Author: اعظم علی

  • سیاست و زبان دونوں ہی بے لگام – اعظم علی

    سیاست و زبان دونوں ہی بے لگام – اعظم علی

    ستاون سال قبل9 اگست 1965 کو اس وقت کی ملائشین حکومت نے گھر کی روٹی میں برابر کا حصہ مانگنے پر لات مار کر اس ”نکھٹو“ بیٹے کو نکالا تھا کہ حصہ دینا پڑتا ہے لیکن کُبڑے کو لات راس آگئی۔

    آج ملائشیا کی حالت کرپشن ،بے ایمانی و اقربا پروری کی وجہ سے غیر ہے، ملائشیا کے خزانے سے پانچ ارب امریکی ڈالر چوری ہوئے جس کا کھُرا نہ صرف اس وقت کے وزیراعظم ملائشیا نجیب عبدالرزاق تک پہنچا بلکہ اس کے سوئز اکاؤنٹ میں خطیر رقم بھی برآمد ہوئی، اس کے علاوہ مال غنیمت کی تقسیم پر ایک مشکوک قتل جس میں وزیراعظم کی سیکیورٹی کے دو اہلکاروں کو سزائے موت بھی سُنائی گئی، ان میں سے ایک آسٹریلیا فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن سیاسی اشرافیہ کا کچھ نہ بگڑ سکا. ملائشیا کی کرنسی بھی سنگاپور کے مقابلے میں ایک تہائی سے کم ہے۔ بلکہ روزانہ لاکھوں ملائشین بسوں، کاروں و موٹر سائیکلوں پر کاروبار و ملازمتوں کے لیے سنگاپور آتے ہیں اور شام کو ملائشیا گھر چلے جاتے ہیں۔

    اور وہ ”نکھٹو“ بیٹا جو خالی ہاتھ گھر سے نکلا تھا دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے۔ بلکہ زندگی ہر شعبے میں ملائشیا سے کئی گُنا آگے نکل چَکا ہے۔ یہ پچاس لاکھ افراد پر مشتمل چھوٹا سا ملک کرپشن سے پاک، امن و امان کے لحاظ سے جنت، بہترین تعلیم ( لوگ یہاں کے تعلیمی نظام میں طلبہ پر دباؤ کی شدت کے شکایت ضرور کرتے ہیں)۔ لیکن یہ بھی حقیقت کہ یہاں پر سڑک پر کام کرنے والا خاکروب ہو یا وزیراعظم کی اولاد ( سوائے بیرون ملک سے آنے والی اشرافیہ یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اعلی افسران کے اولاد کے) سب ہی سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

    اس کے محفوظ خزانے میں کم از کم نصف کھرب ڈالر جمع ہیں۔اور تقریباً 88 فیصد آبادی اپنے گھروں کی مالک ہے، ہر نوجوان جوڑا شادی سے پہلے ہی سرکاری گھروں کی درخواست کرتا ہے اور چند سالوں میں اسے بنا بنایا فلیٹ مل جاتا ہے جس کی ادائیگی بیس پچیس سال میں آسان اقساط میں دینی ہوتی ہے۔ یہی معاملہ صحت کا ہے۔ آج بھی ملائشیا ہو یا انڈونیشیا و تھائی لینڈ یقیناً ان ممالک میں بھی اچھے اسپتال ہوں گےلیکن ان کی اشرافیہ اپنے علاج کے لئے سنگاپور کا رُخ کرتی ہے۔

    گزشتہ روز سابق وزیراعظم مہاتیر محمد کو اچانک ہی تاریخ یاد آگئی کہ سنگاپور ملائی سلطنت کا حصہ تھا اور ہمیں واپس لینا ہوگا، یہ بات گھر سے نکالتے ہوئے 1965 میں یاد نہیں آئی اور اب پُرانی ملّائی سلطنت کے احیاء کا چورن بیچنے کی کوشش کی جاری ہے۔ اصل میں بات اتنی ہے جب گھر میں دانے کم پڑ جاتے ہے تو ایسے ہی ہذیان بکنے کا جی چاہتا ہے۔ وہ تو شُکر ہے کہ وہ سابق وزیراعظم ہے اور حاضر وزیراعظم ہوتا تو اس بیان یا بکواس کے بعد شاید ہم بھی پڑوس کے ”بھارت“ سے مقابلے کے لئے تیاری میں سارے وسائل خرچ کررہے ہوتے۔

    یہ بھی ممکن ہے کہ مہاتیر محمد اگلے انتخابات کے لئے قوم کو نیا چورن فروخت کرنے کی کوشش کررہے ہیں. ان کے سنگاپور کے خلاف منفی جذبات مخفی نہیں تھے لیکن اپنے طویل دور اقتدار میں انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی اور اقتدار سے باہر آکر اس قسم کی باتیں گھٹیا سیاست سے زیادہ کچھ نہیں لگتی لیکن مجھے یقین کے اس بیان و تقریر نے سنگاپور کےمتعلقہ حلقوں میں سُرخ بتیاں جلنے لگی ہوں گی ۔یقیناً ملائشیا ایک بڑا ملک ہے، اور سنگاپور انتہائی مختصر۔اسی طرح طاقت کا توازن ۔ ملائشیا کے پاس نسبتا بڑی فوج لیکن ہتھیاروں و ساز وسامان کے لحاظ سے کمتر ہے، کتنی بھی طاقتور فوج اور سازو سامان سے لیس ہو جنگوں میں سائز کی اہمیت رہتی ہی ہے۔

    یقیناً سنگاپور کی مختصر زمین اور نسبتا گنجان آبادی دشمن کے لئے آسان نشانے ہیں۔ اللہ نہ کرے کہ ایسا وقت آئے لیکن اسی دن کے لئے سنگاپور نے لازمی فوجی سروس کا قانون بنایا ہے جس کے تحت اصل فوج تو مختصر ہی رکھی گئی ہے۔ یہاں کا ہر نوجوان تعلیم مکمل کرنے سے ہی 18 سال کی عمر میں (عموماً بارہویں جماعت کے بعد ) پہلے وطن کی حفاظت کے لئے تیاری کرنے فوج یاکسی بھی ادارے جہاں بھیجا جائے میں جاتا ہے، دوسالہ مدت مکمل کرنے کے بعد دوبارہ اپنی تعلیم میں مشغول ہو جاتا ہے۔

    یہ نوجوان عموماً فوج ،پولیس، یا ریسکیو (سول ڈیفینس) کے اداروں میں اپنی جسمانی صحت و آپریشن ضروریات کے تحت بھیجے جاتے ہیں اور 40 (کمیشنڈ افسران 45سال کی عمر تک ) سال میں کم از کم پندرہ دن سے ایک ماہ اپنی ملازمتوں و کاروبار چھوڑ کر اپنی متعلقہ فورس میں اپنی صلاحیتوں کو تازہ رکھنے و بڑھانے کے لئے لازمی طور جانا پڑتا ہے۔اس دوران ان کی آپریشنل تیاری کا امتحان لینے کے لئے وقتا فوقتا چند گھنٹوں کے نوٹس پر طلبی اور سالانہ جسمانی چُستگی کا امتحان جس کے تحت ساڑھے بارہ منٹ میں 2400 میٹر دوڑ، اور ایک منٹ میں مخصوص تعداد میں پُش اپ اور پُل اپ کرنا لازم ہے۔

    ملائشیا کی فوجی اہلیت بہت کمزور ہے۔ انتہا یہ ہے کہ ملائشین ائرلائن کا جہاز جو چند سالوں قبل غایب ہوا تھا اس کا ٹرانسپونڈر بند کرکے واپس ملائشین فضاؤں سے گذرتا ہوا کہیں غائب ہوا ۔۔ اور ملائشین ائیرفورس سوتی ہئ رہ گئی۔
    یقیناً اس کا امکان نہیں ہے کہ ملائشیا حملہ کرنا چاہے۔ لیکن یہ خدشہ ہمیشہ پالیسی سازوں کو رہتا ہے۔اس قسم کے بیانات بالخصوص سابق وزیراعظم کی جانب سے نو سسٹم کا حصہ ہی نہیں بلکہ سسٹم کو بنانے والوں میں شامل تھا۔ بہت بڑی شر انگیزی ہے۔اور کوئی ہلکا نہیں لے سکتا۔

    دوسری بات یادرکھی جائے کہ سنگاپور کی لائف لائن ملائشیا کی ریاست جوھور سے پائپ کے ذریعے آنے والا پانی ہے۔ ملائشیا اس پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرسکتا ہے۔اور ریاست سنگاپور کے بانی لی کوان یو نے اپنی کتاب میں لکھا تھا ۔ کہ پانی کی بندش اعلان جنگ تصور کی جائے گی۔حالانکہ اس کے باوجود سنگاپور نے اپنے آبی وسائل و ذخیرہ کرنے کی صلاحیت پر بھرپور توجہ دی ہے۔بارش کے پانی سے لیکر گٹروں کے فاضل پانی کو بھی ضائع کرنے سے بچایا جاتا ہے۔لیکن پھر بھی ۔۔۔۔ تیاری پوری رہے۔

    ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ 80 فیصد آبادی سرکاری تیار شدہ فلیٹوں میں رہتی ہے۔ اب جتنے بھی نئے فلیٹ سرکار تیار کررہی ہیں ان میں ہر فلیٹ میں ایک چھوٹا سا کمرہ بطور بم شیلٹر ہے یعنی اس کی ساخت ایسی رکھی گئی ہے کہ بمباری کی صورت میں نقصان نہ پہنچے۔اس کے علاوہ پورے ملک میں زمین دوز ریلوے کا نیٹ ورک بھی اسی ہوائی حملے سے پناہ گاہوں کے سلسلے کی کڑی ہے۔اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ ریاست سنگاپور حالت امن میں مستقل ممکنہ جنگ کی تیاریوں میں مشغول رہی کہ،

    ہے جُرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

    اللہ نہ کرے کہ وہ وقت آئے کہ سنگاپور و ملائشیا دوبدو ہوں، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ جنگی و توسیع پسندانہ عزائم نہ ہونے کے باوجود سنگاپور کبھی اپنے دفاع سے غافل نہیں رہا۔ اگر کوئی سنگاپور کی خوشحالی کی وجہ سے رال ٹپکا رہا ہے تو اسے یاد دلانا چاہتا ہوں کہ مہاترے محمد صدام حسین نہیں ہے اور نہ سنگاپور کویت ہے۔ اپنا اور اپنے وطن دفاع ہمارا حق ہے،اگر ایسا ہوا تو میں اور میری اولاد وطن پر قربان ۔ اور سنگاپور بھی میرا اتنا ہی وطن ہے جتنا پاکستان۔

  • گھٹنے کے جوڑوں کے درد کا متبادل علاج  کے لئے سنگاپور کے  مریضوں کا سفر ِملائشیا –  اعظم علی

    گھٹنے کے جوڑوں کے درد کا متبادل علاج کے لئے سنگاپور کے مریضوں کا سفر ِملائشیا – اعظم علی

    گزشتہ سال جونی لام کے گھٹنوں کے اسکین سے سامنے آیا کہ اسکے جوڑوں کو خاصا نقصان پہنچ چُکا ہے تو اس نے علاج کی تلاش شروع کردی ۔ اٹھاون سالہ جونی لام کئی سالوں سے دونوں گھٹنوں کی سوجن اور درد کو برداشت کررہا تھا۔ لیکن اب اس کے لیے ناقابل برداشت ہو گیا تو اس کا چلنا پھرنا اور روزمرہ کئی زندگی بھی مشکل ہوتی جارہی تھی۔

    گھٹنوں کا جوڑ کے درمیانی گودا جو گھٹنوں کی ہڈیوں اور جوڑوں کے درمیان جھٹکے برداشت کرنے والے گدّے shock-absorbing cushion کے طور پر کام کرتا ہے ۔ جب یہ گودا خشک ہو جاتا ہے تو ہڈیاں و جوڑ کی رگڑ کے نتیجے میں گھٹنوں کے درد و سوجن پیدا ہوتی ہے ۔

    سنگاپور کے اسپتال کے ڈاکٹر نے اس بتایا کہ اس کا واحد راستہ دونوں گھٹنوں کی مکمل تبدیلی ہے لیکن چونکہ اس سرجری کے بعد نئے بنے ہوئے گھنٹوں کی اوسط زندگی پندرہ بیس سال ہوتی ہے ان کی نسبتا کم عمر کو دیکھتے ہوئے مشورہ دیا کہ جتنا ممکن ہو اس سرجری میں تاخیر کی جائے تاکہ (پندرہ بیس سال )کے بعد دوبارہ سرجری سے احتراز کیا جاسکے۔
    لیکن وہ مزید انتظار نہیں کرنا چاہتے کہ ان کا چلنا پھرنا بلکہ کھڑا ہونا بھی تکلیف دہ ہو گیاتھا۔ وہ فکر مند تھے کہ ابھی 58 سال کی عمر میں حالت اتنی بُری ہے تو ستر سال کی عمر میں کیا حال ہوگا ۔ اُنہوں نے کہا.

    بے تابی سے متبادل علاج کی تلاش میں ان کے سامنے ایک ملائشیا کی کمپنی جو سٹیم سیل (خلیہ بنیادی) تھراپی کی خدمات پیش کررہی تھی آئی ۔ اس کمپنی (انٹرنیشنل کینسر تھراپی اینڈ اسٹیم سیل ٹیکنالوجی ) کی ویب سائٹ کے مطابق یہ مقامی مصدّقہ لیبارٹریوں و ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر مقامی و غیر ملکی مریضوں کا اسٹیم سیل (خلیہ بنیادی) کے ذریعے علاج کراتی ہے۔

    انکا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر وہ شکوک و شبہات کا شکار تھے، وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ کتنے قابل اعتماد ہیں؟ اور اسٹیم سیل کے نام پر ان کے اندر کیا ڈالنے والے ہیں لیکن مزید معلومات و تحقیق کے بعد وہ کچھ حدتک پُر اعتماد ہو گئے اور خطرہ مول لینے پر تیار ہو گئے ۔گزشتہ سال جولائی میں وہ کوالالمپور کے ایک نجی شفاخانے میں اپنے دنوں گھٹنوں میں سٹیم سیل (خلیہ بنیادی) تھراپی کے لئے داخل ہو گئے ۔ اس علاج میں عطیہ شدہ نوزائیدہ بچے کی نال umbilical cord سے حاصل شدہ اسٹیم سیل (خلیہ بنیادی) کو harvesting کے ذریعے بویا بعد میں ایک مصدقہ لیبارٹری میں انہیں کلچر کرنا شامل ہے ۔

    (اسٹیم سیل (خلیہ بنیادی) اس قسم کے خلیات ہوتے ہیں جو ممکنہ طور پر جسم کے بعض اعضاء کی مرمت کرنے میں استعمال ہو سکتے ہیں جو ادویات سے ممکن نہیں لیکن یہ اب تک مصدقہ ٹیکنالوجی نہیں ہے اس پر تحقیقات جاری ہے۔ بعض ممالک میں بچے کی پیدائش کے فوری بعد اس کی نال یعنی umbilical cord سے انہیں نکال کر محفوظ رکھا جاتا کہ تاکہ مستقبل میں کسی بیماری کی صورت میں بیرون معطی کی بجائے بچے کے اپنے اسٹیم سیل کو استعمال کیا جاسکے تاکہ جسم میں مزاحمت کے امکانات کو ختم کیا جاسکے)

    تیار شدہ اسٹیم سیل کو ناکارہ گھٹنوں کے خشک ہونے والے گودے کے مقام پر انجیکشن کے زریعے داخل کیا جاتا ہے جہاں سے وہ نئے خلیات کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔یہاں پر جونی لام کو کچھ مشکل وقت گذارنا پڑا لیکن آخر کار کامیابی ہوئی ۔ انجیکشن لگانے کے چند گھنٹوں بعد ان کے گھٹنے سوجنے لگے جو کہ انتہائی تکلیف دہ تھا ۔ یہ درد تین چار دن تک رہا پھر سوجن ختم ہو گئی اور ان کا بایاں گھٹنا بالکل ٹھیک ہو گیا لیکن ان کے دائیں گھٹنے میں درد باقی رہا ۔ اس کے لئے چند ماہ کے بعد وہ دائیں گھٹنے میں اسٹیم سیل (خلیہ بنیادی) کا انجیکشن لگوانے کے لئے دوبارہ ملائشیا گئے ۔ اس مرتبہ (نجیکشن کے بعد) درد و سوجن ایک ہفتہ باقی رہی لیکن اس کے بعد سے وہ بالکل صحتیاب ہو گئے ۔

    میرے دونوں گھٹنے بالکل ٹھیک ہیں ۔ اب بھی ناچ، بھاگ بلکہ چھلانگیں بھی لگا سکتے ہیں ان کا اس علاج کا خرچ تقریباً سات ہزار امریکی ڈالر ہوا ۔ (انہوں نے بتایا)

    سنگاپور میں منظور شدہ نہیں ہے
    جونی لام واحد سنگاپوری شھری نہیں ہیں جو گھٹنوں کے اسٹیم سیل (خلیہ بنیادی) کے علاج کے لیے سرحد پار کرکے ملائشیا گئے ، چونکہ یہ طریقہ علاج سنگاپور میں منظور شدہ نہیں ہے اس لئے بعض مریض ملائشیا میں اس طریقہ علاج سے فائدہ اُٹھانے کے لیے سفر کرتے ہیں ۔(ملائشیا و سنگاپور کے درمیان زمینی سرحد ہے اور وہاں بس و کار و موٹر سائیکل کے ذریعے باآسانی جایا جاسکتا ہے)

    وہ مریض بھی جو گھٹنوں کے علاج کے لیے روایتی گھٹنوں کے تبدیلی یا مائیکروفریکچر سرجری جس میں گھٹنوں کے جوڑوں میں باریک سوراخ کے ذریعے نئے خلیات پیدا کرنے کی کوشش کے طریقہ علاج سے ہچکچا رہے ہیں (اس لئے اسٹیم سیل (خلیہ بنیادی) علاج کے لئے ملائشیا میں قسم آزمائی کا جوّا کھیلنے پر تیار ہو رہےہیں)۔ کوالالمپور اسپورٹس میڈیکل سینٹر نے اپنے 2007 کے افتتاح سے اب تک ایک ہزار سے زائد گھنٹوں کے اسٹیم سیل پروسیجر کر چکا ہے نے بتایا کہ ان کے پاس سالانہ اوسطا ایک سنگاپور کا مریض آتا ہے۔ سنگاپوری شھریوں کے پاس اپنے وطن میں بہت اعلیٰ معیار کی صحت کی سہولیات دستیاب ہیں اس لئے وہ ہمارے پاس اسی صورت میں آتے ہیں جب وہ انتہائی مجبور ہو جائیں ۔ کوالالمپور اسپورٹس میڈیکل کے ایک ہڈیوں کے ماہر سر جن نے بتایا۔

    اسی طرح انٹرنیشنل کینسر تھراپی اینڈ اسٹیم سیل ٹیکنالوجی کے ڈاکٹر لِم نے بتایا کہ گذشتہ سال سے ان کے پاس سنگاپور کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے. چینل نیوز ایشیا نے اب تک چار مریضوں سے گفتگو کی ہے جو گھٹنوں کے اس علاج کے لیے ملائشیا گئے تمام افراد کا کہنا ہے کہ انہیں اس علاج سے فائدہ ہوا ہے۔ تہتر سالہ ٹونگ پینگ چیونگ نے بتایا کہ انہوں نے 2014 میں اپنے دائیں گھٹنے اور 2020 میں بائیں گھٹنے میں ملایشیا کے کوالالمپور اسپورٹس میڈیکل سینٹر میں یہ علاج کرایا اور دونوں گھٹنوں میں علاج کے بعد درد میں افاقہ ہوا۔

    جونی لام کے برعکس جنہوں نے عطیہ شدہ اسٹیم سیل (خلیہ بنیادی) استعمال کئے تھے، ٹونگ پینگ چیونگ کے لئے ان کے اپنے جسم سے اسٹیم سیل (خلیہ بنیادی) نکال کر لیبارٹری میں اُگا کر ان کے گھٹنوں میں انجیکشن کے ذریعے لگائے گئے۔ اس وقت مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ (طریقہ علاج) کام کرے گا یا نہیں لیکن چونکہ گھٹنوں کی تبدیلی کے آپریشن سے اجتناب کرنا چاہتا تھا اس لئے میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا، میں ڈاکٹر کو کہنا چاہتا تھا کہ اگر یہ علاج ناکام بھی ہوا تب بھی مجھے اس سے کوئی شکایت نہیں ہوگی ۔

    ایک اور سنگاپوری مریض جو اپنا نام لی بتاتے ہیں نے بتایا کہ وہ 2014 میں اپنے بائیں گھٹنے کے اس علاج کے بعد بلا تکلیف کے چلنے پھر نے کے قابل ہو گیا تھا۔انہں ان کے سنگاپور کے ڈاکٹر نے اس طریقہ علاج کے بارے میں بتایا ہے۔ ان کے ڈاکٹر نے بتایا کہ یہ طریقہ علاج سنگاپور میں منظور شدہ نہیں ہے لیکن وہ اس معاملے میں تجربہ کار ملائشیا کے ڈاکٹر سے متعارف کرا سکتے ہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ علاج کے بعد ان کا گھٹنا بتدریج بہتر ہوگیا ۔۔ اب بھی کبھار ہی درد ہوتا ہے۔

    ان چاروں مریضوں (جو ملائشیا میں یہ علاج کرا چُکے ہیں) اور کوالالمپور اسپورٹس میڈیکل سینٹر کا کہنا ہے کہ ملائشیا میں یہ علاج کے اخراجات مرض کی پیچیدگی کے مطابق تیس ہزار سے ایک لاکھ بیس ہزار ملائشیا رنگیت (انیس لاکھ سے پچھتر لاکھ روپے) کے درمیان ہوتے ہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کیا مریض کو اسٹیم سیل کے انجیکشن سے قبل کسی اور سرجری کی ضرورت ہو گی یا اضافی انجیکشنوں کی ضرورت پیش آئے گی۔

    سنگاپور کی وزارت صحت اس سلسلے میں سوال کے جواب میں بتایا کہ وہ گھٹنوں کے علاج کے لیے اسٹیم سیل (خلیہ بنیادی) کے استعمال کے معاملے کا جائزہ لے چُکے ہیں لیکن اب تک ( فوائد کے بارے) میں اب تک تواتر کے ساتھ شھادتیں نہیں مل پائیں ہیں کہ اسے باقائدہ علاج کی شکل میں اختیار کیا جاسکے ۔ سنگاپور کے نیشنل یونیورسٹی اسپتال نے 2022 میں 392 مریضوں کے 440 گھٹنوں کے علاج پر اسٹیم سیل کے استعمال کے نتائج پر تحقیق کی ۔ جس کے نتائج کے مطابق اسٹیم سیل علاج کے دوسالوں بعد تک 80 فیصد مریضوں میں کامیاب رہا، 72 فیصد مریضوں کو دس سال تک مزید کسی علاج کی ضرورت پیش نہیں آئی اور نہ درد ہوا ۔

    یہاں اس علاج کے لیے مریض کی کمر کے نچلے حصے سے سٹیم سیل حاصل کرکے انہیں لیبارٹری میں اُگایا جاتا ہے، پھر تیار شدہ خلیے گھٹنوں کے نقصان شدہ cartilage میں انجیکشن کے ذریعے ڈھال دئیے جاتے ہیں تاکہ وہ خود بخود نئے خلیوں کی صورت اختیار کرسکیں۔ نیشنل یونیورسٹی اسپتال کے پروفیس جیمس ہوئی جنہوں نے اس تحقیق کی قیادت کی تھی کا کہنا ہے کہ انہیں سنگاپور کی وزارت صحت نے تحقیقی مقصد کے اسٹیم سیل بنانا اور استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔

    پروفیسر ہوئی جو نیشنل یونیورسٹی اسپتال کے آرتھوپیڈک سرجری کے شعبے کے سربراہ ہیں نے بتایا کہ فی الحال یہ علاج پچپن سال کی عمر تک کے مریضوں کی حدتک کے لئے کیا جارہا ہے لیکن اگر کوئی جسمانی طور پر بہت زیادہ چست و صحتمند ہو اس کے لئے خصوصی طور پر عمر کی حد بڑہائی جاسکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نیشنل یونیورسٹی اسپتال میں گھٹنوں کے کارٹلیج کے علاج کے اخراجات بارہ ہزار سنگاپور ڈالر سے پندرہ ہزار ڈالر کے درمیان ہیں (چوبیس سے تیس لاکھ پاکستانی روپے)۔

    نیشنل یونیورسٹی اسپتال کے بارے میں راقم کی ذاتی مشاہدات

    (سنگاپور جنرل ہاسپٹل اور نیشنل یونیورسٹی اسپتال سنگاپور کے سرکاری شعبوں کے دو اعلی ترین اسپتالوں میں سے ہیں۔ لیکن نیشنل یونیورسٹی اسپتال ایک ٹیچنگ اسپتال ہے جہاں سنگاپور کے اعلیٰ ترین ماہرین خدمات انجام دیتے ہیں ۔ راقم الحروف کا یہاں پر متعدد مرتبہ واسطہ پڑا ہے۔ یہاں پر دلچسپ بات یہ دیکھی گئی ہے۔ کہ اگر مریض ممکنہ خطرناک صورتحال کا شکار ہو تو اس کے علاج کا فیصلہ کسی واحد کنسلٹینٹس کی بجائے مختلف شعبوں کے ماہرین کا پینل بحث مباحثے کےبعد علاج کا بہترین لائحۂ عمل تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے)

    یہی کچھ تیس سال قبل میرے والد مرحوم کی کینسر کی بیماری کے دوران گیا تھا۔۔ یہی کچھ گذشتہ سال میرے بیٹی کی سھیلی کے شوہر کے معاملے میں ہوا جب ایک اسکین کے دوران ان کے دل کے قریب cyst نظر آیا وہ اپنے ٹیسٹ کے نتائج کو لیکر سنگاپور کے تقریباً تمام نجی و سرکاری شعبے کے ماہرین کے پاس لیکر گئے اور مجموعی رائے یہی تھی کہ یہ ایک بے ضرر cyst ہے جو درد نہیں کرتی اور اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے ۔ لیکن نیشنل یونیورسٹی اسپتال کے متعلقہ ماہرین کے پینل کی رائے اس سے برعکس تھی۔ ان کا کہنا یہی تھا کہ ننانوے فیصد امکان ہے کہ یہ بے ضرر ہے لیکن اگر ان کا کہنا یہی تھا کہ اگر جسم میں کسی چیزکی موجودگی غیر ضروری ہے۔ اسے چھوڑنا نہیں چاہئے ۔ہماری بیٹی کی سہیلی کےشوہر نے ان کی رائے قبول کرکے اس Cyst کو سرجری کے ذریعے نکلوانے کا فیصلہ کرلیا ۔

    یہی ان کی خوش قسمتی ثابت ہوئی سرجری کے بعد ہونے والے ٹیسٹ سے پتہ چلا کہ جس cyst کے درد کو سنگاپور و برطانیہ کے ڈاکٹر بے ضرر یا 99 فیصد بے ضرر کہہ رہے وہ درحقیقت کینسر تھا۔ یقیناً اب انہیں فالو اپ علاج کی ضرورت ہے لیکن اگر وہ دوسرے ڈاکٹروں کی اجتماعی آراء پر عمل کرتے تو آج شاید صورتحال انتہائی گھمبیر ہوتی ۔

    اسٹیم سیل = (خلیہ بنیادی)
    ‏Knee cartilage = گھٹنے کے جوڑوں کے درمیان لیسدار مادے کا مقام
    بشکریہ، (ونیسا لِم) چینل نیوز ایشیا

  • غزّہ کی جنگ کا فائدہ پاکستان کو ؟  اعظم علی

    غزّہ کی جنگ کا فائدہ پاکستان کو ؟ اعظم علی

    عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لڑائی میں، جس میں دشمن سے سامنا تھا، سورج ڈھلنے کا انتظار کیا۔ پھر ان کے بیچ کھڑے ہوکر فرمایا: ”لوگو! دشمنوں سے مقابلہ کی تمنا نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو۔ لیکن جب ان سے مقابلہ ہو جائے، تو صبر سے کام لو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے“۔ پھر فرمایا:”اے اللہ! کتابوں کے نازل فرمانے والے، بادلوں کو چلانے والے اور جتھوں کو شکست دینے والے! انھیں شکست سے دوچار کردے اور ہمیں ان پر غلبہ عطا فرما“۔

    ہندو پاک کی سرزمین پر جنگ کے طبل بج رہے ۔ ہمارے پاس بھی جنگ سے پناہ مانگتے ہوئے اللہ کی عافیت اور بہ وقت امتحان فتح و کامیابی مانگنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔

    اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھارتی فوجی دفاعی آلات کی فراہمی کا سب سے بڑی سورس روس کے بعد اسرائیل ہے۔ روس کے ساتھ بھارتی تعاون جاری ہے لیکن پہلے جیسی گرمجوشی باقی نہیں رہی ، وہ بھی یوکرائن کی جنگ کی وجہ سے اسلحے کی قلت کا شکار ہے۔

    ہماری خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ اسرائیل غزہ میں پھنسا ہوا اور مودی نے ہمارے ساتھ غلط وقت پر سینگھ پھنسا لیے ہیں ۔ دیڑھ سال کی غزہ کی جنگ نے اسرائیل کے اسلحہ خانے خالی کردئیے وہ بھی اس جنگ کو جاری رکھنے لے لیے امریکہ سے اسلحے و آلات کے مسلسل سپلائی کے محتاج ہیں ۔

    اسوقت اسرائیل اور اس کے ابّاجی کی پوری ترجیح غزہ اور یمن ہے . ایران سے تو وہ نمٹ ہی چُکے ہیں اس لیے غزہ و یمن کی لڑائی کے دباؤ کی وجہ امریکی فوج کے اپنے محفوظ اسلحے کے ذخائر میں قلّت کا سامنا ہے فی الوقت ان کےاسلحے وہ جنگی آلات کی پیداوار کی حالیہ جنگوں میں استعمال سے بہت کم ہے۔ اسلیے اسرائیل و چاہنے کے باوجود بھارت کی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔

    ممکن ہے شہنشاہ عالم و عرف اسرائیل کے ابّاجی یا سرپرست اعلئ مودی کی مدد کرنا بھی چاہیں لیکن چونکہ اس وقت ان کی اپنی اولاد مشکل میں ہے اس لئے اس معاملے میں وہ کو کہنا پڑا پاکستان انڈیا تو ہزار سال سے لڑرہے ہیں وہ اپنا معاملہ خود ہی نمٹیں۔ اب مودی بھائی کچھ یتیم یتیم سا محسوس کررہے ہیں ۔

    اس لحاظ سے ہمارے لیے فی الوقت غزہ کی جنگ و شھداء کی قربانی کی وجہ سے دونوں ٹیکنالوجیکل ایڈوانس دشمنوں کے پھنسنے کئ وجہ سے اس وقت ہم بھارت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی نسبتا بہتر پوزیشن میں ہیں اور یہ جنگ ہمارے لئے blessing in disguise ہی بن گئی ہے۔

    دوسری طرف پاکستان اتنا مجبور نہیں ہے اسکے قریبی دوست چین و ترکی کسی نہ کسی حدتک پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں ۔

    چند دنوں قبل ترکی سے چھ مال بردار فوجی C130 طیاروں کی آمد (حالانکہ ترکی نے کسی قسم کے اسلحہ کی فراہمی کی تردید کی ہے) کی ہے پر کچھ نہ کچھ وجہ تو ہوگی ۔

    ترکی کے صدر اردگان نے اپنے بیان میں گو پاکستان و بھارت کو تناؤ میں کمئ کی تلقین ہے پر ساتھ ہی لیکن گذشتہ روز ترکی کے صدر اردگان نے ایک بیان میں پاکستانی عوام کے غیرمتزلزل یکجہتی کااظہار کیا۔ اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کی پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ باہمی دفاعی تعلقات، تجارت اور مختلف شعبہ جات میں تعلقات و تعاون کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔

    دوسرا پڑوسی چین بظاہر اس معاملے میں خاموش ہے لیکن فضائی جنگ میں بھارت کی برتری کی بنیاد دو چیزوں پر ہے پہلا بھارت کا روس سے حاصل شدہ جدید ترین ائیرڈیفیس سسٹم S400، جو چین کے پاس بھی ہے۔ یہی وہ سسٹم ہے جس کی خریداری کا سودا کرنے کی پاداش میں امریکہ کو اپنے F-35 کی مشترکہ پیدوار کے منصوبے ترکی کو نکال دیا تھا، پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ چین بھی S400 ائیر ڈیفینس سسٹم استعمال کررہا ہے اور گذشتہ چند سالوں سے پاکستانی پائلیٹس چینی فضائیہ کے ساتھ اس نظام سے نمٹنے کی مشقیں کررہے ہیں امید ہے کہ اب وہ بھارتی S400 کے ساتھ دوہاتھ کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔

    بھارتی فضائیہ کے پاس دوسری برتری فرانس سے حاصل شدہ جدید ترین رفال کے طیارے کی صورت میں ہے ۔ ایک تو وہ پاکستانی ایف 16بلاک 52 طیاروں سے بہتر ہے (اگر پاکستان کو ایف 16 کے جدید ترین بلاک 72 مل جاتے تو وہ رفال کا مقابلہ کرنا ممکن تھا ۔لیکن امریکہ نے یہ طیارے ہمیں فراہم کرنے سے انکار کردیا)۔

    پھر رفال کا Meteor میزائل کی رینج تین سو کلومیٹر ہے، جس کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کے پاس کوئی میزائل نہیں ہے۔
    چین کے پاس PL-15 میزائل ہیں جن کی رینج 200 کلومیٹر سے زائد تو ہے۔ لیکن چین یہ ماڈل کسی دوسرے ملک کو فراہم نہیں کرتا بلکہ اس کا نسبتا کم رینج کا PL-15E فروخت کرتا ہے۔ لیکن حالیہ تناؤ کی صورتحال میں چین نے ہنگامی طور پر پاکستان کو اپنی فضائیہ کے زیراستعمال اسٹاک میں سے 200 کلومیٹر سے زائد مار کی صلاحیت رکھنے والے میزائل PL-15 فراہم کئے جو پاکستان نے اپنے JF-17 بلاک تھری میں لگا کر تصاویر بھی جاری کردیں۔

    اس لحاظ سے پاکستان سوائے بحریہ کے کم از کم فضائی اور بری جنگ میں بھارت کا سامنا کرنے کے قابل ہے۔ بحری فوج واقعتا انتہائی کمزور اس مرض کا فی الحال ہمارے پاس کوئی علاج نہیں ۔ کہ 2025 کئ گلوبل نیول پاور رینکنگ میں بھارتی بحریہ دنیا کی ساتویں بڑی نیوی ہے جبکہ پاکستان نیوی کی 29 ویں۔ ممکن ہے یہاں بھی سی پیک سے چینی دلچسپی اور انویسٹمینٹ کے تحفظ کے لیے چینی بحریہ کو گوادر کا تحفظ کرنے کی ذمہ داری اُٹھانی پڑے گی۔ اور پاکستان نیوی و فضائیہ مشترکہ طور پر کراچی کی بندرگاہ کا تحفظ کریں۔

    جب تک امریکہ و اسرائیل مشرق وسطیٰ میں پھنسے ہوئے ہیں بھارتی وزیراعظم مودی کے لیے بہتر اس جنگ کو کسی بہتر موقعے کے لیے ٹال دے ۔ لیکن وہ اسوقت اپنی بڑکوں کا یرغمال بن گیے ہیں فوری پیچھے ہٹنے کے نتیجے میں بھارتی عوام کو اپنے مرد آہن و *چھپّن انچ کے سینے* کی بڑک کا تحفظ کیسے کرے؟

    پیچھے ہٹتا تو بھارتی پبلک سامنے شرمندگی ہوتی ہے۔ پھر بھی چانکیا کے پیروکار بھارتی لیڈر کسی نہ کسی بہانے سے یوٹرن لینے میں دیر نہیں کریں گے، اس وقت تک ۔۔۔۔

    شکاری خود یہاں شکار ہو گیا ۔۔

  • اقصادی بل فائٹنگ اور مشتعل سانڈ – اعظم علی

    اقصادی بل فائٹنگ اور مشتعل سانڈ – اعظم علی

    ویسے تو امریکی صدر ٹرمپ نے پوری دنیا ہی سے اعلان جنگ کردیا ہے لیکن انا پرست صدر ٹرمپ کو جوابی للکار چین نے ہی دی ہے۔ جس کے نتیجے میں روزانہ ہی چین سے امریکی آنے والی مصنوعات پر ٹیکسوں میں اضافے کا اعلان ہو رہا ہے جو اس وقت 125 فیصد تک پہنچ چُکا ہے۔

    بُل فائٹنگ کے کھیل میں عموما بُل فائیٹر سُرخ رومال دکھا کر سانڈ کو مشتعل کرکے حملہ آور ہونے کی دعوت دیتا ہے اور نتیجہ ۔۔۔۔ تیا سرخ چین اس سانڈ کو سُرخ رومال کے ذریعے ہشکار کر کہاں لے جانا چاہ رہا ہے؟

    چین کی امریکہ سے بڑی امپورٹس :-

    سویابین
    جہاز کے انجن
    انٹیگریٹڈ سرکٹس (جس پر پہلے ہی کچھ نہ کچھ پابندیاں ہیں )
    فارما سیوٹیکل
    پیڑولیم پروڈکٹس ہیں

    ان تمام اشیاء کے لئے چین کے پاس امریکہ کے علاوہ متبادل سپلائیر مل سکتے ہیں ،

    جبکہ چین امریکہ کو :-
    موبائیل فون
    لیپ ٹاپ
    بیٹریاں
    کھلونے
    ٹیلی کام ایکوپمینٹس

    جن میں بیشتر امریکی کمپنیوں کے لئے چین میں تیار شدہ مصنوعات ہیں ۔۔ چین سے سپلائی لائن کے رُکنے کا فوری نتیجہ ان کمپنیوں کے امریکی کاروبار میں شدید نقصان کی صورت میں نکلے گا۔

    ویسے بھی متبادل سپلائی لائن و کارخانوں کی سہولیات ایک دن میں نہیں بن سکتی ۔۔ اس دوران ان کمپنیوں کی کیا اسٹریٹجی ہوگی؟؟

    فی الوقت امریکہ میں چین سے آنے والی مصنوعات پر 125 فیصد ٹیکس عائد ہے۔

    اس قسم کے ٹیکس کی موجودگی میں امریکی کمپنیوں کے چینی کنٹریکٹ مینوفیکچررز کے ساتھ پہلے سے طے شدہ معاہدوں کا کیا ہوگا؟

    کیا یہ کمپنیاں ان معاہدوں سے “force majeure”( ایک قانونی شق جس کے تحت غیر معمولی حالات میں معاہدے ناقابل عمل ہوجاتے ہیں) کے تحت آزاد ہو سکتی ہیں ؟

    اگر “force majeure” کا تحفظ نہ مل سکا تو کئی بڑی امریکی کمپنیوں جنہوں نے کنڑیکٹ مینوفیکچرر کے ساتھ طویل المدت معاہدے کئے ہوئے ہیں کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    اگر یہ تحفظ مل بھی گیا تو چین کے کارخانوں میں تیار شدہ امریکی برانڈوں کی مصنوعات کو کارخانہ دار کو دنیا بھر میں سستے داموں میں پھینکنے سے کس قانون کے تحت روکا جا سکتا ہے؟

    اگر نہ روکا جاسکا تو ۔۔ اس کا نقصان بھی ان امریکی کمپنیوں ہی کو ہو گا۔

    کیا یہ بھی ممکن ہے کہ (کم از کم عارضی طور پر) یہ کمپنیاں اپنے امریکی صارفین کے بزنس کو باقی دنیا کے بزنس سے علیحدہ کر کے ۔۔ موجودہ معاہدوں کے تحت چین میں تیار شدہ مصنوعات کو دیگر ممالک میں فروخت کریں ؟

    نئے کارخانے لگانا راتوں رات کا کام نہیں ہوتا۔ کیا کمپنیاں فوری طور پر امریکی صارفین کے لئے متبادل مینوفیچرنگ کے انتظامات کرنے کے قابل ہوں سکیں گی؟

    اور اس کے امریکی صارفین پر قیمتوں کے اثرات کیا ہوں گے؟

    بظاہر امریکہ میں ان مصنوعات کی پیداوار کا نتیجہ امریکی صارفین کے لئے مہنگائی میں اضافے کی صورت میں نکلنا ہے۔ کہ امریکہ میں تیارشدہ پروڈکٹ کی قیمت چین میں بنی ہوئی قیمتوں سے ازحد مہنگی ہو گی۔

    اس مہنگائی کا امریکی عوامی رد عمل اور اس آئندہ سال ہونے والے امریکی وسط المدتی انتخابات پر کیسے اثرات ہوں گے؟

  • مسک کے انیس سالہ”  معاون “کی اہم عہدوں پر تعیناتی  – اعظم علی

    مسک کے انیس سالہ” معاون “کی اہم عہدوں پر تعیناتی – اعظم علی

    ایلون مسک کے 19 سالہ نوجوان قریبی معاون جو آن لائن ”بگ ۔۔۔۔“ کے نام سے مشہور ہیں کی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ (وزارت خارجہ) اور ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ (DHS) کے سینئر مشیر کی حیثیت سے تعیناتی کے نتیجے میں سفارتی حلقوں میں ان کے ارب پتی باس (ایلون مسک) کی امریکہ کے حساس سفارتی معاملات میں پہنچ کی وجہ سے تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں ڈیپارٹمنٹ آف گورنمٹ ایفیشینسی DOGE اور [english] Office of Personnel Management [/english] یعنی افرادی قوت کے معاملات کا جائزہ لینے کی بھی ذمہ داریاں دی گئی ہیں ۔

    کورسٹائن کو اُن کے آن لائن تیز مزاج شخصیت کے تاثر کے ساتھ اہم مرکزی حکومتی ذمہ داریوں کے لیے تجربے کی کمی کی وجہ سے واشنگٹن کے حلقوں میں گہری نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔ ان نئی ذمہ داریوں کے ساتھ ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی و دیگر ایجنسیوں میں ایسی ہی ذمہ داریوں کی وجہ سے حکومتی معاملات میں ٹیکنالوجی سے بڑھ کر ان کی پہنچ و نظر انتہائی گہرائی تک ہے۔ کورسٹائن نے نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی سے تعلیم ادھوری چھوڑ کر ایلون مسک کے دماغ میں چپ لگانے کے اسٹارٹ اپ میں انٹرن شپ کی تھی ۔وہ ان چھ ناتجربہ کاروں میں سے ہے جنہیں مسک نے وفاقی حکومت میں داخل کیا ہے، جن کی لاکھوں امریکیوں کے مالی و طبّی ڈیٹا تک دسترس ہے۔ اس کے والد چارلس کورسٹائن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کاروباری شخص ہیں جنہوں نے نقصان کا شکار اسنیک کمپنی Lesser Evil خرید کر اسے منافع بخش بنایا لیکن بعد میں ان پر اس کی مصنوعات کے بارے میں غلط و مبالغہ آمیز اشتہاری مہم کا الزام عائد کیا گیا۔

    بلوم برگ کے مطابق کورسٹائن ایک سائبر سیکیورٹی کمپنی کی انٹرن شپ سے کمپنی کے راز مسابقتی کمپنی کو فراہم کر نے کے الزام میں بر خواست کیا گیا تھا۔ ایک اہلکار نے کورسٹائن کی کم عمری اور بلوم برگ کی اس رپورٹ کی روشنی میں تشویش کا اظہار کرتے ہو کہا ”یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔ “ اب اسے وزارت خارجہ کے بیورو برائے ڈپلومیٹک ٹیکنالوجی میں بطور سینئر مشیر کے تعینات کیا گیا ہے کہ جو ہر قسم کے حساس و دیگر ڈیٹا کا اہم مرکز ہے۔ وائرڈ Wired نیوز کے مطابق کورسٹائن ٹیلیگرام و دیگر آن لائن پلیٹ فارم کا مستقل صارف ہی جہاں مبینہ طور پر وہ ایک سائبر حملوں میں مدد دینے والی تھرڈ پارٹی سروس کو مارکیٹ کرتا ہے۔ بعض اہلکاروں نے کورسٹائن کی بیورو برائے ڈپلومیٹک ٹیکنالوجی میں ذمہ داریوں پر تشویش کا اظہار کیا کہ جوکہ امریکی وزارت خارجہ کے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کے طور پر کام کرتا ہے وہاں پر دونلڈ ٹرمپ کی حلف بردار سے قبل ہی تمام ریکارڈ مرکزی طور اکٹھا رکھا جارہا ہے، جو کہ (حساس و دیگر) معلومات کا خزانہ ہے۔ ایک اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار کا کہنا ہے کہ امکان ہے کہ ان کا کردار ڈپلومیٹک ٹیکنالوجی کی حدتک محدود نہیں رہے گا۔اس قسم کی غیر معمولی تعیناتیاں ظاہر کررہی ہے کہ کس طرح ایلون مسک کے DOGE نے اپنے لوگوں کو بیک وقت کئی اداروں میں تعینات کیا ہے، یہ نوجوان و ناتجربہ کار افراد اور زیادہ تر عمومی چھان پھٹک کے بغیر حساس حکومتی معاملات کی نگرانی کررہے ہیں جس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔

    اس صورتحال نے امریکی سفارتی حلقوں میں مُسک کے فیڈرل حکومت میں اثر و رسوخ کے حدود کے بارے میں پریشان کردیا ہے ۔ جس نے ماہرین کو بھی تشویش میں مبتلا کردیا ہے اس کے نتیجے میں عدالتی کاروائیاں بھی شروع ہونے لگی ہیں ۔ یہ حکومتی ادارہ یو ایس ڈیجیٹل سروس کا نام تبدیل کر نے کے بعد DOGE یعنی ڈیپارٹمنٹ آف گورنمٹ ایفیشینسی رکھ کر ایلون مسک کے حوالے کیا گیا جس کا ہدف حکومتی اخراجات میں ایک کھرب ڈالر کی کٹوتی کرنا ہے، اس کے لئے مسک نے زیادہ تر سافٹوئیر انجینئروں کو ترجیحا بھرتی کیا ہے۔

    مسک اور اس کے ساتھیوں کی حرکتیں اس وقت سامنے آگئیں جب محکمہ خزانہ میں پچیس سالہ مارکو ایلز میں تعینات کیا گیا لیکن گذشتہ ہفتے امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے ایلز کی ایک نسل پرستانہ پوسٹ کی نشاندہی کی جس وجہ سے اسے استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ایلون مسک نے ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس کے حمایت سے عہد کیا کہ ایلز کو ہر صورت میں دوبارہ متعین کریں گے ۔ جب وہ محکمہ خزانہ میں بطور DOGE کے نمائندے گئے تو وہاں ایلز کااسسٹینٹ ٹریژری سیکریٹری ٹام کرواؤزسے جھگڑا ہوا کہ وہ نہیں چاہتا تھا DOGE کی رسائی ٹریژری کے حساس پیمنٹ سسٹم تک ہو۔ ٹام کراؤز بھی سلیکون ویلی میں کام کرچُکا ہے۔

    دوسری جگہوں پر DOGE کے اہلکاروں کو [english] Office of Personnel Management[/english] اور جنرل سروسز ایڈمنسٹریشن میں بھی متعین کردیا کہ یہ دونوں ادارے ایلون مسک کے بنیادی ہدف ، وفاقی حکومتی کارکنان میں کمی، حکومت کی ملکیت عمارت و جائیداد کا جائزہ ، اور پرانی ازکارفتہ ٹیکنالوجی کی جگہ جدید ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے اہم ہیں۔ وفاقی (ملازمین کی) ڈائریکٹری میں اکثر اوقات DOGE کے کارکنان کے ساتھ ایک نہیں بلکہ مختلف سرکاری اداروں کے نام نظر آتے ، جس وجہ سے ان کے کام و ذمہ داریوں کی حقیقی نوعیت کا سمجھنا مشکل ہے۔ایک ڈائریکٹری میں کورسٹائن کا نام یو ایس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈویلپمینٹ USAID (دنیا کا سب سے بڑا غذائی امدادی ادارہ) جسے مُسک نے ختم کرنے کے عزائم کا اظہار کیا تھا۔ سب ٹرمپ انتظامیہ نے اس کے دس ہزار ملازمین کو کم کر تقریباً 600 تک لانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ USAID میں کورسٹائن کی ذمہ داری چیف انفارمیشن افسر کے مینیجمینٹ بیورو میں دکھائی گئی ۔ کئی سفارتکار USAID کو کھوکھلا کرنے کے عمل کو خوف و گھبراہٹ کے عالم میں دیکھ رہے ہیں اور امید کررہے ہیں کہ چونکہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ یعنی وزارت خارجہ امریکہ کا پہلا ایگریکیٹو ادارہ تھا جو 1789 میں قائم ہوا اس لئے شاید اس کے ساتھ ایسا نہ کیا جائے ، پر DOGE کے کارندوں کو” ”فوگی باٹم“ نامی عمارت جہاں وزارت خارجہ کے دفاتر ہیں کی راہداریوں میں گھومتے دیکھ کر انہیں خوف محسوس ہوتا ہے۔

    کورسٹائن کے پاس DHS ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی اور FEMA (آفات و ایمرجنسی کا وفاقی ادارہ جو DHS کا حصہ ہے) دونوں کے سینئر مشیر کے عہدے ہیں۔ ایک DHS کے اہلکار کا کہنا ہے DOGE کے DHS میں دخل اندازی کے اثرات قومی سلامتی پر ہو سکتے ہیں ۔ کیونکہ DHS کی ذمہ داری دیگر چیزوں کے علاوہ (غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف) سرحدی تحفظ، آفات سے نمٹنا اور انسداد دہشت گردی بھی ہے۔ “یہ لوگ بنیادی طور پر معاملات کو بغیر سمجھے توڑ پھوڑ کر رہے ہیں”، انہوں نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر کہا کہ وہ حساس معاملات پر گفتگو کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ اب تک کورسٹائن کی وزارت خارجہ میں ذمہ داری غیر واضح ہے لیکن اہلکاروں نے کہا کہ اس کی ٹیکنالوجی بیورو میں تعیناتی کا مطلب یہ ہے کہ وہ غیر مجاز طور پر حسّاس خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں جس کے نتیجے میں دیگر ممالک کے ساتھ معاملات اور بیرون ملک ہونے والی سرگرمیوں کی اطلاعات نکلنے کا خطرہ ہے۔

    اب ایلون مسک کی اثر ورسوخ پر بھی سوالات اُٹھ رہے ہیں کہ مسک پر پہلے بھی دنیا بھر میں امریکی ایجنٹوں کی حساس ترین معلومات لیک کرنے کا الزام لگ چُکا ہے ۔ یہ واضح نہیں ہے کہ مُسک یا اس کے ٹیم کے ممبران کا سیکیورٹی بیک گراؤنڈ چیک ہوا تھا یا نہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ مسک کی ٹیم نے DOGE کے کارکنان کو آن لائن چاٹ گروپوں سے بھرتی کیا ہے۔ وہایٹ ہاؤس کا اصرار ہے کہ DOGE کے کارکنان وفاقی ملازمین ہیں اور ان کے پاس مطلوبہ سیکورٹی کلئیرنس ہے اور وہ وفاقی قوانین کے مطابق کام کررہے ہیں ۔

    کورسٹائن کے علاوہ 23 سالہ SpaceX (ایلون ٹرمپ کی کمپنی) کے سابق انٹرن لیوک فیریٹر کا نام بھی وزارت خارجہ کی ڈائریکٹری میں محکمے کے بیورو آف ڈپلومیٹک ٹیکنالوجی میں درج ہے ۔ اب تک کورسٹائن اور فیریٹر سمیت DOGE کے لئے کام کرنے پچیس سال سے کم عمر 6 انجینئروں کی شناخت کی جاسکی ہے۔ DOGE کی ترجمان کیٹی ملّر اور وزارت خارجہ دونوں نے اس سلسلے میں سوالوں کے جواب نہیں دیے۔ ایک اور صاحب جو DOGE کے ایک انجینئر سے ذاتی طور پر واقف ہیں نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا ۔ کہ ان انجینئروں کی ٹیکنالوجی پر عبور وقابلیت میں کوئی شک نہیں پر DOGE کے لوگوں کو مختصر عرصے میں اتنے زیادہ اختیارات دینا تشویشناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”ان کے پس منظر میں ان کی سیاسی سوجھ بوجھ کی علامت نظر نہیں آتی ، بلکہ وہ مشکل سوالات کے جواب تلاش کرنے آئے ہیں، ان کے لئے مشکل سوال ، ایک معمہ یا پہیلی ہوتی ہے، مجھے یقین ہے کہ یہ بچپن سے مشکل سوالات و معموں کے ساتھ کھیلتے رہے تھے ۔۔ فرق اتنا ہے کہٗ اس مرتبہ اس کے ساتھ صدر و ارب پتیوں کے ساتھ شانے سے شانہ ملانے کا موقع ملنا ایک اضافی فائدہ ہے، لیکن یہ دنیا کو انتہائی تنگ زاویے سے دیکھنا ہے جو موجودہ صورتحال (جس کے پورے معاشرے و دنیا پر وسیع اثرات ہوں) کو صرف انجینرنگ کے زاویے دیکھنا انتہائی غلط ہے۔“ ۔

    درحقیقت کنسلٹنگ کے شعبے میں انتہائی ذہین نوجوانوں کو جن کے میں اپنی ٹیکنکل و ذہنی صلاحیتوں اور منطقی و غیر روایتی انداز فکر کی بدولت ایسے پیچیدہ معاملات جو کسی ادارے کے لئے لاینحل بن چُکے ہیں کے لئے لایا جاتا ہے تاکہ وہ ان مسائل کو باہر سے دیکھ کر آؤٹ آف باکس (غیر روایتی یا اچھوتا) حل تجویز کرسکیں ۔ یہ بھی درست ہے کہ کنسلٹنگ کے میدان میں اترنے کے خواہشمند نوجوانوں کی تیاری کا اہم حصہ ہی “کیس اسٹڈی” جس میں وہ مختلف اداروں کے مخصوص مسائل پر مبنی رپورٹ کا مطالعہ کرکے ان کے منطقی حل تلاش کرنے کی کوشش کرنے کی مشق کرتے ہیں۔اس لحاظ سے مشکل معمے و پہیلیوں کا حل تلاش کرنا ان کا شوق و مشق رہی ہے ۔اس شعبے میں کامیاب کنسلٹئنس عمر وتجربے کے ساتھ یقیناً اچھے اور اہم اداروں میں کلیدی ذمہ داریوں پر پہنچتے ہیں۔ لیکن موجودہ صورتحال میں یہ نوجوان یہاں چاہے کتنے بھی ذہین ہوں بظاہر یہ اپنے کیرئیر کی ابتدائی سیٹرھیوں پر ہیں اور بظاہر انہیں کوئی بھی عہدہ دیا جائے درحقیقت یہ بطور جونیئر کنسلٹینٹ کے کام کررہے ہیں جو اپنی رپورٹ اوپر کسی اور کو دیکر اس کی حسب ہدایت کام کررہے ہوں۔

    دنیا کے کسی بھی ملک میں حساس مواد کی رسائی کو سختی کے ساتھ کنٹرول کیا جاتا ہے اس لئے جنہیں ان مواد تک رسائی ہوتی بھی ہے تو بھی انہیں بلا اجازت کسی کو دکھانے یا بتانے کی ممانعت ہوتی ہے یہاں بظاہر یہ جونئیر کنسلٹینٹ حساس کو جو ذمہ داریاں دی گئی ہیں وہ اپنے تجربے و ایکسپوژ کے لحاظ سے اس کی قابلیت نہیں رکھتے ۔۔ اس لئے یقیناً یہ مواد اور ان کی رپورٹیں شیئر کرنا اس کی مجبوری ہے ۔ قومی و بین القوامئ اہمیت کے اداروں میں ذمہ دار عہدوں پر متعین کرنا غیر ذمہ داری اور شدید نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

    (مضمون کی تیار میں واشنگٹن پوسٹ / دی انڈیپینڈنٹ ودیگرذرائع سے مدد لی گئی ہے)

  • ڈیپ سیک آرٹی فیشل ٹیکنالوجی کی چوری ۔ اعظم علی

    ڈیپ سیک آرٹی فیشل ٹیکنالوجی کی چوری ۔ اعظم علی

    چینی کمپنی ڈیپ سیک نے اپنے آرٹی فیشل انٹیلی جنس پلیٹ فارم کولانچ کیا تو دنیا زلزلے کی کیفیت کا شکار ہو گئی۔ کہا جانے لگا کہ چینی کمپنی نے آرٹی فیشیل انٹیلی جنس پر امریکی اجارہ داری کو توڑ دیا۔ پہلا جھٹکا تو اسٹاک مارکیٹ میں آیا کہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی کمپنی OpenAI تو لسٹڈ نہیں ہے لیکن اس آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے لئے چپ بنانے والی کمپنی Nvidia اور اوپن اے آئی کے مل کر نئی چِپ بنانے والی کمپنی Broadcom کے حصص کو شدید گراوٹ کا سامنا ہوا ۔

    کسی بھی آرٹی فیشل انٹیلی جنس سسٹم کے دو حصے سافٹ وئیر اوراسے چلانے کے لیے طاقتور پروسیسر چپ جو دنیا بھر میں اس وقت واحد کمپنی Nvidia ہی بناتی ہے، درکار ہوتے ہیں۔ سافٹ وئیر کی بات تو بڑی حدتک واضح ہے کہ OpenAI نے اپنا اے آئی سافٹ وئیر ڈیولپرز کے لیے کھلا رکھا ہوا تھا تاکہ کوئی بھی (مفت یا تھوڑی سی فیس دے کر) ڈاؤن لوڈ کرکے استعمال کرلے۔

    ڈیپ سیک نے یہ نہیں بتایا کہ اُنہوں نے اپنے R1 ماڈل بنانے کے لیے ڈیٹا کہاں سے حاصل کیا لیکن ایسے اشارے موجود ہیں کہ انھوں نے اوپن سورس ہی کے سسٹم کو ڈاؤن لوڈ کرکے اپنے ماڈل کی تربیتی صلاحیت اگلے درجے پر پہنچائی ہے۔ ڈیپ سیک کا یہ ماڈل اتنا کارگر ہے کہ اسے اپنے مدمقابل میٹا کے Llama 3.1 کے مقابلے میں صرف دس فیصد کمپیوٹنگ پاور کی ضرورت پڑتی ہے۔

    ڈیپ سیک پر ٹیکنالوجی کی چوری کا الزام
    ”ہم اس بات سے واقف ہیں کہ ڈیپ سیک نے نامناسب طور پر ہمارے ماڈلز سے معلومات کشید (چوری) کئے ہیں ، ہم اس کا جائزہ لے رہے ہیں اور جوں جوں تفصیلات سامنے آئیں گی فوری طور پر (عوام و میڈیا کو) آگاہ کریں گے، ہم اپنی ٹیکنالوجی کے تحفظ کے لئے بھرپور اقدامات کریں گے۔“ (اوپن اے آئی کا اعلامیہ)

    دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ کیا ڈیپ سیک کے یہ سب کچھ ‏Nvidia کی چِپ حاصل کیے بغیر حاصل کیا ہے؟
    یہ بات پہلے ہی ریکارڈ پر ہے کہ کہ 2022 میں امریکی حکومت نے چینی AI کمپنیوں کو جدید ترین Nvidia کی چپ فروخت پر پابندی لگادی تھی ، لیکن ڈیپ سیک پابندیاں لگنے سے پہلے ہی Nvidia کی H100 چپ 10,000 عدد خرید چُکی تھی، جو ان کی ضرورت کے لئے ناکافی تھی۔ اس معاملے میں اس وقت پوری دنیا کے بڑے تجارتی ممالک بشمول سنگاپور میں اس بات کی تحقیقات ہورہی ہے کہ کیا چین نے Nvidia کی چپ وہاں سے حاصل کی ہے۔

    میری زندگی کا بڑا حصہ سنگاپور کے الیکٹرونکس پرزہ جات کی ہول سیل مارکیٹ میں گذرا ہے ۔ جہاں میرا تو اس قسم کی چپ سے واسطہ نہیں پڑا لیکن اس قسم کی وارداتیں عام ہیں ۔ عموما ڈسٹربیوٹر اپنے منافعے کے لیے اکثر جان بوجھ کر کسی پابندیوں سے مبرا ملک یا ادارے کے نام پر یہ سامان جاری کرایا جاتا ہے۔ اس کے لئے کاغذ کا پیٹ بھرنے کے لیے جعلی کاغذات و کوائف فراہم کئے جاتے ہیں۔ لیکن سامان کسی اور ملک یا ادارے کو فروخت کردیا جاتا ہے ۔جب تک کوئی بڑی شکایت سامنے نہ آئے یہ معاملہ خاموشی کے ساتھ چلتا رہتا ہے۔

    عموما پرزہ جات و کسی قسم کے آلات کا ڈسٹربیوٹر کے گودام سے نکلنے کے بعد اگر ممنوعہ جگہ و ممالک میں پہنچ جانے کے بعد کہیں پکڑے جانے کی صورت میں اس کی فراہمی کے ذریعے کا درست سراغ لگانا بڑی حدتک ناممکن ہوتا ہے، لیکن حسا س پرزہ جات اور تقریبا تمام الیکٹرونک آلات کا فیکڑی سے لیکر ڈسٹری بیوٹر تک فروخت کا ریکارڈ اس کے سیریل نمبر کے ذریعے ہوتا ہے۔ یہ سیریل نمبر پرزے یا مشیب پر چھپے ہوئے ہی نہیں بلکہ ڈیجیٹل پروسیس کے ذریعے مشین کے پروسیسر میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ اس لئے انہیں مٹا کر شناخت ختم کرنا ناممکن ہوتا ہے ۔

    کوئی حساس پرزہ یا مشین کسی بھی “غلط” جگہ پائے جانے کی صورت میں مینوفیکچرر فوری طور پر اپنے ڈسٹری بیوٹر، اور ڈسٹری بیوٹر اپنے گاہک کی شناخت کر سکتا ہے۔ اس طرح تفصیلی تحقیقات کی صورت میں ذمہ دار کی شناخت ناممکن نہیں ہوتی ۔ بات کھلنے پر جو بھی اس قسم کی حرکت میں ملوث ہوتا ہے اسے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔ 2012 میں سنگاپور کی ایک کمپنی نے وہاں کی سب سے بڑی ٹیلی کام کمپنی سنگاپور ٹیلی کام کے جعلی آرڈر کے ذریعے امریکہ سے کچھ پرزہ جات منگوا کر ایران بھیجے تھے۔ بات کھُلنے کے بعد اس کمپنی کا ایرانی مالک فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا پر وہاں کام کرنے والے تین افراد مقامی کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کردیا گیا جہاں انہیں قید کی سزا دی گئی۔

    امریکی آئی ٹی کمپنی Hp کا واقعہ یاد آتا ہے ۔ جب پاکستان و دیگر چند ممالک کے نام سے فروخت کردہ لیپ ٹاپ و پرنٹر ایران میں پائے گئے ۔ اس وقت کسی کےخلاف قانونی کاروائی تو نہیں ہوئی پر اس کمپنی کے کئی ملازمین برطرف کردئیے گئے اور متعلقہ ڈسٹری بیوٹر کو بھی اپنی ڈسٹریبیوٹر شپ سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس سے منسلک ایک اور دلچسپ قصہ بھی ہے مشھور امریکی آئی ٹی کمپنی Hp کے بعض پاکستانی ڈسٹری بیوٹر پاکستان کے نام پر سامان لیکر دوسرے ممالک میں فروخت کرنے کے لئے سنگاپور میں اپنا نمائندہ دفتر کھول پاکستان کے نام پر سامان وہاں وصول پر کرنے کے بعد دیگر ممالک بالخصوص دوبئی میں فروخت کرتے تھے (دوبئی سے ایران و دیگر ممالک پہنچنا آسان تھا)۔ ڈسڑی بیوٹرشپ کے معاہدے کے خلاف ورزی ہوتی ہے پھر بھی اکثر متعلقہ لوگ جان بوجھ کر آنکھیں بند رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی جو کچھ سامان پاکستان جاتا بھی تھا تو اس کی قیمتیں ٹیکس بچانے کے لئے انوائس میں کم قیمتیں یعنی انڈر انوایسنگ کرکے بھیجا جاتا تھا۔۔Hp جیسی بین الاقوامی کمپنیاں کبھی خود کو براہ راست انڈر انوائسنگ یا کسی غیر قانونی حرکت میں ملوث نہیں کرتیں اس لیے (یہ حرکت ان کے ڈسٹری بیوٹر یا ان کے نمائندہ دفتر ہی کرتا ہے)۔ اس زمانے میں Hp کا پاکستان میں دفتر بھی ہوتا تھا پاکستانی ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے Hp سے کئی سالوں کے پاکستان کے نام پر جاری ہونے والے سامان کی اصلی انوائس طلب کیں۔۔ چونکہ ساری ڈیلیوری و شپمنٹ Hp کے سنگاپور کے دفتر سے جاری ہوتے تھے اس لیے زیادہ امکان یہی تھا کہ یہاں پر اس کا مکمل ریکارڈ نہیں تھا اس لئے Hp پاکستان نے معذرت کرلی ۔ چونکہ اس وقت Hp پاکستان کے سربراہ پاکستانی اگر غیر ملکی ہوتا تو شاید ہچکچاتے، اس لئے انہوں نے اسے غالبا غیر رسمی طور پر گرفتار کرکے شرط عائد کردی کہ جب تک Hp سنگاپور انہیں پاکستان کے لئے جاری ہونے والے تمام سامان کی اصلی انوائس ان کے حوالے نہیں کریں گے اسوقت تک انہیں نہیں چھوڑا جائے گا۔ مجبوراً Hp سنگاپور نے ساری تفاصیل ان کے حوالے کے کر اپنا آدمی چھڑا لیا اور پاکستان میں اپنا دفتر بند کردیا ۔

    عموما امپورٹر کسٹم ڈیوٹی کی چوری کے دو طریقے سے کرتے ہیں پہلا اصل قیمت سے کم قیمت کی انوائس ظاہر کرکے دوسرا آنے والے سامان کی تعداد کو کم ظاہر دوسری طرف چونکہ اب کسٹم یا ایف بی آر کے پاس مکمل ریکارڈ موجود ہے انہوں نے متعلقہ ڈسٹری بیوٹرز کے ریکارڈ سے تقابل کیا تو قیمتوں کا فرق تو درست طریقے سے پکڑ میں آگیا ۔۔ لیکن تعداد کا معاملہ تھوڑا مشکل تھا کہ زیادہ تر سامان پاکستان کےنام پر وصول ضرور کیا گیا تھا لیکن درحقیقت وہ سامان کہیں اور بھیجا گیا تھا (اس لحاظ سے اس پر پاکستانی کسٹم ڈیوٹی لاگو نہیں ہوتی لیکن) کسٹم نے ان کی اس عرصے میں نہ صرف انڈر انویسنگ کے فرق کا ٹیکس طلب کیا، بلکہ جو اضافی سامان درحقیقت پاکستان نہیں آیا تھا لیکن چونکہ Hp کے کاغذات میں پاکستان کا لکھا ہوا تھا اس کی بنیاد پر اُن کے اوپر بھی کسٹم ڈیوٹی و یگر ٹیکس کی ادائیگی کا حُکم جاری کردیا۔چند سالوں قبل کی آخری اطلاعات کے مطابق معاملہ عدالت میں تھا۔ موجودہ صورتحال کا علم نہیں ۔

    اس بات کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا چین نے درحقیقت امریکی چپ استعمال کی ہیں ۔۔اگر ایسا ہوا ہے تب بھی چین کا یہ کارنامہ بالکل اسی طرح ہے جیسے پاکستان نے دنیا بھر کی پابندیوں کا سامنا و مقابلہ کرتے ہوئے ایٹم بم بنایا تھا۔ اس صورتحال میں اپنی ضرورت کے لیے ٹیکنالوجی ، آلات و پززہ جات حاصل کرنا چوری نہیں کارنامہ کہلاتا ہے۔۔دنیا بھر ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے سے سیکھنے کا عمل کبھی نہیں رُکتا ۔۔ اگر کوئی علم چھپائے تو ملکی قومی مفاد میں اس علم کو چُرانا بھی فرض ہوتا ہے۔ ( یہ الگ بات ہے کہ ان معاملات میں کسی کا مجرم کسی کا ہیرو ہوتا ہے)۔

    چین نے امریکی پابندیوں کا سامنا کرتے ہوئے یہ عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔۔ یقیناً چپ کی فراہمی میں پابندیوں کی وجہ سے اس کے مکمل فوائد حاصل کرنے میں ان کی محدودات آڑے آئیں گی۔ چین میں سیمی کنڈکٹر چپ مینو فیکچرنگ کی فیکٹریاں موجود ہیں چاہے وہ ٹیکنا لوجی میں کتنے بھی پیچھے ہوں لیکن آگے بڑھنے کی بنیاد ان کے پاس موجود ہے۔۔ اس میں کوئی شک نہیں جلد یا بدیر چین بھی یہ چپ بنانے کے قابل ہو جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ‏Nvidia کا چیف ایگزیکٹو آفسر بھی تائیوانی نژاد چینی النسل جینسن ہوانگ ہے۔۔ اس طرح کے نہ جانے کتنے جوہر قابل امریکہ میں حساس مقامات پر موجود ہیں ۔۔ کیا پتہ وہاں سے چین کو بھی کوئی ڈاکٹر عبدالقدیر خان مل جائے جو پہلے سے موجود بنیاد کو نئی بلندیوں تک پہنچا دے۔

    اس حمام میں سب ننگے ہیں
    بیسویں صدی کی ابتدا میں امریکہ صنعتی انقلاب کی ابتدا ہی برطانوی و یورپی ٹیکنالوجی کی چوری سے ہوئی تھی ۔ حالیہ دور میں تیز رفتاری سے ترقی پذیر معیشت چین بھی اسی مرحلے سے گُذر رہا ہے ۔ اس کے علاوہ بھارت، چین، روس، جنوبی کوریا اور جاپان یہ تمام ممالک ہی اپنی صنعتی ترقی کے ابتدائی دور میں ٹیکنالوجی کی چوری کے الزامات کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ اسرائیل کی ٹیکنالوجی بھی بہت کچھ امریکہ سے چُرایا ہوا مال و مصالحہ شامل ہے لیکن اسکا آفیشیل ریکارڈ اس لحاظ سے ممکن نہیں ہے اپنے اس لاڈلے بچے کی شرارتوں پر محلے میں شور نہیں مچایا جاتا۔ امریکی حکومت کے اکاؤنٹ ایبلٹی آفس کی 1983 کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی ٹیکنالوجییکل مصنوعات میں امریکی ٹیکنالوجی و پرزہ جات کا حصہ 35 فیصد ہے اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً اسرائیل پر ایٹم بم کے لئے یورینیم چُرانے سے لیکر ٹیکنالوجی و دیگر راز چرانے تک کے الزامات لگتے رہتے ہیں ۔ امریکیوں کا عشق اسرائیل اس درجے کا ہے کہ اسے سات نہیں 43 خون بھی معاف ہیں ، 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیلی ائیر فورس نے امریکئ بحریہ کے کمیونیشن مانیٹرنگ جہاز USS Liberty پر اسرائیلی فضائیہ نے حملہ کرکے 43 امریکی ہلاک اور 171 کو زخمی کردیا پھر بھی اسرائیلی کی معذرت اور غلط فہمی کے بہانے کو قبول کرلیا گیا۔ یہاں بھی امریکی انٹیلی جنس کے ادارے امریکہ میں اسرایئلی جاسوسوں کے ٹیکنالوجی و یگر راز چُرانے کی حرکتوں سے بخوبی واقف ہونے کے باجود سوائے اسرائیلی سفارتخانے میں متعین اپنے ہم منصب کو خاموشی سے تنبیہ کرنے سے زیادہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ کہ اس پیار بھری شکایت پر بھی FBI کو امریکی کانگریس و سینٹ کے اسرائیلی حامی ممبران کی جانب سے تنبیہی فون کالیں آجاتی ہیں اور سارا معاملہ غتربود ہو جاتا ہے۔

  • ڈیپ سیک؛ ایک چینی کمپنی نے ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی سیاست کا نقشہ بدل دیا – اعظم علی

    ڈیپ سیک؛ ایک چینی کمپنی نے ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی سیاست کا نقشہ بدل دیا – اعظم علی

    ایک چینی ویڈیو اسٹریمنگ ایپ ٹک ٹاک کے امریکہ میں تاریک ہونے کے اگلے دن ہی ایک اور چینی ڈیجیٹل پروڈکٹ جغرافیائی ٹیکنالوجی کی سیاسی حرکیات تبدیل کرنے کے لیے دھماکے دار انداز میں نمودار ہو گئی۔ اے آئی اسٹارٹ اپ ڈیپ سیک نے ایک لارج لینگویج ماڈل (LLM) جاری کیا ہے جو ممکنہ طور پر بعض چیزوں میں اوپن آے آئی کی (چیٹ جی پی ٹی) جیسی یا بہتر کار کرکردگی کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن یہ مکمل کہانی نہیں ہے۔

    سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ڈیپ سیک نے بظاہر یہ کارنامہ اوپن سورس سے پیدا ہونے والے AI کو اور اپنے LLM کو سکھانے کے لیے استعمال کیا۔ ڈیپ سیک نے ایک پروسیس جسے ” فائن ٹیوننگ“ کہتے ہیں کو استعمال کرکے چیٹ جی پی ٹی ہی کے موجودہ اوپن سورس ماڈل سے حاصل کیا۔ اوپن اے آئی نے اپنے اعلامیہ میں کہا ہے کہ ”ہم اس بات سے واقف ہیں اور اس کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ڈیپ سیک نے نامناسب طور پر ہمارے ماڈلز استعمال (چوری) کیے ہیں، ہم اپنی ٹیکنالوجی کے تحفظ کے لیے بھرپور اقدامات کریں گے۔“

    ڈیپ سیک نے ایک پری ٹرینیڈ ماڈل اپنی ضرورت کے مطابق تیار کرلیا ہے، اور وہ بھی انتہائی کم اخراجات کے ساتھ (تقریباً چھ ملین ڈالر)، اور اوپن اے آئی و دیگران نے اپنی مشین لرننگ ماڈلز سیکھنے میں جو وقت لگایا اس کے مقابلے انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ کیا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اُنہوں نے اپنا AI ماڈل Nvidia کی اعلیٰ ترین AI چپ کے بغیر بنایا ہے، جبکہ فی الوقت ٹیکنالوجی کی دنیا میں AI کی کسی بھی سسٹم کے لیے Nvidia کی چپ کا کوئی متبادل نہیں ہے، اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کے بغیر کوئی سیکھنے والا AI ماڈل بن ہی نہیں سکتا۔ یہی وجہ تھی کہ اس اعلان کے جھٹکے سے Nvidia کی آرٹی فیشل انٹیلی جنس پر اجارہ داری کے خاتمے کے خدشے کی وجہ سے نیویارک کی شیئر مارکیٹ میں کمپنی کے حصص بری طرح گرے، لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو جنوری گذشتہ جنوری میں اس کمپنی کے حصص پچاس ڈالر کے قریب تھے، اور ڈیپ سیک کے اس دھماکے سے ایک دن قبل 148 ڈالر کو چھو کر ڈیپ سیک کے اعلان کے بعد 118 پر بند ہوئے اور 120/125 کے درمیان مستحکم ہو گئے۔

    (اگر واقعی چین Nvidia کی چپ کے بغیر AI سسٹم چلانے کے قابل ہو گیا ، تب بھی نویڈیا کمپنی کی اجارہ داری ختم ہونے سے منافع میں کمی تو ضرور ہو گی اور شیئر کی قیمتوں میں کمی کے امکانات رہیں گے، لیکن کمپنی کی ساکھ اور بنیاد پھر بھی مضبوط ہے، یا کم از کم مستقبل قریب میں اسے کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے)

    بین الاقوامی سیاست پر ہونے والے دور رس اثرات
    ڈیپ سیک کی آمد سے بین الاقوامی سیاست کے دو محاذوں پر دور رس اثرات رونما ہو سکتے ہیں ۔۔

    پہلا :- ڈیپ سیک نے آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور سیمی کنڈکٹر (چپ) کے باہمی ربط کو دنیا کی توجہ کا مرکز بنادیا ہے، اصول یہی ہے کہ جس کے پاس دنیا کے جدید ترین سیمی کنڈکٹر (چپ) ہیں وہ AI کی دوڑ بھی کنٹرول کرے گا۔ سیمی کنڈکٹر چپس تمام جدید ایجادات کی بنیادی ٹیکنالوجی ہے۔ لیکن اگر اس آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور سیمی کنڈکٹر (چپ) ربط کو اوپن سورس کی کھلی اور ہر خاص و عام کے لیےموجود ٹیکنالوجی کے ذریعے مہنگی اور جدید ترین AI چپ کے بغیر کام چلایا جاسکتا ہے تو پھر یہ پوری دینا کے لیے مساوی کھیل کا میدان بن جائے گا۔

    دوسرا:- اگر یہ واقعی سچ ہے (اس پر شبہات ہیں)۔ تو اس کے نتیجے میں امریکہ کے ہاتھوں میں دیگر ممالک و حکومتوں کو دباؤ میں رکھنے کے لیے کم از کم آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی حدتک ، ایکسپورٹ کنٹرول، ٹیکنالوجی ٹرانسفر و دیگر پابندیوں کا ہتھیار چھِن جائے گا۔بالخصوص اس سے امریکہ – چین کی چِپ وار کی حرکیات تبدیل ہو جائیں گی۔

    ڈیپ سیک کے کارنامے کو ٹیکنو – قوم پرستی کے وسیع تناظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے، جس کے مطابق ملک کی سالمیت ، سماجی استحکام، اور معاشی طاقت کا منبع قومی اداروں (سرکاری یا نجی) کے ٹیکنالوجی میں مہارت پر منحصر ہے۔ اس تناظر میں امریکہ اور چین دونوں طاقت کو تیزی سے ضرب دینے والی تمام اہم صنعتوں (ایڈوانس مینوفیکچرنگ سے کوانٹم سائنس تک) میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے ہاتھا پائی میں مصروف ہیں ۔ اگر اسے ٹیکنو – قوم پرستی کے تناظر میں دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ ڈیپ سیک نے بیجنگ کو بین الاقوامی تعلقات میں حقیقی وزن کے ساتھ نئے چینی سال (جو 28 جنوری کو شروع ہوا ہے) کا شاندار تحفہ دیا ہے۔

    کیا امریکہ کے ہاتھ میں کچھ نہیں بچا؟
    واشنگٹن اور اس کے اتحادی چین کے ساتھ ہونے والی چِپ کی جنگ میں بھرپور سبقت رکھتے ہیں، کیونکہ وہ جدید ترین چِپ بنانے کے لیے لازمی ٹیکنالوجی جسے اس تناظر میں دَم گھونٹے والے پوائنٹس کہا جاسکتا ہے، کا ان کے پاس مکمل کنٹرول ہے۔ یہ دم گھونٹنے والے پوائنٹس بشمول ہالینڈ کی ASML کے تیار کردہ extreme ultraviolet (EUV) ایکسٹریم الٹرا وائلیٹ ایکویپمنٹ ، یا ایچنگ اور میٹلرجی مشینیں جو امریکی کمپنیاں ایپلائیڈ ریسرچ یا LAM ریسرچ بناتی ہیں۔ اس کے علاوہ الیکٹرونک ڈیزائن سافٹ وئیر ، خصوصی کیمیکل اور دیگر سامان امریکہ، جاپان، جنوبی کوریا، تائیوان و یورپی کمپنیاں ۔۔ یہ تمام ممالک مکمل طور پر امریکہ کے زیراثر ہیں ۔ اب تک چین اپنی ایڈوانسڈ چپ بنانے کے خواب کو پورا کرنے کے لیے ان اہم اور ضروری ٹیکنالوجیز کو نہیں حاصل کر پایا۔ AI اور سیمی کنڈکٹر دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، اس لیےجدید ترین سیمی کنڈکٹر (چپ) کی ٹیکنالوجی کے بغیر بہت دور تک نہیں جایا جاسکتا ۔

    جدید ترین چِپ ٹیکنالوجی جو اس ٹیکنو – قوم پرستی کی طاقت کو کئی گُنا بڑھا سکتی ہے، کے دسترس میں نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ ایرواسپیس، ٹیلی کمیونیکیشن، توانائی، بائیوٹیک، کوانٹم اور پھر AI جس میں سپر کمپیوٹنگ ، مشین لرننگ ، الگورتھم اور سافٹ وئیر ، ان تمام شعبوں میں مکمل مہارت حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اب ڈیپ سیک کی وجہ سے اس بات کا امکان ہے کہ کسی نہ کسی حدتک ان دم گھونٹے والے پوائنٹس سے بچ کر نکلنے کا راستہ مل سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے درجے کی سیمی کنڈکٹر بنانے والی اقوام بھی آرٹی فیشل انٹیلی جنس میں پہلے درجے کا مقام حاصل کرسکتے ہیں اور اس کے کئی فوائد بشمول فوجی صلاحیت اور معاشی مسابقت سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

    دنیا میں ٹیکنالوجی کے تین بلاک
    دسمبر 2024 میں اس وقت کے امریکی صدر بائیڈن نے جاتے جاتے سیمی کنڈکٹر سے متعلق ٹیکنالوجی کو چین کے ہاتھ جانے سے روکنے کے لیے کئی برآمدی پابندیاں عائد کیں، پابندیوں کے اس تازہ ترین اعلان میں 24 گروپ کے چپ بنانے کے اوزار اور تین اقسام کے چِپ ڈیزائن سافٹ وئیر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چین کی 140 نئی چِپ بنانے والی کمپنیوں پر بھی پابندی لگائی گئی۔ ان پابندیوں کی فہرست میں پرانے ازکار رفتہ چپ بنانے کی مشینیں بھی شامل ہیں۔

    واشنگٹن کے یہ اقدامات نام نہاد ”چھوٹا آنگن پر اونچی دیوار“ پالیسی کا حصہ ہیں، اس کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ کے ہاتھوں میں فیصلہ کن اختیار رہے کہ کسے اسٹریٹجک امریکی ٹیکنالوجی تک رسائی دی جائے اور کس کو آنگن میں گھُسنے نہ دیا جائے۔ اس اقدام کا اہم نتیجہ یہ ہے کہ ٹیکنو ۔ قوم پرستی نکتہ نظر سے واشنگٹن نے رسمی طور پر دنیا کی اقوام کو تین واضح گروپوں میں تقسیم کردیا ہے، بلکہ یہ اس تقسیم کی رفتار کو تیز اور مزید واضح کرنے کا اعلان تھا۔ پہلا گروپ امریکہ کے روایتی حلیف و دفاعی اتحادی ، ان تمام ممالک کو اس آنگن میں مکمل آزادانہ آمد و رفت کی اجازت ہے جن میں ، کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ، مغربی یورپ، جرمنی، فرانس، جاپان و جنوبی کوریا شامل ہیں۔ دوسرا گروپ درمیانے درجے پر جن میں مشرقی یورپ، انڈیا ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پورے جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک شامل ہیں ۔جنہیں کچھ بہتر مگر مکمل نہیں کے اصول کے تحت اس ٹیکنالوجیکل آنگن میں داخلے کی محدود و مشروط اجازت دی جاتی ہے۔ اس طرح امریکہ ان ممالک کو کاروباری اور اسٹریٹجک ٹیکنالوجی کے تعاون کے لیے بشمول آرٹی فیشل انٹیلی جنس سسٹم، ڈیٹا سینٹرز، توانائی کے انفراسٹرکچر اور فوجی و معاشی طاقت کو ضرب دینے والی (multiplier) ٹیکنالوجی پر اپنے کنٹرول کے ذریعے چین کے ساتھ ہونے والی رسّہ کشی میں اپنے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور کرے گا۔ تیسرا گروپ روس، چین، ایران و شمالی کوریا، ان ممالک کے لیے سخت ترین پابندیاں ہیں، انھیں دونوں اوّلین دونوں گروپوں سے بھی ٹیکنالوجی کے حصول پر پابندی ہے، اگر کوئی ملک انھیں ممالک کو ٹیکنالوجی ٹرانسفر کرتا ہے، تو اسے سزا دی جاتی ہے۔

    لیکن اگر ان تینوں گروپوں کے سرکاری یا نجی ادارے بھی (ڈیپ سیک کی طرح) اوپن سورس یعنی آزادانہ موجود آرٹی فیشل انٹیلی جنس کو استعمال کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں تو اس کی وجہ سے بھی دور حاضر کی ٹیکنو-قوم پرستی کی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی ہو گی، بالخصوص درمیانے (دوسرے) گروپ کے ممالک (امریکی دباؤ سے) آزادانہ فیصلے کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔

    ناقابل یقین ۔۔۔۔
    اس بات کا اتنا جلد یقین نہیں کیا جاسکتا کہ ڈیپ سیک نے واقعی یہ سب کچھ اوپن سورس کے AI سسٹم کے ذریعے ہی کیا ہے . ابتدائی طور پر امریکی پابندیوں کے نافذ ہونے سے قبل کمپنی نے 10 ہزار Nvidia کی 100A GPU AI چپ خریدی تھیں۔ ممکن ہے ان چپس نے ڈیپ سیک کے AI پروگرام میں (ڈیپ سیک کے اعتراف سے زیادہ بڑا) کردار انجام دیا ہے یا اب بھی دے رہی ہیں ۔ یا کسی اور غیر ملکی ٹیکنالوجی نے ان کے AI پروگرام میں اہم تعاون کیا جو اب تک نظروں سے اوجھل ہے۔ اس سے قبل بھی ایسا ہو چُکا ہے جب 2023 میں چینی کمپنی Huawei کی کمپنی HiSilicon اور چینی چپ بنانے والی کمپنی نے مشترکہ طور پر یہ اعلان کیا کہ انھوں نے امریکی پابندیوں کو ناکام بناتے ہوئے مکمل طور پر چینی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے Huawei کے Mate 60 اسمارٹ فون کے لیے 7 نینو میٹر کی چپ بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اس میں امریکی پابندیوں کے نفاذ سے قبل خریدی ہوئی ہالینڈ کی بنائی ہوئی ڈیپ الٹرا وائلیٹ مشین DUV استعمال کی گئی تھیں ۔

    چاہے ڈیپ سیک کا دعوی درست ہو یا نہیں ۔۔ اس کے ساتھ وہی مسائل پیش آنے ہیں جو ٹک ٹاک کے ساتھ امریکہ میں پیش آئے تھے. بطور چینی ملکیتی پلیٹ فارم ان کے بارے میں پرائیویسی نہ ہونے اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے عمل دخل اور اثرات کا خدشہ ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جس طرح ٹک ٹاک کے ساتھ کیا ، اسی طرح ڈیپ سیک کے لیے امریکی ملکیت کا مطالبہ کرسکتے ہیں، یا کسی دوسرے طریقے سے بھی رعایتیں حاصل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ ممکن ہے حالیہ اعلان شدہ 500 بلین ڈالر کے امریکی اسٹار گیٹ AI پروگرام کے تحت چینی ریسرچ میں بھی امریکی سرمایہ کاری کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ بظاہر ناممکن لگتا ہے کہ چین اس سلسلے میں امریکی یا کوئی اور دباؤ قبول کرے. ٹک ٹاک ایک کمرشل پلیٹ فارم ہے جو امریکہ میں بھی کاروبار کرتا ہے، اسے کاروباری مفاد کے طور پر دباؤ میں ڈالا جاسکتا ہے لیکن پھر بھی اس میں اب تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ جبکہ AI ایک قومی پروجیکٹ ہے، اسے کسی بھی مالی مفاد کے دباؤ میں قربان نہیں کیا جاسکتا۔

    گذشتہ روز صدر ٹرمپ نے Nvidia کے CEO جینسن ہوانگ (جو ایک تائیوانی نژاد امریکی ہیں) سے ملاقات کی جس میں ڈیپ سیک کے اعلان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ امکان ہے کہ Nvidia کی AI چِپ کی برآمدات پر مزید پاپندیاں لگائی جائیں گی تاکہ طاقتورترین کمپیوٹنگ ٹیکنالوجی میں بالادستی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں میں سے نہ نکلنے پائے۔ اس کے ساتھ ہی امریکی حکومت یقیناً اہم اسٹریٹجک ٹیکنالوجی کے اوپن سورس پلیٹ فارم سے پھیلاؤ کو بھی روکنے کی کوشش کرے گی تاکہ آئندہ کوئی ان سے فائدہ نہ اُٹھا سکے۔

    جیسا بھی ہے اب یہ بات واضح ہےکہ ڈیپ سیک نے AI کے کھیل کے قوانین تبدیل کردیے ہیں، اور اس کے ساتھ ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی سیاست کے قوانین بھی۔ دوسری طرف ڈیپ سیک نے امریکہ کو AI کے میدان میں ایک شاک یا جھٹکا تو دیا ہے لیکن جب تک چین سیمی کنڈکٹر چِپ ٹیکنالوجی میں اپنی کمزوری کا حل تلاش نہیں کرپاتا ، اس کے مکمل فوائد سے استفادہ ممکن نہیں ہو گا۔

    (اس مضمون کی تیار میں ایلیکس کیپری ۔۔ NUS بزنس اسکول اور لی کوان یو اسکول آف پبلک پالیسی ۔۔ نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے استاد اور Techno-Nationalism: How it’s Reshaping Trade, Geopolitics and Society (Wiley) کے مصنف، کئی چینل و نیوز ایشیا میں 29 جنوری 2025 کو شائع شدہ تحریر سے استفادہ کیا گیا ہے)

  • ڈیپ سیک؛ قیامت تو ہے پر کتنی بڑی –  اعظم علی

    ڈیپ سیک؛ قیامت تو ہے پر کتنی بڑی – اعظم علی

    چین کی ڈیپ سیک نے آرٹی فیشیل انٹیلی جنس کی دنیا میں زلزلہ پیدا کر دیا ہے. پوری دنیا میں ٹیکنالوجی کے اسٹاک گرنا شروع ہو گئے ہیں۔ امریکی اسٹاک ڈاؤ جونز (Dew Jones) تو 290 پوائنٹس اوپر بند ہوا لیکن S&P 500 تھوڑا 89 پوائنٹس نیچے بند ہوا ۔سب سے بڑی مار امریکی انڈکس Nasdaq نے کھائی جو 612 پوائنٹس یا تین فیصد گرا جہاں زیادہ تر ٹیکنالوجی کمپنیاں لسٹ ہیں۔ اس کے علاوہ جرمنی DAX صرف 112 پوائنٹس نیچے گرا ہے۔ Nikkei یعنی ٹوکیو بھی اس وقت 635 پوائنٹ نیچے ہے۔

    ان میں سب سے زیادہ نقصان آرٹی فیشیل انٹیلی جنس کمپنی Broadcom کو ہوا جس کے حصص 42 ڈالر یا 17.5 فیصد گرے ہیں ۔ اور NIVIDA کو ہوا جس کے حصص 24 یا 17 فیصد گرے ہیں۔ اس کے علاوہ تھوڑا بہت اثر مائیکرو سافٹ، فیس بک اور گوگل پر بھی پڑا ہے۔ لیکن کم از کم اس وقت تو بین الاقوامی اسٹاک مارکیٹس میں اس قسم کی خون کی ہولی نظر نہیں آرہی ہے، جیسا ہمارے دوست خواہش رکھتے ہیں ۔ ویسے بھی امریکی اسٹاک مارکیٹ کا کریش کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ مارکیٹ ہر کریش کے بعد دوبارہ پہلے سے طاقتور ہی ہوئی ہے۔

    اس سے پہلے کریش کی وجہ معیشت کے بڑے چیلنچز ہوتے تھے یا کوئی بڑا سانحہ۔ اس مرتبہ تو کوئی بنیادی چیلنج یا مسئلہ نہیں ہے۔ بنیادی طور پر ایک کمپنی NVIDIA کے شیئر 147 ڈالر سے 118 ڈالر پر آگئے ہیں، لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ ایک سال قبل اس کمپنی کا شیئر 61 ڈالر کا تھا۔ یہ صرف معیشت کے ایک چھوٹے سے سیکٹر کا مسئلہ ہے جس میں چپ میکر اے آئی کمپنیاں متاثر ہوں گی لیکن اے آئی تو ایک لحاظ سے ابتدائی دور میں ہے اس لیے متاثرین وہ جواری ہوں گے جنھوں نے ان اسٹاک پر پیسہ لگایا ہے۔ NVIDIA کے شیئر کی قیمت چار ماہ قبل یکم اکتوبر کو 117 ڈالر پر بند ہوئی اور آج بھی 118 ڈالر سے اوپر ہے۔ اس لحاظ صرف چند ماہ قبل شیئر خریدنے والوں کو کاغذی نقصان ضرور ہواہے لیکن تمام طویل المدت شیئر خریدنے والے منافع پر بیٹھے ہیں۔ جسے ان کمپنیوں کا مارکیٹ کیپٹل کہا جاتا ہے ۔مجموعی طور پر اس سیکٹر میں ایک ٹریلین ڈالر کی کمی آئی ہے لیکن کیا یہ حقیقی نقصان ہے یا کاغذی ۔۔۔ اس قسم کے کاغذی نقصانات صرف اور صرف ان لوگوں کے ہوتے ہیں جو گھبراہٹ میں اپنا مال فوری طور پر فروخت کردیتے ہیں۔ یہ قیامت ان لوگوں کے لیے ہے جو فوری فروخت کرکے بازار سے نکل جاتے ہیں۔۔

    دنیا کی اسٹاک مارکیٹوں میں ٹیکنالوجی کے اسٹاک نیسڈیک کے علاوہ جاپان، کوریا، تائیوان اور شنگھائی میں لسٹ ہیں۔ آج صرف جاپان کھلا ہوا تھا اور وہ 38800 پوائنٹ تک چھونے کے بعد 39064 پر بند ہوا ۔۔خوش قسمتی سے کوریا، تائیوان اور شنگھائی چینی نئے سال کی چھٹیوں کے لیے بند ہیں ۔۔ ان کے کھلنے تک گرد بڑی حدتک بیٹھ چُکی ہو گی. اسٹریٹجک انویسٹر اس صورتحال میں فروخت کرنے کے بجائے مزید خریداری کا موقع سمجھ کر استعمال کرتے ہیں کہ یہ کمپنیاں بالخصوص چپ مینوفیکچرر خلا میں نہیں ہیں کہ فوری طور پر تحلیل ہو جائیں ۔ ان کے پاس ٹیکنالوجی ہے، انفراسٹرکچر ہے۔ منافع کم زیادہ ممکن ہے۔

    اوپن آے آئی کے چیف ایگزیکٹو نے درحقیقت ڈیپ سیک کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے اچھی چیز ہے، ہمیں اپنی پروڈکٹ کو بہتر بنانے اور بہتر نتائج کے لیے مہمیز کرے گی۔ لیکن ڈاؤ جونزیا نیسڈیک ایک مخصوص کاروباری سیگمینٹ کا نام نہیں ہے۔ اس ایک کھرب ڈالر کی کمی اس کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ ویسے بھی ان میں سے اکثر کمپنیوں کے اسٹاک کی قیمتیں منافع اور ریونیو کی بنیاد پر نہیں بلکہ مفروضوں کی بنیاد پر ہوتی ہیں ۔ دوسری طرف ان اسٹاک کی قیمتوں کی گراوٹ سے ان کے شیئر ہولڈرز کی دولت میں کمی کا فوری نقصان ان شیئر ہولڈرز کو ہوتا ہے جنھوں نے ان کی بنیاد پر بینک سے قرضے لیے ہوئے ہوتے ہیں ۔ شیئر کی قیمتیں گرنے کے نتیجے میں بینک ان سے مزید رقم کا مطالبہ کرتا ہے۔ عدم ادائیگی کی صورت میں بینک ان شیئر زکو مارکیٹ میں فروخت کرتا ہے جس سے شیئر کی قیمتیں مزید گرتی ہیں۔

    جیسا بھی ہے یہ ابتدائی دن ہیں ۔ بازار میں گھبراہٹ panic کی فروخت کے بعد اگلا مرحلہ correction پھر استحکام کا بھی آتا ہے۔ مخصوص کمپنیوں کے اسٹاک ویلیو کم ہونے سے اس کے شیئر ہولڈرز کی ویلیو دولت کی مالیت کم ہوگئی لیکن یہ کاغذی نقصان ہے۔ بس اتنا ضرور ہے کہ آرٹی فیشیل انٹیلی جنس میں امریکہ کے بالادستی کو للکارنے کے لیے چین سامنے آ رہا ہے۔

    ڈاؤ جونز کی تاریخ میں اس سے بڑے بڑے سانحات گزر چُکے ہیں ۔۔۔جب بھی کوئی بڑا کریش ہوا ہے، اس کی وجہ ایک مخصوص سیکٹر نہیں، مجموعی اکنامی یا معیشت ہوتی ہے، اور اس کا تعلق گلوبل اکنامی سے ہوتا ہے ۔۔ کورونا کے دوران بھی کریش ہوا تھا ۔ اس کے علاوہ غالبا 2008 کا بینکنگ کرائسسس، جس میں کئی بینک دیوالیہ ہو گئے تھے۔

    اس وقت تو کچھ بھی نہیں ہوا ۔۔ ایک مخصوص سیکٹر کی چند کمپنیاں متاثر ہوئی ہیں ۔ ہم نے ڈاؤ جونز انڈکس ہزار ہزار پوائنٹس بھی گرتے دیکھا ہے۔ کل تو وہ انڈکس مثبت میں بند ہوا ہے۔ آج ہی دیکھ لیں اس وقت یورپ کی مار کیٹ جو کل خسارے میں تھی، اب اس سے نکل آئی ہے. جرمنی کا DAX انڈکس 112 پوائنٹس اوپر ہے ۔ لندن اسٹاک ایکسچینج بھی تھوڑا سا اوپر ۔۔ توقع ہے کہ آج نیویارک کا Nesdeq بھی مثبت کھُلے گا۔ لیکن اس کی اہمیت معاشی سے زیادہ سیاسی دیکھی جائے کہ چین نے آرٹی فیشیل انٹیلی جنس میں امریکی بالا دستی کو چلینج کردیا ہے۔ اس کے اثرات دور رس ہوں گے۔ آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی اہمیت دفاعی و دیگر ٹیکنالوجی میں بھی اہم ہے. اسی طرح اس کے اثرات انرجی سیکٹر میں کہ چینی کمپنی کے دعوے کے مطابق ان کی ٹیکنالوجی کے وجہ سے ڈیٹا سینٹر اور بعض مخصوص شعبوں میں بجلی کی کھپت انتہائی کم ہو گئی ، جس کی وجہ سے بجلی بنانے والی کمپنیوں کے پہلے سے تیار شدہ انفراسٹرکچر پر بھی فرق پڑے گا۔

    ڈیپ سیک یقیناً جھٹکا ہے۔۔ لیکن کتنا بڑا ہے؟ کم از کم ایک ہفتے انتظار کرلیں۔

  • اب کی بار ٹرمپ سرکار –  اعظم علی

    اب کی بار ٹرمپ سرکار – اعظم علی

    یہ وہ نعرہ ہے 2020 کے دورہ امریکہ میں بھارتی وزیراعظم مودی نے لگایا۔۔ اب یہی نعرہ ہمارے منصف مزاج بھائی بھی لگارہے ہیں ۔۔ کہ ان کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے شہنشاہ عالم منتخب ہوتے ہیں وہ پاکستان کا گورنر جنرل ان کے پسندیدہ لیڈر کو متعین کردیں گے۔ اور تو اور ہمارے ایک انتہائی تعلیم یافتہ و ذہین اسلامی والے دوست بھی یہی نعرہ لگاتے نظر آئے کہ ان کے خیال میں ٹرمپ کی شہنشاہی میں فلسطینیوں کے مسائل حل ہوجائیں گے۔

    اس وقت اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوجو اپنی پارلیمانی حمایت کی کمی کی وجہ سے اقتدار بچانے کی جدوجہد کررہے ہیں نیویارک ٹائمز کے ایک کالم نگار کے مطابق ان کے لئے بھی یہی راستہ ہے کہ کسی طرح آئندہ انتخابات میں کملا حارث کو شکست دیکر ٹرمپ کو منتخب کرانے کی کوشش کی جائے ۔

    یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں
    انہیں کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو

    ہرایک کے لئے اپنی پسند کا کھلونا ۔۔۔

    امریکہ کے صدارتی انتخابات چند ہفتے دور ہیں اور سابق صدر ٹرمپ کے منتخب ہونے کے امکانات روشن زیادہ محسوس ہوتے ہیں۔ لیکن پھر بھی کملا حارث کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔

    یاد رہے صدر ٹرمپ حالیہ تاریخ کے انتہائی اسرائیل نواز امریکی صدور میں شمار ہوتے تھے، اور مسلمانوں کے خلاف بھی ان کا تعصب چھُپا ہوا نہیں ہے سابقہ دور میں اُنہوں نے ایک صدارتی حکمنامے کے ذریعے چھ مسلمان ممالک ایران، شام، عراق، لیبیا، صومالیہ ، سوڈان سے کسی بھی فرد کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کی لیکن اس حکمنامے کو عدالت نے روک دیا۔

    گذشتہ سال غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد ایک تقریر میں اُنہوں نے وعدہ کیا کہ کہ دوبارہ منتخب ہونے کے بعد حماس کے حامیوں اس کے ساتھ ہی شام ، لیبیا، سومالیہ او ر یمن کے ساتھ کسی بھی ملک کے شہریوں جو امریکہ کی سلامتی کے لیے خطرہ تصور کئے جائیں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی اور اسرائیل کے خلاف احتجاج کے فلسطینیوں کے حامی شرکاء کو گرفتار کرکے ان میں سے غیرملکیوں کو امریکہ سے بے دخل کرنے کا اعلان کیا۔ بلکہ ساتھ میں ایک نظم کا تڑکا بھی لگایا جس میں غیر ملکی تارکین وطن کو زہریلے سانپوں سے تشبیہ دی گئی۔

    بلکہ یہ بھی وعدہ کیا کہ دوبارہ منتخب ہونے کے کسی بھی غیر ملکی شخص جو اسرائیل کے وجود کے حق کا قائل نہیں ہو کاامریکہ میں داخلے پر پابندی ۔۔ اور پہلے سے موجود غیر ملکی طلبا جو اینٹی سیمٹک خیالات کے حامل پائے کے ویزے منسوخ کرکے امریکہ سے نکال دیا جائے گا۔

    اسی وعدے کو گذشتہ جولائی میں مشیگن میں ایک جلوس سے خطاب کرتے ہوئے دُہرایا “ عہدہ صدارت کا حلف اُٹھاتے ہی ہم تارکین وطن کی بے دخلی کا امریکہ کی تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن کریں گے۔

    اگر جناب ٹرمپ ٹرمپ پہلی مرتبہ صدارتی انتخاب میں حصہ لے رہے ہوتے تو تھوڑی بہت خوش فہمی کا جواز سمجھ میں آیا ۔۔ لیکن چار سال میں بہت کچھ دیکھنے کے بعد بھی ۔۔۔۔یہ کئی دوسرے صدور سے زیادہ اسرائیل پرست ثابت ہوئے ۔ بلکہ دیگر امریکی صدور بل کلنٹن، اوبامہ و جو بائیڈن عمومی پرو اسرائیلی پالیسی کے باوجود کہیں نہ کہیں اسرائیل کے ساتھ سینگ بھی اڑالیتے تھیں لیکن صدر ٹرمپ جیسا اسرائیل مکمل وغیر مشروط تعاون کرنے والا امریکی صدر کم ہی آیا ہے۔

    ان کے گذشتہ دور حکومت میں مشرق وسطیٰ کے ممالک کے معاملات دیکھنے کا ذمہ دار ان کا یہودی داماد جیراڈ کشنر تھا۔ یہی وہ شخص تھا جس نے مشرق وسطی کے ممالک بالخصوص سعودی عرب و متحدہ عرب امارات میں اسرایئل کی قبولیت کے لئے رضامند کیا ۔ بلکہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے تو کشنر کی کمپنی میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کی ہے۔

    پاکستان میں اسوقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے بزنس پارٹنر کے نوجوان بیٹے علی جہانگیر کو پاکستان کا امریکہ میں سفیر متعین کیا تھا اسکے بعد 2019 میں عمران خان نے بھی اسے ایمبیسڈر ایٹ لارج کی حیثیت سے امریکہ میں صرف اس لئے متعین کیا تھا کہ کُشنر علی جہانگیر کا یونیورسٹی کا دوست تھا۔

    کشنر پاکستان و دیگر عرب ممالک کے کام تو نہیں آیا لیکن اس نے اسرائیل کے لئے مشرق وسطیٰ کے لئے قطر، عمان، متحدہ عرب امارات و سعودی عرب کے دروازے کھول دئیے ۔ بظاہر تو اگلی سرکار سے اسی عمل کا تسلسل اور نامکمل کاموں کی تکمیل کی کوشش ۔۔

    خدا سے دعا ہے کہ اگلی ٹرمپ سرکار ہم جیسے بدخواہوں کے قیاس و تعبیر کو شرمندہ ہی کرے ۔۔۔پر آثار اچھے نہیں لگتے

  • سنگاپور کے سابق وزیر مواصلات کا عدالت میں اعتراف جُرم  -اعظم علی

    سنگاپور کے سابق وزیر مواصلات کا عدالت میں اعتراف جُرم -اعظم علی

    سنگاپور کے نظام کی خوبصورتی یہی ہے کہ یہاں کے تحقیقاتی ادارے و عدالتیں اپنا کام دیانت و تیز رفتاری کے لئے مشہور ہیں ۔ اس کے نتیجے میں اگر کوئی قانون کے شکنجے میں آتا ہے ۔ چاہے کروڑ پتی ہو یا غریب وہ جانتا ہے کہ اب اس کا بچنا ناممکن ہے ۔ اس لئے عموما ًپہلی ہی سماعت پر اعتراف جرم کرکے سزا میں رعایت کی کوشش کرتا ہے ۔

    اس کے نتیجے میں عدالتوں پر مقدمات کی دباؤ میں بھی کمی ہوتی ہے۔۔ یہی کچھ سنگاپور کے سابق وزیر مواصلات ایس اسوارن Iswaran نے کیا ۔جنہیں گذشتہ سال اس وقت سنگاپور وزیراعظم نے کرپشن کی اطلاعات کے نتیجے معطل کر دیا اور ان کے خلاف کھلی تحقیقات کا حُکم دیا۔

    تحقیقات کے نتیجے میں ایس اسوارن Iswaran پر قوی شہادت ملنے کے بعد انہیں وزارت سے استعفی لیکر گرفتار کرکے فرد جُرم عائد کردی ۔ یاد رہے جدید سنگاپور کی تاریخ میں یہ دوسرا واقعہ ہے جس میں کسی وزیر کو کرپشن کی تحقیقات کا سامنا کرنا پڑا۔

    اس سے قبل 1986 میں اس وقت وزیر تعمیرات کے خلاف کرپشن کی اطلاعات ملی تھیں جس کے نتیجے میں اس وقت کے وزیراعظم لی کوان یو نے انہیں تحقیقات کی تکمیل تک کے لئے معطل کردیا تھا لیکن تحقیقات کی تکمیل کے آخری مراحل میں متعلقہ وزیر نے خود کشی کرلی تھی۔

    موجودہ صورتحال میں وزیرمواصلات ایس اسوارن Iswaran کو تحقیقات کے لیے رسمی گرفتاری کے بعد ان کا پاسپورٹ ضبط کرکے ضمانت پر رہا کردیا ہے۔ اور تحقیقات کی تکمیل کے بعد اب پر فرد جُرم عائد کردی گئی تھی۔

    فرد جُرم کے مطابق سابق وزیر پر ایک پراپرٹی ٹائیکون اور کنسٹرکشن کمپنی کے مالک سے چار لاکھ سے زیادہ مالیت کے تحائف کی وصولی کا الزام ہے۔ جن میں قیمتی تحائف تفریحی دورے ہوٹلوں میں قیام و کھانے، کے علاوہ اسپورٹس ایونٹس کے ٹکٹ شامل ہیں ۔

    عدالت کو بتایا گیا کہ اینٹی کرپشن پولیس نے اس معاملے کی تحقیقات اس وقت شروع کی جب پراپرٹی ٹائیکون کے طیارے سے دوہا جانے والے مسافروں کی فہرست ان کے ہاتھ لگی جس میں سابق وزیر کا نام بھی شامل تھا ۔ اینٹی کرپشن پولیس کے سوال کرنے پر وزیر صاحب نے تحقیقات کو بند کرانے کے لیے جہاز کے سفری اخراجات پراپرٹی ٹائیکون کو ادا کردیے لیکن تحقیقات بند نہ ہو سکیں ۔

    اس سے قبل جناب Iswaran اپنی بے گناہی پر اصرار کررہے تھے ۔۔ لیکن آج ان کے خلاف مقدمے کی سماعت کے پہلے دن ڈرامائی طور پر عدالت میں پلی بارگین کے تحت فرد جرم میں تبدیلی کے ساتھ
    رشوت ستانی کی بجائے نسبتا ہلکے جُرائم

    سرکاری حکام و عہدے داروں کے کسی بھی ایسے شخص جس سے ان کا سرکاری حیثیت سے بھی تعلق ہو قیمتی تحائف وصول کرکے کی پابندی کی خلاف ورزی ۔۔۔ اور تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش۔

    جرائم کا اعتراف جُرم کرنے کے عدالت نے انہیں مجرم قراردے دیا ہے۔ سابق وزیر نے وصول کردہ فوائد یا تحائف کی قیمت برابر 380,000 سنگاپور ڈالر سے زائد کی رقم سرکاری خزانے میں جمع کردی ہے اس کے علاوہ تحفے میں وصول کردہ قیمتی شراب کی بوتلیں، گالف کا سامان، اور قیمتی برامپٹن سائیکل پہلے ہی ضبط کی جا چُکی ہیں ۔

    اعتراف جُرم کے بعد ۔۔ استغاثہ چھ سے آٹھ ماہ کی قید کی سزا کے درخواست کررہا ہے جب کہ مجرم کے وکلاء زیادہ سے زیادہ دوماہ قید کی سزا چاہتے ہیں۔

    سزا کی مدت کا فیصلہ عدالت آئندہ ہفتے سُنائے گی۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سابق وزیر کم از کم دو ماہ کے لئے تو جیل کی یاترا کریں گے ہی۔

    ویسے یہ بیچارہ تحائف لیکر اور مفت جہاز میں سوار ہو کر جیل میں جائے گا. اور ہمارے تحائف کے نام پر توشہ خانے کی گنگا میں سب ہی نہا کر بھی پوتر رہے۔

    یہی فرق ہے اُن میں ہم میں ۔۔۔ اور ہماری حالت بھی دیکھیں تو فرق صاف ظاہر ہے۔