Category: بلاگز

  • اقوال زریں نہیں اعمال زریں – حافظ محمد قاسم مغیرہ

    اقوال زریں نہیں اعمال زریں – حافظ محمد قاسم مغیرہ

    جشن آزادی کے موقع پر ایک بار پھر پاکستانی اشرافیہ کی طرف سے عوام کو آزادی کی مبارک باد دی گئی۔ وہی روایتی اور گھسے پٹے جملوں کی بھر مار، زور بیاں عروج پر، لسانی اور صوبائی تعصبات کو ہوا دینے والے سیاست دانوں کی طرف سے قوم کو متحد ہونے کی بھرپور کی تلقین پر مشتمل روایتی جملے دن بھر میڈیا کی زینت بنے رہے۔

    ایک بار پھر صوبائیت اور لسانیت کے کارڈ کھیل کر دست قاتل دست شفاء بن کر آئے گا اور استحکام کے نام پر استحصال کا کھیل شروع ہوجائے گا۔ جن لوگوں نے 78 برسوں میں قوم سازی کا عمل شروع نہیں کیا، جشن آزادی پر اتحاد و اتفاق کا پیغام جاری کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ حق سیاست ادا ہوگیا۔ یا تو یہ خود کو سرابوں سے بہلا رہے ہیں یا عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔ اسی طرح کچھ طبقات نے جمہوریت اور آئین کو تمام مسائل کا حل بتا کر جشن آزادی منانے کا حق ادا کر دیا۔ عمل میں ڈھلے بغیر جمہوریت اور آئین مبہم تصورات ہی رہیں گے۔ جمہوریت اور آئین محض اقوال زریں کا نام نہیں ہے۔

    جمہوریت کی دعوے دار سیاسی جماعتیں حقیقی جمہوریت سے اتنی خوف زدہ ہیں کہ بلدیاتی انتخابات سے بھاگتی ہیں مبادا متبادل قیادت سامنے آجائے۔ انٹرا پارٹی الیکشنز کے بارے میں یہی رویہ ہے۔ جن جماعتوں نے سیاست کو چند خانوں کی جائیداد بنا رکھا ہے اگر جمہوریت کا نام لیں تو بات کچھ جچتی نہیں ہے۔ ان جماعتوں کی آئین پسندی کا یہ بھی یہ عالم ہے کہ آئین کی بیشتر شقیں، جن کا تعلق انسانی حقوق سے ہے، عملاً معطل ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی جمہوریت دشمنی کا بین ثبوت یہ ہے کہ کوئی جماعت غیر جمہوری قوتوں کی بیساکھیاں چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ اسی طرح منتخب نمائندوں کی پارلیمانی کارکردگی انتہائی شرم ناک ہے۔

    ایسی سیاسی جماعتیں جو بلدیاتی انتخابات سے خوف زدہ ہوں، انٹرا پارٹی الیکشنز سے بھاگتی ہوں، پارلیمانی کارکردگی کا شرم ناک ریکارڈ رکھتی ہوں اور آئین پر مکمل عمل سے گریزاں ہوں انہیں خود کو جمہوری اور آئین پسند کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ افسر شاہی نے بھی عوام کو جشن آزادی کی مبارک باد دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ تمام چھوٹے بڑے شہروں کے بام و در ضلعی انتظامیہ کی طرف سے مبارک باد کے پیغامات سے مزین کیے گئے۔ ضلعی انتظامیہ کے زیر سایہ تقریری مقابلے ہوئے۔ عوام کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی کے بعد جس غلامی سے واسطہ پڑا وہ مقامی آقاؤں کی غلامی ہے۔ نوآبادیاتی نظام سے ورثے میں ملنے والی افسر شاہی اہل وطن عزیز کا لہو چوس رہی ہے۔ ان کا خدم و حشم عوام کے ناتواں کاندھوں پر ایک ناقابل برداشت بوجھ ہے۔

    غیر جمہوری قوتیں بھی جش آزادی کے موقع تہنیتی پیغامات اور لہو گرما دینے والے نغمے نشر کرنے میں کسی سے پیچھے نہ رہیں۔ پاکستان کی اشرافیہ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وطن عزیز کو درپیش مسائل کا حل اقوالِ زریں میں نہیں بل کہ اعمال زریں میں ہے۔ سب سے ضروری اور فوری کام جو اشرافیہ کو کرنا چاہیے وہ اپنے طرز زندگی میں تبدیلی لانا ہے۔ اگر خزانہ خالی ہو تو اشرافیہ کو بھی پیٹ پر پتھر باندھنا چاہیے۔ اگر درہم و دینار کی فراوانی ہو تو خوش حالی کے ثمرات عوام تک پہنچنے چاہیئں۔ لیکن عملاً یہ ہوتا ہے کہ اشرافیہ کی عیاشیوں کا بوجھ عوام کو ڈھونا پڑتا ہے۔ اگر اشرافیہ واقعتاً وطن عزیز سے مخلص ہے تو اسے کچھ سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

    سب سے اہم کام یہ ہے کہ اپنا طرز زندگی بدلے تاکہ عوام اور خواص میں کوئی خلیج اور بعد نہ رہے۔ تعیشات اور خدم و حشم ختم کرکے وسائل کا رخ عوام کی طرف موڑنے کی شدید ضرورت ہے۔ شعبدہ بازی کے بجائے پائیدار ترقی کو ہدف بنایا جائے۔ شعبدہ بازی کی عمر مختصر اور چکا چوند عارضی ہوتی ہے جب کہ پائیدار ترقی سے کئی نسلیں فائدہ اٹھاتی ہیں۔
    لوگوں کو آسان اقساط پر بلاسود قرضے فراہم کیے جائیں۔ وہ تمام لوپ ہولز،جو قومی خزانے کے ضیاع کا باعث بنتے ہیں، فوری بند کیے جائیں۔ غیر ضروری امپورٹس بند کرکے مقامی صنعت کو فروغ دیا جائے۔ عالمی منڈیوں میں نئے گاہک تلاش کرکے ایکسپورٹس میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے تاکہ تجارتی خسارے میں کمی واقع ہو۔

    سردست پاکستان کی ایکسپورٹس 31 ارب ڈالر اور ریمٹنسز قریباً 30 ارب ڈالر ہیں۔جب کہ امپورٹس 80 ارب ڈالر ہیں۔
    سیاحت کا شعبہ وطن عزیز کی معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت ہونے کا پوٹینشل رکھتا ہے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کو اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے اعلٰی ظرفی اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سٹوڈنٹ یونینز، انٹرا پارٹی الیکشن اور بااختیار بلدیاتی نظام سے خوف کھانے کے بجائے انہیں مضبوط کرنا چاہیے۔ غیر جمہوری قوتوں کے خلاف ایک مضبوط اور مؤثر لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔ فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کے لیے عدالتی اصلاحات پر کام کیا جائے۔

    افسر شاہی کو لگام ڈالی جائے۔ سرکاری ہسپتالوں کی کیپیسٹی بڑھائی جائے۔ سیاست دانوں کو اپنے طرز عمل سے قانون پسند شہری بن کر دکھانا چاہیے۔ محض باتوں سے کچھ نہیں ہوتا۔ بقول زکی کیفی:

    [poetry]زمانہ ڈھونڈ رہا ہے عمل کے شیدائی
    خطا معاف یہ حسن بیاں کا وقت نہیں[/poetry]

  • الخدمت  فاؤنڈیشن کا دستورِ خدمت –  چوہدری حسیب  عبید

    الخدمت فاؤنڈیشن کا دستورِ خدمت – چوہدری حسیب عبید

    الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جس کے زیر انتظام پاکستان کے بھر میں فلاحی ادارے چلائے جا رہے ہیں۔ وطن عزیز میں کوئی بھی ہنگامی صورتحال ہو تو دیگر سرکاری و نجی اداروں کے ساتھ ایک طبقہ میدان عمل میں آتا ہے.

    لیکن اس میں شامل لوگوں کو دیکیھں تو رشک آتا ہے کہ یہ کس قسم کے دیوانے لوگ ہیں جو دیوانہ وار اپنے ہم وطنوں کی خدمت میں مصروف ہیں ۔ ان لوگوں کی ایک خصوصیت جو ان کو سب سے منفرد کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کوئی روایتی دیہاڑی دار مزدور نہی بلکہ ملک پاکستان کے اعلی اداروں میں کام کرنے والے افسران ، ڈاکٹر اور انجینیر ہوتے ہیں اساتذہ و طلبا بھی ہوتے ہیں ، اور مزید یہ کہ انہی اداروں میں کام کرنے والے مزدور بھی شامل ہوتے ہیں یہ سب لوگ ایک چھتری کے ساۓ تلے ایک ہی مقصد کے حصول کے لیے کام کرتے نظر آتے ہیں جو کہ اس شعر کی مکمل ترجمانی کرتے ہیں:

    ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
    نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

    الخدمت کے سات مختلف شعبے وطن عزیز میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔شعبہ صحت کے زیر انتظام جدید طرز پر ہسپتال قائم کیے گیے ہیں( جن میں آنکھوں اور دل کے سپیشل ) جو کہ مستحقین کو بلا معاوضہ علاج کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ مختلف علاقوں الخدمت ڈسپنسریاں اور لیباڑٹریاں بھی موجود ہیں۔ ایمرجنسی حالات کے لیے الخدمت موبائل ہیلتھ یونٹ بھی موجود ہیں۔ الخدمت کے زیر انتظام الفلاح اسکالرشپ کے تحت سالانہ ہزاروں طلبا کو تعلیم کے حصول میں آسانی کے لیے معاوضے فراہم کیے جا رہے ہیں ۔

    آغوش کے نام سے درجنوں ادارے یتیم بچوں کی کفالت کے لیے کام کر رہے ہیں جو کہ جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ اور روایتی یتیم خانوں سے یکسر منفرد ہیں۔ الخدمت واٹر فلٹریشن پلانٹ صرف ایک روبے فی لٹر پر پانی فراہم کر رہے ہیں اور جدید طرز پر ہینڈ پمپ ہزاروں کی تعداد میں صحرائی علاقوں میں موجود ہیں۔الخدمت اس وقت ہزاروں خاندانوں کو ماہانہ کفالت یتامی کے تحت راشن فراہم کر رہی ہے اور اسکے ساتھ ہی یتیم بچیوں کی شادیوں کے لیے جہیز کی فراہمی اور شادی کا مکمل انتظام بھی کیا جارہا ہے۔ آسان شرائط پر لوگوں کو کاروبار شروع کرنے کے لیے بلا سود قر ضوں کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔اسکے علاوہ دیگر درجنوں پراجیکٹ چل رہے جن سے سالانہ لاکھوں پاکستا نی مستفید ہو رہے ہیں ۔

    آفات سے بچاؤ کا شعبہ نہایت اہمیت کا حامل ہے ملک میں کرونا کی صورتحال ہو یا زلزلے اس شعبے کے زریعے الخدمت ہمیشہ ایک تاریخ رقم کرتی آی ہے۔آ یئے چلتے ہیں اور مختصر جائزہ لیتے ہیں موجودہ سیلابی صورتحال میں اس شعبے نے کیا اقدامات کیے۔پاکستان میں اس سال مون سون کی بارشوں نے پاکستان کا ساٹھ سے ستر ٖ فیصد رقبہ متاثر کیا جس سے لاکھوں پاکستانی بے گھر ہوۓ، اس صورتحال کو دیکھتے ہوۓ الخدمت نے ہنگامی بنیادوں پر ملک بھر میں سیلاب ریلیف مراکز شروع کیے اور پورے ملک میں سیلاب زدگان کی امدا د کے لیے سامان اکھٹا کیا جانے لگا، اسکے ساتھ ہی الخدمت کے پچاس ہزار رضا کار لوگوں کو ریسکیو کرنے اور بنیادی ضروریات پہنچانے کے لیے ملک کے طول و عرض میں موجود ہیں۔

    سیلاب سے متاژہ علاقوں میں لوگوں کو بیماریوں سے بچانااولین ترجیح تھی الخدمت نے ملک بھر سے ڈاکٹرز کی ٹیمیں ان علاقوں میں روانہ کیں اور سینکڑوں کی تعداد میں میڈیکل کیمپ لگا ۓ گے۔جہاں ہزاروں افراد کو ادوایات کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں.اسکے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر ان علاقوں میں ہزاروں لوگوں کو پکا پکایا کھانا فراہم کیا جا رہا ہے۔چھت سے محروم لوگوں کے لیے خیمہ بستیوں کا قیام کیا گیا ہے اور ان خیمہ بستیوں میں خیمہ اسکول بھی قایم کیے گیے ہیں جہاں بچوں کو تعلیم کی اہمیت سے روشناس کروایا جا رہا ہے ۔اب ترجیحی بنیادوں پر لوگوں ایک اور دو کمروں کے گھروں کی فراہمی کا سلسلہ بھی شروع کیا جا چکا ہے۔

    سیلاب کی آمد کے ساتھ ہی بجلی کا بحران سیلاب زدہ علاقوں میں شدت ا ختیار کر چکا ہے. الخدمت نے ان علاقوں میں بجلی کی بحالی کا کام شروع کیا ہے ـ اور الخدمت نے یہ سب پاکستان اور بیرون ملک سے آنے والی رقوم اور عوام کے اعتماد کی صورت میں کیا ـ الخدمت پر پاکستان کی عوام نے اعتماد کیا ہے ، ہزاروں ڈالرز الخدمت کو منتقل کر چکے ہیں اور انٹرنیشنل سطح پر الخدمت کے ریلیف پراجیکٹ کو سراہا گیا ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک الخدمت 10 ارب روپے سے زائد کا ریلیف عوام تک پہنچا چکی ہےـ

    آپ کا تعلق چاہے جس مر ضی سیاسی جماعت ہو اپ الخدمت کے ریلیف کے کاموں کا حصہ بن کر اپنا تعا ون پیش کر سکتے ہیں اور الخدمت یہ سارا کام خالص انسانیت کی خدمت کے لیے ہر قسم کی سیاسی و مذہبی تفریق سے بالا تر ہو کر کرتی ہے -یہاں ہمارے مقتدر طبقوں کے لیے ایک خاموش پیغام ہے ایک تنظیم یہ سب کچھ کر سکتی ہے تو حکومتیں ان سے بہتر کر سکتی ہیں اگر ان کی ترجیحات رعایا کی فلاح و بہبود ہو۔آپ کا تعلق بھی سیاسی و مذہبی جماعت سے ہو آپ الخدمت کے ریلیف کے کاموں کا حصہ بن کر اپنا تعا ون پیش کر سکتے ہیں .

    اور الخدمت یہ سارا کام خالص انسانیت کی خدمت کے لیے ہر قسم کی سیاسی و مذہبی تفریق سے بالا تر ہو کر کرتی ہے.اہل پاکستان سےگزارش ہے آگے بڑھیں اور الخدمت فاؤنڈیشن کا دست بازو بنیں!

  • استحصال کرنا چھوڑئیے – ندااسلام

    استحصال کرنا چھوڑئیے – ندااسلام

    ارحم نے آج ایک اور چوزہ خریدا تھا۔جونہی اس نے یہ نیا چوزہ ڈربے میں چھوڑا تھا،پہلے موجود نسبتاً بڑے اور پرانے چوزوں نے چونچیں مار مار کر اس کا ناک میں دم کر دیا تھا۔ وہ ڈربے کے ایک کونے سے دوسرے اور تیسرے سے چوتھے میں بھاگتا کسی سازگار جگہ کا متلاشی تھا .

    مگر پرانے چوزے اس تنہا چوزے کی کمزوری سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور ڈربے ہر اپنی ملکیت کا اظہار کر رہے تھے۔چوزہ تو رفتہ رفتہ دوسرے چوزوں میں گھل مل گیا اور اسے ڈربے میں نئے رکن کی حیثیت سے قبول کر لیا گیا مگر یہ منظر ارحم کے ذہن کو سوچنے کی نئی راہیں دے گیا۔

    استحصال کیا ہے؟
    کیوں کیا جاتا ہے ؟
    کیا یہ کسی ذہنی کیفیت کا نتیجہ ہے؟
    اس کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟

    کیا صرف ایک قوم ہی دوسری کے خلاف یہ رویہ اپناتی ہے یا اس ذہنی ابنارمیلیٹی کی جڑیں افراد کے رویوں میں بھی دکھائی دیتی ہیں۔استحصال دراصل اس برتاؤ یا عمل کا نام ہے جس کی بنیاد نا انصافی اور خود غرضی پر ہوتی ہے۔یہ نا جائز منافع ،حقوق یا فائدہ حاصل کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔خود غرضی اسے جنم دیتی اور یہ احساس برتری اور کمتری کو جنم دیتا ہے معاشرے میں نابرابری طبقات پیدا ہوتی ہے اور طاقتور اور کمزور کا کلچر جنم لیتا ہے۔یہ رویہ ایک قوم بھی دوسری کے خلاف اپناتی ہے،ایک معاشی نظام،معاشرتی فلسفہ،سیاسی فکر بھی دوسروں کا استحصال کرتا ہے اور افراد بھی اس روئیے میں لتھڑے دکھائی دیتے ہیں۔

    یقیناً اس روئیے کی روک تھام ضروری تھی اسی لئے ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیجے جنہوں نے عورت ،بچے،بوڑھے،جوان یعنی فرد سے لے کر قوم اور معاشی نظام سے لے کر معاشرتی اور سیاسی فکر تک کی حدود واضح کر دیں،فلسفہ زندگی دے دیا،حقوق واضح کر دیئے تو کہ کوئی کسی کا استحصال نہ کر سکے مگر افراد نے حدود اللہ کو ہر زمانے میں پار کیا اور دوسرے کی کمزوری سے فائد ہ اٹھانے کو چالاکی،ہوشیاری،سمارٹنیس،دانائی اور دانشوری سمجھا اور خوامخواہ کے احساس برتری کے زعم میں دوسروں کے کمزور پہلوؤں سے فائدہ اٹھا کر لطف اندوز ہوا۔

    دوسری طرف مظلوم نے ظلم سہہ کر اور اس کھلی غنڈی گردی کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے مفاہمت کی پالیسی اختیار کیے رکھی اور یوں اس استحصالی روئیے کو پھلنے پھولنے کا سامان مہیا ہوا۔فرعون سے لے کر ٹرمپ تک نے اسی ذہنی کیفیت کے تحت ظلم وجبر کی انتہا کیے رکھی اور تمام انبیاء بشمول موسی علیہ نے اس رویے کو ختم کیا۔بے شک ظلم پر خاموش رہنے والا ہی ظالم کو شہ دیتا ہے لہٰذا وہ بھی ظالم ہے۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    ” اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہم مظلوم کی تو مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو (یہی اس کی مدد ہے)۔”(بخاری)

    گویا ہمیں استحصال کرنے والے سے دبنے کی بجائے اپنا حق لینا ہو گا۔استحصال کرنے والے کے خلاف اپنے مؤقف کوایثار اور احسان،درگذر اور عفو،بردباری اور تحمل سے خلط ملط کر کے بلیک میل ہوتے رہنے کی بجائے ظالم کو ظالم کہنا سیکھنا ہو گا خواہ وہ ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو اور خواہ وہ ہم خود ہی کیوں نہ ہوں۔یقینا ہمیں ظالم کا ہاتھ ظلم سے روک کر اپنے بھائی اور اپنی نجات کو یقینی بنانے کے لئے سوچنا ہو گا۔اللہ ہمیں ظالم کے خلاف کلمہ حق کہنے والا مجاہد بنائے۔آمین.

  • مشکل کی گھڑی میں، مرکزی مسلم لیگ کھڑی ہے – اعجازالحق عثمانی

    مشکل کی گھڑی میں، مرکزی مسلم لیگ کھڑی ہے – اعجازالحق عثمانی

    حالیہ موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں خیبرپختونخوا کے کئی علاقوں میں چاروں طرف پانی ہی پانی ہے۔ مگر زندگی کا محافظ یہ پانی، خیبر کے لوگوں کےلیے زندگی کا سب سے بڑا دشمن ثابت ہو رہا ہے۔ خوبصورت و دلنشیں گھاٹیاں اس وقت غم اور پانی دونوں میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ بارش کا زور ایسا تھا کہ پہاڑ جیسے لرز کر مٹی مٹی ہوگئے۔

    لمحوں میں بستیاں اجڑ گئیں۔ وہ گھر جو کسی مزدور نے کئی برسوں میں چاہت و محبت اور خون پسینے کی کمائی سے بنایا تھا۔ لمحوں میں مٹی کا ڈھیر بن گیا۔کہیں مائیں جگر گوشوں کو ڈھونڈ رہی ہیں، تو کہیں دُودھ پیتا بچہ ماں سے زیادہ بھوک سے تڑپ رہا ہے۔ کوئی پیٹ بھرنے کی تگ و دو میں پانی کے پیٹ میں جا گرا ہے، تو کوئی زخمی ماں کےلیے دوا دارو لینے گیا، لاش بن کر لوٹا ہوگا۔ یہ قدرتی آفات ہمیشہ ہمارے ظرف کا امتحان لیتی ہیں۔ حکومتیں حرکت میں آئیں، فوج نے ہیلی کاپٹروں سے لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچایا، ریسکیو 1122 کے جوانوں نے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر زندگیاں بچائیں، اور پاک فوج نے ایک دن کی تنخواہ اور سیکڑوں ٹن راشن عطیہ کیا، میڈیکل کیمپ لگے، مگر ایسے وقتوں می ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ درد دل والوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

    مجھے خوشی سے زیادہ حیرت ہوئی،جب پاکستان مرکزی مسلم لیگ کو اس کڑی آزمائش میں سرگرداں پایا۔ اس جماعت کا نام برسوں سے سن رکھا تھا، مگر چند ماہ قبل ایک نیوز چینل کے دفتر میں پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے ترجمان تابش قیوم صاحب سے ایک ملاقات ہوئی، تو مرکزی مسلم لیگ کے بارے مزید جاننے کا تجسس ہوا۔ ڈیجیٹل ریسورسز سے معلومات نے اس جماعت کا ایک اور رخ میرے سامنے کھول دیا کہ یہ صرف سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک فلاحی قافلہ ہے، جو مشکل وقت میں خاموش تماشائی نہیں بنتا۔ آج جب خیبر پختونخوا کے لوگ مشکل سے دو چار ہیں،تو پاکستان مرکزی مسلم لیگ اپنی اعلیٰ قیادت کے ہمراہ آن گراؤنڈ مدد کےلیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔

    مینگورہ کا آدھا شہر جب پانی میں ڈوبا تو کئی کئی فٹ پانی گھروں اور دکانوں میں داخل ہو گیا۔ لوگ کھلے آسمان تلے یا چھتوں پر پناہ لینے پر مجبور تھے۔ ایسے میں مرکزی مسلم لیگ کی امدادی ٹیمیں وہاں لوگوں کو کھانا اور طبی امداد فراہم کرنے جا پہنچیں۔ بونیر، سوات، شانگلہ اور باجوڑ تک امدادی کیمپ پھیل چکے ہیں۔ بطور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ محمد عبداللہ کی فیس بک وال، کئی برسوں سے سامنے آرہی ہے۔ یہ نوجوان آج کل مرکزی مسلم لیگ خیبرپختونخوا کا ترجمان ہے، ان کی وال پر مرکزی مسلم لیگ کی خواتین اور بچیوں کو فلاحی کاموں میں مصروف دیکھ کر حیرت و خوشی ہوئی۔ سینکڑوں نوجوان دن رات ملبہ صاف کرتے، راشن بانٹتے، گھروں سے کیچڑ نکالتے دکھائی دیے۔

    ان کے پاس سیاسی نعرے نہیں تھے، بلکہ آنکھوں میں خدمت کا جذبہ تھا۔حیرت زدہ ہوں کہ نوجوان کس طرح رب کی رضا کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔ وہ ہاتھ جو کل شاید موبائل پر سوشل میڈیا چلا رہے تھے، آج وہی ہاتھ آج ملبے صاف کر رہےہیں۔ وہ پاؤں جو کل کسی ریلی میں شریک تھے، آج سیلابی پانی میں گھٹنوں تک دھنسے دکھائی دیتے ہیں۔ شکریہ پاکستان مرکزی مسلم لیگ، مگر اب ہمیں ان موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کےلئے سنجیدہ رویہ اپنانا ہوگا،ورنہ روز میرے ملک کا کوئی نہ کوئی حصہ ڈوبتا، اور مرتا رہے گا۔

  • پاکستان میں سیلاب، ہنگامی صورتحال اور ہماری ذمہ داریاں – حفیظہ بانو آرائیں

    پاکستان میں سیلاب، ہنگامی صورتحال اور ہماری ذمہ داریاں – حفیظہ بانو آرائیں

    پاکستان ایک قدرتی حسن سے مالا مال ملک ہے، لیکن بدقسمتی سے قدرتی آفات بھی یہاں اکثر دستک دیتی ہیں۔ ان میں سب سے خطرناک اور تباہ کن آفت سیلاب ہے، جو ہر سال ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کرتا ہے۔ مون سون کی بارشیں، دریاؤں کی بے قابو روانی، اور ناقص انتظامی حکمت عملی ہمارے گلی محلوں کو پانی کے سمندر میں بدل دیتی ہیں۔

    لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے بحیثیت قوم کبھی سنجیدگی سے سوچا ہے کہ ان آفات سے نمٹنے کے لیے ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں؟

    سیلاب صرف پانی کا بہاؤ نہیں ہوتا، یہ سینکڑوں گھروں کی بربادی، کھیتوں کی تباہی، بچوں کے اسکول چھن جانے، بزرگوں کی دوائیں ختم ہونے، اور ماؤں کی گود اجڑنے کی کہانی ہوتا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں جب کوئی اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوا گھر پانی میں بہتے دیکھتا ہے تو صرف اینٹ پتھر نہیں بہتے، امیدیں، خواب اور سالوں کی محنت بھی ساتھ بہہ جاتی ہے۔ حکومت کی ذمہ داریاں اپنی جگہ، لیکن جب تک ہم عام شہری اپنی ذمہ داریوں کا شعور نہیں رکھتے، تباہی کا دائرہ وسیع تر ہوتا جائے گا۔ ہمیں چاہیئے کہ قدرتی آفات سے پہلے کی تیاری، دورانِ آفت امدادی سرگرمیوں میں شرکت، اور بعد از آفت بحالی میں فعال کردار ادا کریں۔

    ہر شخص اپنے وسائل کے مطابق متاثرین کی مدد کر سکتا ہے چاہے وہ مالی امداد ہو، خیمے ہوں، خشک راشن، یا صرف حوصلہ افزا باتیں اور امید کی کرن۔ مدارس، مساجد، کالجوں،یونیورسٹیوں اور سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی موجودگی وہ طاقت ہے جو اگر متحد ہو جائے تو پورا منظرنامہ بدل سکتا ہے۔ ہمیں انتظار نہیں کرنا کہ حکومت کچھ کرے، ہمیں خود انفرادی طور پر قدم بڑھانا ہوگا۔ انسانیت کا تقاضا ہے کہ ہم صرف خبر سن کر افسوس نہ کریں بلکہ حرکت میں آئیں۔ شاید کسی ایک گھرانے کو دی گئی ہماری مدد، ہمارے لیے قیامت کے دن نجات کا ذریعہ بن جائے۔ ہمیں صرف مظلوموں کا درد محسوس کرنے کی نہیں، بلکہ اس درد کو کم کرنے کی بھی ذمہ داری اٹھانی ہوگی۔

    ہمیں آگے بڑھ کر سیلاب زدگان کی مدد کرنی ہے، اپنے وسائل، مہارت، وقت اور محبت کے ذریعے۔ آج ہم کسی کے زخموں پر مرہم رکھیں گے، تو کل اگر ہمیں کسی آفت نے گھیرا، رب ہمیں بھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔یاد رکھیں، سیلاب کا پانی صرف زمین پر نہیں بہتا، یہ ہماری غیر ذمہ داریوں کو بھی بہا لے جاتا ہے، اور ہم سے ہمارا انسان ہونا بھی چھین لیتا ہے۔ لہٰذا اب بھی وقت ہے جاگیں، سوچیں، اور عمل کریں۔ کیونکہ سیلاب صرف متاثرین کا مسئلہ نہیں، یہ ہم سب کی آزمائش ہے۔

  • پاکستان میں قدرتی آفات کے ذمہ دار ہم خود ہیں –  ڈاکٹر محمد شافع صابر

    پاکستان میں قدرتی آفات کے ذمہ دار ہم خود ہیں – ڈاکٹر محمد شافع صابر

    سوات اور بونیر میں سیلاب نے قیامت برپا کی دی ہے، گاؤں کے گاؤں صحفہ ہستی سے مٹ گئے ہیں ۔ خاندان کے خاندان ختم ہو گئے ہیں۔ اب وہ میاں چنوں اور فیصل آباد کا بزنس مین عالم دین کیا توجیہہ پیش کرے گا؟ جو کہ ہر قدرتی آفت کو ہمارے عمال کا نتیجہ قرار دے دیتا ہے؟

    میرا ہر سال یا دو سال بعد سوات کا چکر لگتا ہے، میں نے کھبی بھی لوکل خواتین کو بنا پردہ/ عبایا کے بازار میں نہیں دیکھا، یہاں سب سے زیادہ دینی تعلیم کے مدارس بھی ہیں،اب مولانا صاحب ایسے ہمارے اعمال کے نتیجے میں عذاب قراد دیں گے؟ یہ سیلاب ہمارے اعمال کا نتیجہ نہیں، بلکہ انسان کی قدرت سے چھیڑ خانی کا نتیجہ ہیں،یہ انسانی ہوس، لالچ کا نتیجہ ہیں ۔ دریائے سوات کے کنارے اتنی تجاوزات کھڑی کر دی گئی ہیں کہ دریا کے قدرتی بہاؤ کو چھوٹا کر دیا ہے،اب جب معمول سے تھوڑی زیادہ بارش ہوتی ہے، تو دریا تو اپنا راستہ خود بنا لیتا ہے اور پھر ساری تجاوزات ملیا میٹ ہو کر ہمارے سامنے گرتی ہیں اور پھر ہم روتے ہیں۔

    کل کی ویڈیوز دیکھ لیں،پانی کے تیز بہاؤ میں لکڑیاں ہی لکڑیاں نظر آ رہی ہیں ۔ ٹمبر مافیا نے سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور محکمہ جنگلات کی ملی بھگت سے جنگلات کے جنگلات کاٹ دئیے ہیں،یہاں سے قیمتی ترین لکڑی کاٹ کر انہیں بیچا جا رہا ہے اور اسمگل کیا جا رہا ہے،جہاں سے یہ درخت کاٹے گئے ،وہاں سیاحت کےفروغ کے نام پر ہوٹلز بنا دئیے گئے ہیں،تو اب سیلاب ہی آنے ہیں، یہی لکڑی اب اپنا بدلہ لے رہے ہیں ۔ اسی طرح مخصوص بزنس مینوں کو نوازنے کے لیے، پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر،پتھر سیمنٹ فیکٹریوں کو دیئے جا رہے ہیں،جب پہاڑوں کی جڑوں کو انسان کاٹے گا تو پھر پانی کے سیلاب کیساتھ کیساتھ پتھروں کا سیلاب بھی آئے گا،جیسا کہ آیا اور اس نے بستیوں کی بستیاں اجاڑ کر رکھ دی۔

    پاکستان میں urbanization پوری دنیا کی بانسبت سب سے زیادہ ہے،پنجاب میں جہاں جہاں زرعی زمین ہے،وہاں ہاؤسنگ سوسائٹیز دھڑا دھڑ بنائی جا رہی ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں سیاحت کے فروغ کے لئے بنا کوئی پلاننگ کے درخت اور پہاڑ کاٹ کر ہوٹلز،ریسٹورنٹس کھولے جا رہے ہیں، یوں پیسے بنانے کے لالچ میں نیچرل ایکو سسٹم تباہ کر دیا گیا ہے۔
    اب جب بھی کھبی معمول سے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں، ڈیمز نا ہونے کی وجہ سے وہ پانی سٹور ہوتا نہیں،اور کتنا پانی تباہی مچاتا سمندر میں گرتا ہے اور پھر قحط سالی ہمارا منتظر ہوتی ہے۔ زیادہ بارشوں کی وجہ،پانی کے قدرتی بہاؤ کے راستے میں جگہ جگہ تجاوزات کی وجہ سے وہ پانی بستیوں کی بستیاں تباہ کر دیتا ہے اور ہمارے علماء دین کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ تباہ کاریاں ہمارے اعمال کا نتیجہ ہیں،لہذا توبہ کریں ۔

    اپنی غلطیوں، نالائقیوں ،نااہلیوں کو مذہب کے لبادے میں چھپا کر اپنی جان چھڑوانا ہمار قومی مشغلہ ہے۔اب بھی وقت ہے کہ ہم پاکستانی تھوڑا سا عقل کو ہاتھ ماریں،اور جگہ جگہ کنکریٹ کی عمارتیں نا کھڑی کریں، ورنہ آپ الٹے لٹک جائیں،آپ قدرت سے نہیں جیت سکتے اور پھر آپ کی عمارتیں ان آفات کا سامنا نہیں کر سکیں گی،جیسا کہ ہو رہا ہے۔ کاربن آمیشن میں پوری دنیا میں سب سے بڑا ہاتھ چائنہ اور امریکا ہے۔ انکی معشیتیں اتنی مضبوط ہیں،کہ وہ کسی بھی قدرتی آفت کے بعد دوبارہ کھڑا ہو سکتے ہیں،جبکہ پاکستان جیسا غریب ملک مفت میں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے رگڑا جا رہا ہے ( لیکن ہماری اپنی، نالائقی اور نااہلی زیادہ ہے).

    عالمی پیرس معاہدہ برائے موسمیاتی تبدیلی پر عملدرآمد کی سب سے زیادہ ضروت ہمارے ملک پاکستان کو ہے،جس پر کوئی بھی مضبوط معیشت سریس نظر نہیں آتی اور یہی رونا ہے۔

  • قصوروار سمجھنا آسان یا مشکل ترین – عبدالعلام زیدی

    قصوروار سمجھنا آسان یا مشکل ترین – عبدالعلام زیدی

    دکھ اور تکلیف اس زندگی کی حقیقت ہیں ، بہت سارے کیسز میں ان کا تعلق کسی خاص فرد سے نہیں ہوتا ۔ خود زندگی سے ہوتا ہے ۔ کلچر ، سوچ ، حالات ، صورتحال سے ہوتا ہے ۔ بہت سارے کیسز میں تکلیف کا سورس خود ہمارے اپنے پیٹرنز ہوتے ہیں ، ہمارا ماضی اور اس سے نکلے ہوئے پیٹرنز اور عادتیں دکھوں کو دعوت دیتی ہیں ۔

    جیسے لوگوں کو خوش کرنا ، باونڈری نہ بنا پانا ، توجہ لینے کے لیے ابنارمل کام کر بیٹھنا ، خود کے لیے کھڑا نہ ہو سکنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سارے پیٹرنز ہمیں دکھ دیتے ہیں ۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمیں جب دکھ ملتے ہیں ، تو تب ہمیں ایک ہی بات سکھائی گئی ہے کہ اس کی ذمہ داری کسی دوسرے پر ڈال دی جائے ۔ یہ فرار کا سب سے آسان راستہ ہوتا ہے ۔ اس راستے پر چلنے والے کو سب سے بڑا فائدہ یہ ملتا ہے کہ وہ زخم اور سچائی کی بڑی تصویر نہیں دیکھتا اور شاید وہ یوں ایک طرف خود پر کوئی ذمہ داری نہیں لیتا ۔

    دوسرا اسے دوسروں پر حالات اور حادثات کی ذمہ داری ڈالنے کا مزہ بھی ملتا رہتا ہے ۔ مزہ صرف وہ نہیں ہوتا کہ جس سے آپ کو لطف اور خوشی ملے ، بسا اوقات دشمنی ، نفرت بھی مزہ دیتے ہیں ، خود کو زیرو کرنا اور حسد و رشک کی آگ میں جلنا بھی مزہ دیتا ہے۔ ایسا مزہ کہ جس میں مریض خود بھی روتا ہے اور جس پر الزام لگا رہا ہے ، قصووار ٹھہرا رہا ہے اس کو بھی رولاتا ہے یا پھر اس کے رونے کا انتظار کرتا ہے ۔ یہ انتظار بھی مزہ دیتا ہے ! حقیقت دیکھنے سے آپ کو اپنے پیٹرنز بدلنے پڑتے ہیں ، اپنی اصلاح کی جانب جانا پڑتا ہے ، اپنے دشمن بدلنے اور پہچاننے ہوتے ہیں ، جسے ساری عمر دشمن سمجھا ۔ کیا پتہ کہ وہ حقیقت جاننے کے بعد دشمن ہی نہ لگے اور جسے دوست سمجھتے رہے ، وہی دشمن دکھائی دے ۔

    الزام دینا ، دشنام دینا ، قصووار ٹھہراناایک نئی باونڈنگ وجود دیتا ہے. کچھ لوگوں کو ہم ساتھ ملاتے ہیں جو ہمارے ساتھ ہمدردی کرتے ہیں ، ہمارے نعرے لگاتے ہیں ، ہمیں دکھی اور مظلوم سمجھتے ہیں. حقیقت دیکھنے سے یہ باؤنڈنگ ٹوٹ سکتی ہے ، ہمدردی لینے کا عمل رک سکتا ہے ، مظلومیت کا احساس ختم ہو سکتا ہے. یوں ہم بہت سے مزوں سے محروم ہو سکتے ہیں ۔ حقیقت کا سامنا کرنا ، بہادروں کا کام ہے ۔ حقیقت جاننے کا پہلا قدم خود کو جاننا ہے ، اپنی اچھائیوں اور کمزوریوں کو سمجھنا ہے اور پھر خود کو کہیں معاف کرنا ہے اور کہیں خود کو قبول کرنا ہے ۔ جب ہم خود کو قبول کر لیتے ہیں تو تب ہم اپنے ساتھ چلنے والوں کو بھی قبول کر پاتے ہیں ۔ جب تک ہم خود کو اپنی کمزوریوں سمیت قبول نہیں کرتے تب تک ہم دوسروں کو بھی درست طریقے سے دیکھ بھی نہیں سکتے ۔

    یہ مضمون ایک لحاظ سے اللہ کی تقدیر پر ایمان سے بھی جڑا ہوا ہے ۔ اس پر پھر کبھی مزید بات کریں گے ۔ زندگی ایسی ہی ہے ، نامکمل ، بے وفا ، پریشان ، قصووار محسوس کرنام کبھی خوشی کبھی غم ، کچھ اچھی کچھ بری ، کبھی بارش کبھی گرم ہوا ، کبھی دن کبھی رات۔ یہی اس زندگی کا حسن اور حقیقت ہے ۔ ایسے ہی رشتے اور لوگ ہیں ۔ کبھی ہم بارش میں گیلے ہوتے ہیں اور کبھی چھتری کے نیچے آتے ہیں ، کبھی سورج کی کرنوں کے مزے لیتے ہیں اور کبھی اے سی میں یوں ہی ہمارے اردگرد ، ہمارے پیارے اور اپنے ہوتے ہیں ۔ ان سے کہیں ملنا ہوتا ہے اور کہیں فاصلہ رکھنا ہوتا ہے ، کہیں جھپیاں اور کہیں باؤنڈری، یہ یوں ہی چلتا ہے ۔

    ہاں بس اگر اپنے زخموں کا ذمہ دار کسی ایک انسان کو قرار دینا ، اس کی نفرت میں جینا ، قطع تعلقی ، اس کی اچھائیوں سے آنکھیں بند کرنا ، اس کے احسانات کو نہ دیکھ پانا۔ اگر ایسا ہمارے ساتھ ہو رہا ہے تو سمجھ لیں کہ ہم زندگی کو قبول نہیں کر رہے ، حقیقت کو دیکھ نہیں رہے ۔ گلاب حاصل کرنے اور ان کی خوشبو لینے میں کانٹے چھبا کرتے ہیں جو کانٹوں کے درد نہیں سہہ سکتے ان کے گھر پھولوں سے خالی رہتے ہیں اور انہیں انکی خوشبو بھی نصیب نہیں ہوتی ۔ تو خوش رہیں ، اور اللہ کی قضا پر راضی رہیں. یہ زندگی تو ایسی ہی ہے ، ہاں جنت کی زندگی ویسی ہی ہے جیسی ہم خیالوں میں سوچتے ہیں بلکہ اس سے بھی کہیں اعلیٰ و ارفع !

    آپ ﷺ یوں دعا کیا کرتے تھے :
    [arabic]واسالك الرضاء بعد القضاء , واسالك برد العيش بعد الموت , واسالك لذة النظر إلى وجهك والشوق إلى لقائك في غير ضراء مضرة ولا فتنة مضلة[/arabic]
    ” میں تجھ سے تیری قضاء ( فیصلوں ) پر رضا کا سوال کرتا ہوں، اور میں تجھ سے موت کے بعد کی راحت اور آسائش کا طالب ہوں، اور میں تجھ سے تیرے دیدار کی لذت، اور تیری ملاقات کے شوق کا طالب ہوں، اور پناہ چاہتا ہوں تجھ سے اس مصیبت سے جس پر صبر نہ ہو سکے، اور ایسے فتنے سے جو گمراہ کر دے ۔”

    ( سنن نسائی ، البانی نے صحیح قرار دیا ہے)

  • پیراشوٹ امداد کی حقیقت کیا ہے؟ – ڈاکٹر مولانا محمد جہان یعقوب

    پیراشوٹ امداد کی حقیقت کیا ہے؟ – ڈاکٹر مولانا محمد جہان یعقوب

    غزہ کے مقامی صحافی محمد الطابان کا کہنا ہے کہ پیراشوٹ کے ذریعے گرائی جانے والی امداد کئی بار وہاں کے عوام کے لیے مصیبت بن جاتی ہے۔ کبھی یہ سمندر میں جا گرتی ہے، کبھی ایسی جگہوں پر جہاں تک لوگوں کی رسائی ممکن نہیں ہوتی، اور بعض اوقات بھاری بھرکم پیراشوٹ سیدھا لوگوں پر آ گرتا ہے جس کے نتیجے میں زخمی اور جاں بحق ہونے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ غزہ کے عوام کو محض دکھاوے کی نہیں بلکہ عملی اور محفوظ امداد کی ضرورت ہے، تاکہ بھوک اور علاج کی کمی کے مارے لوگ سکون کا سانس لے سکیں۔اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ فلسطین کے عوام اس وقت تاریخ کے بدترین حالات سے گزر رہے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیا ناپید ہیں، ادویات دستیاب نہیں، اسپتال تباہ ہو چکے ہیں اور بچے غذائی قلت کے سبب دم توڑ رہے ہیں۔ ایسے میں پیراشوٹ کے ذریعے امداد گرائے جانے کے مناظر دنیا بھر میں دکھائے جاتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ امداد اکثر مقامی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ ذرائع کے مطابق کئی بار ایسی اشیا گرائی جاتی ہیں جو فوری طور پر درکار نہیں ہوتیں یا ان کی تقسیم میں بدنظمی کے باعث مزید مسائل جنم لیتے ہیں۔

    اطلاعات یہ بھی ہیں کہ امداد کے پیکٹ زیادہ تر ساحلی یا کھلے علاقوں میں گرتے ہیں جہاں تک عام لوگوں کی رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ کہا جاتا ہے کہ اس دوڑ میں اکثر طاقت ور یا مسلح گروہ امداد پر قابض ہو جاتے ہیں جبکہ اصل ضرورت مند خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔ غزہ جیسے خطے میں جہاں مسلسل بمباری اور محاصرے کی کیفیت ہے، وہاں کسی بھی امدادی سامان کو محفوظ طریقے سے عوام تک پہنچانا سب سے بڑا چیلنج ہے۔کہا جا رہا ہے کہ پیراشوٹ امداد ایک وقتی ریلیف تو فراہم کر سکتی ہے، مگر یہ کسی طور پر مستقل حل نہیں۔

    غذائی قلت، پینے کے پانی کی کمی اور ادویات کی نایابی جیسے سنگین مسائل کو حل کرنے کے لیے منظم اور براہِ راست امدادی راہیں کھولنا ناگزیر ہیں۔ ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جب تک زمینی راستے محفوظ نہیں بنائے جاتے، تب تک اصل متاثرین تک امداد کی منصفانہ ترسیل ممکن نہیں ہو پائے گی۔یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ میڈیا پر دکھائی جانے والی امدادی سرگرمیاں ایک حد تک مظلوم عوام کی تکالیف کو نمایاں کرتی ہیں، لیکن زمینی حقائق اس سے کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ غزہ کے عوام کو صرف ہمدردی یا وقتی ریلیف کی نہیں بلکہ پائیدار حکمت عملی اور حقیقی مدد کی ضرورت ہے۔

    انسانی حقوق کے کارکنان اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ پیراشوٹ کے ذریعے گرنے والی امداد کے مناظر اکثر سیاسی یا سفارتی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں، جبکہ مقامی آبادی کی عملی ضرورتیں پس منظر میں چلی جاتی ہیں۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نوعیت کی امداد بعض اوقات عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ان کے دکھوں میں اضافہ کر دیتی ہے۔ بھاری پیکج کسی مکان پر گر جائے تو مزید تباہی کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح جب لوگ ان پیکٹوں کے لیے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ہیں تو ہجوم میں کچلے جانے کے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر اس امداد کا مقصد دکھاوا ہے یا حقیقی ریلیف فراہم کرنا؟

    ایسے حالات میں ناصحانہ پہلو یہ ہے کہ امدادی ادارے اور عالمی برادری وقتی اور نمائشی اقدامات کے بجائے عملی، مربوط اور محفوظ طریقے اپنائیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امداد ان ہاتھوں تک پہنچے جنہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ بہتر حکمت عملی یہ ہو سکتی ہے کہ زمینی راستوں سے قافلوں کی شکل میں امداد پہنچائی جائے یا کم از کم ایسے طریقے استعمال کیے جائیں جو مقامی حالات کے مطابق اور عوام کے لیے محفوظ ہوں۔یہ وقت سنجیدگی اور حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے۔ فلسطین کے عوام محض جذباتی نعروں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے جینے کا حق حاصل کر سکتے ہیں۔

    عالمی برادری اور مسلم امہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صرف دعووں یا نمائشی اقدامات تک محدود نہ رہیں بلکہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ امداد صحیح وقت پر صحیح لوگوں تک پہنچے۔ یہ اقدام نہ صرف ایک انسانی فریضہ ہے بلکہ انسانیت کے وجود کو باقی رکھنے کی بھی ضمانت ہے۔

  • حریت کی قربانیاں – جویریہ ریاض

    حریت کی قربانیاں – جویریہ ریاض

    آزادی ایک ایسی انمول نعمت ہے۔ جس کی قیمت الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی اور اس کی قدر وہی جانتا ہے جس نے غلامی کی زنجیروں کا بوجھ اٹھایا ہو اور اپنی سانسوں میں محکومی کا بوجھ محسوس کیا ہو۔ حریت کا سفر کبھی پھولوں کی سیج نہیں ہوتا، یہ کانٹوں سے بھری وہ دشوار گزار راہ ہے.

    جس پر چلنے والے اپنے لہو کے چراغ جلاتے ہیں تاکہ آنے والی نسلیں روشنی میں سانس لے سکیں۔ ہماری تاریخ ان عظیم قربانیوں سے منور ہے. جنہیں یاد کر کے دل فخر سے بلند ہو جاتا ہے اور آنکھیں عقیدت سے بھیگ جاتی ہیں۔ یہ قربانیاں محض زمین کے ٹکڑوں کے لیے نہیں تھیں بلکہ ایمان، عزت، غیرت اور آزادی کے مقدس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے دی گئیں۔ کسی نے اپنے گھر بار کو جلا کر قافلۂ آزادی میں قدم رکھا، کسی نے جوان بیٹے کا جنازہ اٹھایا مگر ہونٹوں پر شکر کے الفاظ رہے۔ کسی ماں نے بیٹے کو کفن میں لپٹا کر کہا:
    “بیٹا! تم نے اپنا وعدہ پورا کر دیا”.

    شہیدوں کے خون نے اس مٹی کو سرخ گلوں کی خوشبو عطا کی اور مجاہدوں کے عزم نے غلامی کی سیاہ رات کو چیر کر آزادی کا سویرا دکھایا۔ تاریخ گواہ ہے کہ حریت کا پرچم ہمیشہ ان ہی کے ہاتھ بلند رہتا ہے جو جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلتے ہیں۔

    [poetry]لہو سے جو چراغ جلے وہ کبھی نہیں بجھتے
    یہ قافلے شہیدوں کے ہیں جو رک نہیں سکتے[/poetry]

    آزادی کے متوالوں نے ہر دور میں قربانی کی ایسی مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔ ان کے قدموں کی دھول بھی ہمارے لیے امانت ہے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے لہو سے یہ خاک مقدس بنائی۔ وہ زخم کھا کر بھی مسکرائے، زنجیروں میں جکڑے جا کر بھی دعا دیتے رہے۔ ان کی پیشانیوں پر غلامی کا پسینہ نہیں بلکہ قربانی کا نور چمکتا تھا اور ان کی آنکھوں میں ایک ہی خواب تھا ، آزاد فضا میں جینے کا خواب۔

    [poetry] کوئی مٹی کو خون سے دھوتا ہے
    تب جا کے وطن آزاد ہوتا ہے[/poetry]

    آزادی کی قیمت محض الفاظ میں نہیں سمائی جا سکتی، یہ وہ قرض ہے جو ہم پر شہیدوں کا ہے۔ آج ہم جس آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں، یہ ان ماؤں کے آنسوؤں اور ان بہنوں کی قربانی کا نتیجہ ہے جنہوں نے اپنے سہاگ قربان کیے۔ یہ ان باپوں کا صبر ہے جنہوں نے لختِ جگر کھو کر بھی سر جھکنے نہ دیا۔ ان کی نیندیں، ان کا سکون اور ان کی زندگیاں سب کچھ قربان ہوا تاکہ ہم غلامی کے اندھیروں سے نکل کر آزادی کے سورج کی کرنوں میں نہا سکیں۔

    [poetry] وطن کی خیر ہو ہر دم، دعائیں ساتھ رہیں
    یہ زندگی بھی، یہ جاں بھی، سب کچھ نثار کریں[/poetry]

    اگر ہم واقعی ان قربانیوں کی لاج رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے کردار، اپنی امانت داری اور اپنے اتحاد کو مضبوط بنانا ہوگا۔ حریت کی بقا صرف میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ اخلاق، عدل اور بھائی چارے میں بھی ہے۔ جو قوم اپنی اقدار سے پیچھے ہٹ جائے، اس کی آزادی بھی دھندلا جاتی ہے اور شہیدوں کا خون ہم سے سوال کرنے لگتا ہے۔

    [poetry] لہو میں ڈوب کے لکھی ہے داستاں ہم نے
    وطن کی شان کو ہر دم جواں رکھا ہم نے[/poetry]

    آئیں ہم عہد کریں کہ اس آزادی کو کبھی ماند نہ ہونے دیں گے اور شہیدوں کی قربانیوں کا قرض ایمان داری، یکجہتی اور وطن سے محبت کے جذبے کے ساتھ چکائیں گے۔ کیونکہ حریت کا حقیقی حق وہی ادا کرتا ہے جو قربانی کے مفہوم کو دل سے سمجھتا ہو اور اسے اپنی زندگی کا مقصد بنا لے۔

  • آزادی کے 78 سال بعد ہم کہاں کھڑے ہیں؟ –  تہامی نور

    آزادی کے 78 سال بعد ہم کہاں کھڑے ہیں؟ – تہامی نور

    14 اگست 1947 ایک ایسا دن ہے جب پاکستان نے غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آزادی کی فضا میں سانس لی۔ یہ دن ہمیں صرف آزادی کی قدر ہی نہیں سکھاتا بلکہ اس بات کی بھی یاد دہانی کرواتا ہے کہ ہم نے اس ملک کو سنوارنے اور بہتر بنانے کا عہد کیا تھا ۔

    مگر آج ، یوم آزادی کے 78 سال بعد ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ ہم اس ملک کو آگے لے جانے کے لیے کس حد تک تیار ہیں ؟ خاص طور پر ہماری نوجوان نسل ۔ کیا وہ صرف کتابی تعلیم تک محدود ہے یا زندگی کی حقیقی مہارتوں میں بھی مہارت رکھتی ہے؟

    آج کی نوجوان نسل شدید تعلیمی دباؤ کا شکار ہے ۔ اسکول ، کوچنگ سینٹرز ، آن لائن کلاسز اور امتحانات کے گرد گھومتی ہوئی زندگی نے انہیں عملی زندگی کی مہارتوں سے دور کر دیا ہے ۔ ان کی ساری توانائی گریڈز ، جی پی اے اور اسائنمنٹس پر مرکوز ہے ، اور زندگی گزارنے کے بنیادی اصول ان کے لیے اجنبی بن چکے ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی نلکا خراب ہو جائے یا پنکھا بند ہو جائے تو فوراً پلمبر یا الیکٹریشن کو فون کیا جاتا ہے ۔ نئی نسل کا ہاتھ سے کوئی چھوٹا سا کام کرنا یا کسی مسئلے کا خود حل نکالنا ایک “غیر ضروری” مشقت سمجھا جاتا ہے ۔ یہ روش نہ صرف خود انحصاری کو ختم کرتی ہے بلکہ ذہنی پختگی کو بھی روکتی ہے ۔

    آج کا نوجوان ایک دن اکیلا نہیں گزار سکتا ۔ اگر انٹرنیٹ بند ہو جائے ، موبائل خراب ہو جائے یا کوئی چھوٹا مسئلہ بھی درپیش ہو ، تو وہ مایوسی اور پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے۔ وجہ ؟ انہیں بچپن سے مسائل کا سامنا کرنے کی تربیت ہی نہیں دی گئی ۔دیگر ممالک کی تربیتی صرف تعلیم نہیں ، کردار سازی کی مثالیں بھی ہیں۔ سب سے پہلے ، جاپان میں بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی صفائی ، وقت کی پابندی ، خاموشی سے سننے اور دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ وہاں اسکول میں بچے نہ صرف تعلیم حاصل کرتے ہیں بلکہ ہر

    دن اپنی کلاسز ، راہداریاں اور یہاں تک کہ اسکول کے واش رومز بھی خود صاف کرتے ہیں۔ جاپانی کلچر میں اجتماعی ذمہ داریوں کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جاپانی نوجوان نہ صرف پڑھائی میں اچھے ہوتے ہیں بلکہ اخلاقی طور پر بھی مضبوط کردار کے مالک ہوتے ہیں ۔دوسرا ، فن لینڈ میں بچوں کو سادہ اور فطری ماحول میں پرورش دی جاتی ہے۔ وہاں اسکول جانے کی عمر 7 سال سے شروع ہوتی ہے لیکن اس سے پہلے بچوں کو آزادی سے سوچنے، کھیلنے اور سوال کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔

    علاوہ ازیں ، جرمنی میں بچے بچپن سے ہی آزاد فیصلے لینے کی تربیت حاصل کرتے ہیں ۔ ان کے اسکولوں میں بچوں کو مختلف پیشہ ورانہ مہارتیں سکھائی جاتی ہیں جیسے لکڑی کا کام ، دھات کاری یا سلائی کڑھائی تاکہ اگر وہ اعلیٰ تعلیم کی طرف نہ بھی جائیں تو خود کفیل بن سکیں ۔ جرمن تعلیمی نظام تجربات کو تھیوری سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اسی طرح سنگا پور میں تعلیم اور تربیت کو یکساں اہمیت دی جاتی ہے۔ بچوں کو اسکول میں اخلاقیات ، باہمی احترام اور خود نظم وضبط سکھایا جاتا ہے ۔ وہاں اتحانات اور نتائج اہم ضرور ہیں ، لیکن ان کے ساتھ ساتھ بچوں کی شخصیت سازی پر بھی بھر پور توجہ دی جاتی ہے۔

    یوم آزادی کا اصل مقصد صرف جشن منانا نہیں بلکہ خود احتسابی بھی ہے۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو صرف تعلیمی کامیابیوں تک محدود نہیں رکھنا ، بلکہ انہیں زندگی کی بنیادی مہارتیں بھی سکھانی ہیں جیسے :

    . خود پر انحصار کرنا
    . مشکلات کا سامنا کرنا
    . صفائی اور نظم وضبط اپنانا
    . وقت کی پابندی
    . دوسروں کے ساتھ مل جل کر کام کرنا

    اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان واقعی ترقی کرے ، تو ہمیں نوجوانوں کو صرف ڈاکٹر، انجینئر یا آئی ٹی ماہر نہیں بنانا ، بلکہ ایک باعمل ، با اخلاق اور خود انحصار شہری بنانا ہوگا۔ اس یوم آزادی پر ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو کتابی علم کے ساتھ ساتھ زندگی کا علم بھی دیں گے، تاکہ وہ خود پر اور اپنی قوم پر فخر کر سکیں ۔