کاش “دکھ درد” بھی مجسم ہوتا. میں آواز دے کر بلاتی. ہاتھ پکڑ کر ، بٹھا کر باتیں کرتی. پوچھتی کیسے آئے ہو، کیوں آئے ہو، نہ آتے، آنا ضروری تھا کیا؟...
کاش “دکھ درد” بھی مجسم ہوتا. میں آواز دے کر بلاتی. ہاتھ پکڑ کر ، بٹھا کر باتیں کرتی. پوچھتی کیسے آئے ہو، کیوں آئے ہو، نہ آتے، آنا ضروری تھا کیا؟...