جشن آزادی یا معرکہ حق کی کرامت – تیمیہ صبیحہ

ہمارا جشن آزادی سالہا سال سے جھنڈا لہرانے تک محدود تھا۔ بچے چھوٹے تھے تو تحریک و تاریخ پاکستان سے متعلق کوئی کوئز کرا لیتے ، نغموں اور تقریروں کا مقابلہ کراتے یا ڈاکومنٹری وغیرہ دیکھ لیا کرتے ۔ کچھ کہانیاں سن سنا لیتے۔

البتہ اس مرتبہ سپورٹس کمپلیکس کے آس پاس ہل چل مچی دیکھی تو تجسس ہوا کہ آخر معرکہ حق کو جشن آزادی کے ساتھ ملا کے کیا تشکیل پا رہا ہے۔ جھنڈے، جھنڈیاں ،پوسٹر، پینا فلیکس، ڈجیٹل بورڈ، صفائی ستھرائی، پودے ،بتیاں، وغیرہ تو ہر سال ہوتے ہیں۔
اس بار کیا مختلف ہے ؟

شاہراہوں پر فوجی بھائی کثرت سے نظر آنے لگے ۔ کچھ تو خاص ہونے جا رہا تھا۔ پردہ غیب اٹھنے کی منتظر تھی نگاہ کہ ناگہاں ارد گرد چنیدہ لوگوں کو جناح سٹیڈیم کے انٹری پاس ملنے کی خبر سنی۔ ہمارا ماتھا ٹھنکا اور اپنے نیٹ ورک کو متحرک کیا مگر گرمی کی طویل چھٹیوں میں کاہلی کے بام ثریا کو پہنچے ابناء آدم نے حجتیں شروع کر دیں۔
‘دیکھیں ! ہائی پروفائل فنکشن ہے تو گھنٹوں پہلے جانا پڑے گا۔”
” پارکنگ اس قدر دور ملتی ہے۔ پھر موبائل جمع کرانے پڑیں گے۔ کچھ کرنے کو ہوگا نہیں۔”
” سٹیڈیم کی کرسیاں سخت ہیں ۔ آپ سے بالکل نہ بیٹھا جاے گا۔ گرمی الگ ہے۔
” ویسے بھی دور سے نظر ٹھیک نہیں آتا ۔ ٹی وی پر اس کی نسبت بہت اچھا نظر آتا ہے۔”

ارمان کی کلیوں پر بن کھلے اوس پڑ گئی۔ سویرے کافی دیر تک توپوں کی سلامی سننے کے انتظار میں جاگتی رہی مگر نہ سنائی دی۔ رات کی تقریب گزر چکی تھی اور دن میں جنگی جہازوں کے فضائی کرتب اور دفاعی سامان کی نمائش ہونا تھی۔ موسم کے پیش نظر فضائی پاسٹ تو منسوخ ہوا۔ اب تمام تر حب الوطنی نمائش پر منحصر تھی۔ ہماری تبلیغ کا اثر صرف دختر نیک اختر پر ہوا۔ اولاد آدم کو گھسیٹ گھساٹ طوعاََ کرھا ََعین سہ پہر کو لے کر کے نکلے۔ ابا کو اعتبار نہ تھا کہ کچھ ہو رہا ہے کبھی کہیں، نقشہ کھولو کہاں سے انٹرنس ہے۔ کبھی فرمائیں:
“ادھر سے سڑک بند ہے ۔”

لیکن ہم پُر اعتماد تھے کہ پریڈ گراؤنڈ ہمارا دیکھا بھالا ہے، کچھ نہ ہوا تو یوں ہی گشت سہی ۔ ویسے بھی لوگ باگ فوجیوں سے ناراض رہتے ہیں ۔ اسلام آباد بے دل لوگوں کا شہر ہے ، ہمارے سوا کون سر پھرا ، حبس میں یوں نکلا ہوگا۔ پہلے سری نگر ہائی وے پر چڑھتے ہی توقع کے خلاف گاڑیوں کا جم غفیر ملا۔

یہ کیا ؟
بچوں اور عورتوں سے لدی موٹر سائیکلوں کی قطاریں، ٹھنسی ہوئی فیملیاں ، قسما قسم کی گاڑیاں ، سوزوکیاں ، ڈالے ، لوڈر ہر سواری کا رخ شہر کے اندر کی جانب تھا ۔ بچے سبز سفید کپڑوں میں ملبوس جھنڈیاں ہاتھوں میں پکڑے ، سواریوں پر حسب توفیق ایک سے بڑھ کے ایک بڑے سائز کے جھنڈے لہرا رہے تھے ۔
ہماری آنکھیں کھلی رہ گئیں اور اپنا آپ نہایت نکو محسوس ہوا۔ گھر میں جھنڈا رکھا تو تھا مگر لڑکوں کو آوازیں دینے کے چکر میں اٹھانے کا خیال نہ آیا۔ بیٹی اس پر چیں بچیں تھی کہ پورے پاکستان میں ہمارے گھر کے لڑکے بالکل کور ذوق واقع ہوئے ہیں۔ ایک میں نے میرون شرٹ پہنی ہے دوسرے نے نیلی تیسرے نے کالی ، نیچے کھیلنے کے پاجامے ۔

“کسی کو تمیز نہیں کہ چودہ اگست پر کیا پہننا چاہیے۔”
خود جناب نے ہرے گاؤن سفید سکارف پر جھنڈے کا بروچ بھی لگا رکھا تھا اور ان کے کہنے پر ہم نے بھی ہرے کی تہمت ، مہندی سے رنگ کا گاؤن چڑھایا تھا۔ اس کسمپرسی پر ابا نے تسلی دی کہ بہت سٹال ہیں ابھی خرید دیتا ہوں مگر عید قربان کے پہلے روز بکروں کی قیمت کی مانند شاہراہ پر جھنڈوں کا نرخ چڑھا ہوا تھا۔ ہم نے منع کر دیا۔
زیرو پوائنٹ سے شاہراہ فیصل پر مڑے تو نمائش کے پوسٹر اور رہنمائی کے نشان نظر آنے لگے۔ تسلی ہوئی۔ یہاں گاڑیوں کا ہجوم پہلے سے بھی زیادہ تھا اور سڑک کی دونوں جناب بے شمار کاریں پارک تھیں۔ اب ہمیں تشویش ہوئی کہ اندر جانے کی جگہ بھی ملے گی یا نہیں۔

بائیں جانب داخلے کے بورڈ لگے تھے مگر ہم جہاں مڑنے کے لیے گاڑی کو آہستہ کرتے ، ٹریفک پولیس کے سنتری آگے جانے کا شارہ کر دیتے۔ اندر کی پارکنگ بھری ہوئی ، باہر اس قدر چوڑی ہائی وے پر دہری دہری پارکنگ یہ بہت حیران کن تھا۔ اسلام آباد میں اتنے لوگ کہاں سے آئے اور وہ بھی فوجی نمائش پر!
پریڈ گراؤنڈ میں داخلے کے نشان ہر چند سو فٹ کے فاصلے پر تھے مگر ہمیں کہیں جگہ نہ ملی ہر جا پولیس نے اشارہ کر کے آگے بھیج دیا یہاں تک کہ فیض آباد کا پل آ گیا اور ابا نے مخلوق خدا کی پیروی میں سڑک کنارے ایک خالی جگہ دیکھ کے گاڑی روک دی۔ ہم دل میں ڈرے کہ لفٹر نہ چلا آئے مگر یہ فرمانے لگے کہ آج آزادی کا دن ہے۔

نکلے تو پیدل چلنے میں بھی ہجوم میں پھنس گئے۔ ہر طرف آدمیوں کا ازدحام ، گاڑیوں کے قافلے ، بلند آواز میں ملی ترانے ، جھنڈے ۔ کہیں کہیں فلسطین اور کشمیر کے بھی لہرائے جا رہے تھے۔ کالے کپڑوں میں ملبوس سرخ جھنڈے لیے چہلم امام حسین کا ایک جلوس بھی ساتھ شامل ہو گیا۔ موٹر سائیکلوں کے بیچ میں سے رستہ بناتے ہم پریڈ گراؤنڈ کے باہر پہنچے تو وہاں کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے الفا براوو چارلی اور وی آئی پی نام کی الیکٹرک شٹل بسیں موجود تھیں جو پارکنگ کے مقام سے داخلہ دروازے تک پہنچا رہی تھیں۔
خیر ہم پیدل ہی چلے۔ آسمان پر ابر چھایا ہوا تھا اور ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ کچھ دیر قبل ہونے والی بارش کی نمی موجود تھی۔

سیکیورٹی پر ملٹری کے جوانوں کے ساتھ وفاقی پولیس بھی تھی۔ واک تھرو گیٹوں سے مرد وزن علحدہ گزر کے نکلے تو فوجی چھولداریوں اور کیمو فلاج ٹینٹوں میں مزید تلاشی کے لیے بھیج دیے گئے۔ ایک فوجی خیمے میں اسلام آباد پولیس کی خاتون سپاہیوں کو زنانہ تلاشی دی ۔ حضرات کو ایسا پروٹوکول ملنے کی توقع عبث ہے۔ بر سر سڑک ہی اپنی جانچ پڑتال کرا رہے تھے۔ پریڈ ایریا میں داخلے کے بڑے دروازے خوش آمدید کہ رہے تھے۔ دائیں بائیں معرکہ حق کی تصاویر پر مبنی بڑے بورڈ آویزاں تھے۔ جن کے سامنے لوگ کھڑے تصاویر بنا رہے تھے۔ میدان کے ایک جانب فوجی سامان کی نمایش اور دوسری جانب کھانے پینے کے سٹال تھے۔

اس قدر لوگوں کا فوجی نمائش میں موجود ہونا ….۔
ہمیں بالکل توقع نہ تھی۔ مدتوں بعد دیکھا کہ بچے پر جوش ہو کے فوجیوں سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ کچھ بچے کھڑے سیلیوٹ مارتے تھے جس پر ڈیوٹی پر مامور جوان مسکرا رہے تھے۔سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ یوم آزادی کا جشن تھا یا معرکہ حق کی کرامت ۔ پہلے پہل یہ تاثر تھا کہ اسلام آباد کے گرد نواح خصوصا خیبر پختونخوا سے زیادہ تماشائی پہنچے ہیں مگر پھر ہر جگہ اور ہر طبقے کے لوگ نظر آنے لگے۔ بشمول اسلام آباد کے “برگرز ” کے جو توپوں اور ٹینکوں کو بیک گراؤنڈ میں لے کے ، انگریزی میں گٹ پٹ کرتے ، اس عوامی سمندر میں آئی فون سے تصویریں بنا رہے تھے۔

ہم نمائش کی جانب بڑھے تو پہلا پنڈال سگنل کور کا تھا۔ نمائش کو اچھے تھیمیٹک انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ معرکے کے دوران میں اس کور کے کارناموں پر مشتمل بڑے بڑے پوسٹر عقب میں ، سامنے ان کے قیام کی تاریخ ، شہدا کی تصاویر، ملنے والے اعزازات ، درمیان میں فوجی گاڑیوں پر نصب کیے گیے آواز اور سگنل کے آلات۔
پہلے تو ہجوم میں پھنسنے کے خوف سے ہم آگے نہ بڑھے مگر آخر آئے کس لیے تھے۔ بے خطر کود پڑا والی کیفیت خود پر طاری کی اور ان مشینوں اور آلات کے آگے پیچھے گھوم کے جائزہ لیا۔ ابا جان کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں اور وہ بھائی جان کو مخاطب کر کے فرما رہے تھے ، یہ تو ہماری چیزیں لگی ہیں۔ وہ فلاں مائکروویو وہ فلاں آر ایف انٹینا۔ اس کی فریکوئنسی یہ اس کی رینج وہاں اتنے کلومیٹر تک ۔ جنگوں میں مواصلات کی اہمیت کلیدی ہوتی ہے۔

ان پر کھڑے افسر اور سپاہی حتی المقدور اپنے آلات کی وضاحت کر رہے تھے مگر اس قدر ہجوم میں ہمیں کچھ سنائی دیا نہ سمجھ آئی۔ ایسا کیسے ہوتا ہے کہ محاذ پر صرف اپنے لوگ ہی ہدایات سن سکیں یا دشمن کی لائن بھی پکڑی جاتی ہے۔فریکوئنسیاں کیسے سیٹ ہوتی ہیں ؟
میاں نے یوں دیکھا کہ گویا اپنے کام سے کام رکھو اور آگے بڑھو۔ اس کے بعد تخلیقی اپچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ریسرچ، انوویشن اور پروڈکشن کے نام پر فوجی تعلیمی اداروں نسٹ اور نیوٹیک کے پنڈال تھے۔ وہاں ان کے طلبہ کھڑے مختلف پراجیکٹس پر مفصل بیانات دے رہے تھے ۔ سپیکر پر الگ کچھ کہا جا رہا تھا۔ آدمیوں کے بیچ سے ذرا سا نظر آیا کون سی گاڑیاں بنائی ہیں اور کون سا ڈرون ۔ روبوٹکس اور سٹیم کے کچھ کوائف بھی تھے۔ مطبوعات ، رینکنگ ، پیٹینٹس ۔

غرض امپریس کرنے کا کافی سامان تھا۔ ذرائع نقل و حمل کے چھوٹے ماڈل خلقت کے لیے کافی پر کشش تھے۔ بچوں کا بس نہیں چل رہا تھا اوپر بیٹھ کے ٹرائے ڈرائیو کر لیں۔ پیچھے ملٹی میڈیا سکرینوں پر لیبارٹریوں اور تجربہ گاہوں کے مختلف مراحل دکھاے جا رہے تھے۔ ہم نے سر اونچا کر کے دیکھنے کی کوشش کی مگر ہجوم میں وہ دھکے پڑے کہ سوچا کبھی نسٹ کے فوجی سںکولوں میں جا کے دیکھ آئیں گے۔ اگلا حصہ پاکستان آرڈیننس فیکٹری کا تھا ۔
واہ بھئی !!
شیشے کے صندوقوں میں سجی گولیاں ، گولے ، بم ، طرح طرح کی بندوقیں اور گنیں ۔ کچھ سجی ہوئی ، کچھ وہاں مامور کارکنان، تماش بینوں کے ہاتھوں میں تھما کے اس کا فنکشن سمجھا رہے تھے اور تصویر کشی کا سامان کر رہے تھے ۔

ابا پستولوں کے چند نئے نمونے دیکھ کے ریجھ گئے۔ آگے پیدل فوج ، پھر توپخانہ ، پھر ٹینک ، میزائل، راکٹ لانچر اور طرح طرح کی مختلف مار کرنے والی گنیں…۔ مختلف یونٹوں کے اپنے اپنے پنڈال تھے۔ ہر کسی نے اپنے جنگی کارنامے ، نشانات امتیاز بشمول نشان حیدر پانے والے افسران اور سپاہیوں کی تصویریں لگا رکھی تھیں۔ یونٹ کے نشان اور علامات سجی تھیں۔ ہر پنڈال میں الگ ڈی جے بیٹھے سکرین پر چلتی ڈاکومنٹریوں اور نغموں کو نشر کر رہے تھے ۔ میزائلوں کا توڑ کرنے والے میزائل ( انٹرسیپٹ ) بڑ ے دلچسپ تھے۔

وہاں نسبتا کم ہجوم تھا تو ہم نے بھی ذرا معلومات لے لیں کہ کیسے فضا ہی میں دشمن کے میزائل کو گمراہ کر کے زمین پر اتارا جاتا ہے؟
مختلف فاصلوں تک مار کرنے والے راکٹ اور میزائل کتنا نقصان پہنچا سکتے ہیں ؟
ابا نے پوچھا کہ لاہور پر متعین لانچر کہاں تک پہنچ سکتے ہیں ؟

ان کا جواب تھا ستر کلومیٹر مگر ابا بضد رہے کہ اس کی رینج دہلی تک ہے۔ انہوں نے کہا ،
” جا سکتا ہے لیکن یہ اس مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا ۔”
پھر کیموفلاج کی ہوئی گاڑیاں اور گنیں ۔۔۔ ایک چھولداری کا پردہ ہٹایا اور چھوٹے فرزند کے گھورنے کے باوجود میں اندر گھس گئی مگر فورا ہی بیبیوں کا ریلا آیا اور ہم کیموفلاج چادر سے باہر دھکیلے گئے۔ لڑکے بڑے تیس مار خان بن کے بے نیاز کھڑے تھے ۔ میرا یہ حال کہ جسے توپ سمجھی وہ مارٹر گن نکلی ، جسے ٹینک جانا وہ توپ کہلائی، جسے بندوق کہا وہ راکٹ لانچر تھا۔ یہاں تک کہ ٹیکسلا میں بنے الخالد اور حیدر کے چاروں طرف گھوم کے ٹینک کی ساخت واضح کی۔

دوربین سے دیکھنے کی کوشش ناکام گئی کیونکہ وہاں اہلکار نے ہمیں سینئر سٹیزن جان کے دوربین کے شیشوں پر کور چڑھا دیا۔ اور حسن کی طرح فرمایا ، میڈم ابھی کچھ نظر نہیں آئے گا۔ ہم نے پوچھا بھائی نشانہ کہاں سے لیتے ہو اور فائر کہاں سے کرتے ہو۔ جواب آ یا کہ اس پر چھ لوگ متعین ہوتے ہیں۔ ایک ڈرائیور جو اندر ادھر بیٹھتا ہے ، ایک نشانچی یہاں ، ایک فائر کرنے والا وہاں ۔۔۔ ..
الخ!
ہم نے سوچا جنگ میں کس قدر کووارڈینشن درکار ہوتی ہوگی۔ ٹینک پر آٹھ سپاہی۔ ایک یہ کرتا دوسرا وہ کرتا ۔

عوامی اور فوجی ووکیںلری کا فرق اپنی جگہ تھا۔ معدودسے چند گاڑیاں اور ساز سامان پرانا یورپی ساختہ تھا. بیشتر چین سے درآمد کردہ ، کچھ ترکیہ سے حاصل ہوا یا پاکستان میں ڈھلا تھا۔ اک سٹال میں لمبی سی نال والی گنیں ، ایک انتہائی دیو ہیکل ٹرک پر لگی تھیں۔ وہاں ایک نوجوان افسر مسکراتے ہوے عوام میں گھرے تھے۔ کبھی ایک پارٹی کا فوٹو شوٹ ہوتا کبھی دوسری کا۔ ہم نے سوچا کچھ معلومات لی جائیں۔ یہ نئی سی چیز دکھتی ہے۔

جب ہم آگے بڑھنے کی کوشش کریں تو ادھر سے کوئی اور انہیں لے کے کھڑا ہو جائے۔ ایک دفعہ حسن کو آگے کیا مگر دوسری طرف سے ایک بھائی صاحب آئے اور بڑے رسان سے کہنے گلے ،
“سر! ایک تصویر میرے والد صاحب کے ساتھ ۔”
ایک اور صاحب بولے ،
” بھائی صاحب ! میری فیملی کے ساتھ۔ ”
سب دیکھیں والد صاحب کہاں ہیں۔ فیملی کہاں ہے۔

اتنے پہلے بولنے والے صاحب نے افسر کا ہاتھ پکڑا اور انہیں کھینچتے ہوئے ایک جانب لے گئے جہاں وہیل چئیر پر والد بزرگوار موجود تھے۔ ہم افسروں کی اس گت پر حیران رہ گئے اور سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔ یہ وہ نظارے تھے جو مدتوں سے عنقا تھے۔ ہمارے دانشوروں نے سول سپریمیسی کے یوٹوپیا اور ظالم و غاصب نوآبادیاتی فوج کے وہ گیت گائے تھے کہ اب ہم فوج اور عوام کو یوں بستہ پیوستہ دیکھ کے انگشت بدنداں تھے۔ وہ وردی جس کا پہننے والا گلیوں بازاروں میں شرمندہ نکلتا تھا اس کے ساتھ تصویر کھنچوانے کے لیے لوگ ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ یہاں تک کہ جو وردی پہنا کے مصنوعی ماڈل کھڑے کیے گئے تھے وہ بھی کمال کا فوٹو شوٹ کروارہے تھے۔

ارد گرد ہر جگہ “ہم تم سے ہیں ، تم ہم سے ہو ” کی عملی تصویر بنا ہوا تھا۔ بندے پر بندہ چڑھا تھا اور بچے پہ بچہ، ٹینکوں اور فوجی گاڑیوں کے اوپر، سند آگے پیچھے ہر طرف ، بہتیری بیبیاں جو اوپر نہ چڑھ پا رہی تھیں وہ ٹینکوں کے اندر گھسی تصویریں کھنچا رہی تھیں۔ ڈیوٹی پر مامور حوالداروں سے کچھ پوچھنا چاہا تو وہ بچے اتارنے ، چڑھانے اور سیلفیاں بنوانے میں مصروف تھے۔ کچھ نئے نویلے افسر ، کچھ سینئر افسر ۔ شاید ہم بھی کسی انٹرویو میں کامیاب ہو جاتے مگر ہمارے پہلو میں جو کراما کاتبین کی مانند لڑکا تھا، وہ مسلسل بین بجا رہا تھا ۔
“چلیں، آگے چلیں ، یہ رکنے کی جگہ نہیں ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کی باتیں ہیں۔ آپ کو سڑک پر چلنے والی گاڑیوں کی سمجھ نہیں آتی ، فوجی گاڑیوں کی کیسے آئے گی۔”

پھر گھسیٹتا ،
“چلیں ، رکیں مت۔”
آخر ہمیں مادرانہ جلال نے آ لیا۔ بازو چھڑا کے اسے کہا کہ
” اپنے ابا کے پاس جاؤ۔ میں تمہاری ماں ہوں یا تم میرے باپ ہو۔”
ان کی قابلیت کا پول کھولنے کو پوچھا کہ یہ انفنٹری ، آرٹلری اور آرمر میں کیا فرق ہے ۔ تب منہ میں بدبداتے رخصت ہوئے۔ اتنے ہجوم میں ہمیں گم ہونے کا اندیشہ بھی تھا مگر معلوم ہوا کہ لڑکا باپ کے ساتھ کھڑا بھی نظر ہم پر ہی رکھے ہوے ہے۔ جہاں ہمیں جوش تحقیق زیادہ ہونے لگتا وہیں آ کے بازو پکڑ کے گھسیٹنے لگتا۔

ہم نے ایک حوالدار میجر صاحب سے پوچھا کہ یہ توپ کس کام آتی ہے۔
لمبی نال تھی نیچے ٹینک کی مانند بیلٹ والے پہیے تھے۔ انہوں نے مسکرا کے فرمایا،
” میڈم یہ گن ہے ، توپ نہیں۔”
مگر ہم نے کھسیانے ہوے بغیر مزید سوالات داغ دیے۔ اس قدر آہستگی اور نرمی سے مسکراتے ہوے جواب دیا کہ مجھے شک ہونے لگا کہ یہ اصلی فوجی نہیں ہیں۔ مانگے کی وردی چڑھائی ہے۔ لڑائی لڑنے والے کو تندخو ، سخت اور اکھڑ ہونا چاہیے تھا۔ خیر ان صاحب نے گن کے جملہ کوائف یوں بتائے جس طرح ہم اپنے بچوں کا تعارف کراتے ہیں ۔ پھر کہا ، “اس جنگ میں پہلی بار استعمال کیا ہے کشمیر کے محاذ پر بہت اچھی کارکردگی رہی۔”

اس وقت ہم لاہور سے آئے ہیں مگر ایسی ہی گنیں پورے ملک کی سرحدوں پر موجود ہیں۔ گن سے فائر کے بعد اس کی لوکیشن ڈیٹیکٹ ہو جاتی ہے اس لیے چھ گولوں کے ایک راؤنڈ کے بعد اس کی جگہ بدلتے ہیں۔ ایک منٹ میں یہ ساری جناتی سی گاڑی پیک ہو کے دوسری جگہ جانے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ نئی قائم ہونے والی سٹریٹجک یونٹ کے تعارف کے ساتھ فتح میزائل سجے ہوے تھے۔ فتح 4 کو پہلی دفعہ عوامی رونمائی کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ اگرچہ ہمیں سوائے سائز کے کوئی فرق نہ نظر آیا مگر وہاں کھڑے افسر نے بتایا کہ ان کی رینج اور بارود لے جانے کی صلاحیت میں فرق ہے۔

آرمی ایوی ایشن ، بحریہ اور فضائیہ کے اپنے پنڈال تھے۔ فضائیہ کے پنڈال میں الگ طرح کا جوش و خروش تھا۔ ہر شخص جاننا چاہ رہا تھا کہ رافیل کس جہاز نے گرایا ، جے ایف تھنڈر کہاں ہیں اور ایس 400 کو تباہ کرنے والا کون سا طیارہ تھا۔ اسی دن ان طیاروں کے ہوابازوں کو ایوان صدر میں اعزازات دیے گئے تھے۔ فضائیہ کے پنڈال میں اصلی جہازوں کی بجاے ان کے ماڈل رکھ کے کام چلایا گیا تھا۔ سو یہاں عوام کی اوپر چڑھنے کی حسرت پوری کرنے کا سامان نہ تھا۔ البتہ گھومتے ریڈار ، ایر ٹریفک کنٹرول اور کچھ دیگر سامان موجود تھا۔ ڈائریاں کیلنڈر اور دیگر مصنوعات بھی نظر آئیں۔ بحریہ کا بڑا مسئلہ تھا ۔

وہ سائلنٹ گائیز کیسے اپنے جہاز بارہ سو کلومیٹر سے خشکی پر گھسیٹ کے لاتے ۔۔ ان کا شو دیکھنے کے لیے کراچی جانا چاہیے ۔ انہوں نے بہت سارے ماڈل اور آلات کے ساتھ اک آبدوز اور اک جنگی کشتی رکھ کے کام چلایا تھا ۔ کچھ نئے ڈرون اور سمندر میں مارنے والے میزائل اور بم وغیرہ سجاے ہوے تھے۔ سمندر کا ٹچ دینے کے لیے فرش پر نیلگوں لہریں پرنٹ کر رکھی تھیں ۔ سفید ساڑھیوں میں ملبوس نیوی کی خواتین استقبالیہ پر موجود تھیں۔ ہم درمیان میں گھوم رہے تھے کہ ناگہاں شور ہوا ۔ سٹیج سے عوام کو متوجہ کیا جا رہا تھا ۔ شاید کچھ مہمانان گرامی تشریف لائے تھے۔ کچھ لوگ پکارنے لگے ، ہیلی کاپٹر آ رہے ہیں پیرا شوٹ سے فری فال جمپ ہوگی۔ کچھ دیر ہم نے آسمان کو دیکھا مگر یہ صرف خواہشات تھیں۔

پریڈ گراؤنڈ کی مغربی جانب ، نمائش کے بالمقابل کھانے پینے کی عارضی دکانیں سجی تھیں ۔ اس سے آگے سٹیج کے عقب میں سیڑھیوں پر کرسیاں لگی تھیں۔ چلتے چلتے تھک چکے تھے ۔ پیاس الگ لگ رہی تھی۔ کچھ دیر سستانے کے لیے وہاں بیٹھ گئے۔ دل میں یہ بھی تھا کہ ذرا محسوس کریں کہ پریڈ کے دوران ان کرسیوں پر بیٹھ کے نظارہ کیسا ہوتا ہے ۔ یہاں الگ ثقافتی شو ہو رہا تھا ۔ ہمارے سامنے بلوچ روایتی لباس میں ملبوس ایک طائفے نے روایتی رقص اَتڑ پیش کیا ۔ پاکستان کے دیگر خطوں کے فنکار بھی نظر آ رہے تھے ۔ اک جانب فوجی بینڈ کھڑا دیکھا ۔ شام گہری ہو رہی تھی ۔

نکلتے ہوے فوجی بینڈ کی دھنیں بھی سن لیں اور اچانک اپنی ایک سہیلی صاحبہ سے ملاقات بھی ہو گئی جو بچوں کو گھر چھوڑ کے فیملی کے بڑوں کے ہمراہ تشریف لائی تھیں ۔ باہر نکل کے گاڑی تک تو ہم سلامتی سے پہنچ گئے۔ مگر پھر جو مری روڈ پر چڑھے تو شاہراہ دستور کی رونق میں پھنسے۔ ادھر سے نکلے ، اتاترک ایونیو نے پکارا ، مت چھوڑ کے جائیو آج مجھے ۔۔۔ کچھوے کی چال رینگتے جناح ایونیو پہنچے اور ادھر سے پولیس نے جو گھمایا تو چکر کھا کے مارگلہ روڈ پر اترے۔ خیال تھا ادھر کچھ نہیں ہے ۔۔ پیچھے پیچھے سے سیدھا پہنچ جائیں گے۔

مگر ۔۔۔ بھول گیا کہ جشن آزادی کی بارات کیا ہوتی ہے۔
معرکہ حق کی کرامات کا نزول فیصل مسجد کے گرد و پیش جاری ساری تھا۔ بازار میں اکثر ڈھابے کھابے ملی نغموں کی دھنیں بکھیرتے ، سبز سفید غبارے سجاے لوگوں سے بھرے ہوے تھے۔ مارگلہ روڈ پر چند کلومیٹر کا سفر ہم نے دو گھنٹے میں کیا اور کل سات گھنٹے بعد گھر پہنچے۔ اس دوران بھائی جان نے تسلی سے نیند پوری کی۔ ہم نے کلاسیکل سے شروع کر کے جدید طرز کے اور آئی ایس پی آر کے نشر کردہ کتنے نغمے سن ڈالے یہاں تک کہ کان سنسنانے لگے ۔ وہاں گاڑیوں کے آگے ناچتے لڑکے دیکھے ، موٹر سائیکلوں پر جھومتے جوانوں کے لیے تالیاں بجائیں۔

خیبر پختونخوا کے سرخ ٹوپیاں پہنے ہنستے گاتے لڑکے ( عوامی نیشنل پارٹی کے کارکن باچا خان سٹائل میں ) ، سوزوکیوں پر لد کے دیہاتوں سے آئے ہوے خاندان ، ٹوپی والے برقعوں میں ملبوس ڈالوں میں بیٹھی خواتین ، تحریک انصاف کے جھنڈوں والی گاڑیاں ۔۔۔ کسی نے ہارن بجاے کسی نے باجے۔ کوئی ہنس رہا تھا ، کوئی بے زار اور کوئی سٹیرنگ پر سر رکھے اپنی قطار کے آگے بڑھنے کا منتظر ، وطن تو سب کا ہے۔

وطن عشق من ، ہم وطن جان من …. پاکستان زندہ باد !!

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *