Tag: انسٹاگرام

  • سوشل میڈیا کا مثبت استعمال اور آداب  – بنت اشرف

    سوشل میڈیا کا مثبت استعمال اور آداب – بنت اشرف

    سوشل میڈیا موجودہ صدی کا سب سے بڑا انقلاب ہے جس نے پوری دنیا کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے ۔ انسان نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ پوری کی پوری دنیا سمٹ کر اس کے ہاتھوں میں ایک موبائل ڈیوائس کے ذریعے سما جائے گی۔ گویا سوشل میڈیا نے پوری دنیا کوصحیح معنوں میں ایک گلوبل ویلج کی شکل دے دی ہے ۔

    سوشل میڈیا اس وقت دنیا کا سب سے برق رفتار ہتھیار ہے ، مختلف سوشل میڈیا ایپلیکیشنز نے پوری دنیا میں رہنے والے سات ارب سے زائد افراد کو اپنے سحر میں مبتلا کر رکھا ہے۔

    پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد
    پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک میں تمام پلیٹ فارمز پر سوشل میڈیا صارفین کی تعداد سولہ کروڑ سے زائد ہے ۔ ملک میں سب سے زیادہ یوٹیوب صارفین ہیں جن کی تعداد سات کروڑ ستر لاکھ ہے ، اسی طرح فیس بک کے صارفین کی تعداد پانچ کروڑ اکہتر لاکھ ہے۔ یو ٹیوب کے مرد صارفین کا تناسب 72 فیصد جبکہ خواتین کا 28 فیصد ہے ۔اسی طرح فیس بک کے 71 فیصد مرد صارفین ہیں اور 22 فیصد خواتین ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق ٹک ٹاک صارف ایک کروڑ تراسی لاکھ ہیں ، ان میں بیاسی فیصد مرد ٹک ٹاکرز ہیں اور خواتین اٹھارہ فیصد ہیں ۔ پاکستان میں انسٹا گرام صارفین کی تعداد ایک کروڑ اڑتیس لاکھ ہے اور ان میں پینسٹھ فیصد مرد اور چونتیس فیصد خواتین ہیں ۔

    سوشل میڈیا کا مثبت استعمال
    سوشل میڈیا آج کے دور کا بہت بڑا نیٹ ورک ہے جس کا مثبت استعمال ہمارے لیے بہت ہی فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔

    1۔کمائی کا بہترین ذریعہ
    اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ سوشل میڈیا کمائی کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ یوٹیوب پر کافی عرصہ سے لوگ اپنے چینلز کے ذریعہ آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔ خرید و فروخت کے بہت سارے مسائل بھی اس کے ذریعہ آسان ہوچکے ہیں۔

    2۔معلومات کا اشتراک
    سوشل میڈیا کسی بھی موضوع پر بر وقت معلومات جیسے، صحت، اسپورٹس اور دیگر موضوعات کی اپڈیٹس فراہم کرتا ہے۔

    3۔ذریعہ حصول تعلیم و تعلم
    نوجوان سوشل میڈیا کو تعلیم حاصل کرنے کا ذریعہ بنا کر اس سے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ سیکھنے اور معلومات حاصل کرنے والوں کیلئے بہترین پلیٹ فارم ہے۔سوشل میڈیا پر موجود مختلف تعلیمی ویڈیوز ،لیکچرز اور ٹیوٹوریلز کے ذریعے طلبہ اپنی تعلیم کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔

    4۔سماجی خدمت اور خیر خواہی
    سماجی مسائل کو اجاگر کرنے اور مستحق لوگوں کی مدد کرنے کے لیے سوشل میڈیا ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔ ہم کئی فلاحی کام اور ضرورت مندوں کی مدد کے لیے اس کا استعمال کر سکتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
    [arabic]”خَيْرُ النَّاسِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ”[/arabic]
    (لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے۔) (مسند احمد: 23408)

    5۔سما جی رابطوں کا ذریعہ
    سوشل میڈیا کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ یہ لوگوں کے درمیان رابطے کے ذرائع کو سہل بناتا ہے اس کے ذریعے ہم اپنے دوستوں عزیزوں اور رشتہ داروں سے دوری کے باوجود جڑے رہتے ہيں۔

    6۔مثبت نظریات اور اخلاقی اقدار کی ترویج
    ہم سوشل میڈیا کو اچھے خیالات، دینی اور اخلاقی اقدار، اور مثبت پیغامات پھیلانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ نبی ﷺکا فرمان ہے: “جو شخص کسی شخص کو بھلائی کی طرف رہنمائی کرتا ہے وہ اس کے برابر اجر پاتا ہے۔” (صحیح مسلم ) نیز اس کے ذریعے ہم دوسروں کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں اور ایک خوشگوار معاشرتی فضا قائم کر سکتے ہیں۔

    سوشل میڈیا کے آداب:
    کسی بھی خبر یا معلومات کو شیئر کرنے سے پہلے اس کی تصدیق کرنا ضروری ہے۔ جھوٹی خبریں اور افواہیں پھیلانے سے نہ صرف معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ضرورت سے زیادہ وقت گزارنا وقت کا ضیاع ہے۔ اس کا استعمال معتدل انداز میں کرنا چاہیے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
    [arabic]”نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ”[/arabic]
    (دو نعمتیں ایسی ہیں جن کی قدر اکثر لوگ نہیں کرتے: صحت اور فارغ وقت۔) (بخاری: 6412)

    اختلافِ رائے کو مہذب انداز میں بیان کرنا اور دوسروں کے نقطہ نظر کو برداشت کرنا سوشل میڈیا کے آداب میں شامل ہے۔ غیر ضروری بحث مباحثے،ایک دوسرے کا مذاق اڑانے اور گالم گلوچ سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    [arabic] “يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ”[/arabic]
    (اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اُڑائے۔) (سورۃ الحجرات: 11)

  • ٹارگٹڈ ایڈز – دور جدید کا ایک شاہکار جادو – محمد کامران خان

    ٹارگٹڈ ایڈز – دور جدید کا ایک شاہکار جادو – محمد کامران خان

    کیا کبھی ایسا ہوا کہ آپ نے چائے کے دوران گپ شپ میں کسی دوست کے ساتھ کسی چیز کے بارے میں گفتگو کی اور چند لمحوں بعد اسی سے متعلق اشتہارات آپ کی فیسبک یا انسٹاگرام فیڈ میں آنے لگیں؟ یقیناً ہوا ہوگا۔ بلکہ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے صرف سوچا ہو کسی چیز کا یا تھوڑی سی اس سے ملتی جلتی چیزوں میں دل چسپی ظاہر کی اور وہ چیز پٹ سے حاضر۔ ہے نا جادو؟ یہ ہے ٹیکنالوجی کا جادو ، اس جادو کو “ٹارگٹڈ ایڈز” کہتے ہیں۔ ٹارگٹڈ ایڈز جدید ڈیجیٹل دنیا کا وہ پہلو ہیں جو ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ ذہین، زیادہ مربوط اور زیادہ ناقابلِ گریز بنتے جا رہے ہیں۔ یہ اشتہارات محض اتفاقیہ نہیں ہوتے، بلکہ جدید ترین مصنوعی ذہانت، مشین لرننگ، اور انسانی رویوں کے باریک بینی سے کیے گئے تجزیے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ ٹارگٹڈ ایڈز صرف انٹرنیٹ پر کی جانے والی سرگرمیوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ کون سی ویڈیو کتنی دیر دیکھی گئی، کون سا اشتہار اسکرول کرتے وقت نظرانداز کیا گیا اور کون سا اشتہار ایسا تھا جس پر کلک کیا گیا۔ مگر کچھ مشاہدے اور کچھ تجربات کے بعد اب یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ اشتہارات کے یہ نظام محض آن لائن سرگرمیوں تک محدود نہیں رہے، بلکہ انسانی جذبات، فزیالوجیکل ردعمل اور نفسیاتی رجحانات تک کی تفصیل میں اتر چکے ہیں۔کیسے؟ آئیے چند کڑیاں جوڑتے ہیں۔

    انسانی آنکھیں بہت کچھ کہتی ہیں۔ جب کوئی چیز دلچسپ لگتی ہے تو پتلیاں پھیل جاتی ہیں، جب کوئی چیز ناپسندیدہ ہوتی ہے تو چہرے کے تاثرات بدل جاتے ہیں، آنکھوں کی حرکت کسی بھی چیز کی طرف کشش یا بیزاری کا اظہار کرتی ہے۔ ماضی میں یہ ممکن نہیں تھا کہ کوئی مشین ان اشاروں کو پڑھے، سمجھے اور ان کی بنیاد پر تجزیہ کرے، مگر اب ایسا ہو رہا ہے۔ جدید ترین ڈیپ لرننگ ماڈلز اور کمپیوٹر ویژن کے ذریعے کیمرے نہ صرف چہرے کے تاثرات کو پڑھ رہے ہیں، بلکہ ان میں چھپی دلچسپی، خوشی، حیرت اور بیزاری کو بھی شناخت کر رہے ہیں۔ یہ صلاحیت کسی ایک مخصوص شعبے تک محدود نہیں رہی، بلکہ روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی عام ٹیکنالوجیز میں ضم ہو چکی ہے۔اس کی مثالیں ہمیں عام زندگی میں ملتی ہیں جن میں ایک فیچر فیس آئی ڈی ہے۔ یہ ایک ایسا فیچر تھا جسے سہولت کے طور پر متعارف کروایا گیا۔ اس کا بنیادی مقصد چہرے کی شناخت کے ذریعے ڈیوائس کو کھولنا تھا، مگر یہ ٹیکنالوجی وقت کے ساتھ ایک وسیع تر نیٹ ورک کا حصہ بن چکی ہے۔ ہر بار جب کسی ڈیوائس کا فیس آئی ڈی استعمال کیا جاتا ہے، وہ چہرے کے مختلف زاویوں، تاثرات اور روشنی میں آنے والی تبدیلیوں کو ریکارڈ کرتا ہے۔ مصنوعی ذہانت ان تمام ڈیٹا پوائنٹس کو استعمال کر کے چہرے کی شناخت کو بہتر بناتی ہے، مگر اسی کے ساتھ چہرے کے تاثرات اور جذباتی ردعمل کو بھی سمجھنے کے قابل ہو جاتی ہے۔ یہی ٹیکنالوجی جب اشتہارات کے نظام میں شامل ہوتی ہے تو یہ محض آنکھوں کے جھپکنے، چہرے کے تاثرات اور آنکھوں کی پتلیوں کی حرکت سے اندازہ لگا لیتی ہے کہ کوئی چیز واقعی دلچسپ ہے یا نہیں۔

    اب اس پہلوکو مزید وسعت دیتے ہیں۔ اس میں اگر آپ کے روزانہ کے رویے، گفتگو، ذاتی معلومات و ذاتی دلچسپیاں ، دن بھر کے معاملات کی ایک ڈائری بنائی جائے تو کیا ایک ہفتہ وہ ڈائری پڑھنے کے بعد آپ کے معمولات اور اگلے روز کے بیشتر حصے کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں؟ خصوصاً جب پیش گوئی کرنے والا آپ کے ہر عمل سے بخوبی واقف اور بہترین یاد داشت کا حامل ہو۔ ٹارگٹڈ ایڈز میں آپ کی موبائل ڈیوائس بالکل یہی کام کرتی ہے۔ اسمارٹ واچز اور دیگر وئیرایبل ڈیوائسز بھی اسی بڑے ڈیٹا نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ جب کوئی اسمارٹ واچ دل کی دھڑکن نوٹ کرتی ہے، بلڈ پریشر مانیٹر کرتی ہے، نیند کے پیٹرنز کا تجزیہ کرتی ہے، تو یہ سب صرف صحت کی نگرانی کے لیے نہیں ہو رہا ہوتا۔ ان ڈیٹا پوائنٹس سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کسی خاص لمحے میں جسمانی ردعمل کیا تھا، کون سا اشتہار دیکھتے وقت دل کی دھڑکن تیز ہوئی، کب بلڈ پریشر میں معمولی سا اضافہ ہوا، اور کب کوئی ردعمل بالکل ہی غیر محسوس رہا۔ ان تمام معلومات کو جمع کر کے مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایک انتہائی پیچیدہ مگر مؤثر ماڈل بنایا جاتا ہے، جو ہر فرد کی دلچسپیوں، رجحانات اور ممکنہ خریداری کے فیصلوں کو پہلے سے سمجھ لیتا ہے۔

    یہ سارا عمل روایتی مشین لرننگ کے طریقوں سے بھی کافی حد تک ممکن تھا مگر اب جدید اور تیز ترین کام کرنے والے کمپیوٹرز ، نیرومورفک چپس اور جدید ترین مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کی وجہ سے یہ سب چند لمحوں میں ہو رہا ہے۔ پہلے جہاں ایک اشتہار کے مؤثر ہونے کا اندازہ صارف کی کلک، اسکرولنگ اور ویڈیو دیکھنے کے وقت کی بنیاد پر لگایا جاتا تھا، اب یہ اس اشتہار کو دیکھنے والے شخص کی آنکھوں، چہرے، دل کی دھڑکن اور دیگر جسمانی ردعمل سے لگایا جا رہا ہے اس کے علاوہ ہنارے ارد گرد موجود آلات جیسا کہ موبائل میں موجود کیمرہ، سپیکر اس سب عمل کو مکمل کرنے میں مدد دیتے ہیں اور خودکار نہیں بلکہ ہماری اجازت سے۔

    یہ سب کچھ صرف خرید و فروخت تک محدود ہوتا تو کافی تھا، مگر اب چلتے ہیں اس کے خطرناک پہلو کی طرف۔
    یہ سلسلہ اب فیصلہ سازی پر براہِ راست اثرانداز ہونے لگا ہے۔ جب کسی فرد کی ہر حرکت، ہر ردعمل، ہر سوچ کی پیمائش ہونے لگے، تو اسے اپنی مرضی سے کسی فیصلے تک پہنچنے کے مواقع کم سے کم دیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ، اگر مجھے علم ہو کہ آپ ایک نیا جوتا یا کپڑوں کا جوڑا خریدنا چاہ رہے ہیں تو میں بار بار آپ کو ایسے دکانداروں کے بارے میں بتاؤں گا جو کہ میرے ذریعے اپنے کاروبار کی تشہیر چاہتے ہیں۔ اب آپ صرف جوڑا یا جوتے خریدنا چاہ رہے تھے۔ بالکل وہی نہیں خریدنا چاہ رہے تھے جو میں آپ کو دکھا رہا ہوں ۔ مگر میرے اس عمل کو بار بار دہرانے سے آپ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہی تو ہے جو میں چاہتا ہوں۔ درحقیقت ہوگا ایسا نہیں۔ آپ ابھی اور آپشنز دیکھنا چاہتے تھے۔ یا شاید کچھ عرصہ اس ارادے کو عملی جامہ نہیں پہنانا چاہتے تھے مگر بار بار سامنے آنے پر آپ کے ارادے میں واضح تبدیلی ہوئی۔ یعنی میں نے محدود انتخاب دیے تاکہ کسی خاص سمت میں سوچنے پر مجبور کر سکوں،اور پھر آپ سے متعلق معلومات جو میرے پاس جمع تھیں، آپ کی پسند نا پسند، روز مرہ کا استعمال اوراگر مجھے آپ کی مالی حالت کا بھی اندازہ ہو تو پھر تو کیا ہی کہنے (جو کہ آپ کے آن لائن شاپنگ سے بخوبی لگا لیا جاتا ہے) ان پہلوؤں کو مدنظر رکھ کرآپ کے انتخاب کو جذباتی اور نفسیاتی طور پر زیادہ موثر بنا کر آپ کو پیش کیا گیا اور آپ پھر انکار ہی نہیں کر پائے اس اشتہار کو۔ کوئی اشتہار کیوں زیادہ پرکشش محسوس ہوتا ہے، کیوں بعض مخصوص موضوعات کے اشتہارات بار بار نظر آتے ہیں، یہ سب اتفاق نہیں ہوتا بلکہ شعوری طور پر طے شدہ حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے۔اب جیسا کہ ان بنیادوں پر میں نے آپ کی خریداری کا فیصلہ تبدیل ، جلد یا آپ کی مرضی کے کافی حد تک منافی کر دیا، سوچیں اگر اسی الگورتھم کو ووٹ دینے کی صلاحیت، اپنے لئے کچھ چننے کی صلاحیت پر نافذ کیا جائے تو آپ کی زندگی میں کتنے ہی فیصلے ہوں گے جو کہ آپ نے مکمل طور پر خود کیے؟ ایک چھوٹی سی مثال آپ کےسوچنے کے لئے اور چھوڑ دوں، ایلون مسک نے ٹوئٹر کو چوالیس ارب ڈالر میں صرف عوام کی بھلائی اور آزادی رائے کے لیے خریدا یا اس الگورتھم کو۔

    یہ تصور کہ انسان اپنے فیصلے خود کر رہا ہے، مصنوعی ذہانت کے اس نئے مرحلے میں کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ جب کوئی نظام کسی شخص کے جذبات، اس کے رویے اور اس کے ممکنہ ردعمل کو پہلے سے جان لے، تو اسے اس سمت میں دھکیلنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے جہاں وہ خود جانا نہیں چاہتا تھا۔ اب صرف معلومات فراہم نہیں کی جا رہی، بلکہ معلومات اس انداز میں دی جا رہی ہیں کہ سوچنے، تجزیہ کرنے اور سوال اٹھانے کی گنجائش کم سے کم ہو جائے۔یہ اثرات ہر جگہ محسوس کیے جا رہے ہیں، مگر سب سے زیادہ ان علاقوں میں جہاں ٹیکنالوجی کو صرف ایک سروس سمجھا جاتا ہے، مگر اس کے پیچھے کام کرنے والے پیچیدہ نظاموں پر غور نہیں کیا جاتا۔ جو علاقے پہلے “تجربہ گاہ” کے طور پر استعمال ہوتے تھے، اب وہ نئی ٹیکنالوجیز کے لیے آزمائشی میدان بن چکے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے انسانی نفسیات کو کس حد تک سمجھا جا سکتا ہے، اسے کتنا قابو کیا جا سکتا ہے، اور کسی بھی رجحان کو کیسے طاقت دی جا سکتی ہے، یہ سب کچھ ان ہی جگہوں پر آزمایا جا رہا ہے جہاں شعور کی سطح کمزور ہے اور سوال اٹھانے کا رجحان ناپید ہوتا جا رہا ہے۔

    یہ محض ایک مفروضہ نہیں، بلکہ حقیقت ہے جس کی بنیاد جدید ترین تحقیق پر ہے۔ فیصلہ سازی کی آزادی، معلومات تک رسائی کا حق، اور کسی بھی موضوع پر آزادانہ رائے قائم کرنے کی صلاحیت آہستہ آہستہ کمزور پڑ رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت نہ صرف یہ سمجھ رہی ہے کہ انسان کیا چاہتا ہے، بلکہ یہ بھی طے کر رہی ہے کہ اسے کیا چاہنا چاہیے۔

    یہ سوچنا کہ یہ سب کچھ ابھی دور ہے، ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ یہ سب کچھ پہلے سے موجود ہے، کام کر رہا ہے اور ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی سے انکار ممکن نہیں، مگر یہ سوچنا کہ اس ترقی کا کوئی منفی پہلو نہیں ہوگا، سراسر غفلت ہے۔ وقت ہے کہ اس نظام کو سمجھا جائے، اس کے اثرات کا تجزیہ کیا جائے، اور آزادانہ سوچ اور فیصلہ سازی کے حق کو محفوظ رکھنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ بصورتِ دیگر، وقت کے ساتھ سوچنے کا عمل خودکار ہو جائے گا اور فیصلے وہی ہوں گے جو پہلے سے کسی اور نے طے کر دیے ہوں گے۔

  • مفید کانٹینٹ کیا ہے، کیسے بنائیں -حفصہ قدوس

    مفید کانٹینٹ کیا ہے، کیسے بنائیں -حفصہ قدوس

    آپ گوگل پر کسی مسئلے کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں، آپ فیس بک پر اسکرولنگ کر رہے ہیں یا یوٹیوب پر مطلوبہ موضوع کے بارے میں تلاش کر رہے ہیں یا انسٹاگرام، ٹوئٹر پر سرگرداں ہیں۔ آپ کا واسطہ کانٹینٹ سے پڑ رہا ہوتا ہے۔

    کانٹینٹ کیا ہے؟
    آپ جو بھی دیکھتے یا سنتے ہیں وہ کانٹینٹ یا “مواد” ہے۔ اب کانٹینٹ کسی خبر کی شکل میں ہو سکتا ہے، کوئی ویڈیو ، تصویر، تحریر، یا صرف آواز ہو سکتی ہے۔

    اگلا سوال یہ ہے کہ “ویلیوایبل کانٹینٹ” کیا ہے؟
    وہ کانٹینٹ یا مواد جو آپ کے وقت کو قیمتی بنائے، آپ کی زندگی پر مثبت اثر ڈالے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہماری آنکھیں جو دیکھتی ہیں یا ہمارے کان جو سنتے ہیں، اُن کا براہِ راست اثر ہماری شخصیت پر پڑتا ہے۔ آپ ایک پودے کو بھی مسلسل منفی باتیں سنائیں، طعن وتشنیع کا نشانہ بنائیں تو وہ جلد ہی مرجھا جائے گا۔ اب ذرا سوچیں کہ ہماری قوم کا سرمایہ ہمارے نوجوان روزانہ کس قسم کا “زہر” اپنے اندر جذب کر رہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ہر ہاتھ میں موبائل ہے اور موبائل پر “سوشل میڈیا” نامی جِن سب کی خدمت کے لیے حاضر۔

    اب صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر بندہ ہی کانٹینٹ بنانے میں لگا ہوا ہے۔ وہ لوگ جو کسی مثبت مقصد کے تحت کانٹینٹ بنا رہے ہیں، ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اکثر کا مطمح نظر صرف شہرت اور پیسے کا حصول ہے۔ ایسے میں جو کانٹینٹ سامنے آرہا ہے وہ عام طور پر اخلاقیات سے عاری ہے۔
    ایک نوجوان کا واسطہ ایسے کانٹینٹ سے پڑ رہا ہے جو بے حیائی پر مشتمل ہے، یا وہ دوسروں کو ایک ایسی زندگی گزارتے ہوئے دیکھ رہا ہے جس میں مسائل کا شائبہ تک نہیں، دولت کی ریل پیل ہے۔ ایسے میں وہ اشتعال انگیزی اور مایوسی کا شکار ہو گا یا “کردار کا غازی” بنے گا۔ بات صرف یہیں تک ختم نہیں ہو جاتی۔ معاشرہ افراد سے بنتا ہے۔ جب تقریباً ہر شخص ہی مایوسی کا شکار ہو گا اور بے مقصد زندگی گزارنے پر مجبور ہو گا تو آپ خود سوچیں کہ ایسا معاشرہ اقوامِ عالم میں کہاں کھڑا ہو گا؟

    سستی شہرت اور اندھا دھند دولت حاصل کرنے کی خواہش میں ہمارے ہاں ایسا کانٹینٹ بنایا جا رہا ہے جو معاشرے کے لیے زہر کا کام کررہا ہے۔ ایسے کانٹینٹ کے نتیجے میں:
    1۔ ہم ترقی کی راہ سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
    2۔ اخلاقی برائیاں پیدا ہو رہی ہیں۔
    3۔ خاندانی اقدار کا لحاظ ختم ہو رہا ہے۔
    4۔ حلال وحرام کا امتیاز بھی ختم ہو رہا ہے۔
    اس کانٹینٹ کو “نشے” کا نام دیا جائے تو غلط نہیں ہو گا کیونکہ بنانے والے اور دیکھنے والے دونوں ہی معاشرے کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔

    ویلیوایبل کانٹینٹ کی اہمیت:
    ویلیوایبل کانٹینٹ کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتا ہے۔ درج ذیل نکات مفید مواد کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں:
    1۔ قومی تشخص:
    کسی قوم کے اکثریتی افراد کا کانٹینٹ اقوامِ عالم میں اس قوم کا نمایاں تشخص قائم کرتا ہے۔ مقامِ فکر ہے کہ ہماری اکثریتی عوام کا کانٹینٹ بے حیائی کو فروغ دے رہا ہے۔ ہماری قوم کا تشخص فیملی ویلاگنگ اور فحش مواد کی بنا پر ایک ایسی قوم کا بن رہا ہے جو کاہل ہے، دولت کے حصول کے لیے اپنی اقدار کی پرواہ نہیں کرتی۔ زندگی گزارنے کے اصولوں سے ناواقف ہے۔

    2۔ مستقبل کے لیے سنگ میل:
    کانٹینٹ کسی بھی قوم کے نوجوانوں کو اپنے مستقبل کی راہ متعین کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ اس وقت جو کانٹینٹ ہمارے ملک میں بن رہا ہے وہ ہمارے نوجوانوں کی کیا رہنمائی کرے گا۔ اس کانٹینٹ سے کاہلی، بے حیائی اور اخلاقی بحران جیسے ماشرتی ناسور پیدا ہورہے ہیں۔

    3۔ سیکھنے کے عمل میں معاون:
    انسان ہر وقت کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے۔ کانٹینٹ اس سیکھنے کے سفر میں معاون ہوتا ہے۔ماضی میں کتاب بہترین استاد ہوا کرتی تھی۔ زندگی کے نشیب و فراز کے متعلق رہنمائی دیا کرتی تھی۔ ڈیجیٹل دور میں کتاب کی جگہ ڈیجیٹل کانٹینٹ نے لے لی۔ ہمارے ہاں بنننے والا اکثر کانٹینٹ معاشرتی و معاشی ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف رہنمائی کر رہا ہے۔ آج کا نوجوان پیسےکی دوڑ میں “برکت” کے مفہوم سے ناآشنا ہے۔ اسی وجہ سے دولت کے ڈھیر کمانے کے چکر میں قوم کے تشخص اور ترقی کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔

    مفید مواد ویلیوایبل کانٹینٹ کیسے بنایا جائے؟
    کسی بھی قسم کا کانٹینٹ بنانے سے پہلے چند اہم نکات کو ذہن میں رکھیں:
    1۔ کانٹینٹ بنانے سے آپ کا مقصد کیا ہے؟
    آپ معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ کو ضرور کانٹینٹ بنانا چاہیے۔ اگر آپ صرف شہرت یا دولت کمانے کے لیے کانٹینٹ بنانا چاہتے ہیں تو پھر کانٹینٹ کو ذریعہ بنا کر قوم کے مستقبل سے نہ کھیلیں۔
    2۔ آپ کا کانٹینٹ کسی مسئلے کا حل پیش کر رہا ہے؟
    کانٹینٹ بناتے ہوئے ذہن میں رکھیں کہ آپ کا کانٹینٹ کسی مسئلے کا حل پیش کر رہا ہو یا پھراس کا مقصد کسی چیز کو بہتر بنانے کے متعلق آگاہی دینا ہو۔
    3۔ قومی و ملکی تشخص کا خیال:
    دھیان رکھیں کہ آپ کے کانٹینٹ میں کچھ ایسا تو نہیں جو قومی یا ملکی شناخت کو نقصان پہنچائے؟
    4۔دل آزاری سے گریز:
    دیکھیں کہ آپ کے کانٹینٹ میں کچھ ایسا تو نہیں جو کسی بھی طبقے کے جذبات کو مجروح کرے؟
    5۔ اشتعال انگیزی سے اجتناب:
    آپ کے کانٹینٹ میںکچھ ایسا تو نہیں جو نفسیاتی یا سیاسی طور پر بُرا اثر ڈالے۔۔
    7۔ تحقیق:
    تحقیق شدہ معلومات ہی آگے پہنچائی جائیں۔

    قرآن پاک کی سورہ “النور” میں “استیذان” کے آداب بتائے گئے ہیں۔ استیذان یعنی “گھر میں یا خلوت کے جگہ میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینے” کا حکم بتاتا ہے کہ اسلام گھریلو معاملات کو سربازار عام کرنے کے خلاف ہے۔ احادیث میں کسی کے گھر جھانکنے سے منع کیا گیا ہے۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ فیملی ویلاگرز کس قسم کی حدود کو پامال کر رہے ہیں اور اس کے نتائج کیا کیا ہوسکتے ہیں۔ اور صرف یہی نہیں، ہر فحش و بےحیائی و بےدینی پھیلانے والاکانٹینٹ قوم کو ترقی کی راہ سے ہٹا دیتا ہے۔ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جو شخص کوئی اچھا طریقہ ایجاد کرتا ہے اس طریقے پر چلنے والوں کا ثواب بھی اس کے نامہ اعمال میں درج ہوگا( ان کے ثواب میں کمی کے بغیر)۔

  • فری مارکیٹنگ یا پیڈ مارکیٹنگ ، فائدہ کس کا؟ حامد حسن

    فری مارکیٹنگ یا پیڈ مارکیٹنگ ، فائدہ کس کا؟ حامد حسن

    کیا آپ جانتے ہیں
    فری مارکیٹنگ پیڈ مارکیٹنگ سے کئی گنا زیادہ بہتر اور فائدہ مند ہے۔۔۔

    ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی دو اقسام ہیں ”پیڈ مارکیٹنگ اور آرگینک فری مارکیٹنگ “

    یوٹیوب، آن لائن مینٹورزاور دوسرے لوگ 99 فیصد پیڈ مارکیٹنگ کے متعلق ہی بتاتے ہیں،مارکیٹنگ کے زیادہ تر کورسز اور ریکمنڈیشن بھی پیڈ مارکیٹنگ کی ہی ہوتی ہے۔۔۔ اور دوسری بات کہ زیادہ تر لوگ ڈیجیٹل مارکیٹنگ سے مراد فیس بک پر ایڈ چلانے کو ہی سمجھتے ہیں کہ جسے ایڈ چلانا آ گیا وہ ڈیجیٹل مارکیٹر ہے جبکہ یہ فیلڈ تو ایک سمندر ہے عمر بھر اس میں غوطے مارتے رہیں کچھ نہ کچھ نیا حاصل ہوتا ہی رہے گا۔۔۔ ایک بات یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ اکثر کورسز چونکہ ایک دوسرے سے سیکھ کر آگے وہی سیم ٹو سیم کورس لانچ کر لیتے ہیں اب ظاہر ہے کہ جو چیز جس فارمیٹنگ میں جتنی مقدار میں سیکھی جاتی ہے وہ آگے وہی سب کچھ ہی سکھا پائے گا بہت کم ہوتا ہے کہ اپنی ریسرچ اینالائز اور یونیک سٹریجڈی بہت کم لوگ بنا پاتے ہیں۔۔۔ اکثر لوگ ڈیجیٹل مارکیٹنگ کو پیڈ مارکیٹنگ ہی سب کچھ سمجھتے ہیں جبکہ جو لوگ اس فیلڈ میں پرانے ہیں اور اس فیلڈ کو گہرائی سے سمجھتے ہیں انہیں بخوبی معلوم ہے کہ اصل گیم ہوتی کیا ہے۔۔۔ موازنہ کیا جائے تو فری مارکیٹنگ پیڈ مارکیٹنگ سے کئی حوالوں سے زیادہ بہتر اور مفید ہے، اور فری مارکیٹنگ سے کی گئی پرموشن، محنت،کمپین اور انگیجمنٹ 100 فیصد رئیل اور جنیون ہوتی ہے۔۔۔

    اس کو اب مثال سے سمجھتے ہیں
    آپ فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب پر پیڈ مارکیٹنگ کرتے ہیں، آپ کو ئی بھی کمپین چلاتے ہیں اس کی ایک مخصوص رقم فیس بک کو ادا کر کے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ہمارے لئے فیس بک کسٹمر لائے گا، مختلف لوگوں تک ہماری کمپین پہنچائے گا۔۔۔یہ تمام کمپنیز بھی زیادہ سے زیادہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ پیڈ مارکیٹنگ ہی کی جائے کیوں کہ ان کو اس کے بدلے ان کو رقم ملتی رہتی ہے ان کا تو بھلا ہی ہوگا۔۔۔ فری مارکیٹنگ لوگ جان گئے تو ان کا نقصان ہوگا۔۔۔آپ اپنی کمپین ایک ہفتہ یا ایک ماہ کے لئے کرتے ہیں اور آپ دیکھتے ہیں کمپین والی پوسٹ پر دھڑا دھڑ لائیک، شئیر اور کمنٹ ملتے ہیں لیکن سیل کم ہوتی ہے۔۔۔لیکن جس پوسٹ پر کمپین نہیں لگتی وہ مردہ پڑی رہتی ہے پیڈ مارکیٹنگ سے جو لائیک، فالور ملے ہیں ان میں سے ایک پرسنٹ لوگ دوبارہ بغیر کمپین والی پوسٹ پر نہیں آتے۔۔۔اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ رقم دے کر آپ نے جو انگیجمنٹ حاصل کی ہے اس کی لائف صرف اسی کمپین تک ہی محدود تھی باقی ان سب فالورز اور لائیکس کا کچھ حاصل نہیں۔۔۔

    بہتر کیا ہے؟
    جس بندے نے اپنی پروڈکٹس سیل کرنی ہے، سروسز دینی ہے میرے تجربے کے مطابق اسے 70 فیصد آرگینک مارکیٹنگ کرنی چاہئے اور 30 فیصد پیڈ کمپین کرنی چاہئے۔۔۔ اگر کسی کا مقصد پروڈکٹس سیل کرنا ہے تو پیڈ کمپین میں اگر دس ہزار بندوں کی انگیجمنٹ ملی ہے تو اس میں سے دو چار چھ پرچیزنگ ہی مل پاتی ہیں۔۔۔ پیڈمارکیٹنگ میں کیا ہوتا ہے کہ آپ ایک کرائیٹیریا سیٹ کر کے، فیس بک کی طرف سے دئے گئے طے شدہ آڈئینس ، علاقہ اور لوگ سیٹ کرکے کمپین چلاتے ہیں۔۔۔ البتہ اگر کسی نے صرف اپنے نام کی پرموشن کرنی ہے، زیادہ سے زیادہ لائیک اور فالور لینے ہیں تو اس کے لئے پیڈ کمپین ٹھیک ہے کہ پیسے دو اور اپنے پیج پر لائیک اور فالور کی تعداد میں اضافہ کرو۔۔۔

    یہاں گیم کیا ہوتی ہے
    فیس بک پر بہت سی آئیڈیز فیک ہوتی ہیں، ان آئی ڈیز کی بائیوز، ڈیٹیل، لوکیشن وغیرہ بھی فیک ہوتی ہے تو فیس بک الگورتھم کے مطابق جینون اور فیک سب آئیڈیز تک وہ کمپین لسٹ میں جاتی ہیں۔۔۔ ابھی آپ خود بتائیں کہ کتنی ہی آئیڈیز آپ کے سامنے آتی ہوں گی جو 100 فیصد فیک ہوتی ہیں اور کمپین اڈئینس میں وہ سب آئی ڈیز مینشن ہوتی ہیں۔۔۔ تو پھر سوال یہ بنتا ہے کہ پیڈکمپین کر کے پیسہ خرچ کر کے حاصل کیا ہوا۔۔۔؟ مثلاً میری ایک فیک آئی ڈی ہے جس پر میں نے لائیو لوکیشن لندن انگلینڈ کی دی ہوئی ہے۔۔۔ اپنی بائیو، اباؤٹ اور ڈیٹیل میں ای کامرس مینشن کی ہے۔۔۔ لیکن میں بیٹھا پاکستان میں ہوں اور وہ آئی ڈی کبھی کبھار استعمال کرتا ہوں۔۔۔ اب اگر ایک بندہ کمپین سیٹ کرکے لندن کو ٹارگٹ کرتا ہے۔۔۔ آئیڈینس انگیجمنٹ میں ای کامرس والے لوگوں کو مینشن کرتا ہے۔۔۔ اس نےفیس بک سے ایک روپے میں دو لائیک خریدے جن میں سے ایک میں ہوں اور ایک جینون ہے تو سمجھو کہ اس کی آدھی رقم بالکل فضول ضائع ہوئی۔۔۔

    میرا مشورہ اور تجربہ
    میرا ہر کسی کو یہی مشورہ ہوتا ہے کہ پیڈ مارکیٹنگ کے بجائے آرگینک طریقے سے مارکیٹنگ کریں۔۔۔ پیڈ مارکیٹنگ میں جتنی رقم لگاتے ہیں اگر اتنی رقم لگا کر ایک دو قابل بندے ہائیر کئے جائیں۔۔۔ ڈیٹا مائیننگ کی جائے اور پھر آرگینک طریقے سے روزانہ مارکیٹنگ کی جائے تو یہاں سے آپ کو جینون اور ایکٹیو لوگ ملیں گے۔۔۔ مثال کے طور پرایک ماہ کے لئے ایک لاکھ روپے کی پیڈ مارکیٹنگ کرتے ہیں تو اس سے آپ کو 10 پرچیز ملتی ہیں۔۔۔ دس ہزار لائیک اور فالور ملتے ہیں۔۔۔ لیکن ان دس ہزار میں 5،6 ہزار ڈیڈ آئیڈیز ہوں گی جو کہ آئندہ کسی کام نہیں آنے والی۔۔۔ اس کے برعکس اگر آرگینک مارکیٹنگ کی جائے تو ایک لاکھ میں 30،30 ہزار پر دو بندے رکھے جائیںباقی 60 ہزار خرچہ رکھیں۔۔۔ اب آرگینک مارکیٹنگ سے باقاعدہ ڈیٹا مائیننگ کر کے، رئیل انگیجمنٹ سے ایک ہزار لوگ ملیں گے اور کم سے کم 15،20 سیلز ہوں گی۔۔۔ یہ دس ہزار لوگ جینون آڈینس ہے اور آپ کے آج یا کل کے کسٹمر ہیں۔۔۔ تو خود بتائیں کہ پیڈ مارکیٹنگ سے آنے والے دس ہزار ناقابل اعتبار آئیڈیز زیادہ بہتر ہیں یا پھر رئیل ایک ہزار جینون لوگ زیادہ بہتر ہیں۔۔۔؟؟؟
    ــــــــــــــــــــ
    یہ ایک طویل اور ٹیکنیکل موضوع ہے. اس پر سامنے بیٹھ کر یا پھر تفصیل سے بات کی جائے تو تب ہی سمجھ آئے گی۔۔۔ میں نے بذاتِ خود کافی عرصہ پیڈ مارکیٹنگ کو سٹڈی کیا، اس کو سمجھا، الگوریتھم کی تکنیک کی جانچ پڑتال کی۔۔۔ میں اپنے کام کے لئے اور کلائنٹس کو بھی پیڈ مارکیٹنگ کے بجائے آرگینک اور رئیل مارکیٹنگ کا مشورہ دیتا ہوں۔۔۔ رئیل آرگینک مارکیٹنگ میں وقت لگتا ہے، جان لگتی ہے، محنت درکار ہوتی ہے لیکن اس کے فوائد لانگ ٹرم فائدہ دیتے ہیں۔۔۔ ان شاء اللہ العزیز اس موضوع پر تفصیل سے لکھنے کا ارادہ ہے۔۔۔