڈیا کی دنیا میں چلایا آیا، رومن سے ابتدا کی اور آہستہ آہستہ اردو تحریر سیکھی. مذہب تو موضوع تھا ہی لکھنا شروع کیا تو لوگ باگ یہ سمجھے کہ مولوی ہے. بہت خوشی ہوئی کہ چلو حقیقت میں نہ سہی اس مصنوعی دنیا میں تو مولوی بن گئے. ابھی کالر کھڑے ہی ہوئے تھے کہ کان کتر دیے گئے. ہوا یہ کہ کچھ مولویوں سے دوستی ہوگئی تو اپنی حقیقت ظاہر ہوئی. عقدہ یہ کشا ہوا کہ میاں مولوی اگر کوٹ پتلون میں بھی آجاوے تو تمہاری اس دکھاوے کی ہیئت پر اس کی گمشدہ علمیت بھاری ہے ، تو جب ادراک کے در وا ہوئے تو بار بار یہ اظہار کیا ، ہر جگہ کیا، ہر محفل میں کیا ، کہ میں مولوی نہیں ہوں، بلکہ ” خدا کی قسم میں مولوی نہیں ” کے نام سے تحریر لکھ کر اتمام حجت بھی کردیا کہ جناب مجھے مولوی نہ سمجھا جائے . ابھی اس مخمصے سے نکلا ہی تھا کہ ایک نئے انکشاف نے اپنے در وا کیے اور وجدان نے سمجھایا کہ خود مولوی کا مولوی ہونا بھی آگے کا مقام ہے کہ
    [poetry]مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
    تا غلام شمس تبریزی نہ شد[/poetry]

    مجھے یاد ہے کہ ایم فل کے انٹرویو میں مجھ سے یہ پوچھا گیا ، دیکھو تمہارے ساتھ یہ سارے علماء ہیں، درس نظامی پڑھے ہوئے، عربی دان فصیح اللسان، ان کا مطالعہ حقیقی مطالعہ ہے، ان کے اساتذہ عظیم ہیں، ان کے پیچھے معتبر درسگاہیں ہیں، اور ان کے پاس مستند اسانید ہیں، کیا تم ان کے ساتھ چل پاؤ گے اور میری پیشانی پر عرق ندامت اور سر احساس کمتری سے جھکا ہوا کہ تو کجا من کجا۔

    کبھی ایسا ہوا کہ اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی دانی کا مظاہرہ کیا اور کسی محترم ہم درس نے کہا کہ آپ کی انگریزی تو اچھی ہے، ہماری انگریزی کیسے اچھی ہو گی، اور میں دل ہی دل میں کہ اجی اس موئی فرنگن کی کیا اوقات، آپ کے پاس تو جنت کی عربی ہے اور میرا سینہ اس سے خالی۔
    [arabic]قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي * وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي[/arabic]
    آمین ثم آمین

    تو آج جب میں علماء کی زبان پر گلا دیکھتا ہوں، انھیں شکوہ کناں پاتا ہوں، تو سوچتا ہوں کہ شاید انھیں معلوم ہی نہیں کہ ان کے پاس کیا دولت ہے، یا شاید جب کسی کے پاس دولت آجاوے تو اس کے دل سے اس کی قدر نکل جاتی ہے. اب یہ تو کوئی کسی فقیر سے پوچھے کہ جس کے دل سے ہمیشہ یہ دعا نکلتی ہو
    [arabic]فَقَالَ رَبِّ اِنِّىْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَىَّ مِنْ خَيْـرٍ فَقِيْرٌ[/arabic]
    اور علم دین سے بڑی خیر بھی کیا کوئی ہو سکتی ہے !

  • ٹارگٹڈ ایڈز – دور جدید کا ایک شاہکار جادو – محمد کامران خان

    ٹارگٹڈ ایڈز – دور جدید کا ایک شاہکار جادو – محمد کامران خان

    کیا کبھی ایسا ہوا کہ آپ نے چائے کے دوران گپ شپ میں کسی دوست کے ساتھ کسی چیز کے بارے میں گفتگو کی اور چند لمحوں بعد اسی سے متعلق اشتہارات آپ کی فیسبک یا انسٹاگرام فیڈ میں آنے لگیں؟ یقیناً ہوا ہوگا۔ بلکہ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے صرف سوچا ہو کسی چیز کا یا تھوڑی سی اس سے ملتی جلتی چیزوں میں دل چسپی ظاہر کی اور وہ چیز پٹ سے حاضر۔ ہے نا جادو؟ یہ ہے ٹیکنالوجی کا جادو ، اس جادو کو “ٹارگٹڈ ایڈز” کہتے ہیں۔ ٹارگٹڈ ایڈز جدید ڈیجیٹل دنیا کا وہ پہلو ہیں جو ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ ذہین، زیادہ مربوط اور زیادہ ناقابلِ گریز بنتے جا رہے ہیں۔ یہ اشتہارات محض اتفاقیہ نہیں ہوتے، بلکہ جدید ترین مصنوعی ذہانت، مشین لرننگ، اور انسانی رویوں کے باریک بینی سے کیے گئے تجزیے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ ٹارگٹڈ ایڈز صرف انٹرنیٹ پر کی جانے والی سرگرمیوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ کون سی ویڈیو کتنی دیر دیکھی گئی، کون سا اشتہار اسکرول کرتے وقت نظرانداز کیا گیا اور کون سا اشتہار ایسا تھا جس پر کلک کیا گیا۔ مگر کچھ مشاہدے اور کچھ تجربات کے بعد اب یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ اشتہارات کے یہ نظام محض آن لائن سرگرمیوں تک محدود نہیں رہے، بلکہ انسانی جذبات، فزیالوجیکل ردعمل اور نفسیاتی رجحانات تک کی تفصیل میں اتر چکے ہیں۔کیسے؟ آئیے چند کڑیاں جوڑتے ہیں۔

    انسانی آنکھیں بہت کچھ کہتی ہیں۔ جب کوئی چیز دلچسپ لگتی ہے تو پتلیاں پھیل جاتی ہیں، جب کوئی چیز ناپسندیدہ ہوتی ہے تو چہرے کے تاثرات بدل جاتے ہیں، آنکھوں کی حرکت کسی بھی چیز کی طرف کشش یا بیزاری کا اظہار کرتی ہے۔ ماضی میں یہ ممکن نہیں تھا کہ کوئی مشین ان اشاروں کو پڑھے، سمجھے اور ان کی بنیاد پر تجزیہ کرے، مگر اب ایسا ہو رہا ہے۔ جدید ترین ڈیپ لرننگ ماڈلز اور کمپیوٹر ویژن کے ذریعے کیمرے نہ صرف چہرے کے تاثرات کو پڑھ رہے ہیں، بلکہ ان میں چھپی دلچسپی، خوشی، حیرت اور بیزاری کو بھی شناخت کر رہے ہیں۔ یہ صلاحیت کسی ایک مخصوص شعبے تک محدود نہیں رہی، بلکہ روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی عام ٹیکنالوجیز میں ضم ہو چکی ہے۔اس کی مثالیں ہمیں عام زندگی میں ملتی ہیں جن میں ایک فیچر فیس آئی ڈی ہے۔ یہ ایک ایسا فیچر تھا جسے سہولت کے طور پر متعارف کروایا گیا۔ اس کا بنیادی مقصد چہرے کی شناخت کے ذریعے ڈیوائس کو کھولنا تھا، مگر یہ ٹیکنالوجی وقت کے ساتھ ایک وسیع تر نیٹ ورک کا حصہ بن چکی ہے۔ ہر بار جب کسی ڈیوائس کا فیس آئی ڈی استعمال کیا جاتا ہے، وہ چہرے کے مختلف زاویوں، تاثرات اور روشنی میں آنے والی تبدیلیوں کو ریکارڈ کرتا ہے۔ مصنوعی ذہانت ان تمام ڈیٹا پوائنٹس کو استعمال کر کے چہرے کی شناخت کو بہتر بناتی ہے، مگر اسی کے ساتھ چہرے کے تاثرات اور جذباتی ردعمل کو بھی سمجھنے کے قابل ہو جاتی ہے۔ یہی ٹیکنالوجی جب اشتہارات کے نظام میں شامل ہوتی ہے تو یہ محض آنکھوں کے جھپکنے، چہرے کے تاثرات اور آنکھوں کی پتلیوں کی حرکت سے اندازہ لگا لیتی ہے کہ کوئی چیز واقعی دلچسپ ہے یا نہیں۔

    اب اس پہلوکو مزید وسعت دیتے ہیں۔ اس میں اگر آپ کے روزانہ کے رویے، گفتگو، ذاتی معلومات و ذاتی دلچسپیاں ، دن بھر کے معاملات کی ایک ڈائری بنائی جائے تو کیا ایک ہفتہ وہ ڈائری پڑھنے کے بعد آپ کے معمولات اور اگلے روز کے بیشتر حصے کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں؟ خصوصاً جب پیش گوئی کرنے والا آپ کے ہر عمل سے بخوبی واقف اور بہترین یاد داشت کا حامل ہو۔ ٹارگٹڈ ایڈز میں آپ کی موبائل ڈیوائس بالکل یہی کام کرتی ہے۔ اسمارٹ واچز اور دیگر وئیرایبل ڈیوائسز بھی اسی بڑے ڈیٹا نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ جب کوئی اسمارٹ واچ دل کی دھڑکن نوٹ کرتی ہے، بلڈ پریشر مانیٹر کرتی ہے، نیند کے پیٹرنز کا تجزیہ کرتی ہے، تو یہ سب صرف صحت کی نگرانی کے لیے نہیں ہو رہا ہوتا۔ ان ڈیٹا پوائنٹس سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کسی خاص لمحے میں جسمانی ردعمل کیا تھا، کون سا اشتہار دیکھتے وقت دل کی دھڑکن تیز ہوئی، کب بلڈ پریشر میں معمولی سا اضافہ ہوا، اور کب کوئی ردعمل بالکل ہی غیر محسوس رہا۔ ان تمام معلومات کو جمع کر کے مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایک انتہائی پیچیدہ مگر مؤثر ماڈل بنایا جاتا ہے، جو ہر فرد کی دلچسپیوں، رجحانات اور ممکنہ خریداری کے فیصلوں کو پہلے سے سمجھ لیتا ہے۔

    یہ سارا عمل روایتی مشین لرننگ کے طریقوں سے بھی کافی حد تک ممکن تھا مگر اب جدید اور تیز ترین کام کرنے والے کمپیوٹرز ، نیرومورفک چپس اور جدید ترین مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کی وجہ سے یہ سب چند لمحوں میں ہو رہا ہے۔ پہلے جہاں ایک اشتہار کے مؤثر ہونے کا اندازہ صارف کی کلک، اسکرولنگ اور ویڈیو دیکھنے کے وقت کی بنیاد پر لگایا جاتا تھا، اب یہ اس اشتہار کو دیکھنے والے شخص کی آنکھوں، چہرے، دل کی دھڑکن اور دیگر جسمانی ردعمل سے لگایا جا رہا ہے اس کے علاوہ ہنارے ارد گرد موجود آلات جیسا کہ موبائل میں موجود کیمرہ، سپیکر اس سب عمل کو مکمل کرنے میں مدد دیتے ہیں اور خودکار نہیں بلکہ ہماری اجازت سے۔

    یہ سب کچھ صرف خرید و فروخت تک محدود ہوتا تو کافی تھا، مگر اب چلتے ہیں اس کے خطرناک پہلو کی طرف۔
    یہ سلسلہ اب فیصلہ سازی پر براہِ راست اثرانداز ہونے لگا ہے۔ جب کسی فرد کی ہر حرکت، ہر ردعمل، ہر سوچ کی پیمائش ہونے لگے، تو اسے اپنی مرضی سے کسی فیصلے تک پہنچنے کے مواقع کم سے کم دیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ، اگر مجھے علم ہو کہ آپ ایک نیا جوتا یا کپڑوں کا جوڑا خریدنا چاہ رہے ہیں تو میں بار بار آپ کو ایسے دکانداروں کے بارے میں بتاؤں گا جو کہ میرے ذریعے اپنے کاروبار کی تشہیر چاہتے ہیں۔ اب آپ صرف جوڑا یا جوتے خریدنا چاہ رہے تھے۔ بالکل وہی نہیں خریدنا چاہ رہے تھے جو میں آپ کو دکھا رہا ہوں ۔ مگر میرے اس عمل کو بار بار دہرانے سے آپ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہی تو ہے جو میں چاہتا ہوں۔ درحقیقت ہوگا ایسا نہیں۔ آپ ابھی اور آپشنز دیکھنا چاہتے تھے۔ یا شاید کچھ عرصہ اس ارادے کو عملی جامہ نہیں پہنانا چاہتے تھے مگر بار بار سامنے آنے پر آپ کے ارادے میں واضح تبدیلی ہوئی۔ یعنی میں نے محدود انتخاب دیے تاکہ کسی خاص سمت میں سوچنے پر مجبور کر سکوں،اور پھر آپ سے متعلق معلومات جو میرے پاس جمع تھیں، آپ کی پسند نا پسند، روز مرہ کا استعمال اوراگر مجھے آپ کی مالی حالت کا بھی اندازہ ہو تو پھر تو کیا ہی کہنے (جو کہ آپ کے آن لائن شاپنگ سے بخوبی لگا لیا جاتا ہے) ان پہلوؤں کو مدنظر رکھ کرآپ کے انتخاب کو جذباتی اور نفسیاتی طور پر زیادہ موثر بنا کر آپ کو پیش کیا گیا اور آپ پھر انکار ہی نہیں کر پائے اس اشتہار کو۔ کوئی اشتہار کیوں زیادہ پرکشش محسوس ہوتا ہے، کیوں بعض مخصوص موضوعات کے اشتہارات بار بار نظر آتے ہیں، یہ سب اتفاق نہیں ہوتا بلکہ شعوری طور پر طے شدہ حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے۔اب جیسا کہ ان بنیادوں پر میں نے آپ کی خریداری کا فیصلہ تبدیل ، جلد یا آپ کی مرضی کے کافی حد تک منافی کر دیا، سوچیں اگر اسی الگورتھم کو ووٹ دینے کی صلاحیت، اپنے لئے کچھ چننے کی صلاحیت پر نافذ کیا جائے تو آپ کی زندگی میں کتنے ہی فیصلے ہوں گے جو کہ آپ نے مکمل طور پر خود کیے؟ ایک چھوٹی سی مثال آپ کےسوچنے کے لئے اور چھوڑ دوں، ایلون مسک نے ٹوئٹر کو چوالیس ارب ڈالر میں صرف عوام کی بھلائی اور آزادی رائے کے لیے خریدا یا اس الگورتھم کو۔

    یہ تصور کہ انسان اپنے فیصلے خود کر رہا ہے، مصنوعی ذہانت کے اس نئے مرحلے میں کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ جب کوئی نظام کسی شخص کے جذبات، اس کے رویے اور اس کے ممکنہ ردعمل کو پہلے سے جان لے، تو اسے اس سمت میں دھکیلنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے جہاں وہ خود جانا نہیں چاہتا تھا۔ اب صرف معلومات فراہم نہیں کی جا رہی، بلکہ معلومات اس انداز میں دی جا رہی ہیں کہ سوچنے، تجزیہ کرنے اور سوال اٹھانے کی گنجائش کم سے کم ہو جائے۔یہ اثرات ہر جگہ محسوس کیے جا رہے ہیں، مگر سب سے زیادہ ان علاقوں میں جہاں ٹیکنالوجی کو صرف ایک سروس سمجھا جاتا ہے، مگر اس کے پیچھے کام کرنے والے پیچیدہ نظاموں پر غور نہیں کیا جاتا۔ جو علاقے پہلے “تجربہ گاہ” کے طور پر استعمال ہوتے تھے، اب وہ نئی ٹیکنالوجیز کے لیے آزمائشی میدان بن چکے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے انسانی نفسیات کو کس حد تک سمجھا جا سکتا ہے، اسے کتنا قابو کیا جا سکتا ہے، اور کسی بھی رجحان کو کیسے طاقت دی جا سکتی ہے، یہ سب کچھ ان ہی جگہوں پر آزمایا جا رہا ہے جہاں شعور کی سطح کمزور ہے اور سوال اٹھانے کا رجحان ناپید ہوتا جا رہا ہے۔

    یہ محض ایک مفروضہ نہیں، بلکہ حقیقت ہے جس کی بنیاد جدید ترین تحقیق پر ہے۔ فیصلہ سازی کی آزادی، معلومات تک رسائی کا حق، اور کسی بھی موضوع پر آزادانہ رائے قائم کرنے کی صلاحیت آہستہ آہستہ کمزور پڑ رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت نہ صرف یہ سمجھ رہی ہے کہ انسان کیا چاہتا ہے، بلکہ یہ بھی طے کر رہی ہے کہ اسے کیا چاہنا چاہیے۔

    یہ سوچنا کہ یہ سب کچھ ابھی دور ہے، ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ یہ سب کچھ پہلے سے موجود ہے، کام کر رہا ہے اور ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی سے انکار ممکن نہیں، مگر یہ سوچنا کہ اس ترقی کا کوئی منفی پہلو نہیں ہوگا، سراسر غفلت ہے۔ وقت ہے کہ اس نظام کو سمجھا جائے، اس کے اثرات کا تجزیہ کیا جائے، اور آزادانہ سوچ اور فیصلہ سازی کے حق کو محفوظ رکھنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ بصورتِ دیگر، وقت کے ساتھ سوچنے کا عمل خودکار ہو جائے گا اور فیصلے وہی ہوں گے جو پہلے سے کسی اور نے طے کر دیے ہوں گے۔

  • ظاہر کے غازی باطن کے چور  – عاصم نواز طاہرخیلی

    ظاہر کے غازی باطن کے چور – عاصم نواز طاہرخیلی

    ایک شخص سے اس کی بیوی نے غسل خانے کے پاس سے درخت یہ کہہ کر کٹوا دیا کہ مجھے غسل کرتے وقت پرندوں کی نظر سے بھی حیا آتی ہے۔ کچھ عرصے بعد وہی شخص جب خلافِ معمول اچانک گھر آیا تو اپنی بیوی کو ایک غیر مرد کے ساتھ مشغول دیکھ کر اتنا دل برداشتہ ہوا کہ اپنا گھربار چھوڑ کر کسی دوسرے شہر چلا گیا۔ وہاں اسے اللہ نے کاروبار میں اتنی ترقی دی کہ اس کی رسائی اعلی حکومتی عیدے داروں تک ہوگئی۔

    ایک دن اس شہر میں کوتوال کے گھر چوری ہوگئی۔ باوجود کوشش کے چور نہ پکڑا گیا۔ اس شخص نے مشاہدہ کیا تو ایک شیخ کا کوتوال کے گھر بہت آنا جانا تھا۔ وہ شیخ بظاہر اتنا نیک تھا کہ پورا پاؤں بھی زمیں پر یہ کہتے ہوئے نہ رکھتا کہ کہیں کوئی کیڑا مکوڑا پاؤں کے نیچے نہ آجائے۔ یہ دیکھ کر وہ شخص فوراََ کوتوال کے پاس گیا اور کہا کہ آپ کی چوری اِسی شیخ نے کی ہے۔جب تحقیق کی گئی تو مال مسروقہ اسی شیخ سے برآمد ہوا۔ کوتوال نے حیرانگی کے ساتھ اس شخص سے پوچھا کہ تمہیں یہ سب کیسے معلوم ہوا؟ اس نے جواب دیا: “میرے گھر کے ایک درخت نے مجھے نصیحت کی تھی کہ جو لوگ ضرورت سے زیادہ “نیک” نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں ، عموماً وہ نیک نہیں ہوتے۔”

    یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ارد گرد کئی لوگوں کا ظاہر اور باطن مختلف ہوتا ہے۔ بظاہر مذہبی حلیہ اور حقیقت میں مذہب سے کوسوں دور۔ میرے ایک جاننے والے دوسروں کی شادیوں پر ناچ گانے اور بے پردگی کے خلاف بڑے بڑے لیکچر دیتے تھے، لیکن جب اپنے گھر میں شادی ہوئی تو عین عورتوں والی جگہ ان کا ناچ سب سے زیادہ دیکھنے کے قابل تھا۔ آپ اکثر دیکھیں گے کہ مذہبی ٹچ والے دکاندار زیادہ مہنگی اشیاء بیچ رہے ہوں گے۔

    ذرا ملکی سیاست کا حال دیکھیے تو منافقت جو بازار گرم ہے، اس پر لکھنے کی ضرورت ہی نہیں، کیونکہ سب کچھ انتہائی ڈھیٹ پن کے ساتھ کھلے عام ہوتا ہے۔ ہارس ٹریڈنگ سے لیکر عوام سے جھوٹے وعدوں تک ہر چیز آپ کے سامنے ہے۔ اسی طرح مساجد میں تفرقہ بازی اور زیارات میں شخصیت پرستی سے لیکر ہر مقام تک دوہرے معیار نے ہمیں اقوام عالم میں کسی قابل نہیں چھوڑا۔

    آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کچھ لوگ فیس بک پر تو انتہائی مذہبی و بااخلاق نظر آتے ہیں لیکن حقیقی زندگی میں ان کے شر سے محلے دار، رشتے دار حتی کہ گھر والے بھی محفوظ نہیں ہوتے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے ہندکو کا محاورہ ہے کہ ” اُتوں ہور تے وِچوں ہور ” یعنی ظاہر کے غازی باطن کے چور۔

    ابھی چند دن پہلے ہی میری نظر سے اک شرابی و زانی بندے کی آئی ڈی گزری۔ اس کی وال پر بہترین اقوال زریں اور احادیث موجود تھیں۔ اسی طرح اک خاتون کی آئی ڈی پر پردے کے حق میں تسلسل کے ساتھ پوسٹیں نظر آئیں لیکن ان کی بے پردگی اف اللہ۔

    میرا نقطہ یہ نہیں کہ ایسا کیوں ہے۔ فیس بک پر اگر اللہ نے اچھی باتوں کا موقع دیا ہے تو اللہ دے اور بندہ لے، لیکن حقیقی زندگی میں بھی اس کا تھوڑا بہت عکس تو ضرور نظر آنا چاہیے۔ اس طرح انسان کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے ورنہ دیکھنے والے کا یقین و اعتماد ہر چیز سے اٹھ جانے کا گناہ اس مرد یا عورت کے سر پڑتا ہے۔

    سوشل میڈیا کے بہت سے فائدے ہیں مگر ساتھ ہی اس نے بناوٹ اور منافقت کو جو رواج دیا ہے، اس سے معاشرے میں دوہرے معیار کے لوگوں کی کثرت ہو گئی ہے۔ باطن بہتر کیے بغیر ظاہری نیک پروینی اور فیک نیوز کی کثرت نے سوشل میڈیا کی سچی خبر پر سے بھی اعتبار اٹھا دیا ہے۔

    اللہ تعالی سے قلبی دعا ہے کہ ہمارا ظاہر اور باطن دونوں صالح کر دے اور تحریروں کی طرح ہمیں معاملات کا غازی بننے کی توفیق بھی عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔