Author: بلاگز

  • یقین، قربانی اور محبت، پاکستان کی اصل روح –  سیدابداعلی شاہ

    یقین، قربانی اور محبت، پاکستان کی اصل روح – سیدابداعلی شاہ

    ملکِ پاکستان کا وجود محض ایک جغرافیائی حقیقت نہیں، بلکہ یہ کروڑوں دلوں کی دھڑکن اور لاکھوں شہیدوں کے خون سے لکھی گئی کہانی ہے۔ چودہ اگست کا دن اس قربانی، ایثار اور محبت کا دن ہے جو ہمارے آباؤ اجداد نے اس دھرتی کے لیے پیش کیا۔ یہی دن ہے جب ہر پاکستانی کے دل میں وطن کی محبت ایک نئے عزم اور ولولے کے ساتھ جاگ اٹھتی ہے۔

    اس سال بھی، ملک بھر کی طرح سوات میں جشنِ آزادی جوش و خروش سے منایا گیا۔ سکولوں میں بچوں کی معصوم مسکراہٹوں کے ساتھ سبز ہلالی پرچم لہراتا رہا، سرکاری اداروں میں قومی نغموں کی گونج سنائی دیتی رہی، اور بازاروں میں سبز و سفید رنگ کی بہار دکھائی دی۔ اس سال عوام کا جذبہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ نمایاں تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھے کہ حالیہ پاک بھارت جنگ معرکہ حق کی شاندار کامیابی پر لوگ پرجوش نظرارہے تھے ۔14اگست نےلوگوں کو یاد دلا دیا ہے کہ یہ آزادی کتنی قیمتی ہے، اور اس کی حفاظت کے لیے ہم سب کو متحد رہنا ہوگا۔

    یقیناً، عوام کو اپنے سسٹم، اداروں یا بعض افراد سے گلے شکوے ہو سکتے ہیں، اور یہ فطری بات ہے۔ لیکن یاد رکھیے! وطن سے محبت کسی شرط یا معاہدے کی محتاج نہیں۔ یہ ایک فطری اور غیر اختیاری جذبہ ہے، جو دل میں اللہ کی طرف سے ودیعت کیا گیا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے، اور ایمان والے کبھی اس محبت سے غافل نہیں ہو سکتے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اختلافات کو دشمن کی کمزوری نہ بننے دیں۔ تنقید ضرور کیجیے، لیکن ایسی جو اصلاح کا دروازہ کھولے، نہ کہ نفرت کا۔ اگر ماضی میں آنے والوں نے کوتاہیاں کی ہیں، اگر نظام میں نقائص موجود ہیں، تو محض شکایت پر اکتفا نہ کریں۔

    ہمت کیجیے، اٹھ کھڑے ہوں، اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ان نقائص کو دور کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ یہ ملک ہمارا ہے، اس کا مستقبل بھی ہمارے ہی ہاتھ میں ہے۔یاد رکھیے! پاکستان کے قیام کا مقصد محض ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنا نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی ریاست قائم کرنا تھا جہاں مسلمان اپنے دین کے مطابق آزادی سے زندگی گزار سکیں، اور دنیا کو عدل، مساوات اور بھائی چارے کا پیغام دے سکیں۔ بدقسمتی سے ہم نے کئی مواقع ضائع کر دیے، اور ہمارے اندرونی اختلافات نے ہمیں کمزور کیا۔ لیکن مایوسی کوئی حل نہیں۔ قومیں تبھی کامیاب ہوتی ہیں جب وہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھیں۔

    آج جب ہم چودہ اگست مناتے ہیں تو ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم اس ملک کو کیا دے رہے ہیں؟ کیا ہمارا کردار صرف جشن منانے، جھنڈیاں لگانے اور نغمے گانے تک محدود ہے؟ یا ہم واقعی اس ملک کے لیے کچھ کر رہے ہیں؟ اگر ہم ہر شخص اپنی ذمہ داری پوری کرے، اپنے دائرہ کار میں دیانت داری اور محنت سے کام کرے، تو کوئی طاقت پاکستان کو ترقی کی راہ سے ہٹا نہیں سکتی۔ہمارے بچے بہتر تعلیم کے حقدار ہیں، ہمارے بیمار بہتر علاج کے مستحق ہیں، اور ہماری غریب آبادی کو بہتر روزگار کی ضرورت ہے۔ یہ سب خواب تبھی حقیقت میں بدلیں گے جب ہم سب اپنے حصے کا چراغ جلائیں گے۔ یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ “کوئی اور” آ کر سب ٹھیک کر دے گا۔ پاکستان کو ٹھیک کرنے والا کوئی اور نہیں، بلکہ ہم خود ہیں۔

    یہ ملک ہمیں تحفے میں نہیں ملا۔ اس کے پیچھے لاکھوں شہیدوں کا خون، لاکھوں ماں بہنوں کی قربانیاں اور لاکھوں خاندانوں کا ہجرت کا دکھ ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنا گھر بار، کاروبار، زمینیں، حتیٰ کہ اپنی جانیں بھی قربان کر دیں، تاکہ آنے والی نسلیں آزاد فضا میں سانس لے سکیں۔ آج ہم انہی کی قربانیوں کا پھل کھا رہے ہیں۔ کیا یہ مناسب ہے کہ ہم اس امانت کی قدر نہ کریں؟آئیے، اس یومِ آزادی پر یہ عہد کریں کہ ہم اپنے ملک کے لیے نہ صرف جذباتی نعروں تک محدود رہیں گے بلکہ عملی طور پر بھی اپنا کردار ادا کریں گے۔ چاہے آپ ایک طالب علم ہیں، ایک تاجر، ایک استاد یا ایک سرکاری ملازم ۔ اپنے دائرہ کار میں بہترین کارکردگی دکھانا ہی سب سے بڑا حب الوطنی کا ثبوت ہے۔

    پاکستان زندہ باد کا نعرہ محض زبان سے نہیں بلکہ عمل سے بھی بلند ہونا چاہیے۔ اپنے ارد گرد صفائی رکھنا، ٹیکس ایمانداری سے ادا کرنا، دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا، جھوٹ سے بچنا اور دیانت داری سے کام کرنا ۔یہ سب وہ کام ہیں جو ملک کی بنیاد کو مضبوط کرتے ہیں۔آخر میں، ہمارا پیغام یہی ہے کہ پاکستان ہم سب کی مشترکہ امانت ہے۔ اختلافات اپنی جگہ، مگر یہ وطن ہماری پہچان ہے۔ اس کی عزت اور وقار کی حفاظت ہم سب پر فرض ہے۔ آئیے ہم سب مل کر عہد کریں کہ اپنی نسلوں کو ایک بہتر، خوشحال اور مضبوط پاکستان دے کر جائیں گے۔ یہی ہمارے شہیدوں اور قائدین کے خواب کی تکمیل ہوگی۔

  • حریت کی قربانیاں – جویریہ ریاض

    حریت کی قربانیاں – جویریہ ریاض

    آزادی ایک ایسی انمول نعمت ہے۔ جس کی قیمت الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی اور اس کی قدر وہی جانتا ہے جس نے غلامی کی زنجیروں کا بوجھ اٹھایا ہو اور اپنی سانسوں میں محکومی کا بوجھ محسوس کیا ہو۔ حریت کا سفر کبھی پھولوں کی سیج نہیں ہوتا، یہ کانٹوں سے بھری وہ دشوار گزار راہ ہے.

    جس پر چلنے والے اپنے لہو کے چراغ جلاتے ہیں تاکہ آنے والی نسلیں روشنی میں سانس لے سکیں۔ ہماری تاریخ ان عظیم قربانیوں سے منور ہے. جنہیں یاد کر کے دل فخر سے بلند ہو جاتا ہے اور آنکھیں عقیدت سے بھیگ جاتی ہیں۔ یہ قربانیاں محض زمین کے ٹکڑوں کے لیے نہیں تھیں بلکہ ایمان، عزت، غیرت اور آزادی کے مقدس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے دی گئیں۔ کسی نے اپنے گھر بار کو جلا کر قافلۂ آزادی میں قدم رکھا، کسی نے جوان بیٹے کا جنازہ اٹھایا مگر ہونٹوں پر شکر کے الفاظ رہے۔ کسی ماں نے بیٹے کو کفن میں لپٹا کر کہا:
    “بیٹا! تم نے اپنا وعدہ پورا کر دیا”.

    شہیدوں کے خون نے اس مٹی کو سرخ گلوں کی خوشبو عطا کی اور مجاہدوں کے عزم نے غلامی کی سیاہ رات کو چیر کر آزادی کا سویرا دکھایا۔ تاریخ گواہ ہے کہ حریت کا پرچم ہمیشہ ان ہی کے ہاتھ بلند رہتا ہے جو جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلتے ہیں۔

    [poetry]لہو سے جو چراغ جلے وہ کبھی نہیں بجھتے
    یہ قافلے شہیدوں کے ہیں جو رک نہیں سکتے[/poetry]

    آزادی کے متوالوں نے ہر دور میں قربانی کی ایسی مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔ ان کے قدموں کی دھول بھی ہمارے لیے امانت ہے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے لہو سے یہ خاک مقدس بنائی۔ وہ زخم کھا کر بھی مسکرائے، زنجیروں میں جکڑے جا کر بھی دعا دیتے رہے۔ ان کی پیشانیوں پر غلامی کا پسینہ نہیں بلکہ قربانی کا نور چمکتا تھا اور ان کی آنکھوں میں ایک ہی خواب تھا ، آزاد فضا میں جینے کا خواب۔

    [poetry] کوئی مٹی کو خون سے دھوتا ہے
    تب جا کے وطن آزاد ہوتا ہے[/poetry]

    آزادی کی قیمت محض الفاظ میں نہیں سمائی جا سکتی، یہ وہ قرض ہے جو ہم پر شہیدوں کا ہے۔ آج ہم جس آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں، یہ ان ماؤں کے آنسوؤں اور ان بہنوں کی قربانی کا نتیجہ ہے جنہوں نے اپنے سہاگ قربان کیے۔ یہ ان باپوں کا صبر ہے جنہوں نے لختِ جگر کھو کر بھی سر جھکنے نہ دیا۔ ان کی نیندیں، ان کا سکون اور ان کی زندگیاں سب کچھ قربان ہوا تاکہ ہم غلامی کے اندھیروں سے نکل کر آزادی کے سورج کی کرنوں میں نہا سکیں۔

    [poetry] وطن کی خیر ہو ہر دم، دعائیں ساتھ رہیں
    یہ زندگی بھی، یہ جاں بھی، سب کچھ نثار کریں[/poetry]

    اگر ہم واقعی ان قربانیوں کی لاج رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے کردار، اپنی امانت داری اور اپنے اتحاد کو مضبوط بنانا ہوگا۔ حریت کی بقا صرف میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ اخلاق، عدل اور بھائی چارے میں بھی ہے۔ جو قوم اپنی اقدار سے پیچھے ہٹ جائے، اس کی آزادی بھی دھندلا جاتی ہے اور شہیدوں کا خون ہم سے سوال کرنے لگتا ہے۔

    [poetry] لہو میں ڈوب کے لکھی ہے داستاں ہم نے
    وطن کی شان کو ہر دم جواں رکھا ہم نے[/poetry]

    آئیں ہم عہد کریں کہ اس آزادی کو کبھی ماند نہ ہونے دیں گے اور شہیدوں کی قربانیوں کا قرض ایمان داری، یکجہتی اور وطن سے محبت کے جذبے کے ساتھ چکائیں گے۔ کیونکہ حریت کا حقیقی حق وہی ادا کرتا ہے جو قربانی کے مفہوم کو دل سے سمجھتا ہو اور اسے اپنی زندگی کا مقصد بنا لے۔

  • آزادی کے 78 سال بعد ہم کہاں کھڑے ہیں؟ –  تہامی نور

    آزادی کے 78 سال بعد ہم کہاں کھڑے ہیں؟ – تہامی نور

    14 اگست 1947 ایک ایسا دن ہے جب پاکستان نے غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آزادی کی فضا میں سانس لی۔ یہ دن ہمیں صرف آزادی کی قدر ہی نہیں سکھاتا بلکہ اس بات کی بھی یاد دہانی کرواتا ہے کہ ہم نے اس ملک کو سنوارنے اور بہتر بنانے کا عہد کیا تھا ۔

    مگر آج ، یوم آزادی کے 78 سال بعد ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ ہم اس ملک کو آگے لے جانے کے لیے کس حد تک تیار ہیں ؟ خاص طور پر ہماری نوجوان نسل ۔ کیا وہ صرف کتابی تعلیم تک محدود ہے یا زندگی کی حقیقی مہارتوں میں بھی مہارت رکھتی ہے؟

    آج کی نوجوان نسل شدید تعلیمی دباؤ کا شکار ہے ۔ اسکول ، کوچنگ سینٹرز ، آن لائن کلاسز اور امتحانات کے گرد گھومتی ہوئی زندگی نے انہیں عملی زندگی کی مہارتوں سے دور کر دیا ہے ۔ ان کی ساری توانائی گریڈز ، جی پی اے اور اسائنمنٹس پر مرکوز ہے ، اور زندگی گزارنے کے بنیادی اصول ان کے لیے اجنبی بن چکے ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی نلکا خراب ہو جائے یا پنکھا بند ہو جائے تو فوراً پلمبر یا الیکٹریشن کو فون کیا جاتا ہے ۔ نئی نسل کا ہاتھ سے کوئی چھوٹا سا کام کرنا یا کسی مسئلے کا خود حل نکالنا ایک “غیر ضروری” مشقت سمجھا جاتا ہے ۔ یہ روش نہ صرف خود انحصاری کو ختم کرتی ہے بلکہ ذہنی پختگی کو بھی روکتی ہے ۔

    آج کا نوجوان ایک دن اکیلا نہیں گزار سکتا ۔ اگر انٹرنیٹ بند ہو جائے ، موبائل خراب ہو جائے یا کوئی چھوٹا مسئلہ بھی درپیش ہو ، تو وہ مایوسی اور پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے۔ وجہ ؟ انہیں بچپن سے مسائل کا سامنا کرنے کی تربیت ہی نہیں دی گئی ۔دیگر ممالک کی تربیتی صرف تعلیم نہیں ، کردار سازی کی مثالیں بھی ہیں۔ سب سے پہلے ، جاپان میں بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی صفائی ، وقت کی پابندی ، خاموشی سے سننے اور دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ وہاں اسکول میں بچے نہ صرف تعلیم حاصل کرتے ہیں بلکہ ہر

    دن اپنی کلاسز ، راہداریاں اور یہاں تک کہ اسکول کے واش رومز بھی خود صاف کرتے ہیں۔ جاپانی کلچر میں اجتماعی ذمہ داریوں کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جاپانی نوجوان نہ صرف پڑھائی میں اچھے ہوتے ہیں بلکہ اخلاقی طور پر بھی مضبوط کردار کے مالک ہوتے ہیں ۔دوسرا ، فن لینڈ میں بچوں کو سادہ اور فطری ماحول میں پرورش دی جاتی ہے۔ وہاں اسکول جانے کی عمر 7 سال سے شروع ہوتی ہے لیکن اس سے پہلے بچوں کو آزادی سے سوچنے، کھیلنے اور سوال کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔

    علاوہ ازیں ، جرمنی میں بچے بچپن سے ہی آزاد فیصلے لینے کی تربیت حاصل کرتے ہیں ۔ ان کے اسکولوں میں بچوں کو مختلف پیشہ ورانہ مہارتیں سکھائی جاتی ہیں جیسے لکڑی کا کام ، دھات کاری یا سلائی کڑھائی تاکہ اگر وہ اعلیٰ تعلیم کی طرف نہ بھی جائیں تو خود کفیل بن سکیں ۔ جرمن تعلیمی نظام تجربات کو تھیوری سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اسی طرح سنگا پور میں تعلیم اور تربیت کو یکساں اہمیت دی جاتی ہے۔ بچوں کو اسکول میں اخلاقیات ، باہمی احترام اور خود نظم وضبط سکھایا جاتا ہے ۔ وہاں اتحانات اور نتائج اہم ضرور ہیں ، لیکن ان کے ساتھ ساتھ بچوں کی شخصیت سازی پر بھی بھر پور توجہ دی جاتی ہے۔

    یوم آزادی کا اصل مقصد صرف جشن منانا نہیں بلکہ خود احتسابی بھی ہے۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو صرف تعلیمی کامیابیوں تک محدود نہیں رکھنا ، بلکہ انہیں زندگی کی بنیادی مہارتیں بھی سکھانی ہیں جیسے :

    . خود پر انحصار کرنا
    . مشکلات کا سامنا کرنا
    . صفائی اور نظم وضبط اپنانا
    . وقت کی پابندی
    . دوسروں کے ساتھ مل جل کر کام کرنا

    اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان واقعی ترقی کرے ، تو ہمیں نوجوانوں کو صرف ڈاکٹر، انجینئر یا آئی ٹی ماہر نہیں بنانا ، بلکہ ایک باعمل ، با اخلاق اور خود انحصار شہری بنانا ہوگا۔ اس یوم آزادی پر ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو کتابی علم کے ساتھ ساتھ زندگی کا علم بھی دیں گے، تاکہ وہ خود پر اور اپنی قوم پر فخر کر سکیں ۔

  • یوم آزادی نہیں جدو جہد آزادی  – عطیہ ظفر

    یوم آزادی نہیں جدو جہد آزادی – عطیہ ظفر

    آزادی ایک عظیم ترین نعمت ہے. ایک عام انسان کے لیے قدرت کا سب سے بڑا انعام ہے .آزادی صرف ایک لفظ نہیں بلکہ زندگی کا ایک افتخار ہے. 14 اگست کا دن پاکستانی قوم کی زندگی میں ایک عظیم نعمت کی یاد دلاتا ہے.

    کسے خبر نہیں کہ 1947 میں ہمارا ملک ہندوستان اور انگریزوں کے ناپاک چنگل سے آزاد ہوا اور یہاں کے بسنے والے سبھی رنگ و نسل کے لوگوں کو آزادی کی زندگی میسر آئی .آزادی انسان کا فطری جذبہ ہے، انسان صرف اپنے بنانے والے کے سوا کبھی کسی کی غلامی کو پسند نہیں کرتا .یہ انسانی زندگی کے مزاج کے خلاف ہے. پاکستان کا قیام محض ایک سیاسی فیصلہ یا جغرافیائی تبدیلی نہیں تھا بلکہ یہ ایک طویل اور دردناک جدوجہد کا نتیجہ تھا. ایسی جدوجہد جس میں لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانیں مال عزت اور گھر بار قربان کیے. یہ وطن ہمیں تحفے میں نہیں ملا بلکہ قربانیوں مظالم آنسوؤں اور دعاؤں کے خونی راستوں سے گزر کر حاصل ہوا.

    ہمارے بزرگوں نے یہ ملک اس لیے حاصل کیا تھا کہ وہ اسلام کے اصولوں کے مطابق ازادی سے اپنی زندگی گزار سکیں. قائد اعظم محمد علی جنا علامہ اقبال اور تحریک آزادی کے ہزاروں بے نام ہیروز کی جدوجہد نے اس خواب کو حقیقت میں بدلا .لیکن اج جب ہم ازادی کا دن مناتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم نے ان قربانیوں کا حق ادا کیا؟ایسے موقع میں عوام میں بہت جو ش و خروش دیکھنے کو ملتا ہے. لیکن ہمارے دل ہیں کہ غم سے بھرے پڑے ہیں . ہمارے دلوں پر افسردگی چھائی ہے ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم خوشیاں منائیں یا اس قانون پر جس کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، اس پر قائم رہیں.

    حقیقی جمہوریت کو قائم اور مستحکم کرنے کی فکر و سعی کرنی چائی.ے جب تک ایسا نہیں ہوتا ،ان چند رسمی تقریبات کا منعقد کر لینا کچھ کاریگر ثابت نہیں ہو سکتا .14 اگست کی تقاریب اور اجلاس بڑے ہی دھوم دھام سے منائے جاتے ہیں. شہید فوجیوں کو خراج تحسین پیش کیے جاتے ہیں. صدر مملکت کی تقاریب میں شرکت ہوتی ہے، اس کے علاوہ ملک بھر میں ہر ریاست اور ضلع یہاں تک کہ چھوٹے بڑے سکول اور مدارس میں بھی تقاریر منعقد کی جاتی ہیں. ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کا مطلب لا الہ الا اللہ صرف نعرہ نہیں بلکہ ایک نظریہ تھا.

    ایک ایسا نظام جہاں انصاف مساوات اور بھائی چارہ ہو .ہمیں اس نظریے کو صرف تقریروں اور پوسٹرز میں نہیں بلکہ اپنے کردار میں زندہ کرنا ہے. ہمارا وطن پاکستان بہت خوبصورت ہے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان مختلف ثقافتوں زبانوں وسائل اور روایات سے مالا مال ہے. ہمارے چار بڑے صوبے ہیں پنجاب سندھ خیبر پختون خوا اور بلوچستان، سب اپنی اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں. مگر بدقسمتی سے ہر صوبہ مختلف مسائل کا شکار ہے. صوبہ بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے مگر سب سے کم ترقی یافتہ صوبہ ہے. یہاں تعلیم صحت اور روزگاری کا بہت فقدان ہے ہر صوبے کے مسائل مختلف ہیں.

    مگر حل ایک ہی ہے. قومی یکجہتی منصفانہ وسائل کی تقسیم سنجیدہ حکومتی حکمت عملی ہمیں بحیثیت قوم سوچنا ہوگا کہ نہ صرف ایک صوبے کی حیثیت سے بلکہ پاکستان کے تمام حصے ترقی کریں گے. تو ملک ترقی کرے گا پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے مگر اس کی ابادی کی بہت بڑی تعداد ابھی بھی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے. پچھلے کئی سالوں میں اشیائے خوراک کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے بھی مزید لاکھوں افراد غربت کے قریب ہو گئے .پاکستان کے معاشی مسائل کا حل یہی ہے کہ سیاسی رہنماؤں کو پاکستان کے تمام مسائل سے نپٹنے کے لیے اس عہد و پیماں کو پورا کرنا ہوگا جو ہم نے قیام پاکستان کے وقت اللہ سے کیا تھا.

    پاکستان کی معاشی مسائل کی کنجی ہمارے حکمرانوں اور سیاسی اشرافیہ کے ہاتھ میں ہے. انہیں اپنی ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنا ہوگا. اگر ہمارے حکمران ملک کو معاشی بدحالی سے نجات دلانے کی کوشش نہیں کریں گے. ملک ایک معاشی بحران سے دوسرے بحران میں پھنستا چلا جائے گا .یہاں قائدا اعظم کا ایک فرمان بیان کرتی چلوں ، قائدا اعظم رحمہ اللہ جب بستر مرگ پر تھے تو انہوں نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا :

    “تم جانتے ہو جب مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے تو میری روح کو خوشی اور اطمینان ہوتا ہے .یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا اس سے کبھی نہیں کر سکتا تھا. میرا ایمان ہے کہ یہ رسول صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا .اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ سے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں تاکہ اللہ پاک اپنا وعدہ پورا کرے مسلمانوں کو پوری زمین میں بادشاہیت ملے.”

    مولانا اسرار احمد صاحب اس وقت ان کے ساتھ تھے وہ کہتے ہیں کہ میں حیران تھا کہ اس وقت یہ حدیث ان کے ذہن میں تھی(اتنی بیماری کی حالت میں) حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت ثوبان سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت سے قبل پوری دنیا میں اسلام کا نظام قائم ہوگا (صیحیح مسلم). یوم آزادی سوچنے جاگنے اور کچھ کر گزرنے کا دن ہے .ہمیں اپنی اصلاح کر کے قوم کی بہتری کے لیے عملی قدم اٹھانا ہوں گے تاکہ آئندہ نسلوں کو ایک روشن پر امن اور مضبوط پاکستان ملے. الہی ہمیں اپنے وطن کی خدمت کا جزبہ دے. ہمارے دلوں کو پاک کر دے اور ہماری نیتوں کو خالص بنا دے. اور پاکستان کو ہمیشہ قائم دائم رکھے. آمین.

  • وطن پر خوشی کیسے ؟ – ثاقب علی

    وطن پر خوشی کیسے ؟ – ثاقب علی

    14 اگست ہم جشن آزادی مناتے ہیں مگر کیوں ؟

    کس بات پر خوشی؟ ویسے تو ہر انسان کا خوشی یا غمی کا معیار الگ اور منفرد ہوتا ہے، ہمارے ایک دوست ہیں، جب بھی سردیاں گزر جاتی ہیں اور بہار کے موسم کا آغاز ہونے جاتا ہے تو وہ قدرے افسردہ نظر آتے ہیں ، ایک مرتبہ ہم نے اس سے اس افسردگی کے بارے پوچھا تو کہنے لگا: بھائی لوگ بہار کو دیکھ کر فضول میں خوش ہورہے ہیں، مجھے تو خزاں کا موسم اچھا لگتا ہے.

    کیوں بھائی؟ کہنے لگا ، بہار گرمیوں کی ابتدا ہے، اور گرمی ہمارے لیے بہت پریشان کن موسم ہے، مجھےبہار کی دھوپ میں گرمی کی تپش محسوس ہوتی ہے ، اس لئے مجھے خزاں اچھا لگتا ہے ۔ خیر وطن عزیز میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں، جن کے لئے الگ وطن ہمارے دوست والا “بہار” ہی ہوگا، لیکن ہمارے لیے تو “بہار” ہی خوشی ہے۔ اور وطن ہی ” بہار” ہے۔ لیکن سوال وہی ہے کہ وطن پر خوشی کیسے ؟ اور یہ بہار کیسے ؟

    میں اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے قدرت اللہ شہاب کی ایک حکایت کی تلخیص پیش کرہاہوں جس سے معلوم ہوگا کہ یہ وطن ہمارے لئے کن مشکلات سے نجات کا ذریعہ بنا۔ ریاست جموں و کشمیر کے مہاراجہ پرتاب سنگھ ، جسکا ایک مرتبہ شہاب صاحب زیارت کر چکے تھے، ان کے ذاتی اخراجات تو صیغہ راز میں رکھے جاتے تھے لیکن اس میں ایک مد کا نام “ٹٹی پن” کہلاتا تھا۔ قضاے حاجت سے فارغ ہونے کے بعد تین ملازم مہاراجہ کو طہارت کرانے کیلیے مقرر تھے، دو ملازم چبھیس کی ململ کے ایک پورے تھان کو کھول کر اس کے دونوں سرے پکڑ کر ایک برآمدے میں کھڑے ہو جاتے تھے.

    درمیان میں ایک خاص بناوٹ کی چوکی کا سہارا لیکر مہاراجہ صاحب ململ کے تھان پر مناسب آسن جما کر جھک جاتے تھے اور تیسرا ملازم چاندی کی گڑوی سے صحیح مقام پر پانی انڈیلتا تھا، اور دوسرے دونوں ملازم آرا کشوں کی طرح تھان آگے پیچھے کھینچ کر مہاراجہ کی صفائی کردیتے تھے۔ پھر وہ تھان تینوں ملازموں کو دان کردیا جاتا تھا۔
    (شہاب نامہ ،صفحہ 387)

    کم از کم اس جیسے واقعات کو سن کر یہ خوشی ضرور ہوتی ہے کہ اس طرز کی تابعداری اور صفائی کا اہتمام کرنے سے اس وطن نے ہمیں بچا لیا ہے ۔ یہ شوق صرف مہاراجہ صاحب کا نہیں ہندوستان کے وائسرائے اور انگریز افسروں کا بھی ہوتا ہوگا، اور لوگ اس کو اپنے لئے باعث اعزاز بھی سمجھتے ہوں گے ۔ ایک آزاد ملک کے رعایا کے طور پر اس قسم کے تجربات سے ہم نے آزادی پالی ہیں، اس پر شکریہ ادا کرنا چاہیے ۔

    عزت کے حال معلوم ہونے کے بعد جانی احترام کی حالت انگریز دور میں معلوم کرنی ہو، اس کیلئے بھی شہاب صاحب سے سننا چاھیے ، موصوف ایک جگہ لکھتے ہیں، اور یہ اس زمانے کا واقعہ ہے جب بنگال میں قحط آیا تھا، سیلاب کے بعد اشیاء خوردونوش ناپید ہوچکے تھے، لوگ بھوک اور فاقوں سے مر رہے تھے، ایک جگہ ایک شخص بھوک سے نڈھال موت کا انتظار کرتے ہوئے اپنی جھونپڑی کے سامنے پڑا تھا، اس کے آنکھوں میں ایسے آنسو تھے جس طرح پگلا ہوا موم بتی ہو، وہ اپنے جھونپڑی کے سامنے اکیلا پڑا تھا.

    اس وقت فرینڈز ایمبولینس یونٹ کی ایک امدادی ٹیم وہاں پہنچ چکی تھی، خشک خوراک، ملک پاوڈر، گلوکوز کے ڈبے ، بسکٹوں کے پیکٹ اور وٹامن کی گولیاں جیپ میں پڑی تھی، جو ایک درخت کے سایہ میں کھڑی تھی، مسٹر رچرڈ سائمنڈ کالا چشمہ پہنے گھٹنوں کے بل اس طرح دم سادھے بیٹھا تھا جیسا مچھلی کا شکاری کھنڈی لگا کر خاموشی اختیار کرلیتا ہے ،ایک ناریل کے درخت کے سایہ میں مس بینکرٹ بھی جھونپڑی کی طرف ٹکٹکی باندھ کر بیٹھی تھی، جھونپڑی کے قریب ان کا تیسرا ساتھی کیمروں سے کھٹا کھٹ تصویریں کھینچنے میں مصروف تھا۔

    اور وہ شخص بے حس و حرکت پڑا تھا۔ ابھی مرا نہیں تھا، ایک گیدڑ اس کی ایڑی میں دانت گاڑے کچر کچر منہ ماررہا تھا، پڑے ہوئے شخص کی پاؤں میں اتنی سکت نہیں رہی تھی کہ وہ اپنے پاؤں گیدڑ سے کھینچ لے ۔ یہ ایسا نایاب منظر تھا جو امریکی فوٹوگرافر کے لیے کہیں اور ملنا مشکل تھا، اس لئے جب میری جیپ کی آواز سن کر وہ گیدڑ بھاگ گیا تو فرینڈز ایمبولینس یونٹ کی امدادی ٹیم نے بہت برا منایا، اور دیر تک آپس میں زیر لب بڑبڑاتے رہے۔
    (شہاب نامہ ، 231)

    یہ تھی انگریزوں کی نظر میں ہماری اوقات ۔ اگر اس قسم کے عذاب سے ہمیں نجات ملی ہے تو آزادی کی وجہ سے۔ ہمیں یہ وطن اسلئے عزیز ہے کہ اس قسم کے تجربوں سے محفوظ ہو چکے ہیں۔

  • مستقبل کی تعمیر کرنے والے سنجیدہ مزاج لوگ کہاں ہیں؟ –  اسامہ سعدی

    مستقبل کی تعمیر کرنے والے سنجیدہ مزاج لوگ کہاں ہیں؟ – اسامہ سعدی

    قوموں کی تعمیر گہری سوچ بچار، واضح اہداف اور انتہائی مستقل مزاجی سے کیا جانے والا کام ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سطحی مزاج کی بدولت معاملات کو اوپری سطح سے دیکھنے اور قلیل المیعاد کام کرنے کا رواج ہے۔ اولاً تو کوئی اجتماعی اصلاح کے کام کی طرف کم ہی متوجہ ہوتا ہے۔

    اور جو تھوڑے بہت آتے ہیں، وہ زیادہ تر جزوقتی اصلاح پہ ہی کام کرتے رہتے ہیں. اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی بحری جہاز ڈوب رہا ہو ۔ اور اس کے ملاحوں میں سے کچھ خیر خواہ اس کے کچھ سوراخوں کو بند کرنے کی کوشش میں لگے رہیں۔ اس کام کا جو بلآخر نتیجہ ہونا ہے، وہ ظاہر ہی ہے۔ اس سعی سے زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہےکہ ڈوبتا جہاز بس کچھ دیر مزید سطح آب پہ رہ جائے۔ کسی بھی قوم کے مستقبل کا انحصار اس کے سماج کی مجموعی کیفیت پر ہوتا ہے۔ اگر سماج میں صالحیت، صلاحیت، خدا خوفی، علم، تحقیق اور مثبت اقدار کا مجموعی غلبہ ہے تو لازمی طور پہ اس سماج کو چلانے والے اداروں میں ان ہی اوصاف کے حامل لوگ جائیں گے۔ اور سماج کی مجموعی صورت حال بدتر ہے تو اس سماج کے اداروں میں بدتر لوگ ہی موجود ہوں گے۔

    ہماری سیاسی قیادت، آرمی و اسٹیبلشمنٹ، ججز، اساتذہ، تاجر ، صحافی و دیگر تمام ادارے ہمارے ہی سماج کے افراد چلا رہے ہیں۔ اب کوئی ایسا شارٹ کٹ نہیں ہے کہ بالائی سطح بھی کوئی ایک آدھ قدم اٹھا کہ سب کو یکلخت ٹھیک کر لیا جائے. اس ضمن میں حالیہ تبدیلی تجربہ سمیت 75 سالہ تاریخ سے سبق حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اہل فکر ایک نکتہ بیان کرتے ہیں کہ سسٹم اپنی اصل میں بے روح ہوتا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ بے رنگ پانی کی طرح یہ وہی شکل اختیار کرتا ہے، جیسے اس کے چلانے والے افراد و رجالِ کار ہوتے ہیں۔ کیا ہم سنجیدگی سے سوچ سکتے ہیں کہ عشروں سے یہ قوم جس گول دائرے میں گھوم رہی ہے اس کی مستقل بہتری کے لیے کن کن خطوط پہ کام کرنے کی ضرورت ہے؟

    معاشرے کے سوچنے والے دماغوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ حالات کی نبض پہ ہاتھ رکھ کر ماضی کے تجربہ، حال کے مشاہدے اور مستقبل کے اندازے کے مطابق درست لائحہ عمل اور راستے تجویز کرتے ہیں۔ پھر کچھ کر گزرنے والوں میں ایسے بھی ہوتے ہیں ،جو اس رہنمائی کے مطابق کر گزرتے ہیں۔عملی راستے تلاش کر جاتے ہیں۔ اس ضمن میں کچھ اس طرح کے کام کیے جا سکتے ہیں ،جو متوقع طور پر درست نتائج کی طرف سفر ممکن بنا سکتے ہیں:

    1. سب سے پہلی ذمہ داری سماج کے دماغ کی ہے، وہ اس معاملے کو اپنی اولین ترجیح میں شامل کرے۔ اور غیر جانب دار ہو کر، اخلاص کے ساتھ اس کام کے بارے میں سوچ و فکر کو اپنی پہلی ترجیح میں لائے۔

    2. کوئی غل غپاڑہ نہیں، سطحی مقبولیت نہیں، ڈوبتے جہاز کے چند سوراخ بند کرنے کی کوشش نہیں بلکہ تمام چیزوں کو broad picture میں دیکھ کر ،حالات کا درست تجزیہ کر کے قوم کے لیے کچھ قابلِ عمل اور موثر راستے تجویز کرنا۔

    3. اس پچیدہ سماجی و عالمی نظام میں ایک فرد انفرادی طور پہ کچھ بڑا کام نہیں کر سکتا۔ یاد رکھیے دو چار کیسز کو مجموعی اصول نہیں بنایا جاتا، یہ دور اداروں کا دور ہے۔ ایسے ادارے بنانے اور مضبوط کرنے کی ضرورت ہے جو اپنے دائرہ کار میں مستقل اور موثر کام کر سکیں اور صدیوں تک کرتے رہیں۔

    4. سماج کے مجموعی شعور کی بلندی کے لیے مربوط کوشش کی جائے۔

    5. تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے، جس کے ذمہ سماج نے ذمہ داری ہی یہ لگائی ہے کہ قوم کی نسل کی تعمیر کرتا رہے، اس لیے شعبہ تعلیم کو ترجیح بنا کر اس میں ایسے اقدام کیے جائیں جو ہمارا مطلوب سماج و معاشرہ تیار کرنے کا سر انجام دیتا رہے۔

    6. یہ کچھ ابتدائی نوعیت کے خیالات ہیں۔ آپ بھی سوچیے، اپنے لیے کوئی راستہ تلاش و متعین کیجیے۔ اور پھر تا دمِ آخر اس کے حصول کے لیے جدو جہد کرتے رہیے۔ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔

  • یومِ آزادی اور قوم کی اصلاح کا پیغام – عزیر رحمانی

    یومِ آزادی اور قوم کی اصلاح کا پیغام – عزیر رحمانی

    14 اگست کا دن ہر سال ہمیں ایک عظیم قربانی، جدوجہد اور خواب کی یاد دلاتا ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری آزادی کوئی معمولی نعمت نہیں، بلکہ یہ ہزاروں جانوں کی قربانی، لاکھوں دعاؤں اور ناقابلِ تصور قرب و آلام کے بعد حاصل ہوئی ہے۔

    مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے بحیثیتِ قوم اس آزادی کی قدر کی؟
    کیا ہم نے اس ملک کو ویسا بنایا جیسا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور جس کے لیے قائداعظم محمد علی جناح نے دن رات محنت کی؟
    آج ہمیں جشنِ آزادی مناتے ہوئے چند لمحے رک کر سوچنا ہوگا کہ ہماری قوم کو کن خرابیوں نے جکڑ رکھا ہے۔ جھوٹ، کرپشن، اقرباء پروری، فرقہ واریت، ناانصافی، اور اخلاقی انحطاط ہمارے معاشرے کے ناسور بن چکے ہیں۔ آزادی کا مطلب صرف بیرونی غلامی سے نجات نہیں بلکہ اندرونی اصلاح بھی ہے۔ اگر ہم آزاد ہو کر بھی اخلاقی زوال کا شکار ہیں تو یہ آزادی ہمیں مکمل ثمر نہیں دے سکتی۔

    قوموں کی ترقی کا راز ان کی سچائی، محنت، دیانت اور اتحاد میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ ہمیں آج یہ عہد کرنا ہوگا کہ:
    ہم اپنی ذمہ داریاں پہچانیں گے۔ ہم سچ بولیں گے، چاہے اس کا انجام کتنا ہی کٹھن کیوں نہ ہو۔ ہم قانون کا احترام کریں گے، خواہ ہم عام شہری ہوں یا صاحبِ اقتدار۔ ہم تعلیم کو اپنی اولین ترجیح بنائیں گے۔ ہم فرقہ واریت اور تعصب سے بالاتر ہو کر ایک پاکستانی بنیں گے۔

    یاد رکھیں!
    جو قومیں اپنی اصلاح نہیں کرتیں، وقت ان کی اصلاح تاریخ کے کچرے دان میں دفن کر دیتا ہے۔ آج یومِ آزادی پر ہمیں چراغ جلانے اور جھنڈیاں لگانے کے ساتھ ساتھ اپنے دل میں بھی ایک چراغ جلانا ہوگا — سچائی، انصاف، اور خلوص کا چراغ۔ہمیں پاکستان سے محبت ہے، اور محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اسے بہتر بنائیں، صرف تنقید نہ کریں بلکہ عملی طور پر مثبت تبدیلی کا آغاز خود سے کریں۔ یہی اصل جشنِ آزادی ہے، یہی اصل حب الوطنی ہے۔اللہ تعالیٰ ہمارے وطن کو سلامت رکھے، اور ہمیں ایک سچی، دیانتدار اور باوقار قوم بننے کی توفیق دے۔ آمین۔

  • کہانی لکھتے ہوئے داستاں سناتے ہوئے –  نگہت سلطانہ

    کہانی لکھتے ہوئے داستاں سناتے ہوئے – نگہت سلطانہ

    سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ضدی کہوں، نا سمجھ کہوں، نادان کہوں کیا نام دوں تمہیں آخر کہ ایک ہی رٹ ہے تمہاری کہ تمہیں وہ کہانی سننی ہے جس میں کسی حسین وادی کا تذکرہ ہو بہتے جھرنے مست ہوا مخمور فضا کی باتیں ہوں۔ تمھاری فرمائش ہے کہ تمھیں کسی جھیل کنارے پہنچنا ہے دونوں طرف بلند و بالا پہاڑ تمہیں اپنے سحر میں جکڑ لیں۔

    اڑتی تتلیاں،زلفوں کے بادل، حسن کے نظارے، عشق کی باتیں، پرندوں کے غول دور تک پھیلا سبزہ. ارے بھئی یہ کہانیاں سنتے سنتے جوان ہو گئے۔ آو آج وہ کہانیاں سنو جو تم سے دور بحیرہ روم کے کنارے پچھلے دو سالوں سے جنم لے رہی ہیں کہانیوں کے ہر کردار نے روم کے پانی کا رنگ تبدیل کر دیا۔پانی میں خون کی آمیزش کرنے والا ہاتھ بڑا ظالم ہے سفاک ہے عالمی غنڈا ہے۔غزہ کے مردان خدا مست سے تو شکست کھاتا ہے ہر بار۔ اور پھر غصہ نکالتا ہے معصوم بچوں پہ نہتے عوام پہ۔

    جانتے ہو ؟
    تمہیں حسن و عشق کی داستانوں میں الجھائے رکھنے کی خواہش مند ساری قوتیں اس غنڈے کی پشت پر ہیں۔ یہ پہلی کہانی ایک چھوٹی سی بچی کی ہے یوسف شرف(غزہ) نے سنائی ہے۔ ،،آج جب میں شارع وحدت پر چل رہا تھا ایک نوخیز لڑکی کو زمین پر گرتے دیکھا ایسا لگا جیسے زندگی اس کے زرد چہرے کو چھوڑ چکی ہو اس کی ماں بے قراری سے اس کے پاس دوڑی آئی ٹوٹے ہوئے حوصلے کے ساتھ اس کے منہ پر پانی چھڑکنے لگی ہجوم کے بیچ ایک عورت نے اپنی جیب سے ایک ٹافی نکالی ٹافی کیا تھی قحط کے دنوں میں چھپا ہوا بڑا خزانہ۔

    ایک اور کہانی سنو ننھی بچی مکہ الغرابلی کی بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہو کر اس دنیا سے رخصت ہو جانے کی کہانی۔ سنو اس کے بعد فاقہ کشی سے جان دینے والوں کی تعداد 154 ہو گئی تھی جن میں 90 بچے شامل تھے۔آہ! یہ اگلی کہانی بھی ایک بچے کی ہے غزہ کے ایک ہسپتال میں یہ زخمی بچہ بغیر بستر کے لوہے کے بیڈ پہ لیٹا ہے تکلیف اور بے بسی اس کے چہرے سے عیاں ہے۔ اور کہانی ہو اگر ڈاکٹر غانم العطار جیسے انتہائی معزز فرد کی تو نگاہیں خود بخود عقیدت سے جھک جاتی ہیں۔

    انھیں غزہ کی گلیوں میں پانی کی بوتلیں اٹھائے دوڑتا دیکھ کر دل کی عجیب کیفیت ہوئ ہو گی تمھاری بھی۔تو سنو یہ انتہائی قابل ، پختہ ایمان اور ثابت قدم شخص کیا کہتا ہے. ظلم اور مشکل حالات کے باوجود ہم اپنے پیارےوطن کی سر زمین پر ثابت قدم رہیں گے۔ خدا کی قسم اگر پورا غزہ ختم بھی ہو جائے اور صرف ایک بچہ اور ایک بچی باقی رہ جائیں تو وہ بڑے ہوں گے شادی کریں گے اور غزہ کو دوبارہ آباد کریں گے اور ہم صرف اللہ ہی کے سامنے سر جھکائیں گے۔ تمہاری پیاری مسجد دنیا کی تیسری مقدس ترین مسجد وہ مسجد کہ جہاں سے رہبر انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی شب اپنی فلائٹ لی تھی.

    اس مسجد میں بھی ہر دوسرے تیسرے دن بد تہذیبی اور بے شرمی ایک کہانی کا عنوان بنتی ہے۔ یہودی یہاں تلمودی رسومات ادا کرتے ہیں۔ گانے گاتےہیں ناچتے ہیں کودتے ہیں اور پتہ ہے؟ شرق تا غرب مسلمان حکمرانوں کی صحت پہ کوئی فرق نہیں پڑتا وہ اپنے اپنے محلوں میں اپنی اپنی کرسی پہ اپنے اپنے ملک میں کسی ،بڑے ،کی خوشنودی کی خاطر ان کہانیوں سے غافل ہیں وہ نہیں سننا چاہتے یہ کہانیاں۔ یہ کہانیاں تمہیں سننی ہیں اور یہ کیا؟؟ اشکوں کی جھڑی لگ گئی تمھاری پلکوں کے نیچے۔ نہیں، ہمت ہے تو تھام لو قلم ۔انھی اشکوں کو روشنائی بناو جذبے کو لفظوں میں ڈھالو۔ اک کہانی تم بھی لکھو۔

    غزہ کے ہر بچے تک خوراک پہچا دینے کی کہانی۔
    مسجد کو ناپاک قدموں سے پاک کردینے کی کہانی۔
    معززین معاشرہ کو رسوائیوں سے بچا لینے کی کہانی۔
    حاکم وقت کی بے حسی کو احساس میں بدل دینے کی کہانی۔

  • نئے لکھاری اور تحریری مواد کا حصول کدھر سے؟ – ماریہ بتول

    نئے لکھاری اور تحریری مواد کا حصول کدھر سے؟ – ماریہ بتول

    سوچنا اور لکھنا ایک تخلیقی صلاحیت ہے ۔یہ صلاحیت اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو دی گئی ہے اور اشرف المخلوقات ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے ۔ایک لکھاری اپنے خیالات کا اظہار صرف اور صرف اپنی تحریروں سے کر سکتا ہے اور خیالات کو وسیع کرنے کیلئے ایک لکھاری مختلف جامع اور واضح ذرائع سے مواد حاصل کرتا ہے ۔

    میں ماریہ بتول بطور ایک نئی لکھاری قارئین کو ان تمام اہم ذرائع کے بارے میں بتا سکتی ہوں جن سے ایک بہترین تحریر کیلئے مواد حاصل کیا جاسکتا ہے ۔وہ تمام اہم اور عمومی ذرائع (معلومات) مندرجہ ذیل ہیں ۔

    عمومی ذرائع اور معلومات اچھی تحریر کیلئے مواد:
    اچھی کتابیں: تحقیقاتی کتب،نصابی کتب،سوانح عمری اور ادبیات وافسانے۔
    نئے لکھاری کیلئے کتب خیالات کی وسعت کیلئے بہترین ذریعہ ہیں ۔اس سے زبان وبیان بہتر ہوگا ۔اسلوب و اظہارِ کا سلیقہ آئے گا ۔
    اخبارات ورسائل: تازہ ترین خبریں ،کالم،اداریے اور تبصرے ۔نئے لکھاری یہاں سے تحریری اسلوب اور حالات حاضرہ پر گرفت حاصل کرسکتے ہیں ۔کالم اور اداریئے ایک نئے لکھاری کو سوچنے ،تجزیہ کرنے اور مؤقف قائم کرنے کی تربیت کرتے ہیں ۔

    انٹرنیٹ: بلاگز ،تحقیقی ویب سائٹس ،آن لائن لائبریریاں جیسے Wikipedia, google scholar, JSTOR, Archive.org.
    جبکہ اُردو مواد کیلئے اردو پوائنٹ ،دلیل،ریختہ اور ڈان۔ریختہ (rekhta.org)اردو شاعری ،افسانے اور کلاسیکی ادب کا خزانہ سمجھا جاتا ہے ۔
    یوٹیوب اور پوڈ کاسٹ: انٹرویوز ،لیکچرز،ادبی گفتگو ۔اگر کوئی موضوع سن کر یا دیکھ کر بہتر سمجھ آتا ہے تو یہ بہترین ذریعہ ہے ۔تحقیق،ادب اور تخلیق سے متعلق ویڈیوز سن کر بصیرت حاصل کی جاسکتی ہے ۔

    سوشل میڈیا پلیٹ فارمز: ٹوئٹر ،فیس بک گروپس،واٹس ایپ گروپس ،لنکڈن۔یہ تمام زرائع لکھاری برادری سے رابطے اور رجحانات کا اندازہ لگانے کیلئے مفید ہیں ۔
    لائبریریاں: مقامی یا ڈیجیٹل ۔پرانے اخبارات ،تحقیقی مواد،اردو ادب کے نایاب نسخے ۔کامیاب لکھاریوں کے تجربات، مشاہدات اور حکمت عملیاں جانچنے کے لیے نئے لکھاری کو لایبریری ضرور جانا چاہیے ۔

    مختصراً مندرجہ بالا تحریری (عمومی) ذرائع سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہر نئے لکھاری کا اندازہ بیان ،دلچسپی،جزبات،احساسات ، اس کی سوچ کی وسعت اور پیمانہ اس کی تحریر میں موجود ہوتا ہے ۔مخصوص تحریر کو لکھنے کے لیے مثال کے طور پر افسانہ،کالم،شاعری،تحقیق اور بلاگ لکھاری مخصوص زرائع ہی ڈھونڈھتا ہے ۔

  • بیٹی،  معاشرے کا وہ ستارا جسے اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے – سیدہ لاریب کاظمی

    بیٹی، معاشرے کا وہ ستارا جسے اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے – سیدہ لاریب کاظمی

    معاشرے میں ماں اور بیٹی کا رشتہ محبت، قربانی اور وفا کی سب سے خوبصورت مثال ہے۔ مگر افسوس، یہی معاشرہ جب بیٹی کے حقوق کی بات آتی ہے تو اکثر جانب داری کا شکار ہو جاتا ہے۔ ماں کی گود میں پلنے والی بیٹی جب بڑی ہوتی ہے تو اسے وہ مقام، وہ عزت، وہ حقوق نہیں ملتے جو ایک بیٹے کو باآسانی مل جاتے ہیں۔

    کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ جس بیٹی نے ماں کی تمام توقعات پر پورا اترا، جس نے ہر مشکل میں گھر کی عزت بچائی، جس نے والدین کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی، آخر اُسے معاشرے میں وہ مقام کیوں نہیں ملتا جو اُس کا حق ہے؟ ہمارا معاشرہ بیٹی کو پیدائش سے پہلے ہی “مہمان” سمجھ لیتا ہے۔ اسے گھر کی زینت تو کہا جاتا ہے مگر وراثت میں حصہ دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ اس کی تعلیم پر خرچ کرنا فضول سمجھا جاتا ہے کیونکہ “پڑھ لکھ کر پرایا گھر جانا ہے”۔ شادی کے بعد تو گویا اس کا تعلق اپنے گھر سے ہی ختم ہو جاتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بیٹیاں ہی ہیں جو والدین کے بڑھاپے کا سہارا بنتی ہیں۔ وہی ہیں جو رشتوں کو جوڑے رکھتی ہیں۔ وہی ہیں جو گھر کی رونق ہوتی ہیں۔ پھر کیوں ہم انہیں وہ مقام نہیں دیتے جو ان کا حق ہے؟

    وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے رویوں کو بدلیں۔ بیٹی کو بوجھ نہیں، رحمت سمجھیں۔ اس کی تعلیم پر توجہ دیں، اس کے حقوق پورے کریں، اور اسے وہ مقام دیں جو اُس کی محنت، قربانی اور محبت کا حق دار ہے۔ کیونکہ جس معاشرے میں بیٹیوں کو ان کا حق ملے گا، وہی معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔