“ٹھرک پن” اب کوئی انوکھا یا اجنبی لفظ نہیں رہا۔ یہ اصطلاح ہمارے روزمرہ کے کلچر، گفتگو، میمز، اور سب سے بڑھ کر ہمارے مشاہدے کا حصہ بن چکی ہے۔ مگر اس لفظ کے پیچھے جو رویہ چھپا ہوا ہے وہ محض ایک مذاق یا طنز نہیں، بلکہ کئی معاشرتی، نفسیاتی اور اخلاقی مسائل کی گہرائیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
“ٹھرک پن” اُس رویے کو کہتے ہیں جس میں کوئی فرد، خاص طور پر مرد، غیر ضروری اور اکثر نامناسب انداز میں اپنی جنسی دلچسپی یا توجہ کا اظہار کرتا ہے۔ یہ اظہار کھلی نظروں سے گھورنے سے لے کر سوشل میڈیا پر فضول کمنٹس، یا نجی پیغامات میں غیر اخلاقی باتوں تک ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ سب باتیں تب تک ایک نظریہ لگتی ہیں، جب تک ہم اپنے آس پاس جھانک کر نہ دیکھیں اور یقین کیجیے، ہم سب نے اپنی زندگی میں کئی “ٹھرکی” کرداروں کا سامنا ضرور کیا ہے۔
اکثر یونیورسٹیوں میں ایسے اساتذہ دیکھے جاتے ہیں جو اپنے علم یا عہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لڑکیوں کے ساتھ “زیادہ دوستانہ” رویہ رکھتے ہیں۔
مثلاً، کسی طالبہ کو کلاس کے بعد روک کر “پروجیکٹ میں مدد” کی آفر، یا بار بار واٹس ایپ پر “تم ٹھیک ہو؟” جیسے بے وجہ میسجز۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو کلاس میں سب کے سامنے سخت اور بااخلاق نظر آتے ہیں، مگر نجی سطح پر ان کی زبان اور نظریں کچھ اور ہی پیغام دے رہی ہوتی ہیں۔ یہ ٹھرک پن عام طور پر “علمی رعب”، “عمر کا فرق” یا “باپ جیسا” ہونے کے پردے میں چھپا رہتا ہے مگر طالبات کے لیے یہ کسی ذہنی اذیت سے کم نہیں۔ کپڑوں یا جوتوں کی خریداری کے دوران بازاروں میں دکاندار حضرات اکثر ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے کوئی چیز نہیں بلکہ شکار دیکھ رہے ہوں۔
یہ رویہ تب اور عجیب لگتا ہے جب وہ زبردستی کوئی چیز دکھانے کے بہانے قریب آنے کی کوشش کرتے ہیں یا عورتوں کے ساتھ “بے وجہ نرمی” سے بات کرتے ہیں، جو اصل میں خوش اخلاقی نہیں بلکہ واضح بدنظری ہوتی ہے۔ اکثر خواتین دکان سے کچھ لیے بغیر صرف اس وجہ سے نکل جاتی ہیں کہ “نظر کا انداز ہی عجیب تھا۔” سوشل میڈیا پر خاص طور پر فیس بک یا انسٹاگرام پر وہ “کزن” یا “پرانا اسکول فیلو” اچانک انباکس میں ظاہر ہوتا ہے جس سے برسوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ پیغام شروع ہوتا ہے:
“ہیلو… یاد ہو؟”، اور پھر چند میسجز بعد آتا ہے:
“ویسے اب بہت خوبصورت لگتی ہو…”
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو تعلقات کے پردے میں “قربت” کے خواہاں ہوتے ہیں، اور جذباتی کمزوری کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
بدقسمتی سے ایسے “روحانی افراد” بھی دیکھنے میں آئے ہیں جو “دعاؤں”، “تعویذ”، یا “روحانی علاج” کے بہانے خواتین سے رابطے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ زبان سے پاکیزگی کی باتیں کرتے ہیں، لیکن نگاہ اور نیت کچھ اور ہی ہوتی ہے۔
یہ ٹھرک پن سب سے خطرناک ہوتا ہے کیونکہ یہ مذہب، اعتماد اور کمزور لمحوں کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ کچھ تو ایسے انکل ہوتے ہیں جو شادی، ولیمہ، یا خاندانی تقریب میں ہر نوجوان لڑکی پر “نظر رکھے” ہوتے ہیں۔ ان کا انداز گفتگو، بار بار قریب آنا، یا تصویریں کھنچوانے کا بہانہ سب کچھ کچھ نہ کچھ غیر ضروری ہوتا ہے۔ گھر کی عورتیں جانتی ہیں کہ انکل کی آنکھیں کتنی “چالاک” ہیں، مگر اکثر چپ رہتی ہیں تاکہ “محفل خراب نہ ہو”۔
کچھ تو ایسے حضرات ہیں جو خواتین کی تصاویر پر کمنٹ کرتے ہیں:
“اسلام میں پردہ ضروری ہے”
مگر انہی کی لائک لسٹ میں درجنوں ماڈلز یا اداکاراؤں کی تصاویر موجود ہوتی ہیں۔ یہ منافقانہ ٹھرک پن صرف نیت کا نہیں، بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن کی نشانی ہے۔
ٹھرک پن” کا مزاق اڑانا یا میمز بنانا شاید وقتی ہنسی کا سبب بنے، لیکن یہ رویہ خواتین کے لیے ذہنی دباؤ، خوف، اور بے چینی کی وجہ بنتا ہے۔ ہمیں اس رویے کو صرف “مردانہ فطرت” کہہ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس پر کھل کر بات کرنے، تعلیم دینے، اور تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ تبھی ہم ایک ایسا معاشرہ بنا سکتے ہیں جہاں “نظر” صرف نظر ہو، “بات” صرف بات ہو، اور “رشتہ” صرف رشتہ۔









