Author: علیشبہ فاروق

  • ٹھرک پن: ایک سماجی، نفسیاتی اور ثقافتی تجزیہ – علیشبہ فاروق

    ٹھرک پن: ایک سماجی، نفسیاتی اور ثقافتی تجزیہ – علیشبہ فاروق

    “ٹھرک پن” اب کوئی انوکھا یا اجنبی لفظ نہیں رہا۔ یہ اصطلاح ہمارے روزمرہ کے کلچر، گفتگو، میمز، اور سب سے بڑھ کر ہمارے مشاہدے کا حصہ بن چکی ہے۔ مگر اس لفظ کے پیچھے جو رویہ چھپا ہوا ہے وہ محض ایک مذاق یا طنز نہیں، بلکہ کئی معاشرتی، نفسیاتی اور اخلاقی مسائل کی گہرائیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔

    “ٹھرک پن” اُس رویے کو کہتے ہیں جس میں کوئی فرد، خاص طور پر مرد، غیر ضروری اور اکثر نامناسب انداز میں اپنی جنسی دلچسپی یا توجہ کا اظہار کرتا ہے۔ یہ اظہار کھلی نظروں سے گھورنے سے لے کر سوشل میڈیا پر فضول کمنٹس، یا نجی پیغامات میں غیر اخلاقی باتوں تک ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ سب باتیں تب تک ایک نظریہ لگتی ہیں، جب تک ہم اپنے آس پاس جھانک کر نہ دیکھیں اور یقین کیجیے، ہم سب نے اپنی زندگی میں کئی “ٹھرکی” کرداروں کا سامنا ضرور کیا ہے۔
    اکثر یونیورسٹیوں میں ایسے اساتذہ دیکھے جاتے ہیں جو اپنے علم یا عہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لڑکیوں کے ساتھ “زیادہ دوستانہ” رویہ رکھتے ہیں۔

    مثلاً، کسی طالبہ کو کلاس کے بعد روک کر “پروجیکٹ میں مدد” کی آفر، یا بار بار واٹس ایپ پر “تم ٹھیک ہو؟” جیسے بے وجہ میسجز۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو کلاس میں سب کے سامنے سخت اور بااخلاق نظر آتے ہیں، مگر نجی سطح پر ان کی زبان اور نظریں کچھ اور ہی پیغام دے رہی ہوتی ہیں۔ یہ ٹھرک پن عام طور پر “علمی رعب”، “عمر کا فرق” یا “باپ جیسا” ہونے کے پردے میں چھپا رہتا ہے مگر طالبات کے لیے یہ کسی ذہنی اذیت سے کم نہیں۔ کپڑوں یا جوتوں کی خریداری کے دوران بازاروں میں دکاندار حضرات اکثر ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے کوئی چیز نہیں بلکہ شکار دیکھ رہے ہوں۔

    یہ رویہ تب اور عجیب لگتا ہے جب وہ زبردستی کوئی چیز دکھانے کے بہانے قریب آنے کی کوشش کرتے ہیں یا عورتوں کے ساتھ “بے وجہ نرمی” سے بات کرتے ہیں، جو اصل میں خوش اخلاقی نہیں بلکہ واضح بدنظری ہوتی ہے۔ اکثر خواتین دکان سے کچھ لیے بغیر صرف اس وجہ سے نکل جاتی ہیں کہ “نظر کا انداز ہی عجیب تھا۔” سوشل میڈیا پر خاص طور پر فیس بک یا انسٹاگرام پر وہ “کزن” یا “پرانا اسکول فیلو” اچانک انباکس میں ظاہر ہوتا ہے جس سے برسوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ پیغام شروع ہوتا ہے:

    “ہیلو… یاد ہو؟”، اور پھر چند میسجز بعد آتا ہے:
    “ویسے اب بہت خوبصورت لگتی ہو…”
    یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو تعلقات کے پردے میں “قربت” کے خواہاں ہوتے ہیں، اور جذباتی کمزوری کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

    بدقسمتی سے ایسے “روحانی افراد” بھی دیکھنے میں آئے ہیں جو “دعاؤں”، “تعویذ”، یا “روحانی علاج” کے بہانے خواتین سے رابطے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ زبان سے پاکیزگی کی باتیں کرتے ہیں، لیکن نگاہ اور نیت کچھ اور ہی ہوتی ہے۔
    یہ ٹھرک پن سب سے خطرناک ہوتا ہے کیونکہ یہ مذہب، اعتماد اور کمزور لمحوں کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ کچھ تو ایسے انکل ہوتے ہیں جو شادی، ولیمہ، یا خاندانی تقریب میں ہر نوجوان لڑکی پر “نظر رکھے” ہوتے ہیں۔ ان کا انداز گفتگو، بار بار قریب آنا، یا تصویریں کھنچوانے کا بہانہ سب کچھ کچھ نہ کچھ غیر ضروری ہوتا ہے۔ گھر کی عورتیں جانتی ہیں کہ انکل کی آنکھیں کتنی “چالاک” ہیں، مگر اکثر چپ رہتی ہیں تاکہ “محفل خراب نہ ہو”۔

    کچھ تو ایسے حضرات ہیں جو خواتین کی تصاویر پر کمنٹ کرتے ہیں:
    “اسلام میں پردہ ضروری ہے”
    مگر انہی کی لائک لسٹ میں درجنوں ماڈلز یا اداکاراؤں کی تصاویر موجود ہوتی ہیں۔ یہ منافقانہ ٹھرک پن صرف نیت کا نہیں، بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن کی نشانی ہے۔

    ٹھرک پن” کا مزاق اڑانا یا میمز بنانا شاید وقتی ہنسی کا سبب بنے، لیکن یہ رویہ خواتین کے لیے ذہنی دباؤ، خوف، اور بے چینی کی وجہ بنتا ہے۔ ہمیں اس رویے کو صرف “مردانہ فطرت” کہہ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس پر کھل کر بات کرنے، تعلیم دینے، اور تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ تبھی ہم ایک ایسا معاشرہ بنا سکتے ہیں جہاں “نظر” صرف نظر ہو، “بات” صرف بات ہو، اور “رشتہ” صرف رشتہ۔

  • نگورنو کاراباخ تنازع:  یوریشیائی خطے کے لیے اثرات – علیشبہ فاروق

    نگورنو کاراباخ تنازع: یوریشیائی خطے کے لیے اثرات – علیشبہ فاروق

    نگورنو-کاراباخ کا تنازعہ جنوبی قفقاز کا سب سے پرانا اور پیچیدہ تنازعہ ہے۔ یہ علاقائی اور نسلی بنیادوں پر آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جاری ہے۔ اس تحقیق میں اس تنازعے کی تاریخ، علاقائی امن پر اثرات، اور عالمی طاقتوں کی شمولیت کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

    روس، ترکی، اور ایران کے کردار کے ساتھ ساتھ امریکہ اور یورپی یونین کی کوششوں کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ یہ تنازعہ ترقیاتی منصوبوں، سڑکوں، بجلی کی ترسیل اور علاقائی تعاون پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ تحقیق حقیقت پسندانہ نظریے (Realism) پر مبنی ہے جس کے مطابق ریاستیں اپنے مفادات اور طاقت کے لیے اقدامات کرتی ہیں۔

    تحقیقاتی سوالات:
    • امریکہ اور یورپی یونین نے امن مذاکرات میں کیا کردار ادا کیا؟
    • ایران، ترکی اور روس کے اسٹریٹجک مفادات نے اس تنازعے پر کیا اثر ڈالا؟

    ادب کا جائزہ:
    مختلف اسکالرز نے اس بات پر زور دیا کہ آرساخ (نگورنو-کاراباخ) کی حالت جنگ کی وجہ سے بگڑ گئی ہے، کیونکہ وہ آرمینیا پر دفاع، سیاست اور معیشت میں بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ 2020 کی جنگ میں آذربائیجان نے علاقہ واپس لے کر آرمینیائی کنٹرول کو چیلنج کیا۔ ایران، ترکی، اور روس کے مفادات اور مداخلت اس تنازع کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں.

    تحقیقی خلا:
    زیادہ تر مطالعات عالمی طاقتوں کی شمولیت کا ذکر کرتی ہیں لیکن وہ امریکہ اور یورپی یونین کی سفارتی کوششوں کے اثرات پر کم روشنی ڈالتی ہیں۔ اسی طرح، ایران، روس، اور ترکی کی حکمت عملیوں کے نتائج پر بھی تفصیلی تحقیق کم ہے۔

    تحقیقی مقاصد:
    • نگورنو-کاراباخ میں امریکہ اور یورپی یونین کی امن کوششوں کا تجزیہ کرنا۔
    • ایران، ترکی اور روس کے مفادات کے اس تنازع پر اثرات کا مطالعہ کرنا۔

    تحقیق کا طریقہ کار:
    اس تحقیق میں معیاری طریقہ کار (Qualitative Methodology) استعمال کیا گیا ہے، جس میں کتابیں، تحقیقی مضامین، کیس اسٹڈیز، اور امن معاہدوں کا تجزیہ کیا گیا۔ تحقیق حقیقت پسند نظریہ (Realist Theory) پر مبنی ہے، جس کے مطابق ریاستیں اپنے مفاد، طاقت اور تحفظ کے لیے اقدامات کرتی ہیں۔

    مسئلے کا بیان:
    نگورنو-کاراباخ کا تنازعہ سوویت یونین کے بعد کا ایک اہم اور اب تک حل نہ ہونے والا علاقائی جھگڑا ہے۔ کئی جنگ بندیوں اور مذاکرات کے باوجود، یہ خطہ مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے، جو نہ صرف آرمینیا اور آذربائیجان بلکہ پورے یوریشیائی خطے کے لیے خطرہ ہے۔

    آرمینیا اور آذربائیجان کا کردار:
    • آرمینیا نے سوویت یونین کے بعد کاراباخ کو اپنی خودمختاری کا حصہ مانا۔
    • روس کی فوجی مدد پر انحصار کیا، لیکن 2020 کی جنگ میں شکست کھائی۔
    • علاقائی تنہائی کی وجہ سے اقتصادی بحران کا سامنا رہا۔
    • 2020 میں علاقہ واپس حاصل کیا
    • ترکی کی فوجی حمایت
    • توانائی وسائل سے طاقت حاصل کی

    عالمی طاقتوں کی شمولیت:
    • روس: ثالثی کرتا رہا، دونوں فریقوں کو اسلحہ فراہم کرتا رہا۔
    • ترکی: آذربائیجان کی کھلم کھلا حمایت کی، ڈرون اور فوجی امداد فراہم کی۔
    • ایران: آرمینیا کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتا ہے، لیکن علاقائی سلامتی پر فکر مند ہے۔
    • اسرائیل: آذربائیجان کو جدید ہتھیار فراہم کرتا ہے۔
    • جارجیا: آذربائیجان کے ساتھ اتحاد میں ہے، علاقائی امن کے لیے نکتہ نظر اپناتا ہے۔

    تنظیموں پر اثرات:
    • روسی اتحاد جیسے CSTO اور EEU پر عوامی اعتماد کم ہوا۔
    • ایران اور جارجیا کو سرحدی اور تجارتی مسائل درپیش آئے۔
    • ترکی اور یورپی یونین کے لیے توانائی منصوبے خطرے میں پڑ گئے۔

    نتائج و تجزیہ:
    تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تنازعہ علاقائی یکجہتی، تجارتی ترقی اور توانائی کے تعاون کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ بڑی طاقتیں اپنے مفادات کی بنیاد پر مداخلت کرتی ہیں، جس سے امن کی کوششیں پیچیدہ ہو جاتی ہیں۔ نگورنو-کاراباخ کا تنازعہ ایک تاریخی، نسلی، اور جغرافیائی مسئلہ ہے جس میں عالمی طاقتوں کے مفادات شامل ہو چکے ہیں۔ حقیقی امن صرف اسی وقت ممکن ہے جب سب فریق اعتماد سازی، پائیدار مذاکرات اور مشترکہ ترقی کو ترجیح دیں۔

  • لبرلزم: بین الاقوامی تعلقات میں تعاون اور امن کا نظریہ – علیشبہ فاروق

    لبرلزم: بین الاقوامی تعلقات میں تعاون اور امن کا نظریہ – علیشبہ فاروق

    لبرلزم بین الاقوامی تعلقات میں ایک اہم نظریاتی نقطہ نظر ہے۔ جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ اقوام کے درمیان تعاون ،امن اور ترقی ممکن ہے۔ یہ نظریہ حقیقت پسندی کے برعکس زیادہ پر امید ہے، اور یہ مانتا ہے کہ انسان اور ریاستیں محض طاقت اور مفادات کے تابع نہیں ہیں، بلکہ باہمی انحصار ادارے اور اخلاقی اقدار بھی بین الاقوامی تعلقات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    لبرلزم کے مطابق ہر فرد کو اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے اور ریاست کا کام ان حقوق کی حفاظت کرنا ہے، یہی اصول بین الاقوامی سیاست پر بھی لاگو ہوتا ہے، جہاں وہ قوموں کے درمیان تعلقات کو صرف طاقت کی کوئی بنیاد پر نہیں بلکہ باہمی انحصار اور ادارہ جاتی تعاون کے ذریعے منظم کیا جا سکتا ہے۔لبرل مفکرین کا ماننا ہے کہ ریاستیں صرف طاقت کے ذریعے نہیں بلکہ تعاون کے ذریعے بھی اپنے مسائل حل کر سکتی ہیں۔ اقوام متحدہ (UN)، عالمی تجارتی تنظیم (WTO)، اور یورپی یونین (EU) جیسے عالمی ادارے اس بات کا ثبوت ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات میں تعاون ممکن ہے اور اس سے جنگوں کے امکانات کم کیے جا سکتے ہیں۔

    لبرل نظریے کے تحت بین الاقوامی تنظیمیں تنازعات کو پرامن طریقوں سے حل کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ تاہم، بعض اوقات فوجی کارروائی بھی ضروری ہو جاتی ہے، جیسا کہ خلیجی جنگ میں ہوا۔ 1990 میں عراق نے کویت پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے عراق کے خلاف سخت قراردادیں منظور کیں۔ جب سفارت کاری ناکام ہوئی، تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک بین الاقوامی اتحاد کی منظوری دی ۔جس نے عراق کو 1991 میں کویت سے باہر نکال دیا ۔

    لبرلزم کے مطابق تمام افراد کو قانون کے سامنے برابر سمجھنا چاہیے۔ ہر شخص کو بنیادی حقوق حاصل ہونے چاہیے، جیسے آزادی، اظہار مذہب اور تحفظ۔ لبرلزم ایک متنازعہ فلسفہ ہے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک اچھا فلسفہ ہے، جو انفرادی حقوق اور آزادی کی حفاظت کرتا ہے ۔مگر کچھ کا خیال یہ ہے کہ یہ ایک برا فلسفہ ہے، جو معاشرے کو تقسیم کرتا ہے اور عدم مساوات کو بڑھاتا ہے۔لبرلزم پر تنقید حقیقت پسندی کے مفکرین نے کی، جن کا یہ کہنا ہے کہ لبرلزم بہت زیادہ پرامید ہے ۔ یہ نظر انداز کرتا ہے کہ ریاستیں اکثر اپنے قومی مفادات کے مطابق عمل کرتی ہیں۔

    مجموعی طور پر، لبرلزم بین الاقوامی تعلقات میں ایک ایسا نظریہ پیش کرتا ہے جو تعاون، امن، اور ادارہ جاتی استحکام پر زور دیتا ہے۔ یہ تصور کرتا ہے کہ اقوام باہمی تعلقات، تجارت، جمہوریت، اور قوانین کے ذریعے تنازعات کو کم کر سکتی ہیں۔ اگرچہ اس نظریے کو بعض حلقوں سے تنقید کا سامنا ہے، لیکن یہ آج بھی بین الاقوامی سیاست کے ایک اہم فریم ورک کے طور پر جانا جاتا ہے، جو عالمی سطح پر تعاون اور ترقی کے امکانات کو اجاگر کرتا ہے۔

  • گھر کی چھوٹی بیٹی – علیشبہ فاروق

    گھر کی چھوٹی بیٹی – علیشبہ فاروق

    گھر کی چھوٹی بیٹی۔۔۔ یہ صرف ایک رشتہ نہیں، ایک احساس ہے۔ ایک مکمل دنیا، جو خاموشی سے سانس لیتی ہے۔ جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہنس پڑتی ہے اور بڑی بڑی تکلیفیں چپ چاپ سہہ جاتی ہے۔ اس کی حیثیت اکثر سب کی آنکھوں میں “چھوٹی” ہی رہ جاتی ہے، لیکن دل کا بوجھ شاید سب سے زیادہ اسی کے پاس ہوتا ہے۔

    وہ سب کی باتیں سنتی ہے۔ ماں کی تھکن، باپ کی فکر، بہن بھائیوں کی پریشانیاں… وہ سب محسوس کرتی ہے۔ لیکن جب اس کے دل میں درد ہوتا ہے، تو کوئی نہیں پوچھتا کہ “تم کیوں اداس ہو؟” وہ اکثر کچھ کہنا چاہتی ہے، بہت کچھ… لیکن پھر رک جاتی ہے۔ شاید اسے لگتا ہے کہ کوئی سنے گا ہی نہیں، یا شاید اس کی بات کو اہمیت نہیں دی جائے گی۔

    چھوٹی بیٹی کے بھی خواب ہوتے ہیں۔ وہ بھی کچھ بننا چاہتی ہے، کچھ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ مگر اکثر وہ خواب کمرے کی دیواروں سے ٹکرا کر واپس آ جاتے ہیں۔ اس کی خواہشیں اکثر قربان ہو جاتی ہیں بڑے بہن بھائیوں کی ضروریات پر، یا گھر کے حالات پر۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ “تم کیا چاہتی ہو؟” شاید سب نے مان لیا ہے کہ وہ تو بس خوش ہی رہتی ہے… حالانکہ وہ سب سے زیادہ روئی ہوتی ہے، چپ چپ کر۔

    جب ہر بات پر کہا جائے “تم ابھی چھوٹی ہو”، “تمہیں کیا پتا؟”، یا “تم رہنے دو”… تو آہستہ آہستہ ایک بیٹی خود کو غیر ضروری محسوس کرنے لگتی ہے۔ وہ خود کو بوجھ سمجھنے لگتی ہے۔ وہ جسے سب “گھر کی رونق” کہتے ہیں، خود کو اُس گھر میں اجنبی محسوس کرنے لگتی ہے۔

    سب کے ہوتے ہوئے بھی وہ تنہا ہوتی ہے۔ سب کے ہنستے چہروں کے بیچ وہ چپ چاپ بیٹھ جاتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ کوئی اس کے پاس بیٹھ کر اس سے بات کرے، اس کی باتوں کو سنے، اسے سمجھے۔ لیکن جب ایسا کوئی نہ ہو، تو وہ اپنی باتیں اپنے دل میں دفن کر لیتی ہے۔ ہر دن ایک خاموش جنگ ہوتی ہے، جس میں وہ جیت بھی جاتی ہے، اور ٹوٹ بھی جاتی ہے۔

    چھوٹی بیٹی بے حد محبت کرتی ہے—ماں سے، باپ سے، بہن بھائیوں سے، یہاں تک کہ گھر کی دیواروں سے بھی۔ وہ ان کے لیے دعائیں مانگتی ہے، ان کی ہر خوشی میں شامل ہوتی ہے۔ لیکن وہ اپنے دل کی محبت کبھی جتاتی نہیں۔ کیونکہ وہ جانتی ہے، اس کی محبت کو لفظوں کی ضرورت نہیں… مگر پھر بھی دل میں ایک خلا سا رہ جاتا ہے، جیسے کوئی کبھی اس کی محبت کو محسوس ہی نہیں کر سکا۔

    جب گھر میں پیسے کم ہوں، وہ اپنی خواہش چھوڑ دیتی ہے۔ جب کوئی ناراض ہو، وہ سب سے پہلے منانے چلی جاتی ہے۔ جب کسی کو سہارا چاہیے ہو، وہ سب کچھ چھوڑ کر اس کے پاس بیٹھ جاتی ہے۔ چھوٹی بیٹی شاید سب سے بڑی قربانی دیتی ہے، بغیر شکایت کیے۔

    وہ چھوٹی بیٹی، جو روز خود کو چھپا کر جیتی ہے، اصل میں سب کے لیے ایک دعا ہوتی ہے۔ وہ جسے سب نظرانداز کر دیتے ہیں، وہی سب کے لیے راتوں کو جاگ کر دعائیں مانگتی ہے۔ وہ خود بھوکی رہ سکتی ہے، پر ماں کے لیے چپکے سے کھانا رکھ دیتی ہے۔ وہ خود رو سکتی ہے، پر باپ کے آنسو چھپانے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ بہن بھائیوں کی کامیابی پر سب سے زیادہ خوش ہوتی ہے، چاہے اُس کا اپنا دل ٹوٹ رہا ہو۔.

    گھر کی چھوٹی بیٹی ایک خاموش چراغ ہے، جو جلتا ہے تاکہ دوسروں کو روشنی ملے۔ وہ روشنی، جو خود کو جلا کر پیدا کی جاتی ہے۔ اُسے کمزور نہ سمجھیں، کیونکہ وہی سب سے مضبوط ہے۔ اُس کی خاموشی کو نظرانداز نہ کریں، اُس میں کئی کہانیاں چھپی ہوتی ہیں۔ اور اُس کے خوابوں کو پہچانیں، شاید وہی خواب آپ کے گھر کو نئی روشنی دے دیں۔

    اللہ ہر گھر کو ایسی چھوٹی بیٹی عطا کرے، اور اُسے وہ محبت، اہمیت، اور عزت دے جو وہ دل سے مستحق ہے۔

  • پاکستان میں فیمینزم کی حقیقت – علیشبہ فاروق

    پاکستان میں فیمینزم کی حقیقت – علیشبہ فاروق

    فیمینزم، ایک ایسا سماجی نظریہ جو دنیا بھر میں صنفی مساوات کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کی جدوجہد کر رہا ہے، آج پاکستان میں بھی فکری و سماجی مباحث کا ایک اہم موضوع بن چکا ہے۔ تاہم، سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی معاشرے میں فیمینزم واقعی خواتین کی خودمختاری، آزادی اور بااختیاری کا ذریعہ بن رہا ہے، یا یہ محض ایک مخصوص طبقے کا بیانیہ ہے جو زمینی حقائق سے کٹا ہوا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں فیمینزم کے نظریاتی پس منظر، پاکستانی معاشرتی ڈھانچے، اس تحریک کے اثرات اور اس پر اٹھنے والی تنقید کا تفصیلی تجزیہ کرنا ہوگا۔

    فیمینزم: نظریاتی بنیاد اور عالمی تناظر
    فیمینزم محض ایک تحریک نہیں، بلکہ ایک فکری ارتقاء ہے جو مختلف ادوار میں مختلف نظریاتی جہتوں سے گزرا ہے:
    • لبرل فیمینزم: قانونی و سیاسی برابری پر زور دیتا ہے۔
    • ریڈیکل فیمینزم: معاشرتی اداروں کو صنفی جبر کا منبع سمجھتا ہے۔
    • سوشلسٹ/مارکسسٹ فیمینزم: معاشی ڈھانچے کو جبر کی جڑ قرار دیتا ہے۔
    • اسلامی فیمینزم: مساوات کو اسلامی اصولوں کی روشنی میں بیان کرتا ہے۔

    پاکستان میں یہ تمام رجحانات کسی نہ کسی حد تک موجود ہیں، لیکن ان میں سب سے زیادہ واضح تضاد “اسلامی روایت” اور “جدید مغربی فہم” کے بیچ ابھرتا ہے، جو اس مباحثے کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ پاکستانی معاشرت میں فیمینزم کی ابتدا اور ارتقاء
    پاکستان میں فیمینزم کا آغاز محض ایک مغربی تصور کی نقل سے نہیں ہوا۔ اس کی جڑیں ان سماجی تحریکوں میں بھی پیوست ہیں جو:
    • خواتین کی تعلیم کے فروغ کے لیے میدان میں آئیں (بیگم رقیہ سخیوات، فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خان)
    • ضیاء الحق کے دور آمریت میں خواتین کے خلاف قوانین کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بنیں.
    بعد ازاں، 2000 کی دہائی کے بعد سوشل میڈیا کی آمد نے فیمینزم کے بیانیے کو ایک نئی جہت دی، لیکن اسی کے ساتھ غلط فہمیوں، سادہ بیانیوں اور نظریاتی شدت پسندی نے اس تحریک کو کئی سوالات کی زد میں بھی لا دیا۔

    حقیقی امپاورمنٹ: فیمینزم کی مثبت جہات
    اگر ہم فیمینزم کو اس کی عملی جدوجہد کے تناظر میں پرکھیں، تو یہ تحریک کئی حوالوں سے خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے مثبت اثرات مرتب کر چکی ہے:۲۔ تعلیمی اور معاشی خودمختاری
    • لڑکیوں کی اسکول اور کالج تک رسائی میں بہتری.
    • اسکالرشپ پروگرامز، ٹیکنیکل ٹریننگ، ووکیشنل سکلز.
    • خواتین کی کارپوریٹ سیکٹر اور انٹرپرینیورشپ میں شمولیت۔

    سماجی بیداری
    • جنسی ہراسانی، کم عمری کی شادی، تولیدی صحت، اور ذہنی صحت جیسے موضوعات اب پبلک ڈسکورس کا حصہ بنے ہیں۔

    خواتین کی آواز کی نمائندگی
    • میڈیا، سیاست، اور سول سوسائٹی میں خواتین کی شرکت بڑھی ہے۔
    • پارلیمنٹ میں مخصوص نشستوں سے خواتین کی شمولیت میں اضافہ ہوا، حالانکہ ان کی قوتِ اثر اب بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔

    تنقید: جب نظریہ محض بیانیہ بن جائے
    فیمینزم پر ہونے والی تنقید کو یکسر نظر انداز کرنا نہ دانشمندی ہے اور نہ انصاف۔ درج ذیل پہلوؤں پر فکری سوالات جنم لیتے ہیں:
    مغربی ایجنڈے کا تاثر
    • بعض حلقے فیمینزم کو خاندانی نظام اور مذہبی اقدار کے خلاف سازش کے طور پر دیکھتے ہیں۔
    • اسلامی معاشرت میں “حقوق و فرائض” کا توازن فیمینزم کے مغربی ورژن سے مختلف ہے، جس سے تہذیبی تصادم پیدا ہوتا ہے۔

    شہری و دیہی تقسیم
    • دیہی علاقوں میں خواتین کو پانی، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں، جبکہ فیمینزم کا بیشتر بیانیہ شہری مسائل پر مرتکز ہے۔

    سوشل میڈیا ایکٹیوزم کا سطحی پن
    • “میرا جسم میری مرضی” جیسے نعرے جذباتی اثر ضرور ڈالتے ہیں لیکن گہرائی سے خالی بیانیے تحریک کو نظریاتی انتشار میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

    ریڈیکل عناصر کی موجودگی
    • بعض گروہ فیمینزم کی آڑ میں صنفی منافرت یا مرد دشمنی کو فروغ دیتے ہیں، جو فیمینزم کی اصل روح — مساوات — سے انحراف ہے۔

    ضرورت کس چیز کی ہے؟
    • نظریاتی بیلنس: فیمینزم کو اسلام اور ثقافت کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے، جیسا کہ اسلامی فیمینزم کی مثالیں پیش کرتی ہیں۔
    • پالیسی اصلاحات: قانون سازی کے ساتھ ساتھ عمل درآمد کے میکنزم کو مضبوط کیا جائے۔
    • انکلوسیو ڈسکورس: فیمینزم کو دیہی، اقلیتی اور محروم طبقات کے تجربات سے جوڑا جائے۔
    • ادارہ جاتی تبدیلی: صرف شعور کافی نہیں؛ تعلیم، صحت، انصاف، اور معیشت کے ادارے خواتین کی ضروریات کے مطابق ڈھالے جائیں۔

    نتیجہ: بیانیہ یا بیداری؟
    پاکستان میں فیمینزم ایک دو دھاری تلوار ہے: اگر سنجیدہ فکری اور عملی بنیادوں پر استوار کیا جائے تو یہ خواتین کی حقیقی بااختیاری کا مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ محض نعرہ بازی، سوشل میڈیا کی مہمات، اور شہری اشرافیہ کا ڈسکورس بن جائے تو یہ اپنی معنویت کھو بیٹھتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سماجی تحریکیں صرف نظریے سے نہیں بلکہ طویل المدتی پالیسی، ادارہ جاتی اصلاحات، اور زمینی عمل سے کامیاب ہوتی ہیں۔ فیمینزم بھی اسی اصول سے مشروط ہے۔

  • انسانیت زندہ ہے  – علیشبہ فاروق

    انسانیت زندہ ہے – علیشبہ فاروق

    یہ کہانی صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ انسانیت کی اصل تصویر ہے—ایک ایسا جذبہ جو ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتا ہے۔ مگر جب ہم اپنے گرد و پیش نظر دوڑاتے ہیں، تو کیا واقعی ہمیں یہ جذبہ دکھائی دیتا ہے، یا یہ محض کتابوں اور تقریروں تک محدود ہو چکا ہے؟

    علی، جو ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا، روزانہ دفتر سے واپسی پر ایک بزرگ کو ایک ہی جگہ بیٹھے دیکھتا تھا۔ وہ میلی کچیلی چادر اوڑھے، خاموشی سے راہ گزرتے لوگوں کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے، مگر سب انہیں نظر انداز کرکے گزر جاتے۔ علی بھی باقی سب کی طرح بے توجہی برتتا، مگر ایک دن شدید بارش میں اس نے ان بزرگ کو وہیں بھیگتے دیکھا۔ قدم بے اختیار رک گئے، دل میں ایک خیال بیدار ہوا—”یہ بھی انسان ہیں، انہیں بھی ضرورت ہوگی۔”

    علی فوراً قریب کی دکان سے ایک کمبل اور کھانے پینے کا سامان لے آیا۔ جب اس نے بزرگ کے لرزتے وجود پر کمبل ڈال کر کھانے کو ان کے سامنے رکھا، تو ان کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ وہ لرزتی آواز میں دعائیں دینے لگے، جیسے برسوں سے کسی کے سائے کو ترسے ہوں۔ علی ان کے پاس بیٹھا، ان کا ساتھ دیا، ان کے ساتھ کھانا کھایا۔

    کھانے کے بعد علی نے جھجکتے ہوئے پوچھا، “بابا جی، میں روز آپ کو یہاں بیٹھے دیکھتا ہوں۔ آپ ہمیشہ یہیں کیوں رہتے ہیں؟”
    بزرگ نے گہری سانس لی، نگاہیں آسمان کی طرف اٹھائیں، اور پھر ایک تلخ مسکراہٹ کے ساتھ بولے:
    “بیٹا، میں بھی کسی زمانے میں ایک خوشحال زندگی گزارتا تھا۔ محنت سے کماتا تھا، عزت سے جیتا تھا۔ میرا ایک چھوٹا سا گھر تھا، جہاں میری بیوی اور دو بیٹیاں ہنسی خوشی رہتی تھیں۔ سب کچھ تھا—سکون، عزت، خوشحالی—مگر پھر تقدیر نے ایسا کھیل کھیلا کہ سب ہاتھوں سے ریت کی مانند پھسل گیا۔ ایک دن کاروبار تباہ ہوگیا۔ جنہیں اپنا سمجھتا تھا، وہ وقت کے ساتھ بدل گئے۔ قرض کے بوجھ نے کمر توڑ دی، اور پھر… میرے اپنے ہی گھر والوں نے مجھ سے منہ موڑ لیا۔ میری وہ بیٹیاں، جنہیں نازوں سے پالا تھا، بے یار و مددگار رہ گئیں۔ بیوی نے بھی ساتھ چھوڑ دیا۔ کہتی تھی کہ ایک بے سہارا شخص کے ساتھ زندگی گزارنا اس کے بس کی بات نہیں۔ آج میں یہاں اس راہ گزر پر بیٹھا ہوں، جہاں روز ہزاروں لوگ گزرتے ہیں، مگر کوئی میری طرف دیکھتا بھی نہیں۔ ہر کوئی اپنی دنیا میں مگن ہے۔ مگر مجھے کسی سے شکوہ نہیں، شاید یہی میری قسمت تھی۔”

    یہ کہتے ہوئے بزرگ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ علی کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔ اس کا دل پکار اٹھا کہ دنیا کتنی ظالم ہے، جہاں انسان کی پہچان اس کے پاس موجود دولت سے کی جاتی ہے، نہ کہ اس کے کردار اور انسانیت سے۔
    علی نے بزرگ کا ہاتھ تھاما اور نرمی سے کہا:
    “بابا جی، آپ اکیلے نہیں ہیں۔ میں ہوں نا! میں روز آپ کے پاس آؤں گا، آپ کے ساتھ بیٹھوں گا، آپ کی مدد کروں گا۔”
    بزرگ نے علی کی طرف دیکھا، اور پہلی بار ان کے چہرے پر ایک نرم سی مسکراہٹ ابھری۔ لرزتے ہاتھ علی کے سر پر رکھ کر بولے:
    “بیٹا، تم جیسے لوگوں کی بدولت ہی انسانیت ابھی باقی ہے۔ اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے۔”
    اس دن کے بعد، علی روز ان کے پاس بیٹھنے لگا، ان کی باتیں سنتا، ان کی مدد کرتا۔ اس نے جان لیا تھا کہ انسانیت محض الفاظ میں نہیں، بلکہ عمل میں پنہاں ہوتی ہے۔
    یہ دنیا عجب بےحسی کی مثال ہے،
    جہاں سچ کی ہر بات ہوتی نِہال ہے۔
    یہاں خواب ہر روز بکتے رہے،
    یہاں لوگ قیمت پہ چلتے رہے۔
    یہاں درد کی کوئی سنتا نہیں،
    یہاں ظلم کی حد بھی رُکتی نہیں۔
    یہاں دولت کی حرص لالچی بن گئی،
    یہاں عزت بھی اب بےوقعت سی ہو گئی۔
    یہاں ظلمت کی راہیں سجائی گئیں،
    یہاں اُلفت کی شمعیں بجھائی گئیں۔
    یہاں رشتے فقط بوجھ ڈھوتے رہے،
    یہاں دل کے زخم اور سوتے رہے۔
    یہاں زندہ تو سب ہیں، پر بے جان ہیں،
    یہاں انساں تو ہیں، پر بے ایمان ہیں۔

  • کیا بیٹی کا کوئی گھر نہیں ہوتا؟ – علیشبہ فاروق

    کیا بیٹی کا کوئی گھر نہیں ہوتا؟ – علیشبہ فاروق

    کیا بیٹی کا کوئی گھر نہیں ہوتا؟ کیا واقعی کوئی گھر اپنا ہوتا ہے؟ وہ گھر جہاں ہم نے آنکھ کھولی، پہلا قدم اٹھایا، ہنسی بکھیری، اور زندگی کے معصوم ترین لمحات گزارے—کیا وہ صرف ایک عارضی پڑاؤ تھا؟ کیا وہ در و دیوار، جن سے ہماری ہنسی اور رونے کی آوازیں وابستہ تھیں، ایک دن ہمارے لیے پرائے ہو جاتے ہیں؟

    شادی کے ایک دن پہلے، آمنہ کی ماں نے اس کے ہاتھ میں اس کا شادی کا جوڑا، زیورات اور چوڑیاں تھما دیں۔ چہرے پر خوشی کے باوجود آنکھوں میں ایک انجانی اداسی تھی۔
    “یہ لو بیٹا، کل تمھیں پہننا ہے”
    ماں کی آواز میں شفقت تھی، مگر آمنہ کے دل میں ایک عجیب سی بےچینی اتر آئی۔ یہ لمحہ اس کے لیے آخری تھا جب وہ اپنی ماں کے دیے ہوئے کپڑے پہن رہی تھی، کیونکہ اگلے دن وہ کسی اور نام سے پکاری جائے گی، کسی اور گھر کی ہو جائے گی، اور کسی اور رسم و رواج میں ڈھلنے کی کوشش کرے گی۔

    “کیا وہ گھر واقعی میرا ہوگا؟ کیا میں وہاں اپنائیت محسوس کر پاؤں گی؟”

    شادی کا دن آ پہنچا۔ رخصتی کا لمحہ آیا تو ماں کی آنکھوں میں نمی تھی، باپ کی خاموشی بوجھل تھی، اور بہن بھائیوں کا شرارت بھرا انداز اب عجیب سا لگا۔ سب کچھ ایک لمحے میں بدل گیا۔

    سسرال پہنچی تو ساس نے محبت سے کہا
    “بیٹا، یہ تمہارا کمرہ ہے۔”
    آمنہ نے چاروں طرف نظر دوڑائی—سب کچھ نیا، سب کچھ خوبصورت، مگر سب کچھ اجنبی۔ سسرال کے سب لوگ اچھے تھے، محبت کرنے والے تھے، مگر اس کے باوجود وہ اپنے اندر ایک خلا محسوس کر رہی تھی۔ ہر بات ناپ تول کر کہنی تھی، ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا تھا، ہر عمل کو صحیح ثابت کرنا تھا۔

    سسر نے نرمی سے کہا
    “بیٹا، اب تم اس گھر کی بہو ہو، ہماری عزت کا خیال رکھنا۔”
    ان کے لہجے میں محبت بھی تھی، مگر ذمہ داری کا بوجھ بھی۔

    دن گزرتے گئے، مگر آمنہ کے دل میں وہی بےچینی تھی۔ ایک دن اس نے ہمت کی اور ساس سے میکے جانے کی اجازت طلب کی۔ ساس مسکرائیں اور بولیں،
    “بیٹا، میکے کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں، مگر وہاں ہمیشہ رہا نہیں جاتا۔”
    خیر وہ میکے رہنے کو آ گئی۔ ماں کے دروازہ کھولتے ہی آمنہ کو گلے لگا لیا، باپ نے سر پر ہاتھ رکھا، بہن بھائیوں نے چھیڑنا شروع کر دیا۔ سب کچھ وہی تھا، مگر کچھ بدل چکا تھا۔

    وہ کمرے جہاں کبھی وہ بےفکری سے گھومتی تھی، اب اسے اجنبی لگ رہے تھے۔ ماں نے پوچھا،
    “بیٹا، سسرال میں خوش تو ہو نا؟”
    آمنہ نے مسکرا کر کہا
    “جی امی، بہت خوش ہوں۔”
    مگر ماں کی آنکھوں میں سوالات تھے، باپ کے دل میں فکر تھی، اور بہن بھائی جان چکے تھے کہ اب وہ پہلے والی آمنہ نہیں رہی۔
    کیا واقعی وہ گھر اب اس کا نہیں تھا؟ کیا وہ سسرال کو اپنا پائے گی؟

    میکے میں چند دن گزارنے کے بعد وہ سسرال واپس آ گئی، مگر اب دل میں ایک عجیب سا احساس تھا۔ نہ میکہ پہلے جیسا رہا تھا، نہ سسرال اپنا لگا۔ وہ ایک ایسے پل پر کھڑی تھی، جہاں نہ پیچھے جانا ممکن تھا، نہ آگے کا راستہ اپنا لگ رہا تھا۔
    رات کے سناٹے میں چھت پر جا کر آسمان کو دیکھنے لگی۔ ستارے چمک رہے تھے—قریب ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے جداتھے۔
    آمنہ نے سوچا، “یہ گھر، یہ لوگ، یہ رشتے سب میرے پاس ہیں، مگر کیا میں بھی ان کی ہوں؟”
    یہ سوال شاید ہر لڑکی کے دل میں اٹھتا ہے، مگر اس کا جواب کبھی نہیں ملتا۔

  • ماحولیاتی تبدیلیاں، ہم کیا کریں – علیشبہ فاروق

    ماحولیاتی تبدیلیاں، ہم کیا کریں – علیشبہ فاروق

    دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث درجہ حرارت میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، اور سائنس دانوں نے ایسا کہا ہے کہ زمین کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی تباہی سے بچانے کے لیے اقدامات اٹھانے لازم ہو چکے ہیں۔ ماحولیاتی آگاہی سے مراد وہ شعور ہے جو افراد اور معاشرے کو ماحول کی حفاظت اور اس کے استحکام کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی دراصل ہوتی کیا ہے ؟
    کسی ایک علاقے کی اب و ہوا اس کے کئی سالوں کے موسم کا اوسط ہوتی ہے ماحولیاتی تبدیلی اس اوسط میں تبدیلی کو کہتے ہیں ۔

    انسان اپنی ضروریات پوری کرتے ہوۓ فطرت سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ ہماری زمین اب بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے اور عالمی درجہ حرارت بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ آب و ہوا میں تو ہمیشہ سے قدرتی تغیرات ہی ہوتے ہیں لیکن انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے اب عالمی درجہ حرارت بھر رہا ہے ،اور ہماری زمین بہت بری طرح سے متاثر ہو رہی ہے۔ ماضی میں تو لوگ تیل ،گیس اور کوئلے کا استعمال کرتے تھے۔ تب سے دنیا میں تقریباً 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرمی ہوئی ہے ۔ان سب کا استعمال بجلی کے کار خانوں، ٹرانسپورٹ اور گھروں کو گرم کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ فضا میں ایک گرین ہاؤس گیس جو کاربن ڈائی اکسائیڈ ہے اس کی مقدار 19سویں صدی کے بعد سے تقریباً 50 فیصد اور گزشتہ دو دہائیوں سے اس میں 12 فیصد مزید اضافہ ہو چکا ہے ۔گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کی وجہ جنگلات کی کٹائی، درختوں کا نہ اگانا، درختوں کو جلایا جانا یہ سب تو عام ہو چکا ہے۔ ان میں کاربن کا ذخیرہ ہوتا ہے۔ اور جب درخت نہیں ہوں گے تو اس کا اخراج تو ممکن ہو گا ہی۔

    ہر سال 3 مارچ کو جنگلی حیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔اس دن کا مقصد دنیا بھر میں جنگلی جانوروں اور پودوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا اور ان کے تحفظ کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ یہ دن 2013 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے طے کیا گیا تھا اور اس کا مقصد جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر کوششیں کرنا ہے۔ بد قسمتی سے جنگلی حیات کو اج بہت سے خطرات کا سامنا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے لیے جلسوں ،جلوسوں ،مذاکروں، مظاہروں اور کانفرنسوں سے زیادہ مستقل بنیادوں پر موسمیاتی تبدیلی کی تعلیم دینا بہت ضروری ہے ۔تاکہ تمام شعبہ جات میں کام کرنے والے اپنے ہنر اور تجربے کو حاصل کر تعلیم سے ہم آہنگ کر کے ہر سرگرمی کو موسمیاتی تقاضوں کے مطابق بنا سکیں۔ ہم سب جنگلی حیات کے تحفظ میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے گھروں کے اس پاس کے ماحول کو صاف رکھیں، جنگلات کی کٹائی کو روک کر اور غیر قانونی شکار کی حوصلہ شکنی کر کے جنگلی حیات کی مدد کریں۔

    اگر ہم مستقبل کی بات کریں تو سیاسی دانوں نے درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافے کو گلو بل وارمنگ کے لیے محفوظ حد مقرر کیا ہے۔ اگر درجہ حرارت زیادہ ہو جائے تو قدرتی ماحول میں نقصان دہ تبدیلیاں انسانوں کی طرز زندگی کو تبدیل کریں گی۔ بہت سے سائنس دانوں کا یہ خیال ہے کہ اگر ایسا ہو گیا تو صدی کے اختتام تک 3 ڈگری سینٹی گریڈ یا اس سے زیادہ کہ اضافے کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے ۔دنیا کے مختلف ممالک سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ایسے اہداف اپنائیں جو ان کے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو اس صدی کے وسط تک سفر تک لے جائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی اخراج مساوی مقدار جذب کر کے متوازن ہو جاۓ گا۔ مثال کے طور پر درخت لگانے کے ذرائع زیادہ کیے جائیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سفر کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ یا سائیکل کا استعمال کر کے گاڑیوں پر انحصار کو کم کریں ،اپنے گھروں کو انسولیٹ کریں، ہوائی سفر کم کریں، پلاسٹک کے کم سے کم استعمال کو یقینی بنائیں۔

    ماحولیاتی تبدیلی اور بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو بھی سخت ماحولیاتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس اپنی پاک عرض سرزمین کو ماحولیاتی تحفظ فراہم کریں اور اس کے استحکام کے لیے جنگلات کا تحفظ بھی کریں۔ صحت مند اور قدرتی ماحول برقرار رکھنے کے لیے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا ضروری ہو گا۔ فضائی آلودگی کے علاوہ صاف پانی کی عدم دستیابی شہریوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ عوام کو صاف پانی فراہم کیا جاۓ جس کی وجہ سے وہ بیماریوں سے بھی بچ سکیں۔

    ایک صحت مند ماحول ہماری صحت اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے درخت لگانے کی مہم کو جاری و ساری رکھنا چاہیے تاکہ آنے والے وقت میں ہم اس ماحولیاتی آلودگی اور ماحولیاتی مشکلات کو ختم کر سکیں۔ ماحولیاتی آگاہی آج کے دور میں ناگزیر ہے، کیونکہ یہ نہ صرف ہمارے حال بلکہ مستقبل کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اگر ہم ابھی سے مؤثر اقدامات نہیں کریں گے تو ہماری آئندہ نسلوں کو ایک بگڑا ہوا ماحول ملے گا۔ ہم اپنی اگلی نسلوں کے لیے ایک صحت مند اور پائدار سیارہ چھوڑنے کے ذمہ دار ہیں۔ ماحولیاتی آگاہی ہمیں ایسے اقدامات کرنے کی ترغیب دیتی ہے جو ہمارے سیارے کے مستقبل کو محفوظ بنائیں ۔ اس لیے ہر فرد، معاشرہ، حکومت اور بین الاقو امی تنظیموں کو ماحول کی حفاظت کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ زمین کو ایک محفوظ اور بہتر جگہ بنایا جا سکے۔

  • بچوں میں بڑھتا ہوا جارحانہ رویہ –  علیشبہ فاروق

    بچوں میں بڑھتا ہوا جارحانہ رویہ – علیشبہ فاروق

    اولاد اللہ تعالی کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے اور اس کی بہترین پرورش کرنا والدین کا اولین فرض ہے۔ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد نہ صرف ایک کامیاب انسان بنے ،بلکہ معاشرے کے لیے بھی ایک کرامت انسان ثابت ہو۔

    بعض اوقات بچوں کی تربیت کے دوران والدین بچوں کے کچھ روئیوں سے نالاں نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں میں جارحانہ رویہ جنم لیتا ہے ۔جس کی وجہ نے بد مزاجی، زبانی اور جسمانی جارحیت کا مظاہرہ ،چڑچڑا پن اور اپنے اوپر قابو نہ پانا اور بے چینی جیسی کیفیت شامل ہوتی ہیں۔ ان پیچیدہ روئیوں کی وجہ سے بچوں کے اندر پریشانی اور ڈپریشن بھی پایا جاتا ہے ۔ایسے بچے کسی بھی سرگرمی میں خوش نظر نہیں آتے۔ ان میں عزت نفس کی کمی ہو جاتی ہے کچھ بچوں میں بھوک اور نیند بھی متاثر نظر آتی ہے۔ اگر پیچیدہ رویے زیادہ شدت اختیار کر لیں تو بچوں کے ذہن میں خود کشی جیسے خیالات بھی ظاہر ہونے لگتے ہیں۔

    بچوں میں جارحانہ رویے کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں۔ جن میں ذہنی صحت کے مسائل نمایاں ہیں۔ اگر بچہ مستقل طور پر غصہ کرتا ہے ،چیزیں توڑتا ہے ،مار پیٹ کرتا ہے یا بد زبانی کرتا ہے تو اس کے پیچھے بھی عوامل ہو سکتے ہیں۔ تعلیمی دباؤ ،گھریلو مسائل، یا والدین کی لڑائی جھگڑے بچوں میں ذہنی تناؤ پیدا کرتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ اگر بچے کو پیار، توجہ یا تسلی نہ ملے تو وہ اپنے جذبات کو جارحیت کے ذریعے ظاہر کرتا ہے ۔اگر بچہ ایک ایسے ماحول میں پرورش پا رہا ہے جہاں تشدد عام ہے تو وہ بھی اس کو اپنانے لگتا ہے ،اور اس کو اپنے مسائل کا حل صرف اور صرف تشدد کے ذریعے حل کرنا ہی نظر آتا ہے ۔اس کی وجہ سے ڈپریشن، انیگزائٹی اور دیگر ذہنی بیماریاں بھی بچوں میں شامل ہو سکتی ہیں۔

    ان سب کے ساتھ ساتھ والدین اپنے بہت سے معاشی مسائل میں گھرے ہوتے ہیں ۔بچوں میں ایسے رویہ اختیار کرنے کی ایک وجہ ان کے سماجی مسائل بھی ہو سکتے ہیں۔ جب بچے دوسرے بچوں کو اپنی ضروریات اور خواہشات کو پورا کرتے دیکھتے ہیں تو وہ بھی اپنے والدین سے تقاضا کرتے ہیں کہ ان کی خواہشات کو پورا کیا جائے ۔لیکن جب والدین اپنی معاشی تنگی کی وجہ سے ان کی خواہشات کو پورا نہیں کر پاتے تو بچہ بد مزاجی، غصے اور چڑ چڑے پن کا شکار ہو جاتا ہے۔والدین کی پریشانی بچوں میں بھی منتقل ہوتی ہے، اور وہ ذہنی و جسمانی دباؤ میں آ جاتے ہیں ۔والدین اور بچوں کے درمیان تعلقات بھی خراب ہو سکتے ہیں کیونکہ حد سے زیادہ فکر بچوں کو باغی بنا دیتی ہے۔

    والدین اکثر اپنے بچوں کے مستقبل کی وجہ سے فکر مند رہتے ہیں، لیکن اگر ان کی یہ فکر حد سے زیادہ بڑھ جائے تو ان کو بھی ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے، جو ان کی زندگی پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو سمجھیں اور ان سے کھل کر بات کرنے کی کوشش کریں، تاکہ بچوں میں سے جارحیت جیسے رویے کا خاتمہ کر سکیں۔ بچوں میں جذباتی توازن پیدا کرنے کے لیے ان کی مثبت سرگرمیوں میں شمولیت ضروری ہوتی ہے۔ والدین کو اپنے ذہنی دباؤ کو کم کرنے کے لیے ایسی سرگرمیاں اختیار کرنی چاہیے جن کی وجہ سے ان کا ذہنی دباؤ ختم ہو جائے ۔جیسے ان کو ورزش ،عبادت وغیرہ کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لینا چاہیے۔ بچوں کے اس رویے کو قابو میں رکھنے کے لیے انہیں پیار اور سمجھداری سے سمجھانا چاہیے نہ کہ ان کے ساتھ سختی سے پیش آنا چاہیے، کیوں کہ سختی کرنے سے اکثر اوقات بچوں میں مختلف اور چیزیں جنم لے لیتی ہیں ۔

    اگر والدین کا اپنے بچوں کے ساتھ سنجیدگی سے پیش آنے کے باوجود اور ان کو ایک پرسکون ماحول فراہم کرنے کے باوجود ،ان کے بچے میں سے جارحیت جیسی عادت کا خاتمہ نہیں ہو رہا تو والدین کو چاہیے کہ وہ بہترین ماہر نفسیات سے مدد لیں ،تاکہ ان کا بچہ ان کی اولاد اور وہ خود بھی ایک پرسکون زندگی جی سکیں۔

  • کیرئیر کونسلنگ کی کمی کے باعث درپیش چیلنجز – علیشبہ فاروق

    کیرئیر کونسلنگ کی کمی کے باعث درپیش چیلنجز – علیشبہ فاروق

    تعلیم کا بنیادی مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ ایک کامیاب کیریئر کی راہ ہموار کرنا بھی ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے ہم جس طرح کے تعلیمی نظام میں رہ رہے ہیں، وہاں کیریئر کونسلنگ پر خاصی توجہ نہیں دی جاتی۔ جس کی وجہ سے طلبہ اکثر غیر یقینی کا شکار رہتے ہیں، اور ان میں خود اعتمادی کی کمی بھی پائی جانے لگتی ہے۔ جو طلبہ کو اپنی صلاحیتوں کو بہتر طور پر استعمال کرنے سے روکتی ہے، اور ان مسائل کے باعث طلبہ کو مستقبل میں بے شمار چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    اگر ہم ان مسائل پر قابو پا لیں تو مستقبل میں طلبہ کو مختلف چیلنجز کا سامنا نہیں کرنا پڑے ۔کیریئر کونسلنگ کا مقصد طلبہ کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے اور ان کے دلچسپی کے شعبوں میں ترقی کے مواقع بھی فراہم کرنا ہوتا ہے ،لیکن بد قسمتی سے ہمارے تعلیمی اداروں میں کیریئر کونسلنگ کا نظام یا تو موجود ہی نہیں ہے یا اگر ہے بھی تو بہت کمزور ہے۔ اس کے نتیجے میں ایسا ہوتا ہے کہ طلبہ غلط شعبوں کا انتخاب کر لیتے ہیں جو ان کی صلاحیتوں اور دلچسپیوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ تعلیمی میدان میں کامیابی کے باوجود بچوں کو عملی زندگی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ روز گار کے محدود مواقع اور بڑھتی ہوئی مسابقت کی وجہ سے طلبہ میں بے چینی اور عدم اطمینان پیدا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ان کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طلبہ اکثر والدین کے یا اساتذہ کے دباؤ میں آ کر ایسے کیریئر کا انتخاب کر لیتے ہیں جن میں ان کی دلچسپی یا صلاحیت نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ سے عدم اطمینان ،مایوسی اور ناکامی کا احساس طلبہ میں پیدا ہو جاتا ہے۔ کیریر کونسلنگ کی کمی کی وجہ سے طلبہ کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ مستقبل کے کیریئر کے لیے کون سی مہارتیں ضروری ہیں، اس لیے وہ ان مہارتوں کو حاصل کرنے کے لیے ضروری اقدامات نہیں اٹھاتے۔ جس سے ان کی ملازمت کے مواقع بھی کم ہو جاتے ہیں۔

    خود اعتمادی تو کسی بھی افراد کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن ہمارے تعلیمی نظام میں ایسے مواقع کم ہی فراہم کیے جاتے ہیں جو طلبہ میں خود اعتمادی کو فروغ دیں اور اس کے نتیجے میں ایسا ہوتا ہے کہ طلبہ اپنی صلاحیتوں پر شک کرنے لگتے ہیں اور چیلنجز کا سامنا کرنے سے گھبرانے لگتے ہیں ۔ان میں فیصلہ سازی کی صلاحیت بہت کمزور ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ صحیح وقت پر درست فیصلے نہیں کر پاتے۔ عملی زندگی میں بھی ان کا رویہ غیر فعال ہو جاتا ہے اور وہ دوسروں پر انحصار کرنے لگتے ہیں،دوسروں پر انحصار کرنے سے انسان خود کی قابلیت کو بہت پیچھے چھوڑ دیتا ہے ۔

    کیریئر کونسلنگ اور خود اعتمادی کی کمی کی وجہ سے طلبہ کے مستقبل پر بہت منفی اثرات ڈلتے ہیں اور ان کو بہت مختلف چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جیسا کہ اگر طلبہ کو اپنے دلچسپی کے شعبے میں صحیح رہنمائی نہ ملے تو وہ ایسے شعبے کا انتخاب کر لیتا ہے، جہاں مواقع محدود ہوں اور اس کو کوئی دلچسپی بھی نہ ہو۔ جب مواقع محدود ہوں گے تو بے روز گاری میں بھی اضافہ ہو گا عالمی سطح پر مسابقت میں اضافہ ہو رہا ہے اگر طلبہ میں خود اعتمادی اور پیشاورانہ مہارت نہ ہو تو وہ دوسروں سے پیچھے رہ سکتے ہیں۔ اس لیے طلبہ کو ایسے مواقع بھی فراہم کرنے چاہیے جہاں پر وہ پیشاورانہ صورت میں عالمی سطح پر ترقی کر سکیں۔ آج کل طلبہ کو عالمی سطح پر بھی مسابقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے انہیں نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقو امی سطح پر بھی ملازمت کے مواقع کے لیے مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ کیریئر کونسلنگ اور خود اعتمادی طلبہ کو اس مسابقت میں کامیاب ہونے کے لیے ضروری اوزار فراہم کر سکتے ہیں۔

    کیریئر سے متعلق غلط فیصلے مستقبل میں ناکامی اور مالی عدم استحکام کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ جب طلبہ اپنے کیریئر میں ناکامی کا سامنا کرتے ہیں تو ان میں مایوسی، ذہنی دباؤ اور ڈپریشن بھی بڑھ سکتا ہے۔ جو ان کی مجموعی زندگی پر بھی اثر ڈالتا ہے۔

    طلبہ ہی ہماری قوم کا مستقبل ہیں اس لیے تعلیمی اداروں میں کیریئر کونسلنگ کے خصوصی سیشنز کا انعقاد کرنا بہت ضروری ہے ۔تاکہ طلبہ کو ان کے کیریئر کے بارے میں درست معلومات فراہم کی جا سکیں ۔طلبہ کی ذہنی نشوونما کے لیے انہیں تقریری مقابلوں، گروپ ڈسکشنز اور قائدانہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے والے پروگرامز میں بھی شامل کیا جا ۓ۔ اساتذہ والدین کو بھی اس بات کی تربیت دی جا ۓ کہ وہ طلبہ کو اعتماد دیں اور ان کو سمجھائیں اور ان کے دلچسپیوں کو سمجھتے ہوۓ ان کی رہنمائی کریں۔ اگر ہم ان سب مسائل کا حل تلاش کر لیتے ہیں اور ان کے ممکنہ حل پر کام کرتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ آنے والی نسلیں ان مسائل سے نہ گزرے جن سے آج کل ہم گزر رہے ہیں۔

    کیریئر کونسلنگ اور خود اعتمادی کی کمی طلبہ کے تعلیمی اور پیشاورانہ مستقبل کے لیے ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، اگر اس پر بر وقت توجہ نہ دی گئی تو یہ نہ صرف انفرادی سطح پر بلکہ قومی سطح پر بھی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ تعلیمی ادارے والدین اور معاشرہ مل کر طلبہ کی رہنمائی کریں، تاکہ وہ اپنے کیریئر کے درست فیصلے کر سکیں اور خود اعتمادی کے ساتھ زندگی کے چیلنجز کا سامنا بھی کر سکیں۔اگر اساتذہ ،معاشرہ اور والدین مل کر ان سب مسائل پر کام کریں تو طلبہ کو ایک روشن مستقبل کی طرف گامزن کر سکتے ہیں۔

    (علیشبہ فاروق فیڈرل اردو یونیورسٹی آف آرٹس، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، اسلام آباد کی طالبہ ہیں)