غزہ کے جرات مند باسیوں نے اسرائیل کے جبر اور فرعونیت کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا۔
آج صبح سے اسرائیلی طیارے غزہ کے شمالی کنارے پر ہزاروں پمفلٹس پھینک کر جا رہے ہیں ۔ جن میں اہلِ غزہ سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس کے شمالی علاقوں کو ترک کر کے فوراً غزہ کے جنوبی کنارے کی جانب ہجرت کر جائیں ۔ اپنے گھروں کو خالی کر دیں، کیونکہ اسرائیلی افواج کا ارادہ غزہ کے شمالی علاقوں پر بمباری کرنے کا ہے۔
اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ ان پمفلٹس کے ذریعے وہ اپنے فاسفورس بموں اور مسلسل سویلینز پر حملوں کو جائز بنا لے گا۔ دوسری طرف اسرائیل پر امید ہے کہ اس طرح اہلِ غزہ میں خوف و ہراس بھی پیدا ہو گا۔
جبکہ ان دھمکیوں کا بنیادی مقصد، ایک اور نکبہ ہے، یعنی 1948 کی طرز پر ایک بار پھر فلسطینیوں کو بے گھر کرنا، ان کی نسل کشی کرنا اور ان کے گھروں اور زمینوں پر قبضہ کرنا۔
لیکن اہلِ غزہ نے ٹھان لی ہے کہ ظلم کے آگے سر نہیں جھکائیں گے۔ چنانچہ ، حماس کے سیاسی شعبے کی جانب سے اس اسرائیلی دھمکی کے جواب میں پریس ریلیز جاری کی گئی۔
جس میں واضح اعلان کیا گیا ہے کہ ہم اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھاگنے والے نہیں۔
صہیونی طاقت، جس نے اپنے طاقت کے نشے میں چور ہو کر گزشتہ ایک ہفتے میں غزہ پر 6 ہزار بم برسائے ۔ جس سے ہمارے تقریباً 500 بچے شہید ہوئے ہیں۔ انہوں نے ہماری مساجد، چرچس، تعلیمی اداروں ، اسپتالوں اور رہائشی مقامات پر بمباری کی ہے۔ اس سب کے باوجود ، ہمیں ہی دہشتگرد قرار دیا جا رہا ہے ۔
پریس ریلیز میں اہلِ غزہ کی جانب سے تمام امتِ مسلمہ کا شکریہ بھی ادا کیا گیا، جنہوں نے آج دنیا بھر میں اہلِ غزہ سے اظہارِ یکجہتی کے سلسلے میں بڑی بڑی ریلیوں کا اہتمام کیا ہے۔
امید ہے کہ یہ مسلمان اپنے غزہ کے بھائیوں اور بہنوں کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
مغربی ممالک میں مقیم باضمیر لوگوں سے اپیل ہے کہ اپنی حکومتوں پر زور ڈالیں کہ نیتن یاہو اور صہیونیوں کی حمایت ختم کریں۔ میڈیا کے جھوٹ کو افشا کرنے کے لیے لازم ہے کہ اہلِ غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے۔
حماس نے واضح کیا کہ ہاں ، اسرائیل ظلم کر رہا ہے، یہ ٹھیک ہے کہ اسرائیل تمام نام نہاد جمہوری ممالک اور انصاف کے اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر انسانیت کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔
مگر اس سب کے باوجود، ہمارے حوصلے بلند ہیں، ہم اہلِ غزہ ، آخری سانس تک اپنی جدوجھد جاری رکھیں گے۔ ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے اور اسرائیلی ظلم کی کوئی بھی صورت، ہمارے بلند حوصلوں کو شکست نہیں دے پائے گی۔
Author: حماد یونس
-

امتَ مرحوم کا قرض چکانے والے لوگ-حماد یونس
-

پی ٹی ایم یا افغان تحفظ موومنٹ؟-حماد یونس
پشتون تحفظ موومنٹ کا بظاہر دعویٰ یہی ہے کہ وہ پشتونوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ مگر حقیقتاً وہ ملک میں نفرتوں کے بیج بو رہے ہیں اور بیرونی، ملک دشمن ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کام کر رہے ہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ بظاہر آئینی حقوق کی تحریک ہے مگر اس کے جلسوں میں حقوق کا نام تک نہیں ۔ پاکستانی ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف اعلانِ جنگ کرنے کے علاوہ ان کے جلسوں میں اور کیا ہوتا ہے؟
پوری دنیا جانتی ہے کہ پاک فوج نے کتنی قربانیوں کے بعد پاکستان میں قیامِ امن کو ممکن بنایا ہے۔ ملک میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں نمایاں کمی آئی ہے ۔ فاٹا اور قبائلی علاقوں کے افراد بالآخر پر امن زندگی گزارنے کے قابل ہوئے ہیں۔ مگر دشمن ، پاکستان میں امن کو کیسے برداشت کر سکتا ہے؟ پشتون تحفظ موومنٹ ، اسی امن کو ثبوتاژ کرنے کی سازش کا نام ہے۔
منظور پشتین جو پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ ہیں، ان کی حمایت میں سب سے زوردار آوازیں بیرون ملک سے ہی اٹھائی گئی ہیں، کیونکہ ان کی ڈوریں بھی بیرون ملک سے ہی ہلائی جاتی ہیں۔
اس حوالے سے ثبوت سابق ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل آصف غفور نے بیان کیے تھے، انہوں نے بتایا تھا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را ان کو پیسے دے رہی ہے۔ جنرل آصف غفور نے بتایا تھا کہ افغانستان کی سابقہ انٹیلیجنس سروس نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی نے پی ٹی ایم کو 22 مارچ 2018 کو احتجاج کے سلسلے میں پیسے دیے تھے۔
یعنی، پاکستان میں نفرت کے بیج بونے کا کام پی ٹی ایم اور بیرونی اے ٹی ایم کر رہا ہے۔
مگر پاکستانی پشتون بھائی اس سب سازش سے آگاہ ہیں ، اور وہ سمجھتے ہیں کہ پشتون تحفظ موومنٹ ، در حقیقت افغان تحفظ موومنٹ ہے ، اور توسیع پسند خواب پختونستان کے سلسلے کی ہی ایک لڑی ہے۔ -

تاریکی کا غم کیا ہے-حماد یونس
روشنی کی فکر تو سب کو ہے مگر تاریکی کا غم کس نے سنا، جو ہر بار غالب آ کر بھی شکست کھا جاتی ہے۔
منظر ہے بنگلہ دیش کے جنوب مغربی ضلع پیروج پور کا، جہاں ایک تراسی سالہ شخص کو نمازِ جنازہ کے بعد دفنایا جا رہا ہے۔
وزیرِ اعظم حسینہ واجد پر امید ہیں کہ جب یہ شخص جب چادرِ خاک اوڑھ لے گا تو پھر یہ صرف اسی بوڑھے کی تدفین نہیں ہوگی، کچھ ںظریے، کچھ خواب، کچھ امنگیں اور تنظیمیں بھی دفن ہو جائیں گی۔ دو قومی نظریہ، اقامتِ دین کا خواب، وحدتِ امت کی امنگ اور بنگلہ دیش جماعت اسلامی کی تنظیم، عوامی لیگ کو یہ سب کو مٹانے کی توقع ہے۔
مگر یہ سب امیدیں تو حسینہ واجد نے مطیع الرحمٰن نظامی، پروفیسر غلام اعظم، عبدالقادر ملا، علی احسن مجاہد، قمر الزماں، میر قاسم علی سب کے ریاستی قتل سے بھی باندھ لی تھیں۔ حسینہ واجد کی پشتیبان، اندرا گاندھی تو اپنی دانست میں 1971 سے ہی ان نظریوں کو بحیرۂ عرب میں غرق کر چکی ہیں۔
یہ بظاہر بےضرر بزرگ، یہ خواب، یہ نظریے بار بار کیوں دفنانے پڑ رہے ہیں۔دلاور حسین سعیدی کا جرم یہ تھا کہ اسے اپنے وطن پاکستان سے محبت تھی۔ وہ نسلی طور پر ایک بنگالی تھے، مگر اسلام رنگوں، زبانوں اور نسلوں سے بالاتر ہے ۔ چنانچہ کلمے کے نام پر قائم ہونے والا وطن کسی زبان کے نعرے سے زیادہ قیمتی تھا۔ انہوں نے اس وقت پاکستان کی حمایت کی۔ مگر جب بنگلہ دیش تسلیم کر لیا گیا تو دلاور حسین سعیدی نے اپنے نئے وطن کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ملکی سیاست میں جماعت اسلامی کا حصہ بنے ، اور عوام میں اتنے مقبول ہوئے کہ 1996 سے 2008 تک پارلیمان کے ممبر منتخب ہوئے۔
دلاور حسین سعیدی، ایک مفسر و مدرسِ قرآن اور مبلغِ اسلام تھے۔ یہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے سورۃ النحل میں فرمانِ خداوندی کے عین مطابق، حکمت اور اچھی نصیحت کو دعوت الی اللہ کا ذریعہ بنایا، کہ داعیِ اعظمﷺ کا یہی طریقہ تھا۔
پچاس سالہ دعوت کے سفر میں انہوں نے بلا مبالغہ دسیوں ہزار افراد کو اسلام سے روشناس کروایا اور فریضہِ اقامتِ دین کی مشعل ان سب کو تھما دی۔
آپ ایک عالمِ بے بدل اور مفسرِ قرآن تھے، جنہوں نے اپنے دعوت الی اللّٰہ کے پچاس سال مسلسل بندوں کو بندوں کے رب کا پیغام سنانے میں لگا دیے ۔انہوں نے چاٹگام پریڈ گراؤنڈ میں 29 سال تک سالانہ 3 روزہ اسلامک تفسیر پروگرام کروایا۔38 برس تک کُھلنا سرکٹ ہاؤس فلیڈ میں سالانہ دو روزہ اسلامک تفسیر پروگرام کا انعقاد، سلہٹ گورنمنٹ عالیہ مدرسہ فیلڈ میں 33 برس تک 3 روزہ سالانہ اسلامک تفسیر پروگرام کا انعقاد، راجشاہی گورنمنٹ مدرسہ فیلڈ میں 35 برس تک 3 روزہ سالانہ اسلامک تفسیر پروگرام ، بوگرہ سٹی میں 25 برس تک دو روزہ سالانہ اسلامک تفسیر پروگرام ، ڈھاکہ کاملا پور ریلوے گراؤنڈ اور پلٹن میدان میں 34 برس تک اسلامک تفسیر پروگرام اور کومیلا مرکزی عید گاہ گراؤنڈ میں 31 برس تک سالانہ 3 روزہ اسلامک تفسیر پروگرام کا انعقاد کیا۔ 2 بار ان میں امامِ کعبہ نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی۔
اس کے علاوہ ان کے تبحرِ علمی سے متاثر ہو کر دنیا کے 50 سے زائد ممالک کی جانب سے انہیں اسلام کا پیغام عام کرنے کے لیے دعوت پر بلایا گیا۔ان کی علمی تصانیف بھی بے شمار تھیں۔انہوں نے 76 کتب لکھیں۔ ایک دنیا ان کی علمی ، دینی اور ادبی خدمات کی معترف تھی۔ چنانچہ سعودی عرب کی جانب سے 1976 سے انہیں سرکاری دعوت پر سعادتِ حج کے لیے بلایا جاتا۔
آپ اتحاد بین المسلمین اور اتحاد امت کے داعی تھے، 1990 میں جب صدام حسین کی جانب سے کویت پر حملے کے بعد عالمِ عرب ایک بڑی تباہ کن جنگ کے دہانے پر تھا، علامہ دلاور حسین سعیدی صلح کے لیے جدوجہد کرنے والوں میں سے ایک تھے۔ 1982 میں امام خمینی نے انقلاب ایران کی پہلی سالگرہ میں شرکت کے لیے مولانا دلاور حسین سعیدی کو خصوصی دعوت دی ۔ لندن مسلم سینٹر کے افتتاح کے لیے امامِ کعبہ شیخ عبد الرحمٰن السدیس کے علاوہ علامہ دلاور حسین سعیدی کو ہی تو دعوت دی گئی تھی۔پیروج پور کا یہ شخص جسے لاکھوں افراد نے دعاؤں اور آنسوؤں کے ساتھ رخصت کیا ہے، اس کی قدر شاید اس کے اپنے ملک سے زیادہ باقی دنیا میں تھی ۔ اسی لیے تو اس کی غائبانہ نماز جنازہ ، مسجد نبوی میں بھی ادا کی گئی ہے۔
رہی بات علامہ دلاور حسین سعیدی کے نظریے اور جماعت اسلامی کے پیغام کی، تو اس آفاقی پیغام کو ان شہادتوں اور قربانیوں سے مزید مہمیز ملتی ہے، جدوجہد مزید آگے بڑھتی ہے اور تھکے ہوئے پراگندہ ذہن، یکسو ہو کر خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیتے ہیں ۔ دیے سے دیا یونہی جلتا ہے ، یونہی جب ایک دیا بجھے تو کئی دیے اس کی جگہ لے کر تاریکی کو مزید پیچھے دھکیل دیتے ہیں ۔ یہی تو تاریکیوں کا غم ہے.
دلاور حسین سعیدی تو اب ہم میں نہیں رہے ، مگر ان کی دعوتی خدمات، ان کے دروس، ان کی تصانیف ہمیشہ ہمارے درمیان رہیں گی، اسی کا نام سلیم احمد کے الفاظ میں ، “لوح و قلم کا معجزہ” ہے۔روشنی کی فکر تو سب کو ہے مگر تاریکی کا غم کس نے سنا، جو ہر بار غالب آ کر بھی شکست کھا جاتی ہے۔
-

باجوڑ دھماکا: افغانستان میں قیامِ امن کی قیمت؟-حماد یونس
باجوڑ خود کش دھماکے میں 60 بے گناہ پاکستانی دہشت گردوں کی بھینٹ چڑھ گئے، جبکہ 150 سے زائد افراد شدید زخمی ہیں۔
پاکستان، صلح کا پیغام بر اور عالمی امن کا خواہاں ہے۔ ہم جیو اور جینے دو کے نظریے پر کاربند ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ امنِ عالم کی اس جستجو کی ہم نے بھاری قیمت بھی چکائی ہے۔ موجودہ صدی کے آغاز سے ہی جو دہشت گردی کی لہر دنیا بھر میں پھیل گئی ، اس کے خلاف پاکستان سے زیادہ جدو جہد کسی نے بھی نہیں کی۔ تقریباً ایک لاکھ پاکستانی سویلینز اور فوجی جوان، خطے میں قیامِ امن کی جدوجہد میں قربان ہوئے ہیں ۔ جبکہ اس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی معیشت کا حال یہ ہے کہ پاکستان بالکل کنگال ہو کر رہ گیا ہے ۔ پورا ملک آگ اور خون کی ندی میں بہتا چلا گیا ہے۔دہشت گردوں کو پاکستان سے مسئلہ کیا ہے ؟
دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ پاکستان نے تو شروع نہیں کی۔ یہ جنگ تو خود ان دہشت گردوں نے ہم پر مسلط کی۔ہمارے شہروں، دیہاتوں ، مسجدوں ، امام بارگاہوں، گھروں اور بازاروں میں ان دہشتگردوں نے موت کا کھیل سینکڑوں بار رچایا ہے۔ حالانکہ افغانستان پر حملہ امریکہ نے کیا تھا ، پاکستان نے نہیں۔ ان دہشت گرد تنظیموں کے توسیع پسندانہ عزائم میں پاکستان کا کردار صرف اتنا تھا کہ پاک فوج اور اداروں نے پاکستان کو ان دہشت گردوں کے حوالے نہیں کیا۔پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور یہاں کس نظام یا نظریہ نے راج کرنا ہے، یہ یقیناً پاکستان کے عوام ہی طے کریں گے، کوئی انتہا پسند دہشت گرد نہیں۔
چنانچہ پاکستان میں جس دہشتگرد گروہ نے پنپنے یا سر اٹھانے کی کوشش کی، پاک فوج نے اس کی کمر توڑ دی۔اسی کا انتقام تو یہ دہشت گرد مسلسل لینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
انہی میں سے ایک گروپ کا نام تحریک طالبان پاکستان تھا، جس کا دعویٰ تھا کہ افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان میں کوئی فرق نہیں اور افغان طالبان کی جنگ ہی تحریک طالبان پاکستان نے پاکستان میں جاری رکھی ہوئی ہے ۔اس دعوے کی افغان طالبان نے کبھی بھی واضح تائید یا تردید نہیں کی، چنانچہ گمان یہی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کا افغان طالبان سے کوئی باقاعدہ تعلق نہیں تھا۔
دوسری جانب، 2021 میں افغانستان سے جب امریکی اور اتحادی افواج کا انخلا ہوا تو طالبان نے پورے افغانستان پر اپنی حکومت قائم کر لی۔ جس کا پاکستان نے خیر مقدم کیا، کیونکہ پاکستان ایک طاقتور ، خود مختار اور مضبوط افغانستان کے قیام کا خواہشمند ہے اور افغانستان کا خیر خواہ ہے، افغانستان میں جو بھی حکمران ہو، پاکستان بنا کسی ذاتی مفاد کے اس کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کی جانب کا دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے اور افغانستان کو اپنا برادر ملک سمجھتا ہے ۔اب جبکہ افغان طالبان افغانستان میں حکومت قائم کر چکے ہیں ، تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیاں مسلسل جاری ہیں ۔ٹی ٹی پی کو افغانستان میں محفوظ ٹھکانے میسر ہیں، چنانچہ اس کے دہشت گرد افغانستان سے پاکستان میں مسلح کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ پاکستان نے بارہا افغان طالبان کو نا قابلِ تردید ثبوت فراہم کیے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں ، مگر افغان حکومت نے کمال ڈھٹائی سے اسے پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے دیا ۔ حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ امریکہ اور اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلا کے وقت افغان طالبان سے یہ واضح معاہدہ کیا گیا تھا کہ افغان سرزمین، کسی کے خلاف بھی استعمال نہیں ہو گی۔
اب اگر افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے، پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں اور افغان حکومت کے مطابق یہ بان کا سر درد نہیں، تو اس کا حل کیا ہے ؟دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن صاحب کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانے نہیں ہیں۔ تو پھر افغانستان سے اٹھ کر پاکستان میں آنے والے یہ دہشت گرد کون ہیں؟؟؟ امریکہ ان دہشت گردوں پر پردے کیوں ڈال رہا ہے ؟ کون سے خفیہ عزائم ہیں، جن کی تکمیل کی خاطر امریکہ ان دہشت گردوں کو پال رہا ہے ۔ یہ بات تو واضح ہے کہ اس خطے میں امریکہ کی آمد کا مقصد ہی پاکستان کو بحیثیتِ ریاست ثبوتاژ کرنا تھا ۔
اب عین اس دن، جب سینو پاک اکنامک کوریڈور کی دس سالہ تقریبات کے سلسلے میں چینی سربراہ پاکستان تشریف لائے، ایک دہشت گرد باجوڑ میں دس کلو گرام بم اوڑھ کر پھٹ گیا ، اور تقریباً 60 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ مگر بادی النظر میں یہ پاکستان کو ایک غیر محفوظ ملک ثابت کرنے کی کوشش تھی۔ چین، پاکستان کا پرانا اور سچا دوست ہے، پاکستان کی چین سے دوستی صرف بھارت اور امریکہ کو ہی کھٹکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ امریکہ کی ہی خواہش ہے کہ چین کا پاکستان پر سے اعتماد اٹھ جائے اور پاکستان امریکی پنجے سے نکل نہ سکے۔
دوسری جانب ، مسلم دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقت، ترکیہ کے نائب صدر کی آمد بھی کل متوقع ہے۔ ترکیہ باطل کی آنکھوں میں کس قدر کھٹکتا ہے، یہ راز اب کوئی راز نہیں۔ ترکیہ سے پاکستان کی گہری دوستی سے عالمی استعمارکے سینے پر سانپ لوٹتے ہیں۔
یہ تو واضح ہے ،کہ امریکہ اپنے کن عزائم کی تکمیل کے لیے افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں پر پردہ ڈال رہا ہے۔دوسری جانب ، اقوامِ متحدہ کا تو واضح کہنا ہے کہ 2000 سے زائد دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے افغانستان میں موجود ہیں۔
کیا افغان طالبان ، پاکستان کو مجبور سمجھتے ہیں ؟ کیا ایسا کوئی گمان کسی دل میں پیدا ہو گیا ہے کہ اگر افغان طالبان ، ٹی ٹی پی یا ایسے دہشت گردوں کو نکیل نہ ڈالیں تو پاکستان کچھ بھی نہیں کر سکتا ؟؟؟
پاک افغان سرحد پر جن محفوظ راستوں سے گزر کر یہ تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد، باجوڑ اور پاکستان کے دوسرے خطوں میں دہشت گردی کر رہے ہیں، کیا پاک فوج انہی رستوں سے گزر کر ان دہشتگردوں کے ٹھکانے صفحہِ ہستی سے مٹا نہیں سکتی؟؟؟
کیا پھر افغان طالبان کے پاس یہ اعتراض کرنے کا جواز ہوگا کہ پاکستان نے افغان حدود میں در اندازی کی ہے؟؟؟پاکستان افغانستان سے امن اور دوستی کا خواہاں ہے، ہم کسی تصادم کی راہ نہیں دیکھتے ، ہم امن کے پیامبر ہیں، مگر ساحر لدھیانوی نے بھی کہا تھا کہ
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
پاکستان امن کا خواہاں اور پیغام بر ہے، مگر یہ پاکستان کی طاقت ہے ، اسے کمزوری نہ سمجھا جائے۔ -

عکسِ رُخِ زیبائے تمنّا -حمّاد یُونُس
عکسِ رُخِ زیبائے تمنّا جن کی یاد کے خواب و خیال
آنکھ کھلے تو ان لوگوں کے نام بھی دُھندلا جاتے ہیں
(حمّاد یونُس)وقت کے پہیے سے گِلہ ہے کہ یہ شاید ہمیں ایک دائرے سفر کرواتے ہوئے کسی نقطے پر واپس لے تو آتا ہے ، مگر کہیں چہروں پر دھول جم جاتی ہے اور کہیں چشمے کا نمبر بڑھ چکا ہوتا ہے ۔
اب سے ٹھیک چار برس پہلے، یہی گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ، سائٹ ایریا، کراچی تھا، یہیں ہم بھی تھے ، کیونکہ اسلامی جمعیت طلباء پاکستان کا 66 واں سالانہ اجتماع ارکان تھا ۔
سید منور حسن رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنے خصوصی خطاب میں ہمیں تلقین فرمائی تھی کہ مطالعہ کا ذوق دوبارہ سے بیدار کیا جائے۔ سید صاحب کے خطاب سے ہمیشہ ہم نے کوئی اچھا سبق ضرور اخذ کیا۔اور اب ٹھیک چار برس بعد ، وہی کراچی مقام ہے، وہی سائٹ ایریا کا گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ہے، جہاں یقیناً سعد بن صلاح شہید سمیت کئی شہدا کا نام درج ہے۔ یہاں اسلامی جمعیت طلباء پاکستان کا اجتماع ارکان جاری ہے۔ مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی ہم نہیں کبھی تم نہیں۔(شکیل بدایونی)
سید منور حسن صاحب کو سننے کا ذوق بچپن ہی سے تھا ، کہ وہ سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان تھے تو اکثر منصورہ مسجد میں جمعے کا خطبہ دینے کے علاوہ گاہے گاہے خطاب بھی فرمایا کرتے تھے ۔ کہاں گئے وہ لوگ!!! اب اس اجتماع میں ان کا خطاب کیوں نہیں ہو گا؟ زماں نہ سہی مکاں تو وہی ہے!!!
وہی مقام ہے مگر ہم یہاں نہیں ، کہ ہماری فراغت تو 2019 ہی میں ہو گئی تھی۔ تب 66 واں سالانہ اجتماع تھا ، وہ منظر تو بہت پیچھے دھندلا گیا ہو گا ناں۔
اب شاید 70 واں اجتماع جاری ہے ما شا ء اللّٰہ ۔
سمے کا دھارہ ، گھوم پھر کر دوبارہ اسی پہلے نقطے پر آ پہنچا ہے ۔ مگر وقت کے اس پہیے سے گِلہ یہی ہے کہ یہ جب ہمیں دائرے کے سفر میں پہلے مقام پر واپس لے آتا ہے تو کبھی آنکھ دھندلا جاتی ہے اور کبھی شہر۔۔۔
شہرِ نگاراں کی ایک حسیں یاد اتفاقاً سامنے آگئی تو یاد آیا کہ،مِرے چشمے کا نمبر بڑھ گیا ہے
یقیناً دن گزرتے جا رہے ہیں
(حمّاد یونُس) -

شرجیل امام:وہ اک گنہگارِ بے گناہی- حماد یونس
سنتِ یوسفی کسے کہا جاتا ہے ؟؟؟
جب کوئی بے گناہ ، قید کر دیا جاتا ہے، پابندِ سلاسل کر کے کسی کو جرمِ بے گناہی کی سزا دی جاتی ہے ، تو اسے سنّتِ یوسفی کہا جاتا ہے، جیسےحضرت یوسف علیہ السلام کو بے گناہ ہونے کے باوجود عزیزِ مصر نے سالہا سال تک قید میں رکھا تھا۔بھارت بھی آزاد فکر اور سوچنے والے دل کے لیے کسی قید خانے سے کم نہیں۔ حق کی ہر آواز اور کو ریاستی جبر کے ذریعے دبا دیا جاتا ہے یا خاموش کر دیا جاتا ہے۔
بھارتی نوجوان صحافی ، شرجیل امام بھی سچائی کی ایسی ہی ایک آواز ہے، جسے اقلیتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کے جرم میں بھارتی سرکار نے مقید کر رکھا ہے ،
اور 28 جنوری 2023 کو اس آزمائش کے تین برس مکمل ہو جائیں گے ۔ شرجیل امام، آفرین فاطمہ ،
محمد زبیر ، روش کمار سمیت ہر سچائی کی مشعل جلانے والا معتوب ٹھہرتا ہے ۔
مگر شرجیل امام ، 28 جنوری 2020 سے مسلسل پابندِ سلاسل ہے تو اس کا جرم کیا ہے ؟؟یعنی
کتنے جانباز ہیں حق گوئی کے مجرم لیکن
قابلِ دید ، تری طرزِ ادا ٹھہری ہےمودی راج کے ہاتھوں اس طرزِ ستم کا سبب یہ ہے کہ شرجیل امام، زندہ رہنے کا حق مانگتا ہے، اپنی مرضی سے سانس لینے کا جرم کرتا ہے اور جبر کے پاؤں تلے کچلے ہوئے، دبے ہوئے مظلوموں کی آواز بنتا ہے۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے 35 سالہ شرجیل امام ، ابھرتے ہوئے صحافی اور سوشل ایکٹوسٹ ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ اقلیتوں کے حقوق اور مظلوم مسلمانوں کی داد رسی کے لیے آواز بلند کی ہے ۔ مگر بدنام زمانہ سٹیزنز امینڈمینٹ ایکٹ، جس کے تحت کروڑوں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا سیکیولر بھارت پر حق چھینا جا رہا تھا ، تب شرجیل امام نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں ایک خطاب کیا، جس میں بھارتی حکومت سے اپیل کی گئی کہ سیکیولر بھارت پر تمام مذاہب اور اقوام کا برابر حق ہے، چنانچہ مودی سرکار فاشزم کو اپنا کر سیکیولر ہند کے خواب کو درگور نہ کرے، کیونکہ مختلف الانواع اقوام اور مذاہب کے دیس پر جب کسی ایک نظریے ، عقیدے یا قوم کو مسلط کیا جائے تو اس سے انتشار اور نفرتوں کو عروج ملتا ہے اور ریاست تباہی کی جانب گامزن ہو جاتی ہے ۔
ایک ریاست کا خیر خواہ جب بھی ریاست کو زوال کی جانب جاتا دیکھتا ہے تو خاموشی سے یہ منظر دیکھ نہیں سکتا ، بلکہ وہ لب کشائی پر مجبور ہوتا ہے ۔
مگر اقتدار اور طاقت کے نشے میں مودی سرکار یہ بات کیسے سمجھ سکتی تھی ؟
چنانچہ اس تقریر پر شرجیل امام کے خلاف 5 ریاستوں آسام ، اتر پردیش ، منی پور، اروناچل پردیش اور دہلی میں مقدمات درج ہوئے۔ اور مسلسل تین سال سے ، سورج کی روشنی اور کھلے آسمان کا سایا شرجیل امام سے چھین لیا گیا ہے۔ کیونکہ وہ بہت بڑا مجرم ہے، سچ بولنے کا مجرم، اپنا حق مانگنے کا اور مظلوموں کی آواز بننے کا مجرم ، مگر اس کا یہ گناہ سب سے بڑا ہے کہ گناہگار نہیں ۔ -

سرخ گلابوں کے موسم – حمّاد یونُس
زندگی کی سرحدوں پر ہم نے یہ کتبہ پڑھا، “یہاں خواب دیکھنے پر پابندی ہے”۔
یہ کتبہ ، خواب دیکھنے والوں ، محبت کرنے والوں اور محبتوں پر جان دینے والوں کی آخری نشانی ہے۔یہی وہ حد ہے جہاں حقیقت پسندی کی دنیا شروع ہوتی ہے۔
یہ وہ مقام جہاں سے رِیت اور رواج ، رسم اور سماج کی سلطنت شروع ہوتی ہے۔یہاں ہم اور آپ اپنی اپنی گمشدہ دنیاؤں کا پتہ پوچھنے آ نکلے ہیں۔ سچ پوچھیے تو ہم، محبت کرنے والے لوگ، اندھوں کے دیس میں آئینے لے آئے ہیں ۔
محبتوں کی دنیا ، چاہتوں کا جہاں ، امنگوں کی بستی ، قریہِ خواب نگر۔
ہر شخص نے اس جہان کا نام سنا ہے ، مگر کیا کسی نے دیکھا بھی ہے؟محبت کا جہاں آباد ہو جائے تو پھر برباد ہو جانے میں کتنی دیر لگتی ہے ؟
یہاں رسموں رواجوں سے الگ ہٹ کر کسی “تقدیر” نامی دشمنِ الفت کا پہرہ ہے۔سرخ گلابوں کو محبت کا استعارہ سمجھنے والوں کو کسی محبت کرنے والے کا شکستہ جسم دکھایا جائے ۔
یہاں کانٹوں پہ سونے ، آگ پر چلنے، برف کی سِل پر گُھٹنوں کے بل آگے بڑھنے کا دوسرا نام محبت ہے۔
محبت، ہر کسی کے لیے سرخ گلاب نہیں، کہ نفرتوں کی دنیا میں محبتوں کے نشاں مزاروں پر ہی ملتے ہیں ۔ -

شاہد آفریدی اور پی سی بی کو سالِ نو پر درپیش اہم چیلنجز -حمّاد یُونُس
پاکستان کرکٹ بورڈ مسلسل اتار چڑھاؤ کا شکار ہے ، جہاں آئے روز تبدیلیاں اور تبادلے ہی چلتے رہتے ہیں ۔ چند روز قبل گورننگ باڈی اور ادارے میں متفرق تبدیلیاں اور تقرریاں ہوئیں، جن میں نجم سیٹھی کو چیئرمین کرکٹ بورڈ اور شاہد آفریدی کو چیف سلیکٹر مقرر کیا گیا ۔ اس کے علاوہ بھی کچھ لوگوں کو مقرر کیا گیا ۔
مگر سب سے اہم پوزیشنز چیئرمین اور چیف سلیکٹر کی ہی تھیں۔ اب جبکہ انہوں نے اپنے عہدوں کے چارج سنبھال لیا ہے تو ان سے توقعات بھی بہت ہیں، کیونکہ بڑے اختیار کے ساتھ بڑی ذمہ داری بھی آتی ہے۔چیئرمین اور چیف سلیکٹر دو مختلف عہدے ہیں مگر ان کی ذمہ داریاں اور دائرہِ کار co-relate کرتے ہیں لہٰذا ہم ان کے چیلنجز کو بلا تخصص ، without being specific بیان کریں گے۔
1 : گراس روٹ لیول پر کام کرنا
ہر نیا چیئرمین اور ذمہ دار یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ گراس روٹ لیول پر کام شروع کرے گا۔ یعنی گلی محلوں اور ابتدائی کلبز کے کرکٹرز کی ٹریننگ ، ان کی باقاعدہ گرومنگ کرنا ، ان کی صلاحیتوں کو نکھارنا اور ابتدا میں ہی ان کی تکنیکی لحاظ سے رہنمائی کرنا۔2: فرسٹ کلاس اور لسٹ اے کرکٹ میں تبدیلی لانا
پاکستان میں کرکٹ کا نظام 1948 سے قائم ہے مگر اس میں تبدیلی 74 برس ہونے کے باوجود نہیں آئی۔ قومی ڈومیسٹک کرکٹ میں چار روزہ فرسٹ کلاس میچز اکثر ڈرا پر ختم ہوتے ہیں اور لسٹ اے میچز کا احوال بھی دفاعی حکمت عملی سے عبارت ہے۔ مناسب تربیت اور ہر قسم کے حالات سے نبٹنے کے لیے تیار کرنے کا بھی کوئی رواج نہیں۔
اس سے ہمارے نوجوان کرکٹرز کی عالمی سطح کی کرکٹ سے ہم آہنگی نہیں ہو پاتی اور وہ ایک خول میں بند رہتے ہیں۔
اسی لیے آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کی تیز، باؤنسی پچز پر ہمارے بلے باز اکثر ناکام رہتے ہیں ۔3:ماڈرن کرکٹ کا شعور اجاگر کرنا
عالمی کرکٹ میں 2003 کے ورلڈ کپ سے ایک انقلاب برپا ہے۔ دفاعی کرکٹ کی جگہ جارح مزاجی نے لے لی اور بلے بازوں اور بولرز، دونوں نے ہی شکست سے بچنے کی بجائے جیت کے لیے جان لڑانے کا رویہ اپنا لیا ۔ نا صرف بلے بازوں نے تیز رفتاری سے کھیلنا شروع شروع کیا بلکہ بولرز نے بھی رنز روکنے کی جگہ وکٹس کے حصول پر زور دیا ۔
مگر پاکستان میں یہی فارمولا ابھی تک جاری ہے کہ
Defense is the best Offense
یا ، جاوید میانداد کا 40 برس پرانا قول، کہ سر جھکا کر کھیلنے والے ہی سر اٹھا کر جی سکتے ہیں۔
مگر دنیا اس سب سے بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ انگلینڈ کی ٹیم ون ڈے میں تقریباً پانچ سو کے ہندسے کو چھو چکی ہے، 498 رنز اسکور کر کے ، جبکہ پاکستان نے آج تک ون ڈے میں 400 رنز بھی نہیں اسکور کیے۔4:جیت کی لگن کو اجاگر کرنا
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کوچز اور ذمہ داران جو دعوے بھی کریں مگر ہماری ٹیم بیش تر میچ بچانے کے لیے کھیلتی ہے، جسے جیتنے سے زیادہ نہ ہارنے کی فکر رہتی ہے ۔ یعنی
Glass is half empty
والی بات ہو گئی۔ انگلینڈ 2015 ون ڈے ورلڈ کپ کا ناکام ترین ملک تھا۔ مگر اس کے بعد انگلینڈ کی اپروچ تبدیل ہوئی ۔ اس وقت انگلینڈ دنیا کی مضبوط ترین ٹیم ہے ۔ ان کے موجودہ کوچ برینڈن میک کولم نے جو سبق پوری ٹیم کو پڑھایا وہ جارح مزاجی اور جیت کی لگن کا تھا ۔ آج انگلینڈ کے اس انداز کو “باز بال کرکٹ” کہتے ہیں ، کیونکہ “باز” برینڈن میک کولم کا نِک نیم ہے ۔
برطانوی کپتان بین اسٹوکس کا بھی اس میں کردار ہے، مگر یہ سب رویے کرکٹ بورڈ کی جانب سے آتے ہیں۔
جبکہ ہمارے یہاں بابر اعظم کو کوچز یہ سبق پڑھاتے ہیں کہ پچاس اوورز یا 20 اوورز کے میچ کی پہلی اور آخری گیند آپ ہی نے کھیلنی ہے، اور اسی وجہ سے بابر اعظم اس تیز رفتار سے نہیں کھیل پاتا جو اس کی صلاحیت ہے۔
یہ کرکٹنگ اپروچ اور مائینڈ سیٹ اپڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ شاید شاہد آفریدی اور نجم سیٹھی کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔5 : قومی کرکٹرز کی باقاعدہ اخلاقی تربیت اور کوڈ آف کنڈکٹ پر رہنمائی
پی سی بی ہر برس قومی کھلاڑیوں کو آئی سی سی کوڈ آف کنڈکٹ پر گائیڈنس دینے کا اہتمام کرتی ہے اور متعلقہ افراد بھی ہر دورے پر ساتھ ہوتے ہیں ۔ مگر یاد رہے کہ آئی سی کوڈ آف کنڈکٹ بھی ٹریفک قوانین یا پاکستانی قانون کی طرح ہی ہوتا ہے ، جو سب نے پڑھ رکھا ہو تو بھی ہر وقت ملحوظِ خاطر نہیں رہتا۔
کھلاڑیوں کی باقاعدہ نگرانی کے علاوہ ان کو مناسب شعور و آگہی دینا بھی لازم ہے ۔ ورنہ ممنوعہ ادویات ، باؤلنگ ایکشن اور فکسنگ اسکینڈلز اسی طرح سامنے آ جاتے ہیں کہ مناسب رہنمائی یا نگرانی میسر نہیں ہوتی۔ آصف ، عامر اور سلمان بٹ کا اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل، محمد اصف اور شعیب اختر کا نیدرولون (ڈوپ ٹیسٹ) اسکینڈل ، محمد حفیظ ، سعید اجمل محمد حسنین کا باؤلنگ ایکشن ، ناصر جمشید اور شرجیل خان کا فکسرز کو بروقت رپورٹ نہ کرنے کا جرم ، یہ سب کیا ہے؟
اختر عباس بھائی کے الفاظ میں ، بے نیازی میں لٹنے کا غمشکیب الحسن کو ایک سال کے لیے اسی وجہ سے معطل کر دیا گیا تھا کہ اس نے فکسرز کو بروقت رپورٹ نہیں کیا تھا ۔ مناسب آگہی ہوتی تو کیا ایسا ہوتا؟؟؟ یہ مسئلہ ہم اور ہم جیسے ممالک کا ہے۔
اگرچہ یہ سب چیلنجز سب اپنی جگہ اہم ہیں اور ان میں سے ایک سے بھی بخوبی نپٹ لیا گیا تو قومی کرکٹ کا نصیب سنور جائے گا۔
-

نو منتخب آرمی چیف کو درپیش چند چیلنجز -حمّاد یُونُس
جنرل عاصم منیر ، پاکستان کے نو مقرر کردہ آرمی چیف ہیں۔
پاک افواج کے سربراہ کو دنیا بھر میں ایک مخصوص قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔عملی طور پر آرمی چیف ہی پاکستان کا سب سے با اختیار منصب ہے۔
مگر بڑے اختیار کے ساتھ بڑی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔
یہ منصب سنبھالنے کے بعد جنرل عاصم منیر کو کن اہم چیلنجز کا سامنا کرنا ہے ؟مشرقی و مغربی سرحدوں پر عدم اطمینان
گزشتہ کچھ عرصے سے چمن بارڈر پر غیر معمولی تناؤ اور کشیدگی کا سماں ہے۔ جبکہ مشرقی سرحد یعنی بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی معمول کی بات ہے۔ جنرل عاصم منیر کو ان دونوں سرحدوں پر اطمینان کی فضا کو یقینی بنانا ہے۔ملکی سیاست میں خلفشار
موجودہ حالات میں پاکستانی سیاست ایک مشکل مقام پر کھڑی ہے۔ جہاں ملکی سیاست دان آئے روز فوجی سربراہان پر جانب داری اور مداخلت کے الزامات عائد کرتے ہیں۔ اگرچہ اعلیٰ فوجی عہدیداران نے یہ یقین دہانی دلائی تھی کہ فوج سیاست میں مداخلت سے دستبردار ہو چکی ہے۔ مگر سیاستدانوں کی جانب سے الزامات اور بیانات کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس حوالے سے آرمی چیف کو اپنا موقف واضح کرنے اور اس حوالے سے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے علاوہ ، ملکی سیاست میں فوج کا کردار کم سے کم کرنے کو بھی یقینی بنانا ہے۔سویلینز کے شبہات
گزشتہ تین برس کے دوران ملک کی دو سرکردہ جماعتوں نے فوجی سربراہان پر سنگین الزامات عائد کیے ، اور فوجی ادارے کے متعلق غیر معمولی نوعیت کے شبہات پیدا کیے تھے۔ جس سے شاید پہلی بار عوام اور سویلینز کے ذہنوں میں فوجی ادارے اور سربراہان کے بارے میں شبہات اور منفی جذبات پیدا ہوئے۔ عوام اور فوج کے درمیان بڑھتی ہوئی اس خلیج کو کم کر کے باہمی محبت اور احترام کے جذبات دوبارہ سامنے لانا ایک اہم چیلنج ہو گا۔عالمی سیاست میں پولرائزیشن
گزشتہ کچھ عرصے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی، شٹل کاک بن کر رہ گئی ہے ۔ امریکہ اور روس کے بلاکس پاکستان کو مسلسل سبز باغ دکھاتے ہیں ، مگر ایک بلاک کو چھوڑ کر دوسرے بلاک میں جائیں تو اس سے الگ مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ جنرل عاصم منیر کو یہ دیکھنا ہے کہ پاکستان کسی سے لڑائی پیدا کیے بغیر کس طرح آگے بڑھ سکتا ہے ۔مسئلہ کشمیر
مسئلہِ کشمیر ، یوں تو قیامِ پاکستان سے سر اٹھائے کھڑا ہے مگر 5 اگست 2019 کے بعد سے مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ مزید سنگین نوعیت اختیار کر چکا ہے۔ اس حوالے سے خارجہ پالیسی اور اقوام متحدہ میں کشمیریوں کی شنوائی کے علاوہ، کشمیری عوام کی امنگوں کا ترجمان بننا بھی سپاہ سالارِ پاکستان کے لیے ایک چیلنج ہو گا۔ -

مراکش:اک تبَسُّم کا قرض ہے مجھ پر-حمّاد یُونُس
فیفاورلڈ کپ 2022 شروع ہوا تو آغاز میں ہی کسی جوتشی نے غیر متوقع نتائج کا خدشہ ظاہر کیا تھا ، چنانچہ تقریباً ہر روز ایک اپ
سیٹ سامنے آیا۔
اسپین اور مراکش کا میچ بھی کھیل کی دنیا میں ایک ایسا ہی منظر تھا جب ایک عالمی طاقت اور 2010 کی ورلڈ چیمپئن، اسپین پینالٹی کِکس پر شکست سے دوچار ہوئی۔
مگر تاریخ کا یہ کاتب تو اسپین کا یہ میچ 1492، بلکہ اس سے بھی بہت پہلے سے دیکھتا چلا آ رہا ہے ۔ وہ وقت بھی گزرا جب ازابیلا اور فرڈیننڈ گھوڑوں پر سوار ہو کر آئے اور مجھ سے میرے شہر کی چابیاں لے گئے ۔ چلیے وہ تو زمانے کی فطرت ہے ،اسے جرمِ ضعیفی کی سزا کہیے، کہ، “نہیں دُنیا کے آئینِ مُسَلّم سے کوئی چارا”
مگر پھر جب ازابیلا اور اس کا نظریہ غالب آ گیا تو پھر اس نے میرے نظریے کے ساتھ کیا کِیا؟؟؟ کیا اس نے اسلامی عبادات و رسومات کی ادائیگی پر پابندی عائد نہیں کی؟ کیا اس نے بحیثیتِ مجموعی اسلام پر پابندی عائد نہیں کی؟
ان ہسپانوی مسلمانوں کا احوال سنیے جنہیں زندگی اور اسلام میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ہزاروں ہسپانوی مسلمانوں کو ہر روز قتل کیا جاتا ۔ پھر 1504 میں مالکی فقہ کے مفتی، امام احمد بن ابی جمعہ نے وہ معروف فتویٰ جاری کیا جس کی ایک دستاویز آج بھی ویٹی کن میں محفوظ ہے، کہ ہسپانوی مسلمان اپنی جان اور آبرو بچانے کے لیے عیسائیوں کے ساتھ عبادت کریں ، خلافِ اسلام کلمات مجبوراً ادا کریں، سور کھائیں یا شراب پیئیں تو یہ ان کے لیے جائز ہو گا۔ یوں اعلانیہ مسلمان ہسپانیہ میں تقریباً نا پید ہو گئے۔
اور پھر ایک دن ایسا ہوا کہ ازابیلا کو ایک کھیل کھیلنے کی سوجھی۔ چنانچہ اس نے اعلان کروایا کہ جو مسلمان ملک چھوڑنا یا ہجرت کرنا چاہیں وہ فلاں دن ساحل پر پہنچیں، انہیں ان کے مطلوبہ دیس پہنچا دیا جائے گا۔ ہزارہا مسلمان گھروں سے ہجرت کی راہ پر نکلے مگر ان کا بڑا حصہ تو موقع پر ہی قتل کر دیا گیا، چند ہزار ہی ہجرت کی راہوں پر گامزن ہو سکے۔عیسائیت کے علمبردار حضرات رومی حکمران ڈائیکلیشن یعنی
Gaius Aurelius Valerius Diocletianus
کے مظالم کا رونا پچھلے 1750 برس سے روتے آ رہے ہیں ، مگر کیا آپ نے ہسپانیہ میں مسلمانوں کے لیے قائم کردہ عقوبت خانوں کا تذکرہ سنا ہے؟؟؟ کیا قتل کے ان اذیت ناک ذرائع کا نام سنا جو ازابیلا اور فرڈیننڈ اور پھر ان کے جانشینوں نے مسلمانوں کے لیے ایجاد کیے تھے؟؟؟
اچھا یہ بتائیے آپ نے سورۃ بروج پڑھی ہے؟؟؟
اس کی ساتویں آیت ہے،
“اور ان کا قصور اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ قادرِ مطلق اللہ پر ایمان لائے تھے۔”چنانچہ ، جب مراکش کے ہاتھوں شکست پر اسپینش کھلاڑیوں کے آنسو بہے تو ہمارے خیالات کی رو ہمیں کسی اور طرف لے گئی۔ ہماری جنگ تو ان کھلاڑیوں سے ہے ہی نہیں۔ کھیل کے میدان میں آج مراکش جیتا، کل اسپین جیت جائے گا۔ ہمارا تاریخ کا کاتب تو کچھ اور بات کہہ رہا تھا۔
ہمارا آنسوؤں کا یہ سلسلہ تو کسی اور دریا سے جا مِلتا ہے،
سورۃ بروج کی ہی 17 ویں آیت میں ارشاد ہے،
“کیا تم نے لشکروں کا احوال سنا ؟؟؟”اور احسن عزیز نے کہا تھا،
ہم نے الحمد سے لے کے والناس تک
جو سبق بھی پڑھا وہ بھلایا نہیں
ہم کو روئیں ہماری ہی مائیں سدا
ہم نے تم کو اگر خوں رلایا نہیں