جشن آزادی کے موقع پر ایک بار پھر پاکستانی اشرافیہ کی طرف سے عوام کو آزادی کی مبارک باد دی گئی۔ وہی روایتی اور گھسے پٹے جملوں کی بھر مار، زور بیاں عروج پر، لسانی اور صوبائی تعصبات کو ہوا دینے والے سیاست دانوں کی طرف سے قوم کو متحد ہونے کی بھرپور کی تلقین پر مشتمل روایتی جملے دن بھر میڈیا کی زینت بنے رہے۔
ایک بار پھر صوبائیت اور لسانیت کے کارڈ کھیل کر دست قاتل دست شفاء بن کر آئے گا اور استحکام کے نام پر استحصال کا کھیل شروع ہوجائے گا۔ جن لوگوں نے 78 برسوں میں قوم سازی کا عمل شروع نہیں کیا، جشن آزادی پر اتحاد و اتفاق کا پیغام جاری کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ حق سیاست ادا ہوگیا۔ یا تو یہ خود کو سرابوں سے بہلا رہے ہیں یا عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔ اسی طرح کچھ طبقات نے جمہوریت اور آئین کو تمام مسائل کا حل بتا کر جشن آزادی منانے کا حق ادا کر دیا۔ عمل میں ڈھلے بغیر جمہوریت اور آئین مبہم تصورات ہی رہیں گے۔ جمہوریت اور آئین محض اقوال زریں کا نام نہیں ہے۔
جمہوریت کی دعوے دار سیاسی جماعتیں حقیقی جمہوریت سے اتنی خوف زدہ ہیں کہ بلدیاتی انتخابات سے بھاگتی ہیں مبادا متبادل قیادت سامنے آجائے۔ انٹرا پارٹی الیکشنز کے بارے میں یہی رویہ ہے۔ جن جماعتوں نے سیاست کو چند خانوں کی جائیداد بنا رکھا ہے اگر جمہوریت کا نام لیں تو بات کچھ جچتی نہیں ہے۔ ان جماعتوں کی آئین پسندی کا یہ بھی یہ عالم ہے کہ آئین کی بیشتر شقیں، جن کا تعلق انسانی حقوق سے ہے، عملاً معطل ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی جمہوریت دشمنی کا بین ثبوت یہ ہے کہ کوئی جماعت غیر جمہوری قوتوں کی بیساکھیاں چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ اسی طرح منتخب نمائندوں کی پارلیمانی کارکردگی انتہائی شرم ناک ہے۔
ایسی سیاسی جماعتیں جو بلدیاتی انتخابات سے خوف زدہ ہوں، انٹرا پارٹی الیکشنز سے بھاگتی ہوں، پارلیمانی کارکردگی کا شرم ناک ریکارڈ رکھتی ہوں اور آئین پر مکمل عمل سے گریزاں ہوں انہیں خود کو جمہوری اور آئین پسند کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ افسر شاہی نے بھی عوام کو جشن آزادی کی مبارک باد دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ تمام چھوٹے بڑے شہروں کے بام و در ضلعی انتظامیہ کی طرف سے مبارک باد کے پیغامات سے مزین کیے گئے۔ ضلعی انتظامیہ کے زیر سایہ تقریری مقابلے ہوئے۔ عوام کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی کے بعد جس غلامی سے واسطہ پڑا وہ مقامی آقاؤں کی غلامی ہے۔ نوآبادیاتی نظام سے ورثے میں ملنے والی افسر شاہی اہل وطن عزیز کا لہو چوس رہی ہے۔ ان کا خدم و حشم عوام کے ناتواں کاندھوں پر ایک ناقابل برداشت بوجھ ہے۔
غیر جمہوری قوتیں بھی جش آزادی کے موقع تہنیتی پیغامات اور لہو گرما دینے والے نغمے نشر کرنے میں کسی سے پیچھے نہ رہیں۔ پاکستان کی اشرافیہ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وطن عزیز کو درپیش مسائل کا حل اقوالِ زریں میں نہیں بل کہ اعمال زریں میں ہے۔ سب سے ضروری اور فوری کام جو اشرافیہ کو کرنا چاہیے وہ اپنے طرز زندگی میں تبدیلی لانا ہے۔ اگر خزانہ خالی ہو تو اشرافیہ کو بھی پیٹ پر پتھر باندھنا چاہیے۔ اگر درہم و دینار کی فراوانی ہو تو خوش حالی کے ثمرات عوام تک پہنچنے چاہیئں۔ لیکن عملاً یہ ہوتا ہے کہ اشرافیہ کی عیاشیوں کا بوجھ عوام کو ڈھونا پڑتا ہے۔ اگر اشرافیہ واقعتاً وطن عزیز سے مخلص ہے تو اسے کچھ سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
سب سے اہم کام یہ ہے کہ اپنا طرز زندگی بدلے تاکہ عوام اور خواص میں کوئی خلیج اور بعد نہ رہے۔ تعیشات اور خدم و حشم ختم کرکے وسائل کا رخ عوام کی طرف موڑنے کی شدید ضرورت ہے۔ شعبدہ بازی کے بجائے پائیدار ترقی کو ہدف بنایا جائے۔ شعبدہ بازی کی عمر مختصر اور چکا چوند عارضی ہوتی ہے جب کہ پائیدار ترقی سے کئی نسلیں فائدہ اٹھاتی ہیں۔
لوگوں کو آسان اقساط پر بلاسود قرضے فراہم کیے جائیں۔ وہ تمام لوپ ہولز،جو قومی خزانے کے ضیاع کا باعث بنتے ہیں، فوری بند کیے جائیں۔ غیر ضروری امپورٹس بند کرکے مقامی صنعت کو فروغ دیا جائے۔ عالمی منڈیوں میں نئے گاہک تلاش کرکے ایکسپورٹس میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے تاکہ تجارتی خسارے میں کمی واقع ہو۔
سردست پاکستان کی ایکسپورٹس 31 ارب ڈالر اور ریمٹنسز قریباً 30 ارب ڈالر ہیں۔جب کہ امپورٹس 80 ارب ڈالر ہیں۔
سیاحت کا شعبہ وطن عزیز کی معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت ہونے کا پوٹینشل رکھتا ہے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کو اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے اعلٰی ظرفی اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سٹوڈنٹ یونینز، انٹرا پارٹی الیکشن اور بااختیار بلدیاتی نظام سے خوف کھانے کے بجائے انہیں مضبوط کرنا چاہیے۔ غیر جمہوری قوتوں کے خلاف ایک مضبوط اور مؤثر لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔ فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کے لیے عدالتی اصلاحات پر کام کیا جائے۔
افسر شاہی کو لگام ڈالی جائے۔ سرکاری ہسپتالوں کی کیپیسٹی بڑھائی جائے۔ سیاست دانوں کو اپنے طرز عمل سے قانون پسند شہری بن کر دکھانا چاہیے۔ محض باتوں سے کچھ نہیں ہوتا۔ بقول زکی کیفی:
[poetry]زمانہ ڈھونڈ رہا ہے عمل کے شیدائی
خطا معاف یہ حسن بیاں کا وقت نہیں[/poetry]

Leave a Reply