Author: ویب ڈیسک

  • جشن آزادی یا معرکہ حق کی کرامت – تیمیہ صبیحہ

    جشن آزادی یا معرکہ حق کی کرامت – تیمیہ صبیحہ

    ہمارا جشن آزادی سالہا سال سے جھنڈا لہرانے تک محدود تھا۔ بچے چھوٹے تھے تو تحریک و تاریخ پاکستان سے متعلق کوئی کوئز کرا لیتے ، نغموں اور تقریروں کا مقابلہ کراتے یا ڈاکومنٹری وغیرہ دیکھ لیا کرتے ۔ کچھ کہانیاں سن سنا لیتے۔

    البتہ اس مرتبہ سپورٹس کمپلیکس کے آس پاس ہل چل مچی دیکھی تو تجسس ہوا کہ آخر معرکہ حق کو جشن آزادی کے ساتھ ملا کے کیا تشکیل پا رہا ہے۔ جھنڈے، جھنڈیاں ،پوسٹر، پینا فلیکس، ڈجیٹل بورڈ، صفائی ستھرائی، پودے ،بتیاں، وغیرہ تو ہر سال ہوتے ہیں۔
    اس بار کیا مختلف ہے ؟

    شاہراہوں پر فوجی بھائی کثرت سے نظر آنے لگے ۔ کچھ تو خاص ہونے جا رہا تھا۔ پردہ غیب اٹھنے کی منتظر تھی نگاہ کہ ناگہاں ارد گرد چنیدہ لوگوں کو جناح سٹیڈیم کے انٹری پاس ملنے کی خبر سنی۔ ہمارا ماتھا ٹھنکا اور اپنے نیٹ ورک کو متحرک کیا مگر گرمی کی طویل چھٹیوں میں کاہلی کے بام ثریا کو پہنچے ابناء آدم نے حجتیں شروع کر دیں۔
    ‘دیکھیں ! ہائی پروفائل فنکشن ہے تو گھنٹوں پہلے جانا پڑے گا۔”
    ” پارکنگ اس قدر دور ملتی ہے۔ پھر موبائل جمع کرانے پڑیں گے۔ کچھ کرنے کو ہوگا نہیں۔”
    ” سٹیڈیم کی کرسیاں سخت ہیں ۔ آپ سے بالکل نہ بیٹھا جاے گا۔ گرمی الگ ہے۔
    ” ویسے بھی دور سے نظر ٹھیک نہیں آتا ۔ ٹی وی پر اس کی نسبت بہت اچھا نظر آتا ہے۔”

    ارمان کی کلیوں پر بن کھلے اوس پڑ گئی۔ سویرے کافی دیر تک توپوں کی سلامی سننے کے انتظار میں جاگتی رہی مگر نہ سنائی دی۔ رات کی تقریب گزر چکی تھی اور دن میں جنگی جہازوں کے فضائی کرتب اور دفاعی سامان کی نمائش ہونا تھی۔ موسم کے پیش نظر فضائی پاسٹ تو منسوخ ہوا۔ اب تمام تر حب الوطنی نمائش پر منحصر تھی۔ ہماری تبلیغ کا اثر صرف دختر نیک اختر پر ہوا۔ اولاد آدم کو گھسیٹ گھساٹ طوعاََ کرھا ََعین سہ پہر کو لے کر کے نکلے۔ ابا کو اعتبار نہ تھا کہ کچھ ہو رہا ہے کبھی کہیں، نقشہ کھولو کہاں سے انٹرنس ہے۔ کبھی فرمائیں:
    “ادھر سے سڑک بند ہے ۔”

    لیکن ہم پُر اعتماد تھے کہ پریڈ گراؤنڈ ہمارا دیکھا بھالا ہے، کچھ نہ ہوا تو یوں ہی گشت سہی ۔ ویسے بھی لوگ باگ فوجیوں سے ناراض رہتے ہیں ۔ اسلام آباد بے دل لوگوں کا شہر ہے ، ہمارے سوا کون سر پھرا ، حبس میں یوں نکلا ہوگا۔ پہلے سری نگر ہائی وے پر چڑھتے ہی توقع کے خلاف گاڑیوں کا جم غفیر ملا۔

    یہ کیا ؟
    بچوں اور عورتوں سے لدی موٹر سائیکلوں کی قطاریں، ٹھنسی ہوئی فیملیاں ، قسما قسم کی گاڑیاں ، سوزوکیاں ، ڈالے ، لوڈر ہر سواری کا رخ شہر کے اندر کی جانب تھا ۔ بچے سبز سفید کپڑوں میں ملبوس جھنڈیاں ہاتھوں میں پکڑے ، سواریوں پر حسب توفیق ایک سے بڑھ کے ایک بڑے سائز کے جھنڈے لہرا رہے تھے ۔
    ہماری آنکھیں کھلی رہ گئیں اور اپنا آپ نہایت نکو محسوس ہوا۔ گھر میں جھنڈا رکھا تو تھا مگر لڑکوں کو آوازیں دینے کے چکر میں اٹھانے کا خیال نہ آیا۔ بیٹی اس پر چیں بچیں تھی کہ پورے پاکستان میں ہمارے گھر کے لڑکے بالکل کور ذوق واقع ہوئے ہیں۔ ایک میں نے میرون شرٹ پہنی ہے دوسرے نے نیلی تیسرے نے کالی ، نیچے کھیلنے کے پاجامے ۔

    “کسی کو تمیز نہیں کہ چودہ اگست پر کیا پہننا چاہیے۔”
    خود جناب نے ہرے گاؤن سفید سکارف پر جھنڈے کا بروچ بھی لگا رکھا تھا اور ان کے کہنے پر ہم نے بھی ہرے کی تہمت ، مہندی سے رنگ کا گاؤن چڑھایا تھا۔ اس کسمپرسی پر ابا نے تسلی دی کہ بہت سٹال ہیں ابھی خرید دیتا ہوں مگر عید قربان کے پہلے روز بکروں کی قیمت کی مانند شاہراہ پر جھنڈوں کا نرخ چڑھا ہوا تھا۔ ہم نے منع کر دیا۔
    زیرو پوائنٹ سے شاہراہ فیصل پر مڑے تو نمائش کے پوسٹر اور رہنمائی کے نشان نظر آنے لگے۔ تسلی ہوئی۔ یہاں گاڑیوں کا ہجوم پہلے سے بھی زیادہ تھا اور سڑک کی دونوں جناب بے شمار کاریں پارک تھیں۔ اب ہمیں تشویش ہوئی کہ اندر جانے کی جگہ بھی ملے گی یا نہیں۔

    بائیں جانب داخلے کے بورڈ لگے تھے مگر ہم جہاں مڑنے کے لیے گاڑی کو آہستہ کرتے ، ٹریفک پولیس کے سنتری آگے جانے کا شارہ کر دیتے۔ اندر کی پارکنگ بھری ہوئی ، باہر اس قدر چوڑی ہائی وے پر دہری دہری پارکنگ یہ بہت حیران کن تھا۔ اسلام آباد میں اتنے لوگ کہاں سے آئے اور وہ بھی فوجی نمائش پر!
    پریڈ گراؤنڈ میں داخلے کے نشان ہر چند سو فٹ کے فاصلے پر تھے مگر ہمیں کہیں جگہ نہ ملی ہر جا پولیس نے اشارہ کر کے آگے بھیج دیا یہاں تک کہ فیض آباد کا پل آ گیا اور ابا نے مخلوق خدا کی پیروی میں سڑک کنارے ایک خالی جگہ دیکھ کے گاڑی روک دی۔ ہم دل میں ڈرے کہ لفٹر نہ چلا آئے مگر یہ فرمانے لگے کہ آج آزادی کا دن ہے۔

    نکلے تو پیدل چلنے میں بھی ہجوم میں پھنس گئے۔ ہر طرف آدمیوں کا ازدحام ، گاڑیوں کے قافلے ، بلند آواز میں ملی ترانے ، جھنڈے ۔ کہیں کہیں فلسطین اور کشمیر کے بھی لہرائے جا رہے تھے۔ کالے کپڑوں میں ملبوس سرخ جھنڈے لیے چہلم امام حسین کا ایک جلوس بھی ساتھ شامل ہو گیا۔ موٹر سائیکلوں کے بیچ میں سے رستہ بناتے ہم پریڈ گراؤنڈ کے باہر پہنچے تو وہاں کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے الفا براوو چارلی اور وی آئی پی نام کی الیکٹرک شٹل بسیں موجود تھیں جو پارکنگ کے مقام سے داخلہ دروازے تک پہنچا رہی تھیں۔
    خیر ہم پیدل ہی چلے۔ آسمان پر ابر چھایا ہوا تھا اور ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ کچھ دیر قبل ہونے والی بارش کی نمی موجود تھی۔

    سیکیورٹی پر ملٹری کے جوانوں کے ساتھ وفاقی پولیس بھی تھی۔ واک تھرو گیٹوں سے مرد وزن علحدہ گزر کے نکلے تو فوجی چھولداریوں اور کیمو فلاج ٹینٹوں میں مزید تلاشی کے لیے بھیج دیے گئے۔ ایک فوجی خیمے میں اسلام آباد پولیس کی خاتون سپاہیوں کو زنانہ تلاشی دی ۔ حضرات کو ایسا پروٹوکول ملنے کی توقع عبث ہے۔ بر سر سڑک ہی اپنی جانچ پڑتال کرا رہے تھے۔ پریڈ ایریا میں داخلے کے بڑے دروازے خوش آمدید کہ رہے تھے۔ دائیں بائیں معرکہ حق کی تصاویر پر مبنی بڑے بورڈ آویزاں تھے۔ جن کے سامنے لوگ کھڑے تصاویر بنا رہے تھے۔ میدان کے ایک جانب فوجی سامان کی نمایش اور دوسری جانب کھانے پینے کے سٹال تھے۔

    اس قدر لوگوں کا فوجی نمائش میں موجود ہونا ….۔
    ہمیں بالکل توقع نہ تھی۔ مدتوں بعد دیکھا کہ بچے پر جوش ہو کے فوجیوں سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ کچھ بچے کھڑے سیلیوٹ مارتے تھے جس پر ڈیوٹی پر مامور جوان مسکرا رہے تھے۔سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ یوم آزادی کا جشن تھا یا معرکہ حق کی کرامت ۔ پہلے پہل یہ تاثر تھا کہ اسلام آباد کے گرد نواح خصوصا خیبر پختونخوا سے زیادہ تماشائی پہنچے ہیں مگر پھر ہر جگہ اور ہر طبقے کے لوگ نظر آنے لگے۔ بشمول اسلام آباد کے “برگرز ” کے جو توپوں اور ٹینکوں کو بیک گراؤنڈ میں لے کے ، انگریزی میں گٹ پٹ کرتے ، اس عوامی سمندر میں آئی فون سے تصویریں بنا رہے تھے۔

    ہم نمائش کی جانب بڑھے تو پہلا پنڈال سگنل کور کا تھا۔ نمائش کو اچھے تھیمیٹک انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ معرکے کے دوران میں اس کور کے کارناموں پر مشتمل بڑے بڑے پوسٹر عقب میں ، سامنے ان کے قیام کی تاریخ ، شہدا کی تصاویر، ملنے والے اعزازات ، درمیان میں فوجی گاڑیوں پر نصب کیے گیے آواز اور سگنل کے آلات۔
    پہلے تو ہجوم میں پھنسنے کے خوف سے ہم آگے نہ بڑھے مگر آخر آئے کس لیے تھے۔ بے خطر کود پڑا والی کیفیت خود پر طاری کی اور ان مشینوں اور آلات کے آگے پیچھے گھوم کے جائزہ لیا۔ ابا جان کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں اور وہ بھائی جان کو مخاطب کر کے فرما رہے تھے ، یہ تو ہماری چیزیں لگی ہیں۔ وہ فلاں مائکروویو وہ فلاں آر ایف انٹینا۔ اس کی فریکوئنسی یہ اس کی رینج وہاں اتنے کلومیٹر تک ۔ جنگوں میں مواصلات کی اہمیت کلیدی ہوتی ہے۔

    ان پر کھڑے افسر اور سپاہی حتی المقدور اپنے آلات کی وضاحت کر رہے تھے مگر اس قدر ہجوم میں ہمیں کچھ سنائی دیا نہ سمجھ آئی۔ ایسا کیسے ہوتا ہے کہ محاذ پر صرف اپنے لوگ ہی ہدایات سن سکیں یا دشمن کی لائن بھی پکڑی جاتی ہے۔فریکوئنسیاں کیسے سیٹ ہوتی ہیں ؟
    میاں نے یوں دیکھا کہ گویا اپنے کام سے کام رکھو اور آگے بڑھو۔ اس کے بعد تخلیقی اپچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ریسرچ، انوویشن اور پروڈکشن کے نام پر فوجی تعلیمی اداروں نسٹ اور نیوٹیک کے پنڈال تھے۔ وہاں ان کے طلبہ کھڑے مختلف پراجیکٹس پر مفصل بیانات دے رہے تھے ۔ سپیکر پر الگ کچھ کہا جا رہا تھا۔ آدمیوں کے بیچ سے ذرا سا نظر آیا کون سی گاڑیاں بنائی ہیں اور کون سا ڈرون ۔ روبوٹکس اور سٹیم کے کچھ کوائف بھی تھے۔ مطبوعات ، رینکنگ ، پیٹینٹس ۔

    غرض امپریس کرنے کا کافی سامان تھا۔ ذرائع نقل و حمل کے چھوٹے ماڈل خلقت کے لیے کافی پر کشش تھے۔ بچوں کا بس نہیں چل رہا تھا اوپر بیٹھ کے ٹرائے ڈرائیو کر لیں۔ پیچھے ملٹی میڈیا سکرینوں پر لیبارٹریوں اور تجربہ گاہوں کے مختلف مراحل دکھاے جا رہے تھے۔ ہم نے سر اونچا کر کے دیکھنے کی کوشش کی مگر ہجوم میں وہ دھکے پڑے کہ سوچا کبھی نسٹ کے فوجی سںکولوں میں جا کے دیکھ آئیں گے۔ اگلا حصہ پاکستان آرڈیننس فیکٹری کا تھا ۔
    واہ بھئی !!
    شیشے کے صندوقوں میں سجی گولیاں ، گولے ، بم ، طرح طرح کی بندوقیں اور گنیں ۔ کچھ سجی ہوئی ، کچھ وہاں مامور کارکنان، تماش بینوں کے ہاتھوں میں تھما کے اس کا فنکشن سمجھا رہے تھے اور تصویر کشی کا سامان کر رہے تھے ۔

    ابا پستولوں کے چند نئے نمونے دیکھ کے ریجھ گئے۔ آگے پیدل فوج ، پھر توپخانہ ، پھر ٹینک ، میزائل، راکٹ لانچر اور طرح طرح کی مختلف مار کرنے والی گنیں…۔ مختلف یونٹوں کے اپنے اپنے پنڈال تھے۔ ہر کسی نے اپنے جنگی کارنامے ، نشانات امتیاز بشمول نشان حیدر پانے والے افسران اور سپاہیوں کی تصویریں لگا رکھی تھیں۔ یونٹ کے نشان اور علامات سجی تھیں۔ ہر پنڈال میں الگ ڈی جے بیٹھے سکرین پر چلتی ڈاکومنٹریوں اور نغموں کو نشر کر رہے تھے ۔ میزائلوں کا توڑ کرنے والے میزائل ( انٹرسیپٹ ) بڑ ے دلچسپ تھے۔

    وہاں نسبتا کم ہجوم تھا تو ہم نے بھی ذرا معلومات لے لیں کہ کیسے فضا ہی میں دشمن کے میزائل کو گمراہ کر کے زمین پر اتارا جاتا ہے؟
    مختلف فاصلوں تک مار کرنے والے راکٹ اور میزائل کتنا نقصان پہنچا سکتے ہیں ؟
    ابا نے پوچھا کہ لاہور پر متعین لانچر کہاں تک پہنچ سکتے ہیں ؟

    ان کا جواب تھا ستر کلومیٹر مگر ابا بضد رہے کہ اس کی رینج دہلی تک ہے۔ انہوں نے کہا ،
    ” جا سکتا ہے لیکن یہ اس مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا ۔”
    پھر کیموفلاج کی ہوئی گاڑیاں اور گنیں ۔۔۔ ایک چھولداری کا پردہ ہٹایا اور چھوٹے فرزند کے گھورنے کے باوجود میں اندر گھس گئی مگر فورا ہی بیبیوں کا ریلا آیا اور ہم کیموفلاج چادر سے باہر دھکیلے گئے۔ لڑکے بڑے تیس مار خان بن کے بے نیاز کھڑے تھے ۔ میرا یہ حال کہ جسے توپ سمجھی وہ مارٹر گن نکلی ، جسے ٹینک جانا وہ توپ کہلائی، جسے بندوق کہا وہ راکٹ لانچر تھا۔ یہاں تک کہ ٹیکسلا میں بنے الخالد اور حیدر کے چاروں طرف گھوم کے ٹینک کی ساخت واضح کی۔

    دوربین سے دیکھنے کی کوشش ناکام گئی کیونکہ وہاں اہلکار نے ہمیں سینئر سٹیزن جان کے دوربین کے شیشوں پر کور چڑھا دیا۔ اور حسن کی طرح فرمایا ، میڈم ابھی کچھ نظر نہیں آئے گا۔ ہم نے پوچھا بھائی نشانہ کہاں سے لیتے ہو اور فائر کہاں سے کرتے ہو۔ جواب آ یا کہ اس پر چھ لوگ متعین ہوتے ہیں۔ ایک ڈرائیور جو اندر ادھر بیٹھتا ہے ، ایک نشانچی یہاں ، ایک فائر کرنے والا وہاں ۔۔۔ ..
    الخ!
    ہم نے سوچا جنگ میں کس قدر کووارڈینشن درکار ہوتی ہوگی۔ ٹینک پر آٹھ سپاہی۔ ایک یہ کرتا دوسرا وہ کرتا ۔

    عوامی اور فوجی ووکیںلری کا فرق اپنی جگہ تھا۔ معدودسے چند گاڑیاں اور ساز سامان پرانا یورپی ساختہ تھا. بیشتر چین سے درآمد کردہ ، کچھ ترکیہ سے حاصل ہوا یا پاکستان میں ڈھلا تھا۔ اک سٹال میں لمبی سی نال والی گنیں ، ایک انتہائی دیو ہیکل ٹرک پر لگی تھیں۔ وہاں ایک نوجوان افسر مسکراتے ہوے عوام میں گھرے تھے۔ کبھی ایک پارٹی کا فوٹو شوٹ ہوتا کبھی دوسری کا۔ ہم نے سوچا کچھ معلومات لی جائیں۔ یہ نئی سی چیز دکھتی ہے۔

    جب ہم آگے بڑھنے کی کوشش کریں تو ادھر سے کوئی اور انہیں لے کے کھڑا ہو جائے۔ ایک دفعہ حسن کو آگے کیا مگر دوسری طرف سے ایک بھائی صاحب آئے اور بڑے رسان سے کہنے گلے ،
    “سر! ایک تصویر میرے والد صاحب کے ساتھ ۔”
    ایک اور صاحب بولے ،
    ” بھائی صاحب ! میری فیملی کے ساتھ۔ ”
    سب دیکھیں والد صاحب کہاں ہیں۔ فیملی کہاں ہے۔

    اتنے پہلے بولنے والے صاحب نے افسر کا ہاتھ پکڑا اور انہیں کھینچتے ہوئے ایک جانب لے گئے جہاں وہیل چئیر پر والد بزرگوار موجود تھے۔ ہم افسروں کی اس گت پر حیران رہ گئے اور سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔ یہ وہ نظارے تھے جو مدتوں سے عنقا تھے۔ ہمارے دانشوروں نے سول سپریمیسی کے یوٹوپیا اور ظالم و غاصب نوآبادیاتی فوج کے وہ گیت گائے تھے کہ اب ہم فوج اور عوام کو یوں بستہ پیوستہ دیکھ کے انگشت بدنداں تھے۔ وہ وردی جس کا پہننے والا گلیوں بازاروں میں شرمندہ نکلتا تھا اس کے ساتھ تصویر کھنچوانے کے لیے لوگ ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ یہاں تک کہ جو وردی پہنا کے مصنوعی ماڈل کھڑے کیے گئے تھے وہ بھی کمال کا فوٹو شوٹ کروارہے تھے۔

    ارد گرد ہر جگہ “ہم تم سے ہیں ، تم ہم سے ہو ” کی عملی تصویر بنا ہوا تھا۔ بندے پر بندہ چڑھا تھا اور بچے پہ بچہ، ٹینکوں اور فوجی گاڑیوں کے اوپر، سند آگے پیچھے ہر طرف ، بہتیری بیبیاں جو اوپر نہ چڑھ پا رہی تھیں وہ ٹینکوں کے اندر گھسی تصویریں کھنچا رہی تھیں۔ ڈیوٹی پر مامور حوالداروں سے کچھ پوچھنا چاہا تو وہ بچے اتارنے ، چڑھانے اور سیلفیاں بنوانے میں مصروف تھے۔ کچھ نئے نویلے افسر ، کچھ سینئر افسر ۔ شاید ہم بھی کسی انٹرویو میں کامیاب ہو جاتے مگر ہمارے پہلو میں جو کراما کاتبین کی مانند لڑکا تھا، وہ مسلسل بین بجا رہا تھا ۔
    “چلیں، آگے چلیں ، یہ رکنے کی جگہ نہیں ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کی باتیں ہیں۔ آپ کو سڑک پر چلنے والی گاڑیوں کی سمجھ نہیں آتی ، فوجی گاڑیوں کی کیسے آئے گی۔”

    پھر گھسیٹتا ،
    “چلیں ، رکیں مت۔”
    آخر ہمیں مادرانہ جلال نے آ لیا۔ بازو چھڑا کے اسے کہا کہ
    ” اپنے ابا کے پاس جاؤ۔ میں تمہاری ماں ہوں یا تم میرے باپ ہو۔”
    ان کی قابلیت کا پول کھولنے کو پوچھا کہ یہ انفنٹری ، آرٹلری اور آرمر میں کیا فرق ہے ۔ تب منہ میں بدبداتے رخصت ہوئے۔ اتنے ہجوم میں ہمیں گم ہونے کا اندیشہ بھی تھا مگر معلوم ہوا کہ لڑکا باپ کے ساتھ کھڑا بھی نظر ہم پر ہی رکھے ہوے ہے۔ جہاں ہمیں جوش تحقیق زیادہ ہونے لگتا وہیں آ کے بازو پکڑ کے گھسیٹنے لگتا۔

    ہم نے ایک حوالدار میجر صاحب سے پوچھا کہ یہ توپ کس کام آتی ہے۔
    لمبی نال تھی نیچے ٹینک کی مانند بیلٹ والے پہیے تھے۔ انہوں نے مسکرا کے فرمایا،
    ” میڈم یہ گن ہے ، توپ نہیں۔”
    مگر ہم نے کھسیانے ہوے بغیر مزید سوالات داغ دیے۔ اس قدر آہستگی اور نرمی سے مسکراتے ہوے جواب دیا کہ مجھے شک ہونے لگا کہ یہ اصلی فوجی نہیں ہیں۔ مانگے کی وردی چڑھائی ہے۔ لڑائی لڑنے والے کو تندخو ، سخت اور اکھڑ ہونا چاہیے تھا۔ خیر ان صاحب نے گن کے جملہ کوائف یوں بتائے جس طرح ہم اپنے بچوں کا تعارف کراتے ہیں ۔ پھر کہا ، “اس جنگ میں پہلی بار استعمال کیا ہے کشمیر کے محاذ پر بہت اچھی کارکردگی رہی۔”

    اس وقت ہم لاہور سے آئے ہیں مگر ایسی ہی گنیں پورے ملک کی سرحدوں پر موجود ہیں۔ گن سے فائر کے بعد اس کی لوکیشن ڈیٹیکٹ ہو جاتی ہے اس لیے چھ گولوں کے ایک راؤنڈ کے بعد اس کی جگہ بدلتے ہیں۔ ایک منٹ میں یہ ساری جناتی سی گاڑی پیک ہو کے دوسری جگہ جانے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ نئی قائم ہونے والی سٹریٹجک یونٹ کے تعارف کے ساتھ فتح میزائل سجے ہوے تھے۔ فتح 4 کو پہلی دفعہ عوامی رونمائی کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ اگرچہ ہمیں سوائے سائز کے کوئی فرق نہ نظر آیا مگر وہاں کھڑے افسر نے بتایا کہ ان کی رینج اور بارود لے جانے کی صلاحیت میں فرق ہے۔

    آرمی ایوی ایشن ، بحریہ اور فضائیہ کے اپنے پنڈال تھے۔ فضائیہ کے پنڈال میں الگ طرح کا جوش و خروش تھا۔ ہر شخص جاننا چاہ رہا تھا کہ رافیل کس جہاز نے گرایا ، جے ایف تھنڈر کہاں ہیں اور ایس 400 کو تباہ کرنے والا کون سا طیارہ تھا۔ اسی دن ان طیاروں کے ہوابازوں کو ایوان صدر میں اعزازات دیے گئے تھے۔ فضائیہ کے پنڈال میں اصلی جہازوں کی بجاے ان کے ماڈل رکھ کے کام چلایا گیا تھا۔ سو یہاں عوام کی اوپر چڑھنے کی حسرت پوری کرنے کا سامان نہ تھا۔ البتہ گھومتے ریڈار ، ایر ٹریفک کنٹرول اور کچھ دیگر سامان موجود تھا۔ ڈائریاں کیلنڈر اور دیگر مصنوعات بھی نظر آئیں۔ بحریہ کا بڑا مسئلہ تھا ۔

    وہ سائلنٹ گائیز کیسے اپنے جہاز بارہ سو کلومیٹر سے خشکی پر گھسیٹ کے لاتے ۔۔ ان کا شو دیکھنے کے لیے کراچی جانا چاہیے ۔ انہوں نے بہت سارے ماڈل اور آلات کے ساتھ اک آبدوز اور اک جنگی کشتی رکھ کے کام چلایا تھا ۔ کچھ نئے ڈرون اور سمندر میں مارنے والے میزائل اور بم وغیرہ سجاے ہوے تھے۔ سمندر کا ٹچ دینے کے لیے فرش پر نیلگوں لہریں پرنٹ کر رکھی تھیں ۔ سفید ساڑھیوں میں ملبوس نیوی کی خواتین استقبالیہ پر موجود تھیں۔ ہم درمیان میں گھوم رہے تھے کہ ناگہاں شور ہوا ۔ سٹیج سے عوام کو متوجہ کیا جا رہا تھا ۔ شاید کچھ مہمانان گرامی تشریف لائے تھے۔ کچھ لوگ پکارنے لگے ، ہیلی کاپٹر آ رہے ہیں پیرا شوٹ سے فری فال جمپ ہوگی۔ کچھ دیر ہم نے آسمان کو دیکھا مگر یہ صرف خواہشات تھیں۔

    پریڈ گراؤنڈ کی مغربی جانب ، نمائش کے بالمقابل کھانے پینے کی عارضی دکانیں سجی تھیں ۔ اس سے آگے سٹیج کے عقب میں سیڑھیوں پر کرسیاں لگی تھیں۔ چلتے چلتے تھک چکے تھے ۔ پیاس الگ لگ رہی تھی۔ کچھ دیر سستانے کے لیے وہاں بیٹھ گئے۔ دل میں یہ بھی تھا کہ ذرا محسوس کریں کہ پریڈ کے دوران ان کرسیوں پر بیٹھ کے نظارہ کیسا ہوتا ہے ۔ یہاں الگ ثقافتی شو ہو رہا تھا ۔ ہمارے سامنے بلوچ روایتی لباس میں ملبوس ایک طائفے نے روایتی رقص اَتڑ پیش کیا ۔ پاکستان کے دیگر خطوں کے فنکار بھی نظر آ رہے تھے ۔ اک جانب فوجی بینڈ کھڑا دیکھا ۔ شام گہری ہو رہی تھی ۔

    نکلتے ہوے فوجی بینڈ کی دھنیں بھی سن لیں اور اچانک اپنی ایک سہیلی صاحبہ سے ملاقات بھی ہو گئی جو بچوں کو گھر چھوڑ کے فیملی کے بڑوں کے ہمراہ تشریف لائی تھیں ۔ باہر نکل کے گاڑی تک تو ہم سلامتی سے پہنچ گئے۔ مگر پھر جو مری روڈ پر چڑھے تو شاہراہ دستور کی رونق میں پھنسے۔ ادھر سے نکلے ، اتاترک ایونیو نے پکارا ، مت چھوڑ کے جائیو آج مجھے ۔۔۔ کچھوے کی چال رینگتے جناح ایونیو پہنچے اور ادھر سے پولیس نے جو گھمایا تو چکر کھا کے مارگلہ روڈ پر اترے۔ خیال تھا ادھر کچھ نہیں ہے ۔۔ پیچھے پیچھے سے سیدھا پہنچ جائیں گے۔

    مگر ۔۔۔ بھول گیا کہ جشن آزادی کی بارات کیا ہوتی ہے۔
    معرکہ حق کی کرامات کا نزول فیصل مسجد کے گرد و پیش جاری ساری تھا۔ بازار میں اکثر ڈھابے کھابے ملی نغموں کی دھنیں بکھیرتے ، سبز سفید غبارے سجاے لوگوں سے بھرے ہوے تھے۔ مارگلہ روڈ پر چند کلومیٹر کا سفر ہم نے دو گھنٹے میں کیا اور کل سات گھنٹے بعد گھر پہنچے۔ اس دوران بھائی جان نے تسلی سے نیند پوری کی۔ ہم نے کلاسیکل سے شروع کر کے جدید طرز کے اور آئی ایس پی آر کے نشر کردہ کتنے نغمے سن ڈالے یہاں تک کہ کان سنسنانے لگے ۔ وہاں گاڑیوں کے آگے ناچتے لڑکے دیکھے ، موٹر سائیکلوں پر جھومتے جوانوں کے لیے تالیاں بجائیں۔

    خیبر پختونخوا کے سرخ ٹوپیاں پہنے ہنستے گاتے لڑکے ( عوامی نیشنل پارٹی کے کارکن باچا خان سٹائل میں ) ، سوزوکیوں پر لد کے دیہاتوں سے آئے ہوے خاندان ، ٹوپی والے برقعوں میں ملبوس ڈالوں میں بیٹھی خواتین ، تحریک انصاف کے جھنڈوں والی گاڑیاں ۔۔۔ کسی نے ہارن بجاے کسی نے باجے۔ کوئی ہنس رہا تھا ، کوئی بے زار اور کوئی سٹیرنگ پر سر رکھے اپنی قطار کے آگے بڑھنے کا منتظر ، وطن تو سب کا ہے۔

    وطن عشق من ، ہم وطن جان من …. پاکستان زندہ باد !!

  • گندم   – نغمہ حسین

    گندم – نغمہ حسین

    میں جب بھی گندم کی کٹائی کے موسم پر گاؤں لوٹتا !
    اسٹیشن سے مغرب کی طرف جاتی پگڈنڈی پر قدم بڑھاتا وہ کسی نہ کسی درخت کی اوٹ سے نکل آتی !
    اپنا حنائی ہاتھ میرے ہاتھوں میں دے کر محبت کے ہدیے طلب کرتی !

    میں جو لاہور سے لوٹتے ہوئے طویل سفر کی تکان سمیٹ کر اس پرانے برگد کی چھاؤں میں جا بیٹھتا، تو وہ اپنی ریشمی چنی سے میرے لئے زمین پر جھاڑو لگا دیتی !
    میں اس کی کانچ آنکھوں میں اترتے ہوئے جذبوں کی شدت پر حیرت کناں رہ جاتا . کوئی پورا سال بھی کسی کے لوٹ آنے کی آس میں ہر روز اسٹیشن سے گزرتی مغرب کی طرف جھکتی پتلی سی پگڈنڈی پر ہر روز آ کھڑا ہو سکتا ہے اور انتظار کرتا ہے ؟

    لیکن پچھلے 10 وروں سے میں جب بھی گندم کی کٹائی کے موسم پر واپس لوٹتا !
    وہ میرے لئے منتظر ہوتی !
    اس بار میں گاؤں پلٹا تو چلتے چلتے پگڈنڈی ختم ہو گئی. مکانات نظر آنے لگے !
    میرا دل دھک سے رہ گیا !
    دس سالوں کا معمول ٹوٹا تھا !
    کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا !

    میں دل کو طفل تسلیاں دیتا اس کی دہلیز پر جا کھڑا ہوا !
    منڈیر سے نظر آتی لڑکیوں کے ہجوم میں وہ سب سے جدا نظر آتی تھی. اس کے ہاتھوں پر حنا رچ رہی تھی لیکن اس بار ان کی مہک کسی اور کے مقدر میں آنے والی تھی !

    میرے سب خدشے سچ ثابت ہونے جا رہے تھے. کاش میں ایک فصل پہلے لوٹ آتا . نوکری کی تلاش میں فصل کا فرق میری محبت نہ کھاتا !
    سامنے گندم کے طویل کھیت لہلہاتے ہوئے مجھ پر ہنس رہے تھے . وہ نوکری جو اسے پانے کے لیے کی تھی . وہ دور کھڑی میرا تمسخر اڑا رہی تھی .
    گندم کی سنہری بالیوں کا ہر خوشہ میری محبت کی موت پر نوحہ کناں تھا !

  • یوم نیلہ بٹ تحریک آزادی کی خشت اول- ہارون آزاد

    یوم نیلہ بٹ تحریک آزادی کی خشت اول- ہارون آزاد

    یو م نیلہ بٹ تحریک آزادی کشمیر کی اساس ہے اہل کشمیر ہر سال 23 اگست کو یوم نیلا بٹ کے طور پر نہایت جوش وخروش سے مناتے ہیں۔ یہ دن منانا ایک رسم و روایت بن چکا ہے. اس دن کی تاریخ کشمیر میں وہی اہمیت ہے جو کسی بھی قوم و ملک کی تاریخ میں جدوجہد کے نقطہ اول کسی عمارت میں خشیت اول اور کسی طویل سفر میں پہلے قدم کی طرح ہوتی ہے.

    اس دن کشمیر مسلمانوں کی اجتماعی خواہشات کا پیمانہ چھلک پڑا اور جدو جہد کے نئے راستے پر گامزن ہوگئے۔ دو قومی نظریے کے تحت پاکستان کا قیام عمل میں آ چکا تھا، برصغیر کے مسلمانوں کا ملک دنیا میں عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر آنے والا پہلا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کے نقشے پر زندہ حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے. 368 کے قریب شاہی ریاستیں اپنے تہذیبی اور جغرافیائی رحجانات کی بنیاد پر جس ملک سے چاہتی الحاق کرتے۔ جموں و کشمیر میں اکثریت مسلمانوں کی تھی اور حکمران ہندو مہاراجا تھا۔ مسلمانوں کی اکثریت کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے تھے جبکہ مہاراجا کا دل فطری طور پر بھارت کے ساتھ دھڑکتا تھا۔

    مہاراجا بظاہر کشمیر کو خود مختار بنانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن تقسیم کے اصول کے تحت اس کی گنجائش کم تھی اور یہ فقط وقت گزرارنے کا حیلہ تھا۔ 19 جولائی 1947 کو سری نگر میں منعقدہ ایک اجلاس میں ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کی جس کی پاداش میں جموں و کشمیر کے اڑھائی لاکھ مسلمان ڈوگرہ فوج اور ہندوؤں کی مصروف مسلح دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کے غنڈوں کے ساتھ گاجر مولی کی طرح کٹ گئے۔ چند لاکھ مسلمان ہجرت کر کے پاکستان پہنچے دوسری طرف اس وقت کے نوجوان سردار محمد عبدالقیوم خان نے نیلا بٹ سے جہاد کا اعلان کیا جو کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر مشتمل ریاست کے 23 ہزار مربع میل علاقہ کی آزادی پر منتج ہوا۔

    اس کے برعکس شیخ محمد عبداللہ نے پنڈت جواہر لعل نہرو اور دوسرے کانگریسی لیڈروں کے جھانسے میں آ کر بقول السٹرلیمب کے مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے بھارت کے ساتھ ریاست کا فرضی الحاق کر کے تصدیق کرکے اہلیان کشمیر کو بھارت کی غلامی میں دے دیا گیا۔ 19 جولائی 1947 ئاسلامیان جموں وکشمیر کے نمائندہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس، کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں قراداد کی صورت میں اپنا فیصلہ سنا چکی تھی۔ دہلی میں کشمیر ہتھیانے کی سازش عروج پر تھی گوروداس پورکا علاقہ بھارت کو دے کر ایک گہری سازش کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ مہاراجہ کی طرف سے کشمیر کے الحاق میں لیت ولعل کی بنائپر کشمیر میں بے چینی بڑھ رہی تھی۔

    اس بے چینی کے اظہار کا ثبوت نیلا بٹ میں 23 اگست 1947 کو ہونے والا جلسہ تھا جس کی صدارت شمشاد علی شاہ نے کی اس جلسہ کے روح ورواں ایک 23 سالہ نوجوان سردار محمد عبدالقیوم خان تھے جلسہ میں مقررین نے پرجوش تقریریں کی اور ڈوگروں کی طرف سے کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ یہ جلسہ بالاخر اجلاس میں تبدیل ہو گیا اور ڈوگرہ سپاہیوں کے ساتھ تصادم ہو گیا اس جلسے کے روح ورواں سردار عبدالقیوم خان مجاہد اول کے خطاب سے مشہور ہوئے۔ نیلا بت کو شروع ہونے والے جہاد بالاخر پوری ریاست میں پھیل گیا۔ اور یوں ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف بغاوت اور نفرت کالاوہ پھٹ پڑا جو برسوں سے خوف کے باعث دبا ہوا تھا۔

    نیلا بٹ کے جلسے اور جلوس میں چلنے والی پہلی گولی ڈوگرہ امریت کی چادر میں جو چھید کیا وہ بڑھتا ہی چلا گیا اور منظم جد و جہد شروع ہو کر پھیلتی چلی گئی۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں یہ علاقہ آزاد ہوا جسے ہم آج آزاد جموں و کشمیر کے نام سے پکارتے ہیں اس طرح نیلا بٹ کو جدو جہد آزادی کا سنگ میل کہنا کلی طورپر بجا ہے اس جد وجہد کے بانی اور 23 سالہ پرجوش راہنما سردار عبدالقیوم خان نے مجاہد اول کے نام سے عالمگیر شہرت حاصل کی آپ نے کئی دہائیوں تک آزاد کشمیر اور پاکستان کی سیاست میں تجربے دانش فہم و فراست کے موتی ہی نہیں بکھیرے بلکہ بھارت کے زی ٹی وی پر 1995 میں ایک تاریخی انٹرویو کے ذریعے آپ نے انتہائی ذہین بھارتی اینکر رجت شرما کے سخت سوالوں کا سامنا کیا اور اسے ہر سوال کا جواب دیا جس پر دنیا آپ کی سیاسی فراست کی قائل ہو گئی۔

    یہ آفتاب عالم تاب تو تک سیاسات کشمیر کے افق پر جگمگانے کے بعد دس جولائی بروز جمعہ راولپنڈی کے قائد اعظم انٹر نیشنل ہسپتال میں غروب ہوا اور اپنے پیچھے لاکھوں سوگواروں کو چھوڑ گیا۔ آج غازی آباد میں ان کا مزار مرجع خلائق ہے۔مجاہد اول کے سیاسی جانشین اور تربیت یافتہ سردار عتیق احمد خان کارکنوں کا حوصلہ اور ڈھاڑس بندھانے کے لیے ہمارے درمیاں ہیں. اس بار یوم نیلا بت کے موقع پر مسلم کانفرنس کے کارکن اپنے قائد اور جدوجہد کے عظیم ہیرو کے نقش قدم پر چلنے کا عہد کرتے ہیں،یوم نیلہ بٹ ہر سال 23اگست کو مسلم کانفرنس شیان شان طریقے سے مناتی ہے.

  • الخدمت  فاؤنڈیشن کا دستورِ خدمت –  چوہدری حسیب  عبید

    الخدمت فاؤنڈیشن کا دستورِ خدمت – چوہدری حسیب عبید

    الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جس کے زیر انتظام پاکستان کے بھر میں فلاحی ادارے چلائے جا رہے ہیں۔ وطن عزیز میں کوئی بھی ہنگامی صورتحال ہو تو دیگر سرکاری و نجی اداروں کے ساتھ ایک طبقہ میدان عمل میں آتا ہے.

    لیکن اس میں شامل لوگوں کو دیکیھں تو رشک آتا ہے کہ یہ کس قسم کے دیوانے لوگ ہیں جو دیوانہ وار اپنے ہم وطنوں کی خدمت میں مصروف ہیں ۔ ان لوگوں کی ایک خصوصیت جو ان کو سب سے منفرد کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کوئی روایتی دیہاڑی دار مزدور نہی بلکہ ملک پاکستان کے اعلی اداروں میں کام کرنے والے افسران ، ڈاکٹر اور انجینیر ہوتے ہیں اساتذہ و طلبا بھی ہوتے ہیں ، اور مزید یہ کہ انہی اداروں میں کام کرنے والے مزدور بھی شامل ہوتے ہیں یہ سب لوگ ایک چھتری کے ساۓ تلے ایک ہی مقصد کے حصول کے لیے کام کرتے نظر آتے ہیں جو کہ اس شعر کی مکمل ترجمانی کرتے ہیں:

    ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
    نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

    الخدمت کے سات مختلف شعبے وطن عزیز میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔شعبہ صحت کے زیر انتظام جدید طرز پر ہسپتال قائم کیے گیے ہیں( جن میں آنکھوں اور دل کے سپیشل ) جو کہ مستحقین کو بلا معاوضہ علاج کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ مختلف علاقوں الخدمت ڈسپنسریاں اور لیباڑٹریاں بھی موجود ہیں۔ ایمرجنسی حالات کے لیے الخدمت موبائل ہیلتھ یونٹ بھی موجود ہیں۔ الخدمت کے زیر انتظام الفلاح اسکالرشپ کے تحت سالانہ ہزاروں طلبا کو تعلیم کے حصول میں آسانی کے لیے معاوضے فراہم کیے جا رہے ہیں ۔

    آغوش کے نام سے درجنوں ادارے یتیم بچوں کی کفالت کے لیے کام کر رہے ہیں جو کہ جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ اور روایتی یتیم خانوں سے یکسر منفرد ہیں۔ الخدمت واٹر فلٹریشن پلانٹ صرف ایک روبے فی لٹر پر پانی فراہم کر رہے ہیں اور جدید طرز پر ہینڈ پمپ ہزاروں کی تعداد میں صحرائی علاقوں میں موجود ہیں۔الخدمت اس وقت ہزاروں خاندانوں کو ماہانہ کفالت یتامی کے تحت راشن فراہم کر رہی ہے اور اسکے ساتھ ہی یتیم بچیوں کی شادیوں کے لیے جہیز کی فراہمی اور شادی کا مکمل انتظام بھی کیا جارہا ہے۔ آسان شرائط پر لوگوں کو کاروبار شروع کرنے کے لیے بلا سود قر ضوں کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔اسکے علاوہ دیگر درجنوں پراجیکٹ چل رہے جن سے سالانہ لاکھوں پاکستا نی مستفید ہو رہے ہیں ۔

    آفات سے بچاؤ کا شعبہ نہایت اہمیت کا حامل ہے ملک میں کرونا کی صورتحال ہو یا زلزلے اس شعبے کے زریعے الخدمت ہمیشہ ایک تاریخ رقم کرتی آی ہے۔آ یئے چلتے ہیں اور مختصر جائزہ لیتے ہیں موجودہ سیلابی صورتحال میں اس شعبے نے کیا اقدامات کیے۔پاکستان میں اس سال مون سون کی بارشوں نے پاکستان کا ساٹھ سے ستر ٖ فیصد رقبہ متاثر کیا جس سے لاکھوں پاکستانی بے گھر ہوۓ، اس صورتحال کو دیکھتے ہوۓ الخدمت نے ہنگامی بنیادوں پر ملک بھر میں سیلاب ریلیف مراکز شروع کیے اور پورے ملک میں سیلاب زدگان کی امدا د کے لیے سامان اکھٹا کیا جانے لگا، اسکے ساتھ ہی الخدمت کے پچاس ہزار رضا کار لوگوں کو ریسکیو کرنے اور بنیادی ضروریات پہنچانے کے لیے ملک کے طول و عرض میں موجود ہیں۔

    سیلاب سے متاژہ علاقوں میں لوگوں کو بیماریوں سے بچانااولین ترجیح تھی الخدمت نے ملک بھر سے ڈاکٹرز کی ٹیمیں ان علاقوں میں روانہ کیں اور سینکڑوں کی تعداد میں میڈیکل کیمپ لگا ۓ گے۔جہاں ہزاروں افراد کو ادوایات کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں.اسکے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر ان علاقوں میں ہزاروں لوگوں کو پکا پکایا کھانا فراہم کیا جا رہا ہے۔چھت سے محروم لوگوں کے لیے خیمہ بستیوں کا قیام کیا گیا ہے اور ان خیمہ بستیوں میں خیمہ اسکول بھی قایم کیے گیے ہیں جہاں بچوں کو تعلیم کی اہمیت سے روشناس کروایا جا رہا ہے ۔اب ترجیحی بنیادوں پر لوگوں ایک اور دو کمروں کے گھروں کی فراہمی کا سلسلہ بھی شروع کیا جا چکا ہے۔

    سیلاب کی آمد کے ساتھ ہی بجلی کا بحران سیلاب زدہ علاقوں میں شدت ا ختیار کر چکا ہے. الخدمت نے ان علاقوں میں بجلی کی بحالی کا کام شروع کیا ہے ـ اور الخدمت نے یہ سب پاکستان اور بیرون ملک سے آنے والی رقوم اور عوام کے اعتماد کی صورت میں کیا ـ الخدمت پر پاکستان کی عوام نے اعتماد کیا ہے ، ہزاروں ڈالرز الخدمت کو منتقل کر چکے ہیں اور انٹرنیشنل سطح پر الخدمت کے ریلیف پراجیکٹ کو سراہا گیا ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک الخدمت 10 ارب روپے سے زائد کا ریلیف عوام تک پہنچا چکی ہےـ

    آپ کا تعلق چاہے جس مر ضی سیاسی جماعت ہو اپ الخدمت کے ریلیف کے کاموں کا حصہ بن کر اپنا تعا ون پیش کر سکتے ہیں اور الخدمت یہ سارا کام خالص انسانیت کی خدمت کے لیے ہر قسم کی سیاسی و مذہبی تفریق سے بالا تر ہو کر کرتی ہے -یہاں ہمارے مقتدر طبقوں کے لیے ایک خاموش پیغام ہے ایک تنظیم یہ سب کچھ کر سکتی ہے تو حکومتیں ان سے بہتر کر سکتی ہیں اگر ان کی ترجیحات رعایا کی فلاح و بہبود ہو۔آپ کا تعلق بھی سیاسی و مذہبی جماعت سے ہو آپ الخدمت کے ریلیف کے کاموں کا حصہ بن کر اپنا تعا ون پیش کر سکتے ہیں .

    اور الخدمت یہ سارا کام خالص انسانیت کی خدمت کے لیے ہر قسم کی سیاسی و مذہبی تفریق سے بالا تر ہو کر کرتی ہے.اہل پاکستان سےگزارش ہے آگے بڑھیں اور الخدمت فاؤنڈیشن کا دست بازو بنیں!

  • اسلامک جوائنٹ فیملی سسٹم- مفتی سیف اللہ

    اسلامک جوائنٹ فیملی سسٹم- مفتی سیف اللہ

    جوائنٹ فیملی سسٹم جو کہ ہمارے ہاں راںٔج ہے اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے یا ہندوانہ معاشرت کا اثر ہے؟
    یا کہ سنگل فیملی سسٹم جو کہ مغرب میں پایا جاتا ہے وہ اسلام کے قریب تر ہے؟
    مسلمانوں کو کونسا فیملی سسٹم اختیار چاہییے؟

    اس بارے میں مختلف آراء جذباتی لگاؤ اور معاشرتی تناؤ کے تناظر میں سامنے آرہی ہیں۔ جوائنٹ فیملی سسٹم کی خوبیوں کو دیکھتے ہوۓ اسے اسلام کے مطابق کہا جا رہا ہے جبکہ اس میں پائی جانے والی بعض بے اعتدالیوں اور ناانصافیوں کی وجہ سے اس کو ہندؤانہ و ظالمانہ خاندانی نظام قرار دیا جا رہا ہے۔ حقیقت حال تک پہونچنے کیلیے اسلام کے نظام خاندان کو جاننا نہایت ضروری ہے۔ اسلام میں خاندان کی اہمیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے حضرت شاہ ولی اللہ رحمت اللہ علیہ نے معاشرت و خاندان سے متعلق آیات کو قرآن کریم کا ایک مستقل مضمون قرار دیا ہے جسے وہ “تدبیر منزل “کے عنوان سے تعبیر کرتے ہیں۔

    قرآن و سنت میں خاندان کے متعلقہ احکام اور حقوق و ذمہ داریوں کو تفصیل سے بیان کیاگیا ہے۔ اسلام کی روح و مزاج انسانیت کی فلاح و بہبود ہے،اسلام بے جا پابندیاں عاںٔد نہیں کرتا بلکہ معاملات میں وسعت و آسانی مہیا کرتا ہےچنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے”الدین یسر”دین اسلام آسان و سہل ہے،ہر زمانہ میں نہایت آسانی و سہولت
    کے ساتھ اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ اسلام کے پیش نظر محض صورت نہیں بلکہ حقیقت اور مقاصد ہوتے ہیں چنانچہ اسلام نے کوئی خاص خاندانی نظام متعین نہیں کیا تاکہ معاملات و معاشرت میں کوئی تنگی یا مشکل پیش نہ آۓ.

    بلکہ کچھ بنیادی اصول و ضوابط بیان کںیے ہیں جو اصول جس بھی فیملی سسٹم میں پاۓ جاںٔیں وہ اسلامک فیملی سسٹم ہوگا۔ خاندان کے متعلق اسلامی اصول:

    خوف خدا:
    کسی بھی تعلق و رشتہ داری کو نبھانے اور اس کے حقوق ادا کرنے میں اللہ کا ڈر اور خوف اہم کردار ادا کرتا ہےچنانچہ اللہ تعالی نسبی و ازدواجی رشتہ داریوں کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں
    “اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نےتمہیں ایک شخص سے پیدا کیا اس سے اس کا جوڑا بنایا،پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد عورت پھیلا دئے،اور خدا سے ڈرو جس کے نام کو تم اپنی حاجت براری کا ذریعہ بناتے ہو، اور رشتہ داریوں کو توڑنے سے ڈرو” .(سورہ نساء۔آیت1)

    اللہ کے نام کی یہ برکت اور اثر ہے کہ وہ عورت جو پہلے تمہارے لیے حرام تھی اب تمہاری زوجہ و رفیقہ ٔحیات بنا دی گںٔی لہذا اللہ کا خوف اور ڈر دل میں پیدا کرو اور اس کے حقوق ادا کرو۔ اور پہلے سے جو تمہارے رشتہ دار بہن،بھائی ،والدین اور دیگر اقارب ہیں ان کے حقوق بھی ادا کرو۔

    مرد خاندان کا سربراہ
    خاندان کے اہم امور میں فیصلہ کا اختیار مرد کو حاصل ہوگا. اللہ تعالی فرماتے ہیں:
    “مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہے۔” ( سورہ نساء۔آیت34)
    کسی بھی اہم کام کے متعلق حتمی فیصلہ ایک مشکل کام ہے اس لیے یہ ذمہ داری مرد کے اوپر رکھی گںٔی ہے البتہ دوسرے مقام پر عورتوں کی راۓ لینے کی ترغیب دی گںٔی ہے۔

    مرد عورت کا کفیل:
    عورت کی جملہ ضروریات کھانا،پینا،لباس و رہاںٔش کو پورا کرنا مرد کے ذمہ لازم ہے۔ البتہ یہ تمام اخراجات مرد کی مالی استطاعت کے مطابق لازم ہوں گے. (سورہ بقرہ۔آیت 233)

    تربیت اولاد:
    والدین کے ذمہ شرعا لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت شرعی اصولوں کے مطابق کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے ہاں بچہ پیدا ہو تو اس کا اچھا نام رکھے اور اچھی تربیت کرے اور جب بالغ ہو جاۓ تو اس کی شادی کرادے اور اگر بالغ ہونے کے بعد شادی نہیں کروایٔ اور وہ کسی گناہ میں مبتلا ہوا تو اس کا گناہ اس کے والد پر ہوگا .

    گھر والوں کے ساتھ بھلائی کرنا:
    قرآن کریم میں اللہ سبحانہ وتعالی نے عورتوں کے ساتھ بھلائی اورخیرخواہی کا بطور خاص حکم دیا اور ان کے متعلقہ احکام کو کںٔی مقامات پر بیان فرمایا اللہ تعالی فرماتے ہیں :
    “وعاشروھن بالمعروف۔عورتوں کے ساتھ بھلایٔ سے پیش آؤ۔”(سورہ نساء۔آیت 20)
    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بھلایٔ والا معاملہ کرے اور میں تم میں سے سب سے زیادہ اپنی بیویوں کے ساتھ بھلایٔ کرتا ہوں۔
    والدین کے ساتھ حسن سلوک۔
    اسلام میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بہت زیادہ تاکید کی گںٔی ہے
    اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے بکثرت جہاں توحید کا حکم دیا وہیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
    اللہ کی رضا والدین کی رضامندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے۔
    والدین کے حقوق میں سے یہ ہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے،ان کی دیکھ بھال کرے اور اگر ان کی ضرورت ہو تو ان کے تمام اخراجات ادا کرے۔
    مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے
    کہ اسلامی نظام خاندان کا مقصود تمام افراد والدین،میاں بیوی اولاد اور دیگر رشتہ داروں کے حقوق و فراںٔض کی اداںٔیگی اور ان سے حسن سلوک ہے۔
    اگر کویٔ شخص صرف اپنے گھرانے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہو تو اس کیلیۓ ان شرعی احکام پر عمل کرنا ضروری ہوگا
    جبکہ جواںٔنٹ فیملی سسٹم میں رہنے کی
    صورت میں دیگر احکام معاشرت پر عمل کرنا بھی ضروری ہوگا مثلا غض بصر یعنی نظریں جھکا کر رکھنا اس طرح کہ قصدا کسی غیرمحرم پر نظر نہ پڑے،اور نہ ہی کسی
    غیرمحرم کے ساتھ تنہایٔ پایٔ جاۓ۔
    نیز گھر میں داخل ہوتے وقت اور بالخصوص کسی کی خلوت گاہ اور خاص کمرہ میں جانے کیلیۓ اجازت لینا ضروری ہے چاہے وہ محرم ہی کیوں نہ ہو۔
    ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یارسول اللہ!کیا میں اپنی ماں سے ان کے پاس جاتے وقت اجازت لوں؟
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہاں۔
    اس شخص نے عرض کیا میں ماں کے ساتھ ہی گھر میں رہتا ہوں۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اجازت لے کر ہی جاؤ۔
    اس شخص نے عرض کیا کہ میں ہی ان کاخادم ہوں۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اجازت لے کر ہی جاؤ،کیا تمہیں اپنی ماں کو برہنہ حالت میں دیکھنا پسند ہے؟
    اس شخص نے عرض کیا نہیں۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تو پھر اجازت لے کر ہی جاؤ۔
    (موطا امام مالک)

    اس حدیث سے معلوم ہوا کسی بھی شخص کے پاس چاہے وہ محرم ہو یاکہ غیرمحرم اس کے پاس اجازت لے کر جانا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اگر جواںٔنٹ فیملی میں سب کا کھانا پینا بھی ایک ساتھ ہے تو پھر گھر کےاخراجات بھی سب بھاںٔیوں پر مشترک طور پر لازم ہوں گے۔ اسلام کی نظر ظاہری صورت پر نہیں بلکہ حقیقت و مقاصد پر ہے لہذا ان حقوق کی رعایت اور فراںٔض و ذمہ داریوں کی اداںٔیگی جہاں پر بحسن وخوبی کی جاسکے اسی فیملی سسٹم کو اختیار کرنا شرعا ضروری ہوگا۔ چنانچہ افراد،حالات اور مواقع کے اعتبار سے خاندانی صورت مختلف ہوسکتی ہے۔

    مثلا ایک بھائی نے اپنے بیوی بچوں کی تعلیم و تربیت شرعی اصولوں کے مطابق کی ہے تو ظاہر ہے ایسی جواںٔنٹ فیملی میں رہنے کی وجہ سے دیگر بھاںٔیوں کے بیوی بچوں پر اچھے اثرات مرتب ہونگے جبکہ اس کے برعکس صورت میں منفی اثرات ہوں گے۔ لہذا ہر فرد کے ذمہ لازم ہے کہ وہ اپنے خاندان کیلیۓ ایسی صورت اپناۓ جہاں وہ شرعی احکام کی پابندی کرسکے۔

    جوائنٹ فیملی سسٹم غیر اسلامی نہیں:
    جوائنٹ فیملی سسٹم غیر اسلامی نہیں بلکہ ایک مشرقی روایت ہےالبتہ روایت چونکہ ظاہری صورت و ہیںٔت کا نام ہے جس کا التزام بعض مرتبہ تنگی اور مشکل کا باعث بن جاتا ہےچنانچہ ہم اپنے معاشرہ میں دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات کسی جواںٔنٹ فیملی میں رہتے ہوۓ کںٔی خرابیاں اور زیادتیاں پیش آتی ہیں لیکن اس کے باوجود معاشرتی دباؤ کی وجہ سے اپنی روایت کے خلاف نہیں کیا جاتا اور یوں سمجھتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے کہ انہوں نے الگ الگ رہناشروع کردیا حالانکہ ایسی صورت میں الگ ہو کر رہنا شرعا ضروری ہو جاتا ہے۔ جوائنٹ فیملی سسٹم میں پایٔ جانے والی ہماری کوتاہیاں۔ جوائنٹ فیملی سسٹم بذات خود اسلام کے مخالف نہیں،البتہ اس میں نظر آنے والی خرابیاں اس سسٹم کی نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی رویہ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔

    روایات سے جذباتی تعلق:
    ہمارا معاشرہ اپنی روایات سے کبھی بھی دستبردار نہیں ہوتا چاہے ان روایات میں شرعی احکام کی پابندی نہ ہوسکے۔
    چنانچہ بعض اوقات بیٹے کا والدین کے ساتھ یا بھاںٔیوں کے ساتھ مل کر رہنا اور اس میں شرعی احکامات کی پابندی کرنا مشکل ہوتا ہے مثلا باہمی مزاج نہیں ملتے. اور وہ ادب و احترام اور محبت و شاںٔستگی کے ساتھ ایک ساتھ نہیں رہ سکتے لیکن اس کے باوجود والدین کی طرف مجبور کیا جاتا ہے تو پھر ایک دوسرے کے ساتھ زیادتیاں اور لڑائی جھگڑے پیش آتے ہیں۔

    بے پردگی و اختلاط:
    غیر محرم سے پردہ کرنا عورت پر شرعا لازم ہے اور حدیث میں دیور کے بارے میں فرمایا کہ یہ تو موت ہے یعنی اس سے پردہ کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ جوائننٹ فیملی سسٹم میں عموما شرعی پردہ نہیں کیا جاتا حتی کہ غیر محارم میں باہمی بےتکلفی بھی پایٔ جاتی ہے جو کہ شرعا درست نہیں۔ شریعت کا حکم پردہ کرنے کا ہے اور وہ جواںٔنٹ فیملی میں رہ کر بھی کیا جاسکتا ہے۔

    حق تلفی:
    جواںٔنٹ فیملی سسٹم میں رہتے ہوۓ بعض اوقات والد اپنے کاروبار میں اپنے بیٹوں کو بھی شامل کر لیتے ہیں چنانچہ بڑا بیٹا ایک عرصہ تک بغیر کسی مالی فاںٔدہ کے کاروبار میں اپنے والد کا تعاون کرتا ہے تو جب والد کا انتقال ہوتا ہے تو وہ کاروبار میں صرف اپنا استحقاق سمجھتے ہوۓ اس پر قبضہ کر لیتا ہے یا زیادہ حق کا دعوی کرتا ہےتو یوں ورثاء کے باہمی جھگڑے اور لڑاںٔیاں شروع ہوجاتے ہیں۔حالانکہ اگر کاروبار میں وہ ملازم کی حیثیت سے کام کرتا اور اسے اپنے کام کا معقول معاوضہ ملتا تو یہ نوبت نہ آتی۔

    تقسیم وراثت میں تاخیر:
    جوائنٹ فیملی سسٹم میں بعض اوقات والد کے انتقال کے بعد تمام ورثاء ایک ساتھ ہی رہتے ہیں اور والد کی وراثت کو تقسیم نہیں کرتے حالانکہ اسے تقسیم کیا جاسکتا ہے. لیکن بلاوجہ تاخیر کرتے ہیں پھر ایک عرصہ بعد جب تقسیم کا ارادہ کرتے ہیں تو جو وارث مالی طور پر کمزور ہوتا ہے وہ زیادہ حصہ لینا چاہتا ہے جس کی اولاد نہیں ہوتی اسے کم دینا چاہتے ہیں بہنوں کو بالکل ہی محروم کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وراثت کا استحقاق غربت و مالداری کی بناء پہ نہیں بلکہ رشتہ داری کی بناء پر ہوتا ہے اور اس میں سب برابر ہیں۔ وراثت کی بروقت تقسیم نہ کرنے کی وجہ سے یہ پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں جو کہ بعد میں باہمی اختلافات و نزاع کا باعث بنتی ہیں۔ ہمارے ہاں جو مذکورہ خرابیاں پائی جاتی ہیں. یہ جوائنٹ فیملی سسٹم کی وجہ سے نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی رویوں،شرعی احکام کو نہ جاننے اور ان پر عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔

    اگر جوائنٹ فیملی سسٹم کے علاوہ چارہ نہ ہو تو پھر کیا کرے؟
    اگر ایسی صورت پیش آجاۓ کہ صرف جواںٔنٹ فیملی میں ہی رہنا ضرورت اور مجبوری بن جاۓ مثلا والد کا انتقال ہو جاۓ بڑا بھایٔ شادی شدہ ہے جبکہ دیگر بہن بھایٔ چھوٹے ہیں ان کیلیۓ علیحدہ گھر کا انتظام نہ ہو سکے تو ایسی صورت میں والدہ اور بہن بھاںٔیوں کی دیکھ بھال کیلیۓ اسے سب کے ساتھ رہنا ہوگا کیونکہ وہ سب کا ولی اور سرپرست ہے۔
    ایسا کرنے کی وجہ سے نہ تو اس پر ظلم ہو رہا ہے اور نہ ہی وہ احسان وایثار کر رہا ہے بلکہ وہ اپنی شرعی ذمہ داری نبھا رہا ہے۔

    اگر والد نے وراثت میں کاروبار یا اتنا مال چھوڑا ہے کہ جس سے بہن بھاںٔیوں اور والدہ کے اخراجات ادا کئےجاسکیں تو انہی کا مال ان پر خرچ کیا جاۓگا. بصورت دیگر بھاںٔیوں کے بالغ ہونے تک اور بہنوں کی شادی تک ان کے اخراجات بڑے بھائی پر لازم ہیں۔ جہاں تک چھوٹے بھاںٔیوں کی اعلی تعلیم اور کرئیر کا تعلق ہے تو اس کے اخراجات اگر بھائی کی استطاعت ہو تو وہ ایثار و احسان کرتے ہوۓخود ادا کرے. اور اگر مالی حالات اجازت نہیں دیتے تو وہ اپنے زکوہ وصدقات سے ان کی معاونت کرسکتا ہے،والدین اور بیوی بچوں کے علاوہ رشتہ داروں کو زکوہ دینا نہ صرف جائزبلکہ افضل ہے.

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
    ” نادار پر صدقہ کرنا صرف صدقہ ہے جبکہ رشتہ دار پر صدقہ کرنے کی وجہ سے صدقہ اور صلہ رحمی دونوں کا ثواب ملتاہے”. ترمذی

    البتہ انہیں نہ بتاۓ کہ یہ زکوہ و صدقات ہے تاکہ انہیں کویٔ شرمندگی محسوس نہ ہو۔اور اگر یہ صورت بھی نہ ہو سکے تو پھر بطور قرض اس کے اخراجات ادا کرے اور مستقبل میں اگر چھوٹے بھایٔ کو اچھی جاب مل جاۓ تو بڑابھایٔ تھوڑا تھوڑا کرکے اس سے اپنا قرضہ وصول کر لے۔ تو بڑا بھائی خاندان کا سرپرست ہونے کی حیثیت سے چھوٹے بھاںٔیوں کے تعلیمی اخراجات کیلیے ایثار،انفاق یا قرض میں سے کویٔ بھی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ البتہ بڑے بھائی کو خاندان سے متعلقہ ذمہ داریوں کو نبھانے کیلیۓ اپنی خواہشات و ضروریات کو قربان کرنا پڑے گا چنانچہ دور رسالت میں اس کی ایک مثال ملتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی شادی کے متعلق جب معلوم ہوا تو دریافت فرمایا کہ:
    کنواری سے شادی کی یا کہ پہلے اس کی شادی ہو چکی تھی؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ ایسی عورت سے شادی کی کہ پہلے اس کی شادی ہو چکی تھی تو آپ نے فرمایا کہ کنواری سے شادی کیوں نہ کی تاکہ وہ زیادہ محبت کا باعث بنتی؟ تو حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے عرض کی یارسول اللہ میری سات بہنیں ہیں. اگر کنواری سے شادی کرتا تو وہ زیادہ معاملہ فہم اور سمجھدار نہ ہوتی بلکہ میری بہنوں کی طرح ہوتی. اس لۓ اپنی بہنوں کی دیکھ بھال اور معاونت کے لۓ ایسی عورت سے شادی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر و برکت کی دعا فرمائی۔بخاری

    خلاصہ یہ ہے کہ اسلام نے نظام خاندان کیلیۓ کسی خاص صورت کی بجاۓ کچھ اصول بتاۓ ہیں وہ جہاں پاۓ جاںٔیں تو وہ ایک اسلامی خاندان ہوگا۔ جوائنٹ فیملی سسٹم غیر اسلامی نہیں بلکہ ایک مشرقی روایت ہے اگر اس میں رہتے ہوۓ شرعی احکام کو پورا کیا جاۓ تو یہ بھی ایک اسلامی خاندان کہلاۓ گا۔

  • ملائیشیا تہذیب کے مختلف پہلوؤں پر ایک نظر  –  صائمہ سلیم

    ملائیشیا تہذیب کے مختلف پہلوؤں پر ایک نظر – صائمہ سلیم

    ملائیشیا ایک بے حد خوبصورت اور پرامن ملک ہے ۔ یہاں کی آبادی میں مسلمان اکثریت میں ہے جبکہ چائنیز اور تامل انڈین کی صورت غیر مسلم بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں اسکے ساتھ ساتھ روزگار کے سلسلے میں پاکستان ، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک سے آنے والے بھی بستے ہیں ۔

    اسی طرح براستہ تھائی لینڈ آنے والے اراکانی مہاجرین کی بھی پناہ گاہ ہے . ملائیشیا کی تہذیب کا اگر جائزہ لیا جائے تو نہ مکمل مغربی محسوس ہوتے ہیں نہ ہی مکمل اسلامی. لباس کے اعتبار سے جائے تو یہاں مسلمان لڑکیوں کا جینز اور شرٹ پہننا معمول کی بات ہے مگر لباس چاہے جیسا بھی ہو ایک چھوٹے سے اسکارف سے سر ڈھک کر نکلتی ہیں جبکہ ملائیشیا کا قومی لباس اسلامی اصولوں کے مطابق بے حد ساتر ہے مگر بتدریج اس کا استعمال ترک کیا جارہا ہے جو کہ خوش آئند امر نہیں ۔

    خواتین کیلئے ملازمت ضروری سمجھی جاتی ہے ۔مردانہ نوعیت کے کام بھی عورتیں کرتی ہوئی نظر آتی ہیں ایسے ایسے کام جو کہ صنف نازک کے شایان شان نہیں مثلاً نوجوان لڑکیوں کا ہوٹلوں اور ڈھابوں میں کھانا بنانا ، سرو کرنا ،عوامی مقامات پر ہر طرح کے کام کرنا حتیٰ کہ مردوں کی مانند تعمیراتی کام کرنابھی شامل ہیں جس کا پاکستان میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ سراسر مغرب کی نقالی ہے کہ عورتوں کو برابری کا جھانسہ دیکر سخت مشقت پر مجبور کردیا جائے اس کے نتیجے میں بچے ماں کی آغوش سے محروم ڈے کیئر میں پل رہے ہوتے ہیں اور بڑے ہو کر بورڈنگ ان کامقدر ٹہرتی ہے اور والدین کولہو کے بیل کی مانند پیسے کمانے کی مشین بن کر رہ جاتے ہیں.نتیجتاً خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اولاد کیلئے ماں باپ اجنبی بن جاتے ہیں.

    اس نظام میں سب سے زیادہ استحصال عورت کا ہوتا ہے کیونکہ دن بھر مشقت کے بعد گھریلو نظام کی دیکھ بھال بھی اس کی ذمہ داری ہے ۔ پاکستان کی طرح ملازمت پیشہ خواتین کو ملائیشیا میں خدمت گار میسر نہیں ہوتے۔ یہاں کوئی کسی بھی عہدے پر فائز ہو صفائی ستھرائی سے لیکر ہر طرح کا کام خود سرانجام دینا ہوتا ہے. ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ عورت چاہے مکمل پردے میں ہو یا بے پردہ کسی بھی لباس میں ہو کوئی کسی کو مذاق یا طنز کا نشانہ نہیں بناتا۔ سڑک کنارے جوان جہان لڑکیاں بے فکری سے خرید و فروخت کر رہی ہوتی ہیں جسکا تصور پاکستانی معاشرے میں محال ہے .

    ملائیشیا کی عمومی تہذیب شادی کے حوالے سے اسلامی اصولوں سے قریب تر ہے مثلاً جب لڑکے والے رشتہ لیکر جاتے ہیں اور لڑکی والوں کو رشتہ پسند آجائے تو اگلے مرحلے کے طور پر لڑکا اور لڑکی کو اپنے اپنے خاندان کی موجودگی میں ایک نظر دکھادیا جاتا ہے جو کہ اسلامی نکتہ نظر سے درست طریقہ ہے جبکہ پاکستانی معاشرہ اس حوالے سے دو انتہاوں پر ہے ایک تو وہ طبقہ ہے جوشادی سے قبل فریقین کو دیکھنےدکھانے کا قائل نہیں اور دوسرا طبقہ وہ ہے جن کے نزدیک شادی سے قبل آزادانہ میل جول میں کوئی قباحت نہیں یہ دونوں رویے اسلام سے متصادم ہیں درست طریقہ یہی ہے کہ شادی سے قبل ایک دوسرے کو ایک نظر دیکھ لیا جائے.

    یہ جان کر آپکو خوشگوار حیرت ہوگی کہ جہیز جیسی لعنت سے یہ معاشرہ آزاد ہے بلکہ لڑکا خود ضرویات زندگی کا تمام سامان مہیا کرتا ہے۔ نجانے پاکستانی معاشرہ کب جہیز جیسی لعنت سے پاک ہوگا جسکی وجہ سے ہزاروں بہنیں شادی کے انتظار میں بوڑھی ہورہی ہیں ۔شادی کی تقریب انتہائی سادگی کے ساتھ منعقدکی جاتی ہے میزبان تمام مہمانوں کا استقبال کرتے ہیں اور واپسی میں میزبان کیجانب سے مہمانوں کو نہایت خوبصورت پیکنگ میں کوئی نہ کوئی تحفہ خلوص سے پیش کیا جاتا ہے مثلاً خوشبو یا جوس کیک وغیرہ ۔جبکہ پاکستانی معاشرےمیں ہندوانہ رسم و رواج کے بدولت شادی ایک بوجھ بنتی جارہی ہے .

    جب تک مایوں مہندی تصویر مووی اورطرح طرح کی رسومات نہ ہو شادی مکمل نہیں سمجھی جاتی ہمارا دین تو ہمیں آسانیاں دیتا ہے بس نکاح اور ولیمہ اتنی مختصر سی کہانی ہے مگر ہم نے خود شادی ایک عذاب بنادیا ہے ۔ ملائیشیا میں جوائنٹ فیملی سسٹم کا کوئی تصور نہیں اسلیے شادی کے بعد جوڑے والدین کے ساتھ نہیں رہتے بلکہ علیحدہ زندگی گزارتے ہیں۔سب جاب کرتے ہیں اس لیے اپنے آپ میں مگن طرز زندگی ہے پڑوسی کس حال میں ہے یا بہن بھائی کیسے ہیں کچھ خاص فکر نہیں ہوتی ۔ آپس کے تعلقات میں انتہائی سردمہری پائی جاتی ہے ۔

    ہے دل کیلئے موت مشینوں کی حکومت
    احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

    الحمدللہ اس حوالے سے پاکستانی معاشرےمیں نسبتاً بہتر صورتحال ہے۔ پڑوسیوں کی خبرگیری محلہ داری اور اپنے خاندان سے تعلقات کسی حد تک مستحکم ہوتے ہیں۔ انسان جتنا مادہ پرست ہوتا ہے اتنا ہی بے حس ہوتا چلا جاتا ہے ملائیشیا کے لوگ ایک پرتعیش زندگی کے حصول کیلئے ان معاشرتی اقدار سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ سو یہ کہا جاسکتا ہے ملائی معاشرہ مغربی و اسلامی اقدار کا ملغوبہ ہے ۔

  • استحصال کرنا چھوڑئیے – ندااسلام

    استحصال کرنا چھوڑئیے – ندااسلام

    ارحم نے آج ایک اور چوزہ خریدا تھا۔جونہی اس نے یہ نیا چوزہ ڈربے میں چھوڑا تھا،پہلے موجود نسبتاً بڑے اور پرانے چوزوں نے چونچیں مار مار کر اس کا ناک میں دم کر دیا تھا۔ وہ ڈربے کے ایک کونے سے دوسرے اور تیسرے سے چوتھے میں بھاگتا کسی سازگار جگہ کا متلاشی تھا .

    مگر پرانے چوزے اس تنہا چوزے کی کمزوری سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور ڈربے ہر اپنی ملکیت کا اظہار کر رہے تھے۔چوزہ تو رفتہ رفتہ دوسرے چوزوں میں گھل مل گیا اور اسے ڈربے میں نئے رکن کی حیثیت سے قبول کر لیا گیا مگر یہ منظر ارحم کے ذہن کو سوچنے کی نئی راہیں دے گیا۔

    استحصال کیا ہے؟
    کیوں کیا جاتا ہے ؟
    کیا یہ کسی ذہنی کیفیت کا نتیجہ ہے؟
    اس کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟

    کیا صرف ایک قوم ہی دوسری کے خلاف یہ رویہ اپناتی ہے یا اس ذہنی ابنارمیلیٹی کی جڑیں افراد کے رویوں میں بھی دکھائی دیتی ہیں۔استحصال دراصل اس برتاؤ یا عمل کا نام ہے جس کی بنیاد نا انصافی اور خود غرضی پر ہوتی ہے۔یہ نا جائز منافع ،حقوق یا فائدہ حاصل کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔خود غرضی اسے جنم دیتی اور یہ احساس برتری اور کمتری کو جنم دیتا ہے معاشرے میں نابرابری طبقات پیدا ہوتی ہے اور طاقتور اور کمزور کا کلچر جنم لیتا ہے۔یہ رویہ ایک قوم بھی دوسری کے خلاف اپناتی ہے،ایک معاشی نظام،معاشرتی فلسفہ،سیاسی فکر بھی دوسروں کا استحصال کرتا ہے اور افراد بھی اس روئیے میں لتھڑے دکھائی دیتے ہیں۔

    یقیناً اس روئیے کی روک تھام ضروری تھی اسی لئے ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیجے جنہوں نے عورت ،بچے،بوڑھے،جوان یعنی فرد سے لے کر قوم اور معاشی نظام سے لے کر معاشرتی اور سیاسی فکر تک کی حدود واضح کر دیں،فلسفہ زندگی دے دیا،حقوق واضح کر دیئے تو کہ کوئی کسی کا استحصال نہ کر سکے مگر افراد نے حدود اللہ کو ہر زمانے میں پار کیا اور دوسرے کی کمزوری سے فائد ہ اٹھانے کو چالاکی،ہوشیاری،سمارٹنیس،دانائی اور دانشوری سمجھا اور خوامخواہ کے احساس برتری کے زعم میں دوسروں کے کمزور پہلوؤں سے فائدہ اٹھا کر لطف اندوز ہوا۔

    دوسری طرف مظلوم نے ظلم سہہ کر اور اس کھلی غنڈی گردی کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے مفاہمت کی پالیسی اختیار کیے رکھی اور یوں اس استحصالی روئیے کو پھلنے پھولنے کا سامان مہیا ہوا۔فرعون سے لے کر ٹرمپ تک نے اسی ذہنی کیفیت کے تحت ظلم وجبر کی انتہا کیے رکھی اور تمام انبیاء بشمول موسی علیہ نے اس رویے کو ختم کیا۔بے شک ظلم پر خاموش رہنے والا ہی ظالم کو شہ دیتا ہے لہٰذا وہ بھی ظالم ہے۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    ” اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہم مظلوم کی تو مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو (یہی اس کی مدد ہے)۔”(بخاری)

    گویا ہمیں استحصال کرنے والے سے دبنے کی بجائے اپنا حق لینا ہو گا۔استحصال کرنے والے کے خلاف اپنے مؤقف کوایثار اور احسان،درگذر اور عفو،بردباری اور تحمل سے خلط ملط کر کے بلیک میل ہوتے رہنے کی بجائے ظالم کو ظالم کہنا سیکھنا ہو گا خواہ وہ ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو اور خواہ وہ ہم خود ہی کیوں نہ ہوں۔یقینا ہمیں ظالم کا ہاتھ ظلم سے روک کر اپنے بھائی اور اپنی نجات کو یقینی بنانے کے لئے سوچنا ہو گا۔اللہ ہمیں ظالم کے خلاف کلمہ حق کہنے والا مجاہد بنائے۔آمین.

  • خطبات احمدیہ اور سر سید احمد خان – غازی سہیل خان

    خطبات احمدیہ اور سر سید احمد خان – غازی سہیل خان

    دنیا میں بہت سارے ایسے عاشقان رسول ﷺ گزرے ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی عقیدت و محبت میں ہزاروں کتابیں تصنیف کی ,وہیں غیر مسلموں میں بھی بہت سارے مصنفین گزرے ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی محبت میں اور چند نے آپ ﷺ کی بے جا مخالفت اور تعصب کی بنیاد پر سیرت کے واقعات کو توڑ مڑوڑ کر کتابوں کے صفحات کو سیاہ کیاہے جو آج بھی جاری ہے۔

    اسی طرح 1870ء میں ولیم میور نام کے ایک مغربی مصنف نے life of Mohammedکے نام سے چار جلدوں میں ایک کتاب شائع کی جس میں اُس نے آپ ﷺ کی زندگی کے مختلف گوشوں کو توڑ مڑوڑ کے پیش کر کے دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔مذکورہ کتاب کے متعلق انگریزوں کا کہنا تھا کہ :
    ’’ اس کتاب نے اسلام کے استیصال کا فرض ادا کیا ہے ‘‘۔
    اس کتاب کی اشاعت سے انگریز وں کی مکرہ سازش کا اثر مرحوم سرسید احمد خان کی زندگی پر بھی خاصا پڑا۔جس کے جواب میں سرسید مرحوم نے اس انگریز کی ریشہ دوانیوں اور انتہائی گھٹیا قسم کے الزامات کا جواب دینے کی ٹھان لی ۔

    لیکن اس کتاب کا جواب دینا اُتنا آسان نہیں تھا جتنا اُس وقت لوگوں نے سجھا ہو گا۔کیوں کہ اُس دور میں نہ ہی انٹرنیٹ اور نہ ہی وہ مواد ہندوستان میں موجود تھا جس کی بُنیاد پر اس انگریز کو جواب دیا جاتا۔ ان سارے مشکلات کو دیکھتے ہوئے سرسید مرحوم نے ہندوستان چھوڑ نے سے پہلے اپنی کوٹھی اور ذاتی کُتب ضانہ بیچ کر دنیا کی بڑی بڑی لائبریریوں اور کُتب خانوں کی خاک چھان کے لاطینی ،انگریزی اور دوسری زبانوں کے ترجمے کروا کے پڑھے اور تب جا کے خطبات احمدیہ کے نام سے 1887ء میں ایک کتاب کا وجود عمل میں لا کے ملت اسلامہ پر ایک احسانِ عظیم کیا۔

    انگلستان میں بیٹھ کر اس انگریز کو جواب لکھنے کے متعلق ایک انگریز مصنف نے لکھا ہے کہ :
    ’’ایسی مثالیں تو پائی جاتی ہیں کسی مسلمان نے بمقابل عیسائیوں کے اپنی زبان میں اپنے ہی ملک میں بیٹھ کر اسلام کی حمایت میں کوئی کتاب لکھی اور اس کا ترجمہ کسی یورپ کی زبان میں ہوگیا .لیکن مجھے کوئی ایسی مثال معلوم نہیں کہ کسی مسلمان نے پورپ جا کر یورپ ہی کی کسی زبان میں اس مضمون میں کتاب لکھ کر شائع کی ہو ۔‘‘ صفحہ ۱۱

    آج میں نے خطباب احمدیہ جس کا جدید نام سیرت ﷺ سرسید احمد خان ہے جس کو کوثر فاطمہ نے مرتب کیا ہے، کا مطالعہ مکمل کیا ہے ۔سر ولیم میور کی کتاب کی اشاعت کے بعد سرسید کو کتنا دلی صدمہ پہنچا محسن الملک کے نام اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ:
    ’’ان دنوں زرا میرے دل کو سوزش ہے ۔ولیم میور صاحب نے جو کتاب آنحضرت ﷺکے حالات میں لکھی ہے ،اُس کو میں دیکھ رہا ہوں ،اس نے دل کو جلا دیا،اُس کی نا انصافیاں اور تعصبات دیکھ کر دل کباب ہو گیا اور مصمم ارداہ کیا کہ انحضرت ﷺکی سیرت میں جیسے کہ پہلے بھی ارادہ تھا کتاب لکھ دی جائے ۔ اگر تمام روپیہ خرچ اور میں فقیر بھیک مانگنے کے لائق ہو جائوں تو بلا سے !قیامت میں یہ کہہ کر پکارا جائوں گا کہ اس فقیر مسکین احمد کو ،جو اپنے دادا محمدﷺکے نام پر فقیر ہو کر مر گیا ،حاضر کرو ۔‘‘صفحہ13

    اس اقتباس سے سرسید کا درد جھلکتا ہے ۔اس کتاب کو مصنف نے بے سروپا قصے اور کہانیاں اور اسرائیلیات سے پاک رکھا ہے مرتب موصوف نے اس کتاب کے متعلق لکھا ہے کہ :
    ’’سچ تو یہ ہے کہ اس کتاب سے اُردو زبان میں سیرت نگاری کے ایک نئے باب کا آغاز ہوتا ہے ‘‘۔
    ذاتی طور پر میں اس کتاب کو پڑھ کے خاصا متاثر ہوا ہوں احادیث اور قرآن کے حوالوں اور علم حدیث پر گہری نظر کے سبب میں یہ کہتا ہوں کہ سرسید مرحوم کو اگر محدث اور علامہ کہہ کے بھی پکارا جائے تو بے جا نہیں ہوتا۔

    اس کتاب کو لکھتے ہوئے سرسید کو خاصی مالی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا بلکہ صحت کے مسائل سے بھی دوچار ہونا پڑا لیکن عشق نبی ﷺ کا ایسا جذبہ موصوف کے دل میں تھا کہ ہزاروں مشکلات کے باوصف اس کتاب کو لکھنے سے باز نہیں رہیے۔ایک خط میں لکھتے ہیں کہ :
    ’’مواعظ احمدیہ (یعنی خطبات احمدیہ )لکھنے میں شب و روز مصروف ہوں ،اس کے سوا اور کچھ خیال نہیں ،جانا آنا ملنا جُلنا سب بند ہے ۔آپ اس کے پہنچنے پر میر ظہور حُسین کے پاس جایئے اور دونوں صاحب کسی مہاجن سے میرے لئے ہزار روپیہ قرض لیجیے ،سود اور روپیہ میں ادا کروں گا۔‘‘ ایضاًصفحہ 16

    خطبات احمدیہ بارہ طویل خطبوں پر مشتمل ہے ۔اُردو زبان میں لکھنی جانے والی سیرت ﷺکے موضوع پر پہلی باقاعدہ کتاب ہے ۔اس کتاب میں خطبات احمدیہ کا تعارف کے موضوع کے تحت مولانا الطاف حُسین حالی ؒ نے طویل تعارف پیش کیا ہے ۔اس کے بعد الگ الگ عنوان کی صورت میں بارہ خطبوں کو پیش کیا گیا ہے ۔میں بھی یہاں حالی مرحوم کے تعارف کی مدد سے ان خطبوں کا مختصراً تعارف پیش کروں گا۔

    پہلا خبطہ :
    پہلے خطبے میں جو کہ سب سے بڑا اور بجائے خود اپنے آپ میں ایک کتاب ہے میں عرب کا نہایت مفصل و تاریخی ،جغرافیہ مسلمانوں کے بعض مسلمات کے ثابت کرنے کے لئے جن کا سرولیم میور نے اپنی کتاب میں انکار کیا ہے ۔

    دوسرا خطبہ :
    دوسراخطبہ اس غرض کے لئے لکھا گیا ہے کہ لوگوں کو اس بات کا اندازہ کرنے کا موقع ملے کہ اسلام سے پہلے عرب کی حالت کیا تھی اور اسلام کے بعد ان کے اخلاق و عادات اور عقائد و خیالات کس درجہ تک تبدیل ہو گئے ۔

    تیسرا خطبہ :
    اس میں میں ان ادیان مختلفہ کا جو اسلام سے پہلے عرب میں شایع ہوئے اور اس بات کا بیان ہے کہ اسلام ان تمام ادیان میں کون سے دین سے مشابہت رکھتا ہے ؟اس خطبے میں بیان کیا گیا ہے کہ اہل عرب اسلام سے پہلے چار فرقوں میں منقسم تھے ۔بُت پرست ،خدا پرست ،لامذہب ،اور معتقدین مذیب الہامی ۔ان میں سے اول تین فرقوں کا ذکر کرنے کے بعد عرب کے الہامی مذاہب کی تفصیل بیان کی ہے ۔

    چوتھا خطبہ :
    مصنف نے اس مضمون کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے جن میں سے پہلے حصے میں فائدے بیان کیے ہیں جو اسلام سے عموماً انسان کی معاشرت کو پہنچے ہیں اور اس کے ثبوت میں ان مشہور اور نامور عیسائی مصنفوں کے اقوال نقل کیے ہیں جنہوں نے اسلام کے حق میں مذہب اسلام کے مفید ہونے کی نسبت شہادتیں دی ہیں ۔دوسرے حصے میں ان عیسائی مصنفوں کی رائے کی تردید کی ہے جنہوں نے اسلام کو نوع انسانی کی معاشرت کے حق میں مضر بتایا ہے۔ تیسرے حصے میں ان فائدوں کا بیان ہے جو یہودی اور عیسائی دونوں مذہبوں کو بالا شتراک اسلام کی بدولت حاصل ہوئے ہیں ۔چوتھے حصے میں ان فائدوں کو بیان کیا ہے جو اسلام کی بدولت خاص عیسائی مذہب کو پہنچے ہیں ۔

    پانچواں خطبہ :
    اس میں میں نہایت تفصیل کے ساتھ مسلمانوں کو مذہبی کتابوں یعنی کتب حدیث،کتب سیر ،تفاسیر اور کتب فقہ کی تصنیف کا منشا اور غرض اور ڈھنگ بیان کیا ہے تاکہ غیر مذہب کے محقق اور نکتہ چیں جو اسلام کی نسبت آئندہ زمانہ میں کچھ لکھنا چائیں ان کو مسلمانوں کی مذہبی کتابوں کی طرز تصنیف سے آگاہی اور بصیرت حاصل ہو ۔

    چھٹا خطبہ :
    اس میں مذہب اسلام کی روایات پر لکھا گیا ہے کہ یہ خطبہ کسی قدر طولانی ہے ،اس لئے صرف اس کی سرخیاں لکھنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

    ساتواں خطبہ :
    اس میں اول قرآن مجید ،اس کا نزول ،اس کی سورتوں اور آیتوں کی ترتیب ،اس کی مختلف قراتیں،آیات ،ناسخ و منسوخ کی بحث ،اس کے جمع ہونے کا زمانہ ،اس کی نقلوں کی اشاعت اور اس کا کامل اور الہامی ہونا بیان ہوا ہے اور اس کے بعد سر ولیم میور اور دیگر عیسائی مصنفوں کی غلطیاں جو انھوں نے قرآن مجید کے متعلق کی ہیں بیان کی ہیں ۔

    آٹھواں خطبہ :
    یہ خطبہ بہ اس غرض سے لکھا ہے کہ سرولیم میور نے اپنی کتاب لائف آف محمد ﷺ میں اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ یقطان جس کا ذکر توریت میں جا بجا آیا ہے ،اہل عرب کا اس کی اولاد میں ہونا ،حضرت اسماعیل علیہ السلام کا مکہ کے قریب ہونا ،خانہ کعبہ کی تعمیر اور اس کی تمام مراسم کا ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام سے تعلق ہونا یہ سب بناوٹ اور افسانہ ہے ۔نعوذ بااللہ

    نواں خطبہ :
    یہ خطبہ آپ ﷺ کے نسب کی تحقیقات پر ہے ۔اس خطبہ کے لکھنے کا منشا یہ تھا کہ سرولیم میور نے اپنی کتاب میں آپ ﷺ کے بنی اسماعیل ہونے سے انکار کیاہے ۔

    دسواں خطبہ :
    اس میں بشارتوں کے بیان میں ہے جو توریت اور انجیل میں آپ ﷺ کے نبی ہونے کی بابت مذکور ہیں ۔اس خطبے میں سرسید نے قرآن کی وہ آیتیں بھی نقل کی ہیں جن میں اس بات کا بیان ہے کہ توریت اور انجیل میں آپ ﷺ کو نبوت کی خبریں دی گئی ہیں ۔

    گیارہواں خطبہ :
    اس خطبہ میں معراج اور شق صدر کی حقیقت محققانہ طور سے بیان کی ہے ۔اور اس باب میں جس قدر مختلف اور متناقص روایتیںحدیث کی کتابوں میں آئی ہیں ان کا اختلاف اور تناقص دکھایا اور اس لئے جس قدر کہ قرآن مجید میں معراج کی نسبت بیان ہوا ہے ،صرف اسی پر معراج کے واقعہ کا انحصار رکھا ہے اور معراج کو رئویا پر محمول کیا ہے جس کا ایک جُز و شق صدر بھی تھا اور عیسائیوں کے طعن کا جواب الزامی اور تحقیقی دونوں طرح کا دیا ہے ۔

    بارہواں خطبہ :
    اس خطبہ میں آپ ﷺ کی ولادت سے بارہ برس کی عمر تک کا حال جس قدر معتبر اور صحیح روایتوں سے ثابت ہوتا ہے ،بیان کیا ہے ۔

    الغرض مذکورہ کتاب میں سرسید مرحوم نے انتہا درجے کا تحقیقی انداز اپنایا ہے وہیں ٹھوس اور عقلی دالائل کا استعمال کر کے ولیم میور کے اعتراضات کا جواب دیا ہے ۔یہ کتاب ولیم میور کی کتاب کی صرف ایک جلد کا ہی جواب ہے ۔سرسید اس کتاب کے ہر باب کو ایک حج کے برابر سمجھتے تھے ،اس کتاب کے اشتہار میں انہوں نے لکھا ہے کہ یہ کتاب زیادہ تر مسلمان نوجوان لڑکوں کے لئے لکھی گئی ہے،جو انگریزی علوم کی تحصیل میں مصروف ہوں ۔کتاب کا پہلا باب پڑھنے میں انسان تھکاوٹ محسوس کرتا ہے کیوں کہ ایک تو وہ طویل ہے.

    وہیں اس میں جو تاریخ کے واقعات ہیں جو اکثر کے علم میں نہیں آئے ہوتے وہیں اس کتاب کے آخری باب کو دوسری باب کے بطور شامل ہونا چاہیے تھا کیوں کہ اُس باب میں آپﷺ کی ولادت سے بارہ سال تک کی زندگی پر بات ہوئی ہے۔میں اُن قارئین کی خدمت میں گزارش کرنا چاہوںگا کہ جو اس کتاب کو پڑھنا چاہتے ہیں اُنہیں چاہیے کہ وہ پہلے سیرت رسول ﷺ ،انبیا علیہ السلام اور عرب کی تاریخ کا مطالعہ کریں تب جا کے وہ اس کتاب کو سمجھ سکتے ہیں۔

    کتاب میں ایک بات جو مجھے کھٹکتی رہی وہ یہ کہ اسلام کے بانی کو رسول اللہ ﷺ قرار دیا گیا ہے جو کہ غلط العام بات ہے جب ہم تاریخ اور اسلام پڑھتے ہیں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے ہے۔ ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ:
    ’’لیکن حالی جیسے عالم دین کے قلم سے رسول اللہ ﷺ کے لئے ’’بانئی اسلام‘‘ کے لفظ کا استعمال حیرت ناک ہے ،اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حالی بھی سرسید کی طرح اہل مغرب کی اس فکر سے متاثر تھے کہ حضرت محمد ﷺ اسلام کے بانی ہیں ۔‘‘

    علاوہ ازیں کتاب میں اور بھی چند باتوں پر بات ہو سکتی ہے لیکن وہ ہم جیسے طالب علم نہیں کر سکتے ۔اس سب کے باوجود کتاب املا کی غلطیوں سے پاک ہے وہیں طباعت بھی شاندار ہے کتاب ضخیم ہے ،ہارڈ باونڈ میں مجلد ہے تاہم قیمت اس کتاب کی زیادہ اور نا مناسب معلوم ہوتی ہے ۔میں اُن افراد کو یہ تجویز دیتا ہوںکہ جو سیرت کے متعلق مشتشرقین کی اور سے جو بے جا اعتراضاعات نبی مہربان ﷺ کی زندگی کے متعلق کیے گئے ہیں کے جواب میں وہ اس کتاب کو پڑھ کر اپنی علمی پیاس بھجا کر حق سے آشنا ہو سکتے ہیں ۔ان شاء اللہ.

  • بابائے اردو مولوی عبدالحق کی ادبی خدمات –  احمد مظہور اشرف

    بابائے اردو مولوی عبدالحق کی ادبی خدمات – احمد مظہور اشرف

    بلاشبہ عبدالحق صاحب کی شہرت و معرفت اردو سے ان کا بےپنہا لگاؤ ہی تھا۔ یہ تعلق اپنے آغاز سے عروج تک مختلف مراحل سے گذرا۔ اس مختصر تحریر میں اس تعلق کے مراحل کو ترتیب و تسلسل سے پیش کیاگیا ہے۔

    اردو سے دلچسپی، دور معلمی اور اردو خدمات کا آغاز:
    مولوی عبدالحق کی پیدائش 20 اپریل 1870ء کو ہاپوڑ (ضلع میرٹھ، برطانوی ہندوستان) میں ہوئی انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ہاپوڑ میں حاصل کی۔ اس کے بعد وہ علی گڑھ چلے گئے، جہاں انہوں نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج (جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنا) میں تعلیم حاصل کی۔ وہ سر سید احمد خان کے قائم کردہ اس تعلیمی ادارے سے گہری عقیدت رکھتے تھے اور اسی ماحول نے ان کے اندر علمی، ادبی اور قومی شعور پیدا کیا۔

    مسلم کالج علی گڑھ (محمڈن اینگلو اورینٹل کالج) میں اردو زبان میں بہترین مضمون نویسی پر ‘لارڈ لینس ڈاؤن تمغہ’ (Lord Lansdowne Medal) دیا جاتا تھا۔ مولوی عبدالحق کو دورانِ تعلیم اسی تمغے سے اردو مضمون نویسی میں نمایاں کارکردگی پر نوازا گیا تھا۔اس اعزاز پر سر سید احمد خان نے رسالہ ‘تہذیب الاخلاق’ کہ لئے ان کی تحریری صلاحیتوں سے کام لیا۔ اردو زبان سے آپ کے خاص تعلق کی بنا پر یوں ان کے ادبی سفر کاآغاز ہوا۔ مولوی عبدالحق نے علی گڑھ کالج سے 1894ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی وہ 1895ء میں حیدرآبادِ دکن آئے اور مدرسہ آصفیہ کے صدر مدرس کے طور پر خدمات سر انجام دینے لگے۔

    1899ء میں ماہنامہ ‘افسر’ سے بطور مدیر منسلک ہوئے جو ان کی ادبی صلاحیتوں کا ثبوت ہے۔ مولوی عبدالحق نے حیے حدرآباد دکن کی ریاست میں 12 سال تک “امورِ عامہ” (یعنی محکمہ داخلہ یا ہوم منسٹری) میں بطور مترجم خدمات انجام دیں۔ 1911ء میں نائب ڈائریکٹر آف ایجوکیشن اور 1912ء میں انسپکٹر آف اسکولز مقرر یوئے۔ 1923ء میں اورنگ آباد میں اسلامیہ کالج کے قیام کے بعد آپ وہاں پرنسپل مقرر ہوئے۔ 32 سالہ سرکاری خدمات کی تکمیل کے بعد آپ نے جامعہ عثمانیہ کے شعبہ اردو کی بطور صدر خدمات انجام دیں۔

    انجمن ترقی اردو اور مولوی عبدالحق:
    اس وقت کے برصغیر کی علمی و ادبی، معاشرتی و سیاسی تحریکوں ہر سر سید کی فکر اور مساعی کے گہرے اثرات رہے ہیں۔ ‘انجمن ترقی اردو’ بھی سر سید سے جڑی دیگر تحریکوں کی کڑی کا ایک سلسلہ ہے۔ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس (سر سید کی قائم کردہ تحریک) کا ایک ذیلی شعبہ “شعبۂ ترقیٔ اردو” کہلاتا تھا۔اسی شعبے نے دسمبر 1906ء میں “انجمن ترقی اردو” کے نام سے باقاعدہ تنظیمی حیثیت اختیار کی۔ اس انجمن کے صدر پروفیسر تھامس واکر آرنلڈ (T.W. Arnold) مقرر ہوئے جبکہ سیکریٹری مولانا شبلی نعمانی مقرر کیے گئے۔انجمن نے بڑی مستعدی اور خوش اسلوبی سے اردو ادب کی تعمیر کا کام کیا۔

    جب انجمن لاوارث ہوئی:
    انجمن کے قیام کے محض دو برس بعد مولانا شبلی نعمانی بددل ہو کر مستعفیٰ ہوگئے تو حبیب الرحمن خان شیروانی معتمد مقرر ہوئے مگر وہ بھی جلد الگ ہوگئے۔ بعد ازاں مولوی عزیز مرزا سیکرٹری نامزد کئے گئے جو جلد ہی انتقال کر گئے یوں انجمن پھر لاوارث ہوگئی۔ وہ انجمن جس کے ادبی مقاصد بلند مگر عملی زرائع مسدود ہوئے تو انجمن عملاً معطل ہو کر رہ گئی۔ ان حالات میں جب انجمن نیم جاں، غیرفعال اور معطل تھی تو 1912ء میں مولوی عبدالحق کو انجمن کے چوتھے معتمد کے طور پر نامزد کیاگیا۔ جسے اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا کیونکہ آپ پرانے علیگ تھے اور ان کی خدمات سے تمام علمی حلقے روشناس تھے۔ یوں آپ انجمن کے مقاصد کی تکمیل میں اپنی بھرپور کوششیں بروئے لاتے رہے۔

    متحدہ ہندوستان میں ترقی اردو کا کام:
    جامعہ اردو کے شعبہ اردو کی صدارت کے دوران 1928ء میں آپ نے دارالترجمہ(Translation Bureau) قائم کیا۔ جس نے جامعہ کے تحت تمام علوم و فنون کی اردو میں تدریس کیلئے نصابی کام کامیابی سے مکمل کر لیا اور یہ ثابت کیاکہ اردو بھی کامیاب ذریعہ تعلیم ہے۔ یوں انجمن ترقی اردو کے لئے کام آپ کی زندگی کی دھن بن گئی۔ جو کام آپ انفرادی طور پر کرتے آئے تھے اب آپ نےاجتماعی پلیٹ فارم پر منظم طور پر آگے بڑھایا۔ ومسائل کی فراہمی کیلئے آپ نے مالی معاونین بھی تیار کئے۔

    جب انجمن کی چند معیاری کتب شائع ہونا شروع ہوئیں تو انجمن کی خدمات پر مضامین وتبصرے ملک گیر اخبارات و رسائل میں چھپنے لگے۔ 1916ء تک کلکتہ، جالندھر اور ممبئی میں اس کی شاخیں اور کتب خانے قائم ہو گئے۔ جبکہ اسی سال جن 16 کتب کی اشاعت ہوئی ان میں ‘دریائے لطافت’ (انشاء اللہ خان انشاء اور مرزا محمد حسن قَتِیل کا مشترکہ علمی و ادبی مجموعہ)، ‘مشاہیر یونان و روما’ سمیت تاریخ و تمدن اور تعلیم کے موضوعات پر نادر کتب شامل ہیں۔ دسمبر 1916ء میں لکھنؤ میں انجمن کے دفتر کے افتتاحی جلسے میں ہندوستان بھر کے علماء، فضلاء، اکابرین، شعراء، ادباء و مشائخ بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔

    یہ وہ موقع تھا جب انجمن کو ایک معتبر مقام اور اس کے کام کو ایک سند کادرجہ حاصل ہو رہا تھا۔ 1917ء میں مزید 4 کتب شائع ہوئیں جبکہ آپ کی محنت شاقہ سے اصلاحات علمیہ کی اردولغت بھی مرتب ہوگئی۔ 1919ء تک ارکان اعانت کی تعداد 334 تک پہنچ گئی۔ جبکہ کل 34 شاخیں اور 34 کتب خانے بھی فعال کام کر رہے تھے۔ جنوری 1920ء سے مولوی عبدالحق نے رسالہ اردو جاری کیا جس کا مقصد اردو زبان و ادب کے فروغ، تحقیق، تنقید، اور علمی مباحث کو فروغ دینا تھا۔ 1924ء میں اردو باغ، اورنگ آباد میں ‘اردو ٹاٹپ کا پریس’ قائم ہو گیا۔ 1928ء میں مولوی عبدالحق کی زیرِ ادارت ایک جامع انگریزی-اردو لغت (English–Urdu Dictionary) شائع ہوئی جبکہ مزید 5 کتب شائع ہوئیں۔

    1928ء تک انجمن کے 99 کتب خانے قائم ہو چکے تھے جبکہ 1930ء میں رسالہ ‘سائنس’ بھی جاری ہوا۔ آپ کی کوششوں سے جدید تصنیفات کے ساتھ ساتھ قدیم نثر و نظم کو محفوظ کرنے اور نئے انداز میں پیش کرنے کا کام بھی باقاعدہ طور پر شروع ہوا۔ اس سلسلے میں دریائے لطافت، نکات الشعراء، مثنوی خواب و خیال، اور تذکرہ شعرائے اردو جیسی نادر و نایاب کتب کی از سرِ نو اشاعت عمل میں لائی گئی۔ ان اشاعتوں نے نہ صرف اردو کے کلاسیکی ورثے کو نئی زندگی دی بلکہ اردو ادبی منظرنامے کو ایک منفرد رنگ و آہنگ بھی عطا کیا۔ اس کے علاوہ لسانی کشمکش کے اس ماحول میں، جہاں کہیں بھی مدافعانہ رویوں کے باعث اردو پر زد پڑتی دکھائی دی، وہاں آپ نے نہ صرف بروقت اس کا ادراک کیا بلکہ پوری قوت کے ساتھ اس کے انسداد کی کوشش بھی کی۔

    اردو کے وقار، اس کی بقا اور ترویج کے لیے آپ کی یہ جدوجہد ناقابلِ فراموش ہے۔ مزید یہ کہ اردو مدارسِ کو ازسر نو فعال کیا گیا۔ سرکاری اداروں میں اردو کی ترویج کیلئے مؤثر کوششیں کی گئیں جس کے نتیجے میں ڈاک فارم اور ریلوے ٹکٹوں سمیت دیگر دستاویزات پر اردو عبارتیں لکھوائی گئیں۔ قانون ساز اسمبلیوں میں اردو تقاریر کی اجازت دلوائی گئی اسی طرح اسمبلی کاروائی اردو میں رپورٹ کرنے کی منظور ی ہوئی۔ دفاتر میں اردو اسٹینوگراگرز کے تقرر ہوئے۔ خود بطور استاد مولوی عبدالحق نے دور دراز گاؤں جا کر اردو کی تدریس بھی کی۔

    پاکستان میں ترقی اردو کا کام:
    پاکستان میں شیخ عبد القادر صاحب انجمن کے صدر تھے، پھر ان کےانتقال کے بعد مولوی عبدالحق صدر منتخب ہوئے۔قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں کراچی سے ہفت روزہ ‘قومی زبان’ کا اجراء کیا گیا جس کا مقصد اردو کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کے لیے عوامی، علمی اور لسانی شعور بیدار کرنا تھا۔ 1951ء میں آپ کی سرپرستی میں انجمن کے تحت سہ ماہی “تاریخ و سیاست’ جاری کیا گیا۔جبکہ اسی سال 20 مزید اعلی پائے کی کتب شائع ہوئیں۔ اب ملک بھر میں انجمن کی شاخیں قائم ہونا شروع ہوئیں۔ 1959ء میں پہلا سرکاری ‘اردو کالج’ کراچی میں قائم ہوا۔ مولوی صاحب نے اسے ایک بڑا کارنامہ قرار دیا۔ کیونکہ بڑا مسئلہ اس کا یونیورسٹی سے الحاق تھا اس ضمن میں اگر چہ کئی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں لیکن آپ مستعدی سے کوشش کرتے رہے۔

    عبدالحق صاحب فرماتے ہیں:
    “اس مشکل کا باعث یہ تھا کہ کالج کا ذریعہ تعلیم اردو ہے۔ گویا قومی زبان کو زریعہ تعلیم بنانا یونیورسٹی کی نظر میں ایک مجرمانہ فعل ہے”

    ایک سال کی جدو جہد کے بعد کالج قائم ہوا اور 25 جون 1959 سے باقاعدہ تدریس کا آغاز ہوا ۔ کالج کے ابتدائی سالوں میں صرف “ادیب”، “ادیب عالم”، اور “ادیب فاضل” جیسے اردو میں پیشہ ورانہ و ادبی کورسز کروائے جاتے تھے۔ آپ کی شدید خواہش کراچی میں ایک چارٹرڈ یونیورسٹی کا قیام تھا اور یہی آپ کی آخری خواہش ثابت ہوئی۔ بقول شاہد احمد دہلوی اگر کراچی کا ایک سرمایہ دار بھی ہمت کرتا تو یونیورسٹی قائم ہو جائی۔ لیکن ہمارے سرمایہ دار بھی حکومت کا رخ دیکھ کر چلتے ہیں جو کہ قطعی اس کے حق میں نہیں تھی۔

    زندگی کی نوے بہاریں دیکھنے کے بعد، 16 اگست 1961ء کو صدی کا یہ رجل عظیم بابائے اردو مولوی عبدالحق، ہمیشہ کے لیے اس فانی دنیا سے رخصت ہو گیا لیکن اپنی علمی، ادبی، اور قومی خدمات کی بدولت وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ پروفیسرڈاکٹر معین الرحمن (سابق صدر شعبہ اردو گورنمنٹ کالج فیصل آباد) نے آپ کے متعلق درست کہا: “بابائے اردو دبستان سر سید کی آخری کڑی اور اسلاف کی ایک قیمتی نشانی تھے”۔

    مولوی عبدالحق کے اعزازات:
    آپ کے بھائی خورشید احمد حسن لکھتے ہیں:
    “میرے دو بڑے بھائی تھے۔ ایک حقی بھائی (شیخ عبدالحق) دوسرے ابدی بھائی (مولوی عبدالحق)۔ کسے معلوم تھا یہ غلط تلفظ ایک دن حقیقت بن کر رہے گا اور عبدالحق صاحب اپنے عشق کی بدولت سے جو انہیں اردو سے تھا واقعی ابدی شہرت کے مالک بن کر رہیں گے۔”

    1937ء میں الہ آباد یونیورسٹی نے مولوی عبدالحق کو ان کی اردو زبان و ادب، تحقیق، لغت نویسی اور علمی خدمات کے اعتراف میں “ڈاکٹر آف لٹریچر” (D.Litt) کی اعزازی ڈگری عطا کی جبکہ 1941ء میں علی گڑھ یونیورسٹی نے ان کی لسانی، تعلیمی اور تہذیبی خدمات کے صلے میں اعزازی ڈاکٹریٹ( Ph.D) کی ڈگری سے نوازا۔ آپ کے ان اعزازات پر ڈاکٹر علامہ اقبال نے آپ کو خط کے ذریعے تحریری مبارکباد دی اور ساتھ ساتھ جامعات کو بھی ان کی قدر شناسی پر مبارکباد دی۔

    ایسے ہی خیالات کا اظہار ڈاکٹر ممتاز حسن نے یوں کیا:
    “اس میں شک نہیں کہ الہ آباد یونیورسٹی نے مولوی صاحب کو D.Litt اور علی گڑھ یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی کی ڈگری دے کر دراصل اپنی ہی عزت میں اضافہ کیا”۔

    تاہم ان تمام اعزازات میں سب سے بڑا اور پائیدار اعزاز وہ لقب ہے جو قوم نے اس اردو کے عظیم رہنما کو عطا کیا: ‘بابائے اردو’۔”

  • کھنک لیکھک – عامر شہزاد

    کھنک لیکھک – عامر شہزاد

    ”پانی کا سست بہاؤ یوں لگتا ہے کہ جیسے کائنات بوڑھی ہو چکی ہو اور ارتقا کے سفر نے اسے ہلکان کر دیا ہو.“
    پاروتی نے اپنے بالوں سے اک گلاب نکالا اور پانی میں بہاتے ہوئے کہا۔

    ”تم ہر بار مجھے ٹوکتی تھی کہ میں سفر پر نکلتا ہوں تو کیوں پیدل چلتا ہوں؟
    جب میری روح سفر بندگی سے سرشار ہو جاتی ہے اور میں ان پکھیرووں جیسا ہوتا ہوں جن کے پاس امان کے لئے کوئی گھونسلہ نہیں ہوتا. اور میں یہ جانے بغیر پیدل چل پڑتا ہوں کہ وہ راہ کس طرف مڑتی ہے تو یہ احساس مجھ پر طاری ہو جاتا ہے کہ کائنات میرے اٹھتے قدموں کی رفتار سے ارتقا کی مسافت کو طے کر رہی ہے.“

    ”اگر کائنات تماری رفتار سے بہیہ رہی ہے تو وہ اپاہچ ہے اور اگر اس پانی کی رفتار سے تو وہ بوڑھی ہو چکی ہے.“
    ”قدرت کو چاہیے کہ اپنی بقا میرے نقش پا میں تلاش کرے کیونکہ اپاہچ، سنبھل جاتے اور بوڑھے مر جاتے ہیں.“
    اک کیڑا میرے پاؤں پر رینگ رہا تھا اور اک پکھو نے پانیوں کے اوپر سے اڑان بھری. اگلے ہی لمحے پانی پر بہتا پاروتی کا پھول میری نگاہوں سے اوجھل ہو گیا.
    ”وہ دور۔۔۔۔۔پانی اور آسمان باہم مل رہے ہیں“ اس نے میرا رخ ڈوبتے سورج کی طرف موڑتے ہوئے کہا۔
    ”ہاں۔۔۔۔آسمان دھرتی ماں کی قدم بوسی کے لئے اتر رہا ہے…..“
    ”ایسا نہیں ہے (اس نے بائیں بازو کو حرکت دی اور چوڑیوں کی کھنک گہرے پانیوں میں اتر گئی) آسمان ، زمین سے بغلگیر ہو رہا ہے، یہ ملن کا وقت ہے.“

    ”جب سورج رات کے پردہ سے باہر نکلتا ہے یا جب غروب ہونے لگتا ہے تو وہ لمحے ہیجان خیز کیوں ہوتے ہیں؟“
    اس کی آنکھوں میں ڈوبتے سورج کے منظر کی راعنائی تھی، میرا سوال سن کر اس نے آنکھیں موند لیں.
    ”ان لمحوں میں ملن کے دیپ جلتے ہیں، روشنی خود کو اندھیرے کو سپرد کر دیتی اور رات اپنے ہونٹ اجالے کے لبوں پر ثبت کر دیتی ہے.“
    “یہ پنچھیوں کے گھر لوٹنے کا وقت ہوتا ہے، مزدور روٹی کھانے کے قابل ہو جاتا اور محبت زرہ دلوں میں لمس کی چاہت بیدار ہونے لگتی ہے.“
    میں نے کہا اور پاؤں سمیٹ لئے، میری روح میں اداسی اتر رہی تھی۔

    ”وہاں چلیں جہاں آسمان اور زمین ہم آشنا ہو رہے ہیں.“ پاروتی نے میرا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا:
    ”روحوں کے وصال میں کسی اور کی موجودگی۔۔۔۔قربت کی لذت کو ماند کر دیتی ہے.“
    بوڑھے دریا کے سست پانی اندھیرے میں بہیہ رہے تھے,آسماں پر تاریکی چھانے لگی. دن کی روشنی، رات کے اندھیرے میں مدغم ہوتی ہوئی اپنے ہونے سے محروم ہو رہی تھی. کوئی خیال میرے ذہن میں اترا اور بیان کی حاجت لئے زباں پر دستک کناں ہوا تو پاروتی نے بائیں ہاتھ کی انگلی میرے ہونٹوں پر رکھتے ہوئے سرگوشی میں کہا:

    ”چپ رہو، شام ہو رہی ہے.“
    اسکی چوڑیوں کی کھنک دریا میں اتری ، اور پانی تھم گئے،شام ہو چکی تھی۔