کراچی کے پہاڑ گنج سے مکہ کی پہاڑی بستی تک – رفیع عباسی

مکہ مکرمہ وہ مقدس مقام ہے، جسے دیکھنے کی آرزو ہر مسلمان کے دل میں موجزن رہتی ہے۔ابراہیم خلیل روڈ اور شارع ہجرہ سمیت تمام سڑکوں، گلیوں، چھوٹی بڑی پہاڑیوں پر نبی آخر الزماں حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، امہات المومنین ، صحابہ کرام ، آئمہ کرام کے نقوش پا ثبت ہیں۔

ابراہیم خلیل روڈ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ یہ سڑک باب فہد سے شروع ہوکر مسلمانوں کے قدیم اور تاریخی محلے المسفلہ کے درمیان سے گزرتی ہے۔ ابراہیم خلیل روڈ پر المسفلہ پل سے نیچے سعودی حکومت کی جانب سے عمرہ زائرین اور حجاج کرام کی طبی سہولتوں کےلیے’’المستشفی‘‘ڈسپنسری بنائی گئی ہے ۔ یہ سڑک پل سے آگے جا کر ’’نحاسہ‘‘ نامی بازار سے ملتی ہے۔شارع ہجرہ مذہب اسلام کی وہ تاریخی سڑک ہے جس پر سفر کرتے ہوئے ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کی جانب ہجرت فرمائی تھی۔ مکہ شہر کی زیادہ تر پہاڑیوں پر قدیم و جدید بستیاں آباد ہیں۔

ایک پہاڑی پر ’’ ابراج البیت کمپلیکس ‘‘ کے اوپر 40 میٹر طویل اور 400 میٹر بلند یعنی 100 منزلہ کلاک ٹاور تعمیر کیا گیا ہے جسے مکہ ٹاور بھی کہتے ہیں۔ حرم کی سطح سے اس کی اونچائی 601 میٹر ہے۔ اس کی چوٹی پر دنیا کا سب سے بڑا ’’ہلال ‘‘ نصب کیا گیا ہے جو مکہ کی حدود میں داخل ہونے والے سیاحوں کو کئی کلومیٹر دور سے نظر آتا ہے۔ مسجد الحرام کے قریب پچاس میٹر یعنی 150 فٹ بلند ایک عظیم الجثہ ہاتھی کی شکل کی پہاڑی چٹان ہے جسے ’’جبل الفیل‘ ‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے اطراف میں کئی رنگین پہاڑ بھی ہیں۔عرفات کی پہاڑی سے مزدلفہ تک نہر زبیدہ کے آثار موجود ہیں۔

یہ نہر، عباسی خلیفہ ہارون الرشید کی اہلیہ، ملکہ زبیدہ نے اپنے سفر حج کے دوران حاجیوں کی پینے کے پانی کی مشکلات دیکھ کر تعمیر کرائی تھی۔ اس نہر سے ’’نعمان کوہستانی‘‘ سلسلے سے میدان عرفات تک پانی کی فراہمی کی جاتی تھی۔جزیرہ نما عرب پارک کا شمارسعودی عرب کے عظیم الشان پارکوں میں ہوتا ہے جو مکہ، جدہ روڈ اور مکہ ، طائف روڈ کے درمیان واقع ہے۔مقامی باشندوں اور غیر ممالک سے مکہ آنے والے حجاج کرام اور عمرہ زائرین کے تفریحی مقاصد کے لیے ایک لاکھ 70 ہزار میٹر رقبے پر پھیلا ہوا یہ عظیم الشان پارک تعمیر کیا گیا ہے۔ اس میں شاپنگ سینٹر بھی موجود ہے جس میں اشیائے خورونوش و ضروریات باکفایت نرخوں پر دستیاب ہیں۔

’’ام الموجود‘‘ محلے میں ’’حرمین شریفین عجائب گھر‘‘ واقع ہے جس میں اموی دور حکومت سے موجودہ بادشاہوں کے دور حکومت تاریخ اجاگر کی گئی ہے۔ عجائب گھر میں غلاف کعبہ کے نمونے،بیت اللہ شریف کے دروازوں کے ٹکڑے رکھےہوئے ہیں ۔اس کے ساتھ ’’غلاف کعبہ‘‘ تیار کرنے کا کارخانہ ہے۔ ایک وسیع و عریض ہال ہے جس میں کتاب مقدسہ اور تاریخی دستاویزات کے قلمی نسخے رکھے ہیں۔ بیت اللہ شریف کے قریب ہی دوسرا عجائب خانہ ’’مکہ میوزیم ‘‘ کے نام سے موجود ہے۔ 1952 میں اس جگہ اسکول قائم کیا گیا تھا جسے بعد میں مکہ اور حجاز کے تاریخی ورثے کو متعارف کرانے کے لئے وقف کردیا گیا۔

اس عجائب خانے میں مکہ مکرمہ اور سعودی عربیہ کے ہزاروں سال قدیم نوادرات رکھے گئے ہیں۔مکہ معظمہ کے شمال مغرب میں مدینہ منورہ روڈ پر9 کلومیٹر کے فاصلے پرمسجد عائشہ واقع ہےجو حضور پاک کی چہیتی زوجہ ، حضرت عائشہ بنت ابو بکر کے اسم مبارک سے منسوب ہے۔یہ مسجد مکہ کےقریب تنعیم کے مقام پر واقع ہےجہاں سے حرم کی حدود ظاہر کی گئی ہے۔ اسے ’’مسجد عمرہ ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ ام المونین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سن10 ہجری میں اس مسجد میں عمرے کی نیت کی تھی اور احرام باندھا تھا۔ مسجد عائشہ مرد و خواتین کے لیے درجنوں بیت الخلاء اور غسل خانے ہیں جہاں عازمین حج اور عمرہ زائرین غسل کرکے احرام باندھتے اورعمرے کی نیت کرکے دو رکعت نماز نفل ادا کرتے ہیں۔

یہ مسجد 6000 مربع میٹر رقبے پر محیط ہے جب کہ اس میں بیک وقت تقریباً 15000نمازیوں کی گنجائش ہے۔ مسجد الرایہ کا شمار بھی قدیم مساجد میں ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سن 8 ہجری میں فاتح کی حیثیت سے دوبارہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے مسجد الرایہ کے مقام پر اسلام کا پرچم نصب کیا تھا۔ دو سال قبل اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی اہلیہ، ایک بیٹے اور دس سالہ نواسے معاویہ کے ساتھ عمرے کی سعادت نصیب فرمائی۔ اس دوران ہمیں عمرہ اور مسجد الحرام میں عبادت کے علاوہ مقامات مقدسہ کی زیارت کا بھی موقع ملا۔ پورا مکہ شہر چھوٹے بڑے پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے اور ان پہاڑوں پر پختہ اور دیدہ زیب مکانات بنے ہوئے ہیں۔ زیادہ تر مکانات کے سامنے لمبی لمبی کاریں دیکھی جاسکتی ہیں ۔

سعودی عرب میں پٹرول بہت ہی سستا ہے۔ ایک ریال یعنی 75 پاکستانی روپے میں دو لیٹر پٹرول مل جاتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پینے کا پانی پٹرول کی نسبت بہت مہنگا ہے، 3 ریال میں نصف لیٹر پانی کی بوتل ملتی ہے۔ اسی وجہ سےنہ صرف سعودی باشندے بلکہ غیر ملکی افراد بھی سستے پٹرول کی سہولت سے استفادہ کرتے ہوئے بڑی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔پہاڑوں کے مکینوں کی سفری سہولتوں کے لئے سیاہ سلفیٹ کی بل کھاتی سڑکیں بنی ہوئی ہیں جو پہاڑ کی چوٹیوں تک جاتی ہیں۔مکہ مکرمہ سے دیگر شہروں کی جانب جانے والی مرکزی شاہراہوں کی راہ میں آنے والے پہاڑوں کو کاٹ کر طویل و عریض سرنگیں بنائی گئی ہیں جنہیں روشن رکھنے کے لئے برقی قمقمے لگے ہیں ۔

کبوترچوک پر واقع 100 منزلہ مکہ یا کلاک ٹاور بھی ایک بلند پہاڑی پر تعمیر کیا گیا ہے، جس میں زیادہ تر فلورز پر فائیو یا فور اسٹار ہوٹلز اور شاپنگ سینٹرز بنے ہوئے ہیں۔ابراہیم خلیل روڈ اور شارع ہجرہ پرعالیشان عمارتوں کی نچلی منزلوں پر دکانیں بنی ہوئی ہیں جہاں دنیا بھر کی اشیاء مل جاتی ہیں۔ دکانوں پر صبح سے رات گئے تک خریداروں کا ہجوم رہتا ہے۔ ان دونوں سڑکوں پر موجود عمارتوں کی بالائی منزلوں پر تھری اور فور اسٹار ہوٹل بنے ہوئے ہیں۔ ابراہیم خلیل روڈ اور شارع ہجرہ پر چلتے ہوئے کبوتر چوک سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر مشہور و معروف ’’گنے کے جوس والی گلی ’’ نظر آتی ہے۔

ہم اپنے ہوٹل سے نکل کر گنےکے جوس والی گلی سے گزر کر اس سڑک پر سفر کرتے ہوئے مسجد الحرام میں پانچوں وقت نماز کی ادائیگی کے لیے جاتے تھے۔ یہ گلی بہت شکریہ تنگ ہے۔ اس میں دونوں جانب چھوٹی بڑی دکانیں، نسبتاً سستے رہائشی ہوٹلز، ریستوران، باربی کیو، پھل و سبزیوں کی دکانیں، پتھارے اور بیکریاں ہیں۔ ان دکانوں پر5 لیٹر والے پانی کے خالی کین بھی 5 ریال میں ملتے ہیں۔دکانوں پر عبایا، بغیر سلے کپڑے، آرٹیفیشل جیولری، گھڑیاں، بچوں کے کھلونے فروخت ہوتے ہیں۔ ان دکانوں پر ہر وقت پاکستانی خواتین کا ہجوم رہتا ہے جو اپنے عزیز واقارب کو سوغات کی صورت میں دینے کے لیےعبایا، مصنوعی زیورات اور دیگر سامان کی خریداری کرتی ہیں۔

کئی دکانوں پر ’’ہر مال دو ریال ‘‘ کے بینر لگے نظر آتے ہیں۔دو تین باربر شاپس بھی ہیں جہاں عمرہ کی ادائیگی کے بعد عمرہ زائرین ’’حلق ‘‘ کرواتے یعنی گنجے ہوتے ہیں۔ گلی سے باہر نکل کر ایک ذیلی سڑک پر پہنچتے ہیں جو گندگی اور خستہ حالی میں’’روشنیوں کے شہر‘‘ کراچی کی سڑکوں سے کسی طور کم نہیں ہے۔یہاں ’’ گند آب‘‘ بھی جمع رہتا ہے جو گزرنے والوں کا منتظر ہوتا ہے۔ گنے کی جوس والی گلی میں کچرے کے ڈھیر بھی نظر آتے ہیں ۔سڑک کے بائیں جانب ہمارے کراچی کی ہم عصر کچی بستیوں کی طرز پر رہائشی مکانات ہیں۔ان کی پشت پر تقریباً 500 فٹ بلند پہاڑی پر نارتھ ناظم آباد میںکراچی کی ’’شاہراہ نورجہاں‘‘ پر ’’خاصہ ہل‘‘ نامی پہاڑی پر واقع بستی سے مشابہہ علاقہ ہے جس کے مکانات پہاڑ گنج کی طرح کچے، پکے اور چٹانی پتھروں سے بنائے گئے ہیں۔

پہاڑی بلندی پر چھوٹی سی مسجد بھی ہے، جب کہ ہر مکان کی چھت پر فائبر سے بنی پانی کی ٹنکیاں رکھی نظر آتی ہیں۔ پہاڑی پر بنے مکانات تک پہنچنے کے لئے کنکریٹ اور چٹانی پتھروں سے سیڑھیاں تعمیر کی گئی ہیں۔ اس علاقے میں زیادہ تر بنگالی تارکین وطن رہائش پذیر ہیں۔ پہاڑی کے نشیب میں ان کی دکانیں، اسٹالز اور پتھارے ہیں۔ کھانے پینے اور چائے کے ہوٹل بھی ہیں جو پاکستان کی ہزارہ و سرائیکی برادری کی ملکیت ہیں ۔ مکہ مکرمہ آنے والے تمام مسلمان مسجد الحرام میں پانچوں وقت کی نمازیں پڑھنا عین سعادت سمجھتے ہیں لیکن جمعہ کے روز لوگوں کے اژدہام کی وجہ سے گزرنے کی جگہ نہیں ملتی۔

انہیں مجبوراً گلی کی گندی سی سڑک پر بیت اللہ شریف کی جانب منہ کرکے نماز ادا کرنا پڑتی ہے۔ جگہ جگہ لگے ساؤنڈ سسٹم کی وجہ سے امام کعبہ کی آوازبیت اللہ شریف سے کئی کلومیٹر دورتک گونجتی ہے۔ہم بھی جب گنے کی جوس والی گلی عبور کے ابراہیم خلیل روڈ تک پہنچنے میں ناکام ہوتے تھے تو سڑک پر پڑ ے گتے کا گرد آلود کارٹن اٹھا کراس کی تہیں کھولنےکے بعد اسے سڑک پر بچھا کرکھڑے ہوجاتے اورنماز کی نیت باندھ کراپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوجاتے۔
شہروں، قصبوں اور شاہراہوں پر جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہونے کی وجہ سے نہ صرف مکہ شہر بلکہ پورا سعودی عرب ’’دارالامان‘‘ یعنی سیف سٹی ہے۔

اس کے باوجود’’مکہ کے پہاڑ گنج ‘‘ کے قریب پہنچ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ بنگلہ دیش، بھارت یا پاکستان کا کوئی دیہی علاقہ ہے، جہاں نہ صرف صفائی کا فقدان ہے بلکہ قانون کی عمل داری بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس سڑک پر زیادہ تر لوڈنگ گاڑیاں ، کاریں اتنی تیز رفتاری سےگزرتی ہیں کہ پیدل چلنے والوں کو اپنی مدد آپ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اپنا بچاؤ کرنا پڑتا ہے۔ شام کے وقت نوجوانوں کے جھنڈ، چبوتروں پر بیٹھے کچہری کرتے یا تاش کھیلتےنظر آتے ہیں۔

پہاڑی بستی کے بالمقابل متعدد رہائشی ہوٹل ہیں، جن کے ساتھ دکانیں اور ایک مسجد ہے، جو انتہائی تنگ و تاریک ہے، اس کے باہر پانی کی ٹنکیاں لگی ہیں جہاں سے مقامی آبادی اور بازار کے دکانداروں سمیت ہوٹلوں میں رہائش پذیر افراد بھی پینے کا پانی بھرتے ہیں۔ مسجد سے ذرا آگے کھانے پینے کے ہوٹل ہیں جہاں انتہائی کم قیمت میں دو افراد باآسانی شکم سیری کرسکتے ہیں۔ کڑھی، دال اور گوشت کا سالن فی پلیٹ 10 ریال سے 20ریال میں مل جاتا ہے جب کہ ایک ریال میں دو نان دستیاب ہیں اور وہ اتنے بڑے سائز کے ہوتے ہیں کہ صرف ایک نان میں دو افراد کا پیٹ بھر جاتا ہے۔ یہاں دو ریال میں پراٹھہ ملتا ہے۔

ہم پاکستانیوں کے لئے یہ اشیاء بہت مہنگی لگتی ہیں کیوں کہ ایک ریال 75پاکستانی روپے کے برابر ہے جب کہ ان کی قیمتیں مقامی آبادی کی قوت خرید کے عین مطابق ہیں ۔ہمیں کھانا خریدنے کی ضرورت اس لیے نہیں ہوتی تھی کیونکہ ہمارا لنچ اور ڈنر عمرہ پیکیج میں شامل تھا۔ پینے کے پانی کے مفت حصول کا ہم نے یہ حل نکالا کہ ہم جب خانہ کعبہ نماز پڑھنے جاتے تو اپنے ہمراہ ایک لیٹر والی دو تین بوتلیں لے جاتے اور انہیں نماز کے بعد آب زم زم سے بھر کر واپس ہوٹل لے آتے جہاں صرف ہم ہی نہیں ہمارےروم میٹ یعنی بیگم، بیٹا اور نواسہ بھی یہ ’’آب مقدس‘‘ نوش کرنے کی سعادت حاصل کرتے۔ مکہ میں رہائش کے دوران ہم نے مجموعی طور پر تین عمرے اور سات مرتبہ طواف کعبہ کی سعادت حاصل کی۔

7 روز مکہ معظمہ میں قیام کے بعد ہماری مدینہ منورہ روانگی ہوئی جس کے لیے بس کا انتظام ٹور آپریٹر کی طرف سے کیا گیا تھا۔ درحقیقت جدہ یا مدینہ آمدورفت کے انتظامات ہماے ٹور آپریٹر کے ذمہ تھے۔ اس کے علاوہ مقامات مقدسہ کی زیارات کے بھی تمام انتظامات وہی کرتے تھے۔مکہ سے مدینے کا پانچ گھنٹےکا بذریعہ بس سفر ہمارے لیے خوش گوار تجربہ تھا۔ ایئرکنڈیشنڈ اور آرام دہ نشستوں والی بس میں سفر کرتے ہوئے ہم ڈیڑھ ہزار سال قبل کے دور میں پہنچ گئے۔ انتہائی تیز دھوپ، چلچلاتی گرمی میں پہاڑی چٹانوں اور تپتے صحرا میں اونٹ پر تین سو میل یعنی پانچ سو کلومیٹرطویل اور دشوار گزار راستے پر سفرکرتے ہوئے ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے یار غار، حضرت ابو بکر صدیق کے ہمراہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تھے۔

ہماری رہائش کا انتظام باب السلام روڈ کے پل کے سامنے ایک تھری اسٹار ہوٹل میں کیا گیا تھا جو حرم یعنی مسجد نبوی سے سات سو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ مدینہ میں قیام کے دوران میرا معمول تھا کہ میں فجر کی اذان سے دو گھنٹے پہلے مسجد نبوی جاتا، روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری دیتا ، ان کی خدمت میں درود و سلام پیش کرتا، پھر مسجد نبوی میں آکر نفل نمازیں ادا کرتا۔ اس دوران ہماری بیگم بھی اپنے بیٹے اور نواسے کے ساتھ حرم پہنچ جاتیں اور موبائل فون پر واش روم کا نمبر بتا کر وہیں ہمارا انتظار کرتیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے واش رومز اتنے عالیشان اور وسیع و عریض رقبے پر بنے ہوئے ہیں کہ ان کے آگے ہمارے گھر شرما جائیں۔

فطری حاجت پوری کرنے کی جگہ نچلے حصے میں ہیں جہاں اسکیلیٹر یا برقی زینے پر کھڑے ہوکر جانا پڑتا ہے۔ان دونوں مقامات مقدسہّّ میں درجنوں واش رومز ہیں جن پر بڑے بڑے ہندسوں میں نمبر لکھے ہوتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ کسی کو ملاقات کے لیے مسجد نبوی کے گیٹ نمبر یا واش روم کا پتہ بتاتے ہیں۔ بیگم کے بتائے ہوئے نمبر کے واش روم پہنچ کر انہیں نماز کے لیےخواتین کے مخصوص حصے میں لے جاتے اور ہم اپنے بیٹے اور نواسے کے ہمراہ مردانہ حصے میں آکر نماز ادا کرتے۔ نماز کے بعد مسجد نبوی کے اندر رکھے آب زم زم کے کولر سے پانی کی بوتلیں بھر کر بمعہ اہل و عیال واپس ہوٹل آجاتے۔

اکثر پینے کا پانی جلد ختم ہونے کی وجہ سے اپنے نواسے کے ساتھ ایک شاپنگ بیگ میں تقریباً دس چھوٹی بڑی بوتلیں رکھ کر باب السلام روڈ کے چوراہے سے سڑک عبورکرکے دوسری سڑک پر مڑتے جو مسجد نبوی کی طرف جاتی ہے۔اس سڑک کے خوبصورت اور سر سبز و شاداب فٹ پاتھ پر ایک قطار میں نصف درجن واٹر ڈسپنسر لگے ہوئے ہیں جن میں سے ہر وقت صاف و شفاف اور یخ پانی نکلتا ہے۔ بوتلیں بھر کر ہم نانا نواسے واپس ہوٹل آکر کچھ دیر آرام کرتے، اس کے بعد ہوٹل کے ساتھ واقع دکانوں کا جائزہ لینے نکلتے۔ وہاں کھجوروں کے ایک بیوپاری جس کا تعلق ملتان سے تھا، ہماری دوستی ہوگئی۔

مدینے میں قیام کے دوران ہم اکثر نماز ظہر سے عشاء کے بعد تک مسجد نبوی میں قیام کرتے جب کہ ہماری اہلیہ ظہر کی نماز سے فارغ ہوکر مسجد بلال کی مارکیٹ سمیت مدینہ کے دیگر بازاروں کارخ کرتیں اور اپنے پرس کا جائزہ لے کر قوت خرید کے مطابق پسند کی اشیاء خرید کر ہوٹل چلی جاتیں۔ ان کی خریداری یقیناً گھر کے افراد اور عزیز و اقارب کو تحفہ دینے کے لیے ہوتی تھی۔ مدینے میں قیام کے دوران ٹریول ایجنسی کے مدینے میں مقیم نمائندے کی طرف سے مدینے کی زیارات دیکھنے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ہوٹلوں میں موجود تمام زائرین کو بسوں میں بٹھا کر مسجد قباء، مسجد قبلتین، میدان احد، شہدائے احد کے قبرستان، احد کا پہاڑ، حضرت سلمان فارسی کے کھجوروں کے باغ کی زیارت کروائی۔

حضرت سلمان فارسی کے باغ کے ساتھ ہی وسیع و عریض کھجور بازار ہے جس میں ہر قسم کی کھجور 10 سے 25 ریال میں دستیاب تھی۔ لیکن وہاں آپ جتنی کھجوریوں چکھنے کے بہانے مفت میں نوش فرما سکتے ہیں، کھا لیں، کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا۔ ہم نے بھی مختلف اقسام کی کھجوریں پیٹ بھر کر کھائیں جب کہ پانچ کلو کھجور رشتے داروں اور دوست احباب میں تبرک کے طور پر بانٹنے کے لیے خریدیں۔ حضرت سلمان فارسی کے باغ سے زائرین کو ایک لق و دق صحرا میں واقع آب شفا اور بیر کے کنووں پر لے جایا گیا۔

منتظمین کی طرف سے زیارات کے سفر میں گائیڈ کی سہولت بھی دی گئی تھی اور گائیڈ صاحب ایک مائیک کے ذریعے سے راستے میں آنے والے تمام مقامات اور زیارات کے بارے میں آگاہی فراہم کررہے تھے۔ آخری زیارت گاہ غزوہ بدر کا میدان تھی جو مدینہ منورہ سے تقریباً 80 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ راستے میں جبل ملائکہ دیکھا جس کے بارے میں روایت ہے کہ جنگ بدر کے دوران اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کی مدد کے لیے آسمان سے فرشتوں کی فوج بھیجی تھی جو اس پہاڑ پر اتری تھی۔ بدر کے میدان میں شہدائے بدر کے قبرستان اور حضرت سلمان فارسی کےاعزا کے ہزاروں سال قدیم مکانات کی زیارت کی۔ میدان بدر میں واقع مسجد عریش میں ہم نے دو رکعات نفل ادا کیے۔

بدر کے مقام پر ہم سمیت تنام مسافروں کو تشنگی محسوس ہورہی تھی اور سبھی لوگ پانی کی تلاش میں ادھر ادھر نظریں دوڑا رہے تھے۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی ۔ شہدائے بدر کے قبرستان کے پاس ایک کار آکر رکی جس کے ڈرائیور نے کار سے اتر کر ڈکی کھولی جو پانی کی بوتلوں، فروٹ جوس کے پیکٹس، ٹافیوں اور عجوہ کھجوروں سے بھری ہوئی تھی۔ اس نے تمام مسافروں میں پانی کی بوتلیں، فروٹ جوس ، ٹافیاں اور کھجوریں تقسیم کیں جو وافر مقدار میں تھیں۔ واپسی کا سفر بھی خوش گوار ثابت ہوا اور ہماری بس نے ہمیں ہوٹل کے سامنے اتارا۔

ہم نے سات روز دیار نبی میں گزارے۔ اس دوران میرا ہر دن مسجد نبوی میں نمازیں پڑھنے اور روضہ رسول پر حاضری اور درود و سلام پڑھتے ہوئے گزرا۔ دو مرتبہ جنت البقیع قبرستان بھی گیا، جہاں حضور کے صاحب زادوں، ازواج مطہرات، صحابہ کرام کی قبور مبارکہ ہیں لیکن انہیں تلاش کرنا مشکل ہوتا ہے۔آخری روز میں اپنی اہلیہ، بیٹے اور نواسے کے ساتھ ساڑھے تین بجے شب روضہ رسول پر گیا۔اس کے بعد مسجد نبوی میں آکر نوافل اور نماز فجر ادا کی۔پھر حضور پاک کے روضے پر الوداعی حاضری دے کر واپس ہوٹل آئے، جہاں ناشتے کے بعد ہمارے منتظم کی جانب سے رخت سفر باندھنے کا حکم ملا ۔ساڑھے گیارہ بجے ہم بس میں بیٹھ کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔

مدینے سے چند کلومیٹر کے سفر کے بعد ہمیں مسجد ذوالحلیفہ لے جایا گیا جہاں ہم نے غسل کرکے احرام باندھے اور دو رکعت نماز نفل ادا کرکے واپس بس میں سوار ہوئے۔ پانچ گھنٹے بعد ہم مکہ پہنچے جہاں شاہراہ ہجرہ کے ایک ہوٹل میں ہمارا کمرہ بک تھا۔ آدھا گھنٹے آرام کے بعد ہم لوگ پیدل بیت اللہ شریف گئے جہاں دوسرے عمرے کی ادائیگی کی۔اللہ کے گھر کے قریب رہتے ہوئے ایک ہفتہ پلک جھپکتے گزر گیا۔ آخری روز ہماری کراچی کی فلائٹ تھی جس کے لیے دوپہر کو ہمیں جدہ روانہ ہونا تھا۔ اس دن ہم الوداعی عمرے کی ادائیگی کے لیے صبح ہی اٹھ گئے اور مسجد عائشہ جانے کے لئے تیار ہوکر ہوٹل سے باہر آئے جہاں ایک ٹیکسی میں مسجد عائشہ پہنچے۔

وہاں ہم نے غسل کیا، احرام باندھے، دو رکعت نماز نفل ادا کی اور دوسری ٹیکسی میں بیٹھ کر مسجد الحرام آ گئے۔ کنگ فہد گیٹ سے بیت اللہ شریف میں داخل ہوئے،خانہ کعبہ کا طواف کیا، صفا مروہ کے درمیان سعی کی اور ہوٹل واپس آگئےجہاں احرام کھول کر معمول کے لباس پہنے۔ تین بجے دوپہر عمرہ آپریٹر کی طرف سے مکہ میں تعینات منتظم آگئے اور سامان اٹھا کر ہوٹل سے باہر آنے کے لئے کہا۔ ہم لفٹ کے ذریعے نیچے آئے جہاں ہوٹل کے دروازے پر جدہ لے جانے کے لیے بس تیار کھڑی تھی۔ بس میں سوار ہوکر دو گھنٹے کے سفر کے بعد ہم جدہ ائیر پورٹ پہنچے جہاں دو گھنٹے مزید انتظار کے بعد بورڈنگ کارڈ اور کسٹم کے مراحل سے گزرنے کے بعد ہم ائیرپورٹ کی شٹل ٹرین میں بیٹھ کر ویٹنگ ایریا میں اگئے۔

وہاں ایک گھنٹہ انتظار گاہ میں گزارا۔ اپنی فلائٹ کی روانگی کا اعلان سن کر ہم جہاز کی طرف روانہ ہوئے اور ہوائی ہنڈولے میں بیٹھ کر اپنے شہر واپس آگئے جہاں کراچی ائیرپورٹ پر ہماری بیٹی، داماد، بیٹے، تینوں بہو، نواسے، نواسی اور پوتا پوتیاں ہماری راہ تک رہے تھے۔

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *