ذرا 11 فروری 2025 کی خبروں کی ترتیب دیکھیں ۔
• کورنگی ابراہیم حیدری سے کراسنگ جاتے ہوئے تیز رفتار ڈمپر نے موٹر سائیکل سواروں کو کچل دیا جس کے نتیجے میں 3 نوجوان جاں بحق ہوگئے۔ ہاکس بے مشرف کالونی کے قریب تیز رفتار ڈمپر کی ٹکر سے موٹر سائیکل سوار جاں بحق ہوگیا۔ شہر میں نامعلوم افراد نے مزید دو ہیوی گاڑیوں کو آگ لگا دی جس کے بعد صبح سے اب تک جلائی جانے والی مال بردار گاڑیوں کی تعداد 4 ہوگئی۔
• 5 فروری کو گلستان جوہر میں راشد منہاس روڈ پر سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے کچرا اٹھانے والے ٹرک نے متعدد گاڑیوں کو ٹکر مار دی تھی جس کے نتیجے میں 3 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
• اگر شہر میں کسی ڈمپر کو نقصان پہنچا تو ہم ہڑتال کر کے شہر کو بند کر دینگے – ڈمپر ایسوسی ایشن نے شہر کے داخلی رستوں کو بلاک کرکے احتجاج شروع کردیا ۔
• اگر حکومت ڈمپر والوں کی دھمکی میں آکر مہاجر نوجوانوں کے خلاف کارروائی کریگی تو پھر ہم شہر بند کرینگے ۔ ذرائع مہاجر قومی مومنٹ
• کراچی میں ٹریفک حادثات کم کرنے کے لیےسندھ ہائیکورٹ میں آئینی درخواست دائرکر دی گئی۔ درخواست میں چیف سیکریٹری، آئی جی سندھ اور ڈی آئی جی ٹریفک سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
کورٹ میں جمع کرائے گئے کیس کے مطابق سال 2024 میں کراچی میں 8 ہزارلوگ ٹریفک حادثات کا نشانہ بنے۔773 ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں۔زخمی ، معذور الگ ہیں۔ان کیسز میں نہ ہی ڈرائیورکو پکڑا جاتا ہے، نہ ہی کوئی سزا ملتی ہے۔اس لیے کہ رشوت کے بدلے ہر قسم کا سرٹیفیکیٹ آسانی سے مل جاتا ہے۔
• کراچی میں چیئرمین مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم۔حقیقی) آفاق احمد کو ڈمپر حادثات سے متعلق (پولیس ذرائع کے مطابق )اشتعال انگیز بیان پر گرفتار کیا گیا ہے۔
ارے زیادہ دور نہ جائیں ، ابھی اگست 2024 میں کارساز پر ایک باپ بیٹی کی اسی طرح ایک مہنگی جیپ کے نیچے کچل کر ہلاکت کی خبر یاد ہے ؟ امیر باپ، امیر ترین شوہر کی بیٹی تھی۔ شور بھی خوب ہوا تھا۔ قاتل گرفتار بھی ہوئی پھر کیا ہوا؟ ثابت ہوا تھا کہ نشہ میں تھی۔ مگر ریاست نے با عزت بری کردیا ( دیت لینا الگ عمل ہے)۔ بہرحال یہ بھی ایک مثال ہے قاتل کی گرفتاری کی ۔ اگر یہاں امیر لڑکی نہ ہوتی تو بھی مجرم کی گرفتاری کے بعد قانونی عمل اتنا ہولناک ہوتا ہے کہ کوئی بار بار کورٹ، تھانے ، کے چکر نہیں لگا پاتا۔ اس سب کا فائدہ بھی مجرم کو ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کوئی نیت نہیں تھی۔ جان بوجھ کر نہیں مارا۔بات ختم۔
کراچی کے ایک سینئر صحافی فیض اللہ خان ان سارے تازہ واقعات کی ترتیب کو یوں دیکھتے ہیں: ’’ایک انتظامی مسئلہ دوبارہ سے کراچی میں نسلی لسانی فساد کی راہ ہموار کر رہا ہے ۔ڈمپر ٹینکرز مسئلے پہ سب سے بڑا مجرم ہے نظام ہے حادثات کے مرتکب ڈرائیوروں کو پکڑ پاتا ہے نہ سزا ملتی ہے رشوت کے بدلے فٹنس سرٹیفکیٹ لائسنس وغیرہ سب کچھ آسانی سے مل جاتا ہے ۔یہ بھی ایک بڑی غلط فہمی ہے کہ ڈمپرز و ٹینکرز پر دن کے اوقات میں مکمل پابندی ہے بلکہ پولیس کے مطابق لازمی 42 شعبہ جات سے متعلق گاڑیوں کو آمد و رفت کی اجازت ہے جن میں بلڈنگ میٹریل تیل و پانی وغیرہ کی سپلائی ہے جسے قانون استثنی دیتا ہے ۔ صرف اندرون ملک آمد و رفت والے ٹرالرز وغیرہ پردن میں پابندی ہے جس پہ اکثر عمل ہوتا ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ یہ ڈرائیور نشہ کرتے ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ بسا اوقات ’’اپنے چھوٹے ‘‘کو مین روڈ پر ’’ ہاتھ کی صفائی ‘‘ کیلئے ڈمپر ڈرائیو کرنے کو بھی دے دیتے ہیں جس سے حادثات کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے ۔
اس کے بعد کراچی کا ٹوٹا پھوٹا انفراسٹرکچر ، تباہ حال سڑکیں ہیں۔ موٹر سائیکل سواروں کیلئے خاص طور پہ خطرہ بن چکی ہیں۔ گڑھوں سے بچنے کیلئے جیسے وہ دائیں بائیں ہوتے ہیں، کسی بس ٹرک یا کار کی زد میں آجاتے ہیں ۔کراچی میں نوے فیصد سے زائد موٹر سائیکل سوار سائیڈ مرر لگاتے ہیں نہ ہی اپنی لین میں چلاتے ہیں غلط سمت پہ بھی سب سے زیادہ موٹر سائیکل سوار سفر کرتے ہیں ۔ہیلمٹ کا نہ پہننا بھی بڑا مسئلہ ہے ہیملٹ پہنے سوار کے اگر سائیڈ مرر نہیں تو پھر اسے عقب میں دیکھنے کیلئے پورا سر گھمانا پڑتا ہے ہوں آگے سے خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے ۔
حالیہ عرصے میں بے در پے حادثات کے بعد مہاجر قومی موومنٹ کے سربراہ آفاق احمد نے گاڑیاں روکنے کا اعلان کیا جس کے بعد بعض علاقوں میں نوجوانوں نے نکل بڑی گاڑیوں کو روکا انکے کاغذات چیک کیے لائسنس مانگا (بنیادی طور پہ یہ پولیس کا کام ہے اسکے نہ کرنے کیوجہ سے نوجوان قانون کو ہاتھ میں لے رہے ہیں جو کہ انارکی کی قسم ہے ) اور تلخی کلامی کے واقعات ہوئے اسی طرح آج صبح بغیر کسی وجہ کے ایک ٹرالر کو نامعلوم افراد آگ لگا کر چلے گئے ۔
کراچی کی سیاست سے الطاف حسین کچھ اپنے منفی طرز عمل کچھ بزور طاقت منفی کردیے گئے مگر جن بنیادوں پہ الطاف حسین الطاف حسین بنا وہ جوں کے توں موجود ہیں نتیجتاً مہاجروں میں نوکریوں سے لیکر ملک کے دیگر حصوں بشمول سندھ کے مختلف شہروں سے کراچی آجر رھنے والوں میں ایک تناؤ کی کیفیت پائی جاتی ہے کراچی کے چھوٹے بڑے جرائم میں بھی ” غیر مقامی ” ملوث ہوتے ہیں مگر اکثریت گرفتار ہوتی ہے نہ سزاپاتی ہے۔ ایم کیو ایم کی راکھ سے ایک اور الطاف حسین پیدا ہوا تو کراچی اسی 80/90 کی دھائی میں خلا جائیگا جسکے نتیجے میں سوائے آگ و خون کے کچھ نہ ملا ۔ مسلم لیگ کو کراچی سے دلچسپی نہیں پیپلز پارٹی کیلئے کراچی وہ سونے کی کان ہے جو بغیر ووٹ حاصل کئیے ٹیکس و سسٹم کے نام پہ حکومت کا پیٹ بھر رہا ہے ۔‘‘
یہ تو کچھ اہم پہلو تھے۔ اب اس سب کے بعد صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف ڈمپر والے اپنا حق مانگ رہے ہیں۔عوام اپنا حق مانگ رہے ہیں۔سیاسی جماعتیں الگ اپنا کردار ادا کر رہی ہیں ۔ایک طرف آفاق احمد، دوسری طرف ٹی ایل پی کے مفتی قاسم ، پھر جماعت اسلامی کے حافظ نعیم ، ایم کیو ایم کے گورنر سمیت سب بات کر رہے ہیں۔ڈمپروں کے سامان سے جڑے کاروباری افراد اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ یہ سب حقوق کس سے مانگے جا رہے ہیں؟ریاست سے ۔
اس کی ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ کوٹہ سسٹم، ٹریفک حادثات، انفراسٹرکچر،اسٹریٹ کرائم، بلدیاتی امورسب اس ظالمانہ نظام کے انتظامی امور ہیں ۔حکمران ہمیشہ ان سب مسائل سے بہت دور ہوتے ہیں۔اُن کو نہ کبھی ٹریفک جام کا مسئلہ ہوتا ہے۔نہ اُن کی گاڑی کبھی ٹوٹی سڑک سے گزرتی ہے۔نہ اُن کا کوئی موبائل چھینتا ہے۔نہ اُن کے گھر لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔تو وہ اِن اُمور کو نہ حل کر سکتی ہےنہ کرےگی۔یہ جان لیں کہ جس چیز کا ، جس مسئلے کا تعلق سرمایہ دارانہ نظم سے ہوگا ۔ وہ مسئلہ کبھی بھی ، کہیں بھی حل نہیں ہوگا۔اس لیے کہ جب کسی کو سمجھاؤ تو آخر میں یہ فضول کا لا یعنی، جھوٹا جملہ دہرایا جاتا ہے کہ ’’ہر چیز کے منفی و مثبت پہلو ہوتے ہیں۔‘‘
امریکہ ، برطانیہ سب جگہ معلوم کرلیں ، ٹریفک حادثات کی ہولناک تعداد وہاں بھی موجود ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق بھارت میں ہر سال 150000 لوگ ٹریفک حادثات میں مرتے ہیں۔ چین جیسے ملک میں اموات کی تعداد ڈھائی لاکھ ہے۔یہ تو مرنے والوں کی تعداد ہے زخمی و معذور ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ 2019 میں امریکہ میں ساڑھے 19 لاکھ کار ایکسیڈنٹ رپورٹ ہوئے ۔اس کے بعد جاپان ہے جس میں 540000 کی تعدادسالانہ ٹریفک حادثات کی ہے ۔ یہ ایک سال کے حادثات و اموات کی تعداد صاف بتا رہی ہے کہ یہ سارا خونی کھیل ہے۔ آپ سڑک پر گاڑی چلاتے وقت مکمل طور پر بے اختیار ہوتے ہیں، کچھ نہیں معلوم کب آپ کی گاڑی کے بریک فیل ہوجائیں، ٹائر پنکچر ہوجائے، کرنٹ بند ہوجائے ، چین ٹوٹ جائے ، پلگ شارٹ ہوجائے اور پیچھے سے حادثہ ہوجائے ، کوئی ڈمپر ، کوئی کار آپ کو کسی بھی وقت کچل جائے چاہے آپ قوانین کی پابندی ہی کیوں نہ کر رہے ہوں۔ تو ضروری ہے کہ آپ اس ’سڑک کی نفسیات‘ سے آگاہ ہوں۔ یقین مانیں ایسے میں آیت الکرسی و دیگر دُعاؤں کے علاوہ آپ کا کوئی سہارا نہیں ۔




گورنر سندھ پاکستان کے صوبہ سندھ کی صوبائی حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ اس کا تقرر وزیر اعظم پاکستان کرتا ہے اور عموما یہ ایک رسمی عہدہ ہے یعنی اس کے پاس بہت زیادہ اختیارات نہیں ہوتے۔ تاہم ملکی تاریخ میں متعدد بار ایسے مواقع آئے ہیں جب صوبائی گورنروں کو اضافی و مکمل اختیارات ملے ہیں خاص طور پر اس صورت میں جب صوبائی اسمبلی تحلیل کر دی گئی ہو، تب انتظامی اختیارات براہ راست گورنر کے زیر نگیں آ جاتے ہیں۔ 1958ء سے 1972ء اور 1977ء سے 1985ء کے فوجی قوانین (مارشل لا) اور 1999ء سے 2002ء کے گورنر راج کے دوران گورنروں کو زبردست اختیارات حاصل رہے۔ سندھ میں دو مرتبہ براہ راست گورنر راج نافذ رہا جن کے دوران 1951ء سے 1953ء کے دوران میاں امین الدین اور 1988ء میں رحیم الدین خان گورنر تھے۔ سندھ کے آخری گورنر عشرت العباد خان ہیں جن کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ سے تھا۔ لیکن اب سعید الزماں صدیقی کو گورنر سندھ بن گئے ہیں۔
کراچی پریس کلب کسی بھی مذہب، فرقے، نسل، زبان یا سیاسی وابستگی سے قطع نظر تمال اہلِ شہر کے لئے دیوارِ گریہ کی حیثیت رکھتا ہے جہاں کوئی بھی اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی پر احتجاج ریکارڈ کرواسکتا ہے اور پریس کلب میں موجود صحافی برادری کو اپنی درد بھری داستان سناسکتا ہے۔ احتجاج کرنے والے تمام لوگ صحافیوں سے عزت و احترام کے ساتھ موجزانہ درخواست کرتے ہیں کہ ان کے مسائل یا موقف کو اُجاگر کیا جائے۔
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
میں صحافت کے ساتھ ساتھ شام کے اوقات میں ایک پروفیشنل تعلیمی ادارے میں بحیثیت انگریزی استاد کے فرائض انجام دیتا ہوں جہاں پر اپنی مدد آپ کے تحت ایم بی اے، ایل ایل بی اور انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے متوسط گھرانوں کے نوجوان شام میں اپنی انگلش بہتر کرنے کےلیے میری کلاس میں آیا کرتے ہیں تاکہ تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انگلش لینگوئج کی اضافی تعلیم ہونے سے زندگی میں اچھے مواقع حاصل کر سکیں۔ انگریزی بول چال کے دوران اکثر گرم سرد بحث کاچھڑ جانا بھی کلاس کا معمول ہے۔ ایک روز نجی ادارے میں زیرتعلیم اورگھر کا واحد کفیل نوجوان دوران کلاس بات کرتے کرتے آبدیدہ ہوگیا اس پر میں نے اسطرح سے رونے کی وجہ جانی تو وہ نوجوان روتے روتے اور پھٹ پڑا، کہنے لگا کہ اس جمہوریت سے تو آمریت ہی بہتر ہے. مہنگا ئی، بےروزگاری اپنے عروج پر ہے اورحق دار کو اس کا حق نہیں مل رہا ہے. ہے کوئی پوچھنے والا؟ ایسی بھونڈی جمہوریت سے تو آمریت بھلی جس میں غریب انسان کم از کم دو وقت کی روٹی تو کما لیا کر تا تھا اور اس فوجی دور میں ایک نہ کہیں خونریزی تھی اور نہ ہی کسی شے کا بحران تھا بلکہ عام انسان کی زندگی قدرے محفوظ اور سہل تھی.
دلیل ڈاٹ پی کے پر ایک تحریر کے مطالعہ کا اتفاق ہوا۔ فاضل دوست نے بہت ہی عمدہ انداز سے ایم کیوایم قائد کی دھرتی ماں سے بےوفائی، ٹارگٹ کلنگ اور چائنا کٹنگ کے کارناموں کومحض الزام قرار دے کر مسترد کرنے کے ساتھ متحدہ کو پاک دامنی، حُب الوطنی اور عوام دوستی کا سرٹیفکیٹ بھی عطا کیا اور کراچی کی عوام کی محرومیوں کا ذمہ دار بھی اسٹیبلشمنٹ کو ٹھہرایا۔ اپنی رائے کو تقویت دینے کے لیے مندرجہ ذیل چند سوالات کیے۔
کراچی سیاسی تبدیلیوں کی زد میں ہے اور حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں، شہری ووٹ بینک خاموشی کی کیفیت میں چلا گیا ہے، شاید یہ بھی اپنی سیاسی قیادت سے خاموش احتجاج ہے جبکہ مضافاتی ووٹ تو ہمیشہ ہی مخالف رہا ہے۔
یہ ایم کیو ایم والے غدار ہیں، یہ دہشت گرد ہیں، یہ را کے ایجنٹ ہیں، یہ قاتلوں کے ساتھی ہیں، یہ وہ نعرے اور جملے ہیں جو اہلیان کراچی کو روز سننے کو ملتے ہیں. بتایا جاتا ہے کہ کیونکہ یہاں کے لوگ متحدہ کو سپورٹ کرتے ہیں اور متحدہ بھتہ خور، ٹارگٹ کلرز کی جماعت ہے تو ایسی جماعت کو جو بھی ووٹ دے وہ بھی مجرم ہیں. یہ تصویر کا ایک رخ ہے. کراچی سے دور رہنے والے لوگ جو کسی مخصوص اخبار کے قاری ہوں، ان کے ذہن میں اس سوال کا پیدا ہونا فطری بات ہے، لیکن کیا تصویر کا ایک رخ دیکھ کر فیصلہ کیا جاسکتا ہے؟ کسی ایک فریق کی بات سن کر فیصلہ صادر کرنا انصاف ہوگا؟ یا دوسرے فریق کی بات بھی سنی جائے گی.