حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ میںنے اللہ کو اپنے ارادے پورے نہ ہونے سے پہچانا۔۔ میںکوئی کام کرنے کا ارادہ کرتا ہوںاور وہ اللہ اس کو پورا نہیںہونے دیتا۔۔
روز مرہ زندگی میںہم بہت سے ارادے کرتے ہیں جن میںسے کچھ پورے ہو جاتے ہیںاور کچھ شدید خواہش اور اسباب کی دستیابی کے باوجود پورے نہیںہو پاتے۔۔ اب یہ اس مالک کی حکمتیں ہیںوہی بہتر جانتا ہے کہ کونسا کام ہمارے لئے کس وقت ہونا بہتر ہے اور کونسا نہ ہونا۔
اس ماہ فروری میں ارادہ کیا کہ مسز کے ساتھ عمرہ کی سعادت حاصل کی جائے اور اس بار جاتے ہوئے دبئی کی تین دن سیر بھی کر لی جائے۔ فروری میںہی دبئی کا ویزہ لگوا لیا، ٹکٹ کنفرم کروا لی۔۔ 13 مارچ کو دبئی جانے کا پلان بنا پھر وہاںسے 16 کو جدہ جانے کا اور 2 اپریل کو واپسی طے ہوئی۔ عمرہ ویزہ بھی لگ گیا یہ کہہ لیںساری تیاریاں مکمل تھیں کہ اچانک 26 فروری کی صبح مسز کے سینے اور دونوں بازوؤں میںدرد ہونے لگی۔ یہ درد اتنی شدید تھی کہ برداشت سے باہر۔۔ فوری طور پر چھوٹے بیٹے کو ساتھ لیا گاڑی نکالی اور ایمرجنسی میںقریب ترین ہسپتال جو کہ تقریباً 20 کلومیٹر دور تھا وہاںلے گئے۔ انہوں نے کچھ گولیاں اور انجیکشن لگائے ای سی جی کی اور کارڈیالوجی سنٹر جانے کو کہا۔ وہاںسے کارڈیالوجی سنٹر جاتے جاتے درد ٹھیک ہو گیا۔ کارڈیالوجی سنٹر پہنچے تو انہوں نے مزید گولیاںاور انجیکشن دے دیئے اور دوبارہ ای سی جی کروانے کو کہا۔ ای سی جی کروا کے پھر ڈاکٹر کے پاس گئے تو ہمیںبتایا گیا کہ ای سی جی ٹھیک ہے دل کا کوئی مسئلہ نہیںویسے کو ئی گیس وغیرہ کی وجہ سے درد ہوا ہو گا ۔۔ اس ساری کارگزاری میںتین چار گھنٹے لگ گئے طبیعت کیونکہ سنبھل چکی تھی تو ہم گھر واپس آ گئے۔۔
دو روز بالکل ٹھیک ٹھاک گزرے۔ پھر یکم مارچ کی صبح فجر کے لئے اٹھے تو دوبارہ وہی درد شروع ہو گیا۔ پھر گاڑی میںڈالا اور اسی ہسپتال لے گئے جہاں دو روز قبل لے کر گے تھے۔ انہوںنے انجیکشن لگایا جو بجائے وین میںلگنے کے باہر ہاتھ کی جلد کے نیچے پھیل گیا۔ بظاہر تو یہ ایک بلنڈر تھا ہمیںانجیکشن لگانے والے پر غصہ بھی بہت آیا لیکن دراصل اس میںبھی ہمارے لئے خیر ہی تھی۔ درد مسلسل ہو رہا تھا ہم وہاںسے نکلے اور پھر کارڈیالوجی سنٹر چلے گئے۔۔ وہاںڈاکٹر نے پھر ای سی جی کروانے کو کہا۔ ای سی جی رپورٹ دیکھتے ہی ڈاکٹر نے فوری طور پر آئی سی یو ایڈمٹ کرنے کے لئے ریفر کر دیا تب ہمیں پتہ چلا کہ یہ ہارٹ اٹیک کا درد ہے۔ اگر پہلے ہسپتال والا انجیکشن درست لگ جاتا تو شاید درد رکنے پر ہم واپس گھر چلے جاتے لیکن یہ اللہ کا کرم ہی تھا کہ اس نے ہمارا رخکارڈیالوجی سنٹر کی طرف مڑوا دیا۔ آئی سی یو میںخون پتلا کرنے والا انجیکشن لگایا گیا اور طبعیت سنبھل گئی پھر وارڈمیںشفٹ کر دیا اگلے روز اینجیوگرافی ہوئی اور سٹنٹ ڈالنا تجویز کیا گیا۔ اسی روز ہسپتا ل سے ڈسچارج ہوئے کہ سٹنٹ کے بارے سوچ سمجھ کر فیصلہ کریںگے۔ اگلے روز ایک ہارٹسپیشلسٹ کو چیک کروایا انہوںنے ڈھیر ساری دوائیاںلکھ دیں اور سٹنٹ ڈلوانے کا ہی مشورہ دیا۔ ہم نے انہیںعمرہ پلان کا بتایا تو انہوںنے کہا کہ اگر پلان بن چکا ہے تو چلے جائیں دوائیاںساتھ لے جائیں اللہ خیر کرے گا۔
اس ساری صورتحال میںہم کافی ڈبل مائنڈڈ رہے کہ جائیںیا ابھی رک جائیں بالآخر روانگی سے تین دن قبل شیڈول کے مطابق جانے کا پلان ہی فائنل ہوا۔ 13 مارچ کی شام فیصل آباد سے دبئی روانہ ہو گئے سفر خیر خیریت سے طے ہوا۔۔ دبئی ائرپورٹ سے میرے بہت ہی اچھے دوست اور موبی لنک دور کے کولیگ اور ملتان ہاسٹل کے میرے روم میٹ سعدی رحمان جو آج کل دبئی میںجاب کرتے ہیں ، نے ہمیںریسیو کیا اور بھابھی انعم کے ہاتھ سے بنے بہت لذیذ اور شاندار ڈنر سے ہماری تواضع کی۔۔پھر ہم نے اگلے روز کے پلان پر ڈسکس کیا کہ اس مختصر وقت میں کہاںکہاںگھوما پھرا جاسکتا ہے کچھ دیر گپ شپ کے بعد سعدی نے ہمیںہوٹل ڈراپ کیا۔ ہوٹل پہنچ کر نمازیںادا کیں اور سو گئے۔ صبح فجر کے وقت اٹھتے ہی مسز کے سینے اور بازوؤں میں وہی درد دوبارہ شروع ہو گئی۔ ایک دم میںبہت زیادہ پریشان ہو گیا کہ یا الہٰی کیا بنے گا اب۔۔ دیار غیر ہے اور پھر آگے کا سفر ہے ابھی تو آدھے راستے میں ہیں۔۔ پھر دل کا مسئلہ ہے ۔۔ ا ب کیا بنے گا۔۔ خیر ہلکا سا ناشتہ کروا کے دوائی دی۔۔ درد کی صورت میں جو کیپسول ڈاکٹر نے کھول کر منہ میںچوسنے کو کہاتھا وہ ایک کی بجائے تین بھی دے دیئے لیکن کوئی فرق محسوس نہ ہوا۔
اب پریشانی میںاضافہ ہونے لگا۔۔ سعدی رحمان کو فون کیا کہ یہ مسئلہ بن گیا ہے اب کیا کریں۔۔ مسز کے کزن بھی دبئی میںہی ہوتے ہیںانکو بھی فون کیا انہوں نے مشورہ دیا کہ ہوٹل کی ریسیپشن پر بتا کر ایمرجنسی ایمبولینس منگوائیں۔
پانچ سے سات منٹ میںایمبولینس آ گئی۔ عملے نے فوری ای سی جی کی آکسیجن لگائی اور ہسپتال شفٹ کرنے کو کہا۔ اگلے دس منٹ میںہم دبئی ہسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچ گئے فوری طور پر آئی سی یو میںایڈمٹ کیا گیا اور ٹریٹمنٹ شروع کر دی گئی۔ ہسپتال کا عملہ اتنا خیال رکھنے والا اور کیئرنگ تھا کہ مریض انکے رویئے سے ہی آدھا ٹھیک ہو جاتا ہے۔ کچھ دیر میںمسز کی طبعیت سنبھل گئی ۔۔ اسی اثناء میں مجھے اپنا بلڈ پریشر ہائی محسوس ہوا اور جیسے سانس میںگھٹن سی محسوس ہونے لگی۔ میں نے ڈاکٹر کو بتایا تو انہوں نے مجھے بھی ایڈمٹ کرلیا۔ اب ایک طرف مسز آئی سی یو میں تھی اور دوسری طرف میںمردانہ سائیڈ پر بیڈ پر لیٹا چیک کروا رہا تھا۔ میرے بھی ای سی جی سمیت کچھ بلڈٹیسٹ کئے گئے۔ میںنے ڈاکٹر کو بتایا کہ میری مسز دوسری جانب آئی سی یو میں ہے اور میںنے تو اسے اپنی طبعیت کا بتایا بھی نہیںاور ہمارے پاس صرف ایک ہی پاکستان کا فون نمبر ہے جو رومنگ پہ چل رہا ہے اور وہ بھی میرے پاس ہے۔۔ ہمارا کوئی اور عزیز رشتہ دار بھی اس وقت پاس نہیںجو ہم دونوںکو اٹینڈ کرسکے تو آپ مجھے اس طرف جانے دیں تاکہ مسز مزید پریشان نہ ہو۔
ڈاکٹر نے کہا کہ چکر لگا کر ادھر واپس آجاو۔ میںکبھی ادھر جاوںاور کبھی ادھر واپس آوں۔۔ میرے ٹیسٹ وغیرہ کرکے ڈاکٹر نے مجھے تو کلیئر کر دیا کہ یہ سب ٹینشن کی وجہ سے ہوا ہے۔ادھر دوسری طرف ہارٹ سپیشلسٹ کو بلایا گیا انہوں نے مجھے کہا کہ مسز کو یہیں داخل کروا کے اینجیوپلاسٹی کروائیں اور اگلا سفر کسی صورت بھی نہیںکرنا ورنہ حالت خراب بھی ہو سکتی ہے۔ میںنے انہیںبتایا کہ میں تو یہاں وزیٹر ہوں اس لئے یہاںعلاج کروانا تو میرے لئے ممکن نہیںآپ دوائی لکھ دیں تاکہ ہم واپس پہنچ جائیں اور اپنے شہر سے علاج کروا سکیں۔ ہم نے پیچھے گھر پہ کسی کو بھی نہیںبتایا تھا کہ ہمارے ساتھ کیا معاملہ چل رہا ہے کہ خواہ مخواہ پریشان ہوں گے۔۔ مسز کی طبعیت سنبھل چکی تھی تو انہوں نے ہمیںڈسچارج کر دیا۔۔ سعدی رحمان کو میں نے ہسپتال ہی بلوالیا تھا اور پھر ہم وہاںسے سعدی کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میںائرلائن کے دفتر گئے تاکہ واپسی کی سیٹ کروا لی جائے بڑی مشکل سے ہمیںاگلے روز صبح 4 بجے کی فلائٹ میں لاہور کی سیٹ مل گئی۔ ہم نے ہوٹل سے چیک آؤٹ کیا اور سعدی کے گھر چلے گئے۔
سعدی کی بیگم انعم بھابھی کی میزبانی اور ہمارے ساتھ تعاون نے دل خوش کر دیا کہ دیار غیر میں ہمیںبالکل اپنے گھر جیسا محسوس ہوا۔ مسز کے لئے کبھی یخنی بنائی کبھی کھچڑی بنا کر دی کبھی کچھ کبھی کچھ۔۔ باربار کھانے کو کچھ نہ کچھ دیتی ہی رہیں ۔۔ اپنوںسے بڑھ کر ہمارا خیال رکھا۔۔ افسوس کہ ہم وہاںان کے ساتھ زیادہ وقت نہ گزار سکے۔۔ شام کو سعدی کے ساتھ ٹریک پر واک بھی یادگار رہی ۔۔۔لیکن پریشانی کے عالم میںنہ کوئی تصویر لینے کا خیال ذہن میںآیا اور نہ ہی دبئی میںہسپتال کے سوا کوئی اور مقام دیکھ پائے۔۔۔ رات کو سعدی نے ائرپورٹ ڈراپ کیا ۔۔ وہاںبورڈنگ پاس لینے کے بعد تین گھنٹے کا طویل انتظار اور پھر تین گھنٹے کی ہی فلائٹ ۔۔ اس صورت حال میںاللہ اللہ کرکے یہ سفر کٹا اور 15 مارچ کی صبح 9 بجے کے قریب لاہور پہنچے۔ بیٹا وہاںلینے آیا ہوا تھا اس کے ساتھ مزید دو ڈھائی گھنٹے سفر کے بعد گھر واپس پہنچ گئے۔ گھر آ کر مسز کی طبعیت بہتر ہوگئی ۔ اگلے روز ایک دوسرے کارڈیالوجسٹ کو چیک کروایا اس نے پھر سٹنٹ ڈلوانے کو کہا۔۔ ہمارا ایک بار تو ارادہ بن گیا تھا کہ سب کہہ رہے ہیںتو سٹنٹ ڈلوا ہی لیںتاکہ یہ ٹینشن تو ختم ہو۔۔ لیکن اللہ کے ہر کام میںحکمت اور خیر ہی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر نے کہا کہ میںاس ہفتے ایک کانفرنس پہ دبئی جا رہا ہوںآپ اگلے ہفتے ڈیڑھ لاکھ جمع کروا دیںاور سٹنٹ ڈلوا لیں تب تک تجویز کردہ دوائی کھاتے رہیں۔ انہی دنوں ہمارے ایک کسٹمر ملنے آئے تو ان سے بھی اس سارے معاملے کا ذکر ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ میرے ایک جاننے والے ہیں انہیں بائی پاس آپریشن کا کہا تھا چند سال قبل۔۔ لیکن انہوں نے لہسن ادرک سرکہ لیموںاور شہد والا دیسی نسخہ استعمال کیا اور وہ اسی سے ٹھیک ہو گئے ہیں۔۔ میںنے ان سے کہا کہ مجھے ایک بار ان سے ملوائیں تاکہ مجھے کچھ تسلی تو ہو۔۔اگلے روز ان سے ملاقات ہوئی انہوں نے بتایا کہ مجھے 2012 میںہارٹ اٹیک ہوا تھا اور میںیہ نسخہ تب سے استعمال کر رہا ہوں دو تین ماہ بعد ڈاکٹر کو چیک کروایا تھا تو ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ دل کی شریانیں کھل چکی ہیں آپکو بائی پاس کی ضرورت نہیں۔ اس نسخے کے ساتھ ساتھ اسی دوران وہ کچھ قرآنی دعائیں بھی پڑھتے رہے تھے۔ میںنے ان سے وہ نسخہ بنوایا کہ آپ تجربہ کار ہیںسامان میںلا دیتا ہوں بنا آپ دیں۔۔ انکا شکریہ کہ انہوںنے بخوشی ساری محنت کرکے بنا دیا۔ ہم نے اس کا استعمال شروع کر دیا۔
اسی دوران ایک روز ہمارے پراپرٹی کے شعبے کے ایک دوست ملنے آئے تو مجھے یاد آیا کہ انکو بھی کچھ عرصہ قبل دل کی تکیف ہوئی تھی۔ ان سے پوچھا کہ کیا علاج کیا۔۔ انہوں نے بتایا کہ میں تو اللہ کے کلام کی برکت سے ہی ٹھیک ہوا ہوں میری ساری رپورٹس اب کلیئر ہیں۔ تفصیل پوچھنے پر انہوں نے یوٹیوب پر موجود کچھ کلپس بھیجے۔۔ سروسز ہسپتال لاہور کے آئی سی یو انچارج ڈاکٹر محمد جاوید صاحب میڈیسنز کے ساتھ ساتھ سورہ الرحمٰن کے ذریعے مریضوںکا علاج کرتے ہیں۔۔ قاری عبدالباسط مصری کی آواز میںسورہ الرحمٰن صبح دوپہر شام دن میںتین بار کسی خاموشی والی جگہ بیٹھ کر آنکھیں بند کرکے سننی ہے ساتھ آدھا گلاس پانی رکھ لینا ہے ۔۔ بیس منٹ کی تلاوت ہے پوری ہونے پر آنکھیں کھول لینی ہیںپانی کا گلاس ہاتھ میں پکڑ کر پھر آنکھیں بند کرکے اپنے آپ کو اللہ کے روبرو حاضر تصور کرنا ہے اور دل ہی دل میں تین بار اسے پکارتے ہوئے بہت ہی محبت کے ساتھ اللہ ۔اللہ۔اللہ کہنا ہے اور سب قریب دور کے تعلق داروں رشتہ داروں کو اور جس جس نے بھی آپکا دل دکھایا ہو کسی سے کوئی رنج پہنچا ہو اسے اپنے دل سے معاف کر دینا ہے اور اپنے گناہوںکی اللہ سے معافی بھی مانگنی ہے۔۔ اس کے بعد آنکھیںبند رکھتے ہوئے ہی وہ آدھا گلاس پانی تین گھونٹ میں پی لینا ہے۔۔ یہ عمل سات دن تک کرنا ہے۔۔
ہم نے دوائیوںکے ساتھ ساتھ یہ عمل بھی شروع کر دیا اس یقین کے ساتھ کہ شفا دینا صرف اور صرف اللہ کے اختیار میں ہے وہ چاہے تو بنا کسی دوائی کے سب کچھ ٹھیک ہو جائے وہ نہ چاہے تو دنیا جہان کی دوائیاں اور اچھے سے اچھا ڈاکٹر بھی کچھ نہ کر سکے۔۔ وہی شفا دیتا ہے ہرجگہ اسی کا زور چلتا ہے لہٰذا اسی کے سامنے دست دعا پھیلایا جائے۔۔ اسی دوران یوٹیوب پر ایک انڈین کارڈیالوجسٹ کے مختلف لیکچرز دیکھنے کا اتفاق ہوا جن میںانہوںنے قدرتی طریقے سے دل کی بیماریوںکے علاج پر تفصیل سے بیان کیا ہے اور ایک نئی ٹیکنالوجی سے نیچرل بائی پاس کے بارے بھی بتایا جو ایک مشین کے ذریعے 35 گھنٹے کی تھراپی سے مکمل ہوتا ہے۔ میںنے نیٹ سے تلاش کی کہ یہ مشین پاکستان میںکہاں اور کس کے پاس ہے تو مجھے کراچی کے علاوہ اسلام آباد الشفاء انٹرنیشنل میں مل گئی پھر لاہور میں بھی معلوم ہوا کہ ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس ہے۔۔ انکی ویب سائیٹ سے نمبر لے کر ٹائم لیا اور دو ہفتے قبل انکے پاس چلے گئے۔۔ انہوں ایکوگرافی کی اور دیگر رپورٹس دیکھ کر بتایا کہ آپکی شریان کی بلاکیج نکل گئی ہے اور آپکو سٹنٹ کی ضرورت نہیں ہے۔۔ البتہ دل کے جس حصے میںاٹیک ہوا ہے وہاں مسلز ڈیمیج ہو گئے ہیں۔ آپ کو دوائی مستقل کھانی پڑے گی ۔۔
انہوں نے پچھلے ڈاکٹرز کی لمبی چوڑی دوائیوںکی لسٹ کو تبدیل کر کے بالکل مختصر سی دوائیاں لکھ دیں جو ہم پچھلے پندرہ روز سے استعمال کر رہے ہیں اور الحمدللہ طبعیت دن بدن بہتر ہوتی جا رہی ہے۔ مسز کے مطابق یہ سب دوائیوںسے نہیں بلکہ اللہ کے آگے پورے یقین کے ساتھ التجاء کرنے سے ہی ممکن ہوا ہے ۔۔ ہمیں نناوے فیصد دوستوں نے سٹنٹ ڈلوانے کا ہی مشورہ دیا لیکن ہم ہر ممکن حد تک سے سے بچنا چاہ رہے تھے اور الحمدللہ بچ گئے ہیں۔ انسانی جسم باہر سے کوئی بھی چیز قبول نہیںکرتا ۔۔ پھر زبردستی قبول کروانے کے لئے دوائیاںدینی پڑتی ہیںاور ان کے بے شمار سائیڈ ایفیکٹس ہیںجن سے مزید پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔۔ آپ دیکھیںکہ کبھی جسم کے کسی حصے میںکوئی باریک سا کانٹا چبھ جائے تو جسم کتنا اس پر ردعمل ظاہر کرتا ہے ۔۔وہاں سوجن ہونے لگتی ہے اس جگہ خارش ہوتی ہے اور کئی دیگر علامات بھی ظاہر ہو جاتی ہے۔ انسان کی طبعیت بے چین رہتی ہے جب تک وہ کانٹا نکال نہ دیا جائے۔ تو جب جسم کے اندر ایک سٹیل کا بنا ہوا سپرنگ گھسیڑ دیا جائے گا تو اسے جسم آسانی سے کہاں قبول کرے گا۔۔
سب سے اہم بات جو ہمارے ذہن میں رہنی چاہیئے کہ اسباب و وسائل بھی تب تک ہی کام کرتے ہیںجب تک اللہ چاہے ورنہ جب انسان کی مہلت ختم ہونے کا وقت آتا ہے تب سارے سٹنٹس ساری دوائیاں سارے ڈاکٹرز اور سارے بلڈ ٹیسٹ فیل ہو جاتے ہیں۔۔ اسباب ضرور اختیار کئے جائیں لیکن اسباب پر توکل کرنے کی بجائے اس ذات پر توکل کیا جائے جو ان اسباب کو پیدا کرنے والا ہے۔۔ڈاکٹرز پر توکل کی بجائے اس پر توکل اور بھروسہ کیا جائے جس کے حکم سے اس دنیا کا سارا نظام چل رہا ہے۔۔ اگر اس نے لے جانا ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت روک نہیںسکتی۔۔ ہم سب یہ جانتے ہیںکہ سب نے اس دنیا سے جانا ہے لیکن اس حقیقت کو اپنے عمل سے جھٹلاتے رہتے ہیں اور اس سے نظریںچرائے وقت گزارتے رہتے ہیں۔۔
یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد ایک تو ان دوست احباب کا شکریہ ادا کرنا ہے جہنوںاس سارے معاملے میںعملی طور پر بہت زیادہ تعاون کیا پھر ان سب کا بھی بے حد شکریہ جنہوںنے اپنی دعاؤںمیںیاد رکھا۔۔ دوسرا یہ بتانا مقصود ہے کہ کسی بھی بیماری کا علاج ضرور کروائیںلیکن ساتھ اللہ کو بھی ضرور شامل کریں سورہ الرحمٰن والا عمل بہت سے مسائل کے حل میں آزمودہ ہے اسے ضرور کریں۔
ڈاکٹر جاوید صاحب خود ہیپاٹائٹس اور ایڈز کا شکار ہو گئے تھے وہ اسی عمل کی برکت سے صحتیاب ہوئے۔۔ سروسز ہسپتال کے آئی سی یو میں وہ روزانہ اپنے مریضوںکو یہ سنواتے ہیںاور اس کی تاثیر کا مشاہدہ مریضاور ان کے ورثاء اپنی آنکھوں سے کرتے ہیں۔ ہم شدید خواہش کے باوجود۔۔ تمام وسائل و اسباب اختیار کرنے کے باوجود عمرہ پر نہ جا سکے اور بیچ راہ سے ہی واپس آنا پڑا۔۔ اس میں بھی یقیناً اللہ کی حکمت ہی ہے جو ہم نہیں جانتے۔۔ وہ جب چاہے گا پھر یہ موقع عطا کر دے گا۔ یہاںایک مزید وضاحت کرنا مناسب لگتا ہے کہ یہ جو ہم کہتے ہیں نا ۔۔ حرمین وہی جا سکتا ہے جس کا بلاوا آیا ہو۔۔ یہ ہماری کم علمی ہے کہ ہم نے اس بات کو صرف حرمین جانے تک ہی محدود کر رکھا ہے ورنہ کہیںجانا آنا تو دور رہا۔۔ ہم تو ایک سانس بھی نہیںلے سکتے اگر اللہ نہ چاہے۔۔ ہاتھ میں پکڑا ہوا پانی بھی نہیں پی سکتے اگر اللہ نہ چاہے۔۔ منہ میںڈالا ہوا لقمہ چبا اور نگل بھی نہیںسکتے اگر اللہ نہ چاہے۔۔ بس اصل حاصل یہی ہے کہ ہم ہر وقت ہر کام کے لئے اللہ ہی کے محتاج ہیں ہمیںاس کا ادراک حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
تبصرہ لکھیے