وہ عفیفہ یاد آتی ہے جو گھر سے بھاگنے کا عزم صمیم کیے ہوئے تھی، لیکن چاہتی تھی کہ گھر والوں کو ذہنی طور پر تیار بھی کر لے۔ روز کہتی، خدا خیر کرے دل میں ہول اٹھتے ہیں، اس گھر سے کسی کا رزق اٹھنے والا ہے۔ گھر والے کچھ سنتے کچھ ان سنی کر دیتے۔ پھر وہ دن بھی آ پہنچا کہ بقول فیض "جس دن کا وعدہ تھا"۔ صبح سویرے جب سب گھر والے اٹھے، تو محترمہ غائب۔ ڈھنڈیا پڑی تو معلوم ہوا کہ پڑوس والوں کا لڑکا بھی غائب ہے۔ سمجھدار کو اشارہ کافی کے مصداق گھر والے سمجھ گئے کہ کیا گل کھلا دیا ہے ان کی لڑکی نے۔ چپ کر کے بیٹھ رہے۔ پر دنیا کہاں چین لینے دیتی ہے۔ روز کوئی نہ کوئی "افسوس" کرنے آ موجود ہوتا۔ ہمدردی کی آڑ میں کٹیلی باتیں سناتا اور یہ دل مسوس کر رہ جاتے۔ آخر اس سب سے لڑکی کا باپ تنگ آگیا اور ایک دن مہمانوں کی موجودگی میں بول اٹھا، آپ سب یہ دیکھ رہے ہیں کہ وہ گھر سے بھاگ گئی، یہ نہیں دیکھ رہے کہ وہ کتنی بڑی ولی تھی۔ اسے پہلے سے پتہ تھا کہ ہمارے گھر سے کوئی کم ہونے والا ہے ۔
کچھ ایسا ہی خیال جاگزیں ہوتا ہے جب چوہدری نثار اٹھتے بیٹھتے یہ باور کرواتے ہیں کہ اس ملک میں کل ملا کر چار یا پانچ آدمی جانتے ہیں کہ بہت جلد پاکستان پر کڑا وقت آسکتا ہے۔ ن لیگ سے متعلق لوگ ان میں ایک "ولی" کی موجودگی بہت پہلے سے محسوس کر رہے ہیں۔ شاید اسی لیے اپنی تسلی یا چوہدری صاحب پر دباؤ بڑھانے کے لیے ٹیلی وژن پر بار بار یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے، چوہدری نثار پارٹی اور بالخصوص میاں نواز شریف کو کبھی داغ مفارقت نہیں دیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ درون خانہ پارٹی ایسے کسی بھی حادثہ کے لیے تیار نظر آتی ہے۔ گویا قریب المرگ کے لیے طوالت عمر کی تو دعا ہے لیکن تہجیز و تکفین کا بندوبست بھی مکمل ہے.
چوہدری صاحب کی یہ بات بہرحال لائقِ توجہ ہے کہ آئیندہ دنوں میں ملک کے لیے خطرات ہو سکتے ہیں، کیونکہ اگر وہ اپنی نیم دروں نیم بروں پالیسی سے کچھ آگے بڑھتے ہوئے مسلم لیگ ن کی پارلیمانی جماعت کی صفوں میں اپنے ہمدرد "شو" کروا دیتے ہیں تو اس سے ریاستی بندوبست میں فی الوقت نظر آنے والا سکون شدید اتھل پتھل میں بدل سکتا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ مذکورہ بلاک کتنے ایم این ایز پر مشتل ہوتا ہے، یہ نہایت خطرناک ڈویلپمنٹ ہوگی۔ حکمران جماعت اور ریاستی اداروں کے مابین جو ایک "جنگ بندی" کی سی کیفیت ہے، یہ باقاعدہ محاذ آرائی کی صورتحال میں بدل سکتی ہے۔ اس وقت حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں ہی ایک دوسرے کو شک کا فائدہ دے رہے ہیں، لیکن چوہدری صاحب کی ایسی کسی موو کا مطلب ہوگا کہ باہمی بداعتمادی کی خلیج وسیع تر ہو جائے گی۔ پھر "کھونے کو کچھ نہیں باقی" کا معاملہ ہوگا اور اسی نفسیات کے تحت فیصلے۔ ملک کی موجودہ صورتحال بردباری اور تحمل کی متقاضی ہے۔ حکومت کا برسر اقتدار رہنا یا نہ رہنا ااتنا اہم نہیں جتنا یہ کہ یہ سب کس طرح ہوگا۔ اور اگر حکومت پارلیمنٹ میں اپنی عددی اکثریت کھو بیٹھتی ہے، تو پھر کیا نئے انتخابات کا ڈول ڈالا جائے گا یا کسی نگران حکومت "پَلَس" کا بندوبست سامنے آئے گا۔ ایک ایسی حکومت جو نہ کسی کی نمائی-ندگی کرتی ہو، نہ کسی کو جوابدہ ہو اور نہ ہی مقامی یا بین الاقوامی طور پر اس کی کوئی وقعت ہو۔ جو چاہے اس کا بازو مروڑ کر اپنا کام نکلوا لے۔ یادش بخیر، 2001ء کا زمانہ یہی کچھ تو تھا۔
اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چوہدری صاحب کتنی درست پیشگوئی کر رہے ہیں۔ درحقیقت ن لیگ کے اندر کوئی طوفان پیدا کیا جا سکتا ہے یا ایسا کوئی مجوزہ طوفان کتنا بڑا ہوگا، اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ ن لیگ میں ناراضی یا تقسیم کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔ اگر ان کا راستہ شریف خاندان سے ہو کر گزرتا ہے تو پھر ایک بڑا بحران ن لیگ کی راہ میں آیا چاہتا ہے۔ اب تک کی صورتحال سے یہ بات واضح ہے کہ میاں نواز شریف کی انتخابات کے لیے نااہلی ختم ہونے یا نہ ہونے سے قطع نظر، مریم صاحبہ کو ان کا سیاسی جانشین بنانے کی مکمل تیاری ہے۔ حلقہ این اے 120 میں اپنے والد کی خالی کردہ نشست پر اپنی والدہ کے لیے "تن تنہا" مہم چلانا اور میڈیا کی پوری توجہ کا مرکز بننا دراصل مریم نواز شریف کی باقاعدہ سیاسی رونمائی ہے۔ اس کی ایک جھلک ہم اس دور میں بھی دیکھ چکے ہیں جب نواز شریف صاحب لندن میں زیر علاج تھے، اور مریم صاحبہ ان کی جگہ وفود سے ملاقاتیں کیا کرتی تھیں۔ یہ بھی پاکستان میں ہی ممکن ہے کہ وزیراعظم کی جگہ ان کی صاحبزادی محض اپنی ذاتی حیثیت میں سرکاری امور نمٹاتی رہیں۔
سیاسی منطرنامہ پر اس سب کا ایک بڑا اثر یہ ہوگا کہ میاں شہبازشریف بھائی کے ساتھ اپنی تمام تر وفاداری اور تابعداری کے باوجود سائیڈ لائن ہو جائیں گے۔ انہیں اپنی بھتیجی کے ماتحت کام کرنا ہوگا۔ کیا یہ شہباز شریف صاحب کے لیے قابل قبول ہوگا؟ بحیثیت سیاستدان، بھائی کے ساتھ ان کی وفاداری کا کوٹہ لامتناہی ہے؟
چوہدری نثار اور میاں شہبازشریف کی قربت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ چوہدری صاحب تو سلیم صافی کے ساتھ انٹرویو میں مریم صاحبہ کی قیادت پر تحفظات کا اظہار کر چکے۔ ان کی بات کا لب لباب یہ تھا کہ نواز شریف صاحب سے وفاداری کسی بھی شک و شبہ سے بالا ہے، لیکن یہ بات مریم صاحبہ کے لیے نہیں کیونکہ وہ تو ابھی لیڈر ہی نہیں۔ کیا یہ صرف یہ ان ہی کی سوچ ہے یا پارٹی میں کچھ اور لوگ بھی ایسا ہی سوچ رہے ہیں۔ اور کیا شہباز شریف صاحب بھی؟ پھر یہ بھی اہم ہے کہ حمزہ شہباز کی کیا رائے ہے؟ اگر ان کی ظاہری یا خفیہ پشت پناہی چوہدری نثار کو حاصل ہو جاتی ہے تو پھر ن لیگ کے اتحاد کو لاحق خطرات اور بھی شدید ہو جائیں گے، کیونکہ اس صورت میں پارٹی کا بظاہر قابل بھروسہ کیڈر بھی ڈانواں ڈول ہو سکتا ہے۔
جہاں تک چوہدری نثار صاحب کا یہ کہنا ہے کہ مریم کا محترمہ بے نظیر سے کوئی مقابلہ نہیں۔ تو اسی طرح کے تقابل کا سامنا بے نظیر بھٹو اور محترمہ نصرت بھٹو کو بھی رہا، کبھی محترمہ فاطمہ جناح کے حوالہ سے اور کبھی خود بھٹو صاحب کے حوالہ سے۔ اس لیے یہ اہم بات نہیں۔ اہم چیز سیاست کے زمینی حقائق اور حرکیات ہوتی ہیں۔ البتہ یہاں ایک اور تقابل کی گنجائش نکلتی ہے۔ بے نظیر کو بھی اپنے انکلز (بھٹو صاحب کے سینئیر ساتھی) کی جدائی کا "صدمہ" سہنا پڑا تھا، اور اگر مریم صاحبہ خود کو ایک سیاسی رہنما کے طور پر دیکھ رہی ہیں تو انہیں بھی اس کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ جو لوگ ان کو پارٹی لیڈر کی پوزیشن پر لانا چاہ رہے ہیں، وہ بھی سب امکانات پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے۔
یہ سب سیاست اور اقتدار کا کھیل ہے۔ ہمیشہ سے تقسیم اور تفریق اس کا خاصہ رہا ہے۔ اب بھی شاید ایسا ہی ہو۔ تاہم اس وقت یہ محض ایک پارٹی کی بات نہیں، ملک کے مجموعی سیاسی استحکام کا سوال ہے۔ بس یہ التماس ہے کہ جو ہو، آئین کے دائرہ کار میں ہو۔ باقی جو جس کی قسمت۔
تبصرہ لکھیے