Tag: قرآن

  • مزدور کے حقوق، قرآن و حدیث کی روشنی میں – محمد سلمان عثمانی

    مزدور کے حقوق، قرآن و حدیث کی روشنی میں – محمد سلمان عثمانی

    اسلام میں مزدوروں کے بہت سے حقوق ہیں جن اسلام نے انتہائی اہمیت کے ساتھ بیان کیا ہے،مزدور ہی اس قوم کا اثاثہ ہیں جو روزانہ تازہ کماکر اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے،کسی بھی ملک، قوم اورمعاشرے کی ترقی میں مزدور وں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے، مگر سب سے زیادہ حق تلفی بھی انہی کی کی جاتی ہے۔

    سرمایہ دار اور جاگیردار طبقے مزدور کا استحصال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور مزدور اسے اپنا مقدر سمجھ کر صبر کر لیتے ہیں۔ ہمارے سماج میں مزدوروں کا وجود ہے، جسے ہمیں تسلیم کرنا چاہیے۔ مزدوری ہر کوئی کرتا ہے، مگر سب کے درجات الگ ہوتے ہیں۔ ہر مزدور اپنے میدان میں اپنی بساط بھر مزدوری کرتا ہے اور اجرت حاصل کرکے اپنے اہل و عیال کی کفالت کرتا ہے۔ اسلام نے محنت کو بڑا مقام عطا کیا ہے اور محنت شخص کی بڑی حوصلہ افزائی کی ہے.

    نبی کریم ﷺنے فرمایا :
    خود کمانے والا اللہ تعالیٰ کا دوست ہوتا ہے. (طبرانی)

    یہ فرما کر محنت کی قدرو قیمت اجاگر فرما دی۔ نیز آپ ﷺکا فرمان ہے کہ:
    کسی نے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے بہتر کوئی کھانا نہیں کھایا. (صحیح البخاری)

    آپﷺ کو مزدوروں کے حقوق کا اس حد تک پاس تھا کہ وصال سے قبل آپﷺ نے اپنی امت کے لیے جو آخری وصیت فرمائی وہ یہ تھی کہ نماز کا خیال رکھو اور ان لوگوں کا بھی جو تمہارے زیر دست ہیں. (مسنداحمد، ابو داؤد)

    آپ ﷺ نے مزید فرمایا:
    تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن میں خود جھگڑوں گا۔ ان میں سے ایک وہ ہو گا جس نے کسی کام کروایا۔ کام تو اس سے پورا لیا مگر اسے مزدوری پوری ادا نہ کی.(صحیح البخاری)

    ایک مرتبہ آپ ﷺ نے ایک شخص سے مصافحہ کرتے وقت اس کے ہاتھوں پر کچھ نشانات دیکھے، وجہ پوچھی تو اس نے بتایا روزی کمانے میں محنت مشقت کرنے کی وجہ سے، تو آپ ﷺنے اس کا ہاتھ چوم لیا۔
    مزید ارشاد فرمایا:مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل اس کی مزدوری ادا کر دو. (ابن ماجہ)

    جو کوئی غیر آباد زمین کو آباد کرے تو وہ اسی کی ہے (گویا اس کی محنت نے اس کو مالکانہ حقوق عطاء کر دئیے) .(احمد، ترمذی، ابو داؤد)

    اجرت مزدور کا حق ہے، قرآن حکیم میں آتا ہے :
    ”جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ان کے لئے ختم نہ ہونے والا (دائمی) اجر ہے“

    معاہدہ ملازمت (چاہے معاہدات واضح ہوں یا مضمر)کے جدید تصورات کی پیش گوئی کرتے ہوئے نبی کریمﷺ نے مزدور کو کام کی اجرت مقرر کیے بغیر بھرتی کرنے اور کام کروانے سے منع کیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہےکہ اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے۔محنت و مزدوری اللہ کے نبیوں کی سنت ہے۔ کم و بیش تمام انبیائے کرام نے مزدوری کو اپنا معاش بنایا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے زمین کاشت کرکے غلہ حاصل کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام بڑھئی کا کام کرتے تھے۔ حضرت داؤدعلیہ السلا زِرہ ساز تھے اور اپنے ہاتھ کے ہنر سے گزربسرکرتے۔ حضرت ادریس علیہ السلام درزی کا کام کرتے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے10سال تک حضرت شعیب علیہ السلام کی بکریاں چرائیں۔ پیارے نبیؐ اور اللہ کے آخری رسول حضرت محمدﷺنے بھی بکریاں چرائیں۔

    حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ”اللہ نے کوئی نبی نہیں بھیجا، جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔“
    صحابہ کے استفسار پر حضورﷺنے فرمایا۔ ”میں بھی مکے والوں کی بکریاں چند قیراط پر چرایا کرتا تھا“. (صحیح بخاری)

    حضورﷺ کی خدمت میں ایک صحابی ؓ حاضر ہوئے۔ آپؐ نے دیکھا کہ مزدوری کرنے کی وجہ سے ان کے ہاتھ میں گٹھے پڑے ہوئے ہیں۔ آپ ؐ نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے فرمایا :
    ”یہ وہ ہاتھ ہیں، جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو بڑے پیارے ہیں۔“ (محنت کش اللہ کے دوست ہیں)

    محنت و مزدوری کی عظمت و اہمیت کی دلیل یہ ہے کہ خود رب کائنات، مالک ارض و سماء، محنت کش، مزدور کو اپنا دوست قرار دے رہا ہے۔ ایک موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ”بیشک اللہ روزی کمانے والے کو دوست رکھتا ہے“. (طبرانی)

    نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ :
    ”ایک ملازم (مرد/عورت) کم از کم درمیانے درجہ کے عمدہ کھانے اور کپڑوں کا حقدار ہے“
    اور
    ”کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے“

    اور یہ کہ مقرر کردہ اجرت ان (مزدوروں) کی بنیادی ضروریات کے لئے کافی ہو“ ایک اور موقع پر نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
    “تمہارے ہاں کام کرنے والے ملازمین تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہاری ماتحتی میں دے رکھا ہے، سو جس کا بھی کوئی بھائی اس کے ماتحت ہو اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے۔”

    تاریخی مطالعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت عمر ؓنے فوجی جوانوں کے لئے اجرت مقرر فرمائی تھی اس اجرت پر دوران ملازمت مختلف معیارات جیسا کہ مدت ملازمت، بہترین کارکردگی اور علمی قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے نظر ثانی کی جاتی،حضرتابو رافع ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ایک اونٹ قرض لیا، پھر جب آپ ﷺ کے پاس صدقے کے اونٹ آئے، تو مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ میں اس شخص کا قرض ادا کر دوں جس سے چھوٹا اونٹ لیا تھا۔ میں نے کہا: میں تو اونٹوں میں چھ سال کے بہترین اونٹوں کے سوا کچھ بھی نہیں پاتا تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

    ”اسی میں سے اسے دے دو، کیونکہ لوگوں میں بہتریں وہ انسان ہیں جو قرض ادا کرنے میں سب سے اچھے ہیں“ (موطا امام مالک ؒ روایۃ ابن القاسم: 524؛ جامع ترمذی: 1318)

    حضرت عوف بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے پاس جس دن مال فئے آتا، آپ اسی دن اسے تقسیم کر دیتے، شادی شدہ کو دو حصے دیتے اور کنوارے کو ایک حصہ دیتے، تو ہم بلائے گئے، اور میں عمار ؓ سے پہلے بلایا جاتا تھا، میں بلایا گیا تو مجھے دو حصے دئیے گئے کیونکہ میں شادی شدہ تھا، اور میرے بعد عمار بن یاسر ؓ بلائے گئے تو انہیں صرف ایک حصہ دیا گیا. (مسند احمد: 22905)

    حضرت مقدام بن معدی کربؓ سے روایت ہے نبی کریم ؐؐ نے فرمایا:
    ”ہاتھ کی کمائی سے بہتر کوئی کھانا نہیں، حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے محنت کر کے کماتے تھے، حضرت موسیٰ نے اپنے نفس کو اپنی پاک دامنی کی حفاظت اور اپنے پیٹ کی غذا پر‘ آٹھ یا دس سال اجرت پر دیا“.

    حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے نبی کریم ﷺکا اِرشاد مبارک ہے:
    ”اللہ نے جتنے اَنبیاء ؑبھیجے اُن سب نے بکر یوں کی نگہبانی کی ہے“ .(مشکوٰۃ‘258 باب الاجارہ)

    حضرت سعد انصاریؓ سے نبی رحمتﷺ نے مصافحہ فرمایا تو ان کے پھٹے ہوئے ہاتھ دیکھ کر حضور نبی کریمﷺنے وجہ پوچھی تو انہوں نے عرض کیا‘ میں سارا دن”پھاوڑے“ سے محنت مزدوری کر تاہوں۔ اس لئے ہاتھ پھٹ گئے ہیں تو آپﷺ نے اُس کے ہاتھ کو بوسہ د ے کر فرمایا :
    ”یہ وہ ہاتھ ہیں جنہیں اللہ اور اُس کے رسولِ ﷺ بھی محبوب رکھتے ہیں“ .

    حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے،رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ جل شانہُ فرماتا ہے:
    ”میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مد مقابل ہوں گا ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ کرکے عہد شکنی کرے‘ دوسرے وہ شخص جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے‘ تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام لے اوراس کی مزدوری نہ دے“.

    ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ اجرت دونوں کے بارے میں رہنمائی موجود ہے، اس میں کم سے کم اجرت کی تو وضاحت کر دی گئی ہے تاکہ کسی مزدور کی بنیادی ضروریات کما حقہ پوری ہوسکیں۔ اسی طرح انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے میں جس طرح ”انصاف پسند اور مناسب معاوضہ“ کی بات کی گئی ہے اسی طرح، اسلام کا موقف ہے کہ ملازمین کو اتنی تنخواہ ملنی چاہئے کہ اس سے بتقاضائے بشری اس کی او راس کے خاندان کی تمام ضروریات پوری ہو سکیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کے مطابق مزدورں کے حقوق ادا کر نے کی توفیق نصیب فرمائے .آمین.

  • نوجوان فاضل مولانا محمد اکبر  کی دو کتابیں  – طفیل ہاشمی

    نوجوان فاضل مولانا محمد اکبر کی دو کتابیں – طفیل ہاشمی

    “آئیے رب سے باتیں کریں …اور …اللہ ہے نا ”

    ایک ہی سلسلے کی دو کتابیں ہیں جو اللہ سے ناخوش بندوں کو اللہ سے ملانے، اس سے محبت کرنے، اپنے ہر کام کا کامیاب طریقہ اس سے پوچھ کر زندگی کو ہر قسم کے غم اور خوف سے محفوظ کرنے کے قرآنی رہنمائی کے اسباق پر مشتمل، عمل میں آسان مثبت نتائج کی یقینی ضمانت ہیں.

    سوشل میڈیا، یو ٹیوب پر عملیات کا ایک سیلاب رستاخیز ہے جو انسان کو اس طرح خدائی منصب پر فائز کر دیتا ہے کہ خود خدائے کن فیکون کی بھی سنت یہ نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے معجزات کے گل وگلزار سجاتا چلا جائے. آپ کچھ بھی چاہتے ہوں اور جتنے بھی فوری نتائج چاہتے ہوں کوئی نہ کوئی شیخ الوظائف، مرشد جنات، عامل کن فیکون قسمیں کھا کھا کر، بیت اللہ میں بیٹھ کر آپ کو یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ آپ اس کے شیطانی جال میں پھنس جائیں.اس کا واحد مقصد اپنا چینل چلا کر اپنی ہوس زر کی تسکین کرنا ہے اور بس.امرواقعہ یہ ہے کہ شب وروز وظائف کر کر کے لوگ مخبوط الحواس ہو جاتے ہیں اور ان کے کام سرے سے نہیں ہوتے.

    کیونکہ ایک طرف اللہ کی رحمت اور فضل کے بجائے ان کاوظیفے کی کارستانی پر یقین ہوتا ہے جو ایمان کے منافی ہے.
    دوسرے مطلوب کام کے لیے اللہ کے مقرر کردہ وسائل اور طریق کار کو اختیار کرنے کے بجائے سارا زور شب و روز کی غٹر غوں پر ہوتا ہے اور اللہ کے پیدا کردہ اسباب سے بے اعتنائی اللہ کی توہین کے مترادف ہے،اللہ اپنے دشمنوں کو نہیں نوازتا. لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اس زندگی میں مسائل و مصائب کا سامنا رہتا ہے اور ان سے کامیابی کے ساتھ نکل آنا ہر فرد کی ایک جائز خواہش ہے. اسی خواہش یاضرورت کو پورا کرنے کے لیے اللہ نےقرآن حکیم نازل کیا.

    جس میں زندگی کے تمام مسائل کا حل اور تمام مصائب سے نجات اور تمام خواہشات کے حصول کے طریقے بتائے ہیں. صحابہ کرام جو نزول قرآن سے پہلے خوش حال تھے نہ دنیا کے قائد نہ عالمی شہرت کے حامل…. ان کے ہاں کہیں کوئی شیخ الوظائف تھا نہ مجالس ذکر نہ ایک پاؤں پر کھڑے ہو کر چلہ کشی، نہ کنوئیں میں الٹا لٹک کر مراقبہ.. زیادہ پڑھے لکھے بھی نہیں تھے لیکن جب قرآن نازل ہوا تو قرآن کو سمجھ کر پڑھتے اور اس کی ہدایات پر عمل کرنے میں کوتاہی نہیں کرتے، نتیجتاً وہ کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جو دنیا میں کسی کو نہیں مل سکا.

    قرآن آج بھی وہی ہے اور آج بھی اسی طرح ساری کائنات بخشنے کو تیار ہے.ضروری نہیں کہ ہم اپنے مسائل و مصائب سے نجات کے لئے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں کے بجائے وظائف و عملیات کو اوڑھنا بچھونا بنالیں. کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنے ایسے کسی خرقہ پوش کو اپنا مرشد بنا کر اس کے بتائے ہوئے ذکر و اذکار کے ذریعے اپنے باطنی لطائف بیدار کرتے ہیں.

    ان کی افادیت سے انکار نہیں لیکن یہ قرآن کے مقابلے میں انسانی طریق تزکیہ ہے جو قطعی ہے نہ پائیدار. چند دن کسی بھی ذکر کی ضربیں لگانے سے دوچار روز میں اندر کی کھڑکیاں بجنے لگ جاتی ہیں اور بندہ سمجھتا ہے کہ میں منصب ولایت پر فائز ہو گیا ہوں لیکن یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ خود مشائخ عظام کن کن اخلاقی خرابیوں کا شکار ہوتے ہیں جبکہ قرآن تزکیہ کا جو طریقہ بتاتا ہے اس کے ذریعے آج بھی سالک اس مرتبہ احسان پر پہنچ سکتا ہے جو السابقون الأولون کے لیے مختص ہے.

    والذين اتبعو ھم بإحسان. رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ

    ہر انسان کی یہ جائز خواہش ہوتی ہے کہ اس کی زندگی پرسکون، آسودہ اور کامیاب ہو، جب بھی کوئی مسئلہ پیش آئے میرے پاس اس کا قطعی اور یقینی قابل عمل حل موجود ہو. یہ اعزاز اللہ نے اس نوجوان کو عطا کیا جو زندگی کے ہر ہر مسئلے کا حل قرآن سے پوچھ کر آسان، موثر اور دلآویز انداز میں ہمارے سامنے رکھنے کی سعادت سے نوازا گیا ہے.

    آئیے اپنی زندگیوں کو آسان اور کامیاب بنانے کے لیے قرآن سے رہنمائی لیں اور اس مقصد کے لیے مذکورہ دونوں کتب کو حرز جان بنا لیں.

  • معروف لوگ مذہب کی طرف کیوں آتے ہیں ؟ – ڈاکٹر حسیب احمد  خان

    معروف لوگ مذہب کی طرف کیوں آتے ہیں ؟ – ڈاکٹر حسیب احمد خان

    لوگ مذہب کی طرف کیوں راغب ہوتے ہیں؟​ یہ وہ سوال ہے کہ جو دورِ جدید کے مذہب بیزار ذہن کو تنگ کرتا دکھائی دیتا ہے ایک ریشنل تھنکر کو یہ بات انتہائی حیران کن لگتی ہے کہ کس انداز میں لوگ دین کی جانب متوجہ ہوتے ہیں اسکو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ مادیت پرستی کے اس دور میں کہ جہاں ہر شے کا فیصلہ خالص منطقی انداز میں سود و زیاں کی بنیادوں پر کیا جاتا ہو آخر وہاں کسی آسمانی ہدایت کی ضرورت ہی کیا ہے ؟​

    در اصل یہ کوئی نیا سوال نہیں ہے کہ جو مذہب پسندوں سے کیا گیا ہو اور یہ کوئی ایسا سوال بھی نہیں ہے کہ جسکا مذہب پسندوں نے کبھی جواب نہ دیا ہو .​ معروف اسکالر فتح الله گولن اپنی کتاب ” اسلام اور دور حاضر “ میں ایک عنوان قائم فرماتے ہیں .​

    الحاد کو اس قدرفروغ کیوں مل رہاہے؟​
    “چونکہ الحاد سے مرادانکارِ خداہے،اس لیے اس کے فروغ کاروحانی زندگی کی موت و انحطاط کے ساتھ گہراتعلق ہے،تاہم اس کے پھیلنے کے اس کے سوااوربھی اسباب ہیں۔فکری سطح پرالحاد خداکے وجودکے انکاراوراسے قبول نہ کرنے سے عبارت ہے۔نظری طورپریہ مادر پدر آزادی کانام ہے اورعملی طورپریہ اباحیت کاعلمبردارہے”۔​

    1.خدا کے وجود کا انکار ​
    2.مادر پدر آزادی ​
    3.اباحیت ​

    اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائیں کیا آپ کو اس سے ہٹ کر کوئی اور منظر نامہ دکھائی دیتا ہے ؟​
    مذہب اور خالق کائنات سے متعلق وہ سب سے قدیم گتھی کہ جسکو مذہب بیزار طبقہ آج تک سلجھا نہ سکا اور وہ اسے مسلسل ذہنی خلش میں مبتلاء کیے رکھتی ہے وہ گتھی یہ ہے کہ آخر مذہب انسانی زندگیوں میں دخیل کیسے ہوا ؟ آخر اس مذہب کی پیدائش ہوئی کیسے ؟ آخر اس مذہب کا خالق ہے کون ؟​ پھر سب سے اہم سوال کہ کیا انسانی ذہن نے اپنی ضروریات کے مطابق کسی خدا کو تخلیق کیا یا پھر در حقیقت اس کائنات کا کوئی خدا ہے ؟​

    گو کہ اس دنیا کی معلوم تاریخ ہمیں یہ بتلاتی ہے کہ اس دنیا کی سادہ اکثریت ہمیشہ مذہب کی زلف گرہ گیر کی اسیر رہی ہے لوگ مذہبی تھے لوگ مذہبی ہیں اور آثار و قرائن یہ بتلاتے ہیں کہ لوگ مذہبی رہینگے .​مذہب بے زاری بطور فکری تحریک کوئی بہت قدیم معاملہ نہیں ہے چرچ کے سیاہ دور سے نکلنے والے ذہن نے اپنی بقاء اسی میں تلاش کی کہ مذہب کو معاشرے سے الگ کر دیا جاوے مگر اپنی پوری کوشش کے باوجود وہ صرف اتنا کر سکا کہ مذہب کو ریاست سے الگ کر دیا.​ لیکن در حقیقت کیا ایسا بھی ممکن ہو سکا ؟​ کیا ہمیں مغرب میں مسیحیت کا احیاء ہوتا دکھائی دے رہا ہے گو کہ یہ امر بھی تحقیق طلب ہے .​

    ڈیوڈ بارٹن امریکہ کا معروف{ evangelical Christian political activist}ہے کہ جسکا نظریہ ہے کہ ریاست اور مسیحیت کا دوبارہ اشتراک ہونا چاہئیے وہ { National Council on Bible Curriculum in Public Schools} کے بورڈ آف اڈوائیزرز کا فعال رکن ہے موجودہ بنیاد پرست مسیحی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے اسکا کیا کہنا ہے ملاحظہ کیجئے .​

    David Barton: Christians Who Vote For Donald Trump Bear No Responsibility For What He Does In Office
    Kyle MantylaBy Kyle Mantyla | October 18, 2016 1:32 pm
    When Green wondered if voting for Trump means “endorsing or supporting his horrible behavior” or being “responsible for what he does after,” Barton told him that he was looking at the issue in the wrong way.
    Elections are too “personality driven” instead of “policy driven,” Barton said, arguing that in voting for Trump, Christians are not supporting the candidate at all but are simply supporting certain policies.
    “I’m not endorsing Donald Trump,” Barton insisted, “I’m endorsing the pro-life judges he’s going to appoint. I’m endorsing the military he’s going to put out there that will destroy ISIS. I’m endorsing being a friend of Israel for the first time in eight years.”
    “I’m not voting for a personality,” he continued. “I’m voting for policies.

    معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ جتنا سمجھا جا رہا ہے در اصل مذہب ایک ایسا امر ہے کہ جس سے چھٹکارا حاصل کیا جانا ممکن ہی نہیں ہے یہ انسانی فطرت اور انسانی سرشت میں شامل ہے آپ جتنی قوت سے مذہب کو دباتے ہیں وہ اتنی ہی طاقت کے ساتھ ابھر کر سامنے آ جاتا ہے آپ جتنا دامن جھٹکتے ہیں وہ اتنا ہی دامن پکڑتا ہے آپ جتنی در اختیار کرنے کے طالب ہوتے ہیں وہ اتنا ہی قریب آتا چلا جاتا ہے .​ اگر غور کیجئے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دراصل سوال یہ نہیں ہے کہ لوگ مذہب کی طرف کیوں راغب ہوتے ہیں. بلکہ سوال دراصل یہ ہے کہ

    ” یہ ” لوگ مذہب کی طرف کیوں راغب ہوتے ہیں ؟​
    ” یہ ” کون لوگ ہیں ؟​ دنیا کے وہ معروف لوگ کہ جنہیں زندگی میں تمام تر تعیشات حاصل ہیں دولت انکے گھر کی لونڈی ہے مادیت کے ان تمام تر پیمانوں کے مطابق وہ کامیاب ہیں کہ جنہیں آجکل معیار سمجھا جاتا ہے.​

    محمد علی کلے ہو ​، اے آر رحمان ہو ​، زیدان ہو ​، شکیل اونیل ہو ​، جرمین جیکسن ہو ​ یا اسلام کی جانب پلٹنے والے ​جیسےجنید جمشید ​، سعید انور ​، انضمام الحق ​، ہاشم آملہ ​، عمران طاہر ​…. یا ایسے ہی دوسرے لوگ چاہے دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ کہ جو اپنے اپنے مذہب کی جانب پلٹتے رہے ہیں یا مذہب کے قریب آتے رہے ہیں آخر اسکی وجہ کیا ہے .​

    ایک ریشنل ذہن اسکی بہت سی مادی وجوہات تلاش کرے گا اپنے منطقی دماغ کی لیبارٹری میں بار بار اسکا تجزیہ کرے گا اسکی کوشش ہوگی کہ کوئی ایسی واقعاتی شہادت تلاش کی جاوے کہ جس سے ان معروف لوگوں کے مذہب کی جانب آنے کی منطق تلاش کی جا سکے .​ جب اسکے سامنے ایسی شخصیت پیش کی جاتی ہیں تو اسکی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی انداز میں ایسے لوگوں کو نفسیاتی عوارض کا شکار اور انکی شخصیت کو کردار کی شکست و ریخت میں مبتلا ثابت کیا جا سکے ؟​

    یہ کوئی حادثہ تلاش کرینگے ​….
    کسی واقعے کی کھوج کرینگے ​….
    کسی بیرونی واسطے کو ڈھونڈنے کی سعی کرینگے ​….
    محمد علی کلے اسلام کی جانب کیوں آیا ؟​ کیونکہ کالوں کے حقوق غصب ہوتے تھے اسلئے رد عمل کے طور پر.​

    محمد یوسف اسلام کی طرف کیوں آیا ؟​ اسلئے کہ اسکا تعلق معاشرے کے پسے ہوئے غریب طبقے سے تھے .​
    جنید جمشید اسلام کی طرف کیوں آیا ؟​ اسلئے کہ وہ نفسیاتی عارضوں کا شکار تھا .​ انضمام الحق اسلام کی طرف کیوں آیا ؟​اسلیے کہ اسکے پیچھے تبلیغی جماعت لگی ہوئی تھی .​ یہ لوگ مذہب کی طرف کیوں آتے ہیں ؟​

    اسلئے کہ طارق جمیل نامی مولوی اور تبلیغی جماعت ایسے لوگوں کے کمزور لمحات میں انکے اندر موجود مذہبیت کو استعمال کرکے انہیں دھوکے سے اسلام کی جانب گھسیٹ لاتے ہیں یہ لوگ اتنے بڑے نفسیاتی ماہر ہوا کرتے ہیں کہ انکے چنگل سے کوئی بھی معروف تر شخصیت بچ نہیں سکتی .​ یہاں دو احتمالات پیدا ہوتے ہیں ​:

    ایک : کیا تمام معروف بلکہ معروف تر شخصیات نفسیاتی عارضوں کا شکار ہوتی ہیں .​
    دو : کیا مذہب کے علاوہ ایسی کوئی پناہ گاہ نہیں کہ جو انہیں اپنے دامن میں سمیٹ سکے .​

    جیسا کہ عرض کی مذہب فطرت انسانی کا خاصہ ہے اس سے دور ہٹنا انتہائی مشکل امر ہے کیونکہ اپنی فطرت سے دور ہٹنا کسی طور ممکن نہیں انسانی عقل اسکا شعور چیزوں سے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت فیصلہ کرنے کی طاقت بہر حال اسکی فطرت سلیمہ کے ماتحت ہے اور فطرت سلیم کبھی غلط راستے کی جانب راغب نہیں کرتی .​

    یہاں اس بات کا اظہار کر دینا بھی بے جا نہیں ہوگا کہ مذہب اسلام خالص فطرت سلیم کو اپنی جانب راغب کرنے کا مدعی ہے یہ کم عقل اور سفہاء کا دین نہیں ہے بلکہ اسکا دعوی ہے کہ اسکے مخاطب تو ہیں ہی صاحبان علم و عقل .​
    غور کیجئے کہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے صاحبان علم تحقیق کے نام پر کس انداز میں اسلام کی جانب راغب ہوئے کہ {oriental studies} کے نام سے ایک شعبہ ہی وجود میں آ گیا گو کہ بظاہر یہ مشرقیات کا علم ہے لیکن اس کے پیش نظر در حقیقت مذہب اسلام کا مطالعہ ہی رہا ہے .​

    علی بن ابراہیم النملہ ( جو مستشرقین کے بارے میں دقیق معلومات رکھتے ہیں) کہتے ہیں کہ میرے نزدیک مستشرقین سے مراد وہ غیر مسلمان دانشور حضرات ہیں ( جو کہ چاہیے مشرق زمین میں رہنے والے ہو یا مغرب زمین میں ) مسلمانوں کے فرہنگ اعتقادات ، اور آداب و رسوم کے بارے میں تحقیق کرے چاہے وہ مسلمان گروہ اورقوم مشرق زمیں میں رہنے والے ہو یا جنوب میں، چاہے عربی بولنے والے ہو یا غیر عربی․​ ( دراسات الاستشراق ۔ علی بن ابراہیم النملة․) ​

    مولانا شبلی نعمانی نے مستشرقین کو تین اقسام میں تقسیم کیا ہے :​
    1۔ عربی زبان و ادب ، تاریخ اسلام اور اس کے ماخذ سے ناواقف مستشرقین، جن کی معلومات براہ راست نہیں ہوتیں، بلکہ وہ تراجم سے مدد لیتے ہیں اورقیاسات و مفرضوں سے کام لیتے ہیں۔​

    ۲۔ وہ مستشرقین جو عربی زبان وادب ،تاریخ،فلسفۂ اسلام سے تو واقف ہوتے ہیں، مگر مذہبی لٹریچر اور فنون مثلاً اسماء الرجال، روایت و درایت کے اصولوں، قدیم ادب اور روایات سے واقف نہیں ہوتے۔​

    ۳۔و ہ مستشرقین جو اسلامی علوم اور مذہبی لٹریچر کا مطالعہ کر چکے ہوتے ہیں، لیکن اپنے مذہبی تعصبات کو دل سے نہیں نکال سکے۔ وہ اسلامی علوم کے بارے میں تعصب، تنگ نظری اور کذب و افترا سے کام لیتے ہیں۔​ (شبلی نعمانی،سیرۃ النبی:1/65)​

    منٹگمری واٹ معروف مشنری عیسائی ہے اور نبی کریم صل الله علیہ وسلم کا تذکرہ انتہائی تکریم کے ساتھ کرتا ہے لیکن وحی کے تجربے کو ​ (Creative Imagination) کا نام دے کر گھٹانے کی کوشش کرتا ہے ملاحظہ کیجئے اسکے الفاظ .​

    WAS MUHAMMAD A PROPHET
    So far Muhammad has been described from the point of view of the historian. Yet as the founder of a world-religion he also demands a theological judgment. Emil Brunner, for example, considers his claim to be a prophet, holds that it ‘ does not seem to be in any way justified by the actual content of the revelations ‘, but admits that, ‘ had Mohammed been a pre-Christian prophet of Arabia, it would not be easy to exclude him from the ranks of the messengers who` prepared the way for the revelation ‘. Without presuming to enter into the theological complexities behind Brunner’s view, I shall try, at the level of the educated man who has no special knowledge of either Christian or Islamic theology, to put forward some general considerations relevant to the question.
    I would begin by asserting that there is found, at least in some men, what may be called ‘ creative imagination ‘. Notable instances are artists, poets and imaginative writers. All these put into sensuous form (pictures, poems, dramas, novels) what many are feeling but are unable to express fully. Great works of the creative imagination have thus certain universality, in that they give expression to the feelings and attitudes of a whole generation. They are, of course, not imaginary, for they deal with real things; but they employ images, visual or conjured up by words, to express what is beyond the range of man’s intellectual conceptions.
    W. Montgomery Watt. Muhammad: Prophet and Statesman.

    جارج سیل ​(George Sale)(1697-1736)بھی قرآن مجید کی اس خصوصیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے :​
    Muhammad seems not to have been ignorant of the enthusiastic operation of rhetoric of the minds of men, for which reason he has not only employed his utmost skill in these his pretended revelations to preserve that dignity sublimity of style which might seem not unworthy of the majesty of that being whom he gave out to be the author of them and to imitate the prophetic manner of the old
    testament.[1]The Koran, George Sale,Trubner & Co., Ludgate Hill, London,1882,P105.

    جرمن مفکر پاؤل شمٹ(Paul Schmidt) نے اپنی کتاب میں تین چیزوں کو مسلمانوں کی شان و شوکت کا سبب قرار دیتے ہوئے ، ان پر قابو پانے اور ختم کرنے کی کوششوں پر زور دیا ہے :​
    ’’۱۔ دین اسلام، اس کے عقائد، اس کا نظام اخلاق اور مختلف نسلوں ، رنگوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں رشتہ اخوت استوار کرنے کی صلاحیت۔​
    ۲۔ ممالک اسلامیہ کے طبعی وسائل۔​
    ۳۔مسلمانوں کی روز افزوں عددی قوت۔‘‘​

    چنانچہ ، مسلمانوں کی قوت و طاقت کی اصل بنیادوں کا ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے :​
    ’’ اگر یہ تینوں قوتیں جمع ہو گئیں ، مسلمان عقیدے کی بنا پر بھائی بھائی بن گئے اور انھوں نے اپنے طبعی وسائل کو صحیح صحیح استعمال کرنا شروع کر دیا، تو اسلام ایک ایسی مہیب قوت بن کر ابھرے گا جس سے یورپ کی تباہی اور تمام دنیا کا اقتدار مسلمانوں کے ہاتھوں میں چلے جانے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔‘‘​

    یہ مفکرین مسلمان نہیں ہیں ….انہیں اسلام اور علوم اسلامی کے مطالعہ کی جانب راغب کرنے کے جہاں اور دوسرے عوامل ہیں وہیں ایک بہت بڑا عامل یہ بھی ہے کہ اسلام ہی دراصل وہ علمی و فکری بنیادیں رکھتا ہے کہ صاحب علم لوگ اسکی جانب متوجہ ہو سکیں گو برائے تنقید و تبصرہ ہی ہوں اسلیے آج کے دور میں اگر یہ کہا جاوے کہ دنیا کا معروف ترین موضوع گفتگو عام طور پر مذہب اور خاص طور پر اسلام ہی ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا .​ چائے خانوں نجی محافل سوشل میڈیا سرکلز گیلپ سرویز معروف بلاگز اور ویبسائٹس جہاں بھی چلے جائیں گفتگو مذہب کی ہوگی یا اسلام کی .​

    اب کچھ تجزیہ اس متھ کا بھی ہو جاوے کہ لوگ اسلام کی جانب نفسیاتی مسائل ذہنی و فکری شکست و ریخت اچانک پیش آ جانے والے حادثات حیران کر دینے والے حالات و واقعات کی وجہ سے ہی راغب ہوتے ہیں .​ گو کہ یہ بھی کوئی ایسی بڑی خرابی قرار نہیں دی جا سکتی اگر قریب ہی کی مثال دی جاوے تو پاکستان کے معروف سیاسی لیڈر اور سابقہ سپورٹس مین عمران خان صاحب کی والدہ کینسر کے موزی مرض میں اس جہاں فانی سے گزر کر خالق حقیقی سے جا ملیں اور اس واقعے نے خان صاحب کی سوچ کو اس حد تک متاثر کیا کہ انہوں نے کینسر کے خلاف جہاد کا اعلان کیا .​

    اور یہ صرف ایک مثال ہے وگرنہ اگر تحقیق کی جاوے تو دنیا میں ہونے والے اکثر بڑے کام کے جنہوں نے قوموں کا رخ تبدیل کر دیا حالات و واقعات سے متاثر ہوکر ہی ہوئے ہیں .​ لیکن مذہب صرف کوئی واقعاتی یا حادثاتی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک خالص فکری و روحانی معاملہ ہے .​زیادہ نہیں اب ہم کچھ ایسی شخصیات کی بات کرتے ہیں کہ جو حالات و واقعات سے متاثر ہوکر نہیں بلکہ خالص فکری اور علمی بنیادوں پر دین کی جانب راغب ہوئے.​ڈاکٹر موریس بوکائیلے نے اپنی کتاب ​(The Bible, The Quran And Science)میں بائیبل سے بیسیوں ایسی آیات نقل کی ہیں جو آپس میں متناقض ، سائنسی نظریات کے متعارض اور تحقیق و تنقید کے معیار پر پوری نہیں اترتیں۔لیکن انھیں قرآن مجید کا ایک بھی بیان ایسا نہیں ملا جو مسلمہ عقلی اور سائنسی نظریات کے خلاف ہو۔ موریس بوکائیلے لکھتے ہیں :

    The ideas in this study are developed from a purely scientific point of view. They lead to the conclusion that it is inconceivable for a human being living in the Seventh century A.D. to have made statements in the Qur’an on a great variety of subjects that do not belong to his period and for them to be in keeping with what was to be known only centuries later. For me, there can be no human explanation to the Qur’an.[1]
    The Bible, The Quran And Science, Maurice Bucaille,Dar Al Ma’arif Cairo, Egypt,P125

    ’’قرآن کا سائنسی طریق سے مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ساتویں صدی عیسوی کے زمانے سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ قرآن میں بیان کیے گئے مختلف النوع بیانات دے سکے جواس کے زمانے سے تعلق نہیں رکھتے تھے اور جن کے بارے میں صدیوں کی تحقیق کے بعد کوئی حتمی رائے قائم کی گئی۔میرے نزدیک قرآن کی کوئی انسانی توجیہ ممکن نہیں ہے۔‘‘​

    ڈاکٹر صاحب سے جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اسلام کیوں قبول کیا تو وہ جواب دیتے ہیں .​
    Q: What urged you so forcefully to undertake a study of the Quran and other scriptures, and why?
    A: Like all other Frenchmen, I was also initially of the view that Islam was a religion conceived and introduced by a genius and a remarkable man of great intellect, known by the name of Mohammed (S.A.W.). Fifty years ago, by the Grace of God, I became professionally qualified to practice as a surgeon, and used to discuss and compare (views on) Islam and Christianity with my patients who came to consult me (and with my co-professionals). I was told by some of them that my knowledge of Islam and about its discipline was to a great extent misconceived and mistaken. In the beginning I was inclined to doubt them, but now and then some people produced actual and original Quranic Verses in contradiction of my references, and I was compelled to revise my conclusions. And, as a result of this revision and review, I felt that they were right and I was wrong.
    I found that those who had been my teachers had a wrong approach to the problem and had imparted incorrect information to me. My knowledge of Islam, until then, had been restricted to Radio and T.V. reviews, articles published in various magazines and reproduced in biased treatise books. But I was perplexed; what should I do? How should I amend my position and rectify my understanding?

    صرف ڈاکٹر موریس بوکائیلے کی بات نہیں کچھ ایسا ہی معاملہ علامہ محمد اسد لیوپولڈ کے ساتھ بھی ہوا ​.

    ” محمد اسدآسٹریلیا کے ایک یہودی خاندان میں 1900ء میں پیدا ہوئے۔ انکے دادا یہودی عالم (ربی) تھے۔ محمد اسد کا اصل نام لپوپولڈ وائس تھا۔ 1922ء سے1925ء تک لپوپولڈ، جرمن اخبارات کے نمائندے کے طور پر مصر، اردن، شام، ترکی، فلسطین، عراق، ایران، وسط ایشیا، افغانستان اور روس کی سیاحت کر چکے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کے تمدن کو قریب سے دیکھا اور اسلام کا مطالعہ کیا۔ 1926ء میں انہوں نے برلن میں ایک ہندوستانی مسلمان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور اپنا نام محمد اسد رکھا۔ تقریباً چھ سال جزیرہ نمائے عرب میں رہے۔

    انکی موجودگی ہی میں سعودی عرب کی مملکت قائم ہوئی۔ شاہ عبدالعزیز بن سعود سے انکے ذاتی تعلقات تھے۔ وہیں انہوں نے ایک عرب خاتون سے شادی کی جس سے طلال اسد پیدا ہوئے۔ 1932ء میں وہ ہندوستان آ گئے۔ ان کا قیام امرتسر، لاہور، سری نگر دہلی اور حیدر آباد دکن میں رہا۔ علامہ اقبال سے انہوں نے مجوزہ مملکت پاکستان کے قوانین کے متعلق طویل نشستیں کیں۔ اقبال کے زیر اثر ہی انہوں نے اپنی مشہور کتاب ’’اسلام ایٹ دی کراس روڈ‘‘ لکھی پھر ’’عرفات‘‘ کے نام سے انگریزی رسالہ نکالا جس کے دس پرچے شائع ہوئے۔

    صحیح بخاری کا انگریزی ترجمہ شروع کیا۔ پانچ حصے شائع ہو چکے تھے کہ جرمن شہری ہونے کی وجہ سے دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ جنگ ختم ہوئی تو رہائی ملی”۔​
    حوالہ : محمد اسد؟ کون محمد اسد؟​ تلخ نوائی …اظہار الحق ۔ ​نوائے وقت​

    ایسی ہی ایک مثال ہمیں پیکتھال کی بھی ملتی ہے ​
    (Mohammed) Marmaduke Pickthall
    (7 April 1875 – 19 May 1936) was a Western Islamic scholar, noted as an English translator of the Qur’an into English. A convert from Christianity , Pickthall was a novelist, esteemed by D. H. Lawrence,H. G. Wells, andE. M. Forster, as well as a journalist, headmaster, and political and religious leader. He declared his Islam in dramatic fashion after delivering a talk on ‘Islam and Progress’ on November 29, 1917, to the Muslim Literary Society in Notting Hill, West London. He was also involved with the services of the Woking Muslim Mission in the absence of Khwaja Kamal-ud-Din, its founder.
    Mohammed Pickthall was born in 1875 to Mary O’Brien and the Reverend Charles Grayson Pickthall, a comfortable middle class English family, whose roots trace back to a knight of William the Conqueror. He was born near Woodbridge in Suffolk, as his father, Charles, was an Anglican Parson in this region. On the death of his father, when Marmaduke was five, the family moved to London. He was a shy and sickly child, suffering from bronchitis. He attended Harrow School but left after just six terms. Pickthall travelled across many Eastern countries, gaining reputation as a Middle-Eastern scholar. A strong advocate of the Ottoman Empire even prior to declaring his faith as a Muslim, Pickthall studied the Orient, and published articles and novels on the subject, e.g.The Meaning of the Glorious Koran. While under the service of the Nizam of Hyderabad, Pickthall published his translation of the Qur’an, authorized by the Al-Azhar Universityand referred to by theTimes Literary Supplementas “a great literary achievement.

    پیکھتال کا اسلام وقتی جذباتیت کا اسلام نہ تھا بلکہ یہ ایک خالص فکری اور علمی تحریک کا نتیجہ تھا کہ جسکے پیچھے دقیق مطالعہ اور تفکر شامل تھا .​ بے شک کہ اسلام عقل کو متاثر کرتا ہے ​. ہم یہاں ایک واقعہ درج کرتے ہیں جو علامہ عنایت اللہ خاں مشرقی کو اس دوران پیش آیا جب وہ انگلستان میں زیر تعلیم تھے، وہ کہتے ہیں کہ :​

    1909ء کا ذکر ہے۔ اتوار کا دن تھا اور زور کی بارش ہو رہی تھی۔ میں کسی کام سے باہر نکلا تو جامعہ چرچ کے مشہور ماہر فلکیات پروفیسر جیمس جینز بغل میں انجیل دبائے چرچ کی طرف جا رہے تھے، میں نے قریب ہو کر سلام کیا تو وہ متوجہ ہوئے اور کہنے لگے، “کیا چاہتے ہو؟” میں نے کہا، “دو باتیں، پہلی یہ کہ زور سے بارش ہو رہی ہے اور آپ نے چھاتہ بغل میں داب رکھا ہے۔”

    سر جیمس جینز اس بدحواسی پر مسکرائے اور چھاتہ تان لیا۔” پھر میں کہا، “دوم یہ کہ آپ جیسا شہرہ آفاق آدمی گرجا میں عبادت کے لئے جا رہا ہے۔” میرے اس سوال پر پروفیسر جیمس جینز لمحہ بھر کے لئے رک گئے اور میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا، “آج شام میرے ساتھ چائے پیو۔”​

    چنانچہ میں چار بجے شام کو ان کی رہائش گاہ پر پہنچا، ٹھیک چار بجے لیڈی جیمس باہر آ کر کہنے لگیں، “سر جیمس تمہارے منتظر ہیں۔” اندر گیا تو ایک چھوٹی سی میز پر چائے لگی ہوئی تھی۔ پروفیسر صاحب تصورات میں کھوئے ہوئے تھے، کہنے لگے، “تمہارا سوال کیا تھا؟” اور میرے جواب کا انتظار کئے بغیر، اجرام سماوی کی تخلیق، اس کے حیرت انگیز نظام، بے انتہا پہنائیوں اور فاصلوں، ان کی پیچیدہ راہوں اور مداروں، نیز باہمی روابط اور طوفان ہائے نور پر ایمان افروز تفصیلات پیش کیں کہ میرا دل اللہ کی اس کبریائی و جبروت پر دہلنے لگا۔​

    ان کی اپنی یہ کیفیت تھی کہ سر کے بال سیدھے اٹھے ہوئے تھے۔ آنکھوں سے حیرت و خشیت کی دوگونہ کیفیتیں عیاں تھیں۔ اللہ کی حکمت و دانش کی ہیبت سے ان کے ہاتھ قدرے کانپ رہے تھے اور آواز لرز رہی تھی۔ فرمانے لگے، “عنایت اللہ خان! جب میں خدا کی تخلیق کے کارناموں پر نظر ڈالتا ہوں تو میری ہستی اللہ کے جلال سے لرزنے لگتی ہے اور جب میں کلیسا میں خدا کے سامنے سرنگوں ہو کر کہتا ہوں: “تو بہت بڑا ہے۔” تو میری ہستی کا ہر ذرہ میرا ہمنوا بن جاتا ہے۔ مجھے بے حد سکون اور خوشی نصیب ہوتی ہے۔ مجھے دوسروں کی نسبت عبادات میں ہزار گنا زیادہ کیف ملتا ہے، کہو عنایت اللہ خان! تمہاری سمجھ میں آیا کہ میں کیوں گرجے جاتا ہوں۔”​

    علامہ مشرقی کہتے ہیں کہ پروفیسر جیمس کی اس تقریر نے میرے دماغ میں عجیب کہرام پیدا کر دیا۔ میں نے کہا، “جناب والا! میں آپ کی روح پرور تفصیلات سے بے حد متاثر ہوا ہوں، اس سلسلہ میں قرآن مجید کی ایک آیت یاد آ گئی ہے، اگر اجازت ہو تو پیش کروں؟”
    فرمایا، “ضرور!” چنانچہ میں نے یہ آیت پڑھی۔​

    و مِنْ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهَا وَغَرَابِيبُ سُودٌ۔ وَمِنْ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ كَذَلِكَ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ (فاطر 35:27-28)​
    “اور پہاڑوں میں سفید اور سرخ رنگوں کے قطعات ہیں اور بعض کالے سیاہ ہیں، انسانوں، جانوروں اور چوپایوں کے بھی کئی طرح کے رنگ ہیں۔ خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں۔”​

    یہ آیت سنتے ہی پروفیسر جیمس بولے، “کیا کہا؟ اللہ سے صرف اہل علم ہی ڈرتے ہیں؟ حیرت انگیز، بہت عجیب، یہ بات جو مجھے پچاس برس کے مسلسل مطالعہ سے معلوم ہوئی، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کس نے بتائی؟ کیا قرآن میں واقعی یہ بات موجود ہے؟ اگر ہے تو میری شہادت لکھ لو کہ قرآن ایک الہامی کتاب ہے، محمد تو ان پڑھ تھے، انہیں یہ حقیقت خود بخود نہ معلوم ہو سکتی تھی۔ یقیناً اللہ تعالی نے انہیں بتائی تھی۔ بہت خوب! بہت عجیب۔ ​
    (علم جدید کا چیلنج از وحید الدین خان)​

    اگر تصور خدا کی بات کی جانے اور موضوع تحقیق خدا کی ذات ہو چاہے راستہ کوئی بھی ہو فلسفہ ،سائنس،مذہب یہ پھر وہ فطری احساس جو کسی جنگل بیابان کسی صحرا یہ پھر کسی دور دراز جزیرے میں بیٹھا کوئی تہذیب نا شناس شخص جو اپنی فطری ضرورت سے مجبور ہوکر کسی خدا کا اسیر ہو ،​ آخر ہمیں کسی خدا کے ہونے کی حاجت ہی کیوں ہے آخر کیوں نوع انسانی جو کبھی پہاڑوں میں آباد تھی یہ وہ جدید ترین انسان جسنے چاند پر جھنڈا لہرایا تھا کسی خدا کے اسیر ہیں خدا کے ہونے کا یہ احساس کیوں صدیوں کا سفر طے کرتے ہوے آج بھی غالب ترین اکثریت کو اپنے جال میں پھانسے ہوئے ہے ،​ قوموں قبیلوں جغرافیائی حدود کو پھلانگتا ہوا ادوار کی قید سے آزاد یہ تصور کہ کوئی خدا ہے کیا اک مغالطہ ہی ہے ؟​

    آخر بے خدا گروہ ہمیشہ انتہائی قلیل ہی کیوں رہا ہے اور انکے ہاں بھی سب سے بڑا تذکرہ خدا ہی رہا ہے​. یعنی نا چاہتے ہوے بھی تردید کی راہ سے تذکرہ تو اسی کا ہے​ یہ سوال اک طویل عرصے تک پیش نظر رہا کہ اسکی کیا وجہ ہے نوع انسانی بحثیت مجموعی خدا کے تصور کی قائل رہی ہے ، پھر جب انسانی نفسیات اور اسکے سوچنے کے فطری انداز سے واقفیت ہوئی تو یہ بات آشکار ہوئی کہ انسان عافیت پسند ہے آسانی کی طرف بھاگتا ہے کائنات کے عظیم الشان حقائق اسے اگر آسان اور سادہ انداز میں سمجھا دئیے جائیں تو اسکا دماغ انھیں آسانی سے جذب کر لیتا ہے ،​

    دور جدید کا المیہ یہ ہے کہ اس نے اپنی کامیابی کا واحد راستہ مذہب اور خدا سے مکمل چھٹکارا حاصل کر لینے میں سمجھا جسکی وجہ سے ایک بہت خلا {vacuum} پیدا ہو گیا عجیب تر بات یہ ہے کہ جہاں ان جدید معاشروں نے قدیم مذاہب سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی وہیں قدامت کے ساتھ انکا رومانس دن بہ دن بڑھتا چلا گیا .​ کہیں قدیم مایا تہذیب کی کھوج کی جا رہی ہے تو کہیں مصر کے احرام کھودے جا رہے ہیں کہیں ناس ٹرا ڈیمس کی پیشن گویوں میں دلچسپی ہے تو کہیں اینڈ آف ٹائمز انکے پسندیدہ موضوعات بنے ہوئے ہیں کہیں پر مغرب تقارب ادیان کی بات کرتا ہے تو کہیں وحدت ادیان کی .​

    پھر حیران کن طور پر ان لبرل اور سیکولر معاشروں میں ہولی، دیوالی، بسنت، کرسمس ، ایسٹر ، تھینکس گیووینگ ، ہالووین ، سیٹرنالیہ اور ولینٹاینز ڈے جیسے تیوہار سرکاری سطح پر منائے جاتے ہیں اور ان تمام تیوہاروں کی بنیاد پر تحقیق کی جاوے تو مذہبی عقائد پس پردہ کار فرما دکھائی دیتے ہیں .​ ایسے میں صوفی سرکلز اور {scientology} جیسے فیک مذاہب بھی تخلیق کیے جاتے ہیں .​ لیکن آخر کیوں ؟​بنیادی وجہ پھر وہی کی مذہب انسان کی فطری ضرورت ہے آپ اس سے لاکھ پیچھا چھڑائیں یہ آپ کا پیچھا نہیں چھوڑنے والا .​

    دوسری جانب اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مذہب کی جانب راغب کرنے میں ایک بڑا کردار تبلیغی جماعتوں اور مذہبی شخصیات کا بھی رہا ہے آج کی تبلیغی جماعتوں اور مذہبی شخصیات کے حوالے سے اگر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ وہ معروف شخصیات پر ہاتھ ڈالتے ہیں اور انہیں دین کی جانب اس وقت راغب کرتے ہیں کہ جب وہ سب سے زیادہ {vulnerable}​
    لیکن اگر دیکھا جاوے تو سب سے خوبی بھی یہی ہے کہ وہ لوگوں کو اس وقت متوجہ کرتے ہیں کہ جب انہیں سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے.​

    دوسری جانب اگر معروف شخصیات تک دین کی دعوت پہنچانا ایسا ہی بڑا جرم ہے تو یہ معاملہ تو انبیاء علیہم السلام کا بھی رہا ہے سو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اصل اعتراض تبلیغی جماعت نہیں بلکہ جماعت انبیاء پر وارد کیا جانا مقصود ہے اور ہے بھی ایسا ہی .​ لیکن یہ بھی کوئی جدید معاملہ نہیں ہے بلکہ انبیاء علیہم السلام اور انکے کام پر اعتراض بھی انتہائی قدیم معاملہ ہے انتہائی لطف کی بات ہے کہ پر امن اور تشدد سے دور سمجھی جانی والی یہ جماعت بھی مغربی تہذیب اور لبرلز کی آنکھوں کا کانٹا ہے .​

    {Monday 06 February 2017} کی اشاعت میں معروف جریدہ {The Telegraph} اپنی ایک اشاعت کا عنوان لگاتا ہے ، {Army of darkness}”اندھیروں کی فوج “​ اور اس کے فضل مصنفین گل افشانی کرتے دکھائی دیتے ہیں: ​

    It operates legally in both Britain and America, and it should be stated that none of its leading figures is known to have said anything that suggests support for terrorism. Indeed, the Tablighis reject any form of political alignment, restricting their activities, according to the group’s founding creed, to prayer and self-improvement through intense study of the Koran. So much so, that some hardline Muslim groups have, in the past, attacked Tablighi Jamaat for its conspicuous failure to take a political stance on issues such as Israel and the Iraq war.
    Yet, say Western critics, this passivity is not all that it seems. The group’s ideal of a world governed by an ultra-conservative, neo-medievalist form of Islam, in which women are subservient and all laws and customs are based on religious dictates, is barely distinguishable from the wish lists of al-Qaeda and the Taliban.
    Marc Gaborieau, the head of the School of Indian and South Asian Studies in Paris, and a Western authority on Tablighi Jamaat, says that the group’s objective is “the conquest of the world”. Less easy to divine, he admits, is the strategy. “It is extremely secretive and suspicious of outsiders and no one at the centre of its activities has been fully identified or has spoken about how it operates. We know that it does not recognise national borders and that, despite its claim to be apolitical, it does have ties with politicians and branches of the military, particularly in Pakistan and Bangladesh.”

    من و عن یہی بات ایک پاکستانی کالم نگار ڈاکٹر خالد سہیل اپنی تحریر ​ ،”تخلیقی ذہن پہ تبلیغی اثرات، جنید جمشید اور دوسرے مشاہیر کا نفسیاتی جائزہ​” میں کہتے دکھائی دیتے ہیں :

    جُنید جمشید مولانا طارق جمیل سے شدید مُتاثر تھا۔ جو تبلیغی جماعت کے مشہور لیڈر ہیں۔ یہ جماعت بہت سخت مذہبی اصولوں پہ چلنے کی قائل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عورتوں کو حجاب کرنا اور برقع پہننا چاہئے۔ اور گھروں کے اندر رہنا چاہئے۔ عورتوں کو ڈرایئو کرنے اور نوکری کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ جماعت ہر قسم کے فنُونِ لطیفہ کے خلاف ہے۔ میوزک، ڈانس، پنیٹنگ اور ایکٹنگ ان کے نزدیک شیطانی افعال ہیں۔

    یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہیں کہ تبلیغی جماعت والے کس طرح ایک نفسیاتی مسئلہ کو ایک مذہبی مسئلہ بنا دیتے ہیں۔ وہ ایک لمحے میں انسان کی روزمرہ زندگی کے ایک عام سے فعل کو ایک گُناہِ عظیم میں بدل دیتے ہیں۔ اور پھر لوگوں پہ ذہنی دباؤ ڈالتے ہیں کہ اللہ کی طرف آجاؤ۔ تبلیغی جماعت میں شرکت کرو۔ اور اپنی ابدی زندگی کے بارے میں سوچو۔​
    ایک سایئکو تھیرپسٹ اور انسان دوست ہونے کی حیثیت سے میرا یہ خیال ہے کہ دُنیاوی معاملات کے بارے میں تبلیغی اور روشن خیال بالکل مُختلف نظریہ رکھتے ہیں۔​

    تبلیغی جماعت کے مطابق زندگی اچھے بُرے، صحیح غلط، گُناہ و ثواب، اور حلال و حرام کے گرد گھومتی ہے۔​ جبکہ روشن خیال مرنے کے بعد ملنے والی جنت کے خواب دیکھنے کی بجائے جدید سائنسی، طبی اور نفسیاتی طریقوں سے زندگی کو آرام دہ اور پُرسکون بنانے اور گزارنے کی بات کرتے ہیں۔ وہ اپنے اس خوبصورت سیارے پہ پُرمسرت اور بامعنی زندگی گزارنے کا اہتمام کرتے ہیں”۔​

    اعتراضات کا سلسلہ کسی مخصوص مرکز سے شروع ہوکر معروف اشاعتی راستوں سے ہوتا ہوا عوام تک پہنچتا رہتا ہے گو کہ اس کی کوئی اصل ہو یا نہ ہو .​ دوسری جانب دنیا روحانی اعتبار سے ہمیشہ آسودگی کی طالب رہی ہے اور روحانیت مذہب کا ایک انتہائی اہم ترین پہلو ہے گو کہ سو ایک سودو صوفی کلچر کو سامنے لاکر حقیقی روحانیت کا راستہ روکنے کی کوشش ضرور کی جا رہی ہے لیکن اس بات سے تو کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ روحانیت کی اصل کو دنیا نے تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے اور مذہب نہیں تو دوسرے واسطوں سے ہی وہ اس جانب متوجہ ضرور ہو رہے ہیں .​

    عجیب بات یہ کہ چلتے ہوئے مذاہب سے ہٹ کر کہ جو روحانیت کی اصل ہیں ایک جدید روحانیت کی جانب متوجہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے کیا یہ اس بات کو خوف نہیں کہ کہیں روحانیت کے راستے سے وہی مذہب سامنے نہ آ جاوے کہ جس سے بڑی مشکل کے بعد چھٹکارا حاصل کیا گیا تھا.​

    یسوع مسیح نے اپنے مشہور پہاڑی وعظ میں بیان کِیا:‏ ”‏مبارک ہیں وہ جو اپنی روحانی ضروریات سے باخبر ہیں۔‏“‏ ​ (‏متی ۵:‏۳‏،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن‏)​

    نبی صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
    ”الا ان فی الجسد مضغة اذا صَلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ الا وہی القلب“
    انسان کے جسم میں ایک عضو ہے اگر وہ صالح ہوجائے تو سارا جسم صالح ہوجائے اوراگر وہ فاسد ہوجائے تو سارا جسم فاسد ہوجائے، آگاہ ہوجاؤ وہ قلب ہے۔​

    حضرت سہل بن عبداللہ تستری جو متقدمین صوفیاء میں امتیازی مقام و مرتبہ کے حامل تھے فرماتے ہیں:
    اصولنا سبعة اشیاء التمسک بکتاب اللّٰہ والاقتداء بسنة رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم واکل الحلال وکف الاذی واجتناب المعاصی والتوبة واداء الحقوق (التاج المکلل)
    ہمارے سات اصول ہیں کتاب اللہ پر مکمل عمل، سنت رسول کی پیروی، اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچنے دینا، گناہوں سے بچنا، توبہ واستغفار، اور حقوق کی ادائیگی۔​

    سلطان الہند شیخ معین الدین اجمیری کا یہ مقولہ تاریخِ اجمیر میں درج ہے۔​
    ”اے لوگو تم میں سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ترک کرے گا وہ شفاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محروم رہے گا۔“​

    حضرت میر سید اشرف سمنانی مدفون کچھوچھا ضلع فیض آباد فرماتے ہیں:​
    ”یکے از ہم شرائط ولی است کہ تابع رسول علیہ السلام قولاً وفعلاً واعتقاداً بود ​ (الطائف اشرفی)​
    ولی کی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے قول، فعل اور اعتقاد میں پیروہو۔“​

    در حقیقت روحانیت کو مذہب سے الگ دیکھنا ایک جدید مغالطے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے آپ چاہے جتنی بھی روحانیت تخلیق کرنے کی کوشش کیجئے اس کا درست ترین اور حقیقی راستہ مذہب کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے .​

    پھر اگر نفسیاتی حوالوں سے بات کی جاوے تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ جب بھی کبھی انسان مادیت کے مظاہر کی انتہا کو پا لیتا ہے اسکی روحانی موت واقع ہو جاتی ہے اور اس روحانی موت سے زندگی کا راستہ صرف یہی ہے کہ خالق حقیقی کے سامنے سر کو جھکا دیا جاوے اکثر معروف لوگ جو فکری اپچ اور سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ ضرور با الضرور اپنی اصل کی جانب پلٹتے ہیں اور سی حقیقت کی جانب مخبر حقیقی رسول عربی حضرت محمد مصطفیٰ صل الله علیہ وسلم نے اشارہ کیا ہے.​

    سیدنا ابو ہریرہؓ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ لوگ سونے چاندی کی معدنی کانوں کی طرح ہیں۔ جو جاہلیت میں اچھے ہوتے ہیں وہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی اچھے ہوتے ہیں، جب کہ وہ دین کی سمجھ حاصل کر لیں۔ اور روحیں جھنڈ کے جھنڈ ہیں۔ پھر جنہوں نے ان میں سے ایک دوسرے کی پہچان کی تھی، وہ دنیا میں بھی دوست ہوتی ہیں اور جو وہاں الگ تھیں، یہاں بھی الگ رہتی ہیں۔​(صحیح مسلم حدیث : ١٧٧٢​)

  • اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے  – نسیم الحق زاہدی

    اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے – نسیم الحق زاہدی

    اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے…. گذشتہ روزبلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں آرمی کا ہیلی کاپٹرجو بلوچستان میں سیلاب زدگان کی مدد کررہا تھا.خراب موسم کے باعث گرکر تباہ ہوگیا جس کے نتیجے میں لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی سمیت 6افسران جام شہادت نوش کرگئے(اناللہ واناعلیہ راجعون).

    تاریخ میں لکھا جائے گا کہ جب مفاد پرست سیاست دانوں کو اپنی کرسی کی پڑی ہوئی تھی جس کے حصول کے لیے وہ افواج پا ک کے کردار پر انگلیاں اٹھا رہے تھے عوام کے اندر فوج کے کردار کو مشکوک بنانے میں سرگرم عمل تھے اس وقت یہ عظیم المرتبت مائوں کے لختائے جگر یہ پاک فوج کے افسران اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر سیلاب زدگان کی مدد کررہے تھے ۔پرآسائش کمروں میں بیٹھ کر افواج پاک پردشنام طرازیاں کرنا،فوج کے بجٹ پر اپنے بھونڈے تجزیے پیش کرنا بہت آسان کام ہے ۔

    یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وری ہے،غدار فوج جیسے الفاظ کے ٹرینڈ چلانے والوں سے ایک سوال ہے کہ تمہارے سیاسی طاغوتوں نے 75سالوں سے وطن عزیز کو کیا دیا ہے ؟ماسوائے لوٹنے کے یہ افواج پاک ہی ہے جس کی بدولت آج یہ وطن عزیز پورے قد سے دنیا میں نہ صرف کھڑا ہے بلکہ دشمن پر دھاگ بھی بیٹھائے ہوئے ہیں ۔اس جاہل عوام سے پوچھنا ہے جو ایک بریانی کے ڈبے پر اپنا ایمان تک بیچ دیتی ہے کہ تمہارے سیاسی خدائوں نے کبھی اس ملک کی خاطر اپنی یا اپنے بچوں کی قربانیاں دی ہیں جو لوگ ’’کرسی‘‘کے حصول کے لیے اپنے محسنوں کو غدار کا لقب دیدیں ان سے اچھائی اور خیر کی تواقع رکھنا بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے ۔

    یہ’’ اللہ کے بندے‘‘ ہی ہیں جو بارشوں،سیلابوں،زلزلوں،اور وبائوں میں اپنے جان کی پرواہ کیے بغیر ہماری جا نوں کو بچانے کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں جو ملک کی حفاظت کے لیے ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر اپنی جانوں کے نذرانے دیکر اس وطن عزیز کی سالمیت پر آنچ نہیں آنے دیتے ۔رات شہید لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کے الفاظ جو وہ ایک کانفرنس میں کشمیر کے حوالے سے بول رہے تھے :

    ’’کہ وہ وقت دور نہیں جب کشمیر آزاد ہوگا لوگوں کو انکا حق ملے گا یہ ہمارا قوم کا قرض ہے جس کو ہم نے واپس لینا ہے انشاء اللہ آج بھی کل بھی سو سال بھی ہزار سال بھی ہمیں محنت کرنی پڑی تو ہم کرینگے.‘‘

    اللہ کی قسم یہ خالی الفاظ نہیں تھے بلکہ حقیقی جذبات تھے جو ان کے چہرے سے عیاں ہورہے تھے ۔سوچ رہا ہوں کہ شہدا ء کے والدین، بیوی بچوں کو کیا علم تھا کہ اب کے ملے پھر حشر میں ملیں گے ،میں خاص طور پر ان چھوٹے بچوں کا سوچ رہا ہوں کہ جو رات بابا کی کال کا انتظار کررہے ہونگے کہ انکے بابا انکو ہر روز اسی وقت کال کرتے تھے ۔ان والدین ،بہن ،بھائیوں،بیوی بچوں کو کیا علم تھا کہ ان کے بیٹے انکے بھائی انکے شوہر اور ان کے بابا ’’اللہ تعالیٰ‘‘کو بہت زیادہ محبوب تھے تبھی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی جنتوں کا مہمان بنالیا یہ اللہ کے شیر یہ مجاہد قومی فریضہ کی ادائیگی میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے قوم کو حیات بخش گئے ہیں.

    اللہ تعالیٰ ان شہدا کی قربانیوں کو قبول فرمائے آمین ۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہدین اور غازیوں کا مرتبہ کتنا بلند وبالا اور کس قدر عظمت والا ہے اس کے بارے سینکڑوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان مردانِ حق کی مدح وثناء کا خطبہ ارشاد فرمایا ہے مگر سورۃ (العدیت30پ)میں اللہ تعالیٰ نے مجاہدین اور غازیوں کے گھوڑوں کی رفتار ،سموں اور انکی ادائوں کی قسم یاد فرماکر انکی عزت وعظمت کا اظہار فرمایا :

    ترجمہ’’قسم انکی جودوڑتے ہیں سینے سے آواز نکلتی ہوئی پھر پتھروں سے آگ نکالتے ہیں سم مار کر پھر صبح ہوتے تاراج کرتے ہیں. پھر اس وقت غبار اڑاتے ہیں پھر دشمن کے بیچ لشکر میں جاتے ہیں بے شک آدمی اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔

    اس گھوڑوں سے مراد مفسرین کا اجماع ہے کہ مجاہدین اور غازیوں کے گھوڑے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے دربار میں اس قدر محبوب و محترم ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان گھوڑوں بلکہ ان کی ادائوں ،سموں کی قسم کھاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے کہ

    اور جواللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں ۔

    حضرت ابو ہریرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسولؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون اسکے راہ میں جہاد کرنے والا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی دن کو روزے رکھتا ہے اور رات کو نماز میں کھڑا رہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے ذمہ لیا ہے کہ وہ انہیں وفات دے گا توسیدھا جنت میں لے جائے گا ،ورنہ اجر وثواب دیکر اس کے ساتھ مال غنیمت بھی دیکر سلامتی کے ساتھ گھر لوٹا دے گا ۔(صحیح بخاری2787)

    تاریخ ایسے لوگوں کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی جنہوں نے اپنی تاریخ آپ بنائی ہو افواج پاک کے شہداپاکستان کی تاریخ کے وہ درخشاں ستارے ہیں جن کی قربانیوں کو بھی فراموش نہیںکیا جاسکتا۔افواج پاکستان دراصل ’’فوج الٰہی ‘‘ہے یہ حضرت خالدبن ولید ؓ کی اولاد،محمد بن قاسمؒ کے ہمرکاب ،طارق بن زیادؒ کی للکار اور سلطان محمد فاتح ؒکی یلغاز ہے ۔افواج پاک کی سربلندی اسلام اور دفاع وطن کے لیے لازوال قربانیاں اور خدمات قابل ستائش وتعریف ہیں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔ان کی قربانیوں کی داستانیں بہت طویل ہیں آج وطن عزیز کا چپہ چپہ انکے مقدس لہو کا مقروض ہے ۔

    آخر میں ان مائوں ،سہاگنوں اور بچوں کو سلام پیش کرتا ہوں جو اس مقدس سرزمین پر اپنے بیٹوں،شوہروں اور اپنے بابا کو قربان کردیتے ہیںیہ وہی شیر ہیںجس کی دھاڑ جس کی ہیبت سے دشمنوں کے کلیجے منہ کو آجاتے ہیں ۔دشمنوں کی صفوں میں ہلچل برپاہوجاتی ہے جس کے انداز تخاطب سے عالم کفر لرزتا ہواور اپنوں کے لیے ابریشم ہوتے ہیں۔
    بے شک ’’اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے‘‘

  • امت مسلمہ کی حیثیت اور اقامت دین کا فریضہ – ہادیہ عبدالمالک

    امت مسلمہ کی حیثیت اور اقامت دین کا فریضہ – ہادیہ عبدالمالک

    ”تم وہ بہترین امت ہو جو اس دنیا کے لیے نکالے گۓ ہو۔تم بھلاٸ کا حکم دیتے ہو اوربراٸ سے روکتے ہو“۔
    (سورہ آل عمران)

    امت مسلمہ کو اللہ رب العزت نے کتنا بڑا اور شاندار رتبہ دیا۔کس اونچے مرتبے پرفاٸز کرکے اس دنیا میں بھیجا۔فرشتوں کی کثیر تعداد ہوتے ہوۓ بھی انسان کو اپنا ناٸب اور خلیفہ بناکر اس کرہ ارض پر بھیجا۔اپنے کلام پاک میں مسلمانوں کو ایک اعلی اسٹیٹس دیا۔

    ویسا ہی بلند اور اونچا مقام جو انسان اس دنیا کی بھیڑ میں تلاش کرتا ہے۔انسانوں کے جھرمٹ میں اپنا ایک الگ اور منفرد مقام بنانے کے لیے جان مار دیتا ہے۔اسٹیٹس کی دوڑ میں اتنا آگے نکل جاتا ہے کہ اپنے تمام اغراض ومقاصد کو سرے سے بھلا ہی دیتا ہے۔اس کو دنیا سے رغبت اور دین سے بےرغبتی ہونے لگتی ہے۔وہ اپنے مقصد حیات کی تکمیل تو دور,اس کوسوچنا ہی نہیں چاہتا کہ اس طرح وہ دنیا کی ریس میں پیچھے رہ جاۓ گا۔ لیکن اس مقام پر وہ اپنے رب کی طرف سے دیے گۓ اعزاز اور رتبہ کو بھول جاتا ہے کہ اللہ نے اسے بہترین امت کے لقب سے نوازا۔مجھے آپ کو اور ہر ایمان لانے والے مرد و عورت کو اس اعزاز سے نوازا۔ہمیں تمام امتوں پر فضیلت دی۔ہمیں تمام امتوں سے آگے رکھا۔ہمیں اس دنیا میں اپنی خلافت کے لیے مقرر کیا۔

    ایک دین اسلامی کو قائم کرنے کی ذمہ داری دی,وہ نظام,وہ ضابطہ حیات جو زندگیوں کوسنوار دے,جو دنیا و آخرت کو سنوار دے,اس سنت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ادائیگی کروادے جس کے لیے سرکار دو جہاں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صعوبتیں برداشت کیں,جس نظام حق کو نافذ کرنے کے لیے تئیس سال پر مشتمل دور رسالت میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں اور اپنے اعلی کردار و گفتار سے دلوں کو مسخر کیا,اسی سنت کو ہم بھلا بیٹھے! اس مقصد کو ایسے نظر انداز کیا جیسے جانتے ہی نہ ہوں۔اس دنیا کی رنگینیوں میں اتنا گم ہوگۓ کہ اپنا مقام و مرتبہ ہی بھول گۓ۔

    جس دین کی بدولت امت مسلمہ کو زوال سے عروج حاصل ہوا,جس دین کی بدولت مسلمانوں نے اس دنیا کے ہر شعبے میں راج کیا اسی دین کی اتنی ناقدری کیسے؟جس ذمہ داری کو ادا کرنے آۓ تھے اسی کو بھلا بیٹھے۔اس رب کا اتنا حق نہیں ادا کرپاۓ۔اس نبی الزماں کی محبت کا ثبوت عمل سے دینے کے بجاۓ من گھڑت رسومات سے دینے لگے۔

    ایک نظر رک کر اپنے آپ کو دیکھیں کہ کہاں کھڑے ہیں؟
    کس حد تک اس فرض کی اداٸیگی ہورہی ہے؟
    کیا ہمارے لیے دین زیادہ اہم ہے یا پھر دنیا؟

    اس دین کو نافذ کرنے کا جو فرض مجھے ادا کرنا تھا,امر بالمعروف و نہی المنکر کا فریضہ جو میرے کاندھوں پر اترا گیا تھا کیا وہ میں نبھارہی ہوں یا برائیوں کے نظام میں رہ رہ کر خود بھی اس نظام کی عادی ہوگٸ ہوں؟برائی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ رکھتی ہوں یا پھر جس ڈگر پر دنیا چل رہی میں بھی ان کے پیچھے چل رہی ہوں؟

    فرض کفایہ ادا کرنے کی دھن مجھ میں ہے یا بس ایک بے مقصد زندگی گزار رہے ہیں جہاں مقصد معلوم ہوتے ہوۓ بھی اس میں کوتاہی اور اعراض برتا جارہا ہے؟یہ دین اسلام تو ہمیں عزت دینے آیا تھا,دلوں کو مسخر کرنے آیا تھا لیکن افسوس کہ ہم نے ہی اس کی قدر نہ کی اور مغلوب ہوکر رہ گۓ۔اپنے کردار و گفتار ہی ایسے نہ بناۓ کے دلوں کو جیتا جاسکے۔

    وہ عروج و شان و شوکت جو اس دین کی بدولت امت مسلمہ کو نصیب ہوا تھا وہ ہماری نا اہلی اور کوتاہیوں کے سبب ہم سے چھن رہا اور اگر اب بھی ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ لیا تو دنیا تو اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے ہی لیکن ہمارے کھاتے میں کیا ہے اس پر ضرور نگاہ ڈالیں۔

  • اکتاہٹ اور بےزاری – عنایہ گل

    اکتاہٹ اور بےزاری – عنایہ گل

    اکتاہٹ اور بےزاری آجکل اکثریت اور بالخصوص نوجوانوں کے رویے سے عیاں ہے۔کوئی روزگار کے ذرائع میسر نہ ہونے کے باعث بےزار ہے تو کوئی کام کو پاکر بھی اکتایا ہوا ہے۔ذرا سوچیے گا آج ہم جس مقام پر ہیں کیا کوئی ہے جو اسے پانے کی تگ و دو میں بھی ہے؟

    اپنا مقابلہ دوسروں سے کرنا ترک کیجئیے،ہمیشہ اپنے سے ایک درجہ اوپر والوں کی مراعات اور انکے حالات دیکھ کر احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی بجائے اس درجہ کی ذمہ داریوں کو بھی دیکھیے۔ ذرا نچلے درجہ پہ نگاہ دوڑائیے انکی مجبوریوں کو دیکھیں؟ کہیں آپ ناشکری تو نہیں کر رہے ہیں؟ کیا معلوم آپ کو اپنے خوبصورت جوتے میں بھی برینڈ کا فرق نظر آرہا ہو،کسی دوسرے برینڈ کا جوتا حاصل نہ ہونے پر آپ بےزار ہوں اور کوئی ننگے پاؤں سفر کررہا ہو مگر لبوں پہ کلمہ شکر ہو کہ رب نے چلنے کی صلاحیت تو دی ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ ہماری سوچیں منتشر ہیں،ہماری سوچ اور فکر کا محور وہ چیز ہے جو ہمیں حاصل نہیں ہے۔

    ہم لاحاصل کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ،حاصل کے لطف کو محسوس ہی نہیں کرپاتے ہیں۔ہماری بےزاری اور اکتاہٹ اس قدر ہے کہ ہم اپنے اردگرد بسنے والوں میں بھی یہی لہجہ و رویہ دیکھنا چاہتے ہیں۔یہ منفی رویہ اور سوچ ہے۔ہمیں اس کا تدارک کرنا ہو گا۔بروقت ہم نے اپنی سوچوں کا رخ مثبت سمت نہ کیا تو ہم اپنے ہی ذہنی سکون کو مکمل طور پر تباہ کر دیں گے،پھر ہمیں مثبت میں بھی منفی ہی نظر آئے گا کیونکہ انسان کو وہی نظر آتا ہے جو وہ دیکھنا چاہتا ہے۔ہماری روزمرہ زندگی ہر ہمارا لہجہ اور رویہ بہت زیادہ اثرانداز ہوتا ہے۔ہٹ دھرمی،ضد،انا،احساس کمتری اور ناشکری ہمارے لیے خسارے کی بڑی وجہ ہے۔اس لیے کچھ صحت مند عادات کو اپنی ذندگی کا حصہ بنائیں۔

    نماز اور تلاوت قرآن پاک کی پابندی کے ساتھ ساتھ تفسیر القرآن کو اپنے معمول کا لازمی حصہ بنائیں۔ورزش کریں۔اپنی خوراک پر توجہ دیں۔نیند مکمل کریں۔اپنے لیے مفید مقاصد کا تعین کریں۔معیاری کتب کا مطالعہ کریں۔اکثر ایسا بھی ہوتا ہے غیر معیاری مواد کا مطالعہ یا فلم و ڈرامہ وغیرہ دیکھنا جہاں صرف سازش،ٹوہ،دوسروں کو گرانے کے منصوبے یا کسی کی کردار کشی ہو،انسان کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کردیتا ہے۔اور انسان ان منفی رویوں و افعال کو غلط کہتے ہوئے خود وہی سرانجام دے رہا ہوتا ہے۔اس لیے مطالعہ اور معیاری کتب کا مطالعہ اپنی اولین ترجیح رکھیں۔مطالعہ انسان کی فکری اور ذہنی صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہے۔

    حد سے زیادہ سوشل میڈیا کا استعمال اور مختلف بےمقصد وی لاگز (ذاتی زندگی کی تشہیر،بےہنگم ناچ گانے)دیکھ کر بھی نوجوان نسل ان فحش اقدامات سے حاصل کردہ رقم سے ہونے والی عیاشی پر بھی احساس کمتری کا شکار ہو رہی ہے۔اپنا موازنہ جانے انجانے میں ان سے کیا جارہا ہے۔ہمیں درست اور غلط سمت کا تعین کرنا ہو گا۔بےزاری اور اکتاہٹ کو دوسروں کے لب و لہجے میں ڈھونڈنے کی بجائے سوچیے گا ضرور آپ نے اس سب کی وجوہات کو ختم کرنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟ اگر کوشش کی ہے تو اپنی کوشش جاری رکھیں۔ رب خلوص نیت سے کی گئی کوشش کو کبھی رائیگاں نہیں جانے دیتا ہے اور اگر آپ نے کوشش نہیں کی تو پھر خرابی اردگرد کی بجائے اپنے اندر تلاش کریں۔

    اللہ تعالی نے زندگی میں بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے انہیں سوچیے اور شکر ادا کیجئیے۔ رب کے فیصلوں کو دل و جان سے تسلیم کیجئیے، محنت کو اپنا شعار بنائیے۔اپنی سوچ کی سمت مثبت اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں میں بھی اچھائی کی تلاش کریں۔سکون قلب اور کامیابی نصیب ہوں گے۔ان شاءاللہ

  • سالارِ کاررواں ہے میرِ حجازؐ اپنا- سید عابد علی بخاری

    سالارِ کاررواں ہے میرِ حجازؐ اپنا- سید عابد علی بخاری

    دنیائے آب وگل کا وجود محبت کا ہی رہین منت ہے۔عشق دراصل وسیع، ہمہ گیر اور لا متناہی انسانی جذبوںکی پرواز کا نام ہے اور یہ بقا کی طرف ایک سفر ہے۔عشق وہ والہانہ جذبہ ہے جو انسان کو دیگرزندہ اشیاء سے ممتاز کرتا ہے۔ یہ جذبہ بناوٹ، عیاری، امیداور لالچ سے ماورا ہوتاہے۔

    یہ جذبہ انسان کو ایک جست میں بلندی اور آفاقیت تک لے جاتاہے۔ اس قوت سے یقین میں پختگی آتی ہے۔ اور اسی جذبہ کے تحت ایمان بل الغیب پر یقین آجاتا ہے۔عشق سراپا عمل بنا دیتا ہے۔ عشق چین سے نہیں بیٹھنے دیتا۔اضطراب کیش بنا دیتا ہے۔ مراد کو پانے کے لیے بے قرار کر دیتا ہے۔ عشق کی برکت سے انفس وآفاق عاشق کے زیرنگیں ہوتے ہیں اور وہ جن و ملائکہ کو صید زبوں سمجھنے لگتا ہے۔عشق سے ہی زندگی کو آب وتاب ملتی ہے اور اسی سے زندگی کی تاریک راہیں روشن ہوتی ہیں۔ اقبال کے عشق رسول ؐ کو الفاظ کا جامع پہناتے ہوئے الفاظ ساتھ نبھانا چھوڑ دیتے ہیں ۔

    اس قدر وسیع اور زر خیز موضوع کو ایک مختصر تحریر میں سمونا یقیناً ایک مشکل کام ہے ۔اقبال کے عشقِ رسول ﷺ کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ اقبال عشق سے مراد کیا لیتے تھے ؟
    نکلسن کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں یہ لفظ عشق نہایت وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔عشق کسی شے کو اپنے اندر جذب کرلینے اور جزو ِحیات بنا کر اپنا لینے کا نام ہے ۔ ‘‘ اس عشق کی بدولت زندگی ارتقا کی کسی منزل پر قیام نہیں کرتی ۔ اقبال کے نزدیک انسان عشق کی انتہا چاہتا ہے ‘ لیکن یہ اس کی سادگی ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ عشق کی ماہیت ہی یہی ہے کہ اس کی کوئی انتہا نہ ہو ۔

    علامہ اقبال صرف شاعر نہیں تھے وہ ایک مفکر اور بلند پایہ فلسفی بھی تھے۔ شاعر بھی ایسے نہیں، جن کے ہاں رومان پروری اور نام نہاد عشق وعاشقی کا عنصر اس درجہ غالب ہو کہ ا ن کا ذہن زمینی حقائق سے منھ موڑ لے۔ اقبال ایسے شاعر تھے جن کے ہاں ادب وسیع تر اسلامی اور سماجی مقاصد کی تکمیل کا مستحکم ذریعہ تھا ۔اقبال کے نزدیک عشق ہی آداب خود آگا ہی سکھاتا ہے۔عشق اور محبت کی قلمرو کی کوئی انتہا نہیں۔ اگر خدا کو اپنا جلوئہ جہاں آراء دیکھنا منظور نہ ہوتا تو یہ حسین اور رنگ برنگی دنیا عدم سے وجود میں نہ آتی۔ کیا انسان اور کیا حیوان سبھی محبت اور عشق کی مقدس زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ روئے ارضی کا ذرہ ذرہ عشق ومحبت کا منبع اور مرکز ہے۔

    اگر عشق ومحبت کے پاکیزہ عناصر سے روئے ارضی خالی ہوجائے تو دنیاتاریکی اور ظلمات کی گہوارہ بن جائے۔ اور سطح ارضی حیوانیت اور درندگی کی آماجگاہ بن جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ عشق کے کئی مدارج ہیں۔علامہ اقبال انسانی تاریخ میں وقوع پذیر ہونے والے عظیم الشان اور محیر العقول واقعات کو عشق کا کرشمہ قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں۔

    صدق ِخلیل بھی ہے عشق، صبر ِحسین بھی ہے عشق
    معرکہ وجود میں، بدرو حنین بھی ہے عشق

    اقبال ؒ کی سیرت کا سب سے ممتاز پہلو نبی رحمت ؐ سے والہانہ محبت تھی ۔ یہ موضوع اقبال کی اردو اور فارسی شاعری میںجا بجا نظر آتا ہے ۔ یہ جذبہ عشق و مستی اقبال کے رگ و پے میں سرایت کر گیا تھا ۔اقبال کو نبی رحمت ؐ سے جو والہانہ عشق ہے اس کا اظہار اس کی اردو اور فارسی کے ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ اقبال کی انفرادیت ہے کہ انہوں نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں مدح رسول اکرم ؐ کو ایک نئے اسلوب اور نئے آہنگ کے ساتھ اختیار کیا۔وہ اپنی شاعری کو فیضان رسولؐ قرار دیتے ہیں ۔

    یہاں اقبال کی چند فارسی اشعار کا مختصر خلاصہ پیش ہے۔ یہ وہ خوبصورت علمی ورثہ ہے جس سے ہمارے موجودہ نسل محروم رہ گئی ہے۔ ایسا دل نشین ورثہ کہ الفاظ روح میں اترتے محسوس ہوتے ہیں۔ایک پکار ہے جو دعا کی شکل میں ہونٹوں پر بے قرار ہو جاتی ہے۔ دل میں درد کی ایسی چبھن سی محسوس ہوتی ہے کہ آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ان کی فارسی شاعری کا خلاصہ بطور نمونہ یہاں شامل کیا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں:

    حضورؐ ! آپ کا ظہور زندگی کا شباب ہے اور آپ کا جلوہ زندگی کے خواب کی تعبیر ہے۔آ پکی بارگاہ کی وجہ سے زمین ارجمند ہوئی ہے اور آسمان آپ کے روضہ کی چھت کو بوسہ دے کر بلند ہے۔مسلمان نبی کی نبوت کے راز سے بیگانہ ہوچکا ہے اور کعبہ دوبارہ بْت خانہ کی مانند ہوگیا ہے۔ہر ایک مسلمان اپنی بغل میں لات و منات،عزّیٰ اور ہبل کا بْت رکھتا ہے۔ہمارا شیخ برہمن سے زیادہ کافر نظر آتا ہے کیونکہ اس کا سر سومنات بن گیا ہے۔مسلمان مْردہ ہوگیا ہے اور میں نے اسے آب حیات کا پتہ دیا ہے اور اسے قرآن کے اسرار سے آگاہ کیا ہے۔میں نے اپنی شاعری کی شمع سے محفل کو روشن کردیا ہے اور اپنی قوم کو زندگی کے راز کا درس دیا ہے۔ ‘‘

    ’’میرے دل میں جو گرمی اور بے تابی ہے آپ کے سوز غم کی بدولت ہے۔میرے نالے آپ ہی کی توجہ کا فیضان ہے۔مجھے جو سوز عطا ہوا ہے وہ آپ ہی کا فیضان ہے۔میرے انگوروں کی بیل میں جو شراب ابل رہی ہے وہ آپ ہی کے زمزم سے نکلی ہے۔میری درویشی سے مملکت کسری و جمشید بھی شرماتی ہے کیوں کہ میرے سینے میں جو دل ہے وہ آپ ہی کے اسرار کا محرم ہے۔دنیا عشق کی دولت سے قائم ہے اور عشق کی دولت آپ کی سینہ مبارک سے حاصل ہوتی ہے۔اس عشق میں سرور اس شراب کہن سے پیدا ہوتاہے جو آپ نے کشید فرمائی اور پلائی۔مجھے جبرئیل کی بارے میں صرف اتنا معلوم ہے کہ جبرئیل بھی آئینہ ء رسالت کے ایک جوہر کا نام ہے۔‘‘

    ’’ساری دنیا کو لادینی نے دگرگوں کر دیا ہے۔حد تو یہ ہے کہ دنیا والے روح کو بھی جسم کے آثار میں شمار کرنے لگے ہیں۔جو فقر آپ نے حضرت ابوبکر صدیق کو بخشا تھا اس سے ہماری بے حس روحوں میں سوز وحرکت پیدا فرما دیجیے۔میں فقیر ہوں اور جو کچھ طلب کرتا ہوں آپ ہی سے طلب کرتا ہوں۔میں گھاس کا ایک تنکا ہوں ،اس کی ایک پتی سے پہاڑ جیسا سنگین اور مستحکم دل تراش دیجیے۔دانشمندوں اور فلسفیوں کی کتاب نے مجھے درد سر اور پریشاں خیالی کے سوا کچھ نہ دیا اس لیے کہ میں آپ کی نگاہوں سے فیض یافتہ ہوں۔اس نام نہاد روشن خیالی سے ہماری حیاتِ ملی پر جو مضر اثرات مرتب ہوئے محتاجِ بیان نہیں ہیں۔ ‘‘

    علامہ اقبال بسا اوقات فرط جذبات سے مغلوب ہو کر وہ اپنی اور مسلمانان عالم کی بے بسی وبے کسی کی فریاد براہ راست رحمت للعالمین کے حضور کرنے لگتے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے گویا اقبال نبی رحمتؐ کے روبرو تشریف فرما ہیں اور اقبال ان سے دستگیری اور فریاد رسی کی التجاء کر رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں:

    تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
    مری دانش ہے افرنگی مرا ایمان زناری

    اقبال کو سر زمین حجاز سے اس قدر لگائو تھا کہ پوری زندگی شہر رسول ؐ کی زیارت کے لیے تڑپتے رہے ۔ اسی جذبہ شوق نے ان سے غیر معمولی نظمیں کہلوائیں ۔ ارمغانِ حجاز تو مکمل طور پر ان ہی جذبات کی تفسیر نظر آتی ہے ۔سفر یورپ نے انھیں مسلمان کردیا اور ان کی فکر اور تخیل نے حب نبوی سے لبریز وہ نعتیہ مضامین رقم کیے کہ اس کی ہر سطر کیا ہر لفظ سے محبت، عشق، عقیدت اور ذوق وشوق کے شرارے پھوٹتے ہیں۔ سفر یورپ کے بعد کی شاعری کا اسلوب اور لہجہ پہلے سے یکسر مختلف تھا۔ ان کے تخیلات کا طائر ہمیشہ مکہ او رمدینہ کی فضائوں میں ہی محو پرواز رہتا تھا۔ اقبال کسی ایسی ہوا کے انتظار میں تھے جو انھیں مکہ او رمدینہ کی مقدس وادیوں کی غبار تک پہنچادے اروہ وہیں کی کنکریلی اور پتھریلی خاک کا پیوند بن جائیں۔ وہ کہتے ہیں:
    یہی عشق رسول ؐ ہی تھا کہ جس نے یورپ کی فضائوں میں بھی انہیں تہذیبِ یورپ کی چکا چوند سے بچائے رکھا۔

    خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوئہ دانشِ فرنگ
    سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک ِ مدینہ و نجف

    اقبال نے نعتِ رسول مقبول ؐ کے روایتی طریقے کو نہیں اپنایا لیکن تماثیل اور استعاروں کے ذریعے ایسے واقعات کو شعری روپ پہنایا کہ جس سے پڑھنے والے کا ذہن معطر ہو جاتا ہے ۔ نظم ’’ بلال ‘‘ میں قلم اقبال کا ہے لیکن زبان بلال ؓ کی محسوس ہوتی ہے اور جہاں زباں بلال ؓ کی ہوگی وہاں عشق رسول ؐکی شمع فروزاں ہوگی ۔ عشق رسول ؐ ان کے رگ وپے میں اس طرح موجزن نظر آتا ہے کہ ان کے قلم سے نکلنے والے الفاظ مروجہ نعتیہ اسالیب نہ رکھنے کے باوجود کمال درجے کی نعت محسوس ہوتے ہیں ۔ اقبال کے ذہن میں عشق و مستی کا اوّل اور آخری محور ایک ہی تھا اور وہ محور ہے نبی کریم ؐکی ذات مبارک۔ وہ کہتے ہیں:

    وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
    غبارِ راہ کو بخشا فروغ وادیِ سینا
    نگاہِ عشق و مستی میں ‘ وہی اول و ہی آخر
    وہی قرآں وہی فرقاں وہی یسینٰ وہی طہٰ

    اقبال کے نزدیک بیداری ملت اور کامرانی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ اسوئہ رسول ؐ کی مکمل پیروی میں مضمر ہے ۔ امت مسلمہ کے عروج کا راز رسول ِرحمت ؐ کے اسوئہ سے عملی وابستگی میںپوشیدہ ہے ۔ دراصل اقبال اس راز سے شناسا ہو گئے تھے کہ محبت رسول ؐ وہ دولت عطا کرتی ہے ۔ اوائل عمر سے لے کر عمر کے آخری لمحوں تک ان کا دل اس دولت سے منور رہا ۔ وہ کامیابی اور کامرانی کے لیے اور دہر کی تاریکی کے لیے ایک ہی روشنی بتاتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ۔

    قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
    دہر میں اسم محمد ؐ سے اجالا کر دے

    اقبال نبی رحمت ﷺ کو اپنے کارواں کا سالار قرار دیتے ہوئے ان کی تقلید کو اولیت دیتے ہیں ۔ اپنی مشہور نظم ’’ترانہ ملی‘‘ میں لکھتے ہیں۔

    سالار کاروا ں ہے میر حجاز اپنا
    اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا

    جب کبھی محبوب کبریاؐ کا ذکر لبوں کی زینت بنتا آنکھیں نم ہو جاتیں اور دیدہ تر کے ساتھ دل سنبھالنا مشکل ہو جاتا ۔ آواز کانپنا شروع ہو جاتی اور جذبات پر رقت طاری ہو جاتی ۔ ان کے اشعار اور خطوط اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ عشق رسول ؐ کو اپنے لیے راہ نجات تصور کرتے تھے۔3ستمبر1917ء کو مولانا غلام قادر کے نام ایک خط لکھتے ہوئے کہتے ہیں ۔ ’’ میرا مقصد شاعری نہیں بلکہ ہندوستان کے مسلمانوںمیں احساس ملیہ پید اکرنا ہے جو قرون اولیٰ کا خاصہ تھا۔ کیا عجب نبی کریم ؐ کو میری یہ کوشش پسند آجائے اور ان کا استحسان میرے لیے ذریعہ نجات بن جائے۔‘‘

    ’روزگار فقیر ‘‘ میں سید وحید الدین لکھتے ہیں۔
    ’’ اقبال کی شاعری کا خلاصہ جو ہر اور لب لباب عشق رسول اور اطاعت رسول ہے۔ ان کا دل عشق رسول نے گداز کر رکھا تھا زندگی کے آخری زمانے میں یہ کیفیت اس انتہا کو پہنچ گئی تھی کہ ہچکی بند جاتی۔ آواز بھرا جاتی تھی اور وہ کئی کئی منٹ سکوت اختیار کر لیتے تھے۔ تاکہ اپنے جذبات پر قابو پا سکیں۔‘‘

    ان کی بڑی خواہش تھی کہ حج کی سعادت حاصل کریں اور روضہ رسول ؐ پر حاضری دیں لیکن یہ حسرت پوری نہیںہو رہی تھی ۔ 2ستمبر1937ء کی بات ہے۔ان دنوں آپ شدید علیل تھے۔ آپ کو مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ کا خط موصول ہوا جس میں انہوںنے تذکرہ کیاتھا کہ وہ حج پر روانہ ہو رہے ہیں ۔ اقبال نے انہیں جواب لکھا

    ’’ الحمدﷲ کہ آپ خیریت سے ہیں اور حج کی تیاریوں میں مصروف ۔ کاش کہ میں بھی آپ کے ساتھ چل سکتا لیکن افسوس کہ جدائی کے ایام ابھی کچھ باقی معلوم ہو رہے ہیں ۔ میں تو اس قابل نہیں کہ حضورؐ کے روضہ مبارک پر یاد بھی کیا جا سکوں ۔ امید ہے کہ آپ اس دربار میں پہنچ کر مجھے فراموش نہ فرمائیں گے۔ ‘‘

    گہری بصیرت رکھنے اور فلسفے میںکمال حاصل کرنے کے باوجود عشق رسول ؐ کے فلسفے کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی جرات نہ کی ۔
    تازہ میر ے ضمیر میں معرکہ کہن ہواعشق تمام مصطفی عقل تمام بولہب

    اقبال امت مسلمہ کی زبوں حالی اور ان کی مذہبی وسماجی مشکلات کے حل کی کلید ذات نبوی اور اسوئہ رسول میں پوشیدہ ہے۔ ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہمیں اس لیے دے مارا کہ ہم نے اپنے اسلاف کی میراث گنوادی۔ علامہ اقبال عظمت رفتہ کی بازیابی اور دنیا کے منظرنامے پر اپنی موجودگی کے لیے حضور ﷺکے اسوئہ حسنہ کی اتباع کو لازمی قدر قرار دیتے ہیں۔ اقبال فرماتے ہیں کہ اس دنیا کی تخلیق کی اصل وجہ ذات نبی ہے کیونکہ آپ ہی کی وجہ سے اس دنیا میں اصل خالق یعنی اللہ کی ذات کی پہچان ، صحیح معنوں میں ممکن ہوئی۔ آپ ہی تھے جنہوں نے خدا تعالٰیٰ کی حقیقت کے بار ے میں لوگوں کو آگاہ کیا اور ان کے راز آشکار کئے۔

    اقبال کی شاعری کا محور اصل میں عشق رسول ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ اے خدا قیامت کے دن میرے اعمال نامہ کو نگاہ مصطفیؐ کے سامنے پیش کرکے مجھے رسوا مت کرنا۔ مجھے شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ اس عظیم ذات کے سامنے میری خطائیں جب آشکار ہوں گی اور اگر کہیں ناگزیر ہو جائے تو اسے آپؐ کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنا۔

    تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
    روز ِمحشر عذر ہائے من پذیر
    ور حسابم را تو بینی ناگزیر
    از نگاہ ِمصطفیٰ ؐپنہاں بگیر

    جاوید نامہ فارسی شاعری کی ایک کتاب ہے جو عظیم شاعر، فلسفی اور نظریہ پاکستان کے خالق علامہ اقبال کی تصنیف ہے۔’’جاوید نامہ ‘‘علامہ اقبال کی زندگی کا وہ شاہکار ہے جسے انہوں نے اپنی زندگی کا حاصل قرار دیا ہے ۔اس میں آسمانوں کی سیر کا حال بیان کیا گیا ہے ۔یہ مثنوی کے اسلوب پر لکھی گئی۔مثنوی عربی زبان کا لفظ ہے۔مثنوی مسلسل نظم کو کہتے ہیں جس کے شعر میں دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے، لیکن ساری مثنوی ایک ہی بحر میں ہو۔ مثنوی میں عموماً لمبے لمبے قصے بیان کئے جاتے ہیں نثر میں جو کام ایک ناول سے لیا جاتا ہے، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے، یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان کرتے ہیں۔اس کے تقریباً دو ہزار اشعار ہیں۔

    یہ کتاب پہلی بار 1932ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا شمار علامہ اقبال کی بہترین کتب میں سے ہوتا ہے ۔یہ کتاب دراصل علامہ اقبال کا آسمانوں کا خیالی سفر نامہ ہے جس میں ان کے راہبر مولانا رومی انہیں مختلف سیاروں اور افلاک کی سیر کرواتے ہیں۔ اس سفر میں وہ مختلف مشاہیر اور لوگوں سے ملتے ہیں اور ان سے گفتگو کرتے ہیں اور ان سے ان کے خیالات کے بارے میں جانتے ہیں۔علامہ اقبال کی اردو مثنویوں میں ’’ ساقی نامہ ‘‘ سب سے مشہور مثنوی ہے ۔ جاوید نامہ فارسی کی مثنوی ہے اور جب اقبال نے یہ تحریر کی اس وقت فارسی زبان سمجھنے والوں کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی تھی لیکن اب فارسی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل اور بچے اس عظیم شہکار اورعلم کے ایک بڑے ذخیرے سے محروم رہ گئے ہیں۔

    یہاں جاوید نامہ کی خوبصورت اور دل پذیر کہانی انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔تا کہ آج کے نوجوان کو اس کے مرکزی خیال کا اندازہ ہو سکے۔اس کتاب میںابلیس ،ابوجہل ،افلاطون،اقبال،امیر کبیر سید علی ہمدانی، اہرمن،بھرتری ہری ،ٹالسٹائی،ٹیپو سلطان، جمال الدین افغانی، جہاں دوست (وشوامتر)، رومی، زرتشت، زروان، سعید حلیم پاشا، شرف النساء بیگم، غالب، غنی کاشمیری، فرعون، قرۃالعین طاہرہ، گوتم بدھ، لارڈ کچنر، منصور حلاج،مہدی سوڈانی، میر جعفر،میر صادق،نادر شاہ اور نٹشے کا تذکرہ ملتا ہے۔

    کتاب انتہائی خوبصورت اور پْر درد مناجات سے شروع ہوتی ہے ۔یہاں اقبال بحیثیتِ مجموعی نوعِ انسانی کی ازلی تنہائی کا ذکر کرتے ہیں وہیں انسان کو اس کی عظمت بھی یاد دلاتے ہیں ۔ مناجات کا اختتام اس دعا پر کرتے ہیں کہ’’ یا رب نوجوانوں کے لیے میرا یہ کلام آسان کر دے۔‘‘ مناجات کے بعد اقبال روزِ اول کا ایک منظر دکھاتے ہیں جب اس زمین کی تخلیق ہوئی تھی، اْس وقت آسمان زمین کو طعنہ دیتا ہے کہ ایک پست چیز وجود میں آتی ہے۔ زمین جب اس طعنے سے ملول ہوتی ہے تو اْسے آسمان کی دوسری طرف سے صدا آتی ہے کہ تو کیوں ملول ہوتی ہے تْو تو انسان کا مسکن بنے گی سو تیرا مقام بہت بلند ہے یعنی یہاں بھی بنیادی طور پر اقبال انسان کی عظمت ہی دکھا رہے ہیں۔

    اسکے بعد علامہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن وہ بہت اداس ہوتے ہیں اور شام کے وقت سمندر کے کنارے چلے جاتے ہیں جہاں اسی اداسی میں مولانا رومی کی ایک غزل پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب وہ غزل ختم کرتے ہیں تو ان پر ایک پہاڑ کی اوٹ سے رومی کی روح آشکار ہوتی ہے۔جس سے وہ بات چیت کرتے ہیں اور وہ روح ان پر معراج کی حقیقت آشکار کرتی ہے۔ پھر رومی کی روح ان کو افلاک کے سفر پر اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔

    مولانا روم کی راہنمائی میں علامہ اقبال چاند ‘ عطارد‘ زہرہ ‘ مریخ ‘ زحل اور جنت الفردوس سے گزرتے ہوئے خدا کے حضور پہنچتے ہیں ۔اقبال چاند پر پہنچے تو ان کے محسوسات نے بہت عجیب مناظر دیکھے۔ وہ کہتے ہیں ’’ زندگی آگے بڑھنے کا نام ہے چنانچہ میں آگے بڑھتا رہا جب میں زمین سے اوپر اٹھاتو ہر شے جو مجھے اوپر دکھائی دے رہی تھی اب نیچے نظر آ رہی تھی ۔ یہ کائنات خدا کی ہے لہٰذا ہمیں اسے محبت کی نظر سے دیکھنا چاہیے ۔ چاند پر مکمل خاموشی تھی ۔ رومی نے بتایا کہ یہ ہماری پہلی منزل ہے ۔ چاند کی سطح پر کئی آتش فشاں تھے مگر نہ وہاں ہوا تھی نہ کوئی آواز سنائی دیتی تھی ۔ چاند کے ارد گرد چھائے بادل کبھی برستے نہ تھے اور اس سیارے پر کہیں زندگی کا کوئی نشان موجود نہیں تھا۔ میں آگے بڑھا تو مجھے محسوس ہوا کہ میں ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھتا ہوں ۔

    شاید یہ اس پر اسرار فضا کا اثر تھا۔ آخر کار جب مجھے یوں لگا کہ شائد میں شک پر بھی شک کر وں گا تو ایک نئی روشنی میرے ذہن میں نمودار ہوئی ۔ عجیب منظر تھا ۔ میرے بالکل سامنے تاریک غار میں روشنی سے بھری ایک وادی نظر آئی ۔ ہماری زمین پر روشنی کے گرد اندھیرے کا کنارہ ہوتا ہے مگر یہ روشنی ایسی تھی کہ جس کا کوئی کنارہ نہ تھا۔ یہاں تک کہ سایہ بھی یہاں روشن نظر آتاتھا میں نے وادی کا جائزہ لینا شروع کیا ۔ یہاں درخت بہت اونچے تھے۔ اور ہر طرف پھیلے ہوئے تھے جیسے وہاں کے پتھروں نے روشنی کے چراغ جلا رکھے ہوں ۔

    ان میں سے ایک درخت کے نیچے ایک ہندو سادھو بیٹھے ہوئے تھے جن کے بارے میں رومی نے کہا کہ ان کا نام ’’ وشوامتر ‘‘ ہے جس کا مطلب سنسکرت میں ہے ’’ سب کا دوست ‘‘ میں نے وشوامتر کو دیکھا۔ ان کے جسم پر مختصر سا لباس تھا اور ایک سفید سانپ ان کے گرد لپٹا ہوا تھا۔ وہ مراقبے میں تھے۔میں حیرت سے ان کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ انہوںنے آنکھیں کھول دیں اور ہم دونوں کو دیکھا۔ شاید وہ رومی کو پہلے جانتے تھے۔ رومی نے ان سے میرا تعارف ایک مسافر‘ فلسفی اور شاعر کے طورپر کروا یا ۔ وشوا متر نے سوال کیا ۔

    ’’ تم خدا کا وجود کس طرح ثابت کر تے ہو؟‘‘ میں نے جواب دیا ۔’’ اس کا وجود ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔وہ تو ہر جگہ نظر آتا ہے ‘‘۔ وشوا متر میرے جواب سے بہت خوش ہوئے اور اپنی حکمت کے راز مجھ سے کہنے لگے۔
    ’’ اگر تمہیں کسی میں برائی نظر آئے تو سمجھو تمہارے دیکھنے میں کوئی قصور ہے اور سورج کو کہیں اندھیرا دکھائی نہیں دیتا۔ جو خدا کو نہیں مانتا وہ گویا زندہ ہی نہیں ہے ۔ توپھر ایسے شخص سے بحث و تکرار کا کیا فائدہ ۔ ایک سچا مومن اپنے اندر کی خرابیوں سے لڑتاہے اور انہیں اس طرح شکار کرتا ہے جس طرح چیتا بڑی چستی کے ساتھ ہرن پر جھپٹے۔‘‘ وشوا متر نے کہا کہ ’ ’ ایک دفعہ میں نے پھول سے پوچھا کہ تم تاریک مٹی میں سے خوشبو کیسے اخذ کر لیتے ہو ؟

    پھول نے مجھ سے کہا کہ تم خاموش بجلی میں سے کھڑک کیسے سن لیتے ہو حالانکہ ہمیں تو گرجنے کی آواز سنائی نہیں دیتی اور ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ ایک خاموش چیز جو آسمان پر چمکتی ہے اس میں سے تمہیں آواز کیسے سنائی دیتی ہے ۔ شائد یہ ہم دونوں کی زندگی کے انداز میں فرق کی بات ہے ۔ تم وہ اخذ کرتے ہو جو ظاہر ہے ہم وہ اخذ کرتے ہیں جو ظاہر نہیں۔‘‘

    وہ کچھ اور کہیں گے لیکن پھر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ دوبارہ مراقبے میں چلے گئے ہیں ۔ وہ روشنی جس سے کچھ دیر پہلے تک وادی بھری ہوئی تھی پھر اچانک غائب ہو گئی ۔ یوں مجھے اس روشنی کا راز معلوم ہوا۔ وہ دراصل وشوا متر سے آ رہی تھی اب وہ ضرور ان کے اندر جگمگا رہی ہوگی کیونکہ انہوںنے اپنی توجہ بیرونی دنیا سے ہٹا کر اپنے اندر مرکوز کر لی ہے ۔ وشوامتر سے باتیں کر کے وہ چاند کی ایک وادی کی طرف جاتے ہیں جسے فرشتوں نے وادیِ طواسین کا نام دے رکھا تھا۔طواسین، دراصل طاسین کی جمع ہے، اور منصور حلاج کی کتاب کا نام ہے۔ منصور نے طواسین سے مراد تجلیات لیا ہے جبکہ علامہ نے یہاں اس سے مراد تعلیمات لیا ہے۔ وادیِ طواسین میں علامہ نے گوتم بدھ، زرتشت، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعلیمات بیان کی ہیں۔

    حرمِ کعبہ کا ایک منظر اقبال نے دکھایا ہے کہ یہاں ابوجہل کی روح نوحہ کرتی ہے۔اقبال نے یہاں اس انسانی اور نفسیاتی نکتے سے کام لیا ہے کہ آپ کا دشمن آپؐ پر جو الزام لگائے گا اور جو آپ ؐکے نقائص بیان کرے گا وہ دراصل آپؐ کی خوبیاں ہیں۔اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ علامہ کیا فرماتے ہیں۔یہاں ابوجہل کی روح نوحہ بیان کیا گیا ہے۔ ابوجہل کی روح کہتی ہے۔

    ’’ہمارا سینہ محمدؐ کی وجہ سے داغ داغ ہے۔ اسکے دم سے کعبہ کا چراغ بجھ گیا۔اْس نے قیصر و کسریٰ (بادشاہوں) کی بربادی کی باتیں کیں، وہ نوجوانوں کو ہمارے ہاتھوں میں سے اچک کر لے گیا۔وہ جادوگر ہے اور اس کے کلام کے اندر جادوگری ہے، یہ دو حرف لاالہ (کوئی معبود نہیں) تو خود کافری ہے کہ ہر کسی کا انکار کیا جا رہا ہے۔جب اس نے ہمارے آباء و اجداد کے دین کی بساط الٹ دی تو ہمارے خداؤں کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ناقابل بیان ہے۔ اس کی ضرب سے لات و منات پاش پاش ہو گئے۔ اے کائنات اس سے انتقام لے۔اس نے غائب سے دل لگایا ہے اور جو حاضر ہیں (بْت) ان سے ناطہ توڑا، اسکے جادو نے حاضر کے نقش کو توڑ دیا۔غائب پر نگاہ مرکوز رکھنا (دل لگانا) خطا ہے، جو نظر ہی نہیں آتا وہ کہاں ہے (اس کا کیا وجود جو نظر ہی نہ آئے)۔غائب کے سامنے سجدہ کرنا تو اندھا پن ہے، یہ نیا دین اندھا پن ہے اور اندھا پن (حاضر کو نہ دیکھ پانا) تو دوری ہے، فراق ہے۔‘‘

    ’’بے جہات خدا کے سامنے جھکنا، بندے کو یہ (ایسی) نماز کوئی ذوق عطا نہیں کرتی، اس شعر میں اقبال نے یہ نکتہ بھی بیان کیا ہے اسی نماز میں ذوق ہے جس میں بندہ خدا کو سامنے دیکھے یعنی مشہور حدیث کی طرف اشارہ ہے۔اس کا مذہب ملک و نسب کو کاٹتا ہے، یعنی مساوات کا درس دیتا ہے، وہ قریش اور عرب کی فضیلت کا منکر ہے۔اسکی نگاہ میں اعلٰی اور ادنٰی سب برابر ہیں، وہ اپنے غلام کے ساتھ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھا۔اس نے عرب کے آزاد بندوں کی قدر نہیں جانی، اس نے افریقہ کے بد صورتوں (اور غلاموں) سے موافقت پیدا کر لی۔

    اس نے سرخ رنگ والوں (عربوں) کو سیاہ رنگ والوں (حبشیوں) کے ساتھ ملا دیا، اس نے خاندان کی عزت مٹی میں ملا دی۔یہ مساوات اور بھائی چارے کی باتیں عجمی ہیں، میں خوب جانتا ہوں کہ سلمان فارسی مزدکی ہے۔ مزدک پانچویں صدی عیسوی کے آخر اور چھٹی صدی کے قبل کا ایک ایرانی مصلح تھا جس نے مساوات کی بات کی، ایرانی بادشاہ صباد نے اسکے نظریات قبول بھی کر لیے لیکن بعد میں اس نے اپنے بیٹے اور ولی عہد خسرو نوشیرواں کے ہاتھوں مزدک اور اسکے لاکھوں معتقدین کا قتلِ عام کروا دیا۔

    ابو جہل یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ سلمان فارسی بھی مزدکی ہیں اور انہوں ہی نے ہی حضرت محمد ؐ کو مساوات کی باتیں سکھائی ہیں وگرنہ عرب میں ان باتوں کا کیا کام۔عبداللہ کے بیٹے ؐنے اسی (سلمان) کا فریب کھایا ہے اور عرب پر (مساوات) کی جنگ مسلط کر دی ہے۔ہاشم کا خاندان اپنے آپ (اپنی فضیلت) سے ہی دور ہو گیا ہے، دو رکعت کی نماز نے انکی آنکھوں کو بے نور کر دیا ہے۔عجمیوں کو عدنانیوں (قریش کے جدِ امجد عدنان) سے کیا نسبت ہو سکتی ہے، گونگا کہاں اور سبحانی کی گفتار کہاں۔ (سبحاں زمان اسلام کا ایک نامور اور شعلہ بیاں خطیب و مقرر تھا، فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا اور بعد میں امیر معاویہ کے مصاحبین مین شامل ہو کر خطیب العرب کا خطاب پایا)۔عرب کے خاص لوگوں کی آنکھ اندھی ہو گئی ہے، اے زْہیر اپنی قبر سے اٹھ کھڑا ہو۔

    (زہیر عرب کا نامور شاعر جو اسلام کے خلاف شعر کہہ کر عربیوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارتا تھا)۔اے زہیر تو صحرا عرب میں ہمارا رہبر ہے، تو جبرائیل کی نوا یعنی قرآن کا جادو (اپنی شاعری سے) توڑ دے۔پھر بیان کر اے کالے پتھر (حجر اسود در کعبہ) پھر بیان کر، محمد ؐ کے ہاتھوں جو کچھ ہم نے دیکھا (ہم ہر جو گزری وہ اتنی دردناک کہانی ہے کہ) پھر بیان کر۔اے ہبل (قریش کا مشہور بت و معبود) اے بندوں کے عذر قبول کرنے والے، اپنے گھر (کعبہ) کو ان بے دینوں سے واپس لے لے۔ان کے بھیڑوں کے گلے کو بھیڑیوں کے حوالے کر، انکی کھجوروں کو درختوں پر ہی تلخ کر دے۔

    ان پر صحرا کی ہوا کو صرصر (تند و تیز و گرم طوفانی ہوا) بنا کر بھیج، تا کہ وہ اس طرح گر جائیں جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے۔اے لات و منات اس منزل (کعبہ) سے مت جاؤ، اگر اس منزل سے چلے بھی جاؤ تو ہمارے (عرب و قریش) کے دلوں سے مت جاؤ۔اے وہ کہ تمھارا ہماری آنکھوں کے اندر گھر ہے، اگر تم نے جدا ہونے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو مہلت تو دو، کچھ دیر تو ٹھہرو۔انہی اشعار کے ساتھچاند کا سفر مکمل ہوا تو اقبال عطارد پر پہنچے۔

    اقبال کہتے ہیں کہ مجھے یہ یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ حقیقت ہے ۔ ہم خلا میں سفر کر رہے تھے اور اب عطارد کے قریب پہنچ چکے تھے۔ یہ ایک چھوٹا سا سیارہ تھا جو بادل سے پیدا ہوا تھا ۔ یہاں صحرا‘ پہاڑ اور جنگل تو تھے لیکن ابھی انسان کی دست برد سے بچے ہوئے تھے اور اسی لیے یہاں فطرت میں تبدیلی کرنے والا کوئی نہیں تھا۔مجھے یہاں زندگی کے کوئی آثار نظر نہیں آئے ۔ میںنے رومی سے کہا ۔ یہاں آبادی کا نام ونشان نہیں پھر یہ ٓاذان کی صدا کہاں سے آ رہی ہے ؟‘‘

    رومی نے کہا کہ یہ پاک روحوں کا مقام ہے ۔ ماضی کے اولیا اور بزرگ یہاں رہتے ہیں ۔ جیسے فضیل ‘ ابو سعید ‘ جنید اور بایزید‘ پھر رومی نے کہا کہ ہمیں جلدی چلنا چاہیے تا کہ اس وقت کی نماز میں شامل ہونے کا موقع مل جائے ۔ ہم دونوں تیزی سے آگے بڑھے تو دیکھا ایک ترک ایک افغانی امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا۔ رومی نے جیسے ہی انہیں دیکھا ان کا چہرہ اشتیاق سے دمکنے لگا ۔

    انہوں نے مجھ سے کہا :’’موجودہ دور نے ان سے بہتر انسان پیدا نہیں کیے ۔ رومی مزید کہتے ہیں’’سیدوں کے سید مولانا جمال الدین افغانی کہ جن کی باتوں سے پتھر اور مٹی بھی جاندار ہو گئے، اورترکوں کے سالار دردمند حلیم کہ جن کی فکر ان کے مرتبے کی طرح بلند ہے۔‘‘عظیم مبلغ جمال الدین افغانی اور ترک مصلح سعید حلیم پاشا۔ ایسے لوگوں کے ساتھ نماز ادا کرنا صحیح معنوں میں عبادت ہے ۔ ورنہ اب نماز تو صرف جنت کے حصول کے لیے مزدوری بن کر رہ گئی ہے ۔‘‘

    سید جمال الدین افغانی کی امامت میں رومی و اقبال دو رکعت نماز ادا کرتے ہیں۔افغانی سورئہ نجم کی قرات کر رہے تھے جو اس ماحول میں بڑی حسب حال معلوم ہوتی تھی ۔ میںنے محسوس کیا کہ قرآن کے اصلی معنی میرے دل میں اب ظاہر ہو رہے ہیں ۔ جیسے ہی انہوںنے نماز ختم کی میں آگے بڑھا اور ان کے ہاتھوں کو بوسا دیا ۔ پھر رومی نے ان دونوں سے میرا تعارف ’’ زندہ رود ‘‘ کے طور کروایا ۔ زندہ رود فارسی میں تند و تیزندی کو کہتے ہیں اور چونکہ رومی کا خیال ہے کہ میں ہمیشہ تلاش میں رہتا ہوں اور میری زندگی ایسے ہی ہے جیسے تندو تیز ندی اپنے راستے میں آنے والی رکاوٹ کو تورٹی ہوئی آگے بڑھتی رہتی ہے ۔اس لیے انہوںنے مذاق سے مجھے زندہ رود کا نام دیا تھا۔ افغانی نے مجھ سے کہا کہ میں دنیا کے موجودہ حالات بتائوں جہاں سے میں آیا ہوں ۔

    مجھے بڑے دکھ سے یہ کہنا پڑا کہ’’ مسلمان اپنے عظیم ورثے کو بھول کر مغربی افکار و تصورات کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔ وہ عالم گیر ملت اسلامیہ کی ایک عظیم وحدت بننے کے بجائے اپنی قومیتی شناخت سے وفاداریاں نبھا رہے ہیں اور اب اشتراکیت نے ان کی رہی سہی قوت بھی چھین لی ہے ۔ اشتراکیت وہ نظریہ ہے جو روس نے 1917ء کے انقلاب کے بعد اپنایا ہوا ہے ۔ اگر چہ اس کا مقصد استحصال کا خاتمہ ہے مگر یہ دہریت کی تعلیم بھی دیتا ہے‘‘ ۔

    ’’ مغرب کس قدر چالاک ہے ۔‘‘ افغانی نے اظہار خیال کیا:

    ’’وہ اپنے علاقے میں قومیت کے پھل کا مزہ چکھ چکے ہیں اور مرکزیت کے بارے میں غور کر رہے ہیں ۔ جب کہ تمہیں وہ ابھی تک اپنی روح کی بجائے اپنی قومیت سے وفاداری نبھانے کا درس دے رہے ہیں ۔ اشتراکیت کا فلسفہ دینے والا مفکر کارل مارکس بلا شبہ ایک ذہین آدمی تھا اور اس کے افکار کسی حد تک متاثر کن ہیں مگر بد قسمتی سے اس کا قلب مومن اور دماغ کافر تھا۔ اس کے فلسفہ پیٹ کی مساوات پر مبنی ہے جب کہ انسانیت کی اصل شان تو روح کی مساوات میں ہے ۔ مغرب نے بہت عرصہ سے روحانیت کو چھوڑ کر مادیت پر اپنی توجہ مرکوز کی ہوئی ہے ۔‘‘

    ’’ مصطفی کمال پاشا کو ہی دیکھ لو ۔‘‘ سعید حلیم پاشا بھی گفتگو میں شامل ہو گئے ۔

    ’’وہ بھی یہی غلطی دہرا رہا ہے ۔ وہ نئے تصورات اپنا رہا مگر تمام پرانی اقدار سے دور جا رہا ہے ۔ یہ تو اس طرح ہے کہ جس طرح کوئی بچے کو نہلاتے ہوئے پانی کے ساتھ ساتھ بچے کو بھی بہاد ے ۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے میرے دوست کہ قرآن کی آیات میں بہت سے ایسے جہاں پوشیدہ ہیں جو ابھی تک تخلیق نہیں کیے گئے اگر تم دین سے بیزار ہو چکے ہو اور ایک نئی دنیا کی خواہش رکھتے ہو تو تمہیں بہت دور نہیں جاناپڑے گا ۔ قرآن کی آیات سے ایک نیا جہاں ڈھونڈو اور اسے تخلیق کرو ۔قرآن کی جو تعلیمات ہیں اس دور میں ضرور رکھنی چاہیں ۔‘‘

    افغانی نے عالمانہ شان کے ساتھ اضافہ کیا ۔
    ’’اول یہ کہ انسان زمین پر خدا کا نائب ہے ۔ دوم یہ کہ اطاعت کے قابل صرف اﷲ تعالیٰ کی حکومت اور اس کا آئین ہے نہ کہ زمینی آمروں کا بنایا ہوا آئین ۔ سوم یہ کہ سب کچھ اﷲ ہی کا ہے اور مالداروں کو اﷲ کی طرف سے امانت دی گئی ہے تا کہ وہ اسے دوسروں کی بھلائی کے لیے خرچ کریں ۔ چہارم یہ کہ حکمت خیر کثیر ہے ۔‘‘

    اقبال کہتے ہیں:
    ’’ افغانی نے ان چار نکات کی تفصیل کے ساتھ وضاحت کی اور جیسے جیسے وہ سمجھاتے جا رہے تھے مجھے اپنے اندر ایک فہم کی نئی روشنی پھوٹتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی ۔ بے شک میں اﷲ کی کتاب کو زیادہ اچھی طرح سمجھ رہا ہوں ۔ جب وہ وضاحت کر چکے تو میں نے کہا کہ مجھے حیرت ہے کہ ہمارے مولوی اس کی تعلیم کیوں نہیں دیتے ‘ ‘؟

    سعید نے ناگواری سے کہا ک
    ہ’’ وہ قرآن کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ۔خدا کے نام پر فساد کروانا ہی ان کا مذہب ہے دراصل وہ یہی کچھ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔‘‘

    یہاں علامہ مشرق اور مغرب کے خیالات اور ان کے فلسفوں کے متعلق سعید حلیم پاشا کی زبانی اپنی ملاقات کو آگے بڑھاتے ہیں اور اپنے ان خیالات کو دہراتے ہیں جو انکی شاعری کے آخری دور میں جا بجا موجود ہیں، جن میں مغرب اور مشرق کے تقابل کے ساتھ ساتھ علم اور عشق پر بحث ہے۔ اس حصے میں مصطفیٰ کمال اتاترک کا ذکر بھی آیا ہے اور جس کے متعلق اقبال اس کتاب کی تصنیف تک اپنا یہ نتیجہ نکال چکے تھے کہ اس نے کوئی نیا نظام نہیں دیا بلکہ مغرب کی ہی پرانی چیزیں ہیں۔ سعید حلیم پاشا کچھ یوں آغاز کرتے ہیں:

    “مغرب والوں کے لیے دانش و حکمت ہی زندگی کا ساز و سامان ہے جبکہ مشرق والوں کیلیے کائنات کا راز عشق ہے۔اور یہ کہ عقل عشق کی وجہ سے حق شناس بن جاتی ہے اور عشق کا کام عقل کی مدد سے مضبوط بنیادوں پر استوار ہو جاتا ہے، عشق جب عقل کے ساتھ ہم پہلو ہو جاتا ہے تو وہ ایک نیا ہی عالم پیدا کر دیتا ہے، لہذا اے مسلمان اْٹھ اور ایک نیا جہان بنا، عشق کو عقل کے ساتھ ملا دے۔”

    یہاں اقبال عقل کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسکا عشق کے ساتھ اتحاد چاہتے ہیں تا کہ ایک جہانِ تازہ پیداہو کیونکہ فرنگیوں کا شعلہ نم خوردہ ہو چکا ہے، انکی آنکھ تو دیکھتی ہے لیکن دل مردہ ہے۔ وہ اپنی ہی تلوار سے زخم کھائے ہوئے ہیں اور اپنے ہی شکار کی طرح بسمل پڑے ہیں۔علامہ کے مغرب کے متعلق ان خیالات کو پہلی جنگ عظیم کے تناظر اور اس وقت کے یورپ کے سیاسی حالات اور انکی روشنی میں دوسری جنگ عظیم کی بیش بینی کے طور پر دیکھنا چاہیئے۔

    مزید فرماتے ہیں کہ مغرب کی انگور کی بیل سے سوز و ساز و مستی تلنہ کر انکے افلاک میں کوئی اور یعنی نیا زمانہ نہیں ہے۔ اے مشرق والے، زندگی کا سوز و ساز تیرے جذبے کی آگ سے ہے، نیا جہان پیدا کرنا تیرا ہی کام ہے۔سعید حلیم پاشا کی زبانی علامہ، مصطفیٰ کمال اتاترک کے متعلق فرماتے ہیں۔اسکے سینے میں کوئی نیا سانس نہیں تھا، اسکے ضمیر میں کوئی نیا جہان نہیں تھا۔یہاں سے گفتگو کا رْخ مصطفیٰ کمال اتاترک کی طرف مْڑ جاتا ہے اور سعید حلیم پاشا کہتے ہیں کہ گو مصطفیٰ کمال نے تجدد یعنی تجدید کا راگ الاپا ہے اور اس نے کہا کہ (اسلامی اقدار و روایات) کے ہر نقشِ کہن کو مٹا دینا چاہیئے لیکن کعبہ میں اگر افرنگ کے نئے لات و منات آ بھی جائیں تو اس سے کعبہ کا رختِ حیات نیا نہیں ہو جاتا.

    لہذا اس نے ترکی کو جدید بنانے کیلیے جو کچھ بھی کیا ہے اور جو راگ بھی الاپا ہے اس میں کوئی نیا آہنگ اور سْر نہیں ہے بلکہ اْسکی ہر نئی چیز میں وہی پرانی افرنگی باتیں ہیں۔ اْس کے سینے میں کوئی نیا سانس نہیں تھا اور اسکے ضمیر میں کوئی نیا جہان نہیں تھا۔یہاں سے گفتگو اس نہج پر پہنچتی ہے کہ پھر نیا جہان کیسے پیدا کیا جائے تو علامہ فرماتے ہیں کہ کائنات میں جو طرفگی یا عجائبات یا جدیدیت ہے وہ زندگی کی تقویم کی اندھا دھند پیروی میں نہیں ہے بلکہ ایک زندہ دل زمانوں اور اقدار کی تخلیق کرتا ہے، اور (اندھی) تقلید سے جان بے حضور ہو جاتی ہے۔

    رومی پر بھی افغانی کے بصیرت افروز بیان نے بڑا گہرا اثر ڈالا ۔اقبال کہتے ہیں کہ میںنے ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے ۔ پھر انہوںنے میری طرف دیکھا اور کہا کہ’’ اپنی شاعری سنائو کہ روح کو تڑپا دے اور جستجو کی امنگ بڑھا دے ۔ ‘‘میں اپنی اس عزت افزائی پر بے حد مسرود ہوا اور اپنی ایک نظم کا یہ حصہ سنایا۔ جس کا ترجمہ ہے کہ

    ’’ باغ میں چلنے والی ہوا کی طرح وہ پھول بھی گرم سفر ہے جنہیں لوگ ایک جگہ ٹھہرا ہوا سمجھے ہیں ۔ نئی معانی جو ہم تلاش کرتے ہیں مگر وہ ملتے نہیں وہ ملیں بھی کیسے کہ مسجد ‘درس گاہیں اور میخانے سب بنجر ہیں اپنے آپ سے ایک حرف سیکھ لو اور پھر اسی میں جل جائو کہ اس خانقاہ میں موسیٰ ؑ کا سوز رکھنے والا کوئی نہیں ہے۔‘‘

  • دین بطور ماخذ قرآن و سنت میں بند ہے،کا خلط مبحث –   زاہد صدیق مغل

    دین بطور ماخذ قرآن و سنت میں بند ہے،کا خلط مبحث – زاہد صدیق مغل

    جب یہ کہا جائے کہ دین کو قطعی قرار دینے کے لئے قرآن و سنت میں بند کرنا کوئی معنی خیز بات نہیں، تو کہا جاتا ہے کہ یہ جملہ اس اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ “دین اپنے ماخذات” کے لحاظ سے قطعیات میں بند ہے نہ کہ ثابت ہونے والے تمام احکام کے لحاظ سے۔

    پس اس اعتبار سے مستقل بالذات یعنی اصل یا بنیادی احکام قرآن و سنت کے قطعی الثبوت ماخذ سے ثابت ہیں جبکہ فروعی احکام حدیث سے، لیکن وہ مستقل بالذات و اصل نہیں فرع و تبیین ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اصطلاح بنانے میں کوئی جھگڑا نہیں، سوال یہ ہے کہ اس سے حاصل کیا ہوا؟ ہم آپ کی بات آپ کی اصطلاحات میں یوں کھول دیتے ہیں:

    1۔ قطعی الثبوت قرآن میں بعض احکام قطعی الدلالۃ طور پر ثابت ہیں جو مستقل بالذات و اصل ہیں (قطعی الدلالۃ سے ہماری مراد وہ کیفیت ہے جس میں اختلاف سے عقاب لازم آئے، چاہے مؤبد ہو یا مؤقت)

    2۔ قطعی الثبوت قرآن میں بعض احکام قطعی الدلالۃ طور پر ثابت ہیں جو مستقل بالذات نہیں بلکہ بعض قرآنی احکام کی فرع و تبیین ہیں

    3۔ قطعی الثبوت قرآن میں بعض احکام ظنی الدلالۃ طور پر ثابت ہیں جو مستقل بالذات ہیں

    4۔ قطعی الثبوت قرآن میں بعض احکام ظنی الدلالۃ طور پر ثابت ہیں جو مستقل بالذات نہیں بلکہ بعض قرآنی احکام کی فرع و تبیین ہیں

    اسی طرز پر آپ کے اصول کے مطابق کہا جائے گا:

    5۔ ظنی الثبوت احادیث میں بعض احکام قطعی یا ظنی الدلالۃ طور پر ثابت ہیں جو مستقل بالذات نہیں بلکہ بعض قرآنی احکام کی فرع و تبیین ہیں

    بتائیے 4 اور 5 میں عمل کے لحاظ سے کیا فرق ہے جبکہ آپ خود مانتے ہیں کہ قرآن کی آیت فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا کی رو سے پانچویں قسم بھی واجب الاتباع ہے نیز آپ 4 اور 5 دونوں کو وحی بھی مانتے ہیں؟

    جس طرح یہ کہا جائے گا کہ مستقل بالذات دین سے متعلق قرآن سے ثابت ہونے والی بعض فروعات و تبیین جاننے کا ماخذ قرآن ہے، اسی طرح یہ بھی کہا جائے گا کہ دین سے متعلق بعض فروعات کو جاننے کا ماخذ حدیث ہے۔ اس پر آپ کا انتہائی اعتراض یہ ہوگا کہ قرآن کا انکار اور اس کا حکم نہ ماننا کفر ہے جبکہ حدیث کا ایسا معاملہ نہیں اور یہ بہت بڑا فرق ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ تیسری اور چوتھی قسم میں “قرآن کا انکار اور اس کا حکم نہ ماننا کفر ہے” سے آپ نے کیا مراد لی، قرآن کے الفاظ یا مجتہد کے نزدیک اس سے ثابت ہونے والا معین معنی یا حکم؟

    اگر الفاظ مراد لی تو فبھا، سب یہی کہتے ہیں۔
    لیکن اگر ظنی الدلالۃ طور پر ثابت ہونے والا معین حکم مراد لیا تو کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ ہر ہر آیت سے آپ نے جو سمجھا اسے نہ ماننے والا کافر ہے؟ ظاہر ہے یہ تو آب بھی نہیں کہتے۔ ایسے میں آپ کے اعتراض کا حاصل کیا رہا؟ پس تیسری و چوتھی قسم میں پوری بحث کا حاصل یہ ہوا کہ جو مفہوم سمجھ کر آپ نے حکم ثابت کیا اس پر آپ کے نزدیک عمل واجب ہے اور بس، لیکن اس حکم میں آپ سے علمی (یعنی عقیدے کے اعتبار سے) اختلاف کرنے والا کافر و فاسق نہیں۔ یہی کچھ خبر واحد کے بارے میں کہہ دیا جاتا ہے، سمپل۔ تو اس جملے میں جس فرق کو بہت بڑا بنا کر پیش کیا جاتا ہے، چند قدم چلنے کے بعد وہ اتنا بڑا نہیں رہتا۔

    الغرض ماخذ کے اعتبار سے بحث محض اصطلاح سازی کی چیز معلوم ہوتی ہے جس کا کوئی خاص علمی و عملی فائدہ ہمیں معلوم نہیں ہوسکا، البتہ اسے بنیاد بنا کر کہے جانے والے جملے “دین قرآن و سنت میں ہے، حدیث تاریخ کی کتاب ہے نہ کہ دین کی” سے کنفیوژن ضرور پیدا ہوتی ہے۔ علمی طور پر نتیجہ ایک ہی ہے کہ جس طرح قرآن متعدد ظنی طور پر ثابت دینی احکام کا ماخذ ہے، حدیث بھی ہے۔ آپ کی یہ تقسیم تب معنی خیز ہے جب آپ مثلا خوارج وغیرہ جیسا یہ منہج اپنا لیں کہ قرآن کی ہر ہر آیت کے بارے میں جو بھی آپ کے فہم سے اختلاف کرے وہ کافر یا چلیں کم از کم بدعتی و فاسق ہے۔

    اس کے بعد اگرچہ یہ سوال یقیناً ختم ہوجائے گا کہ “دین کا حکم یہ ہے یا وہ” لیکن اس کے ساتھ تکفیر و تبدیع کا جو سیلاب آئے گا وہ اہل علم پر مخفی نہیں اور نتیجہ پھر بھی وہی نکلے گا کہ ہر گروہ کے پاس دین کے اپنے الگ احکام کی ایک لسٹ ہوگی!

  • رمضان المبارک روحانی تجدید کا مہینہ – راؤ محمد اعظم

    رمضان المبارک روحانی تجدید کا مہینہ – راؤ محمد اعظم

    رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتوں، برکتوں اور مغفرت کا پیغام لے کر آتا ہے۔ یہ وہ مبارک وقت ہے جب مسلمان نہ صرف روزے رکھتے ہیں بلکہ عبادات میں بھی خصوصی طور پر مصروف ہو جاتے ہیں۔ نمازِ تراویح، صدقات و خیرات، زکوٰۃ، افطار کی دعوتیں، اور رشتہ داروں اور مستحقین کی مدد اس مہینے کی خوبصورتی کو مزید بڑھا دیتی ہیں۔ لیکن رمضان المبارک کی سب سے خاص عبادت قرآن کریم کی تلاوت اور اس پر تدبر ہے۔

    قرآن کریم کی تلاوت: سکونِ قلب اور روحانی بالیدگی
    جب ہم رمضان کی راتوں میں مختلف مساجد میں تراویح کے دوران قرآن کریم کی تلاوت سنتے ہیں تو ایک عجیب روحانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ یہ مقدس کلام دل میں اتر کر اسے سکون بخشتا ہے، غموں کو دور کرتا ہے، اور روح میں اطمینان کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ قرآن کریم کے الفاظ اور انداز براہ راست قلب و ذہن پر اثر ڈالتے ہیں، جس سے دل کی دنیا بدلنے لگتی ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔

    قرآن کی تلاوت میں تدبر اور غور و فکر
    قرآن صرف پڑھنے کے لیے نازل نہیں کیا گیا، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس پر تدبر کریں، اس کے معانی کو سمجھیں اور اپنی زندگی میں اس کے احکامات کو نافذ کریں۔ بدقسمتی سے، ہمارے معاشرے میں عمومی رجحان یہ ہے کہ قرآن کو محض ثواب کے لیے پڑھا جاتا ہے، جبکہ اس کی اصل روح اس کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں ہے۔ اگر ہم چاہیں کہ قرآن ہمارے دلوں میں اتر جائے اور ہمیں اللہ کا قرب نصیب ہو، تو ہمیں اس کی تلاوت تدبر اور فکر کے ساتھ کرنی ہوگی۔

    رمضان میں قرآن سے تعلق مضبوط کرنے کا موقع
    رمضان المبارک میں ہر مسلمان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کم از کم ایک مرتبہ مکمل قرآن پڑھ لے یا سنے۔ لیکن اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس مقدس کتاب کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اپنی زندگیوں میں اس کی تعلیمات کو عملی جامہ پہنائیں۔ اگر ہم روزانہ تھوڑا سا وقت نکال کر قرآن کا ترجمہ اور تفسیر پڑھیں، تو ہمارے دل کی کیفیت بدل سکتی ہے اور ہمیں اللہ کی قربت حاصل ہو سکتی ہے۔

    قرآن: ہر شعبہ زندگی کے لیے رہنمائی
    قرآن محض ایک مذہبی کتاب نہیں بلکہ یہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جو انسانی زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ ہمیں عدل و انصاف، محبت و رواداری، صبر و شکر، اور دنیا و آخرت کی بھلائی کے اصول سکھاتا ہے۔ اگر ہم قرآن کو سمجھ کر اس پر عمل کریں، تو نہ صرف ہماری انفرادی زندگی میں تبدیلی آئے گی بلکہ ہمارا معاشرہ بھی حقیقی اسلامی اقدار کا مظہر بن جائے گا۔

    رمضان المبارک میں ہمیں قرآن کریم کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرنا چاہیے۔ صرف تلاوت پر اکتفا نہ کریں، بلکہ اس کے معانی کو سمجھنے، اس پر غور و فکر کرنے اور اپنی عملی زندگی میں اس کے احکامات کو شامل کرنے کی کوشش کریں۔ یہی حقیقی روحانی ترقی ہے، اور یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں اللہ کی رحمت اور ہدایت کے قریب لے جاتا ہے۔

  • قرآن۔۔ بُرہانِ الٰہی –  ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

    قرآن۔۔ بُرہانِ الٰہی – ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

    قرآنِ مجید وہ مہتم بالشان صحیفۂ ہدایت ہے جس نے نہ صرف تاریخِ انسانی کا دھارا موڑا، بلکہ فکروعمل کا معیار بھی یکسر تبدیل کردیا۔ قرآنِ مجید کی صورت میں الہامی تعلیمات نے نہ صرف حیاتِ انسانی کو متاثر کیا، بلکہ اس کائنات کے حیرت انگیز اسرار کی پردہ کشائی کے ساتھ مدتِ دراز سے مروج ہرنوع کے افکار و نظریات کے علی الرغم کائنات کی اَبدی اور کھلی حقیقتوں پر مضبوط، مؤثر اور مستحکم دلائل پیش کیے۔

    قرآنِ مجید روئے زمین پر کائنات کے خالق، مالک، آقا و حاکم اور مقتدرِ اعلیٰ کی حقانیت بلکہ وجود پر سب سے بڑی، روشن اور شان دار دلیل ہے۔ اسی لیے سورۃ النساء میں اسے ’بُرہان‘ قرار دیا گیا۔ بُرہان کے لغوی معنی ’دلیل اور حجت‘ کے ہیں۔ دلیل راہنما کو بھی کہتے ہیں اور اس سے مراد وہ نظریہ، عقیدہ، فکر اور اصول بھی ہے، جو کسی بھی معاملے میں واضح اور فیصلہ کن رہنمائی عطا کرے۔

    قرآنِ مجید کی ہرآیت اور ہر حرف تاقیامت دلیل و حجت اور کامل رہنمائی ہے۔ وہ لوگ جو حق و راستی کے طالب ہوں، ان کے قلوب و اذہان ہر نوع کی کجی اور ٹیڑھ سے پاک ہوں، قرآنِ کریم انھیں ہمہ پہلو دلائل و براہین سے حق کا شعور و آگہی، عمل کی توفیق اور استقامت عطا کرتا ہے۔

    قرآنِ مجید نے اپنے طرزِ استدلال میں وہ تمام اسالیب اختیار کیے، جن کا تعلق انسان کی عقل و فہم ، سماعت اور مشاہدے سے ہو۔ قرآن نے مروج ادبی معیارات سے کہیں بڑھ کر بلند تر معیار کو اپناکر دقیق سے دقیق بات پاکیزہ، واضح اور مؤثرانداز میں اس طرح بیان کی کہ ہرشخص نے اپنی فہم و دانش اور ظرف کے مطابق اس سے نہ صرف صراطِ مستقیم کا شعور حاصل کیا، بلکہ اس کے جلال و کمال اور ہیبت و عظمت کے سامنے مبہوت ہوکر رہ گیا۔

    دلائل و براہین
    قرآنِ حکیم نے اپنے دلائل و براہین پر جن لوگوں کو غوروفکر کی دعوت دی، ان میں اہلِ عقل و دانش ، اہلِ ایمان اور اہلِ علم کے ساتھ اللہ کا خوف رکھنے، آیات کو سننے اور انھیں سمجھنے کی صلاحیت رکھنے، ان سے نصیحت پکڑنے اور اس نعمت عظمیٰ پر شکر بجا لاتے ہوئے اس کی عطا کردہ راہِ ہدایت پر استقامت دکھانے والے شامل ہیں۔

    کتاب لاریب:
    قرآنِ مجید کے دلائل و براہین کا اوّلین موضوع خود اس کا اپنا وجود ہے۔ اس کی پہلی دلیل [arabic]ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ (البقرہ ۲:۲)[/arabic]، یعنی یہ کتابِ مقدس ہر نوع کے شک و شبہے سے بالا، ہرآمیزش سے مبرا، ہرکجی سے پاک اور دونوں جہانوں کے رب کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ قرآن نے خو د کو ہدایت، موعظت، شفا، رحمت، حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا اور نصیحت قرار دیتے ہوئے نہایت قوی دلیل دی کہ [arabic]اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ج (انعام۶:۱۵۳)[/arabic]، کہ میرا بیان کردہ راستہ ہی سیدھا راستہ ہے، لہٰذا اسی کی پیروی میں نجات اور اس سے انحراف سراسر گمراہی ہے۔ قرآن نے اپنے وجود مسعود و محمود کے ساتھ اپنے محفوظ ہونے پر بھی دلائل دیے کہ یہ کسی انسان کا کلام ہرگز نہیں، اس کا نازل کرنے والا اللہ بزرگ و برتر ہے، اور وہی اس کا محافظ بھی۔ قرآن نے اپنے وجود کی عظمت اور حقانیت پر دلیل دیتے ہوئے تمام جِنّ و انس کو چیلنج دیا کہ وہ سب مل کر اس کے افکار و نظریات تو دُور کی بات، اس کی ایک سورۃ یا آیت جیسا کلام بناکر دکھائیں۔ پھر خود ہی اعلان بھی کردیا: لَا یَاتُوْنَ بِمِثْلِہِ کہ سارے جِنّ و انس مل کر بھی ایسا ہرگز نہ کرسکیں گے۔ قرآن نے اپنے وجود پر ایک اور قوی دلیل یہ پیش کی کہ [arabic]وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ (القمر۵۴:۳۲)[/arabic] ، یعنی یہ معانی و مفاہیم، قرأت و تجوید اور حفظ و عمل کے اعتبار سے نہایت آسان ہے۔ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ تو ہے کوئی اس سے نصیحت حاصل کر کے اپنے سینوں میں اُتارنے اور کتابِ حیات پر نافذ کرنے والا؟

    صاحبِ قرآن:
    قرآن نے اپنے براہین کا دوسرا موضوع صاحب ِ قرآن۔۔صلی اللہ علیہ وسلم۔۔ کو بنایا، اور صاحب ِ قرآن کے اُمّی ہونے کو اپنے لاریب ہونے پر دلیل بنایا کہ وہ ذاتِ اقدس جو اُمیوں کے معاشرے سے اُٹھی، اور الہامی تعلیم و تربیت اور راہنمائی کے سایے میں اُس اخلاق و کردار سے متصف ہوئی ، جو خود قرآن کا پرتو، اس کی عملی تصویر اور ہمہ پہلو مجسم دلیل قرار پائی۔ [arabic]کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْاٰن[/arabic]، اور یہی وجودِ اقدس تابہ اَبد انسانیت کے لیے نمونۂ عمل اور اسوئہ حسنہ ، معیارِ ہدایت و ضامنِ نجات قرار پایا۔ قرآن نے نہ صرف بعثت ِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل فراہم کیے، بلکہ منصب ِ رسالت پر بھی ہمہ پہلو دلائل پیش کیے۔

    جبریلِ امینؑ:
    قرآنِ حکیم نے اپنے دلائل کا تیسرا موضوع بارگاہِ الٰہی سے بارگاہِ رسالت میں لانے والے کو بنایا، کہ وہ بھی نہایت محترم، معتبر اور مستند واسطہ ہے۔ یہ پیام رساں جبریل امین ؑ نہایت عظیم المرتبت، بارگاہِ الٰہی کا نہایت قوی مقرب، فرمانِ الٰہی کا پابند اور صاحب ِ امانت ہے۔

    ہستی باری تعالٰی:
    براہین قرآنی کا چوتھا اور کلیدی موضوع وجودِ باری تعالیٰ اور ا س کی توحید، عظمت و جلال، اختیار واقتدار، وسعت و قوت کا اعلان و اظہار ہے۔ اور نہ صرف نزولِ قرآن اور بعثت ِ رسالت مآبؐ کا مقصد ہے، بلکہ تحقیق کائنات کی غرض و غایت بھی یہی ہے۔ قرآنِ حکیم نے انسان کے اپنے وجود، تخلیق، تکوین کائنات اور بے شمار ظاہروباطن، مظاہرقدرت اور مناظر فطرت کو دلیل بناکر اللہ کی وحدانیت، عظمت، کبریائی، قوت و اختیار و اقتدار، جلال و جمال اور ذاتِ باری کے ہرپہلو کو نمایاں اور واضح کیا۔ قرآن نے اپنے دلائل سے تخلیق کائنات کا یہ مقصد واضح کیا کہ نہ تو یہ کھیل تماشے کے لیے ہے اور نہ بے مقصد۔ تخلیق جِنّ و انس اور تکوین کون و مکاں کا واحد مقصد اللہ کی ہمہ پہلو، مکمل اور مسلسل عبادت، یعنی بندگی ہے۔ [arabic]وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo (الذاریات ۵۱:۵۶)[/arabic] ’’میں نے جِنّ اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں‘‘۔

    حقیقتِ کائنات:
    قرآنِ حکیم اس حقیقت پر بھی بُرہان ہے کہ یہ کائنات اَبدی نہیں، فانی ہے۔ بقا و دوام تو فقط ذاتِ باری تعالیٰ کو ہی ہے۔ اس کائنات کا انجام آخرت ہے، جو بہرصورت اور بہت جلد برپا ہوگی۔ عدلِ الٰہی کا تقاضا ہے کہ حیاتِ دنیوی میں آزمایش کے لیے بھیجے جانے والوں کی مہلت ِ عمل مکمل ، امتحان کا اختتام ہو اور فیصلے کا دن برپا کر کے جزا و سزا کے ذریعے اہلِ کفر اور اہلِ ایمان میں وعدے کے مطابق فرق و امتیاز کیا جائے۔ قرآنی دلائل کی روشنی میں دنیا تو دارالعمل، متاعِ قلیل اور بے وقعت ہے، جب کہ آخرت بہتر، دائمی اور دارالجزا ہے۔[arabic] وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰیْo (الاعلٰی۸۷:۱۷)[/arabic]

    تسخیر کائنات:
    براہین قرآن کا چھٹا موضوع تسخیر کائنات ہے کہ یہ بحروبَر، شمس و قمر، لیل و نہار، سب بندئہ مومن کے لیے اور اس کی میراث ہیں۔[arabic]اَلَمْ تَـرَوْا اَنَّ اللّٰہَ سََخَّرَلَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ (لقمان۳۱:۲۰)[/arabic] ’’کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمھارے لیے مسخر کررکھی ہیں‘‘۔ مؤمن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ انھیں امانت تصور کرتے ہوئے آقا و مولا کی مرضی و منشاء کے مطابق استعمال تو کرے، لیکن ان میں گم اور غرق ہوکر نہ رہ جائے۔ اس کائنات کے اسرار و رُموز سے آگاہی حاصل کرکے اپنے رب کی معرفت اور اپنی شب تاریک سحر تو کرے، اس دنیا کے زینت و تفاخر اوردھوکے میں ڈالنے والی رعنائی و دل کشی کا اسیر ہرگز نہ بنے۔

    قوموں کا عروج و زوال:
    ساتواں موضوع جسے قرآنِ حکیم نے اپنے دلائل و براہین کا مرکز بنایا، وہ قوموں کا عروج و زوال ہے۔ اُممِ سابقہ کے تذکرے، انبیا اور ان کے اصحاب کے قصے، قوموں کے انفرادی و اجتماعی کردار، معاشرتی رویے، آیاتِ الٰہی کی تکذیب، عناد اور مخالفت کے انجام، اہلِ کفر اور اہلِ ایمان کے معرکہ ہاے حق و باطل، ظلم و جبر کی داستانیں، صبرواستقلال اور عزیمت کے واقعات، انسانوں پر انسانوں کی خدائی کے جھوٹے دعوے اور ان کے عبرت ناک انجام___ ان سب کو قرآن نے اس امر پر دلیل بنایا کہ حق و باطل ہمیشہ سے برسرِپیکار رہے ہیں، لیکن غلبہ بالآخر اہلِ حق کو ہی حاصل ہوا۔ [arabic]اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْن (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۳۹)[/arabic] ’’تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔

    دوسرا یہ کہ اہلِ حق خواہ تھوڑے ہی ہوں، مگر صبرواستقامت کے کوہِ گراں ہوں، تو فتح و نصرت اُن ہی کا مقدر ہے:[arabic] کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ (البقرہ ۲:۲۴۹)[/arabic] ’’بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے‘‘۔

    تیسرا یہ کہ وہ قومیں جو اپنے اجتماعی و انفرادی کردار کی طرف توجہ اور اصلاحِ احوال کی کوشش سے غفلت برتیں، اللہ ان کا ساتھ نہیں دیتا۔

    چوتھا یہ کہ جس قوم کے اصحابِ ثروت عیش و عشرت اور بدکاریوں میں مبتلا ہوں، جہاں عدل و انصاف کے بجاے ظلم کا بازار گرم ہو، وہ قومیں جو اللہ کے دین سے اعراض اور اس کے رسولوں کی تکذیب کی مجرم ہوں، کبھی سربلند اور معزز نہیں رہ سکتیں۔ ان کا انجام دنیا میں بھی رُسوا کن اور عبرت ناک ہوا،ان کی زندگیاں تلخ سے تلخ تر اور مصائب شدید سے شدید تر ہوئے اور آخرت کی اَبدی ذلت اور دائمی عذاب بھی اُن کا مقدر بنا۔قرآن نے اہلِ حق کو یہ دعوت دی کہ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ (انعام ۶:۱۱) کہ زمین میں عبرت کی نگاہ لیے چلو پھرو اور دیکھو کہ مفسدین و مکذبین کا انجام کیا ہوا؟

    چند مزید حقائق
    قرآنِ حکیم نے ان چند بنیادی موضوعات پر بار بار، تفصیلی اور مستحکم دلائل دینے کے علاوہ بعض دیگر اُمور اور حقائق کے بارے میں بھی مدلل رہنمائی عطا کی، جن میں:
    شیطان کو انسان کا کھلم کھلا دشمن قرار دے کر، اس کی چالوں سے آگاہ و خبردار رہنے کے ساتھ، اس کے نقشِ قدم پر چلنے سے منع فرمایا۔
    جنت: اللہ کا وعدہ اور اس کی رضا و خوشنودی کی مظہر ہے۔ یہ ہرمومن کا مقصد، تمنا اور آرزو ہے۔ قرآن نے دلائل سے واضح کیا کہ جنت کا راستہ اس قدر آسان نہیں۔ اس کی قیمت تو اللہ کا تقویٰ، ہواے نفس سے اجتناب، رسولؐ کی کامل اطاعت و اتباع اور قرآن کی پیروی کے ساتھ راہِ حق کی ہر آزمایش میں صبرواستقامت کا مظاہرہ ہے۔ اور جو اس کا اُمیدوار اور خریدار ہو، اسے بطورِ قیمت اپنی جان اور مال اللہ کی بارگاہ میں پیش کرنا ہوگا۔ [arabic]اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ط (التوبۃ ۹:۱۱۱)[/arabic] ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں‘‘۔

    بلاشبہہ قرآنِ حکیم اس امر پر بھی بُرہان ہے کہ اللہ کا دین اس کی نعمت بن کر مکمل ہوچکا ہے۔ اس میں نہ کمی کا اختیار ہے، نہ اضافے کی گنجایش۔ دین اسلام ہی اللہ کا پسندیدہ اور اس کی بارگاہ میں مقبول ترین ہے۔ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ قف (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۹)۔ اس کے علاوہ کوئی اور نظریۂ حیات، فلسفۂ تہذیب و تمدن، اصولِ اخلاق و سیاست، نظامِ معیشت و معاشرت اللہ کے نزدیک غیرمقبول ہیں۔

    دلائل قرآنی میں ایک اور قوی دلیل معیارِ تقویٰ و فضیلت کے بارے میں ہے۔ اس کے براہین کی روشنی میں قوم، زبان، رنگ، وطن، دولت وقوت، شان و شوکت ہرگز معیارِ فضیلت نہیں۔ [arabic]اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ط (الحجرات ۴۹:۱۳)[/arabic]،درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔ اللہ کی بارگاہ میں معیارِ شرف و عزت فقط ’تقویٰ‘ یعنی خوفِ خدا ہے۔ تقویٰ بہترین توشۂ آخرت، اہلِ دانش کی میراث ہے۔ تقویٰ مسجد کی دیواروں، ماتھے کی محرابوں اور تسبیح کے دانوں میں نہیں، اس کا مرکز تو دل ہے۔

    قرآن نے اس حقیقت پر بھی بُرہان پیش کی کہ نیکی کا مروّج تصور اور اللہ کا عطا کردہ ضابطہ معروف و منکر مختلف ہیں۔ اللہ کی نگاہ میں مشرق و مغرب کی طرف رُخ کر کے عبادت کرنا، قربانی کا خون اور گوشت اس کی نذر کرنا، مقدس مقامات کی تعمیر، یا مفادِ عامہ کے چند کام انجام دے لینا ہی نیکی نہیں، بلکہ نیکی تو حقوق اللہ کی ادایگی کے ساتھ حقوق العباد کی تکمیل کا نام ہے۔

    قرآن اس حقیقت پر بھی بُرہان ہے کہ اللہ کے طے کردہ ضابطوں کے مطابق کوئی اچھا یا بُرا عمل خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، ہرگز نظرانداز نہ کیا جائے۔ اللہ جو انسان کے ظاہر وباطن سے آگاہ اور خبردار ہے، انھیں حکم دیتا ہے کہ تمھارا کام تو فقط خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ عمل کرنا ہے۔ [arabic]اعْمَلُوْا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَ رَسُوْلُـہٗ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط (التوبۃ ۹:۱۰۵)[/arabic]’’تم عمل کرو، اللہ اور اس کا رسولؐ اور مومنین سب دیکھیں گے کہ تمھارا طرزِعمل اب کیا رہتاہے‘‘۔

    قرآنِ مجید کی ہر آیت کسی نہ کسی انسانی رویے کے حُسن و قبح پر دلیل اور کسی نہ کسی اَبدی اور سچی حقیقت کی غماز ہے۔ یہ سب دلائل و براہین انسان کی ہدایت کا سامان اور قلب ونظر کے اطمینان ، اور دنیا کی فلاح اور عقبیٰ کی نجات کا باعث ہیں۔

    قرآن کا مطالبہ
    قرآن دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ یہ انسان کی بیش بہا خوش بختی ہے کہ وہ حاملِ قرآن ہے مگر بحیثیت مجموعی اس کی سب سے بڑی بدبختی بھی یہی ہے کہ وہ تارکِ قرآں ہے۔ وہ اس سے غافل ہی نہیں ہے، بلکہ اپنی زندگی کے ہرمعاملے میں اس سے اعراض برتے ہوئے ہے۔ اسی کا نتیجہ اس کی ذلت و رُسوائی، بے سکونی اور بے اطمینانی ہے۔

    قرآنِ مجید کی تمام تعلیمات اور دلائل و براہین اپنے مخاطبین سے صرف ایک ہی تقاضا کرتے ہیں، اور وہ ہے ایمان باللہ اور اس کی عطا کردہ تعلیماتِ قرآنی کو تھام لینا۔ گویا اللہ کی ذات، صفات، اختیار وغیرہ پر کامل ایمان کے ساتھ اس کے لازمی تقاضوں پر بھی غیرمتزلزل ایمان کے بعد [arabic]اعتصام بحبل اللّٰہ[/arabic]… یعنی عقائد کی درستی اور پھر اعمالِ صالح۔ سورۃ العصر بھی ان ہی امور کی تفصیل بیان کرتی ہے کہ ایمان، عملِ صالح اور حق کی وصیت کے ساتھ باہم صبرواستقامت کی تلقین۔ یہ چیزیں اللہ کی رحمت، فضل، اس کی جانب سے صراطِ مستقیم کی رہنمائی اور اس کی رضا کا موجب ہیں۔

    قرآنی فلسفۂ حیات میں معاشرتی زندگی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ قرآن اس میں اعلیٰ اخلاقی اقدار اپنانے کا درس دیتا ہے اور اس کی تعلیمات کا مرکزو محور یہ نکتہ ہے کہ اجتماعی زندگی گزارتے ہوئے سعادت اور کامیابی کا انحصار اس امر پر ہے کہ کوئی حق دار محروم نہ ہو اور کسی پر زیادتی اور ظلم نہ ہو۔ قرآن میں بیان کردہ تمام اخلاقی قوانین اسی محورکے گرد گھومتے ہیں۔

    غیبت، سوء ظن، تمسخر، بدعہدی، ناپ تول میں کمی، فحش گوئی وغیرہ سے اجتناب کی ہدایت، اہلِ خانہ اور والدین سے حُسنِ سلوک ، عفو و درگزر، تحمل و وقار، پاک بازی، راست بازی ، امانت کا تحفظ، عدل و انصاف کا قیام، ہر فرد کے حقوق کا تحفظ، انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے معاشرے کی صلاح و فلاح، ایک دوسرے کی ضرورتوں کی تکمیل کا احساس ___ہمارے معاشرتی رویوں سے متعلق قرآنی ہدایات کے چند نکات ہیں۔

    قرآن کے تمام ہمہ پہلو دلائل و براہین ساری انسانیت اور بالخصوص اہلِ ایمان کو دعوت دے رہے ہیں کہ اگر ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے نہیں، تو وہ ان پر غور کریں، ان سے نصیحت اور رہنمائی حاصل کر کے انھیں اپنی زندگیوں کا مرکز و محور بنائیں۔

    قرآن کی پکار ہے:
    اے اہلِ ایمان! اگر تم مسلمان کی حقیقی آن بان اور شان کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہو تو نِیست ممکن جز بہ قرآں زیستن… قرآن کے بغیر باعزت زندہ رہنے کا تصور ممکن ہی نہیں۔اور ڈرو میدانِ حشر کے اس لمحے سے جب رسولؐ بارگاہِ الٰہی میں فریاد کناں ہوں گے:[arabic] یٰـا رَبِّ اِِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا (الفرقان ۲۵:۳۰)[/arabic] کہ اے رب! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا اور تب یہ قرآن بھی ہمارے خلاف حجت بن کر اُٹھ کھڑا ہوگا۔

    (یہ مقالہ ریڈیو پاکستان کے خصوصی قومی سیمینار میں پیش کیا گیا)