Tag: امریکہ

  • روس یوکرین جنگ: اصل نتائج اور عالمی اثرات – عرفان علی عزیز

    روس یوکرین جنگ: اصل نتائج اور عالمی اثرات – عرفان علی عزیز

    فروری 2022 میں روس نے یوکرین پر حملہ کر کے ایک نئی عالمی کشیدگی کو جنم دیا۔ یہ جنگ نہ صرف یورپ بلکہ پوری دنیا کے سیاسی، اقتصادی اور عسکری توازن کو متاثر کر چکی ہے۔ اس جنگ کے نتائج صرف جنگی میدان تک محدود نہیں بلکہ عالمی معیشت، سفارت کاری، توانائی کی منڈی، اور اقوام کے داخلی استحکام پر بھی اثرانداز ہو چکے ہیں۔

    1. یوکرین کے لیے نتائج
    بے پناہ جانی و مالی نقصان: ہزاروں شہری اور فوجی ہلاک یا زخمی – لاکھوں افراد بے گھر یا مہاجر بن چکے ہیں۔
    بنیادی ڈھانچہ تباہ: اسپتال، اسکول، بجلی کے نظام، پانی کی فراہمی اور مواصلاتی نیٹ ورک کو شدید نقصان کا خدشہ ہے۔
    قومی اتحاد میں اضافہ: روسی جارحیت کے خلاف یوکرینی عوام کی مزاحمت نے قومی شناخت کو مضبوط کیا۔ صدر وولودیمیر زیلنسکی ایک قومی اور عالمی ہیرو کے طور پر ابھرے۔
    نیٹو اور یورپی یونین کے قریب: یوکرین نے نیٹو اور یورپی یونین میں شمولیت کی طرف قدم بڑھایا، حالانکہ مکمل رکنیت اب بھی زیر بحث ہے۔

    2. روس کے لیے نتائج
    عالمی سطح پر تنہائی: روس کو امریکہ، یورپ، جاپان اور دیگر ممالک کی طرف سے سخت اقتصادی پابندیاں کا سامنا ہے۔روس کا بیرونی ذخیرۂ زر منجمد کیا گیا، بینکنگ نظام پر پابندیاں لگائی گئیں
    معاشی بحران: روبل کی قدر میں شدید گراوٹ کا شکار ہے (اگرچہ جزوی بحالی ہوئی)۔
    مہنگائی میں اضافہ: غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی، اور نوجوان طبقے کی بیرون ملک نقل مکانی کی خبریں گردش ہیں۔
    جنگی نقصان: ہزاروں روسی فوجیوں کی ہلاکت ہوچکی ہیں۔ عالمی سطح پر روس کی فوجی طاقت کا تاثر کمزور ہوا۔ روسی ہتھیاروں کی عالمی منڈی میں ساکھ متاثر ہوئی۔

    3. یورپ کے لیے نتائج
    توانائی کی نئی سمت: روسی گیس پر انحصار ختم کرنے کی کوششیں ہونے لگیں۔ متبادل ذرائع مثلاً LNG، سولر، اور نیا نیوکلئر انفراسٹرکچر فروغ پا رہا ہے۔
    نیٹو کا اتحاد مزید مضبوط: سوئیڈن اور فن لینڈ جیسے غیر جانبدار ممالک نے نیٹو میں شمولیت اختیار کی یا درخواست دی۔ نیٹو ممالک کے دفاعی بجٹ میں اضافہ ہوگیا۔

    4. امریکہ کے لیے نتائج
    سٹریٹیجک فتح: روس کو اقتصادی و سفارتی طور پر کمزور کیا۔ چین کو متنبہ پیغام ملا کہ تائیوان جیسے اقدام کے نتائج بھی سخت ہوں گے۔
    اقتصادی دباؤ:امریکہ نے اربوں ڈالر کا اسلحہ یوکرین کو دیا، جس کا بوجھ امریکی معیشت پر بھی آیا۔ افراطِ زر، ایندھن کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، اور عوامی سطح پر سوالات۔

    5. چین، بھارت اور باقی دنیا پر اثرات
    چین کا محتاط رویہ: چین نے روس کی کھلم کھلا حمایت نہیں کی، لیکن مغرب کی پالیسیوں پر تنقید بھی جاری رکھی۔
    مستقبل میں تائیوان مسئلے پر چین کو محتاط رہنے پر مجبور کیا۔
    بھارت کی غیر جانبداری: بھارت نے روس سے تعلقات برقرار رکھے، تیل کی خریداری جاری رکھی، مگر یوکرین کی خودمختاری کی حمایت بھی کی، ایک توازن برقرار رکھا۔
    عالمی غذائی بحران: یوکرین گندم اور مکئی کا بڑا برآمد کنندہ ہے۔ جنگ کی وجہ سے خوراک کی قیمتوں میں عالمی سطح پر اضافہ ہوا، خاص طور پر افریقی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک متاثر ہوئے۔

    6. ابلاغیاتی جنگ اور سچ کا بحران
    روایتی میدانِ جنگ کے ساتھ ساتھ میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی جنگ لڑی گئی۔ جعلی خبریں، پروپیگنڈہ، اور معلومات کی جنگ نے دنیا بھر میں عوامی رائے کو تقسیم کر دی ہے۔

    نتیجہ:
    یہ جنگ تاحال جاری ہے اور اس کے دور رس اثرات اگلی دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ روس اپنے مقصد میں ناکام رہا کہ یوکرین کو ایک تابعدار ریاست بنایا جائے۔ یوکرین نے خود کو ایک مزاحمت کی علامت کے طور پر منوایا، مگر اس کی قیمت بہت بھاری چکائی۔ دنیا نے سیکھا کہ سرد جنگ کے بعد بھی طاقت کی سیاست زندہ ہے، اور اس کا سب سے بڑا خمیازہ عام انسان بھگتتا ہے۔ سوال ابھی باقی ہےکہ کیا انسانیت نے اس جنگ سےکچھ سیکھا یا اگلی جنگ کا میدان پہلے سے تیار ہو چکا ہے؟

  • تاریخ کا سیاہ باب اور ایک پاکیزہ کردار . ارشدزمان

    تاریخ کا سیاہ باب اور ایک پاکیزہ کردار . ارشدزمان

    تاریخ کبھی کبھی ایسے موڑ پر آ کھڑی ہوتی ہے جہاں قومیں آزمائش کے کٹھن مرحلوں سے گزرتی ہیں۔ کچھ کردار بکتے، جھکتے اور مصلحتوں کی چادر اوڑھ لیتے ہیں، اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سچ بولنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔

    پاکستان کی حالیہ تاریخ کا ایک ایسا ہی سیاہ باب، اور اس میں ایک بے داغ، پاکیزہ کردار، سید منور حسن…. ایک الگ پہچان بن کر ابھرتا ہے۔ امریکی جنگ، پاکستانی حکمران اور قومی خودکشی، نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر ظلم و جارحیت کی یلغار کی۔ لیکن اصل افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان کے حکمراں جنرل پرویز مشرف — امریکی دباؤ اور ڈالروں کے نشے میں آ کر نہ صرف اس جنگ میں شریک ہوئے بلکہ اسے پاکستان کے اندر لا کر اپنے ہی عوام کے خلاف بندوق اٹھا لی۔

    ایک پوری قوم کو دہشتگردی کی دلدل میں دھکیل دیا گیا۔ افغان سفیر سے لے کر سینکڑوں بے گناہ پاکستانیوں تک، سب کو غیرقانونی طور پر امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ خواتین اور بچے بھی نہ بچے۔ ہزاروں معصوم شہریوں کو ملکی سرزمین پر آپریشنز کے ذریعے دربدر کیا گیا۔ نام نہاد جنگ کے جواز پیدا کرنے کے لیے ڈرامے تیار کیے گئے۔ “گل مکئی” کے نام سے ڈائریاں، “ملالائیں” اور جعلی کوڑے مارنے کی ویڈیوز سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا۔

    اسلام کے چہرے کو مسخ کیا گیا، اور روشن خیالی، ماڈریشن، لبرل ازم، مادر پدر آزادی جیسے مغربی تصورات کو ریاستی سطح پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی۔ سب کچھ “ڈالرز” کے عوض۔ لگنے لگا جیسے اسلام، ملک، عوام اور مسلم امہ سب کچھ داو پر لگا دیا گیا ہو۔ جب ہر طرف خاموشی تھی، ایک آواز گونجی ….ایسے میں ایک آواز تھی جو نہ بکی، نہ جھکی۔ یہ آواز تھی سید منور حسنؒ کی۔ یہ آواز پاکیزہ بھی تھی، باوقار بھی،گرجدار بھی، اور فکری و ایمانی طور پر بے مثال۔ انہیں خاموش کرانے کی ہر ممکن کوشش ہوئی۔ انہیں متنازعہ بنانے کے لیے میڈیا مہمات چلیں۔

    سوالات اٹھائے گئے، القابات تراشے گئے، لیکن یہ آواز وقت کے ساتھ اور زیادہ نکھرتی گئی۔ سید منور حسنؒ کا مؤقف نہایت واضح اور بے خوف تھا:
    • امریکہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔
    • اصل دہشت گردی، ریاستی دہشت گردی ہے۔
    • جہاد اور مزاحمت ہی امت کے بقا کی علامت ہیں۔
    • امریکہ کی جنگ میں شریک ہونے والے، چاہے وردی میں ہوں یا بغیر وردی کے، سب مجرم ہیں۔
    • نہ شریعت بندوق کی نوک پر نافذ کی جا سکتی ہے، نہ امن جیٹ طیاروں سے لایا جا سکتا ہے۔

    انہوں نے نہ صرف امریکہ بلکہ پاکستان کے اندر موجود ان کرداروں کو بھی بےنقاب کیا جو قوم کو غلامی کی راہ پر لے جا رہے تھے — جنرل مشرف، جنرل کیانی، یوسف رضا گیلانی، اور ان جیسے کئی چہروں کو انہوں نے للکارا۔
    ایک موقع پر ان کے الفاظ تھےکہ
    “جنرل صاحب! آج جو آوازیں تمہاری پالیسیوں کے خلاف اٹھ رہی ہیں، یہ فضاؤں میں تحلیل نہیں ہوں گی، یہ تمہارا پیچھا کریں گی اور ایک دن اپنا اثر دکھائیں گی۔”

    اور وہ دن آیا۔ جب قوم کا دباؤ بڑھا، جب اصل چہرے بےنقاب ہونے لگے، تو ایک وقت پر آرمی چیف اور وزیرِاعظم دونوں نے تسلیم کیا:
    “آئندہ ہم کسی اور کی جنگ نہیں لڑیں گے۔”

    سید منور حسنؒ کوئی روایتی سیاستدان نہ تھے۔ وہ صاحبِ نظر، صاحبِ فکر، صاحبِ عزم اور صاحبِ دل انسان تھے۔ ان کی قیادت کا محور اسلام تھا، ان کی سیاست کا مرکز امت تھی، اور ان کی جدوجہد کا رخ ظلم کے خلاف اور حق کے حق میں تھا۔ وہ ایمان کی طاقت اور مومنانہ بصیرت کا استعارہ تھے۔ آج جب ہم پیچھے پلٹ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ نے انہیں سچائی کے پلڑے میں رکھا ہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ وہ درست تھے، باہمت تھے، اور اہلِ حق تھے۔

    آج بھی یہ سوال باقی ہے کہ کیا ہم نے سید منور حسنؒ جیسی بےباک آوازوں کی قدر کی؟ کیا ہم نے اس سیاہ باب سے سبق سیکھا یا ہم اب بھی ڈالروں، میڈیا، اور مغربی بیانیے کے سحر میں کھوئے ہوئے ہیں؟

  • ریاض دنیا کا معاشی حب بننے جارہا ہے -منصور ندیم

    ریاض دنیا کا معاشی حب بننے جارہا ہے -منصور ندیم

    سنہء 2017 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی پہلی حکومتی مدت میں جب سعودی عرب کے دارلحکومت ریاض کے ہوائی اڈے پر اترا تب وہ محض پروٹوکول دورہ تھا۔ تب سے آج تک بہت کچھ بدل گیا ہے۔

    دنیا بدل گئی، امریکہ بدل گیا، اور سب سے بڑی بات ہے کہ خلیج بھی بدل چکا ہے۔ لیکن سعودی عرب آج ایک موثر علاقائی طاقت کے طور پر اپنی تیز رفتار تبدیلی اور عروج میں پیش قدمی کرچکا ہے، محمد بن سلمان جس نےآج سعودی عرب کو ماضی کے سعودی عرب سے، ایک مختلف ماڈل بنا کر دکھا دیا ہے، جو لامحالہ مشرق وسطیٰ کے لیے “استحکام کی جغرافیائی سیاست” کی تشکیل میں کردار ادا کررہا ہے۔ میں بالکل بھی اسے مبالغہ نہیں کہوں گا اگر میں یہ جملہ لکھوں کہ “اس صدی کا سب سے بڑا لیڈر محمد بن سلمان ہے”.

    ٹرمپ کا یہ دورہ امریکہ، خلیجی تعلقات کی تاریخ میں جو چیز طے کرے گا، کہ یہ کشش ثقل کے مرکز میں تبدیلی کے ایک اہم لمحے کی نمائندگی کرتا ہے، اس دورے میں امریکا نے خود کو خلیجی دارالحکومتوں کا سامنا کرتے ہوئے پایا ہے جو امریکا کی ہری بتی کا انتظار نہیں کر رہے، بلکہ اپنی پالیسیوں کا مسودہ تیار کرکے بیٹھے تھے اور شائستگی کی بجائے طاقت کے مقام سے مذاکرات کر رہے ہیں، اس لحاظ سے ٹرمپ کی اپنی دوسری مدت میں کامیابی لامحالہ ریاض سے گزرے گی۔ اور اس کی ناکامی (یہ نہ سمجھنے میں ناکامی) کا براہ راست نتیجہ ہو گی کہ خلیج آج کیا بن چکا ہے: دنیا کے لئے فیصلہ سازی کا مرکز جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا!

    ٹرمپ کا نیا دورہ، اپنی دوسری میعاد کے آغاز میں، ایک غیر معمولی معکوس مساوات کی عکاسی کررہا ہے:
    امریکی صدر ایک ایسے خطے میں استحکام اور حمایت حاصل کرنے کے مشن پر ہے، جہاں ماضی میں امریکی اثر و رسوخ کے میدان کے طور پر وہاں رہنے والوں نے طویل عرصے ان کے احکامات کو مانا تھا۔ تاہم، آج وہ شراکت داری، برابری کے تنوع، اور مشرق وسطی میں ہونے والی اہم تبدیلیوں سے آگاہ ہیں۔ سعودی عرب اپنی نئی معاشی طاقت، سیاسی اثر و رسوخ اور ترقی کے ماڈل کے ساتھ اب سمجھداری اور عقلی طور پر خودمختاری کے ستون پر مبنی شراکت داری کی شرائط طے کر رہا ہے۔

    اس دورے پر، ریاض اب ایک نئی امریکی ریاست کے افتتاح کے موقع پر صرف پروٹوکول اسٹاپ نہیں رہا۔ بلکہ، یہ کسی بھی امریکی صدر کے لیے ایک ایسی دنیا میں ایک قابل اعتماد پارٹنر کی تلاش میں ایک لازمی منزل بن گئی ہے جہاں طاقت کا توازن بدل رہا ہے اور تسلط کے روایتی آلات ختم ہو رہے ہیں۔ ٹرمپ، جنہوں نے طویل عرصے سے اپنے آپ کو اثر و رسوخ کا نقشہ بنانے والے کے طور پر پیش کیا ہے، اس بار خود کو کسی ایسے شخص کی حیثیت میں پاتے ہیں جس کی خلیج کو ضرورت سے زیادہ خلیج کو ضرورت ہے۔

    یہ ایک اہم لمحہ ہے جو مشرق وسطیٰ اور شاید اس سے آگے سیاسی کشش ثقل کے مرکز میں تبدیلی کو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے۔ یہ تفصیل اعتدال پسند ریاستوں کے سب سے زیادہ ناقد، گارڈین کے خارجہ امور کے مبصر سائمن ٹسڈال نے کی ہے۔ یہ خطے میں ایک نئی حقیقت کے تصور میں تبدیلی کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔

    یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ کئی مسائل سے دوچار ہے، خاص طور پر عراق اور افغانستان جیسے مسائل میں دیرینہ ناکامیوں اور اپنے اتحادیوں کے حوالے سے پالیسیوں میں اتار چڑھاؤ کے بعد, جبکہ س کے برعکس، سعودی عرب آج یک علاقائی استحکام رکھنے والی قوت اور ایک اہم بین الاقوامی کھلاڑی کے طور پر اپنی پوزیشن مستحکم کرچکا ہے، جس میں اقتصادی خودمختاری کی بنیادیں، سیاسی پہل کرنے کی صلاحیت، اور حساس بین الاقوامی مسائل میں مداخلت کرنے کی صلاحیت موجود ہے، ایک ماتحت فریق کے طور پر نہیں بلکہ ایک ثالث کے طور پر جس کی رائے اور کردار کا احترام کیا جاتا ہے۔

    سعودی عرب، جسے پچھلی دہائیوں میں توانائی کے ذخائر یا سیکورٹی اتحادی کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، آج ایک کثیر العمل طاقت بن چکا ہے، جو حقیقت پسندانہ سفارت کاری، اقتصادی تبدیلی میں طویل مدتی سرمایہ کاری، اور علاقائی اور بین الاقوامی نظم کے ڈھانچے پر براہ راست اثر و رسوخ کے ساتھ مل کر کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ حالیہ برسوں میں شاید سعودی عرب کے کردار کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ علاقائی سرحدوں سے بالاتر ہو کر مذاکراتی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ایک بڑے ثالثی کے لیے ایک قابل اعتماد پلیٹ فارم بنتا ہے، جیسے کہ روسی-یوکرائنی مذاکرات، کثیرالجہتی سربراہی اجلاسوں کی میزبانی، اور ایران اور امریکہ، یا مغرب اور چین جیسی متضاد طاقتوں کے درمیان رابطوں کو آسان بنانا۔

    ٹرمپ کی مشرق وسطوں میں انا اور رات کا دورہ کرنا بالاصل براہ راست امریکہ کے لیے اقتصادی مدد کی ضرورت ہے، چاہے وہ امریکی منڈی میں خلیجی سرمایہ کاری کے ذریعے ہو یا تیل کی قیمتوں میں کمی کے ذریعے امریکہ میں مہنگائی کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے ہو۔ لیکن یہ ایران، غزہ، یمن اور شام جیسے پیچیدہ مسائل پر متوازن سیاسی پوزیشن کی ضرورت سے ہی ممکن ہے، آج حقائق نے ثابت کردیا کہ حل کی کنجی صرف واشنگٹن کے پاس نہیں ہے.

    اور اس کی پچھلی پالیسیاں، چاہے بائیڈن کے دور میں ہوں یا ان کے پہلے دور میں، صرف مزید کشیدگی یا جمود کا باعث بنی، سعودی عرب آج اس پوزیشن میں ہے کہ وہ روایتی اتحاد کی توثیق نہیں کر رہا بلکہ خود شراکت تاریخ تصور پر کھڑا ہے ، یعنی آج کا سعودی عرب اب مفت میں کردار ادا کرنے کے لیے کہا جانے کو قبول نہیں کرتا اور نہ ہی یکطرفہ امریکی انتخاب کی قیمت برداشت کرنے جارہا ہے۔ بلکہ سٹریٹجک وژن کے اندر کام کرتے ہوئے توازن پر ہے، کثیرالجہتی پر انحصار اور اپنے مفادات کو درست خود مختار میزان کی بنیاد پر منظم کررہا ہے۔

    اس نقطہ نظر سے، توانائی کی قیمتوں میں استحکام کی حمایت، امریکی اقتصادی منصوبوں میں شامل ہونا، یا ایران کے حوالے سے مذاکراتی عمل میں بھی شامل ہونا، یہ سب کچھ خلیج میں اور خاص طور پر سعودی عرب میں ہونے والی تبدیلیوں کی نوعیت کے بارے میں ایک نئی امریکی پالیسی کی سمجھ بوجھ پر مشروط ہے۔

    مثال کے طور پر سعودی موقف آج ایران کے بارے میں یکسر بدل گیا ہے۔ جبک پہلے وہ تہران کی دھمکیوں کے خلاف براہ راست امریکی تحفظ پر انحصار کرتا تھا، اب وہ کنٹینمنٹ اور مذاکرات کے امتزاج پر انحصار کرتا ہے۔ اس نقطہ نظر کے نتیجے میں چینی ثالثی کے ذریعے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی ہوئی ہے، جو کسی بھی بین الاقوامی دارالحکومت میں بے مثال اقدام ہے۔

    یہ تبدیلی کمزوری کی پوزیشن سے نہیں آئی بلکہ سعودی عرب کی گہری سمجھ سے آئی ہے کہ علاقائی استحکام کو طاقت کے ذریعے مسلط نہیں کیا جا سکتا، اور یہ کہ کشیدگی فریقین کو وہ فوائد حاصل ہوتے ہیں جو فوجی مہم جوئی نہیں کر سکتے۔ ٹرمپ، جو طویل عرصے سے فوجی آپشن کی دھمکیاں دیتا تھا، اب ایک سفارتی حل تلاش کر رہا ہے، امریکہ پچھلے تجربات سے مایوس ہو چکا ہے اور یہ سمجھ چکے ہیں کہ خلیل نہیں پراسی ہے براہ راست جنگل میں ملوث ہعنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

    غزہ کا مسئلہ ٹرمپ کے سامنے سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے، جو کھلے عام فوجی آپریشن کو جواز فراہم کرنے یا چھپانے کے لیے اسرائیلی دباؤ میں ہیں۔ تاہم، اسے ایک مضبوط سعودی موقف کا سامنا ہے: جارحیت کو روکنے اور فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب حقیقی عمل شروع کیے بغیر کوئی حل نہیں ہے۔ یہاں، سعودی عرب نہ صرف عرب عوام کی طرف سے بات کرتا ہے، بلکہ ایک ذمہ دار ریاست کی منطق کے ساتھ بھی بات کرتا ہے جو سمجھتی ہے کہ مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کرنا، یا اسے ثانوی مسئلے کی طرف لے جانا، انتہا پسندی کو ہوا دے گا اور پورے خطے کو عدم استحکام کا شکار کر دے گا۔

    ٹرمپ نے جو اس معاملے میں حمایت چاہی، وہ قبول نہہںک ی گئی،خواہ وہ علامتی ہو یا سیاسی، وہ فلسطینیوں کے حقوق اور حقیقی ضمانتوں کے بغیر نہیں حل ہوسکتا جو ایک منصفانہ اور جامع حل کی ساکھ کو بحال کرے گا۔ شام کے مسلے پر بھی جسے امریکا نے ناکام حل کے بعد ایک مختلف نقطہ نظر سے کام کرنا ہے، جس میں تمام شامی بلا تفریق حصہ ڈالیں۔ یہ نقطہ نظر تعمیر نو کا دروازہ کھولتا ہے اور بکھرنے اور انتشار کا دروازہ بند کر دیتا ہے۔ یہ اقدام، جسے وسیع عرب حمایت حاصل ہے، حقیقی بین الاقوامی شراکت داری کی ضرورت ہے اور امریکا اپنی فضول پابندیوں کی پالیسیوں اور افراتفری پر انحصار کیے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اگر ٹرمپ خود کو ایک ایسے صدر کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے ، جو مشرق وسطیٰ میں توازن بحال کرتا ہے، تو اسے اس رجحان پر دھیان دینا ہوگا۔

    ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب سے زیادہ ان کی انتظامیہ کے لیے ایک امتحان ہے۔ موخر الذکر نے ایک ہنگامہ خیز خطے کے درمیان دنیا کو استحکام کا ایک ماڈل پیش کیا ہے، سیاست کو ترقی کے ساتھ، اقتصادیات کو ثقافت کے ساتھ کامیابی کے ساتھ مربوط کیا ہے، اور اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ کیے بغیر دنیا کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں۔ ایسا کرنے میں، آج سعودی عرب صرف ایک سادہ مساوات کا مطالبہ کرتا ہے:

    باہمی احترام، متوازن شراکت داری، اور بڑے مفادات کو سمجھنا، نہ کہ تابعداری یا بلیک میلنگ، یہ دورہ نہ صرف ٹرمپ کی لچک کو آزماتا ہے بلکہ طاقت کے بدلتے ہوئے توازن کو پہچاننے کی امریکہ کی صلاحیت کو بھی جانچتا ہے۔ امریکا اب اوپر سے اپنا وژن مسلط نہیں کر سکتا۔ بلکہ، اسے ریاض، ابوظہبی اور دوحہ کی طرف سے مسلط کردہ نئی مساواتوں کی روشنی میں اپنی ترجیحات پر گفت و شنید، سننا اور از سر نو ترجیح دینی ہوگی، خلیج ایک یکساں بلاک بن چکا ہے، جغرافیائی سیاسی بوجھ نہیں؛ بلکہ یہ مشرق وسطیٰ جیسے پیچیدہ خطے کے ساتھ عالمی نظام کے معاملات میں ایک کلیدی کردار ہے۔

  • سعودی، امریکی گریٹ گیم! – عارف انیس

    سعودی، امریکی گریٹ گیم! – عارف انیس

    اگر ایک تصویر، ہزاروں لفظوں پر بھاری ہو سکتی ہے تو یہ تصویر ہزاروں کتابوں، خطبات، ڈاکومنٹریز پر بھاری ہے اور دنیا میں اصل سچ کا پتہ دیتی ہے جو ڈنڈا اور طاقت ہے، باقی جواز تراشنے کے لیے بے شمار لکھنے والے موجود ہیں.

    بس یوں سمجھیں یہ امریکی صدر کا اسامہ بن لادن کے ساتھ ایک شاندار پوز ہے. سچی بات تو یہ ہے کہ کہ بن لادن اگر واقعی کسی ملک پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو ابھی تک زندہ ہوتا اور شاید سفارتی پروٹوکول لے رہا ہوتا. ریاض کے شاہی محلات میں عالمی سیاست کا ایک ایسا ڈرامہ کھیلا گیا ہے جس کی گونج کئی دہائیوں تک سنائی دے گی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی میزبانی میں، شام کے اُس عبوری رہنما، احمد الشراع (المعروف ابو محمد الجولانی) سے بغل گیر ہوئے ہیں، جس کا ماضی القاعدہ کی کمان سے جڑا ہے۔

    یہ ملاقات محض ایک سفارتی مصافحہ نہیں، بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے ریتلے میدانوں میں طاقت کے توازن، پرانی دشمنیوں اور نئی وفاداریوں کی ایک بالکل نئی، اور شاید زیادہ خطرناک، بساط بچھانے کا اعلان ہے۔

    الجولانی، جو کبھی عالمی جہادی تحریک کا ایک اہم مہرہ سمجھا جاتا تھا، آج دمشق کے تخت پر ’عبوری حکمران‘ کے طور پر براجمان ہے، اور ٹرمپ انتظامیہ نے نہ صرف شام پر عائد تمام امریکی پابندیاں اٹھانے کا اعلان کیا ہے، بلکہ اسے “ایران اور اسلامی انتہا پسندی دونوں کے خلاف لڑنے کے لیے تیار” ایک ’نئے اتحادی‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔ الشراع نے بھی حسبِ توقع استحکام، اقلیتوں کے تحفظ اور خطے میں ایرانی اثر و رسوخ کی مخالفت کے بلند و بانگ دعوے داغے ہیں۔ یہ ’تبدیلیِ قلب‘ اور ’نظریاتی یوٹرن‘ کیا واقعی کسی حقیقی تبدیلی کا عکاس ہے، یا پھر عالمی طاقتوں کی شطرنج کا ایک نیا، آزمودہ مہرہ؟

    اس سارے کھیل میں ترکی اور سعودی عرب نے الجولانی کو اقتدار کی راہداریوں تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ پسِ پردہ اطلاعات یہی ہیں کہ اسرائیل نے بھی اس تبدیلی کو اس امید پر قبول کیا کہ دمشق میں ایک ایران مخالف حکومت اس کے تزویراتی مفادات کے لیے سودمند ثابت ہوگی۔ تاہم، اپنی پرانی روش برقرار رکھتے ہوئے، اسرائیل نے رسمی طور پر اس ملاقات پر ’تشویش‘ کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ “علاقائی دہشت گرد نیٹ ورکس” نئے ناموں اور نئی شناختوں کے ساتھ دوبارہ سر اٹھا سکتے ہیں۔

    یہ اسرائیلی ’ڈبل گیم‘ کوئی نئی بات نہیں؛ وہ ہمیشہ ایسے علاقائی تبدیلیوں کی خاموش حمایت کرتا ہے جو ایران کو کمزور کریں، مگر بعد میں عالمی برادری اور اپنے عوام کے سامنے ایک ’مظلوم‘ اور ’محتاط‘ ریاست کا تاثر برقرار رکھنے کے لیے رسمی احتجاج بھی ریکارڈ کرواتا ہے۔

    واشنگٹن میں بیٹھے کئی پنڈت اور ناقدین اس ملاقات کو “جہادی سیاست کی بحالی” اور عالمی اصولوں کی پامالی قرار دے رہے ہیں۔ مگر کچھ حقیقت پسند مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ڈرامائی تبدیلی کسی نظریے کی جیت یا ہار سے زیادہ زمینی حقائق، طاقت کے بدلتے ہوئے توازن اور سب سے بڑھ کر، کھربوں ڈالر کے ان معاشی معاہدوں کا نتیجہ ہے جو اس ملاقات کے سائے میں امریکہ اور سعودی عرب کے مابین طے پائے۔

    سعودی عرب کا امریکہ کے ساتھ یہ تقریباً ایک ٹریلین ڈالر کا ’معاشی جوا‘، جس میں دفاع، توانائی اور جدید ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بے پناہ سرمایہ کاری شامل ہے، دراصل خطے میں سعودی اثر و رسوخ کو ایک نئی، فیصلہ کن شکل دینے اور امریکی چھتری تلے اپنے علاقائی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے۔

    امریکی وفد بار بار یہ راگ الاپ رہا ہے کہ “اسرائیل کی طویل مدتی سلامتی امریکہ کی غیر متزلزل ترجیح ہے” اور یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ “ایران کا مخالف شام، علاقائی امن کے لیے ناگزیر ہے۔” صدر ٹرمپ کا آئندہ دورہ دوحہ اور ابوظہبی بھی اسی نئے ایران مخالف علاقائی بندوبست کو مزید مستحکم کرنے کی کڑی ہے۔ تاہم امریکہ سعودی گریٹ گیم چین کے اثرورسوخ کو بھی روکنے کی ایک کڑی ہے اور اسرائیل کے تزویراتی مفادات اور اس کا ’تحفظ‘ ہے۔ باقی سب کہانیاں ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں! اور یہ کہانیاں کہنے والے بھی بدلتے رہتے ہیں.

  • غزہ نے تاریخ کا دھارا بدل دیا  – آصف محمود

    غزہ نے تاریخ کا دھارا بدل دیا – آصف محمود

    جن کا خیال تھا کہ حماس کی مزاحمت کو ختم کر دیا گیا ہے اور اب وہ قصہ ماضی ہے، انہیں خبر ہو کہ اسرائیل کو اسی مزاحمت کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر معاہدہ کرنا پڑا ہے اور معاہدہ بھی وہی ہے جس پر فلسطینی مزاحمت پہلے دن سے رضامند تھی مگر نیتن یاہو نے جسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

    جن کا خیال تھا کہ غزہ اب قصہ پارینہ بن چکا، اور یہاں اسرائیل ساحل کے ساتھ اب اپنی بستیاں آباد کرے گا، ان کو خبر ہو کہ معاہدے کی رو سے غزہ، غزہ والوں کے پاس ہے۔ جن کا خیال تھا کہ شمالی غزہ سے فلسطینیوں کو مکمل طور پر بے دخل کر دیا جائے گا، انہیں خبر ہو کہ شمالی غزہ پر اہل غزہ کا حق تسلیم کروا لیا گیا ہے۔ جن کو یقین تھا کہ فلاڈلفیا اور نیٹسارم کاریڈور اب ہمیشہ کے لیے اسرائیلی فوج کے بوٹوں تلے رہیں گے انہیں خبر ہو کہ دونوں کاریڈورز سے اسرائیل کو انخلا کرنا ہو گا۔

    جن کا خیال تھا مزاحمت کاروں کو یوں کچل دیا جائے گا کہ ان کی نسلیں یاد رکھیں گے وہ اب بیٹھے سر پیٹ رہے ہیں کہ صرف بیت حنون میں اتنے اسرائیلی فوجی مارے گئے جتنے آج تک کی جنگوں میں نہیں مارے گئے۔ جن کا خیال تھا چند سر پھروں کی مزاحمت کچل دی گئی، انہیں خبر ہو کہ اسرائیلی برگیڈیر عامر اویوی دہائی دے رہا ہے کہ مزاحمت تو آج بھی پوری قوت کے ساتھ موجود ہے لیکن اسرائیل گھائل ہو چکا، مزاحمت کار تو نئی بھرتیاں کر رہے ہیں لیکن اسرائیل سے لوگ بھاگ رہے ہیں کہ فوجی سروس نہ لی جائے۔

    غزہ میں مزاحمت متحد ہے۔ لوگوں پر قیامت بیت گئی، بچے ٹھٹھر کر مر گئے، قبریں کم پڑ گئیں، لیکن کوئی تقسیم نہیں ہے۔ سب ڈٹ کر کھڑے ہیں، لہو میں ڈوبے ہیں لیکن خدا کی رحمت سے مایوس نہیں۔ اُدھر اسرائیل ہے جہاں مایوسی اور فرسٹریشن میں دراڑیں وضح ہیں۔ ہرادی یہودی اسرائیلی حکومت کو سیدھے ہو چکے ہیں کہ ملک تو چھوڑ دیں گے لیکن لڑائی میں شامل نہیں ہوں گے۔ اسرائیل کا فنانس منسٹر بزالل سموٹرچ دھمکی دے رہاہے کہ یہ معاہدہ اسرائیل کی شکست ہے، وہ حکومت سے الگ ہو جائے گا۔

    نیشنل سیکیورٹی کا وزیر اتمار بن گویر بھی دہائی دے رہا ہے کہ اس وقت ایسا کوئی معاہدہ شکست کے مترادف ہے۔ایرل سیگل چیخ رہا ہے یہ معاہدہ اسرائیل پر مسلط کیا گیا ہے۔ یوسی یوشع کہتا ہے بہت برا معاہدہ ہوا لیکن ہم بے بس ہو چکے تھے، اور کیا کرتے۔ مقامی خوف فروشوں سے اب کوئی جا کر پوچھے، حساب سودوزیاں کا گوشوارہ کیا کہتا ہے۔

    اسرائیل کے جنگی مبصرین دہائی دے رہے ہیں کہ جس دن امریکہ کمزور پڑ گیا یا اس نے منہ پھیر لیا اس دن اسرائیل کا کھیل ختم ہو جائے گا۔ اسرائیلی فضائیہ کے افسران گن گن کر بتا رہے ہیں کہ امریکی امداد نہ پہنچتی تو اسرائیل تیسرے ہفتے میں جنگ کے قابل نہ تھا۔ وہ حیران ہیں کہ ایک چھوٹا سا شہر ہے، ہزاروں قتل ہوئے پڑے اور لاکھوں زخمی، دنیا نے منہ موڑ رکھا، کئی ایٹم بموں کے برابر سلحہ ان پر پھونک دیا گیا، کہیں سے کوئی امداد نہیں ملی، اسلحہ تو دور کی بات انہیں کوئی مسلمان ملک پانی ا ور خوراک تک نہ دے سکا، لیکن وہ ڈٹے رہے، کیسے ڈٹے رہے۔ وہ لڑتے رہے، کیسے لڑتے رہے؟

    کچھ وہ تھے جن کے سر قضا کھیل چکی، اور کچھ وہ تھے جو اس کے منتظر تھے، قدم مگر کسی کے نہ لڑکھڑائے۔ہبریو یونیورسٹی میں قائم عارضی وار روم میں اب پہلی تحقیق اس بات پر ہو نے لگی ہے کہ ان حالات میں مزاحمت کیسے قائم رہی؟حوصلے کیوں نہ ٹوٹے۔ دنیا اب ویت نام کی مزاحمت بھول چکی ہے۔ دنیا آئندہ یہ پڑھا کرے گی کہ غزہ میں ایسی مزاحمت کیسے ممکن ہوئی؟

    جس مزاحمت کا نام لینے پر مغرب کے سوشل میڈیا کے کمیونٹی سٹینڈرڈز کو کھانسی، تپ دق، تشنج اور پولیو جیسی مہلک بیماریاں لاحق ہو جاتی تھیں، اتفاق دیکھیے اسی مزاحمت کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑے، معاہدے میں اسی مزاحمت کا نام لکھنا پڑا اور عالم یہ ہے کہ امریکی صدر اور نو منتخب امریکی صدر میں کریڈٹ کاجھگڑا چل رہا ہے کہ سہرا کس کے سر باندھا جائے۔

    دنیا اپنے فوجیوں کی تحسین کرتی ہے مگر ادھر خوف کی فضا یہ ہے کہ غزہ میں لڑنے والے اسرائیلی فوجیوں کی شناخت خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ کہیں کسی ملک میں جنگی جرائم میں دھر نہ لیے جائیں۔ ان جنگی مجرموں کے لیے باقاعدہ مشاورتی فرمان جاری ہو رہے ہیں کہ بیرون ملک جائیں تو گرفتاری سے بچنے کے لیے کون کون سے طریقے استعمال کیے جائیں۔خود نیتن یاہو کے لیے ممکن نہیں کہ دنیا میں آزادانہ گھوم سکے۔ قانون کی گرفت میں آن ے کا خوف دامن گیر ہے۔ یہ فاتح فوج کے ڈھنگ ہیں یا کسی عالمی اچھوت کے نقوش ہیں جو ابھر رہے ہیں؟

    ادھر اسرائیل میں بائیڈن کے سفیر جیک لیو کا کہنا ہے کہ ا سرائیل نے نہ صرف گلوبل ساؤتھ گنوا دیا ہے بلکہ مغرب بھی اس کے ہاتھ سے جا رہا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ ہم تو اسرائیل کے ساتھ ہیں لیکن نئی نسل کچھ اور سوچ رہی ہے اور اگلے بیس تیس سال میں معاملات نئی نسل کے ہاتھ میں ہوں گے۔جیک لیو کے مطابق بائڈن اس نسل کا آخری صدر تھا جو اسرائیل کے قیام کے بیانیے کے زیر اثر بڑی ہوئی۔ اب بیانیہ بدل رہا ہے۔

    نیا بیانیہ کیا ہے؟ نیا بیانیہ یہ ہے کہ امریکہ میں ایک تہائی یہودی ٹین ایجرز فلسطینی مزاحمت کی تائید کر رہے ہیں۔ 42 فی صد ٹین ایجر امریکی یہودیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نسل کشی کا جرم کر رہا ہے۔ 66 فی صد امریکی ٹین ایجر یہودی فلسطینی عوام سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ کیا یہ کوئی معمولی اعدادوشمار ہیں؟غزہ نے اپنی لڑائی اپنی مظلومیت اور عزیمت کے امتزاج سے لڑی ہے ورنہ مسلم ممالک کی بے نیازی تو تھی ہی، مسلمان دانشوروں کی بڑی تعداد نے بھی اپنے فیس بک اکاؤنٹ کی سلامتی کی قیمت پر غزہ کو فراموش کر دیا تھا۔

    اسرائیل کا مظلومیت کا جھوٹا بیانیہ تحلیل ہو چکا ہے۔دنیا کے سب سے مہذب فاتح کی کوزہ گری کرنے والی فقیہان ِ خود معاملہ طفولیت میں ہی صدمے سے گونگے ہو چکے۔ مرعوب مجاورین کا ڈسکو کورس منہدم ہو چکا ہے۔انکے جو ممدوح مزاحمت کو ختم کرنے گئے تھے، اسی مزاحمت سے معاہدہ کر کے لوٹ رہے ہیں۔ جدوجہد ابھی طویل ہو گی، اس سفر سے جانے کتنی مزید عزیمتیں لپٹی ہوں، ہاں مگر مزاحمت باقی ہے، باقی رہے گی۔مزاحمتیں ایسے کب ختم ہوتی ہیں؟
    ڈیوڈ ہرسٹ نے کتنی خوب صورت بات کی ہے کہ غزہ نے تاریخ کا دھارا بدل دیاہے۔

  • تہور رانا کی حوالگی: سفارتی کامیابی یا ایک اور فریب – افتخار گیلانی

    تہور رانا کی حوالگی: سفارتی کامیابی یا ایک اور فریب – افتخار گیلانی

    حال ہی میں نومبر 2008کے ممبئی حملوں میں ملوث پاکستانی نژاد کینیڈا کے شہری تہور حسین رانا کی امریکہ سے ہندوستان حوالگی ایک بڑی سفارتی کامیابی گر دانی جار ہی ہے۔ مگر بڑا سوال ہے کہ کیا اس حوالگی سے ممبئی حملوں کی پلاننگ وغیر کے حوالے سے ٹوٹے ہوئے تار جوڑنے میں مدد ملے گی؟

    عوامی یادداشت انتہائی کمزور ہوتی ہے۔ اگر یہ کمزور نہ ہوتی، تو یقیناًسوال پوچھا جاتا کہ 25جون 2012ء کی اسی طرح ہندوستانی ایجنسیوں نے ذبیح الدین انصاری عرف ابو جندل کو سعودی عرب سے لانے میں جب کامیابی حاصل کی تھی، تو ان تیرہ برسوں میں کیس میں کس قدر پیش رفت ہوئی ہے؟

    اس وقت بھی بالکل اسی طرح کا ڈھونڈورا پیٹا گیا تھا کہ اب ممبئی حملوں کی پوری سازش بے نقاب ہو جائےگی۔ 2008ء سے ہی بتایا جاتا تھا کہ مہاراشٹر کے بیہڑ ضلع کے رہائشی انصاری ہی حملوں کے وقت کراچی میں قائم کنٹرول روم سے حملہ آوروں کو گائیڈ کر رہا تھا۔مگر 2016ء میں عدالت نے اس کو 2006ء میں اورنگ آباد کے اسلحہ برآمدگی کیس میں سزا سنائی۔ ممبئی حملوں کے سلسلے میں اس کی ٹرائل کی اب خبر بھی نہیں آرہی ہے۔

    ہندوستان کے اقتصادی مرکز ممبئی پر ہونے والا دہشت گرد حملہ اس لحاظ سے منفردتھاکہ اس سے دو ماہ قبل ہی پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں میرٹ ہوٹل پر خود کش ٹرک حملہ میں پچاس سے زائد افراد ہلاک ہوچکے تھے، جن میں تین امریکی شہری بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ امریکی سی آئی اے اور ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں جیسے انٹلی جنس بیورو، ریسرچ اینڈ انیلیسز ونگ(را)سمیت تقریباً سبھی خفیہ اداروں حتیٰ کہ ممبئی پولیس اور پانچ ستارہ ہوٹل تاج کی انتظامیہ کو بھی ا ن حملوں کی پیشگی اطلاع تھی۔ دو برطانوی صحافیوں اڈرین لیوی اور کیتھی اسکارٹ کلارک کی تحقیق پر مبنی کتاب ”دی سیج” کے مطابق، اس حملے سے پہلے ایک سال کے دوران مختلف اوقات میں چھبیس اطلاعات ان اداروں کوموصول ہوئیں جن میں ان حملوں کی پیشن گوئی کے علاوہ حملہ آوروں کے راستوں کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔ خفیہ معلومات اس حد تک واضح تھیں کہ اگست2008 ء میں جب ممبئی پولیس کے ایک افسر وشواس ناگرے پا ٹل نے شہر کے فیشن ایبل علاقے کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کا چارج سنبھالا تو ان کی نظر اس خفیہ فائل پر پڑی جس میں نہ صرف حملوں کا ذکر تھا بلکہ اس کے طریق کار پر بھی معلومات درج تھیں۔ ان اطلاعات کا ماخذ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے تھی۔آئی بی کے ایک مخبر کی طرف سے بھیجی گئی پل پل کی اطلاعات بھی موجود تھیں جن میں حملے کے لیے تاج ہوٹل کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس افسر نے فوراً تاج ہوٹل کی انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ وہ معقول حفاظتی انتظامات کا بندوبست کریں۔ اسلام آبادکے میریٹ ہوٹل میں دھماکہ اور اکتوبر میں دوبارہ اسی طرح کی خفیہ معلومات ملنے کے بعد پاٹل نے تاج ہوٹل کی سکیورٹی کے ساتھ گھنٹوں کی ریہرسل کی،کئی دروازے بند کروائے اور اس کے ٹاور کے پاس سکیورٹی پکٹ قائم کی۔ ان انتظامات کے بعد پاٹل چھٹی پر چلے گئے۔اس دوران تاج ہوٹل کی انتظامیہ نے نہ صرف حفاظتی بندشیں اورسکیورٹی پکٹ ہٹوا دیں۔ بتایا گیا کہ حفاظت پر مامور حفاظتی اہلکار دوران ڈیوٹی ہوٹل کے کچن سے کھانا مانگ رہے ہیں۔ اتنی واضح خفیہ اطلاعات اور ریہرسل تک کے باوجود ہندوستانی سکیورٹی ایجنسیوں نے ان حملوں کو روکنے کی پیش بندی کیوں نہیں کی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے جس سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔

    یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ دو سال کے تعطل کے بعد جولائی2006ء میں ممبئی ٹرین دھماکوں اوربعد میں سمجھوتہ ایکسپریس پرکیے گئے حملوں کے بعدپاکستان اورہندوستان باہمی تعلقات معمول پر لانے کی سعی کر رہے تھے۔ جس وقت ممبئی میں حملہ ہوا، عین اسی وقت پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اپنے ہندوستانی ہم منصب پرنب مکھرجی کے ساتھ نئی دہلی کے حیدر آباد ہاؤس میں محوگفتگو تھے اور ہندوستانی سکریٹری داخلہ مدھوکر گپتا پاکستان میں تھے۔

    اس کتاب میں حملے کے محرک پاکستانی نژاد امریکی شہری ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے کردار اور پس منظر پر خاصی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے مطابق ہیڈلی دراصل امریکی انسداد منشیات ایجنسی اور سی آئی اے کے مخبر کے طور پر کام کرتاتھا۔ ڈرگ انفورسمنٹ کے لیے اطلاعات فراہم کرنے اور ہیروئن حاصل کرنے کے لیے ہیڈلی نے جب 2006 ء میں افغانستان سے متصل سرحدی قبائلی علاقوں کا دورہ کیا تھا۔ امریکہ کو اندیشہ تھا کہ القاعدہ کے جنگجو لشکر کی صفوں میں داخل ہوگئے ہیں جن کے ذریعے اسامہ بن لادن تک پہنچا جاسکتا ہے۔

    ممبئی میں یہودیوں کے مرکز ’شباڈ ہاؤس‘ پرحملے کے لیے لشکر کی اعلیٰ قیادت تیار نہیں تھی، کیونکہ ان کو علم تھا کہ اس سے وہ عالمی جہاد کا حصہ بن کر القاعدہ اور طالبان کی طرح برا ہ راست امریکی اوردیگر مغربی طاقتوں کا نشانہ بن جائیں گے،لیکن ان تفتیشی صحافیوں کے مطابق کیمپ میں مقیم زیرتربیت اٹھارہ ہندوستانی جنگجوؤ ں کے اصرار پر شباڈ ہاؤس کو ٹارگٹ لسٹ میں شامل کرلیا گیا۔ان میں ذبیح الدین انصاری عرف ابوجندل بھی شامل تھا۔ صوبہ مہاراشٹر میں انصاری کوجاننے والوں کا کہنا ہے کہ وہ ضلع بیہڑ کے پولیس ہیڈکوارٹر میں بطورالیکٹریشن اورمقامی مخبرکام کرتا تھا۔انسداد دہشت گردی سیل کے سربراہ کے پی رگھونشی جب ایک بار ضلع کے دورہ پر تھے، تو اس کو اپنے ساتھ لے گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ 2006ء میں اسی صوبے کے شہر اورنگ آباد میں اسلحے کے ایک بڑے ذخیرے کو پکڑوانے میں انصاری نے کلیدی کردار ادا کیا،جس کے بعد وہ روپوش ہوکرلشکر میں شامل ہوگیا۔اسی کیس میں اس کو سزا بھی ہوگئی ہے۔

    ادھر امریکہ اورپاکستان میں ہیڈلی کی گرل فرینڈز، بیوی اوردوسرے اہل خانہ اس کی مشکوک سرگرمیوں کے بارے میں خدشات ظاہرکررہے تھے۔ پاکستان میں مقیم اس کی بیوی فائزہ نے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ جاکربھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا اوراصرار کیا کہ اس کے شوہر کی وقتاً فوقتاً ممبئی جانے اوروہاں اس کی مصروفیات کی تفتیش کی جائے، مگر سفارت خانہ کے افسروں نے اس کی شکایت کو خانگی جھگڑاقرار دے کر فائل داخل دفترکردی۔

    دوسری جانب خفیہ اطلاعات کے باوجود ہندوستان کی سکیورٹی انتظامیہ کی لاپرواہی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب نیشنل سکیورٹی گارڈز (این ایس جی) نے دہلی سے متصل ہریانہ میں اپنے ہیڈکوارٹرسے حملوں کے بیس منٹ بعد ہی نقل و حرکت شروع کی تو کابینہ سکریٹری اور بعد میں وزارت داخلہ کے ایک جوائنٹ سکریٹری نے فون کرکے انھیں متنبہ کیا کہ وہ احکامات کے بغیرنقل و حرکت کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس تنبیہ کے ستر منٹ بعد وزارت داخلہ نے انھیں بتایا کہ صوبائی وزیراعلیٰ نے این ایس جی کی مدد مانگی ہے، اس لیے وہ فوراً ممبئی روانہ ہوجائیں مگر ائیر پورٹ جاکر معلوم ہوا کہ ہندوستانی فضائیہ کا ٹرانسپورٹ طیارہ ابھی کئی سو کلومیٹر دور چندی گڑھ میں ہے۔ کمانڈو یونٹ کے سربراہ جیوتی دتہ نے را ء سے ان کا خصوصی طیارہ مانگا تو پتہ چلا کہ اس کا عملہ غائب ہے اور جہاز میں ایندھن بھی نہیں ہے۔آدھی رات کے بعد جب دستہ طیارے میں سوار ہوا توان کو بتایا گیا کہ وزارت داخلہ کے چند افسر بھی ان کے ہمراہ جارہے ہیں، اس لیے ان کا انتظار کیا جائے۔ بالآخر جب طیارہ اگلے دن صبح ممبئی پہنچا تو افسرکو لینے کے لیے چمچاتی اور لال بتی والی گاڑیاں موجود تھیں، مگر کمانڈو دستوں کو لے جانے کے لیے کوئی ٹرانسپورٹ نہیں تھی۔ اس عرصے کے دوران تاج اور اوبرائے ہوٹلوں کے علاوہ یہودی مرکز پر جنگجوؤں نے مکمل کنٹرول حاصل کرلیا تھا اور سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن چکے تھے۔

    ان حملوں سے دو سال قبل18فروری 2007ء کی شب دہلی اور لاہور کے درمیان چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس کے دو ڈبے تاریخی شہر پانی پت کے نزدیک دھماکوں سے اڑ گئے۔ 68 اموات میں اکثر پاکستانی شہری تھے۔ ابتدائی تفتیش میں ہندوستانی ایجنسیوں نے ان دھماکوں کے تار بھی مسلم نوجوانوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی، چند ایک کو حراست میں بھی لیا۔ میڈیا میں انڈین مجاہدین اور پاکستان میں سرگرم کئی تنظیموں کا بھی نام لیا گیا۔ مگر چند دیانت دار افسران کی بدولت اس دھماکہ میں ایک ہندو انتہا پسند تنظیم’ ابھینوبھارت‘ کے رول کو بے نقاب کیا گیا۔سب سے زیادہ خطرے کی گھنٹی اس وقت بجی جب نومبر 2008ء میں ملٹری انٹیلی جنس کے ایک حاضر سروس کرنل پرساد سری کانت پروہت کے رول کی نشاندہی کرکے اس کو گرفتار کیا گیا۔ اگلے دو سالوں میں نیشنل انویسٹی گیٹنگ ایجنسی (این آئی اے) نے سوامی اسیما نند اور ایک انجینئر سندیپ ڈانگے کو بھی حراست میں لے لیا۔ اسی دوران راجستھان کے انٹی ٹیررسٹ اسکواڈ کے 806 صفحات پر مشتمل فرد جرم میں انکشاف کیاگیاکہ فروری 2006ء میں ہندو انتہا پسندوں نے وسطی ہندوستان کے ایک شہر اندور میں سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے کی سازش تیار کی تھی۔ اس میٹنگ میں ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوک سیوم سنگھ(آر ایس ایس) کے مقتدر لیڈر اندریش کمار بھی موجود تھے۔ اس سے قبل ان کا نام اجمیر شریف کی درگاہ میں ہوئے دھماکہ کی سازش میں بھی آیا تھا۔مگر ان کی کبھی دوران حراست تفتیش نہیں ہوئی۔ 12 فروری 2012ء میں این آئی نے آر ایس ایس کے کارکنوں راجندر پہلوان، کمل چوہان اور اجیت چوہان کر گرفتار کیا۔ ایجنسی کے بقول ان تین افراد نے ہی ٹرین میں بم نصب کیے تھے۔

    گو کہ ہندوستان میں سرکاری ایجنسیاں دہشت گردی سے متعلق واقعات کے تار آنکھ بند کیے مسلمانوں سے جوڑتی آرہی ہیں، مگر 29 ستمبر 2008ء کو مہاراشٹر کے مالیگاؤں شہر کے ایک مسلم اکثریتی علاقہ میں ہوئے دھماکوں اور اس میں ملی لیڈز نے مہاراشٹر کے اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ کے سربراہ ہیمنت کرکرے کو چونکا دیا۔ ایک غیر جانبدارانہ تفتیش کے بعد اس نے ہندو دہشت گردی کا بھانڈا فاش کیا۔ کرکرے ممبئی حملوں میں دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے، جس کے بعد یہ تفتیش مرکزی ایجنسی این آئی اے کے سپر د کی گئی۔ اس کے بعد تو حیدرآباد کی مکہ مسجد، اجمیر درگاہ، سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں کے تار ہندو دہشت گردی سے جڑتے گئے۔ جب کرکرے نے یہ نیٹ ورک بے نقاب کیا تھا تو بی جے پی اور شیو سینا کے متعدد رہنماؤں نے ان کے خلاف زبردست شور برپا کیا اور انہیں ’ملک کا غدار‘ قرار دیا تھا۔ بہرحال کرکرے کی تحقیق کا یہ نتیجہ نکلا کہ دہشت گردانہ واقعات کے بارے میں جو عمومی تاثر پید اکردیا گیا تھا، وہ کچھ حد تک تبدیل ہوا کہ اس کے پشت پر وہ عناصر بھی ہیں جو اس ملک کوہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں۔ ابتداء میں ان واقعات میں معصوم مسلم نوجوانوں کو ماخوذ کرکے انہیں ایذائیں دی گئیں اور کئی ایک کو برسوں تک جیلوں میں بند رکھا گیا۔

    ایک معروف صحافی لینا گیتا رگھوناتھ نے کانگریسی حکومت کی ہند و دہشت گردی کے تئیں’ نرم رویہ‘ کو افشاں کیا تھا۔ لینا کے بقول تفتیشی ایجنسیوں کے ایک افسر نے انھیں نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وزارت داخلہ کو سونپی گئی ان خفیہ رپورٹوں کے مطالعے کی اجازت دی تھی۔ ان رپورٹوں میں مرکزی وزارت داخلہ سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ وہ آر ایس ایس کو ایک شو کاز (وجہ بتاؤ) نوٹس جاری کرے کہ اس کے خلاف جو شواہد اور ثبوت ہیں کیوں نہ ان کی بنیاد پر اسے غیر قانونی اور ممنوع قرار دیا جائے؟ مہاراشٹر کی اس وقت کی کانگریس کی قیادت میں مخلوط حکومت نے بھی ابھینو بھارت اور دیگر ہندو انتہا پسند تنظیموں کو غیر قانونی قرار دینے کی سفارش کی تھی لیکن اس پر مرکزی حکومت نے عمل نہیں کیا۔

    خیر اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا تہور حسین رانا کی حوالگی سے ممبئی حملوں کے باقی تار جڑ جائیں گے یا اس کو بس گودی میڈیا کے ذریعے ڈھنڈورا پٹوانے کا کام کیا جائےگا۔ کئی تجزیہ کارو ں کا کہنا ہے کہ رانا کو موت کی سزا دے کر ہی اب اگلا عام انتخاب لڑا جائےگا۔ ویسے عوامی یاداشت اتنی کمزور تو ہے ہی کہ انصاری کی حوالگی جس طرح اب یادداشت سے محو ہو چکی ہے، چند سال بعد رانا کی حوالگی کو بھی عوام بھول جائیں گے۔ میڈیا جو ایک زمانے میں سوال پوچھتا تھا، وہ اب حکومت کا احتساب کرنے سے کتراتا ہے، خاص طور پر جب قومی سلامتی کا معاملہ ہو۔

  • وہ لڑکی ابتہال ابو سعد جو دنیا کو جینا سکھا گئی! حافظ یوسف سراج

    وہ لڑکی ابتہال ابو سعد جو دنیا کو جینا سکھا گئی! حافظ یوسف سراج

    وہ جوان مراکشی لڑکی تھی، امنگوں اور ارمانوں بھرے دل والی، امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے پڑھی ہوئی،جہاں سے پڑھنا دنیا کے کسی بھی فرد کا خواب ہو سکتا ہے۔اسے دنیا کے امیر ترین شخص کی مشہور ترین کمپنی میں جاب مل چکی تھی، ایک ایسی اچھی جاب، جیسی اچھی جاب پانے کیلئے دنیا بس خواب دیکھ سکتی تھی، وہ کمپیوٹر انجینئر تھی اور اسے بل گیٹس کی کمپنی مائیکروسافٹ میں جاب مل گئی تھی،دو ہزار ڈالر ماہانہ تنخواہ تھی، آگے ترقی کا زینہ تھا، سیکیور جاب تھی، ہر طرح کی سہولت حاصل تھی اور اس دن کمپنی کی پچاسویں سالگرہ تھی،کمپنی کے چنیدہ لوگ واشنگٹن کے اس ہال میں خوشیوں اور کامیابیوں کی کہانی کہنے کو موجود تھے۔

    یہ اے آئی سیکشن تھا۔ وہی مصنوعی ذہانت جس نے دنیا بدل کے رکھ دی، وہ اسی اہم اور دنیا کا مستقبل بدل دینے والے ڈیپارٹمنٹ کی اہم رکن تھی، اسی لیے تو یہاں موجود تھی،پھر اس ڈیپارٹمنٹ کا سی ای او سٹیج پر آیا ، جہاں مشہور ارب پتی بل گیٹس اور کئی دیگر اہم عالمی شخصیات موجود تھیں۔

    یہاں ایک شخص مصطفٰی بھی تھا، یہ مسلمان اور شامی تھا اور ایسا باصلاحیت کہ اس مشہور کمپنی کے اہم ترین ڈیپارٹمنٹ کا سی ای او تھا۔ اس نے بتانا شروع کیا کہ کس طرح سے مائیکروسوفٹ کی تخلیق کردہ اے آئی انسانیت کی خدمت سر انجام دے رہی ہے۔ یہی وقت تھا جب مراکشی لڑکی ابتہال کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑا۔ وہ اپنی سیٹ سے اٹھی اور سروقد کھڑی ہوگئی۔اس نے بولنا شروع کیا، اور جب یہ دھان پان سی مراکشی لڑکی بولی تو وہاں سناٹا چھا گیا، بل گیٹس کو اس کا سامنا کرنے کی جرات نہ ہوئی، اس نے سامعین سے رخ پھر لیا اور دوسری دیکھنے لگا، یہ لڑکی بولی اور بولتی چلی گئ۔ بولتے بولتے اس نے سٹیج کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔ اس نے کہا، مصطفی تمھیں شرم آنی چاہیے، تم انسانیت کی خدمت کا نام لیتے ہو،جبکہ تمھاری بنائی اسی اے آئی نے اسرائیل کو کوڈز کے ذریعے یہ سہولت دے رکھی ہے کہ وہ فلسطینی بچوں پر بم برسا سکیں، تم ہمارے بچوں کے قتل میں شریک ہو، تمھارے ہاتھ ان معصوم بچوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، مصطفی تمھیں اس کامیابی پر شرم نہیں آتی، جو دنیا کے سب سے بے بس، بے سہارا اور بے آسرا چھوڑ دئیے گئے بچوں کو قتل کیلئے ڈھونڈنے میں مدد کر رہی ہے۔ چن چن کے ان کی سانسیں چھین رہی ہے، جذبات میں آئی ظالموں کی طرف انگلی اٹھائے معصوم سی یہ لڑکی فولاد بنی ڈٹ کے بولتی اور مصطفی کو عار دلاتی رہی،مصطفی! شام میں تمھارے گھر والے بھی جان جائیں گے کہ تم کس کام میں ملوث ہو۔

    اسی دوران سیکیورٹی اہلکار آگے بڑھی، اس نے اسے سٹیج پر جانے سے روکا، زبردستی باہر کی طرف دھکیلا اور بالآخر اسے ہال سے باہر نکال دیا گیا، اس سے پہلے یہ فلسطینی رومال سٹیج کی طرف پھینک چکی تھی۔ یہ اپنا فرض ادا کر چکی تھی،یہ دنیا کو بتا چکی تھی کہ بظاہر دنیا بدل دینے والے،دنیا کو پولیو کے قطروں کے تحفے دے کر مسیحا بننے والے دراصل اندر سے کتنے کالے اور کتنے قاتل ہیں۔

    لیکن یہ فریضہ ادا کرنے کی ایک قیمت تھی، بھاری قیمت! اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس معطل کر دیئے گئے، اسے جاب سے نکال دیا گیا، اسے تمام آئی ٹی کمپنیز میں بین کر دیا گیا۔ اس کا روشن مستقبل جس کے پیچھے اس کے ماضی کی طویل جدوجہد،پیسہ اور صلاحیت تھی، پل بھر میں جل کر سب خاک ہوگیا، یہ اپنی اور اپنے مستقبل کی قیمت پر مگر پوری دنیا کو مغرب ،اس کی ترقی ،اس کی ماڈرن کمپنیز اور ان کی خدمت انسانیت کی اصلیت بتا چکی تھی۔وہ بس یہی کر سکتی تھی اور بڑی ہمت سے کر گزری تھی، اس نے اس میں کوئی کوتاہی یابخل نہ کیا تھا۔

    وہ نہ کسی ملک کی حکمران تھی اور کسی ایٹمی ملک کی سپہ سالار، اس کے پاس بس اپنا تن بدن تھا اور اپنا سنہرا مستقبل تھا، اک زبان تھی اور کلمہ حق کہنے کا اک موقع۔۔ وہ سب قرباں کرکے بھی یہ کر گزری تھی۔۔ یہ تو حکمران ہیں، جن کے پاس سو عذر اور سو بہانے ہیں، اور یہ ہم ہیں، جن کے پاس قاتلوں کو تقویت پہنچاتی پراڈکٹس کا بائیکاٹ تک نہ کرنے کے کئی عذر اور کئی بہانے ہیں۔ اس نے جاب اور مستقبل ہی نہیں زندگی تک خطرے میں ڈال کے سب چھوڑ دیا اور ہم فلسطین سے محبت کے وہ دعویدار نکلے جو کولا کا ذائقہ تک نہیں چھوڑ سکتے، جو ان کمپنیز سے وابستہ اپنا جھوٹا اور جعلی سٹیٹس بھی نہیں چھوڑ سکتے۔ فلسطینیوں پر جو بھی گزرے ، ہم تو بس یہ سب پینا اور جینا چاہتے ہیں، خواہ ہمیں یہ فلسطینی بچوں کے خون کی قیمت پر ہی پینا اور جینا پڑے۔ رائلٹی،میٹریل اور دیگر مدات میں اربوں روپے ان کمپنیز کو بے شک پہنچتے رہیں، جو انسانی ضمیر،انسانی اصول اور انسانی اقدار کی قاتل ہوں،لیکن ہم کہتے ہیں،اس کاروبار میں ہمارے اپنے بھی تو شریک ہیں۔ افسوس ابتہال کو پتہ نہ تھا کہ جس میں اپنا بھی فائدہ ہو، اس کام میں اپنوں کے لاشے گرانے میں شریک ہوا جا سکتا ہے۔ اور یہ بات انڈیا کی وانیا اگر وال بھی نہ جانتی تھی، جس نے اسی کمپنی کے اگلے سیشن میں یہی عمل دہرایا، صدائے احتجاج بلند کی اور جاب کھو دی۔

    یہ لڑکیاں تھیں ،سو کر گزریں، ہم مرد ہیں، سو ذائقے اور کاروبار بچا رہے ہیں۔ اور ہمیں فلسطین سے بڑی محبت ہے اور فلسطین کے آسمان چھوتے لاشوں پر بھی ہمارا دل روتا ہے۔

  • کولمبیا یونیورسٹی، آزادیِ اظہار اور امریکی خارجہ پالیسی – محمد دین جوہر

    کولمبیا یونیورسٹی، آزادیِ اظہار اور امریکی خارجہ پالیسی – محمد دین جوہر

    ٹرمپ حکومت نے کولمبیا یونیورسٹی کو باقی امریکی یونیورسٹیوں، میڈیا اور اہل علم کے لیے جس طرح نشانِ عبرت بنایا ہے، وہ قابل دید ہے۔ اس آئیوی لیگ یونیورسٹی نے فوراً گھٹنے ٹیک دیے اور ٹرمپ حکومت کے سیاسی ایجنڈے کی پیروی پر آمادگی ظاہر کر کے عافیت طلب ہوئی۔ اس سے امریکی معاشرے میں قائم سرمائے اور طاقت کے نظام میں گہری تبدیلیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس تبدیلی کو مختصراً مغربی تہذیب میں ”فسطا.ئیت کی واپسی“ کے زیرعنوان بیان کیا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ حکومت نے یونیورسٹی پر چار سو ملین ڈالر گرانٹ کے حصول کی جو شرائط عائد کیں وہ ساری کی ساری تسلیم کر لی گئی ہیں۔ اب وہاں ”علم“ طاقت کی نئی ترجیحات پر تشکیل دیا جائے گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پہلے وہاں علم کسی آزاد قدرِ اعلیٰ میں کوئی بنیاد رکھتا تھا، بلکہ وہ علم ٹرمپ/ری پبلکن مخالف سیاسی ترجیحات پر تشکیل دیا جاتا تھا، اور ٹرمپ انقلاب اصلاً ڈیموکریٹ سیاسی اور ثقافتی ترجیحات کے خلاف سفید فام امریکا کے رد عمل ہی کو ظاہر کرتا ہے۔ ٹرمپ حکومت نے امریکی یونیورسٹیوں کو بتا دیا ہے کن علمی موضوعات پر دادِ تحقیق دی جا سکے گی اور کون سے موضوعات ممنوع ہوں گے۔ کولمبیا کے بعد اب کسی اور یونیورسٹی سے اس امر کی کوئی امید نہیں کہ وہاں علم کی تشکیل اور اس کے اظہار میں امریکی حکومت کی نئی سیاسی ترجیحات کو نظرانداز کیا جا سکے گا۔

    امریکی یونیورسٹیوں پر ٹرمپ دھاوے کی بنیادی وجہ وہ مظاہرے ہیں جو وہاں زیر تعلیم طلبا نے غ.ز.ہ میں نسل کشی کے خلاف کیے اور کئی جگہوں پر اساتذہ نے بھی اپنے طلبا کا بھرپور ساتھ دیا۔ ٹرمپ حکومت کا خیال ہے کہ دراساتِ مشرق وسطیٰ، شرقی مطالعات اور بعض ثقافتی موضوعات کا رخ درست نہیں جس کی وجہ سے اسر.ا.ئیل کے خلاف علمی اور ثقافتی فضا ہموار ہوئی ہے اور بعض ناپسندیدہ سماجی رویے عام ہوئے ہیں۔ بنیادی الزام سام دشمنی (اینٹی سیماٹزم) کا ہے جسے فرانس کی طرح، اب امریکہ میں صہیونیت دشمنی (اینٹی زائنزم) کے مساوی بنا دیا گیا ہے۔ یعنی مجرد اسر.ا.ئیل کے خلاف بات کرنے کو اب سام دشمنی قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی میں ایک بہت بڑی تبدیلی آئی ہے جس میں کینیڈا پر قبضے (annexation)، گرین لینڈ اور پانامہ کینال کے غصبی ایجنڈے کو حیرت انگیز انداز میں آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ایران، حز.ب ا.للہ اور ح.م.ا.س کے بارے میں جس طرح کی گفتگو کی جا رہی ہے اس میں سفارت کاری کا واہمہ بھی پیدا نہیں ہوتا۔ نئی صورت حال میں امریکہ کے اندر ایسے مراکز جو اس پالیسی پر تنقید کرتے ہیں یا اس سے اختلاف رکھتے ہیں، ٹرمپ حکومت کی زد میں ہیں۔ ایسے میڈیا چینلز اور ادارے جو ٹرمپ کی مخالفت کرتے رہے ہیں اس وقت بہت زیادہ دباؤ میں ہیں۔

    حالیہ دنوں میں صرف امریکی یونیورسٹیاں ہی زیر عتاب نہیں آئیں بلکہ پورا وفاقی محکمہ تعلیم ہی ادھیڑا جا رہا ہے اور اس امر کا امکان ہے کہ اسے ختم ہی کر دیا جائے۔ اسکولی تعلیم کو بھی سرمایہ داروں کے فائدے کے لیے بگ فارما کی طرز پر ازسرِ نو منظم کیے جانے کے قوی امکانات ہیں۔ موجودہ امریکہ ویامر جرمنی سے مماثل نظر آتا ہے جس نے اڈولف ہٹلر کی فسطا.ئیت کو جنم دیا تھا۔ نا.تسی فسطا.ئیت نے بتدریج طاقت، سرمائے اور فکر کے تمام مراکز پر اپنا تسلط قائم کر لیا تھا اور پھر یہ ایک عفریت بن کر اہل یہود اور یورپ پر پِل پڑی تھی۔ اس وقت امریکہ میں درنقاب ریاست (deep State) (یعنی بے چہرہ سول اور ملٹری بیوروکریسیوں) کو مکمل طور پر کھدیڑ دیا گیا ہے اور ہر جگہ ایسے لوگوں کو تعینات کیا گیا ہے جو ریاست کی بجائے ٹرمپ کے لیے کام کرنے پر تیار ہوں۔ مجھے اس بات کے واضح امکانات نظر آ رہے ہیں کہ ۶/ جنوری سنہ ۲۰۲۱ء کو ٹرمپ کے حامیوں نے کیپیٹل ہل پر قبضے کی جو کوشش کی تھی اس کی اب ضرورت نہیں ہو گی کیونکہ یہ کام ابھی سے زیادہ منظم طریقے پر شروع ہو گیا ہے۔ ٹرمپ اگر تیسری مرتبہ برسر اقتدار آنے کے لیے قانون سازی نہ کر سکا تو امکان ہے وہ اقتدار منتقل کرنے سے ہی انکار کر دے۔

    فسطائیت کی اساس نسل پرستی ہے اور جرمنی میں اس کا سیاسی نام نیشنل سوشلزم تھا۔ ٹرمپ جس فسطا.ئیت کا علمبردار ہے وہ بھی سفید فام نسل پرستانہ اساس رکھتی ہے اور اس کے پیچھے انجیلی صہیونیت (ای.وین.جیلی.کل زائیا.نزم) کام کر رہی ہے۔ امریکہ میں پہلی دفعہ ایسی حکومت برسر اقتدار آئی ہے جس میں امریکی صدر کی کابینہ اور اس کے ارد گرد کام کرنے والے سو فیصد لوگ اسی نظریے سے تعلق رکھتے ہیں اور امریکہ سے زیادہ اسر.ا.ئیلی مفادات کو اولیت دیتے ہیں۔ یہ فکری اور سیاسی صورت حال اور سرمائے کے قومی اور بین الاقوامی مفادات نتیجہ خیز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ٹرمپ نے اپنے پرانے اتحادیوں کے ساتھ رو رعایت برتنے سے بھی صاف انکار کر دیا ہے، اور دنیا بھر کے سیاسی لیڈر اور دانشوران یہ بات کر رہے ہیں کہ وہ دنیا جو جنگ عظیم دوم کے بعد خود امریکی قیادت میں وجود پذیر ہوئی تھی اب ختم ہو گئی ہے اور ایک نئی دنیا ابھر رہی ہے۔ بیسویں اور اکیسویں صدی کی فسطا.ئیت میں ایک بہت بنیادی فرق یہ ہے کہ اول الذکر یورپ کی خانہ جنگی کی صورت میں ظاہر ہوئی جبکہ مؤخر الذکر کا منصۂ شہود بین الاقوامی نظام ہے۔

    کولمبیا یونیورسٹی کے معاملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ حکومت اپنے سیاسی ایجنڈے کو سخت گیر معاشی پالیسیوں اور براہ راست جنگی کاروائی سے آگے بڑھانا چاہتی ہے۔ ٹیرف جنگ ہی کی ایک قسم ہے۔ یاد رہے کہ اس طرح کی سخت گیر معاشی پالیسی اصل جنگ میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔ دوسرے لفظوں میں سیاسی اور معاشی پالیسیوں کی اساس اگر نسل پرستی یعنی فسطا.ئیت ہو تو اسے حقیقی جنگ کا پیش خیمہ ہی ثابت ہوتی ہے۔ جرمن فسطا.ئیت اصلاً جنگ عظیم اول کا معاشی نتیجہ تھی اور آگے چل کر اس سے بھی بڑی جنگ کی سبب بنی۔ اس تناظر میں ٹرمپ کو امن پسند قرار دینا محض خوش فہمی ہے۔ داخلی طور پر ٹرمپ حکومت طاقت کے مراکز پر نہایت بے رحمی سے قبضہ جما رہی ہے اور خارجی طور پر اس نے ایسے جارحانہ اقدامات کیے ہیں جو ناگزیر طور پر کسی بڑی جنگ پر منتج ہوں گے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ روس سے مفاہمت اور چین سے مخاصمت کی ٹرمپ پالیسی کامیاب نہیں ہو گی۔ گزشتہ صدی کی فسطا.ئیت جنگ اور ہولو.کاسٹ دونوں کا باعث بنی تھی، اور موجودہ فسطا.ئیت مشرق وسطیٰ کو جنگ اور ہولو.کاسٹ کا ہدف بناتی نظر آ رہی ہے۔

    مشرق وسطیٰ میں کچھ ممالک مردہ اور کچھ نیم مردہ ہیں۔ ایران، ترکی اور مصر نیم مردہ طاقتیں ہیں، اور باقی معاشرے تدفین کے منتظر ہیں۔ کسی مسلم معاشرے کا مردہ سے نیم زندہ بننا بھی مغرب کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ عراق اور شام کے خاتمے کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی کہ وہاں کے معاشرے کچھ نہ کچھ عسکری طاقت رکھتے تھے۔ تھوڑی بہت عسکری طاقت کے ساتھ ایران، ترکی اور مصر کا وجود مغرب اور اسرائیل کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ غ.ز.ہ کی جنگ بندی جس طرح محض ایک دھوکا ثابت ہوئی ہے، وہ آنے والے دنوں کے بارے میں بہت کچھ بتا رہی ہے۔ اکیسویں صدی کی مسلم ہو.لو.کا.سٹ کا وقت ہوا چاہتا ہے، اور ٹرمپ حکومت کا اگلے چار سال کا بنیادی ایجنڈا بھی یہی دکھائی دیتا ہے۔

  • دل پھر دل ہے،غم پھر غم ہے – سید وقاص جعفری

    دل پھر دل ہے،غم پھر غم ہے – سید وقاص جعفری

    [poetry]دل پھر دل ہے،غم پھر غم ہے
    رو لینے سے کیا ہوتا ہے[/poetry]
    پاکستان کی تمام دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں، امریکہ مخالف ہونے کی دعویدار ہیں اور اس بنیاد پر کبھی نہ کبھی ووٹ حاصل کرتی آئی ہیں۔ اس ضمن میں ہر جماعت کا اپنا ہوم ورک ہے اور اس کے پاس عملی واقعات کی مثالیں بھی موجود ہیں، جنھیں جابجا حسب ضرورت بیان کیا جاتا ہے تا کہ عوام میں پائے جانے والے پاکستانی نیشنلزم کے جذبات کو اپنے حق میں استعمال کیا جا سکے۔

    مثلاً اس وقت حکمران جماعت یعنی مسلم لیگ ن کا دعویٰ ہے کہ اس نے 1998ء میں ایٹمی دھماکے کرتے ہوئے شدید امریکی دباؤ برداشت کیا۔ 11 مئی کو ہندوستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان نے جواب دینے کا فیصلہ کیا تو فوراً صدر بل کلنٹن نے نواز شریف سے رابطہ کیا۔ 28 مئی کو پاکستان کے دھماکوں تک بل کلنٹن کی جانب سے پانچ دفعہ وزیراعظم کو فون کیا گیا جبکہ جاپانی وزیر اعظم نے بھی اپنا نمائندہ یہاں بھیجا۔ پاکستان کو ہر طرح کی دفاعی ضمانتیں اور مراعات پیش کی گئیں جبکہ انکار کی صورت میں شدید ردعمل کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ اس سب کے باوجود چونکہ یہ پاکستان کی بقا کا مسئلہ تھا اس لیے بہر صورت ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کو اپنے جوہری طاقت ہونے کا ثبوت دے دیا گیا۔

    اس وقت دوسری حکمران اتحادی جماعت پیپلز پارٹی ہے۔ پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ اس کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتوں کے ذریعے امریکی ایماء پر قتل کیا گیا کیونکہ وہ بین الاقوامی سطح پر امریکی مفادات کیلئے خطرہ بن رہے تھے اور ایک ’’اسلامی بلاک‘‘ کے خواہاں تھے۔ چنانچہ انہیں آمریت کے ذریعے ہٹا کر ہمیشہ کیلئے پاکستانی سیاست سے خارج کر دیا گیا۔

    حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت جو مجموعی طور پر بھی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت سمجھی جاتی ہے، پاکستان تحریک انصاف ہے۔ اس جماعت نے عرصہ اقتدار کے آخری دنوں میں اپنی حکومت کے خاتمے کیلئے امریکہ کو ذمہ دار قرار دیا اور اس کے بعد امریکی مخالفت کے پاپولر بیانئے پر انتخابات میں بھی غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو امریکہ کی حکم عدولی کر کے روس کا دورہ کرنے کی پاداش میں رخصت کیا گیا۔ یہ سب باتیں بجا۔۔۔۔ یہاں تک کہ اسمبلی میں چار نشستیں رکھنے والی جماعت مسلم لیگ ق بھی کہہ چکی ہے کہ 2008ء میں ان کا اقتدار امریکی منشاء پر ختم ہوا۔

    سوال یہ ہے کہ جب پاکستان کے عوام کی نمائندگی کرنے والے تمام طبقات امریکی مخالفت پر کمربستہ ہیں تو غزہ میں جاری اس دور کے سب سے بڑے انسانی المیہ کے معاملے میں ہمارا ریاستی ردعمل اس قدر مردہ کیوں ہے؟ یہ بات تو سب پر عیاں ہے کہ اسرائیل اس بربریت میں فقط ’’فرنٹ مین‘‘ ہے۔ پالیسی فیصلے ‘انکل سام’ کی طرف سے کیے جاتے ہیں جو اس خطے میں اسرائیل کا مصنوعی وجود اپنی چھاؤنی کے طور پر برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ چنانچہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان کی طرف سے غزہ میں تباہی کی امریکی پالیسی کے خلاف ہر سطح پر احتجاج کیا جاتا جیسا کہ ہم ایٹم بم، اسلامی بلاک یا آزاد خارجہ پالیسی کے حصول کی جدوجہد میں کر چکے ہیں، لیکن اس کے برعکس ہمیں معمول کے بیانات کے علاوہ کوئی عملی اقدام دکھائی نہیں دیتا۔ یہ ایسا معمہ ہے جو ہماری سمجھ سے بلند ہے۔ آسٹریلیا، یورپ، یہاں تک کہ امریکہ میں فلسطینوں کی نسل کشی کے خلاف ارکان پارلیمان اور عوام ایسا بھرپور احتجاج کر رہے ہیں کہ عالمی سطح پر اخلاقی میدان میں اسرائیل تقریباً تنہا ہو کر رہ گیا ہے، جو حمایت اسے حاصل بھی ہے وہ مغربی حکومتوں کے مفادات کی مرہون منت ہے۔ جبکہ دوسری طرف اس محاذ پر پاکستان کی جانب سے مزاحمت صرف اتنی ہی ہے جس سے پاکستانی عوام کی محض ‘اشک شوئی’ کی جا سکے۔

    اہلِ فلسطین اس وقت ایک قیامت کا سامنا کر رہے ہیں۔ لاکھوں لوگ زخمی ہو چکے ہیں جبکہ پچاس ہزار سے زائد شہید ہیں۔ پورا شہر ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ کیا ہمارے لیے بائیس لاکھ فلسطینی بھائیوں کی زندگی اپنے ایٹم بم یا اقتدار سے ارزاں ہے؟ کیا ایک انسان کی زندگی بھی انسانی اقتدار سے زیادہ قیمتی نہیں ہے؟ اس صورتحال میں قومی و بین الاقوامی سطح پر ہماری خاموشی بہرا کر دینے[english] (deafening silence)[/english] والی ہے۔ پاکستان ایٹمی قوت رکھنے والا واحد مسلمان ملک ہے، اس بنیاد پر اسے عالمی معاملات میں کچھ خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے جو دوسرے ممالک کو میسر نہیں۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان نے عالمی دفاعی سیاست میں اپنے اثر و رسوخ[english] (active diplomacy)[/english] کو کماحقہ تو کجا کسی حد تک بھی استعمال کیا ہے؟

    طاقت کی نفسیات ایسی ہوتی ہے کہ اسے مظلومیت سے نہیں طاقت سے ہی خائف رکھا جا سکتا ہے۔ کیا اسلامی ممالک اور پاکستان نے اقوام متحدہ سے ’’اپیل‘‘ کرنے کی بجائے کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے کا حتمی مطالبہ بھی کیا ہے؟ ہم تو اس وقت تک قومی سطح پر اسرائیلی مصنوعات اور کمپنیوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ بھی نہیں کر سکے جو شاید ایمان کا سب سے ادنیٰ درجہ ہے۔

    فلسطین کا مسئلہ تقریباً پون صدی سے عالمی ضمیر کے اوپر ایک زخم کی صورت میں موجود ہے۔ یہ طویل عرصہ اس بات کی گواہی ہے کہ یہ زخم دعاؤں سے ٹھیک نہیں ہو سکے گا۔ اس کیلئے جراحی درکار ہے ورنہ یہ زخم ہماری آئندہ نسلوں کیلئے ایسا بوجھ بن جائے گا جسے اٹھانا انسانیت کےلیے مشکل ہو گا۔ چنانچہ فیصلہ ہمیں ابھی کرنا ہے۔ فلسطینی تو پتھروں، درخت کی ٹہنیوں اور خالی ہاتھوں سے بھی دنیا کی سب سے بڑی جنگی مشینری کا مقابلہ کر رہے ہیں، ہم ان کے کام آ سکتے ہیں، یا ہمارے امریکی مخالفت کے دعویٰ صرف اپنے مفادات کی حد تک ہیں؟
    [poetry]صاف کہہ دو کہ لوگ بھی سن لیں
    بات سچ ہے تو زیرلب کیوں ہے[/poetry]

  • اسلحہ کی تجارت اور طاقت کی سیاست: اسرائیل کی پالیسی – ڈاکٹر محمد عظیم

    اسلحہ کی تجارت اور طاقت کی سیاست: اسرائیل کی پالیسی – ڈاکٹر محمد عظیم

    کہتے ہیں کہ جنگل کا بھی کوئی قانون ہو تا ہے ۔ جانور بھی دکھ و تکلیف میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہو تے ہیں ۔ اپنے ساتھیوں کی موت پر آنسو بھی بہاتے ہیں ۔ مگر ہم انسان بے حس ہو چکے ہیں۔ دوسروں پر غلبہ کی خواہش ، طاقت کا بے رحمانہ استعمال، کمزور کا استحصال آج کی دنیا کے اصول بن چکے ہیں۔ہم لاکھ اس بات سے انکار کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج کی بین الاقوامی سیاست میں اصول و ضوابط صرف کمزور وں کے لیے ہیں طاقتور اس سے مستثنیٰ ہیں ۔ جو طاقتور ہے وہی حکمران ہے اور جو حکمران ہے وہی اصول طے کرتا ہے ۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اسلحہ دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہے اور انسانی بقاء کادشمن بھی۔ لیکن طاقتور اسی بیانیے کو اپنے لیے اصول معکوس کے تحت لیتے ہیں۔

    اسرائیل کے جنوبی غزہ پر دوبارہ حملوں نےنہتے فلسطینیوں کو رفح سےجبری نقل مکانی کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ اور ان کو المواسی کے علاقہ کی طرف دھکیلا جارہا ہے جسے اسرائیلی حکومت سیف زون کا نام دیتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی علاقہ اسرائیلی حملوں کا کئی بار نشانہ بن چکا ہے، یونیسیف کے مطابق 18 مارچ سے اب تک 322بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف ایک خبر کے مطابق اسرائیل نے یمنی حوثیوں کے میزائل حملوں سے اپنا کامیاب دفاع کیا ہے ،جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے پاس دور حاضر کا جدید ترین روایتی اور جوہری اسلحہ موجود ہے۔ اس کے ٹھوس شواہد بھی ملتے ہیں لیکن اس پر کسی بین الاقوامی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اسرائیل اپنے پاس جوہری اسلحہ کی موجودگی کو نہ تو تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی اس سے انکار۔اس کو “جوہری پردہ داری “کی پالیسی کہتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس کے پاس کتنے جوہری ہتھیار ہیں آج تک اس کی تعداد منظر عام پر نہیں آسکی ۔ ماہرین اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اسرائیل کے تسلیم کرنے سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ سکتا ہے اور جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو بڑھاوا مل سکتا ہے ۔ جبکہ انکار نہ کرنے سے اس کی طاقت کا اندازہ لگا نا مشکل ہے اور وہ دنیاکو دھوکے میں رکھ سکتا ہے۔ یہ بھی طاقت کی سیاست کا ایک اہم اصول ہے .۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اسرائیل اب تک نہ تو این پی ٹی کا رکن بنا ہے اور نہ ہی اس نے اپنی بہت سی جوہری تنصیبات کے لیے آئی اےای اے کے جوہری پروٹوکولز کو تسلیم کیا ہے ۔ بین الاقوامی دباؤ کے باوجود اسرائیل این پی ٹی پر سائن کرنے کو اپنی قومی سالمیت کے معاملےسے مشروط کرتا ہے۔

    تاریخی شواہد کے مطابق اسرائیل نے 1966 میں اپنا پہلا جوہری ہتھیار بنایا تھا۔ جبکہ ایک امریکی ڈی کلاسیفائیڈ حساس حکومتی دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ 1975میں امریکی حکومت کو یقین ہوا تھا کی اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیل اس پالیسی پر سختی کے ساتھ کاربند ہے کہ مشرق وسطیٰ کے خطے میں کسی دوسرے ملک کے پاس جوہری ہتھیار نہ ہوں۔ اس کے لیے اسرائیل اپنے ہمسایہ ممالک کے جوہری پروگراموں میں مستقل مداخلت کرتا رہا ہے ، جسے وہ اپنی پیشگی حملے کی پالیسی یا بیگن ڈاکٹرائن کہتا ہے۔ مثلاً 7 جون 1981 کو اسرائیل نے عراقی ری ایکٹر اوسیراک پر حملہ کر کے اسے تباہ کر دیا اور الزام یہ لگایا کہ اسے جوہری ہتھیاروں کے مقصد کے لیے بنایا گیا ہے ۔ سوائے زبانی بیانات کے کسی مسلمان ملک نے اسرائیل کے خلاف کو ئی ایکشن نہیں لیا اور نہ ہی اقوام متحدہ نے۔ 2010میں اسٹکسنیٹ اور فلیم وائرسزکے ذریعے ایران کی نطنز میں واقع یورینیم افزودگی کی سہولت کو نشانہ بنایا اور ایرانی جوہری سائنسدانوں کو قتل کرایا۔ ستم ظریفی کی انتہا دیکھیے کہ 2018 میں اسرائیل نے کھلے عام اعتراف کیا کہ اس کے طیاروں نے 6 ستمبر 2007 کو شام کے دیر الزور میں واقع الکبیر جوہری تنصیب پر بمباری کی تھی ۔

    اسرائیل کی موجودہ دفاعی قوت
    گلوبل فائرپاور انڈیکس کے مطابق اسرائیل دنیا کی پندرھویں بڑی ملٹری طاقت ہے ۔ امریکہ کی سی آئی اے کے بعد اسرائیل کی موساد کو دنیا کی بہترین انٹیلیجینس سروس سمجھا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ، اسرائیل کے پاس اس وقت تقریباً 90 پلاٹونیم پر مبنی جوہری وار ہیڈز ہیں جبکہ 100سے 200ہتھیاروں کے لیے پلوٹونیم تیار کرلی ہے۔مزید فوجی وسائل کے ضمن میں اس کے پاس 241 جنگی طیارے، 48 حملہ آور ہیلی کاپٹر، اور 2,200 ٹینک شامل ہیں۔ ان میں ایف 35طیارے بھی ہیں، جو دنیا کے بہترین الیکٹرانک وارفیئر سسٹمز رکھتے ہیں ۔ یہ طیارہ بہتر صورتحال کا ادراک فراہم کرتا ہے ۔ اس وقت اسرائیل کے پاس 1,200 سے زائد توپ خانے بھی موجود ہیں، جن میں 300 ملٹی پل لانچ راکٹ سسٹمز شامل ہیں ۔ اس میں ایسے اسمارٹ بم بھی ہیں جو کم سے کم اضافی نقصان کے ساتھ اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔اسرائیل کے پاس آئرن ڈوم نام کا ایک موبائل فضائی دفاعی نظام بھی ہے جو کہ اس کی فوجی طاقت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں 10 بیٹریاں ہوتی ہیں اور ہر بیٹری میں چار میزائل لانچر ہوتے ہیں۔ ایک بیٹری، جسے چند گھنٹوں میں نصب کیا جا سکتا ہے، 60 مربع کلومیٹر تک کے آباد علاقوں کو راکٹوں اور دیگر میزائل حملوں سے بچانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

    اسرائیل کا دفاعی بجٹ
    اسرائیلی حکومت نے فروری 2022میں ایک کثیر سالہ دفاعی بجٹ کا اعلان کیا جو 2028 تک مؤثر رہے گا۔ اس رقم کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں، تاہم اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق 2022 میں اسرائیل نے دفاعی اخراجات پر 23.4 ارب ڈالر خرچ کیے۔ چائنا کی نیوز ایجنسی زنہوا نیٹ کے مطابق اسرائیلی حکومت نے پچھلے ہفتے تقریباً چھ سو انیس بلین شیکل (169 بلین امریکی ڈالر) کا اپنا سالانہ بجٹ 2025پاس کیا۔موجودہ دفاعی بجٹ میں 110 بلین شیکل (تقریباً30بلین ڈالر)دفاعی اخراجات کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ اسرائیل اپنی جی ڈی پی کا تقریباً ساڑھے پانچ فیصد دفاع پرخرچ کرتا ہے۔

    اسرائیل کا شمار اسلحہ کے بڑے خریداروں میں ہو تا ہے ۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ، امریکی مدد سے اسرائیل نے اپنی دفاعی صنعت کو اتنا مضبوط کر لیا ہے کہ وہ اب دنیا کا نواں بڑا ہتھیار برآمد کرنے والا ملک بن چکا ہے۔چند ممالک جن سے وہ اسلحہ خریدتا ہے ان میں سرفہرست امریکہ ہے۔ اس کے علاوہ جرمنی، اٹلی، فرانس، برطانیہ اور اسپین وغیرہ شامل ہیں۔ اسٹاک ہوم انٹرینشنل پیس ریسرچ انسیٹیوٹ کی رپورٹ ،جو کہ عالمی ہتھیاروں کی منتقلی پر مبنی ہے ، کے مطابق، 2023 میں اسرائیل نے 29فی صد ہتھیاروں کی درآمد امریکہ سے کی۔ دوسرے نمبر پر جرمنی رہا جس سے 30فی صد، اس کے بعد اٹلی جس سے 0.9فی صد کی۔اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت کو روکنے کے لیے 2024 میں برطانیہ نے غزہ میں فوجی کارروائیوں کے لیے اسرائیل کو فوجی سامان کی برآمد کے تقریباً 30 لائسنس معطل کر دیے، یہ فیصلہ اسرائیل کی بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی تعمیل کے جائزے کے بعد کیا گیا ہے۔برطانیہ کی اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات اسرائیل کی مجموعی برآمدات کے مقابلے میں نسبتاً کم ہیں، لیکن اسرائیل کے وزیر اعظم نے برطانیہ کے اس فیصلے کو “شرمناک” قرار دیا۔

    امداد کی مد میں اسرائیل کو امریکہ سے ہر سال 3 ارب ڈالر ملتے ہیں۔ 2016 میں امریکی صدر باراک اوباما نے اسرائیل کے ساتھ 10 سالہ 38 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا تھا، جس میں ہتھیار خریدنے کے لیے گرانٹس اور میزائلوں کے لیے 5 ارب ڈالر شامل ہیں۔اسرائیل نے پچھلے 20 سالوں میں امریکہ سے 58 ارب ڈالر کی فوجی امداد بھی حاصل کی ہے۔اسرائیل کو امریکہ سے تین طریقوں سے اسلحہ کی ترسیل کی جاتی ہے ۔ زیادہ تر ہتھیار اسرائیل امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے “فارن ملٹری سیلز پروگرام” کے تحت خریدتا ہے۔ جبکہ کچھ ہتھیار اسرائیل اپنے بجٹ کے ذریعے براہ راست تجارتی فروخت کے ذریعے خریدتا ہے ۔ تیسرا خفیہ طور پر یعنی غیر ظاہر شدہ مقدار میں ہتھیار بھی امریکہ کے فوجی ذخائر سے منتقل کیے جاتے ہیں، جسے “وار ریزرو اسٹاک الائیز-اسرائیل” کہا جاتا ہے ۔ یہ طریقہ سب سے زیادہ مبہم ہے کیونکہ ان ذخائر کی انوینٹری کا کوئی عوامی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

    اسرائیل کا قومی بیا نیہ یہ ہے کہ وہ حالت جنگ میں ہے ، چنانچہ اس کا دفاع اس کی سالمیت کا ضامن ہے۔ اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نہتے فلسطینی بھی اس کو دہشت گرد نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف بین الاقوامی قانون ، اخلاقیات، انسانی حقوق کی اسرائیل جس طرح دھجیاں بکھیر رہا ہے اس کے لیے تاریخ اسے کبھی معاف نہیں کرے گی۔ڈاکٹرمارٹن لوتھر کنگ جونیر نے صحیح کہا تھا:
    ” کہیں بھی ناانصافی ،ہر جگہ انصاف کے لیےخطرہ ہے۔”

    (مصنف وفاقی جامعہ اردو میں تاریخ کے استاد ہیں)