Category: منتخب کالم

  • آئینے کا مکالمہ اور صحافت کی اصل پہچان – سلمان احمد قریشی

    آئینے کا مکالمہ اور صحافت کی اصل پہچان – سلمان احمد قریشی

    اخبارات اور سوشل میڈیا پر شیخوپورہ اور گوجرانوالا پریس کلبز میں اختلافات اور گروپنگ کی خبریں عام تھیں اسی دوران اوکاڑہ پریس کلب ایک مرتبہ پھر سیل ہوگیا۔اگر چہ پریس کلب عدالتی فیصلہ پر ڈی سیل بھی ہوجاٰئے گا لیکن یہ سوال موجود رہے گا کہ پریس کلب سیل کیوں کیاجاتا ہے؟

    کیا انتظامیہ ایکشن لینے میں جلدبازی کرتی ہے یا ہم حالات کو اس نہج تک لے جاتے ہیں کہ یہ فیصلہ لینا مجبوری بن جاتا ہے۔اوکاڑہ پریس کلب کی رجسٹریشن بھی منسوخ ہو چکی ہے اورکلب میں تنازعہ گزشتہ آٹھ سال سے جاری ہے۔ اختلافات اتنے شدت اختیار کر چکے ہیں کہ مقدمات کے اندراج کے بعد کلب کے آئینی معاملات کو لے کر مختلف کیسز عدالتوں کے در و دیوار پر دستک دے رہے ہیں۔ لیکن اصل المیہ قانونی پیچیدگی نہیں بلکہ وہ رویے ہیں جو اس ماحول کو مزید مکدر کر رہے ہیں۔ ایسے رویے کہ جن میں طنز، طعن اور فقرے بازی کرنے والے وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا صحافت سے کبھی کوئی تعلق نہ رہا، نہ ہی سماج میں وہ اپنی کوئی حیثیت رکھتے ہیں۔

    آج کل فیک شناختوں کے پیچھے چھپے ہوئے افراد سوشل میڈیا پر اپنی غلاظت انڈیلنے میں مصروف ہیں۔ ان کی رائے کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص اندھی گلی میں بیٹھ کر سورج کی روشنی پر تبصرہ کرے۔ جب روشنی دیکھنے کی صلاحیت ہی نہ ہو تو تبصرہ محض شور و غوغا بن جاتا ہے۔ صاحبِ کردار انسان کبھی دوسروں کی عزت اچھالنے کے لیے نقاب نہیں اوڑھتا۔ لیکن احساسِ جرم ہی ان چہروں کو مجبوری میں نقاب پہننے پر مجبور کرتا ہے۔ یہی رویہ ہماری سیاست میں بھی نمایاں ہے۔ کچھ کردار ایسے ہیں جو برسوں سے اپنے آقاؤں کی چاپلوسی میں جتے ہوئے ہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ وہ آقا بھی انہیں کبھی دل سے تسلیم نہیں کرتے۔

    وہ بکتے ہیں، بھونکتے ہیں، مگر پذیرائی نہیں پاتے۔ ان کی حیثیت کبوتر خانے میں قید اس پرندے جیسی ہے جو چاہے جتنا پر پھڑپھڑائے، آزاد فضاؤں میں پرواز کے قابل نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ سب جانتے بوجھتے بھی اس معاملے میں پارٹی بنے ہوئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی سوچ سطحی اور بصیرت وقتی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ ان کی مثال شاہ ڈولے کے چوہوں سے کم نہیں جو اپنے دماغی خلا کے باعث ہمیشہ دوسروں کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ ایک اور ٹولہ ایسا ہے جو صحافت کرنا نہیں چاہتا، مگر ”صحافی” کہلوانے کا خواہش مند ہے۔ یہ اسٹیج پر کھڑے پرفارمرز ہیں جو فلمی ہیروئن کے پیچھے آہو آہو کرتے ناچتے ہیں۔

    یہ شور و غوغا مچاتے ہیں، کچھ کو معمولی معاوضہ نصیب ہوتا ہے، کچھ کو پہچان بھی نہیں ملتی۔ مگر تالیوں کے سراب میں یہ رقص ختم نہیں ہوتا۔ یہ پرفارمنس ایسی ہے جیسے لوہار کی بھٹی کے سامنے بجنے والی دھونکنی،شور بہت مگر خود روشنی پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ اس سارے شور شرابے اور الزام تراشی کے پیچھے اصل مقصد ناجائز قبضہ برقرار رکھنا ہے۔ عدالتیں اپنا کام کر رہی ہیں، مگر صحافت کے مستقبل کا فیصلہ صرف عدالتوں کے کمرے میں نہیں نکل سکتا۔ صحافی برادری کو اجتماعی بصیرت سے یہ طے کرنا ہوگا۔ مگر شرط یہ ہے کہ سب سے پہلے ان کالی بھیڑوں کو صفوں سے الگ کیا جائے جو صحافت کی آڑ میں کاروبار کرتے ہیں، جن کا کریمنل ریکارڈ داغدار ہے، اور جو ذاتی مفادات کے اسیر ہو کر اس کھیل کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔

    اہم سوال یہی ہے کہ پریس کلب کب کب سیل ہوا۔۔؟ ان ادوار میں قیادت کا دعویٰ کس نے کیا۔۔؟ ناجائز طریقے کس نے اپنائے۔۔؟ تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھیں تو جواب ایک ہی نام کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پورا شہر جانتا ہے کہ اس تنازعے کی جڑ کہاں ہے اور کس کے مفادات اس کھیل سے جڑے ہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ اگر صحافی برادری نے اپنی صفوں کو صاف نہ کیا تو یہ کھیل کبھی ختم نہ ہوگا۔اب وقت ہے کہ اس کردار کو سماج کے آئینے میں دکھایا جائے۔ کبھی کبھی معاشرے کی خاموشی سب سے کاری وار کرتی ہے۔ بائیکاٹ کی ضرب تلوار سے زیادہ گہری ہوتی ہے، کیونکہ وہ سماجی سطح پر عزت و وقار کو چھین لیتی ہے۔

    صحافت کا وقار اسی وقت بحال ہوگا جب رہبری اور راہزنی کے درمیان لکیر کھینچ دی جائے۔ ورنہ پریس کلب کا دروازہ ہمیشہ عدالتوں کی چابیوں کا محتاج رہے گا۔ یہ صورت حال ہمیں ایک پرانی حکایت یاد دلاتی ہے۔ ایک گاؤں میں کنویں کا پانی خراب ہو گیا۔ لوگ ایک دوسرے پر الزام لگاتے رہے کہ زہر کس نے گھولا۔ شور بڑھتا گیا، مگر پانی صاف نہ ہوا۔ آخر کار گاؤں کے بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ پہلے کنویں کو خالی کرو، پھر نئے پانی سے بھرو۔ تب جا کے پیاس بجھی۔ آج صحافت کا کنواں بھی اسی حکایت کی یاد دلاتا ہے۔ جب تک زہر گھولنے والوں کو الگ نہیں کیا جاتا، یہ پیاس بجھنے والی نہیں۔

    وقت کا تقاضا ہے کہ صحافت اپنی اصل پہچان دوبارہ تلاش کرے۔ فیک شناختوں، ذاتی مفادات، اور سطحی پرفارمنس سے ہٹ کر اصل مشن یاد کرے۔ ورنہ آنے والی نسلیں یہ سوال ضرور اٹھائیں گی کہ جب صحافت امتحان میں تھی تو حقیقی صحافی کہاں تھے؟

  • آزادی اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت –  مولانا قاری محمد سلمان عثمانی

    آزادی اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت – مولانا قاری محمد سلمان عثمانی

    اللہ تعالیٰ نے ہمیں آزادوطن کی نعمت عطا فرمائی ہے۔ اہلِ ہند جو ایک صدی سے انگریز کے غلام چلے آرہے تھے اور جس غلامی میں ہمارا ایمانی و تہذیبی ورثہ داؤ پر لگ چکا تھا، اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک بار پھر یہ موقع عنایت فرمایا کہ ہم اس آزادی کی قدر کرکے اپنی اگلی نسلوں تک اپنا ایمانی سلسلہ اور تہذیبی ورثہ صحیح سلامت ان تک پہنچائیں۔

    آزادی ایک ایسی نعمت ہے جس کا متبادل کائنات میں کوئی چیز نہیں ہو سکتی. آزادی کے مقابلہ میں قیمتی سے قیمتی انمول موتی ہیرے اور جواہرات کی کوئی حیثیت اور قدر و منزلت نہیں. آزادی کی قدر و قیمت پوچھنی ہے تو محکوم قوموں سے پوچھیں، جن کی زندگی کا ہر ہر لمحہ اور ایک ایک سانس تکلیف و پریشانی،ذلت و رسوائی میں برسوں کے برابر گزرتا ہے. یہ تو پروردگار کا کروڑہا شکر ہے کہ اس نے ہمیں یہ آزادی جیسی گراں قدر اور بیش قیمت دولت محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرما دی ہے. تو ہمیں چاہئے کہ اس کی قدرو منزلت کو پہچانیں اور اللہ کا شکر ادا کریں.

    آج جو ہم آزاد ملک اور آزاد فضا میں من مانی اور سکون کی زندگی گزار رہے ہیں، اپنے مذہبی فرائض و عبادات اور اسلامی رسومات کو آزادی سے ادا کر رہے ہیں. در حقیقت یہ سب ہمارے آباو اجداد اور ان بزرگوں مجاہدوں،غازیوں اور شہیدوں کی قربانیوں کی بدولت ہے، جنہوں نے اس وطن عزیز کے حصول کی خاطر جان، مال،اولاد،عزت و آبرو، تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا. اس مملکت خدا داد پاکستان کی تعمیر و ترقی اور بنیادوں میں لاکھوں مسلمانوں کی بے پناہ جدوجہد و قربانیاں اور شہداء کا خون شامل ہے۔

    اسلام میں آزادی کو کتنا بلند مقام حاصل ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی عقیدے کو اختیار کرنے کے معاملے میں بھی اسلام نے انسان کو مجبور نہیں کیا ہے جیساکہ قرآن پاک میں ہے.
    ترجمہ:
    ” ہم نے اس کو راہ سجھا دی، چاہے وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا”.(سورہ الدھر، آیت 03)

    یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ایمان،عقیدہ اور توحید سے متعلق معاملات میں،جو کہ سب سے زیادہ اہم معاملات ہیں،انسان کو اختیار اور آزادی عطا کی ہے۔ یعنی سمیع و بصیر بنا کر اور اپنے نبیوں اور اپنی کتابوں کے ذریعے شکر وکفر کا راستہ بتاکر اس کو اختیار دے دیا کہ وہ جس راستے کو چاہے اپنے لیے منتخب کرے۔جو راستہ بھی وہ اختیار کرے گا،اس کا ذمہ دار وہ خود ہوگا۔ چنانچہ فرمایا، ترجمہ:
    “دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے۔ ہدایت گمراہی سے بالکل الگ ہوچکی ہے تو جس نے طاغوت سے انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا اس نے مضبوط رسی پکڑی جو ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے “.(سورہ البقرہ، آیت 256)

    اور ایک جگہ ارشاد فرمایا ،
    ترجمہ:
    ” اور اگر تیرا رب چاہتا تو روئے زمین پر جتنے لوگ بھی ہیں سب ایمان قبول کرلیتے تو کیا تم لوگوں کو مجبور کرو گے کہ وہ مومن بن جائیں؟”(سورہ یونس، آیت99)

    اور ایک جگہ فرمایا،
    ترجمہ:
    “تم یاددہانی کردو، تم بس ایک یاددہانی کردینے والے ہو۔تم ان پر داروغہ نہیں مقرر ہو.”(سورہ الغاشیہ، آیات21-22)

    اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے اس نے افراط اور تفریط کی غیر فطری روش سے ہٹ کر اعتدال کی راہ اپنائی ہے۔اسلام کی نظر میں انسان پابند محض نہیں ہے کہ اس کو کسی طرح کے ارادہ واختیار کی آزادی نہ ہو۔اسی طرح وہ اس قسم کی موہوم اور بے مہارآزادی کو خارج کرتا ہے جو سماج میں انتشار اور بد امنی کا سبب بنے یا جس سے فساد فی الارض رونما ہوتا ہو۔اسلام ارادہ واختیار کی آزادی کو سراہتے ہوئے،جبر واکراہ کو مسترد کرتا ہے۔ اسلام آزادی کو انسان کا بنیادی حق قرار دیتا ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ایک ایسا فریضہ تصور کرتا ہے جس سے دست برداری جائز نہیں۔وہ ایک خدائے واحدکی بندگی کا پابند بناکر سیکڑوں خداؤں کی بندگی سے انسان کو آزادی دلاتا ہے.

    انسانی بھائی چارے کو تقویت پہنچا کر مضبوط،پائیدار اور صحت مند سماج کی تشکیل میں اہم رول ادا کرتا ہے جان، مال، دین، عقل، عزت وآبرو کی حفاظت کو یقینی بناکر ترقی وخوشحالی کے وسیع امکانا ت پیدا کرتا ہے۔ آزادی کا پروانہ عطا کرکے انسان کو سعادت دارین کی شاہ راہ پر گامزن کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے عہد جاہلیت سے جاری غلامی کے انسٹی ٹیوشن کا معقول اور منصوبہ بند طریقہ سے خاتمہ کیا۔جب اسلام آیا تو غلامی کی بہت سی شکلیں سماج میں رائج تھیں۔دنیا پرست انسان غلامی کے ذریعے انسانوں کا استحصال کررہے تھے۔ غلامی کے متعدد اسباب میں جنگ میں قید ی بنانا، غارت گر حملوں میں اُچک لینا،ماں باپ کا اپنے بچوں کو فروخت کردینا، رہن رکھ دینا، وغیرہ شامل تھا۔

    اسلام نے صرف جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کی اجازت دی،کیونکہ اس کا کوئی متبادل نہیں تھا۔اسلام کے عطا کردہ حق حریت کا اطلاق ہر قسم کی آزادی پر ہوتا ہے اوریہ بہت سارے انسانی حقوق کی بنیاد ہے، مثلاً ایمان و عقیدے کی آزادی، مذہب کی آزادی،غور وفکر کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی،کام کی آزادی،رہائش کی آزادی، ملکیت کی آزادی، فائدہ اٹھانے کی آزادی،سیاسی آزادی، شہریت کی آزادی، حتی کہ انسان کی انسانیت بھی اس کی آزادی کی مرہون منت ہے۔اسلام اپنے تصور آزادی کو حقوق وفرائض کے توسط سے عملی جامہ پہناتاہے کیوں کہ یہ دونوں ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔

    اس لیے کہ جب تک حقوق کوفرائض سے مربوط اور منسلک نہیں کیا جاتا،انسان کا دوسرے انسانوں سے صحیح بنیادوں پر تعلق قائم نہیں ہوسکتا۔ دراصل اسلام کا تصور آزادی بہت وسیع ہے۔ اسلام جب انسان کی آزادی کی بات کرتا ہے تووہ انسان کو ہر اس چیز سے آزاد دیکھنا چاہتا ہے جو اس کی عزت وکرامت کو نیست ونابود کرنے والی ہو۔ چنانچہ وہ اس کے دل اور جذبات کوشیطانی محرکات اور نفسانی خواہشات کے غلبے سے آزاد کرتا ہے۔اس کی عقل اور سوچ کو اوہام وخرافات اور فکری انحرافات کی پابندیوں سے آزاد کرتا ہے۔اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کے لیے آزادی،عزت اور امتیاز کی زندگی پسند کی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:

    ترجمہ:
    “اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور خشکی اور تری دونوں میں ان کو سواری عطاکی۔اور ان کو پاکیزہ چیزوں کا رزق دیااور ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فضیلت دی.”(سورہ بنی اسرائیل، آیت70)

    اسی سیاق میں حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنالیا جب کہ ان کی ماؤں نے ان کو آزاد پیدا کیا تھا؟ انسان جب جواب دہی کی بات کرتا ہے تو وہ انسان کی تربیت اس انداز سے کرتا ہے کہ وہ اسے ایک امانت خیال کر کے اس کی قدر و منزلت کا اعتراف کرے۔ ایسا کرنا اسی وقت ممکن ہے جب کہ یہ بات بھی ایمان کے تقاضوں میں شامل ہو۔قرآن کہتا ہے کہ ترجمہ:
    “اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والے ہیں”. (سورہ المعارج، آیت 32)

    حضرت انس بن مالک ؓ سے ایک حدیث نبوی ﷺ مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا :
    “جو شخص امانت دار نہیں ہے اس کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں، اور جو شخص وعدے کا پابند نہیں ہے اس کے دین کا کوئی اعتبار نہیں.”(مسند احمد، حدیث نمبر 12567)

    اسلام تمام انسانوں کواپنے اپنے دائرہ عمل اور استطاعت ووسعت کے اعتبار سے جواب دہ قرار دیتاہے۔ حدیث میں ہے کہ ترجمہ:
    ” ہر شخص ذمہ دار ہے، اور ہر شخص سے اس کی اپنی ذمہ داری کی بابت باز پرس ہوگی.”(صحیح البخاری، حدیث نمبر2558)

    انسان کی جواب دہی کا دائرہ صرف دنیاوی زندگی تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ اس کی مسؤ ولیت کا سلسلہ آخرت تک دراز ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کی اس انداز میں تربیت کرتا ہے کہ وہ جواب دہی کے معاملے کو آسان نہ سمجھیں۔خاص طور پر جب معاملہ عامۃ الناس کے مفادات کی نگرانی کا ہو۔اسلام میں ذمہ داری جتنی بڑی ہوتی ہے،احساس ذمہ داری بھی اسی قدرشدید ہوتا ہے۔اس ضمن میں آزادی کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے تاریخ گواہ ہے کہ 1947 ء میں جس وقت مسلمان بے سرو سامانی کے عالم میں ہندوستان سے ہجرت کر کے ٹرینوں میں بیٹھ کر پاکستان آ رہے تھے تو ہندوؤں اور سکھوں نے راستے میں مسلمان مردوں عورتوں بوڑھوں نوجوانوں اوربچوں کو انتہائی بے دردی اور سفاکی سے قتل کیا تھا کہ اس درندگی اور ظلم کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی.

    ہندوستان کے گلی کوچوں اور بازاروں میں بھی خون کی بدترین ہولی کھیلی گئی اور ندی نالوں میں بہتی ہوئی مسلمانوں کی لاشوں اور خون سے رنگین پانی سے بھی آزادی کی صدائیں آتی تھیں. ہندوستان کی خونی فضائیں بھی مسلمانوں پر ظلم کی وجہ سے ماتم کر رہی تھیں، اس سے پہلے شائد آسمان نے ایسا خونی ہولناک منظر زمین پر نہیں دیکھا ہو گا، ہم عہد کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ اپنے ملک پاکستان اور وطن عزیز کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے. آزادی صرف ایک لفظ ہی نہیں ہے بلکہ اس کے اندر انسان کی دنیا کی ان گنت خوشیاں پوشیدہ اور پنہاں ہیں جو قومیں اس نعمت کی قدر نہیں کرتیں وہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں.

    آزادی کے حصول کیلئے ہمارے مشاہیر اور اسلاف نے حصول پاکستان کیلئے نصف صدی تک کن کن جانی، مالی قربانیوں کے نذرانے پیش کیئے ہیں،جن کی بدولت آج ہم آزاد وطن میں پر سکون زندگی گزار رہے ہیں، ہم پاکستانی دنیا کے کسی ملک میں بھی چلے جائیں ہماری اصل شناخت اور پہچان پاکستان ہی ہے۔ آزاد مملکت کی بدولت ہماری اور ہماری نسلوں کی پہچان ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اس آزادی کی نہ صرف خود قدر کریں بلکہ اپنے بچوں کو بھی اس دن کی مناسبت سے آزادی کا درس دیں تاکہ اس ملک کو حاصل کرنے کیلئے دی گئی بے پناہ قربانیوں کا حق ادا کیا جا سکے

    اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے ملک عزیز پاکستان کو صبح قیامت تک قائم ودائم رکھے،تمام شرور فتنوں، مصائب، مشکلوں، آفات، دشمنوں کے شر سے،دہشت گردی جیسے لعنت سے محفوظ رکھے۔آمین ثم آمین

  • تجاویزات کے خلاف آپریشن، مسئلے کی نفسیات کو سمجھنا ہوگا  – ملک محمد فاروق خان

    تجاویزات کے خلاف آپریشن، مسئلے کی نفسیات کو سمجھنا ہوگا – ملک محمد فاروق خان

    تجاوزات کے خلاف آپریشن قانونی اور معاشرتی طور پر مثبت قدم ہے ۔ یہ ملک، شہر اور گاؤں ہمارے ہیں انہیں صاف ستھرا ، تجاوزات سے پاک رکھنے کی عوامی زمہ داری بنتی ہے اور قومی فریضہ بھی ہے۔ اس ملک کے ہر شہری کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ پُرسکون، باوقار اور آسان زندگی گزارے۔

    وہ جب کسی سڑک سے گزرے تو پھول اس کے راستوں میں مسکرائیں، بہاریں اس کی ہم سفر ہوں۔ فٹ پاتھ شکستہ اور با قبضہ نہ ہوں، وہ بے بصر ہو یا معذور، آسانی سے گزر سکے۔بازاروں کی گلیوں سے فضائی آزادی کا حق متاثر نہ ہوتا ہو۔ گزرگاہیں ریڑھی بانوں کے تصرف میں نہ ہوں۔ ریڑھی بان تجاوزات مافیا اور منتھلی لینے والوں کی بی ٹیم بننے سے گریز کریں۔ تجاوزات کے خلاف آپریشن جب تک صرف پتھروں اور چھتوں تک محدود رہے گا، یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اصل تجاوزات تو ان فائلوں میں دفن ہیں جو سرکاری میزوں میں دبائی جاتی ہیں۔ اصل تجاوز وہ خاموش گٹھ جوڑ ہے جو ایک ہاتھ سے غیر قانونی قبضہ کرواتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے میڈیا پر آپریشن کی خبریں بھی ۔

    ماضی میں بھی ایسے آپریشن صرف عوامی ذہن کو اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے استعمال ہوتے رہے۔ خاص طور پر غیر جمہوری یا نیم جمہوری ادوار میں۔ تجاوزات کے خلاف آپریشن سلگتے مسائل،کرپشن، بے روزگاری اور مہنگائی سے عوامی توجہ ہٹانے کا آزمودہ نسخہ کیمیاء رہے ہیں، کسی عمارت کو گرانے سے پہلے اُس محکمے کے افسر کو عوام کے سامنے لا کر کھڑا کرنا ہوگا جس کی آشیر باد سے وہ تجاوز ہوا۔ یہ تجاوزات کسی غریب ریڑھی والے کے خوابوں سے زیادہ محکمانہ مفادات کا تسلسل ہیں۔ یہ اُس کالی کمائی کی دیمک ہیں جو عوام کے حصے کی روشنی چاٹ جاتی ہے۔ محکمے جواب دہی کی ریڈ لائن کو عبور کر چکے ہیں جس کے بعد عوامی اعتماد کا کوئی ستون سلامت نہیں رہتا۔

    ہر آپریشن کو اُس محکمے کے احتساب سے مشروط کیا جائے جس کی ناکامی نے شہر کو تنگ، فٹ پاتھوں کو مقبوضہ، اور سڑکوں کو اکھڑا ہوا بنا دیا ہے۔ قانون کا قبضہ ہونا چاہیے مگر وہ صرف کمزور پر نہیں، طاقتور پر بھی۔ فٹ پاتھوں پر صرف عوام نہیں چلتے، قوم کا مستقبل بھی وہیں سے گزر کر آگے بڑھتا ہے۔ اگر فٹ پاتھ آزاد ہوں، تو شعور بھی آزاد ہوتا ہے۔ اگر قانون واقعی سب کے لیے برابر ہو، تو ریڈ کارپٹ صرف بااثر افراد کے پیروں تلے نہیں بلکہ محروم طبقے کے سر پر تحفظ کی چھتری کی طرح بھی ہونا چاہیے۔ کوئی ایسا فامولا دیا جائے جس سے تجاوزات متعلقہ محکمے کے لئے خوف بن جائے۔

    “محکمانہ جوابدہی میں ہی تجاوزات کے خاتمے کا راز پوشیدہ ہے”۔

  • مشرق وسطیٰ کا بدلتا سیاسی اور اسٹریٹجک منظر نامہ –  افتخار گیلانی

    مشرق وسطیٰ کا بدلتا سیاسی اور اسٹریٹجک منظر نامہ – افتخار گیلانی

    حالیہ اسرائیل-ایران جنگ اور پھر اس میں امریکی شمولیت نے مشرق وسطیٰ میں خاص طور پر ، حتیٰ کہ امریکہ حلیفوں میں بھی خطرے کی گھنٹیاں بجاد دی ہیں۔ درون خانہ سوال پوچھے جا رہے ہیں کہ اب ان کا نمبر کب آئےگا اور بہانہ کیا ہوگا؟

    ترکیہ کے شہر استنبول کے علی بے کوائے ضلع کی گلیوں میں 78سالہ ایرانی تارک وطن حسن مرادی مجھے بتا رہے تھے کہ ایران کےلیے نہ صرف مسلم دنیا بلکہ استعماریت کے خلاف تیسری دنیا کی لیڈرشپ کے حصول کا اس وقت ایک نایاب و نادر موقع ہے ۔یہ موقع ایران کو 1979 میں انقلاب کے بعد حاصل ہوا تھا، مگر مختلف وجوہات، جن میں عراق کی طرف سے جنگ ٹھونسنا، اور پھر ایرانی لیڈرشپ کی تنگ نظری،مسلم دنیا یا تیسری دنیا کے بجائے اپنے آپ کو شیعہ فرقہ کی لیڈرشپ تک محدود کرنا، اتحاد قائم کرنے کے بجائے دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کروانا، شیعہ مسلح گروپوں کو شہ دینا وغیر ہ ایسے اقدامات تھے ، جس نے ایران کے اثر و رسوخ کو منفی رخ دے دیا ۔

    داخلی فرنٹ پر بھی ایرانی حکومتوں کا رویہ کچھ قابل فخر نہیں رہا ۔ 2022 میں 22سالہ کرد خاتون مہشا امینی کی زیر حراست کی ہلاکت کے بعد احتجاج سے بے دردی کے ساتھ نپٹنا، داخلی سیکورٹی کے ساتھ اس حد تک بے اعتنائی کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا ایرانی حکومت کی ناک کے نیچے ایسا مؤثر نیٹ ورک بنانا، ایسی چیزیں تھیں ، جس نے ایران کی شبیہ داغدار کی تھی۔خطے میں ایران کی قد و قامت کا اندازہ اب اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حالیہ جنگ کے دوران جب استنبول میں حال میں اسلامی تنظیم کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ ہو رہی تھی، تو سبھی کی توجہ ایران پر مرکوز تھی ۔ قطر، سعودی اور دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ اور وفود ایرانی وفد کے ارد گرد گھومتے دکھائی دیے اور ان سے صلاح و مشورہ کر رہے تھے ۔

    ماضی کی کسی ایسی میٹنگ میں ایرانی وفد الگ تھلگ نظر آتا تھا ۔ اس لیے وقت اب آگیا ہے کہ ایران کو حقیقی سیاسی اصلاحات کا راستہ اپنانا چاہیے، تاکہ داخلی محاذ پر ایرانی عوام کو دہائیوں کی گھٹن کے بعد آزادی کی تازہ ہوا نصیب ہو، خفیہ ایجنسی کا استعمال اپنی آبادی یا پڑوسی ممالک کے بجائے اسرائیلی نیٹ ورک کے خلاف ہو اوربیرونی محاذ پر مغربی استعماریت کے خلاف ایک اتحاد بنانے پر توجہ صرف کرنی چاہیے ۔ مزید ایرانی حکومت کو شیعہ محور اتحادیوں اور پراکسی ملیشیاؤں کی پالیسی ترک کرنی چاہیے، جنہوں نے شام، لبنان اور دیگر خطوں کو تباہی سے دوچار کیا ۔

    خلیجی ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات کشیدہ تو تھے ہی، مشرق وسطیٰ کی ایک اور اہم طاقت ترکیہ نے بھی کئی دہائیوں تک ایران کو خطے میں عدم استحکام کی علامت سمجھا اور اس کی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی خواہشات کی مخالفت کی ۔مگر ایران پر اسرائیل کے یکطرفہ حملے،انقرہ کےلیے بھی خطرے کی گھنٹی بن گئے ہیں ۔خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید ایک دن اسرائیل ترکیہ کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے، حالانکہ ترکیہ ناٹو کا رکن بھی ہے ۔ یہ خدشہ ترکیہ کی نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی) کے سربراہ اور صدر رجب طیب ایردوان کے اہم اتحادی دولت باہچلی نے بھی ظاہر کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کے خلاف اسرائیلی مہم تر کیہ کو گھیرنے اور اس کے علاقائی عزائم کو سبوتاژ کرنے کی ایک بڑی سازش کا حصہ ہے ۔

    انہوں نے کہا؛
    اسرائیل کا سیاسی و اسٹریٹجک مقصد اناطولیہ کو گھیرنا اور اپنے آقاؤں کی طرف سے ترکیہ میں دہشت گردی کی مدد کرنا اور ترکیہ کی ترقی اور ایک طاقت بننے کی راہ کو سبوتاژ کرنا ہے۔

    ایک ترک کالم نگار نے کے مطابق، ایران پر حملوں کے دوران اسرائیلی ایف 35 طیاروں کے ترکیہ کے اوپر پرواز کرنے کی کوشش کی تھی ۔ جن کو ترکیہ کے ایف 6 اور اے ڈبلیو اے سی ایس ایئرکرافٹ نے بھگایا ۔ یہ طیارے شاید ترکیہ کے ڈیفنس سسٹم کو ٹیسٹ کررہے تھے ۔ ترک ایف 16 کی ریڈیو وارننگ کے بعد یہ طیارے فوراً واپس پلٹ گئے ۔
    اس جنگ کے دوران ترکیہ کے اعلیٰ حکام نے دو بار سکیورٹی اجلاس منعقد کیے ۔ ترک فوج نے اسرائیل کے جنگی حربوں کا باریک بینی سے مطالعہ بھی کیا۔

    ایردوان نے خود بھی اسرائیل کے حملے پر خطے کے رہنماؤں اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور ایرانی صدر مسعود پزیشکیان کو فون کیے ۔ انہوں نے شام کے صدر احمد الشرا ع اور عراقی وزیر اعظم محمد شیا السودانی سے بھی رابطہ کیا۔اس جنگ کے فوراً بعد ہی ایردوان نے اعلان کیا کہ ترکیہ درمیانے اور طویل فاصلے کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو تیز کرے گا اور اپنے دفاعی نظام کی سطح مزید بلند کرکے اس کو مکمل خودکفیل بنائے گا ۔ انہوں نے اپنی تقریر کو سوشل میڈیا پر عثمانی سلطنت کے شاہی مہر کے ساتھ شیئر کیا ۔ ایردوان نے کہا؛

    عثمانی سلطنت کی فاتح فوج کا اصول تھا؛اگر تم آزادی چاہتے ہو، اگر تم عزت، وقار اور ایمانداری سے اس دھرتی پر جینا چاہتے ہو، اگر تم خوشحالی، دولت اور ہم آہنگی چاہتے ہو، اگر تم امن چاہتے ہو، تو جنگ کے لیے ہمیشہ تیار رہو ۔ ایردوان کو سب سے زیادہ اس بات نے برہم کیا کہ یورپی ممالک نے ایران پر حملے کی حمایت کی، حالانکہ اس دوران امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری تنازع پر اعلیٰ سطح کی بات چیت جاری تھی ۔ذرائع کے مطابق پچھلے سال ستمبر میں جب اسرائیل نے حزب اللہ کے سکریٹری جنرل حسن نصراللہ کو قتل کیا، ترک حکام نے اسی وقت ممکنہ اسرائیلی حملے اور ممکنہ وسیع تر علاقائی جنگ کے مختلف منظرناموں پر غور کرنا شروع کر دیا تھا۔

    حکام نے ہنگامی منصوبے بنائے، جن میں ممکنہ پناہ گزینوں کی آمد سے متعلق اقدامات بھی شامل تھے ۔ اکتوبر میں انقرہ نے قید کرد باغی تنظیم پی کے کے رہنما عبداللہ اوجلان سے بات چیت شروع کی تاکہ اس گروپ کو ایران یا اسرائیل کا پراکسی بننے سے روکا جا سکے ۔ یہ بات سچ ہے کہ ترکیہ پہلا مسلم ملک تھا جس نے 1949 میں اسرائیل کو تسلیم کیا اور 1990 کی دہائی میں تل ابیب کا اتحادی بنا، جب ترک سلامتی اداروں کو اندرونی عدم استحکام کے دوران کرد باغیوں اور آرمینا کے خلاف مدد درکار تھی ۔

    جب 2003 میں رجب طیب ایردوان نے اقتدار سنبھالا، تو فلسطینیوں کے حوالے سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہونا شروع ہو گئے تھے ۔ مگر چونکہ اسرائیل نے فلسطینی علاقوں میں ترک تنظیموں کو رفاء عام کے کام کرنے کی اجازت دی ہوئی تھی، اس لیے ان تعلقات میں زیادہ ابتری دیکھنے کو نہیں ملی۔ 2010 میں ماوی مرمرہ جہاز پر اسرائیلی چھاپے کے بعد تعلقات میں زبردست بگاڑ آیا، جس میں 10 ترک کارکن بین الاقوامی پانیوں میں ہلاک ہو گئے ۔بعد میں تعلقات میں کچھ بہتری آئی، مگر 2023 کے آخر میں غزہ کی جنگ کے باعث ترکی نے اسرائیل کے ساتھ مفاہمت کی کوششیں ختم کر دیں۔ گزشتہ برس اسرائیل کی حزب اللہ کو کمزور کرنے کی مہم اور شام میں اسد حکومت کے زوال کے بعد، جہاں پہلے ایران کا غلبہ تھا، اب اسرائیل خطے کی کلیدی طاقت بن کر ابھرا ہے۔

    اسرائیلی حکام اب کھلے عام کہتے ہیں کہ ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ترکیہ ہے، جو خطہ میں وسائل اور اثرورسوخ رکھتا ہے ۔ مشرقی بحیرہ روم کے ایک سرے پر اس وقت اسرائیل کی فوجی طاقت ہے، تو دوسرے سرے پر ترکیہ کی فوجی قوت ہے ۔ ترک وزیر خارجہ حقان فیدان نے کئی بار کہا ہے کہ خطے پر کسی ایک طاقت، حتیٰ کہ ترکیہ کی بھی، بالادستی نہیں ہونی چاہیے ۔سب سے پہلا بڑا چیلنج شام کے مسئلے پر تھا، جب نیتن یاہو کی حکومت نے جنوبی شام میں ترک ریڈار اور ایئر ڈیفنس بیس کی مخالفت کی۔ امریکی حکام کی مداخلت کے نتیجے میں اپریل میں ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان ایک ہاٹ لائن قائم ہوئی۔

    مذاکرات میں اتنی پیش رفت ہوئی کہ ترک حکام نے شام کے نمائندے بھی اسرائیلیوں کے ساتھ بات چیت میں شامل کیے تاکہ شام پر اسرائیلی حملے روکے جا سکیں ۔ اصل مسئلہ شام کی فضائی حدود پر کنٹرول کا تھا ۔ ترک حکام نے اسرائیل کو مشورہ دیا کہ شام کی فضائی حدود پر اپنے تحفظات کا حل براہِ راست شام کے ساتھ طے کرے، نہ کہ ترکیہ کو اس قضیہ میں گھسیٹے ۔جب 2014 میں رجب طیب ایردوان ایران گئے تودونوں ممالک نے تجارتی معاہدوں اور توانائی و صنعتی روابط پر کئی یاداشتوں پر دستخط کیے۔ لیکن گیارہ برس بعد ایران کے لیے ترکیہ میں وہ محبت یا احترام باقی نہیں تھا ۔

    بعض ماہرین اس کشیدگی کی جڑیں پرانی رقابت میں تلاش کرتے ہیں جو سلطنت عثمانیہ کے زمانے سے چلی آتی ہیں ۔مگر موجودہ دور میں اس کی وجہ ایران کا شام اور لبنان میں کردار تھا ۔ ورنہ جب 1979 میں ایران کا اسلامی انقلاب آیا تو ترک اسلام پسند خوشی سے سرشار تھے ۔ ایردوان کے سیاسی اور نظریاتی استاد سابق وزیر اعظم نجم الدین اربکان علی شریعتی کے مداح تھے اور 1990 کی دہائی تک ایران کو بعض حوالوں سے ایک مثالی ماڈل کے طور پر دیکھتے رہے ۔ اربکان نے 1997 میں مسلمان اکثریتی ممالک کو ڈی 8 اقتصادی تعاون تنظیم کے تحت متحد کرنے کی کوشش کی اور بنگلہ دیش، مصر، انڈونیشیا، ایران، ملائیشیا، ناءجیریا اور پاکستان کو ساتھ ملایا ۔

    بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 1997 میں اربکان کی حکومت کے خاتمے کا ایک سبب وہ القدس نائٹ تھی، جو انقرہ کے سنجان ضلع میں ان کی ویلفیئر پارٹی نے ایرانی سفیر کی موجودگی میں منعقد کی ۔ اس تقریب میں فلسطینی کاز پر مبنی ایک ڈرامہ پیش کیا گیا اور ہال میں حزب اللہ اور حماس کے پرچم لہرائے گئے ۔ایرانی سفیر نے سیکولر ترک حکومت پر تنقیدی تقریر کی، جسے ترک فوج نے حکومت کے خلاف ایک کارروائی کا بہانہ بنایا اور اربکان کی حکومت کو بے دخل کر دیا ۔ 2002 میں ایردوان اور ان کے ساتھیوں نے جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) قائم کی تو انہوں نے اپنی لبرل اور یورپی یونین نواز پالیسیوں کے باوجود ایران سے قربت برقرار رکھی ۔

    ایک نمایاں مثال برازیل کے ساتھ مل کر ایران کے جوہری تنازعہ پر ثالثی کی کوشش تھی، جس میں ایران نے 1200 کلوگرام کم افزودہ یورینیم ترکی کو بھجوانے پر آمادگی ظاہر کی تاکہ اسے میڈیکل ریسرچ ری ایکٹر کے لیے ایندھن میں بدلا جا سکے ۔سال 2011 میں غالباً ایردوان پہلے سنی لیڈر تھے، جنہوں نے نجف میں حضرت علی کے مزار پر حاضری دی اور آیت اللہ سیستانی سے ملاقات کی ۔ ترکی اور ایران کے تعلقات اتنے قریبی تھے کہ 2012 میں امریکی رپورٹس نے ایردوان پر الزام لگایا کہ انہوں نے ترکیہ میں کام کرنے والے اسرائیلی جاسوسوں کے نام تہران کو بتائے ۔

    ٍتاہم 2011 میں شام میں بشار الاسد کی حکومت کی حمایت اور مظاہرین پر تشدد، اور خاص طور پر 2013 میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال اور 2014 میں حلب جیسے شہروں کا محاصرہ، ایران کی جانب سے ان مظالم کی حمایت نے تر کیہ کو شدید بدظن کر دیا۔اس کے بعدذرائع کے مطابق ترکیہ کا کرد باغی تنظیم پی کے کے، کے ساتھ ہور ہے امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ایران کی طرف سے ہوئی، جس کی وجہ سے تعلقات میں خیر سگالی کی فضا ختم ہو گئی تھی ۔ایران کے ساتھ رقابت اور مغرب کے ساتھ ناپسندیدہ مگر ناگزیر شراکت داری کے بیچ پھنسا ترکیہ پچھلے کئی برسوں سے نئے مواقع اور خدشات دونوں کولے کر ابھرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔

    صدر رجب طیب ایردوان نے اس بحران کے دوران انقرہ کو ثالث کے طور پر پیش کرنے کی سعی کی ۔ ساتھ ہی اب دفاعی منصوبہ ساز ترکی کی فوجی جدید کاری کی رفتار بڑھانے، میزائل نظام کو اپ گریڈ کرنے اور اسٹیلتھ فائٹر پروگرام کو تیز کرنے پر زور دے رہے ہیں ۔اس جنگ کے ابتدائی دنوں میں انقرہ نے خاموشی سے واشنگٹن اور تہران کے درمیان سفارتی رابطہ کار کے طور پر کام کیا ۔ ایردوان نے جون کی 14 اور 15 تاریخ کو دو بار ٹرمپ سے بات کی اور پھر 16 جون کو ایرانی صدر مسعود پزیشکیان سے گفتگو کی ۔

    خطے کے دیگر رہنماؤں سے بھی انقرہ نے کشیدگی کم کرنے کے لیے رابطے کیے ۔تجزیہ کار سونر چاغاپتے کے مطابق ایردوان ٹرمپ کے ساتھ اپنی قربت کو استعمال کرتے ہوئے امریکہ اور ایران کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہتے تھے ۔ اس لیے اسلامی تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے اعلامیہ میں اسرائیل کی مذمت تو کی گئی، مگر امریکہ کا نام نہیں لیا گیا۔چاغاپتے کے بقول گزشتہ دہائی میں مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی پر ترکی کا اتنا نرم لہجہ کبھی نہیں رہا ہے ۔ اس کی وجہ ایردوان اور ٹرمپ کے درمیان ذاتی کیمسٹری بتائی جاتی ہے ۔

    انقرہ کی اصل تشویش ایک اور مشرق وسطیٰ کے ہمسایہ ملک میں شام اور عراق کی طرح عد م استحکام کا خطرہ تھا، جہاں طاقت کے خلا نے شدت پسند جہادیوں اور پی کے کے کے عناصر کو ترکیہ پر حملوں کا موقع دیا۔ اسرائیل اور ایران کے تنازعہ کا ایک فوری اثر یہ ہوا کہ ترکیہ کی دفاعی حلقوں میں خطے میں اپنی فضائی دفاعی صلاحیتوں کی تیاری اور لچک پر سنجیدہ سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ۔اسرائیل کی برق رفتاری اور جدید حربوں کے بعد اب ترک ماہرین متفق ہیں کہ ملک کو اپنے جدید اسٹیلتھ فائٹرایم ایم یو،کے اے اے این، اسٹیل ڈوم ایئر اور میزائل دفاعی نظام، اور میزائل ہتھیاروں کے ذخیرے پر مزید سرمایہ کاری کرنی ہو گی ۔

    ترکی کا اسٹیل ڈوم ایک جدید فضائی دفاعی نظام ہے جو میزائلوں ، ڈرونز اور طیاروں جیسے فضائی خطرات کو مختلف فاصلے اور بلندی پر روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔اگست 2024 میں ایردوان نے اس کا اعلان کیا تھا اور اکتوبر 2024 میں اس کا اہم جزو ‘سیپر بلاک-1’ فعال ہو چکا ہے ۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نظام ابھی مکمل آپریشنل نہیں ہوا ۔دفاعی تجزیہ کار کوزان سلچوق ارکان نے کہا کہ ترکی کو نہ صرف یہ نظام تیزی سے مکمل کرنا ہوگا بلکہ اے ڈبلیو اے سی ایس طیارے خریدنے ہوں گے اور سیپر ایئر ڈیفنس کے کم از کم آٹھ یونٹ بنانے ہوں گے ۔ ایردوان نے بھی اس عزم کا اظہار کیا کہ میزائل ذخیرہ اتنا بڑھایا جائے گا کہ کوئی بھی ترکیہ پر حملے یا اس کی طرف میلی نظر ڈالنے کی جرأت نہ کر سکے ۔

    انقرہ میں مقیم ایران امور کے ماہر اور سابق تھنک ٹینک محقق عارف کسکن کا ماننا ہے کہ ایران کی بڑھتی مشکلات کے نتیجے میں ترکی کے لیے خطے میں کچھ امکانات بھی پیدا ہو رہے ہیں ۔ ایک اہم موقع جنوبی قفقاز میں دیکھا جا رہا ہے، جہاں آرمینیا، جو ایران کا قریبی اتحادی ہے، آذربائیجان کے ساتھ امن معاہدے کی راہ پر گامزن ہے ۔سال 2023 میں آذری افواج نے نگورنو کارا باخ کے آرمینیائی اکثریتی علاقے میں کارروائی کر کے علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا اور وہاں سے بڑی تعداد میں آبادی نقل مکانی کر گئی۔مارچ میں دونوں ممالک نے اپنے دیرینہ تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے امن مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ۔

    کسکن کے مطابق ایران کی کمزوری ترکیہ اور آذربائیجان کی آرمینیا کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی کوششوں میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے ۔ امید بندھی ہے کہ ترکیہ ،آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان ایک نیا سہ فریقی تعلق بن کر نخشیویان کے راستے زنگزور کوریڈور کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے، جس سے ترکیہ باقی ترک دنیا سے منسلک ہو جائیگا ۔اقتدار سے علیحدگی سے قبل ایردوان تاریخ میں ایک ایسے ترک حکمران کے بطوراپنے آپ کو درج کروانا چا ہتے ہیں ،جس نے وسطی ایشیا ء کی چار ترک ریاستوں ، روس کے ترک اکثریتی صوبوں اور آذربائیجان کے ساتھ ترکیہ کے زمینی روابط بحال کیے ۔ اس کوریڈور کی بحالی ایردوان کےلیے خصوصی طور جذباتی حثیت رکھتی ہے ۔

    اسی سلسلے میں آرمینیائی وزیر اعظم نیکول پاشینیان نے حال ہی میں ترکیہ کا پہلا سرکاری دورہ کیا ۔اسرائیل-ایرا ن جنگ سے قبل شاید ہی ایسی پیش رفت ہو سکتی تھی ۔ہندوستان بھی آرمینیا کو ترکیہ کے مقابل کھڑے رہنے کےلیے اکساتارہا ہے ۔ یہ دورہ اس وقت ہوا جب آذربائیجانی صدر الہام علییف ایک روز قبل انقرہ آئے تھے ۔ آرمینیا اور ترکی کے درمیان 1993 میں سفارتی تعلقات ختم ہوئے تھے اور سرحدیں بند کر دی گئی تھیں ، جب آرمینیا نے نگورنو کاراباخ پر قبضہ کیا تھا۔

    ایک سینئر آرمینیائی سفارت کار نے بتایا کہ ایردوان نے پاشینیان کو عید الاضحیٰ کی مبارکباد کے فون کے بعد اس دورے کی دعوت دی تھی اور بعد میں یہ دعوت سفارتی ذرائع سے باضابطہ بھیجی گئی ۔سفارت کار نے اس دورے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں رہنماؤں کی قائدانہ بصیرت اور صبر سے تعلقات میں مثبت پیش رفت ممکن ہو رہی ہے ۔ پاشینیان نے حالیہ دنوں میں ترکیہ کے ساتھ بہتر ہمسائیگی کے تعلقات کی خواہش ظاہر کی ہے تاکہ آرمینیا کی تنہائی ختم ہو اور تجارتی و سفارتی تعلقات بحال ہوں ۔

    مارچ میں آرمینیا اور آذربائیجان نے ایک ابتدائی امن معاہدے پر اتفاق کیا، مگر باکو مزید مطالبات کرتا رہا اور اس نے انقرہ پر دباؤ ڈالا کہ وہ 2023 میں ایروان کے ساتھ طے پانے والے اعتماد سازی کے بعض اقدامات پر عمل درآمد نہ کرے۔
    ان اقدامات میں ایک اہم نکتہ الیجان-مارگارا سرحدی گزرگاہ کا کھولنا تھا تاکہ تیسرے ملکوں کے شہریوں اور سفارتی پاسپورٹ رکھنے والوں کو آمد و رفت کی اجازت دی جا سکے ۔ آرمینیا نے اپنی طرف سے مرمت کا کام مکمل کر لیا ہے، مگر ترکیہ نے اب تک اس معاہدے پر عملی قدم نہیں اٹھایا۔

    دوسری جانب، آذربائیجان اصرار کر رہا ہے کہ آرمینیا اپنے آئین میں ترمیم کرے جس میں ابھی تک نگورنو کاراباخ پر دعویٰ موجود ہے، اس شرط کے بغیر وہ امن معاہدے پر دستخط کرنے سے گریزاں ہے ۔ پاشینیان عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ آئینی ترمیم پر غور کر سکتے ہیں ، مگرابھی فی الحال ان کو انتخابات کا سامنا کرنا ہے، وہ سال کے اختتام تک آذربائیجان کے ساتھ امن معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔

    اب وقت آگیا ہے کہ ایران اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرکے ترکیہ اور دیگر ممالک کے ساتھ نہ صرف مسلم دنیا کی قیادت کا رول نبھائے، بلکہ استعماریت کے خلاف تیسری دنیا کےلیے بھی ایک استعارہ بن جائے ۔

  • چیئرمین ایچ ای سی  کا احتساب کون کرے گا؟ – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    چیئرمین ایچ ای سی کا احتساب کون کرے گا؟ – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    ایچ ای سی 2002ء میں، جبکہ ملک کا آئین معطل تھا، ایک آرڈی نینس کے ذریعے وجود میں لائی گئی۔ اس آرڈی نینس کو جنرل مشرف کے جاری کردہ دیگر قوانین کی طرح ایل ایف او اور سترھویں ترمیم کے ذریعے تسلسل عطا کیا گیا۔ 2010ء میں اٹھارویں ترمیم کے بعد اس تسلسل کو جاری رکھا گیا ۔ تاہم اس ترمیم نے قانون سازی کےلیے ’مشترک فہرست‘ کا خاتمہ کرکے تعلیم سمیت ایسے تقریباً تمام امور صوبوں کی طرف منتقل کردیے۔ تاہم اس وقت کے چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر عطاء الرحمان سپریم کورٹ جا پہنچے اور فریاد کی کہ اگر ایچ ای سی کو صوبوں کے حوالے کردیا گیا، تو بربادی آجائے گی۔ افتخار محمد چودھری صاحب کی عدالت تھی، مرضی کے فیصلے تھے۔ چنانچہ 12 اپریل 2011ء کو انھوں نے مختصر حکمنامہ جاری کرکے ایچ ای سی کو اپنا سابقہ کام جاری رکھنے کی اجازت دی۔ چودھری صاحب کے دوسرے کئی مختصر حکمناموں کی طرح اس حکمنامے کی تفصیلی وجوہات بھی کبھی سامنے نہیں آئیں اور 14 سال بعد بھی ایچ ای سی اسی مختصر حکمنامے کے بل بوتے پر قائم ہے۔

    اس دوران میں ایک اور تبدیلی آئی جس نے ایچ ای سی کےلیے عملاً بہت سارے مسائل پیدا کیے۔’دہشت گردی کے خلاف اتحاد‘ کا حصہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو ’اتحادیوں کی مدد کےلیے فنڈ‘ کی مد میں کئی بلین ڈالر ملتے تھے۔ اس مدد کا وافر حصہ ایچ ای سی کے ذریعے اعلی تعلیم کی طرف منتقل کیا گیا۔ چنانچہ ایچ ای سی نے بہت سارے لوگوں کو غیر ملکی یونیورسٹیوں میں پڑھنے کےلیے بھیجا، باہر سے پڑھے ہوؤں کو یہاں کی یونیورسٹیوں میں پڑھانے کےلیے بلایا، کئی بین الاقوامی کانفرنسیں کیں، مختلف تحقیقی پروجیکٹس کےلیے رقوم دیں، اور بظاہر کچھ عرصے کےلیے یونیورسٹیوں اور اعلی تعلیم کے مراکز میں بڑی ہلچل نظر آئی۔ اس دور میں ’ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی‘ کی پالیسی بھی اختیار کی گئی اور دھڑا دھڑ یونیورسٹیاں قائم کی گئیں۔ پھر ان یونیورسٹیوں میں بہت سارے نئے شعبے بھی قائم کیے گئے اور کئی نئے پروگرام جاری کیے گئے۔ ایچ ای سی کے کرتا دھرتا ’دس انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ‘کی مجسم تصویر بنے نظر آتے تھے کہ اچانک ’کولیشن سپورٹ فنڈ‘ کے سوتے خشک ہوگئے اور ایچ ای سی پر ہن برسنا بند ہوگیا۔

    اس کے بعد معلوم ہوا کہ کئی یونیورسٹیاں تو صرف اینٹوں اور پتھروں کی عمارت کی صورت میں ہیں اور ان میں کئی شعبے صرف کاغذات میں ہی پائے جاتے ہیں، کئی پروگرام ایسے ہیں جن میں طلبہ موجود ہی نہیں، کئی لوگ جو سکالرشپ لے کر باہر گئے، وہ واپس ہی نہیں آئے، کئی پروجیکٹ بس نام ہی کے پروجیکٹ تھے۔ ’تحقیقی مجلات‘کا ڈراما الگ۔ Egyptology یعنی ’مصریات‘ کے موضوع پر ایک بوگس مجلے میں پاکستان کے آئینی مسائل پر چند صفحات کا مقالہ شائع ہو جسے تین مقالہ نگاران نے لکھا ہو اور وہ مجلہ ایچ ای سی کے اعلی درجے کے مجلات میں شامل ہو! یہ صرف ایک مثال ہے، ورنہ تحقیقی مجلات کے نام پر جو کھیل رچایا گیا ہے، اس کی تفصیلات بہت اندوہناک ہیں۔

    ایچ ای سی کا آرڈی نینس اسے ’ریگولیٹر‘ کی حیثیت نہیں دیتا، نہ ہی اس کی دفعہ 10 جو ایچ ای سی کے اختیارات کے متعلق ہے، اسے ایسا کوئی اختیار دیتی ہے، لیکن ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں پر اپنی مانی قائم کرنے کےلیے خود کو ریگولیٹر کے طور پر ان پر مسلط کیا ہوا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ جب پچھلے سال سپریم کورٹ میں مقدمہ آیا کہ سرکاری یونیورسٹیوں کا معیار بہت زیادہ گر گیا ہے اور وہاں انتظامی بدعنوانی اور مالیاتی کرپشن کے علاوہ علمی زوال کی بدترین صورتحال ہے، تو ایچ ای سی نے سپریم کورٹ کے سامنے گربہ مسکین بن کرکہا تحریری موقف یہ دیا کہ یونیورسٹیاں اپنے امور میں خود مختار ہیں اور ایچ ای سی تو انھیں صرف سفارشات ہی دے سکتی ہے!

    ڈاکٹر مختاراحمد اس وقت ایچ ای سے کے چیئرمین ہیں جو ایک عشرے سے زائد عرصے سے ایچ ای سی سے وابستہ ہیں۔ سرکاری یونیورسٹیاں سالہا سال سے مالیاتی بحران کا شکار ہیں؛ بیشتر یونیورسٹیوں میں تنخواہوں اور پنشن کی مد میں دینے کےلیے رقم ہی پوری نہیں ہوتی، لیکن سرکاری ٹیلی وژن کو ایک انٹرویو میں ڈاکٹر مختار نے کہا کہ اس سال کے وفاقی بجٹ میں یونیورسٹیوں کےلیے وہی رقم ہے جو 2017ء سے انھیں دی جاتی رہی ہے؛ مزید یہ کہ یونیورسٹیوں کا ڈیویلپمنٹ بجٹ جو پچھلے سال 61 بلین تھا، اس سال اس میں شدید کمی کرکے اسے 39 بلین کردیا گیا ہے! تاہم اپنی اس بدترین ناکامی پر بھی ڈاکٹر مختار بطور چیئرمین ایچ ای سی اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع کےلیے سرگرم ہیں!

    انٹرویو میں ڈاکٹر مختار نے مزید کہا کہ کسی زمانے میں پاکستانی یونیورسٹیوں میں سالانہ صرف 850 تحقیقی مقالات شائع ہوتے تھے، جبکہ اب سالانہ 40 ہزار تحقیقی مقالات شائع ہوتے ہیں۔ تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان 40 ہزار مقالات کے نتیجے میں ملک میں کیا انقلاب برپا ہوا ہے؟ جعلی مجلات، جعلی مقالات، جعلی تحقیق، ایچ ای سی کی اس پالیسی نے قوم کو دیا کیا ہے؟

    پچھلے سال سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ بہت ساری سرکاری یونیورسٹیاں کسی مستقل وائس چانسلر کے بغیر چلائی جارہی ہیں، رجسٹرار، ڈین، چیئرپرسن وغیرہ جیسے اہم عہدوں پر سالہا سال سے عارضی تعیناتیاں کی گئی ہیں اور سینڈیکیٹ، سینیٹ، بورڈ آف گورنرز وغیرہ کے اجلاس ہوتے ہی نہیں ہیں۔ ایچ ای سی نے یہ ساری باتیں تسلیم کیں۔ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں ان امور اور دیگر متعلقہ امور پر ایچ ای سی، وزارتِ تعلیم، وفاقی و صوبائی حکومتوں اور سرکاری یونیورسٹیوں کو تفصیلی احکامات دیے گئے۔ یہ فیصلہ پچھلے سال اکتوبر 2024ء میں جاری کیا گیا۔ تقریباً 9 مہینے ہوچکے۔ اب صورتحال کیا ہے۔ صرف ایک یونیورسٹی کا معاملہ دیکھ لیجیے جس کا انتظام ڈاکٹر مختار نے براہِ راست سنبھالا۔

    بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی ریکٹر کو تفصیلی طور پر چارج شیٹ کرنے کے بعد سپریم کورٹ نے انھیں معطل کرتے ہوئے وزارتِ تعلیم کو حکم دیا کہ انھیں ہٹا کر یونیورسٹی کےلیے اہل ریکٹر کی تعیناتی مستقل بنیادوں پر کی جائے اور جب تک یہ نہ ہو، ایچ ای سی کے چیئرمین عارضی طور پر ریکٹر کی ذمہ داریاں سنبھال کر معاملات کو درست کرلیں۔ مزید سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ یونیورسٹیوں میں عارضی تعیناتی 6 مہینوں سے زیادہ مدت کےلیے نہ ہو۔ ڈاکٹر مختار نے نومبر 2024ء میں اس یونیورسٹی کے ریکٹر کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ قانوناً انھیں اپریل 2025ء تک سارے کام نمٹا کر یہاں سے نکل جانا چاہیے تھے، لیکن ابھی تک اس یونیورسٹی کےلیے مستقل ریکٹر کی تعیناتی کےلیے اشتہار تک نہیں دیا گیا۔ یونیورسٹی کے آرڈی نینس کے مطابق بورڈ آف گورنرز کا اجلاس ہر تین مہینوں میں کم ازکم ایک دفعہ ہونا لازمی ہے اور سپریم کورٹ نے اس کا صریح حکم بھی دیا تھا، لیکن ڈاکٹر مختار نے 7 مہینوں میں کوئی میٹنگ نہیں بلائی، حالانکہ کئی معزز ارکان نے بارہا میٹنگ بلانے کا مطالبہ کیا۔ یونیورسٹی کا بجٹ بھی بورڈ سے منظور ہونا لازمی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بجٹ منظور ہوئے بغیر ڈاکٹر مختار یونیورسٹی کے اخراجات کس قانون کے تحت چلارہے ہیں؟

  • پاک بھارت حالیہ حالات- عبدالرحمٰن لنگاہ

    پاک بھارت حالیہ حالات- عبدالرحمٰن لنگاہ

    دنیا کا سب سے قدیم تنازعہ، جسے ہم پاک بھارت تعلقات کہتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ ایک پیچیدہ، کشیدہ اور دل آزاری کے ماحول میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ہر دن ایک نئی حقیقت سامنے آتی ہے، جس میں دونوں ممالک کے درمیان تناؤ اور مفاہمت کی کہانیاں گزر چکی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہم اس تنازعہ کو حل کرنے کی کوئی حقیقی راہ دیکھ رہے ہیں؟

    یہ بات تو ہر ذہن میں ایک سوال کی صورت موجود ہوتی ہے کہ اس عرصے میں، جب دنیا بھر میں تبدیلیاں آ رہی ہیں، دونوں ممالک کی قیادت کیوں اس بات کو سمجھنے میں ناکام نظر آ رہی ہے کہ اصل طاقت جنگ یا دشمنی میں نہیں بلکہ تعاون اور مکالمہ میں ہے؟ دونوں ممالک کی عوام ایک دوسرے کے بارے میں کئی غلط فہمیاں پال رہی ہیں، جن کا سدباب صرف اور صرف فہمی اور بات چیت سے ہو سکتا ہے۔

    پاک بھارت تعلقات کے سلسلے میں موجودہ سیاسی منظر نامہ مزید پیچیدہ ہو چکا ہے۔ جب سے دونوں ممالک کے بیچ کشیدگی بڑھی ہے، معاشی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے بجائے، عوامی جذبات اور جنگی سیاست کا غلبہ نظر آ رہا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ایک ایسا موضوع بن چکا ہے، جس پر ہر حکومت اپنے سیاسی فائدے کے لیے آواز اٹھاتی ہے لیکن اس کے حل کی طرف قدم اٹھانے میں اکثر احتیاط اور تاخیر کی جاتی ہے۔

    دوسری جانب، عالمی سطح پر ان دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کو ایک خطرناک صورتحال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اقتصادی ترقی اور سماجی خوشحالی کا دور دورہ ہو رہا ہے لیکن پاکستان اور بھارت جیسے عظیم ممالک اس سے محروم نظر آتے ہیں۔ یہ انفرادی طور پر نہ صرف دونوں ممالک کی عوام کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

    ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ایک قوم کی ترقی اور فلاح میں اس کی ہمسایہ قوموں کے ساتھ روابط کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ اگر پاکستان اور بھارت میں تنازعہ جاری رہا، تو نہ صرف یہ دونوں ممالک بلکہ پورا جنوبی ایشیا اس کا شکار ہو گا۔ ہمیں ایسے وقت میں یہ سوچنا ہو گا کہ ہمارے مسائل کا حل بات چیت اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر تلاش کیا جا سکتا ہے۔اگرچہ سیاسی اعتبار سے دونوں ممالک میں وقتاً فوقتاً مذاکرات کا آغاز ہوتا ہے، لیکن یہ مذاکرات کبھی سنجیدہ کوششوں میں تبدیل نہیں ہو پاتے۔ اس کی ایک بڑی وجہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کے داخلی سیاسی مفادات ہیں، جو انھیں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے سے روکتے ہیں۔

    یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے سیاسی، اقتصادی اور سماجی مفادات کو اس وقت کی ضرورت کے مطابق ترتیب دیں اور دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے تصادم کے بجائے، ہم آہنگی اور تعاون کی طرف قدم بڑھائیں۔ اس کے ذریعے نہ صرف دونوں ممالک کی عوام کا فائدہ ہو گا بلکہ جنوبی ایشیا کی سرزمین کا عالمی سطح پر اہم کردار بھی اجاگر ہو گا۔پاک بھارت تعلقات میں بہتری کا واحد راستہ عوامی سطح پر آگاہی، سیاسی قیادت کی نیک نیتی اور بین الاقوامی برادری کی مدد سے ممکن ہے۔ جنگ کی زبان سے اب دنیا کی فلاح کی طرف قدم بڑھانے کا وقت آ چکا ہے۔

  • قربانی  ایمان تازہ کرتی ہے۔عالیہ شمیم

    قربانی ایمان تازہ کرتی ہے۔عالیہ شمیم

    ماہ ذوالحجہ کو قربانی کی مناسبت یاد کیا جاتا ہے ، اطاعت و فرمانبرداری کی عظیم یاد کا وہ مہینہ جس میں اللہ تعالی نے برکتیں اور سعادتیں بھر رکھی ہیں۔ ہر سال عید الاضحی ابرا ہیم علیہ السلام کی اس محبت بھری قربا نی کی یا د دلا تی ہے جو انہوں نے صرف اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں اپنے لخت جگر کے گلے پر چھری پھیر کرادا کی تھی اور جواب میں اللہ تعالی نے مینڈھے کو قربان کر کے پو ری امت مسلمہ کے لیے 10 ذوالحجہ کو قربا نی واجب قرار دے دی اورخالص اللہ کی راہ میں قربان کر دینے کے اس عمل کو رہتی دنیا کے لیے امر کر دیا ۔

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
    پہلی رات کے چاند کے ساتھ ذو الحجہ کا آغاذ ہوتا ہے اور اس کی پہلی دس راتوں میں سے ہر رات اپنی عظمت میں لیلۃ القدر کے برابر ہے،قرآ ن و احادیث میں عشرہ ذو الحجہ میں کثرت سے تہلیل، تکبیر، اور حمد کرنے کاحکم ہے آپﷺ نے ان دس دنون میں تکبیرات
    اللہ اکبر اللہ اکبر، لاالہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد کہنے کی تلقین فرما ئی ہے۔ ان دس دنوں میں حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہما تکبیر کہتے ہوئے بازار نکلتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہنا شروع کر دیتے۔

    حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے ،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛
    ان دس دنوں میں اللہ کے حضور نیک عمل جتنا پسندیدہ و محبوب ہے کسی اور دن میں اتنا پسندیدہ و محبوب تر نہیں ہے
    صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ: کیا اللہ کے راستہ میں جہاد بھی نہیں؟
    آپ ﷺ نے فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں۔ ہاں وہ شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلا اور کچھ لے کر گھر نہ لوٹا:۔ (متفق علیہ)

    حضرت ابو ھریرہ سے روایت ہے کہ آُپ ﷺ نے فرمایا:۔اللہ تعالی کو اپنی عبادت عشرہ ذوالحجہ میں کرنی محبوب تر ہے۔اس کے ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ایک ایک رات کا قیام،لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے؛۔(ترمذی)
    ام المؤمنین سیدہ حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛
    جب ماہ ذو الحجہ کا چاند نظر آئے (عشرہ ذوالحجہ داخل ہو جائے) اور تم میں کوئی قربانی کا ارادہ کرے تو اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔(بخاری)۔

    ان دس راتوں کے اختتام پراللہ رب العزت نے 10 ذوالحجہ کو مسرت و شادمانی کے دن عید الاضحی کو یادگار حیثیت دی۔

    عید الاضحی پر جانوروں کی قربانی اپنے ایمان کو تازہ کرنے کے لیے کی جاتی ہے کہ ہماری جان و ہمارا مال سب کچھ اللہ کے لیے ہے۔اور وقت آنے پر رب کی بارگاہ میں جان مال کی قربانی سے دریغ نہ کریں گے۔ ارکا ن اسلام پر غور کیا جا ئے تو ہر ہر عمل میں اولیت محبت ہے، رب کا قرب ہے۔ دوران نما ز میں، سجدہ اللہ سے نزدیک تر ہو نے کے لیے۔۔۔ ادا ئیگی زکواۃ و انفاق سے مال کی محبت کو صرف اللہ کی خوشنو دی ہی کے لیے خرچ کر کے عشق الہی کا عملی ثبوت۔

    روزہ سے حکم الہی کی تعمیل میں معین وقت تک کے لیے حلال اشیا ء کو بھی دسترس میں ہو نے کے باوجود اپنے اوپر حرا م کر لینا۔۔۔۔۔ہجرت و جہاد میں اپنا سب مال و متاع لٹا دینا حتی کہ جان بھی قربا ن کر دینا۔

    غرض اخلاق و معا ملات ہو ں سب میں عشق الہی لا زمی امر ہے اللہ ہی کا ہو کر رہ جانا۔ اللہ ہی کے لیے اپنا سب کچھ قربا ن کر دینا اور اس ذات با ری تعا لی کی محبت و قربت کو پا لینا ہی مومن کی معرا ج ہے ۔

    جہاں عید قربان کے نام کے ساتھ نت نئے پکوانوں کا تصور ذہن میں آنے لگتا ہے وہیں چہا ر جانب جا نورں کی منڈیا ں اور ان سے پھوٹنے والی مخصوص باس بھی گھومنے لگتی ہے۔ با ربی کیو، گرل، روسٹڈ کھا نو ں کا تصور اور ان کی تراکیب کے حصول کے لیے سر گر می دیکھا ئی نظر آنے لگتی ہے اور قصائیوں کے نخرے عروج پر پہنچے ہو تے ہیں۔بے شک قربا نی حکم الہی اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ نیز قربانی کے عمل میں جانور کے ہر با ل کے عوض ایک نیکی کا ثواب بھی پو شیدہ ہے مگر ذرا ٹھیریں!
    قربا نی ضرور کریں مگر صرف جانور کو ذبح کرکہ ہی نہیں بلکہ جانور کی قربانی کے ساتھ ساتھ اپنی نیند،اپنی خوا ہشا ت، مفا دات، جذبات، آرام، جان اور مال کوبھی قربا ن کریں۔ قربانی سر تا پا محبت کا درس دیتی ہے وفا ئے محبت سے پر ہو تی ہے ۔

    ابرا ہیم علیہ السلا م کی پوری زندگی اسی قربا نی کا مظہر ہے،جنہوں نے رب کی وحدا نیت کی شہا دت میں باپ سے ترک تعلق کیا،ہجرت کی وطن چھو ڑا، دشت و صحرا کی خاک چھا نی، آگ میں کو د پڑے۔ محبوب بیوی اور شیر خوار بچے کو یکہ و تنہا مکہ کی سنگلا خ وادی میں چھوڑ دیا اور حکم الہی کی فوری تعمیل میں اکلوتے محبو ب نظر کی بھی قربا نی کی اعلی ترین مثال قائم کی ، عید خوشیوں کا نام ہے، رب سے عبا دت و ریا ضت کے ساتھ جڑے رہنے کا نام ہے، احترام انسا نیت اور حقوق العباد کے لیے اپنے من کو مار کر دل سے حسد، کینہ عداوت و بغض کو کچل کر معا شرے میں امن و محبت کے پھیلا ؤ کے لیے اپنا من مارلینے کا نام ہے ۔

    اگلے ماہ آنے والی عید الاضحی تقا ظاکر رہی ہے کہ قربا ن کریں دل میں مو جود گھمنڈ کو، فخر و غرور کو، دولت و مرتبہ کی طلب کو، آسا ئش دنیا کی کثرت سے مغلوب ہو جا نے کو،
    دشمنی و عدا وت کو،نیند کی حلاوت سے فرائض کی عدم ادا ئیگی کو، سالہا سال کی دشمنی و بغض کو، بے جا خوا ہش، پسند و نا پسند کو، اسرا ف کو نام و نمود اور ریا کا ری کو، عیب جو ئی سے زبا ن کی آلودگی کو، فحاشی و عریا نیت کے ذریعے گمرا ہ معا شرے کے چلن کوقربان کر دیں ، غرض ہر وہ عمل جو رب کی قربت کے بجا ئے دور لے جانے والا ہو رضائے الہی کے حصول کے لیے اس کو قربان کر لیں اور پھر عید منا ئیں۔

    نت نئے پکوان ضرور تیا ر کریں مگر اپنے فلس طینی بھائیوں کو ، ا ن ننھے منے معصوم جانوں کو نہ بھولیں جو وقت سے پہلے ہی مرجھا دیئے گئے جن کی معصوم قلقاریاں بھیانک چیخوں میں بدل ڈالی گئیں ، وہ معصوم نوخیز کلیاں جو بے دردی سے روند ڈالی گئیں ۔قربانی دیں اپنے نفس کی ،اپنی زبان کے ذائقوں کی اور بائکاٹ کریں ان تمام چیزوں کی جا ان ظالموں کو مضبوط کر رہی ہیں ۔نیز زلزلہ اور قدرتی آفا ت کے نتیجے میں متا ثرین کی بھی داد رسی کریں۔ ماں، بیوی اور بہن ہو نے کے نا طے مجا ہدین کی صفات سے مزین اعلی و با کردار نسل کی تعمیر کریں اور اپنا منصب سنت رسول کی پیر وی میں ذاتی خواہشا ت و مفا دات سے با لا تر ہو کر محبت کے گندھے جذبا ت سے ادا کریں۔

    نام و نمود،ریا کاری،اپنی بڑائی کا زعم قربانی کے نیک عمل کو ضائع کر دیتا ہے۔اللہ کو جانوروں کا خون اور گوشت نہیں پہنچتا بل کہ قربانی کرنے والے کے دل کاخلوص و تقوی پہنچتا ہے۔قربانی دیں اپنے ذوق کی،مزاج کی، انداز زندگی، اپنی انا کی،خود پسندی کی،گویا روز مرہ کی معاشرتی زندگی میں قدم قدم پر قربانی ضروری ہے یہاں تک کہ تنہائی میں اللہ کے لیے اقامت دین کی خاطر قربانی دیں۔ماہ ذوالحجہ حضرت ابراہیم کی قربانیوں کو یاد تازہ کرنے کا مہینہ ہے اور یہ بنیادی سبق ذہن نشین کرواتا ہے اللہ کے یہاںاصل قبولیت تودلوں میں پائی جانے والی اللہ سے محبت،اللہ کی اطاعت،اور خلوص نیت سے حیات دنیوی کی قربانی کی ہے۔

  • وفا کا نشاں –  حافظ احمد اقبال

    وفا کا نشاں – حافظ احمد اقبال

    دھرتی کی ہر خوشبو پہ جو قربان ہوا ہے،
    وہ وردی میں ملبوس، ایک جان ہوا ہے۔

    سایہ ہے جو سرحد پہ ہماری نیندوں کا،
    وہ سپاہی ہے، جو فولاد کی پہچان ہوا ہے۔

    بارود میں بھی جس نے بسائی ہے محبت،
    وہ عشق کا پیکر، وہی ایمان ہوا ہے۔

    پہرے میں جو شامیں بھی گزارے بے کھٹک،
    وہ رات کا سورج، وہی اذان ہوا ہے۔

    دشمن کی نظر جس پہ پڑے، کانپ اُٹھے دل،
    وہ زخم بھی کھا کر، جو مسکران ہوا ہے۔

    جو خون کے قطروں سے لکھے امن کا مطلب،
    وہ نام سپاہی کا، روشن نشان ہوا ہے۔

    محفوظ ہے ہم سب کا چمن جس کی وجہ سے،
    “احمد” وہی مٹی کا گُلستان ہوا ہے۔

  • پاک بھارت حالیہ حالات- عبدالرحمٰن لنگاہ

    پاک بھارت حالیہ حالات- عبدالرحمٰن لنگاہ

    دنیا کا سب سے قدیم تنازعہ، جسے ہم پاک بھارت تعلقات کہتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ ایک پیچیدہ، کشیدہ اور دل آزاری کے ماحول میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ہر دن ایک نئی حقیقت سامنے آتی ہے، جس میں دونوں ممالک کے درمیان تناؤ اور مفاہمت کی کہانیاں گزر چکی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہم اس تنازعہ کو حل کرنے کی کوئی حقیقی راہ دیکھ رہے ہیں؟
    یہ بات تو ہر ذہن میں ایک سوال کی صورت موجود ہوتی ہے کہ اس عرصے میں، جب دنیا بھر میں تبدیلیاں آ رہی ہیں، دونوں ممالک کی قیادت کیوں اس بات کو سمجھنے میں ناکام نظر آ رہی ہے کہ اصل طاقت جنگ یا دشمنی میں نہیں بلکہ تعاون اور مکالمہ میں ہے؟ دونوں ممالک کی عوام ایک دوسرے کے بارے میں کئی غلط فہمیاں پال رہی ہیں، جن کا سدباب صرف اور صرف فہمی اور بات چیت سے ہو سکتا ہے۔

    پاک بھارت تعلقات کے سلسلے میں موجودہ سیاسی منظر نامہ مزید پیچیدہ ہو چکا ہے۔ جب سے دونوں ممالک کے بیچ کشیدگی بڑھی ہے، معاشی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے بجائے، عوامی جذبات اور جنگی سیاست کا غلبہ نظر آ رہا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ایک ایسا موضوع بن چکا ہے، جس پر ہر حکومت اپنے سیاسی فائدے کے لیے آواز اٹھاتی ہے لیکن اس کے حل کی طرف قدم اٹھانے میں اکثر احتیاط اور تاخیر کی جاتی ہے۔

    دوسری جانب، عالمی سطح پر ان دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کو ایک خطرناک صورتحال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اقتصادی ترقی اور سماجی خوشحالی کا دور دورہ ہو رہا ہے لیکن پاکستان اور بھارت جیسے عظیم ممالک اس سے محروم نظر آتے ہیں۔ یہ انفرادی طور پر نہ صرف دونوں ممالک کی عوام کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

    ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ایک قوم کی ترقی اور فلاح میں اس کی ہمسایہ قوموں کے ساتھ روابط کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ اگر پاکستان اور بھارت میں تنازعہ جاری رہا، تو نہ صرف یہ دونوں ممالک بلکہ پورا جنوبی ایشیا اس کا شکار ہو گا۔ ہمیں ایسے وقت میں یہ سوچنا ہو گا کہ ہمارے مسائل کا حل بات چیت اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر تلاش کیا جا سکتا ہے۔

    اگرچہ سیاسی اعتبار سے دونوں ممالک میں وقتاً فوقتاً مذاکرات کا آغاز ہوتا ہے، لیکن یہ مذاکرات کبھی سنجیدہ کوششوں میں تبدیل نہیں ہو پاتے۔ اس کی ایک بڑی وجہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کے داخلی سیاسی مفادات ہیں، جو انھیں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے سے روکتے ہیں۔

    یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے سیاسی، اقتصادی اور سماجی مفادات کو اس وقت کی ضرورت کے مطابق ترتیب دیں اور دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے تصادم کے بجائے، ہم آہنگی اور تعاون کی طرف قدم بڑھائیں۔ اس کے ذریعے نہ صرف دونوں ممالک کی عوام کا فائدہ ہو گا بلکہ جنوبی ایشیا کی سرزمین کا عالمی سطح پر اہم کردار بھی اجاگر ہو گا۔
    پاک بھارت تعلقات میں بہتری کا واحد راستہ عوامی سطح پر آگاہی، سیاسی قیادت کی نیک نیتی اور بین الاقوامی برادری کی مدد سے ممکن ہے۔ جنگ کی زبان سے اب دنیا کی فلاح کی طرف قدم بڑھانے کا وقت آ چکا ہے۔

  • بے وفا رہ گیا – عرفان علی

    بے وفا رہ گیا – عرفان علی

    دوستوں کا لقب ، بے وفا رہ گیا
    میرے پاس میرا خدا رہ گیا
    پوچھتے ہیں سبھی کیا ہوا تجھے
    کہتا ہوں اب اکیلا رہ گیا
    تعین نہ کرسکا فریبیوں کو
    اس لیے مار کھاتا رہ گیا
    مٹ تو گیا ہے زخم مگر
    باقی نشاں جُڑا رہ گیا
    عمر بھر کا درد دے کر
    کہا، تُو بے وفا…بے وفا رہ گیا
    وہ بادِصَبا کا اک جھونکا تھا
    عزیز نشاں ماضی کا رہ گیا