Tag: یونیورسٹی

  • تعلیمی ہراسانی– وجوہات، اثرات اور حل -مؤمنہ اظہر

    تعلیمی ہراسانی– وجوہات، اثرات اور حل -مؤمنہ اظہر

    تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن بدقسمتی سے، ہمارے تعلیمی اداروں میں کچھ ایسی مشکلات بھی ہیں جو طلبہ کے اس سفر کو مشکل بنا دیتی ہیں۔ ان میں سے ایک بڑا مسئلہ تعلیمی ہراسانیہے. تعلیم صرف کتابیں پڑھنے اور امتحان پاس کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا سفر ہے جو ایک فرد کی شخصیت کو نکھارتا ہے اور اسے ایک بہتر انسان بننے میں مدد دیتا ہے۔ تعلیم حاصل کرنا ہر بچے اور نوجوان کا حق ہے، لیکن اگر تعلیمی ادارے ہی خوف اور دباؤ کی جگہ بن جائیں، تو یہ حق متاثر ہو جاتا ہے۔ تعلیمی ہراسانی ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں طلبہ، اساتذہ یا دیگر افراد کو زبردستی تنگ کیا جاتا ہے، ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے یا ان کے ساتھ ناانصافی کی جاتی ہے۔ یہ ہراسانی کئی شکلوں میں ہو سکتی ہے، جیسے طنز کرنا، مذاق اڑانا، غیر ضروری دباؤ ڈالنا، یا غیر مناسب رویہ اپنانا۔

    تعلیمی ہراسانی مختلف مراحل میں بڑھتی ہے، اور اگر اسے شروع میں نہ روکا جائے تو یہ سنگین مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ ابتدا میں یہ ہلکے مذاق یا طنز کی صورت میں سامنے آتی ہے، جہاں متاثرہ فرد کو بار بار نشانہ بنایا جاتا ہے، لیکن زیادہ تر لوگ اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، یہ رویہ شدت اختیار کر لیتا ہے، اور متاثرہ فرد ذہنی دباؤ محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس مرحلے میں مذاق سخت ہو جاتا ہے، بے عزتی اور مذاق اُڑانے میں اضافہ ہوتا ہے، اور متاثرہ فرد خود کو الگ تھلگ محسوس کرنے لگتا ہے۔ اگر صورتحال مزید بگڑ جائے تو یہ سنگین نفسیاتی اور جسمانی اثرات پیدا کر سکتی ہے۔ متاثرہ شخص پڑھائی میں دلچسپی کھو دیتا ہے، اس کی خود اعتمادی ختم ہونے لگتی ہے، اور بعض اوقات وہ تعلیمی ادارہ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ ہراسانی کا آخری مرحلہ سب سے خطرناک ہوتا ہے، جہاں متاثرہ فرد شدید ذہنی دباؤ، بے بسی اور خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ کچھ کیسز میں، یہ دباؤ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ متاثرہ فرد خود کو نقصان پہنچانے یا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو سکتا ہے۔ اگر اس مرحلے تک پہنچنے سے پہلے مسئلے کو حل نہ کیا جائے، تو یہ نہ صرف فرد بلکہ پورے تعلیمی نظام کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔

    تعلیمی ہراسانی کا شکار ہونے والے طلبہ کی زندگی پر گہرے اور منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ اثرات نہ صرف تعلیمی میدان تک محدود رہتے ہیں بلکہ ان کی ذہنی، جسمانی اور سماجی زندگی پر بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔ اگر اس مسئلے کو بروقت نہ روکا جائے تو یہ طلبہ کے مستقبل کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔ ہراسانی سب سے زیادہ ذہنی صحت پر اثر ڈالتی ہے، جس سے خوف، پریشانی اور ڈپریشن پیدا ہو سکتا ہے۔ ایسے طلبہ خود کو دوسروں سے کم تر محسوس کرنے لگتے ہیں اور بعض اوقات خود اعتمادی مکمل طور پر ختم ہو جاتی ہے۔ کچھ کیسز میں، متاثرہ طلبہ خود کو نقصان پہنچانے یا انتہائی قدم اٹھانے کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔ تعلیمی لحاظ سے بھی اس کے اثرات سنگین ہوتے ہیں، کیونکہ ہراسانی کا شکار طلبہ پڑھائی میں دلچسپی کھو دیتے ہیں، کلاس میں دھیان نہیں دے پاتے اور اکثر کم نمبروں یا ناکامی کا سامنا کرتے ہیں۔ کچھ طلبہ اسکول یا کالج چھوڑنے پر بھی مجبور ہو سکتے ہیں۔

    مسلسل ذہنی دباؤ جسمانی صحت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، جس سے نیند کی کمی، سر درد، تھکن اور بھوک نہ لگنے جیسے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ کچھ طلبہ میں بلڈ پریشر یا دیگر طبی پیچیدگیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔ ہراسانی کا شکار طلبہ اکثر سماجی طور پر خود کو دوسروں سے الگ تھلگ کر لیتے ہیں، دوست بنانے سے گھبراتے ہیں اور دوسروں پر اعتماد کھو دیتے ہیں۔ یہ اثرات ان کی پوری زندگی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور انہیں پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر تعلیمی اداروں میں ہراسانی عام ہو جائے تو یہ پورے معاشرے کے لیے خطرہ بن سکتی ہے، کیونکہ اس سے تعلیم کا معیار متاثر ہوتا ہے اور طلبہ میں عدم برداشت اور تشدد کے رجحانات فروغ پاتے ہیں۔ اگر متاثرہ طلبہ خود کو کمزور محسوس کرتے ہیں، تو بعض اوقات وہ بھی دوسروں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنے لگتے ہیں، جس سے ہراسانی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جنم لیتا ہے۔

    تعلیمی ہراسانی ایک سنگین مسئلہ ہے، لیکن اگر صحیح اقدامات کیے جائیں تو اسے کم یا مکمل طور پر ختم کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے، طلبہ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہراسانی کو برداشت کرنا کوئی حل نہیں بلکہ اس کے خلاف آواز اٹھانا ضروری ہے۔ متاثرہ طلبہ کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین، اساتذہ یا کسی قابلِ اعتماد شخص سے بات کریں تاکہ مسئلہ جلد حل ہو سکے۔ تعلیمی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے سخت قوانین بنائیں جو ہراسانی کو روکنے میں مددگار ثابت ہوں۔ اساتذہ اور والدین کو بھی چاہیے کہ وہ بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور اگر کوئی طالب علم پریشان نظر آئے تو اس سے کھل کر بات کریں تاکہ وہ اپنا مسئلہ بیان کر سکے۔

    طلبہ میں شعور اجاگر کرنا بھی بہت ضروری ہے، انہیں یہ سکھایا جانا چاہیے کہ کسی کو تکلیف دینا یا مذاق کا نشانہ بنانا غلط ہے۔ اسکول اور کالج میں ایسے تربیتی پروگرام ہونے چاہئیں جو طلبہ کو ایک دوسرے کا احترام کرنے اور اچھے برتاؤ کی اہمیت سمجھانے میں مدد دیں۔ اگر کسی طالب علم کو ہراسانی کا سامنا ہو تو اسے خود اعتمادی کے ساتھ کھڑے ہونے اور اس رویے کے خلاف مزاحمت کرنے کی تربیت دی جائے۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو کھلی اور دوستانہ فضا فراہم کریں تاکہ وہ اپنی پریشانیاں بغیر کسی خوف کے بیان کر سکیں۔

    سوشل میڈیا اور آن لائن ہراسانی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، جسے روکنے کے لیے تعلیمی اداروں کو سائبر بُلنگ کے خلاف سخت اقدامات کرنے چاہئیں۔ طلبہ کو یہ سکھایا جانا چاہیے کہ وہ آن لائن محفوظ رہنے کے اصولوں پر عمل کریں اور اگر انہیں کسی قسم کی ہراسانی کا سامنا ہو تو فوری طور پر رپورٹ کریں۔ تعلیمی ادارے، والدین اور طلبہ کے درمیان بہتر رابطہ اور تعاون سے تعلیمی ہراسانی کو کم کیا جا سکتا ہے، اور ایک ایسا ماحول بنایا جا سکتا ہے جہاں ہر طالب علم بغیر کسی خوف کے اپنی تعلیم مکمل کر سکے۔

    تعلیمی ہراسانی ایک سنگین مسئلہ ہے جو طلبہ کی ذہنی، جسمانی اور تعلیمی کارکردگی پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ اگر اس مسئلے کو بروقت حل نہ کیا جائے تو یہ متاثرہ افراد کے لیے نہ صرف تعلیمی میدان میں مشکلات پیدا کر سکتا ہے بلکہ ان کی پوری زندگی پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اس کا حل صرف قوانین بنانے سے نہیں بلکہ ایک ایسا ماحول پیدا کرنے سے ممکن ہے جہاں طلبہ خود کو محفوظ اور بااعتماد محسوس کریں۔

    والدین، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کو مل کر ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جو ہراسانی کو روکنے میں مددگار ثابت ہوں۔ طلبہ کو اس بارے میں آگاہی دی جانی چاہیے کہ وہ کسی بھی قسم کی ہراسانی کے خلاف آواز اٹھائیں اور اپنے حقوق کا دفاع کریں۔ ساتھ ہی ساتھ، مثبت رویوں اور اخلاقیات کو فروغ دینا بھی ضروری ہے تاکہ طلبہ ایک دوسرے کا احترام کریں اور تعلیم کا ماحول خوشگوار بنا سکیں۔ اگر ہم سب مل کر اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور عملی اقدامات کریں تو ایک ایسا تعلیمی نظام تشکیل دیا جا سکتا ہے جہاں ہر طالب علم بلا خوف و خطر اپنی تعلیم مکمل کر سکے اور ایک بہتر مستقبل کی طرف بڑھ سکے۔

  • استاذ اور شاگرد کا تعلق  – مظفر اقبال

    استاذ اور شاگرد کا تعلق – مظفر اقبال

    [poetry] یہ رشتۂ خلوص ہے ٹوٹے گا کس طرح
    روحوں کو چھو سکی ہے بھلا کسی کے ہاتھ [/poetry]

    استاذ شاگرد کا تعلق ایک روحانی تعلق ہے جو درحقیقت نہ ٹوٹنے والا رشتہ اور ہر رشتہ سے قوی تر رشتہ ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے اس دور میں استاذ و شاگرد کا یہ رشتہ درجہ بدرجہ گرتا چلا جا رہا ہے۔ دینی و دنیوی تعلیمی درسگاہوں میں یہ انحطاط مرحلہ وار جاری ہے اور یہ صورتحال تباہ کن ہے۔ ادب کا معاملہ مختلف شعبوں میں مختلف افراد کے ساتھ ہوتا ہے لیکن استاذ اور شاگرد کے ادب و تعلق کا جو رشتہ ہے یہ انتہائی حساس نوعیت کا ہے کیونکہ اسی سے شاگرد کا مستقبل وابستہ رہتا ہے۔ جس شاگرد نے اپنے استاذ کا احترام کیا اس نے استاذ کا کمال پا لیا اور جس شاگرد نے اپنے استاذ کی گستاخی کی اور نافرمانی کی وہ استاذ کی امانت حاصل کرنے سے محروم رہا۔ یہ ضابطہ دینی مدارس کے اساتذہ اور طلباء کے درمیان بھی ہے اور دنیاوی شعبوں کے اساتذہ اور شاگردوں کے درمیان بھی کیونکہ اپنے محسن اور استاذ کی بےادبی جہاں کہیں بھی ہو اس کا برا اثر ضرور پڑتا ہے۔

    افسوس اور شرمندگی سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے اس دور میں استاذ اور شاگرد کا یہ رشتہ درجہ بدرجہ گرتا چلا جا رہا ہے ، پہلے زمانے میں سکول و کالج کے طلباء اپنے اساتذہ کا غائبانہ طور پر ادب کا خیال رکھتے تھے، پھر کالجز یونیورسٹیز کے طلباء نے غائبانہ طور پر اپنے اساتذہ کی گستاخی شروع کی لیکن پھر بھی اساتذہ کے سامنے ادب کا خیال رکھتے تھے۔ دینی و دنیوی تعلیمی درسگاہوں میں یہ انحطاط درجہ بدرجہ جاری ہے اور یہ صورتحال تباہ کن ہے۔ استاد اور شاگرد کا رشتہ ہمارے آج کے دور میں بہت کمزور ہو چکا ہے۔ اسلاف کے واقعات پر افسانوں کا گمان ہوتا ہے لیکن اسلامی تاریخ کا یہ تابناک باب افسانہ نہیں، ایک روشن اور ناقابل انکار حقیقت ہے۔

    آج دنیا ہمارے اداروں پر الزام لگاتی اور طعنے کستی ہے کہ یہ ادارے ایک بھی کام کا آدمی پیدا نہیں کر پاتے. خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے لڑکے مامون کو علم و ادب کی تعلیم کے لیے امام اصمعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے سپرد کردیا تھا۔ ایک دن اتفاقاً ہارون الرشید وہاں جا پہنچے، دیکھا کہ اصمعی رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنے پاؤں دھو رہے ہیں اور شہزادہ پانی ڈال رہا ہے۔ ہارون الرشید نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے تو اس کو آپ کے پاس اس لیے بھیجا تھا کہ آپ اسے ادب سکھائیں گے ۔ آپ نے شہزادے کو یہ حکم کیوں نہ دیا کہ وہ ایک ہاتھ سے پانی گرائےاور دوسرے ہاتھ سے آپ کے پاؤں دھوئے۔ سکندر سے کسی نے پوچھا کہ آپ استاد کو باپ پر کیوں ترجیح دیتے ہیں۔؟ جواب دیا ” اس لیے کہ باپ تو مجھے آسمان سے زمین پر لایااور میرا استاد ارسطو مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا۔ باپ سبب حیات فانی اور استاد سبب حیات جاودانی ہے۔ باپ نے میرے جسم کی پرورش کی ہےاور استاد نے میری جان و روح کی۔”

    حقیقت یہی ہے کہ اساتذہ کے ادب و احترام اور عزت و خدمت کے بغیر نور علم اور فیض علم نصیب سے روٹھ جاتا ہے۔ مشہور مثالیں ہیں ۔
    با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب
    با ادب با مراد، بے ادب بے مراد

    اساتذہ اور طلبہ کے رشتے سے متعلق کئی روایات موجود ہیں لیکن آج کے دور میں یہ روایتیں افسانہ ہی کیوں نہ معلوم ہوں لیکن تاریخ کے جھروکوں سے جنہوں نے استاذ اور شاگرد کے درمیان شفقت و عقیدت کے پرانے منظر جھانک کر دیکھے ہیں وہ ان واقعات کو تو واقعات ہی کا درجہ دیں گے اور یہ معاملات تو ایسے حالات میں پیش آئے کہ عقیدت کے دامن پر تلخی و بدمزگی کی کوئی پرچھائیں پڑنے نہ پائی تھیں۔

    اساتذہ کا ادب و احترام جتنا کہ دینی مدارس کے طلبہ پر فرض ہے اتنی ہی یہ ذمہ داری دنیاوی علوم کے شاگردوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ دنیاوی علوم میں بھی جو لوگ طالب علمی کے زمانے میں اساتذہ کی مار کھاتے ہیں وہ کافی ترقیاں حاصل کرتے ہیں، اونچے اونچے مقام حاصل کرتے ہیں جس غرض سے علم حاصل کیا تھا وہ نفع پورے طور پر حاصل ہوتا ہے اور جو اس زمانے میں اساتذہ کے ساتھ نحوست وتکبر کے ساتھ رہتے ہیں وہ بعد میں اپنی ڈگریاں لیے ہوئے سفارشیں ہی کراتے رہتے ہیں۔ کہیں اگر ملازمت مل بھی جائے تو آئے روز اس پر آفات ہی رہتی ہیں بہرحال جو علم بھی ہو اس کا کمال اس وقت تک ہوتا ہی نہیں اور اس کا نفع حاصل ہی نہیں ہوتاجب تک اس فن کے اساتذہ کا ادب نہ کرے۔

    آج کل کے دور میں جب میں اساتذہ کے ساتھ ہونے والا سلوک دیکھتا ہوں تو ذہن میں ایک ہی خیال آتا ہے کہ۔۔۔

    [poetry]چلی باد خزاں گلشن پہ ڈھایا ہے ستم ایسا
    چمن والوں کو اپنی زندگی سے موت پیاری ہے[/poetry]
    اور
    [poetry]حقیقت کھولی جائے گی بوقت امتحان تیری
    کہ سستی یا کہ محنت میں گزاری زندگی تو نے[/poetry]

  • تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسمنٹ: وجوہات اور تدارک –  ارشدزمان

    تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسمنٹ: وجوہات اور تدارک – ارشدزمان

    ایک خبر، بلکہ مبینہ سکینڈل، زیرِ بحث ہے، جس میں ملاکنڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر پر طالبات کو جنسی ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا جا رہاہے۔ اطلاعات کے مطابق، ان کے موبائل فون سے سینکڑوں طالبات کی نازیبا ویڈیوز اور تصاویر برآمد ہوئی ہیں۔ مذکورہ شخص گرفتار ہے اور تحقیقات کا انتظار ہے تاکہ اصل معاملہ واضح ہو سکے۔ اللہ کرے کہ یہ الزامات بے بنیاد ثابت ہوں، کیونکہ یہاں پڑھنے والی طالبات کے والدین شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔ یہ پہلا واقعہ نہیں، بلکہ اسی ادارے کے کئی دیگر سکینڈلز بھی پہلے منظرِ عام پر آ چکے ہیں، اور ملک کے دیگر تعلیمی اداروں سے بھی مختلف نوعیت کے معاملات اور سکینڈلز سامنے آتے رہتے ہیں۔

    تعلیمی اداروں میں باقاعدہ حکومتی سرپرستی اور انتظامیہ کے زیرِ نگرانی جب میوزک کنسرٹس، ثقافتی شوز اور فیشن شوز منعقد کیے جاتے ہیں، تو ہم نے ایک معصومانہ سوال اٹھایا تھا: یہ ”تعلیمی ادارے ہیں یا کنجر خانے؟“ اس پر کئی حضرات نے ناک بھوں چڑھا کر ناراضگی کا اظہار فرمایا، بلکہ ہمیں رجعت پسندی کے طعنے بھی دے مارے۔ بھائی صاحب، جو کچھ ہوتا ہے، وہ سب ہواؤں میں تحلیل نہیں ہوتا۔ وقت آنے پر اس کے اثرات لازمی طور پر سامنے آتے ہیں۔ جو لوگ آنکھیں بند رکھتے ہیں، انہیں دروازے چوکھٹ سے ہی کھلے ملتے ہیں۔ معاشرے کے تحفظ میں اخلاق اور اقدار کے حوالے سے حساسیت کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ یہ جو بہت ساری چیزیں نارملائز کرائی جاتی ہیں اور ہم انھیں روشن خیالی اور ماڈریشن کے نام پر قبول کر لیتے ہیں، یہی تباہی کا زینہ بنتی ہیں۔

    یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ معاشرتی بگاڑ اکثر معمولی سمجھ کر نظرانداز کی جانے والی چیزوں سے جنم لیتا ہے۔ جب غیر محسوس انداز میں اخلاقی حدود دھندلا دی جائیں تو پھر وہ چیزیں بھی عام ہو جاتی ہیں جو پہلے ناقابلِ قبول سمجھی جاتی تھیں۔ یہ بحث صرف ”روشن خیالی“ اور ”رجعت پسندی“ کے خانوں میں محدود نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم اپنی نسلوں کو کیا سکھا رہے ہیں اور اس کا مستقبل پر کیا اثر پڑے گا۔ جو اثر پڑا ہے، اس کے مظاہر وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں، جنہیں دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

    تعلیمی ادارے وہ جگہ ہوتے ہیں جہاں طلبہ و طالبات کو محفوظ ماحول میں تعلیم حاصل کرنی چاہیے، لیکن بدقسمتی سے، جنسی ہراسمنٹ جیسے مسائل ان اداروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اس مسئلے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں اور اس کا تدارک بھی ممکن ہے اگر مؤثر اقدامات کیے جائیں۔

    وجوہات
    1.اختیارات کا غلط استعمال
    اساتذہ، منتظمین یا سینئر طلبہ اپنی طاقت اور اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے کمزور طلبہ یا ساتھیوں کو ہراساں کر سکتے ہیں۔
    2 . ادارے میں سخت قوانین کا فقدان
    اگر تعلیمی ادارے میں جنسی ہراسمنٹ کے خلاف کوئی واضح پالیسی نہ ہو یا اسے نافذ نہ کیا جائے، تو ہراساں کرنے والے افراد بے خوف ہو جاتے ہیں۔
    3.خاموشی اور خوف کا کلچر
    متاثرہ افراد اکثر سماجی دباؤ، بدنامی یا انتقامی کارروائی کے خوف سے خاموش رہتے ہیں، جس سے ہراسمنٹ کو فروغ ملتا ہے۔
    4.تعلیم اور آگاہی کی کمی
    بہت سے طلبہ اور اساتذہ کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کن باتوں کو جنسی ہراسمنٹ میں شمار کیا جاتا ہے، اور وہ اپنے حقوق سے لاعلم ہوتے ہیں۔
    5.سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا غلط استعمال
    آن لائن ہراسمنٹ جیسے نامناسب پیغامات، بلیک میلنگ، اور نازیبا تصاویر کا شیئر کیا جانا بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔

    تدارک
    تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسمنٹ کے تدارک کےلیے درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں.
    1.واضح اور سخت پالیسیز بنانا
    ہر تعلیمی ادارے کو جنسی ہراسمنٹ کے خلاف ایک واضح پالیسی بنانی چاہیے، جس میں شکایت درج کروانے کا آسان طریقہ اور سخت سزاؤں کا تعین ہو۔
    2.شکایتی نظام کو مؤثر بنانا
    ایک ایسا خفیہ اور محفوظ نظام بنایا جائے جہاں متاثرہ افراد بلا خوف اپنی شکایت درج کروا سکیں، اور فوری کارروائی یقینی بنائی جائے۔
    3.آگاہی مہمات کا انعقاد
    طلبہ، اساتذہ اور دیگر عملے کے لیے سیمینارز، ورکشاپس اور ٹریننگز کا انعقاد کیا جائے تاکہ وہ ہراسمنٹ کو پہچان سکیں اور اس کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔
    4.سخت سزائیں اور قانونی کارروائی
    ہراسمنٹ میں ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جائیں، چاہے وہ طالب علم ہو، استاد ہو یا کوئی منتظم۔
    5.مشاورت اور نفسیاتی مدد:
    متاثرہ افراد کے لیے مشاورت (counseling) اور نفسیاتی مدد فراہم کی جائے تاکہ وہ ذہنی دباؤ کا شکار نہ ہوں اور اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
    6.ڈیجیٹل سیفٹی کے اصول سکھانا
    سوشل میڈیا اور آن لائن ہراسمنٹ سے بچاؤ کے لیے طلبہ کو ڈیجیٹل سیفٹی کے اصول سکھائے جائیں اور سائبر کرائم قوانین سے آگاہ کیا جائے۔

    علیحدہ تعلیمی اداے
    طالبات کے لیے علیحدہ تعلیمی ادارے ایک مؤثر حل ہو سکتے ہیں، جہاں وہ وقار، آزادی اور تحفظ کے ساتھ تعلیم حاصل کر سکیں۔ کئی معاشروں میں مخلوط تعلیم کے باعث ہراسانی، عدم تحفظ اور دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے والدین اور خود طالبات بھی کسی ایسے ماحول کو ترجیح دیتی ہیں جہاں وہ اعتماد کے ساتھ تعلیم حاصل کر سکیں۔

    علیحدہ تعلیمی اداروں کی اہمیت اور فوائد
    1. وقار اور تحفظ
    علیحدہ تعلیمی ادارے لڑکیوں کو ایک ایسا ماحول فراہم کرتے ہیں جہاں وہ خود کو محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ •والدین بھی زیادہ مطمئن ہوتے ہیں کہ ان کی بیٹیاں ہراسمنٹ اور دیگر مسائل سے دور رہ کر تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
    2. خود اعتمادی میں اضافہ
    خواتین اساتذہ اور منتظمین کی موجودگی طالبات کو زیادہ خود اعتمادی کے ساتھ سیکھنے اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کا موقع دیتی ہے۔ وہ کھل کر سوالات کر سکتی ہیں اور تعلیمی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لے سکتی ہیں۔
    3. تعلیمی کارکردگی میں بہتری
    مطالعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ علیحدہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والی طالبات اکثر بہتر تعلیمی نتائج حاصل کرتی ہیں، کیونکہ وہ کسی قسم کے دباؤ یا عدم تحفظ کے احساس سے آزاد ہوتی ہیں۔
    4. روایتی اور مذہبی اقدار کا تحفظ •
    بہت سے والدین مذہبی اور ثقافتی روایات کی روشنی میں اپنی بچیوں کو مخلوط تعلیم سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔علیحدہ تعلیمی ادارے والدین کے ان تحفظات کو دور کرتے ہیں اور لڑکیوں کو ایک ایسا ماحول دیتے ہیں جہاں وہ اپنی اقدار کے مطابق تعلیم حاصل کر سکیں۔
    5. قائدانہ صلاحیتوں کا فروغ
    چونکہ علیحدہ اداروں میں تمام سرگرمیاں لڑکیوں کے زیر انتظام ہوتی ہیں، اس لیے وہ قائدانہ کرداروں میں زیادہ مؤثر طریقے سے کام کر سکتی ہیں۔ کھیل، مباحثے، سائنسی مقابلے، اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں بھرپور شرکت کا موقع ملتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسمنٹ ایک سنگین مسئلہ ہے، لیکن اگر تمام متعلقہ افراد، بشمول تعلیمی اداروں، حکومت، والدین، اور سماجی تنظیمیں مل کر کام کریں تو اس کا خاتمہ ممکن ہے۔ ایک محفوظ تعلیمی ماحول نہ صرف طلبہ کی کارکردگی بہتر بنائے گا بلکہ معاشرتی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔

  • یونیورسٹی کے چار سال: زندگی کا سنہری دور   – زنیرا شہاب

    یونیورسٹی کے چار سال: زندگی کا سنہری دور – زنیرا شہاب

    ؎ وہ لمحے بھی کیا خوب تھے، جب خواب جوان تھے
    پھولوں کی خوشبو، روشنی کی باتیں، ہنسی کے گیت، رنگین مکان تھے

    یونیورسٹی کے چار سال زندگی کے ایسے باب ہیں جہاں خوابوں کو حقیقت کی چادر پہنائی جاتی ہے۔ یہ وہ عرصہ ہے جو نہ صرف تعلیمی کامیابیوں کا محور ہوتا ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں نکھار پیدا کرتا ہے۔ اس دوران انسان اپنی شخصیت کو سنوارتا ہے، علم حاصل کرتا ہے اور دوستوں کے ساتھ ناقابلِ فراموش یادیں بناتا ہے۔

    پہلا سال، ایک نئی دنیا سے تعارف کا سال ہوتا ہے۔ خوابوں اور خوف کا امتزاج، نیا ماحول اور انجان چہرے دل میں ایک عجیب سی کشش پیدا کرتے ہیں۔ کلاس روم کی پہلی جھجک، نئے دوستوں کے ساتھ پہلی ہنسی اور ہاسٹل کی یادیں ہمیشہ دل کے قریب رہتی ہیں۔

    دوسرا اور تیسرا سال تعلیمی میدان میں گہرائی حاصل کرنے کا وقت ہوتا ہے۔ اس عرصے میں محنت، مقابلہ اور اپنے خوابوں کے حصول کے لیے جدوجہد کا جذبہ عروج پر ہوتا ہے۔ پروجیکٹس، پریزنٹیشنز، اور سیمینارز کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کو بہتر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب خود اعتمادی اور خود شناسی پروان چڑھتی ہیں۔

    دوستیوں کا رشتہ بھی انہی سالوں میں مضبوط ہوتا ہے۔ وہ ہنسی، روتے روتے دل کا ہلکا ہونا، لائبریری میں دیر رات تک پڑھائی کرنا اور کیفے ٹیریا میں گرم چائے کے ساتھ خوابوں کے پل باندھنا، سب کچھ یادوں کا خزانہ بن جاتا ہے۔

    آخری سال، جدائی کا سال ہوتا ہے۔ ہر لمحہ دل میں ایک خوشی اور ایک اداسی کا احساس جگاتا ہے۔ کامیابیوں کا جشن بھی ہوتا ہے اور دوستوں سے بچھڑنے کا غم بھی۔ ڈگری لینے کا خواب جو برسوں سے دیکھا تھا، اب حقیقت کے قریب ہوتا ہے لیکن دل میں ہمیشہ یونیورسٹی کی یادوں کا بوجھ لیے جاتا ہے۔
    [poetry]
    یادیں وہی سنہری ہیں جو خوابوں میں بستی ہیں
    یونیورسٹی کے لمحے، دل کے گوشے میں ہنستی ہیں
    [/poetry]
    یونیورسٹی کے چار سال زندگی کے وہ پل ہیں جو ہمیشہ دل کے قریب رہتے ہیں۔ یہ سال شخصیت سازی، خوابوں کے تعاقب اور دوستیوں کے انمول لمحات کا مجموعہ ہیں۔ ان یادوں کے ساتھ زندگی کا سفر آسان اور خوشگوار ہو جاتا ہے۔

  • واٹس ایپ کوڈ کے ذریعے  تعلیمی اسناد کی تصدیق  کا فراڈ – انعم زیدی

    واٹس ایپ کوڈ کے ذریعے تعلیمی اسناد کی تصدیق کا فراڈ – انعم زیدی

    انجان نمبر سے مسلسل کال آرہی تھی لیکن میں ٹھہری بچپن کے مفروضے کی عادی لہذا کال اٹینڈ نہیں کی ۔ سن 2000ء کے آغاز میں جب پاکستان کے حالات دگردوں ہوئے تو ایک افواہ بہت سنی کہ کسی انجان نمبر سے کال اٹینڈ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ دہشت گرد ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کال کرتے ہیں ، اگر کال اٹینڈ کر لی جائے تو مخصوص جگہ پر خودکار طریقے سے دھماکہ ہوجاتا ہے اور سارا ملبہ اس بیچارے پر گرتا ہے جس کے نمبر پر کال آرہی ہوتی ہے ، اسی طرح انجان نمبر پر بیک کال نہیں کرنی ، اِدھر آپ نے کال کی اُدھر مخصوص جگہ پر دھماکہ ہوگیا اور آپ کی گردن چھری تلے آجاتی ہے۔ یہ مفروضہ کتنا سچ تھا اور کتنا جھوٹ ، بچپن گزرنے کے بعد بھی اسے جاننے کی کوشش نہیں کی البتہ انجان نمبر کو جواب نہ دینے کی عادت مختلف وجوہات کی بنا پر آج بھی قائم ہے۔

    کل سہ پہر کی بات ہے جب ایک جونیئر کی کال آئی جس کا مجھے علم نہیں ہوسکا ، تقریبا ڈیڑھ گھنٹے بعد موبائل اٹھایا تو ان کی کال اور گھبرایا ہوا میسیج تھا ، ” انعم مجھے کال آئی ہے کہ ہم ایچ ای سی سے بات کررہے ہیں ، آپ کو واٹس ایپ پر ایک کوڈ بھیجا ہے وہ بتائیں تاکہ آپ کے کاغذات کی تصدیق کی جائے وغیرہ۔”

    خوش قسمتی سے کچھ دن پہلے ہماری ایک استاذہ انھیں اسی سکیم کے بارے میں خبردار کر چکی تھیں کیونکہ استاذہ کو بھی اسی طرح کی کال آئی تھی ، میری جونئیر نے کال تو بند کردی لیکن وہ چاہ رہی تھیں کہ باقی سب طالبات کو بھی خبردار کیا جاسکے ۔ انھیں مشورہ دیا کہ اپنے ڈیپارٹمنٹ کے گروپ میں میسیج کردیں ، میسیج کرنے کے بعد علم ہوا کہ اسی نمبر سے ڈیپارٹمنٹ کی کئی لڑکیوں کو آج ہی کال آئی ہے ، نمبر دیکھا تو میرا ماتھا ٹھنکا کہ بارہ بجے مجھے بھی کال آئی تھی لیکن انجان نمبر کو نظر انداز کرنے کی بدولت میں نے اٹینڈ نہیں کی تھی۔

    میرا خیال تھا کہ آگہی عام ہے تو لوگ اب اس طرح کے فراڈ کا شکار نہیں ہوتے لیکن حال ہی میں چینی اور پاکستانی فراڈ کی خبریں بی بی سی کی زینت بنی ہیں جن سے ایک وسیع طبقہ متاثر ہوا ہے ، جبکہ اس سے پہلے واٹس ایپ پر کوڈ بھیجنے کے بعد ویریفیکیشن کے نام پر اچھے بھلے سمجھدار لوگ اپنی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ، اسی طرح مختلف نیوز ویب سائٹس اور گروپس میں لوگ طرح طرح کی دھوکہ دہی کے بارے میں اطلاعات دے رہے ہوتے ہیں ۔ کل کے واقعے کے بعد ذہن میں وہ تمام واقعات گھوم گئے جو اپنے اردگرد سنے یا ان سے متاثرہ لوگوں کو دیکھا ہے ۔

    کچھ عرصہ قبل کسی بھی عزیز کو تھانے میں بند کروا کر پیسوں کا مطالبہ کرنے کا فراڈ بہت عام تھا ، میرے خالہ خالو اس کا شکار ہوتے بال بال بچے تھے ، اگرچہ اب اس میں کمی آگئی ہے لیکن جدت اس طرح سے پیدا ہوئی ہے کہ اے آئی کے ذریعے کسی رشتہ دار کی آواز کی نقل تیار کر کے مصیبت میں پھنسنے کی اطلاع دینے کے ساتھ پیسوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح ٹیکسٹ میسیج پر کوئی نا کوئی کوڈ یا لنک بھیجا جاتا ہے اور پرکشش تعلیمی ، تفریحی اور کاروباری سہولیات سے مفت فائدہ اٹھانے کی ترغیب دی جاتی ہے یا پھر ایک کوڈ آنے کے بعد کسی روتے ہوئے شخص کی کال آجاتی ہے کہ میں اپنے اکاؤنٹ میں پیسے ٹرانسفر کررہا تھا لیکن غلطی سے آپ کے پاس چلے گئے ہیں ، جو کوڈ آیا ہے اسے مجھے واپس بھیج دیں ۔

    اسی طرح پہلے بینک اکاؤنٹ ویریفائی ہوتے تھے ،” ایف آئی اے” والے گھر بیٹھے بٹھائے نادہندہ جرم کی معافی تلافی کرنے کے لیے معلومات کی تصدیق کرتے تھے ، اب تعلیمی اداروں سے منسلک لوگوں کی سہولت کے لیے ہمدردوں نے مفتے میں کاغذات ویریفائی کرنے کی عوامی خدمت شروع کی ہے ۔ ہر پنچھی کے لیے الگ ہی صیاد ہے ۔ کوشش کیا کریں کہ ایسی ہمدردیوں سے خبردار رہیں اور اپنے ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کے لیے کچھ تجاویز کو اپنا لیں تاکہ ہیکنگ اور فراڈ سے کسی حد تک بچنا ممکن ہو ۔

    1۔حفاظت کی مسنون دعائیں اور اذکار پڑھتی رہا کریں ۔
    2۔ کوشش کریں کہ آپ لڑکیاں انجان نمبروں سے کال اٹینڈ نہ کیا کریں ، اگر کوئی ضروری فون ہوگا تو گھر میں سے کسی کے نمبر پر کال آجائے گی البتہ اگر آپ اس تعلیمی یا کاروباری مرحلے پر ہیں کہ جہاں انجان نمبروں سے کال کا جواب دینا ضروری ہوتا ہے تو اپنے اعصاب مضبوط رکھنے کی عادت ڈالیں کیونکہ اس طرح کے لوگ پیشہ ور تحکمانہ لہجے میں بات کرتے ہیں جس سے انسان مرعوب ہوجاتا ہے ۔ بہرحال کوئی کتنا بھی اپنے آپ کو بڑا افسر ظاہر کروائے، دھمکیاں دے ، ڈرنے کی بجائے بلاک کریں ۔
    3۔واٹس ایپ یا دیگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بھیجے گئے کسی بھی ایسے لنک پر کلک نہ کریں جس کی عبارت عجیب و غریب ہو ۔ مثلا فلاں رشتہ دار کی تصویر کیسی لگ رہی ہے یا آپ کی اپنی تصویر کیسی لگ رہی ہے ، تجسس میں کھولنے کی بجائے نظر انداز کر کے اسے ڈیلیٹ کردیا کریں ۔ کیونکہ بعض اوقات ہمارے عزیز رشتہ داروں کے اکاؤنٹس سے ایسے میسیجز آجاتے ہیں جن کا انہیں خود بھی علم نہیں ہوتا ۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر موجود ہر ایک لنک کو تجسس کے مارے کھولا نہ کریں ۔ خصوصا جس میں کوئی پرکشش آفر ہو ، عموما اِدھر ہم کلک کرتے ہیں اور اُدھر سارا ڈیٹا اس کے پاس چلا جاتا ہے جبکہ ہمارے سامنے سکرین پر ویب سائٹ کھلنے میں تاخیر کررہی ہوتی ہے جسے ہم انٹرنیٹ کی سست روی سمجھ بیٹھتے ہیں۔
    4۔ پلے سٹور کے علاوہ دیگر ذرائع سے کوئی ایپ ڈاؤن لوڈ نہ کیا کریں بلکہ پلے سٹور سے کسی بھی غیر ضروری ایپ کو ڈاؤن لوڈ نہ کریں ۔ حال ہی میں ایک چینی فراڈ سامنے آیا ہے کہ کئی پاکستانیوں نے لالچ میں پلے سٹور سے ایپ ڈاؤن لوڈ کرکے کروڑوں روپے گنوائے ہیں ۔آن لائن گیمز اور اشتہارات کے ذریعے پیسے کمانا یا پیسے ڈبل کرنا ایسی سب چیزوں سے دور رہیں کہ پیسے کے ساتھ ساتھ ڈیٹا بھی ضائع ہوسکتا ہے۔
    5۔ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور جی میل وغیرہ کے پاسورڈز یکساں نہ رکھیں ، بلکہ ہر پاسورڈ دوسرے سے مختلف ہو تاکہ خدانخواستہ ایک اکاؤنٹ ہیک ہو بھی ہو جائے تو باقی محفوظ رہیں ۔
    6۔ پاسورڈ کبھی بھی عام نہ رکھیں ، مثلا اپنا نام یا کسی عزیز کا نام ، تاریخ پیدائش ، کسی مشہور جگہ کا نام وغیرہ نہ رکھیں ، اسی طرح Pakistan 123 ایک معروف پاسورڈ ہے یا کسی بھی نام کے بعد 1 سے لے کر 8 تک ہندسے ، اس طرح کے پاسورڈ جلد ہیک کرلیے جاتے ہیں۔ Ge-$^•÷Tm*¥~§Zd . اس طرح کے پاسورڈ استعمال کرنے کی عادت ڈالیں اور انہیں کسی نوٹ بک پر نوٹ کر کے رکھ لیا کریں تاکہ بھولیں نا۔
    7۔ پاسورڈ کم از کم 12 سے 16 ہندسوں کا رکھیں اور شروع ، آخر یا درمیان کا کوئی نا کوئی حرف بڑا ہو ۔
    8۔ کوشش کریں کہ دو چار ماہ بعد پاسورڈ تبدیل کرتی رہا کریں ۔
    9 ۔ فیس بک اور واٹس ایپ کی Two step verification آن رکھیں۔
    10۔ اپنے قیمتی ڈیٹا کو ایک جگہ رکھنے کی بجائے مختلف جگہوں پر رکھیں مثلا دو تین کلاؤڈز پر ، یو ایس بی یا ہارڈ ڈرائیو میں اور اسے بھی لاک رکھیں۔
    11۔اگر ممکن ہو سکے تو سائبر سیکورٹی کا کوئی کورس ضرور کریں تاکہ ایسے معاملات سے بچاؤ کی آگہی حاصل ہو۔

    سر مزمل راجپوت ( زمی راجپوت ) کے الفاظ میں تسلی کہ پریشان نہ ہوں ، ہیکنگ سے دنیا کی بڑی اور معروف کمپنیاں محفوظ نہیں ہیں تو ہم کیا چیز ہیں ، بس احتیاطی تدابیر اپنائیں ، غلطی کم سے کم کرنے کے چانس رکھیں اور بات بات پر خوفزدہ ہونے کی بجائے اپنے اعصاب مضبوط رکھیں تاکہ کسی کی لالچ اور دھمکی کا اثر کم سے کم ہوسکے ، ساتھ ساتھ دعا کرتی رہیں ، ان شاءاللہ سب خیر ہوگی ۔

  • سفرنامہ: چین – جیسا میں نے دیکھا –  محمد حسیب اللہ راجہ

    سفرنامہ: چین – جیسا میں نے دیکھا – محمد حسیب اللہ راجہ

    چین، ایک نیا جہاں
    یہ 2013 کی بات ہے، جب نہ ہر جیب میں سمارٹ فون ہوتا تھا، نہ ہی سوشل میڈیا نے دنیا کو اتنا قریب کر دیا تھا جتنا آج ہے۔ ان دنوں بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کا خواب ہر پاکستانی نوجوان کی آنکھوں میں ہوتا تھا، مگر ان خوابوں کا رُخ زیادہ تر یورپ، امریکہ یا انگلینڈ کی طرف ہوتا تھا۔ چین کا نام سنتے ہی لوگوں کے ذہن میں زبان، انوکھے کھانے اور ایک مختلف ثقافت کا تصور اُبھر آتا تھا۔

    کیونکہ ہم انگریزوں کی کالونی رہے ہیں تو ہمیں انگریزی بولنے والے ملکوں میں جانا اور رہنا آسان لگتا ہے، یہ خیال کرنا کہ کوئی چین جا کر تعلیم حاصل کرے گا، ایسا ہی تھا جیسے کوئی دور دراز کے کسی گاؤں میں جا کر پڑھنے کا ارادہ کرے۔ اس وقت چین میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان خاص طور پر میڈیکل کے شعبے تک محدود تھا، لیکن میرے بارے میں یہ مشہور تھا کہ میں ہمیشہ ہجوم سے ہٹ کر راستہ چُنتا ہوں۔

    جہاں میرے دوست یورپ، امریکہ یا انگلینڈ کے خواب دیکھ رہے تھے، میں نے چین جانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ میری فطرت کے عین مطابق تھا۔ دوستوں کا ردعمل دلچسپ تھا۔ کچھ نے حیرانی سے پوچھا، ’’چین؟ بھائی، وہاں جا کے کیا کرو گے؟ وہاں تو زبان بھی نہیں آتی، کھانے بھی عجیب ہوں گے، اور کلچر تو بالکل مختلف ہے!‘‘ کچھ نے مذاق میں کہا، ’’چینی لوگ تو کیڑے مکوڑے کھاتے ہیں، تم کیسے گزارہ کرو گے؟‘‘ لیکن میں نے ان سب باتوں کو مسکرا کر نظرانداز کر دیا۔ میرے دل میں ایک عجیب سا جوش تھا، جیسے میں کسی نئی دنیا کی تلاش میں نکل رہا ہوں، جہاں نہ صرف تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کے مواقع ہوں گے بلکہ زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کا موقع بھی ملے گا۔

    اُس وقت میں جہلم کے ایک نجی کالج میں کیمسٹری پڑھاتا تھا۔ بی ایس کیمسٹری کے آخری سال میں تھا اور تدریس کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری تھا۔ میرے اور طلبہ کے درمیان رشتہ صرف استاد اور شاگرد کا نہیں تھا، بلکہ میں انہیں اپنے چھوٹے بھائیوں کی طرح سمجھتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ صرف نصابی کتابوں کے فارمولے اور اصول رٹوانا کافی نہیں، بلکہ زندگی کے تجربات اور سیکھے گئے سبق بھی بانٹنے ضروری ہیں۔ میں اپنی یونیورسٹی لائف کے تجربات اور اپنے اساتذہ سے سیکھے گئے قیمتی اسباق ان طلبہ کے ساتھ شیئر کرتا تھا۔

    یہی وجہ تھی کہ میرے طلبہ مجھ سے کھل کر بات کرتے، اپنے مسائل بیان کرتے اور مشورے لیتے۔ ایک دن ایک طالب علم نے مجھ سے کہا، ’’سر، میں ڈینٹسٹری کرنا چاہتا ہوں، مگر پاکستان میں میرٹ نہیں بن رہا۔ کیا آپ کے جاننے والوں میں کوئی ایسا ہے جو چین یا روس میں داخلے کا بندوبست کرا سکے؟‘‘ یہ سوال میرے لیے ایک نئے دروازے کے کھلنے کی مانند تھا۔ میں نے فوراً اپنے ایک دوست سے رابطہ کیا، جو چین میں ایم بی بی ایس کر رہا تھا۔ اس کے مشورے سے میرے طلبہ کے چین جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔

    جب میرا بی ایس کیمسٹری مکمل ہوا، تو میرے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ میں بھی چین سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کروں اور ساتھ ساتھ طالب علموں کی رہنمائی کو ایک پیشے کے طور پر اپناؤں۔ یہ فیصلہ زندگی کے ایک نئے باب کا آغاز تھا۔ یوں میری تعلیمی اور پیشہ ورانہ زندگی کا سفر چین کی طرف رواں دواں ہوا۔

    جب میں نے چین جانے کا ارادہ کیا تو دل میں کئی سوالات تھے۔ زبان کا مسئلہ سب سے بڑا چیلنج تھا۔ چینی زبان دنیا کی مشکل ترین زبانوں میں شمار ہوتی ہے، اور اس وقت میرے پاس اس کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ لیکن میں نے خود کو حوصلہ دیا کہ زبان ایک رکاوٹ نہیں، بلکہ ایک موقع ہے۔ ایک نئی زبان سیکھنے کا مطلب ایک نئی ثقافت، نئے لوگوں، اور نئی دنیا کو سمجھنے کا دروازہ کھولنا ہے۔

    تیاریوں کا مرحلہ دلچسپ تھا۔ ویزے کی درخواست، داخلہ کے کاغذات، اور دیگر رسمی کارروائیاں مکمل کرنے کے بعد جب میں نے چین کے لیے روانگی کی تاریخ طے کی، تو دل میں عجب سا جوش اور تھوڑا خوف بھی تھا۔ خاندان اور دوستوں نے الوداعی ملاقاتیں کیں، نصیحتیں دیں، اور مستقبل کے لیے دعا کی۔

    جب جہاز نے اسلام آباد کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے اُڑان بھری، تو میں کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ یہ سفر صرف جغرافیائی نہیں، بلکہ میری شخصیت اور زندگی میں بھی ایک انقلاب لانے جا رہا ہے۔ چین پہنچنے پر پہلی چیز جو محسوس ہوئی، وہ زبان کا مسئلہ تھا۔ ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہی چینی زبان کے بورڈز، اعلانات، اور لوگوں کی گفتگو میرے لیے بالکل اجنبی تھی۔ گوگل ٹرانسلیٹ یا دیگر سہولیات اُس وقت اتنی عام نہیں تھیں اور چین میں ان پر پابندی تھی اور اب بھی ہے، اس لیے ہر بات سمجھنا ایک چیلنج تھا۔ لیکن یہی چیلنج میرے سفر کا سب سے دلچسپ حصہ بننے والا تھا۔

    یونیورسٹی پہنچنے پر، جہاں میں نے ماسٹرز کے لیے داخلہ لیا تھا، پہلا دن یادگار تھا۔ مختلف ممالک سے آئے ہوئے طلبہ، جن کی زبانیں، ثقافتیں، اور خیالات مختلف تھے، ایک جگہ جمع تھے۔ یہاں میں نے پہلی بار محسوس کیا کہ تعلیم صرف کتابوں تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک عالمی تجربہ ہے۔ کلاس روم میں چینی اساتذہ کی تدریس کا انداز، ان کی محنت، اور طلبہ کی لگن دیکھ کر میں متاثر ہوا۔

    چین میں رہتے ہوئے سب سے بڑا چیلنج کھانے پینے کا تھا۔ چینی کھانے پاکستانی ذائقوں سے بالکل مختلف تھے۔ شروع میں تو مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا کھاؤں اور کیا چھوڑ دوں۔ لیکن وقت کے ساتھ میں نے نئی چیزوں کو آزمانا شروع کیا۔ کچھ کھانے پسند آئے، کچھ عجیب لگے، لیکن یہ سب تجربات میری زندگی کا حصہ بن گئے۔

    زبان سیکھنے کا سفر بھی دلچسپ تھا۔ شروع میں تو ہر چینی لفظ مجھے ایک پیچیدہ معمہ لگتا، لیکن وقت کے ساتھ جب میں نے زبان کی باریکیاں سمجھنا شروع کیں، تو مجھے محسوس ہوا کہ زبان کا حسن اس کی پیچیدگی میں ہی ہے۔ چینی زبان سیکھنے سے نہ صرف میری تعلیمی کارکردگی بہتر ہوئی بلکہ میں نے مقامی لوگوں کے ساتھ بہتر تعلقات بھی قائم کیے۔

    چین میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران میں نے دیکھا کہ وہاں کا تعلیمی نظام پاکستانی نظام سے خاصا مختلف ہے۔ چینی اساتذہ طلبہ کو تحقیق کی طرف زیادہ راغب کرتے ہیں اور عملی کام پر زور دیتے ہیں۔ یہ تجربہ میرے لیے نہایت فائدہ مند ثابت ہوا۔ میں نے سیکھا کہ تعلیم کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا نہیں، بلکہ علم کو عملی زندگی میں استعمال کرنا ہے۔

    چین میں گزارے گئے دنوں نے مجھے نہ صرف تعلیمی میدان میں ترقی دی بلکہ میری سوچ اور شخصیت کو بھی نکھارا۔ میں نے سیکھا کہ مشکلات سے گھبرانے کے بجائے انہیں قبول کر کے ان کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ چین کے تجربات نے مجھے خود اعتمادی دی، اور آج میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ سفر میری زندگی کا بہترین فیصلہ تھا۔

    اس سفرنامے کا نام “چین – جیسا میں نے دیکھا” اس لیے رکھا ہے کیونکہ چین بہت بڑا ملک ہے، جہاں مختلف قومیتیں، زبانیں، اور ثقافتیں پائی جاتی ہیں۔ ہر شخص کا تجربہ منفرد ہوتا ہے۔ میرے مشاہدات اور تجربات نہ صرف میرے ذاتی ہیں بلکہ میرے بہن بھائیوں اور قریبی دوستوں کی روداد پر بھی مشتمل ہیں۔ یہ سفرنامہ ان کہانیوں، مشاہدات، اور تجربات کا ایک مجموعہ ہے جو چین کے رنگوں اور زاویوں کو میری نظر سے پیش کرتا ہے۔

  • پاکستانی جامعات کی بربادی کے ذمہ دار کون؟ – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    پاکستانی جامعات کی بربادی کے ذمہ دار کون؟ – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    پچھلے ہفتے بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی میں ایک ٹریننگ کورس میں گفتگو کےلیے گیا، تو معلوم ہوا کہ وہاں ملازمین کو اس ماہ بھی بس “چوتھائی تنخواہ” ہی دی گئی ہے۔ یہ بحران کسی ایک یونیورسٹی کو ہی درپیش نہیں ہے بلکہ تقریباً تمام یونیورسٹیاں اس کا سامنا کررہی ہیں۔ ہمارے محترم دوست ڈاکٹر عزیز الرحمان صاحب نے صوبائی حکومتوں کی جانب سے یونیورسٹیوں کو اپنی تحویل میں لینے کے متعلق ایک فکر انگیز تحریر لکھی ہے۔ اس تحریر نے یاد دلایا کہ پاکستان میں اعلی تعلیم کے گرتے ہوئے معیار اور وفاقی اور صوبائی سرکاری جامعات میں بد انتظامی کے متعلق سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلہ 24 اکتوبر 2024ء کو جاری کیا تھا۔ اب چونکہ اس فیصلے کو 3 مہینے ہوچکے ہیں، تو دیکھنا چاہیے کہ اس فیصلے پر کتنا عمل درآمد ہوا ہے اور عمل درآمد نہ کرنے کےلیے کون ذمہ دار ہیں؟

    سپریم کورٹ کے فیصلے کے اہم نکات
    اس فیصلے سے قبل عدالت نے تعلیم کی وفاقی اور صوبائی وزارتوں اور ایچ ای سی کے علاوہ سرکاری جامعات کے وائس چانسلروں کو بھی تفصیل سے سنا۔ وزارتِ تعلیم اور ایچ ای سی نے متعدد جامعات کے متعلق شکایات کا انبار لگا دیا۔ چار تفصیلی سماعتوں کے بعد عدالت کے سامنے کئی اہم مسائل آئے: اکثر جامعات مستقل وائس چانسلر کے بغیر چلائی جارہی ہیں؛ جامعات کے فیصلہ ساز اداروں (سینڈیکیٹ، بورڈ آف گورنرز وغیرہ) کے اجلاس باقاعدگی سے، اور بروقت، منعقد نہیں کیے جاتے؛ جامعات میں اہم عہدوں (جیسے رجسٹرار، ڈین، چیئرپرسن وغیرہ) پر عارضی تعیناتیاں ہوتی ہیں جبکہ قانون ان عہدوں پر مقررہ مدت کےلیے مستقل تعیناتی لازم کرتا ہے؛ جامعات مالیاتی بحران کا شکار ہیں؛ جامعات میں اساتذہ اور طلبہ کو اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنا موقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا اور انتظامیہ آمریت کا رویہ اپنائے ہوئے ہے؛ کیمپس اور ہاسٹلوں میں تشدد اور منشیات کی شکایات بھی ہیں۔ عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں بعض جامعات کے متعلق خصوصی احکامات بھی دیے اور آخر میں عمومی احکامات بھی دیے جن کا اطلاق تمام جامعات پر ہوتا ہے۔

    3 جامعات اب بھی صرف کاغذ پر ہی پائے جاتے ہیں!
    وفاقی وزارتِ تعلیم کے تحت 12 جامعات میں 3 کے متعلق بتایا گیا کہ وہ قانون اور قاعدے ضابطے کے مطابق چل رہی ہیں اور ایک جامعہ میں معمولی مسائل تھے۔ 3 جامعات کے متعلق بتایا گیا کہ ابھی انھوں نے کام ہی شروع نہیں کیا۔ آج بھی یہ 3 جامعات صرف کاغذات میں ہیں، لیکن ان کے کرتا دھرتا قومی خزانے سے بھاری تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں۔ باقی 5 جامعات کا حال دیکھ لیں۔

    قائدِ اعظم یونیورسٹی
    قائدِ اعظم یونیورسٹی میں خازن (treasurer) کا عہدہ 2017ء سے تاحال خالی ہے؛ یونیورسٹی کے ارد گرد دیوار کی تعمیر ابھی تک مکمل نہیں ہوسکی؛ اور طلبہ یونین کےلیے انتخابات ابھی تک منعقد نہیں کیے جاسکے۔ وائس چانسلر نے ان تینوں کاموں کی یقین دہانی عدالت کو کرائی تھی۔

    وفاقی اردو یونیورسٹی
    وفاقی اردو یونیورسٹی میں 2019ء سے کئی اہم عہدے خالی ہیں۔ عدالت نے وزارتِ تعلیم اور ایچ ای سی کی تجویز مان کر وائس چانسلر کو اختیار دیا کہ ان عہدوں کو پھر مشتہر کیا جائے لیکن جنھوں نے پہلے درخواستیں دی ہیں، انھیں بھی مقابلے میں شامل کیا جائے۔ وائس چانسلر کی یقین دہانی کے باوجود آج بھی یہ عہدے خالی ہیں۔

    نیشنل سکلز یونیورسٹی
    نیشنل سکلز یونیورسٹی میں رجسٹرار اور خازن نہیں تھے اور وائس چانسلر کے عہدے پر سابق وائس چانسلر کو عارضی چارج دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کی بازپرس پر رجسٹرار اور خازن کی تعیناتی کی گئی اور یقین دہانی کرائی گئی کہ چند دنوں میں وائس چانسلر کی تعیناتی ہوجائے گی مگر ایسا اب تک نہیں ہوسکا۔ یہ یونیورسٹی مالی بحران کا شکار ہے، یہاں اساتذہ کو ہائرنگ اور میڈیکل کی سہولیات میسر نہیں مگر عارضی وائس چانسلر مسلسل سلیکشن بورڈ کرکے نئی بھرتیاں کرتے جارہے ہیں۔ مریدکے میں کیمپس دوسال پہلے کھولا گیا مگر وہاں تاحال کوئی پروگرام شروع نہیں کیا جاسکا اور وہاں کے لیے بھرتی کیےگئے اساتذہ سے اسلام آباد میں کام لیا جارہا ہے۔

    این ایف سی ملتان
    این ایف سی انسٹی ٹیوٹ فار انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ملتان کے عہدے پر 2018ء سے ایک شخص ناجائز طور پر قابض تھا۔ عدالت نے اسے فوری طور پر ہٹا کر عارضی ذمہ داری کےلیے مناسب بندوبست کرنے اور قانون کے مطابق مستقل وائس چانسلر کی تعیناتی کےلیے حکم دیا۔ وزارتِ تعلیم نے 12 نومبر 2024ء کو ”ایچ ای سی کی مشاورت سے“ 90 دن کےلیے اس عہدے کا ”اضافی چارج“ ایک ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل کو دیا۔ قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ انھی جرنیل صاحب کو جولائی 2024ء میں ایچ ای سی نے ”نیشنل ٹیکنالوجی کونسل“ کے چیئر پرسن کی حیثیت سے 4 سال کےلیے تعینات کیا تھا اور انھی کے پاس نیشنل یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اسلام آباد کے ریکٹر کا عہدہ بھی ہے!

    اسلامی یونیورسٹی
    بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کا معاملہ تو اس سے بھی برا ہے۔ ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے 9 نومبر 2024ء کو اس کے عارضی ریکٹر کا چارچ سنبھالا، لیکن ان کے نوٹی فیکیشن میں 90 دن کا ذکر نہیں ہے۔ عدالت نے سابق ریکٹر ڈاکٹر ثمینہ ملک کو معطل کرتے ہوئے ان کی برطرفی اور نئے ریکٹر کی تعیناتی کےلیے بھی حکم دیا تھا، لیکن تا حال سابق ریکٹر کی برطرفی کا نوٹی فیکیشن نہیں کیا گیا، نہ ہی نئے ریکٹر کی تعیناتی کےلیے اشتہار دیا گیا ہے۔ شنید ہے کہ ڈاکٹر مختار مستقل ریکٹر بننا چاہتے ہیں اگرچہ ان کی عمر 65 سال سے زائد ہوچکی ہے، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ عمر کی یہ حد وائس چانسلر کےلیے ہے، نہ کہ ریکٹر کےلیے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ڈاکٹر مختار اس جامعہ میں صدرِ جامعہ کو بھی وائس چانسلر کی حیثیت نہیں دینا چاہتے۔ چنانچہ انھوں نے صدرِ جامعہ کےلیے جو ”معیارات“ منظور کروانے کی کوشش کی ہے، ان میں یہ شرط ہی نہیں ہے کہ وہ فل پروفیسر ہو۔ یاد ہوگا کہ جامعہ کے پچھلے صدر بھی اسسٹنٹ پروفیسر تھے اور اس وجہ سے کسی شعبے کے چیئرمین یا کسی فیکلٹی کے ڈین بھی نہیں بن سکتے تھے۔ ڈاکٹر مختار صدرِ جامعہ کی تعیناتی کےلیے اشتہار دینے سے بھی گریز کررہے ہیں جبکہ عدالت نے حکم دیا تھا کہ ان عہدوں کو باقاعدہ مشتہر کرکے شفاف طریقے سے میرٹ پر تعیناتی کی جائے۔ اس کے بجاے ڈاکٹر مختار نے 18 جنوری کی شام کو گنتی کے چند وائس چانسلروں کو ای میل کرائی اور کہا کہ وہ اپنے اپنے دائرے میں اس بات کو مشتہر کریں کہ اگر کوئی شخص اسلامی یونیورسٹی کا صدر بننا چاہتا ہے تو وہ مطلوبہ فارم پر تمام دستاویزات کے ساتھ درخواست دیں اور یہ درخواست 22 جنوری تک دینی لازم ہے، یعنی صرف 4 دن، جن میں ڈیڑھ دن چھٹی کے تھے!

    ڈاکٹر مختار، سپریم کورٹ اور 18 ویں ترمیم
    ڈاکٹر مختار کو جولائی 2024ء میں بطور چیئرمین ایچ ای سی مزید ایک سال کی توسیع دی گئی تھی اور اس توسیع کی قانونی حیثیت پر کئی سوالات ہیں، لیکن شاید وہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں، اس لیے پچھلے ہفتے وائس چانسلروں کےاجلاس میں انھوں نے وائس چانسلروں پر اپنی راے مسلط کرنے کی کوشش کی اور جب کئی وائس چانسلروں نے ان کو یاد دلایا کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد ایچ ای سی صوبوں میں مداخلت نہیں کرسکتی، تو انھوں نے اس ترمیم کو تمام مسائل کی جڑ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے نظرانداز کرکے بس یہ دیکھنا چاہیے کہ ملک و قوم کے مفاد میں کیا ہے! پچھلے مہینے اسلامی یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں ڈاکٹر مختار نے جامعات کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے متعلق بھی اس قسم کا رویہ اختیار کیا اور یہاں تک کہا کہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی ختم ہوگیا ہے! کیا اعلیٰ تعلیم کے نظام کے سربراہ کی حیثیت سے ایسے شخص کی موجودگی میں جس کاآئین، قانون اور عدالتی فیصلوں کے متعلق یہ رویہ ہو، توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ نظام قانون کے مطابق چلایا جاسکے گا اور اس میں بہتری لائی جاسکے گی؟

  • طلبہ یونین، سپریم کورٹ اور ہماری جامعات – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    طلبہ یونین، سپریم کورٹ اور ہماری جامعات – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    سینیٹ آف پاکستان نے 2017ء میں ایک متفقہ قرارداد (نمبر 335) منظور کی جس میں کہا گیا کہ ”طلبہ یونین ایسا فورم ہے جس کے ذریعے طلبہ اپنے تعلیمی حقوق کےلیے مؤثر انداز میں آواز بلند کرسکتے ہیں؛ یہ طلبہ کے منتخب نمائندوں کو مختلف الانواع تعلیمی، ثقافتی اور فلاحی کاموں میں حصہ لینے کا موقع فراہم کرتی ہے؛ اس نے پسماندہ اور متوسط طبقات سے ابھرنے والے سیاسی رہنماؤں کو مراعات یافتہ طبقات اور سیاسی اشرافیہ سے آنے والے سیاسی رہنماؤں کے برابر لاکھڑا کیا؛اس نے آمریت کے خلاف جدوجہد میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا؛ یہ درست ہے کہ ماضی میں بعض مواقع پر سیاسی جماعتوں سے منسلک طلبہ تنظیموں نے جامعات کے اندر پرتشدد کارروائیوں میں حصہ لیا، لیکن اس کا حل طلبہ یونین پر پابندی لگانا نہیں، بلکہ مؤثر ضابطۂ اخلاق کا نفاذ یقینی بنا کر تعلیمی اداروں کو مضبوط کرنا تھا۔“ طلبہ یونین کی بحالی کےلیے اس سے اچھا مقدمہ شاید ہی پیش کیا جاسکے!
    9 فروری 1984ءکو، جبکہ ملک میں مارشل لا نافذ تھا، آمر کے دو حکمناموں کے ذریعے طلبہ یونین پر پابندی لگائی گئی۔ تاہم 1989ء میں پارلیمان نے باقاعدہ قانون منظور کرکے ان حکمناموں کو منسوخ کردیا۔ اس کے بعد ملک بھر کی جامعات میں طلبہ یونین کی بحالی ہوجانی چاہیے تھی۔ تاہم صرف پنجاب میں طلبہ یونین کے انتخابات کرائے گئے اور اس کے بعد مختلف عذر پیش کرکے یہ سلسلہ روک دیا گیا۔ کافی کھینچا تانی کے بعد یہ معاملہ بالآخر سپریم کورٹ تک پہنچا جس نے 1993ء میں ”اسماعیل قریشی بنام اسلامی جمعیت طلبہ“ کے مقدمے میں اس موضوع پر تفصیلی فیصلہ دیا۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس فیصلے کے ذریعے طلبہ یونین پر پابندی لگائی۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے طلبہ کے سیاست میں حصہ لینے سے تو روکا لیکن ساتھ ہی یہ ہدایت جاری کی کہ ایک مہینے کے اندر جامعات میں ایسا انتظام کیا جائے کہ طلبہ صحت مند سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں، ”خواہ اس انتظام کو کوئی بھی نام دیا جائے“، اور اس مقصد کےلیے انتخابات بھی منعقد کیے جائیں۔ حیرت ہے کہ سپریم کورٹ کے اس صریح حکم کو بھی مسلسل 3 عشروں سے پامال کیا جارہا ہے!
    دسمبر 2019ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ایک طالب علم کا قتل ہوا۔ اس قتل کی انکوائری رپورٹ سے معلوم ہوا کہ کیسے جامعات میں اعلی عہدوں پر موجود بعض لوگ طلبہ کو اپنے مقاصد کےلیے استعمال کرتے ہیں۔ رپورٹ میں جامعات میں سیاسی جماعتوں سے منسلک طلبہ تنظیموں کی موجودگی پر بھی اعتراض کیا گیا ۔ اکتوبر 2021ء میں جب یہ رپورٹ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم میں پیش کی گئی، تو اس نے متفقہ طور پر طے کیا کہ سیاسی جماعتوں سے منسلک طلبہ تنظیموں پر پابندی کا مطلب طلبہ یونین پر پابندی نہیں ہے ۔ قائمہ کمیٹی میں پیپلز پارٹی، نون لیگ، تحریکِ انصاف، جماعتِ اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام سب کی نمائندگی تھی۔
    2017ء میں سینیٹ کی متفقہ قرارداد ہو یا 2021ء میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی متفقہ رپورٹ، دونوں کو سینیٹ کے لازمی فیصلے کی حیثیت حاصل ہے لیکن دونوں پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ ستمبر 2023ءمیں قائدِ اعظم یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ کے اجلاس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بطورِ رکن شرکت کی، تو انھوں نے طلبہ یونین کے متعلق استفسار کیا۔ وفاقی سیکرٹری تعلیم وسیم اجمل چودھری نے طلبہ یونین کی بحالی پر زور دیا جس سے یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور سینڈیکٹ کے دیگر ارکان نے بھی اتفاق کیا۔ 1984ء کے مارشل لا حکمناموں، 1989ء کے ایکٹ آف پارلیمنٹ اور 1993ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لینے کے بعد سینڈیکیٹ نے طلبہ یونین کی بحالی کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کےلیے ضابطۂ اخلاق اور انتخابات کے قواعد طے کرنے کےلیے ڈاکٹر حافظ عزیز الرحمان، ڈائریکٹر سکول آف لا، کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی۔ فروری 2024ء میں سینڈیکیٹ کے اجلاس میں اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی اور یونیورسٹی انتظامیہ نے سینڈیکیٹ کو آگاہ کیا کہ اگلے سمسٹر (خزاں 2024ء) میں طلبہ یونین کے انتخابات منعقد کرائے جائیں گے۔
    ستمبر 2024ء میں سپریم کورٹ میں جامعات کے مسائل کے متعلق مقدمے (آئینی درخواست نمبر 7 بابت 2024ء) کی سماعت کے موقع پر قائدِ اعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نیاز اختر نے اس عزم کا اعادہ کیا اور سپریم کورٹ نے ان کے اس عزم کا اپنے فیصلے میں ذکر بھی کیا اور دیگر جامعات کو طلبہ یونین کے انتخابات کے متعلق قائدِ اعظم یونیورسٹی کے قواعد اور ضابطۂ اخلاق کی پیروی کی ہدایت کی۔ اپنے حکمنامے میں سپریم کورٹ نے ملک بھر میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تحت کام کرنے والی تمام سرکاری جامعات اور تعلیم کی وفاقی و صوبائی وزارتوں کے علاوہ ہایئر ایجوکیشن کمیشن اور صوبائی اعلی تعلیمی محکموں کو جو احکامات جاری کیے،ان میں طلبہ یونین کی بحالی کا حکم بھی شامل تھا۔ اس فیصلے کے بعد اب کسی کے پاس طلبہ یونین کی بحالی سے گریز کےلیے کوئی عذر باقی نہیں رہا ہے۔
    سپریم کورٹ کا یہ حکم ہر سرکاری جامعہ کےلیے ہے اور اب یہ ہر سرکاری جامعہ کی الگ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ہاں طلبہ یونین کے انتخابات کرائے۔ کسی سرکاری جامعہ کی انتظامیہ یہ عذر پیش نہیں کرسکتی کہ وہ اس ضمن میں حکومت یا وزارتِ تعلیم کی اجازت یا ہایئر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے رہنمائی کی منتظر ہے۔ ہایئر ایجوکیشن کمیشن نے جامعات کو ایک مراسلہ جاری کرکے جامعات کو طلبہ یونین بحالی کو مؤخر کرنے کا بہانہ فراہم کردیا ہے، لیکن ہم پچھلے کالم میں واضح کرچکے ہیں کہ جامعات پر ہایئر ایجوکیشن کمیشن کی سفارشات ماننا لازم نہیں ہے۔ جس سرکاری جامعہ کی انتظامیہ اس حکم پر عمل درآمد سے گریز کررہی ہے، اس کے اور تعلیم کی وفاقی و صوبائی وزارتوں اور ہایئر ایجوکیشن کمیشن کے خلاف سپریم کورٹ کے آئینی بنچ میں توہینِ عدالت کی درخواست دائر کرنی چاہیے۔ اس کے بعد ہی طلبہ یونین کی بحالی ممکن ہوسکے گی۔
    جامعات میں طلبہ یونین کی جگہ ہم نصابی سرگرمیوں کےلیے طلبہ کی”سوسائٹیز “کو دینے والے وہی کام کررہے ہیں جوآمریت کے دور میں صوبائی و قومی اسمبلیاں ختم کرکے یونین کونسل کی سطح پر انتخابات کرانے والے کرتے تھے۔ پوری جامعہ کی سطح پر تمام طلبہ کی ایک منتخب یونین سے جامعات کی انتظامیہ اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کیوں خوفزدہ ہیں؟ اس سوال کے جواب کےلیے دیکھیے کہ وفاقی حکومت سے سب سے زیادہ گرانٹ لینی والی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز اور بورڈ آف ٹرسٹیز میں طلبہ تو کیا، اساتذہ کے منتخب نمائندوں کو بھی بیٹھنے کا حق نہیں حالانکہ دسمبر 2023ء میں جامعہ کا بورڈ آف ٹرسٹیز خود اپنی 18 خالی نشستوں میں 4 نشستیں اساتذہ کے منتخب نمائندوں کےلیے مختص کرچکا ہے۔ جامعات طلبہ اور اساتذہ کےلیے ہوتی ہیں، لیکن جامعات کی انتظامیہ اساتذہ اور طلبہ کے سامنے جوابدہی سے بچنا چاہتی ہے۔ چنانچہ ہایئر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر مختار احمد پچھلے دو ماہ سے اس جامعہ کے ریکٹر کی کرسی پر براجمان ہیں لیکن بورڈز کے اجلاس میں اساتذہ کے منتخب نمائندوں کی شرکت کےسب سے بڑے مخالف وہی ہیں۔
    چوں کفر از کعبہ برخیزد، کجا ماند مسلمانی!

  • انجام گلستاں مختلف ہو گا-جاوید چوہدری

    انجام گلستاں مختلف ہو گا-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480
    سردار بہادر خان صدر ایوب خان کے بڑے بھائی تھے‘ وہ 1908ء میں پیدا ہوئے‘ علی گڑھ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی‘ مسلم لیگ میں شامل ہوئے‘ 1939ء میں سرحد اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے‘ 1942ء میں اسپیکر بن گئے‘ 1946ء میں خارجہ امور کے وزیر مملکت بنے‘ 1954ء تک تمام حکومتوں میں مختلف محکموں کے وفاقی وزیر رہے اور پھر بلوچستان کے چیف کمشنر بنا دیے گئے‘ وہ ایوب خان کے بڑے بھائی تھے لیکن وہ مارشل لاء اور ایوب حکومت دونوں کے خلاف تھے۔
    وہ 1962ء میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئے اور اپنے بھائی فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت کے پرخچے اڑانے لگے‘ آپ نے اکثر یہ مصرع سنا ہو گا’’ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے‘انجامِ گلستاں کیا ہوگا‘‘ یہ مصرع پہلی مرتبہ سردار بہادر خان نے قومی اسمبلی میں پڑھا تھا‘ ان کا اشارہ صدر ایوب خان کی کابینہ کی طرف تھا‘ یہ مصرع اس وقت سے ہماری سیاست کا حصہ ہے‘ صدر ایوب خان کے صاحبزادے گوہر ایوب اور پوتے عمر ایوب بعد ازاں سردار بہادر خان کے حلقے سے الیکشن لڑتے رہے اور قومی اسمبلی کے رکن اور وزیر بنتے رہے‘ یہ حلقہ آج بھی ایوب خان فیملی کے پاس ہے۔
    سردار بہادر خان لیاقت علی خان‘ خواجہ ناظم الدین اور محمد علی بوگرہ کے ادوار میں مواصلات کے وفاقی وزیر رہے‘ اس دور میں ٹی بی مہلک ترین مرض ہوتا تھا‘ ملک کے تمام شہروں میں ٹی بی کے ہزاروں مریض تھے چنانچہ حکومتیں ٹی بی کی علاج گاہیں بناتی رہتی تھیں‘ ٹی بی کی علاج گاہیں سینٹوریم کہلاتی ہیں‘ کوئٹہ اس زمانے میں ملک کا خوبصورت ترین شہر تھالیکن اس شہر میں کوئی سینٹوریم نہیں تھا‘ سردار بہادر خان نے سینٹوریم بنانے کا فیصلہ کیا‘ پاکستان ریلوے کا قلم دان اس وقت ان کے پاس تھا‘ کوئٹہ کے بروری روڈ پر ریلوے کی زمین تھی۔
    سردار بہادر خان نے وہ زمین سینٹوریم کے لیے وقف کر دی‘ یہ 1954ء میں چیف کمشنر بلوچستان بنے تو انھوں نے زمین کے اس خطے پر سینٹوریم بنا دیا‘ یہ سینٹوریم سردار بہادر خان کے نام سے منسوب ہوا اور تین دہائیوں تک کامیابی سے چلتا رہا لیکن پھر ملک میں ٹی بی کے مرض پر قابو پا لیا گیا اور یہ عمارت آہستہ آہستہ ناقابل استعمال اور متروک ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ 2004ء آ گیا‘ جنرل پرویز مشرف صدر پاکستان تھے‘ یہ کوئٹہ کے دورے پر گئے‘  بلوچستان کے لوگوں نے کوئٹہ میں خواتین کی یونیورسٹی کا مطالبہ کر دیا‘ جنرل مشرف نے یہ مطالبہ مان لیا‘ یونیورسٹی کے لیے جگہ تلاش کی گئی تو نظر سردار بہادر خان سینٹوریم پر آکر ٹھہر گئی‘ یہ عمارت خستہ حال اور متروک تھی‘ چھتیں ٹین کی تھیں۔
    دروازے اور کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور برآمدے اور کمرے ابتر حالت میں تھے لیکن بلوچستان کے لوگوں نے یہ عمارت اس حال میں بھی قبول کر لی‘ یہ لوگ ہر حال میں اپنی بچیوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے تھے یوں سردار بہادر خان سینٹوریم کا نام بدل گیا اور یہ سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی بن گئی‘ یہ ملک میں خواتین کی دوسری یونیورسٹی تھی‘ ملک میں اس وقت ڈیڑھ سو یونیورسٹیاں ہیں لیکن ان میں سردار بہادر خان یونیورسٹی جیسی کوئی درس گاہ نہیں‘ آپ بلوچستان کے محروم کلچر کو دیکھیں‘ قبائلی روایات کو ذہن میں لائیں‘ صوبے کی غربت‘ محرومی اور پسماندگی کا جائزہ لیں‘ آپ آبادی کے لحاظ سے چھوٹے اور رقبے میں طویل ترین صوبے میں دہشت گردی کی وباء کو دیکھیں اور آپ پھر سردار بہادر خان یونیورسٹی کی بچیوں کا عزم اور حوصلہ دیکھیں تو آپ ان بچیوں کے حوصلے‘ جذبے اور بہادری کی داد دینے پر مجبور ہو جائیں گے‘ آپ ان کی جرأت کو سلام کریں گے۔
    مجھے 27 اکتوبر کو سردار بہادر خان یونیورسٹی کی بہادر بچیوں سے ملاقات کا موقع ملا‘ میں یونیورسٹی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے سیمینار میں بطور مہمان مدعو تھا‘ ڈاکٹر رخسانہ جبین یونیورسٹی کی وائس چانسلر ہیں‘ ان کی زندگی کے کئی برس اسلام آباد میں گزرے‘یہ قائداعظم یونیورسٹی میں پڑھتی رہیں لیکن یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے محروم صوبے کی محروم بچیوں کی خدمت کے لیے کوئٹہ آ گئیں‘ یہ مضبوط اعصاب کی خاتون ہیں‘ یہ مشرقی خواتین کے برعکس فوری اور ٹھوس فیصلے کرتی ہیں‘ یہ مسائل میں الجھنے کے بجائے ان کا حل تلاش کرتی ہیں۔
    مجھے ان کی اس صلاحیت نے حیران کر دیا‘ وائس چانسلر کا آفس سینٹوریم کے آپریشن تھیٹر میں قائم ہے‘ آفس کی ایک دیوار پر ٹیلی ویژن اسکرین ہے اور اس اسکرین پر سیکیورٹی کیمروں کی لائیو فوٹیج چلتی رہتی ہے‘ڈاکٹر رخسانہ ہر منٹ بعد اس اسکرین کو دیکھتی رہتی ہیں‘ ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا‘ 15جون 2013ء کو ایک خود کش حملہ آور خاتون یونیورسٹی کی بس میں سوار ہو گئی تھی‘بس جب طالبات سے بھر گئی تو حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا‘ خوفناک دھماکا ہوا‘ دھماکے میں 14بچیاں شہید اور22ز خمی ہو گئیں۔
    یہ کوئٹہ کی تاریخ کا خوفناک ترین واقعہ تھا‘ یونیورسٹی تین ماہ بند رہی‘ لوگوں کا خیال تھا یہ یونیورسٹی کبھی نہیں کھل سکے گی لیکن آپ بلوچستان کے لوگوں کا جذبہ اور ڈاکٹر رخسانہ جبین کی جرأت دیکھئے‘ خودکش حملے کے وقت یونیورسٹی میں 1500 طالبات زیر تعلیم تھیں لیکن آج یونیورسٹی میں سات ہزار بچیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں‘ بچیاں اعلیٰ تعلیم کے لیے پورے بلوچستان سے کوئٹہ آتی ہیں‘ ہم لوگ جب سمینار کے لیے آڈیٹوریم کی طرف جا رہے تھے تو وہ مقام راستے میں آگیا جہاںجون 2013ء میں تعلیم کے جذبے کو خودکش حملے سے اڑانے کی کوشش کی گئی تھی‘ ڈاکٹر رخسانہ جبین نے اس مقام کی نشاندہی کی‘ میرا دل بوجھل ہو گیا لیکن پھر چند لمحوں میں بچیوں کے حوصلے اور جرأت نے غم کی جگہ لے لی اور میں شہیدوں کو سلام کر کے آگے نکل گیا۔
    آپ یقینا سوچتے ہوں گے ان معصوم بچیوں نے دہشت گردوں کا کیا بگاڑا ہے‘ یہ ان پر کیوں حملے کر رہے ہیں‘ اس کی تین وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ ہزارہ کمیونٹی ہے‘ کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے سات لاکھ لوگ آباد ہیں‘ یہ نسلاً منگول ہیں‘ یہ افغانستان اور ایران میں آٹھ سو سال سے مشکل زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ انیسویں صدی کے آخر میں پہلی بار افغانستان سے نکلے اور کوئٹہ میں آباد ہونے لگے‘ یہ شیعہ مسلک سے وابستہ ہیں اور یہ اپنے مخصوص خدوخال‘ قد کاٹھ اور رنگت کی وجہ سے لاکھوں لوگوں میں پہچانے جاتے ہیں۔
    پاکستان کے چوتھے آرمی چیف جنرل موسیٰ خان ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے‘ یہ 1985ء میں بلوچستان کے گورنر بنے تو انھوں نے اپنی کمیونٹی کو خصوصی مراعات دیں‘ جنرل موسیٰ نے ہزارہ کمیونٹی کی عزت نفس کی بحالی میں بھی اہم کردار ادا کیا‘ یہ لوگ اس وقت دہشت گردوں کا خوفناک ٹارگٹ ہیں‘ یہ ہزار گنجی اور ہزارہ ٹاؤن میں بھی ٹارگٹ بنتے رہتے ہیں اور یہ جب زیارتوں کے لیے ایران جاتے ہیں تو بھی قافلے روک کر انھیں نشانہ بنایا جاتا ہے‘ سردار بہادر خان یونیورسٹی میں ہزارہ کمیونٹی کی سیکڑوں بچیاں پڑھتی ہیں‘ یہ بچیاں بھی دہشت گردوں کا ٹارگٹ ہیں‘ دوسری وجہ بلوچستان ہے‘ بلوچستان طویل بحران کے بعد ٹریک پر آ رہا ہے‘ لوگ اپنی حالت بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں‘ وفاق کو بھی ماضی کی غلطیوں کا ادراک ہو چکا ہے۔
    یہ بھی اب بلوچستان کے لوگوں کی مدد کر رہا ہے‘ فوج بھی بلوچستان کو خصوصی اہمیت دے رہی ہے اور بلوچ سرداروں کے رویوں میں بھی تبدیلی آ رہی ہے‘ یہ تمام عناصر مل کر بلوچستان کے خشک درخت پر پھل لگا رہے ہیں‘ پاکستان کے دشمن بلوچستان اور پاکستان دونوں کی ترقی سے خوش نہیں ہیں‘ یہ لوگ یہ پھل اور درخت دونوں کو کاٹنا چاہتے ہیں اور خواتین کیونکہ آسان ٹارگٹ ہوتی ہیں چنانچہ یہ ان پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں اور تیسری وجہ اقتصادی راہداری ہے۔ ’’سی پیک‘‘ حقیقتاً گیم چینجر ثابت ہو گا‘ یہ ملک کی ریڑھ کی ہڈی بن جائے گا‘ ہمارے دشمن ہمارے وجود میں یہ ہڈی نہیں دیکھنا چاہتے چنانچہ انھوں نے بلوچستان میں افراتفری کو اپنا مقصد بنا لیا ہے۔
    بھارت نے افغانستان میں باقاعدہ ٹریننگ کیمپ بنا رکھے ہیں‘ یہ بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے ہر سال چار سو ملین ڈالر خرچ کرتا ہے‘ یہ لوگ دہشت گردوں کو ٹریننگ دیتے ہیں‘ انھیں اسلحہ اور رقم فراہم کرتے ہیں اور یہ ٹرینڈ لوگ بعد ازاں بلوچستان میں افراتفری پھیلاتے ہیں‘ بلوچستان کے لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں چنانچہ یہ دشمن کے ہر حملے کے بعد زیادہ جذبے‘ زیادہ جرأت اور زیادہ عزم کے ساتھ میدان میں کھڑے ہوجاتے ہیں‘ میں نے یہ عزم‘ یہ جرأت اور یہ جذبہ سردار بہادر خان یونیورسٹی کی ہر بچی کی آنکھ میں دیکھا‘ خصوصاً ہزارہ کمیونٹی کی بچیاں کسی بھی حال میں پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور یہ وہ تبدیلی ہے جو اگر چلتی رہی تو وہ وقت دور نہیں رہے گا جب سردار بہادر خان یونیورسٹی کی بچیاں اقتدار کی کسی شاخ پر اُلو نہیں بیٹھنے دیں گی اور اگر اُلو بیٹھ گئے تو بھی انجامِ گلستاں مختلف ہو گا‘ اس ملک کا آنے والا کل ہر لحاظ سے آج سے مختلف ہو گا۔

  • یونیورسٹی میں تدریس: اساتذہ کے لیے نئی جہتیں – حافظ محمد زبیر

    یونیورسٹی میں تدریس: اساتذہ کے لیے نئی جہتیں – حافظ محمد زبیر

    حافظ محمد زبیر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایک یونیورسٹی کامسیٹس میں انجینئرنگ کے طلبہ کوگریجویشن لیول پر اسلامیات کا کورس پڑھاتا ہوں۔ کمپیوٹر سائنس، سافٹ ویئر انجینئرنگ، الیکٹریکل انجینئرنگ وغیرہ کے بچے عموما ہیومینٹیز کے کورسز مثلا اسلامیات، مطالعہ پاکستان، سوشیالوجی وغیرہ میں دلچسپی نہیں لیتے کہ انہوں نے اس میں ڈگری نہیں لینی ہے وغیرہ۔ اسی لیے ان مضامین کے اساتذہ اپنے طریقہ تدریس میں نئی نئی جہتیں سامنے لاتے رہتے ہیں۔
    ہر کورس میں چار اسائنمنٹس ہوتی ہیں اور ان اسائنمنٹس کے ذریعے بچوں کی ہیومینیٹیز کے کورسز میں دلچسپی کافی بڑھائی جا سکتی ہے جبکہ ان میں کوئی نیا پہلو ہو۔ میں بچوں کو پہلی اسائنمنٹ یہ دیتا ہوں کہ وہ ایک موضوع پر فیس بک پیج بنائیں، اس کو دو ہفتوں کے لیے چلائیں، اس پر موضوع سے متعلق پوسٹیں لگائیں، اس پیج پر زیادہ سے زیادہ لائکس حاصل کرنے کےلیے اسے ایڈورٹائز کریں۔ پیج کے عنوانات اصلاحی نوعیت کے ہوتے ہیں جیسا کہ فیس بک ایڈکشن یا اسمارٹ فون ایڈکشن یا اسلام اور سائنس یا تقابل ادیان۔ بچے اس فیس بک پیج کی کلاس میں پریزینٹیشن بھی دیتے ہیں اور بتلاتے ہیں کہ اتنی پوسٹیں ہم نے لگائی ہیں، اتنے لائکس ملے، اوراتنا ریسپانس رہا وغیرہ۔ یہ گروپ اسائنمنٹ ہوتی ہے، جس میں تین سے چار بچوں کا ایک گروپ ہوتا ہے۔
    دوسری اسائنمنٹ، پاور پوائنٹ سلائیڈز کی دیتا ہوں کہ ایک موضوع پر بچوں نے پندرہ سے بیس سلائیڈز بنا کر لانی ہیں، اور موضوعات عموما ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں بچوں کی دلچسپی قائم رہے جیسا کہ اس دفعہ کے موضوعات میں اسلامک اسکولز، اسلامک یونیورسٹیز، اسلامک چینلز، اسلامک آن لائن لائبریریز، اسلامک سافٹ ویئرز، اسلامک ایپس، اسلامک آرٹ، اسلامک کارٹونز وغیرہ تھے۔ اور بچے یہ سلائیڈز بنا کر سلائیڈ شیئر نامی ویب سائٹ پر اپ لوڈ بھی کریں گے کہ جو سلائیڈز کا بہت بڑا ڈیٹا ہے جیسا کہ یوٹیوب ویڈیوز کا بہت بڑا ڈیٹا ہے تاکہ یہ سلائیڈز تعلیم اور اصلاح کا بھی ذریعہ بنیں۔ اور یہ بھی گروپ اسائنمنٹ ہوتی ہے۔
    تیسری اسائنمنٹ، پریکٹیکل نوعیت کی ہوتی ہے کہ جسے میں اسلامیات کی لیب کہتا ہوں۔ یہ اسائنمنٹ یہ ہوتی ہے کہ بچے پانچ دن تک لگاتار پانچ وقت کی نماز پڑھیں گے، بھلے جماعت سے نہ پڑھیں لیکن یہ کہ وقت پر پڑھیں گے تو پورے نمبر ملیں گے اور اگر نماز قضا ہوگی تو نصف نمبر ہوں گے اور بالکل ہی نہ پڑھیں گے تو زیرو نمبر ہوں گے۔ بچوں کے پاس چارٹ نما ورقہ ہوتا ہے کہ جس پر وہ ٹک مارک کرتے رہتے ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے سے بچے اس پریکٹس سے نماز پڑھنا شروع ہو جاتے ہیں کہ اگر وہ صرف فرض بھی پڑھ لیں تو میں اسے بھی کنسیڈر کر لیتا ہوں کہ فرض تو ادا ہوا۔ اور بہت سے بچے نماز میں ریگولر ہونے کی وجہ سے کلاس اور پڑھائی میں بھی ریگولر اور سنجیدہ ہوجاتے ہیں۔
    چوتھی اسائنمنٹ بھی یا تو عملی ہوتی ہے کہ بچوں نے تین دن لگاتار پچاس روپے کسی غریب اور مسکین کو صدقہ کرنا ہے تاکہ بچوں میں غرباء سے ہمدردی اور ان پر خرچ کرنے کا جذبہ پیدا ہو یا پھر یہ کہ یونیورسٹی کے بچوں کی پڑھائی میں رکاوٹ بننے والے ذہنی، معاشی، معاشرتی مسائل وغیرہ پر اسائنمنٹ دے دی اور بچوں نے اپنے مسائل پر خود ہی گفتگو کی اور خود ہی سے اس کا حل بھی پیش کیا۔ اس طرح ٹیچر کے سامنے بعض ایسے مسائل بھی آ جاتے ہیں کہ جو اس کے ذہن میں بھی نہیں ہوتے لیکن وہ بچوں کی پڑھائی میں رکاوٹ بن رہے ہوتے ہیں۔
    کچھ دن پہلے ہی بچوں کی پریزینٹیشنز تھیں تو ایسے ہی ذہن میں آیا کہ بچوں کی کوئی اسائنمنٹ شیئر کر دوں، تو چار بچوں کے ایک گروپ نے اسلامک کارٹونز پر سلائیڈز تیار کی ہیں اور اس میں عبد الباری، برقعہ ایوینجرز، صلاح الدین، عبد اللہ، مصری بنچ جیسے پانچ کارٹونز سیرز کا تعارف کروایا ہے۔ یہ گریجویشن لیول کے کمپیوٹر سائنس کے بچوں کی محنت ہے، اس کی ضرور حوصلہ افزائی کریں اور ان سے ایم فل اور پی ایچ ڈی علوم اسلامیہ کے اسٹوڈنٹس جیسے تحقیقی لیول کی امید نہ کریں۔ یہ پریزینٹیشن اس لنک پر موجود ہے:
    http://www.slideshare.net/hmzubair52/islamic-cartoons