Tag: اسلام

  • ایک معروف درود شریف اور ثواب:ایک تحقیقی جائزہ – مولانامحمدجہان یعقوب

    ایک معروف درود شریف اور ثواب:ایک تحقیقی جائزہ – مولانامحمدجہان یعقوب

    یہ تحقیقی مضمون ایک مخصوص درود شریف کے بارے میں ہے جس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد 80 مرتبہ پڑھنے سے 80 سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور 80 سال کی عبادت کا ثواب ملتا ہے۔

    اس مضمون کا مقصد اس روایت کی علمی حیثیت، اسناد، اور دیوبند مکتب فکر کے معتبر دارالافتاؤں کی آراء کا جائزہ لینا ہے تاکہ اس کے جواز کے امکانات کو تلاش کیا جا سکے۔ یہ تحقیق اس درود شریف کے گرد ہی گھومے گی اور اس سے زائد علامات اور نشانوں کو ختم کیا جائے گا۔زیر بحث درود شریف کا متن اور اس سے منسوب روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:

    اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ وَعَلَى آلِهِ وَسَلِّمْ تَسْلِيمًا
    جو شخص جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے اسی (80) مرتبہ یہ درود پڑھے گا، اللہ تعالیٰ اس کے اسی (80) سال کے گناہ معاف فرما دیں گے اور اسی (80) سال کی عبادت کا ثواب لکھا جائے گا۔

    یہ روایت مختلف کتب میں ملتی ہے جن میں ابن شاہین کی کتاب “کتاب الترغیب فی فضائل الاعمال”، دارقطنی کی “سنن” کے بعض نسخے، ابن النجار کی “تاریخ بغداد” اور خطیب بغدادی کی “تاریخ بغداد” شامل ہیں۔ تاہم، کسی کتاب میں محض اس کی موجودگی اس کی صحت کی ضمانت نہیں دیتی۔ حدیث کی صحت کا تعین اس کی سند (راویوں کی زنجیر) اور متن کے تنقیدی تجزیے سے ہوتا ہے۔ اس درود شریف کی روایت کے بارے میں محدثین کی آرا مختلف ہیں، لیکن غالب رائے یہ ہے کہ یہ حدیث “ضعیف” یا “ضعیف جداً” ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس کی سند میں موجود راویوں کی کمزوریاں ہیں۔اس حدیث کی بنیادی سند میں کئی ایسے راوی شامل ہیں جن پر محدثین نے کلام کیا ہے:

    1۔علی بن زید بن جدعان البصری:
    انہیں عام طور پر ضعیف سمجھا جاتا ہے۔ محدثین نے ان کی احادیث میں اختلاط اور تدلیس (حدیث کو اس طرح بیان کرنا کہ سننے والے کو یہ گمان ہو کہ اس نے اسے براہ راست سنا ہے، حالانکہ اس نے کسی اور سے سنا ہو) کا ذکر کیا ہے۔ شعبہ نے کہا: “وہ احادیث میں خلط ملط کرتے تھے”.
    امام احمد نے کہا: “وہ کچھ بھی نہیں ہیں”.
    اور ابو زرعہ نے کہا: “وہ مضبوط نہیں ہیں۔”

    2۔جاج بن نصر:
    انہیں علماء نے صراحتاً “متروک” (چھوڑ دیا گیا) قرار دیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ ان کی روایات قابل قبول نہیں ہیں۔

    3۔عوف بن ابی جمیلہ القیسی:
    ان کی روایات کو “منکر” (عجیب) سمجھا جاتا ہے اور انہیں حدیث میں ضعیف قرار دیا گیا ہے۔ حاکم نے ذکر کیا کہ انہوں نے ان سے کچھ نہیں لکھا کیونکہ ان کی حدیث “عجیب” تھی، اور ابو داؤد نے بھی انہیں “ضعیف” قرار دیا۔

    ان کمزور اور ناقابل اعتماد راویوں کی موجودگی کی وجہ سے ممتاز محدثین نے اس حدیث کو ضعیف یا موضوع قرار دیا ہے۔ ان میں سے چند اہم محدثین اور ان کی آراء درج ذیل ہیں:

    1۔دارقطنی:انہوں نے اس کی روایت میں کمزوریاں پائی ہیں۔
    2۔حافظ ابن حجر عسقلانی: انہوں نے اپنی کتاب “نتائج الافکار” میں اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
    3۔سخاوی: انہوں نے اپنی کتاب “القول البدیع” میں اسے ضعیف سمجھا ہے۔
    4۔مناوی: انہوں نے “فیض القدیر” میں اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
    5۔الحوت البیروتی:انہوں نے “اسنی المطالب” میں اسے ضعیف پایا ہے۔
    6۔ابن الجوزی: انہوں نے اپنی موضوع احادیث پر مشتمل کتاب “الموضوعات” میں اس سے ملتی جلتی روایات کا ذکر کیا ہے۔

    محدثین کی اجماعی رائے کے مطابق، یہ حدیث مستند نہیں ہے۔ اس کی شدید کمزوری، جو جعل سازی کے قریب ہے، کا مطلب یہ ہے کہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قابل اعتماد طریقے سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا، یہ حدیث شرعی احکام یا عبادات کے لیے بنیاد نہیں بن سکتی۔ دیوبند مکتب فکر کے معتبر دارالافتاؤں نے بھی اس درود شریف کے بارے میں فتاویٰ جاری کیے ہیں۔ ان کی آراء بھی محدثین کی عمومی رائے سے مطابقت رکھتی ہیں۔دارالعلوم دیوبند اور جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے دارالافتاء نے بھی اس درود شریف کے بارے میں تفصیلی فتویٰ جاری کیا ہے۔

    ان کی ویب سائٹ پر موجود فتویٰ جات میں اس حدیث کو “ضعیف” قرار دیا گیا ہے۔ اگرچہ محدثین کی اکثریت نے اس حدیث کو ضعیف یا موضوع قرار دیا ہے، لیکن خانقاہوں اور تبلیغی جماعت سے منسلک لوگ اس درود شریف کا اہتمام والتزام کرتے ہیں۔ اس کے جواز کے امکانات کو درج ذیل نکات کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے:

    اہل علم کا ایک بڑا طبقہ، جن میں امام احمد بن حنبل، امام نووی، اور ابن صلاح جیسے جلیل القدر محدثین شامل ہیں، اس بات کے قائل ہیں کہ فضائل اعمال (یعنی ایسے اعمال جن کا تعلق ثواب اور فضیلت سے ہو، نہ کہ حلال و حرام یا شرعی احکام سے) میں ضعیف احادیث پر عمل کرنا جائز ہے، بشرطیکہ وہ حدیث موضوع (من گھڑت) نہ ہو اس کا ضعف شدید نہ ہو۔وہ کسی صحیح حدیث یا قرآن کے عمومی اصول کے خلاف نہ ہو۔ اس پر عمل کرتے ہوئے یہ یقین نہ رکھا جائے کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔

    بعض علماجیسے ابن صلاح اور امام نووی نے فضائل اعمال میں ضعیف احادیث کو نقل کرنے اور ان پر عمل کرنے کی گنجائش دی ہے۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ نے بھی اس موضوع پر لکھا ہے اور مختلف روایات کا ذکر کیا ہے جنہیں ضعیف قرار دیا گیا ہے۔ تاہم، اس فتویٰ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ چونکہ یہ حدیث موضوع نہیں، اس لیے فضائل اعمال میں اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔

    چونکہ محدثین کی اکثریت نے اس حدیث کو موضوع نہیں بلکہ ضعیف قرار دیا ہے، اس لیے فضائل اعمال کے باب میں اس پر عمل کی گنجائش نکل سکتی ہے۔خانقاہوں اور تبلیغی جماعت سے منسلک افراد کا اس درود شریف کا اہتمام کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اسے فضائل اعمال کے باب میں شامل کرتے ہیں اور اس سے روحانی فیض حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان حلقوں میں یہ روایت مقبول ہے اور اسے نیک نیتی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ اگرچہ علمی طور پر اس کی سند کمزور ہے، لیکن عوامی سطح پر اس کی مقبولیت اور اس سے حاصل ہونے والے روحانی فوائد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، بشرطیکہ اسے شرعی حکم یا فرض کے طور پر نہ لیا جائے۔

    لہٰذا، اس درود شریف کو مطلقاً ناجائز قرار دینے کے بجائے، اسے فضائل اعمال کے باب میں شامل کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اس کی سند کے ضعف اور اس کے موضوع نہ ہونے کا لحاظ رکھا جائے، اور اس پر عمل کرتے ہوئے یہ یقین نہ رکھا جائے کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعی ثابت ہے۔ خانقاہوں اور تبلیغی جماعت کے افراد کا اس پر عمل اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ درود شریف کی کثرت کریں، اور اس کے لیے صحیح اور مستند احادیث میں مذکور درودوں کو ترجیح دیں، لیکن اگر کوئی شخص اس درود کو پڑھتا ہے تو اسے درود پڑھنے کا ثواب ضرور ملے گا۔

  • قرطبہ سپین، علم و تہذیب کی گلیوں میں ایک خواب کا سفر   – عامر جمال

    قرطبہ سپین، علم و تہذیب کی گلیوں میں ایک خواب کا سفر – عامر جمال

    مسلمانوں کی زبوں حالی اور زوال کی داستانیں تو عام ہیں، ہر زبان پر، ہر محفل میں۔ لیکن میری ایک دیرینہ خواہش تھیبلکہ ایک خواب کہ اندلس کے اُس دور کو قریب سے محسوس کروں جب مسلمان علم و فکر، سائنس و فلسفہ میں دنیا کی رہنمائی کر رہے تھے.

    میں چاہتا تھا کہ میرے بچے بھی وہی فضاء محسوس کریں، وہی تاریخ دیکھیں، جس نے کبھی انسانیت کو علم و تہذیب کا راستہ دکھایا۔ اسی خواہش کے تحت ہم نے اسپین کے اندلس ریجن کے سفر کا ارادہ کیا۔ آج میں آپ سے اس سفر کے ایک حصے، قرطبہ جسے آج کل Cordoba کہا جاتا ہے کی روداد شیئر کر رہا ہوں۔ ہم قرطبہ میں اندلسی دور کے اندرون شہر میں جیوش کوارٹرز کے علاقے میں مقیم تھے – ایک خوبصورت، روایتی انداز میں بنا ہوا محلہ، جو قرطبہ کے مخصوص طرزِ تعمیر اور خوشبو بکھیرتے پھولوں سے سجی گلیوں کا عکس پیش کرتا ہے۔

    تنگ مگر صاف ستھری گلیوں میں دیواروں پر آویزاں پھولوں کے گلدستے محلے کو رنگوں اور زندگی سے بھر دیتے تھے۔ ہر چند قدم پر ایک موڑ آتا، جہاں چھوٹے چھوٹے کافی خانے آباد تھے، اور کہیں کہیں قرونِ وسطیٰ کے عظیم مسلم، یہودی، اور عیسائی سکالرز کے مجسمے ایستادہ تھے. علم و فن کے اس سنہری دور کی خاموش یادگاریں۔ قرطبہ شہر کی گلیوں میں چلتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وقت تھم گیا ہو۔ تنگ مگر بے حد خوبصورت گلیاں، سفید دیواروں پر جھولتے رنگ برنگے پھول، اور پرانے طرز کے خوبصورت گھر۔ہر منظر دل کو چھو لینے والا تھا۔ ہر موڑ پر تاریخ، حسن اور تہذیب کی خوشبو محسوس ہوتی تھی۔

    گلیوں میں چھوٹے چھوٹے کتب خانے علم و ادب سے جڑی اس شہر کی روح کو ظاہر کرتے ہیں، جہاں صدیوں پہلے قلم اور کتاب کی روشنی نے اندھیروں کو شکست دی۔ کیفے شاپس، جن میں بیٹھ کر لوگ نہ صرف چائے اور کافی سے لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ مکالمے، خیال اور فہم و دانش کا تبادلہ بھی کرتے ہیں، ایک علمی و ثقافتی ماحول کو زندہ رکھتے ہیں۔ قرطبہ کی گلیوں میں چلتے ہوئے ، ایک طرف مڑتے ہوئے ہمارے بیٹے عمر نے ایک مجسمے کی طرف اشارہ کیا:
    “پا پا یہ اس دور کے فلاں یہودی سکالر کا مجسمہ ہے .”

    میں اس مجسمے کو دیکھتے سوچ میں پڑ گیا کہ کس طرح اندلس میں ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو اپنے فکری اور علمی جوہر دکھانے کی نہ صرف آزادی تھی بلکہ انکی بھر پور پزیرائی کی جاتی تھی۔ جب نظر ان عظیم مجسموں پر پڑتی ہے. جن میں معروف مسلمان سکالرز جیسے ابن رشد (Averroes)، ابن زہر، اور مشہور یہودی فلسفی موسیٰ بن میمون (Maimonides) شامل ہیں ، تو دل گواہی دیتا ہے کہ یہ شہر محض اینٹ پتھر کا مجموعہ نہیں، بلکہ علم، فہم اور بین المذاہب ہم آہنگی کی زندہ علامت تھا۔

    گلی گلی یہودیوں اور عیسائیوں کی عبادت گاہیں اور ساتھ میں مساجد اور پھر ان دانشوروں کے مجسمے گلیوں کے بیچوں بیچ اس بات کی خاموش مگر پُراثر گواہی دیتے ہیں کہ ایک ایسا دور تھا جب مذہب اور مکتبہ فکر کی قید کے بغیر، ہر انسان کو علم کی تلاش اور اظہارِ رائے کی آزادی حاصل تھی۔ مسلمان، یہودی، اور عیسائی سکالرز نے مل کر ایسا فکری ماحول پیدا کیا جہاں سائنس، فلسفہ، طب، اور ادب کی شمعیں روشن ہوئیں۔ اور اپنے ساتھ باقی دنیا کو بھی روشن کرتی رہیں.

    یہ منظر یاد دلاتا ہے کہ جب اپنے آپ پر اعتماد ہو ، دل کھلے ہوں اور معاشرے علم و احترام کی بنیاد پر استوار ہوں، تو تہذیبیں عروج پر پہنچتی ہیں اور انسانیت ترقی کی نئی منزلیں طے کرتی ہے۔ قرطبہ آج بھی اس شاندار دور کا آئینہ ہے، ایک ایسا خواب جو کبھی حقیقت تھا۔ قرطبہ صرف ایک تاریخی مقام نہیں، بلکہ ایک زندہ تہذیبی ورثہ ہے۔ اس شہر نے دل کو ایسی راحت بخشی جیسے روح نے اپنا اصل گھر پا لیا ہو۔ یہ تجربہ نہ صرف آنکھوں کی، بلکہ دل اور روح کی بھی خوراک تھا۔

    مسجد قرطبہ
    ان خوبصورت لیکن چھوٹی گلیوں سے گزرتے ہوئے کچھ دس منٹ بعد آخر کار وہ لمحہ پہنچا جب مسجد قرطبہ کی دیواریں میرے سامنے تھیں وہ مسجد جس کے بارے میں بچپن سے سنتے پڑھتے آرہے تھے۔ اسکی عظمت اور پھر اسکے جڑی رودادیں ذہن پر نقش تھیں۔ جہاں اقبال نے خاص اجازت لیکر نماز پڑھی اور اپنی مشہور نظم لکھی۔ یہ میرے لیے ایک روحانی اور دل کو چھو لینے والا لمحۂ تھا۔ کچھ ہی دیر میں ہم بڑے دروازے سے داخل ہوکر مسجد کے صحن اور پھر اندر پہنچ گئے .

    جیسے ہی میں اس کے حسین محرابوں کے درمیان کھڑا ہوا اور تاریخی محراب کے سائے میں وقت گزارا، تو یوں محسوس ہوا جیسے میں اسلامی تہذیب کے سنہری دور میں واپس لوٹ گیا ہوں۔ یہ عظیم مسجد نہ صرف اسلامی فنِ تعمیر کا شاہکار ہے بلکہ اس دور کی علامت بھی ہے جب علم، اخلاق اور تنوع کی قدر اسلام کی پہچان تھی۔ یہاں مسلمان، عیسائی اور یہودی ایک ساتھ مل کر امن، رواداری اور اخوت کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے اور علم و فکر کو انسانیت کا اثاثہ سمجھتے ہوئے انسانی ترقی و فلاح میں مشترکہ کردار ادا کر رہے تھے۔ مسجد کی خاموش اور پرسکون فضا میں، مجھے ان علما، مفکرین اور دانشوروں کی یاد آئی جو علم و حکمت کے چراغ روشن کرتے تھے۔

    یہ مقام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اسلام صرف عبادت نہیں بلکہ انسانیت، علم، انصاف ، اعلیٰ کردار اور بقائے باہمی کا پیغام ہے ۔ ایک ایسا پیغام جو آج بھی اتنا ہی ضروری اور زندہ ہے جتنا اس دور میں تھا۔ دن کے آخر میں مسجد قرطبہ کے سنگ میں ایک ریسٹورنٹ میں کھانے پر بچوں نے اقبال کی نظم انگریزی ترجمے کیساتھ پڑی!

    [poetry]اے حرمِ قرطبہ! عشق سے تیرا وجود
    عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود

    رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
    معجزہَ فن کی ہے خون جگر سے نمود

    صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
    کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب

    نقش ہیں سب ناتمام، خونِ جگر کے بغیر
    نغمہ ہے سودائے خام، خونِ جگر کے بغیر[/poetry]

  • سعودی عرب، سیاحت کی دنیا کا نیا مرکز – کامران اشرف

    سعودی عرب، سیاحت کی دنیا کا نیا مرکز – کامران اشرف

    2025 کی پہلی سہ ماہی میں سعودی عرب نے عالمی سیاحت کے نقشے پر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سیاحت کی تنظیم (UNWTO) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مملکتِ سعودی عرب بین الاقوامی سیاحتی آمدنی میں دنیا بھر میں پہلے نمبر پر آ چکا ہے، جب کہ سیاحوں کی تعداد میں 102 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے، جو عالمی سطح پر تیسری بڑی شرح ہے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ سعودی عرب عالمی سیاحت کا مرکز بننے کی طرف گامزن ہے۔

    یہ کامیابی اچانک حاصل نہیں ہوئی بلکہ وژن 2030 کے تحت کئی سالوں سے جاری مربوط حکمت عملی، پالیسی اقدامات، اور سرمایہ کاری کا نتیجہ ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب نے روایتی معیشت سے ہٹ کر سیاحت، تفریح، اور ثقافتی ترقی کے شعبوں میں ایک نیا راستہ چنا، جو آج اپنی کامیابیوں سے دنیا کو حیران کر رہا ہے۔ سعودی عرب نے صرف جدید انفراسٹرکچر اور آسان ویزا پالیسیوں پر انحصار نہیں کیا بلکہ اس نے اپنے تاریخی مقامات کو محفوظ بنایا، جدید طرز پر ترقی دی اور دنیا کو وہ چہرہ دکھایا جو طویل عرصے سے پس پردہ تھا۔

    نیوم، العلا، البحر الاحمر اور دیگر میگا پراجیکٹس نہ صرف سعودی عرب کی اقتصادی قوت کی علامت ہیں بلکہ اس کے ثقافتی فخر کی تصویر بھی ہیں۔ مملکت نے قدیم ورثے اور جدید تقاضوں کے امتزاج سے ایک ایسا سیاحتی ماڈل پیش کیا ہے جو باقی دنیا کے لیے ایک مثال بنتا جا رہا ہے۔اس وقت جب دنیا کی بیشتر سیاحتی معیشتیں کووڈ کے اثرات سے سنبھل رہی ہیں، سعودی عرب نے جس رفتار اور تیاری کے ساتھ دنیا بھر سے سیاحوں کو متوجہ کیا ہے، وہ غیر معمولی ہے۔ یہ نہ صرف آمدنی میں اضافے کا سبب بن رہا ہے بلکہ نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع، مقامی صنعتوں کی بحالی، اور عالمی سطح پر سعودی ساکھ کو بہتر بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔

    وزارتِ سیاحت کا نعرہ “ہمارا ملک، ان کی پسندیدہ منزل” اب صرف ایک تشہیری جملہ نہیں رہا بلکہ ایک حقیقت میں بدل چکا ہے۔ سعودی عرب کو اب صرف سیاحتی نقشے پر ایک مقام نہیں ملا، بلکہ اسے عالمی اعتماد، ثقافتی وقار اور معاشی خود انحصاری کا ایک نیا حوالہ بھی حاصل ہو گیا ہے۔یہ کامیابی سعودی قوم کے لیے باعثِ فخر ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ ذمہ داری بھی لاتی ہے کہ معیار برقرار رکھا جائے، ترقی کی رفتار کم نہ ہو، اور آنے والے برسوں میں سعودی عرب دنیا کا وہ ملک بنے جسے سیاحت، ثقافت اور مہمان نوازی کے حقیقی مرکز کے طور پر پہچانا جائے۔

  • والدین کی نافرمانی اور پچھتاوا – حمیراعلیم

    والدین کی نافرمانی اور پچھتاوا – حمیراعلیم

    انسان کی فطرت میں محبت، احساسات اور خدمت کا جذبہ قدرتی طور پر موجود ہے۔اس کا بہترین نمونہ والدین ہیں جو بناء کسی بدلے کی توقع کے اولاد کو بہترین زندگی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اپنے حقوق کے بعد والدین کے حقوق بیان فرمائے ہیں۔اور ان کی نافرمانی سے منع فرمایا ہے۔

    الا یہ کہ وہ کوئی ایسا حکم دیں جو اللہ کے حکم کے خلاف ہو،جس سے کسی کے حقوق کی پامالی ہو۔ والدین خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں انہیں اف تک کہنے سے روکا گیا ہے کجا کہ انکی بات نہ مانی جائے، ان سے بدزبانی کی جائے، ان پر ہاتھ اٹھایا جائے یا ان سے قطع تعلق کر لیا جائے۔بہترین عمل جو رب کو پسند ہے وہ والدین سے حسن سلوک ہے۔اور ان سے بدسلوکی بدترین گناہ ہے۔ نفسیات بھی اس حکم ربی کو سپورٹ کرتی ہے ۔والدین اور بچوں کے تعلقات کو انسانی شخصیت کی بنیاد قرار دیتی ہے۔

    نفسیاتی ماہرین کے مطابق:
    “جن بچوں نے بچپن یا جوانی میں اپنے والدین کی نافرمانی کی، وہ عمر کے کسی نہ کسی موڑ پر شدید جذباتی پچھتاوے کا شکار ہوتے ہیں۔”

    ڈاکٹر کارل راجرز Humanistic Psychology مشہور سائیکالوجسٹ ڈاکٹر Jordan Peterson کہتے ہیں:
    “انسانی ضمیر ایک عجیب چیز ہے۔ اگر تم نے اپنے والدین کے ساتھ زیادتی کی ہو تو ضمیر تمہیں وقت کے ساتھ ملامت کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ تمہاری ذہنی صحت پر اثر انداز ہونے لگتا ہے۔”

    والدین کے نافرمان وقتی طور پر توشاید خود کو تسلی دے لیتےہوں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضطراب، احساس جرم، تنہائی اور دپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔جب کہ والدین کے فرمانبردار اور خدمت گزار پر اعتماد، پرسکون اور جذباتی طور پر متوازن شخصیت کے مالک ہوتے ہیں. انسانی فطرت ہے کہ جب تک نعمت موجود ہو اس کا احساس اور قدر نہیں کرتا جب وہ چھن جائے تو اس کی اہیمت کا پتہ چلتا ہے یہی حال والدین کا ہے۔ایک صاحب کا کہنا ہے:
    “جب میرے والد فوت ہوئے تو میں نے محسوس کیا کہ میں نے ان کے ساتھ زندگی میں وقت گزارنے کی بجائے دنیا کے پیچھے دوڑ لگائی۔ آج میرے پاس سب کچھ ہے، مگر وہ دعائیں نہیں جو مجھے دلی اطمینان دیتی تھیں۔”

    ایسی ہزاروں مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جہاں اولاد والدین کی نافرمانی پر زندگی بھر پچھتاتی ہے۔خصوصا جب کوئی شخص ایسا کام کرے جو حرام ہو اور والدین اس سے روکیں مگر وہ نہ رکے اور انہیں یہ بتائے کہ اب میں اپنے فیصلے خود کر سکتا ہوں، اچھے برے میں تمیز کر سکتا ہوں، آپ جدید دور کے تقاضوں سے واقف نہیں، میرے معاملات میں دخل مت دیا کریں۔کیونکہ گناہ انسان کے دل پر بوجھ کی طرح ہوتا ہے۔مستقل گناہ کرتے رہنے سے بوجھ بڑھتا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ چور، قاتل، شرابی، زانی زندگی میں کبھی نہ کبھی پچھتاووں کا شکار ضرور ہوتے ہیں۔

    ایسی صورتحال میں والدین اپنی تمام تر محبت اور شفقت کے باوجود کبھی کبھار اولاد سے اس قدر بدظن ہو جاتے ہیں کہ اس کی شکل بھی دیکھنے کے روادار نہیں رہتے۔اس لیے اس سے ہر تعلق توڑ لیتے ہیں۔ بڑے بڑے کامیاب ایکٹرز، سنگرز وغیرہ جن کے پاس دولت، شہرت، لوگوں کا پیار سب ہوتا ہے مگر سکون نہیں۔ انہیں ہر خوشی ادھوری لگتی ہے کامیابی بے معنی لگتی ہےاور وہ اکثر خود سے شرمندہ رہتے ہیں۔اپنے احساس جرم سے نکلنے کےلیے ڈرگز کا سہارا بھی لیتے ہیں ۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق یہ جذباتی بوجھ انسان کی خود اعتمادی کو کمزور کر دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ زندگی کے دوسرے تعلقات اور کاموں میں بھی ناکامی کا سامنا کرتا ہے۔

    ہم اپنے اردگرد بھی روزمرہ زندگی میں ایسی مثالیں دیکھتے ہیں۔ یقین کیجئے اللہ جو ہمارا خالق ہے اور والدین جو ہمیں اس دنیا میں لا کر پروان چڑھانے کا سبب ہیں ان سے زیادہ ہمارا کوئی ہمدرد اور خیرخواہ نہیں۔دونوں ہی اگر کسی کام سے روکیں اور ہمیں مصلحت سمجھ نہ بھی آ رہی ہو تو اس کام کو چھوڑ دینا چاہیے۔کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ہم ان دونوں کی ناراضگی مول لیتے ہیں جس کا نتیجہ ہمیشہ دنیا و آخرت کی رسوائی کی صورت میں نکلتا ہے۔

    حال ہی میں ایک اداکارہ کی موت بھی ایسی ہی غلطی کا شاخسانہ لگ رہی ہے۔کیونکہ ان کے والدین تک سے ان کا رابطہ پچھلے ستمبر سے منقطع تھا ۔ان کے ہمسایوں کا کہنا ہے کہ وہ کسی سے ملتی جلتی نہیں تھیں اور اکثر ان کے گھر سے چیخنے کی آوازیں آتی تھیں۔یقینا وہ اپنی تمامتر کامیابی کے باوجود تنہائی اور ڈپریشن کا شکار تھیں. اکثر خواتین ماڈلز اور ایکٹرز اپنے انٹرویوز میں جب یہ بات فخریہ بتاتی ہیں کہ میرے والدین میرے شوبز میں آنے کے سخت خلاف تھے مگر مجھے شوق تھا تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کوئی واضح حرام کام کے لیے اللہ اور والدین کی نافرمانی کر کے کیسے فخر کر سکتا ہے؟

    انہی میں سے چند کامیاب اولڈ ایج خواتین ایکٹرز اب انٹرویوز میں اس بات کا ذکر کر کے زاروقطار روتی اور اس دکھ کا اظہار کرتی ہیں کہ کاش ہم نے والدین کی بات مان لی ہوتی۔قرآن ہمیں بار بار یہ ریمائنڈر دیتا ہے کہ دنیاوی زندگی میں معاملات درست رکھیں کیونکہ جب موت آئے گی یا روز قیامت اپنی سب غلطیوں پر شدید پچھتاوا ہو گا لیکن اس وقت کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ کیونکہ مہلت صرف اس وقت تک دی گئی ہے جب تک سانس چلتی رہتی ہے۔لہذا اگر آپ کے والدین زندہ ہیں تو ان کی قدر کریں۔ ان کی خدمت کو عبادت جانیں ان کی دعاؤں کا ذخیرہ اکٹھا کریں۔ اور اگر وہ اس دنیا سے جا چکے ہیں، تو ان کے لیے دعائیں، صدقات، اور نیک اعمال کے ذریعے اُن کی مغفرت کا سامان کریں۔

    رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ۔الاسراء 24
    ” اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔​”

  • باکردار نسل، باوقار قوم – اخلاق احمد ساغر ایڈووکیٹ

    باکردار نسل، باوقار قوم – اخلاق احمد ساغر ایڈووکیٹ

    حرف آغاز:
    کردار، انسان کی وہ خوشبو ہے جو بسا اوقات الفاظ کے بغیر بھی دوسروں کے دلوں کو معطر کر دیتی ہے۔ یہی کردار ایک فرد کو معاشرے کا قابلِ فخر اور اقوام کی صف میں باوقار بناتا ہے۔ جب کردار سنور جاتا ہے تو شخصیت نکھر جاتی ہے اور جب شخصیت نکھر جائے تو قوم کا مستقبل روشن ہو جاتا ہے۔ تعلیم محض ڈگری کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ہمہ جہت تربیتی عمل ہے جس کا سب سے خوبصورت پہلو کردار سازی ہے۔

    کالج، طلبہ و طالبات کی زندگی کا وہ سنگِ میل ہے جہاں بچپن کا سادہ ذہن، شعور کی روشنی میں بالغ ہو کر، مستقبل کی راہوں پر چلنے کو تیار ہوتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب نہ صرف علم دیا جاتا ہے، بلکہ شخصیت کے خد و خال بھی تراشے جاتے ہیں۔ اگر اس نازک مرحلے پر طلبہ کی کردار سازی کو نظرانداز کیا جائے، تو ممکن ہے کہ تعلیم یافتہ مگر اخلاقی طور پر مفلس افراد معاشرے میں بڑھتے جائیں۔

    کردار سازی کی ناگزیریت:
    قومیں صرف ایٹمی طاقت یا معاشی استحکام سے نہیں بنتیں، بلکہ ان کی اصل طاقت ان کے نوجوانوں کا کردار ہوتا ہے۔ ایسے کردار جو سچائی، انصاف، دیانت، بردباری، ادب و احترام، ایثار اور فرض شناسی کے زیور سے آراستہ ہوں۔

    کردار سازی کے لیے قابلِ عمل تجاویز
    1. نصاب میں اخلاقی تعلیم کا نفوذ:
    تعلیم میں وہ حرارت اور اثر تب ہی آ سکتا ہے جب نصاب میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم، اسلامی اقدار اور انسانی اخلاقیات کو مربوط انداز میں شامل کیا جائے۔

    2. عملی نمونے، صرف الفاظ نہیں:
    اساتذہ اپنے طرزِ عمل سے مثالی کردار کے آئینے بنیں۔ جب استاد خود وقت کا پابند ہو، دیانت دار ہو، نرم گفتار ہو، تو شاگرد اس سے کردار کی خوشبو ضرور حاصل کرے گا۔

    3. تربیتی نشستیں اور روحانی لمحات:
    کالجوں میں ایسے فورمز بنائے جائیں جہاں ہفتہ وار تربیتی نشستیں ہوں، طلبہ کھل کر سوالات کریں، اپنے مسائل بیان کریں اور باکردار شخصیات سے سیکھنے کا موقع پائیں۔

    4. ہم نصابی سرگرمیوں کو کردار سازی سے جوڑنا:
    ڈرامہ، مباحثہ، مکالمہ اور مشاعرے جیسے پروگراموں میں اخلاقی موضوعات شامل کیے جائیں تاکہ فن اور تربیت ایک ہی سانس میں سفر کریں۔

    5. فردی رہنمائی کا موثر نظام:
    ہر طالب علم کے لیے ایک اخلاقی رہنما مقرر ہو جو اس کی فکری، جذباتی اور اخلاقی تربیت میں اس کا مددگار بنے۔

    6. دینی تعلیمات کا سلیقہ مند امتزاج:
    قرآن فہمی، حدیث کا مطالعہ، اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں کردار سازی کی محافل منعقد کی جائیں۔ ایسی تعلیمات جو دل کو چھو جائیں، کردار میں رچ بس جائیں۔

    7. تعلیمی اداروں کا باوقار ماحول:
    تعلیمی ادارے خود ایک مثالی معاشرہ ہوں، جہاں عزت، اصول پسندی، صفائی، برداشت، اور مساوات کے اصول نافذ ہوں۔

    8. جزا و سزا کا منصفانہ نظام:
    جہاں اچھے کردار کی تعریف ہو، وہیں بدتمیزی، بددیانتی یا بدعنوانی پر نرمی نہ برتی جائے۔ ایک توازن سے تربیت کی فضا پیدا کی جائے۔

    حرف آخر:
    کالج، صرف امتحان پاس کرنے کی جگہ نہیں بلکہ زندگی جینے کا سلیقہ سکھانے کی تجربہ گاہ ہے۔ اگر ہم نے اس تجربہ گاہ میں کردار سازی کو مرکزِ نگاہ نہ بنایا تو یہ قوم بظاہر تعلیم یافتہ تو ہوگی، مگر اندر سے کھوکھلی رہ جائے گی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم محض تعلیمی اصلاحات نہیں بلکہ اخلاقی انقلاب کی بنیاد رکھیں، اور یہ کام تبھی ممکن ہے جب ہم اپنے نوجوانوں کے کردار کو سنوارنے کا بیڑہ اٹھائیں۔ یہی وہ منزل ہے جہاں سے ایک صالح، پر وقار اور باکردار نسل کا آغاز ہوگا، جو علم کے ساتھ حلم، قابلیت کے ساتھ شرافت اور ترقی کے ساتھ دیانت کی حامل ہوگی۔ ادب، تربیت اور تعلیم کے حسین امتزاج پر مبنی ایک فکر انگیز تحریرجو نوجوانوں کے روشن مستقبل کی تعمیر کا عزم رکھتی ہے

  • توہین رسالت: مغرب کی صدیوں پرانی نفسیاتی جنگ -مہتاب عزیز

    توہین رسالت: مغرب کی صدیوں پرانی نفسیاتی جنگ -مہتاب عزیز

    اسلامی تہذیب کے خلاف مغرب کی نفسیاتی اور نظریاتی جنگ کا سب سے پرانا اور مؤثر ہتھیار “توہین رسالت” ہے۔ نام نہاد “قرطبہ کے شہداء” (Martyrs of Córdoba) سے شروع ہونے والی یہ منظم مہم آج جدید دور میں سوشل میڈیا کی شکل میں پوری شدت کے ساتھ جاری ہے۔ مقصد ایک ہی ہے — مسلمانوں کو اشتعال دلاؤ، اسلامی معاشروں کو بدنام کرو، اور اسلام پر عمل کرنے والوں کی ساکھ پر حملہ کرو۔

    یہ نویں صدی میں اندلس (موجودہ اسپین) میں عبدالرحمن دوم کے پرامن دور حکومت کا زمانہ تھا، جب اسلام اپنی سادگی، مساوات اور عدل کی بنیاد پر یورپ میں تیزی سے پھیل رہا تھا۔ عام لوگ عیسائیت کو ترک کر کے دین اسلام کی پناہ میں آ رہے تھے۔ یہ صورتحال عیسائی راہبوں اور پادریوں کو سخت ناگوار تھی، لیکن وہ اس کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کر پا رہے تھے۔ عیسائی رعایا مسلمان حکمرانوں سے خوش تھی۔ ایسے میں اُنہوں نے عوام کو مسلمانوں اور اسلام سے بدظن کرنے کے لیے ایک انوکھی چال چلی۔

    یوجینیس (Eulogius) نامی ایک عیسائی پادری کی کتاب “Memoriale Sanctorum” (شہداء کا تذکرہ) میں ان واقعات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ عیسائی رضاکار مسلمان قاضی کے سامنے پیش ہوتے اور روبرو “توہین رسالت” کا ارتکاب کرتے اور سزائے موت پاتے۔ یہ عیسائی رضاکار جانتے بوجھتے موت کو گلے لگاتے تھے تاکہ وہ عقیدے کی مضبوطی کا اظہار کر کے “شہید” کہلائیں۔ ان کے لیے یہ ایک مقدس عمل تھا۔ یوجینیس (Eulogius) نے اپنی کتاب میں صرف 850ء سے 859ء کے آٹھ سال کے دوران توہین رسالت کر کے سزائے موت پانے والے 48 نامی گرامی پادریوں اور نوابوں کا تذکرہ لکھا ہے، جبکہ عام عیسائی سینکڑوں میں تھے۔

    یوجینیس (Eulogius) نے کتاب مکمل کرنے کے بعد خود بھی یہ غلیظ عمل کیا اور 11 مارچ 859ء کو سزائے موت پائی۔ اس سب کا مقصد مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانا تھا تاکہ عیسائی مسلمانوں سے نفرت کرنے لگیں اور اسلام کی اشاعت رک جائے۔ قرطبہ سے شروع ہونے والی یہ مہم پورے اندلس اور پھر یورپ کے دیگر حصوں میں بھی پھیل گئی۔ عیسائی مشنری مسلمان ممالک میں جا جا کر بھی توہین رسالت کا ارتکاب کرتے رہے، جس کی وجہ سے مسلمانوں اور عیسائیوں میں کشیدگی انتہا کو پہنچ گئی۔ عیسائی ممالک میں مسلمانوں کو نفرت کی نظر سے دیکھا جانے لگا، اور مسلمان خطوں میں یورپ سے آنے والے تمام عیسائیوں کو مشکوک سمجھا جانے لگا۔

    ان گستاخ “شہداء” کو چرچ کی تاریخ کا حصہ بنایا گیا، ان کے واقعات کو ہجیوگرافی (مقدس افراد کی سوانح عمریاں) میں شامل کیا گیا ہے۔ ان کی یاد میں تقریبات اور مقدس دن منائے جانے لگے، جس سے ان کی کہانیاں عام لوگوں کی مذہبی اور ثقافتی یادداشت کا حصہ بن گئیں۔ یہ نفسیاتی حکمت عملی صلیبی جنگوں میں مزید شدت اختیار کر گئی۔ بعد میں جب پروٹیسٹنٹ فرقے کو یورپ میں عروج حاصل ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف زبان درازی کو آزادی اظہار کی علامت بنا کر پیش کیا گیا اور اس کام کو فخریہ اپنایا جاتا رہا۔ مستشرقین کی عبارات میں آپﷺ کی ذات پر رکیک حملے کثرت سے کیے گئے۔

    آج بھی مغربی معاشروں میں سلمان رشدی، ڈنمارک کے کارٹونسٹ، چارلی ہیبڈو، اور دیگر توہین آمیز کرداروں کو سرکاری تحفظ دیا جاتا ہے اور ان کے خلاف کسی بھی قانونی کارروائی کو “اظہار رائے کی آزادی” پر حملہ کہا جاتا ہے۔سوشل میڈیا کے موجودہ دور میں توہین رسالت کے واقعات مزید خطرناک اور منظم ہو چکے ہیں۔ کئی اسلامی ممالک میں ایسے باقاعدہ نیٹ ورکس اور گروہوں کے شواہد ملے ہیں جو پیسے لے کر یا بیرونی ایجنڈے کے تحت آن لائن توہین رسالت کرتے ہیں تاکہ مذہبی انتشار پیدا کیا جائے۔ بدقسمتی سے، کئی مسلم حکومتیں مغربی پریشر میں آ کر ان نیٹ ورکس کی مکمل تحقیقات سے دانستہ پہلو تہی کر رہی ہیں۔

    پاکستان اس عالمی مہم کا خاص ہدف ہے کیونکہ یہاں توہین رسالت کی سزا موت ہے۔ پچھلے تین دہائیوں سے ایک منظم مہم جاری ہے جس میں توہین رسالت کے قانون کو “ظالمانہ قانون”، “غلط استعمال” اور “پسماندگی کی علامت” بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ آج تک عدالت میں ایک بھی مقدمے میں توہین رسالت کا الزام جھوٹا ثابت نہیں ہوا۔ ہر کیس میں شہادتوں، عدالتی کارروائی اور تحقیقات کے بعد سزائیں سنائی گئی ہیں۔ تاہم مغربی دباؤ کے نتیجے میں ایک پر بھی عمل نہیں ہوا۔

    پاکستان میں کچھ وکلاء نے رضاکارانہ طور پر توہین رسالت کرنے والوں کے خلاف عدالتی پیروی کا بیڑا اٹھایا تو ان کے خلاف بھی خطرناک پراپیگنڈا شروع کر دیا گیا۔ انہیں “بلاسفہمی بزنس گینگ” کے طعنے دیے جا رہے ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ان وکلاء نے اپنے ایمان، حبِ رسولؐ اور عدالتی عمل کے ذریعے ملک میں آئین اور قانون کا تحفظ کیا ہے، لیکن ان کے خلاف عالمی لبرل میڈیا اور این جی اوز کا مکمل پراپیگنڈا نیٹ ورک سرگرم ہے۔ واضح رہے کہ توہین رسالت کا معاملہ محض مذہبی حساسیت نہیں بلکہ امت مسلمہ کے خلاف ایک مکمل تہذیبی، نفسیاتی اور سیاسی جنگ ہے۔

    “قرطبہ کے شہداء” سے سوشل میڈیا کے دور تک یہ جنگ ایک ہی نکتے کے گرد گھومتی ہے: مسلمانوں کی نبیﷺ سے بے پناہ جذباتی وابستگی پر اشتعال دلا کر عالمی سطح پر شدت پسند اور وحشی بنا کر پیش کیا جائے، اور اسلامی معاشروں اور حکومتوں کو دنیا کے سامنے بدنام کیا جائے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ مسلمانوں کو اس فتنہ کو سمجھیں، مغرب کے پروپیگنڈے کا شعور حاصل کریں اور متحد ہو کر اس مہم کا علمی، قانونی اور سماجی جواب دیں۔ اور حکومت پر زور ڈالا جائے کہ ان سوشل میڈیا گروہوں اور بیرونی فنڈڈ نیٹ ورکس کے خلاف ریاستی سطح پر کارروائی کریں تاکہ اسلامی اقدار اور معاشرتی امن کو ہر قیمت پر محفوظ رکھا جا سکے۔

  • پاکستان کی معیشت کیوں کمزور ہے؟ – احمد فاروق

    پاکستان کی معیشت کیوں کمزور ہے؟ – احمد فاروق

    پاکستان، جو ایک ایٹمی طاقت ہے، قدرتی وسائل سے مالا مال، نوجوانوں کی بڑی تعداد سے بھرپور، زرخیز زمین، بلند و بالا پہاڑ، بہتے دریا، طویل سمندری ساحل اور ایک عظیم اسلامی و ثقافتی ورثہ رکھنے والا ملک ہے، آج بدترین معاشی، سیاسی، سماجی اور اخلاقی بحران کا شکار ہے۔

    مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، بیروزگاری نے کروڑوں نوجوانوں کو بے حال کر دیا ہے، روپے کی قدر گر رہی ہے اور عوام مایوسی کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
    سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟

    1. رشوت اور کرپشن:
    ناسور جو ملک کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے. یہ وہ دیمک ہے جس نے ریاست کے تمام ستونوں کو چٹ کر دیا ہے۔ جب اختیارات امانت نہیں بلکہ ذاتی مفادات کے حصول کا ذریعہ بن جائیں تو نظام عدل و انصاف دفن ہو جاتا ہے۔
    اسلام نے کرپشن کو کھلم کھلا جنگ قرار دیا ہے:
    “لعن الله الراشي والمرتشي” (الحدیث)
    “اللہ تعالیٰ نے رشوت دینے اور لینے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے۔”

    2. نااہل قیادت اور ناقص پالیسی سازی:
    قیادت جب اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات سے ناواقف ہو، اور حکمرانی کو خدمت کے بجائے حکومت کا نشہ سمجھا جائے، تو وہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “کُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ” “تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔”

    3. سیاسی عدم استحکام اور اقتدار کی جنگ:
    جب اقتدار کو عبادت کے بجائے ذاتی دشمنیوں، سازشوں، اور طاقت کی ہوس کا ذریعہ بنایا جائے تو ریاستی ادارے کمزور ہو جاتے ہیں، اور غیر یقینی صورتحال سرمایہ کاری کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔

    4. عدالتی نظام کی کمزوری:
    اسلام کا عدالتی نظام عدل و مساوات کا مظہر ہے۔ ریاست مدینہ میں حضرت محمد ﷺ کے دور میں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہ تھا۔ آپؐ نے فرمایا:
    “اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی، تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا”. (بخاری و مسلم)
    جب عدل طبقاتی ہو جائے، تو بدعنوانی قانون سے محفوظ رہتی ہے اور مظلوم مایوس۔

    5. تعلیم کی زبوں حالی:
    اسلام کی پہلی وحی ہی تعلیم پر نازل ہوئی:
    “اقْرَأْ” (پڑھ)۔
    علم کو عبادت کا درجہ دیا گیا۔ لیکن آج ہمارے تعلیمی ادارے علم کے بجائے ڈگریاں بانٹنے کے مراکز بن چکے ہیں۔

    6. توانائی کا بحران اور صنعتی زوال:
    صنعت کسی بھی ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ لیکن ناقص منصوبہ بندی اور بدعنوان معاہدوں نے پاکستان کی صنعتی بنیاد کو کمزور کر دیا ہے۔

    7. قرضوں پر انحصار اور معیشت کی غلامی:
    ہم سودی قرضوں کے جال میں ایسے پھنسے ہیں کہ آزادی محض نعرہ رہ گئی ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    “اللہ نے سود کو حرام اور تجارت کو حلال قرار دیا ہے”. (البقرہ: 275)
    اور سودی نظام کے خلاف اعلان جنگ فرمایا:
    “اگر تم باز نہ آئے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ” .(البقرہ: 279)

    اسلامی نظام: واحد حل
    اگر ہم حقیقتاً اس ملک کو بحرانوں سے نکالنا چاہتے ہیں، تو ہمیں اسلامی نظامِ حکومت، اسلامی معیشت، اسلامی عدل، اسلامی اخلاق اور اسلامی معاشرت کو اپنانا ہوگا۔

    اسلامی نظام حکومت
    یہ عوام کی خدمت، عدل، مشاورت اور شفافیت پر مبنی ہے۔ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں ایک عام عورت بھی خلیفہ وقت سے سوال کر سکتی تھی۔ قائد صرف حکمران نہیں، امین اور خادم ہوتا ہے۔

    اسلامی نظام معیشت
    یہ سود سے پاک، زکوٰۃ، خیرات، وقف اور مساوات پر مبنی ہے۔ اسلام دولت کو چند ہاتھوں میں محدود نہیں رہنے دیتا۔ دولت کی گردش، پیداوار کی ترغیب، غربت کا خاتمہ اور محنت کشوں کا تحفظ اسلامی معیشت کی بنیاد ہے۔

    اسلام کا اخلاقی نظام
    اسلام نے دیانت، سچائی، ایثار، اخلاص، تحمل، عدل، عفو اور احسان جیسے اوصاف کو معاشرتی ستون بنایا۔ جب فرد دیانت دار ہوگا، تو ادارے خود بخود بہتر ہو جائیں گے۔

    اسلام کا معاشرتی نظام
    اسلامی معاشرت خاندانی نظام، حقوق العباد، پڑوسیوں کے حقوق، یتیموں، مسکینوں، اور بزرگوں کے احترام پر مبنی ہے۔ ایسا معاشرہ امن، محبت اور بھائی چارے سے بھرپور ہوتا ہے۔

    اسلام کا عدالتی نظام
    یہ نظام بلاامتیاز انصاف، فوری فیصلے، گواہی کی اہمیت اور جھوٹی گواہی پر سخت سزا پر مبنی ہے۔ اسلامی عدل قیامِ امن کی ضمانت ہے۔

    نبی کریم ﷺ کا اسوہ حسنہ: مکمل نمونہ
    اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    “لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ” (الاحزاب: 21)
    “یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔”
    آپؐ نے دین کو صرف عبادات تک محدود نہیں رکھا، بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں اللہ کے احکام کو نافذ کیا۔ دین صرف چند عبادات نہیں بلکہ مکمل نظامِ حیات ہے۔

    حل کیا ہے؟
    اسلامی نظام حکومت کا قیام، سود سے پاک معیشت، تعلیم، انصاف، صحت اور روزگار پر فوری توجہ، سخت اور غیرجانبدار احتساب، نوجوانوں کی تربیت اور کردار سازی، دیانت دار قیادت، ذاتی اصلاح اور قومی شعور. اگر ہم اللہ کے دین کو مکمل طور پر اپنائیں، اس پر عمل کریں اور ریاستی سطح پر نافذ کریں، تو ان شاء اللہ پاکستان نہ صرف بحرانوں سے نکلے گا، بلکہ ایک عظیم اسلامی فلاحی ریاست بنے گا، جیسا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور قائداعظم نے بیان کیا تھا۔

  • والدین کا احترام –  بنت شریف

    والدین کا احترام – بنت شریف

    والدین کا احترام ایک ایسا بنیادی اخلاقی اصول ہے جو ہر معاشرے، مذہب اور ثقافت میں نہایت اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ والدین وہ ہستیاں ہیں جو اپنی اولاد کی پیدائش سے لے کر اس کی پرورش، تعلیم و تربیت اور شخصیت کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی قربانیوں کا کوئی نعم البدل نہیں، اسی لیے ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے والدین کا احترام کرے اور ان کی خدمت کو اپنا فرض سمجھے۔

    والدین کی اہمیت
    والدین بچے کی پہلی درسگاہ ہوتے ہیں۔ وہی اسے بولنا، چلنا اور زندگی کے بنیادی اصول سکھاتے ہیں۔ بچپن میں جب ایک بچہ خود اپنی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں ہوتا، تو والدین اس کی ہر ممکن دیکھ بھال کرتے ہیں۔ وہ دن رات محنت کرکے اپنی اولاد کی بہتری کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور ان کی خوشیوں کے لیے اپنی خواہشات کی قربانی دیتے ہیں۔

    والدین کا احترام اور اللہ کی رضا
    والدین کا احترام اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک ہے، جو نہ صرف اخلاقی بلکہ دینی فریضہ بھی ہے۔ قرآن و حدیث میں بار بار والدین کے حقوق اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاسراء میں فرمایا:

    “اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ تم اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو بلکہ ان سے نرمی سے بات کرو۔” (الاسراء: 23)

    یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ کی رضا والدین کے احترام اور ان کے ساتھ اچھے برتاؤ سے مشروط ہے۔ ایک مسلمان کے لیے سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ وہ اللہ کو راضی کر لے، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب وہ اپنے والدین کی عزت کرے، ان کی خدمت کرے اور ان کے لیے دعا کرے۔
    قرآن مجید میں ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

    “اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی ماں نے اسے کمزوری پر کمزوری سہتے ہوئے پیٹ میں رکھا اور دو سال میں اس کا دودھ چھڑانا ہوا۔ (لہٰذا) میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو۔ (سورۃ لقمان: 14)

    یہ آیت واضح کرتی ہے کہ والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ایک لازمی عمل ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی بارہا والدین کی عزت و احترام پر زور دیا اور فرمایا کہ:

    “والدین کی رضا میں اللہ کی رضا ہے اور والدین کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے۔” (ترمذی)

    اخلاقی و معاشرتی پہلو
    والدین کا احترام صرف مذہبی فریضہ نہیں بلکہ اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داری بھی ہے۔ ایک اچھا معاشرہ وہی ہوتا ہے جہاں والدین کو عزت دی جاتی ہے، ان کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے اور ان کے بڑھاپے میں انہیں سہارا دیا جاتا ہے۔ والدین کی دعائیں اولاد کے لیے کامیابی کا سبب بنتی ہیں اور ان کی ناراضگی بدبختی لا سکتی ہے۔

    والدین کی خدمت کیسے کی جائے؟
    1. نرم مزاجی اور ادب: والدین سے بات کرتے وقت نرم لہجہ اپنانا اور ادب و احترام سے پیش آنا بہت ضروری ہے۔

    2. حاجات کا خیال رکھنا: ان کی ضروریات کو پورا کرنا اور ان کے آرام کا خیال رکھنا چاہیے۔

    3. دعائیں لینا: ان کی خوشی اور دعاؤں کو اپنی زندگی کا سرمایہ بنانا چاہیے۔

    4. فیصلوں میں ان کی رائے: اہم فیصلوں میں ان کی مشاورت اور رضامندی حاصل کرنی چاہیے۔

    5. وقت دینا: والدین کو تنہائی محسوس نہ ہونے دینا اور ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہیے۔

    6. بڑھاپے میں دیکھ بھال: جب والدین بوڑھے ہو جائیں اور کمزور ہو جائیں تو ان کی زیادہ خدمت کرنی چاہیے اور ان کے جذبات کو مجروح کرنے سے بچنا چاہیے۔

    7. مالی مدد فراہم کرنا: اگر والدین کو مالی مشکلات درپیش ہوں تو انہیں سہارا دینا اولاد کا فرض ہے۔

    8. ان کی باتوں کو تحمل سے سننا: والدین کی باتوں کو غور سے سننا اور ان کی رائے کی قدر کرنا ضروری ہے۔

    9. خدمت کے مواقع تلاش کرنا: ایسے مواقع تلاش کریں جہاں آپ والدین کی مدد کر سکیں، جیسے کہ ان کے کاموں میں ہاتھ بٹانا۔

    والدین کی نافرمانی کے نقصانات
    والدین کی نافرمانی اور ان کے ساتھ بدسلوکی کے بہت سے نقصانات ہیں:

    اللہ کی ناراضگی اور برکتوں کا خاتمہ
    معاشرتی بے سکونی اور بد نظمی
    اولاد کے لیے مشکلات اور پریشانیاں
    آخرت میں سخت سزا کا سامنا
    عزت اور مقام کی کمی
    ذہنی سکون اور خوشحالی کا خاتمہ

    والدین کا احترام مختلف ادوار میں
    والدین کا احترام صرف بچپن میں ہی ضروری نہیں بلکہ زندگی کے ہر مرحلے میں اہم ہوتا ہے۔
    1. بچپن میں: بچے کو سکھایا جائے کہ والدین کی عزت کرنا ضروری ہے۔

    2. جوانی میں: جب اولاد اپنی ذمہ داریوں میں مصروف ہو جائے، تب بھی والدین کو وقت دینا نہایت اہم ہے۔

    3. بڑھاپے میں: جب والدین کمزور ہو جائیں تو ان کی خدمت مزید ضروری ہو جاتی ہے۔

    والدین کا احترام ایک ایسا عمل ہے جو نہ صرف دنیا میں کامیابی کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ آخرت میں بھی نجات کا سبب ہے۔ اس لیے دنا اور آخرت کی کامیابی چاہتے ہو تو والدین کی خدمت کرو کیونکہ جو لوگ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، انہیں دنیا میں عزت، برکت اور خوشحالی نصیب ہوتی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے جنت کی خوشخبری ہے۔ جو شخص والدین کی عزت نہیں کرتا، وہ اللہ کی ناراضی مول لیتا ہے، اور اس کی زندگی مشکلات سے بھر جاتی ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ شفقت اور محبت کا برتاؤ کرے۔ ہمیں چاہیے کہ والدین کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنائیں اور ان کی رضا کو اپنے لیے کامیابی کی کنجی سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اپنے والدین کا فرمانبردار بنائے اور ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے آمین

  • مسلم مفکرین کی اخلاقی تعلیمات اور عملی جدوجہد کے اثرات- ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

    مسلم مفکرین کی اخلاقی تعلیمات اور عملی جدوجہد کے اثرات- ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

    اسلامی تاریخ کا مطالعہ اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ مسلم مفکرین نے نہ صرف فکری میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں بلکہ ان کی اخلاقی تعلیمات اور عملی جدوجہد نے مسلم سماج کے ارتقاء، تہذیب و تمدن کی ترقی، اور انسانیت کی فلاح میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔

    یہ مفکرین محض فلسفی یا نظریہ ساز نہیں تھے بلکہ وہ ایسے قائد و راہنما تھے جنہوں نے اپنے کردار، گفتار اور عمل سے ان تعلیمات کو زندہ کیا جو قرآن و سنت کا جوہر ہیں۔ ان کی فکری میراث آج بھی ایک زندہ اور متحرک اثاثہ ہے، جس سے مسلم دنیا راہنمائی حاصل کر سکتی ہے۔ اگر ہم ابتدائی مسلم مفکرین کی بات کریں تو امام غزالیؒ کی شخصیت مثالی نظر آتی ہے، جنہوں نے صرف عقلی و فکری مباحث پر قلم نہیں اٹھایا بلکہ روحانیت، اخلاقیات، سچائی، نیت کی پاکیزگی اور خلوص کو اسلامی فکر کا مرکز قرار دیا۔ ان کی مشہور تصنیف احیاء العلوم میں اخلاقی تطہیر اور روحانی ارتقاء پر زور دیا گیا، جو آج بھی ہر دور کے انسان کے لیے چراغِ راہ ہے۔ غزالیؒ کا یہ نظریہ کہ علم تب تک بے اثر ہے جب تک وہ انسان کے کردار و عمل کو نہ بدلے، جدید دور کے تعلیمی نظام کے لیے ایک گہرا چیلنج ہے۔

    دوسری طرف ابن خلدونؒ جیسے عظیم مفکر نے جہاں تاریخ، سماجیات اور عمرانیات میں انقلابی فکر پیش کی، وہیں ان کی تحریروں میں بھی ایک مضبوط اخلاقی بنیاد موجود ہے۔ ان کے نزدیک تہذیبوں کا عروج و زوال صرف مادی عوامل پر نہیں بلکہ اخلاقی انحطاط یا بلندی پر بھی منحصر ہوتا ہے۔ ان کا نظریہ ہے کہ جب معاشرے کے مقتدر طبقات خودغرضی، تعیش، بدعنوانی اور اخلاقی کمزوری کا شکار ہو جائیں تو تمدن زوال کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔

    مسلم مفکرین کی جدوجہد صرف علمی سطح پر محدود نہیں تھی بلکہ ان کی زندگیاں عملی میدان میں بھی سرگرم تھیں۔ امام ابو حنیفہؒ نے جب حکومتی جبر کے خلاف کھڑے ہو کر حق گوئی کی سزا قید و بند کی صورت میں برداشت کی، تو یہ ان کی اخلاقی بصیرت اور عملی استقامت کا واضح مظہر تھا۔ ایسے ہی امام احمد بن حنبلؒ نے خلقِ قرآن کے مسئلے میں دربارِ عباسیہ کے شدید دباؤ کے باوجود اپنے عقیدے اور سچائی پر ثابت قدم رہ کر امت کو حریتِ فکر کا سبق دیا۔

    برصغیر کے مفکرین کی مثال لیں تو شاہ ولی اللہ دہلویؒ ایک درخشاں مثال کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ ان کی تعلیمات نہ صرف عقیدے، فقہ، معیشت اور سیاست پر محیط تھیں بلکہ ان کی اخلاقی فکر میں اعتدال، عدل، مساوات اور اخلاص جیسے اصول مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کا تصورِ تجدید محض فکری نکتہ نظر نہیں بلکہ ایک عملی جدوجہد تھی، جس میں انہوں نے قرآن و سنت کو محورِ زندگی بنانے کی دعوت دی۔ شاہ ولی اللہ کی فکر نے بعد کے کئی اصلاحی تحریکات کو جِلا بخشی، جن میں سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ نمایاں ہیں۔

    اسی تسلسل میں علامہ اقبالؒ کی شخصیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، جنہوں نے فلسفہ، شعر اور سیاست کو ایک اخلاقی بنیاد فراہم کی۔ ان کا تصور خودی، دراصل اخلاقی خودشناسی اور روحانی ارتقاء کی وہ تعبیر ہے جو فرد کو خدا سے جوڑتی ہے اور معاشرے کو عدل، حریت اور اخوت کے اصولوں پر قائم کرتی ہے۔ اقبالؒ کے نزدیک علم، طاقت اور سیاست کا حقیقی مصرف وہی ہے جو اخلاقی اقدار کے تابع ہو۔ ان کی عملی جدوجہد مسلم دنیا کو ایک نئی زندگی، نیا شعور اور نیا نظریہ فراہم کرنے کی سعی تھی، جو آج بھی ناقابلِ فراموش ہے۔

    یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم مفکرین کی تعلیمات نے محض مسلمانوں کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ دیگر اقوام و تہذیبیں بھی ان کے افکار سے متاثر ہوئیں۔ قرونِ وسطیٰ میں جب یورپ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، تو ابن رشد، ابن سینا، رازی اور فارابی جیسے مسلم مفکرین کی کتابیں لاطینی زبان میں ترجمہ ہو کر مغربی جامعات میں پڑھائی جاتی تھیں۔ ان کی فکری گہرائی، سائنسی اصولوں پر مبنی تجزیہ اور اخلاقی بنیاد پر استدلال نے یورپ کے فکری ارتقاء میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ یہ مسلم مفکرین کے اخلاقی شعور اور سچائی کی تلاش کا ہی اثر تھا کہ علم و تحقیق کو دین سے ہم آہنگ کر کے پیش کیا گیا۔

    بدقسمتی سے آج کا مسلم معاشرہ ان درخشاں روایات سے کٹتا جا رہا ہے۔ جدید تعلیم و ٹیکنالوجی کی چکاچوند میں ہم نے ان مفکرین کی اخلاقی تعلیمات اور عملی جدوجہد کو محض تاریخ کے اوراق میں بند کر دیا ہے۔ نتیجتاً ہمارے معاشروں میں انتشار، بداخلاقی، کرپشن، اور فکری جمود بڑھتا جا رہا ہے۔ اگر ہم آج بھی مسلم مفکرین کی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کریں، تو ایک ایسا فکری و اخلاقی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے جو معاشروں کو ترقی، امن اور عدل کی طرف لے جائے۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم مفکرین کی فکر کو ازسرِ نو زندہ کیا جائے، ان کی تعلیمات کو نصاب کا حصہ بنایا جائے، ان کے اخلاقی اصولوں کو فرد اور ریاست کی سطح پر اپنایا جائے، اور ان کے عملی نمونوں کو نوجوان نسل کے سامنے پیش کیا جائے۔ کیونکہ صرف وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنی فکری میراث سے جڑی رہتی ہیں، جو اپنے نظریاتی سرمائے کو فراموش نہیں کرتیں اور جو سچائی، دیانت، انصاف اور اخلاص جیسے اصولوں کو اپنی زندگی کا محور بناتی ہیں۔

    پس، مسلم مفکرین کا پیغام آج بھی ایک زندہ حقیقت ہے۔ ان کا فکری اثاثہ، ان کی اخلاقی بصیرت، اور ان کی عملی استقامت، ہمارے لیے ایک مشعلِ راہ ہے بشرطیکہ ہم اسے اپنانے کا حوصلہ پیدا کریں۔ یہی وہ سرمایہ ہے جو مسلم دنیا کو ایک نئے دور کی طرف لے جا سکتا ہے، جہاں علم، کردار، اور عمل کا حسین امتزاج انسانیت کی حقیقی فلاح کا ضامن بن سکے۔

  • عالمی سیاسی تناظر میں فلسطین کا مستقبل – نعیم اللہ باجوہ

    عالمی سیاسی تناظر میں فلسطین کا مستقبل – نعیم اللہ باجوہ

    دنیا کی سیاسی بساط پر کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ مدھم نہیں ہوتے، بلکہ ہر لمحہ نئی کسک کے ساتھ ابھرتے ہیں۔ فلسطین بھی ایک ایسا ہی زخم ہے، جو صدیوں سے عالمی ضمیر پر رِس رہا ہے۔ انسانیت کے دعویدار معاشروں، امن کے نعرے لگانے والی اقوام، اور حقوقِ بشر کے علمبردار اداروں کے سامنے مظلوم فلسطینی اپنے وجود، اپنی زمین، اور اپنی شناخت کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

    عالمی سیاسی تناظر میں فلسطین کا مسئلہ محض ایک خطہِ زمین کا تنازعہ نہیں، بلکہ یہ استعمار، طاقت کے نشے، مذہبی جنون، اور عالمی منافقت کا آئینہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں، عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے، اور ہزاروں احتجاجی قراردادیں سب تاریخ کے صفحات پر پڑی دھول میں گم ہو چکی ہیں۔ طاقتور ملکوں کے مفادات اور اسلحے کی صنعت کا پیٹ بھرتے ہوئے، فلسطینی بچے، بوڑھے، اور عورتیں کچلے جا رہے ہیں۔

    عالمی سیاست میں فلسطین کا مستقبل ایک اندھیرے راستے کا مسافر ہے، جس کے چاروں طرف مفاد پرست طاقتیں اپنی بساط بچھائے بیٹھی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک بھی بےحسی کی چادر اوڑھے، اپنی سلطنتوں کے تحفظ اور معیشت کی فکر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ فلسطینی عوام کے لیے زبان کھولنا، اب صرف چند مظلوم دلوں اور غیرت مند قلموں کا کام رہ گیا ہے۔

    تاہم تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ جب مظلوم کی آہ فضاؤں میں گھلتی ہے، تو بڑے بڑے تخت الٹ جایا کرتے ہیں۔ فلسطین کی مٹی میں دفن شہیدوں کی قربانیاں، کٹی ہوئی زیتون کی شاخیں، اور مسمار شدہ گھروں کی اینٹیں گواہ ہیں کہ وہ دن بھی آئے گا، جب بیت المقدس کی فضاؤں میں اذانِ حق بےخوف گونجے گی، اور عالمی سیاست کے کٹھ پتلی تماشے بے نقاب ہوں گے۔یہ سچ ہے کہ ابھی اندھیری رات ہے، اور سیاسی افق پر انصاف کی روشنی کمزور ہے، مگر تاریخ کا سفر کبھی رکتا نہیں۔ فلسطین کی آزادی، انسانی ضمیر کی فتح کا نام ہے، اور یہ فتح تاخیر کا شکار تو ہو سکتی ہے، مگر ناممکن نہیں۔

    مگر کیسے؟
    یہ سوال تاریخ کی راہ داریوں میں گونج رہا ہے، اور اس کا جواب بھی وہی تاریخ دے چکی ہے۔ جب مظلوم قومیں اپنی تقدیر کا فیصلہ دوسروں کے ایوانوں سے مانگنا چھوڑ دیتی ہیں، اور اپنی صفوں میں اتحاد، بیداری اور قربانی کا جذبہ جگا لیتی ہیں جب قلم، زبان اور بازو ایک نصب العین پر یکجا ہو جاتے ہیں. جب امت کے ٹکڑے اپنے مفاداتی خول توڑ کر، ایک مظلوم قوم کی پکار پر لبیک کہتے ہیں تب ہی انقلاب جنم لیتا ہے۔فلسطین کی فتح اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک ظلم کی ہر شکل کے خلاف یکساں آواز نہیں اٹھے گی۔ وہ وقت آئے گا جب دانشور، عالم، شاعر، طالب علم، مزدور، اور سپاہی سب ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر اعلان کریں گے کہ اب کفن باندھ کر نکلے ہیں حق کی گواہی دینے۔

    انقلاب صرف بندوق سے نہیں آتا، شعور سے آتا ہے۔ جب دنیا کے ضمیر جھنجوڑنے والے الفاظ، مزاحمتی شاعری، احتجاجی تحریریں، اور انسانیت کی آوازیں عالمی ضمیر کو جگانے لگیں گی اور جب مسلم دنیا اپنی خودغرضی ترک کر کے امتِ واحدہ بن جائے گی تو نہ دیوار باقی رہے گی، نہ زنجیر۔ بیت المقدس کی گلیاں پھر اذانِ حق کی صدائیں سنیں گی، اور وہ دن تاریخ کا سنہری باب ہو گا۔ یہی راستہ ہے، یہی طریقہ ہے، اور یہی انقلاب کی اصل صورت ہے۔