Category: ٹیکنالوجی

  • زمین میں نشانیاں ہیں – محمد عرفان ندیم

    زمین میں نشانیاں ہیں – محمد عرفان ندیم

    آپ گلوب یازمین کا نقشہ اپنے سامنے رکھیں اور اس پر غور کریں آپ کو ہر طرف رنگ و نور کی ایک دنیا دکھائی دے گی۔ پہاڑ، سمندر، دریا، جنگل، انسانی آبادیاں اور سیر و تفریح کے دلکش مقامات۔یہ سب کچھ اپنی جگہ معجزہ سہی لیکن اگر ہم ان سطحی مناظرسے آگے بڑھ کر دیکھیں تو یہ زمین اپنے اندرحیرت انگیز خزانے چھپائے ہوئے ہے۔

    اس زمینی سیارے کے اندر اللہ نے ایسی ایسی معدنیات اور خزانے چھپا رکھے ہیں جن کا ہمیں ابھی تک مکمل طور پر علم نہیں ہو سکا۔مثلا آپ سونے کو دیکھ لیں، سونا زمین کی گہرائی میں مختلف معدنی ذخائر کی صورت میں پاتا ہے۔ یہ عام طور پر چٹانوں اور دھاتی خام مال کے طور پر زمین کی گہرائی میں موجود ہے اور اس کی مقدار عالمی سطح پر تقریباً 170,000 ٹن تخمینہ لگائی گئی ہے۔

    سونا نہ صرف قیمتی دھات ہے بلکہ صنعتی اور الیکٹرانک آلات میں بھی استعمال ہوتاہے۔چاندی بھی ایک قیمتی دھات ہے جو زمین کے اندر مختلف تہوں کی صورت میں موجود ہے اور مجموعی طور پر اس کے تقریباً 5.4 بلین اونس کے ذخائر موجود ہیں۔

    چاندی کے ذخائر میکسیکو، چین، پیرو اور دیگر ممالک میں موجود ہیں۔ چاندی کا استعمال زیورات اور کرنسی کے طور پر کیا جاتا ہے جبکہ اس کا استعمال دیگر صنعتی مقاصد جیسے الیکٹرانکس اور سولر سیل کی تیاری میں بھی کیا جاتا ہے۔یورینیم ایک اہم دھات ہے جو زمین کی گہرائی میں دفن ہے۔ اس کا عالمی ذخیرہ تقریباً 5.5 ملین ٹن ہے اور یہ بڑے ذخائر کی صورت میں افریقہ اور قازقستان میں پایا جاتا ہے۔

    یورینیم کا استعمال بنیادی طور پر ایٹمی توانائی کی پیداوار میں ہوتا ہے۔ایلومینیم زمین میں سب سے زیادہ پائی جانے والی دھاتوں میں سے ہے۔

    یہ زیادہ تر بوکسائیٹ میں پائی جاتی ہے جو زمین کی سطح پر موجود ہوتی ہے۔ ایلومینیم کا عالمی ذخیرہ تقریباً 70 بلین ٹن تخمینہ لگایا گیا ہے اور یہ ذخائر بیشتر آسٹریلیا، گنی اور برازیل میں پائے جاتے ہیں۔ ایلومینیم کا استعمال زیادہ تر فضائی، تعمیراتی اور الیکٹرانک صنعتوں میں کیا جاتا ہے۔

    نکل ایک اور اہم دھات ہے جو زمین کی گہرائی میں پائی جاتی ہے۔ یہ دھات زمین کے اندر 1,500 کلو میٹر تک گہری تہوں میں پھیلی ہوئی ہے اور اس کا عالمی ذخیرہ تقریباً 80 ملین ٹن تخمینہ لگایا گیا ہے۔ نکل زیادہ تر آسٹریلیا، انڈونیشیا اور کینیڈا میں پایا جاتا ہے اور اس کا استعمال سٹیل کی صنعت اور بیٹریوں کی تیاری میں کیا جاتا ہے۔

    جست بھی ایک اہم دھات ہے جو زمین کی سطح کے قریب پائی جاتی ہے اور اس کا عالمی ذخیرہ تقریباً 250 ملین ٹن تخمینہ لگایا گیا ہے۔ جست کے ذخائر چین، آسٹریلیا اور پیرو میں زیادہ مقدار میں موجود ہیں۔ یہ دھات بنیادی طور پر تعمیرات، الیکٹرانکس اور صحت کے شعبوں میں استعمال ہوتی ہے۔

    سیسہ ایک اور دھات ہے جو زمین کی سطح پر پائی جاتی ہے اور اس کا تخمینہ عالمی سطح پر تقریباً 200 ملین ٹن ہے۔ سیسہ کے ذخائر زیادہ تر چلی، میکسیکو اور چین میں پائے جاتے ہیں اور اس کا استعمال بیٹریوں، عمارتوں اور دیگر صنعتی مصنوعات میں کیا جاتا ہے۔

    کرومائٹ کی بڑی مقدار جنوبی افریقہ، قازقستان اور ترکی میں موجود ہے۔ اس کا ذخیرہ تقریباً 250 ملین ٹن تخمینہ لگایا گیا ہے اور یہ زیر زمین پائی جاتی ہے۔ کرومائٹ ایک اہم دھات ہے جو کرومیم کی پیداوار کے لیے استعمال ہوتی ہے جو گاڑیوں کی ایگزاسٹ سسٹمز اور دیگر دھاتی مصنوعات میں استعمال ہوتی ہے۔

    کوئلہ زمین کے اندر بڑی مقدار میں موجود ہے اور اس کا عالمی ذخیرہ تقریباً 1.1 ٹریلین ٹن ہے۔ یہ ذخائر چین،پاکستان، امریکہ اور روس جیسے ممالک میں پائے جاتے ہیں اور اس کا استعمال توانائی پیدا کرنے میں کیا جاتا ہے۔ کوئلہ توانائی کا اہم وسیلہ ہے اور اس کا استعمال بیشتر صنعتوں اور بجلی گھروں میں ہوتا ہے۔

    تیل ایک قدرتی مائع ہے جو زمین کے مختلف حصوں میں دفن ہے۔ سعودی عرب،مشرق وسطیٰ، روس اور امریکہ جیسے ممالک میں تیل کے بڑے ذخائر موجود ہیں اور عالمی ذخیرہ تقریباً 1.7 ٹریلین بیرل تخمینہ لگایا گیا ہے۔ تیل کا استعمال توانائی کی پیداوار، پٹرول اور دیگر مائع مصنوعات کی تیاری میں کیا جاتا ہے۔

    قدرتی گیس زمین کی تہہ میں 1,000 میٹر سے 4,000 میٹر کی گہرائی میں پائی جاتی ہے۔ روس، پاکستان،قطر اور ایران جیسے ممالک میں اس کے سب سے بڑے ذخائر ہیں اور اس کا عالمی ذخیرہ تقریباً 6,000 ٹریلین کیوبک فٹ ہے۔ قدرتی گیس کا استعمال توانائی پیدا کرنے اور مختلف صنعتی مقاصد میں کیا جاتا ہے۔

    ماربل زمین کی سطح کے قریب پائے جانے والے چٹانی ذخائر ہیں۔ ماربل کا عالمی ذخیرہ اٹلی،پاکستان، بھارت اور چین جیسے ممالک میں موجود ہے۔ اس کا استعمال عمارات کی تعمیر اور سجاوٹ میں کیا جاتا ہے۔

    نمک ایک اہم معدنی ذخیرہ ہے جو زمین کی سطح پر بڑی مقدار میں موجود ہے اور اس کا عالمی ذخیرہ تقریباً 70 بلین ٹن تخمینہ لگایا گیا ہے۔ نمک چین، پاکستان،امریکہ اور بھارت جیسے ممالک میں بڑے ذخائر میں پایا جاتا ہے اور اس کا زیادہ استعمال کھانے کی صنعت میں کیا جاتا ہے۔

    قیمتی پتھر جیسے ہیرا، یاقوت اور زمرد زمین کے مختلف حصوں میں چھپے ہوتے ہیں۔ جنوبی افریقہ اور روس میں ہیروں کے بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ یہ ذخائر زیادہ تر زیر زمین ہوتے ہیں اور ان کا تخمینہ لگانا مشکل ہے ۔ قیمتی پتھروں کا استعمال زیورات کی صنعت میں کیا جاتا ہے۔

    پلاٹینم ایک نایاب اور قیمتی دھات ہے جو زمین کی گہرائی میں پائی جاتی ہے، اس کا عالمی ذخیرہ تقریباً 70,000 ٹن لگایا گیا ہے اور یہ زیادہ تر زیر زمین پائی جاتی ہے۔ پلاٹینم کا استعمال زیورات، موٹر انڈسٹری اور دیگر صنعتی مصنوعات میں کیا جاتا ہے۔گندھک زمین کی سطح اور گہرائی میں پائی جاتی ہے۔ یہ زیادہ تر چین اور اٹلی میں موجود ہے۔

    گندھک کا استعمال کیمیکلز کی تیاری، زراعت میں کھاد کی صنعت اور دیگر صنعتی مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے۔فاسفیٹ زمین کی سطح پر مختلف علاقوں میں پائی جاتی ہے، اس کا عالمی ذخیرہ تقریباً 70 بلین ٹن ہے اور اس کا استعمال کھاد کی صنعت میں کیا جاتا ہے۔

    ذراتصور کریں ایک ایسی گیند جس کا قطر 12,742 کلومیٹر اوراس کے اند ر71 فیصد پانی اور صرف 29 فیصد خشکی ہے،وہ ان سب معدنیات، دھاتوں او ر خزانوں کے ساتھ اربوں سالوں سے خلا میں میںنہ صرف موجود ہے بلکہ ہزاروں میل فی گھنٹہ کے حساب سے دوڑ رہی ہے ، یہ ہماری زمین اور اس کی حقیقت ہے۔ ایک نہایت پیچیدہ اور حسین نظام جس کے ہر ذرے میں اللہ کی حکمت اور قدرت کی نشانیاں موجود ہیں۔ اور سب سے عجیب بات یہ کہ اتنی بڑی کائنات میں جہاں ان گنت کہکشائیں پھیلی ہوئی ہیں صرف زمین وہ واحد سیارہ ہے جہاں زندگی کا وجود ہے۔

    اسی لیے اللہ نے قرآن میں باربارزمین کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے اپنے نشانی ڈکلیئر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس میں نشانیاں ہیں ایمان لانے والوں کے لیے ۔

  • قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے – محمد کامران خان

    قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے – محمد کامران خان

    کیا آپ نے کوئی بھی ڈیجیٹل اکاؤنٹ جیسا کہ فیس بک، ایکس(سابقہ ٹوئٹر) انسٹاگرام، ٹک ٹاک یا سنیپ چیٹ وغیرہ بناتے ہوئے کبھی “ٹرمز اینڈ کنڈیشنز” پڑھنے کی زحمت کی؟ ہم میں سے بہت سے لوگ ان کو بنا پڑھے ہی ان سے “متفق” ہونے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ ہم روزانہ نہ جانے کتنی ایپس ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں، اکاؤنٹس بناتے ہیں، اور شرائط و ضوابط پڑھے بغیر “I Agree” کے بٹن پر کلک کر دیتے ہیں اور یہی سب سے بڑی غلطی ہے۔ جیسے ہی ہم یہ بٹن دباتے ہیں، ہم جانے انجانے میں ایپ کو اپنے فون تک رسائی دے دیتے ہیں، چاہے وہ ہماری لوکیشن ہو، مائک ہو، کیمرہ ہو، یا ہماری تصاویر اور کانٹیکٹس۔ یہ سب کچھ ایک بار نہیں، بلکہ ہمیشہ کے لیے ان کے پاس محفوظ ہو جاتا ہے۔

    یہ صرف ایپس تک محدود نہیں۔ انٹرنیٹ پر ہم جس ویب سائٹ پر بھی جاتے ہیں، وہ ہم سے کوکیز قبول کرنے کا مطالبہ کرتی ہے، اور ہم بغیر سوچے سمجھے “Accept All” پر کلک کر دیتے ہیں۔ لیکن یہی کوکیز خاموشی سے ہماری آن لائن سرگرمیوں کا مکمل نقشہ بنا رہی ہوتی ہیں۔ یہ صرف ہمیں لاگ ان رکھنے کے لیے نہیں ہوتیں، بلکہ ہماری سرچ ہسٹری، براؤزنگ پیٹرنز، اور یہاں تک کہ ہماری شخصیت کو بھی ٹریک کرتی ہیں۔ یہی وہ اجازت ہے جس کا تذکرہ میں سابقہ تحریر میں کر چکا کوں کہ کیسے یہ ڈیٹا ہماری مرضی کے اشتہارات دکھانے میں کام لایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اگر ہم ایک بار کسی پروڈکٹ کو سرچ کر لیں، تو پھر ہمیں ہر جگہ اسی سے متعلق اشتہارات دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اس تحریر میں ٹیکنالوجی کے اس شطر بے مہار کاریگری کا کام اور اس کے نقصانات کا جائزہ آپ کی خدمت میں پیش کروں گا اور اس سے بچنے کی بھی تدابیر زیر بحث لاؤں گا۔ اب واپس کوکیز کی طرف چلتے ہیں، ویب سائٹ پر آپ کی معلومات و معمولات کی نگرانی ناصرف عام کوکیز بلکہ اس سے بڑھ کر ٹریکر کوکیز اور ڈیجیٹل فنگر پرنٹنگ کی مدد سے کی جاتی ہے، جو نہ صرف ہماری ایک ویب سائٹ سے دوسری ویب سائٹ تک نگرانی کرتی ہیں بلکہ اگر ہم کوکیز ڈیلیٹ بھی کر دیں، تو بھی ہمیں ٹریک کیا جا سکتا ہے اور اس سب کی ہم خود انجانے میں اجازت دیتے ہیں۔ 2019 میں گوگل نے خود تسلیم کیا کہ 80% سے زیادہ ویب سائٹس ایسی کوکیز استعمال کر رہی ہیں جو صارف کی تمام آن لائن سرگرمیوں کو فالو کرتی ہیں۔ کچھ ویب سائٹس تو براہ راست اشتہاری کمپنیوں اور ڈیٹا بروکرز کو یہ معلومات بیچ دیتی ہیں، جس سے ہمیں نہ صرف ہدف بنا کر اشتہارات دکھائے جاتے ہیں بلکہ ہمارا ڈیٹا کسی بھی نامعلوم مقصد کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔

    یہ سب صرف ایک مفروضہ نہیں، بلکہ ڈیجیٹل دنیا کی ایک بھیانک حقیقت ہے، اس کی ایک مثال کیمرج اینالیٹکا اسکینڈل ہے جس میں 87 ملین صارفین کا ڈیٹا غیر قانونی طور پر لیا گیا اور سیاسی مقاصد کے لیے بیچا گیا۔ فیس بک اور گوگل جیسی کمپنیاں مسلسل ہمارے ڈیٹا پر نظر رکھتی ہیں، اور پھر انہی معلومات کی بنیاد پر ہمیں وہی چیزیں دکھائی جاتی ہیں جو ہمارے دماغ میں چل رہی ہوتی ہیں۔ کئی لوگ یہ تجربہ کر چکے ہیں کہ اگر وہ کسی دوست کے ساتھ کسی پروڈکٹ کے بارے میں بات کریں، تو چند منٹ بعد انہیں اس کا اشتہار نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے؟ نہیں، بلکہ ہمارے فون میں موجود مائک مسلسل ہمیں سن رہا ہوتا ہے، خاص طور پر اگر ہم نے کسی ایپ کو مائک کے استعمال کی اجازت دے رکھی ہوتی ہے۔

    اسی طرح، لوکیشن ڈیٹا بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔ کئی ایپس، جنہیں ہماری لوکیشن کا کوئی کام نہیں، وہ بھی اس کی اجازت لیتی ہیں۔ جیسے ایک سادہ گیم یا فلیش لائٹ ایپ کو ہماری لوکیشن جاننے کی کیا ضرورت ہے؟ دراصل، یہ کمپنیاں اس ڈیٹا کو اشتہاری کمپنیوں اور بعض اوقات خفیہ ایجنسیوں کو بیچ دیتی ہیں۔ اسی لیے کئی ممالک میں TikTok جیسے ایپس پر پابندی لگا دی گئی ہے کیونکہ ان پر الزام تھا کہ وہ صارفین کی لوکیشن اور ڈیٹا چوری کر رہی ہیں۔

    معاملہ اگر اشتہارات دکھانا اور تشہیری مقاصد کے لئے ڈیٹا چوری کرنا ہوتا تو کچھ نرمی برتی جا سکتی تھی مگر اب یہ سب صرف ڈیٹا چوری تک محدود نہیں رہا۔ معاملہ اس سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہو چکا ہے کیونکہ AI اور Deepfake ٹیکنالوجی اتنی آگے جا چکی ہے کہ اب چند سیکنڈ کی ریکارڈ شدہ آواز یا ایک عام تصویر سے کچھ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ 2020 میں ہانگ کانگ میں ایک CEO کو دھوکہ دیا گیا، جب ایک ہیکر نے AI کی مدد سے اس کے باس کی آواز کا ہوبہو نقل تیار کر کے 35 ملین ڈالر ایک جعلی اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروا لیے۔ اب ذرا سوچیئے، اگر کوئی ہماری چند سیکنڈ کی ریکارڈ شدہ آواز سے ہمارا جعلی فون کال بنا دے، یا ہماری عام سی تصویر سے ڈیپ فیک ویڈیو بنا دے، تو اس کے نقصانات کی لسٹ بنانا ہی مشکل ہے۔

    یہ خطرہ ہر کسی کے لیے ہے، چاہے وہ عام انسان ہو یا کوئی بڑی شخصیت۔ 2023 میں Deepfake کے ذریعے ہونے والے جرائم میں 300 فیصد اضافہ ہوا، اور کئی مشہور شخصیات کی جعلی ویڈیوز وائرل ہو چکی ہیں، جن میں ان کے چہرے اور آواز کا مکمل غلط استعمال کیا گیا۔ اگر آج AI کسی فلمی اداکار کی جعلی ویڈیو بنا سکتا ہے، تو کل یہی ٹیکنالوجی کسی عام انسان کے خلاف بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ یہ بلیک میلنگ، جھوٹے الزامات، اور فیک نیوز کے لیے ایک زہریلا ہتھیار بن چکا ہے۔

    اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان خطرات سے کیسے بچا جائے؟
    سب سے پہلے، اپنی پرائیویسی کو سنجیدگی سے لینا شروع کریں۔ یہ نہ سوچیں کہ “میرے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں” کیونکہ آج نہیں تو کل یہی لاپرواہی کسی بڑی مصیبت میں بدل سکتی ہے۔

    ایپس کی غیر ضروری اجازتیں بند کریں۔ اگر کسی ایپ کو مائک، کیمرہ، یا لوکیشن کی ضرورت نہیں تو اسے فوراً ڈس ایبل کر دیں۔ خاص طور پر فری ایپس پر زیادہ اعتماد نہ کریں، کیونکہ اکثر ان کا بزنس ماڈل ہی ڈیٹا بیچنے پر مبنی ہوتا ہے۔ غیر معروف کمپنیوں کی اپلیکیشنز ضرورت کے وقت انسٹال کریں اور بعد میں یا تو ڈیلیٹ کر دیں یا پھر اسکا ڈیٹا مکمل طور پر ختم کر کے پھر موبائل میں رکھیں۔

    مضبوط پاس ورڈز اور دو فیکٹر تصدیق (2FA) کا استعمال کریں۔ ایک ہی پاس ورڈ ہر جگہ مت لگائیں، اور جہاں ممکن ہو 2FA آن کریں تاکہ کوئی آپ کے اکاؤنٹ میں آسانی سے داخل نہ ہو سکے۔

    کوکیز اور براؤزر سیٹنگز کا خیال رکھیں۔ ہر ویب سائٹ پر “Accept All” مت دبائیں، بلکہ صرف ضروری کوکیز کی اجازت دیں۔ وقتاً فوقتاً براؤزر کی کوکیز صاف کریں، اور “Do Not Track” آپشن کو آن رکھیں۔

    اور پرائیویسی فوکسڈ براؤزرز استعمال کریں۔ بریو، ڈک ڈک گو کی بجائے گوگل کروم یا فائر فاکس جیسے براؤزر بہتر آپشن ہیں، جو ٹریکرز کو بلاک کرتے ہیں۔

    مصنوعی ذہانت سے بچاؤ کے لیے اپنی تصاویر اور ویڈیوز محدود رکھیں۔ ہر جگہ اپنی تصویریں اپ لوڈ کرنے سے گریز کریں، خاص طور پر ایسی ویب سائٹس پر جو مشکوک لگیں یا اپنی تصاویر کو عوامی ویب سائٹس پر کھلے عام نا رکھیں جیسا کہ انسٹاگرام وغیرہ پر مت رکھیں اسی طرح وائس نوٹس بھیجتے ہوئے خاص خیال رکھیں۔ واٹس ایپ پر گروپس اور نامعلوم افراد کو وائس نوٹ کرنے سے گریز کریں اور اپنی تصویر کی پرائیویسی بھی صرف اپنے کانٹیکٹس تک محدود کر لیں۔

    مائک اور کیمرہ پر نظر رکھیں۔ کچھ ایپس پس پردہ آپ کے مائک تک رسائی رکھتی ہیں، اس لیے وقتاً فوقتاً چیک کریں کہ کون سی ایپ کب مائک اور کیمرہ استعمال کر رہی ہے۔

    اگر ممکن ہو تو پرائیویسی فوکسڈ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استعمال کریں۔ Meta (فیس بک، انسٹاگرام) اور TikTok جیسی ایپس مسلسل ڈیٹا اکٹھا کرتی ہیں، اس لیے ان کی سیٹنگز چیک کریں اور ضرورت کے مطابق پرائیویسی کنٹرول کریں۔

    جہاں ٹیکنالوجی نے بہت سی آسانیاں پیدا کی ہھں وہاں مشکلات میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے، خصوصاً جب آپ ٹیکنالوجی کے مکمل استعمال سے ناواقف ہوں۔ ڈیجیٹل دنیا میں پرائیویسی کا تحفظ اب کوئی چھوٹی بات نہیں، بلکہ یہ ہماری شناخت، سیکیورٹی، اور حتیٰ کہ زندگی کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اگر آج ہم نے احتیاط نہ کی، تو کل کو ہماری ہی آواز، تصویر، یا ویڈیو ہمارے خلاف استعمال ہو سکتی ہے، اور ہم یہ بھی ثابت نہیں کر سکیں گے کہ وہ اصلی ہے یا جعلی۔

    اس سلسلے کی پہلی تحریر ملاحظہ کریں
    ٹارگٹڈ ایڈز – دور جدید کا ایک شاہکار جادو

  • ٹارگٹڈ ایڈز – دور جدید کا ایک شاہکار جادو – محمد کامران خان

    ٹارگٹڈ ایڈز – دور جدید کا ایک شاہکار جادو – محمد کامران خان

    کیا کبھی ایسا ہوا کہ آپ نے چائے کے دوران گپ شپ میں کسی دوست کے ساتھ کسی چیز کے بارے میں گفتگو کی اور چند لمحوں بعد اسی سے متعلق اشتہارات آپ کی فیسبک یا انسٹاگرام فیڈ میں آنے لگیں؟ یقیناً ہوا ہوگا۔ بلکہ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے صرف سوچا ہو کسی چیز کا یا تھوڑی سی اس سے ملتی جلتی چیزوں میں دل چسپی ظاہر کی اور وہ چیز پٹ سے حاضر۔ ہے نا جادو؟ یہ ہے ٹیکنالوجی کا جادو ، اس جادو کو “ٹارگٹڈ ایڈز” کہتے ہیں۔ ٹارگٹڈ ایڈز جدید ڈیجیٹل دنیا کا وہ پہلو ہیں جو ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ ذہین، زیادہ مربوط اور زیادہ ناقابلِ گریز بنتے جا رہے ہیں۔ یہ اشتہارات محض اتفاقیہ نہیں ہوتے، بلکہ جدید ترین مصنوعی ذہانت، مشین لرننگ، اور انسانی رویوں کے باریک بینی سے کیے گئے تجزیے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ ٹارگٹڈ ایڈز صرف انٹرنیٹ پر کی جانے والی سرگرمیوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ کون سی ویڈیو کتنی دیر دیکھی گئی، کون سا اشتہار اسکرول کرتے وقت نظرانداز کیا گیا اور کون سا اشتہار ایسا تھا جس پر کلک کیا گیا۔ مگر کچھ مشاہدے اور کچھ تجربات کے بعد اب یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ اشتہارات کے یہ نظام محض آن لائن سرگرمیوں تک محدود نہیں رہے، بلکہ انسانی جذبات، فزیالوجیکل ردعمل اور نفسیاتی رجحانات تک کی تفصیل میں اتر چکے ہیں۔کیسے؟ آئیے چند کڑیاں جوڑتے ہیں۔

    انسانی آنکھیں بہت کچھ کہتی ہیں۔ جب کوئی چیز دلچسپ لگتی ہے تو پتلیاں پھیل جاتی ہیں، جب کوئی چیز ناپسندیدہ ہوتی ہے تو چہرے کے تاثرات بدل جاتے ہیں، آنکھوں کی حرکت کسی بھی چیز کی طرف کشش یا بیزاری کا اظہار کرتی ہے۔ ماضی میں یہ ممکن نہیں تھا کہ کوئی مشین ان اشاروں کو پڑھے، سمجھے اور ان کی بنیاد پر تجزیہ کرے، مگر اب ایسا ہو رہا ہے۔ جدید ترین ڈیپ لرننگ ماڈلز اور کمپیوٹر ویژن کے ذریعے کیمرے نہ صرف چہرے کے تاثرات کو پڑھ رہے ہیں، بلکہ ان میں چھپی دلچسپی، خوشی، حیرت اور بیزاری کو بھی شناخت کر رہے ہیں۔ یہ صلاحیت کسی ایک مخصوص شعبے تک محدود نہیں رہی، بلکہ روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی عام ٹیکنالوجیز میں ضم ہو چکی ہے۔اس کی مثالیں ہمیں عام زندگی میں ملتی ہیں جن میں ایک فیچر فیس آئی ڈی ہے۔ یہ ایک ایسا فیچر تھا جسے سہولت کے طور پر متعارف کروایا گیا۔ اس کا بنیادی مقصد چہرے کی شناخت کے ذریعے ڈیوائس کو کھولنا تھا، مگر یہ ٹیکنالوجی وقت کے ساتھ ایک وسیع تر نیٹ ورک کا حصہ بن چکی ہے۔ ہر بار جب کسی ڈیوائس کا فیس آئی ڈی استعمال کیا جاتا ہے، وہ چہرے کے مختلف زاویوں، تاثرات اور روشنی میں آنے والی تبدیلیوں کو ریکارڈ کرتا ہے۔ مصنوعی ذہانت ان تمام ڈیٹا پوائنٹس کو استعمال کر کے چہرے کی شناخت کو بہتر بناتی ہے، مگر اسی کے ساتھ چہرے کے تاثرات اور جذباتی ردعمل کو بھی سمجھنے کے قابل ہو جاتی ہے۔ یہی ٹیکنالوجی جب اشتہارات کے نظام میں شامل ہوتی ہے تو یہ محض آنکھوں کے جھپکنے، چہرے کے تاثرات اور آنکھوں کی پتلیوں کی حرکت سے اندازہ لگا لیتی ہے کہ کوئی چیز واقعی دلچسپ ہے یا نہیں۔

    اب اس پہلوکو مزید وسعت دیتے ہیں۔ اس میں اگر آپ کے روزانہ کے رویے، گفتگو، ذاتی معلومات و ذاتی دلچسپیاں ، دن بھر کے معاملات کی ایک ڈائری بنائی جائے تو کیا ایک ہفتہ وہ ڈائری پڑھنے کے بعد آپ کے معمولات اور اگلے روز کے بیشتر حصے کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں؟ خصوصاً جب پیش گوئی کرنے والا آپ کے ہر عمل سے بخوبی واقف اور بہترین یاد داشت کا حامل ہو۔ ٹارگٹڈ ایڈز میں آپ کی موبائل ڈیوائس بالکل یہی کام کرتی ہے۔ اسمارٹ واچز اور دیگر وئیرایبل ڈیوائسز بھی اسی بڑے ڈیٹا نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ جب کوئی اسمارٹ واچ دل کی دھڑکن نوٹ کرتی ہے، بلڈ پریشر مانیٹر کرتی ہے، نیند کے پیٹرنز کا تجزیہ کرتی ہے، تو یہ سب صرف صحت کی نگرانی کے لیے نہیں ہو رہا ہوتا۔ ان ڈیٹا پوائنٹس سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کسی خاص لمحے میں جسمانی ردعمل کیا تھا، کون سا اشتہار دیکھتے وقت دل کی دھڑکن تیز ہوئی، کب بلڈ پریشر میں معمولی سا اضافہ ہوا، اور کب کوئی ردعمل بالکل ہی غیر محسوس رہا۔ ان تمام معلومات کو جمع کر کے مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایک انتہائی پیچیدہ مگر مؤثر ماڈل بنایا جاتا ہے، جو ہر فرد کی دلچسپیوں، رجحانات اور ممکنہ خریداری کے فیصلوں کو پہلے سے سمجھ لیتا ہے۔

    یہ سارا عمل روایتی مشین لرننگ کے طریقوں سے بھی کافی حد تک ممکن تھا مگر اب جدید اور تیز ترین کام کرنے والے کمپیوٹرز ، نیرومورفک چپس اور جدید ترین مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کی وجہ سے یہ سب چند لمحوں میں ہو رہا ہے۔ پہلے جہاں ایک اشتہار کے مؤثر ہونے کا اندازہ صارف کی کلک، اسکرولنگ اور ویڈیو دیکھنے کے وقت کی بنیاد پر لگایا جاتا تھا، اب یہ اس اشتہار کو دیکھنے والے شخص کی آنکھوں، چہرے، دل کی دھڑکن اور دیگر جسمانی ردعمل سے لگایا جا رہا ہے اس کے علاوہ ہنارے ارد گرد موجود آلات جیسا کہ موبائل میں موجود کیمرہ، سپیکر اس سب عمل کو مکمل کرنے میں مدد دیتے ہیں اور خودکار نہیں بلکہ ہماری اجازت سے۔

    یہ سب کچھ صرف خرید و فروخت تک محدود ہوتا تو کافی تھا، مگر اب چلتے ہیں اس کے خطرناک پہلو کی طرف۔
    یہ سلسلہ اب فیصلہ سازی پر براہِ راست اثرانداز ہونے لگا ہے۔ جب کسی فرد کی ہر حرکت، ہر ردعمل، ہر سوچ کی پیمائش ہونے لگے، تو اسے اپنی مرضی سے کسی فیصلے تک پہنچنے کے مواقع کم سے کم دیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ، اگر مجھے علم ہو کہ آپ ایک نیا جوتا یا کپڑوں کا جوڑا خریدنا چاہ رہے ہیں تو میں بار بار آپ کو ایسے دکانداروں کے بارے میں بتاؤں گا جو کہ میرے ذریعے اپنے کاروبار کی تشہیر چاہتے ہیں۔ اب آپ صرف جوڑا یا جوتے خریدنا چاہ رہے تھے۔ بالکل وہی نہیں خریدنا چاہ رہے تھے جو میں آپ کو دکھا رہا ہوں ۔ مگر میرے اس عمل کو بار بار دہرانے سے آپ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہی تو ہے جو میں چاہتا ہوں۔ درحقیقت ہوگا ایسا نہیں۔ آپ ابھی اور آپشنز دیکھنا چاہتے تھے۔ یا شاید کچھ عرصہ اس ارادے کو عملی جامہ نہیں پہنانا چاہتے تھے مگر بار بار سامنے آنے پر آپ کے ارادے میں واضح تبدیلی ہوئی۔ یعنی میں نے محدود انتخاب دیے تاکہ کسی خاص سمت میں سوچنے پر مجبور کر سکوں،اور پھر آپ سے متعلق معلومات جو میرے پاس جمع تھیں، آپ کی پسند نا پسند، روز مرہ کا استعمال اوراگر مجھے آپ کی مالی حالت کا بھی اندازہ ہو تو پھر تو کیا ہی کہنے (جو کہ آپ کے آن لائن شاپنگ سے بخوبی لگا لیا جاتا ہے) ان پہلوؤں کو مدنظر رکھ کرآپ کے انتخاب کو جذباتی اور نفسیاتی طور پر زیادہ موثر بنا کر آپ کو پیش کیا گیا اور آپ پھر انکار ہی نہیں کر پائے اس اشتہار کو۔ کوئی اشتہار کیوں زیادہ پرکشش محسوس ہوتا ہے، کیوں بعض مخصوص موضوعات کے اشتہارات بار بار نظر آتے ہیں، یہ سب اتفاق نہیں ہوتا بلکہ شعوری طور پر طے شدہ حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے۔اب جیسا کہ ان بنیادوں پر میں نے آپ کی خریداری کا فیصلہ تبدیل ، جلد یا آپ کی مرضی کے کافی حد تک منافی کر دیا، سوچیں اگر اسی الگورتھم کو ووٹ دینے کی صلاحیت، اپنے لئے کچھ چننے کی صلاحیت پر نافذ کیا جائے تو آپ کی زندگی میں کتنے ہی فیصلے ہوں گے جو کہ آپ نے مکمل طور پر خود کیے؟ ایک چھوٹی سی مثال آپ کےسوچنے کے لئے اور چھوڑ دوں، ایلون مسک نے ٹوئٹر کو چوالیس ارب ڈالر میں صرف عوام کی بھلائی اور آزادی رائے کے لیے خریدا یا اس الگورتھم کو۔

    یہ تصور کہ انسان اپنے فیصلے خود کر رہا ہے، مصنوعی ذہانت کے اس نئے مرحلے میں کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ جب کوئی نظام کسی شخص کے جذبات، اس کے رویے اور اس کے ممکنہ ردعمل کو پہلے سے جان لے، تو اسے اس سمت میں دھکیلنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے جہاں وہ خود جانا نہیں چاہتا تھا۔ اب صرف معلومات فراہم نہیں کی جا رہی، بلکہ معلومات اس انداز میں دی جا رہی ہیں کہ سوچنے، تجزیہ کرنے اور سوال اٹھانے کی گنجائش کم سے کم ہو جائے۔یہ اثرات ہر جگہ محسوس کیے جا رہے ہیں، مگر سب سے زیادہ ان علاقوں میں جہاں ٹیکنالوجی کو صرف ایک سروس سمجھا جاتا ہے، مگر اس کے پیچھے کام کرنے والے پیچیدہ نظاموں پر غور نہیں کیا جاتا۔ جو علاقے پہلے “تجربہ گاہ” کے طور پر استعمال ہوتے تھے، اب وہ نئی ٹیکنالوجیز کے لیے آزمائشی میدان بن چکے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے انسانی نفسیات کو کس حد تک سمجھا جا سکتا ہے، اسے کتنا قابو کیا جا سکتا ہے، اور کسی بھی رجحان کو کیسے طاقت دی جا سکتی ہے، یہ سب کچھ ان ہی جگہوں پر آزمایا جا رہا ہے جہاں شعور کی سطح کمزور ہے اور سوال اٹھانے کا رجحان ناپید ہوتا جا رہا ہے۔

    یہ محض ایک مفروضہ نہیں، بلکہ حقیقت ہے جس کی بنیاد جدید ترین تحقیق پر ہے۔ فیصلہ سازی کی آزادی، معلومات تک رسائی کا حق، اور کسی بھی موضوع پر آزادانہ رائے قائم کرنے کی صلاحیت آہستہ آہستہ کمزور پڑ رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت نہ صرف یہ سمجھ رہی ہے کہ انسان کیا چاہتا ہے، بلکہ یہ بھی طے کر رہی ہے کہ اسے کیا چاہنا چاہیے۔

    یہ سوچنا کہ یہ سب کچھ ابھی دور ہے، ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ یہ سب کچھ پہلے سے موجود ہے، کام کر رہا ہے اور ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی سے انکار ممکن نہیں، مگر یہ سوچنا کہ اس ترقی کا کوئی منفی پہلو نہیں ہوگا، سراسر غفلت ہے۔ وقت ہے کہ اس نظام کو سمجھا جائے، اس کے اثرات کا تجزیہ کیا جائے، اور آزادانہ سوچ اور فیصلہ سازی کے حق کو محفوظ رکھنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ بصورتِ دیگر، وقت کے ساتھ سوچنے کا عمل خودکار ہو جائے گا اور فیصلے وہی ہوں گے جو پہلے سے کسی اور نے طے کر دیے ہوں گے۔

  • پاکستان میں ای کامرس کا مستقبل: چیلنجز اور مواقع – مزمل خان

    پاکستان میں ای کامرس کا مستقبل: چیلنجز اور مواقع – مزمل خان

    پاکستان میں آن لائن خریداری کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ انٹرنیٹ تک رسائی اور اسمارٹ فون کے بڑھتے استعمال کے باعث پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ لوگ آن لائن خریداری کو ترجیح دیتے ہیں۔ آن لائن خریداری روزمرہ زندگی کا معمول بنتی جا رہی ہے۔ گھریلو خواتین کے لئے بطورخاص یہ کسی نعمت سے کم نہیں۔ عالمی کمپنیاں پاکستان کو ایک بڑی ای کامرس منڈی کے طور پر دیکھتی ہیں۔ چینی کمپنیاں مارکیٹ پر قبضہ کر رہی ہیں۔ جبکہ مقامی کاروبار اور مینوفیکچررز اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ حکومت کے پاس ای کامرس کی کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ مقامی کاروباروں کی حفاظت کے لیے فوری اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔

    چینی ای کامرس پلیٹ فارم علی بابا کی ملکیت، دراز، پاکستان میں سب سے بڑا آن لائن مارکیٹ پلیٹ فارم ہے۔ یہ مقامی مصنوعات کے ساتھ ساتھ سستی چینی مصنوعات پیش کرتا ہے۔ حال ہی میں ایک اور چینی کمپنی، ٹیمو نے بھی مارکیٹ میں اپنے کاروبار کا آغاز کیا ہے۔ یہ چین سے براہ راست کم لاگت کی اشیاء پاکستان میں فروخت کے لئے پیش کرتا ہے۔ علی ایکسپریس کئی سالوں سے مقبول رہا ہے۔ یہ پلیٹ فارمز کم قیمتوں اور متواتر رعایتوں کے ساتھ پاکستانی صارفین کو متوجہ کرتے ہیں۔ ان کے پاس مضبوط سپلائی چین، موثر ڈیلیوری نیٹ ورک اور جارحانہ مارکیٹنگ حکمت عملیاں ہیں، جس کی وجہ سے مقامی برانڈز کے لیے مقابلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

    مقامی مینوفیکچررز اور ای کامرس برانڈز سنگین چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستانی کاروبار چینی مصنوعات کی کم قیمتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ بہت سے مقامی فروخت کنندگان کاروبار میں رہنے کے لیے درآمد شدہ اشیاء پر انحصار کرتے ہیں۔ چھوٹے کاروبار پیداوار، ٹیکس اور لاجسٹکس کی ناکافی سہولیات سے دوچار ہیں۔ پاکستان میں تیار کردہ مصنوعات کی طلب کم ہو رہی ہے۔ غیر ملکی پلیٹ فارمز مارکیٹ کا زیادہ تر حصہ کنٹرول کرتے ہیں، جس سے مقامی کھلاڑیوں کے لیے بہت کم جگہ بچتی ہے۔

    حکومت کے پاس کوئی منظم اور واضع ای کامرس پالیسی کا فقدان ہے۔ غیر ملکی پلیٹ فارمز کے لیے کوئی واضح اور موئژ قواعد و ضوابط موجود نہیں ہیں۔ چینی کمپنیاں جیسے کہ ٹیمو بغیر کسی قابل ذکر ٹیکس ادا کیے آزادانہ طور پر کام کر رہی ہیں۔ مقامی کاروباروں کو مناسب حمایت نہیں ملتی۔ پاکستانی فروخت کنندگان کے لیے کوئی مضبوط تحفظ نہیں ہے۔ دوسرے ممالک میں اپنی مقامی صنعتوں کی حفاظت کے لیے قوانین ہیں۔ پاکستان میں ایسی پالیسیاں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ ضوابط کی عدم موجودگی نے غیر ملکی کمپنیوں کو غلبہ حاصل کرنے کی اجازت دی ہے۔ یہ مقامی معیشت کو کمزور کرنے کا باعث ہے۔لہذا ایک مربوط اور مناسب ای کامرس پالیسی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

    پاکستان کو اپنی مقامی انڈسٹری کی حفاظت کے لیے ایک مضبوط ای کامرس پالیسی کی ضرورت ہے۔ غیر ملکی پلیٹ فارمز کو مقامی کاروباروں کی طرح ٹیکس کے قواعد پر عمل کرنا چاہیے۔ سستی چینی مصنوعات پر درآمدی ڈیوٹی میں نظر ثانی کی جانی چاہیے۔ مقامی مینوفیکچررز کے لئے حوصلہ افزا پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو مقامی کاروباروں کے لیے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو فروغ دینا چاہیے۔ایسی پالیسیاں مرتب دینے کی ضرورت ہے جس سے پاکستانی اسٹارٹ اپس کے لئے کاروباری مواقع پیدا ہو سکیں۔ صارفین کی آگاہی مہمات کو مقامی مصنوعات خریدنے کے فوائد کو اجاگر کرنا چاہیے۔ درست پالیسیاں مقامی معیشت کو مضبوط بنائیں گی اور روزگار پیدا کریں گی۔

    ملکی معاشی ترقی کے لئے “میڈ ان پاکستان” مصنوعات کو فروغ دینا انتہائی ناگزیرہو چکا ہے۔ حکومت کو مقامی مینوفیکچررز کو مراعات فراہم کرنی چاہئیں۔ پاکستان میں موجود آن لائن مارکیٹ پلیسز کو پاکستانی برانڈز کو نمایاں کرنے کا پابند کرنا چاہئے ۔ ڈیجیٹل ادائیگیوں اور لاجسٹکس کی سہولیات کو بہتر بنایا جانا چاہیے۔ نجی شعبے اور حکومت کے درمیان تعاون مقامی ای کامرس کو فروغ دے سکتا ہے۔ چھوٹے کاروباروں کو ٹیکس کے فوائد ملنے چاہئیں۔ پاکستانی مصنوعات پر رعایتیں اور پروموشنز پیش کی جانی چاہئیں۔ مقامی ای کامرس انڈسٹری کو مضبوط بنانے سے درآمدات پر انحصار کم ہوگا۔

    مقامی کاروباری اداروں کواپنی کاروباری سرگرمیاں ڈیجیٹل کرنے کی حوصلہ افزائی اور مطلوب سہولیات فراہم کرنا ضروری ہے۔ بہت سے چھوٹے مینوفیکچررز کے پاس آن لائن اسٹورز قائم کرنے کی تکنیکی مہارت نہیں ہے۔ حکومت کو تربیتی پروگرام اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر مہیا کرنا چاہیے۔ مقامی سرمایہ کاروں کو ملکی ای کامرس پلیٹ فارمز میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ لاجسٹکس انفراسٹرکچر کو مضبوط کرنا بھی اہم کردار ادا کرے گا۔ ملک بھر میں بروقت ترسیل کو یقینی بنانے کے لیے ڈیلیوری نیٹ ورکس کو بڑھایا جانا چاہیے۔ ادائیگی کے طریقوں کو زیادہ موثر اور محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔ آن لائن لین دین میں اعتماد قائم کیا جانا چاہیے تاکہ صارفین کا اعتماد بڑھایا جا سکے۔

    پاکستان پوسٹ، حکومتی ملکیت والی ڈاک سروس، ڈیلیوری نیٹ ورکس کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اپنے وسیع انفراسٹرکچر اور ملک گیر ترسیل کے نظام کے ساتھ، یہ ای کامرس کاروباروں کے لیے سستی اور قابل اعتماد لاجسٹکس سپورٹ فراہم کر سکتی ہے۔ ڈیجیٹل ٹریکنگ، تیز پروسیسنگ، اور بہتر کسٹمر سروس کے ساتھ پاکستان پوسٹ کو جدید بنانا اس کی کارکردگی کو بہتر بنا سکتا ہے۔ ای کامرس پلیٹ فارمز کے ساتھ شراکت داری مقامی کاروباروں کو ملک بھر میں مصنوعات کی ترسیل میں مدد کر سکتی ہے اور یہاں تک کہ برآمدات کو آسان بنا سکتی ہے۔ اپنے موجودہ نیٹ ورک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، پاکستان پوسٹ پاکستان کے ای کامرس ایکوسسٹم کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

    یونیورسٹیوں اور دیگر تربیتی اداروں کومقامی ای کامرس اور ڈیجیٹل انٹرپرینیورشپ پر مرکوز کورسز متعارف کرانے چاہئیں۔جو کہ نا صرف نوجوانوں کواپنے کاروبار پروان چڑھانے کے مواقع فراہم کرے گا بلکہ ایک بہترین کاروباری ایکوسسٹم کی تخلیق اور پائیدار آن لائن کاروباروں کی تعمیر میں مدد کرے گی۔مرتب شدہ پالیسیاں ایسی کاروباری خواتین کے لیے بھی حوصلہ افزا ہونی چاہیے جو تیزی سے آن لائن کاروبار کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ خواتین کی قیادت والے اسٹارٹ اپس کی نشوونما اور حوصلہ افزائی کے لیے خصوصی مراعات متعارف کرائی جانی چاہییں۔

    پاکستان کے پاس ٹیکسٹائل، ہینڈی کرافٹس، کھیل، آلات جراحی، چمڑے کی اشیاء، اور زراعت میں مضبوط صنعتیں موجود ہیں۔ ان مصنوعات کی عالمی سطح پربہت زیادہ مانگ ہے۔ ای کامرس پلیٹ فارمز پاکستانی فروخت کنندگان کے لیے اپنی اشیاء برآمد کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ مقامی ای کامرس پاکستان کی برآمدات کو بھی بڑھا سکتا ہے۔ اگرچہ بہت سے مقامی کاروباری افراد اپنے طور پہ مقامی اشیا کو بین الاقوامی منڈیوں میں پیش کرتے ہیں۔ ایمازون پر اس وقت بہت سے پاکستانی مقامی اشیا کو امریکہ اور برطانیہ میں فروخت کر رہے ہیں۔ ان بڑے ای کامرس پلیٹ فارمز کے ساتھ حکومتی سطح پر تجارتی معاہدے پاکستانی کاروباروں کے لیے عالمی فروخت کو آسان بنا سکتے ہیں۔ لاجسٹکس سپورٹ، برآمدی سبسڈی، اور آسان کسٹمز طریقہ کار مقامی برانڈز کو بین الاقوامی مارکیٹوں تک پہنچنے میں مزید مدد کریں گے۔ اپنی ڈیجیٹل تجارت کی پالیسیوں کو مضبوط کرکے، پاکستان اپنی عالمی ای کامرس موجودگی کو بڑھا سکتا ہے اور برآمدی آمدنی میں اضافہ کر سکتا ہے۔

    پاکستان میں ای کامرس کا مستقبل جرات مندانہ فیصلوں پر منحصر ہے۔ حکومت کو مقامی کاروباروں کی حفاظت کے لیے مضبوط ضوابط لاگو کرنے چاہئیں۔ کاروباری افراد کو مقابلہ میں رہنے کے لیے اپنے کاروبار کو ڈیجیٹل کرنا ضروری ہے ۔ صارفین کو معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے مقامی برانڈز کی حمایت کرنی چاہیے۔ پاکستان میں عالمی ڈیجیٹل معیشت میں ایک اہم کردار ادا کرنے کی زبردست صلاحیت ہے۔ ایک اچھی طرح سے منظم ای کامرس پالیسی، ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری، اور مقامی مصنوعات کی ترویج طویل مدتی ترقی کو آگے بڑھائے گی۔ اگر تمام اسٹیک ہولڈرز درست اقدامات کریں، تو پاکستان ایک پائیدار اور خوشحال ڈیجیٹل مارکیٹ پلیس بنا سکتا ہے جو ہر کسی کو فائدہ پہنچائے۔

  • روایتی سے جدت کا سفر: چھوٹے کاروبار کے لیے ڈیجیٹل حل – مزمل خان

    روایتی سے جدت کا سفر: چھوٹے کاروبار کے لیے ڈیجیٹل حل – مزمل خان

    چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتےہیں۔ یہ لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کرتے ہیں، جدت طرازی کو فروغ دیتے ہیں اور ترقی کا پہیہ آگے بڑھاتے ہیں۔ مگر بہت سے کاروبار ابھی تک ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اپنانے میں بے حد پیچھے ہیں۔ ڈیجیٹل تبدیلی نہ صرف ترقی کی نئی راہیں کھولتی ہے بلکہ کام کی رفتار بڑھاتی ہے، اس سے ناصرف نئے بازاروں تک رسائی ملتی ہے۔ بلکہ دوردراز صارفین سے رابطے کا ایک موثر ذریعہ بھی ہے۔ مگر یہ سفر آسان نہیں ہے۔ کاروباری حضرات کو کئی مشکلات کا سامنا ہے—سرمایہ کی کمی، مہارتوں کی قلت، اور بنیادی ڈھانچے کے مسائل سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ یہاں ہم انہی چیلنجز کا تفصیل سے جائزہ لیں گے اور پاکستانی کاروباروں کے لیے مؤثر اور عملی حل پیش کریں گے۔

    پاکستان کی معیشت میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کا حصہ تقریبا 40 فیصد ہے۔ یہ 70 فیصد سے زائد افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل تبدیلی اب کوئی آپشن نہیں، بلکہ بقا کی ایک لازم شرط ہے۔ صارفین آن لائن سروسز کی توقع رکھتے ہیں۔ جبکہ حریف تیزی سے جدید ٹیکنالوجی اپنا رہے ہیں۔ جو کاروبار وقت کے ساتھ نہ بدلے، وہ پیچھے رہ جائیں گے۔ مگر جو وقت کے ساتھ جدت پسندی اپنائیں گے، ان کے لیے انعام بڑا ہے—بہتر پیداوار، وسیع تر رسائی، اور زیادہ منافع۔

    پاکستان میں کبھی ہر بازار میں ہاتھ والی گھڑیوں کی دکانیں عام تھیں۔ لوگ وقت دیکھنے کے لیے گھڑیاں خریدتے تھے، لیکن پھر موبائل فون آگئے۔ گھڑی کی دکانیں آہستہ آہستہ ناپید ہوتی گئیں کیونکہ وہ بدلتے وقت کے ساتھ نہ چل سکیں۔ یہی حال آج چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کا ہو سکتا ہے جو ڈیجیٹل تبدیلی کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ جو کاروبار آن لائن سروسز، ڈیجیٹل ادائیگیوں اور ای کامرس کی طرف نہیں جائیں گے، وہ ماضی کا حصہ بن سکتے ہیں—بالکل ان گھڑیوں کی دکانوں کی طرح۔

    ڈیجیٹل ٹولز پیسے مانگتے ہیں۔ سافٹ ویئر لائسنس سستے نہیں۔ ہارڈ ویئر اپ گریڈز بھی لاگت بڑھاتے ہیں۔ کلاؤڈ سروسزبھی سبسکرپشن مانگتی ہیں۔ پاکستان میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار پہلے ہی کم منافع پر چل رہے ہیں۔ بڑھتی مہنگائی اور بجلی کے نرخ مزید مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔

    ایسے میں اس کا حل یہ ہے کہ چھوٹے پیمانے پر آغاز کریں۔ مفت ٹولز سے فائدہ اٹھائیں۔ گوگل ورک اسپیس مفت ای میل اور ڈاکس فراہم کرتا ہے۔ واٹس ایپ بزنس بغیر کسی قیمت کے گاہکوں سے رابطے کی سہولت دیتا ہے۔ اوپن سورس ای آر پی سافٹ ویئرز اخراجات کم کر سکتے ہیں۔ مقامی سافٹ فیرکمپنیاں سستی ٹیکنالوجی سروسز دےسکتے ہیں۔ دوسرا اپنی سرمایہ کاری کو مختلف مراحل میں تقسیم کریں۔ جیسے کہ پانج ہزار ماہانہ کلاؤڈ پلان ایک ساتھ ادا کرنے سے بہتر ہے۔

    اسی طرح سے ویب سائٹ بنانے کے لیے بھی اپنا بجٹ مختص کریں ۔ اگر آپ کا بجٹ محدود ہے، تو بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ کئی پلیٹ فارمز مفت ویب سائٹ بنانے کی سہولت دیتے ہیں جیسے گوگل ساٗٹ سادہ اور مفت ویب سائٹ بنانے کے لیے بہترین ہے۔ ورڈپریس ایک بنیادی بلاگ اور ویب پیج بنانے کی سہولت دیتا ہے۔ وکس ڈاٹ کام ڈریگ اینڈ ڈراپ بلڈر کے ساتھ آسان ویب سائٹ تخلیق کریں۔ زوہو ساٗٹس چھوٹے کاروباروں کے لیے مفت ویب سائٹ بنانے کی سروس مہیا کرتی ہے۔ جبکہ ای کامرس کے لیے شاپیفائی ایک محدود مگر مفت حل پیش کرتا ہے۔ یہ تمام پلیٹ فارمز آپ کو بغیر خرچ کے آن لائن موجودگی فراہم کرتے ہیں۔ بعد ازاں جب کاروبار بڑھے، تو پروفیشنل ویب سائٹ میں اپ گریڈ کیا جا سکتا ہے۔

    ویب سائٹ کے ساتھ فیس بک پیج اور واٹس ایپ بزنس، مفت ڈیجیٹل موجودگی کا ایک بہترین اور مفت حل ہے۔ آج کے صارفین خریداری سے پہلے کاروبار کی تفصیلات، ریویوز اور مصنوعات کی معلومات آن لائن تلاش کرتے ہیں۔ اگر کوئی کاروبار ڈیجیٹل دنیا میں موجود نہیں، تو وہ ممکنہ گاہکوں سے محروم ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں فیس بک پیج اور واٹس ایپ بزنس دو طاقتور اور مفت ٹولز ہیں جو کاروباروں کو اپنی ساکھ بنانے اور گاہکوں سے براہ راست رابطے میں مدد دیتے ہیں۔

    فیس بک پیج کسی بھی کاروبار کے لیے ایک ڈیجیٹل شوکیس کا کام کرتا ہے۔ یہ نہ صرف گاہکوں کو معلومات فراہم کرتا ہے بلکہ اعتماد اور برانڈ کی شناخت بھی مضبوط کرتا ہے۔ ایک فعال فیس بک پیج کاروبار کو وسیع تر سامعین تک پہنچنے کا موقع دیتا ہے، جہاں لوگ مصنوعات کی تصاویر، قیمتیں اور دوسرے صارفین کی رائے دیکھ سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ، یہ ایک مؤثر مارکیٹنگ پلیٹ فارم ہے جو بغیر کسی بڑے بجٹ کے کاروبار کو فروغ دینے میں مدد دیتا ہے۔

    واٹس ایپ بزنس گاہکوں سے براہ راست اور فوری رابطے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ اس ایپ کے ذریعے کاروبار فوری جوابات دے سکتے ہیں، آرڈرز وصول کر سکتے ہیں اور اپنی خدمات سے متعلق سوالات کا جواب دے سکتے ہیں۔ اس سے گاہکوں کا اعتماد بڑھتا ہے اور خریداری کا عمل آسان ہو جاتا ہے۔ مزید برآں، ڈیجیٹل ادائیگیوں اور کیش آن ڈلیوری کے آپشنز کے ساتھ، چھوٹے کاروبار کم لاگت میں اپنی سروسز کو مزید مؤثر بنا سکتے ہیں۔

    ڈیجیٹل تبدیلی کو اپنانا اب کاروباری ترقی کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔ جو کاروبار آن لائن پلیٹ فارمز کو اپنائیں گے، وہ نہ صرف مقابلے میں آگے ہوں گے بلکہ اپنی بقا کو بھی یقینی بنا سکیں گے۔

    ٹیکنالوجی کے فروغ اور روز مرہ سرگرمیوں کے لیے ہنر مند افراد درکار ہوتے ہیں، لیکن بیشتر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار میں یہ صلاحیت موجود نہیں ہوتی۔ زیادہ تر ملازمین روزمرہ کے کام بخوبی انجام دے سکتے ہیں، مگر ڈیجیٹل مارکیٹنگ یا ڈیٹا اینالیٹکس جیسے جدید شعبوں کی سمجھ کم رکھتے ہیں۔ تربیت میں وقت لگتا ہے، جبکہ ماہرین کی خدمات حاصل کرنا مہنگا پڑتا ہے۔ یونیورسٹیاں ہر سال ہزاروں گریجویٹس پیدا کرتی ہیں، لیکن عملی مہارت رکھنے والے افراد کم ہی ملتے ہیں۔

    حل سادہ ہے۔ محدود بجٹ میں مہارتیں بڑھائیں۔ مفت آن لائن کورسز سے فائدہ اٹھائیں۔ کورسیرا ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی بنیادی تعلیم فراہم کرتا ہے، جبکہ یوٹیوب پربے شمار مفت ٹیوٹوریلز دستیاب ہیں۔ پیچیدہ کاموں کو آؤٹ سورس کریں۔ فری لانسرز ویب سائٹ ڈیزائن جیسے امور کم لاگت میں سنبھال سکتے ہیں۔ ملازمین کو ایک وقت میں ایک ہنر سکھائیں—پہلے ایکسل پر عبور حاصل کریں، پھر پاور بی آئی جیسے جدید ٹولز کی طرف بڑھیں۔

    پاکستان میں انٹرنیٹ کا نظام غیر مستحکم ہے، اور بجلی کی بندش کام میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔ سب سے زیادہ نقصان دیہی علاقوں میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو ہوتا ہے، جہاں فور جی کوریج مکمل نہیں۔ شہری علاقوں میں بھی انٹرنیٹ بینڈوڈتھ کے مسائل عام ہیں۔ ڈیجیٹل تبدیلی کے لیے مستحکم ٹیکنالوجی ناگزیر ہے، لیکن بنیادی سہولتوں کے بغیر یہ سفر دشوار ہو جاتا ہے۔

    حل یہی ہے کہ پہلے آف لائن کام کو ترجیح دی جائے۔ موبائل ڈیٹا کو بیک اپ کے طور پر استعمال کریں—جاز اور زونگ سستے انٹرنیٹ پیکجز فراہم کرتے ہیں۔ طویل المدتی بچت کے لیے سولر یو پی ایس میں سرمایہ کاری کریں، تاکہ بجلی کے بغیر بھی کام جاری رہے۔ کم بینڈوڈتھ پر چلنے والی ایپس کو آزمائیں۔

    یقینا پرانے طریقے آسانی سے نہیں بدلتے۔ کاروباری مالکان ٹیکنالوجی پر بھروسا نہیں کرتے، جبکہ ملازمین اپنی ملازمتیں کھونے سے ڈرتے ہیں۔ روایتی نظام محفوظ محسوس ہوتے ہیں، جبکہ ڈیجیٹل ٹولز پیچیدہ اور خطرناک لگتے ہیں۔ ڈیٹا چوری اور سیکیورٹی خدشات بھی ہچکچاہٹ کو بڑھاتے ہیں۔ اس لیے ایک ساتھ سب کچھ تبدیل کرنے کے بجائے، ایک عمل کو ڈیجیٹل کریں۔ جیسے کسی بھی مفت ایپ جیسے کہ گوگل ورکشیت پر سیلز ریکارڈ کرنا شروع کریں اور دیکھیں، عملے کو عملی تربیت دیں اور اسے ایک دلچسپ تجربہ بنائیں۔ جو لوگ جلدی اپنائیں، انہیں بونس یا دیگر مراعات دیں۔ سیکیورٹی خدشات کو دور کرنے کے لیے دوہری تصدیق کا استعمال کریں اور ڈیٹا کو گوگل ڈرائیو پر محفوظ بیک اپ میں رکھیں۔ تبدیلی کو مرحلہ وار اپنائیں، تاکہ یہ کاروبار کے لیے آسان اور فائدہ مند ثابت ہو۔

    پاکستان صفر سے آغاز نہیں کر رہا۔ ای کامرس تیزی سے فروغ پا رہا ہے—صرف 2024 میں دراز کے صارفین 1.5 کروڑ تک پہنچ گئے۔ موبائل فون کی رسائی 90 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے، جبکہ ایزی پیسہ اورجاز کیش جیسے پلیٹ فارمز ڈیجیٹل ادائیگیوں میں سبقت لے جا رہے ہیں۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار اس ڈیجیٹل لہر سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

    انتظار نہ کریں۔ ایک شعبے کا انتخاب کریں اور ڈیجیٹل تبدیلی کی شروعات کریں۔ اگر سیلز بڑھانی ہیں، تو کسی مقامی پواینٹ آف سیل سسٹم کا استعمال کریں۔ مارکیٹنگ بہتر کرنی ہے؟ تو مفت میں فیس بک پیج لانچ کریں۔ کسٹمر سروس میں بہتری چاہیے؟ تو واٹس ایپ بزنس کو آزمائیں—بغیر کسی لاگت کے۔ تجربہ کریں، سیکھیں، اور اپنی حکمت عملی کو وسعت دیں۔ مقامی کاروباری کمیونٹیز سے جُڑیں۔ سمیڈا اتھارٹی سے رابطہ کریں اور مختلف فورمز میں ٹیکنالوجی سے وابستہ کاروباری افراد کو جوڑتے ہیں، جہاں کامیاب حکمت عملیاں شیئر کی جا سکتی ہیں۔

    ڈیجیٹل تبدیلی محض ایک نعرہ نہیں، بلکہ ایک ضرورت ہے۔ پاکستانی چھوٹے کاروبارحقیقی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں—ریوینیو کی کمی ، مہارت کی کمی، اور بجلی کے مسائل۔ لیکن حل موجود ہیں۔ چھوٹے پیمانے پر آغاز کریں، مفت ٹولز کا فائدہ اٹھائیں، سمارٹ تربیت حاصل کریں، اور مقامی وسائل کو بروئے کار لائیں۔ نتیجہ؟ ترقی، مضبوطی، اور عالمی منڈیوں میں قدم رکھنے کا موقع۔ ایک ڈیجیٹل دنیا میں، پاکستان کے کاروباروں کے پاس پیچھے رہنے کا وقت نہیں۔

  • ورچوئل آٹزم، حل کیا ہے؟  – ساجدہ فرحین فرحی

    ورچوئل آٹزم، حل کیا ہے؟ – ساجدہ فرحین فرحی

    ماہرین اطفال اس بات سے پریشان ہیں کہ وہ بچے اور چھوٹے بچے جو دن میں گھنٹوں فون، ٹیبلیٹ اور ٹی وی کے ارد گرد گزارتے ہیں، ان میں آٹسٹک جیسی علامات پیدا ہو سکتی ہیں، جسے ورچوئل آٹزم کہا جاتا ہے۔

    ورچوئل آٹزم کی علامات اکثر اس وقت ختم ہو جاتی ہیں جب بچے اسکرین ٹائم کم کر دیتے ہیں اور آمنے سامنے رابطے، پڑھنے، اور دیکھ بھال کرنے والوں، دوسرے بچوں اور غیر الیکٹرانک کھلونوں کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں، ڈاکٹروں نے زیادہ سے زیادہ چھوٹے بچوں کے رویے میں غیر معمولی تبدیلیوں کو دیکھا تھا۔ کچھ نے اپنے ناموں کا جواب دینا بند کر دیا تھا، وہ آنکھوں سے رابطہ کرنے سے گریز کرتے تھے، اور اپنے ارد گرد کی دنیا سے لاتعلق ہو گئے تھے، آٹسٹک سپیکٹرم ڈس آرڈر (ASD) کی خصوصیات۔ دوسرے اپنی عمر کے لحاظ سے نشوونما کے لحاظ سے پیچھے تھے۔

    ورچوئل آٹزم دراصل ایک ایسی حالت ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس وقت ہوتا ہے جب چھوٹے بچے (تین سال سے کم عمر) کو ضرورت سے زیادہ سکرین کی نمائش ہوتی ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب اسکرین کو زیادہ دیر تک دیکھنے سے آٹسٹک جیسی علامات پیدا ہوتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق جس کا مقصد زبان کی نشوونما اور آٹسٹک جیسے رویے پر الیکٹرانک اسکرین کے اثرات کو ظاہر کرنا ہے۔ دور حاضر میں بچوں کو پچھلی نسلوں کے مقابلے میں روزانہ کی بنیاد پر الیکٹرانک میڈیا تک زیادہ رسائی حاصل ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اسکرین کے وقت میں اضافہ میلانوپسن کو ظاہر کرنے والے نیورونز اور گاما امینوبٹیرک ایسڈ (جی اے بی اے) نیورو ٹرانسمیٹر میں کمی سے منسلک ہے، اور اس کے نتیجے میں غیر معمولی رویے، کم علمی، بچوں کے بولنے کی نشوونما ہوتی ہے۔”

    نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ جن بچوں نے روزانہ اسکرین ٹائم 3 گھنٹے سے کم دیکھنے میں صرف کیا ان کی زبان میں تاخیر اور توجہ کا دورانیہ کم تھا، جب کہ جن بچوں نے روزانہ اسکرین ٹائم 3 گھنٹے سے زیادہ دیکھنے میں صرف کیا ان کی زبان میں تاخیر، توجہ کا دورانیہ کم اور انتہائی سرگرمی تھی۔ جب کہ، ہم نے پایا کہ آدھے سے زیادہ بچوں (66.6%) میں اسکرین ٹاٸم کے دوران والدین اور بچوں کا کوئی رابطہ نہیں تھا، تمام معاملات میں تقریر میں تاخیر اور کم توجہ کی اطلاع دی گئی تھی، اور 66.6% بچوں میں انتہائی سرگرمی پائی گئی۔ یہ ایک اہم دریافت ہے۔ یہ اپنے آس پاس کے لوگوں اور دنیا کے ساتھ بچے کے رابطے اور تعلق کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ سماجی تعلق، جیسے آنکھ سے رابطہ اور مواصلات کی مہارتیں، آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر کی تشخیص کرنے کی کوشش کرتے وقت سب سے زیادہ مشاہدہ کیے جانے والے رویے ہیں۔

    ماہرین والدین کو چھوٹے بچوں کے لیے دن میں چار یا اس سے زیادہ گھنٹے اسکرین کی بہت زیادہ نمائش کے خطرے والے عوامل کے بارے میں خبردار کرتے ہیں۔ کم عمری میں اسکرین کی شدید نمائش چھوٹے بچوں کے دماغ میں مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ زیادہ تر وقت، بچے کو تخیلاتی ماحول سے صرف مخصوص احساسات (بصری اور / یا سمعی) حاصل ہوتے ہیں، اور وہ ان بصری اور سمعی احساسات کو دوسری قسم کے احساسات سے نہیں جوڑ سکتا: محسوس کرنا چھونا، بدبو، بے ذائقہ، اس کے مطابق نشوونما کرنے سے قاصر۔ . ایسے بچے میں، اگر وہ جلد مداخلت نہیں کرتے (2-3 سال سے پہلے)، تو یہ مسائل زیادہ سے زیادہ شدید ہوتے جائیں گے

    یہ تقریر میں تاخیر کا باعث بن سکتا ہے۔ علمی صلاحیتیں بھی متاثر ہو سکتی ہیں، ممکنہ طور پر دماغی عوارض کا باعث بنتی ہیں۔ یہ مسائل بچے کی سماجی تعلقات پر بات چیت کرنے کی صلاحیت کو اسی طرح متاثر کر سکتے ہیں جس طرح نیورو ٹائپیکل بچے ہو سکتے ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ چھوٹے بچوں میں اسکرین کے وقت میں اضافہ منفی صحت کے نتائج سے منسلک ہے جیسے علمی صلاحیت میں کمی، زبان کی خرابی، موڈ، اور آٹسٹک جیسا رویہ بشمول ہائپر ایکٹیویٹی، توجہ کی کم مدت، اور چڑچڑاپن۔ اگر آپ کے بچے میں آٹزم جیسی علامات ہیں، اور اس کا اسکرین ٹاٸم بہت زیادہ ہے، تو یہ ورچوئل آٹزم ہو سکتا ہے۔

    والدین سے بچوں کے میڈیا کے استعمال اور گھرمیں اسکرین ٹاٸم کے بارے میں تفصیل سے پوچھنے کے بعد، ڈاکٹروں نے دریافت کیا کہ تقریباً تمام بچوں نے اسکرین پر اور اس کے ارد گرد زیادہ وقت گزارا ہے — بعض صورتوں میں، دن میں دس گھنٹے۔ لیکن جب ڈاکٹروں نے خاندانوں کو بچوں کی سکرین کی نمائش کو ختم یا بہت کم کر دیا تھا، تو ASD کی علامات تقریباً ہمیشہ غائب ہو جاتی تھیں۔ رومانیہ کے ماہر نفسیات ماریئس زمفیر، جو ورچوئل آٹزم کو شناخت کرنے والے ابتداٸی ماہرین میں سے تھےانھوں نے یہ اصطلاح بنائی۔ وہ ضرورت سے زیادہ اسکرین مواد دیکھنے والے بچوں میں زندگی میں آگے بڑھنے کی کمی کے بارے میں فکر مند ہے۔ “بچوں کے دماغ بغیر کسی کوشش کے خوشی حاصل کرنے کے عادی ہوتے ہیں،”

    دریں اثنا، 2022 میں 84,000 سے زیادہ جاپانی بچوں اور ان کی ماؤں پر جاری ہونے والی ایک تحقیق میں پتا چلا ہے کہ “لڑکوں کے درمیان، 1 سال کی عمر میں زیادہ اسکرین کا وقت 3 سال کی عمر میں آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر سے نمایاں طور پر وابستہ تھا۔” ڈیوائس کے استعمال میں تیزی سے اضافے کے ساتھ،” مصنفین نے نتیجہ اخذ کیا، “بچوں پر اسکرین ٹائم کے صحت کے اثرات کا جائزہ لینا اور ضرورت سے زیادہ اسکرین ٹائم کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ چھوٹے بچوں کے دماغ کا مطالعہ رویے کے اشارے کو ظاہر کرتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کم عمر بچے ٹچ سکرین والے آلات کے زیادہ استعمال کی وجہ سے باآسانی ذہنی خلفشار کا شکار ہو جاتے ہیں، جس سے کسی چیز پر توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت پر فرق پڑتا ہے۔ برطانوی اخبار ڈیلی میل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ٹچ سکرین رکھنے والی ڈیوائسز پر گیمنگ یا دیگر وجوہات کی بنا پر زیادہ وقت گزارنے والے بچے باآسانی ذہنی خلفشار اور عدم توجہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ چائلڈ مائنڈ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ڈیوڈ اینڈرسن کا کہنا ہے کہ اس اسٹڈی کی روشنی میں چھوٹے بچوں کو اسکرین ٹائم کے حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس دوران بچوں کا ذہن تشکیل پا رہا ہوتا ہے۔

    اسٹڈی میں شامل ماہرین کے مطابق اس اسٹیج پر بچوں کو زیادہ سے زیادہ انسانی تعامل (Interaction) کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے زبان دانی اور سوشل صلاحیتوں کے فطری سنگ میل عبور کر سکیں۔ اسٹڈی ارکان میں شامل ڈاکٹر اینڈرسن کے مطابق اسی فیز کے دوران بچے لوگوں کے احساسات کو سمجھنے، ان کے جذبات کو جاننے اور زندگی کے نشیب و فراز کا مقابلہ کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو رہے ہوتے ہیں۔ امریکا کے سنسناٹی چلڈرن میڈیکل سینٹر کی طرف سے کی گئی اسٹڈی سے شواہد ملے ہیں کہ زیادہ اسکرین ٹائم گزارنے والے بچوں کی ذہنی ساخت میں تبدیلیاں ہو سکتی ہیں، ہسپتال کے ریسرچرز نے 47 پری اسکولنگ کے بچوں کا ایم آر آئی اسکین کیا.

    یہ تمام بچے ایک گھنٹے سے زائد وقت اسکرین کے سامنے گزارتے تھے، اسکین میں دماغ کی زبان و بیان اور لٹریسی (Language & Literacy Development) سے متعلق حصوں میں فرق نوٹ کیا گیا۔ گو کہ تحقیق نے ذہنی کارکردگی کے حوالے سے زیادہ فرق نوٹ نہیں کیا لیکن اسٹڈی نے چند شواہد کی روشنی میں خبردار کیا کہ بچوں کی ذہنی ڈیولپمنٹ کے عرصے(Development Phase) میں زیادہ اسکرین ٹائم کے حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ تو، والدین کو کیا کرنا ہے؟ ایک چیز کے لیے، بچے کی بنیادی نشوونما کی ضروریات کا احترام کرنا۔ بچوں کے لیے بولنا سیکھنا، استدلال کرنا، اور اہم سماجی مہارتوں کی نشوونما کرنا، انھیں محبت کرنے والے لوگوں کے ساتھ آمنے سامنے بات چیت کرنے اور جتنی بار ہو سکے اپنے تمام حواس کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

    امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ بچوں اور چھوٹے بچوں کو اسکرین کا تنہا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اسکرین کا تعلق اپنے پیاروں کے ساتھ ویڈیو کالز تک محدود ہونا چاہیے، جس میں دیکھ بھال کرنے والا ساتھ کھڑا ہو۔ پری اسکول کے بچوں کے پاس دن میں ایک گھنٹے سے زیادہ اسکرین کا وقت نہیں ہونا چاہیے” تاکہ بچوں کو ان کی صحت اور نشوونما کے لیے اہم سرگرمیوں میں مشغول ہونے کے لیے کافی وقت ملے، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ، ان کی صحت اور دماغ کی مناسب تشکیل کے لیے، ایک سال سے کم عمر کے بچوں کو اسکرینوں کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔

    جب چھوٹے بچے اپنے ارد گرد رینج کرتے ہیں، آزادانہ طور پر اپنے تمام حواس کو جانچنے، چکھنے اور اپنے انتخاب کے ساتھ کھیلنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، تو وہ بھرپور اور زندگی بھر کے اعصابی رابطے بنا رہے ہوتے ہیں۔” ہر روز اپنے بچے کے ساتھ بات کریں اور زیادہ سے زیادہ پڑھیں. ایسے مواد، کھلونے اور گیمز فراہم کریں جن میں ہیرا پھیری کی ضرورت ہو، جیسے کہ پلے آٹا، فنگر پینٹ، اور پلے کچن دن میں کم از کم ایک بار باہر جائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچے کے پاس اکیلے اور دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کا وقت ہو۔ جب آپ بچوں کے ساتھ ہوں تو اسکرین کا استعمال نہ کریں۔

    اپنے بچے یا چھوٹے بچے کو فون نہ دیں (اور اسکرین کو لاک رکھیں، صرف اس صورت میں) چار سال سے کم عمر بچوں کے ارد گرد ٹی وی کو بند رکھیں، چاہے بچہ اسکرین پر موجود چیزوں پر توجہ نہ دے رہا ہو۔ خاندان کے اراکین اور دیکھ بھال کرنے والوں کو بتائیں کہ یہ اقدامات بچے کی صحت مند نشوونما، پائیداری اور تندرستی کے لیے کیوں ضروری ہیں. دو سال سے پہلے بچے کو سکرین نہ دی جائے۔ دو سے پانچ سال کے بچوں کو پورے دن میں ایک گھنٹے سے کم وقت دیا جائے۔ سونے سے پہلے کم از کم ایک گھنٹہ کسی قسم کی کوئی سکرین نہ ہو۔ آئی کانٹیکٹ، محبت سے بچے کو چھونا، کتابیں پڑھنا گھر میں عام ہو اور کھانے کے وقت سکرین کے استعمال کا رواج نہ ہو۔

    سکرین بچوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھی جائے۔ اس سے والدین کی شمولیت بچوں کی زندگی میں مسلسل رہتی ہے، اور ساتھ ہی عمر کے حساب سے بچوں کے لئے علمی مواد کے انتخاب پر بھی نظر رکھنا آسان ہوتا ہے۔ بچوں کی سکرین کے استعمال پر چیک رکھنے کے لئے والدین کو خود اپنے اوپر بھی کڑی نظر رکھنی ہو گی کہ وہ کتنا وقت سکرین کو دیتے ہیں اور کس قسم کا مواد دیکھتے ہیں۔ والدین ڈاکومینٹری یا معلوماتی پراگرامز دیکھتے ہیں یا کمرشل مٹیریل، اس پر نگاہ رکھیں گے تو بچوں کو بھی آسانی ہو گی۔

    بچوں کے سامنے بہترین عملی نمونہ پیش کیا جائے جس میں وہ والدین کے عمل سے سیکھیں کہ کتاب پڑھنا، باہر واک کے لئے جانا، ایکٹو لائف سٹائل گزارنا، فیملی کیساتھ سکرین ۔ فری وقت گزارنا بہت اہم ہے۔ والدین کو اپنا سکرین ٹائم کم رکھنا ہو گا، کمرشل مواد کے بجائے علمی مواد کو ترجیح دینی ہو گی، اور سکرین سے ہٹ کر متبادل اچھی ایکٹیویٹیز کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ اعتدال میں زندگی کا حسن ہے۔ سکرین کے استعمال میں بھی اس اعتدال کا خیال رکھنا ہو گا۔ تین سال کی عمر تک دماغ کی اسی فیصد نمو ہو جاتی ہے اور ان سالوں میں احتیاط اور ہی زیادہ ہو۔ بچے کو پہلے دو سال سکرین سکرین سے دور رکھا جائے، دو سے تین سال کی عمر میں اول تو نہ دیں، اگر دیں تو بہت ہی کم۔

    تین سے سات سال: آدھے سے ایک گھنٹہ
    سات سے بارہ سال: ایک گھنٹہ

    چھوٹے بچوں کے والدین انکو آرام سکون والی چیز دکھائیں۔ بہت تیز تیز سین بدلنے والے کارٹون یا گیمز سے مکمل پرہیز کیا جائے۔ موبائل ڈیوائس اور ٹیبلٹس کے استعمال پر خصوصی نظر رکھی جائے اور وقت پر نظر رکھی جائے۔ آج کے دور میں ڈیجیٹل میڈیا سے دور رہنا اور بچوں کو دور رکھنا تو ناممکن ہے، لیکن اگر کچھ أصول اپنے اور بچوں کے لئے شروع سے بنا لئے جائیں، جن پرسب گھر والے مستقل عمل پیرا ہوں تو نقصانات کم کر کے زیادہ فوائد سمیٹے جا سکتے ہیں۔ اسکرین ٹائم کے حوالے سے ایک مخصوص وقت طے کرنے کی ضرورت ہے کہ کب بچے ٹی وی یا ڈیوائس کا استعمال کرسکتے ہیں، رات گئے تک ڈیوائسز کا استعمال نیند کو متاثر کر سکتا ہے۔

    والدین کا اس بات کی اہمیت کا احساس کرنا بھی ضروری ہے کہ بچوں اور خاندان کے ساتھ وقت گزارنا ان کے ساتھ مسلسل کمیونیکشن کرنا ضروری ہے، اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھا جائے کہ بچوں کو کھیلنے کے لیے باہر لے جانا اور کسی کھیل میں باقاعدہ شامل کروانا بچوں کے اسکرین ٹائم کا متبادل ہو سکتا ہے۔” اس بارے میں ہم نے بچوں کی ماہر نفسیات تطہیر فاطمہ سے کچھ سوالات کیے

    ورچول آٹزم کیا ہے؟
    کیوں ہوتا ہے؟
    اسکی علامات اور وجوہات کیا ہیں؟
    کیا یہ قابل علاج ہے اور ختم ہوسکتا ہے؟
    پاکستان میں کوئی اعداد و شمار ہیں اسکے یا کتنے کیسسز رپورٹ ہوۓ ہیں؟
    آپ نے اب تک کتنے ایسے بچوں کا علاج کیا ہے؟
    والدین کی رہنمائی کے لے کوئی پیغام….

    ورچول آٹزم کیا ہے اس سے پہلے ہمیں آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر کر تھوڑا سا دیکھ لینا چاہیے. آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر میں کیا ہے کہ سوشل تعلقات اور رویوں کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے. بچے کو جب بچے کو جب بہت زیادہ اسکرین ٹائم دیکھنے کو ملتا ہے تو جب اس بچے کے اندر اس میں آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر نہیں ہوتا بلکہ آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر جیسی علامت ظاہر ہونی شروع ہوجاتی ہیں. سوشل کمیونیکیشن اور behaviour جیسی تبدیلیاں رونماں ہوتی ہیں. اور اس کی وجوہات یہ ہے کہ تین گھنٹے سے زیادہ اگر آپ کسی تین سال سے کم عمر کے بچوں کو سکرین دیکھنے دیتے ہیں تو اس کے اندر اس طرح کی علامات آجاتی ہیں. اس میں ہم رویہ دیکھتے ہیں ہائپ ایکٹیویٹی دیکھتے ہیں.

    فکسیشین دیکھتے ہیں ہم بہت اگریشن دیکھتے ہیں بچوں کے اندر کمیونکیشن ڈلے دیکھتے ہیں یا پھر ایسے بچے مختلف طریقے سے کمیونکیشن کرتے ہیں اور بعض اوقات بالکل ہی نہیں کرتے اور اس کے علاوہ جو ہے ان کا سوشل انٹریکشن نہیں ہوتا اور یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ جو والدین بچوں کو فون پکڑا دیتے اور وہ خود ان کے ساتھ کمینیکیٹ نہیں کرتے اس کا بھی ان بچوں کے اندر ہائپر ایکٹیویٹی بہت بڑھ جاتی ہے . ایسے بچے مختلف طریقوں سے کمینیکیٹ کرتے ہیں Stimming اسٹیمنگ ہوتا ہے جسمیں یہ بچے کوٸی بھی جملہ کسی بھی جگہ سے لےکر کسی کارٹون یا فلم سے یاد کرکے بار بار دھراتے ہیں یہ کچھ جملوں کا تکرار کرتے ہیں چاہے وہ ہماری اپنی لینگویج میں ہو یا دوسری لینگویج میں ہوں وہ بھی دہراتے رہتے ہیں .

    جی بالکل قابل علاج تو ہے مگر ایسے بچوں پر بہت زیادہ آپ کی محنت لگتی ہے خاص طور پر والدین اور والدہ کی زیادہ محنت لگتی ہے .اور پھر تھراپی جہاں سے بھی لے رہے ہیں وہاں کی سب سے بڑا چیلنج تو یہی ہوتا ہے کہ بچے کو کیسے اسکرین سے دور رکھا جائے جب آپ سکرین سے اس کو بچانا شروع ہوجاتا ہے پھر ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ بچے کو رائمز پوئمز ایسی چیز جس کا تعلق سکرین کے ساتھ ہو اس کو ہم بچے سے ذرا دور کرتے. ہم بالکل نہیں سناتے بالکل نہیں دکھاتے اور کچھ بچوں کو چھ ماہ کچھ بچوں کو ایک سال ان چیزوں سے دور رکھتے ہیں. جن چیزوں کا تعلق اسکرین کیساتھ ہو تاکہ وہ سب کچھ ان کے دماغ سے دور ہو جائے ختم ہوجاۓ.

    برین میں جو نیوروٹرانسمیٹرز کا اپ ڈاون ہو رہا تھا وہ ختم ہو جائے .پاکستان میں اسکے اعداوشمار کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ ابھی تک اس کے اوپر کوئی مکمل ریسرچ نہیں ملی ہے لیکن یہ بہت زیادہ ہے تعداد میں ہے. ابھی تک تو اتنی آگاہی بھی نہیں ہے والدین میں کہ وہ کوئی آکر بتاٸیں کہ ہمارے بچے کو ورچول آٹزم ہے. اور جو بچے ہمارے پاس آتے وہ ٹھیک ہو جاتے ہیں . لیکن جو لوگ آتے ہی نہیں ہے اس چیز لیکر وہ اسی طرح کی علامات کے ساتھ بچے کو آگے لے کرچل رہے ہیں ہمارے پاس آنے والے تقریبا تیس سے چالیس فیصد بچے ورچول آٹزم کا شکار ہوتے ہیں
    کیونکہ کوڈ کے دوران بچوں بہت زیادہ اسکرین ٹائم دیا گیا.

    بچوں کو فون بہت چھوٹے بچوں کو اور اس سے پہلے بھی جب سے ہمارا والدین فون کا استعمال زیادہ بڑھا خاص طور پر اینڈرائڈ فون پر اس میں بہت زیادہ بچوں کو یہ پکڑا دیا جاتا ہے. والدین خود بتاتے ہیں کہ ہم خود بچے کو فون دیتے ہیں بچے نےکھانا نہیں کھایا تو ہم اس کے سامنے فون رکھ دیتے پھر وہ کھانا کھاتا ہے یا بچہ یہ کام نہیں کر رہا تو ہم اس کو یہ فون پکڑا دیتے ہیں تو وہ چیخنے چلانے سے باز آجاتا ہے اور وہ سکون سے بیٹھ جاتا ہے. اور یہ تو ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو یہ بہت عام بات ہے کہ چلو بچوں کو فون پکڑا دیا جائے اور وہ آرام سے بیٹھ جائیں گے .

    جی اور ان میں سے کافی سارے بچوں کا علاج ہو بھی چکا ہے اور ہو بھی رہا ہے. اور یہ ہے کہ یہ مین اسٹیرم میں چلے بھی جاتے ہیں بس تھوڑی سی مینجمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے کہ بچے کو اسکرین سے دور رکھا جاۓ اور اکثر اوقات موباٸل اور ٹیبلیٹ کیساتھ ساتھ ٹی وی اسکرین سے بھی دور کردیا جاتا ہے. تاکہ انکی ایگریشن اور دوسری علامات بالکل ختم ہوجائیں آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر والی والدین کے لئے یہ پیغام ہے کہ خدارا اپنے بچوں کی ذہنی صحت کولیکر کے بہت زیادہ بہت زیادہ فکر کریں انکا خیال رکھیں. اپنے بچوں پر توجہ دیں اور میں یہ کہوں گی کہ یہ والدین کا بہت زیادہ قصور ہوتا ہے کہ انکے بچے انکی وجہ سے اس بیماری ورچول آٹزم کا شکار ہوتے ہیں بلکہ والدین خود اپنی مرضی سے اپنے بچوں کو اس بیماری میں مبتلا کررہے ہیں.

    اللہ نے انھیں صحت مند نارمل اولاد عطا کی مگر انھوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی اولاد کو اس بیماری میں مبتلا کردیا.
    آج سے آپ دیکھ لیں کہ دس سال پہلے یا بیس سال پہلے کی بات کرلیں تو اتنا زیادہ فون کا استعمال بچوں کو نہیں دیا جاتا تھا تو ان بچوں کی ڈویلپمنٹ میں اور اب بچوں کی صلاحیتوں میں زمین آسمان کا فرق اس طرح سے ہے کہ اب بچے حد سے زیادہ ہاٸپرہیں آپ دیکھ لیں آپ کسی مال میں پلے ایریا میں چلے جائیں آپ کو بچوں میں دکھائی دے گا برداشت نہ کرنا کسی بھی چیز کو اور چھوٹی سی بات کو لے کر ہاٸپر ہوجانا یہ بچوں کے اندر نظر آ رہا ہوتا ہے.

    تو والدین اس بات کو خدارا غورسے سنیں. اس بات کو غور سے سمجھیں اس بات کو کہ یہ آپ کے بچے کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے یہ فون یا جو اسکرین ہے یہ کوئی کردار ادا نہیں کر رہی ہے. بچے کی تربیت کےلےآپ نے کرنی ہے تربیت یا اس کا مدرسہ ہے جہاں پے جو سکول ہے جہاں وہ جارہا ہے وہ تعلیم حاصل کر رہا ہے وہ کرے گی حتی کہ تعیلم کےلے بھی اسکرین کا استعمال نا کریں بلکہ اپنے بچوں روایتی طریقوں سے تعلیم و تربیت کے عمل جاری رکھیں. بچوں روزمرہ زندگی سے اسکرین کے استعمال کو جتناممکن ہوسکے کم کردیں اور بچوں کو اسکرین دینے کے بجاۓ اپنا وقت دیں اپنی محبت اپنا پیار اپنی شفقت اپنی ممتا نچھاور کریں آپکا بچہ خودبخود اسکرین کا استعمال چھوڑ دے گا.

  • ڈیپ سیک؛ ایک چینی کمپنی نے ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی سیاست کا نقشہ بدل دیا – اعظم علی

    ڈیپ سیک؛ ایک چینی کمپنی نے ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی سیاست کا نقشہ بدل دیا – اعظم علی

    ایک چینی ویڈیو اسٹریمنگ ایپ ٹک ٹاک کے امریکہ میں تاریک ہونے کے اگلے دن ہی ایک اور چینی ڈیجیٹل پروڈکٹ جغرافیائی ٹیکنالوجی کی سیاسی حرکیات تبدیل کرنے کے لیے دھماکے دار انداز میں نمودار ہو گئی۔ اے آئی اسٹارٹ اپ ڈیپ سیک نے ایک لارج لینگویج ماڈل (LLM) جاری کیا ہے جو ممکنہ طور پر بعض چیزوں میں اوپن آے آئی کی (چیٹ جی پی ٹی) جیسی یا بہتر کار کرکردگی کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن یہ مکمل کہانی نہیں ہے۔

    سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ڈیپ سیک نے بظاہر یہ کارنامہ اوپن سورس سے پیدا ہونے والے AI کو اور اپنے LLM کو سکھانے کے لیے استعمال کیا۔ ڈیپ سیک نے ایک پروسیس جسے ” فائن ٹیوننگ“ کہتے ہیں کو استعمال کرکے چیٹ جی پی ٹی ہی کے موجودہ اوپن سورس ماڈل سے حاصل کیا۔ اوپن اے آئی نے اپنے اعلامیہ میں کہا ہے کہ ”ہم اس بات سے واقف ہیں اور اس کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ڈیپ سیک نے نامناسب طور پر ہمارے ماڈلز استعمال (چوری) کیے ہیں، ہم اپنی ٹیکنالوجی کے تحفظ کے لیے بھرپور اقدامات کریں گے۔“

    ڈیپ سیک نے ایک پری ٹرینیڈ ماڈل اپنی ضرورت کے مطابق تیار کرلیا ہے، اور وہ بھی انتہائی کم اخراجات کے ساتھ (تقریباً چھ ملین ڈالر)، اور اوپن اے آئی و دیگران نے اپنی مشین لرننگ ماڈلز سیکھنے میں جو وقت لگایا اس کے مقابلے انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ کیا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اُنہوں نے اپنا AI ماڈل Nvidia کی اعلیٰ ترین AI چپ کے بغیر بنایا ہے، جبکہ فی الوقت ٹیکنالوجی کی دنیا میں AI کی کسی بھی سسٹم کے لیے Nvidia کی چپ کا کوئی متبادل نہیں ہے، اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کے بغیر کوئی سیکھنے والا AI ماڈل بن ہی نہیں سکتا۔ یہی وجہ تھی کہ اس اعلان کے جھٹکے سے Nvidia کی آرٹی فیشل انٹیلی جنس پر اجارہ داری کے خاتمے کے خدشے کی وجہ سے نیویارک کی شیئر مارکیٹ میں کمپنی کے حصص بری طرح گرے، لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو جنوری گذشتہ جنوری میں اس کمپنی کے حصص پچاس ڈالر کے قریب تھے، اور ڈیپ سیک کے اس دھماکے سے ایک دن قبل 148 ڈالر کو چھو کر ڈیپ سیک کے اعلان کے بعد 118 پر بند ہوئے اور 120/125 کے درمیان مستحکم ہو گئے۔

    (اگر واقعی چین Nvidia کی چپ کے بغیر AI سسٹم چلانے کے قابل ہو گیا ، تب بھی نویڈیا کمپنی کی اجارہ داری ختم ہونے سے منافع میں کمی تو ضرور ہو گی اور شیئر کی قیمتوں میں کمی کے امکانات رہیں گے، لیکن کمپنی کی ساکھ اور بنیاد پھر بھی مضبوط ہے، یا کم از کم مستقبل قریب میں اسے کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے)

    بین الاقوامی سیاست پر ہونے والے دور رس اثرات
    ڈیپ سیک کی آمد سے بین الاقوامی سیاست کے دو محاذوں پر دور رس اثرات رونما ہو سکتے ہیں ۔۔

    پہلا :- ڈیپ سیک نے آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور سیمی کنڈکٹر (چپ) کے باہمی ربط کو دنیا کی توجہ کا مرکز بنادیا ہے، اصول یہی ہے کہ جس کے پاس دنیا کے جدید ترین سیمی کنڈکٹر (چپ) ہیں وہ AI کی دوڑ بھی کنٹرول کرے گا۔ سیمی کنڈکٹر چپس تمام جدید ایجادات کی بنیادی ٹیکنالوجی ہے۔ لیکن اگر اس آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور سیمی کنڈکٹر (چپ) ربط کو اوپن سورس کی کھلی اور ہر خاص و عام کے لیےموجود ٹیکنالوجی کے ذریعے مہنگی اور جدید ترین AI چپ کے بغیر کام چلایا جاسکتا ہے تو پھر یہ پوری دینا کے لیے مساوی کھیل کا میدان بن جائے گا۔

    دوسرا:- اگر یہ واقعی سچ ہے (اس پر شبہات ہیں)۔ تو اس کے نتیجے میں امریکہ کے ہاتھوں میں دیگر ممالک و حکومتوں کو دباؤ میں رکھنے کے لیے کم از کم آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی حدتک ، ایکسپورٹ کنٹرول، ٹیکنالوجی ٹرانسفر و دیگر پابندیوں کا ہتھیار چھِن جائے گا۔بالخصوص اس سے امریکہ – چین کی چِپ وار کی حرکیات تبدیل ہو جائیں گی۔

    ڈیپ سیک کے کارنامے کو ٹیکنو – قوم پرستی کے وسیع تناظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے، جس کے مطابق ملک کی سالمیت ، سماجی استحکام، اور معاشی طاقت کا منبع قومی اداروں (سرکاری یا نجی) کے ٹیکنالوجی میں مہارت پر منحصر ہے۔ اس تناظر میں امریکہ اور چین دونوں طاقت کو تیزی سے ضرب دینے والی تمام اہم صنعتوں (ایڈوانس مینوفیکچرنگ سے کوانٹم سائنس تک) میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے ہاتھا پائی میں مصروف ہیں ۔ اگر اسے ٹیکنو – قوم پرستی کے تناظر میں دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ ڈیپ سیک نے بیجنگ کو بین الاقوامی تعلقات میں حقیقی وزن کے ساتھ نئے چینی سال (جو 28 جنوری کو شروع ہوا ہے) کا شاندار تحفہ دیا ہے۔

    کیا امریکہ کے ہاتھ میں کچھ نہیں بچا؟
    واشنگٹن اور اس کے اتحادی چین کے ساتھ ہونے والی چِپ کی جنگ میں بھرپور سبقت رکھتے ہیں، کیونکہ وہ جدید ترین چِپ بنانے کے لیے لازمی ٹیکنالوجی جسے اس تناظر میں دَم گھونٹے والے پوائنٹس کہا جاسکتا ہے، کا ان کے پاس مکمل کنٹرول ہے۔ یہ دم گھونٹنے والے پوائنٹس بشمول ہالینڈ کی ASML کے تیار کردہ extreme ultraviolet (EUV) ایکسٹریم الٹرا وائلیٹ ایکویپمنٹ ، یا ایچنگ اور میٹلرجی مشینیں جو امریکی کمپنیاں ایپلائیڈ ریسرچ یا LAM ریسرچ بناتی ہیں۔ اس کے علاوہ الیکٹرونک ڈیزائن سافٹ وئیر ، خصوصی کیمیکل اور دیگر سامان امریکہ، جاپان، جنوبی کوریا، تائیوان و یورپی کمپنیاں ۔۔ یہ تمام ممالک مکمل طور پر امریکہ کے زیراثر ہیں ۔ اب تک چین اپنی ایڈوانسڈ چپ بنانے کے خواب کو پورا کرنے کے لیے ان اہم اور ضروری ٹیکنالوجیز کو نہیں حاصل کر پایا۔ AI اور سیمی کنڈکٹر دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، اس لیےجدید ترین سیمی کنڈکٹر (چپ) کی ٹیکنالوجی کے بغیر بہت دور تک نہیں جایا جاسکتا ۔

    جدید ترین چِپ ٹیکنالوجی جو اس ٹیکنو – قوم پرستی کی طاقت کو کئی گُنا بڑھا سکتی ہے، کے دسترس میں نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ ایرواسپیس، ٹیلی کمیونیکیشن، توانائی، بائیوٹیک، کوانٹم اور پھر AI جس میں سپر کمپیوٹنگ ، مشین لرننگ ، الگورتھم اور سافٹ وئیر ، ان تمام شعبوں میں مکمل مہارت حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اب ڈیپ سیک کی وجہ سے اس بات کا امکان ہے کہ کسی نہ کسی حدتک ان دم گھونٹے والے پوائنٹس سے بچ کر نکلنے کا راستہ مل سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے درجے کی سیمی کنڈکٹر بنانے والی اقوام بھی آرٹی فیشل انٹیلی جنس میں پہلے درجے کا مقام حاصل کرسکتے ہیں اور اس کے کئی فوائد بشمول فوجی صلاحیت اور معاشی مسابقت سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

    دنیا میں ٹیکنالوجی کے تین بلاک
    دسمبر 2024 میں اس وقت کے امریکی صدر بائیڈن نے جاتے جاتے سیمی کنڈکٹر سے متعلق ٹیکنالوجی کو چین کے ہاتھ جانے سے روکنے کے لیے کئی برآمدی پابندیاں عائد کیں، پابندیوں کے اس تازہ ترین اعلان میں 24 گروپ کے چپ بنانے کے اوزار اور تین اقسام کے چِپ ڈیزائن سافٹ وئیر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چین کی 140 نئی چِپ بنانے والی کمپنیوں پر بھی پابندی لگائی گئی۔ ان پابندیوں کی فہرست میں پرانے ازکار رفتہ چپ بنانے کی مشینیں بھی شامل ہیں۔

    واشنگٹن کے یہ اقدامات نام نہاد ”چھوٹا آنگن پر اونچی دیوار“ پالیسی کا حصہ ہیں، اس کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ کے ہاتھوں میں فیصلہ کن اختیار رہے کہ کسے اسٹریٹجک امریکی ٹیکنالوجی تک رسائی دی جائے اور کس کو آنگن میں گھُسنے نہ دیا جائے۔ اس اقدام کا اہم نتیجہ یہ ہے کہ ٹیکنو ۔ قوم پرستی نکتہ نظر سے واشنگٹن نے رسمی طور پر دنیا کی اقوام کو تین واضح گروپوں میں تقسیم کردیا ہے، بلکہ یہ اس تقسیم کی رفتار کو تیز اور مزید واضح کرنے کا اعلان تھا۔ پہلا گروپ امریکہ کے روایتی حلیف و دفاعی اتحادی ، ان تمام ممالک کو اس آنگن میں مکمل آزادانہ آمد و رفت کی اجازت ہے جن میں ، کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ، مغربی یورپ، جرمنی، فرانس، جاپان و جنوبی کوریا شامل ہیں۔ دوسرا گروپ درمیانے درجے پر جن میں مشرقی یورپ، انڈیا ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پورے جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک شامل ہیں ۔جنہیں کچھ بہتر مگر مکمل نہیں کے اصول کے تحت اس ٹیکنالوجیکل آنگن میں داخلے کی محدود و مشروط اجازت دی جاتی ہے۔ اس طرح امریکہ ان ممالک کو کاروباری اور اسٹریٹجک ٹیکنالوجی کے تعاون کے لیے بشمول آرٹی فیشل انٹیلی جنس سسٹم، ڈیٹا سینٹرز، توانائی کے انفراسٹرکچر اور فوجی و معاشی طاقت کو ضرب دینے والی (multiplier) ٹیکنالوجی پر اپنے کنٹرول کے ذریعے چین کے ساتھ ہونے والی رسّہ کشی میں اپنے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور کرے گا۔ تیسرا گروپ روس، چین، ایران و شمالی کوریا، ان ممالک کے لیے سخت ترین پابندیاں ہیں، انھیں دونوں اوّلین دونوں گروپوں سے بھی ٹیکنالوجی کے حصول پر پابندی ہے، اگر کوئی ملک انھیں ممالک کو ٹیکنالوجی ٹرانسفر کرتا ہے، تو اسے سزا دی جاتی ہے۔

    لیکن اگر ان تینوں گروپوں کے سرکاری یا نجی ادارے بھی (ڈیپ سیک کی طرح) اوپن سورس یعنی آزادانہ موجود آرٹی فیشل انٹیلی جنس کو استعمال کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں تو اس کی وجہ سے بھی دور حاضر کی ٹیکنو-قوم پرستی کی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی ہو گی، بالخصوص درمیانے (دوسرے) گروپ کے ممالک (امریکی دباؤ سے) آزادانہ فیصلے کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔

    ناقابل یقین ۔۔۔۔
    اس بات کا اتنا جلد یقین نہیں کیا جاسکتا کہ ڈیپ سیک نے واقعی یہ سب کچھ اوپن سورس کے AI سسٹم کے ذریعے ہی کیا ہے . ابتدائی طور پر امریکی پابندیوں کے نافذ ہونے سے قبل کمپنی نے 10 ہزار Nvidia کی 100A GPU AI چپ خریدی تھیں۔ ممکن ہے ان چپس نے ڈیپ سیک کے AI پروگرام میں (ڈیپ سیک کے اعتراف سے زیادہ بڑا) کردار انجام دیا ہے یا اب بھی دے رہی ہیں ۔ یا کسی اور غیر ملکی ٹیکنالوجی نے ان کے AI پروگرام میں اہم تعاون کیا جو اب تک نظروں سے اوجھل ہے۔ اس سے قبل بھی ایسا ہو چُکا ہے جب 2023 میں چینی کمپنی Huawei کی کمپنی HiSilicon اور چینی چپ بنانے والی کمپنی نے مشترکہ طور پر یہ اعلان کیا کہ انھوں نے امریکی پابندیوں کو ناکام بناتے ہوئے مکمل طور پر چینی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے Huawei کے Mate 60 اسمارٹ فون کے لیے 7 نینو میٹر کی چپ بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اس میں امریکی پابندیوں کے نفاذ سے قبل خریدی ہوئی ہالینڈ کی بنائی ہوئی ڈیپ الٹرا وائلیٹ مشین DUV استعمال کی گئی تھیں ۔

    چاہے ڈیپ سیک کا دعوی درست ہو یا نہیں ۔۔ اس کے ساتھ وہی مسائل پیش آنے ہیں جو ٹک ٹاک کے ساتھ امریکہ میں پیش آئے تھے. بطور چینی ملکیتی پلیٹ فارم ان کے بارے میں پرائیویسی نہ ہونے اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے عمل دخل اور اثرات کا خدشہ ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جس طرح ٹک ٹاک کے ساتھ کیا ، اسی طرح ڈیپ سیک کے لیے امریکی ملکیت کا مطالبہ کرسکتے ہیں، یا کسی دوسرے طریقے سے بھی رعایتیں حاصل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ ممکن ہے حالیہ اعلان شدہ 500 بلین ڈالر کے امریکی اسٹار گیٹ AI پروگرام کے تحت چینی ریسرچ میں بھی امریکی سرمایہ کاری کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ بظاہر ناممکن لگتا ہے کہ چین اس سلسلے میں امریکی یا کوئی اور دباؤ قبول کرے. ٹک ٹاک ایک کمرشل پلیٹ فارم ہے جو امریکہ میں بھی کاروبار کرتا ہے، اسے کاروباری مفاد کے طور پر دباؤ میں ڈالا جاسکتا ہے لیکن پھر بھی اس میں اب تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ جبکہ AI ایک قومی پروجیکٹ ہے، اسے کسی بھی مالی مفاد کے دباؤ میں قربان نہیں کیا جاسکتا۔

    گذشتہ روز صدر ٹرمپ نے Nvidia کے CEO جینسن ہوانگ (جو ایک تائیوانی نژاد امریکی ہیں) سے ملاقات کی جس میں ڈیپ سیک کے اعلان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ امکان ہے کہ Nvidia کی AI چِپ کی برآمدات پر مزید پاپندیاں لگائی جائیں گی تاکہ طاقتورترین کمپیوٹنگ ٹیکنالوجی میں بالادستی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں میں سے نہ نکلنے پائے۔ اس کے ساتھ ہی امریکی حکومت یقیناً اہم اسٹریٹجک ٹیکنالوجی کے اوپن سورس پلیٹ فارم سے پھیلاؤ کو بھی روکنے کی کوشش کرے گی تاکہ آئندہ کوئی ان سے فائدہ نہ اُٹھا سکے۔

    جیسا بھی ہے اب یہ بات واضح ہےکہ ڈیپ سیک نے AI کے کھیل کے قوانین تبدیل کردیے ہیں، اور اس کے ساتھ ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی سیاست کے قوانین بھی۔ دوسری طرف ڈیپ سیک نے امریکہ کو AI کے میدان میں ایک شاک یا جھٹکا تو دیا ہے لیکن جب تک چین سیمی کنڈکٹر چِپ ٹیکنالوجی میں اپنی کمزوری کا حل تلاش نہیں کرپاتا ، اس کے مکمل فوائد سے استفادہ ممکن نہیں ہو گا۔

    (اس مضمون کی تیار میں ایلیکس کیپری ۔۔ NUS بزنس اسکول اور لی کوان یو اسکول آف پبلک پالیسی ۔۔ نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے استاد اور Techno-Nationalism: How it’s Reshaping Trade, Geopolitics and Society (Wiley) کے مصنف، کئی چینل و نیوز ایشیا میں 29 جنوری 2025 کو شائع شدہ تحریر سے استفادہ کیا گیا ہے)

  • ڈیپ سیک؛ قیامت تو ہے پر کتنی بڑی –  اعظم علی

    ڈیپ سیک؛ قیامت تو ہے پر کتنی بڑی – اعظم علی

    چین کی ڈیپ سیک نے آرٹی فیشیل انٹیلی جنس کی دنیا میں زلزلہ پیدا کر دیا ہے. پوری دنیا میں ٹیکنالوجی کے اسٹاک گرنا شروع ہو گئے ہیں۔ امریکی اسٹاک ڈاؤ جونز (Dew Jones) تو 290 پوائنٹس اوپر بند ہوا لیکن S&P 500 تھوڑا 89 پوائنٹس نیچے بند ہوا ۔سب سے بڑی مار امریکی انڈکس Nasdaq نے کھائی جو 612 پوائنٹس یا تین فیصد گرا جہاں زیادہ تر ٹیکنالوجی کمپنیاں لسٹ ہیں۔ اس کے علاوہ جرمنی DAX صرف 112 پوائنٹس نیچے گرا ہے۔ Nikkei یعنی ٹوکیو بھی اس وقت 635 پوائنٹ نیچے ہے۔

    ان میں سب سے زیادہ نقصان آرٹی فیشیل انٹیلی جنس کمپنی Broadcom کو ہوا جس کے حصص 42 ڈالر یا 17.5 فیصد گرے ہیں ۔ اور NIVIDA کو ہوا جس کے حصص 24 یا 17 فیصد گرے ہیں۔ اس کے علاوہ تھوڑا بہت اثر مائیکرو سافٹ، فیس بک اور گوگل پر بھی پڑا ہے۔ لیکن کم از کم اس وقت تو بین الاقوامی اسٹاک مارکیٹس میں اس قسم کی خون کی ہولی نظر نہیں آرہی ہے، جیسا ہمارے دوست خواہش رکھتے ہیں ۔ ویسے بھی امریکی اسٹاک مارکیٹ کا کریش کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ مارکیٹ ہر کریش کے بعد دوبارہ پہلے سے طاقتور ہی ہوئی ہے۔

    اس سے پہلے کریش کی وجہ معیشت کے بڑے چیلنچز ہوتے تھے یا کوئی بڑا سانحہ۔ اس مرتبہ تو کوئی بنیادی چیلنج یا مسئلہ نہیں ہے۔ بنیادی طور پر ایک کمپنی NVIDIA کے شیئر 147 ڈالر سے 118 ڈالر پر آگئے ہیں، لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ ایک سال قبل اس کمپنی کا شیئر 61 ڈالر کا تھا۔ یہ صرف معیشت کے ایک چھوٹے سے سیکٹر کا مسئلہ ہے جس میں چپ میکر اے آئی کمپنیاں متاثر ہوں گی لیکن اے آئی تو ایک لحاظ سے ابتدائی دور میں ہے اس لیے متاثرین وہ جواری ہوں گے جنھوں نے ان اسٹاک پر پیسہ لگایا ہے۔ NVIDIA کے شیئر کی قیمت چار ماہ قبل یکم اکتوبر کو 117 ڈالر پر بند ہوئی اور آج بھی 118 ڈالر سے اوپر ہے۔ اس لحاظ صرف چند ماہ قبل شیئر خریدنے والوں کو کاغذی نقصان ضرور ہواہے لیکن تمام طویل المدت شیئر خریدنے والے منافع پر بیٹھے ہیں۔ جسے ان کمپنیوں کا مارکیٹ کیپٹل کہا جاتا ہے ۔مجموعی طور پر اس سیکٹر میں ایک ٹریلین ڈالر کی کمی آئی ہے لیکن کیا یہ حقیقی نقصان ہے یا کاغذی ۔۔۔ اس قسم کے کاغذی نقصانات صرف اور صرف ان لوگوں کے ہوتے ہیں جو گھبراہٹ میں اپنا مال فوری طور پر فروخت کردیتے ہیں۔ یہ قیامت ان لوگوں کے لیے ہے جو فوری فروخت کرکے بازار سے نکل جاتے ہیں۔۔

    دنیا کی اسٹاک مارکیٹوں میں ٹیکنالوجی کے اسٹاک نیسڈیک کے علاوہ جاپان، کوریا، تائیوان اور شنگھائی میں لسٹ ہیں۔ آج صرف جاپان کھلا ہوا تھا اور وہ 38800 پوائنٹ تک چھونے کے بعد 39064 پر بند ہوا ۔۔خوش قسمتی سے کوریا، تائیوان اور شنگھائی چینی نئے سال کی چھٹیوں کے لیے بند ہیں ۔۔ ان کے کھلنے تک گرد بڑی حدتک بیٹھ چُکی ہو گی. اسٹریٹجک انویسٹر اس صورتحال میں فروخت کرنے کے بجائے مزید خریداری کا موقع سمجھ کر استعمال کرتے ہیں کہ یہ کمپنیاں بالخصوص چپ مینوفیکچرر خلا میں نہیں ہیں کہ فوری طور پر تحلیل ہو جائیں ۔ ان کے پاس ٹیکنالوجی ہے، انفراسٹرکچر ہے۔ منافع کم زیادہ ممکن ہے۔

    اوپن آے آئی کے چیف ایگزیکٹو نے درحقیقت ڈیپ سیک کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے اچھی چیز ہے، ہمیں اپنی پروڈکٹ کو بہتر بنانے اور بہتر نتائج کے لیے مہمیز کرے گی۔ لیکن ڈاؤ جونزیا نیسڈیک ایک مخصوص کاروباری سیگمینٹ کا نام نہیں ہے۔ اس ایک کھرب ڈالر کی کمی اس کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ ویسے بھی ان میں سے اکثر کمپنیوں کے اسٹاک کی قیمتیں منافع اور ریونیو کی بنیاد پر نہیں بلکہ مفروضوں کی بنیاد پر ہوتی ہیں ۔ دوسری طرف ان اسٹاک کی قیمتوں کی گراوٹ سے ان کے شیئر ہولڈرز کی دولت میں کمی کا فوری نقصان ان شیئر ہولڈرز کو ہوتا ہے جنھوں نے ان کی بنیاد پر بینک سے قرضے لیے ہوئے ہوتے ہیں ۔ شیئر کی قیمتیں گرنے کے نتیجے میں بینک ان سے مزید رقم کا مطالبہ کرتا ہے۔ عدم ادائیگی کی صورت میں بینک ان شیئر زکو مارکیٹ میں فروخت کرتا ہے جس سے شیئر کی قیمتیں مزید گرتی ہیں۔

    جیسا بھی ہے یہ ابتدائی دن ہیں ۔ بازار میں گھبراہٹ panic کی فروخت کے بعد اگلا مرحلہ correction پھر استحکام کا بھی آتا ہے۔ مخصوص کمپنیوں کے اسٹاک ویلیو کم ہونے سے اس کے شیئر ہولڈرز کی ویلیو دولت کی مالیت کم ہوگئی لیکن یہ کاغذی نقصان ہے۔ بس اتنا ضرور ہے کہ آرٹی فیشیل انٹیلی جنس میں امریکہ کے بالادستی کو للکارنے کے لیے چین سامنے آ رہا ہے۔

    ڈاؤ جونز کی تاریخ میں اس سے بڑے بڑے سانحات گزر چُکے ہیں ۔۔۔جب بھی کوئی بڑا کریش ہوا ہے، اس کی وجہ ایک مخصوص سیکٹر نہیں، مجموعی اکنامی یا معیشت ہوتی ہے، اور اس کا تعلق گلوبل اکنامی سے ہوتا ہے ۔۔ کورونا کے دوران بھی کریش ہوا تھا ۔ اس کے علاوہ غالبا 2008 کا بینکنگ کرائسسس، جس میں کئی بینک دیوالیہ ہو گئے تھے۔

    اس وقت تو کچھ بھی نہیں ہوا ۔۔ ایک مخصوص سیکٹر کی چند کمپنیاں متاثر ہوئی ہیں ۔ ہم نے ڈاؤ جونز انڈکس ہزار ہزار پوائنٹس بھی گرتے دیکھا ہے۔ کل تو وہ انڈکس مثبت میں بند ہوا ہے۔ آج ہی دیکھ لیں اس وقت یورپ کی مار کیٹ جو کل خسارے میں تھی، اب اس سے نکل آئی ہے. جرمنی کا DAX انڈکس 112 پوائنٹس اوپر ہے ۔ لندن اسٹاک ایکسچینج بھی تھوڑا سا اوپر ۔۔ توقع ہے کہ آج نیویارک کا Nesdeq بھی مثبت کھُلے گا۔ لیکن اس کی اہمیت معاشی سے زیادہ سیاسی دیکھی جائے کہ چین نے آرٹی فیشیل انٹیلی جنس میں امریکی بالا دستی کو چلینج کردیا ہے۔ اس کے اثرات دور رس ہوں گے۔ آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی اہمیت دفاعی و دیگر ٹیکنالوجی میں بھی اہم ہے. اسی طرح اس کے اثرات انرجی سیکٹر میں کہ چینی کمپنی کے دعوے کے مطابق ان کی ٹیکنالوجی کے وجہ سے ڈیٹا سینٹر اور بعض مخصوص شعبوں میں بجلی کی کھپت انتہائی کم ہو گئی ، جس کی وجہ سے بجلی بنانے والی کمپنیوں کے پہلے سے تیار شدہ انفراسٹرکچر پر بھی فرق پڑے گا۔

    ڈیپ سیک یقیناً جھٹکا ہے۔۔ لیکن کتنا بڑا ہے؟ کم از کم ایک ہفتے انتظار کرلیں۔

  • فری مارکیٹنگ یا پیڈ مارکیٹنگ ، فائدہ کس کا؟ حامد حسن

    فری مارکیٹنگ یا پیڈ مارکیٹنگ ، فائدہ کس کا؟ حامد حسن

    کیا آپ جانتے ہیں
    فری مارکیٹنگ پیڈ مارکیٹنگ سے کئی گنا زیادہ بہتر اور فائدہ مند ہے۔۔۔

    ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی دو اقسام ہیں ”پیڈ مارکیٹنگ اور آرگینک فری مارکیٹنگ “

    یوٹیوب، آن لائن مینٹورزاور دوسرے لوگ 99 فیصد پیڈ مارکیٹنگ کے متعلق ہی بتاتے ہیں،مارکیٹنگ کے زیادہ تر کورسز اور ریکمنڈیشن بھی پیڈ مارکیٹنگ کی ہی ہوتی ہے۔۔۔ اور دوسری بات کہ زیادہ تر لوگ ڈیجیٹل مارکیٹنگ سے مراد فیس بک پر ایڈ چلانے کو ہی سمجھتے ہیں کہ جسے ایڈ چلانا آ گیا وہ ڈیجیٹل مارکیٹر ہے جبکہ یہ فیلڈ تو ایک سمندر ہے عمر بھر اس میں غوطے مارتے رہیں کچھ نہ کچھ نیا حاصل ہوتا ہی رہے گا۔۔۔ ایک بات یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ اکثر کورسز چونکہ ایک دوسرے سے سیکھ کر آگے وہی سیم ٹو سیم کورس لانچ کر لیتے ہیں اب ظاہر ہے کہ جو چیز جس فارمیٹنگ میں جتنی مقدار میں سیکھی جاتی ہے وہ آگے وہی سب کچھ ہی سکھا پائے گا بہت کم ہوتا ہے کہ اپنی ریسرچ اینالائز اور یونیک سٹریجڈی بہت کم لوگ بنا پاتے ہیں۔۔۔ اکثر لوگ ڈیجیٹل مارکیٹنگ کو پیڈ مارکیٹنگ ہی سب کچھ سمجھتے ہیں جبکہ جو لوگ اس فیلڈ میں پرانے ہیں اور اس فیلڈ کو گہرائی سے سمجھتے ہیں انہیں بخوبی معلوم ہے کہ اصل گیم ہوتی کیا ہے۔۔۔ موازنہ کیا جائے تو فری مارکیٹنگ پیڈ مارکیٹنگ سے کئی حوالوں سے زیادہ بہتر اور مفید ہے، اور فری مارکیٹنگ سے کی گئی پرموشن، محنت،کمپین اور انگیجمنٹ 100 فیصد رئیل اور جنیون ہوتی ہے۔۔۔

    اس کو اب مثال سے سمجھتے ہیں
    آپ فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب پر پیڈ مارکیٹنگ کرتے ہیں، آپ کو ئی بھی کمپین چلاتے ہیں اس کی ایک مخصوص رقم فیس بک کو ادا کر کے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ہمارے لئے فیس بک کسٹمر لائے گا، مختلف لوگوں تک ہماری کمپین پہنچائے گا۔۔۔یہ تمام کمپنیز بھی زیادہ سے زیادہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ پیڈ مارکیٹنگ ہی کی جائے کیوں کہ ان کو اس کے بدلے ان کو رقم ملتی رہتی ہے ان کا تو بھلا ہی ہوگا۔۔۔ فری مارکیٹنگ لوگ جان گئے تو ان کا نقصان ہوگا۔۔۔آپ اپنی کمپین ایک ہفتہ یا ایک ماہ کے لئے کرتے ہیں اور آپ دیکھتے ہیں کمپین والی پوسٹ پر دھڑا دھڑ لائیک، شئیر اور کمنٹ ملتے ہیں لیکن سیل کم ہوتی ہے۔۔۔لیکن جس پوسٹ پر کمپین نہیں لگتی وہ مردہ پڑی رہتی ہے پیڈ مارکیٹنگ سے جو لائیک، فالور ملے ہیں ان میں سے ایک پرسنٹ لوگ دوبارہ بغیر کمپین والی پوسٹ پر نہیں آتے۔۔۔اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ رقم دے کر آپ نے جو انگیجمنٹ حاصل کی ہے اس کی لائف صرف اسی کمپین تک ہی محدود تھی باقی ان سب فالورز اور لائیکس کا کچھ حاصل نہیں۔۔۔

    بہتر کیا ہے؟
    جس بندے نے اپنی پروڈکٹس سیل کرنی ہے، سروسز دینی ہے میرے تجربے کے مطابق اسے 70 فیصد آرگینک مارکیٹنگ کرنی چاہئے اور 30 فیصد پیڈ کمپین کرنی چاہئے۔۔۔ اگر کسی کا مقصد پروڈکٹس سیل کرنا ہے تو پیڈ کمپین میں اگر دس ہزار بندوں کی انگیجمنٹ ملی ہے تو اس میں سے دو چار چھ پرچیزنگ ہی مل پاتی ہیں۔۔۔ پیڈمارکیٹنگ میں کیا ہوتا ہے کہ آپ ایک کرائیٹیریا سیٹ کر کے، فیس بک کی طرف سے دئے گئے طے شدہ آڈئینس ، علاقہ اور لوگ سیٹ کرکے کمپین چلاتے ہیں۔۔۔ البتہ اگر کسی نے صرف اپنے نام کی پرموشن کرنی ہے، زیادہ سے زیادہ لائیک اور فالور لینے ہیں تو اس کے لئے پیڈ کمپین ٹھیک ہے کہ پیسے دو اور اپنے پیج پر لائیک اور فالور کی تعداد میں اضافہ کرو۔۔۔

    یہاں گیم کیا ہوتی ہے
    فیس بک پر بہت سی آئیڈیز فیک ہوتی ہیں، ان آئی ڈیز کی بائیوز، ڈیٹیل، لوکیشن وغیرہ بھی فیک ہوتی ہے تو فیس بک الگورتھم کے مطابق جینون اور فیک سب آئیڈیز تک وہ کمپین لسٹ میں جاتی ہیں۔۔۔ ابھی آپ خود بتائیں کہ کتنی ہی آئیڈیز آپ کے سامنے آتی ہوں گی جو 100 فیصد فیک ہوتی ہیں اور کمپین اڈئینس میں وہ سب آئی ڈیز مینشن ہوتی ہیں۔۔۔ تو پھر سوال یہ بنتا ہے کہ پیڈکمپین کر کے پیسہ خرچ کر کے حاصل کیا ہوا۔۔۔؟ مثلاً میری ایک فیک آئی ڈی ہے جس پر میں نے لائیو لوکیشن لندن انگلینڈ کی دی ہوئی ہے۔۔۔ اپنی بائیو، اباؤٹ اور ڈیٹیل میں ای کامرس مینشن کی ہے۔۔۔ لیکن میں بیٹھا پاکستان میں ہوں اور وہ آئی ڈی کبھی کبھار استعمال کرتا ہوں۔۔۔ اب اگر ایک بندہ کمپین سیٹ کرکے لندن کو ٹارگٹ کرتا ہے۔۔۔ آئیڈینس انگیجمنٹ میں ای کامرس والے لوگوں کو مینشن کرتا ہے۔۔۔ اس نےفیس بک سے ایک روپے میں دو لائیک خریدے جن میں سے ایک میں ہوں اور ایک جینون ہے تو سمجھو کہ اس کی آدھی رقم بالکل فضول ضائع ہوئی۔۔۔

    میرا مشورہ اور تجربہ
    میرا ہر کسی کو یہی مشورہ ہوتا ہے کہ پیڈ مارکیٹنگ کے بجائے آرگینک طریقے سے مارکیٹنگ کریں۔۔۔ پیڈ مارکیٹنگ میں جتنی رقم لگاتے ہیں اگر اتنی رقم لگا کر ایک دو قابل بندے ہائیر کئے جائیں۔۔۔ ڈیٹا مائیننگ کی جائے اور پھر آرگینک طریقے سے روزانہ مارکیٹنگ کی جائے تو یہاں سے آپ کو جینون اور ایکٹیو لوگ ملیں گے۔۔۔ مثال کے طور پرایک ماہ کے لئے ایک لاکھ روپے کی پیڈ مارکیٹنگ کرتے ہیں تو اس سے آپ کو 10 پرچیز ملتی ہیں۔۔۔ دس ہزار لائیک اور فالور ملتے ہیں۔۔۔ لیکن ان دس ہزار میں 5،6 ہزار ڈیڈ آئیڈیز ہوں گی جو کہ آئندہ کسی کام نہیں آنے والی۔۔۔ اس کے برعکس اگر آرگینک مارکیٹنگ کی جائے تو ایک لاکھ میں 30،30 ہزار پر دو بندے رکھے جائیںباقی 60 ہزار خرچہ رکھیں۔۔۔ اب آرگینک مارکیٹنگ سے باقاعدہ ڈیٹا مائیننگ کر کے، رئیل انگیجمنٹ سے ایک ہزار لوگ ملیں گے اور کم سے کم 15،20 سیلز ہوں گی۔۔۔ یہ دس ہزار لوگ جینون آڈینس ہے اور آپ کے آج یا کل کے کسٹمر ہیں۔۔۔ تو خود بتائیں کہ پیڈ مارکیٹنگ سے آنے والے دس ہزار ناقابل اعتبار آئیڈیز زیادہ بہتر ہیں یا پھر رئیل ایک ہزار جینون لوگ زیادہ بہتر ہیں۔۔۔؟؟؟
    ــــــــــــــــــــ
    یہ ایک طویل اور ٹیکنیکل موضوع ہے. اس پر سامنے بیٹھ کر یا پھر تفصیل سے بات کی جائے تو تب ہی سمجھ آئے گی۔۔۔ میں نے بذاتِ خود کافی عرصہ پیڈ مارکیٹنگ کو سٹڈی کیا، اس کو سمجھا، الگوریتھم کی تکنیک کی جانچ پڑتال کی۔۔۔ میں اپنے کام کے لئے اور کلائنٹس کو بھی پیڈ مارکیٹنگ کے بجائے آرگینک اور رئیل مارکیٹنگ کا مشورہ دیتا ہوں۔۔۔ رئیل آرگینک مارکیٹنگ میں وقت لگتا ہے، جان لگتی ہے، محنت درکار ہوتی ہے لیکن اس کے فوائد لانگ ٹرم فائدہ دیتے ہیں۔۔۔ ان شاء اللہ العزیز اس موضوع پر تفصیل سے لکھنے کا ارادہ ہے۔۔۔

  • ٹوٹل سکندر، انڈیا اور چاند-محمد طلحہ جٹ

    ٹوٹل سکندر، انڈیا اور چاند-محمد طلحہ جٹ

    دفتر سے واپسی پر اچانک موٹر سائیکل پنکچر ہوگیا۔ چونکہ صبح کا وقت تھا تو تقریباً تمام دوکانیں بند تھیں۔ پھر اچانک خیال آیا کہ ادھر قریب ہی شملہ پہاڑی کے پاس ٹوٹل کا پیٹرول پمپ ہے وہاں ضرور کوئی پنکچر والا ہوگا۔ پندرہ منٹ کی ”طویل“ پیدل مسافت کے بعد جب پیٹرول پمپ پہنچا تو وہاں پنکچر والی دکان پر ایک چھوٹا بچہ بیٹھا ہوا نظر آیا۔

    بچے سے سلام لیا اور بغیر وقت ضائع کئے موٹر سائیکل ”وڈے سٹینڈ “ پر لگایا اور کہا ”چھوٹے جلدی سے پنکچر لگا دو، پہلے ہی بہت دیر ہوگئی ہے“۔ یہ سننے کی دیر تھی کہ اس نے نہایت گرم جوشی سے عقب میں پڑی کرسی سے گندہ کپڑا لیا اور موٹر سائیکل پر پھیرنا شروع کردیا۔ اسکی یہ پھرتی دیکھ کر مجھے مزید تسلی ہوگئی کہ چلو شکر ہے بندہ قابل ہے جلدی پنکچر لگا دے گا۔ اس صاف صفائی میں کب دس منٹ گزرے مجھے اندازہ ہی نہیں ہوا۔ لیکن بچہ ابھی بھی صفائی میں ہی مگن تھا۔ مزید پانچ منٹ وہ یوں ہی لگا رہا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ ان جناب کو تو پنکچر لگانا آتا ہی نہیں، یہ تو صرف اوزار پکڑانے کا کام کرتے ہیں، اصل استاد تو صبح دس بجے آئے گا۔

    یہ سن کر میں نے غصے سے موٹر سائیکل سٹینڈ سے اتارا تو بچہ تھوڑا شرمندہ سا ہوگیا اور کہنے لگا کہ آپ ادھر ہی بیٹھیں۔ آگے گلی میں پنکچر والی دکان ہے۔ میں ادھر سے خود پنکچر لگوا لاتا ہوں۔ آفر اچھی تھی لہذا میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ تقریباً بیس منٹ بعد ہی وہ سب مین پنکچر لگوا کرواپس آگیا۔ اسکے چہرے پر الگ ہی مسکراہٹ تھی جیسے کوئی بڑا معرکہ سرانجام دیا ہو۔ میں نے اسے پنکچر کے پیسے دیے اور جاتے ہوئے اسکا نام پوچھا تو کہنے لگا کہ
    ” میرا نام سکندر ہے لیکن آپ میرا نمبر” ٹوٹل سکندر“کے نام سے موبائل میں” فیلڈ“ کرلیں۔ آئندہ جب بھی آپکو مسئلہ ہو ٹوٹل کے پیٹرول پمپ پر پہنچ کر بس اسے ایک ” مسڈ کال“دیں، آگے میں خود سب سنبھال لوں گا“ ۔ میں نے اس کا دل رکھنے کیلئے نمبر لے لیا اور خدا حافظ کہہ کر چل دیا۔

    آج صبح سے جوں جوں بھارت کی چاند پر جانے کی خبریں آرہی ہیں، توں توں مجھے” ٹوٹل سکندر “ کی یاد آرہی ہے۔ شاید ہم بھی بحیثیت قوم ” ٹوٹل سکندر“ ہی ہیں۔ بجائے بھارت کو مبارکباد دینے کے لوگوں نے اپنی توپوں کا رخ مخصوص اداروں کی طرف ایسے کر لیا ہے جیسے خاندان میں ایک قابل ”کزن“ کے ٹاپ کرنےپر والدین ”جوتوں” کا رخ نالائق بچوں کی جانب کر لیتے ہیں۔ کچھ شر پسند عناصر تو یہ کہتے ہوئے بھی سنے گئے کہ ”ہمیں بٹگرام چیئرلفٹ سے بچوں کو بحفاظت نکالنے میں دس گھنٹے لگ گئے، اور بھارت چاند سے ہو آیا ہے“۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ چاند پر جانا کونسی اتنی بڑی بات ہے؟ وہاں ہوا، پانی، دھوپ سمیت کوئی اللہ والی شے موجود نہیں۔ بلکہ میرا تو خیال ہے کہ انڈیا نے بھی بس دنیا کو دکھانے کے چکر میں پیسے ہی ضائع کیے ہیں وگرنہ سچ پوچھیں تو ” انڈیا نوں بس پھیرا ای پیا اے“۔