Category: کچھ خاص

  • مزدور کے حقوق، قرآن و حدیث کی روشنی میں – محمد سلمان عثمانی

    مزدور کے حقوق، قرآن و حدیث کی روشنی میں – محمد سلمان عثمانی

    اسلام میں مزدوروں کے بہت سے حقوق ہیں جن اسلام نے انتہائی اہمیت کے ساتھ بیان کیا ہے،مزدور ہی اس قوم کا اثاثہ ہیں جو روزانہ تازہ کماکر اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے،کسی بھی ملک، قوم اورمعاشرے کی ترقی میں مزدور وں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے، مگر سب سے زیادہ حق تلفی بھی انہی کی کی جاتی ہے۔

    سرمایہ دار اور جاگیردار طبقے مزدور کا استحصال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور مزدور اسے اپنا مقدر سمجھ کر صبر کر لیتے ہیں۔ ہمارے سماج میں مزدوروں کا وجود ہے، جسے ہمیں تسلیم کرنا چاہیے۔ مزدوری ہر کوئی کرتا ہے، مگر سب کے درجات الگ ہوتے ہیں۔ ہر مزدور اپنے میدان میں اپنی بساط بھر مزدوری کرتا ہے اور اجرت حاصل کرکے اپنے اہل و عیال کی کفالت کرتا ہے۔ اسلام نے محنت کو بڑا مقام عطا کیا ہے اور محنت شخص کی بڑی حوصلہ افزائی کی ہے.

    نبی کریم ﷺنے فرمایا :
    خود کمانے والا اللہ تعالیٰ کا دوست ہوتا ہے. (طبرانی)

    یہ فرما کر محنت کی قدرو قیمت اجاگر فرما دی۔ نیز آپ ﷺکا فرمان ہے کہ:
    کسی نے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے بہتر کوئی کھانا نہیں کھایا. (صحیح البخاری)

    آپﷺ کو مزدوروں کے حقوق کا اس حد تک پاس تھا کہ وصال سے قبل آپﷺ نے اپنی امت کے لیے جو آخری وصیت فرمائی وہ یہ تھی کہ نماز کا خیال رکھو اور ان لوگوں کا بھی جو تمہارے زیر دست ہیں. (مسنداحمد، ابو داؤد)

    آپ ﷺ نے مزید فرمایا:
    تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن میں خود جھگڑوں گا۔ ان میں سے ایک وہ ہو گا جس نے کسی کام کروایا۔ کام تو اس سے پورا لیا مگر اسے مزدوری پوری ادا نہ کی.(صحیح البخاری)

    ایک مرتبہ آپ ﷺ نے ایک شخص سے مصافحہ کرتے وقت اس کے ہاتھوں پر کچھ نشانات دیکھے، وجہ پوچھی تو اس نے بتایا روزی کمانے میں محنت مشقت کرنے کی وجہ سے، تو آپ ﷺنے اس کا ہاتھ چوم لیا۔
    مزید ارشاد فرمایا:مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل اس کی مزدوری ادا کر دو. (ابن ماجہ)

    جو کوئی غیر آباد زمین کو آباد کرے تو وہ اسی کی ہے (گویا اس کی محنت نے اس کو مالکانہ حقوق عطاء کر دئیے) .(احمد، ترمذی، ابو داؤد)

    اجرت مزدور کا حق ہے، قرآن حکیم میں آتا ہے :
    ”جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ان کے لئے ختم نہ ہونے والا (دائمی) اجر ہے“

    معاہدہ ملازمت (چاہے معاہدات واضح ہوں یا مضمر)کے جدید تصورات کی پیش گوئی کرتے ہوئے نبی کریمﷺ نے مزدور کو کام کی اجرت مقرر کیے بغیر بھرتی کرنے اور کام کروانے سے منع کیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہےکہ اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے۔محنت و مزدوری اللہ کے نبیوں کی سنت ہے۔ کم و بیش تمام انبیائے کرام نے مزدوری کو اپنا معاش بنایا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے زمین کاشت کرکے غلہ حاصل کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام بڑھئی کا کام کرتے تھے۔ حضرت داؤدعلیہ السلا زِرہ ساز تھے اور اپنے ہاتھ کے ہنر سے گزربسرکرتے۔ حضرت ادریس علیہ السلام درزی کا کام کرتے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے10سال تک حضرت شعیب علیہ السلام کی بکریاں چرائیں۔ پیارے نبیؐ اور اللہ کے آخری رسول حضرت محمدﷺنے بھی بکریاں چرائیں۔

    حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ”اللہ نے کوئی نبی نہیں بھیجا، جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔“
    صحابہ کے استفسار پر حضورﷺنے فرمایا۔ ”میں بھی مکے والوں کی بکریاں چند قیراط پر چرایا کرتا تھا“. (صحیح بخاری)

    حضورﷺ کی خدمت میں ایک صحابی ؓ حاضر ہوئے۔ آپؐ نے دیکھا کہ مزدوری کرنے کی وجہ سے ان کے ہاتھ میں گٹھے پڑے ہوئے ہیں۔ آپ ؐ نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے فرمایا :
    ”یہ وہ ہاتھ ہیں، جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو بڑے پیارے ہیں۔“ (محنت کش اللہ کے دوست ہیں)

    محنت و مزدوری کی عظمت و اہمیت کی دلیل یہ ہے کہ خود رب کائنات، مالک ارض و سماء، محنت کش، مزدور کو اپنا دوست قرار دے رہا ہے۔ ایک موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ”بیشک اللہ روزی کمانے والے کو دوست رکھتا ہے“. (طبرانی)

    نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ :
    ”ایک ملازم (مرد/عورت) کم از کم درمیانے درجہ کے عمدہ کھانے اور کپڑوں کا حقدار ہے“
    اور
    ”کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے“

    اور یہ کہ مقرر کردہ اجرت ان (مزدوروں) کی بنیادی ضروریات کے لئے کافی ہو“ ایک اور موقع پر نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
    “تمہارے ہاں کام کرنے والے ملازمین تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہاری ماتحتی میں دے رکھا ہے، سو جس کا بھی کوئی بھائی اس کے ماتحت ہو اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے۔”

    تاریخی مطالعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت عمر ؓنے فوجی جوانوں کے لئے اجرت مقرر فرمائی تھی اس اجرت پر دوران ملازمت مختلف معیارات جیسا کہ مدت ملازمت، بہترین کارکردگی اور علمی قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے نظر ثانی کی جاتی،حضرتابو رافع ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ایک اونٹ قرض لیا، پھر جب آپ ﷺ کے پاس صدقے کے اونٹ آئے، تو مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ میں اس شخص کا قرض ادا کر دوں جس سے چھوٹا اونٹ لیا تھا۔ میں نے کہا: میں تو اونٹوں میں چھ سال کے بہترین اونٹوں کے سوا کچھ بھی نہیں پاتا تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

    ”اسی میں سے اسے دے دو، کیونکہ لوگوں میں بہتریں وہ انسان ہیں جو قرض ادا کرنے میں سب سے اچھے ہیں“ (موطا امام مالک ؒ روایۃ ابن القاسم: 524؛ جامع ترمذی: 1318)

    حضرت عوف بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے پاس جس دن مال فئے آتا، آپ اسی دن اسے تقسیم کر دیتے، شادی شدہ کو دو حصے دیتے اور کنوارے کو ایک حصہ دیتے، تو ہم بلائے گئے، اور میں عمار ؓ سے پہلے بلایا جاتا تھا، میں بلایا گیا تو مجھے دو حصے دئیے گئے کیونکہ میں شادی شدہ تھا، اور میرے بعد عمار بن یاسر ؓ بلائے گئے تو انہیں صرف ایک حصہ دیا گیا. (مسند احمد: 22905)

    حضرت مقدام بن معدی کربؓ سے روایت ہے نبی کریم ؐؐ نے فرمایا:
    ”ہاتھ کی کمائی سے بہتر کوئی کھانا نہیں، حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے محنت کر کے کماتے تھے، حضرت موسیٰ نے اپنے نفس کو اپنی پاک دامنی کی حفاظت اور اپنے پیٹ کی غذا پر‘ آٹھ یا دس سال اجرت پر دیا“.

    حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے نبی کریم ﷺکا اِرشاد مبارک ہے:
    ”اللہ نے جتنے اَنبیاء ؑبھیجے اُن سب نے بکر یوں کی نگہبانی کی ہے“ .(مشکوٰۃ‘258 باب الاجارہ)

    حضرت سعد انصاریؓ سے نبی رحمتﷺ نے مصافحہ فرمایا تو ان کے پھٹے ہوئے ہاتھ دیکھ کر حضور نبی کریمﷺنے وجہ پوچھی تو انہوں نے عرض کیا‘ میں سارا دن”پھاوڑے“ سے محنت مزدوری کر تاہوں۔ اس لئے ہاتھ پھٹ گئے ہیں تو آپﷺ نے اُس کے ہاتھ کو بوسہ د ے کر فرمایا :
    ”یہ وہ ہاتھ ہیں جنہیں اللہ اور اُس کے رسولِ ﷺ بھی محبوب رکھتے ہیں“ .

    حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے،رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ جل شانہُ فرماتا ہے:
    ”میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مد مقابل ہوں گا ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ کرکے عہد شکنی کرے‘ دوسرے وہ شخص جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے‘ تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام لے اوراس کی مزدوری نہ دے“.

    ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ اجرت دونوں کے بارے میں رہنمائی موجود ہے، اس میں کم سے کم اجرت کی تو وضاحت کر دی گئی ہے تاکہ کسی مزدور کی بنیادی ضروریات کما حقہ پوری ہوسکیں۔ اسی طرح انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے میں جس طرح ”انصاف پسند اور مناسب معاوضہ“ کی بات کی گئی ہے اسی طرح، اسلام کا موقف ہے کہ ملازمین کو اتنی تنخواہ ملنی چاہئے کہ اس سے بتقاضائے بشری اس کی او راس کے خاندان کی تمام ضروریات پوری ہو سکیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کے مطابق مزدورں کے حقوق ادا کر نے کی توفیق نصیب فرمائے .آمین.

  • ایران شناسی (حصہ اول). احمد مظہور اشرف

    ایران شناسی (حصہ اول). احمد مظہور اشرف

    زیر نظر مضمون “ایران شناسی” (Iranology) ایرانی جغرافیہ و تاریخ، ادب و ثقافت اور سیاسیت و اقتصاد کے تحقیقی مطالعات، نشست ہائے مکالمات اور روبرو استفسارات سے ماخوز ہے۔
    تحقیق و گفتگو: ڈاکٹر مہدی طاہری
    (پروفیسر شعبہ بین الاقوامی امور، طباطبائی یونیورسٹی، تہران۔ ڈائریکٹر خانہ فرہنگ ایران راولپنڈی)
    ترجمہ: ڈاکٹر سید اسد کاظمی
    (مدرس زبان فارسی، فاضل تہران یونیورسٹی)

    ‘اہل ایران’ یا ‘اہل فارس’؟ بنیای مباحث:
    لفظ ایران ‘آریہ’ کے لفظ سے ماخوز ہے کیونکہ یہاں قدیم ‘آریان’ قوم آباد تھی۔ تاریخی اعتبار سے یہان کے باسی اپنے لئیے لفظ ‘ایران’ ہی استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ مگر دیگر اقوام مغرب بلخصوص مستشرقین یا orientalists اپنے زاویہ نگاہ سے ملک ایران اور عراق کو Persia یا Persian کانام دیتے تھے۔

    تبھی وہ شاہ ایران کو سرکای، سفارتی یا سیاسی مسودہ تحریر کرتے وقت بنام Persian King تحریر کرتے۔ مثلاً اہل مصر اپنے لئے مصر کالفظ ہی استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ صدر مصر کو تحریری طور پر President of Egypt لکھا جاتا ہے نہ کہ President of Misir۔ اسی طرح اٹلی کیلئے آج اس کا قدیم نام روم استعمال نہیں کیا جاتا۔ دو صدی قبل تک شمال مشرقی ایشیاء کی ‘کاچاری بادشاہت’ کے شاہ ایران کے نام خطوط کتابت میں “ممالک محروصہ ایران کا بادشاہ” لکھا جاتا رہاہے۔ پھر جب ایران میں رضا شاہ پہلوی بادشاہ ہوا تو اس نے اقوام متحدہ کے نام تحریری درخواست یا ہدایت لکھی کہ مملکت کیلئے اب Persia کی بجائے اصل تاریخی اور مقامی نام لفظ ایران کا استعمال کیاجائے۔

    یوں عالمی نامہ نگاری میں لفظ ایران قریباً اسی سال سے مستعمل ہے۔ لیکن یہ سمجھنا غلط ہو گاکہ رضا شاہ پہلوی نے کوئی نوے سال پہلے لفظ ایران اختراع کیا۔ یہاں کے باسی قدیم تاریخی طور پر فارسی کہلاتے تھے اس لئیے یہ ملک Persia کے نام سے موسوم رہا۔ ایک تاریخی حوالہ کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ آنحضور محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک بزرگ صحابی سلمان فارسی رضہ تھے۔ تو انہیں کبھی Salman Irani نہیں کہابولاگیا۔ ہوں اس علاقہ کو بیرون دنیا فارس کے نام سے جانتی تھی۔

    لیکن قریباً پانچ ہزار سال۔پرانی اس سے بھی قدیم تر ‘ایلامی’ نام کی قوم آباد تھی۔ ایران کا جنوب مغربی حصہ’ایلام’ تھا جسے خوزستان کہا جاتا ہے۔ یہاں شوز، احوال وغیرہ کے علاقے موجود ہیں جہاں ایلام قوم ہائی جاتی تھی۔ قدیم زمانی فرق کی بنا پر ایرانی زبان و ادب، بول چال، لہجہ و کلمات ہر لحاظ سے اس قدیم ایلامی زبان سے ایک مختلف زبان ہے۔

    فارسی تہذیب و تمدن کا تاریخی تناظر:
    علاقہ ایران کے اندر مزید تر چھوٹے چھوٹے تمدنوں کے مراکز موجود تھے۔ جو محض ایک صوبہ، شہر یا علاقہ تک محدود تھے رہے۔ مثلاً سیستان و بلوچستان اور دریائے سندھ کنارے موہن جو ڈارو کے علاقے میں تاریخی شہر ‘سوختے’ موجود تھا جہاں قدیم تہذیب کے آثار رہے۔ اسی طرح کاشان کے قریب شہر ‘اصفہان’ میں قدیم تہذیب و تمدن ‘سیالکی’ (ٹیلہ یا ٹپہ ) بھی دریافت ہوا جو کہ آریاؤں یا قدیمی ‘ہخامنشیوں’ سے بھی پہلے کی تہذیب ہے۔ لیکن یہی ہخامنشی سلطنت (Achaemenid Empire) اور تہذیب (ڈھائی ہزار سال قبل ) تاریخ میں سب سے زیادہ مؤثر و مضبوط رہی ہے۔

    یہ تمدن مشرق میں ہندوستان تک اور مغرب میں یورپ اور قدیم مصر تک پھیل چکا تھا جو کل دنیا کے ایک تہائی تمدنی حصے کو اپنے زیر اثر رکھ چکاتھا۔ایران مشرق وسطیٰ میں دو بڑے پانیوں (دریائے) عمان اور خلیج فارس کے درمیان جبکہ براعظم ایشیاء کے جنوبی حصے میں واقع ہے۔ یہ علاقہ عراق سے متصل ہے۔ یہاں کی قدیم تہذیب و تمدن کو ‘بین النہرین’ کا تمدن کہتے ہیں. یعنی دریاہائے دجلہ و فرات کی قدیم ترین تہذیب۔ ‘خلیج فارس’ یا مشرق وسطیٰ کایہ علاقہ قدیم تہذیبوں کا مرکز ہے۔

    ‘خلیج فارس’ یا ‘خلیج عرب’ ؟
    ‘خلیج فارس’ کے حق ملکیت کے حوالے سے عرب ریاستوں کی یہ یکطرفہ مشق چلی آ رہی ہے کہ وہ اسے ‘خلیج عرب’ پکاریں۔ جبکہ قریباً ڈھائی ہزار سالہ تاریخی نقشہ جات، کتب و اسناد میں یہ علاقہ ‘خلیج فارس’ کے نام سے موسوم ہے۔ جیساکہ قدیم فارسی ہخامنشی سلطنت (Achaemenid Empire) جو قبل مسیح 550 تا 330 تک موجود رہی، اس دوران یہ علاقہ خلیج فارس کے نام سے معروف تھا۔ اسی طرح قریباً 1400سال پہلے پیغمبر اسلام آنحضور محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک حدیث میں اس علاقے کو دریائے فارس کے نام سے یاد فرمایا۔

    ابن بطوطہ کاشمار نامور ترین سیاحوں اور سفرنامہ نگاروں میں ہوتاہے۔ جو قریباً 700 سال قبل شمال افریقہ سے ایشیاء کی طرف سفر کرتا ہےاور کتنے ہی مقامات سے گزرتا اور لوگوں سے ملتاہے۔ ابن بطوطہ کے بنائے نقشوں میں بھی یہ علاقہ خلیج فارس ک نام سے موجود ہے۔ ماضی میں اقوام متحدہ کی طرف سے بھی رکن ممالک کو جاری ہدایت میں اس علاقے کیلئے بین الاقوامی دستاویزات میں Persian Gulf کا لفظ استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ نصف صدی قبل انقلاب ایران سے پیشتر 1970 میں ہونے والے ایک ریفرنڈم کے نتیجے میں ایک ریاست جو ایران سے علیحدہ ہوئی موجودہ بحرین کی صورت میں دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔

    لہٰذا خلیج فارس کی تاریخ فارس ہے اور یہاں موجود بیشتر جزائر یا تو ایران سے تعلق رکھتے ہیں یا ان کے ناموں میں ایرانی ثقافت کا رنگ پایاجاتایے۔ اسی طرح آبنائے ہرمز Strait of Hormuz اگر چہ عالمی قوانین کے مطابق آبی گذرگاہیں کھلی اور آزاد ہونی چاہیں مگر تاریخی و جغرافیائی لحاظ سے اس کا حق ملکیت شمال میں ایران اور جنوب میں سلطنت عمان کو حاصل رہا ہے۔

    جدید ایران کے چند اہم اشارئیے:
    ملک ایران کا مجموعی رقبہ سولہ لاکھ اڑتالیس ہزار ایک سو پچانوے (16,48,195) مربع کلومیٹر ہے۔ جبکہ سا میں خشکی و آبی سرحدیں شامل ہیں۔ ایران کا1700 کلومیٹر طویل ساحلی علاقہ خلیج فارس کی آبی سرحد سے ملا ہوا ہے۔ خلیج کاطویل شمالی حصہ واحد ایران سے جڑا ہے جبکہ اس کی کل مغربی آبی سرحد 5 ممالک میں تقسیم ہے۔لہذا یہ آبی جغرافیائی تفصیل بھی اس علاقے کو خلیج فارس کہلانے کی صائب دلیل ہے۔2016 کی مردم شماری کے مطابق ایران کی کل آبادی قریباً 8 کروڑ 20 لاکھ ہے۔ جبکہ آئندہ سال کی مجوزہ مردم شماری میں متوقع آبادی کی تعداد 9 کروڑ 20 لاکھ ہے۔

    دو قالب، یک جان ~ ایران و پاکستان:
    ایران پر مسلط کردہ حالیہ ازرائیلی چنگ کے تناظر میں اہل ایران پاکستانی ملت، قوم، اور حکومت کے شکر گزار ہیں جس نے کسی بھی دوسری مملکت کے مقابلے میں ایران کی حمایت میں اپنا وزن ڈالا ہے۔ بالخصوص ازرائیلی صیہونی رجیم کو ملزم ٹہرانے میں پاکستان کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ اس جنگ نے ازرائیل کے مصنوعی رعب و دبدبے کو پارا پارا کیا۔ اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ یہ ظلم رجیم قابل شکست ہے۔ جس طرح اللہ پاک نے اہل ایران کو سرخرو کیا ہے ہماری دعا ہے کہ غزہ کے مظلوموں اور ان کے معصوم بچوں کو اس قاتل رجیم سے نجات حاصل ہو۔ آمین۔

  • وہ جو دن تھے میرے شباب کے وہ سعودیہ میں گزر گئے(2) – نائلہ رفیق

    وہ جو دن تھے میرے شباب کے وہ سعودیہ میں گزر گئے(2) – نائلہ رفیق

    پیاری سلطانہ
    السلام علیکم
    خیریت موجود خیریت مطلوب۔
    کتنے عرصے سے تم نے خط نہیں لکھا تو دل پریشان ہو گیا۔ مجھے معلوم ہے بچوں کی مصروفیت اور تمہاری دل کی تکلیف دونوں بڑھ گئی ہیں۔ دیکھو تمہارے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے میں نے بھی دل کی بیماری پال لی ہے۔ تمہارا دل تو بڑھ گیا ہے میرا رکنے لگا ہے۔ چھٹی پہ آؤں گا تو سٹنٹ ڈلوانے پڑیں گے۔ یاسر کی انجینئرنگ مکمل ہو جائے تو اوور ٹائم چھوڑ دوں گا۔

    فون پہ بات تو ہوتی ہے لیکن گزرے سالوں میں تمہیں خط لکھنے کی جو عادت ہو گئی ہے اس کی وجہ سے بار بار خیال آتا ہے کہ کل خط پوسٹ کرنا ہے اس لیے لکھ دیتا ہوں۔ ممکن ہو تو جواب لکھ دیا کرو۔ اگلا خط ملنے تک پرانا خط پڑھتے رہنا ہم پردیسیوں کی عیاشی ہے۔
    والدہ صاحبہ کا کمرہ گرم رکھنا۔بچوں سے کہو دادی کے پاس بیٹھا کریں۔ بجلی برفباری میں نہیں آئے گی اس لیے ایک سلنڈر گیس کا صرف ہیٹر کے لیے رکھنا۔
    کچھ ضرورت ہو تو بتانا بھائی اشراف اگلے مہینے گھر جائیں گے۔ میں ابو ظہبی ہوں ایک دن کی چھٹی لے کر ملنے جاؤں گا۔
    سمیرا کا خط پڑھ کے دل باغ باغ ہو گیا۔ ماشاءاللہ وہ بہت خوشخط اور خوش ذوق ہے۔ خط میں کچھ ایسی خفیف غلطیاں تھیں جن پہ زیادہ دھیان نہیں دیا جاتا۔ میں نے تصحیح کر کے اس کا خط جوابی لفافے میں ڈال دیا ہے۔ اسے الگ سے خط بھی لکھا ہے۔ اس بار اس کے لیے پارکر پین لاؤں گا۔
    نوٹ: بہت دنوں سے ایک اہم بات ہے کرنا چاہتا تھا بچپن سے بھائی اسلم جبین کے رشتے کا کہتے رہے ہیں۔ اس کا بی اے مکمل ہو گیا ہے ہو سکے تو اشارتا” بھابی رشیدہ سے بات کر لو یا والدہ صاحبہ خالہ صاحبہ سے تذکرہ کر دیں۔ باہر کے لوگوں پہ بھروسہ نہیں ہوتا۔ یہ لوگ اپنے ہیں اور پھر شاہد اچھی نوکری پہ ہے اور تابعدار لڑکا ہے۔
    سب کو فردا” فردا” سلام
    تمہارا ہمدم
    30 دسمبر 1991
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    پیاری سلطانہ
    السلام علیکم
    خیریت موجود خیریت مطلوب۔
    بچوں کے اچھے نتائج کی خبر سے دل کو یک گونہ تسلی ہوئی۔ میں کہتا تھا نا اتنی سختی نہ کرو کہ زیادہ ٹی وی نہ دیکھو۔ فلاں سے ملو فلاں کے ساتھ نہ کھیلو۔
    اب دیکھ لو میرے بچوں نے باپ کی لاج رکھ لی۔ بس بچے سیٹ ہو جائیں تو فورا” واپس آ جاؤں گا۔ جبین سے کہنا شاہد سے بات کر کے پرائیویٹ ایم اے کا فارم بھیجے۔ خرچے کی فکر نہ کرے۔ میں ساری فیسیں دوں گا۔ میری اس معصوم بچی نے ہمیشہ ہمارا مان رکھا۔ اللہ اس کے مان سلامت رکھے۔
    92 کی سیلابی بارشیں ہمارا گھر نہ نگل لیتیں تو شاید میں بھی آج اپنے بچوں کے پاس ہوتا۔ لیکن چلو جو اللہ کو منظور۔ شکر ہے پروردگار کا جس نے دوبارہ چھت بنانے کی ہمت اور وسائل دیے۔ عید میں دو تین دن باقی ہیں۔ اس بار حج کا ارادہ ہے ورنہ بڑی عید پہ آنے کی کوشش کرتا۔
    تمہیں کچھ بھی ضرورت ہو تو بتا دینا۔ بچیوں سے بھی پوچھ لینا۔ والدہ صاحبہ فون پہ نہیں بتاتیں تم خود پوچھ کے بتا دینا۔
    سب کو سلام
    فقط
    تمہارا ہمدم۔
    30 فروری 1995
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    پیاری سلطانہ
    السلام علیکم
    خیریت موجود خیریت مطلوب۔
    جب سے والدہ صاحبہ کی تدفین سے لوٹا ہوں کسی شے میں دل نہیں لگتا۔ اور واپس آ کر تو یوں لگتا ہے چھوٹا سا بچہ ہوں اور کھو گیا ہوں۔ رات کو جب سب سو جاتے ہیں تو دل کرتا ہے بلند آواز سے اماں کو پکاروں۔ کسی کو بھی اس کی ماں کے ساتھ دیکھتا ہوں حتی’ کہ چھوٹے سے بچے کو بھی تو ایسی محرومی محسوس ہوتی ہے جسے لفظوں میں کہنا مشکل ہے۔ لگتا ہے صدیوں سے اماں کو نہیں دیکھا ان کی آواز نہیں سنی۔
    تم اپنا بہت خیال رکھنا ۔ چیک اپ کرواتی رہنا۔ گھٹنوں کے درد کی دوا وقت پہ لیا کرو اور دل کی دوائیاں تو فرض سمجھو۔
    ایک بات پوچھنا چاہ رہا تھا۔ جبین اپنے گھر میں خوش تو ہے نا؟ رشیدہ بھابی بھلی عورت لگتی تھیں۔ ایسی سختی کی ان سے توقع نہ تھی۔ دادی کی تدفین پہ بھی رکنے نہ دیا۔ بچے سب کے ساتھ ہی تھے ۔ سوچ رہا ہوں اسد ان کا اکلوتا پوتا ہے شاید اس لیے وہ زیادہ حساس ہو رہی تھیں۔ یا میرا ہی دل دکھا ہوا تھا تو مجھے ہر بات چبھ رہی تھی۔ جبین سے کہنا ان کی بات کا برا نہ مانے۔
    بس یاسر سیٹ ہو جائے تو میں نوکری چھوڑ دوں گا۔ بچے اپنے اپنے پیروں پہ کھڑے ہو جائیں تو ہم تھوڑے میں بھی گزارا کر لیں گے۔
    سب کچھ ہی ہو گیا بس تمہارے ساتھ وقت نہیں گزار سکا، حالانکہ زندگی گزاری
    فقط
    تمہارا ہمدم
    25 اگست 1999
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    عزیز از جان سلطانہ بیگم
    السلام علیکم
    خیریت موجود خیریت مطلوب۔
    اب تو خط لکھتے بھی عجیب لگتا ہے۔ روزانہ بات ہو جاتی ہے۔ اچھا ہوا فیصل نے کمپیوٹر سائنس پڑھ لی ورنہ ہمیں کہاں معلوم ہوتا کہ کمپیوٹر پہ کیمرہ بھی لگ سکتا ہے اور میں تمہیں اور بچوں کو چلتے پھرتے بولتے بات کرتے دیکھ سکتا ہوں۔
    اسی لیے تم نے سالوں سے خط لکھنا چھوڑ دیا ہے۔ مگر مجھے جو برسوں کی عادت ہے وہ چین نہیں لینے دیتی ۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ تمہیں میرے بغیر رہنے کی عادت ہو گئی ہے۔ تو اس بات سے خوف آتا ہے۔
    اب بہت کم وقت رہ گیا ہے پردیس کا۔ دل کرتا ہے پلکیں جھپکوں اور گھر پہنچ جاؤں۔ مگر ایسا ہی عمرو عیار ہوتا تو پردیس کے کالے قلعے میں جوانی کے سال راکھ ہونے دیتا؟
    چلو تیاری پکڑو ہم خوب گھومیں پھریں گے۔ سب عزیز و اقارب سے ملیں گے۔
    تمہارا اور صرف تمہارا
    گھبرو جوان
    10 فروری 2000
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔

    میری سلطانہ
    سمجھ نہیں آ رہی خط کہاں سے شروع کروں۔ تم کتنا چڑتی تھیں خیریت موجود خیریت مطلوب سے۔ دیکھو آج نہیں لکھا۔ لکھنے سے کوئی فرق بھی نہ پڑتا۔
    آج تیرہواں دن ہے تمہیں دفنائے۔ روزانہ صبح تمہارے سرہانے تلاوت کرتا ہوں۔ عصر کے وقت بھی آتا ہوں۔ السلام علیکم سلطان بیگمے!! کہہ کر مخاطب کرتا ہوں تو تم مصنوعی خفگی کا اظہار بھی نہیں کرتیں ۔ پھر بھی یقین نہیں آتا کہ یہ مرقد تمہارا ہے اور تم جا چکی ہو۔
    جب جب وطن واپس آنا چاہا اور نہ آ سکا تو سوچا کرتا تھا کہ شاید تابوت میں جانا لکھا ہے۔ تب سوچتا تھا ساتھ بڑھاپا گزارنے کے سارے وعدے توڑ دوں گا تو تم تو بالکل معاف نہیں کرو گی۔ لیکن تم نے تو بھنک بھی نہ پڑنے دی کہ کیا ارادہ کیے بیٹھی ہو۔
    الماری میں تمہارے استری شدہ کپڑے ترتیب سے لٹکے ہوئے ہیں۔ ہینڈ بیگ اس میں رکھا ہوا چھوٹا سا پھولدار کلچ، چھوٹی چھوٹی مترتب اور منظم چیزیں۔ جوتوں کی قطار۔ مجھے معلوم ہی نہیں تھا تم اتنی خوش لباس اور با ذوق ہو۔ مجھے لگتا تھا خوش شکل ہو تو کچھ بھی پہن لیتی ہو۔ اچھا لگ جاتا ہے۔
    سارا دن مہمان آتے رہتے ہیں جبکہ میں بالکل اکیلا بیٹھنا چاہتا ہوں۔ لوگ میرا غم بانٹنے آ رہے ہیں۔ مگر مجھے اس غم کو سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے تنہائی چاہیے۔
    میرے سامنے عمر کا وہ حصہ پڑا ہے جس کے بارے میں میری واحد پلاننگ یہ تھی کہ تمہارے ساتھ گزاروں گا۔ اور تم نہیں ہو۔
    مجھے گھر لوٹے وقت ہی کتنا ہوا تھا۔ چار مہینے سترہ دن۔ ان چار ماہ سترہ دن بلکہ پچھلے بتیس برس سے لمبے تو یہ تیرہ دن ہیں۔ ان تیرہ دنوں میں میرے لیے دنیا بدل گئی ہے۔ میں ایک طرف کھڑا اور بچے بہنیں احباب دوسری طرف۔ تم مجھے اس دنیا سے ملانے والا پل تھیں۔ پل ٹوٹ گیا ہے اور میں بس حیران پریشان ہوں۔
    دروازے پہ دستک ہو رہی ہے۔ کوئی مہمان ہو گا۔ ابھی یہیں ختم کرتا ہوں۔
    والسلام
    21 جولائی 2001

  • متعلقین تنظیم اساتذہ پاکستان سے توقعات – ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

    متعلقین تنظیم اساتذہ پاکستان سے توقعات – ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

    ایک زمانے میں وفاقی شرعی عدالت کا دوسرا نام جسٹس فدا محمد خان ہوا کرتا تھا۔ ممکن ہی نہیں تھا کہ اس عدالت کا ذکر آئے اور جسٹس صاحب مرحوم کا ذکر نہ ہو۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ لازم و ملزوم تنظیم اساتذہ پاکستان اور ہمارے محترم نصیر الدین ہمایوں سابق سیکریٹری جنرل تنظیم اساتذہ پاکستان ہوا کرتے تھے جب کبھی وہ مسکراتے کمرے میں داخل ہوتے تو حاضرین مجلس کے چہرے پر بشاشت آجاتی:

    “لو جی! تنظیم اساتذہ پاکستان کی آمد آمد ہے.”
    ہمایوں صاحب ہمیں گلے لگاتے اور پھر ہم سب کی باتیں سنتے اور مسکراتے رہتے۔ میں ان دنوں استاد نہیں تھا بلکہ اسلامی یونیورسٹی میں میری پڑھائی کے ایام کی بات ہے۔ کبھی وہ ہوسٹل میں آتے۔ رات گزار کر صبح اگلی کسی منزل کو چل پڑتے۔ عمروں میں کافی فرق کے باوجود ہم طلباء کے ساتھ یوں گھل مل جاتے کہ گویا ہم ہی میں سے ہیں۔

    گرما کی تعطیلات میرے لیے مسئلہ بن جاتی تھیں چھوٹی سی یونیورسٹی، اپنے وسائل محدود، ہوسٹل بند، طعام گاہ مقفل،
    آبائی گھر دوسرے قصبے میں، چھٹیوں کے تین ماہ قیام کروں تو کہاں؟ تنظیم کے صوبائی صدر، مرحوم پروفیسر مقصود پرنسپل گارڈن کالج کو معلوم ہوا تو انہوں نے ہمایوں صاحب سے بات کی۔ ضرورت تو نہیں تھی لیکن تب کے یہ منارہ ہائے نور حفظ مراتب اور روایات کے امین تھے وہ خود فیصلہ کر سکتے تھے کہ انہیں اختیار تھا اور ہمایوں صاحب نے کیا کہنا تھا وہ بھی ہنس کر بولے:
    “اچھا ہے, پنڈی میں میرے قیام کے دوران میں کسی سے گپ شپ تو رہا کرے گی”۔

    یوں میں نے تین سال (جون تا اگست) راولپنڈی کی الاکرام بلڈنگ کی چوتھی منزل میں وہاں گزارے جو تنظیم اساتذہ کا دفتر تھا،کمرہ کیا تھا، دو الماریوں کی لائبریری، لکھنے پڑھنے کی میز کرسی، تین چار اضافی کرسیاں یہ کائنات ایک موٹے قالین کے اوپر تھی۔ رات کو “لائبریری” کے اوپر سے گدا اتار کر میں اسے فرش پر بستر بنا لیتا۔ کبھی ہمایوں صاحب کا قیام ہوتا تو گدا عمودی کی بجائے افقی رخ اختیار کر لیتا۔ یوں ہم دونوں کی ٹانگیں گدے سے بے نیاز قالین پر جھولتی رہتیں۔ حدیث محرم راز خالق کائنات کے بموجب ایک کھانا دو مومنوں کے لئے کافی ہے۔ یوں مجھے فقہ اسلامی پڑھتے پڑھتے قیاس کا عملی تجربہ حاصل ہوا۔

    ایک کھانا دو کے لیے کافی ہے تو قیاس کا تقاضا ہے کہ ایک بستر بھی دو مومنین کے لئے کافی ہو سکتا ہے۔ امید ہے کہ عہد حاضر کے جملہ مجتہدین میرے اس قیاسی اجتہاد کو قبول کرکے اسے اجماع کی سند جواز بخشیں گے۔ تنظیم اساتذہ کے اولین سیکرٹری جنرل پروفیسر عطاء اللہ چوہدری تب منصورہ میں افغان مجاہدین کے افغان سرجیکل اسپتال کے منتظم تھے۔ میرا لاہور جانا ہوتا تو قیام وہیں ہوتا۔ اب مخمصہ یہ ہے کہ چوہدری صاحب کو تنظیم اساتذہ کے زمرے میں ڈالوں یا انہیں جماعت اسلامی کا کارکن گنوں اقربا پروری کا تقاضا ہے کہ میں انہیں تنظیم اساتذہ کا فرد شمار کروں کہ میں خود استاد ہوں۔

    وہ پنڈی آتے تو ہر دلعزیز اتنے کہ انہیں رات کو کہیں قیام کرنے کا سوچنا ہی نہیں پڑا ہوگا۔ لیکن پھر بھی کبھی ٹٹولنے کی خاطر اور کا ہے ربط و ضبط ملت بیضا کے مصداق وہ دو ایک دفعہ میری اس قیام گاہ میں ٹھہرے۔ ان کی آمد میرے لیے جمع بین الصلاتین کی طرح جمع بین العیدین ہو جاتی کہ بہت سے دیگر احباب جمع ہو جاتے تھے۔ پروفیسر صاحب کا نامہ اعمال اللہ کریم نے اگر میدان محشر میں عام کر دیا تو لوگ رشک کریں گے۔ صرف صدقہ کی ایک مد میں وہ بہت سے کھرب پتی صدقہ داروں سے بھی آگے ہوں گے۔ محرم راز خالق کائنات نے مسکراہٹ کو بھی تو صدقہ قرار دیا تھا۔

    پڑھائی کے چار سال پورے ہوئے تو مرحوم پروفیسر مقصود صاحب ایک دفعہ پھر میدان عمل میں تھے: “شہزاد! بیگم کل درس قرآن میں گئیں تو فلاں لڑکی کو انہوں نے آپ کے لیے پسند کر لیا. کیا خیال ہے”؟ پروفیسر مقصود صاحب دراصل ہمارے قصبے کے کالج میں پروفیسر تھے۔ جب کبھی راولپنڈی اپنے آبائی گھر جاتے تو گھر کی رکھوالی ہم پانچ چھ دوستوں کے ذمہ ہوتی تھی جہاں ہم چپل کباب کی محفل جماتے یوں مقصود صاحب سے ان کے تادمِ رحلت تعلق رہا، ان کی بیگم کی پہلی کوشش کامیاب نہ ہوئی تو انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ اللہ کریم کی پھیلائی اس کارگاہ حیات کے تانے بانے میں ان کی بنت نہ چل سکی لیکن دونوں جنتی ارواح نے نیت اور عمل کا ثواب تو کما ہی لیا۔

    مشتاق یوسفی نے کہیں لکھا ہے نا کہ جب کوئی ماضی سے آسودگی حاصل کرنا شروع کر دے تو سمجھ لو، بوڑھا ہوگیا ہے۔چلیے یوں ہی سہی یوسفی لکھنے سے پہلے مجھ سے مل لیتے تو یقیناً عبارت بدل دیتے، ماضی کے اس تذکرے کا مقصد آسودگی کا حصول نہیں بلکہ میں لاشعوری طور پر تنظیم اساتذہ کے آج کے افراد کو بھی شاید ویسا ہی دیکھنا چاہتا ہوں۔ تنظیم اساتذہ کے یہ تین معززین وہ ہیں جن سے میرا تعلق مقابلتاً زیادہ رہا، ورنہ اس عہد کا ہر فرد لگتا تھا کہ ایک ہی سانچے سے نکلا ہوا ہے، اور اسی سانچے سے روز دھل کر نکلتا ہے چند الفاظ میں ان لازوال کرداروں کو سمونا چاہوں تو انسان دوست، مثل باپ، ہمدرد، غمگسار، طلباء کے مسائل کے کھوجی، تربیتی سراغرساں اور ان جیسی متعدد دیگر کیفیات ذہن میں جھلملانے لگتی ہیں۔

    میرے ذہن میں تنظیم اساتذہ کا ایک تاثر ہے کہ اس کا کام چند جامعات کو چھوڑ کر بہت سی اہم جامعات میں نہیں پھیل سکا۔ اس کا زیادہ تر کام کالجوں اور اسکولوں میں رہا ہے۔ میں تنظیم اساتذہ کے آج کے افراد اور عہدے داروں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا۔ خوش گمانی تو یہ ہے کہ اس سانچے میں ڈھلے آج کے افراد کو میں ویسا ہی سمجھوں۔ میں یہی کرتا ہوں اور گمان کرتا ہوں کہ تنظیم اساتذہ پاکستان میں پروفیسر عطاء اللہ چوہدری، پروفیسر مقصود احمد مرحوم اور پروفیسر نصیر الدین ہمایوں کے نت نئے اور مزید خوبیوں سے مزین ایڈیشن بھی متعارف ہوتے رہے ہوں گے، اب بھی موجود ہوں گے اور آئندہ بھی قحط الرجال نہیں ہوگا۔

    اگر میری یہ خوش گمانی بجانب بحق ہے تو الحمدللہ! اس کا سراغ لگانے کو کسی تحقیقاتی کمیشن کی حاجت نہیں ہے. یہ لکھ کر دراصل میں اپنا جائزہ لے رہا ہوں کہ تنظیم اساتذہ نے جو مجھے دیا ہے، کیا میں نے اپنے طلبا کو لوٹایا۔ یہ امید بھی ہے کہ میری پیروی نہ سہی لیکن یہ توقع تو کر سکتا ہوں کہ آج کی تنظیم اساتذہ کے جملہ متعلقین میرے ان تین ممدوحین میں سے کم از کم کسی ایک جیسے تو ہوں۔

  • لذتِ تشنگی  – نعیم اللہ باجوہ

    لذتِ تشنگی – نعیم اللہ باجوہ

    تشنگی محض پیاس نہیں، یہ ایک ازلی گرہ ہے جو ہمیں فنا اور بقا کے درمیان معلق رکھتی ہے۔ یہ وہ آگ ہے جو جلنے میں راحت پاتی ہے، وہ جستجو ہے جو منزل سے بے نیاز ہو کر سفر میں لذت تلاش کرتی ہے۔ یہ ایک ناتمام خواب ہے، جو جاگنے کے بعد بھی آنکھوں میں تیرتا رہتا ہے، اور ایک ایسی صدا ہے جو گونج بن کر خود کو بار بار دہراتی ہے۔

    تشنگی کی معراج یہ ہے کہ یہ کبھی سیراب نہیں ہوتی۔ اگر ہو جائے تو وجود کا سارا حسن ماند پڑ جائے، وہ کشش جو ہمیں آگے بڑھنے پر مجبور کرتی ہے، دم توڑ دے۔ سمندر کی بے کراں وسعت ہو، کسی صوفی کی دعا میں بہتا ہوا آنسو، یا کسی عاشق کی تڑپتی ہوئی سانس—یہ سب تشنگی کی مختلف صورتیں ہیں۔ لیکن جو اسے سمجھ لے، وہ جان لے کہ یہ پیاس ہی اصل زندگی ہے، یہ خلا ہی اصل کائنات ہے، اور یہ طلب ہی سب سے بڑی حقیقت ہے۔

    ہم جس چیز کو پانے کے لیے سرگرداں ہیں، وہ شاید ہمارے اندر ہی کہیں پوشیدہ ہے۔ مگر اس کا راز یہ ہے کہ اسے پا کر بھی ہم اسے مکمل نہیں پا سکتے۔ کیونکہ یہ پیاس ہی دراصل وہ روشنی ہے جو ہمیں مسلسل رواں رکھتی ہے، وہ آگ ہے جو ہمیں زندہ رکھتی ہے، وہ خلش ہے جو ہمیں ہونے کا یقین دلاتی ہے۔

    تشنگی کا راز یہی ہے کہ یہ کسی جام میں نہیں، بلکہ اس جستجو میں ہے جو ہمیں ہر لمحہ نئی حقیقتوں سے آشنا کرتی ہے۔ جو اسے سمجھ گیا، وہ جان گیا کہ سکون کسی سراب کا نام ہے، اور حقیقت ہمیشہ اس پیاس میں پنہاں رہتی ہے جو کبھی بجھتی نہیں۔

  • ملتان کی سرسبز سرزمین کا المیہ –  ادیب احمد راؤ

    ملتان کی سرسبز سرزمین کا المیہ – ادیب احمد راؤ

    گزشتہ چند برسوں میں جو ظلم ملتان کی سرزمین، اس کے سائے دار درختوں اور آموں سے لدے باغوں پر ڈھایا گیا، وہ کسی موسمی یا قدرتی آفت کا نتیجہ نہ تھا بلکہ انسانی حرص، مفاد پرستی اور ترقی کے نام پر بے رحم منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے۔

    گزشتہ دہائی میں ملتان جیسے زرخیز اور سرسبز خطے میں ترقی کے نام پر تقریباً 20,000 ایکڑ پر پھیلے آم کے باغات اور دیگر قیمتی درختوں کو بے دردی سے کاٹ کر رہائشی کالونیاں قائم کی گئیں۔ اگر صرف آم کے درختوں کی بات کی جائے تو فی ایکڑ اوسطاً 60 درخت لگائے جاتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ کم از کم 12 لاکھ آم کے درخت اس مدت میں ختم کر دیے گئے۔ لیکن اگر دیگر اقسام جیسے نیم، بیری، شیشم، شہتوت، کچنار اور یوکلپٹس کو بھی شامل کیا جائے، تو درختوں کی اوسط تعداد فی ایکڑ 100 سے بھی تجاوز کر سکتی ہے، جو ہمیں یہ ظاہر کرتی ہے کہ کم و بیش 20 سے 25 لاکھ درخت زمین سے مٹا دیے گئے۔ ان درختوں کی کٹائی نے نہ صرف فطری ماحول کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ گرمیوں کی شدت، ہوا کی آلودگی، زمین کی زرخیزی اور مقامی حیاتیاتی نظام پر بھی تباہ کن اثرات مرتب کیے۔

    ملتان، جو کبھی موسمِ گرما کے تاجدار آم کا مرکزِ ناز تھا، جہاں کی مٹی سے خاص مہک اٹھتی تھی، جہاں دھوپ کے بھی اپنے ادب تھے اور جہاں باغات کی چھاؤں میں قافلے دم لیتے تھے، اب سنگ و سیمنٹ کی بے حس بستیوں میں بدلتا جا رہا ہے۔ اس خطے کا آم نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمگیر سطح پر اپنی لطافت، مٹھاس، خوشبو اور رنگت کے باعث ایک منفرد مقام رکھتا تھا۔ اگر ہم اس قیمتی نعمت کو عالمی منڈیوں میں منظم انداز سے برآمد کرتے تو جنوبی پنجاب نہ صرف اربوں روپے زرِ مبادلہ کما سکتا تھا بلکہ کسانوں کو خوشحالی، ملکی معیشت کو استحکام اور پاکستان کو زرعی برآمدات کے میدان میں نمایاں حیثیت حاصل ہو سکتی تھی۔

    ہم نے تجارت کے فطری وسائل کو ختم کرکے عارضی منافع کی چکاچوند کو ترجیح دی، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ملتان ایک اُجڑا ہوا سایہ بن چکا ہے، جس کی گرم سانسوں میں ماضی کی ٹھنڈی چھاؤں کی صدائیں ابھی بھی سسک رہی ہیں۔ پرانی نہریں سوکھ گئیں، باغات کی جگہ سیمنٹ کے بلاکس نے لے لی، اور جہاں کبھی ہوا میں پھلوں کی خوشبو ہوتی تھی، اب دھول، دھواں اور شور غالب آ چکا ہے۔ درخت صرف سایہ دینے یا پھل مہیا کرنے کا ذریعہ نہیں تھے، بلکہ وہ اس زمین کی روح تھے، جنہوں نے نسلوں کو سانس لینے کی مہلت دی، بارشوں کو روکا، زمینی پانی کو محفوظ رکھا اور گرمی کی شدت کو کم کیا۔ ان کی کٹائی سے ہم نے خود اپنی جڑیں کاٹ دی ہیں، اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک بنجر، گرم اور بے حس دنیا چھوڑنے کی تیاری کر لی ہے۔

    اپریل، جو کبھی پھولوں اور ہلکی ہوا کا مہینہ ہوا کرتا تھا، اب مئی و جون کی جھلسا دینے والی حدت کا عکس بن چکا ہے۔ فضائیں بے قرار، دھوپ بے رحم، اور زمین دہکتے لوہے کی مانند ہو چکی ہے۔ گرمی کی شدت صرف موسم کا مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی اعمال کا ننگا آئینہ ہے۔ یہ عمل صرف ماحول دشمنی نہیں بلکہ فطرت سے بغاوت کے مترادف ہے، جس کی قیمت ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو اپنی سانسوں، پانی، اور زندگی سے چکانی پڑے گی۔ اگر آج بھی ہم نہ جاگے، نہ رُکے، اور نہ پلٹے، تو وہ وقت دور نہیں جب ہماری زمین کے باسی صرف درختوں کی تصویریں، آموں کی خوشبو اور بارش کی نمی کو صرف خوابوں میں تلاش کریں گے۔

    [poetry]درخت کاٹ کے پوچھا فضا سے کیا گزری،
    ہوا نے رو کے کہا، سانس بھی امانت تھی[/poetry]

  • سونے کا ڈھول  – فرحانہ مختار

    سونے کا ڈھول – فرحانہ مختار

    بچپن کے رنگ، کہانیاں اور کہاوتیں بھی عجیب نرالے ہیں۔

    سنتے تھے کہ چمگادڑ کے پاس نہ پھٹکو، کیونکہ اگر یہ کان میں چلی گئی تو سونے کا ڈھول بجانا پڑے گا تب ہی نکلے گی۔

    ہم سب بچے چمگادڑوں سے ڈرتے رہتے اور اگر کہیں کبھی کبھار بھولے سے کوئی کہیں دور دیوار یا چھت پہ چپکی نظر آجاتی تو فوراً کانوں میں انگلیاں دے لیتے تھے۔

    ہائے معصومیت۔۔۔۔!
    بھلا چمگادڑ کو کیا پڑی کہ ہمارے کانوں میں گُھسے۔

    آج یونہی خیال آیا کہ سازشی اور منفی باتیں بھی چمگادڑیں ہی تو ہیں۔ کالی، ڈراؤنی، خوفناک اور چپک جانے والی۔
    ایک بار کانوں میں گھس جائیں تو کبھی نہیں نکلتی، بلکہ دل میں گھر کر لیتی ہیں اور چمگادڑوں کی طرح بچے دینے لگتی ہیں۔

    پھر چاہے وضاحتوں کے کتنے ہی سونے کے ڈھول بجائیں، یہ نہیں نکلتیں اور نہ ہی دل صاف ہوتا ہے۔
    لوگوں کے کانوں میں سازشی و منفی باتوں کی چمگادڑیں نہ گُھسائیں کیونکہ یہ کبھی نہیں نکلتیں۔

  • سیرت و فضائل سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓ  –  محمد سلمان عثمانی

    سیرت و فضائل سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓ – محمد سلمان عثمانی

    حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا جناب نبی کریم ﷺ کی چوتھی و لاڈلی صاحبزادی ہیں، خلیفہ چہارم شیر خدا حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ ہیں،اور حسنین کریمین حضرت سید نا حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ ہیں. آپ ؓ کی سیرت و فضائل متعدد مقامات پر وارد ہو ئے ہیں. حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرارضی اللہ عنہا کی سیرت بہت اعلیٰ و ارفع ہے،ان کی زندگی ہماری خواتین کےلیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے. اگر آج ہماری خواتین مائیں،بہنیں،بیٹیاں حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہ کا اسوہ اپنا لیں تو دنیا و آخرت کی کامیابی مل سکتی ہے.

    نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ”جنتی عورتوں میں حضرت خدیجہؓ اور حضرت فاطمہؓ افضل ہیں“ (سیر اعلام النبلاء، 90:2)جناب رسول اللہ ﷺنے فرما یا فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے،جس نے اس کو ناراض کیا،اس نے مجھے ناراض کیا(صحیح بخاری3767) رسول اللہﷺ حضرت فاطمہؓ سے بالخصوص بے حد الفت و محبت رکھتے تھے۔ آپ ﷺنے جب اشاعت اسلام کا مقدس کام شروع کیا تو ان مظالم سے جو مشرکین کی طرف سے آپﷺپر ہوتے رہے، حضرت فاطمہؓ کا حساس دل ہمیشہ بہت متاثر ہوتا رہا اور جب اپنی والدہ کے انتقال کی وجہ سے وہ اس سایہ محبت و الفت سے بھی محروم ہوگئیں، جو ان کے لیے باعث تقویت تھا، تو انہوں نے اپنے آپ کو اپنے والد کی طرف متوجہ کرکے دل و جان سے رسول اللہ ﷺکی خدمت کے لیے وقف کردیا۔ رسول اللہﷺ بھی اکثر انہیں اپنے پاس سے جدا نہ ہونے دیتے اور ہمیشہ انھیں محبت اور شفقت سے یاد فرماتے تھے۔جب حضرت فاطمہؓ کسی ایسی محفل میں آتیں جہاں حضور انور ﷺ جلوہ افروز ہوتے تو آپ ﷺحضرت فاطمہؓ کی محبت و شفقت اور پیار سے کھڑے ہوجاتے تھے اور حضرت فاطمہؓ کو اپنے پہلو میں جگہ دیا کرتے تھے۔ (ترمذی شریف ومشکوٰۃ المصابیح)

    حضرت فاطمہؓ کا نکاح حضرت علیؓ سے (غزوۂ بدر کے بعد) ماہ صفر (بقول بعض ذوالقعدہ یا ذوالحجہ) 2 ہجری میں ہوااور پانچ سو درہم (بقول بعض 480 یا چار سو درہم) مہر مقرر ہوا۔ البتہ رخصتی جنگ احد کے بعد ہوئی۔ بقول ابن کثیر شادی کے وقت حضرت فاطمہؓ کی عمر پندرہ برس پانچ ماہ تھی اور بعض دیگر روایتوں کے مطابق ان کی عمر اٹھارہ انیس برس تھی۔ حافظ ابن حجرؒ کے بقول حضرت علیؓ نے جب حضرت فاطمہؓ کے لیے پیغام دیا تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تمہارے پاس مہر میں دینے کے لیے کیا ہے؟ حضرت علیؓ نے کہا کچھ بھی نہیں۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا: تمھاری وہ الحطمیہ نامی زرہ کہا ہے جو میں نے تمھیں دی تھی؟ فرمایا: وہ میرے پاس موجود ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ مہر میں فاطمہؓ کو دے دو۔ یہ زرہ چار سو یا چار سو اسّی درہم پر فروخت ہوئی۔ سو یہی حضرت فاطمہؓ کا مہر تھا۔ ایک اور روایت کے مطابق یہ زرہ حضرت عثمانؓ نے خریدی تھی جسے انھوں نے بعد ازاں حضرت علیؓ کو واپس کردیا تھا۔ نکاح کے موقع پر آنحضرت ﷺنے خطبہ ارشاد فرمایا۔تقریب نکاح مسجد نبویؐ میں نہایت سادہ طریقے سے ہوئی. نکاح کے بعد حاضرین میں شہد کا شربت اور کھجوریں تقسیم کی گئیں۔ حضرت فاطمہؓ کو ایک انتہائی سادہ سازو سامان کا گھر کرایہ پر لے لے کر دیا گیا تھا۔جہیز میں جو سامان دیا گیا وہ ایک تخت خواب، دو توشکیں، ایک گرم چادر، تکیہ، پانی کی چھاگل (مشکیزہ) اور لوٹا وغیرہ پر مشتمل تھا۔ دعوت ولیمہ، جو اسی سال حضرت فاطمہؓ کی نکاح کے بہت دنوں بعد کی گئی، وہ بھی اسی طرح سادہ اور پاکیزہ تھی (بحوالہ: سیرت خیرالانام ﷺ، صفحہ 728)

    حضور اکرم ﷺکے اسوۂ حسنہ سے ثابت ہے کہ آپﷺنے جہیز میں کوئی چیز حضرت فاطمہؓ کو اپنی رقم سے نہیں دی۔ حضرت علیؓ نے ضرورت کا سامان حضرت فاطمہؓ کو دیا۔ حضرت فاطمہؓ کو ضرورت کا سامان ان کے شوہرنے عطا فرمایا۔ جس کی تفصیل یہ ہے٭ خوشبو٭ ایک پلنگ٭ ایک بستر٭ ایک چادر٭ دو چکیاں ٭ ایک مشک۔ (سیرت النبیؐ، جلد دوم، از سید سلیمان ندوی و شبلی نعمانی، صفحہ 252) واضح ہو کہ یہ جہیز نہیں تھا بلکہ سامانِ ضرورت تھا جو حضرت علیؓ نے حق مہر کی رقم سے خرید کر حضرت فاطمہؓ کو دیا تھا۔

    سیرت خیرالانامﷺکے صفحہ نمبر 731 پر حضرت فاطمہؓ کی وصیت درج ہے جس میں آج کے دور میں خواتین کے لیے تقلید کا اعلیٰ نمونہ موجود ہے۔ ”وفات سے پہلے حضرت فاطمہؓ نے حضرت اسماءؓ بنت عمیس کو یہ وصیت کی کہ ان کے جسد مبارک کو اس طرح اٹھایا جائے کہ کوئی شخص یہ نہ جان سکے کہ یہ جنازہ عورت کا ہے یا مرد کا۔ نیز یہ کہ آپؓ کو رات کے وقت دفن کیا جائے۔ اس لیے جسد مبارک کے اوپر کے حصے کو کھجور کی شاخوں سے اس طرح ڈھانپ دیا گیا کہ آپؓ کا جسم دکھائی نہ دے سکے۔ غسلِ میت وصیت کے مطابق حضرت اسماءؓ بنت عمیس، حضرت علیؓ اور حضرت سلمیٰ اُمّ رافعؓ نے دیا۔ نماز جنازہ حضرت علیؓ (یا بروایت دیگر حضرت عباسؓ) نے پڑھائی۔“

    حضرت فاطمہؓ نے 28 یا 30 برس کی عمر میں وفات پائی۔ علامہ ابن کثیرؒ اور علامہ ابن حزم کے مطابق: حضرت فاطمہؓ نے آنحضرت ﷺکے چھ ماہ بعد وفات پائی۔ خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کی رسول اکرمﷺ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی تھیں۔ آپؓ کی تربیت و پرورش بی بی خدیجہؓ کی گود میں اور رسول اللہ ﷺ کے سایہ عاطفت میں ہوئی۔ جب آپؓ اٹھارہ سال کی ہوئیں تو آپؓ کا نکاح رسول اکرمﷺنے ہجرت کے دوسرے سال مدینے میں حضرت علیؓ سے کردیا۔ چونکہ حضرت علیؓ کی مالی حالت بہت کمزور تھی اس لیے آپؓ جملہ امور خانہ داری کو صبر اور شکر سے سرانجام دیتی تھیں۔

    آپؓ کی زندگی کا ہر پہلو دنیا بھر کی خواتین کے لیے قابلِ تقلید ہے۔ بیٹی کی حیثیت سے آپؓ اپنے والدین پر فدا تھیں۔ جنگ اُحد میں آپؓ نے رسول اکرمﷺ کے زخم دھوئے اور مرہم پٹی بھی کی۔ بیوی کی حیثیت سے آپؓ کی زندگی شوہر کی خدمت گزاری اور فرمانبرداری میں گزری اور ماں ہونے کی حیثیت سے آپؓ نے اپنی آغوش ان ہونہار جوانوں کو پالا پوسا جن کی قربانیوں نے اسلامی روایات کو زندہ رکھا۔ اللہ رب العزت نے حضرت فاطمہؓ کی اولاد میں بڑی برکت عطا فرمائی۔ سوانح نگار رقمطراز ہیں کہ حضرت فاطمہؓ کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ یعنی حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ، حضرت محسنؓ، حضرت زینبؓ اور حضرت اُمّ کلثومؓ۔ حضرت فاطمہؓ کی نسل حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے ذریعے دنیا میں باقی رہی۔دورِ جدید میں حضرت فاطمہؓ کی سیرتِ مبارکہ سے رہنمائی: مسلم خواتین دورِ حاضر میں حضرت فاطمہؓ کی سیرت پاک سے انتہا درجہ کی رہنمائی حاصل کرسکتی ہیں اور مسلم معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں الغرض ہماری خواتین حضرت فاطمہؓ کی سیرت پاک کے ایک ایک مبارک پہلو پر غور کریں اور عمل پیرا ہونے کی سعی کریں۔ اس طرح ایک پاکیزہ معاشرہ تشکیل پائے گا۔

  • موسمیاتی تبدیلی: بحالی کے لیے کوئی اقدام نہ کرنے کی قیمت – ڈاکٹر محمد سجاد

    موسمیاتی تبدیلی: بحالی کے لیے کوئی اقدام نہ کرنے کی قیمت – ڈاکٹر محمد سجاد

    یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ کارروائی نہ کرنے کی قیمت، کارروائی کرنے کی قیمت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ یہ بات خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک کے لیے درست ہے، جو عالمی جی ڈی پی میں 46 ویں نمبر پر ہے اور دنیا کی جی ڈی پی میں تقریباً 0.5% کا حصہ ڈالتا ہے، جبکہ اس کی معیشت امریکہ، چین اور بھارت جیسے بڑے ممالک کے مقابلے میں چھوٹی ہے۔

    سٹرن ماڈل کے تخمینوں اور بین الحکومتی موسمیاتی تبدیلی پینل (IPCC) کے مطابق، کارروائی نہ کرنے کی قیمت، کارروائی کرنے کی قیمت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ سٹرن ماڈل کے مطابق تمام شعبوں میں کارروائی نہ کرنے کی قیمت جی ڈی پی کا 20% ہے، جس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں اس کی سالانہ قیمت تقریباً 20,800 ارب پاکستانی روپے بنتی ہے، جبکہ IPCC کے تخمینے کے مطابق کارروائی کرنے کی قیمت جی ڈی پی کا 2.5% (یعنی 2,600 ارب پاکستانی روپے سالانہ) ہے۔ یہ تخمینے OECD کے تخمینوں سے ہم آہنگ ہیں، جو بتاتے ہیں کہ 2100 تک موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مجموعی اقتصادی نقصان جی ڈی پی کا 10-12% تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ طویل مدتی اقتصادی نقصان کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں۔

    اسی طرح خیبر پختونخواہ کی صورتحال بھی یہی رجحان ظاہر کرتی ہے۔ خیبر پختونخواہ میں موسمیاتی اثرات واقعی تشویشناک ہیں، جہاں صوبہ پہلے ہی سیلاب، قحط اور درجہ حرارت کی تبدیلی جیسے شدید موسمی واقعات کا سامنا کر رہا ہے، جو ماحولیاتی نظام، زراعت اور روزگار کے ذرائع پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔
    پاکستان کے اقتصادی سروے کے مطابق، ملک کی جی ڈی پی 103,880 ارب روپے ہے، جبکہ خیبر پختونخواہ کی صوبائی جی ڈی پی 10,530 ارب روپے ہے۔ اگر سٹرن ماڈل کو خیبر پختونخواہ کی جی ڈی پی کا 20% یعنی عدم کارروائی کی قیمت کے اندازے کے طور پر اپنایا جائے، تو اس صوبے میں عدم کارروائی کی تخمینی سالانہ قیمت 2,110 ارب روپے ہوگی۔ اس کے مقابلے میں، IPCC کے تخمینے کے مطابق کارروائی کی قیمت جی ڈی پی کا 2.5% ہے، جو سالانہ 265 ارب روپے کے برابر بنتی ہے۔ خیبر پختونخواہ کی متوقع جی ڈی پی کی شرح نمو اگلے چند سالوں میں 4.5% ہے (گو-کے پی)، جس سے عدم کارروائی اور کارروائی دونوں کی اقتصادی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ 2030 تک، عدم کارروائی کی قیمت 16,900 ارب روپے تک پہنچنے کی توقع ہے، جبکہ کارروائی کی قیمت کا تخمینہ 2,110 ارب روپے ہے۔

    پاکستان کے لیے موسمیاتی تبدیلیوں پر عدم کارروائی کی قیمت صرف اقتصادی نہیں، بلکہ انسانی زندگی کے لیے بھی سنگین نتائج کی حامل ہے۔ ملک کے پہلے ہی نازک نظام ماحولیاتی اثرات سے اپنی حدوں تک پہنچ چکے ہیں، اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو اس کے اثرات مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔ ماحولیاتی لچک میں سرمایہ کاری کر کے، پائیدار طریقوں کو اپنانے اور بین الاقوامی حمایت حاصل کر کے پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے بدترین اثرات کو کم کر سکتا ہے اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنا سکتا ہے۔ تاہم، فوری اقدامات ضروری ہیں کیونکہ بدترین نتائج سے بچنے کا موقع تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔

  • خوشیوں بھرا تہوار – حفیظہ بانو

    خوشیوں بھرا تہوار – حفیظہ بانو

    عید اسلامی کیلنڈر کا سب سے اہم تہوار ہے، جو ہر مسلمان کے لئے خوشی اور مسرت کا پیغام لاتا ہے۔ یہ دن خوشی کا دن ہوتا ہے جب ہم اپنے خاندان، دوستوں اور معاشرتی حلقوں کے ساتھ خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ تاہم، عید کی اصل حقیقت صرف خوشی منانے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس دن کو دوسروں کے ساتھ خوشیاں بانٹنے میں زیادہ اہمیت ہے۔

    عید کی خوشیوں کو بانٹ کر ہم نہ صرف اپنی خوشی بڑھا سکتے ہیں بلکہ معاشرتی ہم آہنگی اور بھائی چارے کا فروغ بھی کر سکتے ہیں۔ غریبوں، یتیموں، اور بے سہارا افراد کو عید کی خوشیوں میں شریک کرنا ہمارے معاشرتی فرض کا حصہ ہے۔ صدقہ، فطرہ، اور دیگر خیراتیں عید کے دن دینے سے ہمیں روحانی سکون ملتا ہے اور معاشرتی سطح پر ہم سب ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں۔

    عید کے دن صرف اپنی خوشیوں کو نہیں بلکہ دوسروں کی زندگیوں میں خوشیاں لانا ہم سب کا فرض ہے۔ جب ہم دوسروں کی مدد کرتے ہیں، تو نہ صرف ان کی زندگیوں میں تبدیلی آتی ہے بلکہ ہماری خوشیاں بھی دوبالا ہو جاتی ہیں۔ عید کو خوشیوں کا تہوار بنانے کے لئے ہمیں اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں بانٹنی چاہیے، تاکہ یہ دن حقیقت میں ایک خوبصورت اجتماعی جشن بنے۔