Tag: انتہاپسندی

  • پاکستان کا دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف قومی بیانیہ: ایک جائزہ  – ڈاکٹر محمد عظیم

    پاکستان کا دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف قومی بیانیہ: ایک جائزہ – ڈاکٹر محمد عظیم

    گزشتہ چند دہائیوں سے پاکستان دہشت گردی ، مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ تشدد کا شکار رہا ہے ۔یہ سنگین مسائل پاکستان کی سالمیت کے لیے اہم سیکیورٹی چیلنجز کی صورت اختیار کر گئے ۔ 9/11کے بعد دہشت گردی اور فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ بم دھماکے، ٹارگیٹ کلنگ ، خود کش حملے ، حکومتی تنصیبات و اہلکاروں کو نشانہ بنانا ، ایک معمول بن گیا ۔ ان سے نمٹنا حکومت اور ریاست کے لیے ایک چیلنج بن گیا ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 2001 سے 2022 تک پاکستان نے 83 ہزار جانوں کا نقصان اٹھایا اور 35 کھرب روپے سے زیادہ کا مالی نقصان برداشت کیا۔ اس کے علاوہ ، ان مسائل نےنہ صرف پاکستان کے معاشرتی ڈھانچے کوبری طرح متاثر کیا بلکہ قوم کی اجتمائی نفسیات پر بھی گہرے نقوش چھوڑے۔

    اس دوران ریاستی و حکومتی سطح پر کئی اقدامات اٹھائے گئے جن میں ملٹری آپریشنز ، گفت و شنید، وغیرہ شامل ہیں لیکن ممکنہ نتائج حاصل نہ ہوسکے۔ کیونکہ ان اقدامات کو وہ عوامی پذیرائی نہ مل سکی جس کی توقع کی جارہی تھی۔ اس کی اہم وجوہات میں سے ایک وجہ حکومتوں اور عوام کے درمیان عدم اعتماد کا ہونا تھا۔ ریاست اور عوام سوچ اور فکر کے حوالے سے ایک صفحے پر نہیں تھے ، یہی وجہ ہے کہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیےپاکستان کا کوئی مشترکہ بیانیہ تشکیل نہ دیا جا سکا۔ ان مسائل کے سدباب کے لیےایک جامع حکمت عملی وقت کی ضرورت بن گئی اور اس بات کو ضروری سمجھا گیا کہ ریاستی سطح پر ایک قومی بیانیہ ہونا چاہیے تاکہ انتہا پسندانہ سوچ و فکر کو انفرادی اور اجتمائی دونوں سطحوں پر شکست دی جاسکے۔

    قومی بیانیہ
    دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف پاکستان کے قومی بیانیے کاجائزہ لینے سے پہلے “قومی بیاینہ “کی اصطلاح کی معنی و مفہوم کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایاد بوستینے کے مطابق، قومی بیانیہ سے مراد “وہ لائحہ عمل ہے جس سے سماجی زندگی کو سمجھا اور محسوس کیا جاتا ہے۔ جس سے تاریخی حقائق کو آپس میں جوڑا جاتا ہے تاکہ ہماری زندگیوں کو معنی دیےجا سکے، جس سے ماضی، حال اور مستقبل ایک مربوط اور مسلسل فکری عمل میں معنی پیدا کرتے ہیں۔ وہ معلومات جو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی ہیں۔” یہ ایک قسم کی حکمت عملی ہوتی ہے جس کے ذریعے ملک کی سلامتی کو لاحق خطرات اور مسائل سے نمٹا جا تا ہے۔

    دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف قومی بیانیے کو پیغامِ پاکستان کا پرتو کہیں تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ یہ بیانیہ اس کی اہم خصوصیات پر مشتمل ہے ۔ پیغامِ پاکستان دراصل ایک متفقہ فتویٰ ہے جو 2018 میں جاری ہو ا۔ یہ فتویٰ مذکورہ چیلینجز کے خلاف ریاست پاکستان کاایک متبادل یا جوابی بیانیہ تھا ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس فتویٰ پر پاکستان کے تمام مسلم مکاتبِ فکر کے تقریباً 1800 سے زائد علماکرام نے دستخط کیے ۔ اس فتویٰ کو عالمی سطح پر بھی کافی پذیرائی ملی کیونکہ اسے امامِ کعبہ اور جامعہ ازہر قاہرہ سے منظوری ملی تھی ۔اس فتویٰ میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ یہ قرآن و سنت کی تعلیمات، آئین پاکستان کے اصولوں اور پاکستانی عوام کے اجتماعی فکر کی عکاسی کرتا ہوتاکہ اس کو پائیدار بنیادوں پر عملی جامہ پہنایا جا سکے۔مذکورہ قومی بیانیے کےاہم نکات درج ذیل ہیں ۔

    نمبر 1۔ ریاست پاکستان ، اس کے کسی صوبے یا اکائی کے خلاف کوئی جہاد یامسلح جدوجہد حرام اور ناجائز ہے، چاہے اسے کسی بھی نام سے پکارا جائے بشمول جہاد۔ کوئی فرد یا گروہ پاکستان کی ریاست کے خلاف جنگ (جہاد) کا اعلان نہیں کر سکتا۔ کوئی بھی شخص پاکستان کی حکومت کے افسران، مسلح افواج کے اہلکاروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد کو غیر مسلم قرار دے کر انہیں قتل کرنے کا جواز نہیں دے سکتا۔ ایسے افراد اور اداروں پر حملے کی کوئی بھی توجیح قابل قبول نہیں ہے۔ اسلامی شریعت کے مطابق بھی ایسے حملے سنگین جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ ریاست کے خلاف طاقت کا استعمال، مسلح مزاحمت، تشدد پھیلانا، دہشت گردی کرنا، اور شریعت کے نفاذ کے نام پر انتہاپسندی کو فروغ دینا سخت طور پر حرام ہے اور یہ “فساد فی الارض” کے زمرے میں آتا ہے۔ایسی کارروائیاں ریاست کے خلاف جرائم کے طور پر شمار ہونگی ۔ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فرض ہے کہ وہ ایسے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں،۔ جو لوگ پاکستان کے خلاف لڑتے ہیں وہ قانون شکن، باغی اور دہشت گرد ہیں جنہیں قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہیے۔

    نمبر 2۔ تمام پاکستانی قوم اپنے مسلح افواج، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتی ہے جو دہشت گردی اور انتہاپسندی کو روکنے کے لیے اپنے قانونی فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ ادارے پاکستانی قوم کا لازمی جزو ہیں۔ ان کے کردار اور فرائض ، جن میں پاکستان کے عوام کی زندگی اور مال کی حفاظت شامل ہے، کے خلاف کوئی بھی فتویٰ یا حکم جاری نہیں کیا جا سکتا۔

    نمبر 3۔ خودکش بمباری اسلام میں سختی سے حرام ہے۔ ملک کے قانون اور شریعت کے مطابق یہ ایک سنگین جرم ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق خود کش بمبار نہ صرف خود بلکہ وہ لوگ جو نوجوانوں کواس عمل کے لیے ترغیب دیتے ہیں وہ بھی جہنم میں جائیں گے ۔ قرآن کے مطابق ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ خودکش بمباری کو فدائی حملہ کہنے سے اس کا جواز نہیں بنتااور نہ ہی نام بدلنے سے اس کی نوعیت اور نتائج تبدیل ہوتے ہیں۔

    نمبر 4۔ تمام پبلک اور پرائیویٹ تعلیمی اور تربیتی اداروں کو شدت پسندی، نفرت، تشدد، انتہاپسندی یا دہشت گردی کو فروغ دینے سے سختی سے منع کیا جاتا ہے۔ یہ تمام اعمال ملک کے قانون کے مطابق جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ اگر کوئی ادارہ یا اس سے وابستہ فرد، خواہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی، ان سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا تو اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔

    نمبر 5۔ جس طرح مسلم اکثریتی آبادی کو مذہبی آزادی حاصل ہے، ویسے ہی پاکستان میں غیر مسلم اقلیوں کو بھی آئین کے تحت مذہبی آزادی حاصل ہے۔ ریاست مذہبی اقلیتوں اور ان کے مذہبی و ثقافتی حقوق کو اہمیت دیتی ہے۔ آئین بلا کسی امتیاز سب کو مذہبی حقوق کی ضمانت دیتا ہے ۔ ریاست مذہبی اور غیر مذہبی انتہاپسندی کی تمام اقسام کی مذمت کرتی ہے۔ کسی بھی فرقے کو اپنے نظریات کو طاقت اور تشدد کے ذریعے دوسرے فرقوں پر مسلط کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ کسی بھی فرقے یا مذہب کو دوسرے فرقے یا مذہب کی مقدس شخصیات کی توہین کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ کوئی فرقہ کسی دوسرے فرقے کو کافر (غیر مسلم) قرار نہیں دے سکتا۔ تکفیر (دوسرے مسلمانوں کو غیر مسلم قرار دینا) سختی سے ممنوع ہے۔ ایسی کسی بھی خلاف ورزی پر متعلقہ قوانین کے تحت سزا دی جائے گی۔ کسی فرد یا گروہ کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر کسی شخص کو مذہبی جرم بشمول توہین مذہب کے جرم میں خود سے سزا دے۔ صرف عدالتیں ایسے ملزمان کو قانون کے مطابق سزا دیں گی۔ اس طرح کی قانون شکنی اور تشدد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔

    نمبر 6۔ غیر مذہبی مسلح تنظیموں کی طرف سے قومیت ، زبان، رنگ، عقیدہ، نسلی امتیاز، علاقائیت وغیرہ کی بنیاد پر کی جانے والی مسلح مزاحمت اور دہشت گردی مکمل طور پر غیر قانونی ہیں ، اس لیے سختی سے ممنوع ہیں ۔ ریاست، صوبے یا یونٹ کے خلاف مسلح مزاحمت ، چاہے وہ کسی بھی نام یا نظریے کی بنیاد پر ہو، بغاوت اور سرکشی کے زمرے میں آتی ہے۔ ایسے جرائم پر قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔ پاکستان کی علاقائی سالمیت کو ہر قیمت پر تحفظ دیا جائے گا اور باغیوں اور سرکشوں کو غداری اور دیگر سنگین جرائم کے لیے سزا ئیں دی جائیں گی۔

    نمبر 7۔ مذہبی اور غیر مذہبی دہشت گرد گروہوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف بغیر کسی امتیاز کے آپریشنز کیے جائیں گے تاکہ انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔ نیشنل ایکشن پلان کو تمام متعلقہ اداروں کی منشاکے مطابق نافذ کیا جائے گا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تمام ضروری وسائل فراہم کر کے مضبوط کیا جائے گا۔ ان اداروں کو جدید انٹیلی جنس جمع کرنے اور دہشت گردی کے خلاف جوابی کاروائیوں کی تربیت دی جائے گی۔ انہیں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے پائیدار اور مستقل بنیادوں پر تیار کیا جائے گا۔ امن اور سلامتی میں سرمایہ کاری دراصل ملک کی معیشت میں بالواسطہ سرمایہ کاری کے مترادف ہے۔ امن اقتصادی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت بنے گا۔

    نمبر 8۔ معاشرےمیں انتہاپسندی کو روکنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔ انتہاپسندانہ پراپیگنڈےپر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے قابو پایا جائے گاجسمانی اور سائبر حیثیتوں میں سرگرم انتہاپسند عناصر، بشمول سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ جو انتہاپسندی کو پھیلانے میں ملوث ہیں، کو روکا جائے گا اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ انتہاپسندانہ نظریات اور آن لائن منافرت کامؤثر طریقے سے مقابلہ کیا جائے گا۔ جسمانی اور سائبر حیثیتوں میں تمام قسم کی انتہاپسندی ،جن میں مذہبی، لسانی، نسلی، علیحدگی پسند یا علاقائی شامل ہیں ، کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ قومی اداروں کو بدنام کرنے والی پراپیگنڈہ مہم کا مقابلہ کیا جائے گا اور قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔ بیانیوں کی جنگ کو ریاست تمام ممکنہ وسائل استعمال کرتے ہوئےنہ صرف اس کے خلاف لڑے گی بلکہ یہ جنگ جیتے گی بھی۔ پاکستان کے قومی بیانیے کو مادی اور سائبر حیثیتوں میں فروغ دیا جائے گا اور اس کی ترویج بھی کی جائے گی۔ اس حوالے سے انتہاپسندی کے خلاف کام کرنے والے متعلقہ قومی اداروں کی جانب سے ایک جامع حکمت عملی تیار کر کے نافذ کی جائے گی۔ مذکورہ بالا مقاصد کے حصول کے لیے تمام ضروری وسائل فراہم کیے جائیں گے۔

    نمبر 9۔لاؤڈ اسپیکر اور اس طرح کے دوسرے آواز کے آلات کے غلط استعمال کی مؤثر نگرانی اور چیکنگ کی جائے گی۔ نفرت انگیز تقاریر اور دیگر خلاف ورزیوں کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر کے سزا دلوائی جائیں گی۔ ملک کے قانون کے تحت تمام قسم کے مذہبی مباحثے (مناظرے) سختی سے ممنوع ہیں۔ نفرت اور عدم برداشت پھیلانے والے مجرموں کو سزا دلوانے کے لیے مضبوط استغاثہ کو یقینی بنایا جائے گا۔

    نمبر 10۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف مذکورہ قومی بیانیہ اب ایک مستقل قومی پالیسی بن چکا ہے۔ اس پالیسی کے تحت معاشرے سے تمام قسم کی دہشت گردی اور انتہاپسندی کا خاتمہ کیا جائے گا۔ پاکستان کو ایک مکمل طور پر پرامن ملک بنایا جائے گا جہاں اس کے شہری کسی بھی قسم کے خوف کے بغیر اپنے زندگیوں کو امن سے گزاریں گے ۔

    نمبر 11۔ پاکستانی طرزِ زندگی کو تحفظ اور فروغ دیا جائے گا کیونکہ یہ سخت محنت، مہمان نوازی، خیرات، رواداری، تنوع اور خوشی کے حصول کے پاکستانی اقدار پر مبنی ہے۔ پاکستانی قوم اللہ سے ڈرتی ہےاور وہ اپنی سخاوت اور وسیع قلبی کے لیے مشہور ہے۔ قوم کے بانی، قائداعظم محمد علی جناح نے قوم کو محنت ، محنت اور محنت کرنے کی نصیحت کی تھی۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق مزدور اللہ کا دوست ہے۔ مذکورہ بالانکات کی روشنی میں، پاکستانی قوم خوشی کے حصول کے لیے محنت کرے گی۔ غربت، ناخواندگی، تشدد، دہشت گردی اور انتہاپسندی کو معاشرے کے تمام طبقات کی مشترکہ کوششوں سے شکست دی جائے گی۔ قوم ‘تعلیم سب کے لیے’ پر توجہ مرکوز کرے گی تاکہ مفید شہری پیدا کیے جا سکیں۔ عالمی سطح پر امن، رواداری، تعلیم اور ترقی پاکستانی شناخت کا نشان بنیں گے۔

    تبصرہ
    دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف مذکورہ قومی بیانیہ ہماری ریاست کا نظریاتی موقف بھی ہے ۔ اس کو تشکیل دینے میں پاکستان کو کئی سال لگے ۔ اس سے قبل ان سیکیورٹی چیلینجز سے نمٹنے کے لیے کئی ایکٹ، قوانین اور پالیسییاں بنائی گئی جن میں اینٹی ٹیررازم ایکٹ 1997، نیشنل کاونٹر ٹیررازم اتھارٹی ایکٹ 2013، نیشنل ایکشن پلان 2014،وغیرہ قابل ذکر ہیں، لیکن جو پذیرائی اس قومی بیانیہ کو ملی اس سے پاکستان کی اہمیت نہ صرف علاقائی سطح پر بڑھی بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا امیج بہتر ہوا۔

    اس قومی بیانیہ کی حیثیت اور وقعت بھی 1973 کےمتفقہ آئین جیسی ہے جس پر تمام سوچ و فکر کے حامل گروہوں نے اعتماد کا اظہار کیا۔ یہ بیانیہ امن، رواداری، یکجہتی اور تشدد کے انکار جیسے اقدار کو اجاگر کرتا ہے، چاہے وہ مذہب کے نام پر ہوں یا سیاست کے نام پر یا پھر نظریے کے نام پر ۔ اس کا بنیادی مقصد ایک پر امن، محفوظ اور مستحکم پاکستانی معاشرہ قائم کرنا ہے۔ الغرض ہم اسے ایک بہترین حکمت عملی بھی کہہ سکتے ہیں جو پاکستان کو درپیش نظریاتی، سیاسی، سماجی اور سیکیورٹی چیلینجز کو حل کرنے کے لیے تیار کی گئی ہے ۔یاد رہے کہ یہ ریاست اور عوام کے درمیان ایک سماجی معاہدہ ہے جس کی پابندی کرنا سب کے لیے ضروری ہے اور اس کی خلاف ورزی مداخلت قانون کے طور پر سمجھی جائےگی۔

    (مصنف وفاقی جامعہ اردو میں تاریخ کے استاد ہیں۔ )

  • نفرت منفی، انتہاپسندانہ اور متشددانہ رویہ ہے! ارشدزمان

    نفرت منفی، انتہاپسندانہ اور متشددانہ رویہ ہے! ارشدزمان

    ”میری محبت دیکھی ہے، اب میری نفرت بھی دیکھ لو گے!“
    ارے پیارے، یہ کیا کہا؟ جس کے لیے دل میں محبت کی کوئی رمق باقی ہو، اس سے بھلا نفرت کی جا سکتی ہے؟
    بے شک، گلے شکوے ہو سکتے ہیں، ناراضی اور غصہ بھی فطری ہے، مگر نفرت؟ یہ تو عجیب سی بات ہوئی!

    جس دل میں کبھی محبت بسی ہو، وہاں نفرت کا بسیرا ممکن نہیں۔ محبت اگر سچی ہو، تو اس میں گنجائش صرف خلوص، چاہت اور درد کی ہوتی ہے نفرت کی نہیں۔

    محبت اگر سچی ہو، تو وقت کے ساتھ ناراضی اور شکوے بھی ماند پڑ جاتے ہیں، مگر دل کی گہرائی میں کہیں نہ کہیں وہی محبت باقی رہتی ہے، جو کسی مسکراہٹ، کسی یاد، یا کسی لمحے کی صورت میں پھر سے جاگ اٹھتی ہے۔

    نفرت ایک ایسا شدید منفی جذبہ ہے جو محبت کے برعکس، دل میں سختی، تعصب، بغض اور انتقام کے بیج بوتا ہے۔ محبت کی جڑیں نرمی، ہمدردی اور قربت میں پیوست ہوتی ہیں، جبکہ نفرت کی بنیاد غصے، تلخی اور دوری پر ہوتی ہے۔

    یہ کہنا کہ “محبت سے ہی نفرت جنم لیتی ہے” درحقیقت ایک جذباتی ردعمل ہوتا ہے، کیونکہ حقیقی نفرت وہی ہوتی ہے جس میں محبت کی کوئی رمق نہ ہو۔ جب کوئی شخص کہتا ہے کہ “اب نفرت دیکھو گے!” تو دراصل وہ خود یہ اعتراف کر رہا ہوتا ہے کہ اس کے دل میں محبت کبھی تھی ہی نہیں۔ وگرنہ جس سے محبت ہو، اس سے نفرت ممکن ہی نہیں!

    محبت اور نفرت دو الگ الگ جذبات ہیں—ایک جوڑنے والا، دوسرا توڑنے والا۔ سچی محبت کبھی نفرت میں نہیں بدلتی۔ البتہ، مایوسی، غصہ یا بے وفائی کا احساس وقتی طور پر شدید ردعمل کو جنم دے سکتا ہے، مگر یہ نفرت نہیں، بس ایک ٹوٹے دل کی فریاد ہوتی ہے۔

    جس دل میں کبھی محبت نے بسیرا کیا ہو، وہ نفرت کی سخت زمین پر کیسے پنپ سکتا ہے؟ محبت اگر سچی ہو، تو اس کی غیر موجودگی کا شکوہ تو کیا جا سکتا ہے، مگر نفرت کا اظہار درحقیقت اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ محبت کبھی دل میں تھی ہی نہیں۔

    نفرت کا دعویٰ کرنا دراصل اپنے ہی جذبات کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ یہ اپنے دل کو بے نقاب کرنے جیسا ہے، یہ ظاہر کرنے جیسا ہے کہ شاید وہ جذبات، جو ہم نے محبت سمجھ کر سینے سے لگائے تھے، درحقیقت اتنے گہرے اور سچے نہ تھے۔ کیونکہ جو چیز خالص ہو، وہ غصے، مایوسی یا محرومی کے باوجود اپنی اصل کھو نہیں سکتی۔

    محبت اگر نہیں ملی، تو اس کا شکوہ کریں، اپنے دل کے دکھ کو لفظوں میں ڈھالیں، مگر نفرت کا اعلان کرکے اپنی محبت کی سچائی پر سوال نہ اٹھائیں۔ کیونکہ نفرت کی زبان محبت کے زخم کو اور گہرا کر دیتی ہے، جبکہ خاموشی اور شکوہ محبت کی پاکیزگی کو قائم رکھتے ہیں۔

    نفرت درحقیقت ایک ایسی آگ ہے جو سب سے پہلے خود انسان کے دل و دماغ کو جھلسا دیتی ہے، پھر دوسروں کو نقصان پہنچانے کی طرف مائل کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا زہر ہے جو زندگی کی خوبصورتی، سکون اور مثبت توانائی کو کھا جاتا ہے، اور انسان کو انتقام پسند، متشدد اور بے رحم بنا دیتا ہے۔

    یہ صرف ایک جذبہ نہیں، بلکہ ایک مسلسل جلنے والی آگ ہے، جو سوچ کو منفی بنا دیتی ہے، دل میں بے سکونی پیدا کرتی ہے، اور انسان کو اس نہج پر لے آتی ہے جہاں وہ اپنی ہی خوشیوں کا دشمن بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نفرت کرنے والا شخص دوسروں سے زیادہ خود کو نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے۔

    لہٰذا ضروری ہے کہ دل کو ایسے زہریلے جذبات سے پاک رکھا جائے۔ اگر کوئی تکلیف پہنچائے، تو معاف کر دینا یا اس سے دور ہو جانا ہی بہتر ہے، کیونکہ معافی اور درگزر وہ دوا ہیں جو روح کو سکون اور زندگی کو ہلکا رکھتی ہیں۔ زندگی کو نفرت کے اندھیروں میں جھونکنے کے بجائے محبت، صبر اور حکمت کے چراغ جلائے جائیں، تاکہ دل بھی روشن رہے اور راستہ بھی!

  • تکفیر اور انتہا پسندی: غامدی صاحب کے حلقے سے پانچ سوال – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    تکفیر اور انتہا پسندی: غامدی صاحب کے حلقے سے پانچ سوال – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    محمد مشتاق پچھلے چند دنوں سے خاصی مصروفیت ہے۔ فیس بک پر سرسری نظر ہی دوڑا سکا۔ غامدی صاحب کے حلقے کے اصحاب سے ایک بحث جناب طارق محمود ہاشمی صاحب کی ہوئی اور اس میں جس بات نے سخت تکلیف دی وہ یہ تھی کہ غامدی صاحب کے منتسبین میں ایک نہایت سنجیدہ بزرگ بھی ہاشمی صاحب کی بات کا جواب دینے، یا اس کی غلطی واضح کرنے، کے بجائے اس کا مضحکہ اڑا رہے تھے۔ تکفیر اور تقلید کے مخالفین کا یہ انتہاپسندانہ اور جامد مذہب میری سمجھ میں نہیں آسکا۔
    دوسری بات جو میں سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں، وہ یہ ہے کہ اگر ہم کسی کو اس بنا پر کافر نہیں کہہ سکتے کہ دل کا حال تو خدا ہی جانتا ہے، تو پھر ہم کسی کو مسلمان کیسے مان سکتے ہیں جبکہ اس کے دل کا حال بھی خدا ہی جانتا ہے؟
    یہیں سے اصل بات نکھر کر سامنے آجاتی ہے جو غامدی صاحب کے حلقے کے مؤقف کی بنیاد ہے۔ وہ اصل بات یہ ہے کہ کسی کا مسلمان ہونا یا نہ ہونا ایک ”پرائیویٹ“ معاملہ سمجھا جائے۔ کسی کو اس میں عمل دخل کی ضرورت نہ ہو۔ جو خود کو مسلمان کہتا ہے، وہ مسلمان ہے، اور جو خود کو مسلمان نہیں کہتا، وہ مسلمان نہیں ہے۔ اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو خود کو کافر کہے، اسے کیا کہیں گے؟ کیا پتہ وہ بھی اوپری دل سے، صرف زبان سے، یا محض ردِ عمل میں، بغیر سمجھے، یا بغیر غور کیے، یا ”بغیر اتمام حجت“ کے، ہی کہہ رہا ہو اور دل میں کافر نہ ہو؟ تو اس ”چکر“ میں پڑنا ہی نہیں چاہیے۔
    یہاں سے ہم چوتھے سوال کی طرف جاتے ہیں۔ وہ سوال یہ ہے کہ کیا کسی کا مسلمان ہونا، یا نہ ہونا، صرف اس شخص کا اور اس کے خدا کا معاملہ ہے یا اس کے کچھ اثرات دوسرے انسانوں پر بھی مرتب ہوتے ہیں؟ غامدی صاحب کا حلقہ یہاں بالعموم دو باتیں کرتا ہے:
    ایک یہ کہ کسی کو کافر کہہ کر آپ اسے دراصل جہنم کا پروانہ دے رہے ہیں اور یوں خدا کی پوزیشن پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں (Playing God)۔ کوئی ان سے کہے کہ جہنم میں یا جنت میں جانے کی بات تو آخرت میں ہوگی، ہمیں اصل فکر اس کے دنیوی نتائج کی ہے۔ مثلاً یہ کہ کیا اس کے ساتھ نکاح جائز ہے؟ کیا وہ مسلمان کا وارث، یا مسلمان اس کا وارث، ہوسکتا ہے؟ کیا وہ مسلمان کا ولی ہوسکتا ہے؟ وغیرہ۔ اس زاویے سے دیکھیں تو ہی سمجھ میں آتا ہے کہ کیوں غامدی صاحب نے نکاح اور میراث میں بھی ”اتمامِ حجت کا قانون“ گھسیڑ کر بہت سارے احکام، جیسے نکاح کی ممانعت یا میراث سے محرومی، کو رسول اللہ ﷺ کے اولین مخاطبین تک ہی محدود کردیا ہے۔ بہرحال اس وقت جو بات سامنے رکھنے کی ہے وہ یہ کہ تکفیر کے قائلین، یعنی آپ کے سوا باقی پوری امت مسلمہ، دراصل دنیوی نتائج پر فوکس کررہی ہے لیکن آپ اپنے حلقے کے جذباتی نوجوانوں کے سامنے Playing God کی بات رکھ کر اور جنت اور جہنم کا پروانہ دینے کا اختیار بتاکر خلط مبحث کر رہے ہیں۔
    دوسری بات جو غامدی صاحب کے حلقے کے اصحاب اس موقع پر کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ کسی کو آپ محض غیر مسلم نہیں کافر قرار دیتے ہیں تو گویا اسے واجب القتل قرار دیتے ہیں! کوئی پوچھے کہ یہ نتائج کی طرف چھلانگ لگانا آپ کب چھوڑیں گے؟ کیا کسی نے یہ کہا ہے کہ جو بھی کافر ہیں سارے واجب القتل ہیں؟ کافر ہونے اور واجب القتل ہونے میں تلازم کا دعوی کس نے کیا ہے؟ یہ صحافیانہ انداز صحافی کوچہ گردوں کے ساتھ تو عجیب نہیں لگتا لیکن جب علم اور حلم کے مدعیان اور داعیان بھی اس طرح کی مبالغہ آمیزیاں اور مغالطہ انگیزیاں کریں تو اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔
    پانچویں اور آخری بات اور قابلِ غور امر یہ ہے کہ امتِ مسلمہ ہر دور میں تکفیر کی قائل رہی ہے۔ کسی مخصوص شخص یا گروہ کی تکفیر پر اختلاف الگ بات ہے، تکفیر میں احتیاط کی بات بھی اپنی جگہ لیکن کسی نے یہ نہیں کہا کہ تکفیر سرے سے کی نہیں جاسکتی۔ پہلی دفعہ یہ discovery المورد میں ہوئی ہے۔ تو صاف الفاظ میں اسے دریافت ہی کہیں۔ اسے آپ rediscovery کہتے ہیں تو یہ تلبیس ہے کیونکہ اس طرح آپ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ پہلے بھی یہی مؤقف تھا لیکن لوگوں سے گم ہوگیا تھا تو اب ہم نے rediscover کرلیا ہے۔
    اتنا کچھ لکھ لینے کے بعد اب مجھ پر لازم ہوگیا ہے کہ میں اپنے آپ کو اللہ کی پناہ میں دے دوں۔ یا اللہ! انتہا پسندی کے مخالف اس انتہاپسند گروہ کی انتہاپسندی کے شر سے مجھے بچائیو!
    (ڈاکٹر محمد مشتاق احمد، ایسوسی ایٹ پروفیسر قانون، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد)

  • قائداعظم، انتہا پسندی اور سیاستدان – محمد طیب زاہر

    قائداعظم، انتہا پسندی اور سیاستدان – محمد طیب زاہر

    قائد اعظم کے نظریے کے مطابق ملک میں انتہا پسندی کی کوئی جگہ نہیں. یہ کلمات ہیں جناب خادم اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کے۔ سب سے پہلے تو ان کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ ان کے نزدیک اصل میں انتہا پسندی کی تعریف کیا ہے؟ دہشت گردی کی وارداتوں کا ہونا ہی ان کے نزدیک انتہا پسندی ہے؟ راہزنی، ڈکیتی اور دیگر معاشرتی جرائم انتہا پسندی نہیں؟ اور بھارت نے چناب پر جو 3 ڈیمز بنانے کا فیصلہ کیا ہے وہ انتہا پسندی نہیں؟ بھارت کا معصوم کشمیریوں کو سولی پر لٹکانا شدت پسندی کے زمرے میں نہیں آتا؟ اس خاموشی کا کیا مطلب سمجھا جائے جس کی وجہ سے یہ تاثر عام ہو گیا ہے کہ لب اس لیے سل گئے کہ کہیں کاروباری مفادات کو گزند نہ پہنچے؟
    پاناما پیپرز میں حکومت کے سربراہ کے بچوں کا نام آتا ہے اور ریفرنس وزیر اعظم کے بجائے اپیل کرنے والے کے خلاف دائر کردیا جاتا ہے اور یوں انصاف کی پل بھر میں دھجیاں اُڑا دی جاتی ہیں۔ قائداعظم نے تو انصاف کے حصول پر بھی بہت زور دیا تھا لیکن کہاں گیا خادم اعلیٰ کا انصاف؟ سونے پر سہاگہ یہ کہ ٹی آر او میں تحریک انصاف کی ہم خیال جماعت پیپلز پارٹی کے بزرگ اپوزیشن لیڈر ایک طرف حکومت کے خلاف محاذ بنا رہے ہیں اور دوسری جانب سرگوشی کرتے ہوئے غیر جانبدار اسپیکر ایاز صادق کو اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا کہہ دیتے ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی کا اجلاس میں نہ آنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان کے دل میں چور ضرور ہے۔ یہ سب انہوں نے اپنی مرضی سے نہیں کیا، دربار کی سیاست میں شطرنج کی چال کے طور پر اسے بادشاہ نے ہی چلا ہوگا۔
    اس صورتحال میں اگر عمران خان قومی اسمبلی کی رکنیت سے سبک دوش ہوجاتے ہیں تو اس کا رد عمل کیا ہوگا؟ خان صاحب کی آواز کو قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم سے تقویت مل سکتی تھی لیکن انہوں نے اس کا کتنی بار استعمال کیا، سب کو معلوم ہے۔ حکومت کی جانب سے ریفرنس ان پر دباؤ ڈالنے کی ایک کوشش ہے جس میں وہ زیادہ کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ خان صاحب اسمبلی فلور کے ویسے بھی محتاج نہیں، میڈیا ان کا بہت بڑا ہتھیار ہے، اس کی پریس کانفرنس اور جلسے کو ہر ٹی وی چینل لائیو کوریج دیتا ہے ۔
    حکومت کی یہ چال اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ اس سے مطلق العنانیت کا تاثر ملتا ہے۔ حالات حکومت کے حق میں جاتے نظر نہیں آتے۔ وزیر اعظم کے ملک کے مختلف شہروں کے دورے ان کے خوف کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں منصوبوں کا اعلان کردیتے ہیں، کبھی انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ فلاں منصوبہ پایا تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ یہ دورے اپنی طاقت کو پرکھنے کےلیے کیے جا رہے ہیں۔
    عمران خان شروع دن سے احتساب اور کرپشن کے خاتمے کی بات کرتے رہے ہیں لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی۔ ان کا یہ کہنا درست محسوس ہوتا ہے کہ ان کے لیے حکومت نے احتجاج کے سوا کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ کوئی بھی ایک ایسا ادارہ فنکشنل نہیں جو شکایات کا ازالہ کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ رائیونڈ میں احتجاج کرنے جا رہے ہیں۔ ایک پہلو بلاشبہ خوش کن ہے کہ انہوں نے جاتی عمرا جانے کا ارادہ ترک کردیا کیونکہ اس سے محاذ آرائی کے امکانات بڑھ جاتے۔ عین ممکن تھا کہ چند درباری سازش کا جال بُن دیتے اور گلو بٹ چھوڑ کر الزام عائد کردیتے کہ یہ سب تحریک انصاف کے کارکن نے کیا ہے۔ یہ بھی ممکن تھا کہ تحریک انصاف کے چند جوشیلے کارکن شریف ہاؤس پر پڑاؤ ڈال دیتے۔
    عمران خان پر تنقید ہوتی ہے کہ انھیں اب تک سیاست کرنی نہیں آئی. اس کی وجہ ایک یہ ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے جذبات پر قابو پانے میں ناکام رہتے ہیں۔ 2014ء میں اسلام آباد میں تاریخی اور طویل دھرنے کے وقت بھی اس پہلو پر تنقید کی گئی تھی کہ اگر وہ دھاندلی کے علاوہ عوامی مسائل کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرتے تو دھرنے کے مقاصد حاصل کیے جا سکتے تھے۔ حج جیسے اہم فریضے کی ادائیگی کے چھوڑنے کو بھی پسند نہیں کیا گیا۔ حج کر کے آتے تو ممکن تھا کہ وہ زیادہ بہتر انداز میں تحریک چلا سکتے تھے۔ خان میں ایک خامی یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذات میں ڈکٹیٹر ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر وہ قیاس آرائیاں غلط ثابت ہوجاتی ہیں کہ وہ ملتان کے گدی نشین اور لال حویلی والے استاد سے ڈکٹیشن لیتے ہیں. خان صاحب پارٹی اختلافات کو حل کرنے میں کامیاب دکھائی دے رہے ہیں اور نہ ہی ٹی آر اوز پر اپوزیشن کو یکجا کرنے میں کامیاب ہو پا رہے ہیں۔ خان صاحب کو اپنی خامیوں کی نشاندہی خود کرنا ہوگی ورنہ جس ڈگر پر وہ چلتے جا رہے ہیں اس کا فائدہ ایک بار پھر مسلم لیگ نواز کو پہنچے گا۔ یہ درست ہے کہ پاناما پیپرز اور دھاندلی ایک بہت بڑا ایشو ہے لیکن صرف اسی کو بنیاد بنانے سے یہ تاثر قوی ہو سکتا ہے کہ خان صاحب ہر صورت اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ عوام کے مسائل کو بھی اتنا ہی ہائی لائٹ کریں جتنا وہ مذکورہ ایشو پر زور دیتے ہیں۔

  • اسلام پسند گروہوں میں فکری خلیج – دائود ظفر ندیم

    اسلام پسند گروہوں میں فکری خلیج – دائود ظفر ندیم

    دائود ظفر ندیم میرے کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ اس وقت پاکستان میں لبرل سیکولر اور اسلامسٹ دوستوں کے درمیان کوئی فکری معرکہ ہے. میں اس سے اتفاق نہیں کرتا. اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں لبرل اور سیکولر لوگ ایک محدود اقلیت ہیں۔ پاکستان میں اصل فکری معرکہ شدت پسند اور معتدل اسلامسٹ سوچ کے مابین ہے.
    شدت پسند اور انتہا پسند اسلامسٹ وہ لوگ خیال کیے جاتے ہیں جو اپنا فہم اسلام ہی حتمی سمجھتے ہیں اور کسی دوسرے گروہ کے فہم کو درست تسلیم نہیں کرتے. ان کے نزدیک ایک ہی ناجی فرقہ ہے اور وہ فرقہ وہ خود ہیں، باقی سب کے بارے نرم سے نرم الفاظ میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ گمراہ لوگ ہیں جن کا عقیدہ درست نہیں۔ وہ دلیل اور مکالمے کا کام صرف اتنا ہی سمجھتے ہیں کہ دوسرے لوگوں سے اپنی سچائی کو منوایا جائے۔
    اس گروہ کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے پہلے وہ لوگ ہیں جو اپنے موقف کے لیے تشدد اور مسلح جدوجہد کو جائز خیال کرتے ہیں. یہ عقیدے کی سربلندی کے لیے دوسروں کی جان لینا خواہ وہ بے گناہ ہی ہو، جائز سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ خلافت کی بحالی کا نعرہ لگاتے ہیں، جمہوریت کو یہ لوگ کفر کے مترادف خیال کرتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو خود کو نسبتا معتدل اور سافٹ چہرے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ لوگ بھی اپنے فہم اسلام کو حتمی سچائی خیال کرتے ہیں اور دلیل اور مکالمے کا مقصد صرف یہی سمجھتے ہیں کہ دوسروں کو اپنی فکر کا تابع کیا جائے مگر یہ لوگ عدم تشدد اور پرامن ذرائع سے اپنی بات کو آگے پہنچانے پر یقین رکھتے ہیں ان میں سے بعض لوگ خلافت کی بحالی چاہتے ہیں اور کچھ لوگ بعض شرائط کے ساتھ جمہوریت کو تسلیم کرتے ہیں۔
    معتدل اسلام پسندوں کے درمیان بھی کافی فکری اختلافات موجود ہیں مگر یہ گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو مذہبی عبادات اور ریاستی امور کو الگ الگ دیکھتے ہیں۔ یہ لوگ ہر فرقے اور ہر مسلک کو اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی دیتے ہیں. ان کے نزدیک اسلام کے نفاذ سے مراد کسی مخصوص فہم کا نفاذ نہیں بلکہ تمام مسالک کو اپنے فقہ کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت، اور پرامن طور پر رہنے اور اپنے فہم کی تبیلغ کی آزادی دینا ہے۔
    ان لوگوں کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ایک وہ لوگ ہیں جو ایک اسلامی ریاست کا قیام چاہتے ہیں یا اس کو برقرار رکھنے کی بات کرتے ہیں۔ یہ لوگ جمہوریت کے ذریعے حکومت کی بات کرتے ہیں اور اختلاف رائے کو خلاف اسلام نہیں سمجھتے۔ کسی فرقے کے عقائد کو درست کرنے کی بات نہیں کرتے۔ سیاسی اور معاشی شعبوں میں تدریجی طور پر اسلام کو نافذ کرنے کی بات کرتے ہیں۔
    دوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو اسلام کو ریاستی معاملات سے الگ رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ مذہب کو ریاست کی طاقت کے بغیر سماج میں رواج دینے کی ضرورت ہے. یہ سماجی اقدار اور تزکیہ نفس کے علاوہ انفرادی اور اجتماعی اخلاقیات کی تشکیل کرنے والا ایک منبع ہے مگر جب ہم زوال کا شکار ہوتے ہیں تو ظاہر، عقیدے اور نظریے کی سلامتی کا ڈھنڈوا پیٹتے ہیں اور دنیا سے خوف زدہ ہوتے ہیں کہ یہ ہم سے ہمارا عقیدہ چھین لے گی یا خراب کر دے گی۔ اس گروہ کا استدلال یہ ہے کہ اگر ہم لوگ ایک ایسا سماجی دبائو تشکیل نہیں دے سکتے جس سے ہماری اسلامی اقدار کا تحفظ ہو تو ہم کو اپنی اقدار کے بارے غور کرنے کی ضرورت ہے. ایک اور استدلال یہ ہے کہ اسلام کی ایسی تعبیر جو ریاستی جبر کے بغیر نافذ نہیں کی جا سکتی، پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس میں کیا سقم یا خامیاں ہیں جن کو دور کرنے کے بجائے اسے ریاست کی قوت سے اس کو نافذ کروانا چاہتے ہیں. ان کے خیال میں مذہبی حلقوں کا اصل کام یہ ہے کہ وہ سماجی جرائم کے بارے میں شعور پیدا کریں. بغیر نکاح کے جنسی تعلق کے بارے میں نوجوانوں میں ایک شعور پیدا کریں، حیا کی اسلامی تعلیم کے بارے کام کریں، اگر اسلامی اقدار کو ریاست کے ڈنڈے کے بغیر فروغ نہیں دے سکتے اور مذہب کی ریاستی امور میں مداخلت چاہتے ہیں تو اس سے تنگ نظری، فرقہ واریت اور شدت پسنندی ہی جنم لیتی ہے۔ یہ گروہ ایک ایسی فلاحی اور رفاہی ریاست کی بات کرتا ہے جہاں کسی گروہ کو مذہب کی حتمی اور جبری تعبیر کا حق نہ ہو اور نہ کوئی گروہ یہ دعوی کرے کہ اس کو ریاست میں ایسا مقام عطا کیا جائے کہ وہ اسلام کی ایسی حتمی تعبیر کرے جو جبرا نافذ کی جائے اور جس کو نہ ماننے والے کافر، مرتد یا گمراہ قرار پائیں