Tag: ایم کیو ایم

  • کراچی میں ڈمپر سیاست – سلمان علی

    کراچی میں ڈمپر سیاست – سلمان علی

    ذرا 11 فروری 2025 کی خبروں کی ترتیب دیکھیں ۔
    • کورنگی ابراہیم حیدری سے کراسنگ جاتے ہوئے تیز رفتار ڈمپر نے موٹر سائیکل سواروں کو کچل دیا جس کے نتیجے میں 3 نوجوان جاں بحق ہوگئے۔ ہاکس بے مشرف کالونی کے قریب تیز رفتار ڈمپر کی ٹکر سے موٹر سائیکل سوار جاں بحق ہوگیا۔ شہر میں نامعلوم افراد نے مزید دو ہیوی گاڑیوں کو آگ لگا دی جس کے بعد صبح سے اب تک جلائی جانے والی مال بردار گاڑیوں کی تعداد 4 ہوگئی۔
    • 5 فروری کو گلستان جوہر میں راشد منہاس روڈ پر سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے کچرا اٹھانے والے ٹرک نے متعدد گاڑیوں کو ٹکر مار دی تھی جس کے نتیجے میں 3 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
    • اگر شہر میں کسی ڈمپر کو نقصان پہنچا تو ہم ہڑتال کر کے شہر کو بند کر دینگے – ڈمپر ایسوسی ایشن نے شہر کے داخلی رستوں کو بلاک کرکے احتجاج شروع کردیا ۔
    • اگر حکومت ڈمپر والوں کی دھمکی میں آکر مہاجر نوجوانوں کے خلاف کارروائی کریگی تو پھر ہم شہر بند کرینگے ۔ ذرائع مہاجر قومی مومنٹ
    • کراچی میں ٹریفک حادثات کم کرنے کے لیےسندھ ہائیکورٹ میں آئینی درخواست دائرکر دی گئی۔ درخواست میں چیف سیکریٹری، آئی جی سندھ اور ڈی آئی جی ٹریفک سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
    کورٹ میں جمع کرائے گئے کیس کے مطابق سال 2024 میں کراچی میں 8 ہزارلوگ ٹریفک حادثات کا نشانہ بنے۔773 ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں۔زخمی ، معذور الگ ہیں۔ان کیسز میں نہ ہی ڈرائیورکو پکڑا جاتا ہے، نہ ہی کوئی سزا ملتی ہے۔اس لیے کہ رشوت کے بدلے ہر قسم کا سرٹیفیکیٹ آسانی سے مل جاتا ہے۔
    • کراچی میں چیئرمین مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم۔حقیقی) آفاق احمد کو ڈمپر حادثات سے متعلق (پولیس ذرائع کے مطابق )اشتعال انگیز بیان پر گرفتار کیا گیا ہے۔

    ارے زیادہ دور نہ جائیں ، ابھی اگست 2024 میں کارساز پر ایک باپ بیٹی کی اسی طرح ایک مہنگی جیپ کے نیچے کچل کر ہلاکت کی خبر یاد ہے ؟ امیر باپ، امیر ترین شوہر کی بیٹی تھی۔ شور بھی خوب ہوا تھا۔ قاتل گرفتار بھی ہوئی پھر کیا ہوا؟ ثابت ہوا تھا کہ نشہ میں تھی۔ مگر ریاست نے با عزت بری کردیا ( دیت لینا الگ عمل ہے)۔ بہرحال یہ بھی ایک مثال ہے قاتل کی گرفتاری کی ۔ اگر یہاں امیر لڑکی نہ ہوتی تو بھی مجرم کی گرفتاری کے بعد قانونی عمل اتنا ہولناک ہوتا ہے کہ کوئی بار بار کورٹ، تھانے ، کے چکر نہیں لگا پاتا۔ اس سب کا فائدہ بھی مجرم کو ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کوئی نیت نہیں تھی۔ جان بوجھ کر نہیں مارا۔بات ختم۔

    کراچی کے ایک سینئر صحافی فیض اللہ خان ان سارے تازہ واقعات کی ترتیب کو یوں دیکھتے ہیں: ’’ایک انتظامی مسئلہ دوبارہ سے کراچی میں نسلی لسانی فساد کی راہ ہموار کر رہا ہے ۔ڈمپر ٹینکرز مسئلے پہ سب سے بڑا مجرم ہے نظام ہے حادثات کے مرتکب ڈرائیوروں کو پکڑ پاتا ہے نہ سزا ملتی ہے رشوت کے بدلے فٹنس سرٹیفکیٹ لائسنس وغیرہ سب کچھ آسانی سے مل جاتا ہے ۔یہ بھی ایک بڑی غلط فہمی ہے کہ ڈمپرز و ٹینکرز پر دن کے اوقات میں مکمل پابندی ہے بلکہ پولیس کے مطابق لازمی 42 شعبہ جات سے متعلق گاڑیوں کو آمد و رفت کی اجازت ہے جن میں بلڈنگ میٹریل تیل و پانی وغیرہ کی سپلائی ہے جسے قانون استثنی دیتا ہے ۔ صرف اندرون ملک آمد و رفت والے ٹرالرز وغیرہ پردن میں پابندی ہے جس پہ اکثر عمل ہوتا ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ یہ ڈرائیور نشہ کرتے ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ بسا اوقات ’’اپنے چھوٹے ‘‘کو مین روڈ پر ’’ ہاتھ کی صفائی ‘‘ کیلئے ڈمپر ڈرائیو کرنے کو بھی دے دیتے ہیں جس سے حادثات کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے ۔
    اس کے بعد کراچی کا ٹوٹا پھوٹا انفراسٹرکچر ، تباہ حال سڑکیں ہیں۔ موٹر سائیکل سواروں کیلئے خاص طور پہ خطرہ بن چکی ہیں۔ گڑھوں سے بچنے کیلئے جیسے وہ دائیں بائیں ہوتے ہیں، کسی بس ٹرک یا کار کی زد میں آجاتے ہیں ۔کراچی میں نوے فیصد سے زائد موٹر سائیکل سوار سائیڈ مرر لگاتے ہیں نہ ہی اپنی لین میں چلاتے ہیں غلط سمت پہ بھی سب سے زیادہ موٹر سائیکل سوار سفر کرتے ہیں ۔ہیلمٹ کا نہ پہننا بھی بڑا مسئلہ ہے ہیملٹ پہنے سوار کے اگر سائیڈ مرر نہیں تو پھر اسے عقب میں دیکھنے کیلئے پورا سر گھمانا پڑتا ہے ہوں آگے سے خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے ۔

    حالیہ عرصے میں بے در پے حادثات کے بعد مہاجر قومی موومنٹ کے سربراہ آفاق احمد نے گاڑیاں روکنے کا اعلان کیا جس کے بعد بعض علاقوں میں نوجوانوں نے نکل بڑی گاڑیوں کو روکا انکے کاغذات چیک کیے لائسنس مانگا (بنیادی طور پہ یہ پولیس کا کام ہے اسکے نہ کرنے کیوجہ سے نوجوان قانون کو ہاتھ میں لے رہے ہیں جو کہ انارکی کی قسم ہے ) اور تلخی کلامی کے واقعات ہوئے اسی طرح آج صبح بغیر کسی وجہ کے ایک ٹرالر کو نامعلوم افراد آگ لگا کر چلے گئے ۔

    کراچی کی سیاست سے الطاف حسین کچھ اپنے منفی طرز عمل کچھ بزور طاقت منفی کردیے گئے مگر جن بنیادوں پہ الطاف حسین الطاف حسین بنا وہ جوں کے توں موجود ہیں نتیجتاً مہاجروں میں نوکریوں سے لیکر ملک کے دیگر حصوں بشمول سندھ کے مختلف شہروں سے کراچی آجر رھنے والوں میں ایک تناؤ کی کیفیت پائی جاتی ہے کراچی کے چھوٹے بڑے جرائم میں بھی ” غیر مقامی ” ملوث ہوتے ہیں مگر اکثریت گرفتار ہوتی ہے نہ سزاپاتی ہے۔ ایم کیو ایم کی راکھ سے ایک اور الطاف حسین پیدا ہوا تو کراچی اسی 80/90 کی دھائی میں خلا جائیگا جسکے نتیجے میں سوائے آگ و خون کے کچھ نہ ملا ۔ مسلم لیگ کو کراچی سے دلچسپی نہیں پیپلز پارٹی کیلئے کراچی وہ سونے کی کان ہے جو بغیر ووٹ حاصل کئیے ٹیکس و سسٹم کے نام پہ حکومت کا پیٹ بھر رہا ہے ۔‘‘

    یہ تو کچھ اہم پہلو تھے۔ اب اس سب کے بعد صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف ڈمپر والے اپنا حق مانگ رہے ہیں۔عوام اپنا حق مانگ رہے ہیں۔سیاسی جماعتیں الگ اپنا کردار ادا کر رہی ہیں ۔ایک طرف آفاق احمد، دوسری طرف ٹی ایل پی کے مفتی قاسم ، پھر جماعت اسلامی کے حافظ نعیم ، ایم کیو ایم کے گورنر سمیت سب بات کر رہے ہیں۔ڈمپروں کے سامان سے جڑے کاروباری افراد اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ یہ سب حقوق کس سے مانگے جا رہے ہیں؟ریاست سے ۔
    اس کی ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ کوٹہ سسٹم، ٹریفک حادثات، انفراسٹرکچر،اسٹریٹ کرائم، بلدیاتی امورسب اس ظالمانہ نظام کے انتظامی امور ہیں ۔حکمران ہمیشہ ان سب مسائل سے بہت دور ہوتے ہیں۔اُن کو نہ کبھی ٹریفک جام کا مسئلہ ہوتا ہے۔نہ اُن کی گاڑی کبھی ٹوٹی سڑک سے گزرتی ہے۔نہ اُن کا کوئی موبائل چھینتا ہے۔نہ اُن کے گھر لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔تو وہ اِن اُمور کو نہ حل کر سکتی ہےنہ کرےگی۔یہ جان لیں کہ جس چیز کا ، جس مسئلے کا تعلق سرمایہ دارانہ نظم سے ہوگا ۔ وہ مسئلہ کبھی بھی ، کہیں بھی حل نہیں ہوگا۔اس لیے کہ جب کسی کو سمجھاؤ تو آخر میں یہ فضول کا لا یعنی، جھوٹا جملہ دہرایا جاتا ہے کہ ’’ہر چیز کے منفی و مثبت پہلو ہوتے ہیں۔‘‘

    امریکہ ، برطانیہ سب جگہ معلوم کرلیں ، ٹریفک حادثات کی ہولناک تعداد وہاں بھی موجود ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق بھارت میں ہر سال 150000 لوگ ٹریفک حادثات میں مرتے ہیں۔ چین جیسے ملک میں اموات کی تعداد ڈھائی لاکھ ہے۔یہ تو مرنے والوں کی تعداد ہے زخمی و معذور ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ 2019 میں امریکہ میں ساڑھے 19 لاکھ کار ایکسیڈنٹ رپورٹ ہوئے ۔اس کے بعد جاپان ہے جس میں 540000 کی تعدادسالانہ ٹریفک حادثات کی ہے ۔ یہ ایک سال کے حادثات و اموات کی تعداد صاف بتا رہی ہے کہ یہ سارا خونی کھیل ہے۔ آپ سڑک پر گاڑی چلاتے وقت مکمل طور پر بے اختیار ہوتے ہیں، کچھ نہیں معلوم کب آپ کی گاڑی کے بریک فیل ہوجائیں، ٹائر پنکچر ہوجائے، کرنٹ بند ہوجائے ، چین ٹوٹ جائے ، پلگ شارٹ ہوجائے اور پیچھے سے حادثہ ہوجائے ، کوئی ڈمپر ، کوئی کار آپ کو کسی بھی وقت کچل جائے چاہے آپ قوانین کی پابندی ہی کیوں نہ کر رہے ہوں۔ تو ضروری ہے کہ آپ اس ’سڑک کی نفسیات‘ سے آگاہ ہوں۔ یقین مانیں ایسے میں آیت الکرسی و دیگر دُعاؤں کے علاوہ آپ کا کوئی سہارا نہیں ۔

  • کراچی و حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات 15 جنوری کو ہوں گے، الیکشن کمیشن نے فیصلہ سنادیا

    کراچی و حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات 15 جنوری کو ہوں گے، الیکشن کمیشن نے فیصلہ سنادیا

    اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے متعلق درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنا دیا، کراچی اور حیدرآباد ڈویژنز میں بلدیاتی انتخابات 15 جنوری کو ہوں گے۔

    الیکشن کمیشن نے کراچی اور حیدر آباد میں بلدیاتی اتنخابات کے انعقاد سے متعلق پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کی درخواستوں کی سماعت کی جس میں کراچی اور حیدرآباد کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی سمیت دیگر کا موقف سنا گیا، آئی جی سندھ کا موقف بھی لیا گیا اور 15 نومبر کو فیصلہ محفوظ کیا گیا جو کہ آج سنادیا گیا۔ کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد ہونے پر سندھ حکومت نے الیکشن کمیشن کو 90 روز کے لیے ملتوی کرنے کی درخواست دی تھی جسے الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیا۔

    الیکشن کمیشن نے سندھ حکومت کی جانب سے پولیس نفری نہ ہونے اور سیلابی صورتحال کے جواز کو مسترد کرتے ہوئے کراچی اور حیدر آباد ڈویژن میں 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم جاری کردیا۔ الیکشن کمیشن نے فیصلے میں انتظامی اور سیکیورٹی اداروں کو اپنی تیاریاں مکمل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا ہے کہ 15 جنوری کو ان دونوں ڈویژنز میں بلدیاتی انتخابات کا ہرممکن انعقاد یقینی بنایا جائے،انتخابات کو شفاف اور پرامن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔

    15 نومبر کو سندھ حکومت کی جانب سے بیرسٹر مرتضی وہاب نے الیکشن کمیشن میں پیشی کے دوران موقف اختیار کیا تھا کہ اگر انتخابات کرائے گئے تو امن و امان کی ضمانت نہیں دے سکتے، ماضی کی طرح کے واقعات متوقع ہیں اس لیے 90 روز کے لیے انتخابات ملتوی کردیے جائیں۔ اسی طرح ایم کیو ایم کی جانب سے وسیم اختر پیش ہوئے اور انتخابات ملتوی کرنے کے حق میں دلائل دیے جبکہ تحریک انصاف کے وکیل نے انتخابات کے انعقاد کے لیے دلائل دیے جب کہ آئی جی سندھ اور چیف سیکریٹری نے سفارش کی کہ الیکشن ابھی نہ کرائے جائیں۔

    سندھ حکومت نے 17 ہزار پولیس نفری کی شارٹیج کا موقف اپنایا اور کہا کہ ہماری نفری سیلاب متاثرین کی امداد میں مصروف ہے جس پر جماعت اسلامی کراچی کے امیر نعیم الرحمان نے کہا کہ ہم ریلیف کے کاموں میں مشغول ہیں ہمیں معلوم ہے کہ وہاں کتنی نفری ہے۔ آئی جی سندھ نے بھی کہا کہ جتنی تعداد سندھ حکومت بتارہی ہے اہلکاروں کی اتنی قلت نہیں ہے۔ سندھ حکومت نے یہ بھی کہا کہ ہمارے دس ہزار اہلکار ایک سیاسی جماعت کے دھرنے کے پیش نظر اسلام آباد میں موجود ہیں، وفاق نے ہم سے یہ نفری طلب کی ہوئی ہے۔ اس پر الیکشن کمیشن نے تجویز دی کہ ہم پنجاب حکومت سے اہلکار لے کر یہ شارٹیج پوری کرسکتے ہیں۔

    جماعت اسلامی کی جانب سے نعیم الرحمان پیش ہوئے تھے جنہوں نے رضامندی ظاہر کی کہ سندھ حکومت کو 45 دن کا وقت دے دیا جائے تاکہ سندھ حکومت بھی اپنی تیاری مکمل کرلے۔ انہوں ںے کہا کہ 45 دن کے بعد انتخابات کا انعقاد کردیا جائے لیکن یقین دلایا جائے کہ اگر45 روز بعد کی تاریخ دی جائے گی تو ہرگز اسے ملتوی نہ کیا جائے اور اسی تاریخ کو انتخابات ہوں۔

    واضح رہے کہ سندھ کے بقیہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہوچکے ہیں تاہم کراچی اور حیدرآباد ڈویژنز میں باقی ہے تاہم سندھ حکومت نے سیلاب کو بنیاد بناکر ان شہروں میں انتخابات دو سے تین بار ملتوی کرانے کی درخواستیں دیں جو منظور ہوتی رہیں تاہم اس بار الیکشن کمیشن نے درخواستیں مسترد کردیں۔

  • ایم کیو ایم کی سندھ میں بلدیاتی انتخابات روکنے کی استدعا مسترد

    ایم کیو ایم کی سندھ میں بلدیاتی انتخابات روکنے کی استدعا مسترد

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ایم کیو ایم کی سندھ میں بلدیاتی انتخابات روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے صوبائی حکومت سے جواب طلب کر لیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے ایم کیو ایم کی بلدیاتی انتخابات روکنے سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔

    دوران سماعت وکیل ایم کیو ایم نے کہا کہ وفاقی حکومت کو جواب جمع کروانے کا کہہ دیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت چاہے تو جواب جمع کروا دے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ سندھ حکومت کو تحریری جواب جمع کروانے کے لیے دو ہفتوں کا وقت دیا جائے، جس پر عدالت نے سندھ حکومت کو دو ہفتوں کی مہلت دینے سے انکار کر دیا۔

    ایم کیو ایم کے وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ 27 اگست کو لوکل باڈیز الیکشن ہے، دو ہفتوں کا وقت دیا گیا پھر سندھ حکومت کہے گی کہ پولنگ قریب ہے۔ عدالت نے 4 اگست تک سندھ حکومت کو جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

  • ڈاکٹر عشرت العباد کے اقتدار کا سورج غروب ہوگیا – قادر خان

    ڈاکٹر عشرت العباد کے اقتدار کا سورج غروب ہوگیا – قادر خان

    قادر خان افغان گورنر سندھ پاکستان کے صوبہ سندھ کی صوبائی حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ اس کا تقرر وزیر اعظم پاکستان کرتا ہے اور عموما یہ ایک رسمی عہدہ ہے یعنی اس کے پاس بہت زیادہ اختیارات نہیں ہوتے۔ تاہم ملکی تاریخ میں متعدد بار ایسے مواقع آئے ہیں جب صوبائی گورنروں کو اضافی و مکمل اختیارات ملے ہیں خاص طور پر اس صورت میں جب صوبائی اسمبلی تحلیل کر دی گئی ہو، تب انتظامی اختیارات براہ راست گورنر کے زیر نگیں آ جاتے ہیں۔ 1958ء سے 1972ء اور 1977ء سے 1985ء کے فوجی قوانین (مارشل لا) اور 1999ء سے 2002ء کے گورنر راج کے دوران گورنروں کو زبردست اختیارات حاصل رہے۔ سندھ میں دو مرتبہ براہ راست گورنر راج نافذ رہا جن کے دوران 1951ء سے 1953ء کے دوران میاں امین الدین اور 1988ء میں رحیم الدین خان گورنر تھے۔ سندھ کے آخری گورنر عشرت العباد خان ہیں جن کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ سے تھا۔ لیکن اب سعید الزماں صدیقی کو گورنر سندھ بن گئے ہیں۔
    گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان پاکستان کی تاریخ کے وہ واحد گورنر ہیں جو طویل ترین عرصہ سے اس عہدے پر فائز ہیں۔تقریباً 14 سال گورنر سندھ کے عہدے پر فائز رہنے والے عشرت العباد ایشیا کے دوسرے اور دنیا بھر میں تیسرے طویل المدتی گورنر ہیں۔عشرت العباد خان 2 مارچ 1963 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز اپنے تعلیمی سفر کے ساتھ ساتھ ڈاؤ میڈیکل کالج سے کیا جہاں وہ متحدہ قومی موومنٹ کے اسٹوڈنٹس ونگ اے پی ایم ایس او کے اہم لیڈر کے طور پر ابھرے۔سنہ 1990 میں انہیں صوبائی وزیر برائے ہاؤسنگ اور ٹاؤن پلاننگ بنایا گیا۔ اس وقت انہیں ماحولیات اور صحت کی وزارت کا اضافی چارج بھی دیا گیا۔ سنہ 1993 میں وہ برطانیہ چلے گئے جہاں انہوں نے سیاسی پناہ کے لیے درخواست دی جو قبول ہوگئی۔ بعد ازاں انہیں برطانوی شہریت بھی حاصل ہوگئی۔سنہ 2002 میں انہیں متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے گورنر سندھ نامزد کیا گیا جس کے بعد 27 دسمبر کو وہ گورنر منتخب ہوگئے۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے کم عمر ترین گورنر تھے۔ڈاکٹر عشرت العباد خان نے اپنے عہد گورنری کا عرصہ خاموشی سے گزارا اور اس دوران انہوں نے کسی قسم کے سیاسی معاملے میں مداخلت سے پرہیز کیا تاہم کچھ عرصہ قبل ایم کیو ایم کے منحرف رہنما اور پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے ان پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے جس کے بعد پہلی بار عشرت العباد ٹی وی چینلز پر ذاتی دفاع کرنے کے لیے پیش ہوئے۔انہوں نے مصطفیٰ کمال پر جوابی الزامات بھی لگائے تاہم انہوں نے حکومت پر توجہ دینے کے بجائے اس قسم کے سیاسی معاملات میں ملوث ہونے پر شرمندگی اور معذرت کا اظہار بھی کیا۔عشرت العباد فن و ادب کے دلدادہ تھے اور شہر میں ہونے والی ادبی و ثقافتی تقریبات میں بطور خاص شرکت کیا کرتے تھے۔
    جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی 1 دسمبر 1937ء کو لکھنؤ, حیدر آباد، بھارت میں پیدا ہوئے۔ وہ پاکستان کے پندرہویں منصف اعظم تھے۔ وہ 1 جولائی 1999ء سے 26 جنوری 2000ء تک منصف اعظم رہے۔ جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی نے ابتدائی تعلیم لکھنئو سے حاصل کی۔ 1954ء میں انہوں نے جامعہ ڈھاکہ سے انجنیئرنگ میں گریجویشن کی۔ جامعہ کراچی سے انہوں نے 1958ء میں وکالت کی تعلیم حاصل کی۔جسٹس سعید الزماں صدیقی 1999 میں چیف جسٹس سپریم کورٹ تھے، جنرل ریٹائرڈ مشرف نے جب فوجی بغاوت کرتے ہوئے حکومت کا تختہ الٹا تو جسٹس سعید الزماں صدیقی نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔
    نئے چیف الیکشن کمشنر کے موقع پر انھیں مسلم لیگ ن کا انتہائی قریبی سمجھا گیا تھا ۔ اسی وجہ سے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات میں نئے چیف الیکشن کی تقرری کیلئے مشاورت پر پیپلز پارٹی نے (ن) لیگ کی جانب سے تجویز کیا گیا جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی کا نام مسترد کر دیا تھا۔نامزد گورنر سندھ ، میاں نواز شریف کے انتہائی قریب احباب میں یاد کئے جاتے ہیں ۔ہائی کورٹ حملہ کیس میں جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی میاں نواز شریف کے سب سے بڑے حمایتی تھے۔ جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی اپنی دور عدلیہ سے متنازعہ چلے آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر سندھ ہائی کورٹ میں صدارتی انتخاب کے لیے مسلم لیگ ن کے نامزد امیدوار سعید الزمان صدیقی کے خلاف پٹیشن دائر کی گئی تھی۔ ایک سابق ایڈیشنل سیشن جج کی جانب سے دائر اس پٹیشن میں درخواست کی گئی تھی کہ جسٹس ریٹائرڈ سعید الزمان صدیقی کو نااہل قرار دیکر ان کے کاغذاتِ نامزدگی رد کر دیے جائیں۔ سابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عبدالوہاب عباسی نے اپنی اس درخواست میں وفاقی حکومت، چیف الیکشن کمشنر اور دیگر کو فریق بنایا۔ ان کا موقف تھا کہ انیس سو نوے میں سندھ ہائی کورٹ نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کی تقرریوں کے لیے درخواستیں طلب کی تھیں اور اس سلسلے میں انہوں نے بھی درخواست جمع کرائی تھی۔ ان کے مطابق تحریری اور زبانی انٹرویو کے بعد ان کا نام میرٹ لسٹ میں چوتھے نمبر پر آیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ نے ان امیدواروں کی فہرست منظوری کے لیے حکومت سندھ کو بھیجی۔ حکومت نے امیدواروں کی عمر پر اعتراضات لگا کر سمری واپس کردی۔بعد میں جسٹس سجاد علی شاہ کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنادیا گیا اور جسٹس سعید الزمان صدیقی سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔سندھ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر ہونے کے بعد جسٹس سعید الزمان صدیقی نے جلد بازی میں رجسٹرار کے پاس موجود ناموں میں تین نام اپنی پسند کے شامل کرکے ان کی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج کے طور پر تقرری کی سفارش کردی۔ عبدالوہاب عباسی کے مطابق یہ عمل انصاف اور میرٹ کی خلاف ورزی تھا، جس کے خلاف انہوں نے عدالت سے رجوع کیا۔ پانچ سال کے بعد جب جسٹس عبدالحفیظ میمن چیف جسٹس تعینات ہوئے تو انہوں نے ان کی اپیل پر 1990ء کی میرٹ لسٹ کے مطابق انہیں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج مقرر کیا۔ درخواست گزار نے سندھ ہائی کورٹ کے دوبارہ حلف لینے والے ایک جج اور ایک سیشن جج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر جسٹس ریٹائرڈ سعید الزمان صدیقی ان کے ساتھ انصاف کرتے تو وہ بھی آج ہائی کورٹ کے جج ہوتے۔ سابق صدر مشرف کے استعفے کے بعد صدر کے عہدے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی نے آصف زرادری، مسلم لیگ ن نے جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی اور مسلم لیگ ق نے مشاہد حسین کو امیدوار نا مزد کیا تھا۔ سعید الزمان صدیقی چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ اور چیف جسٹس سپریم کورٹ بھی رہ چکے ہیں انہوں نے پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا تھا۔سعید الزمان صدیقی آصف علی زرداری کے مقابلے میں ن لیگ کے صدارتی امیدوار تھے۔
    سبکدوش ہونے والے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد 1992 میں لندن آئے تھے ۔اور 1999تک برطانوی حکومت سے الائونس لیتے رہے ، اور برطانیہ نے انھیں برطانوی شہریت دے دی تھی ۔گورنر بننے کے بعد ایسی کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی کہ گورنر نے برطانوی شہریت واپس کردی ہو، جس پر مصطفی کمال کا یہ دعوی حقیقت نظر آیاہے کہ ان کے پاس ابھی بھی برطانوی شہریت ہے ، اسی وجہ سے وہ گورنر کا نام ای سی ایل سی میں ڈالنے کا تواتر سے مطالبہ کررہے تھے۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عشرت العباد کا الاونس اسکینڈل اس وقت سامنے آیا تھا جب برطانیہ میں تفتیشی اداروں نے ان کے خلاف غلط کلیم وصول کرنے پر تحقیقات شروع کردیں تھی ۔کیونکہ وہ اپنے بھائی ڈاکٹر محسن العباد خان کے شمالی لندن Edgwareکے گھر میں رہتے ہوئے 244پونڈ فی ہفتہ دس ماہ تک گورنر سندھ ہونے کے باوجود لیتے رہے تھے ۔جب برطانوی تفتیش کاروں نے اس الاوئنس کی تحقیقات شروع کیں تو ڈاکٹر عشرت العباد کی بیوی نے باقاعدہ برٹش گورنمنٹ کو لکھ کر دیا کہ وہ اب مزید الائونس نہیں لینا چاہتے ، ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عشرت العباد نے برطانیہ میں نہ ہونے کے باوجود جتنے الاونس پناہ گزیں کے حیثیت سے اضافی الاونس لئے تھے ، وہ واپس کردیئے تھے۔ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ڈاکٹر عشرت العباد برطانیہ چھوڑنے کے بعد گورنر بننے کے بعد بھی دس مہینے تک غیر قانونی طور پر 1000پونڈز ماہانہ لیتے رہے تھے۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے یہ کلیم کیا ہوا تھا کہ ان کے چار بچوں میں سے تین بچے اب بھی وہیں رہتے ہیں ، جو گھر اصل میں ان کے بھائی کا تھا ، جس سے برٹش حکومت کو بھی بے خبر رکھا گیا تھا۔
    ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ڈاکٹر عشرت العباد کی برطانیہ میں کافی جائیدادیں ہیں جو انھوں نے کرائے پر دے رکھی ہیں، اور ان کی نگرانی اب بھی ڈاکٹرشہزاد اکبر نامی شخص کرتا ہے جو 2003ء سے ڈاکٹر عشرت العباد کی کئی جائیداوں کا نگراں بنا ہوا ہے اور اب بھی ڈاکٹر عشرت العباد کے مکانات کا مشترکہ freeholders ہے۔ ڈاکٹرشہزاد اکبر نے ڈاکٹر محسن العباد خان کے ساتھ مل کر لندن میں گورنر سندھ کے لیے جائیداد سب سے پہلے 1999ء میں حاصل کی تھی۔ کراچی کی سیاست میں ایک بار پھر ہل چل پیدا ہوچکی ہے ۔مصطفی کمال کیونکہ گورنر سندھ ہیں ، عمومی طور پر ڈاکٹر عشرت العباد انٹرویوز دینے سے پرہیز کرتے رہے ہیں، مصطفی کمال نے دھواں دار الزام تراشیوں کرکے گورنر سندھ کو متنازعہ بناکر گیند حکومت کی کورٹ میں ڈالنے میں کامیاب ہوگئے ہ اور گورنر سندھ کو ہٹانے میں مصطفی کمال کو کامیابی مل گئی ہے ۔ماضی میں گورنر سندھ کو ایم کیو ایم سے تعلق ہونے کی بنا پر پی پی پی حکومت اور پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت میں بھی مسلسل گورنر سندھ مقرر رکھنے جانے کے سبب پی پی پی کے کئی رہنما اس بات سے ناراض تھے کہ پرویز مشرف کے تعینات گورنر کی جگہ دوسرے فرد کو گورنر بنانا چاہیے ، لیکن آصف زرداری کی مفاہمت کی سیاست کے باعث ڈاکٹر عشرت العباد گورنر کے عہدے پر فائز رہے ۔ بعد ازاں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت اور ایم کیو ایم سے مفاہمت کی ضرورت نہ ہونے کے باعث گمان یہی غالب تھا کہ ایم کیو ایم کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کو ہٹا دیا جائے گا ، لیکن حیرت انگیز طور پر ان ہی کو گورنر رکھا گیا ۔ایم کیو ایم کراچی آپریشن میں جب مسائل کا شکار ہوئی اور گورنر سندھ ماضی کی طرح ایم کیو ایم کا ساتھ نہیں دے سکے ، تو الطاف نے گورنر سے لاتعلقی اختیار کرکے استعفی کا مطالبہ کردیا ۔ مائنس الطاف کے بعد پاک سر زمین پارٹی کے بہترین موقع تھا کہ اگر گورنر ان کا ساتھ دیتے تو پاک سر زمین پارٹی ایم کیو ایم کے کئی اہم رہنما اور ذمے داروں کو شمولیت پر راضی کرسکتی تھی ، لیکن نائن زیرو کے قریب ایم کیو ایم کے جوائنٹ انچارج کے گھر سے اسلحے کی کھیپ بر آمد ہونے کے بعد گورنر نے مکمل طور پر پاک سر زمین پارٹی کو جواب دے دیا ،۔گورنر سندھ پر موجودہ الزامات کو درست یا غلط ثابت کرنا اب حکومت کی ذمے داری تھی کہ وہ برطانوی حکومت سے دریافت کرے کہ گورنر سندھ دوہری شہریت رکھتے ہیں یا نہیں ۔اگر رکھتے ہیں تو یہ پاکستان کے حساس اداروں کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان اٹھاکہ مصطفی کمال کے انکشافات ان سے کیوں پوشیدہ رہے ۔
    حکومت کی جانب سے دوہری شہریت اور دیگر الزامات پر گورنر کو ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ پاک سر زمین پارٹی کی جانب سے اچانک گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد پر الزامات کی بوچھاڑ کردی گئی ۔ اس سے قبل بھی متحدہ نے پریس کانفرنس کرکے گورنر سندھ سے نومبر2015میں استعفی کا مطالبہ کیا تھا۔ڈاکٹر عشرت العباد 2002سے گورنر سندھ کے عہدے پر فائز ہیں ۔ ایم کیو ایم کی جانب سے 2015میں گورنر سندھ سے استعفی طلب کرنے پراُس وقت ڈاکٹر فاروق ستار نے اس کی وجوہات کچھ یوں بیان کی تھیں کہ” گورنر سندھ عشرت العباد کے رویئے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتاایم کیو ایم سمجھتی ہے کہ ڈاکٹر عشرت العباد اپنی ذمے داریاں خوش اسلوبی سے سر انجام نہیں دے رہے ، بقول فاروق ستار ، عشرت العباد کارکنان کے قتل عام کو روکنے میں ناکام رہے ہیں ، وہ مسلسل خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں” ۔اس وقت سیاسی حلقوں میں یہ بات سرگرم تھی کہ ایم کیو ایم نے گورنر کے خلاف اس لئے یہ بیان دیا ہے کیونکہ 16سال بعد صولت مرزا کو پھانسی دی گئی تھی اور عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے صولت مرزا کے ان سنگین الزامات کو دبانے کیلئے کوشش کی گئی تھی جو صولت مرزا نے اپنی پھانسی سے قبل ویڈیو بیان میں ایم کیو ایم کی اعلی قیادت کے اوپر لگایا تھا ۔پھر نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کے وقت بھی گورنر سندھ بے خبر رہے۔پاک سر زمین پارٹی بننے کے بعد ایک عوامی تاثر یہی تھا کہ پاک سر زمین پارٹی کی پشت پناہی گورنر سندھ کررہے ہیں ، اس لئے سابق لندن گروپ کی جانب سے لاپتہ یا گرفتار کارکنان کے اہل خانہ کو پاک سر زمین پارٹی کے دفتر بھیجا جاتا کہ مصطفی کمال اسٹیبلشمنٹ کے آدمی ہیں ، وہ بازیاب کرالیں گے ، مصطفی کمال نے کچھ ایسے لوگوں کو بھی بازیاب کرایا ، جو گرفتاری کے ڈر سے ،یا لندن گروپ چھوڑنے کے بعد باعزت زندگی گزارنے کے لئے روپوش تھے ، یا کچھ کارکنان ایسے بھی تھے جو تحقیقات کے لئے قانون نافذ کرنے والوں اداروں کے پاس تھے ،جن پر الزامات ثابت نہیں ہوئے انھیں مصطفی کمال نے رہا بھی کرایا ، جس کی سب سے بڑی مثال عید الفظر کو 19 ایسے افراد کو اہل خانہ سے ملوایا گیا ، جو کئی سالوں سے اپنے اہل خانہ سے رابطے میں نہیں تھے۔پاک سر زمین پارٹی میں متواتر لندن گروپ کے اہم رہنمائوں کی شمولیت اور پھر22اگست کی تقریر کے بعد مائنس الطاف ہونے کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کی تجدید ہوئی ، لیکن ڈاکٹر فاروق ستار پھر بھی اپنی پارٹی کو مسائل سے نہ نکال سکے ، اسی دوران لندن منی لانڈرنگ کیس کا الطاف کے حق میں فیصلے کے بعد طیارہ اغوا کیس کی متنازعہ شخصیت کی جانب سے پریس کانفرنس الیکڑونک میڈیا کی گئی ، جس کے بعد لندن گروپ نے ایم کیو ایم پاکستان کو مسترد کردیا اور کراچی بھر میں الطاف کے حق میں وال چاکنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ ذرائع کے مطابق پاک سر زمین پارٹی کیلئے یہ سب کچھ غیر متوقع تھا کہ لندن گروپ کی جانب سے کراچی میں دھواں دار پریس کانفرنس بھی کی جاسکتی ہے ،اور الطاف کے حق میں وال چاکنگ بھی کی جاسکتی ہے۔؎
    دوسری جانب ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ گورنر سندھ نے پکڑے جانے ایم کیو ایم لندن کے گرفتار کارکنان کی پشت پناہی سے معذرت کرلی تھی ،اور رینجرز اور پولیس کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا واضح پیغام دے دیا تھا ، جس کے بعد پاک سر زمین پارٹی نے باقاعدہ گورنر سندھ پر الزامات کی بوچھاڑ شروع کردی۔لیکن ماضی کی طرح کوئی ثبوت عوام کے سامنے نہیں لا سکے ۔پاک سرزمین پارٹی کی تمام تر توجہ ایم کیو ایم کے اہم رہنمائوں و ذمے داروں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنا رہا ہے، گورنر سندھ اور پرویز مشرف کے عقب میں ہونے کا تاثر عام تھا ، جس وجہ سے لندن گروپ کے کئی ذمے دار و رہنما پاک سر زمین پارٹی میں شامل ہوئے ، لیکن گرفتار کارکنان اور چھاپے بند نہ ہونے کی وجہ سے گورنر سندھ کو دوبارہ نومبر2015کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، جب الطاف نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے لاتعلقی کا اظہار بھی کردیا تھا۔اب پاک سر زمین پارٹی کا اتنے عرصے خاموش رہنے کے بعد گورنر کے خلاف توپوں کا رخ کرلینا کا بنیادی سبب ذرائع یہی بتاتے ہیں کہ نائن زیرو سے اسلحے کی کھیپ ملنے کے بعد گورنر سندھ خود کو ایک جانب رکھنا چاہتے تھے ۔اس لئے پاک سر زمین پارٹی کی جانب سے لفاظی کی بوچھاڑ کی جا رہی ہے۔
    موجودہ سیاسی صورتحال نواز حکومت کیلئے ایک شٹ اپ کال تھی،۔وزیر اعظم پاکستان نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کوبعض وزرا ء کی جانب سے غیر ذمے درانہ بیانات و عمل کی وجہ سے نقصان پہنچا تھا اورموجودہ حکومت مسلسل غلطیاں کر رہی تھی ، جیسے وہ بتدریج درست کرنے میں لگی ہوئی ہے۔نواز حکومت نے گورنر سندھ کو برطانوی شہریت ہونے کے باوجود نہیں ہٹایا تھا، نواز حکومت اہم معاملات میں الجھی ہوئی تھی جس میں تازہ ترین معاملات حساس نوعیت کے ہیں ۔جیسے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی دوہری شہریت کے باوجود وزیر اعظم کی جانب سے نہ ہٹائے جانا ، انگریزی اخبار کے رپورٹر کی جانب سے شائع خبر کا علم کا ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے لاپرواہی، پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک سینئر رہنما کی جانب سے عسکری قیادت اور سول قیادت کا ایک صفحے پر نہ ہونے کا متنازعہ بیان اور سب سے اہم نیشنل ایکشن پلان کے مطابق حکومت کی جانب سے تعاون میں مسلسل کمی اور برطانیہ میں موجود عسکری اداروں اور پاکستان کے خلاف دشنامی بیانات دینے والا الطاف کے خلاف موثر کاروائی میں ناکامی شامل ہے ۔ تمام معاملات میں عسکری ادارے کی رٹ کو چیلنج کیا گیا لیکن سول حکومت کی جانب سے عسکری ادارے کے تضحیک کرنے والوں کے خلاف مناسب کاروائی نہیں کی گئی۔
    مقتدر حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ جب مصطفی کمال کی جانب سے یہ انکشاف سامنے آیا کہ گورنر سندھ عشرت العباد، برطانوی شہریت رکھتے ہوئے حساس میٹنگز میں شریک ہوتے رہے ہیں تو را کے ایجنٹ الطاف کے ساتھ تعلقات ہونے پر کیا کیا راز افشا ہوئے ہوں گے ، یہ ایک حساس معاملہ تھا کیونکہ الطاف اور ایم کیو ایم را کے لیے کام کر رہے ہیں ، اس لئے گورنر کی وابستگی بھی ’ را ‘ ایجنٹ کے ساتھ ہونے کے باوجود کوئی کاروائی نہ کیا جانا، نواز حکومت کی ایک فاش غلطی گردانا جارہا ہے۔ کراچی آپریشن پر اس سے اثرات نمودار ہونا شروع ہوئے ہیں اور ماضی کی طرح ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ حالیہ فرقہ وارانہ واردتوں میں اضافہ بھی اسی خدشے کو جنم دے رہا تھا کہ را کے ساتھ تعلقات رکھنے والے الطاف سے وابستگی اور اہل تشیع و اہل سنت کی ٹارگٹ کلنگ میں اضافے میں یقینا گورنر سندھ کا بھی کوئی اہم کردار رہا ہوگا ۔ خاص طور پر برطانوی شہریت نہ چھوڑنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ اگر کوئی برا وقت آتا ہے تو وہ دوبارہ برطانیہ چلے جائیں گے ۔ اس لئے اب ان پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں ہوگا ۔ حساس ادارے اس بات پر یقینی متفکر ہوتے ہیں کہ برطانوی شہریت کا حامل شخص ان کی اہم میٹنگز میں شریک ہوتا رہا ، یہاں معلومات کے فقدان کا بھی بڑا اہم عنصر شامل ہے ۔کیونکہ متعلقہ اداروں نے درست انکوئری نہیں کی ۔ اس کی ایک مثال شرمیلا فاروقی کا سزا یافتہ ہونے کے باوجود مسلسل وزیر اعلی کی ،مشیر و زارت کی مشیر رہیں ، لیکن یہ معاملہ سامنے نہیں آسکا کہ شرمیلا فاروقی سزا یافتہ ہیں ۔ قانون کے مطابق سرکاری عہدہ نہیں لے سکتی ، اسی طرح گورنرسندھ کا بھی یہی معاملہ رہا کہ برطانوی شہریت اور الطاف کے ساتھ تعلقات بحال رہنے کے باوجود وزیر اعظم کیلئے مسائل پیدا ہوچکے تھے ۔ اس لئے انھوں نے پنامہ لیکس کا معاملہ عدالت میں جانے ، متنازع خبر پر کمیشن بنا کر اور ان ڈاکٹر عشرت العباد کو محفوظ راستہ دے کر مقتدور حلقوں کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اب یقینی طور پر گورنر سندھ پاکستان میں نہیں رہیں گے بلکہ لندن اپنی ایجوئر میں واقع ملکیت مینشن میں رہیں گے۔
    جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی کی حوالے سے کوئی جماعت کسی قسم کا بھی تحفظات کا اظہار کرے ، لیکن نواز شریف حکومت کو گورنر تعینات کرنے کا استحقاق حاصل ہے ۔ سندھ میں مسلم لیگ ن کے عہدے داران و لیگوں کا دیرینہ مطالبہ بھی پورا ہوگیا ہے ، اب ان کے لئے گورنر ہائوس کے دروازے کھل جائیں گے ، اور سندھ کی سیاست میں مسلم لیگ ن کا کردار اب حقیقی معنوں میں شروع ہوگا ۔ کیونکہ اس سے قبل سندھ میں مسلم لیگ ن کا واضح کردار نہیں تھا ، جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی محاذ آرائی سے گریز کریں گے ، مسلم لیگ ن کے گورنر ہونے کی حیثیت سے اب کراچی میں لیگی کارکنان میں ایک جوش و خروش پیدا ہو چکا ہے اور انھوں نے کافی توقعات وابستہ کرلی ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے نئے گورنر کے ساتھ چلنا فی الوقت کافی صبر آزما ہوگا ۔ لیکن اختیارات کا منبع چونکہ وزیر اعلی ہوتا ہے اس لئے انھیں گورنر سے کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوگا ۔تاہم سندھ کی صوبائی سیاسی صورتحال میں بتدریج تبدیلی واقع ہوگی ۔ ایم کیو ایم پاکستان ، لندن اور پی ایس پی کیلئے اب گورنر کارڈ کھیلنا ختم ہوگیاہے۔ سندھ میں اب ایک سیاسی دور شروع ہوگا۔

  • کراچی پریس کلب اور گرفتاریاں – ریحان حیدر

    کراچی پریس کلب اور گرفتاریاں – ریحان حیدر

    ریحان حیدر کراچی پریس کلب کسی بھی مذہب، فرقے، نسل، زبان یا سیاسی وابستگی سے قطع نظر تمال اہلِ شہر کے لئے دیوارِ گریہ کی حیثیت رکھتا ہے جہاں کوئی بھی اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی پر احتجاج ریکارڈ کرواسکتا ہے اور پریس کلب میں موجود صحافی برادری کو اپنی درد بھری داستان سناسکتا ہے۔ احتجاج کرنے والے تمام لوگ صحافیوں سے عزت و احترام کے ساتھ موجزانہ درخواست کرتے ہیں کہ ان کے مسائل یا موقف کو اُجاگر کیا جائے۔
    گزشتہ دنوں MQM رابطہ کمیٹی لندن کے ارکان کو پریس کلب کے باہر سے گرفتار کر لیا گیا۔ سمجھ نہیں آیا کہ یہ گرفتاری انھیں سیاست سے باز رکھنے کے لیے کی گئی یا ان کی مدد کرنے کے لیے۔ رابطہ کمیٹی لندن کے رکن امجد اللہ کو گرفتار کرنے کے لیے رینجرز نے 4 گھنٹے پریس کلب کا محاصرہ کیا، میں نے یہ سب صورتحال اپنی پریس کلب کے اندر بیٹھ کر اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ رینجرز کے اہلکار کلب کے باہر امجداللہ کے باہر آنے کا انتظار کرتے رہے۔ موصوف کو کہیں سے بھی گرفتار کیا جا سکتا تھا، ایک ایسی جگہ پر ڈرامائی صورتحال بنائی گئی جہاں شہر بھر کے میڈیا نمائندے موجود تھے۔ امجداللہ بھی 4 گھنٹے تک کیوں پریس کلب کے اندر محصور ہو کر انتظار کرتے رہے؟ پریس کانفرنس ملتوی ہونے کے فوری بعد باہر کیوں نہیں نکلے، 4 گھنٹے تک نہ صرف خبروں کی زینت بنے رہے بلکہ پریس کلب انتظامیہ اور دیگر صحافی برادری کو بھی ذہنی اذیت کا شکار کیا یہاں تک کہ سیکریٹری پریس کلب کو بھی سہولت کار کے طور پر گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ کچھ گھنٹوں پہلے تک جس شخص کے نام سے کوئی واقف نہ تھا وہ ایک سیاسی ہیرو کے طور پر ابھرا۔
    گرفتار ہونے والے دوسرے عمررسیدہ رکن ڈاکٹر ظفر ہیں جو کراچی یونیورسٹی میں پروفیسر رہ چکے ہیں اور P.hd ڈاکٹر ہیں۔ سوشل میڈیا پر جو فوری ردعمل اور ٹرینڈ بنا وہ یہ تھا Rangers VS P.hd ۔ بہت سے لوگوں کی رائے میں ایک 80 برس کے اعلیٰ تعلیم یافتہ استاد کو اس طرح گرفتار نہیں کرنا چاہیے تھا۔
    کسی بھی شخص کی وابستگی اور نمائندگی کی بہت اہمیت ہوتی ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی۔ ہم بچپن سے یہ نصیحتیں سن سن کر بڑے ہوئے ہیں کہ اپنے دوستوں کے چنائو میں احتیاط برتو کہ انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ کل پروفیسر ڈاکٹر ظفر جس جماعت کی نمائندگی اور وابستگی کی بنا پر گرفتار کیے گئے یہ وہی ”ایک سیاسی جماعت“ ہے جو اپنے شاہانہ احتجاجی مظاہروں اور دعوت نما بھوک ہڑتالوں کے لیے مشہور ہے اور اس میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ کراچی پریس کلب پر جب بھی MQM نے احتجاج کیا، وہ احتجاج کم اور ایک تفریحی میلہ زیادہ لگا، جہاں اس صحافی برادری کا داخلہ ہی تقریباً ناممکن ہوتا تھا جس کے آگے یہ اپنا دکھڑا رونا چاہتے تھے۔ پریس کلب کا مرکزی دروازہ اور سامنے کی شاہراہ کو مکمل بند کردیا جاتا اور صحافیوں کو واک تھرو گیٹ سے گزر کر بھی تلاشی اور کارڈ دکھا کر داخلے کی اجازت تھی۔ ایسے لوگوں سے وابستگی، حمایت اور نمائندگی کرنے والا P.hd پروفیسر تو کیا اگر نوبل انعام یافتہ سائنسدان بھی ہو تو میری نظر میں اس کی عزت، اہمیت اور احترام اتنا ہی ہوگا جتنا اس شخص کے لیے جس نے بھوک ہڑتالی کیمپ کے دوران مجھے روک کر انتہائی بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرے کیمرا بیگ کی تلاشی لینے پر اصرار کیا اور منہ میں گٹکا دبا ہونے کے باعث صرف اشاروں میں بات کی۔ میں نے تلاشی نہیں دی اور واپس لوٹ گیا۔

  • کمال اور عباد کا سچ – سید جواد شعیب

    کمال اور عباد کا سچ – سید جواد شعیب

    سید جواد شعیب بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
    کمال نے سچ بولا تو عباد سچائی کا علمبردار بن گیا
    لیکن قسم خدا کی نہ سچ میں بولا نہ تو بولا
    جو بولے یہی بولے
    ایک رشوت العباد بولا تو دوجے نےمصطفٰی کدال بولا
    جناب عباد نے اعتراف کیا کہ
    کراچی کی ترقی میں سابق ناظم کراچی نعمت اللہ خان کا کردار انتہائی کلیدی تھا
    نعمت اللہ خان انتہائی ایماندار ناظم اور بہت ویژن والے انسان ہیں۔ بطور ناظم بہت محنت کی
    نعمت اللہ خان کے بعد آنے والی سٹی حکومت نے مایوس کیا۔
    جس رفتار سے نعمت اللہ خان نے کام شروع کیا، وہ برقرار نہ رکھی جا سکی۔
    مصطفی کمال کو مصطفی کدال کہتے کہتے ٹھیکیدار کہا
    یہ بھی کہا کمیشن لیے چائنہ کٹنگ کی
    اور تو اور یہ بھی کہہ گئے کہ انہیں چوک پر لٹکا دیں گے
    جو سانحہ بارہ مئی کے قتل عام میں ملوث تھے
    جو بلدیہ فیکٹری میں انسانوں کو زندہ جلانے والے تھے
    جو فوج سے لڑنے کے لیے جدید اسلحے سے لیس تھے
    جو زمینوں پر قبضے بھتہ خوری اور چائنہ کٹنگ کے خالق تھے
    جو عظیم احمد طارق اور حکیم سعید شہید کے قاتل تھے
    صرف یہی نہیں،
    اپنے کل کے دوست و ہمنوا کو گھٹیا، اور نفسیاتی مریض قرار دیتے ہوئے ڈاؤ ہیلتھ یونیورسٹی میں علاج کی پیشکش بھی کرگئے
    لیکن ایک سچ وہ بھی تھا جو کمال کا تھا
    یعنی مصطفی کمال کا تھا
    کراچی کی سیاست میں عشرت العباد کرمنل شخصیت ہے
    کراچی کی سیاست میں سب سے برا کردار عشرت العباد کا ہے
    کون سی چائنا کٹنگ کے پیسےگورنر کو نہیں ملتے رہے
    گورنر ہمیشہ ملک دشمن قوتوں کر آکسیجن فراہم کرتا رہا
    گورنر کو کراچی کی بزنس کمیونٹی رشوت العباد کے نام سے پکارتی ہے
    اس شخص کو کوئی ایسا شخص نہ ہو جو پیسے پہنچاکر نہ آیا ہو
    گورنر آرمی چیف، ڈی جی رینجرز، وزیراعظم، وزیر اعلی سب سے رابطے میں رہتا ہے
    گورنر سندھ ہمارے متعلق ملکی اداروں کو اب منفی فیڈنگ کر رہا ہے
    یہ گورنر سندھ شپ چھوڑنا نہیں چاہتا،
    یہ الطاف حسین سے بھی رابطے میں ہے، ہم سے بھی اور فاروق ستار سے بھی
    گورنر سندھ کو عہدے سے ہٹایا جائے
    نام ای سی ایل میں ڈالا جائے
    گورنر سندھ کو فوری گرفتار کیا جائے
    اگر یہ بھی سچ ہے جو کمال کا ہے
    اور وہ بھی سچ ہے جو عباد کا ہے
    تو پھر کچھ رہ نہیں جاتا سمجھنے کو لیکن
    سمجھے وہ جو سمجھنا چاہے
    اے میرے پیارے کراچی والو!
    ذرا سوچو تو سہی
    ٹھہرو تو سہی
    دیکھو تو سہی
    آپ کے شہر کی دو پسندیدہ ہستیاں
    ایک نے دنیا بھر میں میئرشپ میں (جھوٹا) دوسرے نمبر کا اعزاز پایا
    دوسرا چودہ سالوں سے گورنر ہاؤس میں کراچی والوں کی آواز مانا جاتا رہا
    یہ دونوں سچ بول رہے ہیں
    اب انہیں جھوٹا مت کہہ دینا
    جھوٹے تو وہی تھے جو اتنے سالوں اتنے مہینوں اتنے ہفتوں اور اتنے دنوں پہلے چیخ چیخ کر بولتے رہتےتھے
    چلو ان کو دفع کرو وہ سب جھوٹے ٹھہرے
    کراچی دشمن ، مہاجر دشمن قرار دے کر مسترد کردیے گئے
    اور
    اردو بولنے والوں کا فخر ڈاکٹر عشرت العباد بنے
    کراچی کو کمال کی ترقی دینے والا مصطفی کمال کراچی کے لیے نعمت قرار دیا گیا
    دونوں ساتھ ساتھ چلے اور اس شہر کی نمائندگی کرتے رہے
    دیکھو اب قائم رہنا
    ان کے ساتھ رہنا انہیں سچا ماننا
    کمال اور عباد جو کہہ رہے وہی سچ ہے
    پیچھے مت ہٹنا
    بس یہی سچ ہے
    ایک نے کمال کا ایک سچ کیا بولا
    تو عباد سچائی کا علمبردار بن گیا
    واضح رہے یہ میں نے نہیں بولا ہے
    جو کمال و عباد نے بولا ہے
    وہی سچ ہے بس یہی بولا ہے
    اہلیان کراچی کو اور کیا کیا سننا اور دیکھنا ہے
    ابھی بہت کچھ باقی ہے
    بس دیکھتے جائیے
    آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے
    (سید جواد شعیب جیو نیوز کراچی سے وابستہ ہیں اور سینئر کورٹ رپورٹر ہیں)

  • موروثی سیاست اور نوجوان – مزمل احمد فیروزی

    موروثی سیاست اور نوجوان – مزمل احمد فیروزی

    مزمل احمد فیروزی میں صحافت کے ساتھ ساتھ شام کے اوقات میں ایک پروفیشنل تعلیمی ادارے میں بحیثیت انگریزی استاد کے فرائض انجام دیتا ہوں جہاں پر اپنی مدد آپ کے تحت ایم بی اے، ایل ایل بی اور انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے متوسط گھرانوں کے نوجوان شام میں اپنی انگلش بہتر کرنے کےلیے میری کلاس میں آیا کرتے ہیں تاکہ تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انگلش لینگوئج کی اضافی تعلیم ہونے سے زندگی میں اچھے مواقع حاصل کر سکیں۔ انگریزی بول چال کے دوران اکثر گرم سرد بحث کاچھڑ جانا بھی کلاس کا معمول ہے۔ ایک روز نجی ادارے میں زیرتعلیم اورگھر کا واحد کفیل نوجوان دوران کلاس بات کرتے کرتے آبدیدہ ہوگیا اس پر میں نے اسطرح سے رونے کی وجہ جانی تو وہ نوجوان روتے روتے اور پھٹ پڑا، کہنے لگا کہ اس جمہوریت سے تو آمریت ہی بہتر ہے. مہنگا ئی، بےروزگاری اپنے عروج پر ہے اورحق دار کو اس کا حق نہیں مل رہا ہے. ہے کوئی پوچھنے والا؟ ایسی بھونڈی جمہوریت سے تو آمریت بھلی جس میں غریب انسان کم از کم دو وقت کی روٹی تو کما لیا کر تا تھا اور اس فوجی دور میں ایک نہ کہیں خونریزی تھی اور نہ ہی کسی شے کا بحران تھا بلکہ عام انسان کی زندگی قدرے محفوظ اور سہل تھی.
    آج اس نام نہاد جمہوریت میں ملک میں ہر چیز کا بحران ہے نہ بجلی ہے، نہ CNGہے، نہ آٹا ہے، نہ چینی ہے، بس ہے تو ایک جہموریت کی فوج ظفر موج جو قرضے لے لے کر عیاشیاں کر رہی ہے۔ جبکہ کلاس میں موجود ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ مشرف کے دور حکومت یا کسی بھی آمریت میں صرف و صرف بین الاقوامی سطح پر نقصان ہوا ہے جبکہ عام لوگوں کی زندگی کا مورال بلند ہوا ہے صرف صحافی حضرات کے علاوہ سب مشرف سے خوش تھے مگر اس جہموریت نے تو عام انسان سے لے کر بڑے بڑے تاجروں کی نیندیں حرام کر دی ہیں، آئے دن تاجر حضرات پریس کلب کے باہر مظاہرے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان نوجوانوں کو یہ بھی علم ہے کہ بازار سے چینی کیوں غائب ہوئی تھی، وہ جانتے ہیں کہ تمام شوگر ملز پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور ق والوں کی ہیں۔ جو اپنی ملز کی شوگر وسط ایشیا میں اسمگل کر کے اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔
    ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں جمہوریت کی ناکامی کے دو بنیادی اسباب ہیں، پہلے یہ کہ کوئی بھی جمہوری حکومت بااختیار نہیں ہوتی، اسے اسٹبلشمنٹ یا بیرونی ہاتھ چلاتے ہیں اور دوسرا یہ کہ جو لوگ اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں ان کا تعلق عوام سے نہیں ہوتا۔ ایک خاص طبقے کے لوگ ہوتے ہیں جو کبھی ان مسا ئل سے گزرے ہی نہیں ہوتے ہیں۔ صد افسوس! ہمارے ملک میں جمہوریت ہمیشہ ناکام رہی ہے اور ہمیشہ ان لوگوں نے اپنے ہی لوگوں کو مراعات دی ہیں اور دوسری طرف ہم متوسط طبقے کے نوجوان انتہائی پیچیدہ سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل میں گھر ے ہوئے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے نئی نسل شدید نوعیت کی فرسٹریشن کا شکار ہیں۔ آج کا نوجوان ہمارے نوجوانی کے زمانے سے زیادہ حقیقت پسند، سرگرم، جوشیلا اور جذباتی بھی ہے جہاں یہ نوجوان حقیقت پسندانہ روش اپناتا ہے تو دوسری طرف جذبات اور عدم برداشت بھی اس کا ہتھیار ہیں، شاید اسی لیے کہ ان کی تربیت میں میڈیا نے بھی خوب اپنا ہاتھ صاف کیا ہے.
    آج سو کے لگ بھگ چینلز ہیں اور بےشمار اخبارات ہیں، ایک Fax اور sms سے آپ کی آواز دنیا تک پہنچ جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی نسل کے تعلیم یافتہ اور سماجی شعور رکھنے والے نوجوانوں کو سیاسی عمل میں ضرور موقع دیا جائے تا کہ نئے خیالات اور رجحانات کو سیاسی جماعت کی پالیسیوں کا حصہ بنایا جا سکے مگر میں انتہائی افسوس سے یہ بات کرنا چاہوں گا کہ ہمارے یہاں متوسط طبقے کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سیاسی عمل میں شرکت ہمیشہ نہ ہونے کے برابر رہی ہیں، اس کی وجہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان متوسط طبقے کے نوجوانوں کو اپنے گھر کی ذمہ داری نبھانی ہوتی ہیں، اس لیے وہ میدانِ سیاست میں نہیں آپاتے ہیں اور اس کے برعکس دوسری طرف مراعات یافتہ طبقے کے نوجوانوں کو تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی اس لیے وہ سیاست میں بآسانی آجاتے ہیں، اسی وجہ سے سیاست پر ایک مخصوص مراعات یافتہ طبقے کا قبضہ ہے۔ صرف 2 یا 3 سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر تمام سیاسی پارٹیوں میں موروثی سیاست کا رواج عام ہیں اور اس کی وجہ صرف اور صرف ہمارے متوسط طبقے کے نوجوان ہیں جو باصلاحیت اور محنتی ہونے کے باوجود سیاست کا رخ نہیں کر پاتے۔
    طلبہ کی سیاسی عمل سے دوری کے باعث وطن عزیز کے سیاسی عمل میں موروثی سیاست کی جڑیں مضبوط ہوتی رہی ہیں۔ پا کستان کی مقبول سیاسی جماعتوں میں موروثی سیاست کلچر کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس کی ابتداء پیپلزپارٹی نے اپنی جماعت کو ضیاء الحق سے بچا نے کے لیے بیگم نصرت بھٹو مرحومہ کو چیئرپرسن بنایا اور پھر ان کے بعد ان کی صاحبزادی محترمہ بےنظیر بھٹو کو چیئرپرسن بنایا تو یہ سلسلہ دوسری جماعتوں میں بھی شروع ہوگیا اور اسی رجحان کو عوامی نیشنل پارٹی نے بھی اپنایا اور باچا خان کے بعد ان کے صاحبزادے اور پھر ان کی غیر موجودگی میں بیگم ولی خان اور اسفندیار ولی، جمعیت علمائے اسلام کے بانی مفتی محمود صاحب کے بعد ان کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن، اور مسلم لیگ فنکشنل کی قیادت پیر پگارا کے صاحبزادے کے پاس ہے۔ ایک طرف مسلم لیگ (ن) حمزہ شہباز اور مریم نواز کو سامنے لا رہے ہیں تو چودھری برادران مونس الہی کو آگے لانے کی کوشش میں ہیں جبکہ یوسف رضاگیلانی بھی اس دوڑ میں اپنے بیٹے پنجاب کی سیاست میں لے آئے ہیں۔ غرضیکہ وراثت کے گرد گھومتی سیاست سے یہ بات تو واضع نظر آتی ہے کہ چاہے سیاسی جماعت کوئی بھی ہو، جیتنا مگر انہی چند خاندانوں نے ہے.
    اس کے برعکس ہم نے دیکھا ہے کہ مولانا مودودی کی جماعت اسلامی میں باقاعدہ الیکشن ہوتے ہیں۔ اس میں نوشہرہ سے قاضی حسین احمد اور کراچی سے تعلق رکھنے والے سید منور حسن امیر منتخب ہو چکے ہیں، اور اب دیر سے سراج الحق امیر ہے. اسی طرح ایم کیو ایم جہاں نچلی سطح پر الیکشن ضرور تو ہوتے ہیں مگر اس میں ون مین شو کے بارے میں بھی ہم سبھی واقف ہیں۔ اب نئے تناظر میں مائنس الطاف کے بعد دیکھتے ہیں کہ نئی ایم کیو ایم کس پوزیشن میں آتی ہے۔ تحریک انصاف جہاں الیکشن بھی ہوتے ہیں اور لگتا ہے سب کی سنی بھی جاتی ہے۔ حال ہی میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ الیکشن میں 50% پارٹی ٹکٹس نوجوانوں کو دیے جائیں گے جو کہ محض اعلان ہی رہا، حقیقت کچھ اور تھی، جبکہ نوجوانون کو آگے لانے کا خان صاحب کا اعلان قابل ستائش ہے۔ پاکستان کی آبادی کا 70%حصہ 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے، بلاشبہ وطن عزیز کی باگ دوڑ ان نوجوانوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے مگر یہ نوجوان اپنے گھر کی کفالت سے باہر نکلیں گے تو ملک و قوم کے لیے کچھ کر سکیں گے. ضرورت اس امر کی ہے کہ متوسط طبقے کے نوجوانوں کو ایسے مواقع فراہم کیے جائیں کہ وہ بآسانی سیاست کی اونچ نیچ کو سمجھ سکے اور میدان تعلیم میں سیاست کے شعبے کو اور مضبوط بنایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان تعلیم سیاست سے روشناس ہو سکیں اور ملکی سیاست میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔
    (مزمل احمد فیروزی بلاگر، کالم نگار اور رکن کراچی یونین آف جرنلسٹ ہونے کے ساتھ رکن مجلس عاملہ پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ بھی ہیں۔ انگریزی میں ماسٹر کرنے کے بعد بطور صحافی روزنامہ آزاد ریاست سے منسلک ہیں اور اسکول آف جرنلزم میں شعبہ تدریس سے بھی وابستہ ہیں. گھومنے پھرنے، کتابیں پڑھنے اور انٹرنیٹ کے استعمال کو وقت کا بہترین مصرف سمجھتے ہیں۔)

  • قتل کرکے پوچھتے ہیں یہ جنازہ کس کا ہے – ثقلین مشتاق

    ثقلین مشتاق دلیل ڈاٹ پی کے پر ایک تحریر کے مطالعہ کا اتفاق ہوا۔ فاضل دوست نے بہت ہی عمدہ انداز سے ایم کیوایم قائد کی دھرتی ماں سے بےوفائی، ٹارگٹ کلنگ اور چائنا کٹنگ کے کارناموں کومحض الزام قرار دے کر مسترد کرنے کے ساتھ متحدہ کو پاک دامنی، حُب الوطنی اور عوام دوستی کا سرٹیفکیٹ بھی عطا کیا اور کراچی کی عوام کی محرومیوں کا ذمہ دار بھی اسٹیبلشمنٹ کو ٹھہرایا۔ اپنی رائے کو تقویت دینے کے لیے مندرجہ ذیل چند سوالات کیے۔
    1۔ اگر متحدہ پر الزامات درست ہیں تو لوگ متحدہ کو ووٹ کیوں دیتے ہیں ؟
    2۔ اگر متحدہ پر الزامات درست ہیں تو مہاجروں کے دل کی دھڑکن ایم کیوایم ہی کیوں ہے، مہاجر قومی موومنٹ اور پاک سر زمین پارٹی اس کی جگہ کیوں نہیں لے سکیں؟
    میں تو صرف اتنا عرض کروں گا کہ پہلے کراچی میں الیکشن تھوڑی ہوتا تھا، سلیکشن ہوتی تھی۔ لوگوں کے پولنگ اسٹیشن پر جانے سے پہلے ہی اُن کے ووٹ کاسٹ ہوچکے ہوتے تھے۔ حیرانگی کی بات یہ ہوتی تھی کہ متحدہ قومی موومنٹ کا امیدوار حلقے میں کُل ووٹوں کی تعداد سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کرلیتا تھا۔ لوگوں کو ڈرا کر ووٹ لینا تو اور بات، اُن سے ان کے شناختی کارڈ ہی چھین لیے جاتے تھے اور جو بےچارے بات نہیں مانتے تھے اُنھیں نشانہ عبرت بنا دیا جاتا۔ نجانے کتنے ہی اُن معصوم لوگوں کی بوری بند لاشیں سمندر کنارے سے ملیں جن کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ قاٖٖئد تحریک کی تقریر سُننے کے لیے جلسہ گاہ نہ پہنچئے۔ اس خوف کی وجہ سے لوگ متحدہ کو ووٹ دیتے تھے۔ اس خوف کا اب خاتمہ ہوا ہے تو 127-PS کے انتخابات نے یہ بات واضح کردی ہے کہ پہلے سلیکشن ہوتی تھی۔ اور یہ بات کہنا قبل از وقت ہے کہ پاک سرزمین پارٹی کو مہاجروں نے مسترد کر دیا۔ حال ہی میں مصطفی کمال نے کامیاب جلسے کیے ہیں۔
    عوام دوستی اور حُب الوطنی میں متحدہ کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ہندوستان ٹائمز کے سیمینار میں قائد تحریک کا خطاب ہو یا 22 اگست کا واقعہ یا پھر امریکہ اور ساؤتھ افریقہ میں الطاف حسین کا بیان، حُب الوطنی کے اعلی نمونے ہیں۔ کچھ لوگ سوچیں گے کہ متحدہ اور الطاف کا اب کوئی تعلق نہیں تو پھر متحدہ پر یہ الزامات لگانا درست نہیں، اُن حضرات کے لیے عرض ہے کہ یہ واقعات جب ہوئے تب تو الطاف اور متحدہ ایک تھے۔ متحدہ اور الطاف ہمیشہ سے ایک ہی چیز کے دو نام رہے ہیں۔ وہ سیکٹر اور یونین انچارج تو اب بھی متحدہ کا حصہ ہیں جو اینٹی سٹیٹ کارروائیوں میں ملوث تھے۔ تو پھر کیسے دونوں کو الگ سمجھا جائے؟ اگر کوئی دوسرا متحدہ کو ٹارگٹ کلنگ اور کراچی کی بدامنی کا ذمہ دار قرار دے تو اور بات ہے۔ لیکن جب متحدہ کا اپنا صولت مرزا ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل اور وسیم اختر 12 مئی کو کراچی میں خون کی ہولی کھیلنے کا اعتراف کریں تو پھر کسی دوسرے سے کیسا گلہ اور کیسا شکوہ ؟
    تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو مگر مجھے یاد ہے مصطفی عزیزآبادی کا وہ ٹویٹ جس میں موصوف نے پی ایس پی پر امجد صابری کے قتل کا الزام لگایا لیکن مصطفی صاحب کی اپنی پارٹی کے سیکٹر انچارج نے مرحوم صابری صاحب کے قتل کا اعتراف کرلیا۔ لوگوں کو قتل کر کے اپنی مدعیت میں قتل کا مقدمہ بھی درج کروا دو، قربان جاؤں ایسی سیاست پر۔
    بڑے معصوم ہیں تیرے شہر کے لوگ
    قتل کرکے پوچھتے ہیں یہ جنازہ کس کا ہے
    اور اب رہی بات کراچی کی محرومیوں کی تو اس شہر کو مفلوج کرنے کی ذمہ دار متحدہ خود ہے۔ فیکٹریوں کو نذر آتش کیا جائے، دن بھر محنت مزدوری کرنے والوں کو زندہ جلا دیا جائے، رکشے اور ریڑھی والوں سے اُن کی آمدن سے زیادہ بھتہ لیا جائے، اپنی سیاست چمکانے کے لیے کراچی میں لسانیت کا خوب پرچار کیا جائے اور نوجوان کو قلم دینے کے بجائے راہزنی، ٹارگٹ کلنگ، چائنا کٹنگ اور بھتہ خوری کےگُر سے آشنا کروایا جائے تو یہ شہر مفلوج نہیں ہوگا تو کیا ہوگا؟ اگر یہ تمام کارنامے سرانجام دینے کے بعد متحدہ پاکدامنی، حُب الوطنی اور عوام دوستی کے سرٹیفکیٹ کی حق دار ہے تو پھر لیاری گینگ، ٹی ٹی پی اور داعش سے زیادتی کیوں کی جارہی ہے، ان کو بھی پاکدامنی ، حُب الوطنی اور عوام دوستی کا سرٹیفکیٹ دیا جائے اور اُن پر پابندی بھی ختم کی جائے۔

  • کیا مصطفی کمال کامیاب ہوں گے؟ ملک صفی الدین اعوان

    کیا مصطفی کمال کامیاب ہوں گے؟ ملک صفی الدین اعوان

    صفی الدین اعوان کراچی سیاسی تبدیلیوں کی زد میں ہے اور حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں، شہری ووٹ بینک خاموشی کی کیفیت میں چلا گیا ہے، شاید یہ بھی اپنی سیاسی قیادت سے خاموش احتجاج ہے جبکہ مضافاتی ووٹ تو ہمیشہ ہی مخالف رہا ہے۔
    ایم کیو ایم میں قائد کی تبدیلی کا عمل کامیاب ثابت نہیں ہوا، نئے قائد کے حادثے میں زخمی ہونے کے بعد لاکھوں افراد کا ہجوم تڑپ کر باہر بھی نہیں نکلا اور نہ ہی اسپتال اور گھر پہنچا، جب فاروق ستار بھائی صحتیاب ہوکر گھر پہنچے تو گنتی کے چند افراد استقبال کے لیے موجود تھے، یہاں تک کہ رش کی کیفیت بھی نہیں تھی۔
    بانی ایم کیو ایم کی تیزی سےگرتی ہوئی صحت سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دینے سے قاصر ہے، اس لیے بظاہر ایم کیو ایم کی سیاست بانی قائد کی صحت سے منسلک ہوچکی ہے، متبادل قیادت موجود نہیں ہے۔ اس وقت ایسا کوئی رہنما موجود نہیں جو بانی قائد کی طرح مضبوط اعصاب کا مالک ہو اور قائدانہ صلاحیت رکھتا ہو۔ عامر خان ایک واحد نام ہے جو الطاف حسین کا کسی حد تک متباد ل ہے لیکن کیا قوم عامر خان کو قبول کرلے گی؟ عامر خان میں دیگر ”صلاحیتیں“ تو موجود ہیں لیکن تقریر کی شاید وہ صلاحیت نہیں جو ایم کیوایم کے بانی قائد کے اندر موجود ہے۔ اسی طرح بانی ایم کیو ایم کے پاس فوری فیصلہ کرنے کی صلاحیت تھی جو کسی اور میں نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کے لیے تنظیمی بحران حل کرنا آسان نہیں ہے۔ ایک بڑے فوجی آپریشن اور نصیراللہ بابر کا مقابلہ کرنے والی ایم کیو ایم آج مزاحمت کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔
    رینجرز نے بھی طریق کار تبدیل کیا اور اس انداز میں کراچی آپریشن ہوا کہ آبادی کو ٹارگٹ کرنے کے بجائے مطلوب افراد کو رات کی تاریکیوں میں گرفتار کیا گیا، اس طرح پارٹی مزاحمت ہی نہ کرسکی۔ رینجرز گزشتہ دوسال سے رات کی تاریکیوں میں کارروائیاں کرتی رہی لیکن یہ بات کبھی بھی میڈیا پر نہ آئی۔ رینجرز کا نظر نہ آنے والا آپریشن ماضی کے مقابلے میں سخت ترین تھا لیکن رینجرز نے ماضی کی کمزوریوں اور خامیوں سے سبق سیکھ کر آپریشن کیا اور رونے کا موقع بھی نہ دیا۔
    اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لیے الطاف حسین کا نام شجر ممنوعہ ہے جس کی وجہ سے عوامی رابطہ بھی منقطع ہوچکا ہے۔ شاید عوام بھی اس ساری صورتحال سے مکمل لاتعلق ہیں۔ اس وقت وہ لڑکے بھی موجود نہیں ہیں جو ایک کال پر جان کی بازی لگا دیا کرتے تھے۔ لڑکے بھی تتر بتر ہوچکے ہیں۔ ماضی کے فوجی آپریشن کے دوران پارٹی نے شدید ترین مزاحمت کی تھی جبکہ نصیراللہ بابر کے آپریشن کا بھی پارٹی نے سخت مقابلہ کیا تھا، اس وقت مزاحمت کرنے والے لڑکے بھی موجود تھے، آج وہ موجود نہیں ہیں۔ گورنر ہاؤس میں بیٹھا ہوا لڑکا بھی اب لڑکا نہیں رہا اور خاصا سمجھدار ہوچکا ہے۔
    دوسری طرف مصطفٰی کمال صاحب کی پارٹی تیزی سے جگہ بنا رہی ہے اور آری سے نہ کٹنے والا بہاری قبیلہ مصطفٰی کمال کے ساتھ ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کمال صاحب ٹیک اوور کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

  • متحدہ قومی موومنٹ اور مہاجر قوم، مسئلہ کیا ہے؟ سید وجاہت

    متحدہ قومی موومنٹ اور مہاجر قوم، مسئلہ کیا ہے؟ سید وجاہت

    سید وجاہت یہ ایم کیو ایم والے غدار ہیں، یہ دہشت گرد ہیں، یہ را کے ایجنٹ ہیں، یہ قاتلوں کے ساتھی ہیں، یہ وہ نعرے اور جملے ہیں جو اہلیان کراچی کو روز سننے کو ملتے ہیں. بتایا جاتا ہے کہ کیونکہ یہاں کے لوگ متحدہ کو سپورٹ کرتے ہیں اور متحدہ بھتہ خور، ٹارگٹ کلرز کی جماعت ہے تو ایسی جماعت کو جو بھی ووٹ دے وہ بھی مجرم ہیں. یہ تصویر کا ایک رخ ہے. کراچی سے دور رہنے والے لوگ جو کسی مخصوص اخبار کے قاری ہوں، ان کے ذہن میں اس سوال کا پیدا ہونا فطری بات ہے، لیکن کیا تصویر کا ایک رخ دیکھ کر فیصلہ کیا جاسکتا ہے؟ کسی ایک فریق کی بات سن کر فیصلہ صادر کرنا انصاف ہوگا؟ یا دوسرے فریق کی بات بھی سنی جائے گی.
    چلیں ایک سوال رکھتے ہیں اہلیان کراچی کی خدمت میں ، خاص کر اردو بولنے والے لوگوں کی خدمت میں کہ وہ کیوں متحدہ جیسی ظالم جماعت کو سپورٹ کررہی ہے؟ وہ بھتہ خوری، را کے ایجنٹ، ٹارگٹ کلنگ جیسے سنگین الزامات لگائے جانے کے بعد بھی کیوں متحدہ سے الگ ہونے کو تیار نہیں، آج پورے ملک میں متحدہ کو مشکوک نظروں سے دیکھا جا رہا ہے لیکن مہاجر قوم کا حال عجیب ہے، یہ اب بھی متحدہ پر اعتماد کیے ہوئے بیٹھی ہے. کوئی تو وجہ ہوگی کہ کراچی کی باشعور، پڑھی لکھی عوام اب بھی متحدہ کے ساتھ ہے، مہاجر قومی موومنٹ، پاک سرزمین پارٹی یا کسی اور جماعت پر یہ اعتماد نہیں کررہی، وجہ کیا ہے؟ کراچی کے مسائل کا حل متحدہ کا خاتمہ اور طاقت کا استعمال نہیں ہے، اگر آپ متحدہ کو ختم کردیں، الطاف حسین کے نام کو بھی شہر سے مٹا دیں، مکمل پابندی لگا دیں تو کیا مسئلہ حل ہوجائے گا؟ ہرگز نہیں بلکہ کوئی اور الطاف پیدا ہوگا، کوئی اور متحدہ معرض وجود میں آجائے گی. یہ وہ حقیقت ہے جس کا ادراک اہلیان کراچی کو بخوبی ہے، اس تصویر کے دوسرے رخ سے شہر کراچی سے باہر رہنے والے شاید واقف نہ ہوں لیکن یہاں کا ہرباشعور شہری اس حقیقت کو جانتا ہے۔
    کراچی کا اصل مسئلہ متحدہ نہیں بلکہ وہ محرومیاں ہیں جن کو بنیاد بنا کر متحدہ سیاست کرتی ہے اور کامیاب ہوتی ہے. آپ ان محرومیوں کو ختم کریں، انصاف فراہم کریں، تعصب پرستی کا خاتمہ کریں، متحدہ خود بخود ختم ہوجائے گی. سب سے پہلے تو اس کوٹہ سسٹم کو ختم کریں، یہ کوٹہ سسٹم جب تک چلتا رہےگا مسائل حل نہیں ہوسکتے. یہ عجیب بات ہے کہ اہلیان شہر کو محروم کرکے دوسرے شہروں کے افراد کو نوکریوں سے نوازا جائے، کراچی پولیس میں موجود کتنے ایس ایچ او ہیں جن کا تعلق کراچی سے ہے، جو یہاں کے مقامی ہیں؟ شہر کراچی میں کتنے سرکاری ادارے ہیں جہاں میرٹ کا قتل عام ہوتا ہے اور شہر کراچی کے تعلیم یافتہ باصلاحیت نوجوانوں کو محروم کرکے دوسرے شہروں سے کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر افراد بھرتی کیے جاتے ہیں.
    یہاں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ متحدہ نے تیس سالہ دور اقتدار میں کوٹہ سسٹم ختم کرنے میں کیا کردار ادا کیا اور کیا کوششیں کی اور وہ کس حد تک ان کوششیوں میں کامیاب ہوئی؟ جواب تو نفی میں ہے لیکن کچھ بھی ہو، ان محرومیوں اور اس ظلم کے خلاف متحدہ کے علاوہ کوئی پارٹی آواز نہیں اٹھاتی تو ظاہر ہے اب اردو بولنے والے ان پر اعتماد نہ کریں تو پھر دوسرا راستہ ان کے پاس کون سا ہے؟ دوسری جماعتیں ان کے جائز حقوق کی بات کریں اور اخلاص کے ساتھ محنت کرکے مہاجر قوم کو یقین دلائیں کہ وہ ان کے ساتھ مخلص ہے تو امید ہے کہ یہ قوم کسی دوسری جماعت پر اعتماد کرلے گی. لیکن یہاں اعتماد میں لینے کی بات تو دور اس ظلم کے خلاف کوئی آواز تک بلند نہیں کرتا، یعنی اس ظلم کو ظلم ہی نہیں سمجھا جاتا.
    اہلیان کراچی کی نفسیات سمجھے بغیر تصویر کا ایک رخ سامنے رکھ کر کیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ شہر کراچی میں حقیقی امن نہیں لاسکتا. آپ پہلے محرومیاں ختم کریں، اس قوم کے جائز حقوق انہیں دیں، یہ کرنے سے ہی شہر میں امن قائم ہوسکتا ہے اور کراچی میں امن و سکون پورے ملک کے مفاد میں ہے. اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مسائل حل کیے بغیر متحدہ ختم ہوجائے تو امن قائم ہوجائے گا اور آپریشن کے ذریعے پائیدار پرامن کراچی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا تو وہ شخص سنگین غلط فہمی میں مبتلا ہے۔