Author: فیض اللہ خان

  • تنظیم اسلامی کے تحت رمضان میں دورہ قرآن کا سلسلہ – فیض اللہ خان

    تنظیم اسلامی کے تحت رمضان میں دورہ قرآن کا سلسلہ – فیض اللہ خان

    ملک بھر میں تنظیم اسلامی کے تحت دورہ قرآن ہوتا ہے. عشاء کے نماز کے بعد اس کا آغاز ہوتا ہے اور قرآن سمجھنے کی بہترین مجلس ہے. تراویح بھی وہیں پڑھائی جاتی ہے. عموماً شب ایک سے دو بجے تک سلسلہ جاری رہتا ہے. جن احباب کا دن میں روزگار ،کاروبار ہے، وہ دیر تک تو نہیں بیٹھ سکتے، البتہ جنھیں فراغت کی نعمت میسر ہے، وہ موقع سے فیض اٹھا سکتے ہیں. البتہ روز گھنٹہ آدھا گھنٹہ ضرور بیٹھا جاسکتا ہے. ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے معاشرے کے عام افراد میں قرآن فہمی کےلیے شاندار خدمات سر انجام دی ہیں، انھی کا ثمر ہےکہ بہترین مدرسین بہت اخلاص سے دروس دیتے ہیں. یہ سب بظاہر عام مگر بہت خاص مدرسین ہیں، جنھیں نذرانے و ہدیہ درکار ہوتے ہیں نہ کسی ستائش کی تمنا ہوتی ہے، بلکہ اپنا قیمتی وقت لگا کر ہم تک قرآن کی عوت بہترین انداز سے پہنچاتے ہیں. ان کے دورس میں اخلاص، شائستگی، محبت اور ایمان کی حرارت واضح طور پہ محسوس کی جاسکتی ہے.

    میرا اپنا معمول یہ ہوتا ہے کہ مسجد میں آٹھ رکعت تراویح پڑھ کر قریبی تنظیم اسلامی کے بینکوئٹ چلا جاتا ہوں اور گھنٹہ آدھا گھنٹہ درس سن کر لوٹ آتا ہوں. گزشتہ رمضان تنظیم کے مدرس انجنئیر عثمان علی صاحب کو سننے کا موقع ملا، یقین کریں کہ لطف آگیا . خدا ان کے علم و حلم میں اضافہ فرمائے، کیا ہی عمدہ درس دیا تھا. اس بار وہ پی ای سی ایچ ایس میں درس دے رہے ہیں، جبکہ ان کی جگہ اسامہ عثمانی صاحب ہمارے محلے میں آئے ہیں، ان کا بھی بہترین سلسلہ ہے. سورہ فاتحہ و بقرہ کا ابتدائی درس سنا، واللہ سورہ فاتحہ کی ایسی تفسیر پہلے نہ سنی، ان تمام مدرسین کے لیے دلی دعائیں جو اس پرفتن دور میں یوں قرآن کو سنبھالے کھڑے ہیں کہ دیکھ کر رشک آتا ہے.

    ہماری بدقسمتی ہے کہ تنظیم اسلامی جیسے قرآن سے محبت اور اس کی دعوت عام کرنےوالوں کے پاس مساجد نہیں ہیں. مسالک و فرقوں کی جنگ سے پرے یہ اخلاص کے مارے لوگ شادی ہال وغیرہ بک کراکر اس میں دورہ قرآن کراتے ہیں. بریلوی حضرات سے تو توقع نہیں البتہ دیو بندی اور اہلحدیث حضرات اگر دل بڑا کرکے ابتدائی طور پہ رمضان میں چند ایک مساجد ہی انھیں دے دیں تو یقین کریں کہ نمازیوں کا بہت بھلا ہو جائے گا. تنظیم اسلامی والے ویسے بھی ” قبضہ ” نہیں کرتے تو اطمینان بھی رہے گا. رمضان کی راتوں کے بعد مسجد مکمل طور پہ واپس مل جائے گی. میں جانتا ہوں کہ یہ دیوانے کی بڑ ہے، اپنی مسجد کون چھوڑتا ہے، مگر پھر بھی بولنے میں کیا حرج ہے. شاید کسی کے دل میں بات اتر جائے .

    تنظیم اسلامی کے مدرسین کا درس بہت مختلف ہوتا ہے. اس میں نظریاتی رنگ، سیاسی جدوجہد، نظام کی تبدیلی اور سماج سے جڑی برائیوں کی باتیں بہت کھلے انداز میں قرآنی احکامات کی روشنی میں بیان کی جاتی ہیں. ان دروس میں مدرسین کی محنت، فکر کی گہرائی اور اخلاص جابجا جھلکتا نظر آتا ہے. معاشرے کو قرآن سے جوڑنے کی جو خدمت ڈاکٹر اسرار صاحب نے انجام دی، وہ بہت قابل قدر ہے.

    ہمارے ہاں درس نظامی میں فقہی امور پہ بہت توجہ ہے، قرآن فہمی کا درس نظامی کا اپنا انداز ہے جو کہ انقلابی نہیں ہے. اس حوالے سے اگر وفاق المدارس تنظیم اسلامی کی مدد سے طلبہ کی رہنمائی کے لیے ایک نصاب ترتیب دے تو اس کے بہت عمدہ اثرات پڑیں گے. علمائے اکرام کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ عامی کو بالکل بھی برابر کا نہیں سمجھتے، مگر درس نظامی کے طلبہ سے درخواست ہےکہ اپنے علاقوں میں ان دروس میں ضرور شرکت کریں، آپ کے سامنے ایک نیا جہاں آباد ہوگا اور پتہ چلے گا کہ اللہ کسی کو فہم دے تو عامی اس معاملے میں عالم سے بہتر فکر کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے.

    جماعت اسلامی کے احباب انفرادی طور پہ تنظیم اسلامی کے ان دروس میں شریک ہوتے ہیں، میری خواہش ہے کہ جماعت اسلامی بطور تنظیم اپنے لوگوں کو دورہ قرآن میں شرکت کا پابند کرے. جماعت اسلامی سیاسی سرگرمیوں میں اس قدر پڑ چکی ہے کہ درس قرآن کےلیے ان کے پاس مدرسین بچے ہیں نہ کارکنوں میں وہ تڑپ اور جذبہ باقی رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا.

    رمضان کے کافی دن باقی ہیں، اپنی سہولت کے مطابق روزانہ دورہ قرآن میں شرکت کریں. کیا خبر اگلا رمضان ملے نہ ملے.

  • عمران خان کی حمایت جاری رکھیں. فیض اللہ خان

    عمران خان کی حمایت جاری رکھیں. فیض اللہ خان

    تحریک انصاف کے سابق اور زبردستی ہروائے گئے موجودہ ایم این اے عالمگیر خان نے اپنی رہائش گاہ پہ تحریک تحفظ آئین پاکستان کی قیادت اور صحافیوں کی ایک مشترکہ نشست میں ہمیں بھی دوستوں کے ساتھ شرکت کی دعوت دی. روایتی کھانوں کے ساتھ اصل لطف محمود خان اچکزئی، لطیف کھوسہ، اسد قیصر اور سلمان اکرم راجہ سمیت دیگر رہنماؤں کےساتھ براہ راست مکالمے میں آیا.

    مشر محمود خان اچکزئی سے میرا سوال تھا کہ جنرل پرویز مشرف کیخلاف اے پی ڈی ایم تحریک چلارہی تھی، انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ ہوا، مگر انتخابات سے قبل میاں محمد نواز شریف نے فیصلے سے انحراف کرتے ہوئے الیکشن میں حصہ لیا. آپ، قاضی حسین احمد اور عمران خان تنہا رہ گئے اور بائیکاٹ کیا. کچھ سال قبل پی ڈی ایم بنی، عوامی بالادستی کا نعرہ بلند ہوا، انتخابات ہوئے، آپ کے اتحادی میاں صاحب اور آصف زرداری حکومت میں ہیں، جبکہ آپ اور مولانافضل الرحمن پھر سے سڑکوں پہ ہیں. کیا ضمانت ہےکہ کل کو عمران خان ڈیل نہیں کریں گے. اور انھوں نے ڈیل کر لی تو کیا پھر آپ دوبارہ سڑکوں پہ ہوں گے؟

    محمود خان اچکزئی کائیاں سیاستدان ہیں. اس سوال کا دو ٹوک جواب دینے کے بجائے ماضی سے بات کرنا شروع کی، اور کہا کہ لندن میں بےنظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان میثاقِ جمہوریت وہ معاہدہ یا اتحاد تھا جو استخباراتی اداروں کی مداخلت کے بغیر قائم ہوا تھا. وہ کامیاب ہوتا تو صورتحال بالکل مختلف ہوتی. محمود خان اچکزئی نے دعویٰ کیا کہ عمران خان پختونوں کی دو ہزار سال کے واحد ایسے رہنما ہیں جنھیں پختونوں نے بھرپور حمایت دی. اسی کی ذیل میں ان کی سوات میں کی گئی تقریر سے یہ حوالہ دینا بھی دلچسپی کا باعث بنے گا، جب انھوں نے کہا کہ سوات کے پختونوں عمران کے ساتھ یونہی کھڑے رہنا، وفاداری نبھانا، جان دینے سے بھی گریز نہ کرنا کہ یہی پشتون روایت ہے.

    لطیف کھوسہ نے محفل کے اختتام پہ مجھے کہا کہ آپ کا سوال بالکل درست تھا، اور اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کل کو خان مفاہمت کرلے گا، اور طاقتور کی مداخلت برقرار رہے گی تو ہم عمران خان کے ساتھ نہیں ہوں گے بلکہ مخالف سمت میں کھڑے ہوں گے. کل کیا ہوگا؟ یہ کوئی نہیں جانتا ، یہ درست ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت کیخلاف جدوجہد کی، بلکہ پیپلز پارٹی کی قربانیاں کسی سے بھی زیادہ رہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عوامی طاقت کے سڑکوں پہ نہ نکلنے اور سیاسی حکمت عملی کی ناکامی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے طاقتور قوتوں سے مفاہمت کی اور اپنا بیانیہ چھوڑ دیا. پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے کرپشن بھی خوب کی مگر ثابت کچھ نہ ہوا، البتہ یہ بیانیہ ان کے خلاف بھرپور استعمال ہوا ، اور آج کرپشن کا بیانیہ پاکستانی سیاست سے باہر اور عوامی بالادستی کا مقبول بیانیہ ہے. مگر اب اس کا علم عمران خان کے ہاتھ میں ہے .

    سیاستدان کے پاس بندوق نہیں ہوتی. وہ جمہور کی طاقت سے اپنے لیے رستہ نکالتا ہے. پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور اس سے پہلے بلوچ و پشتون قوم پرست قیادت عوامی بالادستی اور آئین کی حاکمیت کا بیانیہ لیکر چلے تھے. یہ طویل اور صبر آزما سفر ہے. سیاستدان باہمی جنگیں پھر بھی کرسکتے ہیں مگر عوامی بالادستی کے معاملے پہ بہرحال انھیں ایک ہونا پڑے گا، ورنہ معتوب محبوب اور محبوب معتوب ہوتے رہیں گے، اور دائروں کا یہ سفر کبھی اختتام پذیر نہیں ہوگا .

    خدا کرکے کہ عمران خان ڈٹا رہے، لیکن وہ بھی مفاہمت کر گیا تو پھر طویل شب ہے. محمود خان اچکزئی کے الفاظ میں جب تک ہم سیاستدان اپنی خامیوں کا جائزہ لیکر کندھے فراہم کرنا ترک نہیں کریں گے ، بات بنے گی نہیں. جب تک عمران خان مفاہمت نہیں کرتا ، اس کی حمایت اور تائید ہر انصاف پسند انسان کو جاری رکھنی چاہیے.

  • امت کا سپہ سالار چلا گیا  – فیض اللہ خان

    امت کا سپہ سالار چلا گیا – فیض اللہ خان

    امت کا سپہ سالار چلا گیا . امت کے بیٹے کے جانے پہ امت سے ہی تو تعزیت بنتی ہے !

    امت سے تعزیت نہ کریں تو کس سے کریں ؟ کلف لگی وردیوں پہ سجے بےشمار تمغوں والے روح سے یکسر خالی ابدان سے کہ جن کے دامن میں عثمانیوں کے بعد ایک انچ مقبوضہ اراضی حاصل کرنے کی کوئی تاریخ نہیں ، ہاں مگر اپنے لوگوں اور زمینوں کو مفتوح بنانے کا اچھا ریکارڈ رکھتے ہیں۔

    کیا مسلم خطوں پہ قابض حاکموں سے تعزیت کریں ؟ کہ جنہیں عثمانیوں کے بعد استعمار نے اپنے سہولت کار کے طور پہ ہم پہ چھوڑ رکھا ہے؟

    یہ تعزیت اس ظالمانہ قوم پرستی کے دعویداروں سے کریں کہ جن کے مطابق ان کے سوا کوئی مظلوم نہیں اور جو مظلوموں میں تفریق کے قائل ہیں؟

    ان لبرل سیکیولر کمیونسٹ افکار سے لتھڑے اذہان سے کریں کہ جن کی زہریلی لپلپلاتی زبانیں ہمیشہ اسلام و مسلمانوں کو کمزور دیکھ کر کھلتی ہیں ؟

    نہیں ، یہ تعزیت امت کے ہر اس شخص سے بنتی ہے کہ جو رنگ، نسل اور فرقے کی تفریق سے ماوراء ہوکر ” مہمان ” کے نام سے افسانوی شہرت پانے والے کماندان سے عقیدت و محبت رکھتا ہے

    بلکہ ٹھہریے! یہ تعزیت ہر اس انصاف پسند سے بنتی ہے کہ جو رنگ و نسل اور مذہب و نظریہ کی تفریق سے بالا تر ہوکر حق کے ساتھ خود کو کھڑا پاتا ہے
    اور یہ تعزیت ان بہادروں سے بھی بنتی ہے کہ جو مذہب و نظریہ کے بندھن میں بندھے بغیر فقط شجاعت و ہمت اور استقلال کی بنیاد پہ بہادروں کو پسند کرتے ہیں

    شط العرب کا کماندان کوئی پچیس برس باجبروت طاقتور غاصبوں کے سامنے پرچم اٹھائے کھڑا رہا . خدا کے اس بندے نے محض ایمان، توکل اور حکمت کے توشے سے ٹیکنالوجی، وسائل، طاقت اور سب کچھ جان لینے کا دعویٰ رکھنے والوں کو دھوکے میں ڈالے رکھا کہ وہ معذور ہے، اس کی نقل و حرکت ایک بڑا مسئلہ ہے، مگر جب راز کھلا بلکہ قدسیوں نے خود ہی آشکار کیا تو دنیا کے سارے استخباراتی اداروں کو معلوم ہوا کہ وہ ہاتھ پیر سلامت رکھنے والا ایسا شیر دل تھا کہ جس نے غاصبوں کے ٹیکنالوجی سے بھرپور سات جان لیوا حملے ناکام بنائے.

    گزشتہ تیس برس میں بندوق کے ذریعے تاریخ کا دھارا بدلنے والے قائدین آپس میں حکمت عملی اور فکر کا کتنا ہی اختلاف کیوں نہ رکھتے ہوں ، قدر مشترکہ یہ ہے کہ خود بھی قربان ہوتے ہیں، اور اپنی آل اولاد کی قربانی دینے کی ہمت بھی رکھتے ہیں، کابل تا دمشق، قدس تا شیشان ایک نہیں درجنوں امثال بھری پڑی ہیں.

    ہمارا کماندار افق کو اپنے لہو کی سرخی دے کر اس پار چلا گیا، مگر اس سے بہت پہلے ایک خونخوار حملے میں بیوی بچے قربان کر گیا . یہ کہنے ، سننےاور پڑھنے میں بہت آسان مگر عمل میں ناممکن جیسا عمل ہے.

    ہمارا کماندار چاہتا تو زندگی بھرپور طریقے سے جی سکتا تھا، ” ڈیل ” کرسکتا تھا ، غاصب ریاست ایسوں کو سونے میں نہیں ہیروں میں تولنے کو تیار ہوتی ہے. وسائل، نعمتیں، جاگیریں، شہریتیں، پنج ستارہ ریستورانوں میں کانفرنسوں کی سربراہی، تھنک ٹینک اور امریکی و یورپی جامعات میں سیمینار، شرم الشیخ میں تفریح کے مواقع . کاریں، گھر ، جہاز ، جزیرے ،کاروبار ، انٹرویوز ، دستاویزی فلمیں ، ہالی وڈ کی فلمیں، نیٹ فلیکس کی سیریز ، امن کا نوبل انعام وغیرہ وغیرہ، غرض فہرست لمبی، خواہشات لامحدود ، مگر وہ کیا ہے کہ زندگی بہت محدود ۔

    ضیف! خدا آپ پہ، ساتھیوں پہ رحمتوں کا نزول فرمائے، بیشک آپ نے مادیت کے جال کو کاٹ ڈالا ، آپ ہمیشہ کے لیے زندہ ہوگئے

    کسی دور صحرائی مقام سے لیکر بلند و بالا کہسار تک ، سرنگوں کی زیر زمین آباد عشق کی بستیوں سے لیکر ٹوٹی پھوٹی دیہاتوں کی مساجد تک، یہاں تک کہ امت کے نوجوانوں کے دلوں تک، ہر جگہ آپ زندہ رہیں گے. کسی لوک گیت میں، کسی رزم گاہ میں، کسی نعرے میں اور قدس کی ہواؤں کی سرسراہٹ میں ۔۔۔

    ہم آپ کو یاد رکھیں گے. آپ کے حوصلے، عزم، ارادے ، اور ولولے کو دل کے نصاب کا حصہ بنائیں گے اور پھر ایک دن آئے گا جب آپ کی طرح ہم باقی امت بھی ” آزاد ” ہو جائیں گے
    انا للہ وانا الیہ راجعون

  • مظلوم کی نہیں، ظالم کی مذمت کریں- فیض اللہ خان

    مظلوم کی نہیں، ظالم کی مذمت کریں- فیض اللہ خان

    ظالموں کی مذمت کرنے کے بجائے مظلوموں کو کٹہرے میں کھڑے کرنے والوں کی بھی اپنی ہی نوعیت کی ذہنی سطح ہے.

    دیکھیں صاحب ! مہذب دنیااور اس کے قائم کردہ امن و انصاف، جمہوریت اور بشری حقوق کے اداروں نے جہاں دنیا میں کئی معاملات درست کیے ہیں، وہیں ارض قدس سے لیکر بوسنیا ہرزیگوینا تک مسلم خطوں سے متعلق معاملات میں بدترین تعصب و تاخیر اور کہیں قاتلوں اور کہیں حملہ آوروں کی سرپرستی کا کردار ادا کیا ہے. اس نکتے پہ گفتگو ہونی چاہیے اور بہت کھل کر ہونی چاہیے. کوئی تحریک، شخصیت یا حکومت محض اس لیے دہشت گرد نہیں کہلائی جاسکتی کہ دنیا کے چوہدری ایسا کہتے ہیں، بلکہ انصاف پسند دانشوروں کو دہشت گردی ہی نہیں، اس کی وجوہات اور عالمی اداروں کی ناکامی پہ بھی بات کرنی چاہیے . یہی اہل دانش کا منصب ہے.

    رہی بات غزہ جنگ بندی کی تو یاد رہے حماس محض ایک مجموعہ ہے ، اسرائیلی طاقت، ٹیکنالوجی، وسائل، لابی اور استعمار کی سرپرستی کے سامنے اس کی کوئی حیثیت ہے نہ مدمقابل کے آگے اہمیت، مگر اس کے باوجود استقلال، جرات ، بہادری، خدا پہ یقین، جان دینے کے جذبے اور آزاد ریاست کے لیے ان کی لازوال جدوجہد ان کے عزم کا استعارہ ہے . دنیا کی تاریخ میں کہیں بھی غلامی سے نجات پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملی. قربانی تو دینا پڑتی ہے چاہے کسی کو اچھا لگے یا برا، خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد کچھ راجواڑے استعمار نے تخلیق کیے، کچھ ان کے کمزور ہونے کے سبب تشکیل پائے، مگر ان تمام خطوں میں آمر ، بادشاہ اور جمہوری حکمران، کم و بیش انھی کے سہولت کار اور وفادار تھے یعنی کہ ادھوری آزادی.

    غزہ میں یہی کچھ ہوا ہے. فتح و شکست الگ پہلو ہے، مگر کچھ باتیں سمجھ لیں. نیتن یاہو کا مقصد قطعی جنگ بندی نہ تھا ، اس کا واضح اعلان حماس کو نیست و نابود کرنا اور اپنے مغوی بازیاب کرانا تھا، جنگ بندی کے حوالے سے نیتن یاہو نے ہر طرح کے دباؤ کو جوتے کی نوک پہ رکھا. ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطی کو جہنم بنانے کی دھمکی محض حماس کو نہیں دی تھی، اہل غزہ تو 77 برس سے جہنم ہی میں رہ رہے ہیں، ٹرمپ نے بین السطور نے نیتن یاہو کو دھمکی دی کہ میں اپنی حلف برداری سے قبل سکون کا معاملہ چاہتا ہوں. ظاہر ہے مقبولیت کے گھوڑے پر سوار ٹرمپ اپنی حلف برداری ایسے ماحول میں نہیں کرسکتا، اسے بادشاہوں کے مزاج کے مطابق ماحول درکار ہے جو کہ اس نے بنادیا (پاکستان میں عمران خان اور حکومت کے مذاکرات بھی مجھے اسی طرح کے نظر نہ آنیوالے دباؤ کا نتیجہ لگتے ہیں)

    اسرائیل اپنی پوری طاقت، ہیبت، ٹیکنالوجی، بمباری اور غزہ کو ملیامیٹ کر چکنے کے باوجود اپنے مغوی نہیں چھڑا سکا . یہ ایمان کے مقابل ٹیکنالوجی کو خدا سمجھنے والوں کی بھی ناکامی ہے. آج کی تاریخ میں نیتن یاہو کا غرور پاش پاش ہے ، اسے اپنے طاقتور الفاظ کو نگلنا پڑا ہے ، اس نے جنگ بندی بھی کی، حماس موجود بھی ہے اور مغوی بھی رہا نہ کراسکا. گزشتہ سوا سال سے ہزاروں اسرائیلی شہری اپنے دارلحکومت کی سڑکوں پہ ہیں، ہزاروں سال کی جدوجہد، لاکھوں قربانیوں اور سازشوں کے نتیجے میں حاصل ہونیوالی اسرائیلی ریاست محض 77 سال کے عرصے میں نہ صرف آپسی اختلاف کا شکار ہے بلکہ عدم تحفظ اس درجہ کا ہے کہ اطراف میں سہولت کار حکومتیں اور عالمی سرپرستی ہی اسے کسی حد تک محفوظ رکھ سکتی ہے، نیز دنیا بھر کے انصاف پسند غاصب ریاست کیخلاف نفرت کے جذبے کے ساتھ یوں سرگرم ہیں کہ ظالم اور مظلوم پوری دنیا کے سامنے عیاں ہیں. مظلومیت کی خود ساختہ داستانیں ہوا ہوچکیں، اربوں کی لابنگ فلمیں ، خبریں سب کچھ غزہ کی گرد میں ڈوب گیا. کچھ باقی ہے تو وہ اہل غزہ کی مظلومیت ہے اور کچھ نہیں.

    ایمان، اخلاص اور استقامت کے ساتھ کھڑے رہنے میں زندگی ہے، ورنہ اسباب و مدمقابل کا موازنہ کریں تو بدر کا معرکہ بھی نہیں ہونا چاہیے تھا، مگر معرکہ ہوا اور حق کو کامیابی ملی. ہماری کامیابی ناکامی سے بڑھ کر اصل معاملہ اپنے حصے کی مزاحمت اور جدوجہد ہے. ہم اسی کے مکلف ہیں. یہی ایمان ہے، یہی بہادروں کا رستہ ہے، باقی سب دھوکہ ہے، مادیت کا فریب ہے، وہن کا مرض ہے، اور اس کا علاج کسی حکیم کے پاس نہیں.

  • کرم معاہدے کے بعد – فیض اللہ خان

    کرم معاہدے کے بعد – فیض اللہ خان

    کرم معاہدے ہوچکا . کراچی اور دیگر شہروں میں مظاہرے ختم ہو گئے ہیں، سڑکیں بھی کھل گئی ہیں. اس کے بعد شیعہ قیادت کو کچھ باتوں پہ سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے مثلاً پہلی بار شاید ایسا ہوا کہ کراچی میں فعال سیاسی و مذہبی جماعتوں کی قیادت ان سات دنوں میں آپ کے دھرنے میں شریک ہوئی نہ حمایت میں بیان دیا بلکہ خلاف بھی کچھ نہیں بولے، جسے علامہ حسن ظفر نقوی میڈیا پراپیگنڈہ قرار دے کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رہے ہیں ، بنیادی طور پہ وہ عام شہریوں کا ردعمل ہے جو سوشل میڈیا پہ بکھرا پڑا ہے. یاد رکھیں کراچی میں لوگ پہلے ہی مختلف مسائل کے سبب بہت پریشان ہیں. روڈ انفراسٹرکچر سے سفر میں تاخیر انہی میں سے ایک ہے. ایسے میں سڑکیں بند کرنا یہاں پاپ کے زمرے میں آتا ہے. سڑکوں پہ ڈنڈے اٹھائے لڑکوں سے لوگ لڑ نہیں سکتے مگر سوشل میڈیا پہ بھڑاس ضروری نکالی جاسکتی ہے. اس حوالے سے بغیر ریاستی معاونت کے رائے عامہ آپ کے اس عمل کیخلاف ہے .
    شیعہ علماء کی ہٹ دھرمی کے سبب ہمیشہ نرم رویہ کا مظاہرہ کرنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کے لیے مشکل ہوگیا تھا کہ سڑک بند رہنے پہ خاموش رہتے، یہاں تک کہ پولیس ایکشن پہ شیعہ مولویوں نے پیپلز پارٹی کو جنرل ضیاء سے تشبیہ دی. واضح رہے کہ پاکستانی شیعوں میں جنرل ضیاء یزید کا مترادف سمجھا جاتا ہے مگر اپنی دیرینہ اتحادی پیپلز پارٹی کو خود شیعہ علماء یہاں تک لائے (امریکی سفارت خانے بطور احتجاج جانے پہ شیعہ ہو یا سنی، حکومت جس کی بھی ہو وہ روکنے کےلیے طاقت کا استعمال کرتی ہے اور وہ سب کو پتہ بھی ہے، البتہ اس قسم کے شیعہ دھرنوں سے پولیس دور ہی رہتی ہے، تشدد نہیں کرتی) پیپلز پارٹی کی حکومت کا اندازہ صرف اسی بات سے لگائیں کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کراچی آئے تو انھوں نے کوئی ملاقات کی دعوت دی نہ ملے، بلکہ سب کچھ گورنر سندھ کے حوالے کردیا کہ وفاق جانے مہمان جانے .
    اس ہفتہ دس دن کے دوران عجیب و غریب ویڈیوز سامنے آئیں مثلاً ایک خاتون استاد دھرنے میں شریک بچوں کو باقاعدہ سبق پڑھا رہی تھیں کہ اگر حکومت نے پاڑہ چنار میں ہم سے اسلحہ لیا تو ہم بدذات حکومت کے منہ پہ چپڑیں کرائیں گے . طویل مدت بعد نشریاتی اداروں پہ دھرنوں کیخلاف خبریں چلیں، حالانکہ پہلے عوامی مشکلات نظر انداز ہوتی تھیں .
    کراچی میں ایک سیاسی بیانیہ مقامی و غیر مقامی کا بھی ہے جسے کراچی میں رہنے والے خوب سمجھتے ہیں. مجلس وحدت المسلمین کے مہاجر علماء نے سرائیکی، بلتی، پشتون، سندھی اور مہاجروں کو فرقے (شیعہ ملت یعنی مقامی و غیر مقامی اگر شیعہ ہیں تو ایک قوم ہیں )کی بنیاد پہ جمع کرکے شہر بند کرایا، اور اس بیانیہ کو خاصا متاثر کیا ہے ، کراچی میں یہ سوال سنجیدگی سے اٹھاہےکہ پاڑہ چنار کے قبائلی تنازعے کو یہاں کیوں لایا گیا ؟
    اپنے سخت گیر رویے کے باعث مجلس وحدت المسلمین کے کارکن پولیس سے بھی ٹکرائے، دو طرفہ فائرنگ سے کوئی دو درجن کے قریب پولیس اہلکار و دھرنے کے شرکاء زخمی ہوئے، اور ایک کارکن جان سے گیا. اسی طرح گاڑیاں جلنےاور سولجر بازار و جعفر طیار میں کاروبار زبردستی بند کرانے سے عوام میں مجلس وحدت کا تاثر مجروح ہوا ہے. جلاؤ گھیراؤ کی سیاست سے کراچی نکل چکا ہے، دوبارہ نہیں جانا چاہتا.
    پیپلز پارٹی اور مسلم لیگی حکومتی شخصیات نے مجلس وحدت المسلمین پہ الزام لگایا کہ اپنی اتحادی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے دباؤ ہٹانے کے لیے کراچی کا انتخاب کیا گیا (یہ دلچسپ نکتہ ہے تحریک انصاف کراچی میں ان کے دھرنے میں شریک ہوئی نہ حق میں بیان دیا) . کراچی میں اہل تشیع تنظیمات سمجھتی ہیں کہ وہ سڑکیں وغیرہ بند کرکے حکومت یا شہر کو اپنی طاقت دکھاتے ہیں، درحقیقت یہ معاملہ بیک فائر ہوچکا ہے، اس وجہ سے عام شہری نفرت کرنے لگے ہیں (نفرت کی وجہ مذہبی نہیں بلکہ پہلے سے تنگ شہریوں کا مزید ذلیل ہونا ہے محرم وغیرہ کے دس دن کے سوا مختلف جلوس و مجالس کےلیے مرکزی سڑکوں سے لیکر گلی محلے اور ذیلی سڑکوں کا بند ہونا شہریوں کو نفسیاتی بنا چکا ،مگر شیعہ قیادت اسے ابھی تک نہیں سمجھ پا رہی )
    آخری بات یہ ہےکہ مجلس وحدت کے ان دھرنوں میں قطعی اتنے لوگ نہ تھے کہ اسے قابل ذکر سمجھا جاتا، واضح طور پہ نظر آیا کہ نہ صرف مختلف شیعہ تنظیمات بلکہ منظم و مؤثر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بھی ان دھرنوں سے مکمل طور پہ لاتعلق رہی .
    شیعہ سنی اختلاف کبھی ختم ہوگا نہ یہ دونوں ، مگر وقت آگیا ہے کہ اپنے عقائد و نظریات پہ رہتے ہوئے فریقین کی قیادت ایسی راہ نکالے جس میں ایک دوسرے کا احترام ہو اور شہریوں کے لیے پریشانی نہ بنے. یہ ہم سب کے بڑے ہونے کا مرحلہ ہے، ورنہ یقین کریں اگلی نسلیں ان معاملات سے ویسے لاتعلقی اختیار کرتی جارہی ہیں، اور یہی رویہ رہا تو پھر جو ساتھ ہیں، وہ بھی ساتھ چھوڑ جائیں گے

  • امام ، مؤذن ، خادم اور مسجد کمیٹی  – فیض اللہ خان

    امام ، مؤذن ، خادم اور مسجد کمیٹی – فیض اللہ خان

    اس موضوع پہ بات کرنے سے پہلے کچھ ذاتی تجربہ بیان ہوجائے تاکہ اس اہم مگر فراموش مسئلے کے حوالے سے کچھ معلومات میسر آسکیں . 1970 میں والد محترم دستگیر کراچی کی غوثیہ مسجد میں امام تعینات ہوئے. خوش الحان اور فنا فی القرآن تھے. قرآن سے ان کی محبت عجب ہی تھی. شہر بھر کی محفل قرات کا حصہ بنتے . پاکستان آمد پہ معروف مصری قاری قرآن شیخ عبد الباسط کو براہ راست سن چکے تھے. غالباً کراچی کا واقعہ بتاتے ہوئے کہنے لگے کہ ساٹھ کی دہائی کے نصف کے بعد جمعہ کو ہم ایک دوست کے یہاں جمع ہوکر پرانے طرز کے گھومنے والے ریکارڈر میں تلاوت سنتے اور اس مجلس میں نجانے کہاں سے مصری فوجی کیڈٹ بھی شریک ہونے لگ گئے. وہیں والد صاحب بھی تلاوت کیا کرتے. انھی فوجیوں نے تب ایک جیبی سائز قرآنی نسخہ والد کو تحفے کے طور پہ دیا جس کے پہلے صفحے پہ مصری صدر کا فوٹو نمایاں تھا. (یہ مصری تھے یا شامی یہ اب مجھے نہیں یاد مگر یہ کنفرم ہے کہ تھے کوئی عرب کیڈٹس ہی جو یہاں تربیت حاصل کر رہے تھے). والد صاحب کی قرآن سے محبت کا یہ عالم تھا کہ بستر مرض پہ جانے سے پہلے تہجد اور فجر کے اوقات میں کئی پاروں کی تلاوت معمول تھا . ایبٹ آباد کے ایوب ٹیچنگ اسپتال کی وہ سرد شام مجھے کبھی نہیں بھولے گی جب انھیں میں موبائل سے شیخ عبد الباسط ، شیخ منشاوی سمیت دیگر مصری قراء (انہیں حجاز کے بجائے مصری لہجہ بیحد پسند تھا) کی تلاوت سناتا رہا اور وہ اشاروں سے بتاتے کہ ہاں میں سن رہا ہوں اور پھر اس رات کی صبح فجر کی اذانوں کے ساتھ ہی وہ دنیائے فانی سے چلے گئے. اللہ پاک ان کی کامل مغفرت فرمائیں. آمین

    خیر بات کہیں سے کہیں نکل گئی. 1970 میں والد صاحب نے غوثیہ مسجد کی امامت سنبھالی اور پھر 1995 تک وہیں رہے. امام مسجد کی تنخواہ اب کچھ نہیں تو سوچیں اس وقت کیا ہوتی ہوگی، سو گزارہ تھا ہوتا رہا، لیکن اصل پریشان کن صورتحال اس گھر کی تھی جہاں ہم نے پچیس برس گزارے، اور یہ تکلیف اس وقت مزید دو چند ہوگئی جب چندروز پہلے میرا وہاں ایک کام سے جانا ہوا اور دیکھا کہ جس ٹین اور سیمنٹ کی چادروں تلے ہمارے والدین نے زندگی کے قیمتی پچیس برس گزار دیے، اس کی حالت اب بھی نہ بدل سکی، البتہ رمضان کی خوشی میں بیرونی دیواروں پہ چونا پھیر دیا گیا تھا ۔

    محلے کے ان پکے گھروں کے بیچ ہمارا کچامکان ایسے ہی نمایاں ہوتا جیسا کہ چھوٹے مکانات کے سامنے محل الگ سے نظر آتا ہے. ہمارا گھر یہاں کے اچھے گھروں میں گویا مخمل میں ٹاٹ تھا. مجھے اچھے سے یاد ہے کہ شام میں بچوں کے ساتھ کرکٹ وغیرہ کھیل کر کوشش ہوتی کہ اندھیرے میں گھر جاؤں تاکہ دوسرے محلے سے آنے والے بچے یہ نہ دیکھ سکیں کہ ہمارا گھر کتنا کچا اور قدیم زمانہ کا ہے. اپنے محلے کے بچے خواتین وغیرہ تو روز ہی ہمارے گھر اور ہم ان کے گھر جاتے کھیل کھیلتے ٹی وی دیکھتے اور گپ شپ مزے کی رہتی. پورے محلے میں گیس تھی اور وہ گھر گیس سے نوری سالوں کے فاصلے پہ تھا . امی لکڑیاں جلاکر ناشتہ کھانا بناتیں. 90 کی دہائی میں پھر جاکر گیس کا کنکشن ملا تو سہولت بنی. گرمیوں کے روزے وہاں زندگی جہنم بنادیتے. ٹین اور سیمنٹ کی چھت یوں تپتی کہ جسم پہ چھالے پڑجاتے. ہمیں سمجھ ہی نہیں نہ لگتی یہ مسئلہ کیا ہے . باتھ روم کے دروازے نہ تھے، بلکہ لکڑیاں جوڑ جاڑ کر دروازے بنانے کی بھونڈی کوشش کی گئی تھی. گھر کا آنگن بڑا تھا تو گرمی سے بچاؤ کے لیے امی ابو نے وہاں نیم کے دو درخت لگا دیے جو بڑے ہوکر چھاؤں کا سبب بنے. ہم بچے اور والد دوپہر میں مسجد چلے جاتے. اس کے حوض میں سر بھگو کر نیم اور پیپل کے پیڑ کے نیچے آرام کرتے، البتہ امی اسی گرمی میں رہتیں جس جگہ امام مؤذن اور خادم کے گھر بنے ہیں. کہتے ہیں کہ متنازعہ جگہ ہے، دستگیر میں تعمیراتی کام کے وقت کسی ٹھیکیدار نے اسے اپنا گودام بنا رکھا تھا، یہی ہمارا گھر کہلایا . چلیں ٹھیک ہے کہ جگہ متنازعہ ہے، مان لیا، مگر مسجد کا کچھ حصہ ان گھروں کے لیے مختص نہ کرنے میں کیا سائنس تھی، یہ آج دن تک سمجھ نہ آسکی (چند برس قبل امام کے لیے مسجد کے اندر پکا گھر بنادیا گیا ہے مگر مؤذن و خادم جنھیں یہاں چالیس برس بیت چکے، شاید اس قابل نہیں کہ انھیں بھی انسانوں والی زندگی فراہم کی جائے). حیرت مجھے ان لوگوں پہ بھی ہوتی ہے جو ارد گرد رہتے تھے مگر انھوں نے بھی کبھی امام، مؤذن اور خادم کو اس غیر انسانی ماحول سے نکالنے میں دلچسپی نہ دکھائی .

    95 تا 98 کا عرصہ والد صاحب نے گلشن اقبال کی ایک مسجد میں امامت کی.(پھر امارت چلے گئے تھے جہاں کے اسلامیہ اسکول میں استاد ہوگئے). یہ مسجد کسی عرب شیخ نے بناکر دی تھی، اگر میں غلط نہیں تو تنخواہ انھیں کیطرف سے دی جاتی، یہاں تنخواہ اور گھر معقول تھے یعنی کہ پکے اور اچھے لیکن یہاں کی مسجد کمیٹی والد صاحب تو ایک طرف خاکسار کی زندگی میں بھی مداخلت کرتے، (میں بمشکل اسوقت 17/18 برس کا بچہ تھا ) ایک صاحب جن کا انتقال ہوگیا انہیں میری ٹوپی نہ پہننے اور جینز پہننے پہ اعتراض تھا. ایک بار ایسی ہی کسی بات پہ موصوف کو میں نے کمیٹی ارکان کے سامنے ٹوک دیا تھا ، اس کے بعد تسلی رہی۔

    ایسا نہیں ہے کہ میں اب کوئی بنگلے میں رہتا ہوں. میری رہائش تو کراچی کے تقریباً مضافات میں ہے، گھر بھی کرائے کا ہے مگر الحمدللہ پکا ہے، ٹین اور سیمنٹ کی چادروں کا نہیں کہ گرمیوں میں بدترین حال ہوجائے . بس اسی طرح کے چھوٹے سے گھر سہی مگر پکے ہوں تو آئمہ اور مسجد سے جڑے دیگر خادمین کی زندگیاں کچھ آسان ہوجائیں گی. مسجد کمیٹی کی اکثریت پورے پاکستان میں بنیادی طور پہ زعم تقوی کی چادر لپیٹے ننھے ننھے فرعونوں کی ہوتی ہے، وہ طے کرتے ہیں کہ امام کپڑے کیسے پہنے گا ؟ کیا تفریح کرے گا؟ کہاں جائے گا؟ کہاں نہیں جائے گا؟ وغیرہ وغیرہ (انسان کے بچے کم کم ہی ملتے ہیں) مسجد کروڑوں کی ہوگی مگر امام، مؤذن اور خادم کی تنخواہیں آپ کو آج بھی پتہ چلیں تو انگلیاں دانتوں تلے داب لیں . مسجد کمیٹی کو کمترین تنخواہ میں بہترین عالم، شاندار قاری اور نستعلیق خطیب چاہیے، بدلے میں آٹھ دس ہزار دیتے ہیں . امام کو بہترین رہائش تنخواہ اور گاڑی ملنی چاہیے تاکہ وہ پرسکون ہوکر مسجد کے معاملات دیکھ سکے. نماز پڑھاتے ہوئے اسے بچوں کی فیس اور علاج کی ٹینشن ہو نہ ہی جمعہ کا وعظ کرتے قیمتی پوشاک اور مہنگی گاڑیوں میں آئے نمازیوں کے لیے قبر و حشر میں عذاب کی وعید سنائے.

    جو بڑے ادارے آئمہ وغیرہ مساجد کو فراہم کرتے ہیں، وہ مسجد کمیٹی والوں سے انسانی رویہ اور آئمہ کے لیے بہترین سہولتوں کا بھی مطالبہ کریں ، جب یہ سب ہوجائے گا تو معاشرے کو بہترین علماء، خطیب اور قراء میسر ہوں گے اور لوگ ڈاکٹر انجینئر کی طرح امام مسجد بن کر معاشرے کے روحانی امراض کا بھی خوب علاج کرسکیں گے . عکس والد مرحوم قاری محمد فرہاد خان اور انکی والدہ یعنی ہماری دادی کا ہے . ایک بار ضرور والد محترم کے لئیے فاتحہ پڑھ کر ایصال ثواب کریں .

  • جماعت اسلامی کہاں ہے ؟ فیض اللہ خان

    جماعت اسلامی کہاں ہے ؟ فیض اللہ خان

    جماعت اسلامی کہاں ہے ؟ ظاہر ہے کہ فی الوقت تو کہیں نہیں ہے. انتخابی طور پہ نہ ہی سیاسی محاذ پہ ، موجودہ صورتحال سے قبل اپوزیشن نے رابطہ کرکے ووٹ مانگا مگر جماعت اسلامی نے اس عمل کو اراکین کی خریداری سے جوڑ کر شمولیت سے انکار کیا. خیبر اسمبلی کے لیے بھی اپوزیشن نے اچھی آفر کے ساتھ رابطہ کیا مگر انکار ہی رہا. رہی تحریک انصاف تو انھوں نے ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ جماعت اسلامی سے رابطہ کیا جائے. جماعت اسلامی کا موقف کیا ہے ؟ جماعت اسلامی کہتی ہے کہ انتخابی اصلاحات اور الیکشن کمیشن کی خود مختاری کے بعد فوری الیکشن اور سفارتی مراسلے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کمیشن تشکیل دے. یہ تو ہوگیا موجودہ صورتحال پہ جماعت کا سرکاری مؤقف. اب بڑھتے ہیں اگلی بات پہ.

    تحریک انصاف کے چکاچوند والے جلسے ، کم و بیش جماعت اسلامی کے اختیار کردہ نعرے اور سیاسی/ انتخابی طور پہ جماعت اسلامی کی ناکامی نے اس کے ووٹرز اور کارکنوں کے ایک حصے کو پی ٹی آئی کی طرف متوجہ کیا ہے. اسے پس منظر کےساتھ سمجھنا بھی ضروری ہے . اس کہانی کا آغاز نوے کی دہائی میں اس وقت ہوا جب آئی جے آئی حکومت کے وزیر اعظم نواز شریف سے جماعت اسلامی کے اختلافات کا آغاز ہوا اور جماعت اسلامی نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ کو بھی اپنا ہدف بنالیا اور جماعت خود کو متبادل قوت کے طور پہ پیش کرنے لگی. قاضی حسین احمد فرماتے تھے کہ نواز شریف نے شرعی نظام کے نفاذ سمیت بعض دیگر وعدوں کی پاسداری سے انحراف کیا ہے جو اتحادی کے طور پہ کیے. اس دوران جماعت اسلامی کو شدید نقصان پہنچانے والوں میں مدیر تکبیر صلاح الدین شہید سرفہرست تھے. ان صاحب کو دماغی علاج کی ضرورت تھی، جبکہ وہ دانشور بن کر قوم بالخصوص جماعت اسلامی کے کارکنوں کے اذہان پراگندہ کرتے رہے. انھیں پیپلز پارٹی سے شدید نفرت اور نواز شریف سے اتنی ہی محبت تھی. تکبیر اس زمانے کا جیو ، اے آر وائی اور سما سمجھ لیں.

    جب قاضی صاحب نے نواز شریف کیخلاف مہم شروع کی تو ان کی توپوں کا رخ جماعت اسلامی کی طرف ہوگیا. موصوف کی خواہش تھی کہ جماعت اسلامی کی شوریٰ ان کے اداریوں کی بنیاد پہ فیصلے کرے. صلاح الدین دائیں بازو کے انھی مفکرین میں سے تھے جو اپنے لوگوں سے فکری بدیانتی کے مرتکب ہوئے. بدقسمتی سے دائیں بازو کے دانشوروں کی اکثریت کم و بیش اب بھی ویسی ہی ہے. جماعت اسلامی کے ووٹ بینک کو مسلم لیگ کی طرف موڑنے میں تکبیر کی نفرت انگیز صحافت کا اہم ترین کردار تھا. بعد کے عرصے میں صحافتی حلقوں میں یہ باتیں عام ہوئیں کہ انھیں پریس نواز شریف نے لگوا کر دیا تھا. مرحوم نے جماعت اسلامی کے نوجوانوں کو پرو اسٹیبلشمنٹ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی. بہرحال جماعت اسلامی نے اپنی غیر معمولی مہم کے ذریعے اگلے چند برس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں کے احتساب کا نعرہ لگایا (نوے کی ہی دہائی میں جماعت اسلامی نے بے نظیر حکومت کیخلاف دھرنے دیکر سیاسی نظام کو کمزور کیا ، جبھی خاکسار کا خیال ہے کہ حکومتوں کی مدت پوری ہونی چاہیے، آئینی عمل ہونے کے باوجود سیاسی استحکام تک اس سے گریز بہتر ہے) مگر تب تک تاخیر ہوچکی تھی، جماعت اسلامی پنجاب کے ووٹرز نواز شریف کے ساتھ جڑ چکے تھے. اس اتحادی سیاست نے جماعت اسلامی کو آگے چل کر مزید نقصان پہنچایا. یہاں تک کہ کبھی سائیکل، کبھی کار، کبھی کتاب کے نشانات پہ الیکشن لڑنے والی جماعت اسلامی کا اپنا نشان ” ترازو” یوں غائب ہوا کہ خود مجھے 2013ء میں پتہ چلا کہ بھئی جماعت کا انتخابی نشان تو ترازو ہے.

    90 کی دہائی میں جماعت اسلامی کے سربراہ قاضی حسین احمد نے پوری جماعت کو پڑوس کی جدوجہد میں جھونک دیا ، حالانکہ اسے جماعت کے ایک شعبے کے طور پہ ہونا چاہیے تھا، مگر ایسا نہ ہوسکا اور یوں جماعت اسلامی سیاسی فیصلوں اور زمینی حقائق کے بجائے جذباتی فیصلوں کے تابع ہوگئی. بنیادی طور پہ جماعت اسلامی کی سیاست کے دو ادوار ہیں. ایک مولانا مودودی کی امارت دوسرا ان کے بعد۔ میاں طفیل محمد مرحوم سے لیکر قاضی حسین احمد صاحب تک کا ابتدائی دور جماعت اسلامی کی اسٹیبلشمنٹ سے محبت و عقیدت کا دور تھا. اس زمانے میں قاضی صاحب کے زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں میں یہ بات عام تھی کہ پاکستانی فوج اگر نوجوانوں کی کسی تنظیم پہ سب سے زیادہ بھروسہ کرتی ہے تو وہ جمعیت ہے، البتہ مولانا مودودی کا دور اور ان کی سیاست اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہی. جنرل ایوب کے مقابل وہ فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے تھے. ذوالفقار علی بھٹو سول آمر تھے، ان کے اپوزیشن سے بدترین طرز عمل نے اپوزیشن کو یکجا ہونے اور تحریک چلانے پہ مجبور کیا. اپوزیشن میں صرف جماعت اسلامی ہی نہیں بلکہ جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان، تحریک استقلال اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر بھی اس کا حصہ تھے. اس تحریک کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا. پیش نظر رہے کہ جماعت اسلامی کے وزراء جلد ہی ضیاء کابینہ سے نکل آئے اور اسلامی جمعیت طلبہ جنرل ضیاء کے خلاف طلبہ تحریک کی سرخیل تھی. جمعیت کے ناظم اعلی سمیت کئی کارکن جیلوں میں گئے، کوڑے بھی کھائے. اس دوران قاضی صاحب امیر بنے. میری ناقص رائے کے مطابق اگر یہ منصب پروفیسر غفوراحمد کو ملتا تو جماعت اسلامی بہتر سیاسی فیصلے کرتی نہ کہ جذباتی، خیر جو ہونا تھا وہ ہوچکا ۔

    نواز شریف کے ابتدائی ادوار کیطرف پھر چلتے ہیں. 1990 میں قاضی صاحب نے پاسبان اور اسلامی فرنٹ کی صورت میں بہترین تجربہ کیا. بدقسمتی سے وقت سے پہلے اچانک انتخابات اور جماعت اسلامی کی شوری کی شدید ترین مخالفت سے یہ دونوں پراجیکٹ دم توڑ گئے، مگر جب تک پاسبان موجود رہی وہ کم گو اور شرمیلے عمران خان کی شوکت خانم کی فنڈنگ اور بڑے اجتماعات میں معاون بنی اور انھیں متعارف کراتی رہی. { اس کا یہ مطلب نہیں کہ سارا فنڈ پاسبان وغیرہ نے کرا کے دیا. خان کی اپنی شخصیت اور کرزمہ تو ابھی تک برقرار ہے، جس پہ فنڈ بھی ملتا ہے، لوگ بھی آتے ہیں، صرف یہ بتانا ہے کہ پاسبان منظم تھی تو نوجوانوں کو جمع کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی تھی } اس کے کچھ عرصے بعد قاضی حسین احمد عمران خان کو ہر جگہ ساتھ لیے پھرتے رھے یہاں تک کہ پنجاب یونیورسٹی کا حادثہ ہوا جس میں جمعیت نے عمران خان پہ تشدد کرکے پولیس کے حوالے کیا، اس کے باوجود عمران خان قاضی حسین احمد کو اپنا دوست قرار دیتے تھے. بعد میں سید منور حسن بھی عمران خان کے لیے قدرے نرم گوشہ رکھتے تھے. یہی وجہ تھی کہ جماعت اسلامی کے نوجوانوں میں عمران خان کو اپنا فطری اتحادی سمجھا جاتا تھا جو احتساب کے نعرے لگاتا، قبائلی علاقوں میں آپریشن اور پڑوس میں دہشت گردی کے نام پہ جنگ کا بہت بڑا مخالف تھا. عمران خان نے حالیہ پچیس برس میں جماعت اسلامی کے تین بنیادی نعرے اٹھا کر عوام میں پھیلا دیے، پہلا احتساب کا دوسرا ریاست مدینہ اور اب تیسرا امریکی مخالفت کا ، جماعت کی تیس برس کی سیاست انھی تین نعروں کے گرد ہے مگر اسے کامیابی نہ مل سکی اور عمران خان ان نعروں کو پاکستان کے ہر طبقے اور نسل کے لوگوں تک کامیابی سے پہنچا گئے اور اسی سبب جماعت اسلامی کے ہمدردوں نے خان میں کشش محسوس کی .

    اب مسئلہ جماعت اسلامی کا ہے. آیا اسی نام سے اور نشان سے بغیر کسی اتحاد میں جائے الیکشن لڑنا ہے جیسا کہ اب فیصلہ ہوا ہے، یا پھر نیا نام، نئی جماعت اور مختلف پلیٹ فارم سے اترنا ہے. جماعت اسلامی الیکشن کو جیتنے کے لیے نہیں بلکہ انتخاب برائے انتخاب لڑتی ہے. پھر پے درپے بائیکاٹ کی سیاست نے الگ سے نقصان پہنچایا. جماعت اسلامی رائج انتخابی سیاست اور اپنے نظریات یا دستور کے بیچ پھنس کر رہ گئی ہے. اپنے کڑے معیار کے سبب اس کے پاس وہ نمائندے نہیں جو اپنے بل پہ جیت سکیں، الیکشن میں بہایا جانے والا بے تحاشہ پیسہ جماعت اسلامی کی قیادت کے پاس نہیں، اس وجہ سے دیانت داری، اہلیت اور شرافت کے باوجود وہ اس میدان میں مسلسل مار کھا رہے ہیں. پھر میڈیا بلیک آوٹ الگ سے پہلو ہے ، اس کے باوجود میری نظر میں جماعت اسلامی کی ناکامی میں اپنی نااہلی کا بھرپور کردار ہے. دیگر اسلامی ممالک کی طرح پاکستان میں جماعت اسلامی کے اجتماعات دعوتی، رفاہی، اور سیاسی سرگرمیوں پہ کوئی پابندی نہیں رہی { کچھ مخصوص عرصے اور مشکلات کے سوا } ایسے میں مذکورہ بالا عوامل کے ساتھ اپنی خامیوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے.

    آخری بات آپ کا وہ نظریہ ہے جس کے ساتھ جماعت اسلامی کا کارکن جڑا ہوا ہے، دیکھیں آپ اپنی بہترین کوشش، حکمت عملی، غلطیوں کو نہ دہرانے، جذباتی فیصلوں سے گریز کرتے ہوئے انتخابی عمل میں اتریں، اس کے بعد ایک سیٹ ملے یا سو ، گھبرانا نہیں ہے، کیونکہ آپ کی سیاست کسی دنیاوی مفاد سے نہیں جڑی، بلکہ اس کا مقصد خدا کی حاکمیت کے قیام کا ارفع ترین کام ہے، اپنے نظریہ کی موجودگی میں کسی دوسری تنظیم ، شخصیت یا نظریہ سے متاثر نہیں ہونا چاہیے. اپنے ان لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوجائیں، جو کم ہیں، جو بلاشبہ خطاؤں سے پاک نہیں، جنھوں نے بڑی سیاسی غلطیاں بھی کیں، مگر یقین مانیے، یہ لوگ اب بھی میسر کھیپ میں بہرحال سب سے بہتر ہیں۔

    سراج الحق پہ تنقید ایک فیشن ہے { دوسری مدت کے لیے بھی سید منور حسن کو ہی امیر ہونا چاہیے تھا مگر شاید اراکین جماعت ان کا بوجھ نہیں سہار سکتے تھے } مگر سچی بات تو یہ ہے کہ اپنی کمی کوتاہی کے ساتھ سراج الحق تو درحقیقت چالیس برس کے غلط فیصلوں کے سبب سیاسی عمل سے غیر متعلق ہونے والی جماعت اسلامی کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں. ان کا ویژن ممکن ہے کہ بہت انقلابی نہ ہو، ان کی سادہ زندگی کو نمایاں کرنا مجھے بھی ذاتی طور پہ پسند نہیں اور خاص کر 2018 ءکے الیکشن میں ناکامی کے بعد وہ کوئی بہت بڑ انقلابی منصوبہ نہ پیش کرسکے، مگر یہ حقیقت ہے کہ گزرے برسوں میں جماعت اسلامی نے نہ صرف فوجی عدالتوں کی مخالفت کی بلکہ جنرل باجوہ کے ایکسٹینشن سے بھی دور رہی، { حالانکہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ و تحریک انصاف اس عمل میں ” تاریخ کی درست سمت ” ہی کھڑے تھے } اسی طرح سراج الحق کا ایک کریڈٹ جماعت اسلامی کو ” مقامی مسلمانوں” کے مسائل پہ بھی بات کرنے پہ آمادہ کرنا اور قیادت کو حوصلہ دینا شامل ہے. حافظ نعیم الرحمن ”حق دو کراچی کو” مہم منظم انداز سے تسلسل کے ساتھ کئی برس سے چلا رہے ہیں ، مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی بلوچستان میں تحریک و تحرک اس کا ایک اور واضح ثبوت ہے، اور پھر سینٹ میں مشتاق احمد خان کی کارکردگی، مسائل پہ گفتگو اور انھیں دستاویز کی صورت میں نمایاں کرنا سبھی کے سامنے ہے ، یہ اور ان جیسے تمام جماعت اسلامی کے ارکان اسمبلی کرپٹ ہیں نہ اخلاقی طور پہ مجرم، یہ سب عام افراد کی طرح میری آپ کی پہنچ میں ہیں. کراچی تین بار جماعت کو ملا تو اہلیت و شفافیت ثابت بھی ہوئی.

    جماعت اسلامی کو چاہیے کہ اپنی دعوت پہ ڈٹ کر بغیر کسی شرمندگی کے کھڑے ہوجائیں، جو سیاسی ذھن رکھتے ہیں انھیں بھرپور موقع دیں، آگے بڑھائیں تاکہ وہ دائیں بائیں دیکھنے کے بجائے آپ کے ساتھ جڑے رہیں، اور جو احباب عمران خان یا نواز شریف کی محبت میں گرفتار ہوچکے، انھیں حکمت سے سمجھا کر ساتھ ملائیں. غیر ضروری مباحث لوگوں کو مزید دور کردیں گے.

  • اٹھارہ ہزار مزدور بھی زندہ جل مریں تو؟ فیض اللہ خان

    اٹھارہ ہزار مزدور بھی زندہ جل مریں تو؟ فیض اللہ خان

    گڈانی میں جل کر کوئلہ ہوئے بدنصیب انسان مجھے بھی بھولے ہوئے تھے کہ اس دوران محمد فیصل خان کی درد سے لبریز کال موصول ہوئی جو شاید وہیں سے رپورٹنگ کر رہا تھا
    ”یار فیض بھائی! اس پر لکھو، یہ میڈیا تو عمران خان اور نواز شریف میں لگا ہوا ہے، انہیں کوئی احساس ہی نہیں کہ کتنا بڑا سانحہ ہوچکا۔“

    میں نے اس کی کال سنی اور سوچنے لگا کہ
    میڈیا کو کیوں احساس ہونے لگا؟
    سرکار کو کیا پڑی ہے؟
    اپوزیشن کا کب سے یہ مسئلہ قرار پایا؟
    اہل مذہب کے تو دکھ ہی اور ہیں، انہیں کیا پڑی عامیوں کے جھنجھٹ میں الجھنے کی؟
    سول سوسائٹی یا این جی او مافیا کو اس دھندے سے کیا لینا دینا، کون سے انہیں پیسے ملیں گے اس ایشو کو اچھالنے کے؟
    پھر ایسے میں کیڑے مکوڑے موافق انسانوں کے زندہ جلنے کا ہم کیوں سوگ منائیں؟
    آتش و آہن کے ذخیرے سے رزق نکالنے والوں سے بھلا ہمیں کیا غرض؟
    ٹی وی کی ترجیحات دیکھوں تو ایک غریب، میلے،گندے مزدور اور کالک لگے چہرے والے غلام انسان سے میرا کیا واسطہ؟

    دیکھ بھائی فیصل!
    یہ بیس کروڑ کی آبادی ہے اور دس بیس تو یونہی مرجاتے ہیں، کسی بس کے نیچے کام کرتے کرے ، کسی سرمایہ دار کی کثیر المنزلہ عمارت بناتے بناتے، شیشوں کی بنی لمبی بلڈنگ کی کھڑکیاں لٹک کر دھوتے دھوتے ۔
    بھیا فیصل!
    یہ مقدر ہے ان کا، ان کے مرنے اور کوریج نہ ہونے پہ دکھی ہونے کا بالکل بھی نہیں۔
    برادر فیصل! دیکھ، دکھ وہ ہوتا ہے جس سے یوسف رضاگیلانی یا سلمان تاثیر کی فیملی گزرتی ہے۔ یہ مزدور کب سے انسانوں کی فہرست میں شمار ہونے لگے؟

    اور ہاں فیصل خان!
    اب مجھے دنیا کے سب سے بڑے انسان کی یہ بات سنا کر جذباتی کرنے کی کوشش تو قطعی نہیں کرنا کہ ”مزدوری کرنے والا اللہ کا دوست ہوتا ہے“ یا پھر یہ کہ”پسینہ خشک ہونے سے قبل اجرت دو“۔
    سن جانی!
    اب یہ تحقیق کرکے میرا دماغ مت پیجیو کہ فلاں مزدور کے گھر میں یہ مسئلہ تھا۔
    فلاں کو یہ پریشانی تھی۔
    اس مزدور کے گھر میں شادی تھی۔
    اس کے علاج کا چکر تھا۔
    وہ والا اکلوتا تھا۔

    یہ والے پرابلمز ہر دوسرے گھر کے ہیں، اور یہ انگاروں کی طرح سوختہ لاشے خود ہی اس حالت کے ذمہ وار ہیں۔ ہمیں کیوں ٹینشن دے رہا ہے تُو؟
    اٹھارہ نہیں اٹھارہ ہزار مزدور بھی زندہ جل مریں تو بھی ہمیں، ہماری سرکار، اہل سیاست و صحافت سول سوسائٹی اور مذہبی لوگوں کو کیا فرق پڑتا ہے ؟

    فیصل بھائی!
    رزق خاک ہوئے اللہ کے دوستوں کے سود و زیاں کا کیا سوچنا؟ کیسے سوچنا اور کیوں سوچنا؟ اللہ کے باغی دے ہی کیا سکتے ہیں ان جھلسے اجسام کو؟
    سو مناسب یہی ہوگا کہ ہم اپنی زندگیوں میں مگن رہیں، عیاشی کریں اور مزدوروں کے ساتھ جو ہوا، مقدر کا لکھا مان کر ان کے نصیب کو سارا دوش دے ڈالیں۔
    یہی صحافت ہے، یہی عدالت ہے، یہی سیاست ہے.

  • کوئٹہ میں دہشت گردی اور عسکریت کا پیچیدہ کھیل – فیض اللہ خان

    کوئٹہ میں دہشت گردی اور عسکریت کا پیچیدہ کھیل – فیض اللہ خان

    پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر دہشت گرد حملے کو ناکام بنانا سیکیورٹی اداروں کی ذمہ واری ہے اس لیے کٹہرے میں پہلے وہ اور بعد میں سول ادارے آتے ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ صرف مار دھاڑ اور آپریشنز سے جہادیوں نے ختم ہونا ہوتا تو امریکہ انہیں ختم کرچکا ہوتا۔

    جہادیوں کی اصل طاقت وہ نظریہ ہے جو انہیں مذہب فراہم کرتا ہے، اسی وجہ سے انہیں ایسے لوگ بآسانی میسر آتے ہیں جو زندگی سے زیادہ موت سے محبت کرتے ہیں۔ مختلف آپریشنز اور پولیس مقابلوں کے دوران بسا اوقات جو بےگناہ مارے جاتے ہیں، اس کی وجہ سے ردعمل کے طور پہ دہشت گرد قرار دی گئی تنظیموں کو نیا خون ملتا رہتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بہت سے گروہوں کو مختلف ممالک ایک دوسرے کے خلاف بھی استعمال کرتے ہیں۔

    دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ، جو کہ اصلا اسلام کے خلاف ہے، میں ہونے والی ناانصافی نے ایک پوری ایسی نسل تیار کردی ہے جو عالمی و علاقائی سطح پر چھوٹے لیکن خوفناک حملوں کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس کا اظہار وقفے وقفے سے ہوتا رہتا ہے۔ صحیح بات تو یہ ہے جہادی آپس میں کارروائیوں کی شرعی تشریح کے حوالے سے بہت سے اختلافات کے باوجود ساتھ ہی رہتے ہیں، ان میں دشمنی کم کم ہی رہتی ہے، البتہ دولت اسلامیہ کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔

    کوئٹہ حملے میں لشکر جھنگوی العالمی کا نام سامنے آیا ہے، اور گروپ کے ترجمان نے دعوی کیا ہے کہ یہ حملہ دولت اسلامیہ کے اشتراک سے کیا گیا۔ دلچسپ امر یہ ہے لشکر جھنگوی اور دولت اسلامیہ نظریاتی اعتبار سے الگ ہیں لیکن یہاں ہدف کے حصول کے لیے وہ ایک پیج پر نظر آئے، پھر اہل تشیع کو دشمن سمجھنا دونوں کے درمیان مشترک مفاد ہے۔

    اس معاملے کا ایک قابل غور پہلو یہ ہے کہ لشکر جھنگوی العالمی کا ہیڈکوارٹر افغانستان میں ہے، اور تنظیم کا ماسٹر مائنڈ کابل سرکار کی پناہ میں نہیں بلکہ جنوبی افغانستان کے ان علاقوں میں موجود ہے جو نہ صرف پاکستانی سرحد سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ یہاں افغان طالبان کا اثر و رسوخ کافی زیادہ ہے، اور انہی علاقوں میں القاعدہ بھی موجود ہے۔ یعنی کہ افغان طالبان یہ سب جانتے ہوئے بھی خاموش ہیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ایسے گروپس کو پاکستان کے سیکیورٹی اداروں سے مذاکرات کے دوران اپنے معاملات کو درست کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ لشکر جھنگوی کی اعلی قیادت ملاعمر کے دور میں افغانستان میں موجود رہی اور اپنے تربیتی مراکز چلاتی رہی، حکومت پاکستان کے تمام مطالبات کے باوجود انہیں حوالے نہیں کیا گیا، یہی معاملہ لشکر جھنگوی العالمی کا لگتا ہے کہ افغان طالبان انہیں کارروائی بند کرنے کا تو کہہ سکتے ہیں لیکن حوالگی کا امکان نظر نہیں آتا، اس کے بدلے میں یقیناً وہ پاکستان سے اپنے کچھ مطالبات تسلیم کرانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ یہ بھی یاد رہے کہ گیارہ ستمبر کے بعد افغان طالبان نے اہل تشیع کو نشانہ بنانے سے گریز کیا ہے۔

    عسکریت ایک پیچیدہ کھیل ہے جس کا ہر کھلاڑی ہر چال حالات کے مطابق چلتا ہے۔ پاکستانی اداروں پر حملوں سے افغان و ہند سرکار کو اطمینان ملتا ہے اور بہت سے گروہ ایسے بھی ہیں جو پیسوں، نفرت اور ردعمل کے طور پہ ان کے آلہ کار بنتے ہیں، اس میں قوم پرست یا مذہبی عسکریت پسند کی تفریق نہیں۔
    سکیورٹی اداروں پہ تنقید اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کو کمزور کیا جاچکا ہے، اس کی حملوں کی صلاحیت میں ٹھیک ٹھاک کمی آچکی ہے، البتہ مکمل خاتمہ جب تک نہ ہو تب تک کمر توڑنے کے دعوے سے گریز بہتر ہے۔

  • میاں نوازشریف کا المیہ – فیض اللہ خان

    میاں نوازشریف کا المیہ – فیض اللہ خان

    میاں نوازشریف اور اتحادیوں کا المیہ یہ ہے وہ آتے ہی فوج سے پنگے شروع کردیتے ہیں اور یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ بجلی کی تاروں اور اسٹیبلشمنٹ کے کاموں میں انگلی کرنے کا انجام زوردار جھٹکے کی صورت میں نکلتا ہے. خیر سے میاں صیب اس میں خود کفیل ہیں ۔

    نصیب اچھے ہوں تو ہمیں اردگان جیسا مدبر ملتا جس نے اقتدار پر قبضہ کرنے میں مشہور طاقتور ترین فوج کو فقط کارکردگی کی بنیاد پر پیچھے کیا۔ عوامی طاقت اور رائے عامہ تب ساتھ ہوتی ہے جب آپ روٹی کپڑا مکان فراہم اور تھانہ کچہری، پولیس، تعلیم، روزگار اور صحت کے معاملات نمٹا چکے ہوتے ہیں ۔

    موٹی عقل والوں کو کون سمجھائے اور کیسے سمجھائے کہ اسٹیبلشمنٹ آپ کے بقول داخلہ، دفاع اور خارجہ میں ہی مرضی چاہتی ہے، باقی ملک اور وزارتیں آپ کی ہیں، کام کریں، کارکردگی دکھائیں اور عوامی اعتماد سے نہ صرف وہ تینوں وزارتیں عملا واپس لے لیں بلکہ طاقتور اداروں کو آئین کا پابند اور بیرکوں تک محدود کر دیں۔ ورنہ جو گھٹیا طریقے اختیار کر رہے ہیں، وہ آپ ہی کی گردن کا پھندا بنیں گے. ن لیگ کے شیروں میں کتنا دم خم ہے سب جانتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ ایک گلو بٹ بھی باہر نہیں نکلے گا، پہلے بھی نہیں نکلا تھا، اور میاں فیملی کی بادشاہت کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔ ایسا نہ ہو کل کو دانیال عزیز اور طلال چوھدری وغیرہ پھر سے کسی آمر کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر رہے ہوں اور آپ جدہ میں بیٹھے ان کے منہ کے ساتھ اپنی عقل کو تک رہے ہوں۔

    فیصلے جرات کے ساتھ ضرور کریں، مگر تدبر کا ہونا بہت ضروری ہے. اجلاس کی کارروائی میڈیا کو لیک کرنے سے وفاقی حکومت، میاں برادران اور ن لیگی قیادت کا اعتماد مجروح ہوا ہے، خبر کے درست یا صحیح ہونے کا معاملہ نہیں، بات اقدار کی ہے جسے پامال نہیں کرنا چاہیے تھا۔

    مقتدر اداروں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انہیں سویلینز پر اعتماد کی شرح کو بلند کرنا ہوگا، تلخیوں کے ساتھ گھر نہیں چل سکتے، ملک تو دور کی بات ہے، کروڑوں لوگوں کے نمائندے پر اعتماد کرنا پڑے گا، ان کی خامیوں کو اچھے انداز میں حل کرکے ملک کو صراط مستقیم پرگامزن کرنا بہت ضروری ہے، ورنہ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں مشکل فیصلوں نے ملک کو جہنم بنا دیا تھا۔

    اصولوں کی پاسداری سول و ملٹری تعلقات کو بہتر بنا سکتی ہے، میڈیا پر بیانات سے کسی کا بھلا نہیں جگ ہنسائی ہی ہو رہی ہے.