Tag: حکومت

  • پاک افغان تعلقات کی دو بنیادی ضروریات.  ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

    پاک افغان تعلقات کی دو بنیادی ضروریات. ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

    ہزاروں میل دور کے ممالک سے تعلقات قائم کرنا عالمگیریت کے اس دور میں ہر ملک کی ضرورت ہے۔ پاکستان بھی اس ضرورت سے آزاد نہیں ہے۔ تاہم مسئلہ اس توازن کا ہے جسے ہمیشہ سامنے رکھنا ہوتا ہے۔ یہ توازن آج دنیا بھر میں بگڑ چکا ہے۔

    اپنے پاک افغان تعلقات بھی ہمیشہ غیر متوازن دیکھے گئے جہاں عوامی اور ریاستی سطح پر یہ عدم توازن ملتا ہے۔ گزشتہ تحریر میں افغان طلبا کے لیے پاکستانی جامعات میں وظائف کی تجویز دی تو ایک رد عمل یہ تھا: “جناب! افغانوں سے زیادہ طوطا چشم کوئی نہیں. ہم نے عشروں تک انہیں پناہ دی لیکن آج کوئی لا دین نہیں ان کی اپنی امارت شرعیہ بھارت کا ساتھ دے رہی ہے”. ذرائع ابلاغ کے پھیلائے اس بدنما تاثر کو مان لیا جائے تو خود ہمارے پاس کیا اس کا کوئی جواب ہے کہ پاکستان میں متعین افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو ہماری فوج نے ٹھڈے مار کر امریکیوں کے حوالے کیا تھا تو کیوں؟

    دونوں ممالک کے عوام و حکام یہ نامعقول مناظرے چھوڑیں ایک دوسرے سے معافی تلافی کا مطالبہ کلیتاً ترک کر دیں۔ وہ راہ اختیار کریں جو نئے پاک بنگلہ تعلقات میں اپنائی جا چکی ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش ماضی بھول کر مآل پر نظر جمائے ہیں۔ پاکستان کے لیے افغانستان بطور تزویراتی گہرائی ہمارے ترک کرنے کا موضوع تھا۔ پاکستان اس سے تائب ہو چکا ہے۔ ادھر اس مٹھی بھر افغان عنصر کو ڈیورنڈ لائن پر گفتگو ختم کر دینا چاہیے۔ یہ معدودے چند لیکن با اثر پاکستانی اور افغان بازاری مناظروں کو تج کر آئندہ کا سوچیں۔ یہی ڈیورنڈ لائن اتحاد امت مسلمہ کے بالمقابل جلد ہی بے معنی ہو کر رہے گی۔

    ان سفاک اور برہنہ حقائق کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ دونوں ممالک پڑوسی ہیں، صدیوں سے تاریخی رشتوں میں بندھے ہیں، بھارت، چین اور ایران جیسوں کے برعکس افغانستان ہمارا وہ واحد پڑوسی ہے جس سے ہمارے دسیوں لاکھ لوگوں کے رشتے ہیں۔ ایران اور بھارت کے برسائے میزائلوں کا جواب تو ہم نے دفعتاً دے دیا تھا۔ پاک افغان جنگ، اللہ نہ کرے، اگر کبھی ہوئی تو کیا کوئی یہ مہم جوئی کر سکے گا؟ اور کرے گا تو بعد میں کس ملک میں زندہ رہ سکے گا؟ دونوں ممالک کے باشندوں کے رشتہ داریاں ذہن میں رکھ کر جواب دیجیے۔ لہذا دونوں جانب کے بد زبان عناصر یہ غیر تعمیری اور سوقیانہ مناظرہ بازی بند کر کے اپنی توانائیاں کسی تعمیری کام میں لگائیں۔

    پاک افغان امور میں غالباً سب سے اہم ایک انسانی مسئلہ وہ ہے جسے دشمن بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ادھڑے ہوئے افغانستان میں صحت کی سہولیات پاکستان جیسی نہیں ہیں۔ سرحدی قبائل کو چھوڑیے، خود کابل کے لوگ بھی علاج کے لیے ایک حد تک پاکستان پر انحصار کرتے ہیں۔ رہے سرحدی افغان تو ان کا سہارا ہے ہی پاکستان۔ بےچارگی کا یہ حال کہ گزشتہ بقر عید سے ذرا پہلے ایک ماہ کے بیمار نو مولود کے والدین کو طبی ویزا نہ ملا تو ماں نے اپنا جگر گوشہ اس امید پر ایک اجنبی کو دے دیا کہ پشاور پہنچ کر شاید بچہ بچ جائے۔ وہ نیک دل افغان ایک ماہ کے بچے کو کیسے پشاور لایا؟

    کیسے دودھ پلاتا رہا؟ عین عید کے دن سارے کام چھوڑ کر کیسے پوری توجہ بیمار بچے کو دیتا رہا؟ اس پر ناول لکھا جانا چاہیے، فلم بننا چاہیے، لیکن ان کے پہلو پہلو اس اہم انسانی مسئلے پر حکومت پاکستان کو فوری توجہ دینا ہوگی۔دونوں ملکوں میں داخلے کے راستے تو پانچ ہیں لیکن شہری سہولتوں سے آراستہ اور منظم جگہیں طورخم، چمن، اور خرلاچی (پارہ چنار) وہ تین ہیں جہاں طبی سہولیات بڑھا کر افغان ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔ یہ کام الخدمت، ایدھی اور چھیبا جیسے نیک نام ادارے کر سکتے ہیں۔ افغان جہاد کے دنوں میں جماعت اسلامی نے پشاور میں ایک اچھا افغان سرجیکل اسپتال بنایا تھا، پتا نہیں کس حال میں ہے۔

    الخدمت اور ایدھی کی کوششیں یقینا فلاحی بنیادوں پر ہوں گی۔ لیکن افغانستان میں آسودہ حال طبقے کا حجم ناقابل یقین حد تک وسیع ہے۔ اسے بھی اپنے علاج کے لیے زیادہ تر پاکستان ہی کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ اس طبقے کے لیے پشاور، پارہ چنار، چمن اور کوئٹہ میں جدید سرکاری اسپتال بنانا ضروری ہے۔ اس اشرافیہ کے پاس دولت کے انبار ہیں۔ لیکن علاج کے ضمن میں یہ اشرافیہ بھی بے بس ہے۔ پاک افغان قربت کے پہلو بہ پہلو ہمارے یہ سرکاری اسپتال زر مبادلہ کی صورت میں کمائی کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔ قطع نظر ان باتوں کے پاکستان کے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہر بیمار افغان اور ایک تیماردار کو بہرحال ویزہ دے دیا جائے۔

    شاید کہا جائے کہ یوں دہشت گرد بھی آ سکتے ہیں۔ بہانہ کچھ بھی ہو، جائز طبی ضرورت پر افغان بہن بھائیوں کو ویزا بہرحال ملنا چاہیے۔ ویزے کا اجرا ایک تہہ در تہہ عمل ہے جس پر ہم عام لوگ کچھ نہیں کہہ سکتے، ہمارا فعال دفتر خارجہ افغانیوں کو طبی ویزے دینے کا کوئی مناسب طریق کار یقینا بنا لے گا۔پاکستان اپنی آبادی، وسائل، رقبے، زراعت اور صنعت وغیرہ کے باعث افغانستان پر فوقیت رکھتا ہے جو اس کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ ادھر افغانستان کی خوبیاں ایک الگ موضوع ہے۔

    اس جری ملک نے ہماری مدد سے ایک سپر پاور کو ملیا میٹ کر دیا۔ افغانوں نے اپنے گھر اور کھیت کھلیان بے آباد کرا دیے اور چھ مسلم مقبوضات آزاد کرا کر انہیں او آئی سی میں شامل کرایا۔ حکومت پاکستان کو افغانوں کے لیے طبی اور تعلیمی ویزوں میں بالخصوص اضافہ کرنا چاہیے۔ یہ بندوبست طویل المعیاد تو ہوگا لیکن یہی بندوبست بالآخر ڈیورڈ لائن کے مستقل خاتمے کا سبب بنے گا۔ عالمگیر امت مسلمہ کے ابتدائی اتحاد کا آغاز یقیناً یہیں سے ہوگا۔ پاکستان، ایران، افغانستان اور ترکی کو یکجا ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ نو آزاد مسلم ترکستانی ممالک کے اس اتحاد میں آنے پر تہران بخواہش علامہ اقبال عالم مشرق کا جنیوا ہو گا۔ کرہ ارض کی تقدیر یونہی تبدیل ہوگی۔

    (جنرل انور سعید خان نے میری اس فروگزاشت کی طرف توجہ دلائی کہ امریکی یونین 12 نہیں 13 ریاستوں پر بنی تھی، جزاک اللہ. انور بھائی اپنی انہی باریک بینیوں کے سبب فوج میں “پروفیسر جنرل” کہلاتے ہیں۔ سوچا ایسا کیوں ہوا تو پتا چلا کہ 60 سال سے اوپر کے پروفیسر کے یہاں روا روی میں لکھ دینا کچھ عجب نہیں ہے۔ انور بھائی کا مکرر شکریہ).

  • حیران ہوں  سیاحوں کو دیکھ کر کہ میں بھی اِک سیاح ہوں . عاصمہ حسن

    حیران ہوں سیاحوں کو دیکھ کر کہ میں بھی اِک سیاح ہوں . عاصمہ حسن

    جیسے ہی میدانی علاقوں میں گرمی نے زور پکڑا ‘ عید کی چھٹیاں اور ساتھ ہی بچوں کی اسکولوں سے چھٹیاں ہوئیں لوگوں نے شمالی علاقہ جات کی طرف رُخ کرنا شروع کر دیا ـ گرم موسم سے ستائے لوگ ٹھنڈے علاقوں کی طرف بھاگے لیکن گلوبل وارمنگ کی وجہ سے وہاں بھی گرمی ہی برداشت کرنا پڑی ـ

    جیسا کہ آج کل پہاڑی علاقوں میں دن میں سورج اپنی آب و تاب دکھاتا ہے اور اس کےڈھلتے ہی موسم خوشگوار ہو جاتا ہے ـ اس دفعہ لگتا ہے کہ پورا پاکستان ہی کاغان ‘ ناران اور ہنزہ کی وادیوں کی طرف نکل پڑا ہے جس کی وجہ سے ہر طرف یہی سننے اور دیکھنے کو ملا کہ ناران میں گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں ـ جس کی بعد میں وجہ یہ معلوم ہوئی کہ وہاں کا پُل ٹوٹ گیا تھا جس کی بروقت مرمت کا کام نہیں کیا گیا ـ اس کی جگہ متبادل پل بنایا گیا لیکن وہ چھوٹا تھا اور دو طرفہ ٹریفک کے ساتھ انصاف نہیں کر پا رہا تھا ـ

    پھر گاڑیوں کا اژدھام تھا جس میں ہر ایک کو اپنی منزل پر جلدی پہنچنے کا بھوت سوار تھا ‘اسی دھن میں وہ اپنی قطار سے نکل کر آگے آ جاتے ہیں اور یوں دوسری طرف سے آنے والی ٹریفک بھی رک جاتی ہے اور صورتحال مزید گھمبیر ہو جاتی ہے ـ اگر سب تحمل کا مظاہرہ کریں اور اپنی قطار میں آہستہ آہستہ نکلتے رہیں تب بھی اتنا مسئلہ نہ ہو ـ لوگ خود ہی اپنے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں اور پھر خود کو صحیح اور دوسروں کو غلط سمجھتے ہیں ـ آخر کار انتظامیہ کو پل کی مرمت کا خیال آ گیا اور کچھ دنوں کے لیے اس پل کو آمدورفت کے لیے بند کر دیا گیا تاکہ سیاحوں کو گھنٹوں اس اذیت سے نہ گزرنا پڑے اور صورتحال میں بہتری لائی جا سکے ـ

    اس سال شمالی علاقہ جات میں صورتحال زیادہ تشویش ناک نظر آئی جس کی ایک بنیادی وجہ تو وہ 5 سے 6 گھنٹے تھے جس میں لوگوں کو طویل قطار میں کھڑے ہونے کی صعوبت برداشت کرنی پڑی ‘ پھر صفائی کا مسئلہ تھا ـ گزشتہ چند سالوں کی نسبت اس سال زیادہ کوڑا کرکٹ ہر طرف دیکھنے کو ملا ـ جس کے ذمہ دار مقامی کاروباری لوگ اور خود سیاح ہیں ـ لوگ اتنی بڑی بڑی گاڑیاں تو لے آتے ہیں اور اتنا خرچہ بھی کر لیتے ہیں لیکن ایک شاپر اپنی گاڑی میں ایسا نہیں رکھ پاتے جس میں وہ اپنا کوڑا وغیرہ ڈال سکیں اور پھر راستے میں کہیں کسی کوڑے دان میں پھینک سکیں ـ

    جن وادیوں ‘ نظاروں کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے لیے اتنا بے تاب ہو کر’ وقت نکال کر’ پھر اتنا طویل سفر طے کر کے آتے ہیں تو کیا ان راستوں اور مقامات کو صاف ستھرا نہیں رکھ سکتے ؟
    کیا بحیثیت سیاح یہ ہماری ذمہ داری نہیں بنتی ؟

    سوچیں اور فیصلہ کریں ـ راستے میں جگہ جگہ مقامی لوگوں نے ریستوران ‘ ہوٹل اور چائے ‘ کافی کے کھوکھے کھول لیے ہیں جس سے اُن علاقوں کی خوبصورتی تو متاثر ہوئی ہی ہے لیکن ان کے کوڑے سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے ـ کئی جگہوں پر’ دودھ کے خالی ڈبے پڑے ہیں ‘ شاپر اور جوس کے ڈبے دریا اور ندی نالوں میں گرے ہوئے ہیں ـ کیا سیاح جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر دیکھنے کے لیے اُن علاقوں کا رُخ کرتے ہیں ؟ اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی ؟

    ہم ہر بات کے لیے حکومت کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں تو کیا اپنے بچوں کے استعمال شدہ پیمپرز کو سڑک کے کنارے یا ان مقامات پر پھینکنے کی بھی ذمہ داری سرکار پر ڈالیں گے ؟ ہاں یہ حکومت کی کمزوری ضرور ہے جو ایسے لوگوں کو سزا نہیں دیتی ـ غیر ملکی سیاح بھی شمالی علاقہ جات کی طرف رخ کرتے ہیں تو ہم بحیثیت پاکستانی خود کو اور اپنے ملک کو ان کے سامنے کیسا پیش کرتے ہیں ؟
    یہ ایک سوال ہے تھوڑا نہیں بلکہ پورا سوچیں ـ

    صفائی تو ہمارا نصف ایمان ہے پھر ہم کیسے گندگی پھیلانے والے بن گئے ـ جتنے حادثات اس سال ابھی سے سننے اور دیکھنے کو مل رہے ہیں ‘ پہلے کبھی نہ سنا تھا’ نہ مشاہدہ و تجربہ ہوا تھا ـ نہ جانے کون سے لوگ ہیں اور کہاں سے آئے ہیں جن کو نہ اپنی زندگیوں کی پرواہ ہے اور نہ دوسروں کی زندگیوں کا احساس ہے ـ پہاڑوں پر’ پُر پیچ راہوں پر ‘ ڈھلوانوں اور چڑھائی پر ایسے گاڑی چلاتے ہیں جیسے کوئی تیس مار خان ہوں ـ نوجوان لڑکے گاڑیوں کے شیشوں سے آدھے سے زیادہ باہر لٹکے ہوئے ہوتے ہیں ‘ اوور ٹیک کرتے ہیں ‘ تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے ‘ اونچی آواز میں گانے لگا کر پھر وڈیو بنا کر نہ جانے خود کو کونسی فلم کا ہیرو تصور کرتے ہیں ـ

    جب حادثہ ہو جاتا ہے تو ملبہ انتظامیہ اور حکومتی اداروں پر گرتا ہے ـ ہم سب جانتے ہیں کہ گلیشئیرز ‘ خطرناک ہوتے ہیں پھر لینڈ سلائیڈنگ کسی بھی وقت ہو سکتی ہے پھر بھی لوگوں کا برف کے اوپر چڑھ کر کودنا’ کھیلنا ‘ تصویریں بنانا کہاں کی عقلمندی ہے ـ وی لاگنگ’ سیلفی کلچر اور تصویریں بنانے کے شوق نے کئی قیمتی جانیں لے لیں ـ لیکن پھر بھی عقل نہ آئی ـ اس دفعہ ناران میں آنے والے لوگ نہ جانے کون سے سیارے سے آئے ہیں جن کو کسی قسم کی تمیز نہیں ہے ـ عجیب نظروں سے دوسروں کو دیکھنا’ آوازیں کسنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے ‘ نہ کوئی احترام’ نہ کوئی شرم نہ ہی کسی دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ’ پھر اوچھی حرکتوں کا ٹھیکہ بھی اٹھایا ہوتا ہے ـ نہ جانے کون لوگ ہیں یہ !

    نوجوان لڑکے اکٹھے ہو کر جاتے ہیں ان کو پیچھے اپنے والدین یا گھر والوں کا خیال نہیں رہتا یا شاید سر پر کفن باندھ کر ہی اُن پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں ـ فیملی والے ان لوگوں کو دیکھ کر حیران و پریشان ہوتے ہیں کہ ہم تو لطف اندوز ہونے ‘ اچھا اور معیاری وقت گزارنے آئے تھے ‘یہ کہاں پھنس گئے ہم —-اگر ہم اپنے ملک میں سیرو سیاحت کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو ہمیں حکومتی سطح پر سخت اقدامات کرنے ہوں گے اور ان پر عمل پیرا بھی ڈنڈے کے زور پر کروانا ہو گا ـ
    سب سے پہلے تو متعلقہ اداروں کو چاہئیے کہ سوشل میڈیا پر اپنے تصدیق شدہ اکاؤنٹ بنائیں جہاں ہر طرح کی معلومات مل سکے .

    جو درست بھی ہو ‘ موسم کا حال’ اگر کوئی راستہ بند ہے یا زیرِ تعمیر ہے تو اس کی تفصیلات’ یا متبادل راستہ ‘ خوراک و آرام کی اشیاء کی معلومات’ سفر کی تمام تر تفصیلات بتائی جائیں ‘ احتیاطی تدابیر بتائی جائیں ‘ ایمرجنسی نمبرز مہیا کیے جائیں ‘ داخلی راستوں پر بھی چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہئیے کہ کتنی گاڑیاں داخل ہوئی ہیں اور کتنی گنجائیش موجود ہے ‘ زیادہ گاڑیوں کا داخلہ ہی روک دیا جائے ـ اعلانات کیے جائیں ‘ ٹی وی اور دیگر پلیٹ فارمز پر بتایا جائے کہ لوگ فی الحال ان علاقوں کا رخ نہ کریں جب تک حالات معمول پر نہیں آ جاتے ـ

    صفائی کے لیے مناسب وقفوں سے کوڑا دان نصب کیے جائیں ـ پھر مقامی لوگوں پر سختی کی جائے کہ وہ روزمرہ کا کوڑا پہاڑوں کی چوٹیوں ‘دریا یا اردگرد پھیلانے کی بجائے کوڑے دان میں ڈالیں ـ سیاحوں کو بھی جرمانہ عائد کیا جائے تاکہ وہ اپنا کوڑا اپنی گاڑی میں رکھیں جب کہیں کوڑا دان نظر آئے تو اس میں ڈالیں ـ ٹریفک کے اصولوں پر سختی سے عمل کروایا جائے ـ خطرناک راستوں اور موڑ پر احتیاط کی جائے جگہ جگہ امدادی ٹیم کی موجودگی یقینی بنائی جائے کیونکہ ان علاقوں میں گاڑیوں کا خراب ہونا بھی ایک معمول ہے ـ ہر وادی یا علاقے میں ہسپتال ہونا چاہئیے جس میں فوراً ابتدائی طبی امداد مل سکے ـ

    سفر شروع کرنے سے پہلے یہ لازمی بنایا جائے کہ گاڑی کے ٹائر’ بریک’ آئل وغیرہ چیک کریں تاکہ پہاڑی علاقوں میں مشکل سے بچا جا سکے ـ موبائل کے سگنل کا مسئلہ بہت پیچیدہ اور سنگین ہے ـ جو مقامی نمبر لیے جاتے ہیں وہ بھی کام نہیں کرتے جس کی وجہ سے رابطہ ممکن نہیں ہوتا ـ حکومتی سطح پر وہاں مختلف نیٹ ورکس کی بحالی کا موئژ نظام متعارف ہونا چاہئیے تاکہ رابطہ کرنے میں آسانی ہو ـرات کے سفر پر پابندی عائد کی جائے ـ لوگوں کو راستوں کی دشواریوں کے بارے میں اور احتیاط کے بارے میں بتایا جائے ـ

    جب تک ڈرائیور ماہر نہ ہو اس علاقے میں گاڑی نہ چلائے ـ کیونکہ جب نوجوان اور نہ تجربہ کار لوگ گاڑی چلاتے ہیں تو وہاں کے دشوار راستوں پر ان کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں اور گاڑی بے قابو ہو جاتی ہے ـ زرا سی لغزش کئی زندگیاں لے جاتی ہے ـ حکومت سے اپیل ہے کہ جگہ جگہ ہوٹل بنانے کی اجازت دے کر ان علاقوں کی خوبصورتی کو خراب نہ کریں ـ اداروں کو سنجیدہ بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے ورنہ ہمارے شمالی علاقہ جات سیاحوں سے محروم ہو جائیں گے ـ لوگوں کو بھی سوچنا چاہئیے کہ وہ اپنی جمع پونجی مناسب وقت پر’ مناسب جگہ پر لگائیں ‘ سفر شروع کرنے سے پہلے تمام معلومات حاصل کریں ‘ ایڈوانس بکنگ کروائیں ـ

    خیال رکھیں کہ ڈرائیونگ کا دورانیہ مناسب رہے ‘ مختلف مقامات پر ٹھہرتے ہوئے جائیں ایک ہی دن میں ہنزہ پہنچنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ نیند کا پورا ہونا بھی بہت ضروری ہے اور ان علاقوں میں ڈرائیونگ کرنا آسان کام نہیں ہے ـ احتیاط سے کام لیں خوشی کے ماحول کو غم میں تبدیل نہ کریں ـ جذبات سے نہیں بلکہ ہوش و حواس سے کام لیں اور اپنے اس سفر کو آخری سفر میں تبدیل نہ کریں ـ اپنا اور اپنے پیاروں کا خیال رکھیں ـ اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنی امان میں رکھیں ـ

  • تاریخ کا سیاہ باب اور ایک پاکیزہ کردار . ارشدزمان

    تاریخ کا سیاہ باب اور ایک پاکیزہ کردار . ارشدزمان

    تاریخ کبھی کبھی ایسے موڑ پر آ کھڑی ہوتی ہے جہاں قومیں آزمائش کے کٹھن مرحلوں سے گزرتی ہیں۔ کچھ کردار بکتے، جھکتے اور مصلحتوں کی چادر اوڑھ لیتے ہیں، اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سچ بولنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔

    پاکستان کی حالیہ تاریخ کا ایک ایسا ہی سیاہ باب، اور اس میں ایک بے داغ، پاکیزہ کردار، سید منور حسن…. ایک الگ پہچان بن کر ابھرتا ہے۔ امریکی جنگ، پاکستانی حکمران اور قومی خودکشی، نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر ظلم و جارحیت کی یلغار کی۔ لیکن اصل افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان کے حکمراں جنرل پرویز مشرف — امریکی دباؤ اور ڈالروں کے نشے میں آ کر نہ صرف اس جنگ میں شریک ہوئے بلکہ اسے پاکستان کے اندر لا کر اپنے ہی عوام کے خلاف بندوق اٹھا لی۔

    ایک پوری قوم کو دہشتگردی کی دلدل میں دھکیل دیا گیا۔ افغان سفیر سے لے کر سینکڑوں بے گناہ پاکستانیوں تک، سب کو غیرقانونی طور پر امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ خواتین اور بچے بھی نہ بچے۔ ہزاروں معصوم شہریوں کو ملکی سرزمین پر آپریشنز کے ذریعے دربدر کیا گیا۔ نام نہاد جنگ کے جواز پیدا کرنے کے لیے ڈرامے تیار کیے گئے۔ “گل مکئی” کے نام سے ڈائریاں، “ملالائیں” اور جعلی کوڑے مارنے کی ویڈیوز سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا۔

    اسلام کے چہرے کو مسخ کیا گیا، اور روشن خیالی، ماڈریشن، لبرل ازم، مادر پدر آزادی جیسے مغربی تصورات کو ریاستی سطح پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی۔ سب کچھ “ڈالرز” کے عوض۔ لگنے لگا جیسے اسلام، ملک، عوام اور مسلم امہ سب کچھ داو پر لگا دیا گیا ہو۔ جب ہر طرف خاموشی تھی، ایک آواز گونجی ….ایسے میں ایک آواز تھی جو نہ بکی، نہ جھکی۔ یہ آواز تھی سید منور حسنؒ کی۔ یہ آواز پاکیزہ بھی تھی، باوقار بھی،گرجدار بھی، اور فکری و ایمانی طور پر بے مثال۔ انہیں خاموش کرانے کی ہر ممکن کوشش ہوئی۔ انہیں متنازعہ بنانے کے لیے میڈیا مہمات چلیں۔

    سوالات اٹھائے گئے، القابات تراشے گئے، لیکن یہ آواز وقت کے ساتھ اور زیادہ نکھرتی گئی۔ سید منور حسنؒ کا مؤقف نہایت واضح اور بے خوف تھا:
    • امریکہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔
    • اصل دہشت گردی، ریاستی دہشت گردی ہے۔
    • جہاد اور مزاحمت ہی امت کے بقا کی علامت ہیں۔
    • امریکہ کی جنگ میں شریک ہونے والے، چاہے وردی میں ہوں یا بغیر وردی کے، سب مجرم ہیں۔
    • نہ شریعت بندوق کی نوک پر نافذ کی جا سکتی ہے، نہ امن جیٹ طیاروں سے لایا جا سکتا ہے۔

    انہوں نے نہ صرف امریکہ بلکہ پاکستان کے اندر موجود ان کرداروں کو بھی بےنقاب کیا جو قوم کو غلامی کی راہ پر لے جا رہے تھے — جنرل مشرف، جنرل کیانی، یوسف رضا گیلانی، اور ان جیسے کئی چہروں کو انہوں نے للکارا۔
    ایک موقع پر ان کے الفاظ تھےکہ
    “جنرل صاحب! آج جو آوازیں تمہاری پالیسیوں کے خلاف اٹھ رہی ہیں، یہ فضاؤں میں تحلیل نہیں ہوں گی، یہ تمہارا پیچھا کریں گی اور ایک دن اپنا اثر دکھائیں گی۔”

    اور وہ دن آیا۔ جب قوم کا دباؤ بڑھا، جب اصل چہرے بےنقاب ہونے لگے، تو ایک وقت پر آرمی چیف اور وزیرِاعظم دونوں نے تسلیم کیا:
    “آئندہ ہم کسی اور کی جنگ نہیں لڑیں گے۔”

    سید منور حسنؒ کوئی روایتی سیاستدان نہ تھے۔ وہ صاحبِ نظر، صاحبِ فکر، صاحبِ عزم اور صاحبِ دل انسان تھے۔ ان کی قیادت کا محور اسلام تھا، ان کی سیاست کا مرکز امت تھی، اور ان کی جدوجہد کا رخ ظلم کے خلاف اور حق کے حق میں تھا۔ وہ ایمان کی طاقت اور مومنانہ بصیرت کا استعارہ تھے۔ آج جب ہم پیچھے پلٹ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ نے انہیں سچائی کے پلڑے میں رکھا ہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ وہ درست تھے، باہمت تھے، اور اہلِ حق تھے۔

    آج بھی یہ سوال باقی ہے کہ کیا ہم نے سید منور حسنؒ جیسی بےباک آوازوں کی قدر کی؟ کیا ہم نے اس سیاہ باب سے سبق سیکھا یا ہم اب بھی ڈالروں، میڈیا، اور مغربی بیانیے کے سحر میں کھوئے ہوئے ہیں؟

  • سیاست و زبان دونوں ہی بے لگام – اعظم علی

    سیاست و زبان دونوں ہی بے لگام – اعظم علی

    ستاون سال قبل9 اگست 1965 کو اس وقت کی ملائشین حکومت نے گھر کی روٹی میں برابر کا حصہ مانگنے پر لات مار کر اس ”نکھٹو“ بیٹے کو نکالا تھا کہ حصہ دینا پڑتا ہے لیکن کُبڑے کو لات راس آگئی۔

    آج ملائشیا کی حالت کرپشن ،بے ایمانی و اقربا پروری کی وجہ سے غیر ہے، ملائشیا کے خزانے سے پانچ ارب امریکی ڈالر چوری ہوئے جس کا کھُرا نہ صرف اس وقت کے وزیراعظم ملائشیا نجیب عبدالرزاق تک پہنچا بلکہ اس کے سوئز اکاؤنٹ میں خطیر رقم بھی برآمد ہوئی، اس کے علاوہ مال غنیمت کی تقسیم پر ایک مشکوک قتل جس میں وزیراعظم کی سیکیورٹی کے دو اہلکاروں کو سزائے موت بھی سُنائی گئی، ان میں سے ایک آسٹریلیا فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن سیاسی اشرافیہ کا کچھ نہ بگڑ سکا. ملائشیا کی کرنسی بھی سنگاپور کے مقابلے میں ایک تہائی سے کم ہے۔ بلکہ روزانہ لاکھوں ملائشین بسوں، کاروں و موٹر سائیکلوں پر کاروبار و ملازمتوں کے لیے سنگاپور آتے ہیں اور شام کو ملائشیا گھر چلے جاتے ہیں۔

    اور وہ ”نکھٹو“ بیٹا جو خالی ہاتھ گھر سے نکلا تھا دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے۔ بلکہ زندگی ہر شعبے میں ملائشیا سے کئی گُنا آگے نکل چَکا ہے۔ یہ پچاس لاکھ افراد پر مشتمل چھوٹا سا ملک کرپشن سے پاک، امن و امان کے لحاظ سے جنت، بہترین تعلیم ( لوگ یہاں کے تعلیمی نظام میں طلبہ پر دباؤ کی شدت کے شکایت ضرور کرتے ہیں)۔ لیکن یہ بھی حقیقت کہ یہاں پر سڑک پر کام کرنے والا خاکروب ہو یا وزیراعظم کی اولاد ( سوائے بیرون ملک سے آنے والی اشرافیہ یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اعلی افسران کے اولاد کے) سب ہی سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

    اس کے محفوظ خزانے میں کم از کم نصف کھرب ڈالر جمع ہیں۔اور تقریباً 88 فیصد آبادی اپنے گھروں کی مالک ہے، ہر نوجوان جوڑا شادی سے پہلے ہی سرکاری گھروں کی درخواست کرتا ہے اور چند سالوں میں اسے بنا بنایا فلیٹ مل جاتا ہے جس کی ادائیگی بیس پچیس سال میں آسان اقساط میں دینی ہوتی ہے۔ یہی معاملہ صحت کا ہے۔ آج بھی ملائشیا ہو یا انڈونیشیا و تھائی لینڈ یقیناً ان ممالک میں بھی اچھے اسپتال ہوں گےلیکن ان کی اشرافیہ اپنے علاج کے لئے سنگاپور کا رُخ کرتی ہے۔

    گزشتہ روز سابق وزیراعظم مہاتیر محمد کو اچانک ہی تاریخ یاد آگئی کہ سنگاپور ملائی سلطنت کا حصہ تھا اور ہمیں واپس لینا ہوگا، یہ بات گھر سے نکالتے ہوئے 1965 میں یاد نہیں آئی اور اب پُرانی ملّائی سلطنت کے احیاء کا چورن بیچنے کی کوشش کی جاری ہے۔ اصل میں بات اتنی ہے جب گھر میں دانے کم پڑ جاتے ہے تو ایسے ہی ہذیان بکنے کا جی چاہتا ہے۔ وہ تو شُکر ہے کہ وہ سابق وزیراعظم ہے اور حاضر وزیراعظم ہوتا تو اس بیان یا بکواس کے بعد شاید ہم بھی پڑوس کے ”بھارت“ سے مقابلے کے لئے تیاری میں سارے وسائل خرچ کررہے ہوتے۔

    یہ بھی ممکن ہے کہ مہاتیر محمد اگلے انتخابات کے لئے قوم کو نیا چورن فروخت کرنے کی کوشش کررہے ہیں. ان کے سنگاپور کے خلاف منفی جذبات مخفی نہیں تھے لیکن اپنے طویل دور اقتدار میں انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی اور اقتدار سے باہر آکر اس قسم کی باتیں گھٹیا سیاست سے زیادہ کچھ نہیں لگتی لیکن مجھے یقین کے اس بیان و تقریر نے سنگاپور کےمتعلقہ حلقوں میں سُرخ بتیاں جلنے لگی ہوں گی ۔یقیناً ملائشیا ایک بڑا ملک ہے، اور سنگاپور انتہائی مختصر۔اسی طرح طاقت کا توازن ۔ ملائشیا کے پاس نسبتا بڑی فوج لیکن ہتھیاروں و ساز وسامان کے لحاظ سے کمتر ہے، کتنی بھی طاقتور فوج اور سازو سامان سے لیس ہو جنگوں میں سائز کی اہمیت رہتی ہی ہے۔

    یقیناً سنگاپور کی مختصر زمین اور نسبتا گنجان آبادی دشمن کے لئے آسان نشانے ہیں۔ اللہ نہ کرے کہ ایسا وقت آئے لیکن اسی دن کے لئے سنگاپور نے لازمی فوجی سروس کا قانون بنایا ہے جس کے تحت اصل فوج تو مختصر ہی رکھی گئی ہے۔ یہاں کا ہر نوجوان تعلیم مکمل کرنے سے ہی 18 سال کی عمر میں (عموماً بارہویں جماعت کے بعد ) پہلے وطن کی حفاظت کے لئے تیاری کرنے فوج یاکسی بھی ادارے جہاں بھیجا جائے میں جاتا ہے، دوسالہ مدت مکمل کرنے کے بعد دوبارہ اپنی تعلیم میں مشغول ہو جاتا ہے۔

    یہ نوجوان عموماً فوج ،پولیس، یا ریسکیو (سول ڈیفینس) کے اداروں میں اپنی جسمانی صحت و آپریشن ضروریات کے تحت بھیجے جاتے ہیں اور 40 (کمیشنڈ افسران 45سال کی عمر تک ) سال میں کم از کم پندرہ دن سے ایک ماہ اپنی ملازمتوں و کاروبار چھوڑ کر اپنی متعلقہ فورس میں اپنی صلاحیتوں کو تازہ رکھنے و بڑھانے کے لئے لازمی طور جانا پڑتا ہے۔اس دوران ان کی آپریشنل تیاری کا امتحان لینے کے لئے وقتا فوقتا چند گھنٹوں کے نوٹس پر طلبی اور سالانہ جسمانی چُستگی کا امتحان جس کے تحت ساڑھے بارہ منٹ میں 2400 میٹر دوڑ، اور ایک منٹ میں مخصوص تعداد میں پُش اپ اور پُل اپ کرنا لازم ہے۔

    ملائشیا کی فوجی اہلیت بہت کمزور ہے۔ انتہا یہ ہے کہ ملائشین ائرلائن کا جہاز جو چند سالوں قبل غایب ہوا تھا اس کا ٹرانسپونڈر بند کرکے واپس ملائشین فضاؤں سے گذرتا ہوا کہیں غائب ہوا ۔۔ اور ملائشین ائیرفورس سوتی ہئ رہ گئی۔
    یقیناً اس کا امکان نہیں ہے کہ ملائشیا حملہ کرنا چاہے۔ لیکن یہ خدشہ ہمیشہ پالیسی سازوں کو رہتا ہے۔اس قسم کے بیانات بالخصوص سابق وزیراعظم کی جانب سے نو سسٹم کا حصہ ہی نہیں بلکہ سسٹم کو بنانے والوں میں شامل تھا۔ بہت بڑی شر انگیزی ہے۔اور کوئی ہلکا نہیں لے سکتا۔

    دوسری بات یادرکھی جائے کہ سنگاپور کی لائف لائن ملائشیا کی ریاست جوھور سے پائپ کے ذریعے آنے والا پانی ہے۔ ملائشیا اس پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرسکتا ہے۔اور ریاست سنگاپور کے بانی لی کوان یو نے اپنی کتاب میں لکھا تھا ۔ کہ پانی کی بندش اعلان جنگ تصور کی جائے گی۔حالانکہ اس کے باوجود سنگاپور نے اپنے آبی وسائل و ذخیرہ کرنے کی صلاحیت پر بھرپور توجہ دی ہے۔بارش کے پانی سے لیکر گٹروں کے فاضل پانی کو بھی ضائع کرنے سے بچایا جاتا ہے۔لیکن پھر بھی ۔۔۔۔ تیاری پوری رہے۔

    ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ 80 فیصد آبادی سرکاری تیار شدہ فلیٹوں میں رہتی ہے۔ اب جتنے بھی نئے فلیٹ سرکار تیار کررہی ہیں ان میں ہر فلیٹ میں ایک چھوٹا سا کمرہ بطور بم شیلٹر ہے یعنی اس کی ساخت ایسی رکھی گئی ہے کہ بمباری کی صورت میں نقصان نہ پہنچے۔اس کے علاوہ پورے ملک میں زمین دوز ریلوے کا نیٹ ورک بھی اسی ہوائی حملے سے پناہ گاہوں کے سلسلے کی کڑی ہے۔اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ ریاست سنگاپور حالت امن میں مستقل ممکنہ جنگ کی تیاریوں میں مشغول رہی کہ،

    ہے جُرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

    اللہ نہ کرے کہ وہ وقت آئے کہ سنگاپور و ملائشیا دوبدو ہوں، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ جنگی و توسیع پسندانہ عزائم نہ ہونے کے باوجود سنگاپور کبھی اپنے دفاع سے غافل نہیں رہا۔ اگر کوئی سنگاپور کی خوشحالی کی وجہ سے رال ٹپکا رہا ہے تو اسے یاد دلانا چاہتا ہوں کہ مہاترے محمد صدام حسین نہیں ہے اور نہ سنگاپور کویت ہے۔ اپنا اور اپنے وطن دفاع ہمارا حق ہے،اگر ایسا ہوا تو میں اور میری اولاد وطن پر قربان ۔ اور سنگاپور بھی میرا اتنا ہی وطن ہے جتنا پاکستان۔

  • اختیار اور اثر ، دلوں کی سیاست یا کرسی کا اقتدار – رانا عثمان

    اختیار اور اثر ، دلوں کی سیاست یا کرسی کا اقتدار – رانا عثمان

    کبھی آپ نے محسوس کیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں طاقت کا تصور کس قدر بدل چکا ہے؟ ایک زمانہ تھا جب طاقتدار وہ کہلاتا تھا جس کے پاس کرسی ہو، عہدہ ہو، اختیار ہو — جو حکومتی اداروں کو چلاتا ہو، قانون بناتا ہو، اور فیصلے صادر کرتا ہو۔

    لیکن آج؟
    آج کا نوجوان اس طاقت کو ویسا نہیں دیکھتا جیسا ہمارے آباؤ اجداد نے دیکھا تھا۔ اب طاقت کا معیار بدل گیا ہے۔ اب طاقت وہ نہیں جس کے پاس قلم ہے، بلکہ وہ ہے جس کے الفاظ لاکھوں دلوں میں گونجتے ہیں۔ آج ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں کسی سادہ لباس میں ملبوس، کیمرہ ہاتھ میں لیے، ایک عام سا شخص اپنی بات چند لمحوں میں دنیا بھر میں پہنچا دیتا ہے۔ وہ کوئی وزیر نہیں، نہ ہی کوئی رکن اسمبلی، نہ ہی کسی حکومتی پالیسی کا حصہ، مگر اس کی آواز، اس کا انداز، اور اس کی سچائی — دلوں کو چھو جاتی ہے۔ یہی ہے انٹرنیٹ انفلونسر کا اثر — ایک خاموش انقلاب، جو بظاہر سادہ نظر آتا ہے، مگر اندر سے پورے نظام کو جھنجھوڑنے کی طاقت رکھتا ہے۔

    سیاستدان: اقتدار کا محافظ، مگر جذبات سے کٹا ہوا
    ہماری ریاستی تاریخ میں سیاستدان ہمیشہ سے اختیار کی علامت رہا ہے۔ اس کے پاس وہ قلم ہوتا ہے جو قانون کی سطریں رقم کرتا ہے۔ اس کی زبان سے نکلے وعدے، منشور، پالیسیاں اور ترقیاتی منصوبے قوم کی سمت کا تعین کرتے ہیں۔ وہ اسمبلی میں تقریریں کرتا ہے، پریس کانفرنسز میں بیانات دیتا ہے، جلسوں میں نعرے لگواتا ہے۔ مگر آج کا سچ یہ ہے کہ اس کی یہ ساری گھن گرج اکثر خالی خول بن چکی ہے۔ لوگ اب صرف الفاظ سے مطمئن نہیں ہوتے، وہ احساس چاہتے ہیں۔ وہ ایسی زبان سننا چاہتے ہیں جو ان کے دل کی بولی ہو، جو ان کے روزمرہ کے مسائل سے جڑی ہو، جو مصنوعی نہ ہو بلکہ حقیقت سے لبریز ہو۔ بدقسمتی سے بیشتر سیاستدان آج بھی اسی پرانے بیانیے میں الجھے ہوئے ہیں۔ وہ اب بھی فائلوں کے درمیان، سرکاری اصطلاحات میں، اور روایتی انداز میں اپنی بات کہتے ہیں۔ جبکہ آج کا شہری چاہتا ہے کہ اس سے سیدھی، سادہ اور سچائی پر مبنی گفتگو کی جائے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے مسائل کو اس کی اپنی زبان میں سنا جائے، نہ کہ محض تقریروں اور وعدوں میں دبایا جائے۔

    انفلونسرز: آواز کا سفر، اثر کی طاقت
    انٹرنیٹ انفلونسرز اس خلا کو پُر کر رہے ہیں جو سیاستدان اور عوام کے درمیان پیدا ہو چکا ہے۔ وہ سادہ انداز میں بات کرتے ہیں، ان کی گفتگو میں زندگی ہوتی ہے، اور وہ وہی کچھ کہتے ہیں جو عوام سوچتی ہے لیکن بول نہیں پاتی۔ کسی یوٹیوبر کی ایک ویڈیو میں اگر پانی کی قلت کا مسئلہ اٹھتا ہے، تو وہ محض مسئلہ بیان نہیں کرتا بلکہ جذبات جگاتا ہے۔ کسی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کی ایک پوسٹ اگر مہنگائی پر ہو، تو وہ صرف اعداد و شمار نہیں دکھاتا بلکہ ایک ماں کی آنکھوں میں جھلکتی پریشانی کو تصویر بنا کر سامنے رکھ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام ان پر یقین کرتی ہے۔ ان کی بات سنتی ہے، ان سے جڑتی ہے، اور ان کے بیانیے کو اپنا بیانیہ بنا لیتی ہے۔

    اثر کی اصل بنیاد: جذبات سے جڑی زبان
    اگر آپ غور کریں، تو سیاستدان کی زبان اور انفلونسر کی زبان میں سب سے بڑا فرق جذبات کا ہے۔ سیاستدان اکثر ‘معاشی اصلاحات’ کی بات کرتا ہے، انفلونسر ‘روٹی کے سوال’ کی۔ سیاستدان ‘تعلیمی بجٹ’ کی بات کرتا ہے، انفلونسر ‘سرکاری اسکول کی ٹوٹی ہوئی چھت’ کی۔ سیاستدان ‘روزگار کے مواقع’ پر تقریر کرتا ہے، انفلونسر ‘بیروزگار نوجوان کی آنکھوں کی نمی’ پر بات کرتا ہے۔ یہی وہ فرق ہے جو آج اثر اور اختیار کو دو مختلف سمتوں میں لے جا رہا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں اختیار ہے، مگر دلوں کی دنیا میں اثر انفلونسرز کا ہے۔

    سیاست کا بدلتا چہرہ
    اب خود سیاستدان بھی اس بدلتے منظرنامے کو محسوس کر چکے ہیں۔ انہیں اندازہ ہو چکا ہے کہ اگر وہ صرف اسمبلی میں تقریریں کرتے رہے تو عوام ان سے کٹتی جائے گی۔ اسی لیے اب وہ بھی سوشل میڈیا کا سہارا لے رہے ہیں، اپنی بات کو عوامی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ سیاستدان خود بھی وی لاگنگ کرتے نظر آتے ہیں، کچھ انسٹاگرام لائیو سیشنز میں عوام سے جڑتے ہیں۔ یہ تبدیلی خود ایک نئی سیاست کی علامت ہے۔ اب کامیاب وہی ہوگا جو دل کی زبان بولے گا، چاہے وہ سیاستدان ہو یا انفلونسر۔

    کیا انفلونسرز سیاست کا مستقبل ہیں؟
    یہ سوال اکثر ذہن میں آتا ہے کہ کیا انفلونسرز واقعی سیاستدانوں کا متبادل بن سکتے ہیں؟ ظاہری طور پر تو شاید نہیں — کیونکہ ریاستی نظام کو چلانے کے لیے تجربہ، قانونی معلومات اور ادارہ جاتی شعور ضروری ہے۔ لیکن اگر قیادت صرف کرسی کا نام نہ ہو، بلکہ عوامی احساسات کی نمائندگی کا نام ہو، تو انفلونسرز آج کے حقیقی لیڈر ہیں۔
    وہ نوجوان جو صرف ایک کیمرے اور ایک سچائی کے جذبے سے اپنی بات کہتا ہے، وہ قوم کی نبض پر ہاتھ رکھتا ہے۔ وہ معاشرے کے زخم دیکھتا ہے، ان پر مرہم رکھتا ہے، اور عوام کو شعور بخشتا ہے۔ ایسے لوگ وقتی سیاستدان نہیں ہوتے، بلکہ مستقبل کے معمار ہوتے ہیں۔

    اختتامیہ: اختیار وقتی ہوتا ہے، اثر دائمی
    آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اختیار کی بنیاد کرسی ہو سکتی ہے، مگر اثر کی بنیاد ہمیشہ دل ہوتے ہیں۔ اگر ایک سیاستدان لاکھوں کے جلسے کر لے مگر لوگوں کے دلوں تک نہ پہنچ سکے، تو وہ کبھی حقیقی لیڈر نہیں بن سکتا۔ اور اگر ایک انفلونسر بغیر کسی عہدے کے دلوں میں جگہ بنا لے، تو وہ قوم کی آواز بن جاتا ہے۔ ہمیں اب اس فرق کو سمجھنا ہوگا۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم صرف وہ سن رہے ہیں جو ہمیں سنایا جا رہا ہے، یا وہ جو حقیقتاً ہمارے جذبات کی ترجمانی کر رہا ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ سیاست کی تعریف بدل دی جائے۔ کیونکہ قوموں کی قیادت صرف کرسی سے نہیں ہوتی — دل سے ہوتی ہے۔

  • کیا زکوۃ، ولی الامر (حکمران) ہی وصول کر سکتا ہے؟ حافظ محمد زبیر

    کیا زکوۃ، ولی الامر (حکمران) ہی وصول کر سکتا ہے؟ حافظ محمد زبیر

    دوست کا سوال ہے کہ کیا زکوۃ ولی الامر اور حکمران ہی وصول کر سکتا ہے یا مسلمان اپنے طور بھی زکوۃ ادا کر سکتے ہیں؟ جواب: قرآن مجید میں واضح طور موجود ہے کہ زکوۃ ولی الامر اور حکمران وصول کر سکتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: “خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً” ترجمہ: اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، آپ ان مسلمانوں سے ان کے مالوں میں سے زکوۃ وصدقات وصول کریں۔ اسی طرح سورہ التوبۃ میں جہاں زکوۃ کے مصارف بیان ہوئے ہیں کہ زکوۃ کہاں خرچ کی جا سکتی ہے تو وہاں عاملین زکوۃ کا بھی ذکر ہے اور عاملین زکوۃ سے مراد ولی الامر اور حکمران کی طرف سے مقرر کردہ وہ افراد ہیں جو لوگوں سے زکوۃ جمع کر کے بیت المال میں جمع کروائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانوں میں زکوۃ ولی الامر اور حکمران ہی وصول کیا کرتے تھے اور بعد ازاں اسے مسلمانوں کی مصالح میں لگا دیا کرتے تھے۔

    حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے زکوۃ ولی الامر یا حکمران کو ادا نہ کرنے والوں سے قتال بھی کیا تھا جو کہ معروف واقعہ ہے۔ لیکن فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ خلیفہ بلا فصل کا یہ قتال، اموال ظاہرہ کی زکوۃ سے متعلق تھا۔ فقہاء نے اموال کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے؛ اموال ظاہرہ یعنی انسان کا وہ مال جو دوسروں کے سامنے ہو جیسا کہ مال مویشی اور کھیتی وغیرہ۔ دوسرا اموال باطنہ یعنی انسان کے وہ اموال جو پوشیدہ ہوں یعنی صرف اسی کے علم میں ہوں جیسا کہ گھر میں پڑا ہوا سونا چاندی، زیورات، نقدی کیش اور مال تجارت وغیرہ۔ جمہور فقہاء ہر قسم کے مال تجارت کو اموال باطنہ میں شمار کرتے ہیں لیکن اس بارے احناف کی رائے درست معلوم ہوتی ہے کہ بعض مال تجارت اموال ظاہرہ میں آ جاتے ہیں۔ آج کل بینک اکاونٹ میں جو رقم پڑی ہوتی ہے، تو وہ بھی اموال ظاہرہ میں ہی آتی ہے۔ آسان سا قاعدہ کلیہ یہی ہے کہ آپ کا جو مال ریاست کی نظر اور علم میں آ جاتا ہے، وہ اموال ظاہرہ میں سے ہے اور جو اس سے پوشیدہ رہتا ہے، وہ اموال باطنہ میں سے ہے۔

    اموال ظاہرہ کی زکوۃ ولی الامر اور حکمران لے سکتا ہے۔ اور اگر وہ مانگے تو اس کو یہ زکوۃ دینا واجب ہے۔ اور اس پر فقہاء کا اتفاق ہے۔ اگر حکمران فاسق وفاجر ہو کہ زکوۃ کو اس کی صحیح جگہ نہ لگائے گا تو کیا اس کو زکوۃ دینا ضروری ہے؟ اس بارے فقہاء کا اختلاف ہے۔ احناف اور مالکیہ کا موقف یہ ہے کہ ایسی صورت میں امام اور حکمران کو زکوۃ نہ دے اور خود سے زکوۃ ادا کرے، بھلے اسے اپنا مال چھپانا پڑے۔ اس کی دلیل ان کے ہاں یہ ہے کہ قرآن مجید نے گناہ اور ظلم کے کاموں میں تعاون سے منع کیا ہے۔ اس بارے شافعیہ اور حنابلہ کا موقف یہ ہے کہ امام بھلے ظالم ہی کیوں نہ ہو، اس کو زکوۃ ادا کر دیں جبکہ وہ زکوۃ مانگے اور اپنا مال اس سے نہ چھپائے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ تم حکمران کو زکوۃ ادا کر دو، اگر اس نے اس کو صحیح جگہ نہ لگایا تو اس کا گناہ اس پر ہے اور تم بری الذمہ ہو۔

    جہاں تک اموال باطنہ کی زکوۃ کا معاملہ ہے یعنی زیورات، نقدی کیش وغیرہ کی زکوۃ یا وہ مال جو حکومت اور ریاست کے علم میں نہیں ہے، تو فقہاء کے نزدیک اس کی زکوۃ انسان خود سے ادا کر سکتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: “وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ (24) لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ”۔ ترجمہ: اور ان کے مالوں میں سوال کرنے والوں اور محرومین کا معلوم حق ہے۔ اگر حکمران یا ولی الامر اموال باطنہ کی زکوۃ بھی لوگوں سے طلب کرے تو کیا اس کو ان اموال کی زکوۃ دینا واجب ہے؟ اس بارے دو موقف ہیں: بعض فقہاء اس کو دینے کے قائل ہیں جبکہ جمہور فقہاء کے نزدیک اس کا دینا واجب نہیں ہے کیونکہ یہ اس کا حق ہی نہیں ہے۔

    خلاصہ کلام یہی ہے کہ اموال باطنہ مثلا زیورات، نقدی کیش اور ایسا مال جو ریاست کے علم میں نہیں ہے، اس کی زکوۃ مسلمان اپنے طور نکال کر مصارف زکوۃ میں سے کسی مصرف میں تقسیم کر دیں گے۔ جہاں تک اموال ظاہرہ کا معاملہ ہے جیسا کہ مال مویشی، کھیتی باڑی اور ایسا مال تجارت جو ریاست کی نظر اور اس کے علم میں ہے، یا بینک اکاونٹ میں پڑی رقم یا ریٹرن فائل کرتے ہوئے آپ کے ڈیکلیئرڈ ایسٹس تو ان کی زکوۃ ولی الامر اور حکمران وصول کر سکتا ہے۔ اور اس کے مطالبے پر اسے ادا کرنا واجب ہے۔ لیکن اگر ولی الامر یا حکمران کے بارے اندیشہ ہو کہ وہ اس زکوۃ کی رقم کو صحیح مصرف میں خرچ نہ کرے گا تو پھر فقہاء کی دونوں آراء موجود ہیں۔ میں تو آج کل یہی رائے دیتا ہوں کہ اپنی زکوۃ ولی الامر یا حکمران کو دینے کی بجائے خود سے ادا کریں جیسا کہ احناف اور مالکیہ کی رائے ہے۔

    باقی یہ بات درست ہے کہ پنجاب حکومت کا جو عشر اور زکوۃ کا ڈیپارٹمنٹ ہے، اس کے جو پروگرامز ہیں جیسا کہ گزارا الاونس، تالیف قلب، دینی مدارس کی امداد، شادی میں معاونت اور ٹیکنیکل تعلیم کے لیے وظائف جاری کرنا وغیرہ، وہ زکوۃ کے مصارف میں شامل ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ زکوۃ کی رقم وہاں خرچ ہوتی بھی ہے یا نہیں۔ اگر کسی کو اس کا اعتبار ہو تو وہ وہاں ادا کر سکتا ہے۔ اور جس کے بینک اکاونٹ سے کاٹ لی جائے تو اس کی زکوۃ بھی ادا ہو جاتی ہے۔ اور جس کو اعتبار نہیں ہے تو وہ اپنے طور زکوۃ ادا کر دے۔ واللہ اعلم بالصواب

  • ‏وزارتیں کم، وزیر زیادہ! عدنان فاروقی

    ‏وزارتیں کم، وزیر زیادہ! عدنان فاروقی

    ‏وزارتیں کم، وزیر زیادہ! شہباز حکومت نے وزارتوں کی “آدھا تمھیں، آدھا ہمیں” پالیسی اپنا لی ہے.

    شہباز شریف حکومت نے ایک نیا ٹرینڈ متعارف کرا دیا: ایک وزارت، دو یا تین وزیر! کچھ وزارتوں میں تو اتنی بھیڑ ہو گئی ہے کہ لگتا ہے، اجلاس میں فیصلہ سازی کے بجائے کرسیاں گننے میں وقت گزرے گا۔

    مثلاً، وزارت داخلہ کے تین وزیر! محسن نقوی وفاقی وزیر داخلہ، طلال چودھری وزیر مملکت داخلہ، اور پرویز خٹک مشیر داخلہ ہوں گے۔ اتنے وزیر دیکھ کر لگتا ہے کہ ملک میں سیکیورٹی کم اور سیکیورٹی میٹنگز زیادہ ہوں گی۔

    ریلوے کا بھی یہی حال! حنیف عباسی وفاقی وزیر، اور بلال کیانی وزیر مملکت۔ شاید ایک انجن چلائیں گے اور دوسرا بریک پکڑیں گے۔

    صحت اور تعلیم، جو 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کی ذمہ داری ہیں، وہ بھی وفاقی حکومت کے دل سے نہیں اتر رہیں۔ مصطفیٰ کمال کو وفاقی وزیر نیشنل ہیلتھ سروسز اور مختار ملک کو وزیر مملکت بنا دیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب صحت صوبوں کے حوالے ہو چکی ہے، تو یہ وزراء مریض دیکھیں گے یا ڈاکٹرز کو لیکچر دیں گے؟

    اسی طرح، تعلیم کے میدان میں بھی عجیب مذاق چل رہا ہے۔ خالد مقبول صدیقی کو وفاقی وزیر تعلیم اور وجیہہ قمر کو وزیر مملکت بنا دیا گیا۔ شاید یہ وفاق میں بیٹھ کر صوبوں کو بتائیں گے کہ “تعلیم کیسے برباد کی جاتی ہے”؟ ویسے بھی، اپریل 2022 کے بعد سے سندھ حکومت جو ظلم کراچی کے میٹرک اور انٹر کے طلباء کے نتائج کے ساتھ کر رہی ہے، اس پر ایم کیو ایم کے وزیر تعلیم کا کوئی ایکشن دیکھنے میں نہیں آیا۔ شاید ان کو نصیحت کرنے تک کی اجازت نہیں، کیونکہ بوٹوں کے طفیل ملنے والے مینڈیٹ میں باز پرس کرنے کی نہیں، صرف سر جھکانے کی گنجائش ہوتی ہے!

    قانون کی وزارت میں بھی “ڈبل شفٹ” چل رہی ہے۔ اعظم نذیر تارڑ وفاقی وزیر قانون و انصاف، اور عقیل ملک وزیر مملکت۔ لگتا ہے ایک کیس بنائے گا اور دوسرا اس پر اپیل کرے گا۔

    نیشنل فوڈ سیکیورٹی میں بھی “دو بندے ایک نوالہ” والا حساب ہے۔ رانا تنویر حسین وفاقی وزیر، ملک رشید وزیر مملکت۔ بس دعا ہے کہ خوراک عوام کو بھی ملے، صرف وزیروں کے ٹیبل تک نہ محدود رہے۔

    اوورسیز پاکستانیز کے مسائل حل کرنے کے لیے بھی ڈبل فورس لگا دی گئی! چودھری سالک حسین وفاقی وزیر اور عون چودھری وزیر مملکت۔ لگتا ہے ایک امیگریشن کی لائن میں لگے گا اور دوسرا ویزے کے مسائل حل کرے گا۔

    نئی وزارت “پبلک افیئرز یونٹ” میں بھی عجب تماشا ہے۔ عبدالرحمان کانجو وزیر مملکت (ایڈیشنل پورٹ فولیو) اور رانا مبشر اقبال وفاقی وزیر۔ عوامی مسائل تو وہی پرانے ہیں، البتہ وزیروں کی تعداد نئی ہے!

    لگتا ہے کہ یہ حکومت “نوکریاں پیدا کرنے” کے وعدے کو بہت سنجیدگی سے لے رہی ہے، بس نوکریاں عوام کو دینے کے بجائے خود بانٹ رہی ہے!

    شاید اسی کو مفاہمت کی سیاست کہا اور سمجھا جاتا ہے

  • رمضان المبارک اور مہنگائی کا طوفان – عدنان الیاس

    رمضان المبارک اور مہنگائی کا طوفان – عدنان الیاس

    رمضان المبارک رحمت ، مغفرت اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ عبادات، صبر، ایثار اور تقویٰ کا درس دیتا ہے۔ دنیا بھر میں اس مہینے کے دوران مسلمان ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، زکوٰۃ و خیرات کا سلسلہ بڑھ جاتا ہے، اور ہر طرف نیکیوں کی بہار آ جاتی ہے۔ لیکن پاکستان میں رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ ہر سال رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے غریب اور متوسط طبقہ شدید مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ جب دیگر مسلم ممالک میں رمضان کے موقع پر اشیائے خورونوش کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں، وہیں پاکستان میں ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ چینی، آٹا، گھی، دالیں، گوشت، سبزیاں، اور دیگر روزمرہ کی اشیاء مہنگی ہو جاتی ہیں، اور یوں یہ مقدس مہینہ عام آدمی کے لیے مزید پریشانیوں کا باعث بن جاتا ہے۔

    پاکستان میں رمضان کے دوران مہنگائی کی کئی وجوہات ہیں، جن میں مصنوعی قلت، ناجائز منافع خوری، حکومتی عدم توجہی، اور عوام کی بے بسی شامل ہیں۔ رمضان سے قبل ہی منافع خور اور تاجر اشیائے ضروریہ کو ذخیرہ کر لیتے ہیں، جس کے باعث بازار میں قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ جب طلب بڑھتی ہے تو قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ چینی، آٹا، گھی اور دیگر بنیادی اشیاء کی قلت پیدا کر کے ان کی قیمتوں کو غیر معمولی طور پر بڑھایا جاتا ہے۔ پاکستان میں رمضان المبارک کو ایک طرح سے “کمائی کا سیزن” سمجھا جاتا ہے۔ بڑے تاجر اور دکاندار اس مقدس مہینے میں نیکی اور ہمدردی کے بجائے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ وہ عام اشیاء کی قیمتیں دگنی یا تین گنا تک بڑھا دیتے ہیں، جب کہ ان کی پیداواری لاگت میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوتا۔ ہر سال رمضان سے قبل حکومت سستے بازار، رمضان پیکجز، اور سبسڈی جیسے اعلانات کرتی ہے، لیکن ان اقدامات کا عملی اثر زیادہ نظر نہیں آتا۔ سرکاری نرخوں پر اشیاء دستیاب نہیں ہوتیں، اور جو ہوتی ہیں، ان کی کوالٹی انتہائی ناقص ہوتی ہے۔ انتظامیہ کی عدم دلچسپی اور کرپشن کے باعث مہنگائی پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔

    عوام خود بھی مہنگائی کے مسئلے کو بڑھانے میں کسی حد تک شریک ہیں۔ جب رمضان آتا ہے تو لوگ ضرورت سے زیادہ اشیاء خریدنا شروع کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے طلب میں اضافہ ہوتا ہے اور قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اگر لوگ اعتدال سے خریداری کریں، تو مہنگائی کے مسئلے کو کسی حد تک قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ مہنگائی کا سب سے زیادہ اثر غریب اور متوسط طبقے پر پڑتا ہے۔ رمضان کے دوران کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے باعث عام آدمی کے لیے روزہ رکھنا اور افطاری کا بندوبست کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ دیہاڑی دار مزدور اور غریب طبقہ، جو پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار ہوتا ہے، رمضان کے دوران دو وقت کی روٹی کے لیے مزید پریشان ہو جاتا ہے۔ مہنگی اشیاء کی وجہ سے بہت سے لوگ معیاری کھانے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ سفید پوش طبقہ، جو اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے محدود آمدنی پر گزارا کرتا ہے، رمضان میں مزید مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یا تو قرض لینے پر مجبور ہو جاتا ہے یا پھر اپنی بنیادی ضروریات میں مزید کمی کردیتا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے مستحق افراد کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے زکوٰۃ، فطرانہ اور خیرات دینے والے افراد پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ رفاہی ادارے اور مخیر حضرات زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن جب اشیاء کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں، تو ان کی مدد بھی ناکافی ثابت ہوتی ہے ۔

    مسئلے کا اب حل یہ ہے کہ مہنگائی اور ناجائز منافع خوری کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت، تاجروں اور عوام کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، اور ان پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں۔ ہر شہر میں ایک فعال پرائس کنٹرول کمیٹی ہونی چاہیے جو قیمتوں کی نگرانی کرے اور عوامی شکایات کا فوری ازالہ کرے۔ رمضان کے دوران ہر علاقے میں معیاری سستے بازار قائم کیے جائیں، جہاں عوام کو مناسب داموں اشیاء مل سکیں۔ تاجروں کو چاہیے کہ وہ رمضان کے مقدس مہینے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ریلیف فراہم کریں اور نفع کمائیں لیکن ناجائز منافع خوری سے بچیں۔ اشیائے خوردونوش کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ سپلائی کو یقینی بنایا جائے۔ اگر لوگ اپنی ضروریات کے مطابق خریداری کریں اور ذخیرہ اندوزی نہ کریں، تو طلب اور رسد میں توازن برقرار رہے گا اور قیمتیں کم ہوں گی۔ اگر دکاندار غیر ضروری طور پر قیمتیں بڑھا رہے ہیں تو عوام کو چاہیے کہ وہ ان کا بائیکاٹ کریں اور سرکاری نرخوں پر خریداری کریں۔ رمضان کے مہینے میں زکوٰۃ، خیرات اور صدقات کا رجحان بڑھایا جائے تاکہ غریب افراد کی مشکلات کم ہو سکیں۔

    رمضان المبارک کا مہینہ ہمیں صبر، ایثار اور دوسروں کی مدد کا درس دیتا ہے، لیکن پاکستان میں مہنگائی اور ناجائز منافع خوری کے باعث یہ مہینہ کئی لوگوں کے لیے مشکلات لے کر آتا ہے۔ اگر حکومت، تاجر، اور عوام مل کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں تو رمضان کی حقیقی برکات سب تک پہنچ سکتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے اور مہنگائی پر قابو پانے کے لیے موثر اقدامات کرے، تاجر ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری سے باز آئیں، اور عوام شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی خریداری میں اعتدال پیدا کریں۔ اسی صورت میں رمضان المبارک حقیقت میں رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ بن سکے گا، اور عام آدمی بھی اس کی برکات سے فیض یاب ہو سکے گا۔

  • افسانہ: فیکاجواری – ڈاکٹر ندیم جعفر خان

    افسانہ: فیکاجواری – ڈاکٹر ندیم جعفر خان

    ٹکسالی گیٹ کےاندرتنگ وتاریک گلیوں میں سے جب بازارحسن ختم ہوتاہے،تواک کسی حسینہ کی بل کھاتی کمریا سی تنگ گلی کی نکڑپہ ایک تنگ وتاریک بوسیدہ سادوکمروں کامکان آتاتھا، جدھرماسی جنتے کابسیرا تھا ۔ ماسی اکیلی ہی رہتی، بوڑھی تھی، پھر شایددمےکی مریضہ جسےاکثرکھانسی کےشدیددورےپڑتے ۔ کہتے ہیں یہ کسی نواب کےساتھ اسی گلی سے بیاہ کےآئی اوریہ مکان اسی نےاس کےنام کیا ،شادی دوسال سےزیادہ نہ چل سکی اورنوبزادہ طلاق دےکےاسےچھوڑگیا ۔ کچھ لوگ اسے گناہ گارعورت کہتےتھے اورکچھ نوابزادے کوبےوفاجواپنی ہوس پوری کرکےکہیں جاچکاتھاتھا۔

    اسی گلی میں شاہی قلعے کی طرف چوہدری شرف دین کی حویلی تھی، جو پہلےمحنت مزدوری کرتا، لیکن اچانک کہیں سےدولت اس کےہاتھ لگی، اورشرفوسےشرف دین بن چکاتھا، حج کررکھاتھا ، کوئی اسے حاجی صاحب توکوئی چوہدری صاحب کہتا ۔

    محلےوالوں نےاک دن حاجی صاحب سےان کےڈیرےپرماسی کی حالت زارکاذکرکیا، توچوہدری جوسیاست میں بھی حصہ لیتاتھا، تسبیح رولتے ہوئے کہنےلگا، اس عورت کےعلاج کےلیے محلےبھرسےچندہ جمع کرتے ہیں، اس کاعلاج بھی ہوجائے گا، اورجوبچ رقم بچ گئی، اسے اس کی گزر اوقات کےلیےدے دیں گے، سبھی کوچوہدری کی تجویز بہت پسندآئی، اورچوہدری کےساتھ اگلےدن گھرگھرچندجمع کرنےکی مہم شروع کردی گئی، روز جورقم جمع ہوتی، چوہدری کےپاس جمع کرادی جاتی ۔

    طیفا جواری ماسی کواکثرتنگ کرتا، ماسی کچھ ہےتودے، لگاؤں گا، جیت گیا توتیرابھی بھلاہوجائے گا. ماسی اسے گالیاں دیتی اورطیفا ہنستے ہوئے آگے گزرجاتا۔طیفےکوصرف ماسی سےہی لگاؤتھا، آتےجاتے دل لگی کرتارہتا، وگرنہ فیکا سب سےالگ تھلگ گم سم اورخاموش رہناہی پسندکرتا. کہاکرتاتھا ‏تعلقات زیادہ گہرے نہ ہوں تو ہی بہتر ہے ۔ آئینے سے جتنے زیادہ قریب ہوں گے، خامیاں اتنی زیادہ نظر آئیں گی۔

    سرکارنےبلدیاتی چناؤ کااعلان کردیا اورچوہدری کونسلرکےالیکشن میں حصہ لینےکی تیاری میں لگ گیا، بینرز چھپے گھرگھرووٹ مانگے گئے. حاجی کےماسی کےلیے نیک خیالات کےسبب بھی محلےوالے چوہدری سےمتاثرتھے. یاردوست بڑھ چڑھ کےحاجی کی کمپین کرنے لگے. ساتھ ماسی کےلیےچندہ بھی جمع کیاجاتا اورووٹ بھی مانگےجاتے ۔

    اسی شورشرابے میں اک شام ماسی کوکھانسی کاشدید دورہ پڑا، کہتے ہیں کئی دنوں سے بھوکی بھی تھی، اس لیےشدید بیمارپڑگئی. طیفا ماسی کومیواسپتال لےگیا جہاں تھوڑابہت حسب وسائل ماسی کاعلاج شروع ہوگیا. ماسی کاکوئی اپناتوتھانہیں کہ اس کےپاس ٹھہرتااوردیکھ بھال کرتا. بس طیفاجواری ہی ہرشام جوئے سےفارغ ہوکے اسپتال چکرلگاتا اور جوکرسکتاتھا، کرتا ۔

    چناؤ کادن قریب آتاجارہاتھا، چوہدری کی حویلی سج چکی تھی، ڈیرہ کی رونقیں دوبالاہوچکی تھیں، کھابےچل رہے تھے۔چناؤ کےنتیجے کی شام خوب رش تھا، حاجی منتخب ہواتوڈیرے پہ نعروں کاشور بلند ہوا۔ اسی شورمیں کسی نےحاجی کونسلر سےکہا ماسی چل بسی ہے، اس کےجنازے میں جاناچاہیے ۔۔

    چوہدری تسبیح پھیرتے ہوئےبولا، مہمانوں کوکیسے چھوڑوں؟ بری بات ہے نایار، ڈھول کی تھاپ تیز کر ۔
    طیفاجواری البتہ ماسی کےکفن دفن میں مصروف رہا ۔

  • تاج برطانیہ اور افسرشاہی کی باقیات -خادم حسین

    تاج برطانیہ اور افسرشاہی کی باقیات -خادم حسین

    برٹش امپائر کی سربراہی میں برصغیر کی تباہی اور آج تک جاری فکر انحطاط کا کچا چٹھا سی ایس ایس جیسے امتحان کی صورت آج بھی رواں دواں ہے، جس میں انگریزی کو فوقیت دی جاتی ہے، بلکہ یوں کہنا بجا ہوگا کہ مذکورہ زبان ہی معیار قابلیت اور افسر شاہی بننے کی کنجی ہے ۔

    غلامی در غلامی کی سوچ آج بھی اس نظام کے تحت نمو پارہی ہے ۔ خود مختاری اور اپنے تئیں کچھ کرنے ، اپنے وسائل اور اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا وقت کے ساتھ ناپید ہورہا ہے۔ وجہ سیدھی ہے آج بھی وہی نصاب اور فکر پڑھائی جارہی ہے جو برٹش امپائر نے برصغیر کو غلام بنانے کے لیے وضع کی تھی ۔ ہماری نسل کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا قیامت ہوگی کہ جھنوں نے ہمیں صدیوں غلام بنائے رکھا ۔ ہمارے وسائل بے دھڑک ہڑپ کیے اور ایک ایسے نظام کے تحت حکومت کی جس میں برصغیر میں لاکھوں لوگ قحط کے شکار ہوئے اور موت کی وادی میں جا گرے ۔

    تاریخ شاہد ہے کہ برطانوی دور حکومت میں دسیوں بار قحط و بھوک کی صورت حال پیدا گئی مزید یہ کہ کسانوں کو جبرا مختلف ناموں سے ٹیکس اور حکومتی مد میں متعدد مالی لوٹ کھسوٹ کا سامنا رہا ۔ جس سے بچے کچھے مالدار افراد بھی غربت اور افلاس کی نذر ہوگئے ۔ مگر تاج برطانیہ اپنی لوٹ مار اور ظلم کے پہاڑ توڑتا رہا۔ تاج برطانیہ کے سامنے لاکھوں لوگ بری طرح متاثر ہوئے لاشوں سے آبادیاں بھر گئیں یہاں تک کہ لوگوں نے مردوں کا گوشت پوست کھایا ، گھاس پھونس کھا کر جان بچائی لیکن مجال ہے کسی طور تاج برطانیہ کے کانوں میں جوں رینگتی، واسرائے ہند کو کچھ رحم آتا ۔

    ایسا طرز حکومت کر کے جانے والے آج بھی ہمارے نصاب ہائے تعلیم سے غائب ہیں ، ان کی پھیلائی تباہی گویا مٹانے کی سعی ہورہی ہے۔ کہیں بھی ان لٹیروں کا اتا پتا نہیں کہ کون تھے جنھوں نے برصغیر کی زمین جسے سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا، کو تہ و بالا کیا اور یہاں کی نسلوں کو تاریکیوں کے ایسے سفر پہ روانہ کردیا جہاں سے نکلنا بھی شاید صدیوں کا متقاضی سفر ہو ۔ مگر ہمارا نصاب خاموش ہے ان کرداروں کے متعلق، ہے نا ظلم و زیادتی ؟ آج عشروں بعد بھی برطانوی استعمار کو پڑھایا نہیں جاتا نہ کبھی اس ظلم کے متعلق مکالمہ ہوتا دیکھتے ہیں ۔ جامعات میں پہنچنے والے طلبہ تک اس طرز حکمرانی سے نابلد دکھائی دیتے ہیں بچاری ان پڑھ عوام کیا جانے گی ۔

    آج جن بدترین حالات ہمارے سامنے ہیں اور جو سیاست دان اور افسر شاہی ہمارے اوپر مسلط ہے اس میں برطانیہ کی داستان خونچکاں کا حصہ ضرور ہے ۔ آزادی کے بعد ہمارے لیے وہی لوگ میسر آئے معدودے کردار چھوڑ کر باقی ماندہ وہی ملےجو پہلے ہی استعماری دور میں مزے لے چکے تھے کہیں نہ کہیں اس نظام جابرانہ کے بینفشری رہ چکے تھے اس لیے بظاہر برطانیہ تو چلا گیا مگر وہ تربیت یافتہ چور اچکے ہمارے سروں پہ بدستور حاوی رہے جن کی پرورش اسی دور میں ہوئی تھی جس دور میں بر صغیر میں لوٹ مار کا تاج برطانیہ کی سربراہی میں بازار گرم تھا ۔ اسی لیے نہ ڈھنگ کی حکومتیں آ سکیں اور عمدا آئین و قانون میں ایسے جھول رکھ دیے گئے جن سے بلاواسطہ ان کے مفادات کی محافظت ہو، اور عام آدمی ملک و قوم کے معاملات سے پرے ہی رہے۔

    اس کی ایک اہم کڑی قومی زبان اردو کی ہے، جس کو آج تک قومی زبان ہونے کے باوجود وہ درجہ نہیں ملا،جو ملنا چاہیے تھا ۔ ملک کے قیام کو اسی سال ہونے کو ہیں، لیکن کیا کیجیے ہمارے دستوری امور کو ملک کے دیگر شعبہ جات کو جہاں پہ وہی رعونت اور آقا اور غلام والا رویہ موجود ہے جو پہلے ہواکرتا تھا، قانون ایسا گنجلک اور غیر واضح کہ عام تو عام شہری، بڑے بڑے بھی اس دستوری کتھا کو مجہول اور مبہم قرار دے چکے ہیں مطلب صاف ہے قانون جیسے اساسی مسئلے پہ بھی ہم ایک ملک نہیں بن پائے چہ جائیکہ ہم دوسرے شعبوں میں اپنے آپ کو ایک مستحکم اور آزاد قوم بنا پائیں ، غرض وہی نظام ہمارے ملک کو روبہ زوال کرنے میں طاق ہے جس نے برصغیر میں صدیوں کڑروں افراد پہ زمین تنگ کیے رکھی ۔

    ہم دیکھ رہے ہیں کہ استعماری قوتوں کا دبدبہ آج بھی ہنوز ہماری رگوں میں دوڑتا ہے ۔ یہی عنصر ہماری فکری کوتاہ بینی اور دوسروں پر انحصاریت کا موجب بنا ہوا ہے ۔ جس کی مختلف النوع شکلیں ہمیں قومی رویوں میں جابجا نظر آتیں ہیں ۔ بڑی اور مقتدر اقوام کے بارے ہمارے حکمران نہایت نیچ اور ہیچ بن جاتے ہیں۔ ان کے آگے قومی ترجیحات کے بجائے اپنے مفادات کو اولیت دیتے ہیں اس پہ مستزاد یہ کہ ان سے ساز باز کرنا اور ان کے ہر جائز ناجائز مطالبے پہ سر تسلیم خم کرنا ،قومی وقار اور اپنی بقا کا ضامن گردانتے ہیں معیشت جیسے اہم شعبے میں ہماری تنگدستی اس بات پہ واضح ثبوت ہے کہ ہم دوسروں کی کاسہ لیسی اور چاپلوسی کرنے کو اپنے لیے باعث مسرت اور موجب عافیت جانتے ہیں ۔

    جب حکمران ایسے ہوں جن کو عوام پہ اعتماد نہ ہو ، اقتدار کے حصول اور اس کے دوام کے لیے دھاندلی کو اپنی بقا جانتے ہوں تو اس مملکت کا کیا بنے گا وہاں کی عوام کیسے ایک پائیدار معیشت اور بہتر طرز زندگی دیکھ سکے گی ۔ اس کے لیے عوامی حمایت یافتہ حکمران ناگزیر سمجھے جاتے ہیں جن کا کل بھروسہ عوام کی طاقت اور ان کا ووٹ ہو اور جو چور دروازے وا کر کے آئیں ان سے ملکی سالمیت اور ترقی و پیش رفت کی امید لگانا ہی عبث ہے ۔ تبھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے تمام نصابات بھی ان آقاؤں کے اشاروں پہ مرتب ہورہے ہیں جو صدیوں برصغیر کی لوٹ مار میں مگن رہے نہ صرف یہاں سے وسائل منتقل کیے بلکہ ایسا نظام بھی چھوڑ گئے جس کے بل بوتے مزکورہ خطہ دیگر اقوام کے مقابل ناقابل بیان حد تک غیر مستحکم ہوا اور اس کی معیشت دوبارہ انہی لوگوں کے تر نگیں آگئی جنھوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کریہاں سے اپنی نسلوں کے لیے اثاثے بنائے مگر مغلوب خطے کے لوگوں کو ترقی کی شاہراہ سے کوسوں پیچھے دکھیل دیا اور یوں ایک کمزور اور شکستہ نظام دے گئے جو اب تک لڑکھڑارہا ہے نہ جانے یہ شکنجہ کب ڈھیلا ہو اور اس خطے کے عوام ایک پروقار نظام میں اپنی زندگی گزار سکیں