Author: اوریا مقبول جان

  • بلوچستان میں سونے کی تلاش – اوریا مقبول جان

    بلوچستان میں سونے کی تلاش – اوریا مقبول جان

    کوئٹہ سے ایران جانے والی آر سی ڈی شاہراہ کا اسّی فیصد سے زیادہ حصہ پرانے چاغی ڈسٹرکٹ کے بیچ سے گزرتا ہے۔ اب چاغی دو اضلاع میں منقسم ہو چکا ہے، نوشکی اور چاغی۔ ایک زمانے میں اس وسیع و عریض ضلع کا ہیڈ کوارٹر نوشکی ہوتا تھا۔

    اس شہر کے بیچوں بیچ ایک پہاڑی واقع ہے جس پر انگریز پولیٹیکل ایجنٹ / ڈپٹی کمشنر نے اپنا گھر بنایا تھا، جو آج تک ڈپٹی کمشنروں کا مسکن ہے۔ اس پہاڑی پر کھڑے ہوں تو جنوب مغرب کی سمت آپ کو بلندوبالا سیاہ سنگلاخ پہاڑ نظر آئیں گے یا ریت کا صحرا۔ ریت کے یہ ٹیلے اپنے زہریلے سانپوں کی وجہ سے اس قدر مشہور ہیں کہ بھارت سے بھی سپیرے سانپ پکڑنے یہاں آتے ہیں۔ سورج غروب ہوتا ہے تو ریت کے یہ ٹیلے سونے کے ذرّات کی طرح چمکنے لگتے ہیں۔

    آر سی ڈی شاہراہ پر کوئٹہ سے ایران کی طرف سفر کریں تو دائیں ہاتھ افغانستان ساتھ ساتھ چلتا ہے، کہیں چند کلومیٹر کے فاصلے پر اور کہیں ذرا دُور۔ اس سڑک پر نوشکی کے بعد صرف ایک ہی بڑا شہر دالبندین واقع ہے، جہاں آرام دہ رات گزارنے کے لئے ڈپٹی کمشنر کا ریسٹ ہائوس ہوا کرتا تھا۔ چاغی میں بحیثیت پولیٹیکل ایجنٹ/ ڈپٹی کمشنر اپنے قیام کے دوران میں بار ہا اس ریسٹ ہائوس میں ٹھہرا ہوں۔ لیکن یہاں میرا پہلا قیام 1980ء میں ہوا تھا جب میں بلوچستان یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا اور اقوام متحدہ کے منشیات کی روک تھام والے ایک ادارے کے لئے اس بات پر ریسرچ کر رہا تھا کہ بلوچستان میں کس قدر لوگ ہیروئن پیتے ہیں۔

    اس سلسلے میں جب میں وہاں ٹھہرا تو میرے ساتھ والے کمرے میں ایک انگریز خاتون بھی موجود تھی جو پورے برصغیر میں گورا قبرستانوں پر تحقیق کر رہی تھی۔ وہ انگریزوں کی قبروں کے کتبے کیمرے میں بھی محفوظ کرتی اور اگر کوئی بڑا بوڑھا مل جاتا تو تھوڑی بہت معلومات حاصل کر لیتی۔ اس ریسٹ ہائوس میں لاتعداد لوگوں سے میری ملاقات ہوئی ہے۔ ایک پوری کتاب ان تمام شخصیات پر لکھی جا سکتی ہے جو یہاں وقتاً فوقتاً قیام کرتی رہیں اور میری ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ سلمان بن عبدالعزیز شکار کھیلنے آ تے تو پہلا پڑائو یہیں پر ہوتا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان چاغی دھماکے کے لئے تشریف لائے تو یہیں ان کا ٹھکانہ تھا۔

    اسی دالبندین ریسٹ ہائوس میں میری ملاقات آسٹریلیا کی کمپنی BHP کے سربراہ سے ہوئی جو اپنے خصوصی طیارے کے ذریعے وہاں آیا تھا۔ اس کمپنی نے 1993ء میں بلوچستان حکومت کے ساتھ چاغی کے علاقے میں سونے کی تلاش کا معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت جو سونا، تانبہ، پیتل یا چاندی یہاں سے برآمد ہونا تھا اس میں سے 75 فیصد شیئر بی ایچ پی کمپنی کا اور 25 فیصد بلوچستان حکومت کے حصے میں آنا تھا۔ عموماً ایک نگاہ میں یہ معاہدہ ایسے لگتا ہے جیسے گھاٹے کا سودا ہے۔ لیکن اگر سونے کی کان کنی کے عمل کو دیکھا جائے تو یہ محسوس ہو گا کہ اس سے بہت بہتر معاہدہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔

    سونے کی کان دراصل اوپر کی سطح پر کھدائی کرنے والی کان (Open Pit mine) ہوتی ہے، جیسے بھٹوں کی اینٹیں بنانے کے لئے زمین کھود کر مٹی نکالی جاتی ہے، ویسے ہی بڑے بڑے مٹی کے تودے کھود کر مشینوں میں ڈال کر ریزہ ریزہ کئے جاتے ہیں اور پھر ان سے مٹی علیحدہ کی جاتی ہے۔ یہ ایک مشکل عمل ہے۔ اس کے بعد جو خالص دھاتی ذرّات میسر آتے ہیں، انہیں ایک بہت بڑی مشین (SMELTER) میں ڈال کر اسی کی موٹی موٹی سلاخیں (BARS) بنائی جاتیں ہیں۔ ان موٹی موٹی سلاخوں میں لوہا، سونا، چاندی، تانبہ اور پیتل سب ایک ساتھ موجود ہوتا ہے۔

    ان کو پھر ریفائنری میں لے جا کر علیحدہ علیحدہ کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر سونا اس میں 0.2 فیصد کے قریب ملتا ہے۔ یہ ایک بہت محنت طلب اور خصوصی مہارت کا کام ہے۔ یہ مہارت اگر آپ کے پاس نہ ہو تو آپ کے لئے یہ سونے کے ذخائر مٹی کے ڈھیلوں سے زیادہ قیمتی نہیں ہیں۔ میں بی ایچ پی کمپنی کے سربراہ کو ملا تو انہیں وہاں کام کرتے ہوئے تقریباً دو سال ہو چکے تھے۔ میں نے وہ ذخائر جنہیں ریکوڈک کہتے ہیں ان کے بارے میں سوال کیا کہ کیا یہ ذخائر سیندک کے برابر کے ہی ہیں، تو اس نے جواب دیا کہ اگر ہم نے سیندک جتنے ہی ذخائر ہی حاصل کرنا ہوتے تو ہم پہلے چند مہینوں میں ہی اپنا بوریا بستر لپیٹ لیتے۔ یہ دنیا کے دوسرے بڑے سونے کے ذخائر ہیں۔

    سیندک کی المناک داستان میرے ذہن میں تھی کہ کیسے اس سونے اور تانبے کی کان کا حشر کیا گیا اور اب چینی اس سے سونا نکال کر اپنا لگایا ہوا سرمایہ ہی واپس لے رہے ہیں اور ہمارے پلّے کچھ نہیں آیا۔ لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ایک دن ریکوڈک کے ساتھ بھی ایسے ہی کچھ ہو جائے گا۔ افغانستان میں حالات خراب ہوئے تو افغان بارڈر کے قریب ہونے کی وجہ سے بی ایچ پی نے اپریل 2000ء میں اپنا بوریا بستر لپیٹا اور آسٹریلیا کی ہی ایک چھوٹی سی کمپنی “Mincore” کو اپنے حقوق بیچ کر چلی گئی۔ گیارہ ستمبر کا سانحہ آیا، افغانستان بارڈر کے نزیک ہونے کی وجہ سے کبھی کام ہوتا اور کبھی نہیں، مگر کام چلتا رہا۔ کمپنی کے پاس سرمایہ کم تھا اس لئے 2006ء میں اسے کینیڈا کی کمپنی TCC نے خرید لیا۔

    اس وقت تک ابتدائی کام مکمل ہو چکا تھا اور جہاں جہاں ذخائر موجود تھے ان کا پتہ چلا لیا گیا تھا۔ اب کان کنی کا آغاز ہونا تھا۔ ایسے میں بڑی بڑی للچائی ہوئی نظروں نے اس کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ جب 1993ء میں معاہدہ کیا گیا تھا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ سونے کا مسلسل انڈہ دینے والی مرغی نکل آئے گی۔ اسی سال یعنی 2006ء میں بلوچستان ہائی کورٹ میں اس معاہدے کو چیلنج کر دیا کہ یہ پاکستان کے آئین کے خلاف ہے۔ لیکن ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ یہ لائسنس درست ہے۔ کام دوبارہ شروع ہوا، اور جب کان کنی کا لائسنس 2011ء میں مانگا گیا تو حکومت بلوچستان نے کمپنی کو کان کنی کا لائسنس دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ آپ SMELTER سے سلاخیں بھی یہیں بنائو اور ریفائنری بھی یہیں لگائو۔

    یہ اس لئے ناممکن تھا کہ یہ دونوں کام چین میں ہوتے ہیں تاکہ لاگت کم آئے اور کوئی کمپنی اتنی بڑی سرمایہ کاری خود سے نہیں کرتی۔ دراصل بلوچستان حکومت کو پاکستان کے کچھ شعبدے باز سائنس دانوں نے یہ جھانسہ دیا تھا کہ ہم خود ہی یہ سارا کام کر لیں گے اور خوب منافع کمائیں گے۔ یہ صاحب تھر کول مائن میں بھی ایسا ناکام تجربہ کر چکے ہیں۔ کمپنی فوراً ورلڈ بینک کی عدالت “International Centre for Settlement of Investment Disputes” (ICSID) میں اپنا مقدمہ لے کر چلی گئی۔ ادھر سپریم کورٹ میں جسٹس افتخار چوہدری نے بھی 2013ء میں 1993ء کے معاہدے کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ لیکن ورلڈ بینک کی عدالت نے جب معاہدات دیکھے اور پتہ لگا کہ کمپنی اب تک 220 ملین ڈالر خرچ کر چکی ہے تو 12 جولائی 2019ء کو انہوں نے پاکستان پر چھ ارب کا جرمانہ عائد کر دیا۔

    پاکستان ایئر لائن کے نیو یارک اور پیرس والے دو ہوٹل اور دیگر سرمایہ قبضے میں لے لیا گیا۔ حکومت اب منتوں ترلوں پر اُتری تو بینک نے عملدرآمد روک کر کہا کہ آپس میں جا کر معاملات طے کر لو۔ اس پر مذاکرات شروع ہوئے اور جرمانہ بڑھتے ہوئے 10 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ مارچ 2022ء کو عمران خان کی حکومت نے کمپنی کے ساتھ معاہدہ کر لیا جس کے تحت 10 ارب ڈالر کا جرمانہ بھی معاف ہوا اور مزید دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ بھی ہو گیا، مگر سپریم کورٹ میں پھر کوئی عام شہری جا پہنچا۔

    اس دفعہ سپریم کورٹ نے فوراً کیس نمٹایا اور اپنے 9 سال پرانے فیصلے کو غلط بتاتے ہوئے 1993ء کے اصل معاہدے کو درست قرار دے دیا۔ لیکن اس سارے معاملے میں اس قوم کے گیارہ سال قیمتی بیت گئے۔ وہ گیارہ سال جو اس قوم کی تقدیر بدل سکتے تھے۔

  • حالات نے ہمیں لاڈلا بنا دیا – اوریا مقبول جان

    حالات نے ہمیں لاڈلا بنا دیا – اوریا مقبول جان

    امریکی سیاست اس کی معیشت کے گرد گھومتی ہے اور اس کی معیشت اسلحے کی تجارت کا طواف کرتی ہے۔ اسی لئے اسے ہر لمحہ دنیا بھر میں لاتعداد چھوٹے بڑے میدانِ جنگ چاہئیں، جہاں مسلسل جنگ کی آگ بھڑکتی رہے۔

    ان کے علاوہ ایک بڑے میدانِ کارزار کی خواہش ہمیشہ امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے دل میں ہر وقت مچلتی رہتی ہے۔ گیارہ ستمبر سے شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف بیس سالہ طویل جنگ میں امریکہ نے پانچ ہزار ارب ڈالر خرچ کئے، جن میں سے چار ہزار پانچ سو ارب ڈالر پانچ بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں نے کمائے۔ یہ پانچ کمپنیاں جو امریکہ کو اوسطاً سالانہ دو سو ارب ڈالر کا اسلحہ فراہم کرتی ہیں ان میں لاک ہیڈ مارٹن (Lackhead Martin) 75 ارب ڈالر، بوئنگ (Boeing) 27 ارب ڈالر، جنرل ڈائی نیمک (General Dynamic) 22 ارب ڈالر، ریتھیون (Raytheon) 21 ارب ڈالر اور نارتھ روپ گرومین (Northrop Gruman) 13 ارب ڈالر کا اسلحہ امریکی محکمۂ دفاع کو ہر سال بیچتی ہیں۔

    اس وقت دنیا میں دفاعی اخراجات کے لحاظ سے پانچ بڑے ملک ہیں جن میں امریکہ کے علاوہ باقی چار ممالک کا سالانہ بجٹ کل ملا کر بھی امریکہ کے سالانہ دفاعی بجٹ کا تقریباً ساٹھ فیصد بنتا ہے۔ چین نے گذشتہ سال 293.4 ارب ڈالر خرچ کئے، اس کے بعد بھارت نے 76.6 ارب ڈالر، پھر برطانیہ نے 68.4 ارب ڈالر اور سب سے کم روس نے یعنی 65.9 ارب ڈالر خرچ کئے، جبکہ اکیلے امریکہ نے 2021ء میں 806.7 ارب ڈالر کے دفاعی اخراجات کئے۔ اس قدر اخراجات اور اسلحے کی دوڑ کے بعد ایک عام آدمی یہی تصور کرے گا، کہ پوری دنیا مل کر بھی امریکہ کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ لیکن تاریخ اس سے بالکل مختلف حقائق بیان کرتی ہے کہ جنگ صرف اسلحہ کے زور پر نہیں جیتی جاتی۔

    اگر ایسا ہوتا تو امریکہ ہر میدان کا فاتح ہوتا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکہ نے انیس جنگیں لڑیں۔ انسانی حقوق اور جمہوریت کے نام پر لڑی جانے والی ان جنگوں میں دو کروڑ سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ امریکہ نے اس دوران 36 حکومتوں کا ’’رجیم چینج‘‘ کے نام پر تختہ اُلٹا، 56 رہنمائوں کو قتل کرنے کیلئے حملے کئے اور تیس ممالک پر براہِ راست بمباری کی۔ لیکن اتنا کچھ کرنے کے باوجود، ویت نام سے افغانستان اور عراق تک کہیں بھی امریکہ کامیاب نہیں رہا۔ امریکہ ہارتا رہا اور مقروض ہوتا رہا، لیکن امریکی اسلحہ ساز کمپنیاں اپنی تجوریاں بھرتی رہیں۔

    اس وقت امریکہ پر تقریباً 30 ہزار ارب ڈالر کا قرضہ ہے۔ افغانستان کا محاذ جیسے ہی 42 سال کے بعد خاموش ہوا، تو اسلحہ ساز کمپنیوں کی ہوس نے ایک بڑے محاذ جنگ کے لئے ان جمہوری حکمرانوں کو مجبور کیا جو اِنہی کمپنیوں کی ’’پارٹی فنڈنگ‘‘ کی بنیاد پر ہی سیاست کرتے ہیں۔ ادھر 2013ء میں قطر میں طالبان کا دفتر کھلا اور ادھر یوکرین میں چھیڑ خانی کا آغاز ہو گیا۔ اور آج یہ خطہ جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ اس محاذ میں دو اہم وجوہات کی بنیاد پر کودا گیا۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ یورپ گزشتہ تیس سال سے معاشی ترقی کی طرف تیزی سے گامزن تھا اور یورپی یونین کے جھنڈے تلے ’’یورو‘‘ نے بہت مضبوط پوزیشن اختیار کر لی تھی اور امریکی معیشت کو آنکھیں دِکھا رہا تھا۔ دوسری وجہ روس کی کمزوری تھی، جو ابھی تک 1991ء کے سوویت یونین کے خاتمے سے سنبھل ہی نہیں پایا تھا، بلکہ دن بدن اس کے دفاعی اخراجات کم ہو رہے تھے۔

    وہ عالمی طاقت جو کبھی دنیا میں دوسرے نمبر پر تھی، اب دفاعی اخراجات کے حساب سے پانچویں نمبر پر آ چکی ہے۔ اس میدانِ جنگ کا پہلا مقصد اسلحہ ساز کمپنیوں کو فائدہ پہنچانا نہیں تھا بلکہ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت کو روکنا تھا۔ چین کا ’’ون ورلڈ ون روڈ‘‘ کا منصوبہ تو ابھی ابتدائی شکل و صورت میں ہی ہے، لیکن چین کی معاشی قوت ایسی ہے کہ اس وقت اس کے پانچ ہزار تجارتی جہاز، دنیا بھر کے سمندروں پر کاروباری بالادستی حاصل کر چکے ہیں۔ منصوبہ یہ تھا کہ اگر یوکرین کے ساحلوں پر امریکی کنٹرول ہو جائے اور تائیوان کی خلیج پر بھی امریکی جہاز لا کھڑے کئے جائیں تو پھر چین اور روس دونوں کی مکمل ناکہ بندی ہو جائے گی۔ لیکن جیسے ہی 2014ء میں امریکہ نے ’’رجیم چینج‘‘ سے یوکرین میں اپنا صدر لا کر بٹھایا تو روس نے کریمیا پر قبضہ کر کے ریفرنڈم کے ذریعے اسے اپنا حصہ بنا کر باسفورس کے سمندر میں راستہ حاصل کر لیا۔

    تائیوان چوکنا ہو گیا اور وہ بھی امریکہ کی چکنی چوپڑی باتوں میں نہ آیا اور اس نے بھی جنگ میں کودنے سے اجتناب کیا۔ امریکہ نے روس پر پابندیاں لگائیں تو اس کے بالکل اُلٹ نتائج نکلے اور اس وقت پورے یورپ میں آنے والی سردیوں میں توانائی کے بحران کا خوف طاری ہے۔ روس نے جب سے نارتھ سٹریم پائپ لائن سے گیس کی سپلائی بند کی ہے۔ ایک ایسا بحران پیدا ہوا ہے کہ جس کی وجہ سے دنیا کی دوسری بڑی سٹیل مل آرسیلر متل (Arcelor Mittal)نے کام کرنا بند کر دیا ہے۔ جرمنی کی ٹائلٹ پیپر بنانے والی سب سے بڑی فیکٹری ہاکلے (Hakle) بند ہو چکی ہے، یورپ کے سب سے بڑے ایلومینیم سملیٹر (Smelter) کی پیداوار 25 فیصد کم ہو چکی ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق صرف جرمنی میں دس فیصد فیکٹریاں اگلے چند ماہ میں بند ہو جائیں گی۔ عام بیکریاں اور ریسٹورنٹ اس لئے بند ہو رہے ہیں کہ وہ اگر چار ہزار یورو بجلی اور گیس کا بل دیتے تھے اب انہیں دس ہزار یورو دینا پڑ رہے ہیں۔ برطانیہ کو اپنی عوام کو مناسب دام پر توانائی فراہم کرنے کیلئے دو سو ارب پونڈ خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔ ابھی تک یورپ کے پاس گیس کا ذخیرہ ہے، لیکن آئندہ سردیوں کے لئے انہوں نے قطر اور متحدہ ارب امارات وغیرہ سے جو گیس خریدی ہے وہ انہیں اس قدر مہنگی پڑ رہی ہے کہ ان کی معیشتیںبرباد ہو کر رہ جائیں گی۔ ایسے میں یورپ جس بے دلی اور معاشی تباہی کے خطرے تلے جنگ لڑے گا اس کا نتیجہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ جوبائیڈن کا افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور مشرقِ بعید کے ممالک کا دورہ ناکام گیا ہے اور کوئی ملک بھی روس سے معاشی مقاطعہ کرنے کو تیار نہیں ہوا۔ اب ایک ہی سمندری راستہ بچا تھا یعنی بحیرۂ عرب۔

    اس کے ایک طویل ساحل پر ایران ہے جس کے میزائل اس وقت روس استعمال کر رہا ہے۔ باقی ساحل پاکستان کے پاس ہے، جو 1954ء سے ہی امریکہ کے لئے اپنی خدمات بسرو چشم پیش کرتا چلا آ رہا ہے۔ امریکہ نے اس دفعہ بھی 1958ئ، 1977ء اور 1999ء کی طرح یہ کوشش کی کہ طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ اس کی فرمانبردار اور مطیع سیاسی قیادت کو ’’رجیم چینج‘‘ سے اقتدار میں لا کر معاملات طے کر لئے جائیں، لیکن دس اپریل کی عوامی مزاحمت اور اس میں مسلسل اضافے نے امریکہ کا یہ پلان چکنا چُور کر دیا۔ پاکستان سٹڈی گروپ کے علاوہ سات ایسے امریکی تھنک ٹینک ہیں جنہوں نے جوبائیڈن انتظامیہ کو یہ مشورہ دیا ہے کہ پاکستان میں عوامی مقبولیت کے برعکس اگر کسی بھی قسم کی کوئی مہم جوئی (Adventure) کی گئی تو وہ خطرناک ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے پڑوس میں ایران، چین، افغانستان اور بھارت ایسے ممالک ہیں جہاں امریکی کا گھسنا بھی ناممکن ہے۔

    انہوں نے ایمن الظواہری والی غلطی کا ازالہ کرنے کیلئے طالبان سے پھر گفتگو کا آغاز تو کر دیا ہے لیکن اُمید بہت کم ہے۔ امریکی انتظامیہ یہ سمجھتی ہے کہ اگر انہوں نے پاکستان کی کسی غیر مقبول قیادت یا عوام کے غصے کا شکار اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کی تو اس کا نتیجہ ایران، چلّی اور انگولا جیسا نکل سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رابن رافیل جو اسی سٹڈی گروپ کی ممبر ہے اس کا پاکستان کا دورہ اور صرف عمران خان سے ملنا، ایک ایسا واقعہ تھا جس نے شہباز حکومت اور اس کے ہمرائیوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ امریکیوں نے پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنے کا فیصلہ تو کر لیا ہے مگر وہ اب کسی ایسے گھوڑے پر زین نہیں ڈالیں گے جو پُرجوش ہجوم کے سامنے بدک جائے۔

  • پاکستانی سیاست میں لندن پلانوں کی تاریخ …(2)- اوریا مقبول جان

    پاکستانی سیاست میں لندن پلانوں کی تاریخ …(2)- اوریا مقبول جان

    مغربی پاکستان کے طالع آزما سیاست دانوں سے مایوس ہونے کے بعد شیخ مجیب الرحمن جب براستہ لندن بنگلہ دیش پہنچ گیا تو باقی ماندہ پاکستان پر حکمرانی کرنے کا ذوالفقار علی بھٹو کا خواب پورا ہو گیا۔ اب اسے کسی قسم کا کوئی خطرہ باقی نہ رہا۔

    متحدہ پاکستان کی اکثریتی پارٹی کا سربراہ اور وزارتِ عظمیٰ کا حقیقی حقدار اب اس دعوے سے ہی دستبردار ہو چکا تھا۔ پاکستان کی سول بیوروکریسی نے بھی سُکھ کا سانس لیا، کہ انہیں ذہین بنگالیوں سے مقابلہ کرنا پڑتا تھا۔ ملٹری بیوروکریسی اس لئے خوش تھی کہ کہاں قدآور چوڑے سینوں والے پنجابی اور پٹھان اور کہاں وہ چھوٹے قد اور مختصر وجود والے بنگالی، بھلا ایک ہی صف میں کھڑے اچھے لگتے تھے؟ لیکن پاکستان کی قسمت میں ابھی ہوسِ اقتدار کی کشمکش کی لاتعداد داستانیں تحریر ہونا تھیں۔

    بھٹو کی سیاست کا جنم ہی مغربی پاکستان کے ون یونٹ کے دور سے ہوا تھا اور اسے چار صوبائی حکومتوں کی عادت ہی نہیں تھی۔ اس لئے اس کیلئے یہ سب ناقابلِ برداشت تھا کہ ایک ہی پاکستان میں، پنجاب اور سندھ میں تو اس کی پیپلز پارٹی حکمران ہو، مگر صوبہ سرحد اور بلوچستان میں اس کے مخالفین کی حکومت قائم ہو۔ منصوبہ سازوں نے ایک ایسا منصوبہ تیار کیا جس کے نتیجے میں بلوچستان پر چار سال ملٹری آپریشن کے ذریعے خاک اور خون کی آندھی مسلّط ہو گئی۔ اس منصوبے کا آغاز بھی ایک ’’لندن پلان‘‘ کے افشائے راز سے ہوا۔ پنجابیوں کا لہو گرمانے کیلئے 31 جنوری 1973ء کو نواب اکبر بگٹی سے لاہور کے موچی دروازے کے ایک سیاسی جلسے میں تقریر کروائی گئی۔

    اس نے وہاں اعلان کیا کہ ولی خان اور عطاء اللہ مینگل نے لندن میں اسے ایک منصوبے سے آگاہ کیا ہے کہ جس کے نتیجے میں ایک نیا ملک ’’آزاد بلوچستان‘‘ قائم ہو گا جو ایک یا دو عالمی طاقتوں کی زیر نگرانی محفوظ رہے گا۔ اکبر بگٹی نے یہ بھی بتایا کہ وہی غیر ملکی طاقتیں جو ’’گریٹر بلوچستان‘‘ کے منصوبے کی مدد کر رہی ہیں، ان کا ہیڈ کوارٹر بغداد ہے۔ فوراً بعد فروری 1973ء میں ہی بلوچستان میں گورنر راج لگا دیا گیا اور عطاء اللہ مینگل کی حکومت برطرف کر دی گئی۔ احتجاجاً سرحد حکومت نے بھی استعفیٰ دے دیا۔ اس نفرت انگیز فضا میں 23 مارچ 1973ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں نیشنل عوامی پارٹی کے جلسے پر بھٹو نے ایف ایس ایف اور پارٹی کے پرائیویٹ غنڈوں سے فائرنگ کروائی جس کے نتیجے میں درجنوں لوگ مارے گئے۔

    یہ جلسہ بھٹو کے ہاتھوں بلوچستان حکومت کے خاتمے پر احتجاج کیلئے ہو رہا تھا۔ بے شمار سیاسی رہنما افغانستان بھاگ گئے۔ بھٹو نے 10 فروری 1975ء کو نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا کر لیڈروں پر غدّداری کے مقدمات قائم کر دیئے جو ’’حیدر آباد ٹربیونل‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ جون 1975ء کو سپریم کورٹ نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی کی توثیق کر دی۔ اس لندن پلان کے دیئے گئے زخم بھی ایسے ہیں جن سے آج تک لہو رِس رہا ہے۔ بھٹو حکومت ختم ہوئی، ضیاء الحق آ گیا، غدّاری کے کیس واپس لے لئے گئے، بلوچوں کیلئے عام معافی کا اعلان ہوا مگر ان کی قیادت مین سٹریم سیاست سے دُور ہی رہی۔ بھٹو کی پھانسی نے ایک اور صوبے یعنی سندھ کو بھی احتجاجی سیاست میں جھونک دیا۔

    ضیاء الحق کی حالات پر گرفت مضبوط تھی کیونکہ افغانستان میں روس سے لڑائی نے ضیاء الحق کو امریکہ کی ضرورت بنا دیا تھا اور ایسے تمام سیاسی رہنما جو ضیاء الحق کے مخالف تھے ان کی اکثریت بیرونی اثر و نفوذ سے ملک کے باہر منتقل کر دی گئی تھی۔ بے نظیر بھٹو اور اس کا بھائی مرتضیٰ بھٹو، ایک لندن میں، دوسرا پیرس یا شام میں، بزنجو اور مینگل ساتھیوں سمیت لندن کی سرد ہوائوں میں گھومتے اور خیر بخش مری کابل یا ماسکو میں۔ غرض راوی ضیاء الحق کیلئے چین ہی چین لکھتا رہا کیونکہ یہ سارے لیڈر کسی لندن پلان کی صورت ضیاء دور میں آکسفورڈ سٹریٹ کی ٹھنڈی ہوائوں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔

    فروری 1988ء میں روسی فوجیوں نے جانا شروع کیا تو چھ ماہ کے اندر ہی اگست 1988ء میں ضیاء الحق اپنے ساتھیوں سمیت طیارہ حادثہ میں جاں بحق ہو گئے۔ لیکن افغان لڑائی کی وجہ سے جو امریکی سرپرستی ملی اس میں پاکستانی آئی ایس آئی اسقدر مضبوط، طاقتور اور منصوبہ ساز ہو چکی تھی کہ اب اس نے پاکستان میں ایک لولی لنگڑی اور ڈری سہمی ہوئی جمہوریت کا راستہ شروع کروایا۔ بے نظیر کی حکومت ایسی تھی جس میں پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ نے ایک دوسرے کو مصلحتاً برداشت کرنا شروع کیا تھا۔ لیکن اس حکومت کے بعد پاکستانی سیاست کا مرکز و محور، قبلہ و کعبہ اور پاور ہائوس مکمل طور پر لندن منتقل ہو گیا۔ اہم اور بڑے لیڈروں نے یا تو وہاں اپنے لئے ٹھکانے خرید لئے یا پھر ان کی پارٹی کے وفاداروں نے ان کیلئے ٹھکانے بنا دیئے۔

    لندن کی گلیاں اب پاکستان کے سیاسی رہنمائوں کی ’’کیٹ واک‘‘ کا منظر پیش کرنے لگیں۔ 1988ء میں ایک لسانی گروہ کراچی کی سیاست میں ایسا اُبھرا کہ الیکشن میں تمام سیٹیں جیت گیا۔ اس جیت نے پاکستانی سیاست کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔ ہر بڑی سیاسی پارٹی ایم کیو ایم کی دستِ نگر ہو گئی۔ لیکن لسانی و علاقائی کشمکش اسقدر بڑھی کہ اس گروہ پر 1992ء میں کریک ڈائون کرنا پڑا اور اس کا رہنما الطاف لندن چلا گیا۔ آج اسے وہاں آباد ہوئے ٹھیک تیس سال ہو چکے ہیں۔ یہ تیس سال پاکستان کے سب سے بڑے اور صنعتی شہر کو لندن سے بیٹھ کر چلانے یا “Govern” کرنے کی ایک ایسی مثال ہے کہ جس کا نعم البدل صرف اور صرف سسلی کے ان مافیاز میں نظر آتا ہے جن کے سربراہ نیو یارک اور شکاگو میں بیٹھ کر انہیں کنٹرول کیا کرتے تھے۔

    سیاست میں ایسا رنگ ڈھنگ صرف جلاوطن حکومتوں کا ہوتا ہے، جیسے آئرلینڈ کی جلاوطن حکومت امریکہ میں بیٹھ کر احکامات دیتی رہتی تھی۔ پاکستان میں مسلسل اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہونے کے باوجود احکامات لندن سے لینے کا رواج صرف اس بدقسمت ملک کے ہی نصیب میں آیا ہے۔ الطاف حسین کی جلاوطنی تو یہاں تک مسلسل اور مستقل ہو گئی کہ اس نے برطانوی شہریت بھی لے لی۔ لندن کی ہوائیں ہمارے سیاستدانوں کو ایسی بھائیں کہ پیپلز پارٹی میں آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کے سرے پیلس سے لے کر رحمن ملک کے پُر تعیش گھر تک اور نواز شریف کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹ سے لے کر ہر چھوٹی بڑی پارٹی کے لیڈروں تک، سب کے ٹھکانے وہیں بنتے چلے گئے۔

    یورپ میں دو شہر ایسے ہیں جو غریب اور پسماندہ ممالک کے مجرم سیاست دانوں اور ان کی دولت کیلئے محفوظ پناہ گاہ ہیں۔ ایک سوئٹزر لینڈ کا جنیوا جس کے بینکوں میں فلپائن کے مارکوس سے لے کر پاکستان کے آصف زرداری تک سب نے لوٹی ہوئی دولت جمع کروائی۔ جبکہ دوسرا شہر لندن ہے جہاں پر ایسے ہی پسماندہ ملکوں کے ’’بھگوڑے‘‘ حکمران پناہ لیتے ہیں، جیسے تھائی لینڈ کے دو وزرائے اعظم، تھاکسن اور شہناواترا ہوں، یا پاکستان کے دو وزرائے اعظم نواز شریف اور بے نظیر۔ ایک دوسرے کے مخالف، ایک دوسرے کی جان کے دشمن، لیکن لندن کے کیفوں، کافی شاپس اور شاپنگ مالز میں ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر۔ دنیا بھر کے ممالک سے آئے ہوئے سیاست دان اپنے ملکوں سے اتنی دولت ضرور لاتے ہیں کہ لندن میں کسی بڑے سے بڑے رئیس سے بھی کہیں بہتر زندگی گزار سکیں اور ایک عام برطانوی شہری انہیں رشک اور حسد کی نظروں سے دیکھے۔

    برطانوی پارلیمنٹ میں 2019ء میں ایک بحث کئی دن تک چلتی رہی کہ پسماندہ ممالک سے دولت لوٹ کر یہاں لانے والے سیاست دانوں نے لندن کی شاندار رہائش گاہوں کی قیمت اتنی بڑھا دی ہے کہ امیر سے امیر برطانوی شہری بھی اب وہاں گھر خریدنے کا سوچ نہیں سکتا۔ ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ پر 14 مئی 2006ء کو بے نظیر اور نواز شریف نے دستخط کئے تھے اور پھر اس کے بعد لندن بیٹھی ان دو شخصیات نے پاکستانی سیاست کا مرکز ہی وہاں منتقل کر دیا۔ آج سولہ سال گزرنے کے بعد ہمارا عالم یہ ہے کہ پہلے صرف سیاست تھی اور اب ہماری اسٹیبلشمنٹ کا مرکز بھی شاید لندن ہی شفٹ ہو چکا ہے۔

    اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں جو فیصلے 75 سال تک ہمیشہ پاکستان کی سرزمین پر ہوا کرتے تھے، سنا ہے اب وہ بھی لندن میں ہوا کریں گے۔ ہم نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ (ختم شد)

  • پاکستانی سیاست میں لندن پلانوں کی تاریخ  (1)- اوریا مقبول جان

    پاکستانی سیاست میں لندن پلانوں کی تاریخ (1)- اوریا مقبول جان

    سقوطِ ڈھاکہ کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو کو باقی ماندہ پاکستان کا صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر لگایا گیا تو ’’ہوش و حواس‘‘ بحال ہوتے ہی بھٹو نے آہستہ آہستہ مشرقی پاکستان کو بحیثیت بنگلہ دیش تسلیم کرنے کی ایک خاموش مہم کا آغاز کر دیا۔

    اس وقت قوم انتہائی جذباتی کیفیت میں تھی اور کوئی یہ نام سننے کو بھی تیار نہ تھا۔ یہ شکست نہ صرف پاکستان کے مسلمانوں کیلئے پژمردگی اور خجالت کا باعث تھی بلکہ اُمتِ مسلمہ کے بیشتر افراد اسے مسلمانوں کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ قرار دیتے تھے۔ سعودی عرب میں شاہ فیصل حکمران تھے۔ بنگلہ دیش سے حاجیوں کا جہاز نوزائیدہ ملک کا پرچم لہراتا ہوا جب جدہ کے قریب پہنچا تو سعودی حکومت نے اس کے داخلے پر پابندی لگا دی اور اس شرط پر اندر آنے دیا کہ پاکستانی پرچم لہرا کر بندر گاہ پر آئیں۔ اس جذباتی فضا میں پاکستان کی میانوالی جیل میں ایک اہم قیدی شیخ مجیب الرحمن قید تھا۔ اسے 25 مارچ 1971ء کو اس کی رہائش گاہ دھان منڈی سے گرفتار کر کے پہلے فیصل آباد اور پھر میانوالی جیل میں رکھا گیا۔

    وہ نو ماہ تک زیر حراست رہا اور پھر اسے 8 جنوری 1972ء کو اچانک لندن پہنچا دیا گیا۔ شیخ مجیب الرحمن کی رہائی کے ساتھ ہی لاتعداد کہانیاں پورے ملک میں گردش کرنے لگیں۔ ان میں سے سب سے اہم یہ تھی کہ شیخ مجیب نے جانے سے پہلے بھٹو کو کہا تھا کہ میں منتخب وزیر اعظم ہوں، میں ٹی وی پر آ کر تقریر کرتا ہوں کہ انڈیا فوراً اپنی افواج مشرقی پاکستان سے نکالے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کے جیالے اس الزام کی سختی سے تردید کرتے پھرتے تھے مگر پچاس سال بعد جیسے ہی امریکی دستاویزات کھولی جاتی ہیں، شیخ مجیب الرحمن کی سکیورٹی پر تعینات راجہ انار خان نے 2015ء میں اسی طرح پوری کہانی کو طشت از بام کر دیا۔ راجہ انار خان سپیشل برانچ کا ایک انسپکٹر تھا جسے ایک قیدی کی حیثیت سے شیخ مجیب کے ساتھ جیل میں رکھا گیا تھا۔

    اسکے بقول ان نو مہینوں میں شیخ مجیب کو اخبارات، رسائل، ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے بالکل محروم رکھا گیا اور اسے کچھ خبر نہیں تھی کہ اس کا مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن چکا ہے۔ راجہ انار خان کے مطابق 20 دسمبر 1971ء کو صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھٹو شیخ مجیب سے ملنے میانوالی جیل آیا۔ مجیب حیران ہو کر بولا، آپ یہاں کیسے؟ بھٹو نے کہا کہ میں صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہوں۔ مجیب نے حیرت سے پوچھا، یہ کیسے، بھٹو نے جواب دیا، مشرقی پاکستان پر قبضہ ہو چکا ہے، بھارت کے سامنے پاکستانیوں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اور جنرل یحییٰ نے استعفٰے دے دیا ہے۔ شیخ مجیب یہ سنتے ہی غصے میں آگ بگولا ہو کر کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور تحقیر آمیز لہجے میں بولا، ’’یہ کیسے ممکن ہے، تم کیسے صدر بن سکتے ہو، تم تو ایک شکست خوردہ شخص ہو۔ تمہاری پارٹی تو الیکشنوں میں ایک اقلیتی پارٹی تھی، میں اکثریتی پارٹی کا لیڈر ہوں۔ یہ میرا حق ہے کہ میں صدر کی کرسی پر بیٹھوں۔

    مجھے فوراً ریڈیو یا ٹیلی ویژن پر لے چلو اور میں اس سب کے خلاف بات کروں گا اور مشرقی پاکستان کو واپس ساتھ لے آئوں گا۔ میں ہی ان تمام چیزوں کو ختم کروا سکتا ہوں‘‘۔ بھٹو نے اسے ہاتھ کے اشارے سے کہا، اطمینان کرو، اب یہ ایک حقیقت ہے، بیٹھ جائو۔ شیخ مجیب بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ یہ سب عوامی لیگ کے تاج الدین احمد کی کارستانی ہے جسے جلاوطن حکومت کا وزیر اعظم بنایا گیا تھا، یقیناً اس نے بھارت کے ساتھ سازباز کی ہو گی۔ یہ تمام گفتگو راجہ انار خان پردے کے پیچھے کھڑا سن رہا تھا، جو اس نے پچاس سال بعد بتائی۔ اس نے بتایا کہ بھٹو کے جانے کے بعد مجیب نے خود کو کمرے میں بند کر لیا اور وہ دروازہ پیٹنے پر بھی دروازہ نہیں کھولتا تھا۔ کافی دیر بعد وہ مصلے پر سجدہ ریز ہوا اور روتے ہوئے زور زور سے پکارا۔

    یااللہ یہ کیسے ہو گیا، میں تو یہ نہیں چاہتا تھا۔ اسی کہانی کو سٹینلے والپورٹ (Stanly Walpert) نے اپنی کتاب ’’زلفی بھٹو آف پاکستان‘‘ میں بھی لکھا ہے کہ مجیب نے بھٹو کو پیشکش کی تھی کہ ’’ہم دونوں ملکوں کی کنفیڈریشن بنا لیتے ہیں۔ سب مجھ پر چھوڑ دو، مجھ پر بھروسہ کرو‘‘، یہی وجہ ہے کہ حمود الرحمن کمیشن کے سامنے یحییٰ خان نے حلف پر جو بیان جمع کروایا ہے اس میں اس نے تحریر کیا :۔ “It was Bhutto, not Mujib, who broke Pakistan” (یہ بھٹو تھا، جس نے پاکستان توڑا، مجیب نہیں)۔ مجیب چاہتا تھا کہ اسے ریڈ کراس کے حوالے کیا جائے یا ڈھاکہ بھیجا جائے لیکن بھٹو نے اسے براہِ راست بنگلہ دیش بھیجنے کی بجائے لندن بھیجا۔ لندن جو تخلیقِ پاکستان سے لے کر آج تک ہمارے فیصلوں پر مسلسل اثر انداز ہوتا چلا آ رہا ہے۔ عالمی طاقت امریکہ بھی اس خطے میں کام کرنے کیلئے برطانوی خفیہ ایجنسیوں سے براہِ راست رہنمائی لیتی ہے۔

    شیخ مجیب کے لندن ایئر پورٹ پر اترنے کے فوراً بعد لندن کا کھیل شروع ہوا۔ جہاز کے اترنے سے پہلے ہی اندرا گاندھی اور برطانوی وزیر اعظم ایڈورڈ ہیتھ کے درمیان فون پر گفتگو ہوئی، جس میں اندرا گاندھی نے کہا کہ وہ خصوصی طیارہ بھجوا رہی ہے تاکہ مجیب کو براستہ نیو دلّی، ڈھاکہ پہنچایا جا سکے۔ یہاں سے لندن پلان کا آغاز ہوا۔ تین لوگوں کو اس طیارے میں بھیجا گیا، بھارتی ’’رائ‘‘ کا سربراہ رام ناتھ کائو، اندرا گاندھی کا سپیشل ایڈوائزر پی این لکیسر اور سیکرٹری خارجہ ٹی این کول۔ باقی دو لوگ تو دیگر سفارتی ضروریات کیلئے گئے تھے جبکہ اصل کردار ’’رائ‘‘ کے چیف رام ناتھ کائو کا تھا۔ اترتے ہی مجیب الرحمن سے میٹنگ شروع ہوئی جسے برطانوی حکومت نے خصوصی طور پر منعقد کروایا تھا اور جو تین گھنٹے تک جاری رہی۔

    مجیب پاکستان خصوصاً بھٹو سے مایوس ہو کر آیا تھا اور یہاں آنے پر اسکے پاس گزشتہ نو ماہ میں بنگالیوں پر ہونے والے مظالم کی کہانیاں بھی پہنچ چکی تھیں اس لئے وہ بدلا ہوا نظر آ رہا تھا۔ بقول تفضل مانک میاں ایڈیٹر ’’اتفاق‘‘، کہ مجیب کو پاکستانی افواج کے مظالم کے تمام شواہد برطانوی خفیہ ایجنسی M16 نے اترتے ہی فراہم کر دیئے تھے۔ کائو کے مطابق اس کی حیرانی کی اس وقت انتہاء نہ رہی جب شیخ مجیب الرحمن نے اسے ایک لفافہ تھمایا جس میں ایک خط تھا جو اس نے 23 دسمبر 1962ء کو بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو لکھا تھا کہ وہ بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک میں اس کی مدد کرے۔

    کائو نے سوچا کہ جیل سے آنے والے مجیب کے پاس یہ لفافہ کہاں سے آ گیا، پھر مجیب سے سوال کیا کہ اگر بھارت اس کی مدد نہ کرتا تو کیا اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ تھا۔ مجیب نے کہا بالکل نہیں۔ کائو لکھتا ہے کہ جب میں نے ’’رائ‘‘ کی فائلیں نکالیں تو پتہ چلا کہ شیخ مجیب کو اس شرط پر مدد کیلئے کہا گیا تھاکہ اس کی تحریک بنگالی قوم پرستی، سیکولر ازم، لبرل ازم اور گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے پر مبنی ہو۔ تیرہ گھنٹے لمبی فلائٹ میں ایک لمحے کیلئے مجیب نے کائو کے کان میں سرگوشی کی کہ تم میری اندرا گاندھی سے ملاقات کرائو، میں اس سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ 31 مارچ تک بھارتی افواج بنگلہ دیش سے نکال لے۔ کائو کہتا ہے کہ اسے اندازہ ہو گیا کہ یہ بات مجیب کو ایڈورڈ ہیتھ نے ہی سکھائی ہو گی.

    کیونکہ جب ہیتھ مجیب سے ملا تو اس نے کہا تھا کہ ہم تمہاری ہر طرح کی مدد کریں گے، لیکن ہم تمہیں تسلیم اسی وقت کریں گے جب بھارتی افواج وہاں سے نکلیں گی۔ یہ تھا پہلا اہم لندن پلان جو پاکستان ہی نہیں بھارت کے بھی خلاف استعمال ہوا۔ (جاری)

  • رابن رافیل کون؟ کس مشن پر؟ ……(2) – اوریا مقبول جان

    رابن رافیل کون؟ کس مشن پر؟ ……(2) – اوریا مقبول جان

    رابن رافیل جب سے ’’اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے جنوبی و سنٹرل ایشیا‘‘ تعینات ہوئی بھارتی میڈیا کی نفرت کا نشانہ بنی رہی۔ اس نے اپنی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ (Disputed territory) قرار دیا۔ اقوام متحدہ میں ستمبر 1994ء میں پاکستان کی طرف سے پیش کی جانیوالی قرارداد کی حمایت میں اس نے پاکستان میں امریکی سفیر سے فون پر گفتگو کی۔

    قرارداد کشمیریوں پر مظالم کی مذمت پر مبنی تھی۔ اس کی اس گفتگو کو بھارتی خفیہ ایجنسی ’’رائ‘‘ (Raw) نے ٹیپ کر کے امریکی حکام کو پہنچایا۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ کرس سری نواسن نے ریٹائرمنٹ کے بعد 2012ء میں، 17 سال بعد اپنی کتاب میں انکشاف کیا کہ اس ریکارڈنگ کے بعد امریکی حکام سے احتجاج کیا گیا اور کہا گیا کہ وہ پاکستان کی قرارداد کی مخالفت کریں۔ بھارتی وزیر خارجہ نرسیما رائو نے بہت زور دیا، لیکن امریکیوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اگر ہم خلاف ووٹ دیں گے تو کشمیر میں دہشت گردی میں اضافہ ہو گا، البتہ انہوں نے حمایت نہیں کی۔ جب 2014ء میں رابن رافیل کے خلاف ایف بی آئی کی انکوائری شروع ہوئی تو ’’رائ‘‘ کی یہ ریکارڈنگ بھی اسکے خلاف استعمال کی گئی۔

    بھارتی میڈیا اس دن سے رابن رافیل کو “Brazenly Pro- Pakistan Partisan” ’’بے حیائی کی حد تک پاکستان کی طرفدار‘‘ لکھتا چلا آ رہا ہے۔ رافیل کی وجہ سے ہی صدر بل کلنٹن کے دونوں ادوار میں کشمیر کا موضوع ’’امریکہ پاکستان دو طرفہ مذاکرات‘‘ میں اور ’’بھارت پاکستان کے دو طرفہ مذاکرات‘‘ میں بھی ایجنڈے کا حصہ بنا رہا ہے۔ یہ اہم پیش رفت بینظیر کے اپریل 1995ء کے امریکہ کے دورے سے شروع ہوئی۔ انہی دنوں جب پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی نے پریسلر ترمیم کے تحت پاکستان پر لگائی گئی پابندیاں اٹھانے کیلئے کانگریس کی مدد چاہی اور برائون ترمیم پیش ہوئی تو اس کو رابن رافیل اور بل کلنٹن نے بہت سپورٹ کیا۔ جس کی وجہ سے نومبر 1995ء میں پاکستان کو ایک دفعہ کیلئے 368 ملین ڈالر کے اسلحے کی خریداری کی اجازت دے دی گئی۔

    اس واقعے کے بعد تو بھارت کے میڈیا نے رافیل کے خلاف جیسے ایک محاذ بنا لیا اور اسے آج تک پاکستان کا اثاثہ (Pakistani asset) لکھتے چلے آ رہے ہیں۔ 13 نومبر 1994ء کو قندھار کی فتح کے بعد جب ملا محمد عمرؒ کی حکومت قائم ہوئی تو اس واقعہ نے نہ صرف پاکستان کی تمام خفیہ ایجنسیوں کو حیرت میں ڈال دیا، بلکہ امریکہ سمیت اہم ممالک کے سفارت خانوں میں موجود خفیہ والے بھی حیران تھے کہ یہ ’’معجزہ‘‘ کیسے ہو گیا ہے۔ طالبان سے پہلے افغانستان میں خانہ جنگی عروج پر تھی، یہاں تک کہ پاکستان کے این ایل سی کے ٹرکوں کے ایک قافلے کو بھی اغوا کر لیا گیا تھا اور ’’مجاہدین‘‘ میں سے کوئی بھی پاکستانی حکام کی سنتا نہیں تھا۔ لیکن طالبان نے اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے این ایل سی کے پاکستانی قافلے کو چھڑوایا۔

    طالبان کے بارے میں حیرت کا یہ عالم دو تین ماہ تک جاری رہا۔ کوئٹہ میں منعقد اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں ’’خفیہ‘‘ کے ’’جگاوری‘‘ اور افغان مجاہدین سے تعلق پر کیریئر بنانے والے بڑے بڑے افسران پوچھتے پھرتے تھے کہ یہ طالبان کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ یہ اس طرح کیسے فتوحات پر فتوحات حاصل کر رہے ہیں؟ انہوں نے وہاں اتنی جلدی امن کیسے قائم کر لیا ہے؟۔ 1986ء سے 1990ء تک میری قندھار کے پڑوس میں واقعہ چمن اور پشین میں کئی بار پوسٹنگ رہی تھی اور طالبان قیادت کی اکثریت انہی علاقوں میں موجود ہوا کرتی تھی، مگر خاموش اور پاکستانی ایجنسیوں سے خاصی دُور۔ ایجنسیاں اسی لئے انکے بارے میں بہت کم جانتی تھیں اور مجھ سے بار بار معلومات حاصل کرتی رہتیں.

    خاص طور پر ملا محمد عمرؒ کی پُراسرار شخصیت کے بارے میں ہر کوئی نت نئے سوالات گھڑ کر لاتا۔ ٹھیک تین ماہ بعد، 13 فروری 1995ء کو پاکستان میں موجود امریکی سفارت کاروں کا ایک وفد طالبان عہدیداروں سے ملنے قندھار گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں رابن رافیل بھی موجود تھی، لیکن میری کوشش کے باوجود تصدیق نہ ہو سکی، کیونکہ طالبان تو ان میں سے کسی ایک کو بھی پہچانتے نہیں تھے۔ امریکی وفد نے بار بار ان سے ملا محمد عمرؒ، اور ان کی قیادت کے بارے میں سوالات کئے، مگر طالبان نے کسی بھی قسم کی معلومات دینے سے انکار کر دیا۔ ملاقات سے امریکیوں کا تاثر یہ تھا کہ طالبان کا روّیہ امریکہ کے بارے میں مخالفانہ نہیں، بلکہ دوستانہ قسم کا ہے۔ اس ملاقات کے ٹھیک ایک ہفتے کے بعد ایک رپورٹ کے مطابق ایک اہم امریکی سفارت کار پھر طالبان سے ملا یا ملی، جس کے بارے میں اندازہ ہے کہ وہ بھی رابن رافیل تھی۔

    اس اہلکار کی ایک رپورٹ بغیر نام کے، امریکہ کے شائع شدہ سکیورٹی پیپرز میں موجود ہے۔ ان “Unclassified” پیپرز کے مطابق ’’طالبان‘‘ امریکہ کی صاف گوئی کو پسند کرتے ہیں، لیکن پاکستان اور سعودی عرب کی حکومتوں کی دوغلی پالیسیوں پر انہیں بھروسہ نہیں ہے۔ اسی دوران میرے ساتھ بھی ایک اہم واقعہ پیش آیا۔ مجھے امریکی سفیر سائمن ڈی جونیئر کی جانب سے 1996ء کے آغاز میں ایک دعوت نامہ موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ امریکی عوام اور حکومت کی خواہش ہے کہ ’’میں امریکہ کا مطالعاتی دورہ کروں‘‘۔ یہ دورہ امریکہ کے وزیٹرز (visitors) پروگرام کے تحت تھا۔ اس پروگرام میں پاکستان سے گورنر جنرل غلام محمد اور صدر غلام اسحاق بھی امریکہ جا چکے تھے۔

    یہ ایک بہت بڑا پروگرام ہے جو تمام ملکوں کے اہم لوگوں کو امریکہ اپنی مہمانی کے ذریعے جال میں پھنسانے کی کوشش کرتا ہے۔ مصر کے انوارالسادات اور بھارت سے اندرا گاندھی بھی اسی پروگرام کے تحت امریکہ یاترا کر چکی ہیں۔ پندرہ جون 1996ء سے 16 جولائی 1996ء تک ایک ماہ مجھے امریکہ کی لاتعداد ریاستوں میں گھمایا گیا اور وزارت خارجہ سے لے کر پینٹاگون تک ہر وزارت کا دورہ بھی کروایا گیا۔ بظاہر یہ دورہ ایک آٹھ رکنی گروپ کے ساتھ ہوتا رہا، لیکن مجھ سے علیحدگی میں لاتعداد ایسی ملاقاتیں کی گئیں جن میں مجھ سے صرف اور صرف طالبان اور ملا محمد عمرؒ کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ میری معلومات بھی واجبی سی تھیں اور ظاہر بات ہے طالبان نے خود کو خاصا محدود رکھا ہوا تھا، اس لئے میں ان کیلئے کوئی زیادہ سود مند ثابت نہیں ہو سکا۔ غرض امریکی طالبان کے ساتھ تعلقات بنانے کیلئے بہت ہی بے چین تھے اور مسلسل مذاکرات کئے جا رہے تھے۔

    کئی سالوں پر محیط ان مذاکرات کا مرکزی کردار رابن رافیل ہی تھی، جو بار بار طالبان سے ملنے قندھار آتی جاتی رہتی اور کوئٹہ میں بھی لاتعداد لوگوں سے ملاقاتیں کرتی نظر آتی۔ انہی ملاقاتوں اور رابطوں کا نتیجہ بالآخر یہ نکلا کہ پاکستان میں امریکی سفیر تھامسن ڈبلیو سائمنز نے رابن رافیل کو لکھا کہ صدر کلنٹن کو بتایا جائے کہ طالبان کی خواہش ہے کہ وہ مغرب کے سامنے اپنا یہ تصور ختم کریں کہ وہ برے لوگ (Bad People) ہیں۔ معاملات یقیناً بہتر ہو جاتے مگر اُسامہ بن لادن کی موجودگی نے مسئلہ اُلجھا دیا۔ اُسامہ کو سوڈان سے امریکی سفیر ٹموتھی کارنی (Timothy Caney) نے جلا وطن کروایا تھا اور وہ سیدھا جلال آباد آ گیا تھا۔ جب طالبان نے کابل کے ساتھ جلال آباد پر بھی قبضہ کیا تو اُسامہ طالبان سے پہلے ہی سے وہاں پر موجود تھا۔

    کابل کی فتح کے صرف نو دن بعد ہی طالبان حکومت کو امریکی وزیر خارجہ وارن کرسٹوفر کا یہ پیغام پہنچایا گیا ’’ہم طالبان سے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ اسکے نتیجے میں امریکی سفیر کی ملاقات طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ ملا غوث سے ہوئی۔ ملا غوث نے کہا کہ ہمارے ہاں موجود تمام جہادی کسی دوسرے ملک میں تخریب کاری میں بالکل ملوث نہیں ہیں اور ہم امریکیوں کو انکے کیمپوں کا دورہ بھی کروا سکتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی پیشکش تھی جس کے بعد مذاکرات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا جس کا مرکزی کردار بھی رابن رافیل ہی تھی۔ (جاری ہے)

  • رابن رافیل کون، کس مشن پر- اوریا مقبول جان

    رابن رافیل کون، کس مشن پر- اوریا مقبول جان

    امریکی فیڈرل بیورو آف امیگریشن (ایف بی آئی) کی ٹیمیں 21 اکتوبر 2014ء کو واشنگٹن کے ایک گھر میں داخل ہوئیں اور پورے گھر کی تفصیلی تلاشی لی گئی۔ اس آپریشن کو ان کی زبان میں “Sneak and Peek” (جھانکنا اور ڈھونڈنا) کہتے ہیں۔

    وہ اس گھر سے لاتعداد بکسے اور بیگ اپنے ساتھ لے گئے جن کے بارے میں انہوں نے بعد میں بتایا کہ ان میں سے بیس سال پرانی امریکی خفیہ دستاویزات برآمد ہوئی ہیں۔ یہ گھر امریکی سفارت کار اور پاکستان، افغانستان اور خطے کے دیگر ممالک کے حوالے سے کئی سال تک اہم ترین عہدوں پر فائز رہنے والی شخصیت رابن رافیل کا تھا۔ رابن رافیل پر یہ الزام تھا کہ اس نے امریکہ کے کچھ اہم راز پاکستانی حکومت کے افراد کو فراہم کئے ہیں۔

    ایف بی آئی نے بتایا کہ فروری 2013ء میں رابن رافیل کی کچھ پاکستانی شخصیات کے ساتھ فون پر گفتگو، ای میلز یہاں تک کہ اسکے سوشل میڈیا کے اکائونٹ اور سکائپ وغیرہ سے ایسا مواد موصول ہوا تھا، جس سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ پاکستان کی اہم شخصیات کو امریکہ کی خفیہ معلومات بتا کر ان کیلئے جاسوسی کرنے کی مرتکب ہوئی ہے۔ ایف بی آئی کے اس چھاپے کے ساتھ ہی رابن رافیل کی سکیورٹی کلیرنس ختم کر دی گئی اور اسکے دفتر پر تالہ لگا کر اسے جبری رخصت پر بھیج دیا گیا۔ اس کا امریکی دفتر خارجہ کے ساتھ کنٹریکٹ 2 نومبر 2014ء کو ختم ہو رہا تھا، اسے بھی مزید نہیں بڑھایا گیا۔

    رابن رافیل پورا ایک سال تک ایف بی آئی کی اس تفتیش کا سامنا کرتی رہی۔ ایف بی آئی والے اسے مجبور کرتے رہے کہ وہ عدالت کے سامنے اپنے اس جرم کا اقرار کر لے کہ اس نے پاکستان کیلئے جاسوسی کی ہے، کیونکہ اس کے گھر میں بیس سال پرانے خفیہ کاغذات کی موجودگی اور فون پر گفتگو کا اور کوئی جواز نہیں ہے۔ ایف بی آئی نے امریکی محکمہ انصاف کو اسکے متعلق مواد فراہم کر دیا تاکہ وہ اس پر جاسوسی کے الزام میں مقدمہ آگے بڑھائے۔ لیکن صرف کاغذات کی موجودگی اور ٹیلیفون کی گفتگو سے زیادہ شواہد نہ مل سکے اور 2015ء میں رابن رافیل کے وکیل کو یہ تو بتا دیا گیا کہ اس پر جاسوسی کا مقدمہ نہیں چلے گا، لیکن تفتیش پھر بھی جاری رکھی گئی۔

    ٹھیک ایک سال بعد محکمہ انصاف نے اپنی تفتیش یہ کہہ کر ختم کر دی کہ ہمیں عدالت میں مقدمہ چلانے کیلئے مناسب ثبوت نہیں مل سکے۔ ضیاء الحق کے ساتھ طیارے میں مارے جانے والے امریکی سفیر آرنلڈ رافیل کی بیوی رابن رافیل، پاکستان اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے بہت اہم امریکی شخصیت ہے۔ اس نے اپنی نوکری کا آغاز مشہور امریکی خفیہ ایجنسی ’’سی آئی اے‘‘ کے ساتھ ایک تجزیہ کار (Analyst) کے طور پر کیا تھا۔ سی آئی اے میں اس کی بھرتی کی بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جب اس نے کیمبرج یونیورسٹی سے تاریخ میں اپنی ڈگری حاصل کی تو اسکے فوراً بعد وہ 1970ء میں تہران (ایران) کے ایک خواتین کے کالج جس کا نام ’’دماوند کالج‘‘ تھا، اس میں دو سال تاریخ پڑھاتی رہی۔

    اسکے بعد وہ پاکستان میں موجود ’’یو ایس ایڈ‘‘ کے پروگرام میں ایک ماہر تجزیہ کار کی حیثیت سے نوکری کرنے لگی۔ ایران، پاکستان کے اس اہم تجربے اور پھر سی آئی اے میں تعیناتی۔ یہ تمام سیڑھیاں چڑھتی ہوئی رابن رافیل نے 1978ء میں امریکی وزارتِ خارجہ میں بحیثیت سفارتکار اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ نوکری کے کم از کم پہلے دس سال کا عرصہ وہ لاتعداد سفارت خانوں میں تعینات رہی۔ جب اس کا شوہر ضیاء الحق کے ساتھ طیارے میں مارا گیا، وہ اسوقت جنوبی افریقہ کے امریکی سفارت خانے میں تھی۔ وہ اکثر پاکستان آیا کرتی اور بحیثیت ایک سفیر کی بیوی، اسکے پاکستان کے حکومتی اور دیگر افراد سے اچھے خاصے تعلقات استوار ہو گئے تھے۔

    ایران اور پاکستان کے تجربے کے بعد اسے 1991ء میں دلّی میں امریکی سفارت خانے میں سیاسی نمائندہ (Political Counciler) کے طور پر تعینات کیا گیا۔ اسکی سفارت کاری کا یہ ابتدائی دور ایسا تھا جب امریکہ پاکستان کے توسط سے سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں جنگ لڑ رہا تھا، ساتھ ہی پڑوس میں ایران تھا، جہاں آیت اللہ خمینی کے انقلاب نے اس ملک کو امریکیوں کیلئے ’’نو گو ایریا‘‘ بنا رکھا تھا۔ سوویت یونین کی افواج جب افغانستان سے رخصت ہوئیں تو آخری روسی سپاہی کے 15 فروری 1989ء کو نکلتے ہی امریکی امداد کے سارے اداروں اور عالمی سماجی اور رفاحی تنظیموں نے بھی وہاں سے اپنا بوریا بستر لپیٹا اور چلتے بنے۔ سوویت یونین بکھرا تو امریکی بھی اس خطے سے تقریباً لاتعلق ہوتے چلے گئے۔

    امریکی اب پاکستانی حکمرانوں کو زبردستی مجبور کر کے افغانستان میں ایسی حکومتیں بنوانے میں لگے ہوئے تھے جن سے وہاں مزید بدامنی اور خون خرابہ پیدا ہو۔ اسکی اہم ترین مثال نواز شریف کی پشاور میں افغان حکومت سازی کی وہ میٹنگ ہے جس میں تقریباً یہ طے ہو گیا تھا کہ مجاہدین کے کون سے بڑے گروہ مل کر حکومت بنائیں گے، مگر اچانک میٹنگ کے دوران آنے والی ایک اہم امریکی سفارت کار کی کال سے سارا نقشہ ہی بدل گیا اور مجاہدین کے ایک غیر اہم گروہ ’’جبّہ نجات ملی‘‘ (نیشنل لبریشن فرنٹ) کے سربراہ صبغت اللہ مجددی کو ناروے کی مسجد سے بلا کر 28 اپریل 1992ء کو افغانستان کا عبوری سربراہ بنا دیا گیا۔ اسکی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مجددی ان علمائے کرام میں سے تھا جو مغرب کیلئے نرم گوشہ رکھتے تھے۔

    وہ شہنشاہیت کو واپس لا کر اسکے زیرسایہ ایک اسلامی ریپبلک چاہتا تھا۔ پاکستان کی اب ضرورت اسقدر باقی نہیں رہی تھی مگر امریکہ کی آنکھوں میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام کھٹک رہا تھا۔ پاکستان نے ابھی تک ایٹمی دھماکہ نہیں کیا تھا لیکن مارچ 1987ء میں جب ’’مسلم‘‘ اخبار کے ایڈیٹر مشاہد حسین سیّد نے بھارتی صحافی کلدیپ نیئر سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا 70 منٹ طویل انٹرویو کروایا، جس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ ’’ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم ہو‘‘۔ جیسے ہی یہ انٹرویو لندن ’’آبزرور‘‘ میں چھپا تو پوری دُنیا کے کان کھڑے ہو گئے۔

    دنیا بھر کو شک نہیں بلکہ یقین تھا کہ پاکستان ایک غیر اعلانیہ ایٹمی قوت بن چکا ہے۔ انہی بدلتے ہوئے حالات میں امریکی وزارت خارجہ نے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے جنوبی و سنٹرل ایشین افیئرز کی ایک نئی پوسٹ تخلیق کی جس کے مقاصد میں افغانستان کے ابھرتے مسائل، پاکستان بھارت کشمکش، جمہوریت کا فروغ، ایٹمی ٹیکنالوجی کی غیر قانونی منتقلی، اسلامی شدت پسندی، غربت اور حقوقِ نسواں کا تحفظ شامل تھا۔ یہی وہ ماہ و سال تھے جب افغانستان کے جنوب مشرقی علاقے، خصوصاً قندھار میں افغانستان میں جاری خونریزی اور قتل و غارت کے خلاف ایک ردّعمل منظم ہو رہا تھا اور ایک گروہ ملا محمد عمرؒ کی قیادت میں حالات کو بدلنے کیلئے تدبیریں سوچ رہا تھا۔

    رابن رافیل کو اسی دور میں ہم نے پہلی دفعہ کوئٹہ کی سڑکوں اور سرینا ہوٹل کی لابیوں میں بار بار دیکھا اور سرکاری میٹنگوں میں اسکی بے تکان گفتگو سے امریکیوں کے ’’مبینہ‘‘ ارادے سے آگہی حاصل ہوئی۔ ملا محمد عمرؒ کے طالبان کی افغانستان پر حکومت قائم ہوئی تو رابن رافیل کا جیسے ٹھکانہ ہی کوئٹہ اور ملحقہ افغانستان بن گیا۔ (جاری ہے)

  • قارون صفت دانشوری اور اللہ کی ناراضگی – اوریا مقبول جان

    قارون صفت دانشوری اور اللہ کی ناراضگی – اوریا مقبول جان

    علامہ اقبالؒ نے جب عین عفوانِ شباب میں اپنی شہرۂ آفاق نظم ’’شکوہ‘‘ تحریر کی تو وہ ایک خوگر حمد کا انتہائی مؤدب گلہ تھا۔ اس ساری نظم کا مرکزی شعر تھا:۔ رحمتیں ہیں تِری اغیار کے کاشانوں پر برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر اقبالؒ کی نظم ’’شکوہ‘‘ ایک عام مسلمان کے جذبات کی ترجمانی تھی جو اس دَور میں ذِلّت و رُسوائی کا شکار تھا، لیکن ’’شکوہ‘‘ کے جواب میں لکھی جانے والی نظم ’’جوابِ شکوہ‘‘ اپنے اندر ایک الہامی کیفیت لئے ہوئے ہے۔

    ایسے لگتا ہے پوری نظم ایک نعت ہے جو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اتباع کو اُمت کے تمام مسائل کا حل بتاتے ہوئے اس آخری شعر کی جانب کشاں کشاں لئے جا رہی ہے۔ کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا کا اصل مفہوم، جو قرآن نے بتلایا، وہ یہ ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں آپؐ کی پیروی کی جائے۔ ’’اے نبیؐ! کہہ دو کہ، اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا‘‘ (آلِ عمران: 31)۔

    یہ پیروی زندگی کے ہر شعبے میں لازم ہے، خواہ سیاست ہو یا تجارت، خاندان ہو یا قبیلہ۔ اللہ کی ناراضگی، عذاب یا آزمائش کی بنیادی وجہ یہ نہیں کہ آپ اللہ کے منکر ہو جائیں، ملحد بن کر اس کی ذات کا انکار کر دیں اور اپنی زندگیاں سیکولر، لبرل اور روشن خیال طرزِ معاشرت پر گزارنے لگیں۔ اللہ اپنے انکار پر انسان کو اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے دیتا ہے۔ وہ کسی کے رزق میں کمی نہیں کرتا، مگر وہ ایک بات کا اعلان کر دیتا ہے کہ تم اللہ کے وجود کا انکار اور احکامات کی ہنسی اُڑاتے ہو تو پھر، ’’وہ ان کی رسی دراز کئے جاتا ہے اور یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکتے چلے جاتے ہیں‘‘ (البقرہ: 15)۔

    اللہ ایسے لوگوں کی سزا و جزا، روزِ قیامت پر رکھ چھوڑتا ہے۔ لیکن دُنیا میں اللہ کا غصہ، ناراضگی اور غضب تو ہوتا ہی مسلمانوں کے لئے ہے، جو اللہ تبارک و تعالیٰ کو واحد مالک و مختار ماننے کے بعد اسکے احکامات پر عمل نہیں کرتے۔ یہ روش بالکل ایسے ہے جیسے آپ کسی کلب کی ممبر شپ لیں، کسی ملٹری یا سول سروس کی اکیڈیمی میں داخل ہوں، ان کے قواعد و ضوابط پر عمل کرنے کے عہد نامے پر دستخط کریں، مگر ڈھٹائی کے ساتھ کچھ قواعد کو مانیں اور کچھ کو نہ مانیں تو آپ سزا کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ ایسے ہی ان مسلمانوں کو جو اللہ کے کچھ احکامات کو مانیں اور کچھ کا انکار کریں، اللہ دُنیا میں بھی سزا ضرور دیتا ہے۔

    ’’تو کیا تم اللہ کے بعض احکامات کو مانتے ہو اور بعض سے انکار کرتے ہو، تو جو تم میں سے ایسا کرے گا، تو اس کا بدلہ دُنیا کی زندگی میں ذِلّت و رُسوائی کے سوا اور کیا ہے‘‘ (البقرہ: 85)۔ یہ ہے اقبالؒ کے اس شکوے ’’برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر‘‘ کا قرآنی جواب، جسے اقبالؒ نے ’’جوابِ شکوہ‘‘ کے تمام اشعار میں منظوم کیا ہے کہ مسلمانوں کی ذِلّت و رُسوائی کی بنیادی وجہ اللہ سے وعدہ کر کے مُکر جانا ہے۔ سیکولر، لبرل اقوام نے اللہ کے احکامات ماننے کا کوئی وعدہ نہیں کیا اس لئے وہ اپنے انکار کی سزا آخرت میں بھگتیں گے۔ ہم نے وعدہ کو توڑ کر اللہ کے غضب کو دُنیا میں ہی دعوت دے رکھی ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ ’’میں تمہیں دُنیا میں ذلیل و رُسوا رکھوں گا اور آخرت میں شدید عذاب دوں گا‘‘۔ اگر ہم صرف اس بات پر ہی رُک جاتے کہ اللہ کے احکامات کی نہ مانتے تو اللہ ہمیں ذِلّت و رُسوائی تک ہی محدود رکھتا۔

    لیکن ہمارے ملک میں روز دانشور، قلم کار، اینکر پرسن، تجزیہ نگار اور سائنسی پنڈت تک، کی اکثریت اپنی تحریروں سے اللہ کو للکارتے پھرتی ہے۔ یہ سیلاب، زلزلوں اور آفتوں کی ایسی توجیہات کرتے ہیں، جو اللہ نے قرآن میں اپنے غضب کا باعث بتائیں ہیں۔ اس میں اللہ کو ناراض کرنے والی اہم دلیل وہ ہے جو قارون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے دی تھی۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قارون سے کہا کہ ’’یہ مال جو تجھے اللہ نے دیا ہے اس میں آخرت کے لئے خرچ کرو ‘‘ تو قارون کا جواب تھا، ’’یہ تو مجھے میری دانش اور علم کی وجہ سے ملا ہے‘‘ (القصص: 78)۔

    قارون اپنی معاشی ترقی پر نہ صرف خود تکبّر کرتا تھا، بلکہ اس دَور کے ’’دُنیا پرست دانشور‘‘ اسے کامیاب ترین انسان کہتے تھے۔ اللہ قرآن میں پورا منظر کھینچتا ہے، ’’پس قارون پوری آرائش کے ساتھ اپنی قوم کے مجمع میں نکلا تو دُنیاوی زندگی کے متوالے کہنے لگے، کاش! ہمیں بھی کسی طرح وہ مل جاتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ یہ تو قسمت کا بڑا دھنی ہے‘‘ (القصص: 79)۔ اس کے بعد اللہ کا غضب ہوا اور قارون کے انجام کا منظر یہ تھا کہ وہ زمین میں اپنے محل سمیت دھنسا دیا گیا اور وہ سب جو اس کی تعریفیں کر رہے تھے اسے بچا نہ سکے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ایسے علم و تدبیر پر بھروسہ کرنیوالے قارون صفت انسانوں کے بارے میں بار بار فرماتا ہے، ’’جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں پکارتا ہے پھر جب ہم اس پر اپنی طرف سے فضل کر دیتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو میری تدبیر کی وجہ سے ایسا ہوا ہے‘‘ (الزّمر: 49)۔

    آج آپ پاکستان میں آنے والے سیلاب کی ساری ’’سائنسی علمی‘‘ اور دانشورانہ بحثیں اُٹھا لیں، سب انسانی تدبیر، عقل و دانش اور علم کے گرد گھومتی ہیں اور ان میں سے اللہ سرے سے ہی غائب ہے۔ فلاں ملک نے ایسا کیا تو وہ سیلاب سے بچ گئے، ہم نے ایسا نہیں کیا اس لئے تباہی ہمارا مقدر بنی۔ کاش! یہ تدبیر کے غلام صرف گذشتہ چند سالوں میں آنے والے دو المیوں کا مطالعہ کر لیں کہ اللہ نے انسان کے علم و دانش و تدبیر کے بنائے ہوئے تمام انتظامات غارت کر دیئے اور ایک نئے طریقے سے عذاب بھیج دیا۔ جاپان نے خود کو زلزلہ پروف بنا لیا تو اللہ نے گیارہ مارچ 2011ء کو سونامی بھیج کر 360 ارب ڈالر کا انتظام غارت کر دیا اور 2020ء میں حفظانِ صحت کے اُصولوں کی معراج والے امیر ممالک میں کورونا بھیج کر پینسٹھ لاکھ سولہ ہزار لوگوں کو لقمۂ اجل بنا دیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس قسم کے تکبّر کی مثال سورہ کہف میں دو باغ والوں کا قصہ بیان کرتے ہوئے دیتا ہے۔

    ان میں سے ایک کو اپنے بندوبست، تدبیر اور دولت پر فخر تھا اور وہ یہ سمجھتا تھا کہ باغ میں جاری نہر اور حفاظتی بندوبست کی وجہ سے اس کا باغ کبھی تباہ نہیں ہو گا۔ اس نے اپنے ’’اللہ پر بھروسہ کرنے والے‘‘ ہمسائے سے کہا، ’’میں نہیں سمجھتا کہ یہ سب کچھ فنا ہو جائے گا اور مجھے توقع نہیں کہ قیامت کی گھڑی آئے گی اور اگر میں اللہ کی طرف پلٹایا گیا تو اس سے بہتر پائوں گا‘‘ (الکہف: 36)۔ اس کے ساتھی نے اسے کہا کہ تُو شرک کر رہا ہے اور تُو نے اپنے باغ میں داخل ہوتے، ماشاء اللہ یعنی ’’اللہ نے چاہا‘‘ نہیں کہا تو عین ممکن ہے اللہ اس پر عذاب بھیج کر اسے چٹیل میدان کر دے۔ وہ شخص اپنی تدبیر کے تکبّر میں رہا اور پھر، ’’اس کے سارے پھل گھیر لئے گئے اور وہ اپنے تمام انتظامات اور لاگت پر ہاتھ ملتا رہ گیا اور اس کا سارا باغ اوندھا اُلٹا پڑا تھا۔ اور وہ کہہ رہا تھا کاش! میں اپنے ربّ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا‘‘ (الکہف: 48)۔

    یہاں اللہ نے واضح کر دیا ہے کہ مشرک انسان وہ بھی ہے جو اپنی عقل، دانش، تدبیر اور دولت پر مکمل بھروسہ کرتا ہے۔ جبکہ بدترین مشرک وہ ہے جو اللہ کے مقابلے میں اس دانش، عقل، تدبیر اور دولت کے سرِ عام گُن گاتا ہے اور جو لوگ دوسروں کو اللہ پر بھروسہ کرنے، اس سے استغفار کرنے اور اللہ سے عذاب ٹالنے کی درخواست کرنے کیلئے کہتے ہیں، یہ ان کا تمسخر اُڑاتا ہے۔ ایسا میرے ملک میں مسلسل ہوتا چلا آ رہا ہے، اور یہی تمسخر ہی تو ہے جو میرے ملک پر اللہ کی ناراضگی کا مسلسل باعث ہے۔

  • آنے والا شدید بحران – اوریا مقبول جان

    آنے والا شدید بحران – اوریا مقبول جان

    ایک ایسا بحران جس نے گذشتہ چند ماہ سے یورپ کے تمام ممالک کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں اور جس کے بارے میں اقوام متحدہ سے لے کر دنیا بھر کے معاشی و سیاسی تجزیہ کار بیک زبان ہو کر دہائی دیتے چلے آ رہے تھے کہ آنے والی سردیوں میں یہ بحران نہ صرف یورپ بلکہ افریقہ اور ایشیا کے بھی لاتعداد ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔

    ماہرین وارننگ دیتے رہے کہ اگر بروقت اس سے نمٹنے کی کوشش نہ کی گئی تو لاتعداد ملک قحط، وبا اور کسمپرسی کا شکار ہو جائیں گے۔ 13 اپریل 2022ء کو اقوام متحدہ کے مرکزی سیکرٹریٹ میں ایک رپورٹ جمع کروائی گئی جس کا پہلا حصہ “Brief No.1” ان آنے والے حالات کی ہولناکی کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ اس رپورٹ کا عنوان تھا ’’یوکرین کی جنگ کے دنیا کے خوراک، معیشت اور انرجی کے نظام ہائے کار پر اثرات‘‘ یہ رپورٹ نہیں بلکہ ایک وارننگ تھی جس کے منظر عام پر آتے ہی دنیا کے تقریباً تمام ممالک، خصوصاً یورپی ممالک نے اپنے عوام کو خوراک اور انرجی کے ممکنہ بحران سے بچانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کوشش شروع کر دی، یہاں تک افریقہ کے غریب ممالک، بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان نے بھی پیش بندیاں شروع کر دیں۔

    جبکہ اس کے بالکل برعکس پاکستان کی شہباز شریف کابینہ، ہر آفت میں ’’مسیحا‘‘ کا کردار ادا کرنے والی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ، یہاں تک کہ منافع خور کاروباری طبقہ بھی خوابِ خرگوش کے مزے لیتا رہا اور آج ہماری اس مجرمانہ غفلت کی وجہ سے یہ ملک چند ہفتوں میں ایک ایسے بحران میں داخل ہونے والا ہے جس کا شاید ہمارے پاس فی الحال کوئی حل موجود نہیں ہے۔ اس آنے والے بحران کے حوالے سے دنیا بھر کے اخبارات، رسائل اور عسکری جرائد پاکستان کا خصوصی تذکرہ کر رہے ہیں۔ مغربی میڈیا میں سب سے کم متعصب اور غیر جانبدار میڈیا جرمن میڈیا تصور ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جرمنی کی تاریخ میں کبھی بھی کوئی کالونی نہیں رہی ہے اور نہ ہی کبھی اس کے توسیع پسندانہ عزائم تھے۔

    سرد جنگ کے زمانے میں بھی وہ بمشکل امریکی چھتری تلے اور نیٹو کا حصہ بن کر اپنی آزادی کا تحفظ کرتا رہا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے انہی غیر جانبدار جرمن تجزیہ کاروں کے تبصرے اور تجزیے امریکی اور برطانوی متعصب تجزیہ کاروں سے زیادہ قابل اعتبار ہوتے ہیں۔ یوں تو دنیا بھر کے اخبارات میں پاکستان کے حوالے سے آنے والے بحران کی ہولناکی کا تذکرہ عام ملتا ہے لیکن جرمنی کے سنجیدہ میگزین ’’جرمن فارن پالیسی‘‘ میں 24 اگست 2022ء کو جو مضمون شائع ہوا ہے اس کا عنوان ہی چونکا دینے والا ہے، ’’یورپ مائع گیس کا ذخیرہ کر رہا ہے۔ پاکستان کی روشنیاں گُل ہونے والی ہیں‘‘۔ یہ مضمون جرمن زبان میں شائع ہوا ہے، لیکن گوگل کی ترجمہ کی سہولت کی وجہ سے ہر کوئی اسے پڑھ سکتا ہے۔

    چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ اس مضمون کی ذیلی سرخی میں لکھا ہے کہ ’’غریب ترین ممالک کو انرجی کے بحران کا خطرہ ہے، کیونکہ یورپ مائع گیس (L.N.G) خرید رہا ہے‘‘۔ یعنی اس وقت عمومی صورتِ حال یہ ہے کہ دنیا بھر کے تمام غریب ممالک بحران کا شکار ہونے والے ہیں، لیکن شہ سرخی میں پاکستان کا ہی تذکرہ کیا گیا ہے۔ پاکستان میں اس بحران کی واضح آمد کی وجہ گذشتہ پانچ ماہ سے قائم ایک ایسی حکومت ہے کہ جس کے ابھی تک اوسان ہی بحال نہیں ہو سکے۔ گذشتہ کئی سال سے یورپ کے تمام ممالک اپنی گیس کی ضروریات روس سے پوری کیا کرتے رہے ہیں، لیکن جیسے ہی 24 فروری 2022ء کو روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو تمام یورپی ممالک نے اپنے اپنے ملکوں کے مفاد کے لئے دو اہم پالیسی اقدامات کئے۔

    ایک یہ کہ امریکہ کے اتحادی ہونے کے باوجود یورپی ممالک نے امریکہ کا یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا کہ وہ روس سے گیس اور پٹرول نہ خریدیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب جوبائیڈن افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے دورے پر گیا اور اس نے افریقی ممالک سے کہا کہ ’’آپ روس سے گیس نہ خریدیں‘‘ تو سب نے اسے یہ کہہ کر لاجواب کر دیا کہ ’’پہلے یورپ کو منع کرو پھر ہم بھی تمہاری بات مان لیں گے‘‘۔ یورپ نے دوسرا قدم یہ اٹھایا کہ اس وقت دنیا میں جہاں کہیں بھی مائع گیس نکالی یا بیچی تھی، وہاں زیادہ قیمت دے کر اس گیس کا سودا کر لیا اور اس وقت عالم یہ ہے کہ دنیا میں جتنے بھی ایل این جی کے آئل ٹینکر موجود ہیں یورپ ان کا سودا کر چکا ہے۔

    اس بات کا اعتراف وزیر پٹرولیم مصدق ملک نے وال سٹریٹ جرنل کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی کیا تھا کہ پاکستان اب سپاٹ مارکیٹ سے ایل این جی خریدنے کے قابل نہیں رہا کیونکہ دنیا میں جتنی بھی ایل این جی میسر ہے اس کا ہر مالیکیول یورپی ممالک نے خرید لیا ہے، (یہ وزیر پاکستان میں ایسا سچ نہیں بولتے)۔ عالم یہ ہے کہ پاکستان نے ایل این جی خریدنے کے جو معاہدات کئے ہوئے تھے یورپ کے ممالک ان معاہدات کو کینسل کروا رہے ہیں اور کمپنیوں کو معاہدہ کینسل کرنے کا 30 فیصد جرمانہ بھی ادا کر رہے ہیں اور ساتھ ہی اگر وہ جہاز پاکستان کے ساحل کے قریب آ چکے ہیں تو انہیں کرائے کی رقم دے کر جہاز یورپ منگوا رہے ہیں۔

    دو دن پہلے تک روس کی جانب سے یورپ کو گیس کی سپلائی جا رہی تھی اور یورپ اس ایل این جی کو استعمال نہیں کر رہا تھا جو اس نے دیگر ممالک سے معاہدات کے تحت محفوظ رکھی ہوئی تھی، لیکن 5 ستمبر کو روس نے یورپ کو “Nord Stream I” کے ذریعے جو گیس فراہم ہوتی تھی اس میں پچھتر فیصد کمی کر دی ہے اور کہا ہے کہ روس اس وقت تک پوری سپلائی فراہم نہیں کرے گا جب تک یورپی ممالک، روس کے خلاف معاشی پابندیاں ختم نہیں کرتے۔ پیوٹن کے ترجمان ڈیمرتی پیسکوو (Dmirty Pskove) نے کہا ہے کہ گیس کی بندش دراصل یورپ اور کینیڈا کی انہی پابندیوں کا نتیجہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی روس نے یہ بھی کہا ہے کہ ہماری پائپ لائن میں ٹیکنیکل خرابی آ چکی ہے اور اس کی وجہ سے شاید ہم چند ماہ تک گیس فراہم ہی نہ کر سکیں اور یہ چند ماہ سردی کے ہیں۔ یورپی ممالک کے عوام ابھی سے سردی میں گیس کے بغیر زندہ رہنے کے تصور سے ہی کانپ رہے ہیں۔

    یورپ نے تو مہنگے داموں گیس خرید لی ہے اور اس کے ساتھ ہی اس نے دنیا کی مارکیٹ میں گیس کی قیمتوں کو بھی آسمان تک پہنچا دیا ہے۔ یورپ کو سردیوں کی آمد کا خوف ہے جس کا اس نے بندوبست کر لیا ہے۔ ہمارا کیا ہو گا… جن کے پاس 39,772 میگا واٹ کی پاور جنریشن کی صلاحیت تو موجود ہے لیکن اس میں سے 25,098 میگا واٹ تھرمل اور صرف 9,915 میگا واٹ پانی سے بجلی بنانے کی صلاحیت ہے۔ تقریباً 60 ایسے پاور سٹیشن ہیں جنہیں بجلی پیدا کرنے کے لئے گیس یا ایل این جی کی ضرورت ہے۔

    چند ہفتوں بعد یہ کیفیت آنے والی ہے کہ ہمارے ساحلوں پر کوئی ٹینکر ایل این جی لے کر نہیں آئے گا اور ہماری زمینی گیس جو ہمارے چولہے جلاتی ہے، اسے بھی اگر ان سٹیشنوں کو دے دیں تو بھی ضرورت پوری نہیں ہو سکے گی۔ گھروں میں گیس اور بجلی نہیں ہو گی اور ایسے میں سیلاب میں ڈوبا ہوا یہ ملک جب ایک خوفناک بحران سے دوچار ہو گا تو پھر کیا ہو گا؟ سوچ کر ہی خوف کی لہر دوڑ جاتی ہے۔

  • گوربا چوف، جو محاورہ بن گیا تھا- اوریا مقبول جان

    گوربا چوف، جو محاورہ بن گیا تھا- اوریا مقبول جان

    مغرب اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کی آنکھوں کا تارا، گوربا چوف۔ جسے موت کے بعد اپنے ملک میں سرکاری تدفین بھی میسر نہ ہو سکی۔ گذشتہ نصف صدی میں جو پوری دُنیا کا مرکزِ نگاہ بنا رہا، مگر اپنی موت کے وقت اپنے ہی ہم وطنوں کے لئے ایک عظیم سلطنت کے زوال کی علامت تھا اور اس مغربی دُنیا کے لئے بھی اب اجنبی بن چکا تھا، جو کبھی اس کے گُن گایا کرتی تھی۔

    اس سب کے باوجود، جب اس کا جسدِ خاکی 3 ستمبر 2022ء کو ہائوس آف یونین کے بڑے ہال میں لایا گیا تو عمارت کے باہر ہزاروں روسی عام شہری موجود تھے۔ ان لوگوں میں اکثریت ایسے افراد کی تھی جو ولادی میر پیوٹن کی آمرانہ حکومت کی گھٹن سے تنگ تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ گوربا چوف کی موت دراصل جمہوریت کی موت ہے۔ جنازہ اُٹھایا گیا اور اسے روس کے مشہور قبرستان نووڈی وچی (Novodevichy) میں لاتعداد مشہور شخصیات کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔ صدر پیوٹن کے ترجمان سے جب پیوٹن کی غیر حاضری کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے کندھے اُچکاتے ہوئے کہا، ’’وہ بہت مصروف تھے‘‘۔ دُنیا بھر کے ممالک میں سے صرف ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربن (Vicktor Orban) نے آخری رُسومات میں شرکت کی۔ اس کی بنیادی وجہ اس کے نظریات ہیں۔ وہ پورے یورپ میں مغربی جمہوریت اور سرمایہ دارانہ معیشت کا سخت مخالف ہے اور ایک ایسے معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے جسے وہ “illibral work fare society” یعنی ’’مزدوروں کے حق میں متعصب معاشرہ‘‘ کہتا ہے۔

    دُنیا بھر میں مضامین لکھے گئے، تعزیت نامے شائع ہوئے۔ پھر ایک طویل خاموشی چھا گئی۔ مغرب کی محبتوں کی علامت ’’نوبل امن انعام‘‘ لینے والا گورباچوف اپنے اقتدار سے معزولی کے بعد سے لے کر اب تک روزمرہ کے ایک محاورے کے طور پر بھی مقبول ہے۔ کوئی ملک، تنظیم، ادارہ یا سیاسی جماعت جس شخص کے دور میں اپنی تباہی و بربادی سے دوچار ہوئی ہو، ایسے شخص کو آج بھی اس ادارے کا گورباچوف کہتے ہیں۔ یہ استعارہ یا محاوراتی اظہار صرف ایک ملک تک محدود نہیں، بلکہ امریکہ کے مغربی ساحلوں سے لے کر آسٹریلیا کی مشرقی پٹی تک ہر کوئی اس محاورے کو بخوبی استعمال کرتا رہا ہے اور آج بھی کرتا ہے۔ ایک عہد تھا، جو گورباچوف کے اقتدار سے علیحدہ ہوتے ہی ختم ہو گیا۔

    چوبیس اگست 1991ء کو وہ کیمونسٹ پارٹی کی سیکرٹری جنرل شپ سے کیا اُترا، پچھتر سالہ کیمونسٹ انقلاب سائبیریا کی برف میں دفن ہوا یا باسفورس کی لہروں کے سپرد کر دیا گیا اور صرف چار ماہ کے اندر 26 دسمبر 1991ء کو پوری دُنیا کے مزدوروں کو ’’بادشاہی‘‘ کے خواب دکھانے والا سوویت یونین پندرہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو گیا جن میں چھ مسلمان ریاستیں تاجکستان، ازبکستان، کرغستان، ترکمانستان، قازقستان اور آذربائیجان بھی شامل تھیں۔ کیمونزم کے آہنی پردے ہٹے تو سوویت یونین کی جو حالت سامنے آئی وہ کیمونزم سے پہلے والے مفلس و نادار روس کی دُنیا سے بھی بدتر تھی، جسے ٹالسٹائی کے افسانوں کی بھوک اور افلاس (Tolstoy’s, Poverty) کہا جاتا تھا۔ تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں اس آزادی کے پندرہ سال بعد مجھے جانے کا اتفاق ہوا۔ چند حکومتی ایوانوں کی سڑکوں کے علاوہ پورا شہر بجلی، پانی اور سڑکوں سے محروم تھا۔

    قلاب کی جانب سفر پر نکلا کہ سید علی ہمدانی کی تربت کی زیارت کر سکوں کہ کشمیر کو مسلمان بنانے کا سہرا ان کے سر ہے، لیکن دوشنبے سے باہر نکلتے ہی اس ’’عظیم کیمونسٹ‘‘ ریاست کی غربت دیکھ کر پاکستان جیسی نعمت پر شکر کرنے کو جی چاہا۔ یہی عالم باقی تمام ریاستوں کا تھا، جنہیں پہلے زارِ روس نے اپنا مطیع بنایا اور پھر جب یہ ریاستیں ورثے میں ولادی میر لینن کے کیمونسٹ سوویت یونین کو ملیں تو اس دور میں بھی صرف سفید فام روسی النسل ہی مراعات یافتہ رہی، باقی اقلیتیں پسماندگی میں ڈوبی رہیں۔ زار کے زمانے میں کم از کم اتنا ضرور تھا کہ ان ریاستوں میں بسنے والے مسلمان اپنے مذہب پر آزادی سے عمل پیرا ہو سکتے تھے۔ لیکن 1917ء کے کیمونسٹ انقلاب نے تو مسلمانوں سے نہ صرف عبادت کرنے کا حق چھینا بلکہ ہر مسجد و مدرسہ کو تالا لگا دیا گیا۔ امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کے مراکز سمرقند و بخارا، ظہیرالدین بابر کا فرغانہ اور اسلامی تہذیب و تمدن کی علامت تاجک آبادی اپنی شناخت تک بھول گئی۔

    دوشنبے میں آج بھی اورنگ زیب عالمگیر کی بیٹی زیب النساء مخفی کا فارسی دیوان ملتا تو ہے، لیکن وہ روسی رسم الخط میں ہے۔ ہر کوئی اقبالؒ کے شعر سنا سکتا ہے، لیکن فارسی میں انہیں پڑھ نہیں سکتا۔ ہر کسی کو اپنا نام روسی انداز میں رکھنے پر مجبور کیا گیا، کریم سے کریموف اور رحمان سے رحمانوف ہو گیا۔ اس پچھتر سالہ جبر کی کہانیاں کبھی باہر نہ آ پاتیں اگر سوویت یونین کی تاریخ میں گورباچوف نہ آتا۔ گوربا چوف تاریخ کے اس دھارے کا ایک پڑائو تھا۔ اس کی جگہ کوئی اور بھی سوویت یونین کا سربراہ ہوتا تو ایسے ہی ہونا تھا۔ اس لئے کہ اس کے اقتدار میں آنے سے پانچ سال، قبل سوویت یونین نے ایک ایسے ملک میں اپنی افواج اُتارنے کی غلطی کر دی تھی جہاں صرف ایک صدی قبل ہی برطانیہ ، کہ جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، ذلّت آمیز شکست کھا کر نکل چکا تھا۔ گوربا چوف کا آغاز جارحانہ تھا، وہ ہر صورت افغانستان میں اپنے قدم جمانا چاہتا تھا تاکہ صدیوں پہلے دیکھا گیا روسی بادشاہوں کا خواب پورا ہو سکے اور وہ بحیرۂ عرب کے ساحلوں میں سے کراچی یا گوادر کسی ایک جگہ لنگر انداز ہو سکے۔

    لیکن ایک سال بعد ہی اسے اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ یہ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ ہے جس میں صرف روسی سپاہیوں کے لاشے ہی اُٹھانا پڑیں گے۔ چرنوبل کے ایٹمی پلانٹ کے حادثے کے فوراً بعد اس نے افغانستان سے روسی افواج کی واپسی کا آغاز کر دیا اور امریکہ کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کی کمی کے بارے میں بات چیت بھی شروع کر دی۔ وہ ایک فلسفی تھا اور اس حیثیت میں اس نے کیمونسٹ آئیڈیالوجی کے مقابلے میں گلاسنوسٹ (Glasnost) اور پیراسٹرائیکا (Perestroika) جیسے دو تصورات پیش کئے۔ گلاسنوسٹ کے مطابق آزادی رائے اور جمہوریت کی اہمیت اور پیراسٹرائیکا کے تحت تمام معاشی پالیسیوں کو آزاد مارکیٹ کے ساتھ منسلک کرنا تھا۔

    ان دونوں نظریات نے سوویت یونین کے بنیادی نظریاتی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا۔ اب مشرقی جرمنی والا کیمونسٹ مغربی جرمنی کی خوشحال زندگی کے خواب دیکھنے لگا اور پھر ایک دن یوں ہوا کہ دیوارِ برلن ٹوٹ گئی اور دونوں ملک ایک ہو گئے۔ گوربا چوف کے نظریات نے نہ صرف سوویت یونین جیسی عالمی طاقت کا خاتمہ کیا، بلکہ گذشتہ ڈیڑھ سو سالوں سے چلنے والی کیمونسٹ تحریکوں سے بھی ان کے خواب چھین لئے۔ ساحر، فیض اور اختر الایمان کی شاعری بے معنی ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ سوویت یونین کے ٹوٹتے ہی وہ تمام کیمونسٹ جو کبھی امریکہ اور جمہوریت کو گالیاں دیا کرتے تھے، فوراً ہی این جی اوز بنا کر امریکہ کے درِ دولت پر کشکول لئے کھڑے ہو گئے۔ 1848ء میں کیمونسٹ مینی فیسٹو سے جو عالمی تحریک شروع ہوئی تھی اور جس نے آدھی دُنیا کو متاثر کیا تھا، ڈیڑھ سو سال بعد گوربا چوف کے ہاتھوں ایسی لحد میں اُتری کہ آج اس کا کوئی نام لیوا تک باقی نہیں رہا۔

  • آئین ِ پاکستان کی دوسری ترمیم- اوریا مقبول جان

    آئین ِ پاکستان کی دوسری ترمیم- اوریا مقبول جان

    سوموار 5 اگست 1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک ایسی بحث کا آغاز ہوا جس کا تعلق ایک نظریاتی اسلامی مملکت کی اساس کے ساتھ تھا۔ دُنیا میں اب تک تین اقسام کی جدید نظریاتی قومی ریاستیں وجود میں آئی ہیں۔

    پہلی ریاست سوویت یونین تھی جو کیمونسٹ نظریے کی بنیاد پر 1917ء میں قائم ہوئی۔ دوسری پاکستان، جو 14 اگست 1947ء کو مسلمانوں کے لئے ایک جداگانہ وطن اور اسلامی ریاست کے قیام کے لئے معرض وجود میں آئی اور تیسری ریاست اسرائیل ہے جو 14 مئی 1948ء کو مغربی قوتوں کی مدد سے دُنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین پر آباد کرنے کے بعد قائم کی گئی۔ ان تینوں ریاستوں کے وجود، ان کی اساس اور نظریاتی بقا کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ اپنے ممبران کی تعریف اور شناخت کو کسی بھی قسم کی اُلجھن، خامی یا بے یقینی سے پاک کریں۔ سوویت یونین کے قیام کے فوراً بعد ہی ولادی میر لینن نے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بتا دیا کہ کیمونسٹ کون ہوتا ہے، کیسا ہوتا ہے اور کیسے نظریات کا حامل ہوتا ہے۔

    اسی طرح جب ڈیوڈ بن گوریان نے اسرائیلی پارلیمنٹ ’’کینسٹ “Knesset” سے چودہ مئی کو خطاب کیا تو تمام یہودیوں کے ذہنوں میں ایک خالص اور پکے یہودی کی تعریف بالکل واضح تھی اور پوری صہیونی تحریک اس تعریف پر متفق بھی تھی۔ کینسٹ کے ممبران کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے لے کر اپنے آخری نبی ملاچی (Malachi) تک اڑتالیس پیغمبروں تک ہر کسی کے بارے میں تفصیل بھی معلوم تھی اور آخرالزمان یعنی (End time) میں آنے والے اپنے مسیحا (Mashiach) کے بارے میں بھی مکمل معلومات تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک یہودیوں میں کوئی ’’ظلّی‘‘، ’’بروزی‘‘ یا کوئی اور بہروپیا نبوت کا دعویٰ لے کر پیدا نہیں ہو سکا۔ لاکھوں عیسائی راہب آئے، لیکن کسی نے بھی ایک یہودی نبی ہونے کا جھوٹا دعویٰ نہیں کیا۔

    اسرائیلی ریاست میں تو اس طرح کا تصور کرنا ہی ایک سنگین جرم ہے۔ اس قدر احتیاط کی گئی کہ اسرائیل جو کہ دُنیا کا واحد ملک ہے جس نے چوہتر سال گزرنے کے باوجود بھی، سیکولر، لبرل عالمی قوتوں کے دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے لئے آئین نہیں بنایا۔ اسرائیل کا آئین ’’تورات‘‘ اور ’’تالمود‘‘ ہیں۔ اسی لئے اس نظریاتی مذہبی ریاست اسرائیل میں یہودیت کی جو تعریف یہ الہامی کتابیں کرتی ہیں، وہی نافذالعمل ہے۔ تیسری ریاست پاکستان ہے جس کی نظریاتی اساس اسلام ہے، اس ریاست کے لئے قیام کے دن سے ہی یہ ضروری تھا کہ ایک مسلمان کی جامع تعریف بھی کر دی جائے۔ تعریف کے دو قانونی یا آئینی تقاضے ہوتے ہیں، ایک کو عمومی تقاضہ یعنی “General Clause” کہا جاتا ہے۔

    جس کے تحت یہ بتایا جاتا ہے کہ کون کون لوگ مسلمان ہیں۔ لیکن اگر کہیں معاملہ اُلجھ جائے اور بات کو مزید واضح کرنا مقصود ہو تو پھر ’’اخراج‘‘ یعنی “Exclusion Clause” کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس قانونی طریقے کے تحت یہ بتایا جاتا ہے کہ فلاں شخص ان وجوہات کی بنیاد پر اس گروہ یعنی مسلمانوں میں شامل نہیں ہے۔ دُنیا کے پہلے تحریری آئین ’’میثاق ِ مدینہ‘‘ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اخراج کی شق “Exclusion Clause” رکھی تھی جس کے تحت ہر اس شخص کو ریاستِ مدینہ کی ذمہ داری سے خارج کیا گیا تھا جو دیگر بیرونی قبیلوں سے معاہدات کرے۔

    قیامِ پاکستان سے بہت عرصہ پہلے سے یہ بحث ایک تحریک کی شکل اختیار کر چکی تھی کہ چونکہ مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ ٔ نبوت کے بعد پوری اُمتِ مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ اسلام اور مسلمان کی جو تعریف چودہ سو سال سے موجود ہے اس کے تحت ’’نئے نبی‘‘ کی ذریت کو اسلام سے خارج (Exclude) قرار دیا جائے۔ علامہ اقبالؒ کا حکومت کو اس سلسلے میں تحریر کردہ خط واضح ہے جس میں انہوں نے قادیانیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ قرار دینے کے لئے لکھا تھا۔ کوئی عیسائی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو پیغمبر ماننے کے بعد دُنیا کو یہ کہہ کر بے وقوف نہیں بنا سکتا کہ چونکہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی مانتا ہے اس لئے وہ دراصل یہودی ہے اور اسے یہودیوں کی طرح عبادت گاہ (Synagogue) بنانے کا حق حاصل ہے اور اسے دیوار گریہ (Wailing wall) پر یہودیوں کی طرح عبادت کرنے کا بھی اختیار ملنا چاہئے۔

    اسی طرح کوئی شخص، اگر وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا کلمہ پڑھتا ہے تو عیسائیت ایسے تمام مسلمانوں کو اپنے مذہب سے خارج سمجھتی ہے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بعد کسی دوسرے نبی کا کلمہ پڑھنے والا عیسائی نہیں کہلا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کوئی ایک بھی ایسا دعویدار نبوت، عیسائیت میں پیدا نہ ہو سکا جو پہلے نبی ہونے کا دعویٰ کرے اور پھر ساتھ ساتھ ویٹیکن سٹی کے پوپ کے تخت پر متمکن ہونے کا بھی خواہش مند ہو۔ یہ صورتِ حال صرف اور صرف مسلم اُمّہ اور خاص طور پر برصغیر پاک و ہند میں پیش آئی جہاں مرزا غلام احمد قادیانی نے نہ صرف نبوت کا دعویٰ کیا بلکہ ساتھ اس بات کا بھی اعلان کیا کہ وہ اور اس کے ماننے والے مسلمان بھی ہیں اور ویسی ہی مسجدیں بنانے اور عبادات کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

    یہ تھی وہ جعل سازی (Counterfeit) جس پر پوری اُمت اکٹھی ہو گئی تھی۔ ایک نظریاتی ریاست کے لئے بہت ضروری ہوتا ہے کہ اس جعل سازی کی روک تھام کے لئے یہ طے کرے کہ اس کے نظریاتی ممبرانِ ریاست کی تعریف کیا ہے۔ پاکستان چونکہ ایک سیکولر ریاست نہیں ہے بلکہ اسلامی ریاست ہے، اس لئے اس کے بنیادی ڈھانچے کی یہ اہم ضرورت ہے کہ کون ہے وہ جو مسلمان ہے اور کون ہے کہ جو دائرہ اسلام سے خارج۔ تخلیقِ پاکستان بھی جداگانہ طرزِ انتخاب (یعنی مسلمانوں کا علیحدہ ووٹ) کی بنیاد پر ہی قائم ہوا تھا۔ قادیانی اسلام کے نام کو استعمال کر کے جو جعل سازی کر رہے تھے اس کے خلاف جاری جدوجہد کی کامیابی کی منزل 7 ستمبر 1974ء تھی جب آئینِ پاکستان نے یہ طے کر دیا کہ قادیانی ایک اسلامی ریاست کے نزدیک مسلمان نہیں ہو سکتا۔ تحریکِ ختم نبوت یوں تو گذشتہ پچاس سالوں سے چل رہی تھی.

    لیکن 29 مئی 1974ء کو ربوہ کے ریلوے سٹیشن پر جب اسلامی جمعیت طلبہ کے تیس طلبہ کو قادیانیوں نے مار کر شدید زخمی کیا تو ردّعمل کے طور پر پورے ملک میں ایک جاندار تحریک کا آغاز ہوا۔ پورا ملک اس بات پر متفق تھا کہ کئی سال پرانا یہ جھگڑا اب ختم ہو جانا چاہئے۔ اس ملک کو ایک اسلامی آئین ملا ہے، اب اس کے تحت مسلمان کی تعریف بھی بہت ضروری ہو چکی ہے۔ تحریک کے آخری مرحلے میں قومی اسمبلی کا اجلاس موجودہ سٹیٹ بینک کی عمارت میں صاحبزادہ فاروق علی خان سپیکر کی صدارت میں 5 اگست کو شروع ہوا۔ قادیانیوں کی طرف سے مرزا ناصر احمد کو اپنا موقف اراکین پارلیمنٹ کے سامنے بیان کرنے کے لئے بلایا گیا۔ ایک ماہ تک یہ بحث چلی جو 866 صفحات پر مشتمل ہے۔

    اس اسمبلی میں مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد، عبدالمصطفیٰ الازہری اور دیگر صاحبانِ علم موجود تھے جنہوں نے اس پر سیر حاصل گفتگو کی۔ ایک ماہ کی طویل بحث کے بعد اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار کے ایک سوال نے اس سارے معاملے کو ایک ہی لمحے میں سمیٹ کر رکھ دیا۔ یحییٰ بختیار نے 28 اگست کو مرزا ناصر احمد سے سوال کیا کہ ’’وہ مسلمان جو مرزا غلام احمد کو نبی نہیں مانتے آپ انہیں کیا سمجھتے ہیں‘‘، مرزا ناصر احمد نے جیسے ہی یہ جواب دیا کہ ’’وہ ہمارے نزدیک کافر ہیں‘‘، تو بحث وہیں ختم ہو گئی .

    اور 7 ستمبر 1974ء کو آئینِ پاکستان میں دوسری ترمیم منظور کر لی گئی جس کے تحت قادیانی ’’غیر مسلم اقلیت‘‘ قرار دیئے گئے۔ یہ کسی بھی اسلامی نظریاتی ریاست کے لئے بہت ضروری تھا۔ نظریاتی ریاست میں جعل سازوں کی گنجائش نہیں ہوتی۔