Tag: ترقی

  • کرسی کا خمار اور کردار کی پھسلن – ادیب احمد راؤ

    کرسی کا خمار اور کردار کی پھسلن – ادیب احمد راؤ

    دفاتر میں ترقی کی نوید بظاہر کسی کے لیے مسرت، ادارے کے لیے کامیابی، اور نظم و نسق کے لیے تازگی کا پیغام ہوتی ہے، مگر یہی نوید بعض اوقات شخصی اخلاق کا ایسا کڑا امتحان بن جاتی ہے، جس میں کم ہی لوگ سرخرو ہو پاتے ہیں۔ ادارہ جب کسی خاک نشین کو منصبِ افسری پر فائز کرتا ہے تو دراصل اُس کے ظرف کا پیمانہ جانچتا ہے۔

    مگر اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ نیا عہدہ ملتے ہی کچھ افراد کے رویے میں ایسا تغیر آتا ہے جو اُن کی اصل شخصیت کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑ دیتا ہے۔وہی شخص، جو کل تک ساتھیوں کے ساتھ نشست و برخاست میں خاکساری، انکسار اور اخلاص کا پیکر دکھائی دیتا تھا، آج جب اُس کے کندھے پر “عہدے” کا تمغہ سجتا ہے تو اُس کی زبان میں ترشی، لہجے میں رعونت، اور رویے میں تکبر در آتا ہے۔ وہ اپنے ماتحتوں سے یوں پیش آتا ہے گویا وہ اس کے ماتحت نہیں بلکہ کسی جاگیردار کے خاندانی غلام ہوں۔ وہ بھول جاتا ہے کہ عہدے بدلتے رہتے ہیں، مگر رویے ہی انسان کو یادگار بناتے ہیں۔ایسے افراد کے لیے ایک بزرگ کا قول پتھر پر لکیر کی حیثیت رکھتا ہے:

    “اگر لوگ تمہیں صرف تمہارے منصب کی وجہ سے عزت دیتے ہیں، تو تم عبرت کا نمونہ ہو، باعثِ احترام نہیں۔”
    کچھ ترقی یافتہ افسران کا حال تو اس سے بھی بدتر ہوتا ہے۔ وہ اپنے سینئرز کے سائے سے بھی خار کھانے لگتے ہیں اور اُن سے آگے نکلنے کے جنون میں اخلاقیات کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ چاپلوسی، سازش اور موقع پرستی اُن کا شیوہ بن جاتی ہے۔ ان کی ترقی، ادارے کی ترقی نہیں بلکہ اخلاقی پستی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔اور پھر وہ طبقہ بھی ہے جنہیں دوسروں کی تذلیل سے سکون ملتا ہے۔ ماتحتوں کی عزت نفس کو پامال کر کے وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کا وقار بلند ہو رہا ہے، حالانکہ وہ اپنی اخلاقی پستی کو خود ہی سب پر آشکار کر رہے ہوتے ہیں۔

    یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں نہ ادارہ دل سے قبول کرتا ہے، نہ ساتھی یاد رکھتے ہیں، نہ تاریخ میں ان کا کوئی مقام ہوتا ہے۔وقت کا پہیہ گھومتا ہے، اور وہی ماتحت جنہیں وہ خاک سمجھتے تھے، کل ان کے برابر یا بالا بھی ہو سکتے ہیں۔ اُس دن اُن کے رویے کی گواہی وہی لوگ دیں گے جنہیں وہ آج نظرانداز کر رہے ہیں۔ کرسی تو چند روزہ مہمان ہے، مگر انسان کا سلوک اُس کی پہچان بن کر ہمیشہ کے لیے باقی رہتا ہے۔لہٰذا ضروری ہے کہ ترقی کے بعد بھی انسانیت، انکسار، اور شرافت کو نہ چھوڑا جائے۔ منصب اگر کردار کو نگل جائے تو وہ زینت نہیں، وبالِ جان بن جاتا ہے۔ افسری کا اصل وقار اُس وقت ہے جب ماتحت دل سے دُعائیں دیں، نہ کہ دانت پیستے رہیں۔

  • جمہوریت اور قیادت ترقی کی ضمانت – سلمان احمد قریشی

    جمہوریت اور قیادت ترقی کی ضمانت – سلمان احمد قریشی

    جمہوریت ایک بہترین طرزِ حکومت ہے، اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک پر نظر ڈالیں تو زیادہ تر جمہوری نظر آتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ چین اور روس جیسے ممالک بھی عالمی سطح پر نمایاں مقام رکھتے ہیں، حالانکہ ان کا جمہوری نظام مغربی معیارات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض جمہوری عمل ہی ترقی کی ضمانت ہے یا قیادت کا کردار اور سیاسی رہنماؤں کا رویہ بھی اتنا ہی اہم ہے؟

    پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری عمل پر نظر ڈالیں تو آئین موجود ہے، سیاسی جماعتیں بھی سرگرم ہیں اور انتخابات کا تسلسل بھی برقرار رہا ہے، لیکن مکمل جمہوری نظام ابھی تک نہیں پنپ سکا۔ اس کی ایک بڑی وجہ شخصیت پرستی اور خاندانی سیاست پر مبنی طرزِ فکر ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری جدوجہد، ان کی قربانیاں اور ان کی جماعت کا کردار تاریخ کا ناقابلِ فراموش باب ہیں۔ ان کی عدالتی بحالی کے باوجود آج بھی ان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔

    پاکستانی سیاست میں مخالفین پر الزام تراشی اور تنقید کے ذریعے اپنی جگہ بنانے کا رجحان عام ہے۔ تنقید اور پروپیگنڈے میں واضح فرق ہوتا ہے، مگر بدقسمتی سے یہاں یہ فرق مٹ چکا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ وہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِاعظم تھے، جنہوں نے ملک کو متفقہ آئین دیا، بیرونِ ملک روزگار کے مواقع پیدا کیے، اسٹیل ملز قائم کیں، زرعی اصلاحات کیں اور ہر شعبے میں انقلابی اقدامات کیے۔ دفاعی اور خارجہ پالیسی کے میدان میں ان کے فیصلے آج بھی پاکستان کے استحکام کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں۔

    اس کے باوجود بھٹو پر تنقید کا سلسلہ آج بھی جاری ہے، کیونکہ ان کی مقبولیت کو کم کیے بغیر کچھ سیاست دان اپنی جگہ نہیں بنا سکتے۔ شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکات کی بنیاد پر ملک کی تقسیم کا الزام بھٹو پر لگایا جاتا ہے، حالانکہ وہ اس وقت اقتدار میں نہیں تھے اور ان کے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں تھی کہ وہ مجیب الرحمٰن کے مینڈیٹ کو رد کر سکتے۔ اصل فیصلے طاقت کے مراکز میں ہوئے، مگر الزام بھٹو پر لگا کر انہیں متنازع بنایا گیا۔

    اگر بھٹو کے بعد کوئی حقیقی عوامی لیڈر سامنے آتا تو شاید پاکستان ترقی کے سفر پر گامزن رہتا اور جمہوریت مستحکم ہوتی، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ بھٹو وہ لیڈر تھے جو قومی مفاد کے لیے قید و بند کے باوجود بھی مخالفین کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہوتے۔ جب ایوب خان نے گول میز کانفرنس بلائی، تو بھٹو نے صرف ایک شرط رکھی کہ جیل میں قید مجیب الرحمٰن کو بھی مدعو کیا جائے۔ ایوب خان نے یہ شرط مان لی، اور 26 فروری 1969 کو یہ کانفرنس منعقد ہوئی، مگر چند دن بعد یحییٰ خان نے مارشل لا لگا کر جمہوری عمل کو سبوتاژ کر دیا۔

    بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوری سیاست کے بجائے شخصیات کو نشانہ بنانے کی روایت عام رہی۔ میاں نواز شریف اور عمران خان کی سیاست میں بھی سب سے بڑا ہدف بھٹو ہی رہے، جبکہ آمرانہ ادوار کے ذمہ دار ایوب خان، یحییٰ خان اور ضیاءالحق کو نظرانداز کیا جاتا رہا۔ اس سیاسی طرزِ عمل میں پاکستان کی ترقی نہیں بلکہ ذاتی اقتدار کی جستجو نمایاں رہی۔

    موجودہ سیاسی حالات میں بلاول بھٹو زرداری نے درست کہا کہ قومی مسائل پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا ناگزیر ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کو تنگ نظری کی سیاست ترک کرکے عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ دینی ہوگی۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں امن و امان کی بحالی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ سیاسی انتقام کے بجائے قومی ایشوز پر یکجہتی کی ضرورت ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ ہو یا معیشت کی بحالی، تمام جماعتوں کو اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک کے لیے کام کرنا ہوگا۔

    ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوری طرزِ عمل اور خدمات کو دیکھیں تو واضح ہوتا ہے کہ وہ قومی ایشوز پر بدترین مخالفین کو بھی مذاکرات کی میز پر لانے کا فن جانتے تھے اور قومی اتفاق رائے کو ہمیشہ مقدم رکھتے تھے۔ مفاہمت ہی سیاست کا اصل جوہر ہے، اور مفاہمت اصولوں پر سمجھوتے کا نام نہیں بلکہ بہتر راستہ نکالنے کی صلاحیت کا اظہار ہے۔ انتشار اور تقسیم کسی حقیقی لیڈر کا شیوہ نہیں ہوتا، بلکہ ایک اچھا لیڈر اختلافِ رائے کو ایک حد میں رکھتے ہوئے ذاتیات اور شخصیات کو سیاست کا محور بنانے سے گریز کرتا ہے۔ پاکستان کی سیاست کو ذاتیات کے دائرے سے نکال کر حقیقی عوامی خدمت کی طرف لانے کی ضرورت ہے۔ اگر سیاستدان قومی مفاد کو مقدم رکھیں، تو جمہوریت مضبوط ہوگی اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔

  • پاکستان ترقی کر رہا ہے یا صرف پنجاب؟نجیب خان

    پاکستان ترقی کر رہا ہے یا صرف پنجاب؟نجیب خان

    خیبرپختونخوا میں بم دھماکے، جبکہ پنجاب میں روزانہ نئی ترقیاتی سکیموں کا آغاز ہوتا ہے۔ اس پر خیبرپختونخوا کے کئی لوگ تنقید کرتے ہیں، اور اگر میں کہوں کہ وہ جلتے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ عوام کا کہنا ہے کہ اگر واقعی ترقی چاہتے ہو تو کسی ایک پارٹی کو مسلسل سپورٹ کرنا چاہیے۔ خیبرپختونخوا میں یہ تیسرا دورِ حکومت ہے، مگر آج تک کوئی بڑی ترقیاتی خبر سننے کو نہیں ملی۔

    پنجاب میں مریم نواز کی حکومت کا یہ پہلا دور ہے، لیکن ترقیاتی منصوبوں کی رفتار حیران کن ہے۔ اتنے زیادہ پروگرامز کا آغاز اور مسلسل منصوبوں کی شروعات، کیا یہ سب پہلے سے پری پلان تھے یا واقعی دیگر صوبوں کے خلاف کوئی سازش ہو رہی ہے؟ پنجاب میں ہر روز کسی نہ کسی منصوبے کا افتتاح ہو رہا ہے، کبھی کوئی ثقافتی میلہ تو کبھی کوئی ترقیاتی اقدام۔ فروری کے مہینے میں پورا پنجاب مختلف تقریبات سے لطف اندوز ہوتا رہا—فیض فیسٹیول، پرانی گاڑیوں کا میلہ، پھولوں کی نمائش، جانوروں کے شو، اور یہاں تک کہ ڈرون شوز تک۔ ساتھ ہی مختلف اسکالرشپس، لیپ ٹاپ اسکیمیں اور دیگر سہولیات پنجاب کے طلبہ کے لیے جاری کی گئیں۔

    مگر خیبرپختونخوا کے لیے میرے پاس کچھ کہنے کو نہیں۔ یہاں یونیورسٹیوں کی زمینیں بیچ دی گئیں، کوئی نئی یونیورسٹی نہیں بنی۔ دہشت گردی جو کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے، اس میں کوئی نمایاں کمی نہیں آئی۔ ٹریفک کے مسائل جوں کے توں ہیں، کوئی نئے قواعد و ضوابط نہیں بنائے گئے۔ طلبہ کے لیے کوئی ایسی اسکیم نہیں جو ان کے تعلیمی اخراجات کم کر سکے، خاص طور پر ان کے لیے جو مہنگی تعلیم برداشت نہیں کر سکتے۔ نہ ہی کوئی ایسا ثقافتی پروگرام منعقد ہوا جس سے پختون کمیونٹی کو پہچان ملے۔

    خیبرپختونخوا میں ٹریفک کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں عام ہیں۔ اگر ملاکنڈ ڈویژن کی بات کریں، تو آج تک وہاں ایک بھی ٹریفک سگنل نصب نہیں کیا گیا، حالانکہ اس کی اشد ضرورت ہے تاکہ عوام کو ٹریفک قوانین کا شعور حاصل ہو۔ چکدرہ، مینگورہ، تھانہ اور دیگر کئی علاقوں میں ٹریفک سگنلز کی سخت ضرورت ہے۔

    اگر جنگلات کا ذکر کریں تو صورتحال اتنی مایوس کن ہے کہ شاید پڑھ کر آپ کو افسوس ہو۔ پچھلے چند سالوں میں جنگلات کا صفایا تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ اسی طرح بنوں کا واقعہ بھی اب تک کسی بڑی توجہ کا مرکز نہیں بن سکا۔

    دنیا ترقی کی دوڑ میں کہاں جا رہی ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟ خیبرپختونخوا کے نوجوانوں اور طلبہ سے کہنا چاہوں گا کہ وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہوں، ہمیں اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنی ہوگی۔ ہمیں اپنے لیڈروں سے کوئی غرض نہیں، بس ہمیں ترقی چاہیے! ایسی اسکالرشپس درکار ہیں جن سے ہم اپنی تعلیم بہتر طریقے سے جاری رکھ سکیں۔ ہمیں ترقی چاہیے، حقیقی ترقی!

  • تعلیم کا اصل مقصد کیا ہے ؟ جے پال سنگھ

    تعلیم کا اصل مقصد کیا ہے ؟ جے پال سنگھ

    بہت سے لوگوں کو اس سوال کا جواب معلوم نہیں کہ تعلیم کا اصل مقصد کیا ہے؟ اگر تعلیم کا اصل مقصدصرف ڈگری لینا، پیسے کمانا، یا پھر نوکری کرنا ہے، تو یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ یہ سب کامیابیاں تو بغیر ڈگری کے بھی مل سکتی ہیں. تعلیم کا اصل مقصد تو اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا، بڑے خواب دیکھنا اور ناکامیوں سے خوفزدہ نہ ہونا ہے۔

    ہمارے ہاں اکثر لوگ تعلیم کو بنیادی طور پر دو مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ اس کو حاصل کر کے انسان کچھ مہارت سیکھتا ہے جس کو استعمال کر کے کوئی پیشہ اپنایا جا سکتا ہے، جبکہ دوسرا مقصد تعلیم کا یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے روایات، نظریات کو نئی نسل میں منتقل کیا جاسکے، اور یہی سب سے اعلٰی تعلیم ہے.

    ایک بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ تعلیم حاصل کرو، ترقی کرو ، اور اپنے ملک کا نام روشن کرو. مگر افسوس کہ ایسی ترقی یہاں صرف امیروں اور سیاست دانوں کے بچے کر سکتے ہیں، اور یہ سلسلہ نسل در نسل سے چلتا آ رہا ہے. اس میں غلطی معاشرے کی بھی ہے کیوںکہ وہ ہمیں صرف نوکری تک محدود رکھتا ہے. ایک نوجوان کو شروع سے آخر تک یہی بات بتائی جاتی ہے کہ تمھیں پڑھ لکھ کرصرف نوکری کرنی ہے. آج کل جتنے بھی نوجوان یونیورسٹی جاتے ہیں، ان میں سے %90 کا مقصد صرف نوکری کےلیے ڈگری کا حصول ہوتا ہے. یہاں کامیاب انسان وہ ہے جس نے ڈگری لی ہو اور ساتھ میں نوکری کر رہا ہو. تعلیم بہت سے بند دروازے کھول دیتی ہے لیکن ہمارے ملک میں تو ایسا نہیں ہوا . یہاں آج بھی پڑھا لکھا طبقہ سیاست دانوں کے احکامات کے نیچے کام کرتا ہے اور وہ آزاد ہو کر بھی غلامی کی زندگی گزار رہا ہے .

    پاکستان میں بنیادی طور پر تعلیم حاصل کرنے کے لئے مختلف ادارے موجود ہیں� جن میں مذہبی تعلیم سے لے کر انتہائی مہنگے انگریزی اسکول تک شامل ہیں۔ لیکن ہر دو قسم کے ادارے بنیادی طور پر وہی کام کر رہے ہیں جو اوپر بیان کیے گئے ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں سوال کرنے پر پابندی ہے، اگر کوئی سوال پوچھے تو اس کو یہی کہا جاتا ہے کہ تمھیں بہت زیادہ سوال آئے ہوئے ہیں.

    معاشرہ تربیت پر بھی بہت زیادہ تو جہ دیتا ہے. زیادہ زور اس پر ہوتا ہے کہ نئی نسل بالکل ویسے سوچے، ویسے عمل کرے جیسے ان سے پچھلی نسل کرتی آئی ہے. جبکہ وقت بدل رہا ہے، نئی سائنسی ترقی نے نئی نسل کو تیز کر دیا ہے۔ تیزی سے بدلتے دور نے تعلیمی مقاصد تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے۔ مغرب نے کافی عرصے سے تعلیم کے مقاصد تبدیل کر دیے ہیں۔ ان کے مطابق تعلیم کا مقصد ”دماغ کی تربیت کرنا ہے تاکہ وہ سوچ سکے،سوال کر سکے، اور زندگی میں آنے والے مسائل کو حل کر سکے.“ نوم چومسکی کے مطابق ”زندگی کا سب سے بڑا مقصد تلاش کرنا، بنانا اور ماضی کے اسباق کو اپنا حصہ بناتے ہوئے اپنی تلاش جاری رکھنا ہے“. ہم ترقی کرنا اور آگے بڑھنا چاہتے ہیں، لیکن یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ہمارا موجودہ تعلیمی نظام انگریزوں نے بنایا تھا، جس کا مقصد ایسےبے دام غلام پیدا کرنا تھا جو سوال نہ کرسکیں اور گورے کے اشاروں پر اس کا ہر کام سرانجام دیں۔ پاکستان بننے کے بعد بھی ہمارے حکمرانوں نے یہ نظام جاری رکھا ہوا ہے. جس سے ہمارے ذہن ایسے بن گۓ ہیں کہ ہم آگے چلتے ہوئے پیچھے دیکھتے رہتے ہیں۔

    ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تعلیم کو صرف دو کام یعنی نوکری اور نظریات کی ترویج کے علاوہ بھی دیکھیں، اور آنے والی نسل کو نئے علوم و فنون سیکھنے پر لگائیں تاکہ ہمارے معاشرے میں امن، تحمل، معاشی ترقی، اور برداشت پیدا ہو سکے۔تعلیم لیڈر پیدا کرتی ہے نوکر نہیں. تعلیم دوسروں کو فائدہ دیتی ہے. خود کے بارے میں سوچنے کا نام تعلیم نہیں ہے. تعلیم انسان کو بہادر بناتی ہے بزدل نہیں. اگر تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی ہمارے خواب چھوٹے ہیں تو پھر اس تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ ناکامی اور کامیابی زندگی کا حصہ ہیں، اپنی پہچان الگ سے بنائیں، دنیا میں اپنا نام بنائیں، ساری زندگی ایک ہی چیز پرضائع نہ کریں. آج ناکام ہوگئے تو کل ضرور کامیاب ہوگے. ناکامی ہی کامیابی ہے. بائیس گریڈ افسر سے وہ آدمی بہتر ہے جس کے پاس 22 افراد کام کرتے ہیں کیوں کہ وہ خود کے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی پیٹ پالتا ہے۔

  • رمضان تجدیدِ روحانیت اور اجتماعی ترقی کا سفر – اشرف حماد

    رمضان تجدیدِ روحانیت اور اجتماعی ترقی کا سفر – اشرف حماد

    رمضان المبارک محض طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک کھانے پینے سے پرہیز کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک مقدس مہینہ ہے جو روحانی تازگی، گہرے غور و فکر، اور اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک ہمیں خوبصورت انداز میں یاد دلاتا ہے:
    “اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقوی شعار بن جاؤ۔” (البقرہ 2:183)

    یہ الہی حکم محض جسمانی ضبط و تحمل کے لیے نہیں بلکہ تقویٰ (اللہ کی قربت کا احساس) پیدا کرنے اور ہمارے دل و دماغ کو بدلنے کے لیے ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے رمضان ِ کریم عبادت میں غرق ہونے، نمازوں میں اضافہ کرنے، ضرورت مندوں کی دل کھول کر مدد کرنے، اور خود پر قابو پانے کا وقت ہوتا ہے۔ لیکن ہم اس رمضان کو کیسے زیادہ بامقصد اور بابرکت بنا سکتے ہیں؟ اس کا جواب سوچی سمجھی تیاری، گہرے غور و فکر، اور ان ذرائع کے بہتر استعمال میں ہے جو ہمیں روحانی ترقی کی طرف لے جائیں۔

    رمضان کی تیاری، نیت کی طاقت:
    حضرت محمد ﷺ نے فرمایا، “اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔” یہ گہرا سبق ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ رمضان کا آغاز ایک مخلص اور مرکوز ذہنیت کے ساتھ کرنا چاہیے۔ جیسے ہی یہ مہینہ قریب آتا ہے، ایک لمحہ کے لیے غور کریں:
    – میں اس رمضان میں کیا حاصل کرنا چاہتا ہوں؟
    – میں اپنے اللہ کے ساتھ تعلق کو کیسے مضبوط بنا سکتا ہوں؟
    – مجھے کن عادات یا رویوں کو ترک کرنے کی ضرورت ہے؟
    صاف نیتیں اپنے اندر پیدا کرنا اور پہلے سے منصوبہ بندی کرنا آپ کو پورے مہینے مستقل اور مقصد کے ساتھ جُڑے رہنے میں مدد دے سکتا ہے۔ چاہے یہ روزانہ قرآن پاک کا کچھ حصہ پڑھنے کا عہد ہو، رات کی نمازوں میں اضافہ کرنا ہو، یا زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرنا ہو، ایک اچھی طرح سے سوچا سمجھا منصوبہ آپ کے رمضان کے تجربے کو تبدیل کر سکتا ہے۔

    تفکر کا فن؛ معمول سے آگے بڑھنا:
    روزہ رکھنا بعض اوقات ایک مشینی عمل بن سکتا ہے—سحری کے لیے اٹھنا، افطار کے وقت روزہ کھولنا، اور یہ سلسلہ دہرانا۔ تاہم، رمضان اقدس ایک ایسا وقت ہے جب ہمیں رک کر اپنی روحانی حالت کا جائزہ لینا چاہیے۔ کیا ہم واقعی اللہ کے قریب ہو رہے ہیں، یا صرف رسمی طور پر روزہ رکھ رہے ہیں؟
    تفکر ہمیں بہتری کے شعبوں کی نشاندہی کرنے اور اپنی ترقی سیلی بریٹ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ ایک ایسا وقت ہے جب ہم خود سے سخت سوالات کریں: کیا ہم صبر، شکر اور ہمدردی کی ان اقدار کو اپنا رہے ہیں جو رمضان کریم ہمیں سکھاتا ہے؟ کیا ہم اس مہینے کو اپنے دلوں اور ذہنوں کو پاک کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں؟ باقاعدہ خود تشخیصی کے ذریعے، ہم یہ یقینی بنا سکتے ہیں کہ ہمارا روزہ صرف جسمانی نہیں بلکہ گہرائی سے روحانی ہو۔

    سُنت کے مطابق کھانے؛ جسم اور روح کی غذا:
    کھانا رمضان المبارک کے تجربے کا ایک اہم حصہ ہے، اور سنت سے جڑنے کا اس سے بہتر طریقہ کیا ہو سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی غذا سے متاثر کھانوں کو شامل کیا جائے؟ کھجور، جو، شہد اور زیتون آپ ﷺ کی غذا کے اہم اجزاء تھے، جن میں بے شمار صحت کے فوائد اور روحانی اہمیت پائی جاتی ہے۔ سنت سے متاثر و مطابق کھانوں کو تیار کرنا اور بانٹنا آپ کے رمضانِ کریم میں ایک منفرد پہلو شامل کر سکتا ہے۔ تصور کریں کہ آپ افطار کھجور سے کریں، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے کیا، یا سحری میں جو کا سوپ نوش کریں۔ یہ چھوٹے چھوٹے اعمال نہ صرف جسم کو غذا فراہم کرتے ہیں بلکہ ہمیں اسلام کی تعلیمات کے قریب بھی لاتے ہیں، جس سے ہمارا رمضان زیادہ معنی خیز ہو جاتا ہے۔

    مضبوط مسلم معاشرہ کی تعمیر؛ رمضان کی اجتماعی روح:
    اگرچہ رمضان المبارک ذاتی ترقی کا مہینہ ہے، لیکن ساتھ ہی لیکن یہ پوری امت کو بلند کرنے کا موقع بھی ہے۔ اس مہینے میں اتحاد اور یکجہتی کا احساس بے مثال ہوتا ہے۔ اجتماعی افطار سے لے کر خیراتی مہمات تک، ہمارے معاشروں کے اندر رشتوں کو مضبوط بنانے کے لاتعداد طریقے ہیں۔
    مقامی مسجد میں رضاکارانہ خدمات انجام دینے، فوڈ بینک کو عطیات دینے، یا پڑوسیوں کی امداد کرنے پر غور کریں۔ یہ نیک اعمال نہ صرف دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں بلکہ ہمارے اپنے روحانی سفر کو بھی مالا مال کرتے ہیں۔ آخر کار، رمضان کریم دینے کے بارے میں ہے—چاہے وہ وقت ہو، وسائل ہوں، یا ایک مسکراہٹ۔

    اس رمضان کو اب تک کا بہترین بنائیں:
    جیسے ہی ہم اس مقدس مہینے کا استقبال کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں، آئیے اسے امید سے بھرے دل اور ترقی پر مرکوز ذہن کے ساتھ شروع کریں۔ مخلص نیتیں اپنا کر، اپنی روحانی حالت پر غور کر کے، اپنی روزمرہ زندگی میں سنت کو اپنا کر، اور اپنے معاشروں میں حصہ ڈال کر، ہم اس رمضان المبارک کو ایک تبدیلی کا تجربہ بنا سکتے ہیں۔

    یاد رکھیں، رمضان المبارک ایک تحفہ ہے—ایک موقع ہے کہ خود کو ری سیٹ کریں، توانائی حاصل کریں اور اللہ کے ساتھ دوبارہ جڑیں۔ آئیے اسے بھرپور طریقے سے استعمال کریں، نہ صرف اپنے لیے بلکہ پوری امت کے لیے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے اس رمضان کو بے پناہ برکتوں، ہدایت اور روحانی بلندی کا ذریعہ بنائے۔ آمین۔

  • پائیدار ترقی اور آنے والی نسلیں – جنید احمد خان

    پائیدار ترقی اور آنے والی نسلیں – جنید احمد خان

    سسٹین ایبل ڈولپمنٹ سے مراد وہ ترقی ہے جو آنے والی نسلوں کی ضروریات پر سمجھوتہ کئے بغیر موجودہ نسلوں کی ضروریات کو پورا کرتی ہے، پائیدار ترقی کا مقصد ایک ایسے سماج کی تشکیل ہے جہاں انسانی ضروریات کو ایک ایسے انداز میں پورا کیا جاتا ہے جہاں قدرتی وسائل کا ضرورت کے عین مطابق استعمال ہوتا ہے اور ضیاع سے حتی الوسع گریز کیا جاتا ہے، پھر اس کا بحیثیت مجموعی اس کرہ ارض اور آنے والی نسلوں پر ایک مفید و خوشگوار اثر پڑتا ہے ۔

    پائیدار ترقی ایک ہمہ گیر نوعیت کا عنوان ہے جو کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے منسلک ہے، اور ہر شعبہ زندگی میں اس کا گہرا عمل دخل ہے اور اگر ان پر عمل درآمد ہو تو بحیثیت مجموعی پائیدار ترقی کے تقاضوں کو پورا کیا جا سکتا ہے ۔

    روزمرہ زندگی میں پائیدار ترقی کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، برقی توانائی کی ہی مثال لے لیتے ہیں، ہم اپنے گھروں میں برقی توانائی کا استعمال کر کے بہت سے کام سرانجام دیتے ہیں، ہم استعمال کے ساتھ ان کا ضیاع بھی کرتے ہیں، اگر کوئی کمرہ ایک یا دو بلبوں سے روشن ہوتا ہے تو تیسرا بلب روشن نہیں کرنا چاہیے، ایسے بلب کا استعمال کرنا چاہیے جو روشنی کے ساتھ کفایت بھی مہیا کرے، دن کے وقت سورج کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہیے جس سے برقی توانائی کی بچت بھی ہوتی ہے، اور ماحول اور انسانی صحت پر ایک قدرتی اثر پڑتا ہے۔

    ہمارے زیادہ تر گھروں میں برقی توانائی کا منبع واپڈا یا ڈسکوز کی طرف سے ہوتا ہے جنہیں ہم بھاری بھرکم بل ادا کرتے ہیں، پس اگر استطاعت ہو تو شمسی توانائی کا انتظام گھروں میں ضرور کرنا چاہیے جو کہ گرین انرجی یعنی سبز توانائی ہے، جبکہ ڈسکوز کی بجلی زیادہ تر فوسل پیول اور دوسرے غیر ماحول دوست ذرائع سے بنتی ہے اور اسکا استعمال بحیثیت مجموعی نہ صرف ماحول پر پڑتا ہے بلکہ نیشنل گرڈ پر بھی بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے، پس اگر گرین انرجی کا استعمال زیادہ ہو تو نہ صرف انفرادی بچت ہے بلکہ سسٹم کو بجلی کی بچت مہیا کر کے لوڈشیڈنگ میں کمی لائی جا سکتی ہے اور اس میں پورے ملک و قوم کا بھی فائدہ ہے، مزید اب گرین میٹرز کا بھی اجرا ہو چکا ہے جو نیٹ مییٹرنگ کے اصولوں پر چلتی ہیں، یعنی کوئی بھی صارف مطلوبہ مقدار سے زیادہ توانائی برقی کمپنی یا گرڈ سسٹم کو بیچ سکتا ہے، پس یہ صارفین کے لیے بھی سودمند ہے، برقی توانائی کے پیداواری صلاحیت میں بھی ایک مثبت اضافہ ہے اور پائیدار ترقی کی جانب بھی ایک اہم قدم ہے۔

    دوسری مثال سبز عمارات یعنی گرین بلڈنگز کی لی جا سکتی ہے، یہ ایسی عمارتیں ہوتی ہیں جنہیں پائیدار ترقی کو مدنظر رکھ کر ڈیزائن کیا جاتا ہے، وہاں کھڑکیوں کا ایسا نظام ہوتا ہے جہاں مد مقابل سمتوں سے تازہ ہوا داخل و خارج ہوتی ہے اور کمرے ہوادار ہوتے ہیں، چھتوں اور دیواروں میں تھرموسٹیٹ میکانزم ہوتا ہے جو درجہ حرارت کو موسمی تقاضوں کے عین مطابق معتدل رکھتا ہے اور معمول کے مطابق سردی یا گرمی سے بچنے کیلئے برقی آلات کا استعمال کم سے کم ہوتا ہے، گرین بلڈنگز کیلئے ایسا رقبہ بروئے کار لایا جاتا ہے جو زرعی نہ ہو، گرین بلڈنگز کے اندر معقول گرین بلٹس کا انتظام ہوتا ہے جس میں پھولدار اور سدا بہار پودے لگائے جاتے ہیں جو آکسیجن فراہمی کے ساتھ ساتھ ایک خوشگوار احساس بھی دلاتے ہیں ۔

    پائیدار ترقی ایک وسیع عنوان ہے، جس کا احاطہ اس مختصر مضمون میں بالکل ناممکن ہے، اس ضمن میں اقوام متحدہ نے ایک جامع منصوبہ بنایا ہے جسے ویژن 2030 کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، 2015 میں اقوامِ متحدہ نے کچھ اہداف رکھے تھے جو تعداد میں سترہ ہیں، مختصر طور پر ان کو سترہ ایس ڈی جیز (سسٹین ایبل ڈولپمنٹ گولز) کہا جاتا ہے، ان اہداف پر تمام ممبر ممالک نے 2030 تک عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے، یہ سترہ اہداف بالترتیب یہ ہیں، غربت کا خاتمہ، بھوک یعنی غذائی قلت کا خاتمہ، اچھی صحت، معیاری تعلیم، صنفی مساوات، صاف پانی، قابل استطاعت توانائی، معیاری کام اور معاشی ترقی، صنعتیں ایجادات و انفراسٹرکچر، عدم مساوات کا خاتمہ، پائیدارشہر اور کمیونٹی، ذمہ دارانہ پیداوار و مصرف، موسمیاتی عملدرآمد، آبی جانداروں کا تحفظ، زمینی جانداروں کا تحفظ، امن انصاف اور مضبوط ادارے، ان اہداف کے حصول کیلئے باہمی تعاون ۔

    یہ تمام وہ اہداف ہیں جن کے اندر آنے والی نسلوں کی ترقی مضمر ہے، اور ہماری زمین اور اس کے باسیوں کی بقا کیلئے بہت ہی اہم ہیں، ترقی یافتہ ممالک میں ان پر کافی حد تک عمل درآمد ہو چکا ہے جبکہ ترقی پذیر اور تھرڈ ورلڈ ممالک میں ان اہداف پر کام نہ ہونے کے برابر ہے، ترقی پذیر ممالک میں ان اہداف کے حوالے سے آگاہی کا بھی شدید فقدان پایا جاتا ہے، اور پہلا قرینہ ایک پر اثر آگاہی مہم کا ہے جسے حاصل کرکے ہی عملی طور پر ان اہداف کے حصول کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

  • معاشی ترقی میں خواتین کا  کردار تسلیم کیا جائے- بشری نواز

    معاشی ترقی میں خواتین کا کردار تسلیم کیا جائے- بشری نواز

    اگرچہ خواتین معاشرےکی معاشی ترقی کے لیے حیات افزا کردار ادا کرتی ہیں لیکن ان کے اس کردار کو شاذونادر ہی تسلیم کیا جاتا ہے ۔ خواتین عام طور پرگھر میں رہنے کو ترجیح دیتی ہیں اور ملازمت کا انتخاب خواہش کی بنیاد پر نہیں بلکہ ضرورت کی بنیاد پر کرتی ہیں ۔وہ اپنے خاندان اور گھر کی ذمہ داریوں کے لیے ناکافی وقت دینے پر اپنے آپ کو قصووار تصور کرتی ہیں۔اس دہری ذمہ داری کے سبب ان پر دوگنا بوجھ پڑتا ہے اور نتیجتا انھیں بیک وقت دو محاذوں پر لڑنا پڑتا ہے۔

    یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ابھی تک پاکستانی معاشرے نے مکمل طور پر ملازمت پیشہ خاتون کے تصور کو قبول نہیں کیاہے۔ شادی شدہ خواتین کی یہ بھی مشکل ہے کہ سسرال میں کہا جاتا ہے کہ اگرملازمت کرے گی توگھر کون سنبھالے گا؟ خاندان والے کیا سوچیں گے؟ یہی وجہ ہے کہ شدید مشکلات کے باوجود ایسی خواتین سب کو وقت دینے اور خوش رکھنے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں۔ انھیں ساری دنیا کو باور کرانا ہوتا ہے کہ اپنی ملازمت کے ساتھ وہ گھر، بچے، فیملی اور باقی تمام معاملات خوش اسلوبی سے نبھا رہی ہیں۔

    ہمارے معاشرے میں مرد اور عورت کو چکی کے دو باٹ کہا جا تا ہے. جس طرح خواتین زندگی کی گاڑی چلانے میں مردوں کا ہاتھ بٹاتی ہیں، اسی طرح مردوں کو بھی چاہیے کہ وہ گھریلو امور میں ان کا ہاتھ بٹایا کریں۔ مگر اکثر دیکھا گیا ہے کہ مرد عورت کا ہاتھ بٹانے میں اپنی توہین سمجھتا ہے، اور ہمارے معاشرے میں کچھ جگہوں پر مرد کے گھر کےکام کاج میں عورت کا ہاتھ بٹانے کو برا سمجھا جاتا ہے۔ ترقی کی اس جدوجہد میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔ اب عورت اس بات پر قناعت نہیں کرسکتی کہ صرف مرد ہی کما کر لائے اورخاندان کی ضروریات پوری کرے۔ آج کی عورت یہ سمجھتی ہے کہ اسے بھی مرد کی طرح آزادی اور مساوات کے اظہار کے لیے ذاتی سرمایہ اور ملکیت چاہیے۔ اس لیے اب دنیا کے ہر ملک میں خواتین کے لیے گھر سے باہر ملازمت کرنا ایک ضرورت بن چکی ہے، جس کا ماضی میں تصور بھی ممکن نہ تھا۔

    آج کے ترقی یافتہ دور میں ملازمت پیشہ خواتین اپنا بھرپور کردار ادا کررہی ہیں، اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو یہاں خواتین مختلف شعبہ جات میں اپنے فرائض منصبی انجام دے رہی ہیں، جن میں بڑی تعداد میں خواتین میڈیکل،ٹیچنگ، بینکنگ، ٹیلیفون آپریٹر، نرسنگ، گارمنٹس، صحافت، سوشل میڈیا، ، وکالت ، تدریس ، طب ، بزنس ، مارکیٹنگ ، شو بز ، انجینئرنگ ،اکاؤنٹنس اور پرائیوٹ ورکرز کے طور پر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ہمارے ملک میں شعبہ ابلاغ عامہ سے خواتین کی ایک بڑی تعداد منسلک ہے جو اخبارات،رسائل،میڈیا چینلز اور شوبز میں اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں. خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان میں ایسے گھرانوں کی بھی کمی نہیں ہے جو خواتین کو اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لیے بھرپور مواقع فراہم کرتے ہیں، اور یہ ملازمت پیشہ خواتین اپنے گھر اور جاب دونوں ذمہ داریوں کو بخوبی نبھا رہی ہیں.

    جہاں کچھ گھرانے ملازمت پیشہ خواتین کو اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے مواقع فراہم کرتے ہیں وہیں ہماری سوسائٹی میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کے سخت خلاف ہیں. اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ نوکری کرنے والی عورت خود کو بااختیار سمجھتے ہوئے اپنی گھریلو زمہ داریوں سے خود کو بری الزمہ سمجھتی ہے. یہ انتہائی احمقانہ سوچ ہے اور اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ مرد عورت پر اپنا تسلط چاہتا ہے ۔ اپنے گھر اور خاندان کے حوالے سے آپ کو خود ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے، اور جب آپ اپنے خاندان کے بہترین مفاد میں کوئی فیصلہ کر لیں تو پھر آپ کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ آپ کا یہ فیصلہ کچھ دیگر لوگوں سے مختلف کیوں ہے؟ کیونکہ ہر گھر اور خاندان کی ضروریات، حالات، وسائل مختلف ہوتے ہیں، ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اسی طرح آپ کا کوئی فیصلہ آپ کے خاندان کے بہترین مفاد میں ہو سکتا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ ہر گھر اور خاندان کے لیے قابلِ عمل ہو۔

    اس بات سے قطع نظر کہ ایک تعلیم یافتہ عورت ایک بہترین نسل کی بنیاد رکھتی ہے، کچھ جاہل لوگ اس بات کو نظر انداز کردیتے ہیں. اس کے علاوہ ملازمت پیشہ خواتین کو آزاد خیال اور ہر معاملے میں اپنا رعب داب گھر والوں پر جمانے والی عورت تصور کیا جاتا ہے، حالانکہ اگر دیکھا جائے تو آج کل کے دور میں اپنے گھر والوں بچوں کے لیے جدوجہد یہی ملازمت پیشہ خواتین ہی کررہی ہیں. بچوں کی مناسب تعلیم و تربیت، ان کی شخصیت کی تکمیل، جوائنٹ فیملی سسٹم کے دباؤ کا سامنا اور ان کے تقاضے پورے کرنا ، یہ سب اسی زمرے میں آتا ہے۔ یہ خواتین بھرپور طریقے سے اپنے فرائض انجام دیتی ہیں، کسی سے شکایت نہیں کرتیں اور گھر کے کام ہنسی خوشی اپنا فرض سمجھتےہوئے نبھاتی ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عورتیں اپنا معاشرتی کردار بھی بھرپور طریقے سے نبھاہ رہی ہیں. اکثر خواتین اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں اس قدر مگن ہوجاتی ہیں کہ وہ خود کو یکسر نظر انداز کردیتی ہیں. وہ مسلسل اپنے آرام و سکون کو نظر انداز کرکے اپنے بچوں اور خاندان کے بہتر مستقبل کے لیے جدوجہد کرتی ہیں۔ جس طرح علم حاصل کرنا ہر عورت کا حق ہے ، اسی طرح اپنا مستقبل بنانا بھی ہر عورت کا حق ہے۔

    تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی معاشرے میں ملازم پیشہ خواتین کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں معاشرے کی گھریلو مشکلات ، پسماندہ سوچ ، صنفی امتیاز ، ٹرانسپورٹ کے مسائل اور جنسی ہراسانی سرفہرست ہیں۔ خواتین کو معاشرے میں مساوی سیاسی ، معاشی و سماجی حقوق دینے والے بالشویک انقلاب کے لیڈر ولادیمیر لینن نے کہا کہ ہماری خواتین شاندار طبقاتی جنگجو ہوتی ہیں ۔ محنت کشوں کی کوئی بھی تحریک خواتین کی شعوری مداخلت کے بغیر کامیاب نہیں ہوتی ۔ روسی انقلاب ہو یا اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی سعودی عرب یا ایران کی خواتین ، بحرین میں ریاستی جارحیت کے خلاف احتجاج، یا ترکی میں جمہوریت کے خلاف ہونے والی سازش کا راستہ روکنے کی تحریک ، ہر موقع پر خواتین ایک بڑی طاقت کی صورت میں سامنے آئی ہیں، اپنا کردار ادا کیا ہے، اور اپنا آپ منوایا ہے۔

  • باورچی خانے سے معاشرتی ترقی تک – زنیرا شہاب

    باورچی خانے سے معاشرتی ترقی تک – زنیرا شہاب

    پاکستانی معاشرے میں روایتی طور پر خواتین کا کردار گھریلو ذمہ داریوں، خاص طور پر باورچی خانے تک محدود سمجھا جاتا رہا ہے۔ تاہم، وقت کے ساتھ یہ تصور تبدیل ہو رہا ہے، اور خواتین زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں۔ آج کی پاکستانی عورت تعلیم، صحت، سائنس، سیاست، اور دیگر میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہے، جو معاشرتی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔

    تعلیم اور خواتین کی ترقی
    تعلیم کسی بھی فرد کی ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ یہ انسان کو شعور، خود اعتمادی، اور معاشرتی ترقی کی راہوں پر گامزن کرتی ہے۔ پاکستان میں خواتین کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے، تاکہ وہ معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔ تعلیم یافتہ خواتین نہ صرف اپنے خاندان کی بہتری کا باعث بنتی ہیں بلکہ ملکی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ارفع کریم رندھاوا نے 2004 میں سب سے کم عمر مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا خطاب حاصل کیا، اور عائشہ فاروق پاکستان کی پہلی خاتون فائٹر پائلٹ ہیں۔ یہ مثالیں ثابت کرتی ہیں کہ خواتین کسی بھی میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو سکتی ہیں۔

    پیشہ ورانہ میدان میں خواتین کا کردار
    پاکستان میں خواتین مختلف پیشہ ورانہ میدانوں میں نمایاں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ صحت کے شعبے میں، ڈاکٹرز، نرسز، اور دیگر طبی عملے کی بڑی تعداد خواتین پر مشتمل ہے، جو ملک کی صحت عامہ میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ تعلیم کے میدان میں، خواتین اساتذہ نسل نو کی تربیت میں مصروف ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی خواتین کی شمولیت بڑھ رہی ہے، جو ملک کی ترقی میں معاون ثابت ہو رہی ہیں۔

    سیاست اور خواتین کی شمولیت
    سیاست میں خواتین کی شمولیت معاشرتی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں فاطمہ جناح اور بے نظیر بھٹو جیسی شخصیات نے سیاست میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آج بھی خواتین سیاستدان ملکی فیصلوں میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں، جو جمہوری عمل کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔

    معاشرتی ترقی میں خواتین کا حصہ
    خواتین کی شمولیت کے بغیر کوئی بھی معاشرہ مکمل ترقی حاصل نہیں کر سکتا۔ معاشرتی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہم روایتی تصورات سے باہر نکلیں اور خواتین کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کریں۔ خواتین کی شمولیت معاشرتی توازن کو برقرار رکھنے اور ترقی کی رفتار کو تیز کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

    نتیجہ
    خلاصہ یہ کہ، خواتین کا کردار صرف باورچی خانے تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ انہیں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرتی، تعلیمی، اور پیشہ ورانہ میدانوں میں آگے بڑھنے کا حق حاصل ہے۔ یہی رویہ ہمارے معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے۔

  • ملک کی ترقی میں حکومت کا کردار – نایاب امجد

    ملک کی ترقی میں حکومت کا کردار – نایاب امجد

    حکومت ایک ڈھانچہ ہے جو مختلف شاخوں پر مشتمل ہوتا ہے. چند افراد پر مشتمل جماعت یا ادارہ ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں امور مملکت کی باگ ڈور ہوتی ہے. اس کی کابینہ ہوتی ہے، وزارتیں اور ان کے ذیلی محکمے ملک میں قانون بناتے اور ان کو نافذ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں. حکومت کا ملکی ترقی کے لیے فکر مند ہونا ضروری ہوتا ہے.

    انیسویں صدی میں مفکرین کا خیال تھا کہ کسی بھی ملک کو چلانے اور ترقی کی راہوں پر لے جانے میں حکومت کا اہم کردار ہوتا ہے. حکومت ہی ہے جو کسی بھی ملک کو ترقی کی بلندیوں اور تنزلی کی راہوں پر لے جاتی ہے. ملکی ترقی مختلف عوامل پر مشتمل ہوتی ہے جس طرح معیشت، تعلیم، صحت اور بنیادی ضروریات زندگی۔ـ حکومت کی بہترین حکمت عملی ان کی فراہمی کو ممکن بناتی ہے. کسی بھی ملک کو چلانے کے لیے حکومت کے اندر کام کرنے والے افراد کا اپنے ملک سے وفادار ہونا لازم ہوتا ہے. معاشرے میں حقیقی اور مثبت تبدیلی حکومت ہی لا سکتی ہے.

    اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کسی بھی حکومت کا ملکی ترقی و تنزلی میں کیا کردار ہوتا ہے؟ حکومت پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ، حکومت ملکی ترقی کے لیے قوانین بناتی اور رعایا کو ان پر عمل کرنے کی تلقین کرتی ہے. قانون ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہوتے ہیں. حکومت کو ملک کی ترقی اور مختلف شعبوں کو آگے بڑھانے کے لیے حکمت عملی تیار کرنا ضروری ہوتا ہے. اس میں معاشی اور سماجی ترقی کو پیش نظر رکھا جاتا ہے.نئی صنعتوں کی صورت میں روزگار کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ اقتصادی ترقی کو فروغ دینا حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ اس مقصد کے لیے حکومت بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کرتی ہے، اور کاروباری اداروں کو مراعات فراہم کی جاتی ہیں. حکومت کا سماجی بہبود کی فراہمی میں بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ عوام کو تعلیم، صحت اور بنیادی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ حکومت اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتی ہے تو اس سے ایک مساوی اور منصفانہ معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔

    دنیا میں بہت سی حکومتوں نے اپنے ملک کو ترقی یافتہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے. اس حوالے سے جنوبی کوریا کی مثال دی جاتی ہے ، جہاں حکومت نے 1950 کی دہائی میں قوم کی تعمیر کے ابتدائی مرحلے میں سماجی اور ادارہ جاتی بنیادی ڈھانچے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی، اور قومی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے 1962 میں اقتصادی منصوبہ بندی متعارف کرائی ، جس کی وجہ سے آج دنیا کے نقشے پر جنوبی کوریا ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہے۔

    کسی بھی ملک کی ترقی نہ کرنے کا سب سے بڑا سبب حکومتی نااہلی ہوتی ہے. ترقی پذیر ممالک میں یہ زیادہ ہوتا. تعلیمی نظام کو بہتر نہ بنانا حکومت کی سب سے بڑی نااہلی ہوتی ہے . کہا جاتا ہے کہ وہ قوم کبھی بلندی کی منزلیں طے نہیں کر سکتی جس کی رعایا ان پڑھ ہو. اس لیے ملکی ترقی کے لیے نوجوان نسل کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھانا لازمی ہے. پاکستان کا شمار بھی ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے. سیاسی عدم استحکام ،معاشی عدم مساوات اور تعلیمی نظام کی کمزوری کے باعث ملک آگے نہیں بڑھ رہا۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو چاہیے کہ اپنے لیڈر کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں اور ایسے لوگوں کو حکومت میں لائیں جو ملک کے لیے جدوجہد کام کریں اور اس کو ترقی یافتہ بنانے میں اہم کردار ادا کریں. کسی بھی ملک کی ترقی میں لوگوں کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے. اور یہ تب ادا کرنا ہوتا ہے جب الیکشن کے ذریعے لیڈر کا انتخاب کا مرحلہ آتا ہے.

  • ترقی کی راہ: سوچ اور رویوں میں تبدیلی کی ضرورت – احمد فاروق

    ترقی کی راہ: سوچ اور رویوں میں تبدیلی کی ضرورت – احمد فاروق

    ہر قوم کی ترقی کا دار و مدار اس کے افراد کی سوچ، طرزِ عمل اور رویوں پر ہوتا ہے۔ اگر ہم ایک کامیاب، خوشحال اور ترقی یافتہ قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی اجتماعی اور انفرادی عادات میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ ترقی کا سفر کسی جادوئی عمل کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے مستقل مزاجی، نظم و ضبط، صبر، اور ایک واضح وژن کی ضرورت ہوتی ہے۔

    سوچ کی تبدیلی: ایک نئے نقطۂ نظر کی ضرورت
    ہماری سب سے بڑی کمزوری ہماری غیر مستقل مزاجی اور وقتی جذباتیت ہے۔ اکثر ہم وقتی جوش و خروش میں کوئی قدم اٹھاتے ہیں، لیکن جیسے ہی مشکلات سامنے آتی ہیں، پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی سوچ کو وقتی جذباتیت سے نکال کر حقیقت پسندی اور اصولی بنیادوں پر استوار کریں۔ دنیا میں جن اقوام نے ترقی کی منازل طے کی ہیں، ان کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ طویل المدتی منصوبہ بندی کرتی ہیں اور اصول پسندی کو اپنی زندگی کا حصہ بناتی ہیں۔ ہمیں بھی اپنی سوچ میں وسعت اور گہرائی پیدا کرنی ہوگی، تاکہ ہم محض وقتی فوائد کے بجائے دیرپا ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔

    نظم و ضبط اور استقامت: کامیابی کی کنجی
    کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کے افراد نظم و ضبط اور صبر کے اصولوں پر کاربند ہوتے ہیں۔ ہمیں بھی اپنی روزمرہ زندگی میں ان صفات کو اپنانا ہوگا۔ وقت کی پابندی، وعدوں کی پاسداری، ذمہ داری کا احساس، اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں سنجیدگی، یہ وہ اصول ہیں جو ہمیں ایک کامیاب اور منظم قوم بنا سکتے ہیں۔

    اجتماعی سوچ: انفرادی نہیں، قومی مفاد کو ترجیح دیں
    ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم اجتماعی سوچ کے بجائے انفرادی مفاد کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشرے وہی ہوتے ہیں جہاں افراد اجتماعی بہتری کے لیے کام کرتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جب ہم بطورِ قوم آگے بڑھیں گے، تبھی ہم انفرادی طور پر بھی خوشحال ہوں گے۔ قانون کی پاسداری، دوسروں کے حقوق کا احترام، اور ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دینا، یہ وہ اصول ہیں جو کسی بھی قوم کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔

    قانون کی حکمرانی: حقیقی ترقی کی بنیاد

    کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ وہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر ہم ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں قوانین پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔ ٹریفک قوانین کی پاسداری، ملاوٹ سے گریز، انصاف کے اصولوں کی پاسداری، اور سماجی ذمہ داریوں کو پورا کرنا، یہ وہ بنیادی عوامل ہیں جو کسی بھی قوم کو مہذب اور ترقی یافتہ بناتے ہیں۔

    ایک روشن مستقبل کی امید
    اگر ہم واقعی ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی سوچ اور رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی۔ ہمیں وقتی جذباتیت، غیر مستقل مزاجی اور بے اصولی کو ترک کر کے اصول پسندی، صبر، استقامت، نظم و ضبط، اجتماعی سوچ اور قانون کی پاسداری کو اپنانا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ایک کامیاب، خودمختار اور ترقی یافتہ قوم میں بدل سکتا ہے۔ ترقی کا سفر مشکل ضرور ہوتا ہے، لیکن اگر ہم مستقل مزاجی اور ایمانداری کے ساتھ اس راہ پر چلیں تو ایک روشن مستقبل ہماری منتظر ہوگا۔