Author: حماد یونس

  • پاک ترک دوستی کا سنگِ میل:خیبر میلجیم کارویٹ- حمّاد یونُس

    پاک ترک دوستی کا سنگِ میل:خیبر میلجیم کارویٹ- حمّاد یونُس

    ترکیہ اور پاکستان ایسے دوست ہیں ، جن کا زمینی فاصلہ تو ساڑھے تین ہزار کلومیٹر ہے لیکن دل بہت قریب ہیں۔
    ترکیہ کا رقبہ 7 لاکھ 83 ہزار اور 356 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی ہے تقریباً ساڑھے 8 کروڑ ۔
    ترکیہ کو 81 انتظامی صوبوں اور 973 اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے ۔
    جغرافیائی اعتبار سے دنیا کے اہم ترین ممالک میں سے ایک ہے ۔

    پاکستان کے ساتھ ترکیہ کے تعلقات آج کی بات نہیں بلکہ ترکیہ ان چند ممالک میں سے ایک تھا جنہوں نے پاکستان کو 1947 میں تسلیم کرنے اور اس نوزائیدہ ریاست کا خیر مقدم کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کی۔
    اب تو دونوں ممالک کے درمیان رشتہ 75 برس پر محیط ہے۔ اور دونوں ممالک اس دوستی اور محبت کی پلاٹینم جوبلی منا رہے ہیں ۔
    ترکیہ اور پاکستان کے مابین یہ تعلق صرف خیر سگالی کے جذبات پر محیط نہیں بلکہ باہمی تعاون اور محبت پر مشتمل ایک رشتہ ہے ، جو تمام شعبہ ہائے زندگی میں آگے بڑھنے اور ہر مشکل گھڑی میں ساتھ کھڑے ہونے کی ایک پوری تاریخ رکھتا ہے ۔
    سب سے اہم شعبہ جس میں ترکیہ اور پاکستان نے دست بستہ آگے بڑھنے کا عزم کر رکھا ہے ، وہ ہے دفاع کا شعبہ

    ڈیفینس سیکٹر:
    پاکستان اور ترکیہ کے دفاعی تعلقات اور معاہدے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ ایک سچے دوست کی حیثیت سے دونوں ممالک ہی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ طاقتور اور ناقابلِ تسخیر دوست اس دوستی کی بقا کا ذریعہ ہیں۔
    چنانچہ پاکستان کی ترکیہ کے ساتھ بہت سے دفاعی معاہدے ماضی میں بھی رہے اور حال میں بھی جاری ہیں ۔ جن میں سے ایک ، میلجیم بھی ہے ۔
    میلجیم ایک ترک پراجیکٹ ہے، جس کے تحت جنگی بحری جہاز اور کارویٹس ترکیہ کے دفاع کو مضبوط تر بنانے کے لیے تیار کیے جا رہے ہیں ۔ 5 جولائی 2018 کو آئی ایس پی آر پاکستان کے نے اعلان کیا کہ پاکستان کا ترکیہ کے ساتھ معاہدہ ہوا ہے، جس کے تحت اب ترکیہ پاکستان کے لیے چار کارویٹس یعنی سمندری لڑاکا جہاز تیار کرے گا۔
    اس منصوبے کے تحت تیسرے کارویٹ کی لانچنگ تقریب ترکیہ میں جاری ہے ، جس میں ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان اور پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف دونوں شامل ہیں۔
    جبکہ طیب اردوان کے مطابق ، اس ضمن میں پاکستانی بھائیوں کے لیے چوتھا کارویٹ فروری 2025 تک تیار ہو جائے گا ۔

    وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ دورہ ترکیہ اس دو طرفہ دوستی میں کئی نئے دروازے وا کرے گا ۔
    واضح رہے کہ رجب طیب اردوان نے بھی پاکستان کا بہت بار دورہ کیا ہے۔
    چنانچہ طیب اردوان 2002 سے 2014 تک ، بحیثیت وزیر اعظم 7 بار پاکستان تشریف لائے ، جن میں سے 2012 وہ سال تھا جس میں طیب اردووان مئی اور دسمبر میں یعنی دو بار تشریف لائے۔

    جبکہ بحیثیت صدر جمہوریہ ترکیہ ، طیب اردوان نے 4 بار پاکستان کا دورہ کیا ہے ۔

    جبکہ دوسری جانب، وزیر اعظم شہباز شریف سے پہلے ان کے بڑے بھائی میاں محمد نواز شریف نے بھی وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے کئی بار ترکیہ کا دورہ کیا ہے ۔ خود شہباز شریف نے بھی ماضی میں ترکیہ کا کئی بار دورہ کیا ، مگر اس وقت ان کی حیثیت وزیر اعلیٰ پنجاب کی تھی.
    طیب اردوان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان اور ترکیہ کی دوستی کو نئے افق پر پہنچانے کے علاوہ اس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ کوئی دشمن یا رکاوٹ بھی ترکیہ کی دفاعی انڈسٹری کو دنیا بھر میں سب سے بہتر ہونے سے نہیں روک سکتی ۔
    دوسری طرف صدر ایردوان نے استقلال اسٹریٹ میں ہونے والی دہشتگردی کا تذکرہ کرتے ہوئے دہشتگردوں کو پیغام دیا کہ “اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کون کر رہا ہے، ہم انسانیت کے ان دشمنوں سے اپنے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیں گے۔”
    دوسری جانب پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ “یہ ترکیہ پاکستان دوستی کا ایک اہم ترین دن ہے ، جو تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ پی این ایس خیبر کی لانچنگ ایک اہم سنگ میل، بھائی چارے کی علامت اور تاریخ ساز لمحہ ہے۔”

    پاکستان اور ترکیہ کے درمیان دفاعی معاہدے صرف میلجیم تک موقوف نہیں بلکہ کئی دیگر جہتوں میں بھی جاری ہیں۔
    ترکیہ پاکستان کے نیول اٹیک سب میرینز کو اپگریڈ کر رہا ہے ، جس سے پاکستان کا بحری دفاع بہتر ہو گا ، دوسری طرف ہمارے ٹینکوں کو مزید موثر بنانے کا کام بھی ترکیہ کر رہا ہے۔
    پاکستان ترکیہ سے بنیادی جنگی ٹینک (Altay / الطائے) 2016 سے لے رہا ہے یا اس حوالے سے بات چیت 2016 میں شروع ہوئی تھی۔ اسے MBT کہا جاتا ہے، یعنی main battle tank ۔

    T129 attack helicopters
    یہ بھی پاکستان نے ترکیہ سے لیے ہیں۔ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان جنگی ڈرونز کے پارٹس کا بھی معاہدہ جاری ہے۔
    جبکہ دونوں ممالک کے درمیان دیگر تجارتی معاہدے بھی کم اہمیت کے حامل نہیں ۔

    گزشتہ برس پاکستان کی ترکی کو درآمدات کا حجم 394 ملین ڈالرز تھا، جو پاکستانی روپوں میں 86 ارب روپے بنتے ہیں ۔
    بڑی درآمدات میں الیکٹرک جنریٹنگ سیٹ (92 ملین ڈالرز) ،
    کپاس (79 ملین ڈالرز) اور سوتی دھاگے (32 ملین ڈالرز) شامل تھے ۔

    اسی طرح
    ترکی کی پاکستان کو درآمدات کا حجم 630 ملین ڈالرز کا تھا ، جو ایک کھرب اور سینتیس ارب پاکستانی روپے بنتے ہیں ۔
    ترکی سے پاکستان کو کی جانے والی اہم درآمدات میں ہاٹ رولڈ آئرن (53 ملین ڈالرز)، کَمپس یعنی سَمتوں کے تعین کا آلہ (38 ملین ڈالرز) اور سوتی دھاگے (36 ملین ڈالرز) شامل تھے۔
    پاکستان اور ترکی کا باہمی مجموعی تجارتی حجم دو کھرب اور تئیس 23 ارب پاکستانی روپوں پر مشتمل تھا۔
    اس حوالے سے پاکستان اور ترکیہ کا یہ مشترکہ عزم ہے کہ اس تجارتی حجم کو 5 بلین ڈالرز یعنی تقریباً 11 کھرب روپے سالانہ تک پہنچایا جائے۔ یہ عزم ہنوز ایک خواب ہے مگر اگر یہ شرمندہِ تعبیر ہوا تو دونوں ممالک کی تقدیر حقیقتاً بدل جائے گی ۔

  • فٹبال کا عالمی میلہ: چند دلچسپ حقائق -حمّاد یُونُس

    فٹبال کا عالمی میلہ: چند دلچسپ حقائق -حمّاد یُونُس

    قطر میں فٹبال کا بائیسواں عالمی میلہ قطر میں سج گیا۔ دفاعی چیمپیئن فرانس اپنے کپ کا دفاع کرے گا۔

    فٹ بال ورلڈ کپ 2022 میں 32 ٹیمز ورلڈ کپ کے لیے ٹکرائیں گی، جنہیں 8 گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے۔

    سب سے مضبوط چند ٹیمز تو وہی ہیں جن کی حالیہ کارکردگی ، تاریخ اور روایت انہیں دوسروں پر ممتاز کرے۔

    اس وقت دنیا کی مضبوط ترین ارجنٹائن کی ٹیم ہے، جو ماضی میں 2 بار ورلڈ کپ جیت چکی ہے اور اس وقت بھرپور فارم میں ہے اور پچھلے 36 میچز سے مسلسل ناقابلِ شکست ہے۔ جس کے مِڈ فیلڈر لاٹورو مارٹینیز اور اینجل ڈی ماریا سالہا سال سے ارجنٹائن کے حریفوں کے لیے دہشت کی علامت ہیں ۔ مگر سب سے اہم اور ورلڈ کپ کے لیے نمایاں ترین چہروں میں سے ایک ہیں، تاریخ میں سب سے زیادہ 6 گولڈن بوٹ اور 7 بیلن ڈی اور ایوارڈ جیتنے والے ارجنٹائن کے کپتان، لائنل میسی ۔ 2014 ورلڈ کپ میں میسی اپنی ٹیم کو فائنل تک لے گئے تھے، مگر فائنل میں ان کی ٹیم گول اسکور کرنے میں ناکام رہی اور اعصاب شکن مقابلے کے بعد بالآخر جرمنی کے ماریو گوتزے نے 113 ویں منٹ میں گول کر کے ورلڈ کپ اپنے ملک کے نام کر دیا تھا ۔ واضح رہے کہ فٹبال میچ 90 منٹس کا ہوتا ہے اور اہم ترین میچز اگر برابر رہیں تو ان کا فیصلہ اضافی وقت اور پھر پینالٹی ککس پر ہوتا ہے۔

    برازیل
    برازیل نے تاریخ میں سب سے زیادہ 5 بار فٹبال ورلڈ کپ جیت رکھا ہے اور یہ واحد ملک ہے جو فیفا عالمی کپ کے ہر ایڈیشن میں شریک رہا۔
    ان کے بھی تھیاگو سلوا ، وینیشیئس جونیئر ، کیزیمیرو وغیرہ تجربہ کار کھلاڑی ہیں۔
    مگر سب سے اہم ہیں ، ان کے موجودہ کپتان نیمار جونیئر ، جنہیں عالمی کپ کے نمایاں ترین کھلاڑیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے ۔

    دفاعی چیمپیئن فرانس کی ٹیم بھی خاصی مضبوط ہے، اس نے 2018 سے پہلے 1998 کا ورلڈ کپ بھی اپنے نام کیا تھا۔
    فرانس کے کپتان کریم مصطفیٰ بینزیما ورلڈ کپ کے چند نمایاں کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں، جنہیں زین الدین زیدان کا جانشین شمار کیا جاتا ہے ۔ مگر آخری اطلاعات کے مطابق بینزیما فٹنس مسائل کے باعث ورلڈ کپ سے باہر ہیں۔

    پرتگال کی ٹیم بھی ورلڈ کپ فیورٹس میں سے ایک شمار کی جا سکتی ہے ، جس کے پاس ہر پوزیشن کے لیے بہترین کھلاڑی موجود ہیں۔ یعنی ، جو کنسیلو ، جو فلیکس ، برنارڈو سلوا ، برونو فرنینڈس ، روبن دیاز وغیرہ ،
    مگر سب سے اہم ہیں ان کے کپتان ،عالمی شہرت یافتہ کرسٹیانو رونالڈو ۔

    ایک اور اہم ٹیم جو بھرپور فارم میں ہے ،
    بیلجیئم
    ان کے پاس موجودہ دور کا سب سے اچھا گول کیپر ہے ، تھیبو کوردوا ، جبکہ بہترین مڈ فیلڈر کیون ڈی برائن بھی بیلجیئم کی ٹیم میں موجود ہیں۔ ایڈن ہزارڈ ، رومینو لوکاکو سبھی بیلجیم کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں ۔

    ایک اور مضبوط ترین ٹیم جرمنی ہے، جو چار مرتبہ ماضی میں بھی یہ ورلڈ کپ جیت چکی ہے۔ ان کے لیروئے سین ، تھامس ملر اور مارکو ریوس پر پوری دنیا کی نظر ہے۔

    اس کے علاوہ یوراگوئے ، اسپین ، انگلینڈ ، سینیگال کی ٹیمز بھی خاصی مضبوط ہیں۔

    سینیگال اور انگلینڈ کو تو خصوصاً خاصی اہمیت کے حامل تصور کیا جا رہا ہے۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ سابقہ عالمی چیمپئن اٹلی، جس نے 4 مرتبہ عالمی کپ اپنے نام کیا ، وہ اس ورلڈ کپ میں کوالیفائی ہی نہیں کر سکا ۔

    بظاہر 8 سے 9 ٹیمز ایسی ہیں جن کو ورلڈکپ کے لیے اصل امیدوار سمجھا جا سکتا ہے ، لیکن باقی سب بھی اگر کوالیفائی کر گئی ہیں تو پھر ظاہر ہے پوری صلاحیت سے مقابلہ کریں گی۔ لیکن فٹبال ایسا کھیل ہے جس میں اپ سیٹس کی توقع کی جا سکتی ہے
    یہ ورلڈ کپ تو اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ فٹبال کی دنیا کے روشن ترین ستارے ، کرسٹیانو رونالڈو اور لائنل میسی دونوں ہی آخری بار ورلڈ کپ میں شریک ہو رہے ہیں ۔ بالخصوص لائنل میسی ، جن کو بے حد و حساب خدمات اور تمغوں کے باوجود اس بحث کا سامنا ہے کہ کیا وہ ارجنٹائن کے سب سے بڑے کھلاڑی ہیں یا نہیں ۔
    کیونکہ وہ تا حال اپنے ملک کے لیے ورلڈ کپ جیتنے میں ناکام ہیں ، جبکہ ان کے پیش رو آنجہانی ڈیاگو میراڈونا نے دو بار ارجنٹائن کو ورلڈ کپ جتوایا تھا۔

  • عدم اور وجود کا واہمہ- حمّاد یونُس

    عدم اور وجود کا واہمہ- حمّاد یونُس

    سائینسی نقطہِ نظر سے دیکھا جائے تو ہر شے کا ایک وجود ہے ، اور ہر وجود کے گرد ایک ہالا ہوتا ہے ، جسے aura کہتے ہیں ۔ ہر وجود کا ہالا دوسرے وجود کو بہ یک وقت اپنی جانب کھینچتا بھی اور اپنے سے دور دھکیلتا بھی ۔

    یہ جو چیز ہم کھو دیتے ہیں ، یا جو ہاتھ ہم سے چھوٹ جاتا ہے وہ کبھی پلٹ کر واپس ہمارے پاس نہیں آتا ۔ ممکن ہے کہ اس جیسا یا اس سے بہتر ہمارے پاس آ جائے، مگر جو انس اور اس چھوٹے ہوئے ہاتھ سے ہوتا ہے ، جو ایک قلق گزرے ہوئے کل کا ہوتا ہے ، اس کی کمی آنے والا دن پورا نہیں کرتا ۔ یہاں تک کہ اگر کوئی جانے والا پل لوٹ آئے یا بچھڑا ہوا واپس پلٹ آئے تو بھی ایک غیر معمولی خلا برقرار رہتا ہے۔ حفیظ ہوشیارپوری نے کہا تھا ناں،
    اگر تُو اتّفاقاً مل بھی جائے
    تری فُرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے
    تو وہ جو ایک شے کے وجود کا عدم ہے ، اس کا خلا ہمیشہ برقرار رہتا ہے ، البتہ نئے وجود کا ہالا شاید منظر کو دھندلا دیتا ہے ، کچھ یقین سے کہا نہیں جا سکتا کہ نئے وجود کا ہالا ہے یا نم آنکھوں نے پردہ طاری کر دیا،
    امجد اسلام امجد نے اسے یوں بیان کِیا:
    کہاں سے چلا تھا جدائی کا سایا ، نہیں دیکھ پایا
    کہ رستے میں تھی آنسوؤں کی روانی،ذرا پھر سے کہنا

    مگر کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا ، یوں بھی تشکیک کا عہد ہے ، ہمارا اپنا وجود بھی ایک قیاس ہے ، یا شاید گمان ، یا ایک خیال، کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔
    یعنی ، اعتبار ساجد کے الفاظ میں ،
    جیسے کسی خیال کا سایہ ہیں دو وجود
    ہم بھی اگر قیاس ہیں، امکان تم بھی ہو
    یوں بھی، دنیا کو ایک خواب سمجھا جاتا رہا ہے۔ یا شاید کسی خواب کا عکس۔قدیم یونانی مفکرین کا تو یہی ماننا تھا ۔

  • مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں -حماد یونس

    مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں -حماد یونس

    ہر برس، یومِ اقبال آتے ہی ، مبینہ دانش وروں پر عجیب کیفیت طاری ہونے لگتی ہے ۔
    ہمارے یہاں دانش ور، مروجہ لبرلز یا کالے انگریز ایسی صورت حال کو پہنچ چکے ہیں کہ ان سے نہیں ، بلکہ ان کے رہنماؤں اور خود ساختہ خداؤں سے تعزیت کو جی چاہتا ہے ۔
    یعنی
    ” اقبال کے کسی جرمن خاتون سے معاشقے تھے ، اقبال کسی غیر محرم کو محبت بھرے خطوط لکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرا کرتے تھے ، اقبال شراب پیتے تھے، اقبال کے آں نساء عطیہ فیضی صاحبہ سے مراسم تھے ، اقبال برطانوی نظام کے حامی تھے ، اقبال کو سر کا خطاب ، اور ان کے استاد محترم مولوی میر حسن صاحب کو شمس العلماء کا خطاب برطانویوں کی حمایت کے انعام میں دیا گیا ، اقبال جہاد کے خلاف تھے ، انہوں نے دین ملا کو فی سبیل اللہ فساد کہا ، اقبال دین بیزار تھے ، اقبال داڑھی والوں کو پسند نہیں کرتے تھے، اقبال کا کوئی فکری ، علمی و ادبی مرتبہ نہیں ، اقبال کا نام صرف اس لیے زندہ ہے کہ انہیں ریاستِ پاکستان کی چھتر چھایا میسر ہے ، ان کے نام کو پاکستانی ریاست کے وینٹی لیٹر سے چوہتر برس سے مصنوعی سانس دلوائی جا رہی ہے ، اقبال نے کارل مارکس کی حمایت کی ، اقبال کمیونزم سے متاثر تھے ، وغیرہ وغیرہ۔۔”
    اچھا بھائی دیسی لبرل ، کالے انگریز یا دانش ور (جو بھی آپ خود کو کہلوانا پسند فرمائیں ، آپ فرمائیں کیا خریدیں گے؟) پیر و مرشد !!
    گزارش یہ ہے کہ آپ جیت گئے ،

    چلیے دو لمحوں کو مان لیا کہ آپ کی عائد کردہ یہ تمام فردِ جرم بالکل درست اور مبنی بر حق ہے ۔ اب ؟؟

    کیا ان تمام ثبوتوں اور گواہوں کی روشنی میں اقبال ، عالمی و اتم درجے کی لبرل اور سیکیولر شخصیت ثابت نہیں ہوتے؟ پھر کیا وجہ ہے کہ آپ انہیں اپنے مروجہ خداؤں کی فہرست میں جگہ نہیں دیتے؟ آپ ان کے نام کی مالا کیوں نہیں جپتے؟ ان کے نام کی قومی و بین الاقوامی کانفرنسز کیوں منعقد نہیں کرواتے؟ ان پر ادبی ، علمی و تحقیقی کام کرنے والے آپ کی صفوں میں کیوں نہیں؟

    برا نہ مانیے حضور ، مگر اس سب سے تو اقبال آپ ہی کے “اکابر” میں شمار ہوتے ہیں !!

    تو الزام اور طعن و تشنیع دینی و مذہبی طبقے پر کیوں؟ اگر آپ کا ہی ایک فرد آپ کو سرِ بازار رسوا کر گیا ، آپ کا ہر بھید دنیا کو بتا گیا ، اور آپ کے مذہبِ لا دینیت کا بیعت کنندہ ہو کر ، اور آپ ہی کی صفوں کا سپاہی ہو کر ہم دقیانوسیت کے شکار و اسیر ، چودہ سو برس پیچھے کے خواب دیکھنے والے لوگوں کا کوئی کام کر گیا تو حضور ، آپ ہی کہیے اس میں ہمارا کیادوش ہے؟ اقبال ہی کے الفاظ میں،

    تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
    خطا اس میں بندے کی سرکار ، کیا تھی؟

    حضورِ والا گزارش یہ ہے کہ اقبال اس سب سے اپنی زندگی میں بھی ماوراء تھا ، بالا تر تھا ، (یہ بھی سنو کہ نغمۂ طائرِ بام اور ہے ) ۔ اس کے کلام کا مطالعہ فرمائیے ، اقبال نے بڑائی کا دعویٰ کہاں کیا ہے؟ پارسائی کا دعویٰ کہاں کیا ؟ شاعر ہونے کا دعویٰ کہاں کیا؟
    اقبال کہتا ہے:
    بانگِ درا کی نظم “زہد اور رندی” میں
    مجھ کو بھی تمَنّا ہے کہ اقبال کو دیکھوں
    کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی

    اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
    کچھ اس میں تمسخر نہیں ،واللہ نہیں ہے

    بالِ جبریل کی غزل میں
    خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری
    وگرنہ شعر مرا کیا ہے ، شاعری کیا ہے؟

    اقبال کی بانگِ درا کی نظم “نصیحت “کا بحیثیتِ مجموعی ملاحظہ فرمائیے ۔

    اقبال نے کب بڑائی کا ، یا بڑا شاعر ہونے یا صرف شاعر بھی ہونے کا دعویٰ کیا ؟
    اقبال تو خود کو شاعر سمجھتے ہی نہ تھے ۔
    زبورِ عجم میں اقبال فرما گئے
    نغمہ کجا و من کجا ، سازِ سخن بہانہ ایست
    سُوئے قطار می کشم ناقۂ بے زمام را

    چھوڑیے حضور ، اقبال کی کیا بات کریں گے ، اس کی ایک مسجد قرطبہ اور ایک ساقی نامہ ہی بیشتر شعرا کے سارے کلا م پر بھاری ہیں مکمل فہرست کی کیا بات کیجیے!!! جبکہ اقبال کے یہاں اس کے کلامِ متروک میں ایسے ایسے گوہرِ تابدار ہیں، مثلاً نالۂ یتیم۔۔۔ یعنی یہ تو وہ ہیں جو بتائے ہم نے ، اب وہ سوچو جو چھپائے ہوں گے !!!
    اقبال کے نفس کی تاب نہ ہم لا سکے نہ آپ ، سو کوئی برابری کا ، اپنے جوڑ کا فرد دیکھ لیتے ہیں ناں مشقِ ستم کے لیے ، کہ

    دگر از یوسفِ گم گشتہ سخن نتواں گفت
    تپَشِ خونِ زلیخا نہ تُو داری، و نہ من
    منظوم ترجمہ
    چھوڑیے ، یوسفِ گمگشتہ کی کیا بات کریں
    شدّتِ شوقِ زلیخا نہ تجھے ہے ، نہ مجھے

    خزفی بُود ، کہ از ساحلِ دریا چیدم
    دانۂ گوہرِ یکتا نہ تُو داری ، و نہ من
    منظوم ترجمہ
    مَیں بھی ساحل سے خزف چنتا رہا ہُوں ، تُو بھی
    حاصل اک گوہرِ یکتا نہ تجھے ہے ، نہ مجھے

    بہ کہ با نورِ چراغِ تہہ داماں سازیم
    طاقتِ جلوۂ سینا نہ تُو داری ، و نہ من
    (یہ اقبال کی فارسی غزل کے اشعار ہیں ، جو پیامِ مشرق میں ہے ، جبکہ منظوم ترجمہ فیض احمد فیض نے کیا۔)
    منظوم ترجمہ
    یہ چراغِ تہہ داماں ہی بہت ہے ہم کو
    طاقتِ جلوۂ سینا نہ تجھے ہے ، نہ مجھے

    تو کلام یہی ہے حضور ، کہ آپ اور ہم تو تہی داماں ٹھہرے ، ادب نہ زندگی ، کچھ بھی تو نہیں ۔نہ زندگی ، نہ محَبّت ، نہ معرفت ، نہ نگاہ!!!

    چاند پر تھوکا جائے تو وہ کیا کبھی چاند تک پہنچتا ہے؟
    من جواں ساقی و تُو پیرِ کہن میکدہ ئی
    بزمِ ما تشنہ و صہبا نہ تُو داری و نہ من

  • پاکستان میں اقتدار کی جنگ اور رسہ کشی-حمّاد یونس

    پاکستان میں اقتدار کی جنگ اور رسہ کشی-حمّاد یونس

    پاکستان میں سیاسی صورتحال ہمیشہ غیر معمولی اور نزاعی ہی رہی ہے ۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک سیاسی نظام غیر مستحکم ہی رہا ہے۔ مگر آج یہ صورت حال جس نہج پر پہنچ چکی ہے ، ویسا نازک دور شاید ماضی میں دیکھنے کو نہیں ملا۔
    اس صورت حال کے اسباب بے شمار ہیں ، جن پر سیر حاصل گفتگو کی جا سکتی ہے ۔

    پہلا سبب ہے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینا۔
    پاکستانی سیاست دانوں نے اپنی زندگی کا مقصد ، حصولِ اقتدار بنا لیا ، اور سیاست کا یہی معنی عام کر دیا گیا کہ حصولِ اقتدار کی جنگ کا نام سیاست ہے۔
    اس سلسلے میں ذاتی و خاندانی مفاد ہی ان کی پہلی ترجیح بن جاتا ہے ۔ ملکی مفادات کا تحفظ ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ چنانچہ جب ان پر کوئی مشکل وقت آئے تو یہ اس سے نکلنے کے لیے ہر ہتھکنڈہ آزماتے ہوئے، اس بات کی قطعاً کوئی فکر نہیں کرتے کہ ملک یا قومی سلامتی کو اس سے کیا فرق پڑے گا۔ چنانچہ یہ سیاست دان ایسی بات اور اقدام کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے جو ملکی جگ ہنسائی کا باعث بنے۔ مثلاً آج کے حالات میں ، حساس ترین اور مؤقر اداروں پر جو سنگین الزامات عائد کیے جا رہے ہیں ، کیا کسی سمت سے اس کا کوئی مثبت نتیجہ نکل سکتا ہے؟؟؟ بھارتی نشریاتی اداروں اور سیاسی و دفاعی تجزیہ کاروں کا رد عمل دیکھا جائے تو یہ بات مکمل واضح ہو جائے گی۔ ملکی دفاعی اداروں پر سنگین الزامات کی بوچھاڑ کر کے انہیں عوام کی نظروں سے گرانے اور ملکی ہیروز سے ڈائریکٹ ملزمان کا درجہ دینے کا کیا نتیجہ ہو گا؟ ایک ملک کی عوام کو اپنی ہی فوج کے خلاف کرنے کا مطلب ملکی بنیادوں کو کھودنے اور کھوکھلا کرنے کے علاوہ کیا ہے ؟ جس دور میں بھارت آئے روز سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ کرتا رہے ، اس کے ابھی نندن جیسے ہوا باز طیارے لہرا رہے ہوں ، دوسری جانب باقی سرحدوں کے پار بھی کوئی بہت اچھا اور سازگار ماحول نہ ہو تو ایسے میں اپنی فوج کے اعلیٰ افسران کو صبح وشام مشقِ سخن بنانا ، ان کا میڈیا ٹرائل کرنا ، مقبول رہنماؤں کی جانب سے ان پر بے بنیاد اور مضحکہ خیز الزامات عائد کرنا کیا معنی رکھتا ہے ؟؟؟
    کیا اس صورتحال کا فائدہ کوئی دشمن نہیں اٹھا سکتا؟؟؟

    کرسی کی بھوک اور تمنا ، اچھے خاصے معقول انسانوں کو بھی بھٹکا دیتی ہے۔ ایک انسان جو سلجھا ہوا ، سنجیدہ اور معاملہ فہم معلوم ہوتا ہے ، اس میں اقتدار کی خواہش پنپنے لگے تو پھر بہکے بہکے میرے سرکار نظر آتے ہیں ۔
    ایسے موقع پرستوں کی حرکات و سکنات ، مضحکہ خیز ہوتی چلی جاتی ہیں ۔ ان کی باتوں میں معقولیت اور دلیل کم سے کم اور اقتدار کے پائیدان کی بھوک زیادہ سے زیادہ واضح ہونے لگتی ہے ۔ پھر ، “اِدھر ہم حکومت کریں گے اُدھر تم حکومت کرو”، “ایسے کئی پاکستان اور خرید سکتے ہیں” ، “وردی میری کھال ہے” ، “ایک چیز آ کر تمہیں ہِٹ کرے گی اور تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا” ، “وعدے تو قرآن حدیث نہیں ہوتے” ، اور
    “میرا وعدہ ہے کہ تمہیں اسلام آباد میں چھپنے نہیں دوں گا” جیسے رعونت بھرے بیانات سامنے آتے ہیں ۔

    ان کو اس سب سے وقتی طور پر بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا ، لیکن اقتدار کے نشے میں چُور شخص کو کوئی بات سمجھانا نا ممکن ہے ۔

    حالات کو اس نہج پر لانے میں سارا کردار صرف سیاست دانوں کا نہیں ۔
    مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں جمہوری سیاسی نظام کبھی بھی پروان نہیں چڑھنے دیا گیا ۔ مسلسل غیر سیاسی قوتوں نے جمہوری نظام اور حکومتوں کے مسائل میں دخل اندازی کی۔ چار بار براہ راست اقتدار پر قابض ہوئے اور ملک کے 32 برس ان چار ڈکٹیٹرز کی نذر ہو گئے ۔ سوال تو اٹھایا جانا چاہیے کہ اس صورتحال میں جمہوری اور سیاسی اقدار کیسے پروان چڑھ سکتی تھیں؟ مگر طُرفہ تماشا یہ ہے کہ جب یہ براہ راست اقتدار میں تھے تو اس دوران انہوں نے اپنے دم چھلے اور بغل بچے بھی پروان چڑھائے۔ تقریباً ہر آمر نے ایک نئی مسلم لیگ بنائی اور اپنا ایک چہیتا بھی تیار کِیا ۔ یہ بھٹو ، نواز ، عمران ، پرویز الٰہی ، یہ سب اسی فیکٹری کے تیار کردہ سیاست دان تھے ، مگر افسوس یہ ہے کہ اس فیکٹری کو کبھی اپنی کسی پروڈکٹ پر فخر نہیں ہوا۔ انہیں پسِ پردہ حکمرانی کا جو شوق چرایا ، یہ کبھی ان کے کام نہیں آیا۔ چند برس بعد پہلا لاڈلا جب انہی کے گلے پڑ جائے تو یہ اسے ٹشو پیپر کی طرح تاریخ اور سیاست کے کوڑے دان کی نذر کر کے نیا لاڈلا پروان چڑھا دیتے ہیں ۔
    اب ایک بار پھر وہی مرحلہ درپیش ہے ، موجودہ لاڈلا جب اقتدار سے جڑے رہنے کے لیے ادارے اور ملک کے وقار کو داؤ پر لگا رہا ہے تو ادارہ اس شش و پنج میں ہے کہ کیسے اس مشکل سے جان چھڑوائی جائے۔
    اگر متعلقہ سیاست دان کو بچائیں تو ملک اور ادارے کا وقار، بقا، سالمیت اور نظریاتی سرحد خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اور اگر ادارے اور ملکی سالمیت کی فکر کی جائے تو چہیتا لیڈر کہاں جائے گا ؟
    لہٰذا اس اقتدار اور بالادستی کی کشمکش میں ملک ایک شٹل کاک بن کر رہ گیا ہے۔
    اس موقع پر سنجیدہ طبقات ، جو ایک تماشبین کی حیثیت اختیار کیے ہوئے پاپ کارنز خریدے بیٹھے ہیں انہی سے استدعا کی جا سکتی ہے کہ خدارا آگے بڑھ کر اس تنازع کو روکنے اور کسی مثبت انجام تک پہنچانے لے لیے کردار ادا کریں ۔
    سیاست دانوں کے اقتدار کے نشے کا شاید علاج نہ ہو مگر ادارے کو یہ بات سمجھنی پڑے گی کہ ان کا اقتدار اس ملک کی بقا اور سلامتی ہی کے مرہونِ منت ہے ۔
    اس مسئلے کا حل صرف یہی نظر آتا ہے کہ ادارہ ، اپنی سیاسی سرگرمیوں کو محدود کرے اور آئندہ کسی خاص ہمنوا پر اپنی خصوصی نظرِ کرم نہ فرمائیں۔ سیاست دان بھی ہوش کا ناخن لیں اور اقتدار کی ہوس میں ملک کو نذرِ آتش کرنے سے باز رہیں۔

  • چینی صدر کے حالیہ اقتصادی اقدامات-حماد یونس

    چینی صدر کے حالیہ اقتصادی اقدامات-حماد یونس

    چینی صدر ، شی جن پنگ کے تیسری بار صدارتی منصب سنبھالنے کے ساتھ ہی چینی معیشت اور اسٹاک ایکسچینج کو غیر معمولی مندے اور گراوٹ کا سامنا

    عوامی جمہوریہ چین میں یک جماعتی آمرانہ نظامِ حکومت ہے ۔ شی جِن پنگ 2013 سے چینی صدر اور 2012 سے حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ اس کے علاوہ چین کے پیراماؤنٹ لیڈر کے عہدے پر بھی فائز ہیں ۔ چین میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں شی جِن نے بلا مقابلہ صدر منتخب ہونے کے بعد غیر معمولی اور انقلابی اقدامات کیے، جن کا انہوں نے الیکشن سے پہلے ہی اعلان کیا تھا ۔
    چونکہ چین میں اشتراکی نظام نافذ ہے ، چنانچہ طاقت ، اختیارات اور دولت کا مرکز و محور عوام یا براہ راست عوامی نمائندے ہیں۔ ایسے میں چند بڑے صنعت کاروں اور تجارتی اداروں کے مالکان کے پاس غیر معمولی دولت یا اثاثہ جات کی موجودگی ، اشتراکیت یعنی کمیونزم کے بنیادی نظریات سے متصادم ہے۔ چنانچہ کوئی بھی شخص جب حقیقی کمیونزم کے نفاذ کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کا براہ راست اثر صنعت کاروں اور جاگیر دار طبقے پر ہی ہوتا ہے ۔
    چنانچہ بیش تر کامیاب ترین چینی صنعت کاروں کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ۔ چین ابھرتی ہوئی عالمی طاقت ہے ۔ عالمی سطح پر بہت سی بڑی بڑی کمپنیوں کے مالکان چین کے ہی شہری ہیں۔ جن میں علی بابا سمیت دیگر بہت سے عالمی شہرت یافتہ ادارے شامل ہیں۔ ان سب کو شی جِن پنگ کے اقدامات کے سبب عالمی اسٹاک مارکیٹ میں شدید دھچکوں اور مندے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    دوسری جانب انہوں نے یورپ اور امریکہ کے ساتھ چین کے تجارتی حجم کو کم کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے ، جس سے معیشت پر مزید بوجھ بھی آ سکتا ہے۔

    شی جِن پنگ کے حالیہ اقدامات ، بالخصوص صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کے خلاف پالیسی نے ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسی کی یاد تازہ کر دی۔ یاد رہے کہ جنوری انیس سو بہتر کو ذوالفقار علی بھٹو نے بھی قومی صنعتوں اور اداروں کو قومیا لینے یعنی nationalization کی پالیسی اپنائی تھی ، مگر اس کے پاکستان کی معیشت پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوئے تھے ۔ مگر بھٹو کے سوشلسٹ نظام یا پاکستانی معیشت اور چین کے نظام میں زمین آسمان کا فرق ہے ، چنانچہ یہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ چین لازماً شی جِن پنگ کے حالیہ اقدامات سے نقصان ہی اٹھائے گا۔

  • توشہ خانے کی حقیقت -حماد یونس

    توشہ خانے کی حقیقت -حماد یونس

    سابق وزیر اعظم کو جس توشہ خانہ کیس کے تحت نا اہل کیا گیا، اس کیس کی تفصیلات ایک طرف ، خود توشہ خانہ کے بارے میں کسی کو علم نہیں ۔
    توشہ کا مطلب تو ہے مسافر کا سامان ، مگر توشہ خانہ ایک ریاستی ادارہ ہے ، جہاں ریاستی عہدیداران کو ملنے والے تحائف کو جمع کروایا جاتا ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو مناصب بھی مسافر خانے کی طرح ہی ہوتے ہیں جہاں ملنے والی مراعات یا تحائف کو ذاتی ملکیت نہیں سمجھا جا سکتا ۔
    توشہ خانہ کا تصور تو مغلیہ سلطنت کے دور سے چل رہا ہے ، مگر اسے باقاعدہ ایک ریاستی ادارہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنایا۔ مختلف حکمرانوں اور صاحبِ ثروت شخصیات کی جانب سے متحدہ ہندوستان کے گورنر جنرل اور دیگر اعلیٰ افسران کو کو مختلف تحائف دیے جاتے تھے ۔ مگر ایک امریکی Proverb ہے کہ
    Nothing in this world is free. Everything has a price.
    چنانچہ ان تحائف کا مقصد ان حکومتی عہدیداروں سے کوئی رعایت یا مفادات کا حصول تھا۔ برطانوی سرکار ایسے کسی عمل یا رواج کو پنپنے نہیں دے سکتی تھی لہذا توشہ خانے کو متحرک کیا گیا اور تمام تحائف اس میں جمع کروائے جانے لگے۔ اس حوالے سے مختلف قواعد و ضوابط بھی متعارف کروائے گئے ۔

    یہی نظام پاکستان میں بھی چلا آ رہا ہے ۔ مختلف ملکی و غیر ملکی اُمَراء کی جانب سے افسران اور حکمرانوں کو تحائف کا ملنا معمول کی بات ہے ۔ مگر ان کو بر وقت توشہ خانہ میں جمع کروانا اور ان کو ریکارڈ پر لانا البتہ ایک آئینی و اخلاقی ذمہ داری ہے ۔
    ان تحائف کی مارکیٹ میں قیمت لگوائی جاتی ہے اور اگر کسی تحفے کی قیمت ایک مخصوص رقم سے کم ہو تو اسے متعلقہ افسر یا عہدیدار خود رکھ سکتا ہے ۔ جبکہ دیگر مہنگے تحائف کو ان کی اصل قیمت کا ایک مخصوص حصہ بیت المال میں جمع کروا کر خریدا جا سکتا ہے۔ سابقہ حکومتوں میں کسی تحفے کی اصل قیمت کا 20 فیصد جمع کروانا لازم تھا ، جسے عمران خان کے دورِ حکومت میں 50 فیصد کر دیا گیا ۔ یعنی کس افسر کو ایک تحفہ ملا ، اور اس کی مارکیٹ میں قیمت ایک کروڑ روپیہ لگی ہے تو وہ افسر ، بیت المال میں 50 لاکھ روپیہ جمع کروا کر اس تحفے کو خرید سکتا ہے ۔
    اگر متعلقہ افسر یا عہدیدار اس تحفے کو نہیں خریدتے تو پھر اسٹیٹ بینک کے ذریعے اس تحفے کی دوبارہ قیمت لگوائی جاتی ہے اور یوں اسے اصل مارکیٹ قیمت پر فروخت کر دیا جاتا ہے ۔

    یورپی ممالک اور امریکہ میں آفیشل گفٹ ریپوزیٹری ہوتی ہے جس میں تحائف جمع کروائے جاتے ہیں ۔
    انگلینڈ میں آفیشلز اور حکام کے لیے 300 پاونڈز سے زیادہ مالیت کے تحائف ریجسٹر کروانا لازم ہے ۔ 28 دن کے اندر اندر ان کا اندراج کروا دیا جاتا ہے ۔

    بھارت ، بنگلہ دیش اور ایران میں بھی توشہ خانے قائم ہیں جہاں ریاستی عہدیداران کو ملنے والے تحائف جمع کروائے جاتے ہیں ۔ مگر کبھی کسی گھپلے کی خبر شاید ہی کبھی سامنے آئی ہو۔ بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کو بطورِ وزیر اعلیٰ گجرات جو تحائف موصول ہوئے ، ان سب کی قیمتوں کا تخمینہ لگوانے کے بعد انہوں نے تقریباً سو کروڑ بھارتی روپوں کو طالبات کی تعلیم کی مد میں جمع کروا دیا ۔ جبکہ حال ہی میں بطور وزیر اعظم انہیں جو تحائف ملے ان سے مودی نے گنگا سمیت بھارتی دریاؤں کی صفائی اور صاف پانی کے اہتمام کا کام لیا ۔
    اگر ایک افسر ، وزیر یا کوئی بھی ریاستی عہدیدار کسی تحفے کا اندراج ایک مخصوص مدت میں نہیں کرواتا تو اسے ایک آئنی جرم تصور کیا جاتا ہے ۔

  • نی او لُد گئے اونٹاں والے،مائے نی میری اکھ لگ گئی-سید شہریار کاظمی

    نی او لُد گئے اونٹاں والے،مائے نی میری اکھ لگ گئی-سید شہریار کاظمی

    آپ ونجاں کہ قاصد بھیجاں
    میرا تھیں گئیوں حال بیماراں
    غلام فریدا میں تاں ایوی وچھڑی
    جیویں وچھڑی کونج قطاراں
    وے سانول موڑ مہاراں
    (خواجہ غلام فرید)

    رومانویت لاہور کے فطری میلانات میں سے ایک ہے۔ یہاں محبت ایک جذبہ نہیں بلکہ زندگی کا لازمی جزو ہے۔ راوی کے کنارے آباد اس تہذیب کی بنیادیں محبت میں گوندھی گئی ہیں۔ محبت یہاں کی روح ہے, بنا روح جسم ، گوشت کا ایک بیکار پتلا ہی تو ہے۔

    میں محبت کو ایک بارش کی طرح محسوس کرتا ہوں جو قطرہ قطرہ آسمان سے برستی ہوئی پیاسی زمینوں کو سیراب کرتی ہے۔ زمین اور بارش, معاملات ہجر و وصل, ان جذبات کی کشش ہمیشہ مقید کرتی ہے۔۔ملتان سے چناب کے کنارے چلتے جائیں اور ہیڈ محمد والا کے ساتھ شمال کی جانب زرخیز میدان, ریتلے ٹیلوں میں بدلنے لگے تو سمجھ لیجئے آپ سسی پنوں کے دیس میں آگئے ہیں۔

    صحرائے تھل جہاں آج بھی ہاشم شاہ کی داستان گونجتی ہیں۔ تھل کی یہ ریت امین ہے ایک امر پیاس کی۔ ایک ایسا ٹکرا جو بارش کی آس لگائے تھل کی تپتی ریت میں گم ہوگیا۔

    تارکول کی سڑک کا سینہ چیرتی، ریت اوردھواں اڑاتی گاڑی, یہ ریت جس میں سسی کے فراق کا درد ہے, میرا ذہن ہاشم شاہ کے کلام میں بھٹکا رہی ہے۔ نظریں ان ریتلے ٹیلوں میں سسی پنوں کی باقیات ڈھونڈتی ہیں, استاد سلامت علی خان کی درد بھری آواز میں خواجہ غلام فرید کی رباعی اور احساسِ تشنگی۔

    تھل اور مجھ میں “پیاس” ایک قدر مشترک ہے۔ مگر میں تھل کی طرح پرسکون نہیں ہوں ۔کچھ سوالات ہیں جن کے جواب مل نہیں سکے, ایک نہ ختم ہونے والی الجھن درپیش ہے۔

    بارش بارہا مجھ پر اتری مگر یہ تشنگی مِٹ نہ سکی۔ کیا یہ بارش ناکافی ہے یا میں ان پتھریلی زمینوں کی طرح ( جہاں سے میرے آباؤاجداد آئے تھے)اس بارش کو جذب کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوں۔ ایبٹ آباد کی پتھریلی چٹانیں بارش کو اپنے اندر نہیں سموتیں , پانی ان پر سے بہتا ہوا پنجاب کی زر خیز زمینوں کو سیراب کرتا ہے, کیا یہ بارش کسی زمین کی زرخیزی کا باعث ہے؟؟

    مگر چٹانیں انجان رہتی ہیں کہ ان پر بہنے والا پانی کس کے کام آتا ہے, اور پنجاب کی زرخیز زمینیں چٹانوں کے درد سے نا آشنا ہیں۔ برہمن بتوں کے سامنے مالا جپتے ،اپنے دکھ بیان کرتے عمر گزار دیتے ہیں ،پھر بھی ان پتھروں کے درد کو نہیں سمجھ سکتے۔

    یہ دنیا تضادات کا ایک مجموعہ ہے۔ محبت وہ کڑی ہے جو ان تضادات میں گھرے لوگوں کو جوڑتی ہے۔

  • جوہری ہتھیار:دنیا کو کس سے خطرہ ؟-حماد یونس

    جوہری ہتھیار:دنیا کو کس سے خطرہ ؟-حماد یونس

    پاکستانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے چند مخصوص طبقات اور ممالک مختلف آراء رکھتے ہیں ۔ بیش تر ممالک اسے پاکستان کا دفاعی حق سمجھتے ہوئے تسلیم کرتے ہیں۔ جبکہ بھارت ، اسرائیل اور امریکہ وغیرہ وہ ممالک ہیں جنہوں نے بارہا اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان تحفظات میں کیا صداقت ہے۔
    پاکستانی ایٹمی پروگرام ، بعض آراء کے مطابق اسی کی دہائی میں تکمیل کے مراحل طے کر چکا تھا مگر اس کا علم تین چار متعلقہ ذمہ داروں کے علاوہ پوری دنیا میں کسی کو نہ تھا ۔ 1998 تک دنیا کا خیال یہی تھا کہ پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں ہی نہیں ۔ چنانچہ بھارت نے ایٹمی قوت کا مظاہرہ پاکستان پر اپنی طاقت کی دھاک بٹھانے کے لیے ہی کیا تھا ۔ یہ معاملہ تھا پاکستانی ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں برتی گئی راز داری کا۔ اور حال یہ ہے کہ آج تک، چند مخصوص انتہائی معتمد متعلقہ افسران کے علاوہ کسی کو ان ایٹمی ہتھیاروں کی درست پوزیشن اور لوکیشن کی کوئی خبر نہیں ۔
    پاکستانی ایٹمی پروگرام کو خطرہ چند مواقع پر ہوا، جب اسرائیل اور بھارت نے پاکستانی ایٹمی پروگرام کو
    فضائی حملہ کر کے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ یہ 80 کی دہائی کی بات ہے ، عراقی ایٹمی پروگرام کو تہس نہس کرنے کے بعد اسرائیلی افواج کا حوصلہ ہواؤں سے باتیں کر رہا تھا۔ چنانچہ بھارت اور اسرائیل نے مل جل کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کی سازش رچائی ، مگر ایک طرف پاکستانی ایٹمی پروگرام انتہائی خفیہ مقام پر ہے ، اور اس کی لوکیشن کو صیغہِ راز میں رکھنے کے سلسلے میں غیر معمولی احتیاط برتی گئی ہے، جبکہ دوسری طرف پاکستانی جوان اور ہواباز ہر لمحہ سرحدوں پر چاک و چوبند ہیں ، چنانچہ اسرائیلیوں کو اندازہ ہو گیا کہ صدام حسین کے عراق اور پاکستان، دونوں ایک برابر نہیں۔ دوسری طرف پاکستان کے دوستوں نے بھی پاکستان کو بروقت آگاہ کر دیا۔
    اب دیکھا جائے تو اسرائیل اور بھارت ، یہ دونوں ہی امریکہ کے سایہء عاطفت میں جی رہے ہیں۔ اسرائیل کے ہر ظلم ، دھونس ، انسانیت سوز پالیسی کا واحد سرپرست امریکہ ہی تو ہے۔
    چنانچہ حالیہ امریکی صدر (POTUS) جو بائیڈن کے بیان کو دیکھا جائے تو معاملہ واضح ہو جائے گا ۔ ایک انگریزی اصطلاح ہے کہ
    The cettle calling the pot black
    چنانچہ ، اگست 1945 میں ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کرنے والا پاکستان تو نہیں تھا ۔ ان حملوں میں لاکھوں انسان پلک جھپکتے ہی ریت کا ڈھیر بن گئے ۔
    پھر افغانستان میں 15 اپریل 2017 کو ننگرہار میں 21600 پاؤنڈ وزنی یعنی ساڑھے نو ٹن کا
    MOAB
    (Mother of All Bombs )
    یعنی GBU 43/B
    برسایا تھا ، جس سے ہزارہا انسان ایک سانس کی ساعت میں بُھس بن گئے تھے۔
    اور نیپام بم تو عراق اور افغانستان پر مسلسل استعمال ہوتا رہا۔ یہ عالمی سطح پر ممنوع ہتھیار نہتے لوگوں پر برسانے والا امریکہ ، کس منہ سے پاکستانی ایٹمی پروگرام کو عالمی سطح پر خطرہ قرار دے رہا ہے ؟
    جبکہ پاکستان پچھلے 40 برس سے ایٹمی قوت ہونے کے باوجود عالمی امن کا سب سے بڑا عملاً داعی ہے ۔
    پاکستان کے ایٹمی ہتھیار انتہائی محفوظ ہاتھوں میں ہیں ، بلکہ دنیا کو اگر کبھی خطرہ ہوا تو انہی دورنگی ، نام نہاد مہذب اقوام سے ہو گا جو کسی طاقتور کے مظالم کو خاموشی سے دیکھتے ہیں اور کسی کمزور کی غلطی پر فوراً ایٹمی اور کیمیائی ہتھیار سنبھال لیتے ہیں ۔